url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/urdu/entertainment-61219468
روایت مشہور ہے کہ ہندوستان میں ایک موسیقار ایسے بھی گزرے ہیں جن کے مرنے کے بعد اُن کی قبر پر بیری کا ایک پودا پھوٹا جو تناور درخت بن گیا اور آج بھی موسیقی سیکھنے والے افراد اِس قبر پر جاتے ہیں اور اس درخت کے پتے کھاتے ہیں جس سے ان کی آواز سریلی ہو جاتی ہے۔
روایت مشہور ہے کہ ہندوستان میں ایک موسیقار ایسے بھی گزرے ہیں جن کے مرنے کے بعد اُن کی قبر پر بیری کا ایک پودا پھوٹا جو تناور درخت بن گیا اور آج بھی موسیقی سیکھنے والے افراد اِس قبر پر جاتے ہیں اور اس درخت کے پتے کھاتے ہیں جس سے ان کی آواز سریلی ہو جاتی ہے۔ تان سین نے فن موسیقی کی جو خدمت انجام دی ہے اس کے متعلق سید عابد علی عابد تحریر فرماتے ہیں کہ ’انھوں نے کلاسیکی سنگیت کو نیا رس، نئی حلاوت اور نیا بانکپن بخشا۔ انھوں نے راگوں میں نہایت دلکش تصرفات کیے اور یہ راگ ان تصرفات کے ساتھ اب ان کے نام سے منسوب ہیں، مثلاً میاں کی ٹوڈی، میاں کی ملہار، لیکن جس راگ کی بدولت تان سین کا نام کلاسیکی سنگیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا وہ درباری ہے، جسے سن کر بقول اکبر دل کی سوئی ہوئی تمنائیں جاگ اٹھتی تھیں اور بڑے بڑے کام کرنے کے ولولے بیدار ہوتے تھے۔‘ رسالہ تان سین نے جو اسی عہد زریں کی تصنیف ہے ان راگوں اور تالوں کی علیحدہ علیحدہ خصوصیات اور گانے کے طریقے درج کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر محمد اسلم نے بیان کیا ہے کہ ’تان سین نے پرانے راگوں کو منضبط نہیں کیا بلکہ خود بھی بہت سی راگنیاں ایجاد کیں جو ان کے نام کی نسبت سے مشہور ہیں اور میاں کی ٹوڈی، میاں کا سا رنگ اور میاں کا ملہار وغیرہ کہلاتی ہیں۔ ان کے علاوہ درباری اور شام کلیان ایسے راگ ہیں جو اکبر کو خاص طور پر بہت پسند تھے اور اکثر انھیں کی فرمائش رہا کرتی تھی۔‘ دھرپد گایکی میں تان سین کو گوالیار گھرانے کا نہ صرف سب سے بڑا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ بیشتر مؤرخین انھی کو گوالیار گھرانے کا بانی تسلیم کرتے ہیں۔ تان سین کے زمانے میں دھرپد کو ہندوستانی موسیقی میں گایکی کے ایک کلاسیکی طرز کے طور پر قبولیت ملی جسے بعد میں چار بانیوں یا قسموں میں تقسیم کیا گیا، گورہر، کھنڈر، نوہر اور ڈاگر۔ ان میں سے دو ایک بانیوں کا چلن آج بھی ہے۔ تان سین سے دھرپد گایکی کے ایک نہیں بلکہ دو گھرانوں کا سلسلہ آگے چلا۔ ایک تان سین کے بڑے بیٹے تان ترنگ (1536۔ 1602) سے جو سینیا گایکی کہلائی۔ دھرپد کا یہ انداز صرف گایکی تک محدود رہا۔ دوسرا انداز تان سین کے چھوٹے بیٹے بلاس خان سے آگے بڑھا، دھرپد کے اس انداز میں ساز بھی شامل ہوئے۔ اس سلسلہ کے موسیقاروں نے رباب، بین (ردرا وینا) اور ستار بجانے میں کمال پیدا کیا تاہم ان کی توجہ گایکی پر بھی مرکوز رہی اور انھوں نے ساز اور آواز کو ہم آہنگ کر کے ایک منفرد اسلوب وضع کیا۔ آج بھی ساز کاروں کے رام پور گھرانے، شاہجہاں پور گھرانے اور اٹاوہ گھرانے میں اس کے اثرات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
/urdu/world-55520013
طیاروں کی صنعت سے وابستہ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 میں کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹس کی تعداد میں کمی کے باوجود طیاروں کے حادثے میں زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کووڈ 19 پابندیوں اور پروازوں میں زبردست کمی کے باوجود اتنی اموات ہوئی ہیں طیاروں کی صنعت سے وابستہ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 میں کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹس کی تعداد میں کمی کے باوجود طیاروں کے حادثے میں زیادہ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈچ ایویشن کنسلٹینسی To70 کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں ہونے والے طیاروں کے حادثے میں 299 افراد ہلاک ہوئے، سنہ 2019 میں یہ تعداد 257 تھی۔ کووڈ 19 پابندیوں اور پروازوں میں زبردست کمی کے باوجود اتنی اموات ہوئی ہیں۔ ٹریکنگ سائٹ فلائٹارڈار 24 کے مطابق گذشتہ سال کمرشل پروازوں میں 42 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ٹو 70 کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان اعداد و شمار میں مسافر طیاروں کے بڑے حادثات سے ہونے والی تمام اموات سے لے کر غیر قانونی مداخلت کی کارروائیوں جیسے طیارے کو مار گرانا بھی شامل ہیں۔ 2020 کے ان کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ جنوری میں ایرانی مسلح افواج کی جانب سے یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائن کی پرواز کو مار گرانا بھی شامل ہے۔ ایران، ہلاک ہونے والے 176 افراد میں سے ہر ایک کے اہل خانہ کو ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر دینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان اعدادوشمار میں مئی میں وہ 98 ہلاکتیں بھی شامل ہیں جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی ایک پرواز کراچی شہر میں گر کر تباہ ہوئی تھی۔ ایک ابتدائی رپورٹ نے اس حادثے کی وجہ ’انسانی غلطی‘ کو قرار دیا تھا۔ پی آئی اے کی پرواز کے حادثے میں 98 افراد ہلاک ہو گئے تھے پچھلے پانچ سالوں میں کمرشل اور کارگو طیاروں کے اوسطاً 14 مہلک حادثات ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں سالانہ 345 اموات ہوئی ہیں۔ To70 کے مطابق حادثات کی تعداد گذشتہ سال ہونے والے 86 سے کم ہوکر 40 ہو گئی ہے۔ ان 40 حادثات میں سے صرف پانچ ہی مہلک ثابت ہوئے۔ لیکن کنسلٹینسی کا کہنا ہے کہ مہلک حادثوں کی شرح ’پچھلے دس سالوں کی اوسط سے ملتی جلتی ہے‘۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ پروازوں کی کمی کا عملے کی کارکردگی پر ’نمایاں‘ اثر پڑا ہے۔ کنسلٹینسی کا کہنا ہے کہ ہماری صنعت میں جب ہم کام پر واپس آتے ہیں تو ’مہارت میں کمی‘ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق عالمی ہوا بازی کی صنعت کا سب سے محفوظ سال 2017 تھا۔ اس سال کوئی مہلک مسافر طیارہ حادثے کا شکار نہیں ہوا، اور صرف دو مہلک حادثات ہوئے جن میں 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
/urdu/regional-57731330
افغانستان میں جاری کشیدگی اور طالبان کی جانب سے پیش قدمی کے بعد جہاں افغانستان میں ایک خوف پایا جاتا ہے وہیں خواتین بھی میدان عمل میں آگئی ہیں اور گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں جن میں افغان خواتین بھاری اسلحہ اٹھائے کھڑی ہیں۔
’افغان خواتین طالبان سے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھتیں، ہم نہ اپنی یونیورسٹی جا سکیں گے اور نہ ہی کام کی اجازت ہو گی اس لیے اب خواتین میدان عمل میں آئی ہیں اور اپنی افغان نیشنل آرمی کی حمایت کر رہی ہیں تاکہ طالبان کی پیش رفت کو روکا جا سکے۔‘ افغانستان میں جاری کشیدگی اور طالبان کی جانب سے پیش قدمی کے بعد جہاں افغانستان میں ایک خوف پایا جاتا ہے وہیں چند خواتین بھی علامتی انداز میں میدان عمل میں آ گئی ہیں۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں جن میں افغان خواتین بھاری اسلحہ اٹھائے کھڑی ہیں۔ ان میں بیشتر کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور افغانستان کا پرچم ہے۔ یہ خواتین افغانستان نیشنل آرمی کی حمایت میں سامنے آئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت اکیلے طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی لہذا وہ اپنی حکومت اور آرمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی یہ تصاویر جوزجان اور غور کے علاقوں کی ہیں البتہ افغانستان میں خواتین کے یہ مظاہرے جوزجان اور غور کے علاوہ کابل، فاریاب، ہرات اور دیگر شہروں میں بھی منعقد کیے گئے ہیں۔ افغان طالبان اور افغان فوج کے درمیان ملک کے بیشتر اضلاع میں جھڑپیں جاری ہیں اور دونوں جانب سے کامیابیوں اور جنگی حکمت عملیوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے اندر لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے اور طالبان کی کامیابیوں کے دعوؤں کی وجہ سے بھی خواتین میں یہ تاثر ہے کہ شاید ایک مرتبہ پھر افغانستان میں وہی دور واپس آ جائے گا جب طالبان حکومت میں تھے اور آئے روز خواتین پر ظلم کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ افغان طالبان نے ایک ایسا پیغام بھی جاری کیا ہے جس میں میڈیا رپورٹس کو غلط اور منفی پروپیگنڈا کہا گیا ہے۔ قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ جن علاقوں کا کنٹرول طالبان نے حاصل کر لیا ہے وہاں میڈیا کے لوگوں اور خواتین پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ کابل سے صحافی اسد صمیم نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان خواتین کا اسلحہ اٹھانا دو الگ الگ پیغامات دیتا ہے۔ ایک پیغام اپنی حکومت اور افواج کے لیے ہے کہ خواتین ان کی حمایت میں ان کے ساتھ موجود ہیں اور یہ حمایت فوج کو طاقتور بناتی ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے بار بار یہ پیغام سامنے آرہا ہے کہ طالبان کسی کو کچھ نہیں کہیں گے اور جو کام جیسے جاری ہیں، جو غیر سرکاری تنظیمیں یا ترقیاتی کام کیے جا رے ہیں ان پر کام جاری رکھا جائے۔ افغان خواتین کے لیے موجودہ صورتحال ایک مرتبہ پھر بڑا امتحان ہو گی، ماضی میں بھی جب افغانستان سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی تھی اس دوران بھی خواتین ک سخت مشکلات کا سامنا رہا تھا اور افغان خواتین کو پڑوسی ممالک میں بھی مشکلات پیش آئی تھیں۔
/urdu/regional-59598887
امریکہ کے ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ کے جواب میں چین کی جانب سے مغربی جہموری نظام پر تنقید کی جا رہی ہے اور اسے اکثر ترقی پذیر ممالک کے لیے غیر موزوں قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکہ کے ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ کے جواب میں چین کی جانب سے مغربی جہموری نظام پر تنقید کی جا رہی ہے اور اسے اکثر ترقی پذیر ممالک کے لیے غیر موزوں قرار دیا جا رہا ہے۔ سخت گیر سوچ کے حامل اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے مدیر ہو شن جن نے تین دسمبر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ چین جمہوریت کے اعلیٰ مقاصد کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مکمل عوامی جمہوریت کے لیے کی جانے والی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک قابل قدر روایت بن جائیں گی۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی جمہوریت کے جامع عمل پر کاربند ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطاق صدر شی نے پہلی مرتبہ دو نومبر سنہ 2019 میں یہ تصور تجویز کیا تھا۔ جمہوریت پر چینی وائٹ پیپر میں عوام کی جمہوریت کے جامع عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک اصلی اور حقیقی جمہوریت ہے جو مؤثر انداز میں کام کرتی ہے۔ جمہوریت کے چینی تصور میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کا معیار زندگی بہتر کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ مغربی جمہوریت کے بعض تصورات پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا، جیسے ووٹ ڈالنا، اظہار رائے اور شہری آزادی۔ حکمران جماعت کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں 5 دسمبر کو شائع ہونے والے تیان پیان کے تبصرے میں مزید کہا گیا کہ جمہوری نگرانی میں جمہوریت کی سمت کا درست تعین کرنے اور بدعنوانی کو روکنے کو یقینی بنانے میں کمیونسٹ پارٹی کا اہم کردار ہے اور اسی لیے اس کی قیادت کو تسلیم کیا جانا بہت ضروری ہے۔ چین امریکہ کی جمہوریت کی ناکامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی طرز کے جمہوری نظام کا اکثر امریکہ کے جمہوری نظام سے مقابلہ کرتا رہتا ہے تاکہ اپنی طرز جمہوریت کی خوبیوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں چار دسمبر کو شائع ہونے والا ایک تبصرہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں چین کی جمہوریت کو داد دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ نظام امریکہ کے جمہوری نظام کے مقابلے میں زیادہ وسیع البنیاد، حقیقی اور مؤثر ہے۔ اس بات کا امکان نہیں کہ چین کھلے عام اپنے طرز جمہوریت کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہے گا۔ جیسا کہ وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ جمہوریت کے کئی انداز ہیں اور یہ غیر جمہوری طرز عمل ہے کہ ان مختلف سیاسی نظاموں کو دنیا میں ایک ہی پیمانے پر جانچا جائے۔ اس کے بجائے چین چاہتا ہے کہ وہ یہ دکھا سکے کہ وہ ایک ذمہ دار عالمی طاقت ہے، جو اپنا نظریہ پیش کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کی سیاسی تہذیب اور جمہوری عمل میں اپنا حل پیش کر رہی ہے۔ اس کا مقصد دنیا پر امریکی جمہوریت کے اثر کو کم کرنا اور اپنے جمہوری نظام کے فوائد کی تشہیر کرنا ہے تاکہ دیگر ممالک کے پاس ترقی کے حصول کے لیے ایک متبادل راستہ موجود ہو۔
/urdu/pakistan-51445757
پاکستان میں حکومت نے پانچ اشیائے خورد و نوش کی رعایتی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کو پانچ ماہ کے لیے دس ارب کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نے کمر توڑ مہنگائی کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھتے ہوئے سبسڈی دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر پانچ اشیا کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا حکومت غریب اور پسے ہوئے طبقے کا بوجھ بانٹے کے لیے مرحلہ وار سپورٹ پروگرام تربتیب دیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پانچ اشیاء ضرورت کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اور مستحکم رکھنے کے لیے لائمہ عمل ترتیب دیا گیا اور دس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اشتراک سے حکومت 2000 یوتھ سٹورز کھولنے جا رہی ہے۔ یہ سٹورز کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت کھولے جائیں گے اور انہیں بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف نوجوانوں کو روز گار ملے گا بلکہ مقامی آبادی کے لیے سستی اشیا کی فراہمی کا باعث بنیں گے۔ اس سے چار لاکھ افراد کو براہ راست اور آٹھ لاکھ کو بالواسطہ کاروبار اور روزگار کے مواقع ملیں گے۔ فردوس عاشق اعوان نے بتایا حکومت کے بڑے شہروں میں 12 کیش اینڈ کیری سٹورز قائم کرنے جا رہی ہے جو قیمتوں میں استحکام لانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ یوٹیلیٹی سٹور ملک بھر میں 50 ہزار تندوروں اور ڈھابوں کو رعایتی مقرر کردہ نرخوں پر اشیا فراہم کرے گا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا کہ راشن کارڈز کا اجرا رمضان سے قبل کر دیا جائے گا۔ ان کارڈز کی مدد سے مستحق افراد کو اشیا ضرورت کی قیمتوں پر 25 سے 30 فیصد تک رعایت ملے گی۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فری زون قائم کرے گا جہاں یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہوں گے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پانچ فری زون قائم کرے گا جہاں یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہوں گے تاکہ افغانستان سے درآمد ہونے والی اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور کھانے پینے کی اشیا کی سمگلنگ کی روک تھام ہو سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے فیصلے کیے ہیں جن میں چینی کی درآمد پر پابندی فی الفور اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ڈیوٹی ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایات کی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک یوٹیلیٹی سٹورز کے پیکیج سے 50 لاکھ خاندان فائدہ اٹھا رہے تھے لیکن وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اب انہیں بڑھا کر ایک کروڑ خاندان کر دیا گیا ہے۔
/urdu/pakistan-51310029
اسلام آباد میں منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے کئی سماجی کارکنوں اور طلبا کو پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ان میں سے زیادہ تر اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کے گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار ہونے والے 23 افراد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ 28 جنوری کو اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے والے درجنوں افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان میں قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے متعدد کارکن، عوامی ورکرز پارٹی کے کارکن اور چند طلبا شامل تھے جبکہ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے ساتھیوں نے 29 جنوری کی رات مختلف پولیس تھانوں میں گزاری اور اب انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر 15 دن کے لیے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ان کی بہن نے اپنے بھائی کے سماجی کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’نوفل اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو جبری بے دخل کرنے کے خلاف کھڑا ہوا۔ اس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سکول بنایا اور اسے چلایا۔ اس نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور بچوں کی بات کی۔‘ عمار رشید کو بھی ایک روز قبل اسلام آباد میں منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے مظاہرے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عمار اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) میں بھی پڑھا چکے ہیں۔ ان کی وابستگی عوامی ورکرز پارٹی سے رہی ہے اور فی الحال وہ عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صوبائی یونٹ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمار نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے اکنامکس میں بی ایس سی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد انھوں نے برطانیہ کی سسیکس یونیورسٹی سے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ عمار کو موسیقی کا بھی شوق ہے اور وہ باقاعدہ طور پر سیاسی تقریبات میں انقلابی گیت اور شاعری پیش کرتے ہیں۔ محسن کے بھائی عمر خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ’میرے بھائی کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ انھوں نے لاہور کے لبرٹی چوک میں منظور پشتین کے گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شرکت کی تھی جبکہ ان کا نام کسی ایف آئی آر میں نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے رات ساڑھے تین بجے ہمارے گھر پر دستک دی اور والد کے پوچھنے پر سوال کیا کہ کیا محسن ابدالی آپ کا بیٹا ہے؟ میرے والد کی جانب سے جواب پر پولیس نے محسن ابدالی کو باہر بلانے کا کہا اور جیسے ہی میرا بھائی گھر کے دروازے پر آیا تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔‘
/urdu/pakistan-51613437
پاکستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں 250 کے قریب افراد کو قرنطینہ کے مخصوص مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ بیماری وبائی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں ڈھائی سو کے قریب افراد کو قرنطینہ کے مخصوص مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں قرنطینہ کے لیے ایک مرکز میں آج تک اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ایسے زائرین کی تعداد 98 ہے اور اس سے پہلے حکام کی جانب سے یہ کہا جارہا تھا کہ ان افراد کو واپس کوئٹہ کی جانب بھیج دیا جائے گا لیکن اب ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔ تفتان انتظامیہ کے ایک سینئیر اہلکار کا کہنا ہے کہ اب ان افراد کو اس لیے نہیں بھیجا جا رہا کیونکہ یہ لوگ ایران سے آنے والے زائرین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ حکام نے بتایا کہ قرنطینہ کی شرائط پوری کرنے کے بعد ان تمام افراد کو ان کے آبائی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں تیزی سے اضافے اور اس کے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلاؤ سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ بیماری وبائی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ کورونا وائرس یعنی کووڈ-19 سے متاثرہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد چین میں ہے لیکن اس کے علاوہ اب جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران میں بھی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور اسے روکنے کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بیماری کو وبا اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب بیک وقت اس بیماری کا دنیا بھر کے مختلف ممالک میں پھیلنے کا خدشہ ہو۔ طبی ماہرین ابھی تک کووڈ-19 کا توڑ ایجاد نہیں کر پائے ہیں۔ ایران سے منسلک سرحدی علاقوں میں طبی ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا آغاز کردیا گیا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صوبے کی سرحدی علاقوں سے تاحکم ثانی کسی کو بھی ایران جانے کی اجازت نہیں دے گی۔ ادھر حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان سے ایران آمدورفت کے پانچ پوائنٹس ہیں اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام پوانٹس کے علاوہ دیگر سرحدی علاقوں سے کسی کو بھی تاحکم ثانی ایران جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے علاوہ دیگر صوبائی حکومتوں کو مراسلہ تحریر کرکے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بلوچستان حکومت سے تعاون کریں اور وہاں کے جو شہری ہیں ان کو اس وقت تک ایران جانے سے روکیں جب تک کورونا وائرس کے حوالے سے ایران میں صورتحال ٹھیک نہیں ہوتی ۔ جنوبی کوریا کے 7700 فوجیوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جبکہ 11 فوجی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایران سے بھی اب تک 43 کیسز کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ایران میں وائرس مقدس شہر قُم سے پھیلا ہے۔ اب تک وہاں 12 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے اور چین کے بعد کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ اموات وہیں ہوئی ہے۔
/urdu/world-61602359
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر اوالڈے کے سکول میں فائرنگ سے 19 بچے اور دو ٹیچرز ہلاک ہوئیں۔ مگر اب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان میں سے ایک ٹیچر کے خاوند دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے ہیں۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر اوالڈے کے سکول میں فائرنگ سے 19 بچے اور دو ٹیچرز ہلاک ہوئیں۔ مگر اب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان میں سے ایک ٹیچر کے خاوند دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے ہیں۔ ارما گارسیا گذشتہ 23 برسوں سے راب ایلیمنٹری سکول میں پڑھا رہی تھیں اور جو گارسیا ان کے خاوند تھے۔ ارما گارسیا ان دو ٹیچرز میں سے تھیں جو ایک 18 سالہ لڑکے کی فائرنگ سے ہلاک ہوئی تھیں۔ سکول شوٹنگ کے اس واقعے میں کل 21 افراد ہلاک ہوئے جن میں 19 بچے شامل ہیں۔ ارما اور جو گذشتہ 24 سال سے شادی شدہ تھے اور ان کے چار بچے ہیں۔ جمعرات کی شب تک گارسیا فیملی کے لیے عطیات کی ایک آن لائن مہم میں قریب 16 لاکھ ڈالر جمع کیے گئے۔ ابتدائی طور پر صرف 10 ہزار ڈالر جمع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ویب سائٹ گو فنڈ می پر اس مہم کے صفحے پر ارما گارسیا کی رشتہ دار ڈیبرا آسٹن لکھتی ہیں کہ ’مجھے یقین ہے کہ جو کی وفات دل ٹوٹنے سے ہوئی۔‘ ٹوئٹر پر ارما گارسیا کے بھانجے جان مارٹینز کہتے ہیں کہ مسٹر گارسیا اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد ’غم کی وجہ سے چل بسے۔‘ فاکس نیوز کے مقامی نمائندے نے بتایا ہے کہ جو گارسیا کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ سکول میں فائرنگ کے اس واقعے کے بعد مسٹر مارٹینز نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ پولیس کے افسران جب ارما گارسیا کی لاش کے قریب پہنچے تو انھوں نے ’اپنی آخری سانسوں تک بچوں کو اپنے بازوؤں میں چھپایا ہوا تھا۔‘ جو اور ارما گارسیا کی تصویر جو ویب سائٹ گو فنڈ می پر لگائی گئی ہے انھوں نے عطیات کے لیے آن لائن مہم کے صفحے پر لکھا کہ ارما نے ’اپنی کلاس روم کے بچوں کو محفوظ رکھنے کے دوران اپنی جان قربان کر دی۔۔۔ وہ ایک ہیرو ہیں۔‘ ارما گارسیا کے علاوہ ایک دوسری ٹیچر بھی سکول میں فائرنگ کے اس واقعے میں ہلاک ہوئی تھیں۔ ایوا میرلس اور ارما ایک ساتھ گذشتہ پانچ سال سے پڑھا رہے تھے۔ دونوں کے پاس مجموعی طور پر 40 سال سے زیادہ عرصے تک پڑھانے کا تجربہ تھا۔
/urdu/regional-55210602
شمالی انڈیا میں کسانوں کا دلی کے نزدیک نئی زرعی اصلاحات کے خلاف احتجاج جاری ہے جس کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ اس سے ان کی روزی روٹی کو خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اب ان کے بارے میں انٹرنیٹ پر متعدد غلط خبریں گردش کر رہی ہیں۔
شمالی انڈیا میں کسانوں کا دارالحکومت نئی دہلی کے نزدیک زراعت کے شعبے میں نئی اصلاحات اور قوانین کے خلاف احتجاج جاری ہے جس کے بارے میں ان کا مؤقف ہے کہ اس سے ان کے روزگار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ لیکن ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ اس احتجاج کے بارے میں انٹرنیٹ پر فیک نیوز اور گمراہ کن خبروں کی بھرمار ہو گئی ہے اور ہر کوئی، چاہے وہ کسانوں کے حمایتی ہوں یا ان کے مخالفین، سب ہی اس فیک مواد کو انٹرنیٹ پر شیئر کر رہے ہیں۔ اس پیغام میں ایک ٹویٹ کا عکس ہے اور اس میں درج پیغام میں لکھا ہے ’ہمیں انڈین حکومت کے رویے پر سخت حیرانی ہے کہ وہ کس طرح مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر جبر کر رہی ہے جو کہ صرف اس قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جو ان کے روزگار کے لیے خطرہ ہے۔‘ لیکن ان کے بیانات پر انڈیا کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے جس میں کینیڈین وزیر اعظم کے بیان کو ’کم علمی پر مبنی‘ اور ’اندرونی معاملات میں مداخلت‘ قرار دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اور ٹویٹ بھی شیئر کی جا رہی ہے جس میں ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکھ برادری کے افراد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسانوں کے مظاہرے میں کشمیر کے بارے میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ لیکن جانچ کرنے پر پتا چلا کہ اس ٹویٹ میں شامل تصویر گذشتہ سال اگست کی ہے اور یہ پنجاب کی ایک سیاسی جماعت شرومانی اکالی دل کے فیس بک گروپ پر پوسٹ کی گئی تھی جب انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تھی جس کی اس جماعت نے مخالفت کی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پوسٹ اور تصویر کا موجودہ احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انڈین یوتھ کانگریس اور اس کے علاوہ کانگریس جماعت کے سینیئر رہنماؤں نے بھی پرانی تصاویر ڈالی ہیں جس میں نظر آتا ہے کہ پولیس مظاہرین کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے رکاوٹیں لگا رہی ہے اور واٹر کینن کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن وہ تصاویر اکتوبر 2018 کی ہیں۔ واضح رہے کہ موجود احتجاج میں بھی پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا پر بکثرت شیئر ہونے والی تصاویر نہ صرف دو سال پرانی ہیں بلکہ ان میں دکھایا جانے والا مقام بھی دوسرا ہے۔ جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہ تصاویر اتر پردیش ریاست کے کسانوں کے احتجاج سے لی گئی تھی جنھوں نے دو سال قبل اپنے احتجاج میں دہلی کا رُخ کیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ زرعی قرضوں کو معاف کیا جائے۔
/urdu/pakistan-61253592
کیا اگلے پانچ برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے جمعرات کو سود پر مبنی معاشی نظام کو اسلامی شریعت کے برخلاف قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ملک کے بینکاری نظام کو دسمبر سنہ 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کیا جائے۔ سود پر مبنی نظام کے خلاف یہ درخواستیں 19 برس سے زیرِ سماعت تھیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 1992 میں بھی وفاقی شرعی عدالت حکومتِ پاکستان کو حکم دے چکی ہے کہ ملک کے نظام کو چھ ماہ میں سود سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔ اسے اسلامی بینکاری میں استحصال پر مبنی تصور کیا جاتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت نے جمعرات کو کہا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا اگلے پانچ برس میں سود سے مکمل طور پر پاک بینکاری رائج کرنا ممکن ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے صفِ اول کے بینکوں میں سے ایک کے اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ مالیاتی نظام کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں کیونکہ پاکستان میں فی الوقت قرضوں کے لین دین سے متعلق جو بھی قوانین ہیں وہ روایتی یا کنونشنل بینکاری پر مبنی ہیں۔ شرعی عدالت کے فیصلے کے تناظر میں جب ہم نے ماہرِ اسلامی بینکاری اور پاکستان کے مختلف بینکوں کے شریعت بورڈز کے رکن ارشاد احمد اعجاز سے پوچھا کہ اسلامی بینکنگ کیسے رائج کی جا سکتی ہے اور اس میں کتنا وقت لگے گا، تو اُنھوں نے کہا کہ اسلامی بنیادوں پر معاشی نظام اگر رائج کرنا ہے تو اس کے لیے متعدد قوانین میں ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد اس پر مزید تبصرہ کیا جا سکتا ہے مگر بنیادی طور پر بینکاری عدالتوں، ثالثی کے قوانین، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس اور مرکزی بینک کے نظام میں ترمیم کرنا شامل ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اگر حکومت مکمل طور پر اثاثوں کی بنیاد پر قائم قرض کی طرف جاتے ہوئے صرف سکوک بانڈز پر آ جاتی ہے تو کیا ملک کے پاس اتنے اثاثے ہیں، تو اس سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کئی مختلف اثاثوں کی کیٹیگریز موجود ہیں جن میں انفراسٹرکچر، انٹرپرائز یعنی حکومتی کمپنیاں، قدرتی ذخائر اور اتھارٹیز شامل ہیں جن کے بدلے قرض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی اسلامی بینکاری نظام روایتی نظام کے اندر کسی حد تک موجود ہے اور اگر مکمل طور پر قانون سازی اور پالیسی سازی کی جائے تو مزید ایسی پراڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں جو سود کے بجائے تجارت کے اصولوں پر قائم ہوں۔
/urdu/science-54675219
جان لسٹ کو اوبر نومِکس کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق معذرت کی بنیادی قسم میں تو صرف معافی مانگنے سے کام چل جاتا ہے لیکن کبھی کبھار معافی کے ساتھ پانچ پاؤنڈ بھی دینا پڑتے ہیں۔
اب وہ امریکہ کی ایک اعلیٰ درسگاہ شکاگو یونیورسٹی میں معاشیات کی فیکلٹی کا حصہ ہیں۔ لیکن کچھ سالوں سے وہ دوسرا کام کر رہے ہیں کیونکہ اوبر نے انھیں کمپنی کا چیف ماہر معاشیات بننے کی آفر کی تھی اور اوبر سے نکلنے کے بعد وہ کاروں کی ایک اور ایپ لفٹ میں شامل ہو گئے جہاں وہ اسی عہدے پر فائز ہیں۔ سماجی سائنسدان اور خاص طور پر ماہر نفسیات نے مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح کی معذرت زیادہ اثر کرتی ہے۔ لیکن جان لسٹ کو تجربہ تھا وہ درحقیقت ان اثرات کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ اوبر کی جانب سے جان لسٹ نے ان سب کو آزمایہ۔ مزید یہ کہ ان میں سے کچھ معذرت کے ساتھ اوبر نے اگلے سفر میں پانچ پاؤنڈ کی چھوٹ کی پیش کش کی۔ تجربے میں اوبر کے صارفین کا ایک ایسا گروہ بھی شامل تھا جس سے معافی نہیں مانگی گئی۔ نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ کسی بھی طرح کی معذرت غیر موثر ثابت ہوئی۔ لیکن پانچ پاؤنڈ کے کوپن کے ساتھ معذرت نے بہت سارے لوگوں کو وفادار رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح ہم صارفین سے معافی اور ایک کوپن کی مدد سے لاکھوں ڈالر واپس لیتے ہیں۔‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ صارفین کیا چاہتے ہیں کہ کمپنی پچھتاوے کے ساتھ مالی نقصان برداشت کرے۔ لیکن اعداد و شمار کو توجہ سے دیکھنے کے بعد لِسٹ نے محسوس کیا کہ اگر صارف کا دوسرا یا تیسرا سفر خراب ہوتا ہے تو یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔ اور اس طرح صارف کمپنی کے وفادار نہیں رہیں گے۔ بہت سے معاشی ماہرین اپنی میز پر بیٹھ کر اپنے ماڈل کی بنیاد پر معاشی سرگرمیوں کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ ماہر معیشت کے طور پر جان لسٹ تھوڑا الگ اس لیے ہیں کیونکہ وہ اپنے نظریے کو حقیقی دنیا میں آزمانہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور چین سے لے کر بنگلہ دیش تک تجربات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ اوبر بُک کرواتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کا ڈرائیور مرد ہوگا یا خاتون۔ لہذا آپ توقع کرتے ہیں کہ مرد اور خواتین ڈرائیور کی ایک ہی کمائی ہوگی۔ لیکن درحقیقت مرد ڈرائیور خواتین ڈرائیورز کے مقابلے میں فی گھنٹہ سات فیصد زیادہ کماتے ہیں۔ اس امتیازی رویے پر حیران لسٹ نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جان لسٹ کا کہنا ہے کہ ویسے اگر آپ کبھی بھی اوبر ڈرائیور بننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صارف کے ساتھ اچھا سلوک آپ کی آمدنی پر خاص اثر ڈالے گا تو بُری خبر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ جب صارف ایک ڈرائیور کو اس کے اچھے رویے کے لیے دوسروں کے مقابلے 10 فیصد زیادہ ریٹنگ (درجہ) دیتے ہے تب بھی دونوں کو ٹپ ایک جیسی ہی دی جاتی ہے۔
/urdu/world-59656702
ریگن کو اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنے سے یہ امید ہے کہ یہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کی ہمت دے گا۔
ریگن کا کہنا ہے کہ میں اب ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہوں ’ہم اس موضوع پر بات کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد یہ موضوع لوگوں کے ذہن اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کے بارے میں مسلسل بات نہیں کی جا رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین کو دھمکیاں نہیں دی جا رہی ہیں، یا اُنھیں ہراساں نہیں کیا جا رہا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات لوگوں کی سمجھ اور علم سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ اگر میں کھلے عام اس بارے میں بات کروں گی تو ایسے دوسرے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جن کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہو اور وہ اپنے تجربات سامنے لائیں گے۔‘ اس سال کے اوائل میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سےمیڈیا میں خبریں آئی تھیں اور لندن کے ایک میٹ پولیس افسر کے ہاتھوں ایک لڑکی سارا ایڈورڈ کے قتل کے بعد یہ کیس بحث کا ایک بڑا موضوع بنا تھا۔ ریگن کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ہونے والی بحث نے مجھے بات کرنے کی ہمت دی۔‘ ریگن کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ لوگوں کو بتانے کا مقصد تھا کہ خواتین کے تحفظ کے بارے میں بات جاری رہے۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ جن لوگوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی میں مصروف رہیں۔ اگر چیزوں کو بدلنا ہے تو سبھی کو اس بارے میں سوچنا ہوگا'۔ ریگن کا کہنا تھا کہ ’جب تک کہ یہ میرے ساتھ نہیں ہوا مجھے اس وقت تک احساس نہیں ہوا کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔ اور جس حقیقت کا مجھے احساس نہیں تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافی لوگ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔‘ ایون اور سمرسیٹ پولیس کے ترجمان نے نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کسی بھی شکل میں تشدد، بدسلوکی اور دھمکیاں قابل قبول نہیں ہیں اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا'۔ ریگن کا کہنا ہے کہ اس حملے سے ان کے لیے چیزیں مشکل ہو گئی ہیں۔ ’مجھے کھانے پینے اور سونے میں دقتیں پیش آتی ہیں، ہر دن کے اپنے اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں'۔ ریگن کو اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنے سے یہ امید ہے کہ یہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کی ہمت دے گا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اپنے اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے سے دوسرے لوگوں کو بھی اپنے تجربات بتانے کی ہمت ملے گی کیونکہ تحفظ کا احساس بہت اہم اور ضروری ہے۔
/urdu/sport-56931333
میزبان ٹیم کی سب سے بڑی امید کپتان برینڈن ٹیلر سے تھی لیکن حسن علی کی گیند پر تیسری سلپ میں فہیم اشرف کے کیچ نے زمبابوے کے ڈریسنگ روم میں مایوسی کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا۔
زمبابوے کے کپتان برینڈن ٹیلر جب بابر اعظم کے ساتھ ٹاس کے لیے جا رہے تھے تو یقیناً اُنھیں 2013 کی وہ جیت یاد آ گئی ہوگی جب ان ہی کی قیادت میں زمبابوے نے پاکستان کو صرف 24 رنز سے شکست دے کر ٹیسٹ سیریز برابر کر دی تھی۔ ُاس حیران کن شکست سے دوچار ہونے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان مصباح الحق تھے جو ہرارے کے اسی ڈریسنگ روم میں آج پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر موجود ہیں اور کسی طور نہیں چاہیں گے کہ تاریخ دوہرائی جائے۔ زمبابوے کی ٹیم ٹاس جیت کر پہلے دن دو سیشنز کی بیٹنگ میں 176 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ اس پر اس لیے بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ ٹیم اپنے کپتان شان ولیمز، تجربہ کار بیٹسمین سکندر رضا اور کریگ ارون کے بغیر میدان میں اتری ہے۔ پہلے ہی سیشن میں چار وکٹوں کے گرنے سے زمبابوے کی ٹیم بیک فٹ پر آ چکی تھی۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں آرام کے بعد تازہ دم شاہین آفریدی کی گیند پر پرنس مسواؤرے کے کیچ کے لیے سلپ میں ہر لمحہ مستعد عمران بٹ تیار تھے۔ بابر اعظم نے سپن بولنگ متعارف کروائی تو نعمان علی نے اپنے چوتھے اوور کی پہلی گیند پر موزا کاندا کے بیٹ اور پیڈ میں سے جگہ بناتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ نعمان علی اگلے اوور میں ملٹن شومبا کو بھی صفر پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتے اگر بابراعظم سلپ میں کیچ نہ گراتے۔ بابراعظم نے شومبا کا ایک اور کیچ فہیم اشرف کی گیند پر بھی گرایا، جب وہ 27 رنز پر تھے۔ میزبان ٹیم کی سب سے بڑی امید کپتان برینڈن ٹیلر سے تھی لیکن حسن علی کی گیند پر تیسری سلپ میں فہیم اشرف کے کیچ نے زمبابوے کے ڈریسنگ روم میں مایوسی کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا۔ روئے کائیا ایک اینڈ بچائے ہوئے تھے لیکن 48 کے سکور پر اُنھیں حسن علی نے ایل بی ڈبلیو کر دیا اور پھر اگلے اوور میں اُنھوں نے سلپ میں عمران بٹ کے ایک اور کیچ کی بدولت ریگیز چکبوا کی وکٹ بھی حاصل کر ڈالی۔ پاکستانی ڈریسنگ روم میں بیٹھے کپتان بابر اعظم اور ہیڈ کوچ مصباح الحق نے یقیناً عابد علی کی نصف سنچری پر سکون کا سانس لیا تھا جو گذشتہ سال ساؤتھمپٹن میں نصف سنچری کے بعد سے 10 اننگز میں بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ستائیس سالہ ساجد خان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور اس سیزن کی قائدِ اعظم ٹرافی میں اُنھوں نے 11 میچوں میں 67 وکٹیں حاصل کر کے جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز کے سکواڈ میں جگہ بنائی تھی تاہم اس ٹیسٹ سیریز میں نعمان علی کو کھیلنے کا موقع مل گیا تھا۔ ٹوئٹر پر ایک صارف نعیمہ نے لکھا 'اگر آپ کو ایک وکٹ چاہیے تو آپ حسن علی کی طرف دیکھیں۔ آج تو وہ چار وکٹیں لے چکے۔'
/urdu/pakistan-58756808
پاکستان میں اس وقت میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہشمند طلبا اور طالبات میڈیکل ٹیسٹ کے نئے تجرباتی نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ مجاذ ادارہ پی ایم سی ان سے انٹری ٹیسٹ دوبارہ لے۔
پاکستان میں اس وقت میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہشمند طلباء اور طالبات احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج نئے تجرباتی نظام کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر طلبا کے احتجاج کے مختلف ٹرینڈز چل رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے پی ایم سی کے اس امتحانی نظام کے خلاف ٹرینڈز سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ پی ایم سی کے قیام سے قبل ہر صوبے کے اپنے کورسز اور اپنے بورڈ کے امتحان اور کالجز میں داخلے کے لیے ٹیسٹ ہوتے تھے اور یہ ٹیسٹ اسی کورس سے آتے تھے۔ پی ایم سی کے قیام کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب تمام صوبوں کے طلبا اور طالبات کے لیے یکساں کورس ہو گا اور اس کورس میں زیادہ تر حصہ وفاقی بورڈ اور پنجاب بورڈ سے لیا گیا ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبا کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ انھیں وہ سوالات اور تمام جوابات فراہم کیے جائیں جو پی ایم سی اور یہ امتحان لینے والی کمپنی ٹی ای پی ایس کے مطابق درست ہیں۔ طلبا کے بقول انھیں یہ جوابات فراہم نہیں کیے جا رہے۔ ستائیس ستمبر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ دینے والے طالبعلوں کے ایک وفد نے 23 ستمبر کو پی ایم سی کے صدر سے ملاقات کی جس میں اس امتحان سے متعلق طالبعلموں کے اعتراضات پیش کیے گئے۔ پی ایم سی کے جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ دینے والے طالبعلموں کی جانب سے تین بڑے اعتراضات پیش کیے گئے ہیں جن میں اس بیان میں طلبا کے مطالبات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جیسے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دوبارہ لیا جائے، پاس ہونے کے لیے جو نمبر چاہییں وہ کم کیے جائیں یا اضافی نمبر دیے جائیں، اور ہر امیدوار کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنا پیپر دیکھ سکے اور خود چیک کر سکے۔ ایسے سوالات جنھیں طالبعلموں نے چھوڑے دیا یا ان سے رہ گئے وہ سسٹم میں نہیں آئے اس بارے میں پی ایم سی کے حکام کا کہنا ہے کہ صرف صفر اعشاریہ ایک تین فیصد ایسے جوابات سامنے آئے جو سکپ یا چھوڑے گئے تھے۔ پی ایم سے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کورس نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ نے ایم ڈی سی اے ٹی 2021 کے لیے ترتیب دیا ہے اور اس نصاب کی تیاری کے لیے تمام بورڈز کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے اپنے بورڈز کے نصاب سے آگاہ کریں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نصاب گذشتہ برس کے نصاب جیسا ہی ہے اور طلبا اور طالبات کو اس کورس سے آگاہی تھی بلکہ اس مرتبہ مشکل سوالات کو کم شامل کیا گیا ہے۔
/urdu/world-60433484
رواں ماہ کے وسط میں سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کی سرحد کے قریب فوجی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔
امریکہ کی سپیس ٹیکنالوجی کمپنی ماکسر نے سیٹلائٹ سے جو تازہ تصاویر حاصل کی ہیں اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد سے ہزاروں فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کے دعوؤں کے برعکس یوکرین کی سرحد کے قریب روسی فوجیوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔ رواں ماہ کے وسط میں سیٹلائٹ سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں ان میں نظر آتا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیلاروس کے شمال مغربی علاقے اوسیپوچی سے تھوڑے فاصلے پر واقع فوجی تربیتی علاقے میں ایک فیلڈ ہسپتال موجود ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ روسی افواج یوکرین کی سرحدوں کے کافی قریب موجود ہیں۔ 15 فروری کو پریپیات دریا کے قریب ایک عارضی پل کی تصویر بھی سامنے آئی ہے جو یوکرین کے ساتھ بیلاروس کی سرحد سے 4 میل سے بھی کم فاصلے پر ہے. اس کے علاوہ ایک تصویر میں یوکرین کی سرحد سے 19 میل دور زیبرووکا کے ہوائی اڈے پر 20 ٹینک شکن ہیلی کاپٹروں کو دیکھا جا سکتا ہے جو حال ہی میں وہاں پہنچے ہیں۔ البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بیلاروس میں روس کے 30 ہزار کے قریب فوجیوں کی موجودگی جو یقیناً یوکرین اور نیٹو کے پریشانی کا باعث ہیں، وہ دراصل بیلاروس میں مشترکہ مشقوں کا حصہ ہیں جنہیں 20 فروری کو اختتام پذیر ہونا ہے۔ روس کے ارادوں کا صحیح علم 20 فروری کو ہوگا جب سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلے گا کہ روسی افواج مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد وہاں سے چلی گئی ہیں یا وہیں موجود ہیں۔ لیکن نیٹو کے دفاعی سربراہان کو یقین ہے کہ روس نے اتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر جمع کر لیا ہے جو صدر یوتن کے حکم پر یوکرین پر حملہ کر سکتی ہیں۔ جتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر لایا گیا ہے اور جس طرح ان کی صف بندی کی گئی یہ بہت غیر معمولی ہے۔ مثال کے طور پر ایئرڈیفنس یونٹس کو ہزاروں میل دور مشرقی سائبیریا سے یہاں لایا گیا ہے۔ صدر پوتن کے دور میں روس کی فوجی صلاحیت میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ روسی افواج اب وہ نوے کی دہائی کے تاریک دور سے گزر چکی ہیں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا۔ روسی افواج کے سائبر حملوں کی صلاحیت بڑھانے کے علاوہ 800 فوجیوں پر مشتمل ٹیکٹیکل بٹالین گروپ بنائے گئے ہیں جن کو ٹینکوں، توپ خانوں اور دوسرے ہتھیاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ روسی فوج میں دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ روس کے منصوبہ ساز پچھلے سات برسوں سے شام اور شمالی یوکرین میں جاری جنگوں کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر روس چاہے تو وہ اپنی افواج کو نہ صرف ہفتوں بلکہ مہینوں تک یوکرین کی سرحد پر رکھ سکتا ہے۔
/urdu/pakistan-48882238
حزبِ اختلاف چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد لانے اور 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے پر متفق۔ قبائلی اضلاع میں پولنگ سٹیشن میں فوج تعیناتی پر الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا۔
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی کُل جماعتی کانفرنس میں بننے والی ’رہبر کمیٹی‘ کا پہلا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے فیصلے کی توثیق کی گئی اور یہ طے پایا کہ 11 جولائی کو نئے چییرمین سینیٹ کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں حزبِ اختلاف کے ممبران نے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں انتخابات کے دوران پولنگ سٹیشن پر فوج کی تعیناتی کے خلاف الیکشن کمیشن کو خط بھیجا ہے۔ آج کے اجلاس کی میزبانی خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے لیڈر اکرم خان درانی نے کی جس میں موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے، چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے، اور کمیٹی کے سربراہ کو منتخب کرنے پر تجاویز دینے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’نو جولائی کو چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد جمع کرائیں گے۔ اور 11 جولائی کو چییرمین سینیٹ کے امیدوار کا اعلان کریں گے۔ اور اُسی دن رہبر کمیٹی کا اجلاس پھر منعقد کیا جائے گا۔‘ رہبر کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے گا۔ اس دن پاکستان بھر میں عام انتخابات ہوئے تھے جس کے نتیجے میں موجودہ حکومت ایوانوں میں آئی تھی۔ جلسوں کی تیاری کے لیے صوبائی سطح پر کوآرڈینیشن کمیٹیاں بھی بنائی جائیں گی۔ حزبِ اختلاف نو جولائی کو چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد جمع کروائے گی جبکہ 11 جولائی کو نئے امیدوار کا اعلان کرے گی انھوں نے مزید کہا کہ حزبِ اختلاف نے سابق قبائلی علاقوں میں انتخاب کے دوران پولنگ سٹیشن پر فوج تعینات کرنے کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران بتایا گیا کہ فاٹا میں 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات فوج کی زیر نگرانی کروانے کے خلاف چیف الیکشن کمیشن کو کُل جماعتی کانفرنس میں شامل نمائندہ جماعتوں کی جانب سے خط لکھا گیا ہے۔ اس خط پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے نمائندوں کے دستخط بھی لیے گیے ہیں۔ خط کے متن کے مطابق، الیکشن کمیشن پولنگ سٹیشن کے اندر فوج کی تعیناتی کا اعلامیہ واپس لے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ فاٹا میں انتخابات کے دوران فوج کی تعیناتی کے بارے میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں انتخابات کے شفافیت پر سوال اٹھیں گے۔ خط کے ذریعے سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پولنگ سٹیشن کے اندرونی معاملات کی ذمہ داری پریزائڈنگ افسران کو دی جائے جو بنیادی طور پر انہی کا ذمہ ہے۔ حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں پر مبنی رہبر کمیٹی کے گیارہ اراکین ہیں جو آج اجلاس میں شامل ہوئے۔ کمیٹی میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دو، دو جبکہ دیگر جماعتوں سے ایک، ایک رکن کو شامل کیا گیا ہے۔
/urdu/world-55453470
سری لنکا میں کووڈ 19 قوانین کے تحت ہلاک ہونے والے متاثرہ افراد کی لاشوں کو جلایا جاتا ہے، تاہم حکومتی ناقدین اس سے ناخوش ہیں اور وہ حکومت پر ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
سری لنکا میں سرکاری حکام کی جانب سے ایک مسلمان نوزائیدہ بچے کی وفات کے چند دن بعد وفات پر تدفین کی بجائے اس کی لاش کو جلا دینے پر ملک کے متنازع کووڈ 19 قوانین پر ایک بار پھر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ کووڈ سے متاثرہ مریض کو جلائے جانے کا یہ فیصلہ سائنسی بنیادوں پر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس سے مسلمان اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ان سے ایک دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا جس میں سری لنکن قوانین کے تحت کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی لاش کو جلایا جاتا ہے اور اس کے مطابق ان کے بچے کی لاش بھی جلائی جانی تھی۔ لیکن محمد فہیم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر ایسا کرنے میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ سری لنکا میں کئی مسلمان خاندانوں نے اپنے مردوں کو لینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ ان کی لاش جلانے کے قانون سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے سری لنکن حکومت کو اپنے خرچے پر جلانا ہوتا ہے اور ان لاشوں کے گھر والے ان کی راکھ بھی لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ سری لنکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 متاثرین کی لاشیں جلانے کے قانون پر نظر ثانی کریں اور اس کے لیے انھوں نے دنیا بھر کے ممالک کے مثالیں دیں جہاں پر متاثرین کو دفنایا جاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کا بھی ذکر کیا۔ لاش جلانے کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کی لاش دفنانے کی صورت میں زیر زمین پانی میں وائرس مل جانے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے یہ موقف ایک 'ایکسپرٹ کمیٹی' کی تجاویز کی روشنی میں اختیار کیا ہے لیکن اس کمیٹی کے ممبران اور ان کی قابلیت کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ سری لنکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 متاثرین کی لاشیں جلانے کے قانون پر نظر ثانی کریں لیکن حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے کہ یہ قوانین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں۔ حکومتی موقف ہے کہ سنہالا بودھوں کو بھی اپنے ہلاک ہونے والے پیاروں کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر جلانا ہوتا ہے جو کہ ان کی روایات کے خلاف ہے۔ ہلمی احمد نے حکومت کی اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ وہ یہ صرف دباؤ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب شیخ کے والد فہیم کا کہنا ہے کہ جو سلوک ان کے بچے کے ساتھ ہوا ہے، وہ ابھی بھی اس غم سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔
/urdu/world-54520670
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات کے بعد چین کے وزیر خارجہ نے مشرق وسطی میں تناؤ کے خاتمے کے لیے ایک نئے فورم کے قیام کی بات کی ہے اور ایک مرتبہ پھر ایران کے لیے چین کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے مشرق وسطی میں تناؤ کے خاتمے کے لیے ایک نئے فورم کے قیام کی بات کی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات کے بعد چین کے وزیر خارجہ نے اس نئے فورم کے حواے سے بات کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ایران کے لیے چین کی حمایت جاری رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ سنیچر کے روز چین میں وانگ یی اور جواد ظریف کے مابین ہونے والی ملاقات میں ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے پر چین نے اپنے عہد کا بھی اعادہ کیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے معاملے پر امریکہ پر تنقید کی گئی ہے۔ ایران مشرق وسطی میں امریکہ کا سب سے بڑا ’دشمن‘ ہے اور دونوں ممالک کے مابین ایک طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔ اگر ایک طرف امریکہ عالمی منظرنامے سے ایران کو الگ تھلگ رکھنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے وہیں ایران کی حمایت میں چین کھڑا نظر آ رہا ہے اور دونوں کے درمیان ممکنہ معاہدے سے مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پانچ جولائی کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران اور چین 25 سالہ معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ٹائمز کو دیے گئے ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کر کے چین خود اپنے ’استحکام اور امن و امان‘ کو فروغ دینے کے اپنے مقصد کی نفی کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے متنبہ کیا ہے کہ چین اور ایران کی دوستی ’مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا کر دے گی۔‘ پروفیسر سچدیوا کہتے ہیں: ’ابھی تک چین کی کہیں بھی اپنی فوج بھیجنے کی پالیسی نظر نہیں آ رہی ہے۔ چین دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے معاشی اور بنیادی ڈھانچے میں اضافہ کر رہا ہے۔ مشرق وسطی میں اس کے مفادات بھی انھی چیزوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین اپنے معاشی مفادات تک ہی محدود رہے گا اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوجی موجودگی کم کردے تو وہ مشرق وسطی میں اپنی فوج تعینات کرے گا۔‘ پروفیسر سچدیوا کہتے ہیں کہ ’ابھی تک امریکہ کی تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھنے میں دلچسپی تھی۔ لیکن شیل گیس اور دیگر دریافتوں کے بعد امریکہ تیل کا باضابطہ برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ اس کا تیل پر انحصار کم ہوا ہے اور اس طرح مشرق وسطی پر بھی انحصار میں کمی آئی ہے اور امریکہ کے لیے اس خطے کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف چین کے لیے تیل کا بڑا وسیلہ مشرق وسطیٰ ہے۔‘
/urdu/world-59047522
سنہ 2017 میں عائشہ یریما نے اپنے اہل خانہ کو اس وقت حیران کر دیا جب وہ اپنی مرضی سے بوکو حرام کی قید میں واپس چلی گئیں حالانکہ فوج نے بہت کوششوں کے بعد انھیں وہاں سے آزادی دلائی تھی۔
سنہ 2017 میں عائشہ یریما نے اپنے اہل خانہ کو اس وقت حیران کر دیا جب وہ اپنی مرضی سے بوکو حرام کی قید میں واپس چلی گئیں حالانکہ فوج نے بہت کوششوں کے بعد انھیں وہاں سے آزادی کروایا تھا۔ انھیں بوکو حرام کے شدت پسندوں نے 21 سال کی عمر میں میدوگوری کے جنوب مشرق میں واقع ایک قصبے سے اغوا کیا تھا اور انھوں نے گروپ کے ایک کمانڈر سے شادی کر لی۔ اس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس شخص نے رومانس اور تحائف سے ان کا دل جیت لیا تھا۔ ان کا نیا شوہر اتنا ہی مالدار تھا کیونکہ وہ بوکو حرام کو سامان فراہم کرنے کا ذمہ دار ایک تاجر تھا اور وہ میدوگوری کا باقاعدہ دورہ کرتا تھا۔ جب وہ پھر سے حاملہ ہوئی تو عائشہ کو جنگل میں ایک اور بچہ کو پیدائش کے وقت کھونے کا خوف ستانے لگا۔ اس کے جانے کی خواہش اس وقت مزید بڑھنے لگی جب فوج نے حملے تیز کر دیے اور باقاعدہ بمباری نے عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو مسلسل نقل و حرکت پر مجبور کر دیا۔ اس کے علاوہ اندرونی رسہ کشی کے نتیجے میں بوکو حرام دو حصوں میں بٹ گیا اور دونوں دھڑے ایک دوسرے پر حملے شدید حملہ کرنے لگے۔ اپنی جان اور اپنے پیدا ہونے والے بچے کی جان کے خوف سے عائشہ نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان سب کو راستے میں بوکو حرام کے جنگجوؤں نے پکڑ لیا، اور اپنے کیمپ میں واپس لے آ ئے۔ اسے دوبارہ بھاگنے کی کوشش سے روکنے کے لیے، عائشہ کے شوہر اور عسکریت پسندوں نے اس کے چھ سالہ بچے کو پکڑ لیا اور اسے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ عائشہ نے اپنے پاس موجود تمام پیسے اسے دے دیئے۔ ایک ہفتے بعد اس نے ان کو عسکریت پسندوں کے اڈے سے دور بہت دور کے قصبوں میں ایک ایسے مقام پر چھوڑ دیا جہاں سے وہ اپنے طور پر ایک فوجی چوکی پر جاسکتی تھین۔ جب وہ میدوگوری پہنچیں تو انھوں نے ڈرائیور سے رکنے کو کہنا تاکہ وہ اپنی ماں کو فون کر کے راستہ پوچھ سکیں کیونکہ ان کی غیر موجودگی میں شہر بہت بدل گیا تھا: 'ہر طرف نئے فلائی اوور پل اور پکی سڑکیں بن گئی تھیں۔' عائشہ نے مجھے بتایا کہ جب سے وہ واپس آئی ہے ہر کوئی مہربانی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ان کی مدد کر رہا ہے۔ کچھ پڑوسیوں نے ان کی دیکھ بھال کے لیے پیسے سے بھی مدد کی ہے۔ لیکن اکتوبر کے شروع میں انھوں نے جس بچے کو جنم دیا وہ بھی فوت ہو گیا۔ ابھی تک عائشہ کو اپنے شوہر کے بارے کوئی علم نہیں جسے انھوں نے جنگل میں چھوڑ دیا تھا۔ حال ہی میں فرار ہونے والی کچھ خواتین سے معلوم ہوا کہ اسے بوکو حرام کے ایک مخالف دھڑے نے پکڑ لیا تھا لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا معلوم نہیں۔
/urdu/entertainment-49365678
مہوش نے نہ تو کسی کو ڈانٹ لگائی اور نہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور نہ ہی پرینکا کی طرح کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی: پڑھیے اس ہفتے کی شوبز ڈائری۔
مہوش نے نہ تو کسی کو ڈانٹ لگائی اور نہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور نہ ہی پرینکا کی طرح کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی لاس اینجلِس میں ایک تقریب کے دوران ایک پاکستانی خاتون عائشہ ملک کے ساتھ ان کا رویہ کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ جنوری میں پاکستان کے ساتھ فوجی کشیدگی کے دوران پرینکا نے ٹوئٹر پر بھارتی فوج کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جے ہند کا نعرہ لگایا تھا۔ عائشہ ملک نے پرینکا کی اسی ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے سوال کیا جس پر بظاہر پرینکا بیزار نظر آئیں لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک درمیانے راستے پر چلنا پڑتا ہے اور یہ کہ وہ ایک محبِ وطن بھی ہیں۔ انڈیا میں 'حب الوطنی یا قوم پرستی' کے بخار کی پرینکا اکیلی شکار نہیں ہے۔ دراصل اس وقت انڈیا میں 'محبِ وطن یا قوم پرست ہونا ضرورت بھی ہے اور فیشن بھی ہے کیونکہ مودی حکومت میں اب یہ بقا کا سوال اور کامیابی کی سیڑھی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ سوال اپنی جگہ جائز بھی کہ کیا پرینکا نے یونیسیف کی بنیادی اقدار کو ٹھیس پہنچا کر ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستانی اداکارہ مہوش حیات نے پرینکا کی 'حب الوطنی' کا انتہائی خوبصورت جواب دیا ہے۔ مہوش نے نہ تو کسی کو ڈانٹ لگائی اور نہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور نہ ہی پرینکا کی طرح، جیسا انہوں نے عائشہ کے ساتھ کیا، کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ مہوش کا کہنا تھا 'فلم انڈسٹری پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ سنیما ایک طاقتور آلہ ہے جو لوگوں کا نظریہ، ذہن اور رویہ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کا استعمال سمجھداری سے کیا جانا چاہیے۔ فلموں میں کسی بھی ملک کو منفی انداز میں پیش کرنے کے بجائے اس کے اچھے پہلوؤں اور خوبیوں کو بھی پیش کیا جانا چاہیے۔‘ مہوش کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ نے بھی اپنی فلموں میں ہمیشہ پاکستان کو غلط روشنی میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ تاریخ، سیاست اور ذہنیت کے پس منظر میں غیر جانبدار رہنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ مہوش کا کہنا تھا کہ انھیں یہ طے کرنا ہوگا کہ قوم پرستی اہم ہے یا پُرامن مستقبل۔ مہوش کا یہ جملہ بہت گہرا ہے کہ قوم پرستی اور پرامن مستقبل میں زیادہ کیا اہم ہے لیکن اس وقت انڈیا میں پاکستان بِکتا ہے اور بہت سے فنکار یا فلسماز پاکستان پاکستان کھیل کر ہی حکومت کی نظروں میں اوپر اٹھنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ آج کی نسل اداکارہ دویا سنہا کو شاید ہی جانتی ہو لیکن ستتر کی دہائی میں ایک سادہ اور عام سے نظر آنے والی اس لڑکی نے فلم پتی پتنی اور وہ، رجنی گندھا اور چھوٹی سی بات جیسی فلمیں کر کے اپنا ایک خاص مقام بنایا تھا۔
/urdu/science-58134866
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹیریز نے پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ کو انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔ ’اگر ہم اب ہی سر جوڑیں تو ہی ہم بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی سے نمٹ سکتے ہیں۔ لیکن جیسے آج کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے اس معاملے میں نہ تاخیر کی گنجائش ہے نہ غلطی کی۔‘
پیر کو بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جس حساب سے گیسز کا اخراج جاری ہے، ایک دہائی میں درجہ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ یہ رپورٹوں کی اس سیریز کا پہلا حصہ ہے جو آنے والے مہینوں میں شائع کی جائیں گی اور یہ 2013 کے بعد سے اب تک موسمیاتی تبدیلی کی سائنس کا پہلا بڑا جائزہ ہے جسے گلاسگو میں ماحولیاتی اجلاس COP26 سے تین ماہ قبل جاری کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹیریز کے مطابق پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ’اگر ہم اب ہی سر جوڑیں تو ہی ہم بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی سے نمٹ سکتے ہیں لیکن جیسے آج کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے اس معاملے میں نہ تاخیر کی گنجائش ہے نہ غلطی کی۔‘ نئی رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ہم نے آج تک جس گرمی کا تجربہ کیا ہے اس نے ہمارے بہت سے سیاروں کے سپورٹ سسٹم میں تبدیلیاں کی ہیں جو ناقابل واپسی ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنفین کا خیال ہے کہ تمام منظرناموں کے جائزے سے واضح ہے کہ سنہ 2040 تک عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری تک اضافہ ہو جائے گا۔ اگر اگلے چند سالوں میں گیسوں کے اخراج میں کمی نہیں کی گئی تو ایسا 2040 سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ 90 ممالک کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نقصانات کو روکنے والے ان کے منصوبے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی آفات سے متاثر ہو چکے ہیں اور ان میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں پر کام کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق اس بات کے محض محدود شواہد موجود ہیں کہ ان منصوبوں نے کسی خطرے کو کم کیا ہو۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کا موسمیاتی سائنس کا ادارہ پیر کو گلوبل وارمنگ کی صورتحال کے بارے میں اپنا تازہ جائزہ شائع کر چکا ہے۔ الائنس آف سمال آئی لینڈ سٹیٹس کے ماحولیات سے متعلق چیف ثالث ڈیان بلیک لینر کا کہنا ہے کہ ’ہم کیٹیگری فور کے سمندری طوفان دیکھ رہے ہیں، لہذا ہم نے اپنے موافقت کے منصوبے اسی حساب سے تیار کیے ہیں لیکن اب ہم کیٹیگری فائیو کے سمندری طوفانوں کی زد میں ہیں۔‘ یوگانڈا میں روینزوری خطے کی برادریاں اپنے آپ کو لینڈ سلائیڈز اور سیلاب سے بچانے کے کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کام کے لیے وہ درخت لگا رہے ہیں، خندقیں کھود رہیں ہیں تاکہ زمین کے کٹاؤ سے بچا جا سکے تاہم یہ اقدامات ہمیشہ کامیاب بھی نہیں رہتے۔
/urdu/magazine-60567244
قدیم ادب میں بھی جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ کڑوا شہد ناجانے کب سے طبی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
’کوربیزیلو‘ نامی اس شہد کا ذائقہ انسان کی زبان کے لیے کسی پہیلی سے کم نہیں۔ شہد کی مٹھاس کی توقع کرنے والوں کے لیے یقیناً یہ ایک حیران کُن تجربہ ہوتا ہے جب وہ اس شہد کو پہلی بار چکھتے ہیں جس کا ذائقہ چمڑے، دھوئیں اور لیکورائس کے مختلف ذائقوں کا امتزاج ہے۔ یہاں پر یہ شہد اکھٹا کرنے والے خانہ بدوش گذشتہ دو ہزار سال سے اس خوشبودار خزانے کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ جنگلی سٹرابری درخت کے سفید گھنٹی نما پھولوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے لگاتے ہیں اور یہ کڑوا شہد حاصل کرتے ہیں۔ سیسرو غالبا اس راز سے لاعلم تھے کہ اپنی کڑواہٹ سے ہٹ کر یہ شہد اپنے اندر کتنے غذائی اجزا چھپائے ہوئے ہے۔ وٹامن اور معدنی دولت سے مالامال یہ شہد کئی جانے اور کچھ انجانے طبی فوائد کا بھی حامل ہے۔ سارڈینیا کے باسیوں کی طویل العمری کا راز بھی شاید یہی شہد ہے جن میں سے اکثر سو سال تک کی عمر تک بھی جیتے ہیں۔ روایتی طب میں اس شہد کو سونے (نیند) میں مدد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کھانسی اور اسہال کے ساتھ ساتھ یہ شہد رسولی کے خلاف بھی آزمودہ ہے جس کی وجہ اس کی وہ خوبی ہے جو اسے کسی بھی قسم کی سوزش کے خلاف موثر بناتی ہے۔ سائنسی تجربے اور تحقیق کو ایک طرف رکھ دیں۔ قدیم ادب میں بھی جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ کڑوا شہد ناجانے کب سے طبی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ کوربیزیلو کا پھل سست رفتاری سے اُگتا ہے اور اس دوران کئی بار رنگ بھی بدلتا ہے، پیلے سے نارنجی اور پھر سرخ۔ لیکن مکھیاں صرف اس درخت کے ہلکے میٹھے سفید پھولوں کا انتظار کرتی ہیں جو اکتوبر سے دسمبر تک اُگتے ہیں۔ انھی پھولوں کے رس کو یہ مکھیاں ایک نایاب شہد میں بدل دیتی ہیں۔ یہ پھول بھی اپنی ذات میں نایاب ہیں۔ شہد پیدا کرنے کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی پنکھڑیاں دھیرے دھیرے کھلتی ہیں۔ لیکن ان کی نازکی جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی خطرناک بھی کیوںکہ اگر اس دوران موسلا دھار بارش ہو جائے تو ان کو کچل سکتی ہے۔ خراب موسم میں وہ اپنے چھتے میں محصور ہو کر رہ جاتی ہیں اور اپنے من پسند رس کو چکھنے کی لذت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ گھنٹی نما ان پھولوں میں دوسری قسم کے پھولوں کی نسبت صرف آدھا ہی رس بنتا ہے۔
/urdu/world-53035209
انتھونی نیویارک کے فائر ڈیپارٹمنٹ کی ایمرجنسی میڈیکل سروس کے نائب صدر اور لیفٹیننٹ پیرامیڈک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران انھوں نے ہارٹ اٹیک سے جتنے مریضوں کو مرتے دیکھا، اتنے انھوں نے گذشتہ پانچ برسوں میں نہیں دیکھے تھے۔
انتھونی المجیرہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پچھلے دو مہینوں میں دل کی دھڑکن بند ہونے سے اتنی اموات دیکھی ہیں جتنی انھوں نے پانچ برسوں میں نہیں دیکھی تھیں انتھونی نیویارک کے فائر ڈیپارٹمنٹ کی ایمرجنسی میڈیکل سروس کے نائب صدر اور لیفٹیننٹ پیرامیڈک ہیں۔ اب نیویارک میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے اور دو روز قبل صرف 36 نئے مریض سامنے آئے جو وبا کے پھیلنے کے بعد سے نئے مریضوں کی کم ترین تعداد ہے۔ نیو یارک میں پیرا میڈکس اب بھی کورونا وائرس کی علامات والے مریضوں کی کالز سُن رہے ہیں لیکن ایسی کالز کا حجم اب اتنا زیادہ نہیں ہے۔ لیکن گذشتہ کئی ماہ کے دوران نیویارک کے رہائشیوں کو جس صورتحال کا سامنا رہا ہے، 43 سالہ انتھونی ابھی تک اس سے سمجھوتہ نہیں کر پائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بطور معاون طبی عملہ (پیرامیڈک) موت کو قریب سے دیکھنا، ان کے پیشے کا حصہ ہے لیکن گذشتہ دو ماہ کے دوران انھوں نے ہارٹ اٹیک سے جتنے مریضوں کو مرتے دیکھا ہے، اتنے انھوں نے گذشتہ پانچ برسوں میں نہیں دیکھے تھے۔ ان میں اکثریت ایسے مریضوں کی تھی، جو کورونا وائرس سے متاثر تھے۔ ’میں نے وہاں موجود خاتون سے پوچھا کہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ ہفتے ہلاک ہو گئے ہیں۔ مرنے والی عورت کو نہیں معلوم تھا کہ اُن کا وہ بیٹا جو اُن کی دیکھ بھال کر رہا تھا وہ خود اب اس دنیا میں نہیں رہا۔‘ انتھونی اور ان کے معاون عملے نے گھر میں اس شخص کی نبض کو پھر سے چالو کر دیا تھا اور انتھونی کو قوی امید تھی کہ یہ شخص اب بچ جائے گا۔ انتھونی کو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔ انتھونی کہتے ہیں کہ کریگوری ہاج کے جواب نے ان کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ گریگوری نے کہا ’میں اپنی نوکری کے علاوہ اپنے بل ادا کرنے کے لیے ان مہارتوں کو بروئے کار لاتا ہوں لیکن یہ کام میں اس لیے کرتا ہوں کہ میں ہارلیم میں پلا بڑھا ہوں اور میں اپنی کمیونٹی کی کسی انداز میں خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‘ انتھونی کہتے ہیں کہ گریگوری کے جواب سے میں نے سیکھا کہ یہ شخص جس کے پاس ایسا ذہن ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن وہ پیرا میڈک کا کام اس لیے کر رہا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ انتھونی اپنے ڈیپارٹمنٹ پر کووڈ 19 کی دوسری لہر کے اثرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اگر دوسری لہر آتی ہے تو ہم اس کا بھی مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔‘
/urdu/world-49813880
برطانوی خفیہ ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ نئی فائلز کے مطابق ایجنسی نے سرد جنگ کے زمانے کے اہم جاسوسوں میں سے ایک کے بارے میں ملنے والی خفیہ اطلاع کو نظر انداز کر دیا تھا کیونکہ یہ اطلاع اس کی حاسد بیوی نے دی تھی۔
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی جانب سے جاری کردہ نئی فائلز کے مطابق ایجنسی نے سرد جنگ کے زمانے کے اہم جاسوسوں میں سے ایک کے بارے میں ملنے والی خفیہ اطلاع کو نظر انداز کر دیا تھا کیونکہ یہ اطلاع اس کی حاسد بیوی نے دی تھی۔ ہاؤٹن اور ان کی محبوبہ ایتھل گی برطانوی آبدوزوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات چوری کر کے روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے افسر گورڈن لنسڈیل کے حوالے کرتے تھے۔ منگل کو نیشنل آرکائیو میں فائلز جاری ہوئیں جن میں ان دونوں کی جانب سے جیل میں ایک دوسرے کو لکھے جانے والے خطوط بھی شامل تھے۔ سنہ 1961 میں ایک انٹرویو کے دوران ہاؤٹن کی بیوی نے بتایا کہ جب ان کے شوہر بار بار لندن جانے لگے تو انھیں شک ہوا۔ ایک بار لندن سے واپس آ کر انھوں نے پاؤنڈز کے نوٹ نکال کر ہوا میں اچھال دیے۔ بعد میں انھوں نے وہ نوٹ جمع کرنے میں اپنے شوہر کی مدد کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے گھر میں اپنے شوہر کی میز پر خاکی رنگ کے پارسل دیکھے۔ انھوں نے ایک لفافہ کھول کر دیکھا تو اس پر 'ٹاپ سیکریٹ' لکھا تھا۔ ہاؤٹن کی بیوی کا یہ بھی دعوی ہے کہ انھوں نے ایک بار انھیں پہاڑ سے دھکا دینے کی کوشش بھی کی تھی اور ایک بار شراب کے نشے میں یہ بھی کہا 'تم میرے بارے میں بہت کچھ جانتی ہو میں تم سے جان چھڑاؤں گا‘ ہاؤٹن کے مقدمے کے بعد ایم آئی فائیو کے سینیئر اہلکار ای ایم فرنویل جونز کا کہنا تھا کہ اگر ہم ہاؤٹن کے بارے میں ملنے والی اطلاع کی تحقیقات کرتے تو شاید ہمیں ان کی حقیقت پہلے معلوم ہو جاتی اور ہم خفیہ اطلاعات افشا ہونے سے بچا پاتے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے ہاؤٹن کے ساتھ گورڈن لنسڈیل کو پکڑ کر روسی انٹیلی جنس سروس کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ ہاؤٹن کی بیوی نے اپنے باسز کو آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سنہ 1956 میں ایک فلاحی افسر کو بتایا ’ان کے شوہر لوگوں کو خفیہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔‘ وہ جانتے تھے کہ ہاؤٹن نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور اپنی محبوبہ ایتھل گی سے ملاقات کی اور لکھا کہ شاید یہ الزام ’لمحہ بہ لمحہ اور بالکل اس کے باوجود‘ لگایا گیا تھا۔ ہاؤٹن نے ایم آئی فائیو میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنے مقدمے کی سماعت میں جھوٹ بولا تھا۔ یہ واضح تھا کہ ایتھل گی نے بھی عدالت کو گمراہ کیا تھا۔
/urdu/pakistan-51469088
ثنا اور ان کی بہن سمیرا نے 2018 میں ’ہر پاکستان‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد لڑکیوں اور خواتین کو ماہواری اور اس کے دوران صحت کا خیال رکھنے کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔
اس محفل کا اہتمام دو بہنوں ثنا اور سمیرا لوکھنڈوالا کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ لڑکیاں کراچی کی کچی آبادیوں میں تعلیم کے ذریعے ماہواری سے متعلق غربت ختم کرنے اور خفظان صحت پر آگاہی دینے کے ایک پروجیکٹ ’Her Pakistan‘ پر کام کر رہی ہیں۔ لہٰذا مئی 2018 میں ثنا اور ان کی بہن سمیرا نے ’Her Pakistan‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ماہورای اور اس کے دوران حفظان صحت سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ثنا نے بتایا ’پاکستان میں ماہواری پر بات کرنا اتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ جب ہم کمیونٹیز میں جاتے ہیں تو ہم براہ راست اس پر بات نہیں کرتے۔ ہم عام طور پر جب ایک سیشن شروع کرتے ہیں تو خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق عام مسائل پر بات کرتے ہیں اور پھر ماہواری کو سامنے لاتے ہیں۔‘ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد خواتین کو اپنے پہلے پیریڈز سے قبل ماہواری سے متعلق کوئی معلومات ہی نہیں ہوتی ہیں اور تقریباً 80 فیصد خواتین اس دوران اپنا خیال رکھنے سے متعلق پُراعتماد نہیں ہوتی ہیں۔ ٹیچر ندا امام بخش نے بھی اپنی طالبات کے ساتھ ’Her Pakistan‘ کے زیر اہتمام ایک سیشن میں شرکت کی جس میں والدین کو بھی بلایا گیا تھا۔ لڑکیوں اور والدین کو ماہواری کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اہمیت سےمتعلق آگاہ کیا گیا۔ ’والدین کا خیال تھا کہ لڑکیوں سے اس بارے میں اس وقت تک بات نہیں کرنی چاہیے جب تک وہ اس سے گزر نہیں جاتیں۔ لیکن سیشن کے بعد اس بارے میں ان کی رائے بالکل مختلف ہو چکی تھی۔‘ ندا نے بتایا کہ والدین کو بلوغت اور حیض سے متعلق بچیوں کے ساتھ کھل کر گفتگو کرنے کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ کہتی ہیں ’ان کا ردعمل بہترین تھا۔‘ چونکہ یہ ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے اس لیے ثنا اور سمیرا سیشنز کے دوران اپنے مرد کولیگز کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتیں۔ خواتین مردوں کے سامنے اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ یہ بہنیں بتاتی ہیں کہ جب وہ لوگوں سے اس بارے میں بات کرتی ہیں تو بہت بار ان کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور کبھی کبھی لوگ ان کے کام کی وجہ سے ان کے بارے میں رائے بھی قائم کر لیتے ہیں۔ ’Her Pakistan‘ کی بانیوں کو آن لائن تنگ بھی کیا جاتا ہے جبکہ دھمکیاں بھی ملتی ہیں تاہم ان کی پروجیکٹ کی کامیابی انھیں رکنے نہیں دیتی۔ وہ ماہواری سے متعلق رکاوٹوں کو توڑنے اور خواتین کو معلومات کے ذریعے ان کے جسم پر کنٹرول دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے کام کے اعتراف میں فلاحی ادارے آکسفیم نے انھیں اس سال ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
/urdu/world-58996054
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نے کہا ہے کہ ’انڈیا نے 21 اکتوبر 2021 کو ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اب سے کچھ لمحے پہلے ہی انڈیا ایک ارب سے زیادہ ویکسین دے چکا ہے۔‘
انڈیا اس سال جنوری میں ویکسینیشن مہم شروع کرنے کے بعد سے اب تک کووڈ ویکسین کی ایک ارب سے زیادہ خوراکیں لگا چکا ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے 21 اکتوبر 2021 کو ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اب سے کچھ لمحے پہلے ہی انڈیا ایک ارب سے زیادہ ویکسین دے چکا ہے۔‘ انڈیا 2021 کے اختتام تک تقریباً ایک ارب افراد کو مکمل طور پر ویکسین دینے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے مہم کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ 278 دن میں ایک ارب کے ہدف تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ انڈیا اوسطاً روزانہ 30 لاکھ 60 ہزار ویکسین لگاتا ہے تاہم جنوری کے بعد سے روزانہ کی خوراکوں کی تعداد مستقل نہیں تھی اور اس میں وسیع پیمانے پر اونچ نیچ ہوئی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2021 کے آخر تک انڈیا میں تمام اہل بالغوں کو مکمل طور پر ویکسین دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہر دن ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ خوراکیں دی جائیں۔ 17 ستمبر کو انڈیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی 71 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک دن میں دو کروڑ سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں دے کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ انڈیا نے 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے اپنی پہلی ویکسین کی بھی منظوری دے دی ہے۔ حکومت نے ایک انڈین دوا ساز کمپنی سیپلا کو موڈرنا ویکسین درآمد کرنے کا بھی اختیار دیا ہے جس نے کووڈ۔19 کے خلاف تقریباً 95 فیصد افادیت ظاہر کی ہے۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ انڈیا کو اس کی کتنی خوراکیں فراہم کی جائیں گی۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ غریب ممالک کو ضرورت کے مطابق ویکسینز نہ ملنے کی وجہ سے وبا کم از کم مزید ایک سال جاری رہے گی۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال کے شروع میں برطانیہ کو پانچ لاکھ 39 ہزار 370 فائزر کی خوراکیں ملی تھیں جبکہ کینیڈا نے ایک ملین کے قریب آسٹرا زینیکا کی خوراکیں لی تھیں۔ آکسفیم کے صحت کے عالمی مشیر روہت مالپانی نے کہا ہے کہ کینیڈا اور برطانیہ تکنیکی طور پر اس ذریعے سے ویکسین حاصل کرنے کے حقدار ہیں کیونکہ انھوں نے کوویکس میکانزم میں ادائیگی کی ہے، لیکن انھوں نے مزید کہا کہ یہ پھر بھی ’اخلاقی طور پر ناقابل دفاع‘ ہے کیونکہ دونوں نے اپنے دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے لاکھوں خوراکیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ ’انھیں کوویکس سے یہ خوراکیں حاصل نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ یہ ’ڈبل ڈپنگ‘ (دونوں ذرائع سے دولت/فائدہ حاصل کرنا) کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک جو پہلے ہی قطار میں پیچھے ہیں، زیادہ انتظار کریں گے۔‘
/urdu/regional-61382088
سری لنکا میں معاشی بحران کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کے دوران ملک کے وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ مشتعل مظاہرین نے مہندا راجا پکشے کے خاندان سمیت کئی ارکان اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔
سری لنکا میں مشتعل مظاہرین نے حکومت کے حامیوں سے پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکمران راجا پکشے خاندان اور متعدد اراکین اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے پیر کو استعفیٰ دیا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ سری لنکا میں جاری پرتشدد مظاہروں میں سوموار سے اب تک حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمان سمیت سات افراد ہلاک جبکہ 190 زخمی ہو چکے ہیں اور حکام کی جانب سے ملک بھر میں عائد کرفیو میں بدھ تک توسیع کر دی گئی ہے تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں۔ سری لنکا میں مہنگائی اور بجلی کی بندش کے خلاف گذشتہ مہینے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سری لنکا اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بحرالہند میں سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں امید ہے کہ اس استعفے سے بحران حل ہونے میں مدد ملے گی تاہم صدر گوتابایا راجاپکشے کی موجودگی میں اُن کے مخالفین کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا امکان کم ہے۔ اکثر سری لنکن چاہتے ہیں کہ گوتابایا راجا پکشے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ سری لنکا کو سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت نے فوری مالی امداد کی درخواست کی ہے۔ مظاہرین نے کولمبو میں صدر گوتابایا راجا پکشے کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے بعد فوج کو تعینات کیا گیا اور بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ اقتصادی غیر یقینی کے شکار ملک میں مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ حیران کُن نہیں تھا۔ کئی دن سے چہ مگوئیاں چل رہی تھیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے کیونکہ سننے میں آ رہا تھا کہ اُن کے بھائی نے بھی اُن سے اقتدار چھوڑنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ جب وزیرِ اعظم کے استعفے کی خبر کولمبو کی گلیوں میں پہنچی تو لوگوں کو خوشی سے ناچتے ہوئے دیکھا گیا۔ کئی ہفتوں سے اُن کا مطالبہ تھا کہ دہائیوں سے سری لنکا پر حکومت کر رہے راجاپکشے خاندان کو اب مستعفی ہونا چاہیے۔ پورٹ سٹی پراجیکٹ کے تحت 269 ​​ہیکٹر پر مشتمل کل اراضی میں سے 116 ہیکٹر اراضی 99 برسوں کے لیے چین کی مواصلاتی تعمیراتی کمپنی کو لیز پر دی گئی ہے۔ یہ سری لنکا کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں بڑے پیمانے پر معاشی، تجارتی اور رہائشی منصوبے شامل ہیں۔
/urdu/pakistan-51949815
حکومت سندھ کے محکمہ قدرتی آفات نے رضاکاروں کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس حوالے سے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے گئے ہیں۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مقامی طور پر کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سوال خیرپور کے گاؤں جانجی برڑا کے نوجوانوں کے بھی ذہن میں آیا ہے اور اس کا جواب بھی انھوں نے خود تلاش کیا اور پورے گاؤں میں اپنی مدد آپ کے تحت جراثیم کش دوا کا سپرے کیا۔ جانجی برڑو گاؤں کے نوجوان آکاش بررڑو نے بی بی سی کو بتایا کہ سکھر میں زائرین آرہے تھے، ان میں پازیٹو کیس بھی سامنے آئے ہیں اور اس صورتحال میں انھوں نے حفاظتی اقدامات کے طور پر سپرے کرنے کا فیصلہ کیا ورنہ ان کے گاؤں میں میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ ’وائرس کی افراتفری مچی ہوئی ہے۔ ہم نے آپس میں مشاورت کی کہ کیا کرنا چاہیے تو تجویز آئی کہ جراثیم کش سپرے کرانا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور مقامی ماہرین سے معلوم کیا کہ کیا دوائیں استعمال کریں تو انھوں نے مشورہ دیا کہ ڈیٹول استعمال کریں، اس میں ہم نے مرغی کے فارم میں استعمال کی جانے والی جراثیم کش دوائی بلورین کا بھی استعمال کیا جس سے انسان یا کسی جاندار کو نقصان نہیں پہنچتا۔‘ ادھر حکومت سندھ کے محکمہ قدرتی آفات نے رضاکاروں کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس میں حکومت کے مددگار بنیں۔ محکمہ قدرتی آفات کا کہنا ہے کہ ان رضاکاروں کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یا جو متعلقہ محکمہ ہے، ان سے تربیت کرائی جائے گی، اور جن سرکاری یا نجی شعبوں میں کام بند ہو گیا ہے وہاں کے ورکر ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں انہیں ہم اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ’جیسے سکھر میں اتنے لوگ آگئے ہیں کہ انہیں ہینڈل کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ ہمارا محدود سٹاف ہوتا ہے اس مقصد کے لیے ہم رضاکار چاہتے ہیں۔ ہم نے سکھر قرنطینہ سینٹر میں قیام کی سہولیات میں حکومت کو مدد فراہم کی تھی، چارپائیوں، بستروں اور پانی کا بندوبست کیا۔‘ نجی تعلیمی ادارے اقرا یونیورسٹی کے چانسلر حنید لاکھانی نے بھی عوام میں شعور اور آگاہی کے لیے آن لائن کورسز کا آغاز کیا ہے، جس میں نہ صرف اقرا یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات جبکہ دیگر دلچسپی رکھنے والے نوجوان بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ کیمپ میں رضاکارانہ طور پر سرگرم تنظیم وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری چوہدری اظہر کا کہنا ہے کہ کیمپ میں حکومت کی جانب سے دو وقت کھانا اور ایک وقت کا ناشتا فراہم کیا جارہا ہے۔ تاہم شروع میں کھانا تاخیر سے آتا تھا مگر اب کھانا وقت پر پہنچ جاتا ہے جس کی تقسیم وہ اور ان کے رضا کار کرتے ہیں۔
/urdu/pakistan-60496544
پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔
یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔ کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کو ’ناموزوں‘ قرار دیا اور تجویز کیا کہ دارالحکومت کے لیے مناسب ترین مقام راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کی سطح مرتفع کا علاقہ ہے، یہ مقام راولپنڈی کے شمال مشرق میں ایک وادی ہے جس کے شمالی سمت پہاڑیوں کا ایک ہلال نما سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ 15 جولائی 1959 ہی کو اخبارات میں ممتاز کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت کو منتقل کرنے کے بارے میں حکومت کا اقدام مستحسن ہے اور بانی پاکستان بھی دارالحکومت کو وادی پوٹھوہار میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بانی پاکستان سے منسوب اپنے اس انکشاف کا کوئی دستاویزی حوالہ نہیں دیا۔ اس اشتہار میں کہا گیا کہ ’پاکستان کا نیا دارالحکومت راولپنڈی کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔ نئی آبادی ہو گی اور لازمی امر ہے کہ اس کا کوئی نام رکھا جائے گا، آپ اس کا کیا نام تجویز کرتے ہیں، ہم آپ کا تجویز کردہ نام شائع کریں گے، اگر قارئین کرام میں سے کسی صاحب کا تجویز کردہ نام حکومت نے منظور کر لیا یا حکومت کی کمیٹی نے بھی وہی نام رکھا جو قارئین کرام میں سے کسی نے تجویز کیا ہو تو ان صاحب کی خدمت میں ادارہ قندیل کی جانب سے ایک ہزار روپیہ بطور انعام پیش کیا جائے گا۔ اگر ایک سے زیادہ قارئین نے ایک ہی نام تجویز کیا تو ہم ان صاحب کا نام شائع کریں گے جنھوں نے سب سے پہلے ہمیں یہ نام بھیجا ہو گا۔‘ 24 فروری 1960 کو فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وادی پوٹھوہار میں قائم کیے جانے والے پاکستان کے اس مجوزہ وفاقی دارالحکومت کا نام ’اسلام آباد‘ ہو گا۔ اس کے جواب میں 15 اپریل 1960 کو حکومت پاکستان نے قاضی عبدالرحمان کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت کے نام ان کا خط موصول ہوا جن کی ہدایت پر ان کا نام پاکستان کے اس مجوزہ دارالحکومت میں ایک پلاٹ پیش کیے جانے کے لیے درج کر لیا گیا ہے۔
/urdu/regional-53646653
انڈیا اور چین کے درمیان کمانڈر سطح کی بات چیت کے باوجود لداخ میں صورت حال کشیدہ ہے اور ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر فوج کی مزید تعیناتی رپورٹ کی گئی ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان کمانڈروں سطح کی بات چیت کے باوجود لداخ میں صورت حال کشیدہ ہے اور ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر فوج کی مزید تعیناتی رپورٹ کی گئی ہے۔ دریں اثنا سوموار کو انڈیا کی دوسری خبررساں ایجنسی اے این آئی نے خبر دی ہے کہ چین کی جانب سے 17 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کے جواب میں انڈیا نے لداخ میں دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) اور دیپسانگ میدانی علاقے میں فوج کی بھاری نفری تعینات کی ہے اور اس کے ساتھ ٹینک کے ریجیمنٹس بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ تعیناتی قراقرم درے کے پاس پیٹرولنگ پوائنٹ 1 سے دیپسانگ کے میدانی علاقوں میں کی گئی ہے جہاں چین نے اپریل اور مئی کے مہینے سے 17 ہزار سے زیادہ فوجی جمع کر رکھے ہیں اور پی پی-10 سے پی پی 13 کے درمیان انڈیا کی پیٹرولنگ کو روک رکھا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے مطابق سینیئر کمانڈر سطح کی بات ایل اے سی پر چین کے زیر انتظام علاقے مولڈو میں ہوئی جہاں انڈین مندوبین نے واضح انداز میں کہا کہ مشرقی لداخ میں پہلے جیسی حالت کی بحالی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ باقی ماندہ متنازع علاقے سے اپنی فوج فورا واپس ہٹائے۔ خیال رہے کہ گذشتہ مہینوں کے دوران لداخ کے علاوہ کئی دوسرے مقامات پر انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نظر آئی ہے جو ابھی تک کسی نہ کسی صورت جاری ہے اور مئی کے مہینے میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں انڈیا کے 20 فوجی جوان ہلاک ہوگئے تھے لیکن چین کی جانب سے نقصانات کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ اتوار کو سینیئر کمانڈر سطح کی پانچویں دور کی بات چیت میں علاقے میں فوج کی مزید کمی پر توجہ مرکوز رہی لیکن دونوں فریق اپنی اپنی افواج اور حکومت سے اس معاملے میں تفصیلی بات چیت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ پی ٹی آئی کے مطابق فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نراونے کو سوموار کو بات چیت کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ مشرقی لداخ کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو بھی اس بات جیت کے متعلق بریف کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ جب انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی تو ان دونوں افراد نے چینی حکام سے رابطہ کیا تھا اور صورت حال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا تھا۔
/urdu/sport-59242592
ٹی ٹونٹی میں اگر کوئی اوپنر اپنی اننگز کو ڈیتھ اوورز تک کھینچ لائے تو وہ بولنگ سائیڈ کے لئے خاصا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ محمد رضوان کی ہی نمیبیا کے خلاف اننگز یاد کر لیجئے۔ اس چیز کا اندازہ انگلینڈ سے زیادہ کس کو ہو سکتا تھا، جو چند ہی روز پہلے بٹلر کی سینچری کی بدولت ڈیتھ اوورز میں فیلڈنگ کپتان کی حالت دیکھ چکے تھے۔
ٹی ٹونٹی میں اگر کوئی اوپنر اپنی اننگز کو ڈیتھ اوورز تک کھینچ لائے تو وہ بولنگ سائیڈ کے لئے خاصا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ محمد رضوان کی ہی نمیبیا کے خلاف اننگز یاد کر لیجئے۔ اور اس چیز کا اندازہ انگلینڈ سے زیادہ کس کو ہو سکتا تھا جو چند ہی روز پہلے بٹلر کی سینچری کے ہنگام ڈیتھ اوورز میں فیلڈنگ کپتان کی حالت دیکھ چکے تھے۔ ایسے مواقع پر اگر فیلڈنگ کپتان کے پاس آپشنز کا تنوع ہو تو وہ کسی ایسے بولر کو استعمال کر سکتا ہے جو میچ میں زیادہ 'ایکسپوز' نہ ہوا ہو۔ ولیمسن نے ٹاس پر پہلے بولنگ کا فیصلہ تو یہ سوچ کر کیا تھا کہ اوس کے باعث دوسری اننگز میں بولنگ کرنا دشوار یو گا مگر ابوظہبی کی اس شام اوس ویسا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ مسئلہ تھا تو ٹائمل ملز کی غیر موجودگی میں ڈیتھ اوورز کے لئے مورگن کے محدود وسائل کا۔ کیوی بولنگ بھی اپنی اس فارم میں نہیں تھی جو اس ٹورنامنٹ کے پاور پلے میں ان کا خاصہ رہا ہے۔ بٹلر کی اہم وکٹ تو جلدی ہاتھ آ گئی مگر معین علی کے لئے شاید کوئی خاص پلان نہیں بنایا گیا تھا اور یکے بعد دیگرے سبھی کیوی بولرز نے ان کے زون میں بولنگ کی جسے وہ فراخ دلی سے باؤنڈری کے پار رسید کرتے رہے۔ اتنے بڑے اور اہم مقابلوں کی تیاری میں عموماً تھنک ٹینک کا زیادہ دھیان بڑے پرفارمرز پر مرکوز رہتا ہے۔ کیویز کو یہ یقینی بنانا تھا کہ وہ بٹلر کو جلد آؤٹ کریں اور ان کا پلان کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ دوسری جانب انگلینڈ کا یہ ہدف تھا کہ کم داموں میں ولیمسن اور گپٹل کی وکٹیں اڑائی جائیں۔ وہ بھی اس میں کامیاب رہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ تحیر آمیز ہے کہ مچل نے اس ورلڈ کپ سے پہلے ٹی ٹونٹی میں اوپننگ کی ہی نہیں تھی۔ وہ لوئر آرڈر بلے باز تھے جن کا کام ڈیتھ اوورز میں باؤنڈریز لگانا تھا۔ اور ڈیتھ اوورز کا یہی تجربہ اس بڑے میچ کی یادگار اننگز میں بھی دکھائی دیا۔ لیکن کانوے اور مچل کی صبر آمیز شراکت نے کیوی اننگز کا قبلہ درست کیا اور جب نیشم نے اپنی پاور ہٹنگ کے جوہر دکھائے تو میچ کا رخ ہی بدل گیا۔ مگر پھر عین قریب جا کر جب نیشم آؤٹ ہوئے تو سوال صرف یہ تھا کہ کہیں پھر یہاں کوئی ڈرامہ تو نہ ہو جائے۔ ڈیرل مچل نے اننگز کا آغاز خاصے مشکل حالات میں کیا۔ وکٹ دہری چال چل رہی تھی اور باؤنس ٹھیک سے پلے نہیں پڑ رہا تھا لیکن وہ صبر سے ڈٹے رہے اور پندرہ اوورز کے بعد جب سبھی تخمینے انگلش کیمپ کی جانب جھکے ہوئے تھے، مچل کے صبر نے سبھی تخمینوں کو مات کر دیا۔
/urdu/regional-55648061
فیشن ڈیزائنر سواپنل شندے دیپیکا پڈوکون، کترینہ کیف، کرینہ کپور، انوشکا شرما، شردھا کپور اور سنی لیون سمیت کئی اداکاراؤں کی فیشن ڈیزائننگ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ اب سائشا شندے ہیں۔
بالی وڈ کے مشہور فیشن ڈیزائنر سواپنل شندے اب سائشا شندے بن گئے ہیں۔ انھوں نے اپنی جنس تبدیلی کروائی اور ٹرانس وومن ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سائشا شندے کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ قدم اٹھانا آسان نہیں تھا اور وہ دوھری زندگی گزار رہی تھیں۔ فیشن ڈیزائنر سواپنل شندے دیپیکا پڈوکون، کترینہ کیف، کرینہ کپور، انوشکا شرما، شردھا کپور اور سنی لیونی سمیت کئی اداکاراؤں کی فیشن ڈیزائننگ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بی بی سی ہندی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں اب ٹرانس وومن ہوں، لیکن سچ بتاؤں تو مجھے اب بھی یقین نہیں ہے کہ میں اب سائشا شندے ہوں۔ لوگ میرے اس نام کے عادی نہیں ہیں۔‘ ’خاندان اور دوست احباب مجھے برسوں سے سواپنل کہتے ہیں، لہٰذا جب کوئی مجھے سائشا کہتا ہے تو میں اس طرف توجہ نہیں دیتی۔ میں بھول جاتی ہوں کہ میں سائشا ہوں۔ اب وقت ہے کہ لوگ میری اس نئی شناخت کو اپنائیں اور محسوس کریں۔ سچ پوچھیں تو میں ابھی بہت خوش ہوں۔‘ ’بچپن میں میں نے اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ اس کے بارے میں بات بھی نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں بڑی ہوئی تو ایک ہم جنس پرست مرد سے واقفیت قائم ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہم جنس پرست ہوں لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ میں ہم جنس پرست نہیں ہوں اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں جو ہوں وہ دنیا کے سامنے لاؤں گی، وہ بھی بلا خوف و خطر۔‘ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے شندے کا کہنا ہے کہ ’میرا بچپن بہت دکھی اور برا تھا، خاص طور پر میری سکول کی زندگی۔ لوگ بھی مختلف طرح سے چھیڑا کرتے تھے۔ میرے لیے 5 سال سے 17 سال کی عمر کا دور بدترین تھا۔‘ کیا اپنے جسم کے ساتھ اس طرح کی تبدیلی آسان ہے؟ شندے کا کہنا ہے کہ اس میں بہت محنت کی ضرورت ہے۔ ایک نیا نام اور ایک نیا چہرہ لے کر دنیا میں آنے کے بعد انٹرٹینمنٹ اور فیشن کی دنیا سے کس قسم کا رد عمل مل رہا ہے؟ اس کے بارے میں سائشا کا کہنا ہے کہ ’مجھے بہت پیار اور تعاون مل رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے کام میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ میری سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔‘ ’پہلے میرے کپڑے خواتین اور خواب دیکھنے والوں کے لیے ہوتے تھے لیکن اب یہ کپڑے خواتین اور سائشا کے لیے بنائے جائیں گے۔ اب میں خود اپنے کپڑے پہنتی ہوں اور پھر مجھے اس بات کی بہتر سمجھ آ جاتی ہے کہ خواتین کس طرح کے آرام دہ اور پرسکون کپڑے چاہتی ہیں۔‘
/urdu/world-53976432
فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے پیغمبر اسلام کے وہ خاکے پھر سے شائع کیے ہیں جن کی بنا پر سنہ 2015 میں اس پر حملہ ہوا تھا۔
فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے پیغمبر اسلام کے وہ خاکے پھر سے شائع کیے ہیں جن کی بنا پر سنہ 2015 میں اس پر حملہ ہوا تھا۔ چارلی ایبڈو پر یہ حملہ سات جنوری 2015 کو کیا گیا تھا۔ میگزین کی جانب سے یہ اشاعت ایسے موقع پر کی گئی ہے جب حملے میں ملوث دو شدت پسندوں کو مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے والے چودہ افراد پر بدھ کو مقدمے کا آغاز ہو رہا ہے۔ چارلی ایبڈو کے تازہ ترین جریدے کے سرِورق پر وہ خاکے دوبارہ شائع کیے گئے ہیں جو اس سے قبل ایک ہالینڈ کے اخبار میں چھاپے گئے تھے۔ اس جریدے کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 کی ہلاکتوں کے بعد انھیں پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپنے کے لیے مسلسل کہا جاتا رہا ہے۔ اخبار نے مزید کہا کہ ’جنوری 2015 کے دہشت گرد حملوں کا مقدمہ اس ہفتے شروع ہونے سے قبل ان کو دوبارہ شائع کرنا ضروری تھا۔‘ چودہ افراد پر اسلح حاصل کرنے اور حملہ آوروں کو چارلی ایبڈو اور ایک دن بعد یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ اور ایک پولیس افسر پر حملے کرنے میں مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔ جنوری 2015 کی سات تاریخ کو دو بھائیوں سعد اور شریف کواچی نے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی جس میں اس اخبار کے ایڈیٹر سٹیفن شربونیئر، چار کارٹونسٹ، دو کالم نگار، ایک کاپی ایڈیٹر اور ایک مہمان جو اس وقت وہاں موجود تھا، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس ایڈیٹر کا محافظ اور ایک پولیس والا بھی فائرنگ کے دوران مارے گئے تھے۔ پولیس نے جب حملہ آوروں کی تلاش شروع کی جو کہ آخر کار مارے گئے، تو پیرس شہر کے مشرقی حصے میں ایک اور واقع پیش آیا۔ ایمدی کولابلی نے جو کواچی برادران کا ایک ساتھی تھا، ایک پولیس خاتون اہلکار کو ہلاک کر کے کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس نے نو جنوری کو یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ میں چار یہودیوں کو قتل کر دیا اور خود پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا۔ ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں احمدی نے کہا تھا کہ اس نے یہ حملہ دولت اسلامیہ کے نام پر کیا ہے۔ چارلی ایبڈو ایک ہفتہ وار جریدہ ہے جس میں طنزیہ انداز میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیتھولک، یہودیت اور اسلام کے بعض پہلوؤں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے یہ لمبے عرصے سے تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کے بعد سے اس کے صحافیوں اور عملے کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں اور سنہ 2011 میں اس پر پیٹرول بم بھی پھینکے گئے تھے۔ اس واقع کے بعد دنیا بھر میں خاکوں کی اشاعات پر شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔
/urdu/live/regional-58202854
افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں حکومت بنانے، خواتین کے معاشرے میں کردار، میڈیا کی آزادی سمیت متعدد موضوعات پر بیانات دیے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی نائب صدر نے بائیڈن انتظامیہ پر 'طالبان سے معاہدہ' توڑنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔
افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں حکومت بنانے، خواتین کے معاشرے میں کردار، میڈیا کی آزادی سمیت متعدد موضوعات پر بیانات دیے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی نائب صدر نے بائیڈن انتظامیہ پر 'طالبان سے معاہدہ' توڑنے کا دعویٰ کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ اپنے مضمون میں انھوں نے افغانستان سے انخلا کو ایران یرغمالیوں کے بحران کے بعد سے اب ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے توہین آمیز قرار دیا۔ سابق امریکی نائب صدر مائک پینس نے دعویٰ کیا صدر بائیڈن نے اس معاہدے کو توڑ دیا ہے جو پہلی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ کیا تھا۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کئی موضوعات پر بیانات دیے ہیں۔ بی بی سی کے ویڈیو جرنلسٹ ملک مدثر بھی اس پریس کانفرنس میں شریک تھے اور انھوں نے ہمیں اس کا آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کئی موضوعات پر بیانات دیے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے اہم نکات: افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کئی موضوعات پر بیانات دیے ہیں۔ بی بی سی کے ویڈیو جرنلسٹ ملک مدثر بھی اس پریس کانفرنس میں شریک تھے اور انھوں نے ہمیں اس کا آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے۔ افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔ بی بی سی نے نقشوں کی مدد سے اس پیش قدمی کا جائزہ لیا ہے۔ سنہ 2001 میں طالبان کو امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملہ آور ہونے والی افواج نے حکومت سے ہٹا دیا تھا لیکن اس کے بعد سے طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے اور اب اس گروپ نے پھر سے کابل پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نوے کی دہائی میں ہم نئے تھے، ہمارے پاس حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب ہم تجربہ کار ہیں اور ہمارے کئی ممالک کے ساتھ روابط ہیں، اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اکیلے حکومت نہیں چلا سکتی۔‘ افغانستان میں تشدد میں حالیہ اضافے اور طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان میں متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افراد نے وہاں سے جان بچا کر دارالحکومت کابل کا رخ کیا ہے۔
/urdu/world-60134557
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں روس کو گھیرنے کے لیے نیٹو اتحاد کو استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے تاہم نیٹو روس کے دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
یہ اتحاد جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، یوکرین کے لیے اپنی فوجی تیاری اور امداد کو بڑھا رہا ہے۔ یہ نیٹو کا رکن ملک نہیں لیکن اس کا ’شراکت دار ملک‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں اس اتحاد کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور ڈالتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔ نیٹو روس کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے رکن ممالک کی ایک بہت چھوٹی تعداد کی روس کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں اور یہ ایک دفاعی اتحاد ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی موجودہ تشکیل مغرب کو روس کے سکیورٹی مطالبات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سنہ 2014 کے ابتدا میں جب یوکرین نے اپنے روس نواز صدر کو معزول کر دیا تو روس نے یوکرین کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس نے روس نواز علیحدگی پسندوں کی بھی حمایت کی جنھوں نے مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ نیٹو نے اس میں مداخلت نہیں کی لیکن اس نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں فوجیں بلا کر روس کے اس اقدام کا جواب دیا۔ نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا تاکہ رکن ممالک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی روسی طیارے کو روکا جا سکے۔ امریکہ نے لڑائی کے لیے تیار 8500 فوجیوں کو فوری تعیناتی کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے لیکن امریکہ وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ان فوجیوں کو اسی صورت میں بھیجا جائے گا اگر نیٹو بھی اپنے فوری طور پر تعینات کیے جانے والے ریپڈ ریسپانس دستوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیتا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ’فرنٹ لائن پر لڑنے والوں‘ کے لیے تقریباً 90 ٹن کی ’مہلک امداد‘ بھیجی ہے جس میں گولہ بارود بھی شامل ہے جبکہ برطانیہ یوکرین کو کم فاصلے تک مار کرنے والے ٹینک شکن میزائل فراہم کر رہا ہے۔ نیٹو کے کچھ ارکان، جن میں ڈنمارک، سپین، فرانس اور نیدرلینڈز شامل ہیں، مشرقی یورپ میں لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز بھیج رہے ہیں تاکہ خطے میں دفاع کو مضبوط کیا جا سکے تاہم جرمنی نے یوکرین کی جانب سے دفاعی ہتھیاروں کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب فرانس کے صدر میکرون کشیدگی کو کم کرنے کے لیے روس سے بات چیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
/urdu/pakistan-55133179
پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی سے نجات پانے کے بعد وہ معمول سے زیادہ وزنی ہاتھی جسے دنیا کا تنہا ترین ہاتھی کا نام دیا گیا، اپنے نئے گھر کمبوڈیا پہنچ گیا ہے۔
پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی سے نجات پانے کے بعد وہ معمول سے زیادہ وزنی ہاتھی جسے دنیا کا تنہا ترین ہاتھی کا نام دیا گیا، اپنے نئے گھر کمبوڈیا پہنچ گیا ہے۔ کمبوڈیا میں کاون کا استقبال کرنے والوں میں دیگر افراد کے علاوہ امریکہ کی مشہور گلوکارہ شیر بھی شامل تھیں جنہوں نے اس ٹیم کے تمام اخراجات اٹھائے ہیں جو ایک قانونی جنگ کے بعد کاون کو پاکستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کاون کی آمد کے موقع پر گلوکارہ شیر ائیرپورٹ پر موجود تھیں کاون نے اپنی زندگی کے 35 برس اسلام آباد کے چڑیا گھر میں گزارے جہاں انتظامات غیرمعیاری تھے اور سنہ 2012 میں اپنی دوست ہتھنی کے مرنے کے بعد سے کاون شدید اکیلے پن کا شکار رہا۔ کمبودڈیا میں اسے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختص علاقے میں رکھا جائے گا جہاں وہ کھلی فضا میں دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ آزادانہ گھوم پھر سکے گا۔ کمبوڈیا کے شمال میں سیم ریپ کے ہوائی اڈے پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اداکارہ شیر کا کہنا تھا کہ 'میں بہت خوش ہوں اور مجھے بہت فخر ہے کہ وہ یہاں پہنچ گیا ہے۔ کاون واقعی ایک زبردست جانور ہے۔' سادھوؤں نے کاون کی صحت و سلامتی کے لیے منتر پڑھے اور اس کے جسم پر اپنا مقدس پانی چھڑکا جنگلی حیات کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایف پی آئی سے منسلک ڈاکٹر عامر خلیل کا کہنا تھا کہ پاکستان سے کمبوڈیا کے ہوائی سفر کے دوران کاون کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ ہوائی سفر کا عادی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ پرواز کے دوران ہاتھی پریشان نہیں ہوا بلکہ اس نے کھایا بھی اور کچھ دیر کے لیے سویا بھی۔ کمبوڈیا پہچنچنے کے بعد کاون کو ایک لاری میں منتقل کیا گیا کاون کے کمبوڈیا پہنچنے پر ملک کے نائب وزیر برائے ماحولیات نیتھ پھیکترا نے کہا کہ ان کا ملک کاون کو اپنے ہاں خوش آمدید کہتا ہے۔ ’آج کے بعد کاون دنیا کا سب سے اکیلا ہاتھی نہیں رہے گا۔ ہم مقامی ہتھنیوں کے ملاپ سے کاون کی افزائش نسل کریں گے۔ اس کا مقصد کاون کی جینز کو محفوظ کرنا ہے۔‘ سنہ 2012 میں اپنی دوست ہتھنی کے مرنے کے بعد سے کاون شدید اکیلے پن کا شکار رہا کاون نے اپنی زندگی کے 35 برس اسلام آباد کے چڑیا گھر میں گزارے جنگل کی جانب اپنے سفر کے آخری مرحلے پر روانہ ہونے سے پہلے بعض سادھوؤں نے کیلوں اور تربوزوں سے کاون کی تواضع کی۔ اس موقع پر انہوں نے کاون کی صحت و سلامتی کے لیے منتر پڑھے اور اس کے جسم پر اپنا مقدس پانی چھڑکا۔
/urdu/vert-cap-48878433
جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک عجیب سی دنیا ہے جہاں روزمرہ کی اشیا اور منشیات کی تجارت ہوتی ہے اور قرض کا ایک استحصالی چکر بھی موجود ہے جس سے نکلنا قیدیوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدیوں کی اپنی ہی ایک عجیب سی دنیا ہے جہاں روز مرہ کی اشیا اور منشیات کی تجارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قرض کا ایک استحصالی چکر بھی یہاں موجود ہوتا ہے جس سے نکلنا قیدیوں کے لیے نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہ مشہور کامک سیریز ایسٹیرکس اینڈ اوبیلکس کے گاؤں میں رہنے جیسا ہے جس میں ہر کسی کا اپنا اپنا چھوٹا سا کاروبار ہوتا ہے۔ نائی کا ریٹ تھوڑا زیادہ ہے۔ وہ ٹونا مچھلی اور شاور جیل کے بدلے میں حجامت بناتے ہیں اور کیوں کہ تمام قیدی اپنے ملاقاتیوں سے ملنے سے قبل خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں، اس لیے نائی کی کمائی کافی زبردست ہوتی ہے۔ جیل میں غیر قانونی شراب بھی مل سکتی ہے جو کہ اپنے معیار کے اعتبار سے 10 پاؤنڈ (تقریباً 2000 پاکستانی روپے) تک کی ہوسکتی ہے۔ منشیات، تمباکو اور سٹیریو سیٹ جیسی مہنگی چیزوں کی قیمت جیل سے باہر ادا کی جاتی ہے۔ 50 گرام تمباکو 500 پاؤنڈ (تقریباً 99 ہزار 500 روپے) تک کا ہوسکتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ خریدار کا جیل سے باہر موجود دوست ڈیلر کے جیل سے باہر موجود دوست کو ادائیگی کرتا ہے۔ جب ادائیگی کی تصدیق ہوجائے تب سامان خریدار کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ زندگی آپ کی سوچ سے زیادہ پریشان کن ہے کیوں کہ شدید ضرورت یا مجبور کیے جانے کے بغیر ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔ ڈبل ببل سکیم بالکل اپنے نام کی طرح ہوتی ہے جس میں آپ کچھ بھی ادھار لیں (مثلاً پنیر، تمباکو، دوائی، خوراک اور صابن تیل) تو آپ کو اگلے ہفتے اس کا دوگنا ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ ادا نہ کر سکیں تو آپ قرض کے بھنور میں پھنس جائیں گے جہاں آپ سے کسی بھی صورت میں اسے ادا کرنے لیے کہا جائے گا، پھر وہ جیسے بھی ہو۔ یہ سب سے زیادہ نئے قیدیوں کے ونگ میں دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے رہنے والوں کو سب سے زیادہ مسائل ہوتے ہیں اور یہی قیدی سب سے زیادہ معصوم ہوتے ہیں۔ انھیں پہلی مرتبہ کینٹین تک جانے کے لیے ایک سے دو ہفتے کا انتظار کرنا پڑتا ہے وہ بھی تب جب ان کے پاس پیسے ہوں۔ انتہائی سنگین معاملات میں لوگ کھیرے کھا کھا کر خود کو کمزور کر لیتے ہیں، خود کو خطرے کے شکار قیدیوں کی فہرست میں شامل کروا لیتے ہیں یا پھر جیل تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بیرن بےوقوف نہیں ہوتے۔ وہ قرض لینے والوں کے خاندان کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں اور اگر قرض لینے والا ادائیگی نہ کرے تو ان کے خاندان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے تو قرض کی واپسی کے لیے آپ کے گھر باوردی بیلف بھجوا سکتے ہیں مگر جیل کے بیرن یہی کام اپنے غنڈوں کے ذریعے کرواتے ہیں۔
/urdu/live/world-57082982
پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 2379 نئے مریض سامنے آئے ہیں جبکہ جبکہ اس وائرس سے 76 ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب آج ملک بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ بحال کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 2379 نئے مریض سامنے آئے ہیں جبکہ جبکہ اس وائرس سے 76 ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب آج ملک بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ بحال کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے نگراں ادارے این سی او سی کے مطابق ملک میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں اس وائرس سے مزید 2379 افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 76 ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 کے مزید 2517 کیسز سامنے آئے ہیں۔این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسی مدت میں 48 افراد کی کووڈ 19 سے موت ہوئی ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر اب تک آٹھ لاکھ 73 ہزار سے زیادہ مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 73 ہزار 398 ایکٹو کیسز ہیں۔ حکومت کے مطابق سات لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی مجموعی تعداد 19 ہزار 384 ہو گئی ہے۔ انڈیا میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 کے تین لاکھ 26 ہزار مزید کیسز سامنے آئے ہیں لیکن اس سے زیادہ افراد کووڈ 19 سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ وزرات صحت کے مطابق اب تک انڈیا میں مجموعی طور پر کووڈ 19 کے دو کروڑ 43 لاکھ سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ دو کروڑ سے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہسپتالوں سے رخصت کیے گئے ہیں۔ اب تک کورونا سے مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ 66 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور ایکٹو کیسز کی تعداد 36 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس پینل نے یہ بھی کہا ہے کہ جو لوگ کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں وہ صحتیابی کے چھ ماہ بعد ویکسین لیں۔ انڈیا میں اب تک 18 کروڑ افراد کو ویکسین دی جا چکی ہے اور اب تک تقریباً 14 کروڑ افراد کو ویکسین کی ایک ہی خوراک ملی ہے جبکہ چار کروڑ افراد کو دونوں خوراکیں ملی ہیں۔ پاکستان میں اب تک اطلاعات کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ بچے اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ملک میں وائرس کی تیسری لہر کے دوران میڈیا میں ایسی کئی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اس بار کم عمر بچے اس بیماری سے کافی متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اُن حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں وبائی شکل اختیار کرنے والا کورونا وائرس کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کو کورونا وائرس سے خطرہ زیادہ ہے جو کہ ضیعف ہیں یا جنھیں پہلے سے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ جانیے کہ انہیں س طرح کی احتیاط کرنی چاہیے۔
/urdu/regional-59910877
انڈیا کے مشہور ہیئر سٹائلسٹ جاوید حبیب کے خلاف مبینہ طور پر ایک خاتون کے بالوں پر تھوکنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب جاوید حبیب نے اس واقعے پر معافی مانگ لی ہے۔
انڈیا کے مشہور ہیئر سٹائلسٹ جاوید حبیب کے خلاف مبینہ طور پر ایک خاتون کے بالوں پر تھوکنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب جاوید حبیب نے اس واقعے پر معافی مانگ لی ہے۔ پوجا گپتا نامی خاتون کی شکایت پر یہ کیس درج کیا گیا ہے جس میں الزام ہے کہ جاوید حبیب نے ان کے کے بالوں پر تھوکا تھا۔ جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں جاوید حبیب ایک خاتون کے بال کاٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’اگر پانی کی کمی ہو تو تھوک کا استعمال کیا جا سکتا ہے‘۔ اس ویڈیو میں وہ مبینہ طور پر خاتون کے بال کاٹتے ہوئے ان کے سر پر تھوک رہے ہیں۔ اس مبینہ واقعے کے بعد جاوید حبیب کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے بعد انھوں نے اس پر معافی بھی مانگ لی ہے۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو میں جاوید حبیب نے کہا کہ 'میرے سیمینار میں ہونے والی کچھ چیزوں سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے۔ میں صرف ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں جو سیمینار ہوتے ہیں وہ پروفیشنل اور طویل شوز ہوتے ہیں۔ ان لمبے لمبے شوز میں تھوڑا ہنسی مذاق بھی کیا جاتا ہے۔ اب میں کیا کہوں، تہہ دل سے معافی مانگتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کو اس سے واقعی تکلیف پہنچی ہو، دکھ ہوا ہو تو معذرت چاہوں گا میرا مقصد صرف لوگوں کو آگاہ کرنا تھا، کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا'۔ دوسری جانب کانگریس کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن اسمبلی ابھیشیک منو سنگھوی نے جاوید حبیب کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا 'جاوید حبیب کا تھوکنے کا معاملہ خوفناک ہے، لیکن اس پر وہاں موجود سامعین کا قہقہہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے، ہمیں اس طرح کی ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا۔ مذاق اور کسی کی عزت سے کھیلنے میں فرق کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جاوید حبیب بی جے پی لیڈر ہیں'۔ انہوں نے یہ بھی لکھا 'جاوید حبیب ایک مغرور انسان لگتے ہیں۔ جب پوجا گپتا نے اس سیمینار کے دوران ان سے ایک سوال پوچھا تو جاوید نے ان سے کہا کہ وہ 900 سیلون چلاتے ہیں، جب کہ وہ (پوجا گپتا) صرف ایک۔ انھیں مزید نیچا دکھانے کے لیے انھیں سٹیج پر بلایا گیا اوران کے بالوں پر تھوکا'۔ نیوز ایجنسی اے این آئی نے اطلاع دی ہے کہ خواتین کمیشن نے اس معاملے پر دلی پولیس کمشنر راکیش ستھانہ کو ایک خط بھی لکھا ہے، جس میں پولیس سے اس معاملے میں کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خواتین کمیشن اس معاملے میں جاوید حبیب کو بھی نوٹس بھیجے گا۔
/urdu/science-60327265
برطانیہ کی جیٹ لیبارٹری نے ہائیڈروجن کی دو اقسام کو ایک دوسرے سے ضم کر کے توانائی پیدا کرنے کا اپنا ہی عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
یورپی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ایٹمز کے ملاپ سے توانائی پیدا کرنے کی کوشش میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ ستاروں کی روشنی اور حدت نیوکلیئر فیوژن کے عمل کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں ایک سے زیادہ ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں جس کے باعث توانائی کا گرمائش اور روشنی کی صورت میں اخراج ہوتا ہے۔ برطانیہ کی جیٹ لیبارٹری نے ہائیڈروجن کی دو اقسام کو ایک دوسرے سے ضم کر کے توانائی پیدا کرنے کا اپنا ہی عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ توانائی بہت زیادہ بھی نہیں ہے۔ اس سے صرف 60 کیتلی پانی ہی ابالا جا سکتا ہے۔ مگر یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس تجربے نے فرانس میں زیرِ تعمیر ایک بڑے فیوژن ری ایکٹر کے ڈیزائنز کو قابلِ عمل ثابت کر دیا ہے۔ جیٹ لیبارٹری میں ہیڈ آف آپریشنز ڈاکٹر جو ملنیس نے کہا: ’جیٹ تجربات ہمیں فیوژن سے توانائی کے حصول کے ایک قدم اور قریب لے گئے ہیں۔ ہم نے اپنی مشین کے اندر ایک چھوٹا سا ستارہ بنا کر اور اسے پانچ سیکنڈ تک قائم رکھ کر بہترین کارکردگی حاصل کر دکھائی ہے جس نے ہمیں ایک بالکل نئی جگہ پہنچا دیا ہے۔‘ موجودہ جوہری بجلی گھر ایٹمز کو توڑ کر ان سے توانائی اور گرمائش حاصل کرتے ہیں جبکہ فیوژن میں دو ایٹمز کے مرکزوں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ برطانیہ کے شہر آکسفورڈشائر میں قائم جیٹ لیب تقریباً 40 سال سے اس طریقے کے ذریعے ایٹمز کا فیوژن کروا رہی ہے اور گذشتہ 10 برسوں سے اسے آئی ٹی ای آر کے متوقع سسٹم کی نقل کے طور پر ڈھال دیا گیا ہے۔ اور پھر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کاربن سے پاک توانائی کی فوری ضرورت ہے۔ برطانیہ میں پہلے ہی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ سنہ 2035 تک برطانیہ میں تمام توانائی صفر کاربن اخراج پر مبنی ہو گی جس کا مطلب مزید جوہری اور قابلِ تجدید توانائی، اور توانائی کو ذخیرہ کرنے کی مزید صلاحیتوں کا حصول ہے۔ اور جیسا کہ میرے ساتھی جوناتھن ایموس کا کہنا ہے کہ 'فیوژن ہمیں سنہ 2050 تک صفر کاربن اخراج کا مقصد حاصل کرنے میں مدد نہیں دے گا بلکہ یہ رواں صدی کے دوسرے نصف میں ہمارے معاشرے کو توانائی فراہم کرنے کا طریقہ ہے۔ پلازما بنانے کے لیے فرانسیسی لیبارٹری کا ترجیحی مواد ہائیڈروجن کی دو اقسام یا آئسوٹوپس ڈیوٹیریئم اور ٹرائیٹیئم پر مبنی ہے۔ سنہ 1997 میں اپنے ریکارڈ توڑ تجربات کے لیے جیٹ نے کاربن کا استعمال کیا مگر کاربن ٹرائیٹیئم کو جذب کر لیتا ہے جو تابکار مادہ ہے۔ اس لیبارٹری میں فیوژن ردِ عمل کروانے میں اس سے کہیں زیادہ توانائی لگتی ہے جتنی کہ ہم اس سے واقعتاً حاصل کر پاتے ہیں۔ یہاں ان تجربات کی خاطر 500 میگاواٹ کے دو فلائی وہیل استعمال کیے جاتے ہیں۔
/urdu/world-59752398
برِ اعظم یورپ میں عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ یہاں کے ممالک کے نظامِ صحت انہدام کے قریب لا کھڑا کرے گا۔
برِ اعظم یورپ میں عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ یہاں کے ممالک کے نظامِ صحت انہدام کے قریب لا کھڑا کرے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ 'ایک اور طوفان' آ رہا ہے اور حکومتوں کو متاثرین کی تعداد میں خاصے اضافے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ 28 دسمبر سے نجی محفلوں میں صرف 10 لوگوں کی شرکت کی پابندی دوبارہ نافذ ہو جائے گی جبکہ نائٹ کلبز بند کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 28 دسمبر کے بعد سے ہی فٹ بال میچز بھی صرف بند دروازوں کے پیچھے ہوں گے۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے منگل کو کہا کہ 'کورونا وائرس کرسمس کی چھٹیاں نہیں کرتا۔ ہم اس اگلی لہر کے بارے میں آنکھیں نہیں بند کر سکتے نہ کرنی چاہییں جو اب ہمارے سر پر کھڑی ہے۔' یورپ میں اب تک کووڈ کے آٹھ کروڑ 90 لاکھ متاثرین سامنے آ چکے ہیں اور 15 لاکھ کے قریب افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔ اومیکرون کا پتا سب سے پہلے گذشتہ ماہ برِ اعظم افریقہ کے جنوبی خطے میں پایا گیا تھا مگر اب یہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اومیکرون تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس کے یورپی خطے میں جس میں روس اور ترکی بھی شامل ہیں، اس میں 53 میں 38 ممالک میں اومیکرون ہی کووڈ کی غالب قسم ہے۔ ادارے کے ہانس کلوگ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ 'ہم ایک اور طوفان آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کچھ ہی ہفتوں میں اومیکرون اس خطے کے زیادہ تر ممالک میں غالب قسم ہو گا اور پہلے سے ہی دباؤ کے شکار صحت کے نظام تباہی کے کنارے تک پہنچ جائیں گے۔' اُنھوں نے کہا کہ 'نئے کووڈ انفیکشنز کی بڑی تعداد کے باعث ہسپتالوں میں داخلے میں اضافہ ہو سکتا ہے اور صحت کے نظام اور دیگر اہم خدمات وسیع پیمانے پر متاثر ہو سکتے ہیں۔' وزیرِ صحت ساجد جاوید نے کہا کہ اس سے اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کے باعث پیدا ہونے والی مشکل صورتحال قابو میں رہے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ تبدیلی ماہرینِ صحت کی جانب سے تازہ ترین ہدایات کی روشنی میں لائی جا رہی ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ اگر لوگوں کو کئی دن گزرنے کے باوجود بھی خود میں کووڈ کی علامات محسوس ہو رہی ہوں تو اُنھیں قبل از وقت خود ساختہ تنہائی ختم نہیں کرنی چاہیے۔
/urdu/entertainment-51439610
پاکستانی ڈراموں میں سیاستدانوں، میڈیا اور بیوروکریسی کو منفی کردار میں دکھانا کوئی نئی بات نہیں لیکن ماضی میں فوج کے اشتراک سے بنے ڈراموں میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
یہ مکالمہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ اور نجی چینل ہم انٹرٹینمنٹ کے اشتراک سے بنے ڈرامے 'عہدِ وفا' میں شامل ایک ایسے کردار کا ہے جو ایک نومنتخب سیاست دان یعنی 'ملک شاہزین' کو سیاست کے گر سکھا رہے ہیں۔ شاہزین بطور سیاست دان میڈیا پر اثرانداز ہو کر اپنے ہی دوست کو پہلے نوکری سے نکلواتے اور پھر دوبارہ ملازمت دلواتے دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی وہ سول سروس میں انتخاب کے نظام پر اثر انداز ہونے کی بات بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں میں سیاستدانوں، میڈیا اور بیوروکریسی کو منفی کردار میں دکھانا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ماضی میں فوج کے اشتراک سے بنے ڈراموں جیسے 'ایلفا براوو چارلی' اور 'سنہرے دن' میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ ڈرامے کی تخلیق کے بارے میں بتاتے ہوئے عہدِ وفا کے ہدایت کار سیفی حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمیں آغاز میں کہا گیا تھا کہ چار دوست دکھانے ہیں جو بعد میں اپنے کیرئیر میں ریاست کے چار ستونوں کی نمائندگی کریں اور 'یہ نہیں کہا گیا تھا کہ کسی کردار کو منفی پیرائے میں دکھانا ہے۔' ڈرامے پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں کے کہا کہ 'سیاست دان بننے سے پہلے بھی شاہزین کے کردار کا ایک منفی پہلو تھا، وہ دوستوں سے سب سے پہلے لڑا تھا اور اس نے گھوڑے کو گولی بھی ماری تھی۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو سیاہ اور سفید میں نہیں دیکھا جا سکتا، اس لیے اگر ابھی ایک کردار منفی ہے تو بعد میں حالات تبدیل ہونے کے بعد مثبت بھی ہو سکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ فوج کے کسی کردار کو منفی کیوں نہیں دکھایا جاتا تو انھوں نے ڈرامے کے ایک سین کی طرف توجہ دلائی جس میں ایک کیڈٹ کو نقل اتارنے کے سبب اکیڈمی سے 'ڈرم آؤٹ' کر دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ نگار مصطفیٰ آفریدی نے بتایا کہ 'ایسا نہیں ہے کہ فوج کے اشتراک سے بنے ڈراموں میں ہمیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسا تو دوسرے ڈراموں میں بھی نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ہم نے کرنل اشفاق سے پوچھا کہ ڈراموں میں منفی کردار کشی کرنا اتنی بڑی بات کیوں ہے تو انھوں نے کہا کہ 'ڈرامے کے تین مقاصد بتائے جاتے ہیں۔ تفریح، تدریس اور معلومات۔ لیکن عہدِ وفا ان تینوں سرحدوں کو پار کر کے پروپیگنڈا میں شامل ہو گیا ہے۔' بی بی سی نے جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے اس ڈرامے پر ہونے والی تنقید کے بارے میں سوال کیا تو کہا گیا کہ اس ڈرامے کو عوام سے بہت پذیرائی مل رہی ہے اور اسے مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔
/urdu/regional-49650247
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں پولیس کے مطابق بیل گاوی ضلع میں ایک اکیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کی گردن کاٹ کر اسے قتل کردیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس لڑکے کے باپ نے اسے موبائل پر ایک گیم 'پب جی' کھیلنے سے روکا تھا۔
باپ نے بیٹے کو موبائل پر ایک گیم 'پب جی' کھیلنے سے روکا تھا انڈیا کی ریاست کرناٹک کے بیل گاوی ضلع میں ایک اکیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کی گردن کاٹ کر اسے قتل کردیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس لڑکے کے باپ نے اسے موبائل پر ایک گیم 'پب جی' کھیلنے سے روکا تھا۔ رگھوویر کنبھر نام کے اس شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کو پب جی کھیلنے کی لت تھی جس سے اس کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی تھی۔ علاقے کے پولیس کمشنر بی ایس لوکیشس نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ لڑکے کو گیم کی لت لگی ہوئی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ اس کے والد موبائل کا ری چارج کروائیں اور وہ گیم کھیل سکے۔ کمشنر کے مطابق اس بات پر باپ اور بیٹے میں جھگڑا ہوا۔ لڑکے نے اپنی ماں کو کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا اور پھر پہلے اپنے باپ کا پیر کاٹا اور پھر سر دھڑ سے علحیدہ کر دیا۔ رگھویر کے والد شیکھرپا محکمہ پولیس میں ملازمت کرتے تھے اور ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک دن پہلے ہی اپنے بیٹے کی اس لت کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی تھی۔ شیکھرپا کے ہمسائیوں نے بھی انکے بیٹے کے خلاف شکایتیں کی تھیں اور کہا تھا کہ رگھویر انکے گھروں میں پتھر پھینکتا ہے جس کے بعد شیکھرپا کو پولیس سٹیشن جانا پڑا تھا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر منوج کمار شرما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی والدین اپنے بچوں سے موبائل فون چھین لیتے ہیں یا انہیں گیم نہیں کھیلنے دیتے تو گیم کے شکار بچوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے وہ غصہ دکھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک سائنسی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گیمز کے سبب کسی کے رویے میں تبدیلی آئی ہو لیکن بہت سے والدین نے قبول کیا ہے کہ گیمز کی وجہ سے انکے بچوں میں تبدیلی آئی ہے۔ ذہنی امراض کے ایک اور ماہر ڈاکٹر ونود کلکرنی کا کہنا ہے کہ 'دیہی علاقوں سے بھی تین چار ایسے معاملات ہمارے سامنے آئے ہیں جن میں لوگوں کو موبائل فونز یا گیمز کی لت تھی۔ ڈاکٹر کلکرنی نے بتایا کہ جب ان مریضوں سے موبائل استعمال نہ کرنے یا گیم نہ کھیلنے کے لیے کہا جاتا ہے وہ غصہ ہوتے ہیں تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس طرح کی لت کے شکار لوگوں کو ایک جھٹکے میں موبائل یا گیم سے دور کرنا ممکن نہیں ہے، انکی کاؤنسلنگ کرنی پڑتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک گیمز کھیلنے کی لت کو باقاعدہ طور پر ایک ذہنی بیماری تسلیم کیا ہے۔ اس ڈیجیٹل ویڈیو میں جانیے کہ اس بیماری کی علامات کیا ہیں؟
/urdu/pakistan-57939946
پاکستان کی داخلی صورتحال اور امریکی امداد کا باہم کوئی تال میل ہے یا نہیں، پاکستانی تاریخ و سیاست کے ضمن میں ایک بنیادی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف پاکستان‘ میں اس کے مصنف جیمز وائن برانٹ نے اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ایک دلچسپ انکشاف ضرور کیا ہے۔
پاکستان کی داخلی صورتحال اور امریکی امداد کا باہم کوئی تال میل ہے یا نہیں، پاکستانی تاریخ و سیاست کے ضمن میں ایک بنیادی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف پاکستان‘ میں اس کے مصنف جیمز وائن برانٹ نے اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ایک دلچسپ انکشاف ضرور کیا ہے۔ شکر گزاری کا یہ انداز اعتدال کی حدود سے تجاوز کیوں کر گیا؟ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے بانی ڈاکٹر امیر محمد اس واقعے کو بعض پاکستانی طبقات کی طرف سے روایتی امریکا نوازی کا مظاہرہ سمجھتے ہیں جب کہ مجیب الرحمٰن شامی کے خیال میں اس کا سبب قحط سالی کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے حکومت بہت زیادہ دباؤ میں تھی۔ امدادی گندم کےخیر مقدم کے لیے حکومت نے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی معقولیت کا سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن مجیب الرحمٰن شامی اس امداد کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہیں: فیروز احمد لکھتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی سے ستر کی دہائی کے دوران ملنے والی امداد کو جو پی ایل 480 کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے، امریکی دستاویزات میں ’فوڈ فار پیس‘ یعنی خوراک برائے امن کا نام دیا گیا۔ پاکستان کو دی گئی امداد کے لیے منتخب کیا گیا عنوان توجہ طلب ہے، اس سے توجہ فوری طور پر جمیز وائن برانٹ کے انکشاف کی طرف جاتی ہے۔ اس قسم کے معاہدوں کے ضمن میں امریکی امداد کیا معنی رکھتی ہے، یونیورسٹی آف فلوریڈا کے استاد رابرٹ جے میکموہن نے اپنے ایک مقالے ’فوڈ ایز ڈپلومیٹک ویپن: دی انڈیا ویٹ لون 1951‘ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ امریکا نے بھارت کو غذائی امداد دے کر اسی قسم کے مقاصد کے حصول کی کوشش کی تھی۔ سبز انقلاب منصوبے پر عمل درآمد کے زمانے میں پاکستان نے زرعی ٹیکنالوجی، ٹریکٹروں سمیت زرعی آلات، کھادوں اور زرعی ادویات کی خریداری پر جو رقوم خرچ کیں، فیروز احمد نے اس کے اعداد و شمار فراہم کیے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امداد پاکستانی زراعت و معیشت کے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ امریکی معیشت کے لیے بھی ایک قابل قدر اثاثہ ثابت ہوئی۔ اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ کھادوں کی خریداری کا جو بل ماضی میں پانچ کروڑ 86 لاکھ ڈالر تھا، ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی چار برسوں میں بڑھ کر چار کروڑ 12 لاکھ ڈالر ہو گیا۔ دیگر شعبوں کی برآمدات کی مالیت میں بھی اسی طرح تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ فوجی تعاون کے ضمن میں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ اعداد و شمار اگرچہ صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں لیکن ان کی افادیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کا اندازہ امریکی ائرفورس کے میجر جنرل جان او موئنچ کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ فوجی امداد کے اقتصادی ثمرات غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتے ہیں۔
/urdu/sport-55686811
کرکٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سال میں بہت زیادہ کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو آرام کے لیے وقت نہیں مل پا رہا ہے جس کے باعث اُن میں انجریز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کورونا کی وجہ سے طویل عرصے تک کھلاڑیوں کے گھر پر رہنے کو بھی فٹنس کا مسئلہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دوران کھلاڑی مسابقتی کرکٹ سے دور رہے اور اس کے ساتھ فٹنس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ اس طرح کی لیگ میں کھیلنے کے بعد کرکٹرز کو تھکان سے بازیابی کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن آسٹریلیا کے دورے سے قبل کھلاڑیوں کو آرام کے لیے وقت نہیں مل سکا۔ اس مسئلے کے بارے میں سابق ٹیسٹ کرکٹر سنجیو شرما کا کہنا ہے کہ 'بہت زیادہ کرکٹ کھیلنا زخمی ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آئی پی ایل کے فورا بعد آسٹریلیا کے دورے سے کرکٹرز کو بازیابی کا وقت نہیں مل سکا۔' سنجیو نے کہا: ’آج کل دوروں کے مصروف شیڈول کی وجہ سے بھی یہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ پہلے ٹیسٹ میچوں کا اہتمام اس طرح کیا جاتا تھا کہ کھلاڑی کو ایک کے بعد دوسرے ٹیسٹ کھیلنے کے لیے درمیان میں کافی وقت دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے بولر، بطور فاسٹ بولرز کو بازیابی کے لیے وقت مل جاتا تھا۔‘ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: 'اس وقت کرکٹرز کو اس قدر زیادہ کرکٹ کھیلنا نہیں پڑتا تھا۔ اس وقت کرکٹرز کو رنجی ٹرافی میں کھیلنے کے علاوہ ایک سال میں چھ سات ٹیسٹ کھیلنے ہوتے تھے، لہٰذا انھیں بازیابی کے لیے کافی وقت مل جایا کرتا تھا۔‘ ’فی الحال کرکٹرز کو 12-14 ٹیسٹوں کے علاوہ ایک سال میں 60 کے قریب ٹی 20 اور ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں آئی پی ایل کے سخت شیڈول میں بھی حصہ لینا ہے۔ اس سے اُنھیں آرام کے لیے وقت نہیں ملتا ہے۔ اور یہ سب مل کر چوٹوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے کی وجہ نظر آتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’یہ سچ ہے کہ اس دورے پر انجری کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے۔ لیکن میرے مطابق یہاں کی سہولیات دوسرے بہت سے ممالک سے کہیں بہتر ہیں۔ ہمارے تیز بولرز 120 کلومیٹر کی رفتار سے نہیں بلکہ وہ 140 اور 150 کلومیٹر کی رفتار سے بولنگ کرتے ہیں۔ اس رفتار سے بولنگ کرنے والے بولروں کے لیے انجری کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ آج کل اضافی کھلاڑیوں کو ٹیم کے ساتھ پریکٹس کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ان نوجوان کھلاڑیوں کو تجربہ کار بنانا ہے جو آئندہ ٹیم کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ٹیم انڈیا اس سیریز میں ایک درجن کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے باوجود چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ میں ایک فٹ الیون میدان میں اتارنے میں کامیاب رہی ہے۔
/urdu/regional-50901227
انڈیا کے شہر لکھنؤ میں 150 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سماجی کارکن اور اداکارہ صدف جعفر بھی شامل ہیں۔ کانگریس پارٹی کی رہنما پرینکا گاندھی نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے سلسلے میں اتر پردیش میں جہاں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں وہیں ریاست بھر میں 925 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ صرف اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں 150 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں کانگریس پارٹی کی رکن، سماجی کارکن اور اداکارہ صدف جعفر بھی شامل ہیں۔ صدف جعفر کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ انڈیا کے نئے متنازع شہریت قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہونے والے ایک مظاہرے کے مقام پر موجود تھیں۔ اور اپنے فیس بک سے لائیو ویڈیو بنا رہی تھی۔ گرفتاری کے وقت فیس بک لائیو ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون پولیس اہلکار انھیں گرفتار کر رہی ہیں اور وہ ان سے سوال کر رہی ہیں کہ انھیں کیوں پکڑا جا رہا ہے، وہ ویڈیو میں پولیس اہلکار سے پوچھتی ہیں کہ انھیں کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ صدف جعفر فلمساز میرا نائر کی ایک آنے والی فلم میں اداکاری کر رہی ہیں۔ میرا نائر نے ٹویٹ کر کے ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اس کے لیے یوپی پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ میرا نائر نے لکھا ہے کہ لکھنؤ میں پرامن احتجاج کے لیے صدف کو مارا پیٹا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ انھوں نے ٹویٹ کیا: ’اب یہ ہے ہمارا انڈیا: نفرت انگیز۔ فلم سوٹیبل بوائے کی اداکارہ صدف جعفر کو لکھنؤ میں پر امن مظاہرے میں شرکت کرنے پر مارا پیٹا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا! ان کی رہائی کے مطالبے کے لیے میرا ساتھ دیں۔‘ دوسری جانب کانگریس کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے بھی ٹویٹ کر کے صدف جعفر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ پرینکا گاندھی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ہماری خاتون کارکن صدف جعفر پولیس کو بتا رہی تھیں کہ شرپسندوں کو پکڑو اور انھیں یو پی (اترپردیش) پولیس نے بری طرح سے مارا پیٹا اور گرفتار کر لیا۔ وہ دو کمسن بچوں کی ماں ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ اس طرح کا جبر بالکل نہیں چلے گا۔‘ صدف جعفر کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ صدف کی گرفتاری کی معلومات انھیں نہیں دی گئی اور جب پوچھا گیا تو بھی انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔ ادھر یوپی کانگریس کے صدر اجے کمار للو اور کانگریس کے رکن اسمبلی ارادھنا مشرا نے صدف سے جیل میں ملاقات کی اور پولیس پر صدف کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ اجے کمار لالو نے بی بی سی کو بتایا: ’پولیس نے صدف جعفر کے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ان پولیس والوں نے انھیں بے دردی سے پیٹا ہے۔ ان کے پیٹ میں پولیس نے بندوق کے بٹ مارے ہیں۔‘ کانگریس پارٹی نے صدف کی گرفتاری اور ظلم و ستم کی عدالتی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
/urdu/regional-61025852
پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہندو پرفیسر کے خلاف ہندو دیوتاؤں کی توہین اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے۔
پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک پرفیسر کے خلاف مبینہ طور پر ہندو دیوتاؤں کی توہین اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں فورنزک سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر جیتیندر کمار پر الزام ہے کہ انھوں نے جنسی جرائم اور فورنزک سائنس سے متعلق اپنی کلاس میں لیکچر دیتے ہوئے بعض ہندو دیوی دیوتاؤں کا حوالہ دیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک پریزینٹیشن کے دوران کہا تھا کہ بعض ہندو دیوتاؤں نے مبینہ طورپر ریپ کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کی اس پریزینٹیشن کی پاور پوینٹس سلائڈز سوشل میڈیا پر آنے کے بعد یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم اور بی جے پی سے وابستہ ڈاکٹر نیشیت شرما نے ان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ ڈاکٹر شرما نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’میڈیکل کالج کے ایک پروفیسر نے ہندوؤں کے دیوتا بھگوان برہما، بھگوان وشنو، بھگوان اندردیو اور بعض دیگر دیوی دیوتاؤں کے بارے انتہائی نازیبا اور غیر مہذب مثالیں دیں۔ وہ ایسی باتیں ہیں کہ ہم اور آپ ان کے بارے میں چرچا بھی نہیں کر سکتے‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میرا مطالبہ ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور ایسا طے ہو کہ اس پروفیسر کا ضمیر کانپ جائے۔ انھیں درس و تدریس سے بھی باہر کیا جائے۔‘ پولیس نے ڈاکٹر جیتیندر کے خلاف مذہبی جزبات کو مجروح کرنے کا مقدمہ درج کرنے کے بعد اس معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈاکٹر جیتیندر کو معطل کر دیا ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے میں اپنی وضاحت پیش کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترجمان عمر پیرزادہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ڈاکٹر جیتیندر کے خلاف لگائے گئے الزامات کی جانچ کے لیے دو ارکان کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس دوران ڈاکٹر جیتیندر نے اس واقعے کے لیے غیر مشروط معافی مانگی ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لکھے گئے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’میں اپنی تھرڈ ایئر کی ایم بی بی ایس کی کلاس میں پانچ اپریل کو جنسی جرائم کے موضوع پر ریپ کے بارے میں دیوی دیوتاؤں سے متعلق اہانت آمیز حوالہ دینے کے لیے غیر مشروط معافی کا طلب گار ہوں۔ میرا مقصد کسی کے جذبات کو مجروح کرنا نہیں تھا۔ بلکہ صرف یہ اجاگر کرنا تھا کہ ریپ سماج کا ایک پرانا مسئلہ رہا ہے۔ میں اسے ایک غیرارادی غلطی مانتا ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ سے دوبارہ ایسی غلطی نہیں ہو گی۔‘ شکایت کنندہ ڈاکٹر نیشیت کمار کا کہنا ہے کہ فورنزک میڈیسن شعبے کے سربراہ کی منظوری کے بغیر کسی موضوع کو پڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے شعبے کے سربراہ کے خلاف بھی مقمہ درج کیا جانا چاہیے۔
/urdu/regional-54672202
60 سالہ ڈاکٹر سرما انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں پلے بڑھے۔ انھیں ’ہاتھی کے ڈاکٹر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور انھوں نے اب تک تقریباً 10 ہزار ہاتھیوں کا علاج کیا ہے۔
ڈاکٹر سرما کہتے ہیں کہ انھوں نے 10 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں کا علاج کیا ہے انڈیا میں ڈاکٹر کشال کنور سرما پیار سے جنگلات کے قبائلی برادری میں ’ہاتھی کے ڈاکٹر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بی بی سی ہندی کے دلیپ کمار شرما لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سرما نے اپنی زندگی کے 35 سال ہاتھیوں کی دیکھ بھال میں گزارے۔ انھوں نے انڈیا اور انڈونیشیا کے جنگلات میں ہزاروں ہاتھیوں کی جانیں بچائی ہیں۔ 60 سالہ ڈاکٹر سرما انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے برما نامی ایک گاؤں میں پلے بڑھے۔ 2017 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں 27 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں میں سے تقریباً پانچ ہزار آسام میں ہیں۔ ڈاکٹر سرما کو اس سال کے آغاز میں ان کے کام کے لیے انڈیا کے اعلیٰ شہری اعزاز پدم شری سے نوازا گیا۔ ان کے اپنے اندازے کے مطابق وہ اب تک 10 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں کا علاج کر چکے ہیں۔ ہاتھیوں کے ساتھ اس محبت اور رشتے نے ریاست میں خاص طور پر بارش کے موسم میں انھیں سب سے زیادہ اہم ڈاکٹر بنا دیا ہے۔ خاص طور پر آسام میں شدید سیلاب کا خطرہ رہتا ہے جس سے اکثر جانور بھی خطرے میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر کشال سرما جو اکثر جانوروں کی جان بچانے کی کوششوں میں سرکار کی مدد کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ’پارک میں سیلاب کے موسم میں جانوروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بہت سے جانور مر جاتے ہیں اور یہاں تک کہ کئی ہاتھی سیلاب میں بہہ بھی جاتے ہیں۔‘ ’یہ عام بات ہے کہ ہاتھیوں سے ان کے بچے جدا ہو جائیں۔ ایسے حالات میں انھیں اضافی نگہبانی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے میں سیلاب کے دوران مدد کرتا ہوں۔‘ ڈاکٹر سرما نے آسام میں تین لاکھ کلومیٹر سے زیادہ گھنے جنگل کا احاطہ کیا ہے، ہزاروں ہاتھیوں کا سامنا کیا ہے اور ان کا علاج کیا ہے۔ لیکن ان کے بچپن کے زمانے کے ہاتھی کے علاوہ ایک اور جو ان کے دل کے قریب ہے وہ ہے گیتا، ایک زن ہاتھی جو کازیرنگا نیشنل پارک میں رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دیگر دو بُلٹ اس کے جسم کی گہرائی میں تھے جس سے انھیں نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ’لیکن میں نے اپنا علاج جاری رکھا اور آخر کار پانچ سرجریوں کے بعد آخری گولی بھی اس کے جسم سے نکال لی۔ میری پیاری گیتا ابھی بھی زندہ ہے اور بہت صحت مند ہے۔‘ لیکن ان سارے خطرات کے باوجود ڈاکٹر کشال کنور سرما کا کہنا ہے کہ ان کا کام اطمینان بخش رہا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو متاثر کرنے کی امید رکھتے ہیں جنھوں نے ویٹرنری سائنس میں ڈگری حاصل کی ہے اور اکثر ان کے کام میں مدد کرتی ہیں۔
/urdu/science-55208957
جب 31 سالہ ہننا اپنے لندن کے گھر میں سو رہی ہیں، تو ان کا فون قریب آٹھ گھنٹوں کے لیے الگ ڈیوٹی پر ہے۔ وہ کچھ سائنس دانوں کو کورونا وائرس سے متعلق تحقیق میں ان کی مدد کرنے کے لیے اپنی پاور کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ہننا کا فون پچھلے 11 ماہ سے اس تحقیق میں شامل ہے اور سائنس دانوں کے لیے تقریباً 25،000 حساب کتاب کر چکا ہے ہننا لاسن ویسٹ کا رات کا معمول بھی ہم میں سے بیشتر افراد جیسا ہے۔ وہ تقریباً ساڑھے 10 بجے سونے کی تیاری کرتی ہیں۔ سونے سے پہلے برش کرتے ہوئے اسی دوران اپنے بستر کو برقی آلے سے گرم ہونے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔ پھر اپنا چہرہ دھو کر سونے کے لیے لیٹ جاتی ہیں۔ جب 31 سالہ ہننا اپنے لندن کے گھر میں سو رہی ہیں، تو ان کا فون قریب آٹھ گھنٹوں کے لیے الگ ڈیوٹی پر ہے۔ وہ کچھ سائنس دانوں کو کورونا وائرس سے متعلق تحقیق میں ان کی مدد کرنے کے لیے اپنی پاور کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان کا فون پچھلے 11 ماہ سے اس تحقیق میں شامل ہے اور سائنس دانوں کے لیے تقریباً 25،000 حساب کتاب کر چکا ہے۔ ایک تحقیق کے ذریعے یہ ایپ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کووڈ 19 مریضوں کو کون سے غذائی اجزا فائدہ پہنچا سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو طویل عرصے سے 'کووڈ 19' کی علامات کا شکار ہیں۔ ہننا کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس ایپ کے بارے میں معلومات اس وقت ملیں جب میرے والد کو بلڈ کینسر تھا۔ کینسر کے علاج کی دریافت کا منصوبہ - وہ پہلا منصوبہ تھا جس کے لیے میں نے اپنے فون کا ’سمارٹ فون کمپیوٹنگ ٹائم‘ عطیہ کیا تھا۔‘ ’لیکن جب کووڈ 19 کی وبائی بیماری آئی تو میں نے اس منصوبے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ کسی بھی ایسے منصوبے کو 'پاور' دی جانی چاہیے جو کووڈ 19 سے متعلق سوالوں کے جواب دے سکے۔‘ ہننا کے گھر سے 900 میل کے فاصلے پر لزبن کے ایک مکان میں انجلیکا ایزیوڈو کا فون بھی اسی طرح کا حساب کتاب کر رہا ہے۔ جب وہ سو رہی ہوتی ہیں، ان کا فون خاموشی سے نمبروں کا کھیل، کھیل رہا ہوتا ہے۔ امپیریل کالج لندن کی فیکلٹی آف میڈیسن کے پروفیسر کریل ویسکوف کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کے بے حد مشکور ہیں جنھوں نے ان کی تحقیق کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ پوری دنیا کے بہت سارے سائنس دان اس تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیوں کہ تحقیق کے لیے لوگوں کے سمارٹ فونز کو جوڑنے کا طریقہ اس تحقیق کو مختلف بناتا ہے۔ وہ لوگ جو اس تحقیق کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایک ایپ کے ذریعے اپنے فونز کو 'سائنسی کیلکولیشن' کے لیے وقف کر رہے ہیں، انھیں 'رضاکار کمپیوٹنگ' کہا جاتا ہے، یہ کام 1990 کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔
/urdu/pakistan-54804311
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کابینہ کے دیگر ارکان کو فیاض الحسن چوہان کے کام کرنے کے طریقہ کار سے اختلافات تھے جبکہ ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اپنی تشہیر زیادہ کرتے ہیں۔
جیل خانہ جات اور کوآپریٹیوز کی وزارتوں میں تبدیلی بھی متوقع تھی تاہم مقامی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیے فیاض الحسن چوہان سے وزارت چھن جانا قدرے غیر متوقع تھا۔ ان کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ وہ خصوصاً وفاقی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ’حکومت کا دفاع‘ کیا کرتے تھے۔ ایک مقامی صحافی کے مطابق خود وزیرِاعظم عمران خان ان کے ’بے باک بیانات کے معترف تھے اور کئی مرتبہ پنجاب کابینہ کے دیگر ممبران کو بھی ان کی مثال دے کر کہہ چکے تھے کہ وہ بھی فیاض الحسن چوہان کی طرح حکومت کا دفاع کیا کریں۔‘ تو اچانک کیا ہوا؟ خود فیاض الحسن چوہان کو اس وقت یقین نہیں آیا جب پیر کے روز بظاہر صحافیوں سے انھیں معلوم ہوا کہ ان سے وزارت واپس لے لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں اس حوالے سے معلوم نہیں تھا۔‘ وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی کارکردگی کے حوالے سے وزیرِ اعظم کو شکایت نہیں تھی، تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کے کابینہ کے ساتھیوں اور ان کی جماعت کے اندر سے لوگوں کو ان کے کام کرنے کے طریقہ کار سے شکایات تھیں جن کا اظہار وہ بارہا وزیرِاعظم کے سامنے بھی کر چکے تھے۔ صحافی قذافی بٹ کے مطابق کابینہ کے دیگر سینیئر ممبران اس بات سے خوش نہیں تھے کہ ’ٹی وی پر صرف فیاض الحسن چوہان ہی نظر آتے تھے، کسی دوسرے کو حکومت کو دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے ممبران میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ’فیاض الحسن چوہان ذاتی تشہیر زیادہ اور حکومت کی تشہیر کم کر رہے تھے۔‘ قذافی بٹ کا کہنا تھا کہ اس کی ایک یہ مثال تھی ایک وقت میں خود فیاض الحسن چوہان نے حکومتی ترجمانوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں کابینہ کے دیگر سینیئر ممبران کے نام بھی تھے، تاہم بعد میں انھوں نے خود ہی یہ کمیٹی تحلیل کر دی تھی۔ صحافی میاں اسلم بھی قذافی بٹ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فیاض الحسن چوہان کے ساتھ ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ ان سے اطلاعات کی وزارت واپس لی گئی تاہم ایسا نہیں ہے کہ بطور حکومتی ترجمان ان کی کارکردگی خراب تھی۔ صحافی میاں اسلم کے مطابق فیاض الحسن کی وزارت کی تبدیلی کی ایک وجہ خود نئی آنے والی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کابینہ اور خود وزیرِ اعظم یہ خواہش رکھتے تھے کہ ایسا نظام رکھا جائے کہ فیاض الحسن چوہان اور فردوس عاشق اعوان دونوں ساتھ کام کریں۔ تاہم صحافی میاں اسلم ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل خانہ جات کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کے مطابق قیدیوں کو سہولیات دی جاتی ہیں۔
/urdu/science-58696506
آکسفرڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے سنہ 2020 میں یورپ اور امریکہ کے بیشتر حصوں میں متوقع عمروں میں کمی دیکھی جا رہی ہے جو کہ اس سے قبل صرف دوسری عالمی کے وقت دیکھی گئی تھی۔
گذشتہ تین سال کے دوران سنہ 2020 تک پیدائش کے وقت مردوں کے لیے متوقع عمر 79 سال تھی جو کہ 2012-14 میں آخری مرتبہ دیکھی گئی تھی جبکہ خواتین کی متوقع عمر تقریباً جوں کی توں یعنی 83 سال سے کم رہی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے سنہ 2020 میں یورپ اور امریکہ کے بیشتر حصوں میں متوقع عمروں میں کمی دیکھی جا رہی ہے جو کہ اس سے قبل صرف دوسری عالمی جنگ کے وقت دیکھی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سال یا اس کے بعد اس میں مزید کمی دیکھی جا سکتی ہے اور پھر اس کے بعد پھر سے عمروں میں اضافے کے آثار نظر آنا شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2015-17 اور سنہ 2018-20 کے درمیان مردوں کی متوقع عمر میں سات ہفتوں تک کی کمی آئی اور سنہ 1980 کے بعد سے یہ اس طرح کی پہلی گراوٹ ہے۔ تین سال کی اوسط عمر کے بجائے خود 2020 کو دیکھتے ہوئے او این ایس نے پایا کہ مردوں کی متوقع عمروں میں 1.2 سال اور خواتین کی عمروں میں 0.9 تک کمی واقع ہوئی ہے جو کہ مردوں میں کووڈ 19 سے ہونے والی زیادہ اموات کی عکاسی کرتا ہے۔ اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے لیور ہلم سینٹر فار ڈیموگرافک سائنس کے محققین کے مطابق امریکہ میں سب سے زیادہ اثرات نظر آئے ہیں جہاں مردوں کی عمروں میں دو سال سے زیادہ کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سوشل ڈیموگرافی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس مطالعے کے مرکزی مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر ریدھی کشیپ کا کہنا ہے کہ وبائی امراض کی شرح اموات اور متوقع عمروں پر ’بہت بڑا اور بے مثال اثر‘ پڑا اور عمروں میں ایک سال سے زیادہ کی کمی خاص طور پر غیر معمولی ہے۔ ڈاکٹر کشیپ کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ چیز ہے جو ہمارے یہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے زیادہ تر مغربی یورپ میں نہیں دیکھی گئی اور سنہ 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے مشرقی یورپ میں نہیں دیکھی گئی۔‘ اور بہت سے ممالک میں تو متوقع عمر سنہ 2015 کے اعداد و شمار سے بھی نیچے آ گئی ہے جو کہ فلو کے شدید موسم کی وجہ سے پہلے ہی خراب برس رہا۔ ڈاکٹر ابورتو کا کہنا ہے کہ امریکہ خاص طور پر اس سے سخت متاثر ہوا کیونکہ وہاں عمر رسیدہ آبادی تک اموات کے محدود رہنے کے بجائے کام کرنے والی عمر کی آبادی میں کووڈ اموات کی شرح بڑھی ہے اور یہی حال کچھ مشرقی یورپی ممالک اور کچھ حد تک سکاٹ لینڈ میں دیکھی گئی۔
/urdu/pakistan-54885431
کچھ اراکین پارلیمنٹ نے ایک سے زائد شادیوں کے باوجود اپنی بیگمات کے نام زیورات ظاہر نہیں کیے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی ایسے ہی ارکان پارلیمنٹ میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی اہلیہ کے نام کوئی سونا یا جائیداد ظاہر نہیں کی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اراکین پارلیمان کے اثاثوں کی سالانہ تفصیلات جاری کی ہیں۔ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے اور اس کے لیے قانون سازی کرنے والے متعدد اراکین نے جہاں اپنے ذاتی اثاثے ظاہر کیے ہیں وہیں اپنی بیگمات کے زیورات کی مالیت بھی بتائی ہے۔ کچھ اراکین پارلیمان نے ایک سے زائد شادیوں کے باوجود اپنی بیگمات کے نام زیورات ظاہر نہیں کیے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی ایسے ہی ارکان پارلیمان میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی اہلیہ کے نام زیورات یا جائیداد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر شیرین مزاری نے اپنے گوشواروں میں اسلام آباد کے ایک مہنگے ترین سیکٹر ای سیون میں وراثت میں ملنے والے ایک گھر کے علاوہ 60 تولے سونا بھی ظاہر کیا ہے جو انھیں وراثت میں ہی ملا ہے۔ شیریں مزاری کے مطابق وہ اپنے بھائی کی 30 لاکھ 2000 جبکہ اپنی والدہ کی دو لاکھ روپے کی مقروض ہیں۔ وفاقی وزیر زرتاج گل کا ہمازار نام سے اپنا بوتیک کا کاروبار بھی ہے۔ وہ اپنے خاوند ہمایوں رضا کے کاروبار میں بھی شیئر ہولڈر ہیں۔ زرتاج گل کی ملکیت میں 55 تولہ سونا بھی شامل ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے 26 لاکھ سے زیادہ کی جیولری ظاہر کی ہے۔ مراد سعید کی اہلیہ کے پاس 15 تولے سونا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا صوبہ خیبر پختونخوا میں قائد اعظم گروپ آف سکولز اور کالجز کا کاروبار بھی ہے۔ علی محمد خان نے اپنے اثاثوں میں اپنی والدہ اور اہلیہ کے نام پچاس پچاس تولے سونے کی بھی تفصیلات دی ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کے اثاثوں میں ان کی اہلیہ کا 53 تولا سونا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس دو گھڑیاں ہیں جن کی مالیت دو لاکھ 54 ہزار بنتی ہے۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی اہلیہ کے پاس 100 تولے سونا ہے۔ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کی اہلیہ کے پاس شادی کے وقت سے 40 تولے سونا ہے۔ شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق نے اپنے اثاثوں میں اپنی اہلیہ کے نام 30 تولے سونا ظاہر کیا ہے۔ تاہم شیخ رشید نے سونے اور زیورات کے خانے کے سامنے ’نہ‘ کی لکیر لگا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز خود تو پارلیمان کا حصہ نہیں ہیں لیکن کی اہلیہ مہناز اکبر عزیز رکن ہیں اور انھوں نے اپنے اثاثوں میں دس لاکھ اسی ہزار کی جیولری ظاہر کی ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات میں 150 تولے سونا ظاہر کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کے مالک وہ خود ہیں یا یہ ان کی اہلیہ ہیں۔
/urdu/regional-49863555
پولنگ مراکز کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے والے طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں افغان سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
پولنگ مراکز کو نشانہ بنانے کی دھمکی دینے والے طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں افغان سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ختم ہونے کے بعد دو مرتبہ تاخیر کا شکار ہونے والے انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر افغانستان بھر میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں گذشتہ حکومت میں شریک اقتدار رہنے والے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے یوں تو افغانستان کے سیاسی اور امن عمل میں خواتین آگے آنا شروع ہوئی ہیں لیکن اس بار صدارتی امیدواروں میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں ہے اس انتخاب میں مرکزی امیدواروں میں افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ہیں جبکہ سابق جنگجوؤں، سابق جاسوسوں اور ملک کی سابقہ کمیونسٹ حکومت کے ارکان سمیت اٹھارہ افراد نے ابتدا میں ہی الیکشن لڑنے کے لیے سامنے آئے تھے لیکن بعد میں ان میں سے پانچ افراد دستبردار ہوگئے ہیں اس مرتبہ ایک بھی خاتون صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار نہیں ہے اور صرف تین خواتین دیگر عہدوں کے لیے انتخاب لڑتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پولنگ سٹیشن پر خواتین ووٹرز بڑی تعداد میں حق رائے دہی استعمال کرنے آئی ہیں سنیچر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کا عمل صبح سات بجے شروع ہوا۔ بی بی سی پشتو کے مطابق صوبے ہرات میں پولنگ سٹیشنز کے باہر ووٹرز کی لمبی قطاریں دیکھنے میں آ رہی ہیں ووٹرز میں جوش و جذبے کی کمی کا احساس بھی اس وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ بھی ملک کی صدارت کے لیے انھیں دو امیدواروں میں مقابلہ ہے جنھوں نے سنہ 2014 کے انتخاب میں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے لیے مقابلہ کیا تھا
/urdu/regional-50419977
انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین دیے جانے کے حکم کے بعد جہاں ان پر اس زمین کو قبول نہ کرنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے تو وہیں یہ بحث بھی گرم ہے کہ زمین کہاں ملے گی۔
ایودھیا کیس میں انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے میں سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین دیے جانے کا اعلان انڈیا میں موضوع بحث ہے۔ ایک جانب سنی وقف بورڈ پر اس زمین کو قبول نہ کرنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے تو دوسری جانب یہ بحث بھی گرم ہے کہ زمین کہاں ملے گی۔ اس معاملے میں مسلم برادری اور مختلف مسلم تنظیموں کے درمیان اختلاف بھی نظر آرہا ہے۔ سنی وقف بورڈ نے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ہی اسے قبول کرنے اور آگے فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کی مسلمانوں کے کئی مذہبی رہنماؤں نے حمایت بھی کی جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 17 نومبر کو لکھنؤ میں ایک اجلاس کرنے جا رہا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر آگے کوئی قدم اٹھانا ہے یا نہیں۔ بورڈ کے ممبر اور وکیل ظفریاب جیلانی کہتے ہیں ’مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے کسی اور جگہ زمین کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ہم تو متنازع زمین پر مسجد واپس مانگ رہے تھے۔ اگر ہم نے فیصلے پر نظر ثانی کی پیٹیشن دائر کی تو اس میں یہ نکتہ بھی شامل ہوگا۔‘ مسلمان تنظیمیں اس بات پر بھی غور کر رہی ہیں کہ سنی وقف بورڈ کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہونے والی زمین کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے یا نہیں۔ اویسی نے صاف طور پر اسے خیرات کا نام دیتے ہوئے کہا ’انڈیا کے مسلمان اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ خود زمین خرید کر مسجد بنا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سنی وقف بورڈ کو اس تجویز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘ ظفر فاروقی نے بی بی سی کو بتایا ’ہم بورڈ کا جلد از جلد اجلاس بلا رہے ہیں اور اس اجلاس میں طے کریں گے کہ سپریم کورٹ کی یہ پیشکش قبول کریں یا نہیں۔ اگر بورڈ اس زمین کو قبول کرتا ہے تو اس کے بعد ہی طے ہو گا کہ اس پانچ ایکڑ زمین پر مسجد بنے گی یا کچھ اور۔‘ انھوں نے مزید کہا ’زمین کہاں دی جائے گی یہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو مل کر طے کرنا ہے۔ ہم کسی خاص جگہ زمین دیے جانے کا مطالبہ نہیں کریں گے لیکن اگر حکومت چاہے تو متنازع مقام کے ارد گرد 67 ایکڑ کے دائرے میں حکومتی اختیار والی زمین میں سے ہی ہمیں زمین دے سکتی ہے۔‘ مسلم برادری میں یہ بھی موضوع بحث ہے کہ پانچ ایکڑ زمین آخر ملے گی کہاں کیوںکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح نہیں ہے۔ اس درمیان اس بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو حکومت کی جانب سے ملنے والی زمین پر مسجد ہی بنانی چاہیے یا کچھ اور؟
/urdu/regional-56221069
سنہ 1925 میں صبح ہوتے ہی 'انڈین ٹیلی گراف' کے ایک اخبار فروش کو یہ پکارتے ہوئے سنا گیا کہ 'کاکوری کے قریب سنسنی خیز ڈکیتی' ہوئی ہے۔
یہ سنہ 1925 کی بات ہے۔ اشفاق اللہ ، ستیندر ناتھ بخشی اور راجندر لاہری ’ایٹ ڈاؤن‘ نمبر کی مسافر ریل گاڑی کی دوسرے درجے والی کوچ میں سوار ہوئے۔ انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ ٹرین کو روکنے کے لیے ایک خاص مقام پر زنجیر کھینچیں۔ صبح ہوتے ہی 'انڈین ٹیلی گراف' کے اخبار فروش کو یہ پکارتے ہوئے سنا گیا کہ 'کاکوری کے قریب سنسنی خیز ڈکیتی' ہوئی ہے۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 'میرے والد کی موت کے بعد ایک اجنبی میرے گھر مجھ سے ملنے آیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کا نام چندرشیکھر آزاد ہے۔ میں نے اس سے پہلے اسے نہیں دیکھا تھا لیکن میں نے اس کا نام دس سال قبل سنا تھا جب وہ عدم تعاون کی تحریک کے دوران جیل گیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر حکومت اور کانگریس کے مابین کوئی سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو کیا اس جیسے لوگ پر امن طریقے سے زندگی گزار سکیں گے؟ ان کا خیال تھا کہ آزادی صرف دہشت گردی کے طریقوں سے نہیں جیتی جاسکتی اور نہ ہی آزادی صرف پر امن ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے۔ سکھدیو راج لکھتے ہیں: 'جیسے ہی موٹر کھڑی ہوئی ہمیں شک ہو گیا۔ گورا افسر ہاتھ میں پستول لے کر سیدھا ہماری طرف آیا اور پستول دکھا کر انگریزی میں ہم سے پوچھا، 'تم لوگ کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟' آزاد کا ہاتھ اپنی پستول پر تھا اور میرا میری پستول پر تھا۔ ہم نے اس کے سوال کا جواب گولی سے دیا۔ لیکن گورے افسر کا پستول پہلے چل گیا اور اس کی گولی آزاد کی ران پر لگی جبکہ آزاد کی گولی اس افسر کے کاندھے میں لگی۔ دونوں طرف سے گولیاں چل رہی تھیں۔ انگریز افسر نے پیچھے بھاگ کر مولسری کے درخت کی آڑ لی۔ اس کے سپاہی چھلانگ لگا کر نالے میں چھپ گئے اور ہم نے جامن کے درخت کی آڑ لے لی۔ لڑائی ایک لمحہ کے لئے رک گئی۔ تب آزاد نے مجھے بتایا کہ گولی اس کی ران میں لگی ہے۔ اس نے کہا ’تم یہاں سے نکل جاؤ۔' 'جب بھی میں دکھائی دیتا آزاد مجھ پر فائرنگ کرتا۔ آخر کار وہ پیٹھ کے بل گر گیا۔ اسی دوران ایک کانسٹیبل شاٹ گن لے کر آیا جو بھری ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آزاد مر گیا ہے یا بہانے بنا رہا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے آزاد کے پاؤں کا نشانہ لینے کو کہا۔ جب میں فائرنگ کے بعد وہاں گیا تو آزاد مر چکا تھا اور اس کا ایک ساتھی بھاگ گیا تھا۔
/urdu/pakistan-56644614
کبھی گردنیں اُڑا دینے سے بدعنوانی پر قابو پانے کے طریقے اور کبھی چین، فرانس اور ایران کے خونی انقلاب کی خواہشیں، کیا اپنی ناکامی کو جمہوریت کی ناکامی بنا کر تبدیلی کے کسی نئے جھانسے کی تیاری ہے؟
آڑھی ترچھی لکیروں پر مشتمل تجریدی تصویروں کا فن بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ الجھے ذہن کبھی کبھی ایسے الجھے خطوط کھینچتے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے الگ نظر، ذہن اور سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ نظام اور سیاسی شاہکار کی تخلیق بہت سے سابقہ تجرباتی حکمرانوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی عوام پاکستان 80 کی دہائی میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی سن دو ہزار کے عشرے کو تلاشتے نظر آتے ہیں۔ آمر ضیا الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا اور ریاست کے خدوخال کو جہاد، اسلام اور اسلامی معاشرے جیسے نعروں سے ترتیب دینا شروع کیا۔ دعویٰ کیا کہ مغربی جمہوریتوں کی طرز پر آمریت عوام کو جوابدہ ہو گی، صدارتی اور پارلیمانی نظام ملا کر خلافت کی طرز ڈالنے کی کوشش کی اور عملاً ایک دن سائیکل لے کر دفتر کے لیے روانہ ہو گئے۔ اُن کی سائیکل کے پہیوں کے ساتھ منافقت اور منافرت کا سفر بھی شروع ہوا۔ دس سالوں میں اسلام کے نام پر قانون سازی اور دراصل لاقانونیت کا بازار گرم ہوا۔ عورتوں پر حدود کے تازیانے اور شخصی آزادیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ فرقہ واریت، سماجی تفریق اور معاشی حقوق کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا گیا۔ سوچ اور افکار پر پابندیاں اور قلم کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ بہر حال آمریت کا وہ دور ختم ہوا۔۔۔ اگلی آمریت روشن خیالی کے نعروں سے سجائی گئی۔ اب کی بار تجریدی آرٹ کے تخلیق کاروں نے انتہاپسندی کو روشن خیالی کا پہناوا دیا، وقت اور حالات اور بین الاقوامی تقاضوں کے عین مطابق enlightened moderation یعنی روشن خیال جدیدیت کی انوکھی اصطلاح تخلیق کر لی گئی۔ یہاں بھی آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کے ساتھ وہی ہوتا رہا جس کی بنیاد 80 کی دہائی میں ڈالی گئی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب اُس پر جدت اور روشن خیالی کا بورڈ آویزاں کر دیا۔ براہ راست عوام سے مخاطب وزیراعظم جب جنسی زیادتی کے واقعات کا ذمہ دار فحاشی کو ٹھہراتے ہیں تو سوال اُبھرتا ہے کہ چھ ماہ اور دو سال کی کم عمر بچیوں سے زیادتی کے واقعات ان کی کون سی فحاشی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔۔۔ کیا ملک کے وزیراعظم کی ایسی سوچ جنسی زیادتی کے واقعات کے تدارک کے لیے پالیسی بنانے کے قابل ہو سکتی ہے؟ پھر کبھی گردنیں اُڑا دینے سے بدعنوانی پر قابو پانے کے طریقے اور کبھی چین، فرانس اور ایران کے خونی انقلاب کی خواہشیں۔۔۔ کیا اپنی ناکامی کو جمہوریت کی ناکامی بنا کر تبدیلی کے کسی نئے جھانسے کی تیاری ہے؟ تبدیلی، جہاد اور ریاست مدینہ کی گونج میں عوام کو انصاف، استحقاق اور مساوات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ عوام ہر بار کی طرح اس بار بھی الجھی ہوئی اس تصویر کو سمجھ چکے ہیں۔۔۔ کاش تخلیق کاروں کو بھی اپنے شاہکار کی سمجھ آئے۔
/urdu/entertainment-55019196
کمال سنگھ آن لائن فیس کے لیے بالی وڈ اداکاروں کی حمایت سے فنڈ اکٹھے کرنے کے بعد اب انگلش بیلے سکول میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
چار سال پہلے 17 سالہ کمال سنگھ سکول ختم کرنے کے بعد اپنی ابتدائی بیلے کلاسز لے رہے تھے۔ اب 21 سالہ سنگھ، جو کہ انڈیا کے رکشہ ڈرائیور کے بیٹے ہیں، پہلے انڈین ڈانسر بن گئے ہیں جن کو انگلش نیشنل بیلے سکول کے پروفیشنل تربیتی سکول میں جگہ ملی ہے۔ تو اب یہ ذمہ داری ایگیلیرا کے کاندھے پر آن پڑی کہ وہ کمال سنگھ کے خاندان کو قائل کریں اور آگے کا کوئی راستہ نکالیں۔ اگلے تین سال انھوں نے کمال کو مفت ٹیوشن دی، دہلی میں اپنے گھر میں ایک کمرہ دیا، اور آخر کار کمال کے لندن جا کر معتبر انگلش نیشنل بیلے سکول میں تربیت حاصل کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے میں بھی مدد دی۔ بیلے سکول میں ایک سالہ کورس کی فیس 8,000 پاؤنڈ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے اخراجات بھی۔ یہ کمال کی دسترس سے باہر تھے، لیکن دونوں نے مل کے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے پیسے اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔ انھوں نے کمال کی آن لائن درخواست کو دیکھ کر انھیں پروگرام کے لیے چنا تھا، اور وہ کمال کی کلاس میں توجہ اور مختلف طرح کے کام کرنے کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ کمال کو لندن میں آئے ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا ہے اور یہاں نومبر کی کہرے کی راتیں آ رہی ہیں۔ ان کی کٹھن تربیت کا شیڈول بہت سخت ہے، جن میں صرف شہر میں دور تک پیدل چلنا اور اپنی پسندیدہ انڈین خوراک لینے کے لیے دوکانوں پر جانے اور خاندان کے ساتھ واٹس ایپ پر بات کرنے کے لیے ہی وقفہ ملتا ہے۔ وہ اکیلے رہتے ہیں لیکن اصرار کرتے ہیں کہ وہ تنہائی کا شکار نہیں ہیں۔ دورانتے جو کمال کو سکھاتی ہی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’آپ ڈانسر کو تربیت دیتے ہیں، لیکن اصل میں آپ ایک فرد کو تربیت دے رہے ہوتے ہیں، آپ ایک فرد کی مدد کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ پھلے پھولے اور اپنی بہترین صلاحیتیں سامنے لائے۔‘ 20 سالہ جوئل کی کوشش ہے کہ وہ بیلے کمپنی میں جگہ بنا سکیں۔ وہ پہلے ہی انگلش نیشنل بیلے سکول میں تین سال کی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تربیتی پروگرام دراصل اپنی مہارت کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کمال کی طرح ان کی بھی مدد نجی سپانسر کر رہے ہیں۔ وہ بہت کم ہی گھر واپس جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے اور ان کو اپنے گاؤں میں خاندانی اجتماعات، خوراک اور سورج کی روشنی بہت یاد آتی ہے۔ ’میں ایک لڑکا ہوں، میں میکسیکن ہوں۔ جوئل افریقہ کے ایک سیاہ فام ہیں۔ کمال انڈیا سے ہیں۔ یہ عجیب ہیں کہ ہم اب بیلے کر رہے ہیں۔
/urdu/regional-60693740
پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے امیدواروں نے بڑے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کو شکست دے دی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے لابھ سنگھ اگوکے نے پنجاب کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کو شکست دی ہے عام آدمی پارٹی نے انڈیا میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں بھاری فتح حاصل کر لی ہے اور اب وہ پنجاب میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ انڈین پنجاب کی اسمبلی میں انتخابی نتائج ایک سیاسی سونامی سے کم نہیں۔ پرکاش سنگھ، کیپٹن امریندر سنگھ، چرن جیت سنگھ چنی اور نوجوت سنگھ جیسی بڑی سیاسی شخصیات کو عام آدمی پارٹی کے عام سے امیدواروں نے شکست سے دوچار کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے دو نئے چہرے کون سے ہیں جنھوں نے پنجاب میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دیے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔ لابھ سنگھ اگوکے نے پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ چرن جیت سنگھ کو بدھوڑ کی نشسن پر شکست دی ہے۔ پینتیس سالہ لابھ سنگھ اگوکے بدھوڑ سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار تھے۔ اگوکے نے 2013 میں عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لابھ سنگھ اگوکے نے 2017 کے انتخابات میں پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار پرمل سنگھ خالصہ کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ اب کی بار عام آدمی پارٹی نے لابھ سنگھ اگوکے کو پارٹی کا ٹکٹ دیا اور انھوں نے چرن جیت سنگھ کو بھاری مارجن سے ہرا دیا ہے۔ وزیراعلیٰ چرن جیت سنگھ کو چمکور صاحب کی نشت سے بھی شکست ہوئی ہے۔ چرن جیت سنگھ چنی کو شکست دینے والے کا نام بھی چرن جیت سنگھ ہی ہے اور وہ پیشے سے آنکھوں کے ڈاکٹر ہیں۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو درپیش مسائل کے حل لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے چرن جیت سنگھ چنی کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ عام آدمی پارٹی نے امرتسر مشرقی سے جیون جوت کور کو ٹکٹ دیا تھا۔ اُنھوں نے یہاں سے پنجاب کی سیاست کے دو بڑے چہروں نوجوت سنگھ سدھو (کانگریس) اور وکرم سنگھ مجیٹھیا (شرومنی اکالی دل) کو شکست دی ہے۔ سنہ 1992 میں جب شری ہیمکنت ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام ہوا تو جیون جوت کور نے بھی اس سکول میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے پنجاب میں پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا کہ عام آدمی میں بڑی طاقت ہے اور جس دن عام آدمی کھڑا ہو گیا اس دن بڑے بڑے انقلاب آ جائیں گے۔ ’آج میں اپنے دیس کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ اپنی طاقت کو پہچانو، کھڑے ہو جاؤ، انقلاب لانا دیس کے اندر۔‘ اروند کیجریوال نے کہا کہ پہلے ہی دیس کے ستر برس ضائع کر دیے گئے ہیں اور اب مزید وقت ضائع نہیں کرنا ہے۔
/urdu/pakistan-50621225
پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے رکنیت معطل کیے جانے پر کہا ہے کہ اُنھوں نے جماعت کے ان نظریاتی کارکنوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور جماعت کے بانی رکن حامد خان نے پارٹی کی جانب سے ان کی رکنیت معطل کیے جانے کے شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس جماعت کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے کیونکہ اس جماعت کے لیے اُنھوں نے دن رات کام کیا ہے۔ واضح رہے کہ تین روز قبل حکمراں جماعت کے سیکرٹری جنرل نے اس بنیاد پر حامد خان کی پارٹی کی رکنیت معطل کر دی تھی کہ اُنھوں نے مبینہ طور پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیانات کے ذریعے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اس شوکاز نوٹس میں حامد خان کو سات روز میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق حامد خان نے اس شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھوں نے جماعت کے ان نظریاتی کارکنوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ان پر ’ناقابل فہم اور غیر واضح الزامات‘ عائد کیے گئے ہیں اور اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ انھیں بھی پارٹی کی رکنیت معطل کرنے کے بارے میں معلومات میڈیا کے ذریعے ہی موصول ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے معطل شدہ رکن نے جماعت کے سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی کو 'نام نہاد سیکرٹری جنرل' قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ارشد داد کو جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا کر اُنھیں سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ پارٹی کے سینیئر رکن ہونے کے ناطے ’آپ کو (عامر کیانی) سیکرٹری جنرل بنائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں‘۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے حامد خان ایل ایف او کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے اور اسی پاداش میں ان سے سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈووکیٹ کا عہدہ واپس لیا گیا۔ حامد خان پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔2007 کی وکلا تحریک میں بھی حامد خان کا اہم کردار رہا اور وکلا سیاست کے بعد حامد خان ملکی سیاست میں بھی سرگرم ہوئے۔ وہ تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں ہی جماعت میں شامل ہوگئے تھے اور انھوں نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کے طور پر فائض بھی سر انجام دیے۔2013 میں حامد خان نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ حامد خان کے انتخابی حلقہ ان چار حلقوں میں شامل تھا جن کے نتائج کو ’ری اوپن‘ کرنے کا مطالبہ عمران خان کی جانب سے سامنے آیا تھا۔
/urdu/science-50864977
وزن کم کرنے کے بارے میں بہت سے مشورے دیے جاتے ہیں لیکن لوگ کئی بار صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق نہیں کر پاتے اور کھانے پینے کی ایسی عادات اپنا لیتے ہیں جن کی بنیاد غلط فہمی ہوتی ہے۔
چھٹیوں میں خوراک کا خیال رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈنر، الوداعی کھانے، لنچ۔۔۔ کیلوریز سے بھرپور مزیدار کھانوں کی دعوتیں، اور نجانے کیا کیا۔ وزن کم کرنے کے بارے میں بہت سے مشورے دیے جاتے ہیں۔ اپنا خیال رکھنے کی خواہش کے باعث، ہم صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور اسی لیے ہم کھانے پینے کی ایسی عادات اپنا لیتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی ہی غلط معلومات سے بچنے کے لیے ہم یہاں ایسے پانچ مغالطے شیئر کر رہے ہیں جنھیں بہت سے افراد سچ مانتے ہیں۔ یہ تو بالکل ہی غلط ہے۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی ایسی تبدیلیاں لا کر، جن پر آپ باقاعدگی سے عمل کر سکیں، وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق ایک عام بالغ شخص کے لیے ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی جسمانی سرگرمی ضروری ہے۔ یہ سرگرمی تیز تیز چلنا یا سائیکل چلانا بھی ہو سکتی ہے۔ نوے اور 2000 کی دہائی میں کم کاربز والی غذائیں بہت مشہور تھیں لیکن اب زیادہ لوگ انھیں پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر انھیں صحیح مقدار میں متوازن غذا میں شامل کیا جائے تو یہ وزن بڑھانے کا سبب نہیں بنتیں جب تک آپ اس میں مکھن اور کریم وغیرہ شامل نہ کریں۔ کچھ پرہیزی کھانوں میں انگور، لال مرچ یا سرکہ کے استعمال کا مشورہ اس بنا پر دیا جاتا ہے کہ یہ چربی ختم کرتی ہیں اس لیے وزن کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ میو کلینک (ایک امریکی غیر منافع بخش تنظیم جو کلینیکل پریکٹس، تعلیم اور تحقیق کے لیے وقف ہے) کے مطابق کسی کھانے سے آپ کی چربی نہیں جلتی، ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے کہ آپ کا وزن کم ہونے لگتا ہے یا آپ کا ہاضمہ تیز ہو جاتا ہے اور بالآخر آپ کا وزن متاثر ہوتا ہے۔ میو کلینک کی ویب سائٹ کے مطابق ایسی غذاؤں میں، جیسا کہ اوپر بیان کی گئی ہیں، ہمارے جسم کے لیے ضروری غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے۔ اور اس طرح کی پابندیوں اور ان چیزوں کو استعمال کر کے کم ہونے والا وزن یہ سب چھوڑتے ہی ایک بار پھر بڑھ جاتا ہے۔ ڈبوں میں بند خوراک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں مصنوعی ذائقے شامل کیے جاتے ہیں تاکہ چربی کو کم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذائقوں کی کمی کی تلافی کی جا سکے۔ ’کیلوریز کم کرنے کے لیے چربی سے پاک خوراک کا انتخاب الٹا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد ہی ہمارا سنیکس کھانے کو دل کرتا ہے۔‘ وزن کم کرنے میں سنیکس مسئلہ نہیں ہیں لیکن یہ بات اہم ہے کہ یہ سنیکس کس قسم کے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جسم میں توانائی کی سطح برقرار رکھنے کے لیے کھانوں کے درمیان کچھ کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
/urdu/sport-52872447
جب دہلی پولیس نےسات اپریل 2000 کو ہنسی کرونیئے کے مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے اور ایک بک میکر سنجے چاؤلہ سے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کی بنیاد پر باضابطہ مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تو ایسا لگا کہ جیسے پورا جنوبی افریقہ ان کے دفاع میں آگے آیا ہو۔
ان کے پُرستار صرف جنوبی افریقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب میچ فکسنگ سکینڈل میں ان کا نام آیا تو کرکٹ کے سب مداحوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ جب دہلی پولیس نے سات اپریل 2000 کو ہنسی کرونیے کے مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے اور ایک بک میکر سنجے چاؤلہ کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو کی بنیاد پر باضابطہ مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تو ایسا لگا کہ جیسے پورا جنوبی افریقہ ان کے دفاع میں آگے آ گیا ہو۔ جب یہ خبر منظرعام پر آئی تو جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے صدر ڈاکٹر علی باقر نے فوری طور پر ہنسی کرونیے سے رابطہ کیا اور دونوں کی گفتگو کے بعد ڈاکٹر علی باقر کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ان کا کپتان میچ فکسنگ میں ملوث نہیں ہے۔ اس دوران انڈیا اور جنوبی افریقہ کے سفارتی تعلقات میں بھی گرما گرمی آ گئی تھی۔ گیارہ اپریل 2000 کی صبح ہونے میں ابھی بہت وقت باقی تھا جب ہنسی کرونیے نے جنوبی افریقی ٹیم کے چیف سکیورٹی افسر روری سٹین کو فون کر کے ہوٹل میں اپنے کمرے میں بلایا اور اپنا تحریر کردہ بیان ان کے حوالے کر دیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا جب اگلے ہی روز جنوبی افریقہ کو ڈربن میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنا تھا۔ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے صدر ڈاکٹر علی باقر نے ہنسی کرونیے کو فوری طور پر معطل کر کے شان پولاک کو کپتان بنانے کا اعلان کیا جس کے بعد کنگ کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کر دی تھی۔ ہنسی کرونیے نے کرکٹ سے جائز ناجائز کتنا کمایا اس کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن کرکٹ سے ان کی والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ سولہ برس کے تھے تو فری سٹیٹ کے صوبائی میچوں میں سکور بورڈ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے جس میں انھیں لنچ کے علاوہ پانچ رینڈ یومیہ ملا کرتے تھے۔ یہی کرکٹ میں ہنسی کرونیے کی پہلی آمدنی کہی جا سکتی ہے اور جب وہ جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم میں آئے تو دولت شہرت اور عزت سب کچھ ان کی منتظر تھی لیکن بک میکرز سے روابط کے بعد انھیں پیسے اور تحائف تو ملتے رہے لیکن ساتھ ہی وہ اس مافیا کے شکنجے میں جکڑتے چلے گئے۔ ہنسی کرونیے کی زندگی میں بک میکر سنجے چاؤلہ کا ذکر نمایاں ہے جسے برطانوی حکومت نے بیس سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد انڈیا کے حوالے کیا تھا اور بعدازاں عدالت نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
/urdu/regional-56689263
انڈیا میں سکیورٹی فورسز کئی دہائیوں سے ماؤ نواز تحریک کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر 22 انڈین فوجیوں کی حالیہ ہلاکت نے چند نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا انڈیا میں ماؤ تحریک مضبوط ہو رہی ہے یا ماؤ نواز چند مخصوص علاقوں میں اپنا زور ٹوٹنے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں؟
انڈیا میں چھتیس گڑھ کے مقام پر انڈین سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان ہونے والی خونریز جھڑپ نے کئی نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس حملے میں انڈین فوج کے 22 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ کیا ان حملوں سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انڈیا میں ماؤ تحریک مضبوط ہو رہی ہے؟ یا یہ کہ ماؤ نواز اپنے چند مخصوص علاقوں میں اپنا زور ٹوٹنے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں؟ انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ اور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے بیانات میں اسی معاملے پر بات کی ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان علاقوں میں اپنی پہنچ بڑھا رہی ہیں اور ماؤ نوازوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں کیمپ بنا کر ان پر حملے کر رہی ہیں۔ اپریل 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’نیکسل (ماؤ نواز) تحریک اندرونی سکیورٹی کو درپیش سب سے بڑا خطرا ہے۔‘ اس دوران ملک کی کئی ریاستوں میں کسی نہ کسی صورت میں ماؤ تحریک موجود تھی۔ انھوں نے بعض ریاستی سرحدی علاقوں میں مزید گوریلا وار فیئر کا فیصلہ کیا تھا اور آندھرا پردیش میں دوبارہ اس تحریک کے زور جمانے کی کوشش شروع کی گئی تھی۔ مگر اس پر مختلف ریاستوں نے ملک بھر میں ماؤ نوازوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیے تھے۔ سنہ 2010 میں 76 سی آر پی ایف اہلکاروں کی موت اور سنہ 2020 میں لاک ڈاؤن سے دو روز قبل سکیورٹی فورسز کے 17 اہلکاروں کی موت، یہ دونوں واقعات ان دیہی علاقوں میں ماؤ نوازوں کی قوت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ماؤ تحریک کی ایک خاتون رکن کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو برسوں میں پولیس نے نئے کیمپ قائم کیے ہیں، اس لیے یہ حملے ہو رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پولیس ماؤ تحریک کے گڑھ تک پہنچنا چاہتی ہے جبکہ گوریلا جنگجو اپنے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’حکومت سرنگوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے اور انھیں مائننگ کمپنیوں کو بیچنا چاہتی ہے۔ قبائلی لوگ ماؤ نوازوں کی قیادت میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘ وزیر داخلہ امت شاہ کے مطابق آخری لڑائی ماؤ نوازوں کی مدد سے ہی جیتی جائے گی۔ ایک سماجی کارکن کا اس سوال پر کہنا ہے کہ ’شاید یہ ممکن نہیں کہ ماؤ تحریک کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ جب تک معاشرے میں ناانصافی یا عدم مساوات رہیں گے، یہ تحریک کسی نہ کسی سطح پر موجود رہے گی۔‘ ماؤ نوازوں کے سکیورٹی فورسز پر حملے سے انھیں ایک سٹریٹیجک فتح ضرور حاصل ہوئی ہے۔ لیکن آج بھی وہ انڈیا جیسے بڑے ملک میں صرف چند چھوٹے علاقوں تک محدود رسائی رکھتے ہیں۔
/urdu/pakistan-56425868
گذشتہ چھ ماہ سے اگر آپ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو ہر کچھ روز بعد آپ کی ٹی وی سکرینز پر حذب اختلاف اتحاد 'پی ڈی ایم ناکام' اور 'پی ڈی ایم کامیاب' جیسے دعوے سامنے آتے رہے ہوں گے۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ روز ہونے والے پی ڈی ایم کے مشترکہ اجلاس کے بعد سے سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔
گذشتہ چھ ماہ سے اگر آپ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو ہر کچھ روز بعد آپ کی ٹی وی سکرینز پر حزب اختلاف کے اتحاد کے حوالے سے 'پی ڈی ایم ناکام' اور 'پی ڈی ایم کامیاب' جیسے دعوے سامنے آتے نظر آئے ہوں گے۔ اگر ماضی میں ہونے والے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں تو نواز شریف اور مریم نواز کی سخت لحجے میں کی جانے والی تقاریر ہوں تو اسے پی ڈی ایم کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے جبکہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات ہوں یا ان کے مشترکہ اجلاس کے دوران سامنے آنے والے اختلافات کو ان کی ناکامی۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ روز ہونے والے پی ڈی ایم کے مشترکہ اجلاس کے بعد سے سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ نے کسی کی موت کے وقت تعزیت کے طور پر ادا کیے جانے والی اصطلاح 'آر آئی پی' کو پی ڈی ایم سے جوڑ کر ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ روز پی ڈی ایم کی جانب سے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اور اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی قومی اسمبلی سے استعفوں کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی سے مشروط کیا جس پر مریم نواز کی جانب سے بھی ردِ عمل سامنے آیا۔ اس دلچسپ مکالمے کی خبریں اس مشترکہ اجلاس کے دوران ہی تمام ٹی وی چینلز پر چلائی جا چکی تھیں اور ساتھ ہی اس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اعلان کرنے کے بعد وہاں سے چلے جانا بھی زیرِ بحث ہے۔ مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز سے منسلک صحافی اور تجزیہ کا مظہر عباس نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'آج پی ڈی ایم تحریک کو جمہوری پروٹوکول کے ساتھ بالآخر سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ تمام رہنماؤں نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کی اور کچھ نے ویڈیو لنک کے ذریعے بھی۔ جہاں ہر کوئی گذشتہ روز پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تبصرے کرتے دکھائی دیے وہیں اس بارے میں صحافی حسن زیدی نے کہا کہ 'اس وقت پی ڈی ایم جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ ماضی سے سیکھ کر اپنے نظریے میں کیا تبدیلی لا سکتے ہیں اور انھیں کیا لگتا ہے کہ نظام میں کیا غلط ہے۔'
/urdu/pakistan-54657362
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے متعلق گذشتہ روز ایک نئی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے متعلق گذشتہ روز ایک نئی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اس فوٹیج کو مسلم لیگ نواز کی غلط بیانی کا واضح ثبوت قرار دے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ کے رہنما اس پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن (ر) صفدر کو 19 اکتوبر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا اور پیر کو ہی کراچی کی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ گذشتہ روز صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت سے ’بدسلوکی اور توہین‘ کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ جمعہ کو لاہور میں دھرنے پر بیٹھے بلوچ طلبا سے ملاقات کے بعد مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں کراچی واقعے پر انکوائری کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر چیز بہت واضح ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اعوان کی گرفتاری کے لیے کیا گیا آپریشن تقریباً 46 منٹ تک جاری رہا۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس چھ بج کر آٹھ منٹ پر ایک نجی ہوٹل میں داخل ہوتی ہیں۔ صبح چھ بج کر 45 منٹ پر پولیس 15ویں فلور پر آتی ہے جہاں کیپٹن صفدر اور مریم نواز کا کمرہ موجود ہے۔ اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص ہوٹل لابی میں گھوم رہا ہے اور فون پر کسی سے بات بھی کر رہا ہے۔ اس کے بعد فوٹیج میں کمرے کے دروازے پر زور آزمائی کے مناظر بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن اس میں ان افراد کی شناخت واضح نہیں ہے۔ جس کے کچھ ہی دیر میں کیپٹن صفدر کمرے سے باہر آتے ہیں اور انھیں لفٹ کے ذریعے نیچے لایا جاتا ہے۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ آواری گیٹ کا شرمناک واقعہ بتاتا ہے کہ کون آئین توڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ایک خاتون کے کمرے میں دروازہ توڑ کر زبردستی گھس آنا جب وہ سو رہی ہو کیا انتقام کی آگ واقعی اتنا اندھا کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سیاسی رہنماؤں کی طرح صارفین کی آرا بھی منقسم نظر آئیں۔ اسد ملک نامی ایک صارف نے اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے ہر شہری کی قانون کے مطابق حفاظت لازم ہے۔
/urdu/world-52687363
ایسے زیر زمین بنکر بنانے والوں کا خیال ہے کہ دنیا میں تباہی کا کوئی بڑا واقعہ ناگزیر ہے اور اس لیے وہ اس سے بچاؤ کی تیاری کرتے ہیں۔ انھوں نے 2008 میں ایک بنکر خریدا جہاں ایک وقت میں امریکی حکومت ین البراعظمی میزائل رکھتی تھی۔
لیکن اب یہ بنکر حکومت کی ملکیت نہیں ہے۔ اب اس کے مالک لیری ہال ہیں جو ایک وقت حکومتی ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اب وہ پراپرٹی ڈویلپر اور 'پریپر' ہیں یعنی تیاری رکھنے والوں میں سے ہیں۔ لیری ہال نے اس بنکر کو 2008 میں خریدا تھا۔ پریپرز ایسے افراد کو کہتے ہیں جنھیں یقین ہے کہ تباہی کا کوئی بڑا واقعہ ناگزیر ہے اور وہ اس سے بچاؤ کی تیاری کرتے ہیں۔ اس 15 منزلہ انڈر گراؤنڈ ’سروائیول کونڈو‘ کو 75 لوگوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں وہ پانچ برس تک باہر کی دنیا سے رابطہ رکھے بغیر پُرآسائش انداز میں رہ سکتے ہیں اور جب تباہی کا دور ختم ہو جائے تو یہ لوگ وہاں سے نکل کر ایک بار بھر انسانی معاشرے کی تشکیل کر سکیں گے۔ میں پچھلے تین برسوں میں پریپرز پر ریسرچ کی غرض سے دس ملکوں، جن میں آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی، تھائی لینڈ، کوریا اور امریکہ میں سو ایسے لوگوں سے ملا جو سمجھتے ہیں کہ کوئی بڑی تباہی آنے والی ہے اور وہ خود کو اس سے بچانے کی منصوبہ بندی کر ہے ہیں۔ میں نے ان کے حفاظتی پراجیکٹوں کو بھی دیکھا ہے۔ سنہ 1999 میں پلیزینٹ ہل، کیلیفورنیا میں ہونے والے ایک تجربےمیں 99 قیدیوں کو دو ہفتوں کے لیے زیر زمین بند کر دیا گیا۔ جب انھیں وہاں سے نکالا گیا تو تمام کی ذہنی اور جسمانی صحت برقرار تھی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ صورتحال عارضی ہے تو وہ اپنے آپکو حالات کےمطابق ڈھال لیتے ہیں۔ میں مکمل طور بھول گیا تھا کہ میں زیر زمین ہوں۔ لیری نے ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور ویڈیو فیڈ کا بٹن پریس کیا تو ہمیں باہر کا موسم بڑی ٹی وی سکرین پر آنے لگا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں ہماری گاڑی کھڑی ہیں وہاں اوک کے درخت سے پتے گر رہے ہیں اور دور سنتری بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں وہ اس وقت کھڑا تھا جب ہم یہاں آئےتھے۔ اوگی نامی ایک پریپر جس کا تھائی لینڈ میں سروائیول بنکر تیار ہو رہا ہے، اس نے بتایا: 'میرا خیال ہے کہ جب لاک ڈاؤن ختم ہو گا تو بنکر سے باہر نکلتے وقت گھبراہٹ میرے بدن سے نکل جائے گی، میں سوچوں گا کہ میں نے یہاں اپنے خاندان کے ساتھ بحفاظت وقت گزارا ہے اور ایک اچھے والد کا میرا روپ سامنے آئے گا۔' پریپرز کے لیے بنکر ایک ایسی کنٹرولڈ لیبارٹری ہے جس میں جا کر وہ اپنی بہتر تعمیر کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے بنکر ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے خول سے نکل کر اس پیچیدہ اور نازک دنیا میں نئی شروعات کر سکتے ہیں۔
/urdu/pakistan-49381394
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں مقامی انتظامیہ نے ضلع میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ کے باعث غیر مقامی افراد کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
وٹیفیکیشن کے مطابق ضلع کی حدود میں غیر مقامی افراد کے داخلے کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں مقامی انتظامیہ نے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے اور اس کے ساتھ غیر مقامی افراد کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان عبدالناصر خان کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق ضلع کی حدود میں غیر مقامی افراد کے داخلے کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے چناچہ ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس پابندی کا اطلاق غیر مقامی سرکاری ملازمین پر نہیں ہوگا اور ان مزدوروں پر نہیں ہوگا جو شمالی وزیرستان میں ٹھیکیداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مقامی افراد کی شناخت کے لیے ان کا شناختی کارڈ استعمال کیا جائے گا اور وہ افراد جن کا رہائشی پتہ شمالی وزیرستان کا ہو صرف انھیں ضلع میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ شمالی وزیرستان میں دو ماہ پہلے یعنی جون کے ماہ میں بھی دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی جب علاقے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے تھے تاہم وہ پابندی ایک ماہ میں ختم کر دی گئی تھی۔ اس سے قبل رواں برس جنوری میں بھی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے تمام مقامی اور غیر مقامی افراد کو شمالی وزیرستان میں داخلے کی اجازت دے دی تھی اور صرف قومی شناختی کارڈ پر مقامی اور غیر مقامی افراد یہاں داخل ہو سکتے تھے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حالیہ پابندی کی کوئی اور وجہ بیان نہیں کی گئی تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے قائدین شمالی وزیرستان کا دورہ کر سکتے تھے۔ پی ٹی ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر دو روز قبل سوشل میڈیا پر بیان سامنے آیا تھا کہ پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین اپنے رہائشی علاقے جنوبی وزیرستان سے شمالی وزیرستان جا سکتے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ پابندی اس لیے ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب رواں برس مئی میں پی ٹی ایم کے مظاہرے کے دوران خڑ کمر کی چوکی کے قریب فائرنگ میں 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر گذشتہ برس واپس اپنے گھروں کو لوٹے ہیں لیکن اب بھی شمالی وزیرستان کے چند ایک علاقوں کے لوگ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں خاص طور پر بنوں اور اس کے مضافات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
/urdu/pakistan-60910215
سرپرائز تو یہ بھی ہے کہ نیوٹرل ہوئے دانشور اُنہی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں جو نظریہ پاکستان کے محافظ اور حب الوطنی کے علمبردار ہیں۔ پھر یہ ایکس سروس مین اچانک کیسے نیوٹرل نہیں رہے اور سوشل میڈیا پر گھومتی کپتان کے حق میں ویڈیوز کس کا فیصلہ سنا رہی ہیں؟
عجب حالات ہیں ایسے ایسے سرپرائز مل رہے جو کبھی دیکھے نہ سُنے۔۔۔ وہ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہ ہوا اور وہ نہیں ہو رہا جو پہلے ہوتا رہا۔ مثلاً ’ن‘ سے ’ش‘ نکلنا تھی یہاں ’ق‘ سے ’ش‘ برآمد ہو گئی۔ وزیراعظم کے جلسے میں سرپرائز نکلنا تھا وہاں جیب سے خط نکل آیا، خط میں کیا تھا کسی کو نہیں معلوم البتہ مجمعے کو کھلے عام آف دی ریکارڈ دکھانے کی پیشکش بھی ہو گئی۔ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں لیکن سیاسی سرکس میں مداری کے ہاتھ بھی کچھ نہ رہے تو جانور وہ اودھم مچاتے ہیں کہ خُدا کی پناہ۔ اب آپ دیکھ ہی لیجیے کہ آزاد کردہ سیاسی جماعتیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہ رہی ہیں لیکن سیاسی آیوڈین کی کمی ایسا ہونے نہیں دے رہی۔ آزادی سیاسی پرندوں کو نصیب کیا ہوئی کہ پروں کے ہوتے ہوئے بھی پابند ہیں اور پنجرے میں ہی پھڑپھڑاتے پھر رہے ہیں۔ اطمینان مگر اس بات کا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی حد تک میچور ضرور ہو گئی ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ سرپرائزز کے اس موسم میں ریمنڈ ڈیوس کی آزادی کے پروانے کو موضوع بنا کر، پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والے شاہ محمود قریشی کو ایسی کیا سُوجھی کہ حکومت گرانے کے لیے بین الاقوامی سازش جلسے میں بے نقاب کروائی، وزیراعظم کو ’ثبوت کی فراہمی‘ کا وعدہ پورا کرنے کے بعد عوامی جلسے میں اس کا ٹریلر بھی چلا دیا۔ دوسری طرف سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان محض بھٹو بننے کے چکر میں براہ راست عالمی سازش اور مقامی سہولت کاروں تک پہنچ گئے ہیں یا اس معاملے کو چند ماہ کے لیے انتخابات تک ٹوکری تلے دبا دیا جائے گا۔ بات نکلی ہے تو دور تلک جا سکتی ہے، غیر ملکی فنڈنگ کیس کا جواب ’خط‘ کیسے دے گا، آنے والے دنوں میں اس کا انتظار بھی کرنا پڑے گا۔ چوہدری پرویز الہٰی کا فیصلہ کسی وقتی غبار کا نتیجہ تھا یا لا ابالی پن۔۔۔ مگر یہ فیصلہ کیوں ہوا یہ جانتے ہوئے کہ نیوٹرل، نیوٹرل کیوں ہوئے اور تحریک انصاف کی مختلف گروپوں میں بٹی جماعت پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ دے پائے گی یا نہیں۔۔ وہ سرپرائز دینے پر تیار کیسے ہو گئے۔ سرپرائز تو یہ بھی ہے کہ نیوٹرل ہوئے دانشور اُنہی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں جو نظریہ پاکستان کے محافظ اور حب الوطنی کے علمبردار ہیں۔ پھر یہ ایکس سروس مین اچانک کیسے نیوٹرل نہیں رہے اور سوشل میڈیا پر گھومتی کپتان کے حق میں ویڈیوز کس کا فیصلہ سنا رہی ہیں؟ سول ملٹری تعلقات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ چند اشارے کچھ اور الجھن بڑھا رہے ہیں۔
/urdu/pakistan-50883083
جنوبی پنجاب کے شہر راجن پور سے تعلق رکھنے والے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو گزشتہ روز پنجاب کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی ہے۔
پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو پنجاب کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی ہے۔ جنید حفیط جنوبی پنجاب کے ایک شہر راجن پور میں پیدا ہوئے۔ جنید حفیظ نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پری میڈیکل میں ٹاپ کیا اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ لیکن ایم بی بی ایس کے پہلے ہی سال کے بعد انھیں احساس ہوا کہ ان کا دل طب کی کتابوں میں نہیں بلکہ لٹریچر کی رومانیت میں ہے۔ سنہ 2011 میں انھوں نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں بطور وزیٹنگ لیکچرار اپنی خدمات انجام دینا شروع کر دیں اور ساتھ ہی اپنی ایم فل کی ڈگری کے لیے پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ جنید حفیظ پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ لبرل خیالات کے لوگوں کو یونیورسٹی میں بلا کر مذہبی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ پاکستانی نژاد برطانوی مصنفہ قیصرہ شاہراز کے بہاؤ الدین یونیورسٹی میں بلائے جانے کا ہے۔ قیصرہ کو یونیورسٹی کی ایک تقریب میں بلایا گیا جسے منعقد کرنے والوں میں جنید حفیظ بھی شامل تھے۔ اس تقریب کی اجازت وائس چانسلر سے لی گئی تھی اور اس سے شعبہ انگلش لٹریچر کی سربراہ شیریں زبیر سمیت مختلف لوگوں نے خطاب کیا جن میں قیصرہ شاہراز بھی بطور مہمان سپیکر شامل تھیں۔ اس کے بعد میں کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ اس میں حفیظ نے ایسے کلمات کہے ہیں جن سے مذہب کی دل آزاری ہوتی ہے۔ پولیس نے اپنی تحقیقات کے دوران اس صفحے کو ایک بڑی شہادت بنایا اور اسی بنیاد پر جیند حفیظ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ذاتی کمپیوٹر کی بھی چھان بین کی گئی۔ جنید حفیظ کے پہلے وکیل تو شروع ہی میں کیس چھوڑ گئے لیکن اس کے بعد ایک اور وکیل اور ملتان میں انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمٰن نے ان کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر 2014 میں جنید حفیظ کی طرف سے ایک پیٹیشن دائر کی گئی کہ ان کی جان کو خطرے کی بنا پر ان کا مقدمہ ملتان کی بجائے لاہور بھیجا جائے۔ لیکن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسے مسترد کر دیا۔ انتہائی حساس حالات کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل ملتان سنٹرل جیل میں ہوا اور ان کے نئے وکیل کو ہر پیشی پر وہیں جانا پڑتا۔ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ملتان جیل میں ہی سنایا گیا۔ جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کاشف قیوم نے سنیچر کو سنٹرل جیل ملتان میں اس مقدمے کے فیصلے میں جیند حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
/urdu/entertainment-58189249
پاکستان کے سٹیج، ٹی وی اور فلم کی اداکارہ دردانہ بٹ جمعرات کی صبح وفات پا گئیں ہیں، وہ گزشتہ چند برسوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور وفات سے قبل ونٹیلیٹر پر تھیں۔
پاکستان کے سٹیج، ٹی وی اور فلم کی اداکارہ دردانہ بٹ جمعرات کی صبح وفات پا گئیں ہیں، وہ گزشتہ چند برسوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور وفات سے قبل ونٹیلیٹر پر تھیں۔ درانہ بٹ کے والد برطانیہ میں پاکستان کے سفارتخانے میں ایجوکیشنل اتاشی تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہاں ہی حاصل کی اس کے بعد ان کے والد کا تبادلہ ہوگیا اور وہ واپس پاکستان آگئے۔ وہ اپنے والدین کی منجلی اولاد تھیں۔ دردانہ بٹ کی 1967 میں سعید احمد خان سے شادی ہوئی جو ان کے والدہ کے قریبی رشتے دار تھے۔ دردانہ بٹ بتاتی تھیں کہ 1965 کی جنگ میں والدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ جنگ چل رہی ہے کہیں بم ہم پر گرے اور ہم مر جائیں لہذا شادی کرلو، اس طرح ان کی شادی ہوگئی لیکن ڈیڑہ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ شادی کریں لیکن انھوں نے والد کو بتایا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہیں، اس طرح انھوں نے کالج سے گریجویشن کی اور وہاں سٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی سکول میں وقتی طور پر پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ دردانہ بٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے چھ ماہ لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکل بھی چلائی تھی۔ اس کے علاوہ 36 گھنٹے بطور کمرشل پائلیٹ ہوا بازی بھی کی لیکن نظر کی کمزوری کی وجہ سے اس کو جاری نہ رکھ سکیں۔ انھیں ایک بار پولیس میں انسپیکٹر بننے کی بھی پیشکش ہوئی تھی کیونکہ وہ جوڈو کراٹے اور آتش اسلحے کا استعمال جانتی تھیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ دردانہ بٹ نے اداکاری کے ساتھ درس و تدریس کو بھی جاری رکھا۔ انھوں نے سپین سے ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بیکن ہاؤس سکول کے ساتھ منسلک رہیں اور اس سلسلے میں وہ کراچی منتقل ہوگئیں تھیں۔ اس کے بعد معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا کیا اور دوسری جانب تنہائیاں سمیت متعدد ڈرامے کیے اور جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو وہ ان میں بھی کئی ڈراموں کا حصہ رہیں۔ اداکارہ ثنا جاوید نے ان کے ساتھ ڈرامہ سیریل رسوائی سمیت دو ڈراموں میں کام کیا اور ان کا کہنا ہے کہ ’وہ ناصرف اپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کرتیں بلکہ سیٹ پر سب کو محضوض بھی کرتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہماری ہی عمر کی ہوں نہ کہ ہم سے بڑی، اور یہی وجہ ہے کہ آج اتنے برسوں بعد بھی وہ خاص اہمیت رکھتی تھیں۔‘
/urdu/vert-cul-61345821
بعض شعبوں کی کمپنیاں انٹرنز کو ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر تک کی تنخواہ دے رہی ہیں۔ یہ ایسی انٹرن شپس ہیں جو محض ایک سال کرنے پر آپ امریکی ورکر کی اوسط سالانہ آمدن سے کہیں زیادہ پیسے کما سکتے ہیں۔
کئی ملازمین کو لگتا ہے کہ انٹرن شپ کا مطلب یہ ہے کہ انھیں کسی کمپنی میں کم سے کم تنخواہ پر چھوٹے موٹے کام کرنا ہوں گے۔ جیسے فائلیں سنبھالنا یا دفتر کی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کرنا لیکن بعض ایسے انٹرنز بھی ہیں جو اوبر اور ایمازون جیسی بڑی کمپنیوں میں ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر سے زیادہ کی آمدن کما رہے ہیں۔ اپریل 2022 کے دوران جاب ریویو ویب سائٹ گلاس ڈور کے ایک سالانہ سروے سے معلوم ہوا کہ امریکہ میں سب سے زیادہ تنخواؤں والی انٹرنشپس کون سی ہیں۔ یہ وہ انٹرنشپس ہیں جو محض ایک سال کرنے پر آپ امریکی ورکر کی اوسط سالانہ آمدن سے کہیں زیادہ پیسے کما سکتے ہیں۔ اس میں سرفہرست ایک گیمنگ کمپنی روبلوکس ہے جہاں انٹرن کی ماہانہ تنخواہ قریب 9667 امریکی ڈالر ہے۔ مائیکرو سافٹ، ڈوئچے بینک اور ای بے جیسی دیگر کمپنیاں ہر ماہ اپنے انٹرنز کو قریب سات ہزار ڈالر دیتی ہیں۔ اگر ایک انٹرن کسی ٹیکنالوجی یا مالیاتی کمپنی میں ماہانہ قریب آٹھ ہزار ڈالر کی آمدن کماتا ہے تو یہ ایسی کمپنیوں میں باقاعدہ نوکری کی صورت میں ان کی ابتدائی تنخواہ سے بہت مختلف نہیں۔ ان میں سے اکثر بہترین انٹرن شپس ٹیکنالوجی یا فائنانس کے شعبوں میں ہوتی ہیں۔ تھامس کا کہنا ہے کہ دو سال قبل ٹیکنالوجی کے شعبے میں نصف سے بھی کم سب سے زیادہ آمدن والی انٹرن شپس ہوا کرتی تھیں مگر آج اس فہرست میں سیلیکون ویلی کی کمپنیاں 68 فیصد بہترین انٹرن شپس دے رہی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ان طلبہ کے لیے بھی راستے ہیں جو ٹیکنالوجی یا فائنانس کی نوکریاں نہیں ڈھونڈ رہے۔ جب بات مواقع حاصل کرنے کی ہو تو طلبہ اس طرح نہیں سوچتے کہ انھیں ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر کی انٹرن شپ ہی چاہیے۔ بلکہ مختلف شعبوں میں وہ اپنے لیے سیکھنے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں اور اس طرح انھیں اچھی آمدن مل سکتی ہے۔ اس طرح انٹرنز کی ماہانہ تنخواہ 3300 ڈالر اور سالانہ قریب 40 ہزار ڈالر بنتی ہے۔ یہ امریکہ میں نصف آبادی کی اوسط آمدن سے زیادہ ہے۔ مستقبل میں یہ روایت ہو سکتی ہے کہ انٹرنز کو مناسب تنخواہ دی جائے اور کوئی ایسا انٹرن نہ ہو جو مفت میں کام کرتا ہو۔ ڈیلفائن کے مطابق انٹرنز ایک ٹیم میں بہت اچھی صلاحیتیں دے سکتے ہیں۔ فی الحال شاید تمام انٹرنز کی تنخواہیں ماہانہ ہزاروں ڈالر نہ ہو سکیں۔ تاہم یہ تنخواہیں اب کے مقابلے مستقبل میں اوسطاً زیادہ ہوسکتی ہیں۔ اکثر کمپنیاں انٹرنز کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ وہاں تجربہ حاصل کرنے آ رہے ہیں اور انھیں اسی بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھیں یہ سیکھنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ لیکن عالمی وبا کے بعد اب کے ماحول میں لوگوں کو زیادہ پُراعتماد ہو کر انٹرن شپ ڈھونڈنی چاہیے۔ انھیں ایسی کمپنیوں کی تلاش ہونی چاہیے جو ان کے ہنر اور خیالات سے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔
/urdu/pakistan-51114665
پاکستان میں ٹی وی ٹاک شوز میں عام طور پر گرما گرم بحث تو دیکھنے میں آتی ہے اور اکثر بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے، لیکن منگل کی شب ایک ٹاک شو میں بدمزگی کی وجہ ایک ’فوجی بوٹ‘ بنا۔
پاکستان میں ٹی وی ٹاک شوز میں عام طور پر گرما گرم بحث تو دیکھنے میں آتی ہے اور اکثر بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے، لیکن منگل کی شب ایک ٹاک شو میں بدمزگی کی وجہ ایک ’فوجی بوٹ‘ بنا۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے پرواگرام آف دی ریکارڈ میں صورتحال اس وقت بدلی جب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے اچانک ایک کالے رنگ کا فوجی بوٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا: ’میں تو اب ہر پروگرام میں یہ رکھا کروں گا، یہ آج کی جمہوری ن لیگ ہے کہ اب لیٹ کے نہیں چوم کے بوٹ کو عزت دو۔‘ اس پروگرام کی میزبانی کاشف عباسی کرتے ہیں اور منگل کی شب ہونے والے شو میں پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان قائرہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید عباسی شو میں موجود تھے۔ فیصل واوڈا کی اس حرکت کے بعد پروگرام کے میزبان اور فیصل واوڈا کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ دیکھنے میں آیا۔ کاشف عباسی نے چھوٹتے ہی کہا کہ ’میں تو سمجھا تھا یہ بندوق لے کر آئے ہیں یہ تو بندوق سے بھی زیادہ خطرناک چیز لے آئے ہیں۔‘ فیصل واوڈا اس بوٹ کی چمک کے بارے میں بار بار بات کر رہے تھے تو کاشف عباسی نے ان سے پوچھا کہ اسے کس نے چمکایا ہے۔ جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ ’یہ چمک انسان کے ہاتھ کی نہیں ہو سکتی، جس حد تک یہ جا چکے ہیں یہ زبان سے چمکا ہوا لگ رہا ہے۔‘ قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ ’حکومت کا ایک وزیر کہہ رہا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کر کے اپنا ووٹ اس بوٹ کی بنیاد پر لیتی ہے۔‘ اس واقعے کو سوشل میڈیا صارفین نے مختلف انداز سے دیکھا۔ اکثر صارفین کے نزدیک یہ پاکستان کی بری فوج کی توہین تھی، کچھ کو یہ حرکت اخلاقی طور پر معیوب لگی، کچھ نے کاشف عباسی کی میزبانی پر تنقید کی جبکہ بعض صارفین کو اس میں مزاح کا پہلو نظر آیا۔ صحافی طلعت حسین نے لکھا کہ ’وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ کے وزیر ٹی وی شو پر بوٹ صرف اس لیے لائے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ پارلیمان اور حزب اختلاف فوج کو خوش کرنے کے لیے ان کے قدموں میں گری۔ ایک صارف نعمان مہب کاکاخیل نے تو فیصل واوڈا کی جانب سے لائیو شو میں فوجی بوٹ لانے کے باعث انھیں نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سویلین بالادستی کا مزاق اور افواج پاکستان کو سیاست میں گھسیٹنے کے مترادف ہے۔ کیکاؤس میر نامی ایک صارف ابہام کا شکار دکھائی دیے۔ کہنے لگے کہ ’ہم تو سمجھتے تھے ہماری افواج ہماری سرحدوں پر ملک کی حفاظت میں مصروف ہیں لیکن وزیر کہتے ہیں کہ افواج سیاست اور ووٹ دینے دلوانے میں لگے ہیں۔‘
/urdu/pakistan-50232061
مولانا فضل الرحمان کے ترجمان مولانا طارق نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جے یو آئی کا مارچ اسلام آباد میں پہنچنے کے لیے حکومت کے ساتھ طے شدہ راستہ اختیار کرے گا۔
مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ لاہور سے اسلام آباد کی جانب گامزن ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی مارچ کا قافلہ بدھ کی رات گجر خان میں قیام کرے گا۔ مولانا فضل الرحمان کے ترجمان مولانا طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ جے یو آئی ایف کی قیادت کا ایک اجلاس کنٹینر میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مارچ کے شرکا آج رات گجر خان میں قیام کریں گے اور جمعرات کی صبح اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کا مارچ اسلام آباد میں پہنچنے کے لیے حکومت کے ساتھ طے شدہ راستہ اختیار کرے گا۔ اس سے پہلے جے یو آئی ف کے قائد مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں مارچ کے شرکا بدھ کی صبح لاہور میں داخل ہوئے جہاں ان کا پڑاؤ آزادی چوک میں ہوا۔ اس سے قبل شرکا ملتان سے منگل کے روز تقریباً 10 گھنٹوں سے زیادہ وقت میں لاہور پہنچے۔ ملتان سے لاہور کے سفر کے دوران مارچ کے شرکا نے خانیوال، ساہیوال اور اوکاڑہ میں بڑے قیام کیے جہاں ان کے لیے جے یو آئی ف اور دیگر جماعتوں کی طرف سے استقبالی کیمپ لگائے گئے تھے۔ جے یو آئی ف کے ترجمان کے مطابق لاہور سے اسلام آباد کے سفر کے آغاز سے قبل مولانا فضل الرحمان مارچ کے شرکا سے خطاب کریں گے۔ جے یو آئی ف کے اعلان کے مطابق ان کا مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہو گا۔ ان کا دعوٰی ہے کہ ان کے اس مارچ میں سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں افراد شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ آج لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کے لیے سفر کا آغاز کرے گا ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ مارچ میں کیوں آئے ہیں تو ان کا یہی جواب تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی اپیل پر وہ گھروں سے نکلے ہیں اور مولانا کی قیادت میں اس مارچ کے مقاصد حاصل کر کے ہی واپس جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک بچانے کے لیے نکلے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے ملک کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ وہ اپنے خرچے پر یہاں پہنچے ہیں اور اسلام آباد تک جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مہنگائی سے تنگ ہیں اور انھیں ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت اگر ختم ہو جائے تو حالات بہتر ہو جائیں گے اور اس امید پر وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ روانہ ہوئے ہیں ۔ محمد اشرف صوبہ بلوچستان کے ضلع دکی سے روانہ ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مدرسے میں پڑھاتے ہیں اور وہ مولانا فضل الرحمان کی اپیل پر روانہ ہوئے ہیں ۔ کوئٹہ سے ایک نوجوان زمیندار محمد نجیب نے کہا کہ ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے جس وجہ سے وہ مولانا فضل الرحمان کی اپیل پر نکلے ہیں۔
/urdu/sport-58728692
کسے خبر تھی کہ اپنے دفاع کے لیے باکسنگ سیکھنے والا یہ لڑکا مستقبل میں پاکستان کا نہ صرف سب سے کامیاب باکسر بننے گا بلکہ اولمپکس میں بھی تمغہ جیت کر تاریخ رقم کرے گا۔
لیکن کسے خبر تھی کہ اپنے دفاع کے لیے باکسنگ سیکھنے والا یہ لڑکا مستقبل میں پاکستان کا نہ صرف سب سے کامیاب باکسر بنے گا بلکہ اولمپکس میں بھی تمغہ جیت کر تاریخ رقم کرے گا۔ حسین شاہ کہتے ہیں ʹمیں اپنی دھن میں سخت ٹریننگ کر رہا تھا اور میرے ذہن میں صرف یہی بات ہوا کرتی تھی کہ جس ایونٹ میں جاؤں اس میں تمغہ جیتوں۔ میں سیف گیمز ایشیئن چیمپیئن شپ اور پریذیڈنٹ کپ میں تمغے جیت رہا تھا لہٰذا جب میں کیمپ میں اپنے ساتھی باکسرز سے کہتا کہ میں اولمپکس میں بھی میڈل جیت کر آؤں گا تو سب مجھ پر ہنستے تھے۔ صرف ہمارے کیوبن کوچ جولین میری بات کو سنجیدگی سے سُنتے تھے۔ اُنھیں پتہ تھا کہ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ اس شخص نے مجھ پر بہت محنت کی تھی۔‘ ’محمد علی 1989 کے سیف گیمز کے موقع پر پاکستان آئے تھے تو اس وقت میری ان سے ملاقات ہوئی۔ جب میں نے اُنھیں بتایا کہ میں نے بھی آپ کی طرح اولمپکس میں تمغہ جیتا ہے تو اُنھیں یقین نہیں آیا کہ پاکستان سے بھی کوئی باکسر اولمپکس میں تمغہ جیت سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے گلے لگایا اور اپنے ساتھ تصویریں بنوائیں۔‘ حسین شاہ کا کہنا ہے ʹمیرے پاکستان چھوڑنے کی وجہ بہتر مستقبل کی تلاش تھی جس کے لیے میں نے پروفیشنل باکسنگ اختیار کی۔ ایک پروموٹر خالد جاوید تھے اُنھوں نے سکواش چیمپیئن جہانگیر خان سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے حسین شاہ کو برطانیہ لائیں تاکہ وہ پروفیشنل باکسنگ میں حصہ لے سکے جس پر جہانگیر خان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم انگلینڈ جانے کے لیے راضی ہو؟ میرے پاس انکار کی کوئی وجہ موجود نہ تھی۔‘ ’اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ میرا بیٹا شاہ حسین شاہ جاپان میں رہ کر باکسنگ کو اپناتا تو شاید اس کا کریئر اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ جوڈو جاپان کا قومی کھیل ہے اسی لیے میری بیگم نے مجھے مشورہ دیا کہ شاہ حسین شاہ کو جوڈو کرواتے ہیں۔ وہ دو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکا ہے، اس نے کامن ویلتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا جبکہ ساؤتھ ایشین گیمز میں وہ دو طلائی تمغے جیت چکا ہے۔‘
/urdu/pakistan-53464421
پاکستانی حکام کے مطابق چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہیں۔
بی بی سی نے اس حوالے سے حقائق جانچنے کے لیے پلاننگ کمشن، وزارت منصوبہ بندی اور سی پیک اتھارٹی کے حکام سے رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر سی پیک اتھارٹی کو کون سے اختیارات دیے جا رہے ہیں، اس میں چین کو کیسے شامل کیا جا رہا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) زکریا علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ چین کی حکومت نے یہ محسوس کیا کہ منصوبوں کی کوآرڈینشین صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق ان منصوبوں میں مانیٹرنگ کے مسائل بھی آ رہے تھے۔ جس کے بعد سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تجویز کے مطابق سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی مشترکہ طور پر پاکستان کی سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور چین کے نیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چئیرمین کریں گے۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ یہ التوا کچھ مسائل سامنے آنے کی وجہ سے ہوا۔ حکام نے ان مسائل کی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔ تاہم حکام اس کی وجہ کچھ انتظامی اور ضابطے کی رکاوٹوں کو قرار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت کے دور میں کیا تھا مگر سی پیک اتھارٹی جیسے کسی ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔ زکریا علی شاہ کے مطابق صدارتی آرڈیننس سی پیک اتھارٹی کو وہ اختیارات نہیں دے رہا تھا جس کے تحت یہ اپنے قیام کے مقاصد کو بطور احسن انجام دے پاتی۔ لہٰذا وزیر اعظم نے پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین کو یہ ٹاسک سونپا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس اتھارٹی سے متعلق تجاویز (قانون سازی سے متعلق سفارشات) تیار کریں۔ ذرائع کے مطابق ابھی صوبوں نے اس اتھارٹی کے صوبائی دفاتر کے قیام پر متفق نہیں ہیں۔ تاہم مجوزہ قانون سازی میں صوبائی حکومتوں کے تحت اداروں کو اس اتھارٹی سے تعاون کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے والی اتھارٹیز زیادہ با اختیار ہیں اور ان کے کام میں وزارت کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس حوالے سے ادارہ شماریات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلمپنٹ اکنامکس کی مثال دی کہ وہ اپنے معاملات کو آگے بڑھانے میں آزاد ہیں۔
/urdu/regional-57654432
انڈین پولیس نے ٹوئٹر پر مبینہ طور پر ملک کا غلط نقشہ دکھانے پر ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ٹوئٹر حکام کے خلاف یہ دوسرا کیس ہے۔ انڈین پولیس نے مبینہ طور پر ملک کا غلط نقشہ دکھانے پر ٹوئٹر انڈیا کے سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اتوار کے روز ٹوئٹر نے مبینہ طور پر اپنے 'ٹویپ لائف'سیکشن میں انڈیا کے ایک نقشے میں جموں و کشمیر اور لداخ کو شامل نہیں کیا تھا۔ اب یہ نقشہ ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ انڈیا میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ٹوئٹر حکام کے خلاف یہ دوسرا مقدمہ ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب انڈیا میں آئی ٹی کے متنازعہ نئے قوانین کے سبب حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان پہلے سے ہی کشیدگی ہے۔ ٹوئٹر نے ابھی تک اس تازہ ترین معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ کیس شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلندشہر میں درج کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ مقدمہ ہندو قوم پرست جماعت بجرنگ دل گروپ کے ایک رکن کی شکایت کے بعد درج کیا گیا ہے۔ ٹوئٹر انڈیا کے چیف منیش مہیشوری پر 'مختلف طبقات کے لوگوں میں نفرت یا بغض کو فروغ دینے' کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے اتر پردیش میں پولیس نے منیش مہیشوری کو ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا جس کے بعد عدالت نے مہیشوری کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا تھا لیکن یہ کیس ابھی جاری ہے۔ پولیس نے ٹوئٹر اور نیوز ویب سائٹ وائر کے علاوہ کچھ صحافیوں اور سیاست دانوں پر بھی 'فسادات بھڑکانے اور مجرمانہ سازش' کے تحت ویڈیو شیئر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ پیر کے روز ٹوئٹر انڈیا کے ایک سینیئر ایگزیکیٹو دھرمیندر چتور نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ دھرمیندر چتور کا عہدہ ان تین عہدوں میں سے ایک ہے جو سوشل میڈیا فرموں کو انڈیا کے نئے آئی ٹی قوانین کے تحت پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان نئے ضوابط کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ انڈیا کے تین رہائشیوں کو تین کل وقتی عہدوں پر رکھیں، جنہیں یہ اختیا رحاصل ہوگا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی اداروں کے ذریعے درخواست کیے جانے پر ان پلیٹ فارمز سے مواد ہٹا سکیں۔ اس کے علاوہ حکومت یا کسی ادارے کے مطالبے پر انہیں کسی خاص پیغام کے نقطہ آغاز کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔ ان قوانین کی تعمیل کے لیے ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارم کو فروری میں تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اگر ان کمپنیوں کے کسی صارف کی جانب سے شائع کردہ کوئی بھی مواد انڈین قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا تو اس صورت میں یہ ضابطہ قانونی کارروائی سے ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کا مقصد انڈیا میں اظہار رائے کی آزادی پر روک لگانا ہے لیکن حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
/urdu/world-57045531
امریکہ کی سپیس کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں چین کا یہ راکٹ بحیرہ عرب کے اوپر دوبارہ داخل ہو گیا تھا۔ تاہم ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ اس راکٹ کے ملبے نے زمین یا پانی کو متاثر کیا ہے یا نہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ اس کا ایک راکٹ جو خلا سے واپس زمین کی طرف آ رہا تھا وہ بحر ہند پر پھٹ گیا اور اس کا ملبہ سمندر بُرد ہو گیا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس راکٹ کا بڑا حصہ اس وقت تباہ ہو گیا جب راکٹ دوبارہ فضا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کے کچھ حصے 72.47° مشرق اور 2.65° شمال میں اترے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے خلا کی نگرانی کرنے والے نظام اس بے قابو راکٹ ( Long March-5b vehicle) کے گرنے کو مانیٹر کر رہی تھیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس راکٹ کے کچھ حصے اتوار کو بیجنگ کے وقت کے مطابق فضا میں صبح 10:24 پر داخل ہو گئے تھے۔ امریکہ کی سپیس کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں چین کا یہ راکٹ بحیرہ عرب کے اوپر فضا میں دوبارہ داخل ہو گیا تھا۔ تاہم ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ اس راکٹ کے ملبے نے زمین یا پانی کو متاثر کیا ہے یا نہیں۔ راکٹ کے دوبارہ داخلے سے قبل یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس کا ملبہ کسی آباد علاقے پر گر سکتا ہے۔ امریکہ کے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ چین نے راکٹ کے مدار سے گرنے سے متعلق اطلاع دینے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین نے اس خیال کو رد کیا ہے کہا کہ اتنے بڑے ’اوبجیکٹ‘ کی بے قابو واپسی کی اجازت دینے میں اس نے غفلت برتی ہے۔ چین کے میڈیا میں اس راکٹ کے تباہ ہونے سے متعلق جاری کمنٹری میں مغربی رپورٹس کو ممکنہ خطرے سے متعلق سنسنی پھیلانے والی خبروں کے طور پر لیا گیا اور ان میں یہ پیشنگوئی کی گئی تھی کہ ملبہ بین الاقوامی پانیوں میں کہیں گر جائے گا۔ دوسری جانب خلائی ماہرین نے پیشنگوئی کر دی تھی کہ خلا سے کسی بھی چیز کے کسی پر گرنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ سطح زمین کا بڑا حصہ سمندر سے ڈھکا ہوا ہے اور بڑے حصے پر آبادی ہی نہیں ہے۔ امریکہ نے گذشتہ ہفتے یہ بیان دیا تھا کہ وہ اس ’اوبجیکٹ‘ کے رستے پر نظر جمائے ہوئے ہیں مگر امریکہ کا اسے گرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ خلائی ملبے کے ماڈلنگ کے کئی ماہرین نے کہا تھا کہ سنیچر کی شب یا اتوار کی صبح اس راکٹ کی فضا میں دوبارہ داخلے کے امکانات موجود ہیں۔ ماہرین نے پیشنگوئی کی ہے کہ زیادہ تر یہ خلائی گاڑی فضا میں گزرنے کے آخری چند لمحات میں جل گئی ہو گی اگرچہ اس بات کے ہمیشہ سے یہ امکانات موجود رہتے ہیں کہ کہ انتہائی پگھلنے والے مقامات اور دیگر مزاحمتی مادے والی دھاتیں سطح زمین تک سلامت رہ سکتی ہیں۔
/urdu/pakistan-52815151
جلین رہوڈز سنہ 2018 میں ایک کانفرنس میں شمولیت کے لیے امریکہ سے پاکستان آئی تھیں اور اس کے بعد وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ پاکستان میں ان کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں اور انھوں نے پاکستانیوں کو کیسا پایا، پڑھیے اس رپورٹ میں۔
میں کون ہوں، کہاں سے آئی ہوں، کیا کرتی ہوں اور پاکستان میں کیوں رہتی ہوں؟ اِن سب سوالوں کے جواب اِتنے آسان تو نہیں لیکن کوشش کرتی ہوں کہ آپ کو مطمئن کر سکوں۔ لیکن یہ سب جاننے کے لیے آپ کو میرے ساتھ ایک دن گزارنا پڑے گا۔ کیا کہا؟ آپ تیار ہیں؟ تو پھر چلیے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ میں پاکستان کیسے آئی۔ کہانی تھوڑا سی لمبی ہے۔ میں سنہ 2018 میں پاکستان ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ میں تین مہینے یہاں گزاروں گی۔ صرف تین مہینے۔۔۔ میں دیکھوں گی کہ یہ کیسا ملک ہے اور یہاں کے لوگ کیسے ہیں۔ اُردو بولنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ قریب آٹھ سال سے میں امریکہ سے باہر رہ رہی ہوں۔ پڑھائی ختم کرنے کے بعد میں نے کچھ ٹائم کمبوڈیا میں گزارا۔ پھر ڈھائی سال جنوبی کوریا میں رہی اور اب دو سال سے پاکستان میں ہوں۔ تو میرے خیال میں آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی زبان بولنی آنی چاہیے۔ اب میں تھوڑا تھوڑا کتھک اور بھنگڑا سیکھ گئی ہوں۔ میں نے یہ کیا کہ کچھ چیزیں پاکستانی ڈانس سے لیں اور اُنھیں اپنے ڈانس کے ساتھ ملا کر ایک نیا سٹائل بنایا۔ کیونکہ میں نے ویسٹرن ڈانس کی ٹریننگ لی تھی تو میرے لیے مقامی رقص سیکھنا کافی آسان ہو گیا۔ پاکستان میں رہنے کے چیلنجز جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یا پانی کی قلت۔۔۔ وہ تو ہیں لیکن میری زندگی سادہ ہے اور میں بہت سی چیزوں کے بغیر بھی رہ سکتی ہوں۔ میں آپ کو مثال دیتی ہوں۔ اب اِس سال آ کر میں نے گیزر خریدا ہے۔ اِس سے پہلے میرے پاس ایک بالٹی اور بجلی سے چلنے والی پانی گرم کرنے کی راڈ ہوا کرتی تھی۔ اور یہ کافی تھا کیونکہ پانی تو گرم ہو رہا تھا (قہقہہ)۔ وقت رات آٹھ بجے: ایک روز پہلے کا بچا سالن گرم کیا اور تازہ روٹی پکائی۔ جب میں اپنے پاکستانی دوستوں کو بتاتی ہوں کہ میں بالکل پرفیکٹ گول روٹی بنا سکتی ہوں تو وہ حیران رہ جاتے ہیں (قہقہہ)۔ ایک بار میں نے اپنی دوست کو روٹی پکاتے دیکھا تو مجھے بھی شوق ہوا اور کئی ناکام تجربات کے بعد میں نے یہ کام سیکھ لیا۔ بہت سے پاکستانی ایسے ہیں جن کے لیے میں ہمیشہ ایک ’گوری‘ رہوں گی۔ چاہے جتنے سال یہاں گزار لوں۔۔۔ ہمیشہ ایک مہمان ہی رہوں گی۔ لیکن کچھ ایسے ضرور ہیں جنھوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ میری جلد کا رنگ کیسا ہے، میری قومیت کیا ہے یا یہ کہ اُردو میری زبان نہیں ہے۔ انھوں نے یہ سب بُھلا دیا ہے اور مجھے صرف ایک انسان کے طور پر اپنایا ہے۔ ایسے لوگ میرے بہترین دوست ہیں۔
/urdu/vert-tra-51815076
دیکھنے میں انتہائی بری اور اس کے علاوہ بدبودار، لیکن پھر بھی ’بمبئی ڈک‘ نامی یہ ڈش ممبئی بھر میں اتنی مقبول کیوں ہے؟
غالباً ان کی جڑیں اسلام سے قبل ایران میں ہیں، لیکن یہ گجرات، گوا اور کونکن سے بھی متاثر ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور یہاں تک کہ ہالینڈ نے بھی اس کو متاثر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نام برٹش میل ٹرینوں سے آیا ہے جو ممبئی سے ملک کے دوسرے شہروں میں خشک بمبئی ڈک لے کر جاتی تھیں۔ ٹرین کی بوگیوں کو ’بمبئی ڈاک‘ کہا جاتا تھا۔ انڈیا کے مغربی کونکن ساحل پر مچھلی کھانے کے شوقین لوگ میں بھی بمبئی ڈک بہت مقبول ہے۔ وہ اسے سرکے والی چٹنی میں پیس کر روسٹ یا فرائی کرتے ہیں اور کئی بار اس میں جھینگے بھی بھرے جاتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بمبئی ڈک صرف پارسیوں کی ڈش نہیں ہے بلکہ ہمارے گھروں میں بھی اس کا ایک خاص مقام ہے۔ اس نے ہماری پلیٹ میں اور ہمارے گیتوں میں جگہ بنائی ہے۔ اس کا اثر ہماری کتابوں میں اور ہمارے ناموں پر بھی ہے۔ بوملا (بمبئی ڈک کے لئے پارسی لفظ) پارسی نام بھی ہے۔ میرے والد کا بچپن ممبئی سے 215 کلومیٹر شمال میں گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے بلیمورا میں گزرا تھا۔ ان کی بچپن کی یادوں میں بھی بمبئی ڈاک کا اہم مقام ہے۔ وہ بتاتیا کرتے تھے کہ کیسے ان کی ماں اس مچھلی کو تیار کرتی تھیں۔ کوئلوں بھنی اس بمبئی ڈک کا ذائقہ ممبئی کے کچن میں پیدا کرنا مشکل ہے۔ مجھے سب سے زیادہ پسند بمبئی ڈک کی وہ ڈش ہپے ناشتے میں کھائی جاتی ہے۔ سوجی لگی، لیموں اور ہلدی کی مہک کے ساتھ بھنی ہوئی۔ یہ عام طور پر چاولوں کے آٹے کی روٹی اور آم کی کھٹی میٹھی چٹنی کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ بمبئی ڈک کو اس مخصوص انداز میں چکھنے کے لیے آپ کو کسی پارسی گھر میں یا ممبئی کے کسی پرانے کلب جانا ہوگا مثلاً ممبئی کے مشہور پی وی ایم (شہزادی وکٹوریہ اور میری) کلب یا پھر 1923 میں بنا مشہور ایرانی کیفے ’برطانیہ اینڈ کمپنی‘ ریستوراں میں جانا ہو گا۔ اس ریستوراں کے صارفین کو کئی دہائیوں تک پارسی کے مالک بومن کوہ نور سے ملنے کا موقع بھی ملا جن کا کچھ ہی عرصہ قبل 97 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔ وہ خود کو ہندوستان میں برطانوی شاہی خاندان کا سب سے بڑا مداح کہتے تھے۔ شہزادے ولیم اور شہزادی کیٹ کی ایک بڑی تصویر ریستوراں میں لٹکی ہوئی ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر سال جب شہر کی گرمی مون سون کے بادلوں کے لئے جگہ بناتی ہے تو میری بےچینی کم ہوجاتی ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب میں چھوٹی سی لڑکی تھی اور بومبل سے بھری پلیٹ کے مزِے لیتی تھی۔
/urdu/pakistan-49357267
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ 19 سالہ پاکستانی نژاد اطالوی خاتون کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے معاملے میں مذکورہ خاتون کی ساس کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ ان پر مبینہ طور پر تشدد کرنے والے ان کے شوہر کی تلاش جاری ہے۔
علشبہ کی ویڈیو سامنے آنے پر کراچی میں اطالوی سفارتخانے کے حکام نے بھی ان سے رابطہ کیا اور معاملے کو فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ 19 سالہ پاکستانی نژاد اطالوی خاتون کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے معاملے میں مذکورہ خاتون کی ساس کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ ان پر مبینہ طور پر تشدد کرنے والے ان کے شوہر علی جابر موتی کی تلاش جاری ہے۔ پاکستان میں دو روز سے شہزادی علشبہ خان نامی ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ایک شخص کی آواز سنی جاسکتی ہے جو علشبہ پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں گالیاں دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ 'زنا کرنے والی عورتوں کا انجام یہی ہوتا ہے۔۔۔' کراچی پولیس کے مطابق پاکستانی نژاد اطالوی شہری پر تشدد کے واقعے کی ایف آئی آر کراچی کے درخشاں تھانے میں درج ہوچکی ہے اور ایس پی سوہائی عزیز تالپور اس واقعے کی جانچ کر رہی ہیں۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ اُن پر ’تشدد کرنے میں اُن کے خاوند کے ساتھ اُن کی ساس بھی شامل رہی ہیں۔‘ علشبہ نے پولیس کو بتایا کہ جب انھوں نے اپنے گھر والوں کو خود پر ہونے والے تشدد کے بارے میں بتایا تو انھوں نے علشبہ کو اپنے گھر بلالیا اور واپس جانے نہیں دیا۔ علشبہ کی ویڈیو سامنے آنے پر پاکستان میں اٹلی کے سفیر سٹیفانو پونٹیکاروہ نے بھی اس معاملے پر اپنے عملے کو مذکورہ خاتون سے رابطے کی ہدایت کی جس کے بعد ٹوئٹر پر انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اٹلی کا سفارتخانہ اپنی شہری اور ان کے خاندان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’علشبہ اب پہلے سے بہتر ہیں لیکن ان پر تشدد کرنے والوں کی گرفتاری کو بھی ممکن بنایا جائے۔‘ اس معاملے پر نظر رکھنے والے صحافی راجہ مطلوب کے مطابق ’علشبہ کے سسرال کے اثرو رسوخ کی وجہ سے خدشہ ہے کہ پولیس اس معاملے کو آگے نہیں لے جائے گی۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال میں میڈیکولیگل کرنے کے دوران جب ڈاکٹروں کو اس بات کا علم ہوا کہ علشبہ جابر موتی کی بہُو ہیں تو وہ کیس کو لٹکانے لگ گئے۔‘ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ 'بیان ریکارڈ کرنے پولیس فوراً ہسپتال پہنچی لیکن وہ اس معاملے کی تفتیش کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے جبکہ اب صلح صفائی کے لیے بھی مختلف حلقوں سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘ تاہم ایس پی سوہائی عزیز نے ان خدشات کو مسترد کر دیا اور ان کا کہنا ہے کہ معاملے کو دبانے کی کوشش نہیں کی جا رہی اور پولیس تمام تر قانونی تقاضے پورے کر رہی ہے۔
/urdu/pakistan-56767965
وادی ہنزہ میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے گذشتہ سال اکتوبر مرد و خواتین نے دھرنے دیے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔
گلگت بلتستان میں وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے بابا جان اور دیگر سیاسی کارکنوں کو سنہ 2011 میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کی جانب سے کیے گئے اجتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں عدالت نے گرفتار ہونے والے افراد کو 40 سال سے نوے سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ بابا جان نے 2015 میں جیل سے گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ پروگریسیو نوجوانوں کے پسندیدہ رہنما بن گئے۔ انھیں کیوبا کے گوریلا لیڈر چی گویرا کی مناسبت سے ‘ہنزہ ویلی کا چی گویرا‘ پکارا جانے لگا۔ نوجوانوں نے ان کی مہم چلائی ان کے لیے گیت لکھے گئے اور یہ سیاسی گیت گائے گئے۔ وادی ہنزہ میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے گذشتہ سال اکتوبر مرد و خواتین نے دھرنے دیے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔ بابا جان کا کہنا ہے کہ 2011 کے بعد پیپلز پارٹی کا کردار بدل گیا۔ بلاول بھٹو نے ان کے حق میں بیان دیا اور وہاں جو پیپلز پارٹی کا رہنما تھا امجد حسین ایڈووکیٹ، وہ ان کے کیس میں بھی پیش ہوا اور جلسوں و دھرنوں میں بھی شرکت کی۔ بقول بابا جان ہنزہ کے دھرنے کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بھی دھرنے دیے گئے۔ ان دھرنوں کی قیادت وہاں کے پروگریسیو لوگ کر رہے تھےاور ان دھرنوں کی نتیجے میں ان کی رہائی ممکن ہوئی نہ کہ کسی سمجھوتے کے نتیجے میں۔ بابا جان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ کراچی میں تھا، وہاں سے ان کی کوئی امداد نہیں کی گئی تھی لوگوں نے اپنے ڈنڈوں اور زور بازو پر گلگت بلتستان کو آزاد کرا کے اس کے پاکستان سے الحاق کے لیے خطوط لکھے تھے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے حکمرانوں نے اس الحاق کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کو سابق حیثیت میں برقرار رکھا اور ایف سی آر کا قانون نافذ کردیا۔ بابا جان کے سیاسی سفر میں یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں سے یہ سڑک گزر رہی ہے ہنزہ اور نگر اضلاع کے پچاس فیصد افراد کو معاوضہ نہیں دیا گیا جو پچاس ارب ڈالر کے آس پاس رقم قرضے یا امداد میں حاصل کی گئی ہے۔ ‘اس کا ایک روپیہ بھی گلگت بلتستان کی ترقی اور تعمیر کے لیے خرچ نہیں کیا گیا۔‘ بابا جان کی نظر بندی کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں گلگت بلتستان کے طالب علموں کے ساتھ عوامی ورکرز پارٹی، یوتھ پروگریسو الائنس سمیت دیگر لیفٹ کی تنظیمیں ان کی حمایت میں احتجاج کرتی رہی ہیں۔ نومبر میں رہائی کے بعد سخت سردی اور برف باری میں بھی لوگوں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔
/urdu/world-49073134
ٹین ڈاوئنگ سٹریٹ نے ایک مرتبہ پھر ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ آبنائے ہرمز سے گزشتہ جمعے کو تحویل میں لیے گئے برطانوی تیل بردار جہاز کو فوری طور پر چھوڑ دیا جائے۔
برطانوی ایوانِ وزیر اعظم ٹین ڈاوئنگ سٹریٹ نے ایک مرتبہ پھر ایران سے مطالیہ کیا ہے کہ آبنائے ہرمز سے گزشتہ جمعے کو تحویل میں لیے گئے برطانوی تیل بردار جہاز کو فوری طور پر چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے پیر کو کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی (کوبرا) کے ہنگامی اجلاس کی صدرات کی تاکہ برطانوی تیل بردار جہاز کو ایران کی طرف سے تحویل میں لیے جانے اور خطے میں سیکیورٹی کی تازہ ترین صورت حال پر غور کیا جا سکے۔ برطانوی تیل بردار جہاز سٹینا ایمپرو کے پکڑے جانے سے برطانیہ اور ایران میں پائی جانے کشیدگی میں مزید شدت آئی ہے اور ایران کی یہ کارروائی چند ہفتے قبل برطانیہ کی طرف سے ایران کے ایک تیل بردار جہاز کو پکڑے جانے کے رد عمل میں سامنے آئی ہے۔ برطانوی تیل بردار جہاز سٹینا ایمپرو کو ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے گزشتہ جمعہ کو جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے آبنائے ہرمز سے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والی ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانوی تیل بردار جہاز کو مچھلیاں پکڑنے والے ایک چھوٹی کشتی سے ٹکر کے بعد تحویل میں لیا گیا۔ ایرانی حکام کے مطابق سٹینا ایمپرو کے عملے نے اس چھوٹی سی کشتی کی طرف سے کی جانے والی کالز کا جواب بھی نہیں دیا۔ برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے کہا ہے کہ برطانوی جہاز کو غیر قانونی طور پر عمان کی سمندری حدود سے پکڑ کر زبردستی ایرانی بندرگاہ بندر عباس لے جایا گیا۔ خیال رہے کہ چند ہفتے قبل برطانوی شاہی بحریہ نے ایران کے تیل بردار جہاز گریس ون کو جبل الطارق کے ساحل کے قریب سے مبینہ طور پر یورپی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کو تیل فراہم کرنے کے شبہے میں اپنی تحویل میں لیے لیا تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ گریس ون کو قانون کے تحت تحویل میں لیا گیا جبکہ ایران نے اسے بحری قزاقی قرار دیا تھا اور یہ دھمکی دی تھی کہ جواباً وہ بھی کسی برطانوی جہاز کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال بین الاقوامی تعاون کی متقاضی ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ برطانوی بحریہ میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اگر برطانیہ بین الاقوامی سطح پر ایک موثر قوت کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ عملے میں شامل ایک شخص کے رشتہ دار نے، جن کا تعلق انڈیا سے ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ سب شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور جب سے جہاز کو پکڑا گیا ہے انھیں ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا ہے۔
/urdu/world-58978964
ڈاکٹر لیوائن ہارورڈ کالج اور ٹولین یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کی گریجویٹ ہیں اور اس سے پہلے وہ ماہرِ امراضِ اطفال رہ چکی ہیں۔
امریکہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری صحت ریچل لیوائن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے جس کے بعد وہ ملکی تاریخ کی پہلی خواجہ سرا فور سٹار افسر بن گئی ہیں۔ 63 سالہ ڈاکٹر ریچل اب امریکہ کی پبلک ہیلتھ سروس کمیشنڈ کور کی ایڈمرل بن گئی ہیں۔ اُن کی موجودہ تقرری صدر جو بائیڈن نے کی ہے۔ اس عہدے پر تعینات ہونے سے قبل بھی وہ ملک میں اتنے بلند عہدے پر موجود واحد ٹرانس جینڈر تھیں۔ اُنھوں نے منگل کو حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس موقعے کو ’تاریخی‘ اور ’انتہائی اہمیت کا حامل‘ قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’ایسے وقت میں جب ہم زیادہ متنوع اور تمام گروہوں کا نمائندہ مستقبل ترتیب دے رہے ہیں، تو امید ہے کہ آج کی تعیناتی آئندہ کئی ایسی تعیناتیوں کی شروعات ہو گی۔‘ اپنی تقریر میں اُنھوں نے ’ایل جی بی ٹی کیو‘ افراد کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر ریچل لیوائن ہاورڈ کالج اور ٹولن یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کی گریجویٹ ہیں اور اس سے پہلے وہ ماہرِ امراضِ اطفال رہ چکی ہیں۔ امریکہ کی پبلک ہیلتھ سروس کمیشنڈ کور میں چھ ہزار باوردی افسران اور اہلکار کام کرتے ہیں اور اس کا مقصد کورونا کی عالمی وبا اور قدرتی آفات جیسے بحرانوں کا سامنا کرنا ہے۔ اس سے قبل وہ ریاست پینسلوانیا کی فزیشن جنرل اور ریاستی وزیرِ صحت بھی رہ چکی ہیں۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے وسیع پیمانے پر افیم کی لت جیسے مسائل پر کام کیا تھا۔ وزیرِ صحت زیویئر بیسیرا نے اس عہدے پر ڈاکٹر لیوائن کی تقرری کو ’بطور قوم مساوات کی طرف ایک بڑا قدم‘ قرار دیا۔
/urdu/world-60232557
روس کے صدر پوتن نے کہا ہے کہ ’مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی سکیورٹی کے بارے میں فکر مند ہے لیکن اس کا اصل مقصد روس کی ترقی کو روکنا ہے۔ اس تناظر میں یوکرین صرف اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے ملک کو یوکرین کے خلاف جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا مقصد ہے کہ وہ اس کشیدگی کو وجہ بنا کر روس پر پابندیاں عائد کر سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ فوجی اتحاد نیٹو کے یورپی یونین میں پھیلاؤ سے متعلق خدشات کو نظرانداز کر رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی روس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاہم روس اس الزام کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔ اسی دوران منگل کو یوکرین کے صدر ولادمیر زیلینسکی نے خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے حملہ ’صرف یوکرین اور روس کے درمیان ہی جنگ نہیں ہو گی، یہ یورپ میں ایک بڑی جنگ ہو گی۔‘ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان سے بات چیت کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ ’مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی سکیورٹی کے بارے میں اتنا فکر مند نہیں ہے لیکن اس کا اصل مقصد روس کی ترقی کو روکنا ہے۔ اس تناظر میں یوکرین صرف اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘ صدر پوتن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ماسکو کے خدشات کو نظر انداز کر دیا ہے جو روس کی جانب سے ایسے مطالبات پر مبنی تھے جو ایسی قانونی ضمانت چاہتے تھے جن میں نیٹو کے مشرقی یورپ میں پھیلاؤ کو روکنا شامل تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’کچھ وقت کے لیے سوچیں کے یوکرین ایک نیٹو رکن ہو اور پھر (کرائمیا کو واپس حاصل کرنے کے لیے) فوجی آپریشن کا آغاز جائے۔ کیا ہمیں نیٹو کے خلاف لڑنا پڑے گا؟ کیا کسی نے اس بارے میں سوچا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے نہیں سوچا۔‘ امریکہ کی جانب سے اس دوران باور کروایا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ منگل کو روسی وزیرِ خارجہ سرجی لیوروو سے فون پر بات کرنے کے بعد بلنکن کا کہنا تھا کہ انھوں نے امریکہ کی جانب سے ’مشترکہ سکیورٹی خدشات‘ پر بات چیت کرنے کی خواہش پر زور دیا۔ رواں ہفتے کے آغاز میں، امریکہ کا کہنا تھا کہ اسے روس کے جانب سے امریکی تجویز کے جواب میں تحریری جواب موصول ہوا ہے جو یوکرین کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا تاہم اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی روس کے ڈپٹی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں اور ریا نیوز ایجنسی کو ایک ذریعے سے معلوم ہوا کہ وہ اب بھی ایک جواب تیار کر رہا ہے۔
/urdu/pakistan-55130647
ملتان کے گھنٹہ گھر چوک میں حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جہاں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب سیلیکٹڈ حکومت کو جانا ہو گا جبکہ مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ عوام اب عمران خان کا لاک ڈاؤن کرنے والے ہیں۔
ملتان کے گھنٹہ گھر چوک پر حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ آج عوام نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے اور اب سیلیکٹڈ حکومت کو جانا ہو گا۔ آصفہ بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ہم گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے اور اگر ہمارے بھائیوں کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی ہر عورت اپنی گرفتاری دینے اور اس عمل میں جدوجہد کے لیے تیار ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس وبا کی دوسری لہر میں تیزی کے باوجود حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم نے ملتان کے گھنٹہ گھر چوک پر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے جلسے کا انعقاد کیا جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کی اس جلسے میں موجودگی کو ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ 2018 کی انتخابی مہم کے بعد پہلی بار سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آصفہ بھٹو نے جلسے میں موجود عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ سلکیٹڈ حکومت کے ظلم و جبر کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کی اس جلسے میں موجودگی کو ان کے سیاسی کریئر کا آغاز سمجھا جا رہا ہے آصفہ بھٹو نے کہا کہ میں وہ ایک ایسے وقت پر عوام کے سامنے آئی ہیں جب پارٹی چیئرمین اور ان کے بھائی بلاول کورونا وائرس میں مبتلا ہیں۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر ہونے والے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ اور پی پی پی کے شریک چئیرمین بلاول بھٹو کی بہن آصفہ بھٹو اپنے گھروں سے پاکستانیوں کے حقوق کی خاطر باہر نکلی ہیں۔ مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ عوام اب عمران خان کا لاک ڈاؤن کرنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے پہلے کووڈ 18 کو گھر بھیجنا ضروری ہے اور اگر کووڈ 18 گھر چلا جائے تو کووڈ 19 بھی چلا جائے گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو تین مرحلے پر مشتمل حکومت مخالف تحریک کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔
/urdu/world-53956335
لندن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صائمہ احمد کی لاش ایڈنبرا کے ایک گالف کورس سے برآمد ہوئی تھی۔ واقعے کے کئی برسوں بعد ان کے بھائی نے ایک بار پھر نئی معلومات کے لیے اپیل کی ہے۔
2015 میں صائمہ کے لاپتہ ہونے کے چار ماہ بعد ان کی لاش برآمد ہوئی تھی سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا میں سنہ 2015 کے دوران ایک خاتون لاپتہ ہوگئی تھیں اور ان کی لاش چار ماہ بعد ایک گالف کورس سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت آج بھی 'سمجھ سے بالاتر ہے۔' 30 اگست 2015 کو 36 سالہ صائمہ احمد کی اپنے ویمبلی کے گھر سے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ لیکن ان کی لاش 9 جنوری 2016 کو گوگاربرن گالف کورس کے میدانوں سے ملی تھی۔ ان کے لاپتہ ہونے کے پانچ برس بعد اب بھی حکام کا کہنا ہے صائمہ احمد کی ہلاکت غیر واضح ہے۔ ان کے بھائی سعادت احمد نے معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر اپیل ہے اور وہ اس سلسلے میں ایڈنبرا آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ خاندان کا درد کچھ خاص کم نہیں ہو پایا۔ 30 اگست 2015 (اتوار) کے روز صائمہ احمد لاپتہ ہوئیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن انھوں نے لندن سے ایڈنبرا براستہ ہیمل ہیمپسٹڈ اور برمنگھم ٹرین پر سفر کیا تھا۔ اس دوران ایڈنبرا کے قریب پورٹوبیلو بیچ کے قریب ان کے جیسے خد و خال والی خاتون کی موجودگی کی غیر مصدقہ شناخت ہوئی تھی۔ صائمہ کی لاش ایڈنبرا کے ایک گالف کورس سے برآمد ہوئی تھی سکاٹ لینڈ پولیس کے مارٹن مکلین کہتے ہیں کہ پورٹوبیلو میں انھیں ممکنہ طور پر شام کے وقت دیکھا گیا جب ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ کتے کو واک کرانے والے ایک شخص نے پیر کی صبح کو انھیں دیکھا تھا۔ مارٹن مکلین کے مطابق ان کی ہلاکت کے سلسلے میں ’مفصل اور کافی دیکھ بھال کے ساتھ‘ تحقیقات ہوئی تھی لیکن آج تک افسران اس سے لاعلم ہیں کہ ایڈنبرا میں صائمہ احمد کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’صائمہ کی گمشدگی سے لے کر ان کی لاش کی بازیابی تک کے عرصے نے تحقیقات کو مشکل بنایا کیونکہ اتنے طویل عرصے میں سی سی ٹی وی ویڈیو کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ صائمہ کو ایشیائی نژاد ظاہر کیا گیا تھا جن کا قد پانچ فٹ پانچ انچ ہے۔ ان کا خد و خال اور کندھوں کی چوڑائی درمیانی اور سیاہ سیدھے بال بتائے گئے تھے۔ انھوں نے آخری بار لمبی وی نیک شرٹ، سیاہ پتلون، سیاہ جوتے اور سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔ ان کے لاپتہ ہونے کے ایک سال بعد یہ معلوم ہوا تھا کہ اسی کیس کی وجہ سے پولیس کے چار اہلکاروں کے خلاف غلط رویے کی تفتیش چل رہی تھی۔ یہ تفتیش تب شروع کی گئی جب صائمہ احمد کے خاندان نے شکایت درج کرائی تھی کہ ان کی گمشدگی کو ’کم خطرے والا‘ کیس سمجھا جا رہا ہے۔
/urdu/world-55204340
ہلدی اور ادرک جیسے مصالحوں کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے مگر وہ لوگ جو اس طرح کی قیمتی اشیا دنیا کی مختلف منڈیوں میں سپلائی کرتے ہیں انھیں اب بالکل ہی نئی قسم کا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب جبکہ ہلدی اور ادرک جیسے مصالحوں کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تو وہ لوگ جو اس طرح کی قیمتی اشیا دنیا کی مختلف منڈیوں میں سپلائی کرتے ہیں انھیں اب بالکل ہی نئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور پھر اسی دوران عالمی سطح پر ان مصالحوں کی طلب میں بے انتہا اضافہ ہو رہا تھا۔ صارفین نے انھیں اپنے گھروں میں طویل عرصے کے لیے ذخیرہ کرنا شروع کر دیا، اور دار چینی، زیرہ اور کالی مرچیں اچانک خوراک کا بنیادی حصہ بن گئی تھیں۔ انڈیا دنیا بھر میں مصالحوں کی سب سے زیادہ پیداوار، ان کا سب سے زیادہ استعمال اور ان کی سب سے زیادہ برآمد کرنے والا ملک ہے، لیکن اُسے خود اس برس مارچ سے ایک ملک گیر لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث کسانوں کے لیے یہ مسئلہ بن گیا کہ انھیں کس طرح کھیتوں سے کاٹ کر ان کی پروسیسنگ کروائیں گے جس کے لیے انھیں عارضی طور پر باہر سے آنے والے مزدوروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، تاکہ اس سامان کی ترسیل کا سلسلہ جاری رہے۔ جیسا کہ پہلے ہوتا تھا، انڈیا کے مصالحوں کی ہمیشہ سے ایک طلب رہی اور وہ پھر سے بحال ہو گئی۔ اس ملک میں مصالحوں کی پیداوار کی نہ صرف ایک زبردست تاریخ ہے بلکہ اس ملک کی زمین، موسم اور آب و ہوا مخصوص خوشبو اور تاثیر رکھنے والے مصالحوں کے لیے مشہور بھی ہے۔ کئی کسانوں کو انڈیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے رشتے دار بڑے شہروں کی غیر منظم معیشت کی منڈی میں کام نہ ملنے کی وجہ سے اب واپس لوٹ رہے ہیں۔ ابھی بھی مصالحوں کی تجارت میں کئی لوگوں کے لیے اس تجارت میں موجودہ اضافے نے وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے میں ان کی بہت مدد کی ہے۔ 'خدا کا شکر ہے کہ ہم ایک ایسے شعبے میں ہیں جہاں (اس وقت) اچھا کام ہو رہا ہے کیونکہ اس وقت ان سب کی پروسیسنگ کرنا ایک بہت ہی کٹہن کام ہے۔' وائجو کہتے ہیں کہ بہرحال اب حالات بہتر ہو چکے ہیں۔ ان کی کمپنی ویتنام اور انڈونیشیا سے مقامی منڈی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہلدی درآمد کرتی رہی ہے اور اس کی وجہ سے مقامی سطح پر ہلدی کاشت کرنے والے کسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اب انھیں پانچ سے دس فیصد فائدہ ہو رہا ہے۔ ایک ہاتھ میں پکڑے ہوئے سکینر سے روشنی چمکتی ہے اور وہ مالیکیولز کی مخصوص حرکت پہچان لیتی ہے۔ پھر اس ڈیٹا کو کلاؤڈ میں اپ لوڈ کیا جاتا ہے جہاں ہر مصالحے کی ہر قسم کا ڈیٹا محفوظ ہے جسے 'فنگر پرنٹ' کہتے ہیں۔
/urdu/pakistan-59186285
حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ عالمی منڈی میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قرار دیا گیا ہے مگر عالمی منڈی میں قیمتیں پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی قیمتوں کی واحد وجہ نہیں ہیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت جب بڑھتی ہے تو ہر چیز مہنگی ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات تقریباً ہر چیز کی تیاری اور ہر چیز کو لانے لے جانے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں، ٹرینوں، بحری جہازوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہونے والے تازہ ترین اضافے کے بعد ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 145.82 روپے اور ڈیزل کی قیمت 142.62 روپے مقرر کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ عالمی منڈی میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت دوسری وجوہات کو بیان نہیں کر رہی جس کی وجہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جن میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور درآمدی سطح پر تیل کی خام اور تیار مصنوعات پر لیے جانے والے ٹیکسز ہیں جو اس کی قیمت بڑھا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے کے بعد دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی جانب سے پیٹرول ک قیمت میں سیلز ٹیکس کو 2009 کے بعد سے کم ترین سطح پر رکھا گیا ہے تاکہ صارفین پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک جانب سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کر کے عوام کو ریلیف پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا ہے تو دوسری جانب حکومت نے قیمتوں کے تازہ ترین جائزے میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی کم شرح اور پی ڈی ایل کو نچلی سطح پر رکھ کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس طرح وہ ٹیکس کی مد میں کم وصول کر کے عوام کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ تاہم خام تیل اور تیار پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ملک میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بھی ایک وجہ ہے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کے چیئرمین زاہد میر نے اس بارے میں رابطہ کرنے پر بتایا کہ حکومت سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی اور پی ڈی ایل کم ریٹ پر وصول کرنے کی بات ایکس ریفائنری پرائس پر کر رہی ہے تاہم اس سے پہلے جب خام تیل یا تیار پیٹرولیم مصنوعات ملک میں درآمد کی جاتی ہیں تو اس مرحلے پر بھی اس پر ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ ایک ماہ سے تیل کی عالمی قیمتوں میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا لیکن گذشتہ ایک ماہ میں ڈالر کی قیمت اتنی زیادہ بڑھی کہ اس نے تیل کی مصنوعات کو بے پناہ مہنگا کر دیا۔
/urdu/regional-56828463
انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے سے ملک کے بہت سے شہروں میں شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں آخری رسومات کی ادائیگی میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔
انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے سے ملک کے بہت سے شہروں میں شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں آخری رسومات کی ادائیگی میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں انڈیا دوسرے نمبر پر ہے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے انڈیا نے برازیل کی جگہ لے لی ہے اور حکومت اس وبا کی دوسری لہر سے نمٹنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ دوسری وبا کی شدت کی وجہ سے اس کو ’سونامی‘ سے تشبہہ دی جا رہی ہے جبکہ ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور ہر روز ایک ہزار مریض ہلاک ہو رہے ہیں۔ مہاراشٹرا جو ملک میں وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست ہے وہاں شمشان گھاٹوں میں اتنی بڑی تعداد میں لاشیں لائی جا رہی ہیں کہ ان سب کی آخری رسومات ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ جگنام نے مزید کہا کہ وہ ہر روز پچاس سے ساٹھ مردے جلا رہے ہیں۔ ’ہمارے پاس مردوں کو رکھنے کے لیے دو ریفریجیریٹر ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لاشیں لائی جا رہی ہیں کہ لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے ساتھ باہر طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘ لیکن راجکوٹ اور گجرات جہاں کورونا وائرس کی وبا شدت اختیار کرتی جا رہی ہے وہاں سرکار کے تحت چلائے جانے والے شمشان گھاٹوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو ماسک اور دستانوں کے بغیر کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ملک کے کئی بڑے شہروں میں لاشوں کو جلائے جانے اور دفنانے کی جو تعداد سامنے آ رہی ہے وہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی سرکاری طور پر بتائی جانے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ انڈیا میں پندرہ اپریل کے بعد سے وائرس کے روزانہ دو لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آ رہے ہیں جو کہ پہلی لہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پہلی لہر کے دوران اس مرض کا شکار ہونے والوں کی روزانہ تعداد زیادہ سے زیادہ 93000 تک پہنچی تھی۔ دہلی، ممبئی، لکھنؤ اور احمد آباد جیسے شہروں میں ہسپتالوں میں نئے مریضوں کو داخلہ دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ دیگر بہت سی ریاستوں سے بھی کووڈ وارڈز اور انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش باقی نہ رہنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ کورونا کے ٹیسٹ کی رپورٹس ملنے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریضوں کا وقت پر تشخیص نہیں ہو رہی اور اس سے ان کے علاج میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔
/urdu/pakistan-60376617
صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک نوعمر لڑکی نے فائرنگ کر کے ایک 20 سالہ نوجوان کو زخمی کرنے کے بعد مقامی تھانے میں مضروب نوجوان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک نوعمر لڑکی نے فائرنگ کر کے ایک 20 سالہ نوجوان کو زخمی کرنے کے بعد مقامی تھانے میں مضروب نوجوان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔ لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے اور انھوں نے پولیس کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے یہ اقدام ’اپنی عزت کی حفاظت‘ کی خاطر اور ’سیلف ڈیفنس‘ میں اٹھایا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ دو روز قبل اس وقت پیش آیا جب لڑکی اپنے گھر کے باہر دیوار پر اوپلے لگا رہی تھی۔ اس دوران ایک 20 سالہ نوجوان وہاں آیا اور مبینہ طور پر لڑکی کو بعوض رقم جنسی تعلق قائم کرنے کی بات کی۔ ایف آئی آر کے مطابق لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ ملزم اس سے قبل بھی یہ حرکت کر چکا تھا جس پر اسے لڑکی کی جانب سے تنبیہ کی گئی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق وقوعہ کے روز جب لڑکے نے یہ حرکت دوبارہ کی، تو لڑکی نے کہا ’انتظار کرو، میں آتی ہوں۔‘ پولیس کے مطابق اس دوران لڑکی گھر سے اپنے بھائی کا پستول لائی اور لڑکے کی ٹانگوں پر فائر کر دیے جس سے لڑکا زخمی ہو گیا۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لڑکا اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے تمام شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں جبکہ زخمی ہونے والے شخص کا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق زخمی شخص نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا جب اسے نامعلوم مقام سے آنے والی گولی لگی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔ پولیس نے اس واقعے کی ایف آئی آر لڑکی کی شکایت پر درج کی ہے جس میں تعزیرات پاکستان کے دفعات 354 ، 376، 511 لگائی گئی ہیں جبکہ اس میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات بھی شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تعینات ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق لڑکی نے فائرنگ اپنے دفاع میں کی اور پولیس کو بھی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 میں 2960 بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد کیا گیا اور اوسطاً پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی بچوں پر تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، ان میں مردان میں معصوم بچی اسما کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا اور اسی طرے ضلع نوشہرہ میں نور کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اس معصوم بچی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں واقعات میں ملزمان کو سیشن کورٹس سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
/urdu/science-58566361
ایپل کمپنی کے مطابق اس نئے آئی فون 13 میں ویڈیوز کے لیے ایک نیا فیچر 'سنیماٹک موڈ' بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں کیمرہ فریم میں آنے والے فرد کی شناخت کر کے فوکس اس جانب کر دے گا۔ کمپنی نے کیمرے فوکس کی تبدیلی کو 'پل فوکس' کا نام دیا ہے۔
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے اپنا نیا آئی فون 13 متعارف کروا دیا ہے۔ اس نئے آئی فون ماڈل میں ویڈیوز کو 'پورٹریٹ موڈ' میں بنانے کا فیچر متعارف کروایا گیا ہے۔ ایپل کمپنی کے مطابق اس نئے آئی فون 13 میں ویڈیوز کے لیے ایک نیا فیچر 'سنیماٹک موڈ' بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں کیمرہ فریم میں آنے والے فرد کی شناخت کر کے فوکس اس جانب کر دے گا۔ کمپنی نے کیمرے فوکس کی تبدیلی کو 'پل فوکس' کا نام دیا ہے۔ کمپنی کے سی ای او ٹم کک کا نئے آئی فون 13 کو متعارف کرواتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ واحد سمارٹ فون ہے جو صارفین کو ویڈیو بنانے کے بعد بھی یہ ایفکٹ ایڈٹ کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ آئی فون 13 متعارف کروانے تقریب میں ایپل فونز میں ایک نئی خرابی کی خبروں کا چرچا بھی رہا جو صارفین کے پیغامات کو بے نقاب کر سکتی ہے۔ آئی فون پراڈکٹ مارکیٹنگ کی نائب صدر کیانے ڈرانس کا کہنا تھا کہ ایپل اپنے نئے فونز کی تیاری ماحولیات کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے اور اس میں بہت سی ری سائیکل اشیا کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صنعت میں پہلی مرتبہ اس فون کے انٹینا کو ری سائیکل کی گئی پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں سے بنایا گیا ہے۔ ایپل نے آئی فون 13 کے ساتھ ساتھ آئی فون 13 منی، آئی فون 13 پرو، اور آئی فون 13 پرو میکس ماڈل بھی متعارف کروائے ہیں۔ آئی فون 13 پرو اور آئی فون 13 پرو میکس ماڈلز میں تین کیمرے ہیں جنھیں ایپل 'اب تک کے سب سے جدید کیمرہ سسٹم' قرار دیتا ہے۔ نئے ایپل آئی فون کو ایک ایسے وقت میں متعارف کروایا گیا ہے جب صارفین نئے فونز لینے کی بجائے زیادہ عرصہ تک اپنے فونز استعمال کر رہے ہیں۔ ایک سرمایہ کار کمپنی ویڈ بش کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 25 کروڑ آئی فون صارفین نے گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں اپنا فون اپ گریڈ نہیں کیا ہے۔ اس نئے سائز کی ایپل واچ کی سکرین میں پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ٹیکسٹ دکھائی دیتا ہے اور اس میں لکھنے کے لیے کی بورڈ کا فیچر بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ ایپل نے اس موقع پر ایک انٹری لیول کے آئی پیڈ کا نیا ماڈل بھی متعارف کروایا ہے۔ کمپنی کے سربراہ کک کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس آئی پیڈز کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایپل نے آئی پیڈ منی کا نیا ماڈل بھی متعارف کروایا ہے جس میں سی ٹائپ یو ایس بی پورٹ فراہم کی گئی ہے۔ اس میں ایپل پینسل کا فیچر بھی ہے تاہم اس کا ہوم بٹن نہیں ہے۔ اس کی قیمت 479 پاؤنڈز سے شروع ہوتی ہے۔
/urdu/regional-56925416
انڈیا میں جہاں کووڈ 19 کی تباہ کن دوسری لہر جاری ہے، وہیں ڈاکٹروں کی جانب سے اس نایاب فنگس جسے 'بلیک فنگس' بھی کہا جاتا ہے، اس کے کیسز کووڈ کے مریضوں یا اس سے صحت یاب ہونے والوں میں تیزی سے سامنے آنے لگے ہیں۔
انڈیا میں جہاں کووڈ 19 کی تباہ کُن دوسری لہر جاری ہے، وہیں ڈاکٹروں کی جانب سے اس نایاب فنگس جسے 'بلیک فنگس' بھی کہا جاتا ہے کے کیسز کووڈ کے مریضوں یا اس سے صحتیاب ہونے والوں میں تیزی سے سامنے آنے لگے ہیں۔ میوکورمائیکوسز ایک انتہائی نایاب قسم کا انفیکشن ہے جو کہ مٹی، پودوں، کھاد، اور گلے سڑے پھلوں اور سبزیوں میں پائے جانے والی پھپپوندی سے پھیلتا ہے۔ ڈاکٹر نائر کہتے ہیں کہ ’یہ ہر جگہ پایا جاتا ہے، مٹی میں، ہوا میں یہاں تک کہ صحت مند لوگوں کے ناک میں بھی ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ میوکورمائیکوسز کے کیسز میں تیزی اس لیے آ رہی ہے کیوںکہ کووڈ کے مریضوں میں سٹیرائڈز کا بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ میوکورمائیکوسز انفیکشن میں مبتلا تقریباً 50 فیصد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دسمبر سے فروری کے دوران ڈاکٹر نائر کے چھ ساتھیوں نے پانچ مختلف شہروں ممبئی، بینگلورو، حیدرآباد، دلی، اور پونے میں اس انفیکشن کے 58 کیسز رپورٹ کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے کے 12 سے 15 دن میں یہ انفیکشن رپورٹ کیا ہے۔ گذشتہ دو ماہ میں ممبئی کے انتہائی مصروف سائیون ہسپتال میں 24 کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس ہسپتال میں امراض ناک، کان، اور گلہ کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر رنکوکا براڈو کہتی ہیں کہ گذشتہ پورے سال میں صرف دو کیس سامنے آئے تھے۔ ان میں سے گیارہ کی کم از کم ایک آنکھ ضائع ہوئی اور چھ کی موت واقع ہوئی۔ ڈاکٹر براڈو کے زیادہ تر مریض درمیانی عمر کے ذیابیطس کے مریض تھے جو کہ کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے کے دو ہفتے بعد اس انفیکشن کا شکار ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی سے ہفتے میں دو سے تین کیسز دیکھ رہے ہیں۔ وبا کے دوران یہ ایک انتہائی ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔‘ ادھر جنوبی شہر بنگلورو میں آنکھوں کے ایک سرجن ڈاکٹر راگھورائے بھی ایسی ہی کہانی سناتے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں میں انھوں نے میوکورمائیکوسز کے 19 کیسز دیکھے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر نوجوان تھے۔ وہ کہتے ہیں ان میں کچھ تو اتنے بیمار تھے کہ ہم ان کے آپریشن بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کی پہلی لہر کے مقابلے میں دوسری لہر کے دوران اس انفیکشن کی شدت اور کثرت دونوں پر حیرانگی ہے۔ اس انفیکشن سے متاثرہ لوگوں میں عموماً ناک کے بھرے ہونے یا ناک سے خون آنے کی شکایت ہوتی ہے، اس کے علاوہ آنکھوں میں سوجن یا تکلیف، آنکھوں میں تھکاوٹ، یا نظر میں خرابی کی شکایات ہوتی ہیں۔ ناک کے گرد جلد پر کالے دھبے بھی ہو سکتے ہیں۔
/urdu/regional-61206288
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے ماریوپل کے آخری محافظوں میں سے کسی کو مارا یا مقبوضہ شہر خیرسون میں آزادی کا ریفرنڈم کرایا تو یوکرین ماسکو کے ساتھ امن مذاکرات ختم کر دے گا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے ماریوپل کے محافظوں میں سے کسی کو ہلاک کیا یا مقبوضہ شہر خیرسون میں آزادی کا ریفرنڈم کرایا تو یوکرین ماسکو کے ساتھ امن مذاکرات ختم کر دے گا۔ انھوں نے امن مذاکرات کے لیے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ملنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ سنیچر کی شام پریس کانفرنس میں یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن آج کیو کا دورہ کریں گے۔ وہ جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرین آنے والے اب تک کے سب سے سینئر امریکی رہنما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کم از کم 5000 بچوں سمیت نصف ملین سے زیادہ افراد کو روس کے زیر قبضہ یوکرین کے کچھ حصوں سے روسی علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ میں روسی حملوں میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ روس نے فضائی حملوں اور گولہ باری میں یوکرین کے مختلف شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔ ہیدائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سویرودونستک شہر میں ایک پولیس دفتر کو تباہ کر دیا گیا۔ اس ہفتے کے شروع میں روس نے کہا تھا کہ وہ دارالحکومت کیو سمیت شمالی یوکرین پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد اب اپنی فوجی کارروائی لوہانسک اور پڑوسی دونیدسک علاقوں پر قبضہ کرنے پر مرکوز کر رہا ہے۔ یوکرین کی مسلح افواج کا کہنا ہے کہ روس ماریوپل میں ازوستال سٹیل ورکس میں اس کے یونٹوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے ماریوپل میں ازوستال سٹیل ورکس پر دباؤ بڑھانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے جو شہر کا آخری دفاعی مورچہ ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ روسی افواج سٹیل پلانٹ کے باقی ماندہ محافظوں کو بھوکا مارنے کی کوشش کریں گی اور پھنسے ہوئے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ یوکرین کی مسلح افواج کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں فضائی حملے کیے گئے ہیں اور جنوبی شہر سے انخلا روک دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انتونیو گوتریس پیر کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ کا دورہ کریں گے جہاں وہ صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کریں گے۔ ترکی نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کی اور امن مذاکرات کا انعقاد کیا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اسی وجہ سے گوتیرس پہلے ترکی جا رہے ہیں۔ جمعرات کو ان کا آخری پڑاؤ یوکرین کا دارالحکومت کیو ہوگا، جہاں وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور وزیر خارجہ دمتری کولیبا سے ملاقات کریں گے۔ تاہم یوکرین کے صدر زیلنسکی نے یوکرین سے پہلے روس کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ زیلینسکی کا کہنا ہے کہ گوتیرس کو یوکرین آنا چاہیے اور پوتن سے ملاقات سے پہلے یہاں کی زمینی صورتحال کو دیکھنا چاہیے۔
/urdu/world-59372358
نیویارک کی آبادی بہت متنوع ہے، اس میں تل ابیب سے زیادہ یہودی، ڈبلن سے زیادہ آئرش، نیپلس سے زیادہ اطالوی، اور سان جوآن سے زیادہ پورٹو ریکن رہتے ہیں۔
مین ہٹن کا لفظ امریکہ میں ایک مقامی بولی لینیپ سے آیا ہے اور اس کا ترجمہ ’جنگل جہاں کمان بنانے کے لیے لکڑی تلاش کی جا سکتی ہے‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے، جہاں کمان اور تیر شکار کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔ مین ہٹن کے پرکشش مقامات میں براڈ وے، دنیا کی سب سے مشہور گلیوں میں سے ایک، وال سٹریٹ کا مالیاتی ضلع، فلک بوس عمارتیں جیسے ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، گرین وچ ولیج، ہارلیم اور سینٹرل پارک، اقوام متحدہ کا صدر دفتر اور بہت سے ثقافتی اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ ان مقامات میں مین ہٹن کا میوزیم، اوپرا ہاؤس، میوزیم آف ماڈرن آرٹ، کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک کی سٹی یونیورسٹی کے دو کیمپس اور نیویارک یونیورسٹی شامل ہیں۔ سیونتھ ایونیو، 42 ویں سٹریٹ، اور براڈ وے کے چوراہے سے بنا، ٹائمز سکوائر، مین ہٹن کے وسط میں واقع ایک چوک، شہر کے تھیٹر ڈسٹرکٹ کا مرکز ہے۔ نیویارک کی آبادی بہت متنوع ہے، جس میں تل ابیب سے زیادہ یہودی، ڈبلن سے زیادہ آئرش، نیپلس سے زیادہ اطالوی، اور سان جوآن سے زیادہ پورٹو ریکن رہتے ہیں۔ سٹیچیو آف لیبرٹی (آزادی کا مجسمہ) شہر کی علامت ہے، لیکن یہ شہر بذات خود ایک علامت ہے۔ شہر میں ایک چوک ہے جہاں ہر قوم کے لوگ امریکی بن جاتے ہیں اور اگر وہ شہر میں رہیں تو نیویارک کے شہری بن جاتے ہیں۔ پچھلی دو صدیوں کے دوران نیویارک امریکہ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر رہا ہے، جہاں سے آدھے سے زیادہ لوگ اور سامان امریکہ میں اس کی بندرگاہ کے ذریعے آتے ہیں، اور اس تجارتی سرگرمیوں نے شہر کی زندگی کو مسلسل بدل کر رکھ دیا ہے۔ مجسمہ آزادی نیویارک شہر کی علامت ہے، اور یہ ایک عورت ہے جو یونانی سکارف پہنے ہوئے ہے اور ایک ہاتھ میں مشعل پکڑی ہوئی ہے اور دوسرے ہاتھ میں کتاب ہے، اور لاکھوں لوگ اس کے نام کے گن گاتے ہیں۔ کین کوسینیلی نے بعد میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنے بیانات کو دہرایا، لیکن نظم کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرنے کے الزام کی تردید کی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ اس سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں، اور بائیں بازو پر الزام لگایا کہ وہ ان کے تبصروں کو ’مسخ‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا نام جلاوطنوں کی ماں ہے، اور اس کے ہاتھ میں ایک مینار ہے جو آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے فیری سیاحوں کو لبرٹی جزیرے پر لے جاتی ہے، جہاں یہ مجسمہ نصب ہے اور وہاں وہ سیڑھیوں سے اس تک پہنچ سکتے ہیں اور پھر یہاں سے وہ نیویارک بے اور اس کے گردونواح کو دیکھ سکتے ہیں۔
/urdu/science-58110594
ایف بی آر کے مطابق مصنوعی ذہانت کی خصوصیات کا حامل ’وی بیک‘ نامی سافٹ وئیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سسٹم میں متعارف کرایا گیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے رسک مینجمنٹ کا کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں کسٹم کے محکمے کی جانب سے درآمدی اور برآمدی مال کی کلیرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کی خصوصیات کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت بین الاقومی تجارت کے لیے اندرون و بیرون ملک آنے اور جانے والے مال کی تیز تر کلیئرنس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل اس نظام کو حالیہ مہینوں میں نافذ کیا گیا اور کسٹم حکام کے مطابق جولائی کے مہینے میں آدھے سے زیادہ درآمدی اور برآمدی سامان کا اکثریتی حصہ مصنوعی ذہانت کے حامل سسٹم سے گزر کر ہی کلیئر ہوا۔ پاکستان میں بین الاقوامی تجارت کے شعبے سے منسلک افراد کے مطابق یہ نظام ’سمارٹ پورٹس‘ کے اس تصور کے تحت متعارف کرایا گیا ہے جس کے ذریعے پورٹس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور درآمدی اور برآمدی سامان کی کلیئرنس کو کم سے کم وقت ممکن بنایا جا سکے۔ تجارتی مال کی کلیئرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کے حامل نظام کے بارے میں جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے رابطہ کیا گیا تو ایف بی آر حکام نے ایک تحریری بیان میں بی بی سی اردو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسٹم نے عالمی بینک کی تکنیکی ٹیم کی مشاورت اور مدد سے یہ نظام تیار کیا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے خصوصیات کے حامل سافٹ ویئرزانسٹال کیے گئے ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق مصنوعی ذہانت کی خصوصیات کا حامل ’وی بیک‘ نامی سافٹ وئیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سسٹم میں متعارف کرایا گیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے رسک مینجمنٹ کا کام کرتے ہیں۔ ایف بی آر نے اس نظام کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نظام مشکوک مال کی نشاندہی بھی کر لیتا ہے اور اس کی روشنی میں مال کو چیک کیا جاتا ہے اور درآمد ہونے والے سامان کے سارے کاغذات کی سکروٹنی کی جاتی ہے جبکہ قواعد و ضوابط پر پورا اترنے والے مال کو یہ یہ نظام سرعت سے کلیئر کردیتا ہے۔ تجارتی مال کی کلیئرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی ضرورت اس پورے نظام میں ’انسانی مداخلت‘ کم کرنا ہے تاکہ تجارتی سامان کی کلیئرنس سرعت سے ہو سکے اور اس میں ناجائز طریقوں کا سدباب کیا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل اس سسٹم کے فوائد کے بارے میں بات کرتے ہوئے عاصم صدیقی نے کہا اس کی وجہ سے ایک تو پورٹس پر رش کم ہو گا کیونکہ اچھی ساکھ رکھنے والی کمپنیوں کا سامان بغیر کسی تعطل کے کلیئر ہو جاتا ہے اور ڈیوٹی اور ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی کے ساتھ پورٹ سے نکل جاتا ہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق وائس چیئرمین یونس سومرو نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2011 میں ’وی بوک‘ نامی سسٹم کا نفاذ ہوا اور اب یہ بڑھ کر مصنوعی ذہانت تک جا پہنچا۔
/urdu/world-55773233
امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں جن لوگوں کو کلیدی عہدوں پر نامزد کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت تجربہ کار لوگوں کی ہے، لیکن اس کے باوجودہ مشرق وسطی کے پیچیدہ حالات میں انھیں بڑے امتحانات کا سامنا ہو گا۔
’دستو، یہ وقت ٹسیٹ کروانے کا ہے۔‘ گذشتہ بدھ کو یہ الفاط تھے امریکہ کے نئے صدر کے جب انھوں نے حلف اٹھانے کے بعد امریکہ کو درپیش امتحانات کا ذکر کرتے ہوئے دنیا میں امریکہ کی اہمیت پر اپنی تقریر ختم کی۔ جو بائیڈن کی ٹیم میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سابق صدر اوباما کی انتظامیہ میں شامل تھے۔ یہ لوگ اب نئے احکامات کے ساتھ ان ہی دیرینہ مسائل کو دیکھیں گے جو ماضی میں ان کی ذمہ داریوں میں شامل رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی مخاصمت پر ایک کتاب کی مصنف اور ’کارنیگی اینڈؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے منسلک کم گھیٹاس کہتی ہیں کہ مشرق وسطی میں اوباما انتظامیہ سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اس کا ان لوگوں کو اچھی طرح علم ہے۔ نئی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی فائلوں میں سب سے اوپر یقیناً ایران کی فائل ہو گی۔ سنہ 2015 کا تاریخی جوہری معاہدے جو بین الاقوامی طاقتوں نے مشترکہ طور پر طے کیا تھا، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یک طرفہ اعلان کے بعد اب ایک نازک دھاگے سے ہوا میں معلق ہے۔ خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے جریدے نیوز لائن میگزین کے مدیر حسن حسن کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ میں شامل تجربہ کار لوگوں کی ایک مرتبہ پھر سرگرمی سے سفارت کاری کی خطے کو اشد ضرورت ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے نامزد کیے جانے والے اینٹونی بلکن نے اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے سینیٹ میں چار گھنٹے طویل سماعت میں کہا کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم اپنے اتحادیوں اور دوستوں بشمول اسرائیل اور خلیج ممالک سے روابط کو اڑان بھرنے کی کیفیت میں لے کر جائیں، نہ کہ زمین پر اترنے کی طرف۔ یورپی کونسل آف فارن ریلیشن میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایلی جیرنمایا کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ بائیڈن انتظامیہ میں خارجہ پالیسی، جوہری ہتھیاروں کی تخفیف اور خزانہ کے کلیدی عہدوں پر کی جانے والی نامزدیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ان میں اکثر ایسے لوگ شامل ہیں جو جوہری مذاکرات اور ایران سے ہونے والے معاہدے پر عملدر آمد کے معاملات میں شریک رہے ہیں۔‘ جو بائیڈن کی طرف سے ڈائریکٹر آف نینشل انٹیلی جنس مقرر کی جانے والی ایورل ہینز سے سینیٹ کے سامنے ان کی نامزدگی کی سماعت میں جب پوچھا گیا کہ کیا وہ سابق صدر ٹرمپ کی حکومت کے دوران ہونے والی لاقانونیت کو ختم کریں گی اور کانگریس کے سامنے وہ خفیہ رپورٹ پیش کریں گی جو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی عرب کے سفارت خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں تھی، تو ایورل ہینز کا جواب تھا 'ہاں سینیٹرز، بالکل۔ ہم قانون کی پاسداری کریں گے۔'
/urdu/pakistan-51267681
پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو اگر کسی صوبے میں اندرونی مسائل کا سامنا ہے تو کہیں اس کے اتحادی اس سے ناخوش ہیں۔
پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ملک کے کم از کم دو صوبوں میں اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور باقی دو صوبوں میں کہیں اس کے اتحادی ناخوش ہیں اور کہیں آپس ہی میں اختلافات موجود ہیں۔ ان حالات میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک طرف اختلافات دور کرنے کے لیے کمیٹیاں قائم کر رہی تو دوسری طرف اس نے ’سازش کرنے والے وزرا کو برطرف کر دیا ہے۔‘ صوبہ بلوچستان میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بڑوں میں اختلافات سامنے آنے کے بعد ان کے حل کے لیے کمیٹیاں قائم کرنی پڑیں۔ یہ اراکین چند روز قبل پشاور کے حیات آباد کے علاقے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک تھے۔ پاکستان تحریک انصاف ذرائع کا کہنا ہے کہ آٹھ سے نو اراکین ایسے ہیں جو ان تین برطرف وزراء کے حامی ہیں۔ 'انھوں نے تین وزیروں کو برطرف کر دیا جو کہ سیاسی طور پر ایک کافی دلیرانہ قدم تھا۔ یہ وزیر کافی تگڑے تھے، ان میں سے ایک کو وہ خود وزیرِ اعلٰی بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح انھوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ جو کوئی بھی مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گا تو میں اس کا ردِ عمل دوں گا۔‘ شہرام ترکئی صوابی کی سطح پر اپنی ہی سیاسی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے بعد اپنی جماعت کو اس میں ضم کر دیا تھا۔ سابقہ عوامی جمہوری اتحاد کے ایک رکن قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلی میں ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قدر چھوٹی تعداد سے حکمران جماعت کو صوبے یا وفاق کی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دوسرا بڑا نام عاطف خان کا ہے۔ وہ موجودہ صوبائی حکومت میں وزارتِ اعلی کے امیدوار تھے تاہم اس میں ناکام ہوئے۔ عاطف خان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ سابق دورِ حکومت میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے کافی کام کیا۔ تجزیہ نگار اس جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں سیاسی طلاطم میں وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ صوبے کے وزیرِاعلٰی بننا چاہتے تھے اور عاطف خان کے وزیرِاعلٰی نہ بننے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت ہے جبکہ پی ٹی آئی بلوچستان اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت اور صوبائی حکومت میں بی اے پی کی اتحادی ہے۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ چیئرمین سینٹ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرے گی جن کا اظہار سپیکر بلوچستان اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر سردار سرفراز چاکر ڈومکی وزیر اعلی جام کمال سے کر چکے ہیں۔
/urdu/pakistan-59515723
پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے والے سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے والے سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعے کو صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے پریا نتھا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ’گھناؤنے قتل پر سری لنکن عوام کے حوالے سے قوم میں پائے جانے والے غم و غصے اور ندامت کے اظہار کے لیے میں نے آج (سری لنکا کے) صدر سے متحدہ عرب امارات میں بات کی۔ انھیں آگاہ کیا کہ سو سے زائد افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں اور یہ یقین دلایا کہ ان سے قانون کے تحت نہایت سختی سے نمٹا جائے گا۔‘ سری لنکا کے وزیر اعظم نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں شدت پسند مشتعل ہجوم کی جانب سے پریا نتھا دیاودھنہ پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔ متاثرہ شخص کی اہلیہ اور خاندان کے غم میں شریک ہوں۔ سری لنکا اور اس کی عوام کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘ پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نیروشی دسانیاکے کا کہنا ہے کہ 'میرے شوہر ایک معصوم انسان تھے۔ میں نے خبروں میں دیکھا کہ انھیں بیرون ملک اتنا کام کرنے کے بعد اب بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔' 'میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ یہ قتل اتنا غیر انسانی عمل تھا۔ میں سری لنکا کے صدر اور پاکستان کے صدر و وزیر اعظم سے منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ میرے شوہر اور ہمارے دو بچوں کو انصاف مل سکے۔' پنجاب حکومت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے کچھ ملازمین فیکٹری مینیجر سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری پر تشدد کا واقعہ صبح 11بجے کے قریب شروع ہوا۔ واقعے کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہو گئے تھے۔ واقعے کے عینی شاید محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکڑی کے اندر یہ افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ ’یہ افواہ بہت تیزی سے پوری فیکڑی کے اندر پھیل گئی تھی، جس کے بعد فیکڑی ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا تھا۔‘
/urdu/pakistan-51383464
یومِ یکجہتی کشمیر پر ریلیاں تو ہر سال نکلتی تھیں لیکن اس بار تو ڈسپلے تصاویر، واٹس ایپ سٹیٹس، اور خصوصی گانا ریلیز کر کے اہتمام کے طریقے بدل دیے گئے۔
پاکستان بھر میں آج یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ 30 برسوں سے چلا آ رہا ہے لیکن اہتمام کے طریقے بدل گئے ہیں۔ مارچ اور ریلیاں تو پہلے بھی نکلتی تھیں لیکن اس بار تو مرکزی شاہراؤں پر بینرز نصب کیے گئے، ہاتھ میں ہاتھ دے کر انسانی کڑیاں بنائی گئیں، اور تو اور آئی ایس پی آر نے خصوصی گانا بھی جاری کر دیا۔ سب سے دلچسپ تھے گوگل ٹرینڈز۔۔۔ کسی نے کشمیر ڈے کے واٹس ایپ سٹیٹس گوگل کیے، کوئی کشمیر کے جھنڈے کا متلاشی تھا تو اور کسی کو کشمیر ڈے کے حوالے سے نئی ڈسپلے پکچر چاہیے تھی۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہنگامی حالات کے باوجود یومِ یکجہتی کشمیر منانے کے رویے میں خاصی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن عوام اظہارِ یکجہتی اور کرے بھی کو کیسے؟ خیر صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ منگل کو پریزائڈنگ افسر نے سینیٹ کا اجلاس کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے متفقہ قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے ہی ملتوی کر دیا۔ یاد آنے پر اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ بلایا گیا اور قرارداد منظور کی گئی۔ مگر اس قرارداد کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ اس سوال کے جواب میں صحافی نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ 'حکومت کے پرانے طریقے ہیں جن کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اس دن پورے پاکستان میں ایک احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ہم کشمیر پر جو بات کر رہے ہیں اس کا مواد کیا ہے؟‘ اس سوال کے جواب میں کہ اگر مسئلہ کشمیر پر ہر سال بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر تنقید کیوں، راجہ قیصر کہتے ہیں 'آج تک جب بھی کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی تو کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی کشمیریوں کے حوالے سے نہیں کی گئی، اسے کشمیریوں کا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔' ان کے مطابق کشمیر کو انفرادی اور انتظامی اختیارات دے کر سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور اس پر یقین کریں کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے مسئلے کو خود لے کر جائیں تو یہ زیادہ موثر ہو گا نہ کہ پاکستان اپنی طرف سے پیش کرے۔ آئی ایس پی آر نے یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر گانا نکالا جسے کچھ صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ صارف ندیا اطہر نے ٹویٹ کیا ’آج کشمیر ڈے ہے۔ ہم نے ایک نیا ملی نغمہ ریلیز کر کے سال بھر کے لیے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔‘ انٹرنیٹ پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ پاکستانی عوام نے یکجہتی کا اظہار کرنے کے نت نئے طریقے نکال لیے ہیں مگر اس سے زیادہ کیا بھی کیا ہی جا سکتا ہے۔
/urdu/pakistan-60510073
عدالت نے نور مقدم قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کا وقت جمعرات کی دوپہر ڈیڑھ بجے مقرر کیا تھا لیکن کمرہ عدالت ایک گھنٹہ پہلے ہی بھر چکا تھا۔ جب مجرم ظاہر جعفر کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے چہرے پر خوف نمایاں اور اس کا جسم کانپ رہا تھا۔
جب نور مقدم قتل کیس کی سماعت سے متعلق ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت کے اہلمد نے مقدمے کی آواز لگائی تو پہلے ان آٹھ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا جنھیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ ان میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی شامل تھیں۔ عدالت نے نور مقدم قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کا وقت جمعرات کی دوپہر ڈیڑھ بجے رکھا تھا لیکن کمرہ عدالت ایک گھنٹہ پہلے ہی بھر چکا تھا جس میں زیادہ تعداد خواتین اور ان میں اکثریت خواتین وکلا کی تھی۔ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر رانا حسن عباس بھی جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو عدالت کے جج نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ خیریت ہے کہ وہ وقت سے پہلے آگئے کیوں کہ ابھی تو فیصلے میں کافی وقت باقی ہے۔ رانا حسن عباس نے جواب دیا کہ ’مائی لارڈ رش کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے روسٹم تک پہنچنے کے لیے جگہ نہ ملے گی‘۔ جج عطا ربانی کمرہ عدالت میں لوگوں کی گفتگو کا شور پہلے تو کچھ دیر برداشت کرتے رہے لیکن اس کے بعد وہ اپنے چپمبر میں چلے گئے اور انھوں نے عدالتی عملے کو حکم دیا کہ وہ کمرہ عدالت میں موجود لوگوں کو خاموش کروائیں۔ عدالتی فیصلہ سنانے کے لیے جب ایڈیشنل سیشن جج ایک بج کر 25 منٹ پر کمرہ عدالت میں آئے تو پہلے انھوں نے اس مقدمے کے شریک ملزمان کو جن میں ظاہر جعفر کے والدین بھی شامل تھے، طلب کیا اور ان کی حاضری لگائی۔ اس کے بعد ٹھیک ڈیڑھ بجے فیصلہ سناتے ہوئے پہلے تھیراپی سینٹر کے مالک سمیت چھ ملازمین کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ بری ہونے کا لفظ سننے کے بعد ان ملازمین نے اونچی آواز میں نعرہ لگایا جس پر عدالتی عملے نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ بری ہونے کی آواز سن کر تھیراپی ورکس کے مالک سمیت دیگر ملازمین کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔ عدالت نے اس کے بعد مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی۔ اس مقدمے کے ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کے بعد مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ جب مجرم ظاہر جعفر کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے چہرے پر خوف نمایاں تھا اور اس کا جسم کانپ رہا تھا اور وہ عدالتی فیصلے کے بعد عدالت سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پولیس کے اہلکار اسے زبردستی روسٹم سے کھینچ کر بخشی خانے میں لے گئے۔ اس مقدمے کے مدعی اور مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں یا اس فیصلے کو چیلنج کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ وکلا کی مشاورت کے بعد کریں گے۔
/urdu/regional-58852149
انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد مبصرین کے مطابق نہ صرف کئی مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔
ایک مقامی سخت گیر ہندو تنظیم نے دونوں کے درمیان رشتے ختم کرنے کا ایک باقاعدہ معاہدہ کروایا۔ اس کے باوجود لڑکے کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے میں ہندو تنظیم کے کئی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کئی مسلمان موجودہ ماحول میں نہ صرف غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی رفتہ سخت گیر ہندو سوچ کے زیر اثر آتا جا رہا ہے۔ معروف تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں 'چند حملے منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت اور چند انفرادی طور پر، دونوں شکلوں میں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چل رہی ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کا ڈی این اے تبدیل کر دیا جائے۔' 'موجودہ ماحول میں انڈیا کے مسلمانوں کی اکثریت غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنا بڑا طبقہ مذہبی طور پر سخت گیر ہوا ہے لیکن اکثریتی برادری کے رویے میں شدت پسندی کسی بھی ملک میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔' تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حملہ آوروں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی، جبکہ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں حملے کا شکار ہونے والے کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ایسے واقعات انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں لیکن ان واقعات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی وہ کم خطرناک نہیں ہے۔ ان واقعات کو مذہبی رنگ دینا نہ تو سماج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ انتخابات کے آتے ہی ووٹ کی سیاست کرنے والے باہر آ جاتے ہیں اور اسی طرح کا بھرم پیدا کرتے ہیں۔ مسلمان برادری 75 سالوں میں ووٹ کے سوداگروں کے دیے ہوئے 75 زخموں سے گھائل ہے لیکن اب ان کے حربوں کو سمجھ چکی ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔' تجزیہ کار عارفہ خانم کہتی ہیں کہ ’ملک کے لیے جمہوری نظام برسوں کی آزادی کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ اب ہم اس پوری عمارت کی اینٹ اینٹ کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ریزہ، ریزہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اسے صرف انتخابی طریقے سے اور جمہوری اداروں کو ٹوٹنے سے بچا کر روکا جا سکتا ہے۔'