url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/urdu/entertainment-56184188
ہم میں سے بہت سے لوگ فلمی ستاروں کو پسند کرتے ہیں لیکن کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے اپنے پسندیدہ ستاروں کو خط لکھا اور اُنھیں ان کا جواب بھی موصول ہوا ہو۔
اور کیا آپ یقین کریں گے کہ اس پرانے البم میں اس وقت کے بڑے سے بڑے فلم سٹارز کے وہ خطوط ہیں جو اُنھوں نے نجمہ کو جواب میں لکھے اور اپنی دستخط شدہ تصاویر کے ساتھ بھیجے۔ شمی کپور نے انگریزی میں، دھرمیندر نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہندی میں تو سنیل دت نے خالص اور خوش خط اردو میں اس نوجوان لڑکی کے خطوط کے جواب دیے۔ فہرست بہت لمبی ہے۔ اس میں کامینی کوشل، سادھنا، آشا پاریکھ، سائرہ بانو، تبسم، ثریا، راجندر کمار، راج کمار بھی شامل ہیں۔ تصور کریں کہ ہم اور آپ میں سے کوئی شاہ رخ خان، دیپیکا پاڈوکون، فواد خان یا ماہرہ خان کو خط لکھے اور ان کا اس طرح ہاتھ سے لکھا ہوا جواب آئے! باقی بھائی اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے لیکن نجمہ کا رجحان پڑھائی میں نہیں تھا۔ اُنھیں تو فلموں کا شوق تھا! وہ انہماک سے ریڈیو پر گانے سنتیں اور اپنے پسندیدہ فلم سٹارز کو خطوط لکھتیں۔ سیم کے مطابق نجمہ بہت ہی پیار کرنے والی پھوپھی تھیں، اور ان کے بارے میں سب کو پتا تھا کہ اُنھیں فلموں کا اور فلم سٹارز کو خط لکھنے کا بہت شوق تھا۔ ٹوئٹر پر اپنی تھریڈ وائرل ہونے کے بارے میں سیم نے کہا کہ پھوپھی کے اس شوق اور اس البم کے بارے میں پتا تو سب کو تھا لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کا یہ البم اس قدر اہم بھی ہوگا۔ آغاز سنیل دت سے کرتے ہیں، جنھوں نے اردو میں جواب دیا، اور صرف ایک دو جملے نہیں بلکہ ایک لمبا چوڑا جواب! جس میں شاید اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لکھنے والی ایک نوعمر لڑکی ہے، اُنھوں نے ایک نہیں بلکہ کئی بار نجمہ کو اپنی بہن کہا! پھر دھرمیندر کے جواب کو دیکھیں، ہندی میں۔ لگتا ہے کہ نجمہ نے اُنھیں ان کے جنم دن پر مبارکباد کا خط لکھا تھا۔ جواب میں وہ لکھتے ہیں، ’جنم دن پر تمہاری مبارکباد ملی۔ من اس طرح خوشی سے ناچ اٹھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اسی خوشی میں اپنا آٹوگراف اور فوٹو بھیج رہا ہوں۔ ساتھ ہی میری شبھ کامنائیں بھی۔ تمہارا، دھرمیندر۔‘ اور صرف فلم سٹارز ہی نہیں، وہ ریڈیو سیلون کی بہت بڑی فین تھیں اور ہر وقت ریڈیو پر ہونے والے کسی نہ کسی مقابلے میں حصہ لیتی رہتی تھیں، اور ظاہر ہے کہ جیتی بھی تھیں۔ انعام کے طور پر ریڈیو سیلون کی طرف سے کئی مقبول گلوکاروں کی آٹوگراف والی تصاویر بھی ان کی کلیکشن کا حصہ تھیں۔
/urdu/sport-58951206
سابق انڈین کرکٹر یوراج سنگھ کو دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کی حصار پولیس نے ذات پات پر مبنی ریمارکس کے سلسلے میں گرفتار کیا اور پھر انھیں ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت پر رہا کردیا۔
سابق انڈین کرکٹر یوراج سنگھ کو دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کی حصار پولیس نے ذات پات پر مبنی تبصرہ کرنے پر گرفتار کر لیا تاہم کچھ ہی دیر میں انھیں ہائی کورٹ کے احکامات پر عبوری ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کلسن نے یوراج سنگھ پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے انسٹاگرام لائیو کے دوران ایک کھلاڑی کی ذات پات پر مبنی تبصرے کیے۔ جس وقت پہلی مرتبہ یہ معاملہ سامنے آیا تھا اس وقت یوراج سنگھ نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ تقریبا ایک سال قبل ساتھی کرکٹر روہت شرما کے ساتھ بات چیت کے دوران انھوں نے یوجویندر چہل کے ویڈیو کو مذاق کا نشانہ بناتے ہے ایک ایسے لفظ کا استعمال کیا جس سے انڈیا کی ایک پسماندہ ذات کی نشاندہی ہوتی تھی۔ ان کے خلاف شہری کی جانب سے دائر درخواست کے بعد یوراج سنگھ نے اس معاملے میں چندی گڑھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ سوشل میڈیا پر سنکلیا نامی ایک صارف نے لکھا: 'یوراج سنگھ کے ساتھ جو ہوا وہ سوشل میڈیا پر آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ذات پات پر مبنی ہتک آمیز تبصرے اس قدر عام بنا دیے گئے ہیں کہ لوگوں یہ تمیز بھی نہیں کر پاتے کہ یہ کسی گروہ کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ یوراج نے دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا اور زیادہ تر ہوش مند لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں۔‘ جبکہ اننیا مشرا نامی صارف نے لکھا کہ چہل کے خلاف ذات پات پر منبی تبصرے کے بعد ’یو وی‘ (یوراج) کو ضمانت مل گئی۔ قانون سیلبریٹیز کے لیے دوسری طرح سے کام کرتا ہے۔ بہت سی اونچی ذات والے اس ایس سی/ ایس ٹی کے سخت قانون کی وجہ سے جیل میں ہیں حالانکہ انھوں نے جرم بھی نہیں کیا ہے۔ ان کی نہ کوئی ضمانت ہے اور نہ ان کے کیس کی سماعت ہے۔‘ انڈیا میں ذات پات کی تفریق ایک مسئلہ رہا ہے اور پسماندہ طبقات کو مین سٹریم میں لانے کے لیے حکومت نے انھیں بہت سے شعبوں میں سیٹیں مخصوص کر رکھی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے حامی ہیں جبکہ بہت سے لوگ اس کے مخالف بھی ہیں۔ چنانچہ انڈین کرکٹ میں پسماندہ طبقات سے آنے والے افراد کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا رہا ہے اور اس پر وقتاً فوقتاً بحث ہوتی رہی ہے لیکن نمائندہ کرکٹرز کا کہنا ہے کہ انڈین کرکٹ میں ذات پات کو نہیں دیکھا جاتا ہے۔ کرکٹ میں نسل پرستانہ رویوں کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اس کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر ایک زمانے تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی رہی اور وقتاً فوقتاً نسل پرستانہ تبصروں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جیسے انڈین کرکٹر ہربھجن سنگھ پر آسٹریلوی کھلاڑی کے خلاف نسل پرستانہ تبصرے کے بعد تین میچوں کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
/urdu/world-56234041
سکاٹ گرین سرجری کا لباس زیب تن کیے ہوئے آپریشن تھیٹر میں موجود تھے جب وہ جمعرات کو اپنے آن لائن ٹرائل میں پیش ہوئے۔
کیلیفورنیا کے شہر سیکرامینٹو میں ایک ڈاکٹر ایک مریض کی سرجری کرتے ہوئے زوم پر ایک عدالتی سماعت میں پیش ہو گئے۔ سیکرامینٹو بی کے مطابق سکاٹ گرین سرجری کا لباس زیب تن کیے ہوئے آپریشن تھیٹر میں موجود تھے جب وہ جمعرات کو اپنے آن لائن ٹرائل میں پیش ہوئے۔ جب ان سے جج نے پوچھا تو ڈاکٹر گرین نے کہا کہ انھیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ 'یہیں پر ایک اور سرجن موجود ہے جو میرے ساتھ سرجری کر رہا ہے۔' میڈیکل بورڈ آف کیلیفورنیا نے اب ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ بورڈ 'ڈاکٹروں سے توقع کرتا ہے کہ وہ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے احتیاط کے معیار کی پاسداری کریں۔' یوٹیوب پر لائیو سٹریم ہونے والی سیکرامینٹو سپیریئر کورٹ کی سماعت سے قبل کورٹ کے کلرک نے پلاسٹک سرجن سے پوچھا: 'ہیلو، مسٹر گرین؟ کیا آپ ٹرائل کے لیے دستیاب ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے آپ آپریٹنگ روم میں ہیں۔' گرین نے جواب دیا: 'جی سر! میں ابھی آپریٹنگ روم میں ہوں۔ جی ہاں میں ٹرائل کے لیے دستیاب ہوں۔ کارروائی آگے بڑھائیے۔' کورٹ کمشنر (جج) گیری لنک کے زوم پر آنے کا انتظار کرتے ہوئے ڈاکٹر گرین بظاہر مریض کا آپریشن کرتے رہے۔ جب جج زوم پر آ گئے تو انھوں نے کہا: 'تو اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو میں ایسے ملزم کو دیکھ رہا ہوں جو آپریٹنگ روم میں موجود ہیں اور بظاہر مریض کو سرگرمی سے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ مسٹر گرین کیا یہ درست ہے؟ یا مجھے ڈاکٹر گرین کہنا چاہیے؟' جب سرجن نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ سرجری کر رہے ہیں اور انھیں سماعت کے جاری رہنے سے خوشی ہوگی تو جج نے کہا: 'مجھے مریض کی فلاح کے لیے یہ بہتر نہیں محسوس ہوگا کہ آپ کا ٹرائل ایسے وقت میں کیا جائے جب آپ آپریشن کر رہے ہوں، باوجود اس کے کہ افسر آج عدالت میں موجود ہیں۔' ڈاکٹر گرین نے پھر اصرار کیا کہ وہ سماعت کے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا: 'میرے ساتھ ابھی یہاں ایک اور سرجن موجود ہیں جو میرے ساتھ سرجری کر رہے ہیں، اس لیے میں یہاں کھڑا ہو سکتا ہوں اور وہ سرجری کر سکتے ہیں۔' رواں ماہ کے اوائل میں ایک وکیل اپنی سکرین سے بلی کے چہرے والا فلٹر نہیں ہٹا پا رہے تھے۔ بالآخر انھوں نے جج سے کہا کہ وہ ویسے ہی اپنی بات جاری رکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا: 'میں لائیو ہوں، میں بلی نہیں ہوں۔'
/urdu/regional-58221164
افغانستان ایک سرنگ سے ایک اور سرنگ میں داخل ہو گیا ہے۔ پچھلے چالیس برس کے دوران افغانوں کے دلوں سے خوف کا خوف بھی چلا گیا: پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم بات س بات۔
صرف نو دن میں ہی پورا ملک اس ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا اور ابھی آخری امریکی فوجی کے نکلنے میں سولہ دن باقی ہیں یا سولہ گھنٹے؟ کوئی آنکڑا کام نہیں آ رہا۔ ستاروں کی گردش اس قدر تیز ہے کہ یہ کالم بھی چھپتے ہی پرانا ہو جائے گا۔ امریکی بھی بار بار اپنے سر پر ہاتھ پھیر کے چھوٹے بش کو یاد کر رہے ہیں جس نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ اب ہم افغانستان کو دہشت گردی سے پاک کر کے خوشحالی، جمہوریت اور آزادی کا روشن مینار بنائیں گے۔ اس چکر میں 20 برس کے دوران دو ٹریلین ڈالر اور ڈھائی ہزار مغربی فوجیوں کا بلیدان ہو گیا مگر دم سیدھی نہ ہو پائی۔ افغان حکمران طبقے کو 20 برس کی کھڑکی ملی تھی اپنے ملک کو کھربوں ڈالر کی مدد سے سنوارنے کے لیے۔ ساڑھے 19 برس تک اس کھڑکی کو ڈالروں کے بنڈل باہر پھینکنے کے لئے استعمال کیا گیا اور اب یہ طبقہ خود اسی کھڑکی سے کود کر چمپت ہو رہا ہے۔ رہے چار کروڑ افغان تو وہ تو پچھلے چالیس برس سے آگے کنواں پیچھے کھائی کے درمیان پھنسے رہنے کے تجربہ کار ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ جو افغانستان کے دوبارہ تاریک دور میں جانے کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی تو ہیں جو اسی اور نوے کی دہائی میں مجاہدین کو بھی نئے افغانستان کا نقیب سمجھ کے دامے درمے سخنے ہر طرح سے پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ جس پاک باز گروہ کا ہاتھ واشنگٹن، لندن، ریاض اور اسلام آباد نے تھاما ہے وہ یقیناً سوویت نواز خراب مسلمانوں کے مقابلے میں معقول گروہ ہی ہو گا۔ امریکی آڈیٹرز پچھلے دس برس سے چیخ رہے تھے کہ افغان قیادت کی جیبوں میں بلیک ہول جتنا سوراخ ہے۔ انھیں افغان سے نہیں افغانی سے غرض ہے۔ جتنی سرمایہ کاری انھوں نے خلیجی ریاستوں میں کی اس سے آدھی میں افغانستان دوبئی بن سکتا تھا۔ پر ہوا یوں کہ بے وقوف کا مال مسخرے پی گئے۔ افغانستان ایک سرنگ سے ایک اور سرنگ میں داخل ہو گیا ہے۔ پچھلے چالیس برس کے دوران ’رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو‘ کی عملی تصویر افغانوں کے دلوں سے خوف کا خوف بھی چلا گیا۔ جو تین میں نہ تیرہ میں قسم کے عام لوگ پچھلے چار عشروں میں اپنی دھرتی سے کھدیڑے گئے ان کی سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں والی تیسری گول مٹول نسل آج بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں کچرا چن رہی ہے۔ یہ مخلوق نہ افغان ہے نہ پاکستانی۔ یہ تو منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کابلی ایڈیشن ہے۔ رہی بات افغانوں کی اگلی نسل کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مستقبل کی تو وہ جس ببول کے سائے میں بھی رہیں خوش رہیں۔ بس ہمیں اور تنگ نہ کریں۔
/urdu/pakistan-59954032
اس خبر کے سامنے آتے ہی اکثر صارفین نے اس مقدمے کا موازنہ شارخ جتوئی کیس اور ریمنڈ ڈیوس کیس سے کرنا شروع کر دیا۔ کچھ افراد ریاست کی مداخلت کی اپیل کرتے دکھائی دیے جبکہ اکثر افراد قانونی نظام کی خامیوں پر مایوسی کا اظہار کرتے دکھائی دیے اور اس نظام کے ٹوٹے ہونے کی بھی بات کی۔
ایسے ہی مطالبے گذشتہ برس جولائی میں بھی کیے گئے جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں ایک جوڑے کو برہنہ کر کے، ان پر تشدد کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور اس حوالے سے صارفین کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اُس وقت اسلام آباد پولیس کی جانب سے فوری ایکشن بھی لیا گیا اور متعلقہ افسران نے متاثرین کو مکمل انصاف دلوانے کی یقین دہانی کروائی تھی جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس مقدمے کی بذاتِ خود پیروی کی بھی بات کی تھی۔ تاہم اب اس مقدمے میں ایک نیا موڑ آیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کو مایوس کر دیا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو اکثر صارفین متاثرہ لڑکی کے اس بیان کی سچائی پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس کی وجہ ملزمان کی جانب سے کی جانے والی بلیک میلنگ ہے، تاہم اس بارے میں ظاہر ہے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اکثر افراد کی جانب سے اس مقدمے کا موازنہ شارخ جتوئی کیس سے بھی کیا جا رہا ہے۔ کچھ افراد ریاست کی مداخلت کی اپیل کرتے دکھائی دیے جبکہ اکثر افراد نے قانونی نظام پر مایوسی کا اظہار کرتے دکھائی دیے اور ایک صارف نے تو یہ تک کہا ’اگر ویڈیو ثبوت بھی ناکافی ہے تو یہ اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا ثبوت ہے۔‘ جہاں کچھ صارفین کی جانب سے متاثرہ لڑکا اور لڑکی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہیں دیگر صارفین ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے معاشرے اور قانونی نظام کی خامیوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ اس بارے میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں، ایسا عدالتوں میں روزانہ دیکھنے میں آتا ہے۔ عام طور پر بھی متاثرین عدالت سے باہر ہی معاملات بہتر کرنے کی کوشش کر لیتے ہیں اور اپنے بیانات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اس طرح ملزمان کو رہائی مل جاتی ہیں۔ ٹیپو نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’متاثرین کو موردِ الزام ٹھہرانا اور انھیں شرمندہ کرنا بہت آسان ہے۔ عثمان مرزا مقدمے میں متاثرہ جوڑا طاقتور کے خلاف اپنی زندگیوں کی جنگ بھی لڑ رہا تھا۔ ویڈیو ثبوت بھی موجود ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ جوڑا ملزمان کی نشاندہی بھی کرے؟ ریاست جوڑے کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتی؟‘ کچھ صارفین کی جانب سے اس مقدمے کا موازنہ ماضی کے مشہور شاہ زیب قتل کیس سے بھی کیا جا رہا ہے۔ کرن ناز نے اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’زینب زیادتی/قتل کیس کے علاوہ اس ملک میں واقعی مظلوم کے ساتھ انصاف کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عثمان مرزا کیس میں متاثرہ لڑکی کے تازہ بیان نے دل بہت دکھا دیا ہے۔ یہ شاید وہی خوف ہے جو بتاتا ہے کہ درندوں کا یہاں کچھ نہیں بگڑنا۔‘
/urdu/regional-56607044
انڈیا کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا ہے جس کے تحت خواتین کی طرف سے اسلامی قوانین کے تحت دی گئی طلاق کو بھی قانونی حیثیت دی جائے گی۔
عدالت نے کہا ہے کہ خواتین کا اپنے شوہر کو اسلامی طریقے سے طلاق دینا انڈین قانون کے تحت صحیح ہے۔ انڈیا میں مسلمان خواتین کے لیے ’ڈیسولیوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939‘ کے تحت نو صورتوں میں اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لیے فیملی کورٹ جانے کی گنجائش ہے۔ ’کیرالہ فیڈریشن آف وومن لائرز‘ کی سرکردہ وکیل شاجنا ایم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کا راستہ مسلمان خواتین کے لیے بہت مشکل رہا ہے، کئی بار دس دس سال تک کیس چلتے ہیں، خرچہ ہوتا ہے، وقت لگتا ہے اور شوہر کی طرف سے بدسلوکی ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد جمع کرنا پڑتے ہیں۔‘ مذہبی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی سینٹرل ایڈوائزری کمیٹی کی رکن شائستہ رفعت بھی کہتی ہیں کہ مسلمان خواتین کی پہلی ترجیح اسلامی طریقے سے طلاق لینا ہے نہ کہ قانون کے راستے سے جو طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ فیصلے میں عدالت نے یہ بات واضح کی ہے کہ انڈین قانون کے علاوہ مسلمان خواتین شریعہ قانون کے تحت بھی اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا ’تین طلاق جیسے غیر اسلامی طریقے کو رد نہ کیے جانے کے لیے تو کئی لوگوں نے آواز اٹھائی تھی لیکن ماورائے قانون کہلائے جانے والے مسلم خواتین کے طلاق کے اسلامی راستوں کا حق واپس دینے پر کوئی مجموعی مطالبہ نظر نہیں آتا۔‘ عدالت کے دو رکنی بنچ کے اس فیصلے نے سنہ 1972 کے اسی عدالت کے اس فیصلے کو الٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم خواتین کے لیے طلاق مانگنے کے لیے صرف انڈین قانون کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ اس فیصلے نے شریعہ قانون کے راستوں کو ’ماورائے قانون‘ قرار دیا تھا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان تمام راستوں کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ ’خلع‘ کے معاملے میں طلاق سے پہلے ایک بار صلح صفائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جو عورتیں شوہر سے بہت پریشان ہیں اور جو انھیں طلاق نہیں دینے دے رہے، انھیں کچھ راحت ملے گی۔ قاضی کو بھی عورت کی بات سننا ہو گی اور وہ شوہر کا ساتھ کم دے پائیں گے۔‘ اب شاجنا کہتی ہیں ’کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عورتیں عدالت کے بغیر اسلامی طریقوں سے طلاق حاصل کر پائیں گی اور اسے قانونی درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے شوہر اورقاضی کو بھی ماننا پڑے گا۔‘ انڈیا میں اب مسلم خواتین شریعہ کے مطابق اسلامی طریقوں سے بھی طلاق حاصل کر سکیں گی۔
/urdu/regional-59023881
حالیہ دنوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اُردو اور اس سے منسلک تہذیب و تمدن انڈیا کی ہندو قدامت پسند جماعتوں کی بظاہر ضد بن چکی ہے اور ماہرین کے مطابق اس کی وجوہات میں ہر وہ جواز شامل ہے جو کہ انڈیا میں دائیں بازو کی سیاست کا بڑے پیمانے پر حصہ ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اُردو اور اس سے منسلک تہذیب و تمدن انڈیا کی ہندو قدامت پسند جماعتوں کی بظاہر ضد بن چکی ہے اور ماہرین کے مطابق اس کی وجوہات میں ہر وہ جواز شامل ہے جو کہ انڈیا میں دائیں بازو کی سیاست کا بڑے پیمانے پر حصہ ہے۔ اس کی حالیہ مثال گذشتہ ہفتے نظر آئی جب دائیں بازو کی ایک سخت گیر نظریات رکھنے والی جماعت سے منسلک افراد نے فیب انڈیا نامی ملبوسات بنانے والی کمپنی کی طرف سے جاری کردہ ’جشنِ رواج‘ نامی ایک اشتہار پر یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ یہ اشتہار ہندو مذہب اور روایات کو غلط طریقے سے پیش کرتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں اردو کے ساتھ امتیازی سلوک پر احتجاج ہوئے ہیں، اس بار شاید ہی کہیں پرزور طریقے سے اس کی مخالفت ہوئی ہو۔ تاہم غیر ہندی بولنے والی ریاستوں پر ہندی کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوششیں ہمیشہ سنجیدہ احتجاج کا باعث رہی ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ دائیں بازو کی ہندو تنظییں دیگر ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ایک حکمت عملی سے پیش آتی ہیں لیکن اردو پر ان کا حملہ براہ راست اور غیر معذرت خواہ ہوتا ہے۔ ہندو دایاں بازو زبان اور مذہب کے فرق کو اکثر الجھاتا ہے۔ حالانکہ ماہرین اردو کو بین الثقافتی زبان سمجھتے ہیں، ہندو قدامت پسند اسے خصوصاً مسلمانوں کی زبان کے طور پر دیکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پر اس سے منسلک دوسرے ثقافتی نشانات جیسے فارسی اور عربی یا مغلوں اور مسلمانوں کے دور حکومت سے متعلق ہر چیز کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس مخالفت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کی کارروئیاں تین اہم پہلؤں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پہلا یہ کہ مارکیٹ (کاروباری دنیا) ان کے مقرر کردہ ’قوانین‘ کی ضرور پابندی کرے۔ دوسرا یہ کہ یہ وہ طے کریں گے کہ ہندو کون ہے اور اس قوم کا نظریہ کیا ہو گا۔ تیسرا یہ کہ اس طرح کی کارروائیاں کسانوں کے احتجاج، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے دیگر اہم مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے میں مدد کرتی ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ حالیہ برسوں میں زیادہ نمایاں ہو رہا ہے اور بے ضرر طریقوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ’مثال کے طور پر بالی وڈ کو لے لیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا مظہر ہے۔ بالی وڈ کی فلمیں ہندوستانی زبان میں ہوا کرتی تھیں اور اس میں اردو ایک اہم حصہ تھا، چاہے انھیں ہندی فلمیں ہی کیوں نہ کہا جائے۔‘ ہندو دایاں بازو اردو کو ایک غیر ملکی اور خصوصاً مسلمانوں کی زبان سمجھتا ہے اور اکثر مذہب اور روایت میں فرق نہیں کرتا۔ یہ فعل دانستہ ہے یا نادانستہ ہے، وہ بحث کا موضوع ہے لیکن اس سے ان کے مقصد میں ضرور مدد ملتی ہے۔
/urdu/pakistan-52514211
عامر لیاقت ماضی میں بھی تنازعات کی زد میں رہے ہیں اور اس مرتبہ انھوں نے بالی وڈ اداکار عرفان خان اور سری دیوی کے انتقال کے حوالے سے بھی ایک ایسا مذاق کیا جس کے بعد سے انھیں سوشل میڈیا پر ایک شدید ردعمل کا سامنا ہے۔
عامر لیاقت ماضی میں بھی تنازعات کی زد میں رہے ہیں اور اس مرتبہ انھوں نے بالی وڈ اداکاروں عرفان خان اور سری دیوی کے انتقال کے حوالے سے بھی ایک ایسا مذاق کیا جس کے بعد سے انھیں سوشل میڈیا پر ایک شدید ردِعمل کا سامنا ہے۔ تاہم عامر لیاقت نے اس حوالے سے اب سے کچھ دیر قبل ایک ویڈیو پیغام میں اپنے بیان پر معافی مانگی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانیت کے ناطے معافی مانگ رہے ہیں۔ اس شو کے دوران ایک موقع پر عامر لیاقت نے عدنان صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے باہر آپ جس کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ انھوں نے عدنان صدیقی کو کہا کہ آپ کی وجہ سے دو لوگوں، رانی مکھر جی اور بپاشا باسو کی زندگی بچ گئی۔ انھوں نے اس بیان سے قبل بالی وڈ کے معروف اداکار عرفان خان اور سری دیوی کا حوالہ دیا جن کے ساتھ عدنان صدیقی نے ماضی میں کام کیا تھا۔ تاہم عدنان صدیقی کا اس پر کہنا تھا کہ انھیں سری دیوی اور عرفان خان کے انتقال کا بے حد افسوس ہے اور انھوں نے عامر لیاقت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ کے لیے مذاق ہو گا مگر میرے لیے یہ مذاق نہیں۔‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شو کے بعد جاری ایک بیان میں عدنان صدیقی نے لکھا کہ’اس دنیا سے گزر جانے والوں کے حوالے سے مذاق کرنا نہایت نامناسب ہے، اس بیان سے صرف وہ (عامر لیاقت) اور میں ہی نہیں بلکہ ہمارا ملک غلط انداز میں پیش ہوا۔‘ اس پروگرام کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی اور صارفین نے عامر لیاقت کو ان کے اس متنازع بیان کے باعث شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر صارفین ایک جانب جہاں عدنان صدیقی کے رویے کو سراہتے نظر آئے وہیں دیگر صارفین نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ نجی ٹی وی چینلز عامر لیاقت کی تنازعات سے بھری تاریخ جانتے ہوئے انھیں بھرتی کیوں کرتے ہیں؟ گذشتہ برس عامر لیاقت نے عورت مارچ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے والا غیر ملکی ایجینڈا‘ قرار دیا تھا جس کے بعد بھی انھیں ٹوئٹر پر ایک شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنے پروگرام میں نفرت انگیز مواد شیئر کرنے پر عامر لیاقت حسین کو متعدد بار نہ صرف پیمرا کی جانب سے نوٹسز جاری ہوئے ہیں مگر عدالتوں نے بھی کئی بار ان کے بیانات کا نوٹس لیا ہے۔ پیمرا نے سنہ 2015 میں ٹی وی چینیلز کے لیے ایک باقاعدہ ضابطہ کار جاری کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ نازیبا اور غیر اخلاقی مواد پر پابندی ہو گی۔ البتہ اس ضابطہ کار کی عمل داری پر پیمرا کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
/urdu/world-49499374
برطانوی پارلیمان کو پانچ ہفتے کے لیے معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف ارکان پارلیمان اور بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے مخالفین نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف ارکان پارلیمان اور بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج یا ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کے مخالفین نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں پانچ ہفتے کی معطلی کے باوجود بریگزٹ ڈیل ہر بحث کرنے کے لیے وقت مل جائے گا تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ارکانِ پارلیمان کو نو ڈیل بریگزٹ کو ناکام بنانے سے روکنے کی ’غیر جمہوری‘ کوشش ہے۔ بورس جانسن کی کابینہ کے رکن مائیکل گوو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کی معطلی کا فیصلہ یقینی طور پر ایک سیاسی اقدام نہیں ہے اور ایوان کے پاس یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی ڈیڈ لائن یعنی 31 اکتوبر سے قبل اس پر بات کرنے کے لیے کافی وقت ہو گا۔ امکان یہی ہے کہ دس ستمبر کو پارلیمان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا اور اسے 14 اکتوبر تک دوبارہ نہیں بلایا جا سکے گا اور اس وقت برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیڈ لائن میں صرف 17 دن باقی رہ جائیں گے۔ حکومت کے حامیوں کے خیال میں پارلیمان کو معطل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ملکۂ برطانیہ پارلیمان سے خطاب کر سکیں جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ حکومت کے مخالفین کا خیال ہے کہ اس وقت کا انتخاب یہ سوچ کر کیا گیا ہے تاکہ عوامی نمائندے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار نہ کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمان کو معطل رکھنے کے فیصلے کو جو بھی پہناؤا پہنا دیں لیکن یہ واضح ہے کہ اجلاس کو ملتوی کرنے کا مقصد عوام کے نمائندوں کو بریگزٹ پر بحث سے محروم رکھنا ہے اور انھیں ملک کے لیے راستے متعین کرنے کی ذمہ داری ادا نہ کرنے دینا مقصود ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’ہمیں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہمیں قوانین کے لیے نئے بل متعارف کروانے ہیں۔ ملکۂ برطانیہ 14 اکتوبر کو پارلیمان سے خطاب کریں گی اور ہمیں قانون سازی کے نئے پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔‘ لیکن وزیر اعظم کے کچھ حامی اس کو مانتے ہیں کہ پارلیمان کو معطل کرنے کے وقت کا برطانیہ کے یورپی یونین سے ممکنہ علیحدگی سے تعلق ہے۔ کنزرویٹو ایم پی پولین لیتھم نے کہا ’مجھے اطمینان ہے کہ بورس جانسن وہ کچھ کر رہے ہیں جو برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے کرنا ضروری ہے اور عوام اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے۔‘ جو لوگ بریگزٹ کے حامی ہیں ان کی نظر میں پارلیمان کو کچھ ہفتوں کے لیے معطل کر دینا یورپی یونین سے علیحدگی کی ایک چھوٹی سی قیمت ہے۔
/urdu/entertainment-61141499
ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ مرلے اوبرون جنکا تعلق انڈیا سے تھا، پوری زندگی اپی جائے پیدائش اور نسل کے بارے میں دنیا کو مغالطے میں رکھتی رہیں۔
کلاسک فلم ’ووتھرنگ ہائٹس‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے مشہور، اوبرون 1911 میں ممبئی میں ایک اینگلو انڈین خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن ہالی وڈ کے سنہری دور میں بطور ایک سٹار انھوں نے اپنے ماضی کو راز میں رکھا اور زندگی بھر خود کو سفید فام ظاہر کرتی رہیں۔ میوکھ سین جوں جوں ان کی فلمیں دیکھتے گئے مرلے اوبرون اور ان کے ماضی کے بارے میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور انھوں نے ان کے ماضی کو کریدنا شروع کر دیا۔ مرلے اوبرون سنہ 1911 میں بمبئی (جو اب ممبئی ہے) میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ سنہالہ اور ماؤری نسل سے تھیں جبکہ ان کے والد برطانوی تھے۔ ’تسمانیہ کو ان کی نئی جائے پیدائش کے طور پر منتخب کیا گیا تھا کیونکہ یہ امریکہ اور یورپ سے بہت دور تھا اور عام طور پر اسے ’برطانوی‘ ہی سمجھا جاتا تھا۔ ’دی ٹربل ودھ مارلے‘ کی ڈائریکٹر، ماری ڈیلوفسکی نے اپنی دستاویزی فلم کے نوٹس میں یہ بات لکھی ہے۔ سین کا کہنا ہے کہ انھیں مبینہ طور پر انڈیا میں پیدا ہونے والی ایک اور اداکارہ ویوین لی کے مقابلے میں منتخب کیا گیا تھا، کیونکہ فلم کی ٹیم کو لگا کہ وہ ایک بڑا نام ہے۔ سنہ 1937 میں ایک کار حادثے میں اوبرون کے زخمی ہونے اور ان کے چہرے پر نشان پڑنے کے بعد، سینماٹوگرافر لوسیئن بالارڈ نے ایک ایسی تکنیک تیار کی جس سے ان کے چہرے پر اس طرح روشنی پڑتی تھی کہ ان کے چہرے کے داغ ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ سنہ 1945 میں اوبرون نے کورڈا کو طلاق دی اور بالارڈ سے شادی کر لی۔ اوبرون کے بھتیجے مائیکل کورڈا، جنھوں نے سنہ 1979 میں چارمڈ لائیوز کے نام سے ایک خاندانی یادداشت شائع کی تھی، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اوبرون کے ماضی کی اصل تفصیلات کو چھپا دیا تھا کیونکہ اوبرون نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر خاندانی یادداشت میں ان کے اصلی نام اور جائے پیدائش کو ظاہر کیا گیا تو وہ ان کے خلاف مقدمہ کر دیں گی۔ سنہ 1965 میں جب اوبرون کو معلوم ہوا کہ مقامی صحافی ان کے ماضی کے بارے میں تجسس کا شکار ہیں تو انھوں نے اپنی عوامی تقریبات منسوخ کر دیں اور آسٹریلیا کا دورہ مختصر کر دیا۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ وہ سنہ 1978 میں تسمانیہ کے اپنے آخری دورے کے دوران پریشان تھیں کیونکہ ان کی شناخت کے بارے میں سوالات مسلسل گردش کر رہے تھے۔ سین کو امید ہے اس کتاب سے اس بات کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی کہ ایک جنوبی ایشیائی خاتون کے لیے ایک ایسی انڈسٹری میں جگہ بنانا کتنا مشکل تھا، ایک ایسی صنعت میں جہاں ان کے جیسے لوگوں کا خیر مقدم نہیں کیا جاتا تھا اور اوبرون کو کس قدر دباؤ کا سامنا تھا تاہم اتنے دباؤ اور جدو جہد کے دوران بھی انھوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
/urdu/world-56971590
اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں اور برطانیہ میں کچھ مساجد میں خواتین کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے جا رہی ہے۔ بعض خواتین اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ صورتحال تبدیل ہو۔
اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں اور برطانیہ میں کچھ مساجد میں خواتین کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے جا رہی ہے لیکن بعض خواتین اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ صورتحال تبدیل ہو۔ وہ کہتی ہیں 'میں ہفتے کے آخر میں نماز تراویح پڑھنے کی منتظر تھی، خاص طور پر جب ہمارے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'لیکن جب میں نے اپنی مقامی مسجد سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 'بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو اجازت نہیں ہے۔‘ الماس اس پابندی کا سامنا کرنے میں تنہا نہیں ہیں۔ برطانیہ میں متعدد مساجد نے خواتین کے لیے مسجد میں موجود نماز کی جگہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی پابندیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وبا کے دوران ایسی مساجد جن میں خواتین کے لیے مختص جگہ ہوتی تھی وہاں خواتین کو یا تو مردوں کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے نہیں آنے دیا جا رہا یہ اس وجہ سے کہ انتظامیہ محسوس کرتی ہے کہ وہ خواتین کے لیے کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں پر عمل پیرا ہونے کا اہتمام نہیں کرسکتے۔‘ بی بی سی نے الماس کی مسجد، ملٹن کینز اسلامک سینٹر سے رابطہ کیا، پہلے تو مسجد نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن بعد میں کہا کہ مرکز خواتین کے لیے نماز کے لیے کھلا ہے اور 2021 کے رمضان کے بارے میں ان کی پالیسی سے متعلق جو آن لائن معلومات ہیں کہ بوڑھے، 12 سال سے کم عمر کے بچے اور عورتوں نہیں آسکتے، وہ دراصل پالیسی کا ’آزمائشی دور‘ تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ 'ہماری مسجد میں کافی جگہ ہے، یہ اس مسجد میں مکمل طور پر قابل عمل ہے۔ تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ بات کووڈ سے آگے کی ہے۔ یہ ایک خاص ذہنیت کا مسئلہ ہے۔ ایک ایسی ذہنیت جو مردوں کو بتاتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا خواتین مسجد میں نماز پڑھنے جاسکتی ہیں‘۔ لیسٹر شہر کے ایک امام، شیخ ابراہیم موگرا کا کہنا ہے کہ 'مردوں اور عورتوں دونوں کو مساجد میں یکساں جگہ دینی چاہیے' لیکن انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ 'کچھ روایات کے مطابق خواتین کے مساجد میں اجتماع سے بہتر ہے کہ وہ گھر میں نماز ادا کریں، لہذا مسلمانوں میں اس بارے میں رائے منقسم ہے۔‘
/urdu/world-58980318
امریکی شہر فلاڈیلفیا میں ایک ٹرین میں خاتون کے مبینہ ریپ کے واقعے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کی مدد نہ کرنے پر ریل گاڑی پر سوار دیگر مسافروں کے خلاف قانونی کارروائی کا امکان نہیں ہے۔
امریکی شہر فلاڈیلفیا میں ایک ٹرین میں خاتون کے مبینہ ریپ کے واقعے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کی مدد نہ کرنے پر ریل گاڑی پر سوار دیگر مسافروں کے خلاف قانونی کارروائی کا امکان نہیں ہے۔ یہ واقعہ گذشتہ ہفتے پیش آیا تھا اور ٹرانسپورٹ کے مقامی محکمے کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹرین پر سوار دیگر لوگ یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے لیکن انھوں نے ’کچھ نہیں کیا۔‘ اس سے پہلے پولیس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ایسے مسافروں کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے جنھوں نے ممکنہ طور پر اس واقعے کی ویڈیو بنائی تھی۔ ریپ کا یہ مبینہ واقعہ بدھ کو ریاست پینسلوینیا کی مقامی ٹرین سروس ’سیپٹا‘ کی ایک ریل گاڑی میں پیش آیا تھا۔ ادارے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ٹرین پر موجود دیگر افراد اس خوفناک واقعے کے عینی شاہد تھے اور اگر ان میں سے کوئی 911 پر فون کر دیتا تو اسے روکا جا سکتا تھا۔‘ پولیس کو اس واقعے کی اطلاع ٹرین سروس کے ایک ملازم نے دی تھی جس کے بعد پولیس نے متاثرہ خاتون کو تلاش کیا اور ملزم کو حراست میں لیا تھا۔ ملزم کی شناخت 35 سالہ فشٹن نگوئی کے طور پر کی گئی ہے جسے اب ریپ کے علاوہ دیگر مجرمانہ اقدامات پر مقدمے کا سامنا ہے۔ پیر کو ایک پریس کانفرنس میں پولیس نے کہا ہے کہ ہراسانی اور ریپ کا یہ سارا واقعہ 40 منٹ تک جاری رہا لیکن کسی بھی فرد نے ٹرین سے پولیس سے اس بارے میں رابطہ نہیں کیا۔ یہ واضح نہیں کہ ٹرین کی جس بوگی میں یہ واقعہ پیش آیا اس میں کتنے مسافر سوار تھے۔ حکام اس بات کی بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا ان مسافروں میں سے کسی نے اس سارے واقعے کو عکس بند کیا تھا یا نہیں۔ سیپٹا پولیس کے سربراہ ٹامس جے نیسٹل کا کہنا ہے کہ’ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ جہاں خاتون پر حملہ ہو رہا تھا لوگوں کے فونز کا رخ اس جانب تھا۔‘ اپر ڈربی پولیس کے سپرٹنڈنٹ ٹموتھی برنہارٹ نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ جنھوں نے اس خاتون کی مدد نہیں کی لیکن ویڈیو بناتے رہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ٹموتھی برنہارٹ نے یہ تو نہیں بتایا کہ ایسے افراد کو کس قسم کے مجرمانہ الزامات کا سامنا ہو گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کے خلاف جنھوں نے یہ حملہ دیکھا اور مدد نہیں کی، قانونی کارروائی آسان نہیں ہو گی۔ بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں ڈیلاویئر کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور فی الوقت کسی مسافر کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
/urdu/pakistan-48835919
عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کے صاحبزداوں نے اپنے والد کو ریلیف دلوانے کے لیے دو ممالک کے حکام سے سفارش کے لیے کہا جبکہ مسلم لیگ ن نے اس الزام کو رد کر دیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں نے پاکستان کے دو دوست ممالک کے حکام سے رابطہ کر کے اپنے والد کو ریلیف دلوانے کی سفارش کرنے کی درخواست کی ہے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پر ان ممالک کی جانب سے عمران خان سے رابطہ کیا گیا اور انھیں اس بارے میں بتایا گیا۔ ’انھوں نے کہا کہ سفارش آئی ہے لیکن ہمیں آپ کا پتا ہے۔ آپ کے اندرونی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں کریں گے۔‘ ادھر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے وزیراعظم کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ممالک کا نام ظاہر کریں جن سے مدد لینے کی کوشش کرنے کا الزام حسن اور حسین نواز پر لگایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ 'این آر او کے لیے کسی کی سفارش نہیں چلے گی۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو دیے گئے این آر او نے ملک کو تباہ کر دیا اور بعد ازاں دونوں نے ایک دوسرے کو این آر او دیا۔' وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ریلیف دینے کے لیے کسی قسم کے دباؤ سے متعلق کہا کہ ’ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ پاک فوج، حکومت کے ایجنڈے اور منشور کے ساتھ کھڑی ہے، کوئی ملک سے فرار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی سفارش کام آئے گی۔‘ وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رکن اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی سفارش کبھی بھی کسی کے ذریعے سے کسی کو نہیں کی گئی۔ ہمارے مقدمات عدالتوں میں ہیں اور ہم ان کا سامنا بھی وہیں کر رہے ہیں۔‘ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے متعدد بار مسلم لیگ ن کی قیادت پر این آر او مانگنے کے الزامات پر بات کرتے ہوئے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ وہ جس تکرار سے یہ بات کہتے ہیں تو پھر انھیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے پاکستان میں کوئی عدالتی نظام موجود نہیں ہے اور جتنی انتقامی کارروائیاں نواز شریف کے ساتھ کی جا رہی ہیں اس کی ذمہ داری وہ خود قبول کر لیں۔ پلی بارگین کی آپشن کے سوال کے جواب میں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ابھی تک نیب نے نواز شریف پر پاکستان سے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کسی بدعنوانی کا نہ تو مقدمہ درج کیا ہے نہ ہی الزام لگایا ہے۔
/urdu/world-57529955
فرانس میں کتوں کا استعمال جرائم کے شکار لوگوں کی تناؤ کے وقت میں جذباتی مدد کے لیے کیا جا رہا ہے
دو سال قبل لول یورپ میں ایسے جرائم کے شکار لوگوں کو سرکاری جوڈیشل سپورٹ دینے والا پہلا کتا بن گیا تھا جو تشدد یا جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنے ہوں۔ لول نامی یہ کتا اس احاطہ عدالت کو کسی بھی عادی مجرم سے بہتر جانتا ہے۔ وہ تناؤ، جذباتی اور شور شرابے والے حالات میں پُرسکون رہ سکتا ہے، جیسا کہ وکیلوں کے درمیان جرح کے ماحول میں۔ مثال کے طور پر جب ریپ کی شکار خاتون اور اس کے حملہ آور کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ماحول کیا ہوتا ہو گا۔ فریڈرک الیمنڈروز کا کہنا ہے کہ ’کیس کا جائزہ لینے کے بعد میں کتے کی مدد لینے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ اگر مجھے لگتا ہے کہ اس کی پُرسکون موجودگی متاثرین کو اپنے ساتھ ہونے والے جرم کے بارے میں کُھل کر بات کرنے میں مدد کرے گی یا اس وقت بھی جب انھیں عدالت میں گواہی دینی پڑے۔ عدالت میں اُن کے ساتھ کتے کی موجودگی اکثر متاثرہ افراد کو مقدمے کی سماعت کے وقت تناؤ سے نمٹنے یا پُرسکون رہنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔‘ الیکسیا میستے ’فرانس وِکٹم‘ نام کے ایک قومی خیراتی ادارے کی مقامی شاخ چلاتی ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی بشمول سماجی کارکن اور جیورِسٹ سال بھر میں 600 کے قریب افراد کی مدد کرتے ہیں جن میں سے بہت سے گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لول‘ کو متاثرین کے ساتھ لگ کر بیٹھنے کی تربیت دی گئی ہے، یہ جسمانی رابطہ ان کو درپیش قانونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ابتدا میں ایک فیملی وکیل اور مقامی بار ایسوسی ایشن کے سربراہ مصطفٰی یسفی کو اپنے ساتھیوں کو اس منصوبے میں شامل ہونے کے لیے راضی کرنا پڑا۔ لیکن اب وکلا اس وقت لول کی مدد مانگتے ہیں جب یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے معاملے کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہیوگٹ ٹیگنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو اس سے ایسے کتوں کے لیے وزارت انصاف کی طرف سے ریاستی مالی اعانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک اہم اقدام ہے کیونکہ لول کی تربیت پر 17 ہزار سے بیس ہزار ڈالر تک کی لاگت آئی ہے۔‘ لول جنوب مغربی فرانس میں بھی مشہور ہو رہا ہے جسے جرائم کے شکار لوگوں کی مدد پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کے لیے یورپ کی پارلیمان لے جایا گیا۔ لوت کے چیف پراسیکیوٹر فریڈرک ایلیمنڈروز کا کہنا ہے کہ اگلا تجربہ اس ماہ کے آخر میں شروع ہو گا جس میں یہ دیکھا جا سکے گا کہ لول پُرتشدد جرائم پیشہ افراد کی اصلاح میں مدد کر سکتا ہے یا نہیں۔
/urdu/pakistan-52604625
پاکستان نے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کیس میں انڈیا کے قانونی وکیل ہریش سالوے کی طرف سے دیے گئے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انھیں حقائق کے بالکل منافی قرار دیا ہے۔
پاکستان نے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کیس میں انڈین وکیل کی طرف سے دیے گئے بیانات کو مسترد کردیا ہے۔ اتوار کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے کلبھوشن جادھو مقدمہ میں انڈیا کے وکیل ہریش سالوے کے ایک آن لائن لیکچر میں دیے گئے ان بیانات کو مسترد کیا جن میں انھوں نے یہ تجویز دی تھی کہ شاید انڈیا کو عالمی عدالت انصاف میں واپس جانا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’سالوے نے کچھ ایسے بیانات دیے ہیں جو کیس کے حقائق سے بالکل منافی ہیں۔‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم انڈین وکیل کے اس بے بنیاد اور غلط دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ پاکستان نے اس معاملے میں عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔‘ کلبھوشن جادھاو مقدمے سے متعلق انڈیا کے وکیل ہریش سالوے نے رواں ماہ کی تین تاریخ کو ایک لیکچر میں کہا تھا کہ انڈیا عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے اور انڈین بحریہ کے ریٹائرڈ اہلکار تک رسائی دینے میں نا کام رہا ہے۔ ہریش سالوے، جو کلبھوشن جادھو مقدمے سے متعلق تفصیلات ایک آن لائن لیکچر میں شیئر کر رہے تھے، کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ انڈیا کاسات یا آٹھ مرتبہ رابطہ ہوا ہے۔ ہریش سالوے، جو کلبھوشن جادھو مقدمے سے متعلق تفصیلات ایک آن لائن لیکچر میں شیئر کر رہے تھے، کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ انڈیا کاسات یا آٹھ مرتبہ رابطہ ہوا ہے یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ برس 17 جولائی کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور انھیں قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان کی جانب سے انڈیا کو کلبھوشن جادھو تک رسائی کی باضابطہ پیشکش کی گئی تھی جس کے بعد انڈین سفارتکار نے کلبھوشن جادھو سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔’ پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن جادھو کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف انڈیا نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ عالمی عدالت نے انڈیا کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر تک رسائی دے اور ان کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کرے۔ کلبھوشن جادھو کے بارے میں پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں جنھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔
/urdu/pakistan-50205801
حالیہ سیاسی تناؤ میں مولانا فضل الرحمان اہمیت حاصل کر چکے ہیں اور کراچی سے ان کے آزادی مارچ کا آغاز بھی بھرپور انداز میں ہوا اور سکھر سے ان کے قافلے میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے ہیں۔
سکھر میں روہڑی کے مقام پر نیشنل ہائی وے پر کھڑے کنٹینر سے مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان لوگوں سے سیاسی جنگ لڑنی ہے اور سیاسی جنگ کا طبل بج چکا ہے کیونکہ وہ میدان میں نکل آئے ہیں، میدان میں نکلنے کے بعد ایک قدم بھی پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہوتا ہے اور ہم اب ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔‘ حالیہ سیاسی تناؤ میں مولانا فضل الرحمان اہمیت حاصل کر چکے ہیں اور کراچی سے ان کے آزادی مارچ کا آغاز بھی بھرپور انداز میں ہوا اور سکھر سے ان کے قافلے میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس پلان بی اور پلان سی موجود ہیں اور اگر انھیں پلان اے میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے بعد دیگر پلانز پر عمل درآمد ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ اداروں کے قطعاً خلاف نہیں ہیں لیکن بہرحال ان کا پیغام ان لوگوں تک ضرور پہنچ جاتا ہے جن کی حمایت سے آج حالات اس ڈگر تک پہنچ چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان گذشتہ روز کراچی سے لاڑکانہ پہنچے تھے جہاں انھوں نے رات قیام کیا اور پھر سوموار کو دوپہر کے وقت وہ سکھر پہنچے تھے۔ آن کی آمد سے پہلے انصار الاسلام کے رضا کاروں کو ان کے قائدین نے ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں مکمل آگاہ کیا۔ مولانا نے اپنی تقریر میں سینیئر صحافیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب بیشتر ایسے صحافی ہیں جن پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور ان کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے سینیئر صحافیوں سے کہا کہ ان کے لیے آزادی مارچ کا پلیٹ فارم حاضر ہے اور ان صحافیوں کو چاہیے کے دیگر طبقہ فکر کے افراد کی طرح سینیئر صحافی بھی ان کی صفوں میں شامل ہو جائیں تاکہ موجودہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ آزادی مارچ کے پوسٹرز پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نواز شریف، آصف علی زرداری، حاصل بزنجو اور اسفندیار ولی خان کی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ 27 اکتوبر کی رات سکھر میں آزادی مارچ کے قافلے کے شرکا کے لئے پنڈال میں قیام کا بندوبست کیا گیا جبکہ بلوچستان میں ان کے پاس کھانا بنانے کا سامان بھی دیکھا گیا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ موقع پر اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کریں گے۔ پنجاب میں آزادی مارچ کے سلسلے میں مسلم لیگ نواز کے کارکن بھی متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے کچھ مقامات پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کی تصویریں پکڑی ہوئی ہیں اور ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
/urdu/sport-52115525
انگلینڈ کے سابق بیٹس مین کیون پیٹرسن اور پاکستان کے احمد شہزاد کے انسٹاگرام لائیو سے سوشل میڈیا صارفین کچھ زیادہ محظوظ ہوتے نظر نہیں آئے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران خود ساختہ تنہائی اختیار کیے لوگوں کو انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے کے لیے دنیا بھر کے فنکار اور کھلاڑی انسٹاگرام لائیو کر رہے ہیں لیکن انگلینڈ کے سابق بیٹس مین کیون پیٹرسن اور پاکستان کے احمد شہزاد کے انسٹاگرام لائیو سے سوشل میڈیا صارفین کچھ زیادہ محظوظ ہوتے نظر نہیں آئے کیونکہ بہت سے صارفین کے خیال میں پیٹرسن کا رویہ پاکستانی کرکٹ کھلاڑی کے ساتھ تضحیک آمیز تھا۔ کیون پیٹرسن نے گذشتہ روز احمد شہزاد کے ساتھ انسٹاگرام لائیو کیا جس میں انھوں نے ان سے ان کی مسلسل خراب کارکردگی کے بارے میں پوچھا۔ اس کے علاوہ پیٹرسن احمد شہزاد کے بالوں ہر تبصرہ کرتے بھی نظر آئے اور برطانوی بیٹس مین نے احمد شہزاد سے کہا کہ انھیں اپنے بال کٹوا لینے چاہیے جس کے جواب میں احمد شہزاد کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث وہ نائی کی دکان پر نہیں جا سکتے اور خود انھیں بال کاٹنے نہیں آتے۔ پیٹرسن کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جو شخص اپنی بھویں بناتا ہو اور منھ پر کریم لگاتا ہو اسے بال کاٹنے نہیں آتے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس لائیو سیشن کی ویڈیوز ٹوئٹر پر اپنے تبصرے کے ساتھ شئیر کیں ۔کچھ کے خیال میں پیٹرسن کا روایہ توہین آمیز تھا تو کچھ نے برطانوی کرکٹر کا یہ کہہ کر دفاع کیا وہ دونوں دوست ہیں اور پیٹرسن صرف مذاق کر رہے تھے۔ ’میں دیکھنا چاہوں گی کہ برصغیر یا افریقہ کے کسی ملک کا کھلاڑی پیٹرسن کی اس طرح بے عزتی کرے اور اسے کچھ نہ کہا جائے۔‘ جبکہ لاویزا نے بھی ندا سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم احمد شہزاد کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرتے ہوں لیکن پیٹرسن کے اس رویے کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ جبکہ کچھ صارفین کے خیال میں احمد شہزاد اس کے مستحق تھے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ احمد شہزاد کا اپنا رویہ بھی دوسروں کی ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ گذشتہ پی ایس ایل میں انھوں نے جونئیر کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے تک سے انکار کر دیا تھا۔ حسن کا کہنا تھا کہ تمام کرکٹ کے موسمیاتی فینز جو پیٹرسن کے رویہ پر تنقید کر رہے ہیں انھیں احمد شہزاد کے فیلڈ اور اس سے باہر کرئیر پر معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ ’یہ کسی اور کے ساتھ ہوا ہوتا تو یہ تضحیک آمیز ضرور ہوتا لیکن احمد شہزاد کے ساتھ نہیں۔‘ جبکہ کچھ صارفین نے دونوں ہی کرکٹرز کو ایک جیسی شخصیت کا مالک ٹھرایا ۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’پیٹرسن گوروں کے احمد شہزاد ہیں اور اس کو بھی انھیں حرکتوں کی وجہ سے ٹیم سے نکالا گیا تھا۔‘
/urdu/world-55904943
فٹنس انسٹرکٹر خنگ ہنن وئے کو بالکل نہیں پتہ چلا کہ ان کی ویڈیو میں فوجی بغاوت بھی فلمبند ہو رہی ہے۔
خنگ ہنن وئے میانمار کے پارلیمان کمپلیکس کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں فٹنس انسٹرکٹر خنگ ہنن وئے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ جسے وہ اپنی روز مرہ کی ورزش کی ویڈیو سمجھ رہی ہیں حقیقت میں وہ ایک یادگار ویڈیو بن جائے گی، جس میں تاریخی لمحات فلمبند ہوں گے۔ اگر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ویڈیو میں معمول کا ڈانس ورک آؤٹ کرتی ہوئی ایک خاتون دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ذرا غور کرنے پر ان کے پیچھے بکتر بند گاڑیوں کا ایک قافلہ جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خنگ نے، جو کہ ایروبک کی ایک ٹیچر ہیں، اپنی ورزش کی یہ ویڈیو فیس بک پر پیر کی صبح پوسٹ کی تھی۔ ٹھیک اسی لمحے جب ویڈیو کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی میانمار میں فوجی بغاوت شروع ہو رہی تھی اور ملک کی رہنما آنگ سان سوچی اور دوسرے سیاستدانوں کو حراست میں لینے کے لیے فوج بیرکوں سے نکل چکی تھی۔ تاہم خنگ اسی دوران ایک زبردست ڈانس ٹریک پر ورزش کرتے ہوئے اپنے کولہے مٹکاتی رہیں، ان کی قسمت اچھی تھی کہ ان کو بغاوت کا علم نہیں ہوا اور ان کا دھیان بکتر بند گاڑیوں کے قافلے پر نہیں بلکہ اپنے ڈانس پر رہا۔ انھوں نے یہ ویڈیو میانمار کے دارالحکومت نے پائی تا میں پالیمان کمپلیکس کو جانے والی سڑک کے قریب ایک گول چکر پر بنائی تھی۔ اس کے بعد یہ پوسٹ جلد ہی وائرل ہو گئی اور فیس بک پر اسے ہزاروں مرتبہ دیکھا اور شیئر کیا گیا۔ بہت سوں نے خنگ کی ’دیوانگی‘ اور زندگی سے بھرپور اداؤں اور فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے درمیان عجیب سے تضاد محسوس کیا۔ انھوں نے اپنی کی جانے والی اصل پوسٹ میں کہا کہ ’پیچھے کا منظر اور موسیقی ایک طرح سے مماثلت رکھتی ہے۔ میں صبح کی خبریں آنے سے پہلے ایک مقابلے کے لیے کلپ فلمبند کر رہی تھی۔ کیا یہ یاد رہے گا۔‘ خنگ کا کہنا ہے کہ انھیں فوجی بغاوت کے متعلق بالکل علم نہیں تھا جی یہ ویڈیو بالکل اصلی ہے۔ شروع شروع میں کچھ شک تھا، کیونکہ حالات ہی ایسے غیر معمولی ہیں جن میں یہ ویڈیو فلمبند کی گئی۔ بی بی سی نے بھی خنگ ہنن سے رابطہ کیا ہے جنھوں نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ایک اور فیس بک پوسٹ میں فٹنس انسٹرکٹر نے کہا ہے کہ یہ گول چکر گذشتہ 11 مہینوں سے ڈانس کرنے کے لیے ان کی پسندیدہ ترین جگہ ہے۔ انھوں نے کہا: ’بیوقوفو میں کسی تنظیم کا مذاق اڑانے یا تضحیک کرنے کے لیے ڈانس نہیں کر رہی تھی۔ میں ایک فٹنس ڈانس مقابلے کے لیے ڈانس کر رہی تھی۔ کیونکہ نئے پائی تا میں سرکاری قافلے کا اس طرح جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، سو میں نے سوچا کہ یہ سب نارمل ہے اور میں نے (ڈانس) جاری رکھا۔‘
/urdu/sport-51807660
بین ڈنک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اعصاب کو نارمل رکھنے کے لیے چیونگم چباتے رہتے ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو ان کی یہ عادت بالکل پسند نہیں ہے۔
بین ڈنک نے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں اپنے بہترین انفرادی سکور کے ریکارڈ کو بھی برابر کیا اور ساتھ ہی پی ایس ایل میں ایک اننگز میں سب سے زیادہ چھکوں کا نیا ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔ بظاہر بین ڈنک شائقین میں اپنے طاقتور چھکوں سے زیادہ چیونگم چبانے کی عادت کی وجہ سے مشہور ہو گئے ہیں۔ اپنی بیٹنگ کے دوران وہ نہ صرف چیونگم چباتے رہتے ہیں بلکہ اکثر وہ اسے پُھلاتے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی اس عادت پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے بھی ہوئے ہیں۔ خود بین ڈنک کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ اپنے اعصاب کو نارمل رکھنے کے لیے چیونگم چباتے رہتے ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو ان کی یہ عادت بالکل پسند نہیں ہے۔ سوشل میڈیا صارفین بھی بین ڈنک کی چیونگم چبانے کی عادت پر دلچسپ تبصرے کرتے رہے ہیں۔ پی ایس ایل میمز کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کی ایک تصویر شیئر کی اور اس پر ازراہ مذاق یہ عنوان تحریر کیا ’بھیا اپنا دور ہوتا تو بین ڈنک کے نام کا ایک فلائی اوور بنوا دیتے۔‘ 33 سالہ بین ڈنک کا پاکستان سپر لیگ میں یہ دوسرا سال ہے۔ گذشتہ سال انھوں نے کراچی کنگز کی نمائندگی کی تھی لیکن سات میچوں میں وہ مجموعی طور پر صرف 124 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے تھے جس میں 49 رنز ناٹ آؤٹ سب سے بڑا سکور تھا جو انھوں نے اسلام آباد یونائٹڈ کے خلاف بنایا تھا۔ بین ڈنک نے اپنی کرکٹ کوئنز لینڈ کی طرف سے وکٹ کیپر کی حیثیت سے شروع کی تھی۔ ان کی فیملی کا شمالی کوئنز لینڈ میں کیلوں کا فارم تھا۔ تسمانیہ منتقلی کے بعد وہ ایک مستند بیٹسمین کا روپ دھار چکے تھے۔ بین ڈنک کو لنکاشائر لیگ کھیلنے کی وجہ سے اپنے کھیل میں بہتری لانے کا موقع ملا۔ سنہ 2013 کی بگ بیش لیگ میں انھوں نے تسمانیہ ہریکینس کی طرف سے کھیلتے ہوئے 395 رنز بنا ڈالے اور وہ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ اس کارکردگی نے ان پر آئی پی ایل اور کیریبئن لیگ کے دروازے بھی کھول دیے۔ بین ڈنک نے اگلے سال آسٹریلوی ون ڈے ٹورنامنٹ میں ڈبل سنچری بنا ڈالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آسٹریلوی ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹ میں کسی بیٹسمین نے ڈبل سنچری سکور کی۔ انھیں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے آسٹریلوی ٹیم میں شامل کر لیا گیا لیکن سیریز کے تینوں میچوں میں وہ قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ بین الاقوامی کرکٹ میں بین ڈنک کی واپسی سنہ 2017 میں ہوئی لیکن سری لنکا کے خلاف دو ٹی ٹوئنٹی میچوں میں بھی ان کی کارکردگی اچھی نہ رہی۔ بین ڈنک پر محدود اوورز کے بیٹسمین کی چھاپ لگی رہی ہے حالانکہ انھوں نے سنہ 2015 کی شیفیلڈ شیلڈ میں چار سنچریوں کی مدد سے 837 رنز بنائے۔
/urdu/pakistan-59558902
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آج کا پاکستان یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے توہینِ مذہب کے الزام میں قتل جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دینا ہے جبکہ تمام مکاتب فکر کے علما نے اس واقعے کے خلاف 10 دسمبر کو یوم مذمت منانے کا اعلان کیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سری لنکن شہری کے قتل کا واقعہ پوری قوم کے لیے باعثِ شرم ہے اور اس سے پاکستان کی شبیہ متاثر ہوئی ہے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا اور آج کا پاکستان یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ سری لنکن شہری کے توہینِ مذہب کے الزام میں قتل جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دینا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرمی پبلک سکول میں طالبان شدت پسندوں کے ہاتھوں بچوں کا قتل ایسا خوفناک واقعہ تھا جس کے بعد پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ جیتی اور اب یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے جس کے بعد پاکستانیوں نے متحد ہو کر فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ 'آج سارا پاکستان یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ اس طرح کا واقعہ ملک میں نہیں ہونے دینا۔' اس سے قبل پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما نے 10 دسمبر کو سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کے پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل کے خلاف یوم مذمت کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ سری لنکا کے ہائی کمشنر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ضرورت کے وقت ہر بار ان کے ملک کی مدد کی ہے اور جواب میں سری لنکا نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اس اندوہناک واقعے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مفتی تقی عثمانی نے علما کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ میں جس طرح جنون کا مظاہرہ کیا گیا ہے، پاکستان میں کوئی ایسا طبقہ نہیں جو اس قتل کی مذمت نہ کرتا ہو۔ انھوں نے کہا اس واقعے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا برادر ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں۔ انھوں نے کہا ’ہم اس واقعے پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اس واقعے میں ملوث مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’حکومت پاکستان مجرموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گی‘ اور اعلان کیا کہ آنے والے جمعے کو یوم مذمت کے طور پر منایا جائے گا، جس میں علما اقلیتیوں کے حقوق پر روشنی ڈالیں گے اور اس موضوع پر پر مسجد اور امام بارگاہ میں تقریر ہو گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے کہا کہ ’ایک معصوم انسان کو قتل کیا گیا ہے اور بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک غیرشرعی حرکت کی گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ واقعہ پیغام پاکستان کی قومی دستاویز سے بھی سراسر انحراف ہے۔ ان کے مطابق اس پیغام پاکستان کی دستاویز کو تمام مکاتب فکر اور مدارس بورڈ کی تائید حاصل ہے۔‘
/urdu/pakistan-54885996
اگر ڈالر کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اب اکتوبر 2019 تک کی سطح تک گر چکی ہے جبکہ اکتوبر 2020 میں اس کی قیمت 168 روپے سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔
اگر ڈالر کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اب اکتوبر 2019 تک کی سطح تک گر چکی ہے جبکہ اکتوبر 2020 میں اس کی قیمت 168 روپے سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت حالیہ دنوں میں 154 تک بھی گر گئی لیکن اس کی خریداری کی وجہ سے یہ ایک بار پھر 155 تک چلی گئی ہے۔ ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اکتوبر 2019 کی سطح پر گر چکی ہے جو 154 اور 155 کے درمیان تھی جبکہ اکتوبر 2020 میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی جب یہ 168 روپے سے تجاوز کر گئی تھی۔ روپے کی قدر میں اکتوبر سے لے کر اب تک ہونے والے اضافے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں اضافہ کرنے والی کرنسی بن چکا ہے موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 18 ڈالر سے زائد ہے اور مالی سال کے اختتام تک ان کا 28 ارب ڈالر سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر گرنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک مقامی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں معاشی سست روی کی وجہ سے ڈالر کی طلب بھی کم ہے۔ پاکستان کی معیشت درآمدات پر بڑی حد تک انحصار کرتی ہے جس میں خام مال سے لے کر مشینری اور آلات شامل ہیں۔ جب ملک کی معاشی شرح نمو منفی ہو جائے یا پھر بہت کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ صنعت و حُرفت نہیں چل رہی۔ ڈاکٹر اشفاق نے ڈالر کی قیمت میں کمی کی دوسری وجہ عالمی سطح پر ڈالر کی طلب میں بھی کمی کو قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر بھی ڈالر دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں نچلی سطح پر ہے جس کی ایک بڑی وجہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے 1.9 ٹریلین ڈالر کا کورونا وائرس سے متعلق پیکج ہے۔ اُن کے مطابق اس پیکج کے لیے ڈالر زیادہ پرنٹ کرنا پڑے گا جو اس کی منی سپلائی کو بڑھا رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت نیچے آئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اب سرمایہ کار اس لیے ڈالر کے بجائے یورو اور گولڈ میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے ڈالر کی قیمت نیچے آنے کی وجہ سے ملک کے برآمدی شعبے کو نقصان کا تاثر مسترد کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ برآمدی شعبے کے لیے ڈالر کی معقول قیمت 145 سے 154 روپے کے درمیان ہے اور اس سطح پر برآمدی شعبہ بہتر طریقے سے اپنا کاروبار جاری رکھ سکتا ہے۔
/urdu/world-52716859
ماؤ یِن کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ صرف دو برس کے تھے۔ ان کے والد انھیں نرسری سے لے کر گھر واپس آرہے تھے اور ایک مقام پر پانی پینے کے لیے رکے تھے، جب ان کا بیٹا ان سے چھینا گیا تھا۔
ایک چینی جوڑے کو اپنا وہ بیٹا مل گیا جو بتیس برس پہلے سنہ 1988 میں ایک ہوٹل سے اغوا کرلیا گیا تھا۔ ماؤ یِن کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ صرف دو برس کے تھے۔ ان کے والد انھیں نرسری سے لے کر گھر واپس آرہے تھے اور ایک مقام پر پانی پینے کے لیے رکے تھے، جب ان کا بیٹا ان سے چھینا گیا تھا۔ باپ نے اپنے بیٹے کو ملک کے کونے کونے میں تلاش کیا اور ماں نے اس کے لیے کم از کم ایک لاکھ گمشدگی کے اشتہارات تقسیم کیے تاکہ کہیں سے ان کا کوئی پتہ مل جائے۔ پولیس کی ایک پریس کانفرنس کے بعد ماؤ یِن کی اپنے والدین سے بتیس برس کے بعد ملاقات ہو گئی۔ اب وہ چونتیس برس کے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنا چاہیں گے۔ وہ 23 فروری 1986 کو پیدا ہوئے تھے۔ چین کے ایک اخبار ’ساؤتھ چائنا مورننگ پوسٹ‘ کو ماؤ یِن کے ملنے سے پہلے دیے گئے ایک انٹرویو میں اُن کی ماں نے کہا تھا کہ ان کا بچہ ’بہت ذہین، پیارا اور صحت مند تھا۔‘ ماؤ کے والد ژن جِنگ انھیں 17 اکتوبر 1988 کو نرسری سے لے کر اپنے گھر آ رہے تھے۔ یہ خاندان چین کے صوبے شینگ زی کے ایک شہر میں رہتا تھا۔ ماؤ یِن کو راستے میں پیاس لگی اور اس نے پانی مانگا۔ ماؤ یِن کے والد پانی لینے کیلیے راستے میں ایک ہوٹل کے دروازے کے پاس رک گئے۔ جب ژن جِنگ گرم پانی کو ٹھنڈا کرنے میں مصروف تھے تو عین اسی دوران ان کے بیٹے کو کسی نے اٹھا لیا۔ ژن اور لی نے اپنے بیٹے کو پورے شہر میں تلاش کیا، گمشدگی کے پوسٹر لگائے اور ہر جگہ اشتہارات بانٹے۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا جب انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کا بیٹا انھیں مل گیا ہے لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹی خبر تھی۔ پولیس نے اس گود لیے گئے بچے کو ڈھونڈ لیا جو اب 34 برس کا جوان شخص بن چکا تھا۔ اس شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا کہ کہیں اس کا لی جِنگ ژی اور ژین جِنگ سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا ہے اور اس ٹیسٹ کا مثبت رزلٹ آیا۔ پولیس نے بتایا کے ماؤ کو اس کے اغوا کاروں نے ایک بے اولاد جوڑے کو چھ ہزار یوآن میں فروخت کردیا تھا۔ یہ رقم آج کے وقت کے لحاظ سے 840 ڈالر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2016 میں اسی وزارت نے ایسے بچوں کو والدین سے ملانے کے لیے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کا نام ’ری یونین‘ رکھا گیا۔ اس پروگرام کے تحت سنہ 2019 تک چار ہزار سے زیادہ بچوں کو ان کے والدین سے ملایا جا چکا ہے۔
/urdu/regional-51134207
قومی احتساب بیورو کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض کے خلاف قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ضمنی ریفرنس دائر کر دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ملک کی سب سے بڑے نجی رہائشی ادارے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض کے خلاف قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایک ضمنی ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کراچی میں ایک رفاہی مقاصد کے لیے مختص پلاٹ پر بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف ریفرنس الگ سے دائر نہیں کیا گیا بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے مالک عبدالغنی سمیت دیگر افراد کے خلاف جو جعلی بینک اکاونٹس کے ریفرنس دائر کیے گئے تھے، یہ اسی کا ہی حصہ ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے بانی کے خلاف ضمنی ریفرنس تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے آرڈیننس کے سیکشن 24 کے تحت چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انکوائری، مقدمے کی تفتیش یا ریفرنس دائر کرنے کے کسی بھی مرحلے پر ملزم کو گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ نیب کی طرف سے دائر کردہ یہ ریفرنس احتساب عدالت کے رجٹسرار آفس میں موجود ہے اور سکروٹنی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسے احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر کے پاس بھجوایا جائے گا جہاں پر جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق ریفرنس زیر سماعت ہے۔ ان کے مطابق اس ریفرنس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ باغ ابنِ قاسم سے متصل جس زمین پر بحریہ آئیکون ٹاور تعمیر کیا ہے، اسے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس معاملے کی تفتیش کرنے والے نیب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ ٹاور گلیکسی انٹرنیشنل نامی کمپنی اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں جس زمین پر تعمیر کیا گیا اس میں ایسی سرکاری زمین بھی شامل ہے جو کہ گلیکسی انٹرنیشنل کو غیرقانونی طریقے سے الاٹ کی گئی۔ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون کراچی کے مقدمے میں بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دے رکھا ہے یوسف بلوچ کے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات کی تھیں جس میں ان کے موکل کو ان الزامات سے بری کردیا گیا تھا تاہم نیب کی طرف سے جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں اُنھیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔
/urdu/pakistan-48650471
احتساب کا نعرہ لگانے والوں کے سامنے ایک کے بعد ایک ٹیسٹ کیس آ رہا ہے مگر وزیرِاعظم ملک کے مالی معاملات درست کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ تعلیم و تربیت ان کی ترجیحات سے نکل چکی ہے۔
بجٹ تقریر کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستانی عوام سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں اس لیے ان سے خوب ٹیکس لیا جائے گا۔ باقی باتیں وہی تھیں جو ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں۔ بس اب کی بار اتنا ہوا کہ ملک کے سربراہ کا لہجہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ غیر مہذب بلکہ چڑچڑا تھا۔ تقریر کے بعض حصوں پر بہت سے مکاتبِ فکر کو باقاعدہ رنج پہنچا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں کی گئی کٹوتی قابلِ تشویش ہے۔ جو حکومتیں ٹیکس لیتی ہیں وہ اسی ٹیکس سے عوام کو سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان سہولیات میں تعلیم اور صحت دورِ حاضر کی دو اہم ضروریات ہیں۔ بجٹ تقریر کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ وزیر اعظم کی ایک بین الاقوامی فورم پر سفارتی آداب سے ناواقفیت پر لے دے شروع ہو گئی۔ چونکہ اردو کا محاورہ باقی زبانوں سے فرق ہے اس لیے ہم دنیا کو کیسے بتائیں کہ جو باپ کو باپ نہیں کہتا، وہ پڑوسی کو چچا کیسے کہے گا؟ خیر یہ بات تو ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو بھی نہیں بتا سکتے۔ سوشل میڈیا پر گالیاں بکتے ایک ایسے ہی نوجوان کو بدزبانی کی وجوہات پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ یہ خطرے کے نشان سے آگے بولتے، بکتے، جھکتے لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ تہذیب، روایات اور ادب آداب ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے اور گلی کوچوں سے ہوتی درس گاہوں تک جاتی ہے۔ ابے تبے، اوئے توئے سے شروع ہونے والا سیاسی بدزبانی کا کلچر تھپڑ تک آ پہنچا ہے۔ احتساب کا نعرہ لگانے والوں کے سامنے ایک کے بعد ایک ٹیسٹ کیس آ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وزیرِاعظم ملک کے مالی معاملات درست کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ تعلیم و تربیت ان کی ترجیحات سے نکل چکی ہے۔ تعلیم کا بجٹ ویسے ہی کم کر دیا گیا ہے اور تربیت تو جو کی جارہی ہے سامنے ہی ہے۔ سنا ہے ملک مالی طور پر دیوالیہ ہو رہا ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں اور انھوں نے یہ کارِ خیر کیسے سر انجام دیا اس کے لیے محترم وزیرِاعظم صاحب ایک کمیشن بھی بنائیں گے۔ بالکل درست فرمایا لیکن میرے عزیز ہم وطنو! ہم اخلاقی طور پر مکمل دیوالیہ ہو چکے ہیں اور اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ فواد چوھدری صاحب کا یہ طمانچہ سمیع ابراہیم کے منہ پر نہیں ہماری گلتی سڑتی اخلاقی اقدار کے منہ پر اور ان سب کے منہ پہ پڑا ہے جو آ ج بھی بدتہذیبی کے دفاع میں مزید بدتہذیبی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
/urdu/regional-58238719
افغان طالبان کے قبضے کے اگلے دن دارالحکومت کابل میں تو خاموشی کا راج رہا لیکن اس کے ایئرپورٹ پر کچھ اور ہی مناظر تھے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار کی خبر سامنے آتے ہی افغان طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے۔ پیر وہ پہلا دن تھا جب کابل پر دو دہائی کے بعد ایک بار پھر طالبان کا کنٹرول تھا۔ بی بی سی کے ملک مدثر کے مطابق شہر میں زندگی فی الحال معمول کے مطابق رواں دواں دکھائی دے رہی ہے۔ بس سڑکوں پر ٹریفک کم ہے اور دکانیں بھی بند ہیں لیکن لوگ پرسکون ہیں۔ شہر کے برعکس کابل کے ہوائی اڈے پر پیر کو اور ہی مناظر دیکھنے کو ملے۔ نامہ نگاروں کے مطابق وہاں افراتفری تھی، بےچینی اور خوف بھی۔ کابل ایئرپورٹ پر اس وقت 2500 امریکی فوجی تعینات ہیں جبکہ مزید پانچ سو جلد پہنچنے والے ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی کے مطابق امریکی فوج تاحال سکیورٹی کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے کابل ایئرپورٹ سے فضائی آپریشن روکا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی فوٹیج میں ملک چھوڑنے کے لیے بےچین افغان عوام کو رن وے پر دوڑتے امریکی فوجی طیارے سے لٹکا دیکھا جا سکتا ہے۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صورتحال کو کسی المیے میں بدلنے سے قبل ہی فیصلہ کن اقدامات کرے۔ تنظیم کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ’جو ہم افغانستان میں ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ ایک المیہ ہے جسے رونما ہونے سے پہلے سے روکا جا سکتا تھا‘۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں.
/urdu/sport-49574155
دیکھنا یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں جس پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مصباح الحق نے اپنی قیادت میں نمبر ون بنایا تھا، اپنی کوچنگ میں کتنی جلدی اس کا وقار بحال کر پاتے ہیں: پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم۔
سو خبر یہ نہیں ہے کہ مصباح الحق پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ بن گئے ہیں۔ اصل خبر یہ ہے کہ مصباح الحق پاکستان کے ہیڈ کوچ 'کیوں' بن گئے ہیں؟ اول تو اگر پی سی بی یا وسیم خان کے دل میں کہیں ایسی خواہش تھی بھی سہی، تو بہتر تھا کہ مکی آرتھر کی کارکردگی کا جائزہ لینے والی کرکٹ کمیٹی سے مصباح الحق کو علیحدہ کر لیا جاتا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو 'کانفلکٹ آف انٹرسٹ' کا سوال پیدا نہ ہوتا۔ اس پہ طرہ یہ کہ مصباح الحق بھی آخری وقت تک قیاس آرائیوں کو ہوا دیتے رہے اور کوچنگ کے لیے باقاعدہ درخواست نہ دی۔ بہرطور، اب جبکہ یہ اعلان کیا ہی جا چکا ہے تو یہ ذہن نشین کر لینا لازم ہے کہ مصباح کے لیے یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہو گی کیونکہ پاکستانی صحافت میں مصباح جیسے بورنگ کرداروں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سو خبر نگاروں کا بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اب ڈریسنگ روم کے پھڈے چاردیواری سے باہر نہیں نکلیں گے۔ نہ ہی مصباح مکی آرتھر کی طرح بالکنی پہ کھڑے ہو کر زیرِ لب کچھ بڑبڑائیں گے اور نہ ہی میانداد کی طرح ڈریسنگ روم سے ہی بلے بازوں کو بیٹنگ ٹپس دے کر اپنی پیشہ وارانہ ذہانت کے ثبوت دیں گے۔ مصباح الحق کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انھیں ماضی کے کوچز کی طرح انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہوئے کوئی پانچ دس سال نہیں ہوئے۔ ان کے لیے یہ کل ہی کی بات ہے۔ سو یہ تو فائدہ ہوا کہ مصباح کو اپنے ڈریسنگ روم کو سمجھنے کے لیے دو تین سیریز گزر جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ مگر ساتھ ہی اس فائدے کا نقصان یہ بھی ہوا کہ ان کے لیے کوئی 'ہنی مون پیریڈ' نہیں ہو گا۔ اگرچہ ابھی پی سی بی نے ٹیم کی کپتانی کا فیصلہ نہیں کیا مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ کپتان جو بھی بنے، آئندہ ہار کا ملبہ کپتان پہ نہیں کوچ مصباح پہ گرے گا۔ ہاں اگر کپتان کا تعلق کراچی سے نہ ہوا تو وہ بھی بھرپور طریقے سے اس ملبے کی زد میں آئے گا۔ کرکٹ کے میدان میں مصباح کے لیے بے شمار چیلنجز ہیں۔ ون ڈے رینکنگ میں بہتری تو مطمع نظر ہو گی ہی، اس سے بھی بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہے ٹیسٹ رینکنگ پر۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس ٹیسٹ ٹیم کو اپنی قیادت میں مصباح نے نمبر ون بنایا تھا، اب اپنی کوچنگ میں کتنی جلدی اس کا وقار بحال کر پاتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا چیلنج فی الوقت میڈیا کا سامنا کرنا ہے جہاں اکثر حلقوں میں اس فیصلے پہ ابھی سے صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ گو کہ میڈیا کو ہینڈل کرنے میں مصباح خاصی مہارت رکھتے ہیں مگر اب کی بار چونکہ ذمہ داری قدرے مختلف نوعیت کی ہے سو چیلنج بھی مختلف طرز کا ہو گا۔
/urdu/science-58295776
فائبراڈز دراصل بچہ دانی کے اندر بننے والی گوشت کی رسولیاں ہوتی ہیں، جو مختلف سائز اور تعداد میں ہو سکتی ہیں۔
ملیحہ ہاشمی کی شادی کو دس برس ہو چکے ہیں اور ان کی حال ہی میں ایک سرجری ہوئی ہے جس میں ان کی بچہ دانی کو ان کے جسم سے نکال دیا گیا ہے۔ فائبراڈز دراصل بچہ دانی کے اندر بننے والی گوشت کی رسولیاں ہوتی ہیں، جو مختلف سائز اور تعداد میں ہو سکتی ہیں۔ ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر فریسہ وقار کے مطابق ’بلوغت کے آغاز کے ساتھ ہی بیشتر پاکستانی خواتین میں یہ رسولیاں یا فائبرائیڈز بننے لگ جاتے ہیں لیکن یہ نقصان دہ نہیں ہوتے۔ تاہم ان میں سے پانچ سے 10 فیصد خواتین کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ جن خواتین کے معاملے میں نوبت علاج تک آتی ہی ڈاکٹر فریشہ کے بقول ’ایسی خواتین میں یا تو یہ رسولیاں اتنی بڑی ہو جاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے بہت زیادہ خون رسنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ مزید گزارہ نہیں کرنا چاہتیں۔ یا پھر بچے نہیں ہو رہے ہوتے تو ہم آپریشن کر کے یہ رسولیاں نکالتے ہیں تاکہ بچہ دانی کو نقصان نہ پہنچے اور بچے پیدا ہو سکیں۔‘ ڈاکٹر فریسہ کے بقول ان رسولیوں کے بننے کی کوئی خاص وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین میں ایسٹروجن زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہے اور اس کے باعث فائبرائیڈز بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول ’سسٹ پانی کی تھیلیوں جیسی رسولیاں ہوتی ہیں جو اوریز یعنی بیضہ دانیوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ رسولیاں بھی خواتین میں ماہواری کے تناسب کو متاثر کرتی ہیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر رسولیاں ماہواری کے ساتھ ہی ختم بھی ہو جاتی ہیں۔' 'جبکہ فائبرائیڈز گوشت کی رسولیاں ہوتی ہیں جو یوٹرس یعنی بچہ دانی میں پائی جاتی ہیں۔' فائبراڈز دراصل بچہ دانی کے اندر بننے والی گوشت کی رسولیاں ہوتی ہیں، جو مختلف سائز اور تعداد میں ہو سکتی ہیں ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ عموماً ایسی خواتین جنھیں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے انھیں سب سے پہلے اپنے شوہروں سے ہی طعنے اور دوسری شادی کی دھمکیاں ملتی ہیں تاہم نہ صرف وہ شوہر کے معاملے میں خوش نصیب ہیں بلکہ انھیں اس حوالے سے کبھی بھی سسرال کی طرف سے بھی کسی دباؤ کا سامنا نہیں رہا۔ حتیٰ کہ شادی کے بہت سال گزرنے کے بعد اگر کوئی انھیں بچے نہ ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو ان کی ساس ہمیشہ ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ملیحہ اور ریاض نے بچہ دانی نکلوانے کا بڑا فیصلہ تو کر لیا لیکن کیا دل میں کوئی خلش تو نہیں ہے۔ اس حوالے سے ملحیہ کا کہنا تھا 'میرے شوہر نے ہمیشہ یہ کہا کہ مجھے تمہاری صحت کی قیمت پر بچے نہیں چاہیں کہ تم بستر پر لیٹی ہو اور مجھے بچے مل جائیں۔'
/urdu/world-59958249
امریکہ کی ایک عدالتی کارروائی کی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ لاس اینجلس کے دو پولیس اہلکار فرار ہوتے ہوئے ڈاکوؤں کو پکڑنے کے بجائے موبائل گیم پوکیمون گو کے ایک کردار کی تلاش میں لگے رہے۔
امریکہ کی عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ لاس اینجلس کے دو پولیس اہلکار فرار ہوتے ہوئے ڈاکوؤں کو پکڑنے کے بجائے موبائل گیم پوکیمون گو کے ایک کردار کی تلاش میں لگے رہے۔ دونوں اہلکاروں کو اسی جرم میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم ان کی پولیس کار میں لگے ہوئے کیمرے کی فوٹیج سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دونوں ’پوکیمون گو‘ کھیل رہے تھے اور واردات کے موقع پر پہنچ کر مدد کرنے کے بجائے اس کھیل کے ایک کردار سنورلکس کو ڈھونڈتے رہے۔ پوکیمون گو کھیل میں سنورلکس نامی کردار بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ پوکیمون گو میں لوگ اپنے سمارٹ فون کے کیمرہ ایپ کی مدد سے اصل دنیا میں چھپے پوکیمون کے غیرحقیقی کردار ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں مختلف جگہوں پر چھپایا جاتا ہے۔ ان کرداروں کو دنیا بھر کے اصلی مقامات میں جا کر پکڑنا ہوتا ہے۔ صحیح مقام پر پہنچتے ہی ایک ورچوئل کردار آپ کے موبائل فون میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ ان دستاویزات کے مطابق ’ریڈیو کال کو نظر انداز کرنے کے بعد یہ پولیس اہلکار اگلے 20 منٹ تک پوکیمون گو سے متعلق بات کرتے رہے اور کھیل کے کرداروں کو پکڑنے کے لیے مختلف جگہوں پر گئے جہاں یہ کردار یعنی مختلف ورچوئل مخلوق ان کے موبائل فون پر ظاہر ہوتی رہی۔‘ دونوں پولیس اہلکاروں نے بعد میں ان سے رابطہ کرنے اور موقع پر بلانے کی کوشش کر رہے ایک سارجنٹ کو بتایا کہ انھوں نے ریڈیو کال سنی ہی نہیں۔ لیکن ان کی کار میں لگے ہوئے کمرے کی فوٹیج سے یہ ثابت ہو گیا کہ انھوں نے ریڈیو کال سے متعلق آپس میں بات چیت کی اور اس کال کا کوئی جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ کال کا جواب دینے کے بجائے فوٹیج میں یہ سنا جا سکتا ہے کہ پانچ منٹ کے بعد وہ دونوں پوکیمون کردار سنورلکس کو پکڑنے کے بارے میں بات کر رہے تھے اور اس کے بعد وہ اپنی کار میں اس سمت میں چلے جاتے ہیں جہاں وہ سنورلکس کو پکڑ سکتے تھے۔ کھیل کے اس سارے سیشن اور گفتگو میں انھوں نے 20 منٹ لگائے۔ انھیں کامیابی سے سنورلکس کو پکڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیل کے ایک دوسرے کردار ٹوجیٹک کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ اسے پکڑنا کتنا مشکل تھا۔ گفتگو کے دوران آفیسر مچِل کہتے ہیں ’وہ لوگ اب ہم سے کتنا جلیں گے۔‘ دونوں پولیس اہلکاروں نے ڈیوٹی پر گیم کھیلنے کے الزام سے انکار کیا تھا اور تفتیشی افسر سے کہا تھا کہ مچِل ایک کتاب سے دوسرے کھلاڑیوں کے گروپ کے بارے میں بلند آواز میں پڑھ رہے تھے اور ان کے سکور کی تعریف کر رہے تھے۔ عدالت کی دستاویزات کے مطابق دونوں اہلکاروں نے سچائی سے کام نہیں لیا۔
/urdu/pakistan-59587859
کبھی کسی ہاتھی کی سر پٹختے ہوئے ویڈیو تو کبھی ایک نایاب شیر کے مر جانے کی خبریں۔۔۔ اگر پاکستان میں جانوروں کا خیال نہیں رکھا جا سکتا تو کیا یہاں موجود چڑیا گھر بند ہو جانے چاہیے؟
مئی 2017 میں لاہور چڑیا گھر کی باعث کشش ہتھنی ’سوزی‘ ہلاک ہوئی، چند سال قبل اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں کاون ہاتھی کے زنجیروں سے جکڑی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں چڑیا گھروں میں جانوروں کی صورتحال نے بحث چھیڑی۔ جس کے بعد مقامی اور بین الاقومی تنظیموں نے مہم چلائی اور کاون کو کمبوڈیا منتقل کر دیا گیا اور اسلام آباد کے چڑیا گھر کو بند کر دیا گیا۔ رواں سال جنوری میں لاہور کے چڑیا گھر میں سفید شیر کے دو بچے مر گئے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کووڈ میں مبتلا تھے جبکہ جون میں کینگروؤں کے ایک جوڑے اور ایک شیر کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی۔ پچھلے دنوں کراچی کے چڑیا گھر میں ایک سفید شیر کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوئی کہ چڑیا گھر کو اگر سنبھالا نہیں جا سکتا تو انھیں بند کردیا جائے۔ پاکستان میں اس وقت صرف کراچی کے دو چڑیا گھروں میں چار ہاتھی موجود ہیں، جن کا حال ہی میں فور پاؤز نامی تنظیم کے ماہرین نے معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ چاروں ہاتھیوں کی جسمانی صورتحال اچھی ہے جبکہ ان کا وزن تھوڑا سا زیادہ ہے۔ ڈاکٹر محمد منصور کے مطابق ’جو بھی گھاس خور جانور ہوتے ہیں، ان میں یہ کیویٹی پائی جاتی ہے، یہ خورک اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ اگر ان جانوروں کو کبھی قدرتی ماحول میں رکھا جائے تو وہ اس خوراک سے بھی روشناس ہوں۔ یہاں پر ہم قدرتی ماحول کے قریب ماحول اور قدرتی خوراک کے قریب خوراک بھی فراہم کرتے ہیں۔‘ ڈاکٹر محمد منصور کا کہنا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے سیاح آنے بند ہو گئے جبکہ الدین پارک کا امیوزیمنٹ پارک عدالت کے حکم پر مسمار ہو گیا۔ ڈالر کا ریٹ بڑھ جانے سے اشیا اور جانوروں کی ادویات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے علاوہ ہر سال جانوروں کی افزائش بھی ہو رہی ہے۔ صحافی اور جانوروں کے فلاح و بہبود کی تنظیم ’سی ڈی آر بینجی‘ کی سربراہ قطرینہ حسین کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر سرکاری ہوں یا نجی، اس کا ڈائریکٹر کم از کم ایک تربیت یافتہ ماہر ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو کہ آپ کسی میونسپل کارپوریشن کے اٹھارہ گریڈ کے بندے کو خانہ پوری کے لیے لگا دیا۔‘ قطرینہ حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جس طرح جانوروں کو چڑیا گھر میں رکھا جا رہا ہے وہ بالکل بھی قابل برداشت نہیں۔ ’جانوروں کو لا کر پنجروں میں بند کر دیا ہے، انھیں صرف تماشے کے لیے رکھا گیا ہے۔ کوئی خیال نہیں کیا جا رہا کہ ان کی بھی ضروریات ہیں۔‘
/urdu/regional-60308636
ایران میں 17 سالہ لڑکی کے مبینہ طور پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل نے ملک میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے متعلق قوانین اور ان جرائم کی میڈیا میں عکاسی پر گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔
ایران میں 17 سالہ لڑکی کے مبینہ طور پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل نے ملک میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے متعلق قوانین اور ان جرائم کی میڈیا میں عکاسی پر گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ پانچ فروری کو صوبہ خوزستان کے جنوب مغربی شہر اہواز میں پیش آیا۔ روکنا کے مطابق 17 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر اس کا شوہر بتائے جانے والے شخص نے قتل کر کے اس کا سر قلم کر دیا تھا۔ بی بی سی فارسی سروس کے مطابق مقامی طور پر مونا (غزل) حیدری کے نام سے جانی جانے والی لڑکی کا ایک تین سالہ بیٹا بھی تھا اور وہ اپنے شوہر کے ’پرتشدد رویوں‘ کے باعث ترکی فرار ہو گئی تھیں۔ النا نے پولیس افسر کرنل سہراب حسین نژاد کے حوالے سے بتایا کہ ان افراد کو عدالت کے روبرو پیش کر دیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا نے بعد میں رپورٹ دی کہ حکام نے مذکورہ شخص اور اس کے بھائی کو اس شخص کی بیوی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا، اور دعویٰ کیا کہ ممکنہ طور پر اس قتل کے پیچھے خاندانی وجوہات تھیں۔ اُنھوں نے اس بات کی تردید کی کہ مونا اپنے شوہر سجاد سے طلاق چاہتی تھیں مگر اُنھوں نے تصدیق کی کہ اُنھوں نے یہ شادی تب طے کی جب مونا بچی تھیں اور بعد میں اُنھوں نے مونا کو ’ازدواجی زندگی کے لیے فٹ‘ قرار دینے کے ثبوت کے طور پر ’جسمانی نشوونما‘ کی عدالتی سند بھی حاصل کی۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اس قتل کی مخالفت کی اور مختلف ہیش ٹیگز استعمال کر کے ایران میں خواتین کے حقوق پر بات کی۔ حالیہ قتل نے ایران میں بہت سے لوگوں کو اپنے والد کے ہاتھوں قتل اور سر قلم کیے جانے والی 14 سالہ رومینہ اشرفی کی یاد دلائی ہے۔ ان کے والد کو رومینہ کے 35 سالہ بوائے فرینڈ کے ساتھ تعلقات پر اعتراض تھا اور وہ ان کی شادی کے مخالف تھے۔ سنیچر کے روز مونا حیدری کے قتل کے بعد، ایک ایرانی اصلاح پسند سیاست دان اور اسلامی ایران پیپلز پارٹی کی یونین کے سیکرٹری جنرل آذر منصوری نے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’مونا حیدری غیرت کے نام پر قتل کا ایک اور شکار ہیں۔‘ رپورٹس کے مطابق دیہاتوں اور قبائلی برادریوں میں غیرت کے نام پر قتل زیادہ عام ہیں، جن میں سے اکثر مغربی صوبوں خوزستان، کرمانشاہ اور الام میں کیے گئے ہیں۔ لیکن بڑے شہروں میں بھی ایسے ہی جرائم کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ مئی 2021 میں، صوبہ خوزستان سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ ہم جنس پرست علی فاضلی مونفرید کو مبینہ طور پر اہواز میں ان کے کزنز اور بھائیوں نے اغوا کر کے ان کا سر قلم کر دیا۔
/urdu/world-57834641
نسان اور رینالٹ جیسی بڑی کار کمپنیوں کے سربراہ رہنے والے کارلوس غصن بتاتے ہیں کہ انھیں جاپان سے فرار ہونے کے لیے ٹوکیو کی گلیوں میں بھیس بدل کر سفر کرنا پڑا۔ ہمیشہ سوٹ میں دکھنے والے اس معروف شخص نے اپنی پہچان چھپانے کے لیے جینز اور جوگر جیسے سادہ کپڑے پہن رکھے تھے۔
سنہ 2019 میں دسمبر کی ایک سرد رات ساڑھے دس بجے گاڑیوں کی ایک معروف کمپنی کے سابق سربراہ ایک طیارے میں موجود ڈبے میں بند تھے اور جاپان سے فرار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ بی بی سی کو دیے خصوصی انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ٹوکیو کی گلیوں میں اپنی پہچان خفیہ رکھنے کے لیے بھیس بدلا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کارلوس جاپان کی بڑی کار کمپنی کے چیئرمین تھے۔ وہ فرانس میں رینالٹ کمپنی کے بھی چیئرمین تھے اس کے ساتھ وہ نسان، رینالٹ اور مٹسوبشی کے اشتراک کی سربراہی کر رہے تھے۔ فرانسیسی کمپنی رینالٹ آج بھی اس جاپانی کمپنی کی 43 فیصد ملکیت رکھتی ہے۔ کارلوس کا خیال ہے کہ وہ رینالٹ اور نسان کی آپسی لڑائی کا شکار ہوئے جس میں رینالٹ کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے نسان نے جوابی اقدامات کیے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے کارلوس کو حراست میں طویل عرصہ گزارنا پڑا اور انھیں ضمانت کے بعد ٹوکیو میں اپنے گھر میں قید رکھا گیا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ ان پر مقدمہ کب شروع ہوگا۔ خدشہ تھا کہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جاپان جیسا ملک جہاں سزاؤں کا تناسب 99.4 فیصد ہے یہاں کارلوس کو سزا کی صورت میں 15 سال قید ہوسکتی تھی۔ کئی برسوں تک دنیا کی ایک بڑی کار کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے سوٹ پہننے والے کارلوس کو اب کچھ سادہ کپڑے جیسے جینز اور جوگر پہننا تھے۔ نسان میں کارلوس کے سابق ساتھی گریگ کیلی کو بھی سزا کا سامنا ہے جو ٹوکیو میں فی الحال گھر میں قید ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے سابق باس کی آمدن چھپانے میں مدد کی مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ وہ اس صنعت کے سربراہ کے بجائے ملک کے سربراہ جیسی زندگی گزارتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر ایک شاہانہ پارٹی میں انھوں نے اپنی عدالت سجائی جس میں ویٹروں کے عملے نے انقلابیوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ رینالٹ اور نسان کے اس سابق سربراہ کو ان کمپنیوں کے لوگ ناپسند کرتے تھے۔ نسان میں لوگوں کو خدشہ تھا کہ وہ روایتی جاپانی کاروبار میں مداخلت کریں گے۔ جبکہ رینالٹ میں کچھ لوگ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ پیرس کے جریدوں میں نظر آتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے تھے۔ کسی بھی بڑی کمپنی کے سربراہ کو سیاسی معاملات میں حساس رہنا ہوتا ہے۔ کارلوس نے نسان میں قریب 20 سال گزارے مگر ٹوکیو میں وہ اپنی گرفتاری پر حیران تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان اداروں سے رابطہ کھو چکے تھے جنھیں وہ قریب لانا چاہتے تھے۔
/urdu/world-55377493
وینٹیلیٹر میں دھماکے سے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آگ لگ گئی تاہم براہ راست آگ کے باعث کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسے فوراً بجھا دیا گیا تھا۔
جنوبی ترکی میں حکام کے مطابق ایک آکسیجن وینٹیلیٹر میں دھماکے کے باعث ہسپتال میں زیرِ علاج کورونا وائرس کے نو مریض ہلاک ہو گئے ہیں۔ دھماکے سے غازی عینتاب میں واقع نجی طبی مرکز سینکو یونیورسٹی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آگ لگ گئی۔ کم از کم ایک مریض کی ہلاکت اُس وقت ہوئی جب انھیں ایک اور ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ جان ہوپکنز یونیورسٹی کے مطابق ترکی میں کورونا وائرس کے کم از کم 20 لاکھ کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ 17 ہزار 610 اموات ہو چکی ہیں۔ آگ سنیچر کو علی الصبح لگی تاہم جانی نقصان براہ راست اس کی وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ اسے فوراً بجھا دیا گیا تھا۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی عمریں 56 سے 85 برس کے درمیان تھیں۔ دھماکے کی وجوہات کا پتا چلانے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ غازی عینتاب کے گورنر کے مطابق مذکورہ وارڈ میں زیرِ علاج دیگر مریضوں کو علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ 'حکام کی جانب سے ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں' جبکہ ہلاک شدگان کے ورثا سے تعزیت کی گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ترجمان نے ٹوئٹر پر زخمی ہونے والوں کی جلد صحتیابی کی تمنا کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں پانچ اور چھ دسمبر کی درمیانی شب پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے کورونا وارڈ میں آکسیجن کی قلت کے باعث چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ سانحہ نظام کی ناکامی کی وجہ سے پیش آیا، ٹینک میں آکسیجن کی شدید کمی تھی جو کسی کے نوٹس میں نہیں آئی، کسی نے اس پر توجہ نہیں دی اور کسی نے اسے چیک نہیں کیا۔ واقعے کے بعد ہسپتال کے سات اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اکتوبر میں روس کے خطے چیلیابنسک میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنائے گئے ایک عارضی ہسپتال کے 'آکسیجن بوتھ' میں دھماکے سے آگ لگنے کے بعد 150 مریضوں کو وہاں سے نکالنا پڑا تھا۔
/urdu/pakistan-59770766
پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق عمرکوٹ ضلع میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ 10 لاکھ 73 ہزار آبادی والے ضلع عمر کوٹ میں ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 52 فیصد ہے، اس کے باوجود منتخب ایوانوں میں اس ضلع سے کوئی بھی ہندو رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق عمرکوٹ ضلع میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ 10 لاکھ 73 ہزار آبادی والے ضلع عمر کوٹ میں ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 52 فیصد ہے، اس کے باوجود منتخب ایوانوں میں اس ضلع سے کوئی بھی ہندو رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ کراچی سے مٹھی تک سڑک کی تعمیر سے قبل یہ شہر اہم تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا اور اس کو ’تھر کا گیٹ وے‘ کہا جاتا تھا، موجودہ وقت بھی خوراک سمیت عام ضرورت کی اشیا تھر میں عمرکوٹ سے ہی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ عمرکوٹ کے بعد تھر دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں ہندو آبادی کُل آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے۔ عمرکوٹ کی معشیت کا تمام تر دارد مدار زراعت پر ہے۔ زمینداروں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جبکہ کسان 80 فیصد ہندو دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شہروں میں دکانداروں کی اکثریت اپر کاسٹ ہندوؤں کی ہے، صرافہ، کھاد و بیج کی دکانوں پر اُن کی ہی گرفت ہے۔ ’یہاں کی جو نمائندگی ہے، وہ حقیقی نہیں ہے۔ یہاں 98 فیصد ہندو برادری ووٹ ڈالتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی شرح کم ہوتی ہے، خاص طور پر خواتین گھروں سے نہیں نکلتیں یا کوئی اپر کلاس ہیں تو وہ خواتین ووٹ نہیں دینے آتیں، اقلیتی خواتین کی اکثریت ووٹ دیتی ہیں۔‘ لال چند مالھی کا تعلق عمرکوٹ سے ہے اور وہ مخصوص نشست پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اُن کے مطابق ہندو آبادی اکثریت میں ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں زیادہ تر اقلیتوں کو عام نشستوں پر نامزد نہیں کرتی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی لال مالھی کہتے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں کا ہمارے معاشرے میں سیاست سے ایک گہرا تعلق ہے۔ ’اگر کہیں آپ کی نمائندگی نہیں تو کوٹہ اور طرفداری تو چھوڑیں میرٹ پر بھی ملازمت نہیں ملتی۔ اس وجہ سے اقلیتی برادری اکثر اچھی ملازمت حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔‘ میوا رام پرمار سماجی کارکن ہیں اور ہندو کمیونٹی میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملازمت کا تعلق تعلیم سے ہی ہے اگر تعلیم نہیں ہو گی تو سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت نہیں ملے گی۔ اقلیتوں کی اکثریت شیڈول کاسٹ ہے وہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا تو وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے لہذا معاشی صورتحال اس میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ’یہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے لیکن ان کا منتخب نمائندہ کوئی نہیں ہے جبکہ اقلیتی مسلم آبادی کے نمائندے ہیں، چونکہ ملازمتوں میں سیاسی عمل دخل ہوتا ہے تو اس صورتحال میں اقلیتیں محروم رہ جاتی ہیں۔‘
/urdu/pakistan-60686105
حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بارے میں قانون سازی بھی کی گئی ہے لیکن ان قوانین کی کمزور عملدری کے سبب ایسے متعدد معاملات میں سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بارے میں قانون سازی بھی کی گئی ہے لیکن ان قوانین کی کمزور عملداری کے سبب ایسے متعدد معاملات میں سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انیلہ کو بھی شوہر اور سسرال کے تشدد کے ساتھ ساتھ پولیس اور قانون کی کمزور عملداری کا سامنا رہا ہے۔ وہ بتاتی ہیں اُن کے ملزمان کو سزا تو دور کی بات ابھی تک اس معاملے میں اُن کے شوہر اور سسرال کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی ہے۔ ’اس کے بعد میری ساس اور شوہر نے لاہور کے ایک ہسپتال سے میرے اسقاط حمل کے لیے بات کی۔ ہسپتال والوں نے کہا کہ یہ لڑکی بہت کمزور ہے اور اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لیے ہم یہ نہیں کر سکتے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’اس کے چند دن بعد میرے شوہر اور سسرال والوں نے مجھے میلسی میں میری ممانی کے گھر دعوت پر جانے کا کہا۔ میری ممانی ایک دائی ہیں۔ میں وہاں چلی گئی اور وہاں جا کر انھوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر زبردستی میرا ابارشن کر دیا۔ میں اس وقت چیخی چلائی لیکن میری فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔‘ انیلہ کا کہنا ہے کہ جسمانی تشدد اور زبردستی اسقاط حمل کرنے جیسے فعل کے بعد بھی جب انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا تو اُن کی شکایت پر پولیس نے ان کے شوہر اور سسرال کے خلاف ایف آر درج نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق پنجاب پولیس کی جاری ہونے والی حالیہ رپورٹ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو خواتین کے خلاف تشدد کے کیسز میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اب ان واقعات کی رپورٹنگ پہلے سے زیادہ ہو رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ایسے معاملات میں خواتین ان واقعات کی رپورٹ کرنے سے گریز کرتی تھیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ واقعات درج نہیں کیے جاتے۔‘ یہ مسئلہ صرف انیلہ کی کہانی تک ہی محدود نہیں ہے۔ گھریلو تشدد کے دیگر کچھ کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں پولیس نے غیر سنجیدہ رویہ دکھاتے ہوئے ان خواتین کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کیں۔ کیا پولیس کا کام قانون پر عملدرآمد کرنا ہے یا پھر بطور ثالث کردار ادا کرنا؟ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کامران عادل کا کہنا تھا کہ جس مسئلے کہ نشاندہی کی گئی ہے وہ مسئلہ بلاشبہ موجود ہے اور اس میں کوئی قانونی سقم نہیں ہے بلکہ یہ مخصوص افراد کے رویے کا مسئلہ ہے۔
/urdu/sport-53663086
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا کرکٹ میچ مانچسٹر میں جاری ہے اور پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 139 رنز بنائے ہیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ مانچسٹر میں جاری ہے اور پہلے دن کے کھیل کے اختتام پر پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 139 رنز بنائے ہیں۔ اس میچ میں پہلی بار ٹی وی امپائر نو بالز کو مانیٹر کریں گے اور بالر کے کریز سے آگے نکلنے پر اس میچ میں ایک بال کو پہلے ہی نو بال قرار دیا جا چکا ہے۔ خیال ہے کہ مستقبل میں ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں اس کا استعمال ہوگا۔ شان مسعود کے لیے جیمز اینڈرسن سے مقابلہ ان کی کارکردگی کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ آج کے میچ سے قبل شان نے اینڈرسن کی جانب سے 57 گیندوں کا سامنا کیا ہے اور وہ صرف 15 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ اینڈرسن نے انھیں چھ بار آؤٹ کیا ہے۔ بدھ کی صبح اولڈ ٹریفرڈ کے میدان پر کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو مہمان ٹیم کی جانب سے شان مسعود اور عابد علی نے پاکستانی اننگز کا آغاز کیا۔ انگلینڈ کی جانب سے سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن نے اننگز کے آغاز میں گیند سنبھالی تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پانچ پانچ سو وکٹیں حاصل کرنے والے انگلینڈ کے ان دونوں بولرز نے پاکستانی بیٹسمینوں کو قابو میں تو رکھا لیکن وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس میچ میں پاکستان کی ٹیم میں دو لیگ سپنرز شاداب خان اور یاسر شاہ کو شامل کیا گیا ہے جبکہ بلے بازی کی ذمہ داری شان مسعود، عابد علی، اظہر علی، بابر اعظم، اسد شفیق اور رضوان احمد کے کاندھوں پر ہے جبکہ فاسٹ بولنگ سکواڈ شاہین آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ پر مشتمل ہے۔ تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز پاکستانی ٹیم کی گذشتہ پانچ سال میں تیسری ٹیسٹ سیریز ہے جو وہ انگلینڈ میں کھیل رہی ہے اور ٹیم مینیجمنٹ اور کھلاڑیوں کو امید ہے کہ اس بار وہ 2016 اور 2018 کی طرح ٹیسٹ سیریز صرف برابری پر نہیں ختم کریں گے بلکہ 1996 کے بعد پہلی بار فتح بھی اپنے نام کر سکیں۔ اگر پچھلے پانچ برس کی بات کریں تو 2016 کے بعد سے پاکستان کی ٹیم نے ہر سال انگلینڈ کا دورہ کیا ہے جس میں دو بار وہ ٹیسٹ کھیلنے آئے اور دو بار ایک روزہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے، اور ان تمام میں ہی ان کی کارکردگی کا معیار بہت عمدہ رہا۔ دوسری جانب میزبان انگلینڈ کی ٹیم نے موسم گرما میں کورونا وائرس کے بعد شروع ہونے والی کرکٹ کے پہلے مقابلوں میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی جہاں پہلے میچ میں شکست کے بعد انھوں نے کم بیک کیا اور دو ایک سے سیریز اپنے نام کر لی۔
/urdu/world-55609626
بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جزو سمجھا ہے لیکن کئی اتحادیوں کو نہیں لگتا کہ 'ٹرمپ ازم' ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
یہاں پر ایک بات واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ مضمون قطعی طور پر اس بات کی اپیل نہیں کر رہا کہ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کی اپنی اجارہ داری کو وسیع کرنے کی کئی پالیسیاں مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں بگاڑتی ہیں۔ دوسری جانب روس ہے جو کہ امریکہ کا بظاہر مقابل تو نہیں لیکن ان کے لیے ایک پریشان کن عنصر ضرور ہے۔ روس کی جانب سے گمراہ کن خبروں کا پھیلاؤ اور ہیکنگ آپریشنز امریکہ کو متاثر کرنے کے نئے لیکن بہت مؤثر طریقے ہیں۔ جو بائیڈن ایک ایسے وقت میں قیادت سنبھالیں گے جب امریکی انتظامیہ کے کئی ادارے وہ کمپیوٹرز استعمال کر رہے ہیں جن تک روسی ہیکرز کی رسائی ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ روسی ہیکنگ کتنی گہری ہے اور کتنی دیر تک کے لیے قائم رہے گی۔ نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تو شاید مسائل جلد حل ہو جائیں۔ لیکن جو بائیڈن اپنے یورپی ہم منصبوں پر بھی ویسے ہی دباؤ ڈالیں گے جو صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ ان کے بھی وہی مطالبات ہوں گی کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا جائے اور چین، روس اور ایران کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کی جائیں۔ مختلف پالیسیاں، تجارتی تعلقات اور یورپ کی اپنی خود مختاری کی خواہش امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مشکل بنا سکتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ایک ایسا عنصر ہے جو ان تعلقات کو مزید سرد بنا سکتا ہے۔ یہ یقیناً ایک خوش آئند بات ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جُزو سمجھا ہے لیکن کئی اتحادیوں کو نہیں لگتا کہ ’ٹرمپ ازم‘ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ یہ بات صرف کپیٹل ہل پر حملہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان اتحادیوں کو لگتا ہے کہ جو بائیڈن شاید صرف ایک بار ہی صدر رہ سکیں اور چار سال بعد ’ٹرمپ ازم‘ کی نئی شکل دوبارہ طاقت میں آ جائے۔ اگر امریکی اتحادیوں اور اس کے دشمنوں کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ امریکہ نے واقعتاً اپنی راہ تبدیل کر لی ہے تو شاید انھیں امریکی قیادت پر مستقبل کے لیے بھروسہ آ جائے۔ اگر جو بائیڈن کو خارجہ امور میں کامیابی حاصل کرنی ہے، تو انھیں سخت ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے تقسیم شدہ ملک میں اپنی خارجہ پالیسی کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔ اورچین کے ساتھ ایک کامیاب تجارتی پالیسی وہی ہو سکتی ہے جسے امریکی اپنے لیے کامیاب اور فائدہ مند سمجھیں گے، جس سے ملک میں روزگار میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی تجارت میں امریکہ کا حصہ بڑھے گا۔ تو گویا خارجہ پالیسی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے داخلی طور پر امریکی ریاست کو دوبارہ قائم کرنا اور بہتر کرنا سب سے اہم ہوگا۔
/urdu/world-57445044
لندن میں چینی سفارتخانے کے ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب جی سیون سربراہ اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے انفراسٹرکچر کے ایک نئے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے۔
چین نے جی سیون کے عالمی رہنماؤں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ دن گئے جب 'چھوٹے' ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ لندن میں چینی سفارتخانے کے ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب جی سیون سربراہ اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترقی پذیر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنے کے لیے جی سیون ممالک عالمی سطح پر انفراسٹرکچر پر پیسے خرچ کریں گے۔ اتوار کو جی سیون رہنما ایک مشترکہ بیان جاری کریں گے جس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی مالی امداد کرنے اور ان میں انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا جائے گا۔ خیال ہے کہ یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرے گا تاکہ اس کا بڑھتا اثر و رسوخ کم کیا جاسکے۔ جی سیون رہنماؤں نے سنیچر کو ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے سرمایہ کاری کے ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کیا جس کا مقصد چین کے بڑھتے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ جی سیون سربراہ اجلاس پر وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر رہنماؤں نے کورنوال سمٹ کے دوران چین کے خلاف سٹریٹیجک مقابلے کے موضوع پر بات چیت کی ہے جس کے بعد 'بیلڈ بیک بیٹر ورلڈ یا بی تھری ڈبلیو' یعنی عالمی سطح پر تعمیر نو کے ایک نئے منصوبے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ بیجنگ نے دنیا کے کئی ممالک میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے چین نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مقروض کیا ہے اور وہ یہ قرض واپس نہیں کر سکیں گے۔ امریکی صدر کے ایک معاون نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بائیڈن جی سیون اجلاس کے دوسرے روز مغربی ممالک سے کہیں گے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ بی بی سی نارتھ امریکہ کے ایڈیٹر جان سوپل کا کہنا ہے کہ امریکی سنیچر کے سیشن کو ایک ایسا موقع سمجھتے ہیں جس پر وہ دنیا بھر میں چین کے پھیلتے ہوئے اثر کو چیلنج کریں گے۔ مغربی جمہوریتیں بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم امریکی انتظامیہ اس بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں کرتی کہ عالمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مغرب کتنی رقم خرچ کرنے کو تیار ہے۔ صرف یہ ہی بات واضح ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لیے مغربی طاقتوں کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہو گیا ہے۔
/urdu/world-48651670
سعودی عرب نے خلیج کے ایک اہم بحری راستے میں تیل کے ٹینکروں پر تازہ حملے کے لیے حریف ملک ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ ان کا ملک کسی قسم کے خطرے سے نمٹنے میں کوئی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔
امریکہ نے خلیجِ عُمان میں تیل کے دو ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا ہے سعودی عرب نے خلیج کے ایک اہم بحری راستے میں تیل کے ٹینکروں پر تازہ حملے کے لیے حریف ملک ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ علاقے میں کشیدگی میں اضافے کے دوران سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک کسی قسم کے خطرے سے نمٹنے میں کوئی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ جمعرات کو خلیج عمان میں دو ٹینکروں پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ حملہ ان چار دوسرے ٹینکروں پر متحدہ عرب امارات کے ساحل سے دور سمندر میں ہونے والے حملے کے ایک ماہ بعد ہوا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے عالم عرب کے معروف اخبار 'الشرق الاوسط' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم خطے میں کوئی جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم اپنے لوگوں، اپنی خومختاری، اپنی سالمیت اور اپنے اہم مفادات کو لاحق خطرے سے نمٹنے میں کسی قسم کے پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔' انھوں نے مزید کہا کہ 'ایرانی حکومت نے جاپانی وزیر اعظم کے تہران دورے کا کوئی خیال نہیں کیا۔ جب وہ وہاں تھے تو اس نے ان کی کوششوں کا جواب دو ٹینکروں پر حملہ کر کے دیا۔ ان ٹینکروں میں سے ایک ٹینکر جاپان کا تھا۔' شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن ملکی مفادات اور سالمیت کو لاحق کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے ہچکچائيں گے بھی نہیں سنیچر کو دنیا کی سب سے بڑی دو بین الاقوامی شیپنگ ایسوسی ایشنز نے کہا کہ ان حملوں کی وجہ سے بعض کمپنیوں نے اپنے جہاز کو آبنائے ہرمز اور خلیج عمان میں جانے سے روک دیا ہے۔ امریکہ نے ایک ویڈیو پیش کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جمعرات کے حملے کے بعد ایرانی فوجی ایک کشتی میں سوار ہوکر بحری جہاز کے ساتھ لگے اس بارودی دھماکہ خیز مواد کو ہٹا رہے تھے جو پھٹنے میں ناکام رہے۔ لیکن اس نے اس سے قبل متحدہ عرب امارت کے سمندر میں ہونے والے حملوں کے شواہد فراہم نہیں کیے۔ خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سنہ 2017 میں صدر بننے کے بعد سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں کافی کمی آئی ہے۔ انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کر دیا اور ایران پر اہم پابندیاں عائد کردیں۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ جمعرات کے حملے کی ذمہ داری 'تقریباً یقینی طور پر' ایران پر عائد ہوتی ہے۔ بہر حال برطانیہ کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ سفیر نے اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے ایران کے ایک سینیئر اہلکار سے ملاقات کی ہے۔ ایران کی میڈیا میں کہا گیا ہے کہ ایرانی اہلکار نے سفیر سے کہا کہ ایران حملے کے حوالے سے برطانیہ کی جانب سے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
/urdu/vert-fut-52377227
ماہرِ تاریخ لیوک کیمپ کے مطابق قدیم تہذیبوں کے زوال کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آج ہمیں کتنے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اشارے کچھ اچھے نہیں ہیں۔
ماہرِ تاریخ لیوک کیمپ کے مطابق قدیم تہذیبوں کے زوال کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آج ہمیں کتنے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اشارے کچھ اچھے نہیں ہیں۔ ماضی کی تہذیبوں کو دیکھنے کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ان کے دور کی طوالت کا موازنہ کیا جائے۔ یہ کام اِس لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ تہذیب کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے اور قدیم تہذیبوں کے عروج و زوال کی ہمہ گیر معلومات بھی نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ جدید عالمی تہذیب کے بارے میں ماضی ہمیں کیا بتا سکتا ہے۔ کیا ماضی کی زرعی سلطنتوں سے حاصل ہونے والے سبق 18ویں صدی کے بعد کے صنعتی سرمایہ داری کے دور پر بھی لاگو ہو سکتے ہیں۔ 'نارمل ایکسیڈنٹس' کی تھیوری کے مطابق ٹیکنالوجی کے پیچیدہ نظام متواتر ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ لہذا تہذیبوں کے لیے زوال ایک عام سا عمل ہو سکتا ہے چاہے ان کی قد و قامت اور سطح کچھ بھی ہو۔ آج ہم ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چاہے کتنے ہی آگے کیوں نہ ہوں لیکن اِس سے یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہوا۔ ہم نے ٹیکنالوجی سے متعلق جو نئی صلاحیتیں پیدا کی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں نئے اور غیرمعمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب ہماری جدید تہذیب کی وسعت عالمی سطح پر ہی کیوں نہ ہو لیکن سلطنتیں، چاہے وہ مضبوط اور پھلتی پھولتی ہوں یا نئی ہوں، دونوں ہی زوال کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اِس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ بڑا سائز کسی معاشرے کو تحلیل ہونے سے روک سکتا ہے۔ ہمارے عالمی معاشی نظام میں بحران کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے کیونکہ یہ مضبوطی سے جڑا ہوا اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا نظام ہے۔ کیا ماضی کی تہذیبوں کا انجام ہمارے مستقبل کے لیے نقشۂ راہ ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اُن رجحانات اور عوامل کا جائزہ لینا ہو گا جو قدیم تہذیبوں کے زوال سے پہلے موجود تھے اور یہ آج بھی کیسے سامنے آ رہے ہیں۔ آب و ہوا میں غیر معمولی تبدیلی کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ خراب فصلوں، بھوک و افلاس اور وسیع علاقوں کے صحراوں میں بدل جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ قدیم تہذیبوں مثلاً اناسازی، تیواناکو اکاڈینز، ماین، رومن اور کئی دوسری تہذیبوں کا زوال اور خشک سالی سمیت آب و ہوا میں دیگر تبدیلیاں ایک ساتھ رونما ہوئیں۔ تاہم ہماری تہذیب کا زوال ناگزیر نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم زوال کی جانب گامزن ضرور ہیں لیکن ہمارے پاس سبق سیکھنے کے لیے ماضی کے معاشروں اور تہذیبوں کی مثالیں موجود ہیں۔
/urdu/pakistan-55446510
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین اور جمیعت علمائے اسلام کے سینئر رہنما مولانا شیرانی نے کہا کہ وہ کبھی بھی جے یو آئی ف یا مولانا فضل الرحمان گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین اور جمیعت علمائے اسلام کے سینئر رہنما مولانا شیرانی نے جے یو آئی پاکستان کو جے یو آئی ایف (فضل الرحمان) سے الگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ منگل کی شام پریس کانفرنس کرتی ہوئے مولانا شیرانی نے کہا کہ وہ کبھی بھی جے یو آئی ایف یا مولانا فضل الرحمان گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ انھوں نے کہا ’ہم ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔‘ حافظ حسین احمد پارٹی کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بلوچستان کے صوبائی صدر رہنے کے علاوہ سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی رہے۔ گل نصیب سابق سینیٹر اور جے یو آئی خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر رہ چکے ہیں۔ مولانا شجاع الملک سابق رکن قومی اسمبلی اور پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی نے مولانا فضل الرحمان پر یہ واضح بھی کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف فوج میں بغاوت کروانا ہماری پارٹی کا بیانیہ اور پالیسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اس راہ پر چل پڑے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا شمار جے یو آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 90 برس کے قریب ہے۔ وہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی اس وقت اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں میڈیا سے دور وقت گزار رہے ہیں۔ انھوں نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ آج کی پیشرفت پر ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں۔ حافظ حسین احمد کے مطابق اب ہم مل بیٹھیں گے اور مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں گے۔ مولانا شیرانی پارٹی کے اندر آزادانہ انتخابات کے قائل نہیں رہے ہیں اور وہ خود جے یو آئی بلوچستان کے چار دہائیوں تک سربراہ رہے ہیں تاہم گذشتہ دنوں ایک بیان میں ان کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان خود سلیکٹڈ ہیں، وہ عمران خان کو کیسے کہتے ہیں کہ وہ سلیکٹڈ ہے، میرا ماننا ہے کہ یہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، اگر کوئی ایسا سوچ رہاہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔‘ ان رہنماؤں کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر بات کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ جے یو آئی کا طریقہ انتخاب شروع سے ایسا ہی ہے مگر اس وقت ان کے الزامات اور اختلافات پر لوگ شک کریں گے کہ ان کو وہی لوگ ابھار رہے ہیں جو مولانا فضل الرحمان کے مخالف ہیں۔
/urdu/regional-59106756
انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا سے ایک خاتون بینک افسر کی لاش ملی ہے۔ خاتون کی لاش اسی گھر سے برآمد ہوئی جس میں وہ کرائے پر رہ رہی تھیں جبکہ جائے وقوعہ سے خودکشی سے متعلق ایک نوٹ بھی ملا ہے۔
انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا سے سنیچر کے روز ایک خاتون بینک افسر کی لاش ملی ہے۔ خاتون کی لاش اسی گھر سے برآمد ہوئی ہے، جس میں وہ کرائے پر رہ رہی تھیں۔ ایودھیا کے ایس ایس پی شیلیش پانڈے نے بتایا ہے کہ ’خاتون جو بینک میں کام کرتی تھیں، اپنے کرائے کے کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہی تھیں۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی جبکہ خاتون کے گھر والے بھی وہاں پہنچ گئے۔‘ ایس ایس پی پانڈے کے مطابق ’جب پولیس ویڈیو گرافی کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی تو خاتون کی لاش دوپٹے سے لٹکی ہوئی ملی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔‘ شیلیش پانڈے کے مطابق جائے وقوعہ سے انھیں خودکشی سے متعلق ایک نوٹ بھی ملا۔ اس نوٹ کے بارے میں ایس ایس پی پانڈے نے کہا کہ ’پولیس نے اس نوٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اس کی جانچ کی جائے گی۔ اس میں کچھ نام ہیں، جن کے بارے میں تفتیش کی جائے گی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’تحقیقات کے بعد جو بھی حقائق سامنے آئیں گے، کارروائی اس کے مطابق ہی کی جائے گی۔ لاش لٹکتی ہوئی ملی ہے اس لیے موت کی وجہ پوسٹ مارٹم سے ہی معلوم ہو سکے گی اور تب ہی معاملات مزید واضح ہوں گے۔‘ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں دوسری جانب خودکشی کرنے والی خاتون کے ایک رشتہ دار نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہمیں مکان مالک کے ذریعے اطلاع ملی، ہم لکھنؤ سے یہاں کے لیے روانہ ہوئے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو مقامی پولیس پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد یہ خودکشی کا نوٹ دیکھا گیا، جس میں پولیس کے محکمے کے لوگوں کے نام ہیں۔‘ خاتون کے اس رشتہ دار کے مطابق یہ موت مشکوک حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خاتون کی ’دونوں ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں۔ وہ کرسی پر بیٹھی تھیں اور چھت زیادہ اونچی نہیں۔‘ لاش کا پوسٹ مارٹم ڈسٹرکٹ ہسپتال میں کیا جا رہا ہے اور ایک خاتون ڈاکٹر کو بھی پینل میں شامل کیا گیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ ’اس معاملے میں آئی پی ایس افسر کا نام آنا، بہت سنگین معاملہ ہے اور اس کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ وہیں کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار نے اس معاملے پر یوگی حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’قصورواروں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ فرار ہو جائیں گے۔‘
/urdu/entertainment-57098053
دنیا بھر میں اپنی صوفی گائیگی کی وجہ سے مشہور پاکستانی گلوکارہ عابدہ کا تعلق ویسے تو صوبہ سندھ سے ہے تاہم انھوں نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو، سرائیکی پنجابی اور عربی، زبانوں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صوفی کلام میں زبان کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
’صوفی کلام میں زبان کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ چاہے عربی میں ہو، سندھی میں ہو، اردو یا فارسی میں مگر اس کا اثر دل پر ہوتا ہے۔ روح پر ہوتا ہے کیونکہ یہ کلام اللہ کی طرف سے ہے۔‘ دنیا بھر میں اپنی صوفی گائیگی کی وجہ سے مشہور پاکستانی گلوکارہ عابدہ کا تعلق ویسے تو صوبہ سندھ سے ہے تاہم انھوں نے سندھی کے ساتھ ساتھ اردو، سرائیکی پنجابی اور عربی، زبانوں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں لوگ قوالی پڑھتے ہیں اور انگریز بھی قوالی کی طرف آ رہے ہیں تو اس کو سمجھنے کے لیے کسی زبان کی ضرورت نہیں۔ پورے برصغیر میں صوفی کلام کی گائیکی کے حوالے سے شاید اس وقت عابدہ پروین سے بڑا کوئی فنکار نہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ برصغیر کو اولیا اللہ کی طرف سے صوفی موسیقی کا انعام ملا۔ وہ کہتی ہیں ’جیسے ہندوستان میں امیر خسرو نے کافی راگ اور ساز بنائے۔ پہلے برصغیر میں پکھاوج ہوتی تھی، اس کو طبلے میں تبدیل کر دیا، پھر ستار بنائی۔ انڈیا میں نور الدین چشتی کے مزار میں قوالی چلتی ہے تو وہ صوفی موسیقی کا بہت بڑا مرکز بنا لیکن ہر اولیا کی صوفی میوزک کی اپنی ہی شکل ہے۔ اولیا درد میں گنگناتے تھے لیکن درد کو پڑھنا بہت مشکل ہے۔۔۔ اللہ کے درد کو الاپنا بہت مشکل ہے۔‘ ویسے تو صوفی موسیقی کی ملکہ عابدہ پروین کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن کیا کبھی انھیں ایسا لگا کہ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں بحیثیت ایک عورت صوفی موسیقی میں اپنا نام بنانے کے لیے انھیں کچھ رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عابدہ پروین نے کہا کہ ’اگر اس کام سے عشق ہو تو کوئی رکاوٹ راستے میں نہیں آتی۔۔ بزرگان دین کی ایک طاقت ہے، اس نور کی طاقت ہے، پنجتن پاک کی ایک طاقت ہے، جس سے یہ صوفی موسیقی چلتی ہے۔ اس میں عورت مرد کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اس موسیقی کو قلندرانہ نظام چلاتا ہے، پنجتن پاک چلاتے ہیں۔ اس میں عورت اور مرد کا تصور آ ہی نہیں سکتا۔‘ عابدہ پروین کہتی ہیں کہ دنیا کو جوڑنے کے لیے اولیا اللہ نے کام کیا اور پنجتن پاک کی طرف سے ان کو تصوف کا انعام ملا۔ اس شعر کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اولیا ہمیشہ اپنے خدا کے ساتھ رہتے ہیں تو وہاں سے جو مضامین ان کو ملتے ہیں، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ملتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اصل میں تصوف میں دل کا تعلق تڑپ سے ہے اور جب وہ تڑپ ہو تو پھر پوری محفل ہی کلام بن جاتی ہے۔
/urdu/world-60931702
پانچ ہفتوں کی بمباری، تباہ حال شہروں میں ہزاروں اموات اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بعد آخر پوتن جنگ کو ختم کرنے کے لیے کیا چاہتے ہیں؟
روس اور یوکرین کے وفود کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ کے معاملے پر استنبول میں بات چیت ہوئی ہے۔ دونوں فریق اس سے قبل اپنے اپنے مؤقف کے کچھ حصوں کو سامنے لا چکے ہیں۔ یوکرین نے کہا ہے کہ وہ ماسکو کے ’غیرجانبداری‘ کے مطالبے پر غور کرے گا لیکن اپنی سرزمین پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب روس نے ان مطالبات کے قطعی معنی کو واضح کیے بغیر یوکرین سے ’فوجی سرگرمیوں کی روک تھام‘ اور ’نازی رویے سے دوری‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ پانچ ہفتوں کی بمباری، تباہ حال شہروں میں ہزاروں اموات اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بعد آخر صدر پوتن جنگ کو ختم کرنے کے لیے کیا چاہتے ہیں؟ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس بارے میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ ’غیرجانبداری‘ کے معاملے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، حالانکہ یہ بہت کم واضح ہے کہ مستقبل میں یوکرین کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے امکان کے حوالے سے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور امریکہ نے ایک دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے اور جاپان اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرنے لگا۔ اپنی ساکھ بچانے کے لیے روس یہ قبول کر سکتا ہے کہ زیلنسکی اقتدار میں رہیں لیکن وہ ازوف بٹالین کو ہٹانے پر مصر ہے، جو ایک انتہائی دائیں بازو کا گروپ ہے اور جس نے روس کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا۔ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کے بعد روس نے ایک نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں ’ڈرامائی طور پر‘ یوکرین کے دارالحکومت کیو پر حملوں کو کم کرنا شامل ہے لیکن اس کے بعد روس کی توجہ مشرقی یوکرین کے روسی بولنے والے علاقوں کی طرف ہو گی، جو روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ہیں۔ واضح رہے کہ سنہ 1997 میں پوتن سے پہلے روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کریمیا پر یوکرین کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا تھا۔ سنہ 2017 میں یوکرین کی عدالتوں نے سکولوں میں روسی زبان پڑھانے پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس کے بعد سے ملک میں روسی زبان کے استعمال کو کم کرنے کے لیے دوسرے بل بھی سامنے آئے۔ جنوری کے بعد سے ملک کے تمام اخباروں اور میگزین کی یوکرینی زبان میں اشاعت لازمی قرار دی گئی۔ یوکرین کے لیے یہ وجوہات اپنے شہریوں کی ہلاکت کو روکنا، اپنے شہروں میں ہونے والی تباہی اور پڑوسی ممالک میں جانے والے پناہ گزینوں کے بہاؤ کو روکنا ہے۔ روس کے لیے یہ وجوہات اپنے فوجیوں کو ہونے والے جانی نقصان اور مغرب کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے نتائج کو کم کرنے سے متعلق ہیں، جو پہلے ہی عام روسی شہریوں کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔
/urdu/pakistan-49084806
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس سارے معاملے میں احتساب عدالت کے جج کے رویے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کے فیصلے دینے والے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی طرف سے دیے گئے ان فیصلوں کو از سر نو ٹرائل کے لیے بھیج سکتی ہے۔ 23 جولائی کو تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایک کیس (العزیزیہ ریفرنس) میں سزا دی دوسرے (فلیگ شپ ریفرنس) میں بری کیا۔ چیف جسٹس کھوسہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک اس ویڈیو سے متعلق کوئی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نہیں گیا۔ منگل کو ویڈیو سکینڈل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اس بارے میں ریلیف فراہم کرسکتی ہے کیونکہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی طرف سے جو اُنھیں العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی اس کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چیف جسٹس نے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کو معاملے میں مداخلت کرنی چاہئیے اور کیا مداخلت کا فائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی؟ بینچ میں شامل جج عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ فریقین کے الزامات کی حقیقت کو جاننا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق دائر درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے کو مفاد عامہ کے قانون کے تحت نہیں سن سکتی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس سارے معاملے میں احتساب عدالت کے جج کے رویے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اٹارنی جنرل نے اس ویڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا کہ ارشد ملک کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی وڈیو جعلی تھی؟ اُنھوں نے کہا کہ آڈیو وڈیو کو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ سال 2000 سے 2003 کے دوران وڈیو بنائی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احتساب عدالت کے سابق جج نے ایسی حرکت کی تب ہی وڈیو بنائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ بطور جج ارشد ملک کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جج نے مریم نواز کی جانب سے جاری وڈیو کے کچھ حصوں کی تردید کی ہے۔
/urdu/regional-51583946
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 24 اور 25 فروری کو انڈیا کا دو روزہ دورہ کر رہے ہیں، مگر اس دورے میں دونوں ممالک خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سیاست کے لیے کیا رکھا ہے؟
اگلے ہفتے پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کا اپنا پہلا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں اور اس موقعے پر انڈیا انھیں متاثر کرنے کی بھرپور تیاریاں کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ اس بات کا اعادہ ہے کہ انڈیا ٹرمپ انتظامیہ کی سٹریٹجک پالیسی کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دورے کی عدم موجودگی میں یہ تشویش پائی جاتی کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات کمزور ہو گئے ہیں۔ لیکن ایک سوال جو سب کے ذہن میں ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس دورے سے کیا حاصل ہو گا؟ صدر ٹرمپ جو طویل سفر کرنا پسند نہیں کرتے، وہ امریکہ سے انڈیا تک سفر کر کے کیوں آئیں گے جبکہ اس وقت خود انھیں اپنے ملک میں داخلی مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انڈیا کا دورہ صدر ٹرمپ نے اپنے داخلی امور کو زیر غور رکھ کر کیا ہے اور اس کا مقصد جزوی طور پر انتخابات میں انڈین نژاد امریکی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ یہ قدرے خوشحال برادری روایتی طور پر بڑے پیمانے پر ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی رہی ہے۔ امریکہ اور انڈیا کی دو طرفہ تجارت کا حجم 160 بلین ڈالرز ہے۔ ماضی قریب میں توقع کی جا رہی تھی کہ انڈیا کے ساتھ چند ماہ کے مذاکرات کے بعد ہی ہونے والا تجارتی معاہدہ اس دورے کا مرکز ہو گا۔ صدر کی انتخابی مہم کے لیے یہ ایک اور تصویری لمحہ ہوسکتا تھا۔ یو ایس انڈیا بزنس کی صدر نشا بسوال کا کہنا ہے کہ ’یہاں تک کہ ایک محدود معاہدہ دونوں ممالک میں صنعت کے لیے ایک اہم اشارہ ہوگا کہ امریکہ اور انڈیا بڑھتی ہوئی تجارت کے لیے سنجیدہ ہیں اور وہ معاملات حل کرسکتے ہیں۔‘ تانوی مدن کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ دورہ چین کے بارے میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک یکجہتی کے بغیر ہوتا، خاص طور پر اس خطے میں چینی اقدامات اور ارادوں کے بارے میں ان ممالک کی تشویش زیر غور آئے گی۔‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دیگر سوالات بھی گردش کر رہے ہیں کہ کیا انڈیا ایشیا میں چین کے مقابلہ میں اپنا وزن بڑھا سکتا ہے یا اسے داخلی اور ذیلی علاقائی سیاست کے مسائل لے ڈوبے گیں؟ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم مودی کی گذشتہ آٹھ ماہ میں پانچویں ملاقات ہو گی۔ وہ ایک دوسرے کو اپنا ’دوست‘ کہتے ہیں۔ ان کے ایک دوسرے کو گلے لگانے کی بہت سی تصاویر بھی ہیں۔ ان کے ذاتی تعلق کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ بروکنگز کے ایک حالیہ پروگرام میں وزیراعظم مودی کے سٹریٹجک ایڈوائزری ایشیا گروپ کے چیئرمین اور سی ای او ڈاکٹر کرٹ کیمبل کا کہنا تھا کہ ’میں کسی دوسرے رہنما کو نہیں جانتا جس کے صدر اوباما اور صدر ٹرمپ دونوں کے ساتھ بہترین تعلقات رہے ہوں۔‘
/urdu/pakistan-50715847
پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب کھچی 10 دسمبر کو اورنج لائن منصوبے کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کریں گے لیکن مسلم لیگ ن کی جانب سے افتتاحی تقریب ایک روز پہلے ہی منعقد کر دی گئی۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے اورنج لائن کا یہ افتتاح حکومتی افتتاح سے ایک روز پہلے منعقد کیا گیا استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور رہنماؤں نے حکومتِ پنجاب سے پہلے خود ہی اورنج لائن کے افتتاح کی تقریب سجا لی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود کا کہنا تھا کہ ’یہ عوام کی فلاح وبہبود کا منصوبہ ہے اور عوام نے آج اس کا افتتاح بھی کر دیا ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا افتتاح آج مسلم لیگ کی جانب سے کیا گیا ہے وہ اصلی افتتاح ہے اور جو منگل کو پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے افتتاح کیا جائے گا وہ 'دو نمبر افتتاح' کہلائے گا۔ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 10 دسمبر 2019 کو اورنج لائن ٹرین کا افتتاح کر دیا جائے گا۔ سی ایم سیکریٹریٹ کے جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار 10 دسمبر کو اورنج لائن منصوبے کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کریں گے لیکن فی الحال اس ٹرین کو عوام کے نہیں کھولا جائے گا۔ تاہم وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب جہانزیب کھچی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ منگل کو کابینہ کا اجلاس ہے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب اس منصوبے کے ٹیسٹ رن کے لیے نہیں آ سکیں گے۔ خیال رہے کہ اس افتتاحی تقریب سے قبل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی اورنج ٹرین کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کر چکے ہیں۔ پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب کھچی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اورنج لائن کو انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا اور اصل ٹیسٹ رن اب ہو رہا ہے۔ 'ڈیڑھ سال پہلے جو افتتاح شہباز شریف صاحب نے کیا تھا وہ ڈیزل لوکوموٹِو کے ساتھ ٹیسٹ رن کا تھا کیونکہ اس وقت الیکشن تھا اور انھوں نے الیکشن سٹنٹ کے طور پر اس منصونے کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم ہم اب پہلی مرتبہ الیکٹرک ٹیسٹ رن کریں گے جو اس منصوبے کی اصل روح ہے۔' وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب جہانزیب کھچی کا کہنا تھا کہ 'یہ ہماری حکومت کی کامیابی ہے کہ ہم اس منصوبے کو مکمل کر رہے ہیں کیونکہ جب بھی نئی حکومت آتی ہے تو پرانے منصوبوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا‘۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر شہباز شریف کے نام کی تختی ہی لگنی چاہیے اور اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو انھیں ’یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کے دلوں پر شہباز شریف کے نام کی تختی لگ چکی ہے‘۔
/urdu/sport-56227930
پی ایس ایل کا موجودہ ایڈیشن ابھی تک اپنے تمام سابقہ ایڈیشنز کی نسبت کچھ پھیکا ثابت ہوا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ کراچی کے باقی ماندہ میچز میں یہ اپنا کوئی رنگ جما پاتا ہے یا قصور بالآخر ٹاس کا ہی نکلے گا؟ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم
پی ایس ایل کا بنیادی مرحلہ کل شب تمام ہوا۔ دس میچز پہ محیط یہ دوڑ ٹورنامنٹ کے خدوخال واضح کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ پتا چل جاتا ہے کہ کس ٹیم کی قوت کیا ہے اور ہوا کدھر کو چلے گی۔ ٹیموں کی قوت اور کمیاں تو اپنی جگہ، فی الوقت اس سیزن کی سب سے بڑی پریشانی ’ٹاس‘ ہی رہا ہے۔ ویسے تو ہر کھیل میں ہی ٹاس اہم ہوتا ہی ہے مگر پی ایس ایل کے اس ایڈیشن میں ٹاس کی اہمیت ضرورت سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اب تک مکمل ہوئے 10 پی ایس ایل میچز میں سبھی میں فتح پہلے بولنگ کرنے والوں کو حاصل ہوئی۔ اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پہلی اننگز کی بولنگ کچھ آسان ہوتی ہے بلکہ یہ دوسری اننگز کی بیٹنگ ہے جو کہ کراچی کی پچز پہ ہمیشہ آسان ثابت ہوتی رہی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے تو جو دقت ہے سو ہے، شائقین اور ان سے بھی بڑھ کر بجائے خود ٹورنامنٹ کے لیے یہ رجحان نہایت تکلیف دہ ہے۔ دلچسپی تبھی برقرار رہتی ہے جب ممکنات کا ایک ڈھیر لگا ہو اور کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہو۔ نہ کہ یہ عالم کہ جہاں ٹاس ہارے، سمجھو میچ ہار گئے۔ کچھ دخل اس میں پلئینگ کنڈیشنز کا بھی ہے۔ دوسری اننگز کی بولنگ میں دشواری کسی حد تک اوس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ مفروضہ بجائے خود ایسا باوزن نہیں کیونکہ اوس رات کے میچز کو تو متاثر کر سکتی ہے مگر دن میں ہوئے مقابلوں میں بھی اگر تعاقب کرنے والی ٹیم ہی کامیاب رہتی ہے تو ٹاس کے سوا کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ رجحان ٹوٹے۔ کیونکہ اس طرح کا رجحان غالباً ہم سبھی کی طرح ان ٹیموں کے لیے بھی بالکل مختلف اور یکسر نیا ہے۔ دس میچز کا سیمپل اب یہ تعین کرنے کو کافی ہے کہ دوسری اننگز کی بولنگ میں ایسی کیا جدت لائی جائے کہ مجموعے کا دفاع ممکن ہو سکے۔ ابھی تک کھیلے گئے میچز میں بولنگ کے معیارات بھی کچھ خوش کن نہیں رہے۔ سپنرز کو ویسی کامیابی نہیں ملی جو ٹی ٹوئنٹی لیگز بالخصوص پی ایس ایل کا خاصہ رہی ہے۔ اگرچہ ایک ہفتے کا عرصہ اس ٹورنامنٹ کی مجموعی ہئیت کے بارے کوئی رائے دینے کے لیے کافی نہیں ہے مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی ایس ایل کا موجودہ ایڈیشن ابھی تک اپنے تمام سابقہ ایڈیشنز کی نسبت کچھ پھیکا ثابت ہوا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ کراچی کے باقی ماندہ میچز میں یہ اپنا کوئی رنگ جما پاتا ہے یا قصور بالآخر ٹاس کا ہی نکلے گا؟
/urdu/world-55510155
ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق چین 2028 تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اور اس کے مطابق اس کی وجہ کورونا پر قابو پانے میں اس کی کامیابی ہے۔
ایک برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق چین 2028 میں امریکہ سے آگے نکل کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اور ایسا اس ادارے کے پچھلے اندازوں سے کم از کم پانچ سال پہلے ہی ہو جائے گا۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ بزنس ریسرچ (سی ای بی آر) کے مطابق کووڈ۔19 کی عالمی وبا سے ’ماہرانہ‘ طریقے سے نمٹنے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اس کی ترقی کی شرح امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں بڑھے گی۔ انڈیا 2030 میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، اس وقت یہ درجہ جاپان کے پاس ہے۔ اگرچہ چین وائرس سے متاثر ہونے والا پہلا ملک تھا مگر ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس نے تیز اور انتہائی سخت کارروائی کر کے بیماری پر کنٹرول پایا، اور اس کی اس حکمتِ عملی کی وجہ سے اسے معیشت کو تباہ کرنے والے ایسے لاک ڈاؤن بار بار نہیں لگانے پڑے جیسے دوسرے ممالک میں لگائے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2020 میں چین ہی دنیا کی وہ واحد بڑی معیشت ہے جیسے معاشی بدحالی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ 2021 اور 2025 کے درمیان چین کی ترقی کی اوسط شرح 5.7 فیصد ہوگی۔ امریکہ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2021 میں وبا کے بعد اس کی معیشت بڑی تیزی سے مضبوط ہو گی لیکن اس کی ترقی 2022 اور 2024 کے درمیان میں آہستہ آہستہ 1.9 فیصد سالانہ کے حساب سے کم ہوتی جائے گی۔ اگرچہ امریکہ میں ہونے والے معاشی نقصان کو مانیٹری پالیسی اور ایک بہت بڑے امدادی پیکج کے ذریعے کم کیا گیا ہے لیکن شہریوں کو دیے جانے والے ایک نئے پیکج میں امداد پر سیاسی اختلاف کی وجہ سے تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ امریکی اس بنیادی مدد سے محروم رہ سکتے ہیں جس کے وہ منتظر ہیں۔ دوسری طرف جرمنی مضبوط معیشت کے حوالے سے اپنا چوتھا درجہ کھو بیٹھے گا جو کہ اس دہائی کے آخر میں اس کے پاس تھا اور سنہ 2030 سے ​​یہ پانچویں بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔ سی ای بی آر کی رپورٹ کے مطابق ’کچھ عرصے سے امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی جدوجہد اور سفارتی اثر و رسوخ دنیا کی معیشت پر چھایا رہا ہے۔‘ کووڈ۔19 کی عالمی وبا اور اس کے معاشی اثرات نے یقینی طور پر امریکہ کے مقابلے میں چین کو فائدہ پہنچایا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، اس کا اوسط شہری امریکہ کے اوسط شہری سے کہیں زیادہ غریب رہے گا، اور اس کی وجہ چین کی امریکہ سے چار گنا زیادہ آبادی ہے۔
/urdu/entertainment-45806126
سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد پرفارمنس منگل کی رات 12 بجے سے بغیر کسی وقفے کے جاری ہے اور 24 گھنٹے تک جاری رہے گی۔
سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد پرفارمنس منگل کی رات 12 بجے سے بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔ ذوالفقار علی خان کو ان کے جیل کے ساتھی قیدی اور عملہ احتراماً ڈاکٹر ذوالفقار کہتے تھے۔ ان کے پاس علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے حاصل کردہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی تھی جو انھوں نے قید کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ جیل میں قید درجنوں قیدیوں کو تعلیم دی اور اپریل سنہ 2009 کے آخر تک ان کے 12 قیدی شاگردوں نے بی اے، 23 نے انٹر اور 18 نے میٹرک کے امتحانات پاس کیے۔ ذوالفقار علی خان کا ایک خط جو ان کے وکلا نے بی بی سی کو دیا اس میں انھوں نے اپنے جیل کے ایام کے بارے میں تفصیل لکھی، اپنے خدشات، اپنی لاوارث بچیوں کے مستقبل اور ان کی تعلیم کے حوالے سے پریشانیوں کا ذکر کیا۔ ذوالفقار علی خان کے کردار کو نامور ہدایت کار اور اداکار سرمد کھوسٹ ادا کررہے ہیں جن سے ہمارے نمائندے موسیٰ یاوری نے بات کی اور ان سے اس پرفارمنس کا مقصد پوچھا۔ سرمد نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس میں ایک چیلنج تھا، میں نے پہلے کبھی ایسی پرفارمنس نہیں کی، اس طرز کی پرفارمنس نہیں ہوئی۔ سو وہ تو تھا لیکن اس طرح کی چیز کو آپ 24 گھنٹے کا سکرپٹ نہیں دے سکتے۔ اس کا کوئی ڈائیلاگ ہے یا ایکشن ہے اس کو آپ نہیں کر سکتے جب تک آپ اس کو مہنیوں میں توڑ توڑ کر اور حصوں میں شوٹ کریں۔ لیکن یہ براہ راست ہے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے ایک دن زندگی کا ہوتا ہے ۔ تو ادھر تک پہنچنے کے لیے ہم کچھ ایسی چیزیں کر رہے ہیں، تھیٹر میں ریہرسل بہت ضروری ہوتی ہے اس لیے ہم ریہرسل کافی عرصے سے کر رہے ہیں۔‘ اس سارے پروگرام کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی رمل محی الدین نے بتایا کہ ’کافی چیزیں جو لوگوں کو معلوم نہیں کہ جب کسی کو پھانسی دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ مطلب کہ جو سزائے موت کا قیدی ہوتا ہے اس کو جب تین دن تک قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ ان کو صرف چائے یا دودھ یا پیکٹ میں بسکٹ ملتے ہیں۔ ان کو کوئی کھانا نہیں ملتا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ آپ بیمار ہوں۔ یہ چیز کافی پریشان کن ہے کہ ہم ایک بندے کو کہتے ہے کہ وہ مرنے کے لیے بالکل صحت مند ہو۔ کہ جب ایک بندہ بالکل صحت مند ہو، قابل ہو، کام کر سکتا ہو، اپنی پوری زندگی جی سکتا ہے۔ تب ہی آپ اس کو پھانسی دیں گے ورنہ اگر وہ بیمار انسان ہے تو اس کو پھانسی نہیں دے سکتے۔‘
/urdu/world-53521518
یونی لیور نے کہا ہے کہ گھروں پر قیام کے دوران کام کرنے والے لوگ آئس کریم کا زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی عادات و اطوار کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔
صارفین کے لیے مختلف مصنوعات بنانے والے بڑے ادارے یونی لیور نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران گھروں سے کام کرنے والے افراد آئس کریم کا زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی عادات و اطوار کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ جون سے قبل کے تین ماہ میں آئس کریم کی فروخت میں 26 فیصد اضافہ ہوا جبکہ شیمپو اور ڈیوڈرنٹس کی فروخت میں کمی واقع ہوئی۔ ان کے جائزے کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو استعمال کی اشیا، آئس کریم اور چائے کی فروخت میں کافی زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس جائزے نے بتایا ہے کہ گھریلو صفائی میں استعمال ہونے والی بعض مصنوعات، مثال کے طور سینیٹائیزر کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ کووِڈ-19 سے بچنے کی کافی کوشش کر رہے ہیں۔ میگنم اور بین اینڈ جیری برانڈ کی آئس کریم بنانے والی کمپنی نے ان حالات سے سب سے زیادہ استفادہ حاصل کیا ہے کیونکہ صارفین نے اس دوران گھروں پر آئس کریم کھانے کے زیادہ مزے لیے۔ اس کمپنی نے اُس وقت بتایا تھا کہ لوگ جتنا زیادہ گھروں سے کام کر رہے ہیں وہ اتنا ہی کم اپنے بال دھو رہے ہیں، شیو کرنا موخر کر دیتے ہیں اور جسمانی بدبو دور کرنے والے ڈیوڈرنٹ کا استعمال ملتوی کر رہے ہیں۔ تاہم اسی کمپنی کی رپورٹ کے مطابق گھروں کی صفائی کرنے والی اشیا مثلاً صفائی کرنے والے کیمیکلز سی آئی ایف یا ڈومیسٹوز کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اشیا کے بارے میں صارفین کے لیے مخصوص سطحی جگہوں کو صاف رکھنے کے لیے ایک آگاہی مہم کا اجرا کیا گیا تھا تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔ بوس ایلن جوپ نے کہا ہے کہ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ہوٹل کی صنعت، ریستوران اور چائے خانوں کے بند ہو جانے کے باوجود ’یہ کاروبار کتنا مستحکم اور لچکدار ہے۔‘ یونی لیور نے اپنے چائے کے کاروبار میں بھی تبدیلی کا اعلان کیا ہے جن میں گھروں میں استمال ہونے والی چائے لپٹن اور بروک بانڈ بھی شامل ہیں۔ لیکن اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ انڈیا اور انڈونیشیا میں اپنے کاروبار کو قائم رکھے گی اور فوری طور پر تیار ہونے والی چائے کے مشترکہ کاروبار بھی اسی طرح چلتے رہیں گے۔ کمپنی کے اعلان کے مطابق یونی لیور کے چائے کے برانڈز اور جن علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے ان کے درمیان توازن رکھنے کا ایک زبردست مستقبل ہے۔ ’ان دونوں کو الگ کرنے کے عمل کا آغاز جلد ہو گا جس کے سنہ 2021 کے آخر میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔‘
/urdu/world-50883476
اس سے پہلے ستمبر میں بھی ٹوئٹر، ایک سابق شاہی مشیر کے اکاؤنٹ سمیت سات اکاؤنٹس پر پابندی عائد کر چکا ہے جو اس کے مطابق سپیمنگ میں ملوث تھے۔
ٹوئٹر نے مبینہ طور سعودی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے ایک اطلاعاتی آپریشن سے منسلک تقریباً چھ ہزار اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے یہ اعلان جمعے کو اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں کیا۔ ٹوئٹر نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ اکاؤنٹس ایک ’خاصے بڑے‘ آپریشن کا حصہ تھے اور ’پلیٹ فارم پر اثرانداز ہونے کی پالیسیوں‘ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ ٹوئٹر کا مزید کہنا ہے کہ یہ چھ ہزار اکاؤنٹس 88 ہزار اکاؤنٹس سے زیادہ کے ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ تھے جو ’کئی مختلف موضوعات‘ پر ’سپیمنگ‘ کیا کرتے تھے۔ ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مواد عربی میں تھا مگر کچھ ’ان واقعات کے متعلق بھی تھا جو مغربی عوام کی دلچسپی کا باعث‘ ہو سکتے تھے۔ ٹوئٹر کا ماننا ہے کہ اس ’منظم‘ سرگرمی کے تانے بانے سعودی عرب میں قائم ایک سوشل میڈیا مارکیٹنگ کمپنی سمات سے جا ملتے ہیں۔ بی بی سی نیوز نے سعودی حکومت اور سمات سے ٹوئٹر کے الزامات پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
/urdu/pakistan-51190756
چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چینی حکام نے عوام کی نقل و حمل محدود کر دی ہے اور پاکستانی سفارتخانے نے بھی اپنے شہریوں سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چینی حکام نے عوام کی نقل و حمل محدود کر دی ہے اور پاکستانی سفارتخانے نے بھی اپنے شہریوں سے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چین میں پاکستان کے سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عوامی نقل و حمل، پروازوں اور ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہے۔ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانہ پاکستانی شہریوں اور طلبا سے رابطے میں ہے۔ سفارتخانے نے پاکستانی شہریوں سے اپیل کی کہ کسی بھی شخص میں وائرس کی تصدیق کی صورت میں مقامی انتظامیہ اور پاکستانی سفارتخانے کو فوری آگاہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والی سنسنی خیز خبروں پر زیادہ توجہ نہ دیں۔ اب تک پاکستان میں کسی شخص کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ سروسز ہسپتال کے ایم ایس سلیم شہزاد چیمہ نے بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ کچھ دن قبل سروسز ہسپتال آنے والےایک چینی مریض کو فلو کی شکایت تھی اور ان کا علاج ہو رہا ہے۔ ان کے بقول اگرچہ ان کو بظاہر عام فلو ہے لیکن چونکہ وہ حال ہی میں چین کے علاقے ووہان سے سفر کر کے آئے ہیں اس لیے انھیں احتیاطاً ہسپتال میں الگ رکھا گیا ہے اور ابتدائی ٹیسٹ کر لیے گئے ہیں جن کی رپورٹ تین دن میں آنی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی تصدیق پاکستان میں ممکن نہیں اس لیے ان کے آر این اے کے ٹیسٹ نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد بھجوائے گئے ہیں اور مزید تصدیق کے لیے یہ سیمپل چین بھجوائے جائیں گے جہاں سے ان میں کورونا وائرس کی تصدیق ممکن ہو پائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ جہاں وہ رہتے ہیں ان کے ساتھی اور علاقے کے تمام لوگ صحت مند ہیں اور کسی میں بھی فلو کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس چینی باشندے کے ووہان میں خاندان سے بھی رابطہ کیا گیا ہے ان میں سے بھی کوئی اب تک کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ اس نئے وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جتا ہے۔ چونکہ یہ اس وائرس کی ایک ایسی نئی قسم ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں پائی گئی، اس لیے اب تک کوئی ایسی ویکسین سامنے نہیں آئی جو اس وائرس کے خلاف کارآمد ثابت ہو۔ تاہم محققین ویکسین تشکیل دینے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔
/urdu/pakistan-61012957
انتخابی ادارے نے سپریم کورٹ اور صدر پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ انتخابات کے لیے کم سے کم سات مہینے درکار ہوں گے اور نئی حد بندیوں کے بغیر صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے تین اپریل کو اعلان کیا تھا کہ انھوں نے صدر عارف علوی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور عام انتخابات کروانے کی تجویز دے دی ہے جس سے پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر نے مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس رولنگ کو کالعدم قرار دیا جس کے نتیجے میں اسمبلی توڑنے کا عمل بھی غیر آئینی قرار پایا۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی صورت عام انتخابات کروانے کا فیصلہ ہو بھی جائے تو الیکشن کمیشن کتنی جلدی الیکشن کروا پائے گا کیوں کہ حال ہی میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کم از کم سات ماہ سے قبل نہیں ہو سکتے کیوں کہ صرف انتخابی حد بندیوں کے لیے اضافی چار ماہ درکار ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے لیے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سے پہلے ایک خط کے جواب میں صدرِ پاکستان کو اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں، انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکتے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جوابی خط کے ذریعے صدر کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے لیے اسے رواں برس اکتوبر تک کا وقت چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے اسے کم سے کم سات ماہ درکار ہوں گے 'ایمرجنسی صورتحال میں الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اتنی جلدی ای وی ایم پر انتخابات کروا سکے۔ اس کے لیے لاکھوں میں مشینیں خریدنا ہوں گی، اس کے بعد لاکھوں کے عملے کو ٹریننگ دینا ہو گی اور پھر نتائج کو مرتب کرنے کا طریقہ کار بنانا ہو گا۔' الیکشن کمیشن نے تاحال اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی کہ کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ووٹ ڈال سکیں گے یا نہیں۔ بی بی سی نے اس حوالے سے جاننے کے لیے الیکشن کمیشن کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔ الیکشن کمیشن نے صدر کو لکھے خط میں بتایا کہ کونسل آف کامن انٹرسٹس کی طرف سے مردم شماری کے نتائج شائع کیے جانے کے بعد الیکشن کمیش نے نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کیا ہی تھا کہ حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے بعد کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کا کام روکنا پڑا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ کمیشن نے اس حوالے سے پارلیمانی امور کی وزارت کو دو خط لکھے جن میں رواں سال کے آخر تک ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ نئی حلقہ بندیوں کا کام وقت پر مکمل کیا جا سکے۔
/urdu/science-58262634
عام خیال یہ ہی ہے کہ میٹھا زیادہ کھانا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا لیکن خوراک میں میٹھے کی مقدار بہت کم کرنے سے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ بہت سی ناخوشگوار علامات کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
عام خیال یہ ہی ہے کہ میٹھا زیادہ کھانا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا لیکن خوراک میں میٹھے کی مقدار بہت کم کرنے سے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ بہت سی ناخوشگوار علامات کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ایسا کئی وجوہات کی بنا پر ہو رہا ہے جیسا کہ لوگوں کے ذائقوں یا طرز زندگی میں تبدیلی اور نشاستہ دار غذا کم کرنے کا رجحان۔ گزشتہ ایک دہائی میں کیٹو خوراک کی مانگ بڑھنے سے یا چینی کے مضر صحت ہونے کے بارے میں زیادہ آگاہی پیدا ہونے کی وجہ سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ خوارک میں چینی کی مقدار کم کرنے کے صحت پر واضح طور پر مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اور کیلوریز کم لینے سے بھی صحت بہتر ہوتی ہے اور اس سے وزن بھی کم ہوتا ہے۔ چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چینی چاہے وہ خوراک کی صورت میں لی جائے یا اس کو انجیکشن کے ذریعے خون میں شامل کیا جائے اس سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق منہ میں ذائقہ محسوس کرنے کے اجزا سے نہیں ہوتا۔ ان علامات کی بنیاد پر وسیع تر تحقیق نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا تعلق ذہن کے انعامی جوڑوں سے ہے۔ چینی کی لت لگ جانے کا خیال ابھی متنازع ہے لیکن چوہوں پر تحقیق سے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بہت سے دوسرے ایسے اجزا جن کی آپ کو عادت یا لت پڑ جاتی ہے اور ان میں چینی بھی شامل ہے اور اس کو چھوڑنا مختلف اثرات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثالاً چینی کھانے کی شدید خواہش، طلب اور طبعیت میں بے چینی کا پیدا ہونا۔ جو لوگ اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کم کرتے ہیں ان کے ذہن کے کیمیائی توازن پر یقینی طور پر اثر پڑتا ہے اور یہ ہی ان علامات کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے۔ ڈوپامین انسانی دماغ میں، قے، غنودگی، بے چینی اور ہارمون کو کنٹرول کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔ گو کہ چینی کے انسانی دماغ پر ہونے والے اثرات پر تحقیق محدود ہے لیکن ایک تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ موٹاپے اور کم عمری میں فربا مائل افراد کی خوراک میں چینی کم کرنے سے اس کی طلب شدید ہو جاتی ہے اور دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ خوراک میں کسی بھی دوسری تبدیلی کی طرح اسے برقرار رکھنا اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ چینی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے ابتدائی چند ہفتے انتہائی اہم ہوں گے۔ تاہم یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ چینی آپ کی صحت کے لیے مضر ہے لیکن اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال اور ورزش صحت مند خوراک کے ساتھ ضروری ہے۔
/urdu/world-57472274
ایک امریکی شہری اور اس کے بیٹے نے نِسان کے سابق سربراہ کارلوس غصن کو سنہ 2019 میں جاپان سے فرار ہونے میں مدد دینے میں اپنا کردار تسلیم کر لیا ہے۔
ایک امریکی شہری اور اس کے بیٹے نے نِسان کے سابق سربراہ کارلوس غصن کو سنہ 2019 میں جاپان سے فرار ہونے میں مدد دینے سے متعلق اپنا کردار تسلیم کر لیا ہے۔ امریکہ کی سپیشل فورسز کے 60 سالہ سابق ملازم مائیکل ٹیلر اور ان کے 28 سالہ بیٹے پیٹر کو امریکہ سے ان دعؤوں کی بنیاد پر جاپان کے حوالے کیا گیا تھا کہ انھوں نے کارلوس غصن کو اپنے ایک سامان والے صندوق میں اس وقت نجی طیارے میں فرار ہونے میں مدد دی جب ان کا ٹرائل شروع ہونے والا تھا۔ نجی سکیورٹی کے ماہر امریکی شہری مائیکل ٹیلر اور ان کے بیٹے نے جاپان حوالگی سے قبل ایک ماہ تک قانونی جنگ لڑی۔ مگر اس کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ نے ان دونوں کو رواں برس مارچ میں جاپانی حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا۔ واضح رہے کہ استغاثہ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان دونوں باپ بیٹے نے کارلوس غصن کو سنہ 2019 میں مغربی جاپان کے کینسائی ایئرپورٹ سے لبنان فرار ہونے میں مدد دی تھی اور اس کے بدلے دونوں نے 13 لاکھ ڈالر وصول کیے۔ نِسان کے سابق سربراہ جن کو بدعنوانی کے مقامے کا سامنا تھا جاپان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے نسان کے سابق سربراہ اس وقت ایک عالمی مفرور بن چکے ہیں جو اب لبنان میں اپنے بچپن کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ خیال رہے کہ لبنان اور جاپان کی آپس میں مجرموں کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ جس وقت کارلوس غصن فرار ہوئے وہ اس وقت ضمانت پر تھے۔ غصن کو اُس برس اپریل میں نوے لاکھ ڈالر کی ضمانت پر سخت شرائط کے ساتھ رہا کیا گیا تھا جن میں سے ایک ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی بھی تھی۔ ان کی ٹوکیو میں رہائش کے ارد گرد ویڈیو کیمرے لگے ہوئے تھے جہاں ان کی 24 گھنٹے نگرانی ہوتی تھی۔ ان پر ٹیلی فون اور کمپیوٹر استعمال کرنے کی بھی پابندی تھی۔ ایک لبنانی چینل ایم ٹی وی نے دعویٰ کیا تھا کہ کارلوس غصن ٹوکیو میں اپنی رہائش گاہ سے نیم فوجی دستوں کی مدد سے موسیقاروں کے ایک بینڈ کے ساتھ فرار ہوئے۔‘ ترکی کی ایک عدالت نے کارلوس کو ترکی کی ایک طیارے بنانے والی کمپنی ایم این جی کے جیٹ میں جاپان سے فرار ہونے میں مدد دینے پر دو پائلٹس کو بھی سزا سنائی ہے۔ اخبار نے کئی غیر تصدیق شدہ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اس پلان کو کامیاب بنانے کے لیے ٹیم بڑی احتیاط سے بنائی گئی تھی۔ اخبار کے مطابق جاپان میں ان کے ساتھیوں نے کارلوس غصن کو ایک نجی جیٹ کے ذریعے استنبول روانہ کیا۔ وہاں سے انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور 30 دسمبر کی صبح بیروت پہنچ گئے۔
/urdu/world-61367323
امریکہ نے مزید 2600 روسی اور بیلاروسی افراد پر ویزے کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ پابندیوں کا سامنا کرنے والوں میں تین روسی ٹی وی چینلز کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں جبکہ جی سیون رہنماؤں نے روسی تیل پر مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
امریکی خاتون اول جِل بائیڈن نے یوکرین میں اپنی ہم منصب اولینا زیلنسکی سے ملاقات کی ہے۔ جبکہ واشنگٹن نے ماسکو پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ ادھر روسی مداخلت کے جواب میں امریکہ نے مزید 2600 روسی اور بیلاروسی افراد پر ویزے کی پابندیاں لگائی ہیں۔ ان میں تین روسی ٹی وی چینلز کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں۔ جی سیون رہنماؤں نے روسی تیل پر مرحلہ وار پابندی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکہ اور یوکرین کی خواتین اول کے درمیان ملاقات ایک سکول میں ہوئی جسے بے گھر افراد کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اولینا زیلنسکی نے کہا کہ جِل بائیڈن نے یوکرین کا دورہ کر کے ’جرات مندانہ فیصلہ‘ کیا جب یہاں جنگ جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر وہ یوکرین آئیں۔ ’اس اہم دن پر ہم آپ کی محبت اور حمایت محسوس کر سکتے ہیں۔‘ نئی امریکی پابندیوں کا اعلان اس وقت کیا گیا جب جی سیون رہنماؤں نے صدر زیلنسکی سے ویڈیو کال پر بات چیت کی۔ ایک بیان میں جی سیون نے کہا کہ روسی صدر پوتن کے اقدامات ’روس اور اس کے لوگوں کی تاریخی قربانیوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔‘ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین میں ایک سکول پر بمباری میں قریب 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لوہانسک کے گورنر نے بتایا کہ یہاں 90 افراد نے محفوظ پناہ حاصل کر رکھی تھی اور اس عمارت سے 30 لوگوں کو نکال لیا گیا ہے۔ خارخیو میں فروری سے شدید شیلنگ جاری ہے۔ خطے کے گورنر نے سنیچر کو کہا کہ روسی دستے اب بھی شہریوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ انھوں نے شہریوں سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں کے سائرنز کو نظر انداز نہ کریں۔ انسٹی ٹیوٹ آف دی سٹڈی آف وار کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرینی دستے خارخیو کے قریبی مقامات پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ یوکرین کی مزاحمت سے روس پر دباؤ بڑھے گا اور اس طرح یہ 'روسی سرحد کی طرف مزید پیشرفت حاصل ہوسکے گی۔‘ خارخیو میں بچوں کے ایک ڈاکٹر ہبانوف پیولو نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ محفوظ پناہ گاہوں یا شیلٹرز میں چھپے ہوئے ہیں اور ملازمتوں پر نہیں جا رہے۔ ’شہر میں زندگی معمول کے مطابق نہیں۔ خارخیو روسی سرحد سے کافی قریب ہے اور یہ شہر اکثر حملے کی زد میں آتا ہے۔ افسوس ہے کہ جنگ جاری ہے اور ہم بغیر کسی ڈر کے نہیں رہ سکتے۔' یوکرینی خاندانوں نے عالمی رہنماؤں نے محفوظ انخلا اور امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر کریملن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہم بڑا جشن منائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس روز سرکاری دورے کا کوئی منصوبہ نہیں۔
/urdu/science-48986717
زمین پر حدت میں اضافے کے نتیجے میں ہماری بعض مرغوب غذاؤں کے ناپید ہونے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ ان چیزوں پر ایک نظر جو شاید چند دہائیوں میں ہمیں نظر نہیں آئيں گی۔
ہمیں اپنی بعض مرغوب غذاؤں کو الوداع کہنا پڑ سکتا ہے اور اس سب کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب کافی پیدا کرنے والے علاقوں میں سنہ 2050 تک ممکنہ طور پر نصف کی کمی واقع ہو سکتی ہے جبکہ سنہ 2080 تک کافی کی جنگلی اقسام تقریباً ناپید ہو جائیں گی۔ 40 سال کے عرصے میں گھانا اور آئیوری کوسٹ میں مزید دو ڈگری تک درجۂ حرارت بڑھنے کا خدشہ ہے۔ یہ دو ممالک دنیا کے دو تہائی کوکو کی برآمد کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے نتیجے میں سستے داموں پر چاکلیٹ کا حصول یقیناً ختم ہو جائے گا۔ سمندری جاندار درجۂ حرارت میں تبدیلی کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ سمندر کے گرم ہونے کے نتیجے میں وہ شمال کا رخ کریں گے خیال رہے کہ مچھلیاں سائز میں چھوٹی ہو رہی ہیں اور اس کی ایک وجہ گرم سمندر میں آکسیجن کی سطح کا مسلسل کم ہونا ہے۔ سمندر کے پانی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی شمولیت پانی کو مزید تیزابی بنا رہی ہے جس کی وجہ سے صدفی مچھلیوں کو اپنی کھال بنانا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کے ٹھوس شواہد جال میں نظر آتے ہیں جہاں عالمی سطح پر پانچ فیصد کی کمی واقع ہو چکی ہے اور جو شمالی سمندروں میں ماہی گیری کرتے ہیں ان کی مچھلیوں میں ایک تہائی کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ہر چند کہ آلو زمین کے نیچے پیدا ہوتے ہیں لیکن بار بار کی خشک سالی کے ان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ جنوب مغربی فرانس میں 600 سال سے جاری کوگنیک (برانڈی کی ایک قسم) کی صنعت کو بحران کا سامنا ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں ان کے انگور اتنے میٹھے ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کی کشید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پیدا کرنے والے مناسب متبادل کے لیے ہر سال تحقیق پر ہزاروں یورو خرچ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی مصنوعات سے آپ کا لینا دینا نہیں یا وہ آپ کے لیے انتہائی ضروری نہیں۔ لیکن اس بات پر غور کریں کہ عالمی سطح پر فوڈ چین میں آنے والی اس ڈرامائی تبدیلی سے سینکڑوں ہزار لوگوں کے روزگار چلے جائيں گے۔ قیمتوں میں اضافے کی بات ہی نہیں کیونکہ فصلوں کے خراب ہونے یا نہ ہونے کے نتیجے میں قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔ خوراک میں کمی سے انسانی بحران پیدا ہو جائے گا جو سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا سبب ہوگا۔ اس لیے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اب یہ محض آپ کی صبح کی چائے کا مسئلہ نہیں رہ گیا ہے۔
/urdu/entertainment-53260222
سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد سے غم میں نڈھال کچھ فلمی اور غیر فلمی لوگ ابھی رو رو کر تھکے نہیں تھے کہ ماتم منانے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس فہرست میں نیا نام شیکھرسمن کا بھی ہے۔ کہیں وہ اس سے اپنا سیاسی کیریئر تو بنانے نہیں نکل پڑے۔
کہتے ہیں ہر دور میں قابلیت اور کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں فلموں کی کامیابی کی ضمانت سلور اور گولڈن جوبلی ہوا کرتی تھی، یعنی 25 سے 50 ہفتے۔ اب باکس آفس کا زمانہ ہے، اگر فلم نے کچھ ہی دنوں میں سو کا نمبر پار کر لیا تو آپ بادشاہ یا کوئن آف بالی وڈ کہلاتے ہیں۔ اپنے خوبصورت اور مسحور کر دینے والے رقص کے لیے مشہور اداکارہ نورہ فتحی نے اس ہفتے جشن منایا اور اس جشن کی وجہ یہ تھی کہ انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ (14 ملین) سے زیادہ ہو گئی ہے۔ سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد سے غم میں نڈھال کچھ فلمی اور غیر فلمی لوگ ابھی رو رو کر تھکے نہیں تھے کہ ماتم منانے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس فہرست میں نیا نام شیکھرسمن کا بھی ہے جو انڈسٹری میں اپنی کوئی خاص جگہ نہیں بنا سکے اور بہت کوششوں کے باوجود بھی کسی بڑے فلمساز سے اپنے بیٹے کو لانچ بھی نہیں کروا سکے۔ اس لیے انھیں لگا کہ اقربا پروری کی بحث میں ان کا بھی حصہ بنتا ہے۔ بہر حال وہ بھی ریاست بہار میں سوشانت سنگھ کے والدین سے ملنے جا پہنچے اور ملاقات کے بعد انھیں کے گھر کے باہر میڈیا سے بھی خطاب کر ڈالا کہ ’سوشانت سنگھ کو انصاف دلوا کر رہیں گے۔‘ شیکھر سمن کی میڈیا میں اس بات چیت کی وڈیو کے ساتھ ہی ریاست بہار میں ہونے والے انتخابات میں ان کے سیاسی عزائم کا ذکر بھی عام ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کی اس حرکت سے سوشانت کے گھر والے خوش نہیں ہیں اور وہ سوشانت کی موت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بالی وڈ میں مبینہ اقربا پروری کے خلاف پرچم اٹھا کر سب سے آگے چلنے والی اداکارہ کنگنا رناوت کی ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر ان کے کمنٹس کے بعد سے سوشل میڈیا پر لوگوں نے فلمی گھرانوں اور ان کے بچوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انڈسٹری کے باہر سے آنے والے لوگوں کو کام ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اب کرن جوہر جو کئی ستاروں کے بچوں کو لانچ کر چکے ہیں، وہ اس تو تو میں میں میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ اس شو پر ان کے ساتھ سیف علی خان بھی موجود تھے۔ حال میں ایک انٹرویو کے دوران سیف نے کہا کہ اس وقت انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کنگنا کیا کہہ رہی ہیں، لیکن کسی کے شو پر آ کر اسی شخص کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ٹھیک نہیں۔ سیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ کرن جوہر بہت کامیاب ہیں اور انڈسٹری میں ایک علامت بن چکے ہیں اس لیے انھیں نشانہ بنانا آسان ہے، کرن اس طرح کی تنقید کے حقدار نہیں ہیں۔
/urdu/pakistan-50133660
سروسز ہسپتال کے ڈاکٹر محمود ایاز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ منگل کو انھوں نے نواز شریف کی طبعیت مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور کل (بدھ کو) وہ اس بات کی تحقیق کریں گے کہ آخر پلیٹلیٹس کی مقدار میں کمی کیوں ہوئی۔
سروسز ہسپتال کے ڈاکٹر محمود ایاز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ منگل کو انھوں نے نواز شریف کی طبعیت مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور کل (بدھ کو) وہ اس بات کی تحقیق کریں گے کہ آخر پلیٹلیٹس کی مقدار میں کمی کیوں ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق جب نواز شریف کو پیر کی رات نیب لاہور نے طبیعت ناساز ہونے پر سروسز ہسپتال منتقل کیا تو ان کے جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد 16 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ منگل کو ان کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی۔ دن میں ایک موقعے پر پلیٹلیٹس کی یہ تعداد صرف دو ہزار رہ گئی تھی۔ تاہم سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور نواز شریف کے معائنے کے لیے تشکیل دیے گئے ڈاکٹروں کے بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تعداد دوبارہ بحال ہو گئی تھی۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان جو نواز شریف کی ساتھ موجود تھے، انھوں نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’نواز شریف کو پلیٹلیٹس کے تین میگا یونٹس لگائے گئے تھے۔ ان کے جسم سے اندرونی یا بیرونی کسی قسم کے خون کا انخلا ہوا تھا اور نہ ہوا ہے‘۔ نواز شریف کی جسم میں پلیٹلیٹس کی کمی کیوں واقع ہوئی؟ اس حوالے سے سِمز کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے بی بی سی کو بتایا کہ 'آج ہم نے ان کی طبعیت مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور کل (بدھ کو) ہم وجہ کی تحقیق کریں گے کہ پلیٹلیٹس کیوں کم ہوئے‘۔ پیر کی رات مسلم لیگ ن کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میاں نواز شریف کا طبی معائنہ سروسز ہسپتال میں کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ مسلم لیگ ن کی صدر میاں شہاز شریف اور نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان موجود ہیں۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’خون کے نمونوں کے ٹیسٹ رپورٹس میں نواز شریف کے خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد انتہائی کم 16 ہزار آنے پر نیب حکام سے پانچ گھنٹے تک نواز شریف کو ہسپتال منتقل کرنے کی درخواست کرتے رہے لیکن نیب نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’نیب کی جانب سے کوئی ردعمل نہ ملنے پر ہم نے ان رپورٹس کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری کیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ کارکنان کے نیب دفتر کے باہر پہنچنے کے بعد نیب حکام نے مجبوری میں نواز شریف کو ہسپتال منقتل کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پلیٹلیٹس میں کمی مبینہ طور پر ایک ایسی دوا کی وجہ سے ہوئی ہے جو خون کو پتلا کرتی ہے۔ ان کے مطابق اس دوا کو مبینہ طور پر ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے تجویز کیا تھا۔
/urdu/regional-57548111
سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے آزادی کی خوشی کو گہنا دیا تھا۔ کھینچی گئی سرحدوں کے دونوں جانب نئی نئی وجود میں آنے والی ریاستیں مذہبی فسادات سے شدید متاثر تھیں۔
سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے آزادی کی خوشی کو گہنا دیا تھا۔ کھینچی گئی سرحدوں کے دونوں جانب نئی نئی وجود میں آنے والی ریاستیں مذہبی فسادات سے شدید متاثر تھیں۔ نانک بتاتے ہیں کہ ’میرے والد ایک کسان تھے جو راتو ڈیرو نامی علاقے کے قریب رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں تھا جس میں کھیت اور پہاڑیاں تھیں۔ وہ خوشی کے دن تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ تقسیم کے اعلان کے کچھ ہفتوں کے بعد ہی صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ہمارے کنبے کو اپنے علاقے سے نکلنا پڑا۔ وہ ایک خطرناک اور ڈراؤنا سفر تھا۔‘ ہرداس صرف چار ماہ کے تھے جب اُن کے والد سنمُکھ مکھیجا نے سنہ 1948 میں صوبہ سندھ چھوڑنے اور انڈیا آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہرداس کے والد ایک فریڈم فائٹر تھے لیکن سندھ کے بہت سے دوسرے نوجوانوں کی طرح تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی اُن کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے تھے۔ ان انتہائی مشکل حالات میں سندھ سے آنے والے یہ لوگ نئی زندگی کی ابتدا کرنا سیکھ رہے تھے۔ یہاں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 90 ہزار کو عبور کر چکی تھی۔ حکومت نے ان کے لیے نیا شہر بنانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو اس میں آباد کیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد سندھیوں کے علاوہ کراچی سے آ کر الہاس نگر میں آباد ہونے والے مراٹھی عوام نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ اُن کی تنظیمیں جیسا کہ سندھ مہاراشٹریا سماج اور شری کالیکا کلا منڈل آج بھی چل رہی ہیں۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے نانک منگلانی کہتے ہیں ’لوگ یہاں سے گزرنے والی لوکل ٹرینوں میں اشیائے ضروریہ اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرتے تھے۔ انھیں جو بھی کام ملتا تھا وہ کرتے تھے۔ میں نے بھی سٹیشن میں پورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ وہ وقت ایسا تھا کہ پیٹ بھرنے کے لیے ایک جدوجہد جاری تھی۔‘ یہاں کے ایک سینیئر پولیس افسر بتاتے ہیں کہ ’الہاس نگر کے جرائم پیشہ گروہ ممبئی انڈر ورلڈ سے وابستہ تھے۔ جب تاوان کی رقم کو لے کر بدنام زمانہ راجوانی اور کالانی گروہوں کے مابین گینگ وار ہوا تو پانچ، چھ ماہ کی قلیل مدت میں دس سے پندرہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ہر منگل کو کسی نہ کسی طرح قتل ہوتا تھا۔ پپو کالانی نے دہشت کی اپنی سلطنت بنائی تھی اور انھیں مقامی لوگوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔‘ وہ کہتے ہیں 'میرے خیال میں نوجوانوں کو اپنے کنبے کے بزرگوں سے بات کرنی چاہیے اور ان کی تاریخ اور ورثہ کو سمجھنا چاہیے تاکہ وہ آنے والی نسل کو اس کے بارے میں بتا سکیں۔'
/urdu/pakistan-57409448
کیا واقعی ہی بوگی نمبر دس میں خرابی ہی ملت ایکپریس کے پٹڑی سے اترنے کا سبب بنی تھی اور دوسری طرف سے آنے والی ٹرین کو روکا کیوں نہیں گیا تھا؟ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوال بچے جانے والوں اور لواحقین کے ذہنوں میں ہیں مگر تاحال ان کے جوابات تلاش نہیں کیے جا سکے۔
وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد سمیع اور خاندان کے دیگر کئی افراد کے ساتھ ملت ایکپریس میں سوار تھے۔ انھیں یاد ہے کہ ڈہرکی سٹیشن پر ایک گھنٹے سے زیادہ دیر رکنے کے بعد جب ٹرین چلی تھی تو تھوڑی ہی دیر بعد اس کی وہ بوگیاں الٹ گئی تھیں جن میں وہ اور ان کے رشتے دار سوار تھے۔ 'کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کون کدھر ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے نام لے کر پکارنا شروع کیا۔ اس کے بعد میں کسی طرح باہر نکلنے میں کامیاب ہوا اور پھر دوسرے لوگوں کو نکالنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک اور ٹرین کے ہارن کی آواز آئی اور کچھ ہی سیکنڈ بعد وہ ٹرین نیچے پڑی بوگیوں سے ٹکرا گئی۔‘ محمد عامر کو کندھے پر گہری چوٹ آئی تھی، ان کا سر چکرا گیا تھا وہ وہ دور جا کر بیٹھ گئے تھے۔ اُن کی بوگیوں سے ٹکرانے والی سر سید ایکسپریس تھی جو مخالف سمت سے آ رہی تھی اور ملت ایکسپریس کی الٹی ہوئی بوگیاں اس کے راستے میں ٹریک پر الٹی پڑی تھیں۔ 'پہلے یوں لگا جیسے ڈبے کو زور کا جھٹکا لگا ہے اور ہم سب لڑکھڑا گئے۔ جو جہاں تھا اس نے وہیں ڈنڈوں کو پکڑ لیا۔ اس کے بعد ہمارا ڈبہ الٹ گیا۔ اس وقت لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا تھا لیکن جو چیخ و پکار اس وقت اٹھی جب دوسری ٹرین ہماری بوگیوں سے ٹکرائی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔' گرد و غبار اور چیخ و پکار کے دوران محمد عامر اور ان کے خاندان کے دیگر لڑکوں نے اپنوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اس وقت تک دن کی ہلکی روشنی ہونا شروع ہو چکی تھی لیکن ان کی بہن اور چھوٹی بھانجی مقدس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ’لیکن پھر پتہ نہیں وہ ٹھیک ہوا یا نہیں، انھوں نے ٹرین کو چلنے کا کہہ دیا۔ ٹرین ابھی تھوڑی دور ہی چلی تھی اور رفتار بھی زیادہ نہیں تھی کہ کئی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ بوگی نمبر دس ہی اس کا سبب بنی تھی۔‘ تاہم ان کے خیال میں اگر حادثے کی اطلاع مل جانے کے بعد دوسری طرف سے آنے والی سر سید ایکسپریس کو روک لیا جاتا تو زیادہ جانی نقصان ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ کیا واقعی ہی بوگی نمبر دس میں خرابی ہی ملت ایکسپریس کے پٹڑی سے اترنے کا سبب بنی تھی اور دوسری طرف سے آنے والی ٹرین کو روکا کیوں نہیں گیا تھا؟ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوال محمد عامر، زنیرہ اور ان جیسے دیگر افراد کے لواحقین کے ذہنوں میں ہیں مگر تاحال ان کے جوابات تلاش نہیں کیے جا سکے۔
/urdu/science-51798265
دو میکسیکن نوجوانوں نے کیکٹس کی ایک مقامی قسم سے ایسا چمڑا تیار کیا ہے جو ان کے مطابق ماحول دوست انداز میں تیار ہوتا ہے، دس سال سے زیادہ عرصے تک چل سکتا ہے، اور استعمال کے بعد بھی ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں۔
یہ گوشت کی صنعت کی ضمنی پیداوار ہے لیکن اسے قابلِ استعمال بنانے کے لیے بہت زیادہ پانی، طاقت اور کیمیکلز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سب کی وجہ سے ماحول کو ایسے ہی نقصان پہنچتا ہے جیسے چمڑے کے متبادل پلاسٹک کی وجہ سے۔ ویلاردے اور کیزاریز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 500 سے زیادہ میکسیکن کیکٹس کی اقسام پر تجربات کیے جس کے بعد انھیں کانٹے دار نوپل کیکٹس کے پتے ملے جو جسم کے ساتھ رگڑ کھا سکتے تھے اور ان میں گھٹن بھی محسوس نہیں ہوتی۔ کیکٹس کا استعمال طبی سپلیمنٹس میں ہوتا ہے، انھیں گھر کے اندر سجاوٹ کے لیے اور حتٰی کہ کھانے کے طور پر بھی زیرِ استعمال لایا جاتا ہے۔ کیزاریز کہتے ہیں، ’ویسے تو گائے کا چمڑا کافی مضبوط ہوتا ہے لیکن اس میں سے رساؤ ہوسکتا ہے، اور اگر گیلا ہونے کے فوری بعد اسے خشک نہ کیا جائے تو یہ سڑ سکتا ہے یا پھٹ سکتا ہے۔ ہمارا کیکٹس لیدر نمی اور پانی سے بہتر انداز میں نمٹتا ہے۔‘ دو میکیسیکن انٹرپرینورز ایک سال کے ایک ہی دن میں پیدا ہوئے اور ان کی ملاقات 2011 میں تائیوان میں ہوئی جہاں وہ پڑھنے کے لیے گئے تھے۔ انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ چمڑا بنانے میں کس قدر پانی اور کیمیکلز کا استعمال ہوتا ہے۔ کچی کھالوں کو پراسیس کرنے سے بہت سا کچرا اور فضلہ پیدا ہوتا ہے جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے چمڑا فیشن کی صنعت کا لازمی جزو ہے اور فیشن کی صنعت اب طیاروں اور بحری جہازوں کے مجموعی کاربن اخراج سے بھی زیادہ کاربن خارج کرتی ہے۔ ان دونوں کی جوڑی نے مارکیٹ میں موجود خلا کو پہچانا اور ایک ایسا مٹیریل تیار کرنے کی ٹھان لی جو انسانوں اور زمین کے لیے نقصاندہ نہ ہو۔ ویلاردے کہتے ہیں کہ ’اگر اچھی طرح خیال رکھا جائے تو ہمارے مٹیریل 10 سال سے بھی زیادہ عرصے تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ ہم نے (الٹراوائلٹ شعاعوں کی مدد سے) لیبارٹری میں ان کی عمر کی آزمائش کی کہ یہ مٹیریل کتنا عرصہ چل سکتا ہے۔‘ جب انھوں نے گذشتہ سال اکتوبر میں اٹلی کے شہر میلان میں ایک صفِ اول کی چمڑے کی نمائش میں اپنی مصنوعات کی نمائش کی تو انھیں بالآخر وہ شہرت ملی جس کی انھیں طویل عرصے سے ضرورت تھی۔ اس میں دلچسپی اور لوگوں کا جوش فوراً ہی باقاعدہ آرڈرز میں تبدیل ہوگئے۔ دونوں نے سرمایہ کاری کر کے ایک کمپنی قائم کی جو ان کے مطابق ’فوراً ہی مالی طور پر خودمختار ہوچکی ہے۔‘ اب انھوں نے کمرشل گاہکوں کے لیے بھی پیداوار شروع کر دی ہے اور اب وہ فیشن اور گاڑیوں کی صنعت کو ماحول دوست سامان کی فراہمی کرنے والے مرکزی سپلائر بننا چاہتے ہیں۔
/urdu/world-59808355
مغرب اور امریکہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بین الاقوامی سطح پر مستقبل میں چین کے عروج میں روس کسی حد تک اپنا کھویا ہوا وقار اور حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ ماہرین کے مطابق ’شاید پوتن کو لگتا ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ کیسے کرنا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
اس طرح، سنہ 2000 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پوتن نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ہاتھوں برسوں کی مبینہ تذلیل کے بعد روس کی عالمی طاقت کی حیثیت کو بحال کرنے کے اپنے عزم کو کوئی راز نہیں رکھا۔ تجزیہ کار نے مزید کہا کہ پوتن نے روس کو بچایا ہے اور بین الاقوامی منظر نامہ پر روس کے کھوئے ہوئے مقام کو بحال کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’روس اپنے ممکنہ دشمنوں کو اپنے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ روس نیٹو تنظیم کو اپنی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ نیٹو اس کی سرحدوں پر آ کر بیٹھ جائے۔' پوتن نے کہا کہ 2004 میں انھوں نے مغرب کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایسی کارروائی کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس وقت مغربی دنیا روس سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ روس کی عالمی طاقت کو بحال کرنے کی اپنی دوڑ میں، پوتن نے یہ بھی اپنے اوپر لے لیا ہے کہ وہ ان خطوں میں تعلقات کو مضبوط کریں جو پہلے سے ہی سوویت یونین کے لیے دفاعی لحاظ سے اہم تھے جیسے لاطینی امریکہ۔ جیسا کہ ماہر بتاتی ہیں لاطینی امریکہ میں روس کی موجودگی ایک وسیع تر بین الاقوامی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا بنیادی مقصد خطے میں امریکی قیادت کو کمزور کرنا اور دوسری بڑی ابھرتی ہوئی طاقت چین سے مقابلہ کرنا ہے۔ آپ کسی ملک کو جوہری پاور پلانٹ بنا کر دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کا پکا وفا دار ہو گیا ہے۔ کریملن نے کہا ہے کہ روس کا یوکرین پر نیا حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مغرب نے خود کو ماسکو کے جارحانہ عزائم پر قائل کر لیا ہے جس کی بنیاد پر وہ مغربی میڈیا کی جھوٹی خبریں کہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پوتن نے روس کو دنیا میں ایک قابل احترام، اور خوف اور دبدبا رکھنے والا ملک بنانے کا اپنا ہدف پہلے ہی حاصل کر لیا ہو، لیکن جیسا کہ کوہرٹ نے اشارہ کیا، صدر کو نئے عالمی نظام میں روس کے لیے پائیدار جگہ ملنے کا امکان نہیں ہے ایسی جگہ جہاں اُس سے برابری کی سطح پر برتاؤ کیا جائے۔ کنگز کالج کے ماہر کا کہنا ہے کہ |میرا خیال ہے کہ روس اب بھی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اب چین کے عروج کے ساتھ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘ ’شاید پوتن کو لگتا ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ کیسے کرنا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
/urdu/entertainment-59930592
جلال چانڈیو کے عروج کے دور میں اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سندھ کے دیہی گھرانوں میں اُن کی دستیابی دیکھ کر بچوں کی شادی کی تاریخ طے کی جاتی تاکہ جلال ان کی شادی کی تقریب میں اپنی پرفارمنس دے سکیں۔
جلال چانڈیو کی وفات پر سینیئر صحافی اسحاق منگریو نے روزنامہ ’کاوش‘ میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ایک شادی کی تقریب میں جلال کی محفل تھی ڈاکو آ گئے اور کہا کہ آپ لوگوں نے سُن لیا اب اُن کی باری ہے۔ جس کے بعد ڈاکو جلال چانڈیو اور اُن کے سازندوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سندھ میں جلال چانڈیو جب مقبولیت کے عروج پر تھے اُس وقت جنرل ضیا الحق کی آمریت کا دور تھا اور سندھ میں احساس محرومی بڑھ چکا تھا۔ سیاسی جدوجہد، گرفتاریاں اور کوڑوں کی سزائیں عام تھیں۔ اینتھرپولوجسٹ رفیق وسان کا کہنا ہے کہ جلال چانڈیو نے خود کو سندھ کی مزاحمتی کلچر سے الگ نہیں کیا تھا، اُن کے کیسٹس میں سندھ سے محبت کے گیت شامل ہوتے جیسے استاد بخاری کا گیت تھا ’ہم سپاہی سندھ کے‘ یا ذوالفقار علی بھٹو پر ’بھلائے سے بھی بھلائی نہیں جائے گی تیری وفاداری‘ جلال کی مقبولیت میں کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ متعدد عناصر تھے۔ ناز سہتو کے مطابق یہ اپنے دور کی ایک سپر ہٹ فلم تھی۔ بعض دیہی شہروں میں لوگ بستر لے کر سنیما آ جاتے کہ معلوم نہیں کب ٹکٹ ملے گا، کیونکہ ان کی فلم پر کھڑکی توڑ رش ہوتا تھا اور ٹکٹ حاصل کرنا بہت ہی مشکل۔ جلال چانڈیو کی وفات 10 جنوری 2001 کو ہوئی۔ اُن کے سفر آخر پر بھی ’کھڑکی توڑ‘ رش تھا کیونکہ ہزاروں ان کے آخری دیدار کے لیے امنڈ آئے۔ اس موقع پر پولیس کو لاٹھی چارج کا سہارا لینا پڑا تھا جس میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ صادق آباد کے نوجوان فقیر رجب علی داؤد پوٹہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے بچپن میں ٹریکٹر پر یہ گیت سُنا تھا جو ان کے علاقے میں کافی مقبول تھا، وہ اس کو گنگناتے تھے، اُن کا ایک دوست ایک مرتبہ ساؤنڈ سسٹم سیٹ کر رہا تھا اس نے کہا کہ کچھ بھی گاؤ۔ انھوں نے یہ کلام گایا جس کے 30 سیکنڈ ریکارڈ کیے اور یہ ٹک ٹاک پر وائرل ہو گیا، جس کے بعد انھوں نے یہ پورا گیت گایا اور یوں جلال کے اس گیت نے ایک شناخت دی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جلال چانڈیو ایک عوامی گلوکار تھا جس کو ہر طبقے کے لوگ سُنتے تھے اور یونیورسٹیوں سے لے کر مزدور طبقے تک سب پسند کرتے تھے، اس کی تعلیم نہیں تھی لیکن اس کو شاعری زبانی یاد رہتی یہ اس کی کمنٹمنٹ تھی۔ ’اپنی دھرتی سے دور بیھٹے ہیں، اس لیے میلے اور ملاکھڑوں میں شرکت نہیں کر سکتے۔ یوں خیال آیا کہ جلال کا ورچوئل میلہ لگائیں جس میں دوست احباب جلال کے قصے کہانیاں شیئر کریں اور اس کے گیت سنائیں۔ اس طرح یکم جنوری سے یہ سلسلہ شروع کیا جو دس جنوری کو جلال کی برسی کے روز تک جاری رہے گا۔‘
/urdu/pakistan-51664045
توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام میں آٹھ برس تک قید رہنے کے بعد بری ہونے والی پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ دورانِ قید انھیں کہا گیا کہ اگر وہ مذہب بدل لیں تو رہا ہو جائیں گی۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام میں آٹھ برس تک قید رہنے کے بعد بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور وزیراعظم سے اپیل کرتی ہیں کہ ملک میں توہینِ مذہب کے مقدمات کی جامع تحقیقات ہونی چاہییں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بےگناہ کو سزا نہ ملے۔ توہین مذہب کے اس مقدمے میں آسیہ بی بی کو 2010 میں سزائے موت سنائی گئی اور آٹھ سال قید میں رہنے کے بعد اکتوبر 2018 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔ مقدمے کے آغاز کے بارے میں آسیہ کا کہنا تھا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک گلاس پانی پینے سے بات بڑھ کر یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ان پر توہینِ رسالت کا الزام لگے گا اور انھیں قید کاٹنی پڑے گی۔ اس سوال پر کہ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا گیا ہے تو ان کا ردعمل کیا تھا، آسیہ بی بی کا کہنا تھا ’مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا۔ میں تو معمول کے مطابق باغ سے پھل چننے گئی تھی۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر لے جائیں گے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہوتا تو مجھے اندازہ ہوتا کہ میرے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ میں بالکل بےگناہ تھی اور مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کریں گے لیکن انہوں نے یہ سب کیا۔ آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ قید کے دوران بہت خوفزدہ رہیں۔ ’میں ایک طویل عرصے تک بیمار بھی رہی لیکن اس وقت بھی میں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور خدا کا شکر ادا کرتی رہی کیونکہ خدا ہی مجھے حوصلہ دے رہا تھا اور اسی حوصلے کی بدولت میں آج زندہ ہوں۔‘ آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی جیلوں میں توہینِ مذہب کے الزامات میں قید شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینوئل جیسے افراد کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہیں۔ ’جیسے ایزابیل نے میرے لیے آواز اٹھائی اور آج میں آزاد ہوں۔ میں تمام میڈیا سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ شگفتہ کے لیے کام کریں تاکہ وہ بھی رہا ہو سکے اور میں اسے کہتی ہوں کہ وہ دن آئے گا جب وہ بھی آزاد ہو گی۔‘
/urdu/pakistan-53718943
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 10 ملزمان پر پارک لین کمپنی ریفرنس میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے تاہم تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔ یہ پہلا مقدمہ ہے جس میں کسی اہم ملزم پر ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی ہو۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 10 ملزمان پر پارک لین کمپنی ریفرنس میں فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔ نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں آصف علی زرداری کو پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ملزم آصف علی زرداری عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور کراچی میں اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ پہلا مقدمہ ہے جس میں کسی اہم ملزم کے عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہو۔ نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے احتساب عدالت کے جج نے سابق صدر سے کہا کہ ’آپ نے جعلی فرنٹ کمپنی بنا کر نیشنل بنک کا قرض خردبرد کیا۔ اس کے علاوہ ملزم نے بطور صدر پاکستان نیشنل بینک پر دباو ڈال کر قرض لیا۔‘ فرد جرم عائد کیے جانے سے پہلے ملزمان کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے ان کی ان کے موکلوں سے ملاقات کروائی جائے جس کے بعد فرد جرم عائد کیے جانے کا مرحلہ شروع کیا جائے تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی۔ اس مقدمے کے شریک ملزمان انور مجید، شیر علی، فاروق عبد اللہ، محمد سلیم فیصل پر بھی ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کر دی گئی جبکہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں موجود ملزم محمد حنیف پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ اس مقدمے کی گونج دسمبر 2018 میں اس وقت سننے میں آئی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو راولپنڈی نیب نے اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی میں قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کی الزام میں بلایا۔ نیب نے ان پر الزام عائد کیا انھوں نے پارک لین اسٹیٹ نامی اپنی نجی کمپنی کے ذریعے سنہ 2009 میں 2460 کنال زمین جس کی اصل مالیت دو ارب روپے سے زیادہ ہے اسے صرف 6 کروڑ 20 لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ پارک لین اسٹیٹ کمپنی آصف زرداری، بلاول بھٹو اور دیگر افراد کی مشترکہ ملکیت ہے اور سکیورٹی ایکسچینج کمشین آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ کہ مطابق اس کمپنی کے ایک لاکھ 20 ہزار شیئرز ہیں جن میں سے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری 30، 30 ہزار شیئرز کے مالک ہیں۔ یہ مقدمہ نیا نہیں اس سے قبل بھی سنہ 1997 میں آصف علی زرداری پر اس وقت کے احتساب بیورو نے اسلام آباد کی نواحی علاقے سنگجانی میں 2460 کنال کی قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کے الزام میں دائر کیا تھا۔
/urdu/world-57606319
امریکی ریاست فلوریڈا میں حکام کا کہنا ہے کہ میامی شہر کے شمال میں 12 منزلہ عمارت گرنے سے کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ 159 لاپتہ ہیں۔ میامی کے مئیر نے کہا ہے کہ انھیں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی ’امید ابھی بھی ہے۔‘
امریکی ریاست فلوریڈا میں حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز میامی شہر کے شمال میں 12 منزلہ عمارت گرنے سے کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ 159 لاپتہ ہو گئے ہیں۔ میامی کے مئیر نے کہا ہے کہ انھیں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی ’امید ابھی بھی ہے۔‘ لوگوں کو تلاش کرنے والی ٹیموں کے مطابق انھوں نے ملبے کے نیچے سے لوگوں کی آوازیں سنی ہیں تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ 40 برس قدیم اس عمارت کے گرنے کی وجہ کیا تھی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ’عمارت بری طرح سے پچک گئی ہے۔ دو منزلوں کے بیچ کا فاصلہ کو دس فٹ ہوتا تھا اب محض ایک فٹ رہ گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس میں کسی کے زندہ نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔‘ یہ عمارت 1980 میں تعمیر کی گئی تھی اور 130 ہاؤسنگ یونٹوں میں سے نصف حصے اس کے منہدم ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن اس واقعے میں لاپتہ ہیں۔ حکام نے بتایا کہ امدادی عملے نے 35 افراد کو ملبے کے نیچے سے نکالا ہے ، جن میں سے 10 کو طبی امداد دی گئی اور دو کو ہسپتال بھیج دیا گیا۔ جمعرات کی سہ پہر فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس نے جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا ’ٹی وی میں کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا، حقیقت میں یہ بہت بہت تکلیف دہ ہے، اتنی بڑی عمارت کا انہدام دیکھ کر واقعی تکلیف پہنچتی ہے۔‘ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا ’میں فلوریڈا کے شہریوں سے کہتا ہوں، آپ جو بھی مدد چاہتے ہیں ، وفاقی حکومت جو بھی کر سکتی ہے ، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ، ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔‘ 50 سالہ سانٹو میگوئل نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی کی فون کال سے جاگے جو زیمپین ٹاورز کی تین عمارتوں میں سے ایک کی نویں منزل پر ایک معذور عورت کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ میگوئل نے میامی ہیرالڈ کو بتایا ’(ان کی اہلیہ) نے کہا کہ انھوں نے ایک بڑا دھماکا سنا ہے۔ یہ زلزلے کی طرح محسوس ہوا۔‘ ان کی اہلیہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں بچا لیا گیا ہے۔ قریبی عمارت میں رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ ’پوری عمارت لرز اٹھی اور پھر میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے لگا تھا کہ یہ طوفان جیسی کوئی چیز ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’جب مٹی صاف ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ عمارت کے پیچھے سے دو تہائی عمارتیں زمین پر گر گئیں۔‘
/urdu/world-54531581
بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف اسلامی ممالک میں ایسی تنظیمیں اور تحریکیں وجود میں آئیں جو معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنے کی خواہاں تھیں۔ ایسی ہی ایک تنظیم ’اخوان المسلمین‘ تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں ثقافتی، دینی اور سیاسی اقدار کی بیداری تھا۔
بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف اسلامی ممالک میں ایسی تنظیمیں اور تحریکیں وجود میں آئیں جو معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنے کی خواہاں تھیں۔ ایسی ہی ایک تنظیم ’اخوان المسلمین‘ تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں ثقافتی، دینی اور سیاسی اقدار کی بیداری تھا۔ اس تنظیم کی بنیاد مارچ 1928 میں مصر کے ایک 22 سالہ معلم حسن البنا نے رکھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہو چکے تھے اور عرب دنیا میں متعدد اسلامی ریاستیں وجود میں آ چکی تھیں۔ حسن البنا کی تنظیم اخوان المسلمین بہت جلد ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی جس نے نہ صرف تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا بلکہ عام لوگوں میں اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس تحریک نے مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کے تصور کو فروغ دیا اور اس کے اثرات دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں دیکھے گئے۔ ایسے میں حسن البنا کو ایک ایسی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی جو نہ صرف مصر بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی بیرون ممالک کے اثر و نفوذ میں کمی کر سکے بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی انصاف دلوا سکے۔ مارچ 1928 میں حسن البنا نے باضابطہ طور پر اخوان المسلمین کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اور نصب العین حقیقی اسلام کا نفاذ اور بیرونی غلبے کے خلاف جہدوجہد کا آغاز کرنا بیان کیا گیا تھا۔ حسن البنا نے اعلان کیا کہ اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اخوان المسلمون کی تنظیم کے ذریعے انھوں نے اپنے اسی نصب العین کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کر دیا۔ جلد ہی مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمین کی شاخیں قائم کر دی گئیں۔ طلبا اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کی تنظیم کے لیے اخوات المسلمین کے نام سے علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ حسن البنا کے جوش و جذبے میں بھی شدت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ عملی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ سنہ 1936 میں انھوں نے مصر کے بادشاہ، وزیراعظم اور دیگر عرب حکمرانوں کے نام ایک خط شائع کیا جس میں ان سے اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دو سال بعد انھوں نے مصر کے بادشاہ سے مصر کی سیاسی جماعتوں کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ تمام جماعتیں بدعنوانیوں میں ملوث ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مصر پر برطانوی تسلط کے خلاف جن ہنگاموں کا آغاز ہوا ان میں سب سے نمایاں کردار اخوان المسلمین کا ہی تھا۔ اس وقت تک مصر میں اس جماعت کے ارکان کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک میں بھی قائم ہوگئی تھیں۔
/urdu/pakistan-56541403
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو گذشتہ برس پیدا ہونے والے پیٹرولیم بحران کی فورینزک تحقیقات سے قبل استعفیٰ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے علاوہ سیکریٹری پٹرولیم کا بھی تحقیقات سے قبل تبادلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو گذشتہ برس پیدا ہونے والے پٹرولیم بحران کی فورینزک تحقیقات سے قبل استعفیٰ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے علاوہ سیکریٹری پٹرولیم کا بھی تحقیقات سے قبل تبادلہ کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسدعمر اور پٹرولیم بحران پر سفارشات پیش کرنے والی کابینہ کی ایک کمیٹی میں شامل دیگر وزرا کی موجودگی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو اس بحران کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے فورینزک تحقیقات 90 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا ’اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمیں ندیم بابر یا سیکریٹری پٹرولیم سے متعلق کوئی غیر قانونی اقدام نظر آیا ہے تاہم وزیرِ اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ یہ عوام کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ دونوں ان تحقیقات پر کسی بھی حوالے سے اثر انداز ہوں۔' انھوں نے کہا کہ ان فورینزک تحقیقات میں آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریٹیلرز کو شامل تفتیش کیا جائے گا ہی، لیکن ساتھ ان سرکاری افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جنھوں نے اس حوالے سے ان کی معاونت کی۔ اس میں پٹرولیم ڈویژن، اوگرا اور پورٹ اتھارٹی کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ دوسرا حصہ انتظامی امور کے حوالے سے ہے جن میں فیصلوں میں کمزوری، ان مذکورہ اداروں میں کچھ افراد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی وہ قابلیت نہیں ہے کہ یہ ان عہدوں پر بیٹھ سکیں۔ ان تمام انتظامی فیصلوں کے بارے میں پٹرولیم ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انھیں دیکھیں اور وزیرِ اعظم کو اس بارے میں رپورٹ کریں۔ اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے نو جون کو حکام سے اس مصنوعی بحران کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا گیا۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے اس بحران کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے دسمبر 2020 میں یہ رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی۔ اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کی ایک کمیٹی اس رپورٹ کا جائزہ لے کر کچھ سفارشات مرتب کرے گی جو وزیرِ اعظم عمران خان کو دی جائیں گی۔ اس کمیٹی میں شیریں مزاری، اعظم سواتی، شفقت محمود اور اسد عمر شامل تھے۔
/urdu/world-52616139
کورونا وائرس کی وبا نے تارکین وطن کے لیے بیرون ممالک اپنی ملازمت جاری رکھنے اور اپنی اجرت کو گھر بھیجنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔
بیرون ممالک سے ترسیلِ زر یعنی بھیجے گئے پیسے دنیا بھر کے لاکھوں خاندانوں کے لیے ’زندگی رواں دواں رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ‘ ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وبا نے تارکین وطن کے لیے ملازمت جاری رکھنے اور اپنی اجرت کو گھر بھیجنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔ اس لیے ’زندگی رواں دواں رکھنے کا یہ بڑا ذریعہ‘ اب کمزور پڑ رہا ہے۔ ان کے شوہر متحدہ عرب امارات میں دبئی میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ سیلز انجینیئر کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے وہ بیروزگار ہو کر دبئی میں اپنی رہائش تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ سمیتھا کہتی ہیں کہ ’گذشتہ ماہ سے وہ اپنے فلیٹ میں بے کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نئی ملازمت کو جوائن نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے بینک سے اپنا پیسہ نکال سکتے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے کیونکہ انھیں ہمارے (انڈیا میں) فلیٹ کے لیے کافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے لاکھوں کنبوں کے لیے بیرون ممالک سے بھیجے جانے والے پیسے ’لائف لائن‘ ہیں اور یہ غربت کو کم کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس کا تعلق صرف خاندانوں کو زندہ رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ مسٹر کلیمینس کا کہنا ہے کہ لوگ ترسیلات زر کا استعمال حفظان صحت، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسی طویل المیعاد سرمایہ کاری میں کرتے ہیں جس سے ان کی زندگی ’زیادہ صحت مند اور خوشحال بنتی ہے اور معاشی طور منفعت بخش ہوتی ہے۔‘ سمیتھا اور ان کے شوہر کی طرح بہت سے معاملات میں اس کی وجہ سے تارکین وطن مزدور کام کرنے اور پیسے گھر بھیجنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دوسری صورتوں میں مسئلہ رسائی میں دقت کے سبب ہے کیونکہ لوگ لاک ڈاؤن کے سبب پیسے منتقل کرنے والوں یا ان ذرائع تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ’آپ کے گھر پر آپ کے اہلخانہ ہیں، بھائی بہنیں سکول نہیں جا رہے ہیں اور وہ آپ پر انحصار کر رہے ہیں کہ آپ ان کی مدد کریں۔ جب لوگ بھوکے ہوں گے، کنبہ کے افراد بھوکے ہوں گے تو وہ باہر جانے کی کوشش کریں گے اور اس سے ان کو انفیکشن ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اس قسم کے خطرات ہیں۔‘ کیرالہ کی سمتھا جیسے لوگوں کو امید ہے کہ آئندہ سال سے وہ دوبارہ کام شروع کر سکتی ہیں تو ان کے شوہر گھر واپس آ سکتے ہیں۔ ’صرف پیسوں کی خاطر وہ وہاں رہتے ہیں اور میں یہاں رہتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ پیسہ سب کچھ ہے جس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اس صورتحال یعنی کورونا وائرس نے ہماری ساری امیدوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔‘
/urdu/sport-59473624
یہ جیت پاکستان کے لیے تو خوشیوں کی نوید ہے مگر بنگلہ دیش کے پاس سوچنے کو بہت کچھ ہے۔ دوسری اننگز کی بیٹنگ ہمیشہ بنگلہ دیش کی کمزوری رہی ہے۔ اس کمزوری کا کوئی مستقل مداوا لازم ہے ورنہ بنگلہ دیش، ٹیسٹ کرکٹ میں، کبھی درست سمت میں نہیں جا پائے گا۔ سمیع چوہدری کا کالم۔
مومن الحق کے چہرے پر مایوسی بکھری تھی۔ جس وقت اظہر علی نے مہدی حسن کو پے در پے دو چوکے رسید کیے تو یہ مایوسی اور گہری ہو گئی کیونکہ بنگلہ دیش کی امیدوں کا محل ڈھیر ہو چکا تھا اور پاکستان کامیابی اپنے نام کر چکا تھا۔ یہ امیدوں کا محل اس امکان پر استوار تھا کہ جس طرح تائج الاسلام نے پہلی اننگز میں پاکستانی بلے بازوں کو چکرائے رکھا تھا، گمان یہ تھا کہ دوسری اننگز میں پانچویں دن کی پچ پر ان کی گیندیں بلے بازوں کو الجھا کر رکھ چھوڑیں گی۔ لیکن مومن الحق نے غلطی یہ کی کہ دوسری اننگز کے عین اوائل میں ہی نیا گیند تائج الاسلام کو تھما دیا اور عبداللہ شفیق و عابد علی کی شراکت داری نے تائج الاسلام پر اٹیک کر کے ان کا ’ڈنگ‘ نکال دیا۔ اسی طرح اگر بنگلہ دیشی بیٹنگ دوسری اننگز میں ذرا سا بھی تحمل کا مظاہرہ کرتی اور چوتھے دن کے اختتام تک یا گھنٹہ بھر پہلے تک ہی وقت نکال جاتی تو شاید تائج الاسلام یوں پھیکے نہ پڑتے لیکن شاہین شاہ آفریدی نے ان کی ایسی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اننگز سنبھالنے کی ساری ذمہ داری اکیلے لٹن داس پر آن ٹھہری۔ اگر یہاں پاکستان کے لیے ہدف 250 کے لگ بھگ ہوتا تو شاید پہلی اننگز میں ناکامی کا منہ دیکھنے والے پاکستانی مڈل آرڈر پر کچھ دباؤ رہتا لیکن یہ ہدف ہی اتنا معقول سا تھا کہ یہاں سے میچ ہارنے کے لیے پاکستان کو کوئی بہت بڑی حماقت درکار تھی اور عابد علی نے ایسی کسی بھی حماقت کو خارج از امکان کر چھوڑا۔ اگر عابد علی اور عبداللہ شفیق کی یہ فارم شاملِ حال نہ ہوتی تو پہلی اننگز کی برتری کے بعد بنگلہ دیش اس میچ میں پوری طرح قدم جما چکا تھا۔ یہاں سے اس کے قدم اکھیڑنے کے لیے کسی ہیرو کی ضرورت تھی جو یکے بعد دیگرے بنگلہ دیشی اننگز پر گھمسان کا رن برپا کر دے۔ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے تناظر میں ہر میچ اہم ہے اور ہر جیت قیمتی ہے لیکن اگر پاکستان کو اپنا تسلسل برقرار رکھنا ہے تو اگلے میچ میں بولنگ کمبینیشن پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہو گی۔ میرپور میں پاکستان کو ایک باقاعدہ لیگ سپنر کی لازمی ضرورت پڑے گی اور بابر اعظم کو طے صرف یہ کرنا ہے کہ ساجد خان اور نعمان علی میں سے کون جگہ چھوڑے گا تاکہ پاکستانی بولنگ صحیح معنوں میں ایک مکمل اور متوازن اٹیک کا روپ دھار سکے۔ یہ جیت پاکستان کے لیے تو خوشیوں کی نوید ہے مگر بنگلہ دیش کے پاس سوچنے کو بہت کچھ ہے۔ دوسری اننگز کی بیٹنگ ہمیشہ بنگلہ دیش کی کمزوری رہی ہے۔ اس کمزوری کا کوئی مستقل مداوا لازم ہے ورنہ بنگلہ دیش، ٹیسٹ کرکٹ میں، کبھی درست سمت میں نہیں جا پائے گا۔
/urdu/sport-59368865
پاکستان نے بنگلہ دیش کو ڈرامائی آخری اوور کے بعد ہرا کر سیریز کا تیسرا میچ پانچ وکٹوں سے جیت لیا اور اس طرح سیریز میں تین صفر سے کلین سویپ کر دیا۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کو ڈرامائی آخری اوور کے بعد ہرا کر سیریز کا تیسرا میچ پانچ وکٹوں سے جیت لیا اور اس طرح سیریز میں تین صفر سے کلین سویپ کر دیا۔ 125 کے تعاقب میں پاکستان نے پوری اننگز میں قدرے سست انداز اختیار کیا اور جب آخری اوور شروع ہوا تو اس وقت ان کو چھ گیندوں پر آٹھ رنز درکار تھے لیکن ان کی آٹھ وکٹیں باقی تھیں۔ میچ میں اپنا پہلا اوور کرانے بنگلہ دیشی کپتان کپتان محمدود اللہ آئے اور انھوں نے پہلے سرفراز احمد کو گیند مس کرائی اور دوسری گیند پر انھیں کیچ آؤٹ کر وا دیا۔ اننگز کی آخری گیند پر نئے آنے والے محمد نواز تھے اور محمود اللہ نے گیند پھینکی تو ایک دم آخری لمحے پر وہ کریز پر سے ہٹ گئے اور گیند وکٹوں کو جا لگی۔ امپائر نے ڈیڈ بال کا اشارہ دیا۔ وجہ تھی کہ محمود اللہ نے وہ گیند امپائر کے بھی پیچھے سے کرائی تھی۔ 16ویں اوور میں پاکستان کو بڑا دھچکہ اس وقت ملا جب 40 رنز بنا کر محمد رضوان بولڈ ہو گئے۔ آؤٹ ہونے کے بعد ان کی مایوسی عیاں تھی اور انھوں نے غصے کا اظہار کیا۔ ٹاس جیت کر جب بنگلہ دیش نے اننگز شروع کی تو وہ سست انداز میں کھیلے۔ شاہنواز دھانی نے اپنے پہلے میچ کے پہلے ہی اوور میں ایک وکٹ لے کر بنگلہ دیش کو نقصان پہنچایا اور چار اوورز کا کھیل مکمل ہونے پر بنگلہ دیش نے ایک کھلاڑی کے نقصان پر 23 رنز بنائے۔ اننگز کے آخری چار اوورز میں پاکستانی بولرز نے صرف 35 رنز دیے جبکہ بنگلہ دیش کی جانب سے اوپنر محمد نعیم نے 47 رنز بنائے۔ اس پوری سیریز میں کسی بھی بنگلہ دیشی بلے باز نے نصف سنچری نہیں بنائی۔ پاکستانی بولرز نے مسلسل عمدہ کارکردگی دکھائی اور مکمل طور پر بنگلہ دیش کے بلے بازوں کو قابو میں رکھا۔ پاکستان کی جانب سے محمد وسیم جونئیر نے بالخصوص شاندار بولنگ کی اور چار اوورز میں صرف 15 رنز کے عوض دو وکٹیں لیں۔ اس سیریز میں پاکستان کو دو صفر کی ناقابلِ شکست برتری حاصل ہے۔ تیسرے میچ میں پاکستان کی جانب ایسے کئی کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا ہے جو پہلے ورلڈ کپ اور پھر اس سیریز کے لیے سکواڈ کا حصہ تو تھے لیکن ایک بھی میچ نہیں کھیل پائے تھے۔ بنگلہ دیش نے بھی اپنی ٹیم میں تین تبدیلیاں کی ہیں اور شاہد الاسلام، شمیم حسین اور نسوم احمد کو موقع دیا گیا ہے۔ شاہد الاسلام اس میچ سے اپنا ٹی ٹوئنٹی کریئر شروع کر رہے ہیں۔ اس سیریز کے دوران اب تک پاکستان نے دونوں میچ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے جیتے ہیں۔ پہلے میچ میں مہمان ٹیم نے ایک کانٹے کے مقابلے کے بعد میزبان ٹیم کو شکست دی تھی تاہم دوسرا میچ نسبتاً یکطرفہ رہا تھا اور پاکستان نے یہ میچ باآسانی آٹھ وکٹوں سے جیت کر سیریز میں ناقابلِ شکست برتری حاصل کر لی تھی۔
/urdu/pakistan-58151786
بینکوں میں سونا گروی رکھوا کر اس کے عوض قرض لینا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حال ہی میں بینکوں میں ہونے والی چوریوں نے اکثر افراد کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر بینکوں میں رکھا سونا کتنا محفوظ ہے۔
تاہم بینکوں میں گروی رکھے گئے اس سونے کے بارے میں ندیم احمد اور ان جیسے افراد کے لیے یہ خبر تشویشناک ہے کہ ایک مقامی بینک کی کراچی میں واقع دو برانچوں میں سے ایک کے لاکرز میں رکھا ہوا سونا چوری کر لیا گیا تو دوسرے کیس میں بینک میں رکھے ہوئے سونے کے زیورات کو نکال کر اس کے بدلے میں مصنوعی جیولری رکھ دی گئی۔ سونا گروی رکھ کر قرض دینے کے پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر مالیاتی امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ اس کی پاکستان میں اجازت ہے لیکن سونا گروی رکھ کر اس کے بدلے میں قرض لینے کی پالیسی ترقی یافتہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مضبوط مالیاتی نظام کے حامی ملکوں میں قرضہ ہمیشہ ایک انکم جنریٹنگ ایسٹ یعنی کمائی کر کے دینے والے اثاثے کے بدلے میں دیا جاتا ہے لیکن سونا کوئی ایسا اثاثہ نہیں کہ وہ انکم پیدا کر رہا ہو۔‘ قرض کے لیے سونا گروی رکھنا اور یہ کتنا بینک کے لاکرز میں محففوظ ہے اس سلسلے میں کراچی میں ایک بینک کے لاکر سے سونا غائب اور دوسرے بینک کے لاکر میں اصلی کی بجائے مصنوعی زیورات رکھنے کے واقع نے اس کے تحفظ کے بارے میں سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط بینک اور صارف کے تعلق اور اس سے جڑے امور سے متعلق ہوتے ہیں تاہم اگر بینک کے لاکر سے سونا چوری ہوتا ہے یا اصلی کی بجائے نقلی زیورات رکھ دیے جاتے ہیں تو اس میں بینک کے عملہ ملوث ہوتا ہے اور ان کی ملی بھگت سے یہ کام ہوتا ہے۔ بیرسٹر تیمور علی مرزا نے اس سلسلے میں بتایا کہ لاکروں میں رکھا ہوا یہ سونا کتنا محفوظ ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ آئے دن لاکر توڑنے کی خبریں آتی ہیں تو اس سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ سونا کتنا محفوظ ہے۔ انھوں نے کہا کہ لاکرز توڑ کر سونا چوری کرنا یا گروی رکھے ہوئے سونے کے زیورات کے بدلے میں نقلی زیورات رکھنا ایک جرم ہے اور اس کا ارتکاب بھی ہوتا ہے تاہم پھر بھی ان کی نظر میں گھر میں رکھے ہوئے سونے کی نسبت بینک میں رکھا ہوا سونا زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ قرض کے لیے گروی رکھے گئے سونے کی چوری کی صورت میں بینک کیا قدم اٹھائے گا اور قرض لینے والے کو یہ سونا کیسے لوٹائے گا اس کے بارے میں سٹیٹ بینک نے ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ گروی رکھے ہوئے سونے کی چوری، آتشزدگی اور دوسرے خطرات کے پیش نظر انشورنس ہونی چاہیے تاکہ سونے کی چوری یا کسی اور وجہ سے اگر سونا ناقابل واپسی ہو تو قرض لینے والے کو قرضے کی ادائیگی پر اس کا اثاثہ واپس مل سکے۔
/urdu/pakistan-51082165
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ان سے جو وعدے کیے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا جس کے بعد وفاقی کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر اور وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اتوار کو کراچی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے ان کے ساتھ حکومت سازی کے وقت جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے جس کے بعد ان کا وفاقی کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے تحریک انصاف سے تعاون کا جو وعدہ کیا تھا وہ تعاون جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے پاس دو وفاقی وزارتیں ہیں۔ خالد مقبول صدیقی کے علاوہ ایم کیو ایم کے رہنما فروغ نسیم کے پاس وزارت قانون کا قلمدان ہے۔ ایم کیو ایم کنوینر کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے وقت ایم کیو ایم پاکستان نے تحریک انصاف سے قانون و انصاف کی وفاقی وزارت کا مطالبہ نہیں کیا تھا چنانچہ فروغ نسیم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔ فروغ نسیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ حکومت کو پاکستان میں جمہوریت، قانون، انصاف اور احتساب کے عمل کے لیے فروغ نسیم جیسے وکیل کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اپنی ضرورت اور پاکستان کی ضرورت کے تحت انھیں لیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور حکومت کے درمیان دو مختلف یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے جن میں ’پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، انصاف اور میرٹ کے قیام اور شہری علاقوں کی ترقی‘ کے حوالے سے نکات تھے۔ خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے قیام کے تقریباً 17 ماہ بعد اگر ’کسی ایک نکتے پر بھی‘ پیش رفت نہ ہوئی ہو تو ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ وزارت میں رہیں اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام انھی حالات کا سامنا کرتے رہیں جو ان کے حکومت میں شامل ہونے سے پہلے تھے۔ ’جس تعاون کا ہم نے حکومت سے وعدہ کیا تھا وہ ہم کرتے رہیں گے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا اب وزارت میں بیٹھنا بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اگر ان نکات پر کچھ عملدرآمد ہو رہا ہوتا یا ہم دیکھ رہے ہوتے کہ اس حوالے سے کچھ مجبوریوں کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے، تو شاید ہم تھوڑا بہت اور انتظار کر لیتے۔‘ متحدہ رہنما کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کی اس حوالے سے پرسوں تفصیلی گفتگو ہوئی ہے اور سب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کا کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے وقت تحریک انصاف سے دو وزارتیں مانگی تھیں تاہم یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ کیونکہ ایم کیو ایم کی جانب سے وہ وزیر تھے، اس لیے وہ رابطے کمیٹی کے اس فیصلے کا آج اعلان کر رہے ہیں۔
/urdu/entertainment-56838209
معین اختر نے اپنا سفر لطیفے سنانے اور نقالی کرنے والے ایک لڑکے سے شروع کیا اور پھر وہ جنوبی ایشیا میں ایک برانڈ بن گئے۔ مزاح کا رنگ ان کے فن پر یوں سجا رہا جیسے کھیر پر چاندی کا ورق اس کے بصری روپ اور مٹھاس کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔
اس نے 16 سال کی عمر میں کمرشل تھیٹر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہ بچپن میں ہی اپنے سکول ٹیچرز، قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کے لب و لہجے کی نقالی کر کے ہنسایا کرتا۔ قدرت نے اسے ٹیلنٹ عطا کیا تھا اور پھر مسلسل محنت، ریاضت سے وہ اردو کا سب سے معتبر مزاحیہ فنکار، نقال اور میزبان کہلایا، جسے دنیا معین اختر کے نام سے جانتی ہے۔ معین اختر ایک متنوع اداکار تھے لیکن مزاح کا رنگ ان کے فن پر یوں سجا رہا جیسے کھیر پر چاندی کا ورق اس کے بصری روپ اور مٹھاس کو دو آتشہ کر دیتا ہے اور معین اختر کا بلاشبہ برصغیر میں آج بہت بڑا نام ہے۔ معین اختر ایک ایسا برانڈ بن گئے تھے جس کا جادو پورے جنوبی ایشیا میں چلتا تھا۔ برصغیر کے سب سے محترم اداکار دلیپ کمار بھی ان کے مداحوں میں شامل تھے حالانکہ معین اختر بذات خود دلیپ کمار کے بے حد عقیدت مند تھے اور بچپن سے ہی ان کی نقالی کیا کرتے تھے۔ ایک میگا شو جس میں دلیپ کمار اور راج کمار آمنے سامنے تھے اور اس کے لیے بطور خاص معین اختر کو کراچی سے ممبئی بلایا گیا۔ معین اختر کا نام دلیپ کمار نے تجویز کیا اور راج کمار نے بھی اپنا ووٹ دیا تھا۔ دلیپ کمار کو مہمان بنانے کے لیے یہ شرط ہوتی تھی کہ میزبان معین اختر ہونے چاہیے۔ دلیپ کمار معین اختر کے بے تکلف دوست بن گئے تھے۔ وہ پیدائشی فنکار تھے، انھوں نے اپنا سفر لطیفے اور نقالی کرنے والے ایک معمولی لڑکے سے شروع کیا اور پھر اس پورے خطے میں ایک برانڈ بنے۔ ’مجموعی طور پر معین اختر ہوم ورک کرنے کے عادی تھے۔ زندگی میں ان کا مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے انڈیا میں آنکھ کھولی جہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی تھیں۔ وہاں سے کراچی آئے تو اس شہر میں بھی کئی قومیں آباد ہیں۔ معین اختر انتہائی ذہین اور محنتی تھے۔ کوئی کردار دیکھتے تو اسے اپنے آپ میں مکمل جذب کر لیا کرتے تھے۔ مشاہدے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مطالعے کی عادت بھی اپنا لی تھی۔ وہ انگریزی ادب، ڈرامہ، مزاح کے علاوہ اور بھی بہت کچھ پڑھتے رہتے تھے۔‘ ان کے والد محمد ابراہیم محبوب 92 برس کی عمر میں فوت ہوئے اور معین اختر صرف 60 سال زندہ رہے۔ جینیاتی طور پر طویل عمری شاید معین اختر کو بھی نصیب ہوتی لیکن انھوں نے زندگی کا تصرف یوں کیا کہ صرف ایک جنم میں کئی جنم جیئے۔
/urdu/pakistan-52243912
كورونا کی وبا کستان میں پھیلنے کے بعد پنجاب بھر میں 24 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا اور کچھ روز قبل تمام ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پر پابندی بھی عائد گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعت سے منسلک ہزاروں لوگ اپنی روزی روٹی کے حوالے سے پریشان ہیں۔
كورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنے کے بعد پنجاب بھر میں 24 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن سے کچھ روز قبل پنجاب کے تمام ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی بھی عائد گئی تھی۔ حمزہ کے مطابق انھوں نے اور ان کے دوست نے اپنی ساری جمع پونجی اپنے ریستوران کو بنانے پر لگا دی جس کے بعد تین سال تک سخت محنت کی اور اپنے کاروبار کو کھڑا کیا۔ اس کے بعد وہ لاہور کے تین مخلتف مقامات پر اپنےریستوران کی تین برانچیں بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں کل ملا کر اس وقت 26 لوگ ملازمت پر ہیں۔ حمزہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تینوں برانچوں کی تنخواہیں ملا کر کل ساڑھے چھ لاکھ روپے ہیں۔ ‘اس کے علاوہ کرائے کے پیسے، بجلی اور گیس کے بل، کھانے بنانے کے اخراجات سمیت دیگر اخراجات ملا کر ہم بمشکل اپنے خرچے پورے کر پا رہے تھے کہ کورونا نے ہمارے کاروبار کو ایک بڑا دھچکہ مارا جس کی وجہ سے ہمیں آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے لاک ڈاؤن کے بعد چند روز تک ریستوران چلانے کی کوشش کی لیکن گاہک خوف کے مارے باہر سے کھانا منگوانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ‘ہم نے اپنےریستوران سمیت کھانے اور سٹاف کے لیے مکمل انتظانات کیے ہیں جو حفظان صحت کے مطابق ہیں۔ چھوٹا بزنس مین تو کورونا کے باعث پِس گیا ہے۔ مگر پھر بھی ہم نے اپنے ملازمین کو اس مہینے اپنی جیب سے تنخواہ دی ہے جبکہ اگلے ماہ سے پہلے ہی ہم ان کے گھروں میں راشن بھی لازمی پہنچائیں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ 90 فیصد ریسٹورنٹ ماہانہ آمدنی پر ہی چلتے ہیں جبکہ ریستوران انڈسٹری کا شمار پاکستان کی بڑی انڈسٹریوں میں ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی کورونا سے متاثر ہونے والی اس انڈسٹری کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی گئی۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ‘اگر ریسٹورنٹ انڈسٹری متاثر ہوتی ہے تو اس سے جڑی دیگر صنعتیں جیسا کہ پیکنگ، پولٹری، ریل اسٹیٹ اور دیگر کئی کاروبار بڑی طرح متاثر ہوں گے۔‘ انھوں نے اپنے ریستوران کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہمارے ریستوران کی سیل 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری شفٹ میں بھی کمی آئی ہے اور ہمارے ملازمین ڈیلیوری کا کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لاہور کے بیشتر علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کے ڈیلیوری رائڈرز کو ہراساں بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ اب ریستوران نہیں جانا گھر جا کر بیٹھو۔
/urdu/pakistan-55445041
طارق جمیل رواں ماہ ہی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے اور انھیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کی آفیشل یوٹیوب اکاؤنٹ سے جمعرات کے روز جاری کی گئی ویڈیو میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی تدابیر اپنائیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث گذشتہ کئی ماہ سے جعلی خبروں اور جھوٹے دعوؤں کا بازار گرم ہے اور ایسے میں جہاں حکومتیں آگاہی کے لیے اشتہارات کا سہارا لے رہی ہیں وہیں مذہبی رہنماؤں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ ایسا خاص طور پر اس لیے بھی ہے کیونکہ مذہبی رہنماؤں کے لاکھوں مداح ہوتے ہیں اور عوام میں ان کی بات کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک مقبول مذہبی شخصیت طارق جمیل بھی ہیں۔ طارق جمیل رواں ماہ ہی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے اور انھیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کی آفیشل یوٹیوب اکاؤنٹ سے جمعرات کے روز جاری کی گئی ویڈیو میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی تدابیر اپنائیں۔ طارق جمیل کے سوشل میڈیا پر لاکھوں فالورز ہیں۔ ان کے یوٹیوب اکاؤنٹ پر ہی انھیں 46 لاکھ سے زیادہ افراد فالو کرتے ہیں۔ ایسے میں یقیناً ان کی جانب سے دیے گئے پیغام کو خاصی اہمیت بھی حاصل ہے اور اس کی رسائی بھی اچھے خاصے لوگوں تک ہے۔ ان کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے اکثر افراد ان کا یہ پیغام شیئر کر رہے ہیں اور لوگوں سے احتیاطی تدابیر اپنانے کی درخواست کر رہے ہیں۔ جہاں اس ویڈیو میں طارق جمیل بار بار لوگوں سے احتیاطی تدابیر اپنانے کی درخواست کر رہے ہیں وہاں یہ بات بھی خاصی نمایاں ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ان کی صحت پر کافی اثر پڑا ہے۔ وہ عام طور پر اپنی خوش الہانی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن اس ویڈیو میں بمشکل جملے ادا کر پا رہے ہیں اور اس بات کا اعتراف خود بھی کرتے ہیں کہ ان سے بولا نہیں جا رہا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اکثر افراد نے طارق جمیل کی جلد صحتیابی کے بھی دعا کی اور ایک صارف نے لکھا کہ وہ تو طارق جمیل کی ویڈیو دیکھ کر ’کانپ‘ گئے۔ ایک اور صارف نے لکھا ’جو افراد اس وائرس سے گزرے ہیں انھیں ہی معلوم ہے کہ یہ کتنی بری چیز ہے اور کیوںکہ ہماری عوام مذہبی شخصیات کی بات سنتی ہے اس لیے اس ویڈیو کو دیکھیے اور ان کے پیغام پر عمل کریں۔ انھیں اب بھی بات کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔' اسی طرح متعدد صارفین طارق جمیل کے پیغام سے متاثر ہوتے بھی دکھائی دیے اور انھوں نے ان کی صحت کے لیے دعا کرتے ہوئے یہ ویڈیو شیئر بھی کی۔ یاد رہے کہ مولانا طارق جمیل کی جانب سے رواں برس کے اوائل میں کورونا وائرس سے متعلق دیے گئے ایک بیان پر خاصی تنقید ہوئی تھی۔ کورونا کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے میڈیا کی جانب سے بولے جانے والے متواتر 'جھوٹ' اور ’معاشرے میں پھیلتی بےحیائی‘ کا ذکر کیا تھا جس کے لیے انھوں نے خواتین کے لباس کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
/urdu/pakistan-55117733
صدر پاکستان عارف علوی نے ریپ کے خلاف قوانین سے متعلق ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے۔ نئے قانون کے مطابق کیمیکل کیسٹریشن کیسے ہو سکے گی، یہ عمل ہوتا کیا ہے اور ریپ کے مقدمات میں مجرموں کو یہ سزا دی کیسے جا سکے گی اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے بی بی سی نے میڈیکل کے شعبے کے ماہرین سے تفصیل سے بات کی ہے۔
صدر پاکستان عارف علوی نے منگل کو ’اینٹی ریپ آرڈیننس 2020‘ پر دستخط کر دیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ قانون اب چار ماہ کے لیے مؤثر رہے گا اور اب اس عرصے میں پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے ان قوانین کو مستقل حیثیت دے سکتی ہے۔ اس نئے قانون میں ریپ کے مقدمات میں چار ماہ کے عرصے میں ٹرائل مکمل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے آرڈیننس کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے مستقبل کے بارے میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ فروی یا مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہو جائیں گے جس کے بعد پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کو اکثریت مل جائے گی اور پھر یہ قانون پارلیمنٹ سے بھی با آسانی منظور کرایا جا سکے گا۔ صدارتی آرڈیننس میں صرف کیمیکل کیسٹریشن کا ذکر شامل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں عدالت فیصلہ دے گی کہ کس مجرم کو یہ سزا ملنی ہے۔ کیمیکل کیسٹریشن کے عمل سے متعلق عدالتی حکم پر قائم کیا گیا ایک بورڈ کرے گا۔ تاہم اس قانون میں کیمیکل کیسٹریشن کے عمل کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ اس قانون میں اینٹی ریپ کرائسز سیل اور خصوصی کمیٹی بھی بنائی جائے گی، جن کے ذریعے وزیر اعظم، صدر پاکستان اور چیف جسٹس کو بھی جلد ٹرائل مکمل کرنے سے متعلق مشاورتی عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق اب ریپ کرنے والوں کو ان کی مرضی سے کیمیکل کیسٹریشن جیسی سزا دی جا سکے گی، جس سے وہ آئندہ ریپ جیسے جرائم سے باز رہ سکیں گے۔ یہ سزا کب اور کیسے متعارف ہوئی اور اس وقت یہ دنیا میں کہاں کہاں رائج ہے اس بحث سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ کیمیکل کیسٹریشن کا عمل ہوتا کیا ہے اور ریپ کے مقدمات میں مجرموں کو یہ سزا دی کیسے جاتی ہے؟ اس حوالے سے بی بی سی نے میڈیکل کے شعبے کے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی کہ اس سزا سے انسانی جسم پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبید علی نے بی بی سی کو بتایا کہ کیمیکل کیسٹریشن ایک خطرناک سزا ہے، جس میں مردوں میں مردانگی ختم کرنے کی جستجو میں مردانہ ہارمون کی سطح کو کم کیا جاتا ہے، جس سے اس کے اندر جنسی لذت حاصل کرنے کی چاہت کچھ عرصے کے لیے کم کی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں کیسٹریشن تو ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کے بعد جنسی صلاحیت دوبارہ فعال نہیں ہو سکتی۔ تاہم اگر اس وقت ہارمون کو ڈپرس کرنے والے رائج طریقہ علاج کی بات کی جائے تو پھر 20 سال کی عمر والے فرد پر تو ایسے انجکشن کے ذیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
/urdu/pakistan-55937819
انڈیا اور پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کے درمیان مختلف پلیٹ فارمز پر مقابلے بازی جاری رہتی ہے اور اب انڈیا میں جاری کسانوں کے احتجاج پر بھی جہاں دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں پاکستانی صارفین اور حکومتی وزرا اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقابلے کی فضا قائم رہتی ہے اور سوشل میڈیا صارفین کے درمیان آئے روز کسی نہ کسی بات پر بحث چلتی ہی رہتی ہے لیکن اب یہ لفظی جنگ صرف کھیل، کشمیر اور سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہی۔ انڈیا میں جاری کسان تحریک پر جہاں دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں پاکستانی صارفین اور حکومتی وزرا بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ دنیا بھر میں کہیں کچھ بھی ہو تو پاکستان سے کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی آواز اٹھتی ہے کہ جس سے ایک نئی بحث بھی چھڑ جاتی ہے۔ چاہے وہ انڈیا کے چاند پر جانے والے مشن چندریا 2 کے تجربے میں ناکامی ہو یا پھر فرانس کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کا معاملہ ہو۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں کسانوں نے بھی اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا تو ان پر تشدد کیا گیا۔ مبینہ طور پر اس تشدد سے ہی ایک کسان رہنما کی ہلاکت بھی ہوئی۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے وہ انڈیا میں جاری کسانوں کے صدی کے طویل ترین احتجاج کو ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انڈین حکومت کے علاوہ انڈین سیلیبریٹیز بھی ایسی تنقید کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیے کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی کو مداخلت کا حق نہیں تاہم فواد چوہدری اس دلیل سے متفق نہیں اور وہ اسے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ شاید سوشل میڈیا پر ہونے والی الزامات کی جنگ میں ایسا کچھ بھی حیران کن نہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت انڈیا اور پاکستان کے ٹوئٹر پر دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں گلوکارہ ریحانہ کی جانب سے کسانوں کے حق میں کی جانے والی ایک ٹویٹ انھیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیے جانے کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ردعمل میں انڈیا نے 'غیر ملکی افراد' اور عالمی سطح پر معروف شخصیات پر الزام لگایا ہے کہ وہ ملک میں کسانوں کے احتجاج پر 'سنسنی پھیلا رہے ہیں۔' حارث خلیق کے مطابق یہ بات تو درست ہے کہ انڈیا میں اس وقت جو تحریک چل رہی ہے وہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک ہے۔ ان کے مطابق اس تحریک کو ساری دنیا سے جو حمایت مل رہی ہے اس کی سمجھ بھی آ رہی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی کسانوں پر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کر رہا ہے اور اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے جس میں ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے جیسے محکمے شامل ہیں۔
/urdu/science-54097849
آرتیمیسیا نامی یہ پودا اصل میں ایشیا میں پایا جاتا ہے مگر دنیا کے اور بہت سے ایسے علاقوں میں بھی اُگتا ہے جہاں کا موسم گرم اور دھوپ زیادہ پڑتی ہو۔
آرتیمیسیا نامی اس پودے سے بنے مشروب کی مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجولینا نے بھی تعریف کی تھی۔ آرتیمیسیا نامی یہ پودا اصل میں ایشیا میں پایا جاتا ہے مگر دنیا کے اور بہت سے ایسے علاقوں میں بھی اُگتا ہے جہاں کا موسم گرم اور دھوپ زیادہ پڑتی ہو۔ یہ پودا دو ہزار سال سے چینی روایتی ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے درد کش ادویات اور ملیریا کی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے سوئیٹ ورم وڈ یا اینوئل ورم وڈ بھی کہا جاتا ہے اور اسے کچھ قسم کی شراب بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مڈغاسکر کے صدر روجولینا نے اس سال اپریل میں کہا تھا کہ آرتیمیسیا سے بنے ایک مشروب کے کورونا وائرس کے خلاف ٹرائلز میں کامیابی ملی ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ ستمبر میں بھی دہرایا۔ اور اس مشروب میں کیا ہے یہ صحیح انداز میں ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں سے 60 فیصد تک اجزا آرتیمیسیا سے لیے جاتے ہیں۔ ادھر جرمنی اور ڈینمارک کے سائنسدانوں نے بھی آرتیمیسیا پودے کی مدد سے تحقیق شروع کر دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کے حالات میں یہ کورونا وائرس کے خلاف کسی حد تک مؤثر ہورہا ہے۔ تاہم اس تحقیق کی سائنسدانوں نے ابھی تک آزادانہ طور پر جانچ نہیں کی ہے۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ اس پودے سے نکالے گئے اجزا پانی یا الکوحل میں حل کر کے استعمال کیے جائیں تو یہ وائرس کش ہوتے ہیں۔ ادھر چین میں بھی روایتی ادویات کی مدد سے آرتیمیسیا پر کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ہونے کے حوالے سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے افریقہ کے سربراہ ژاں باپتیستے نکیما نے بی بی سی کو بتایا کہ ممکن ہے کہ ان کا ادارہ بعد میں ٹرائلز میں شامل ہو جائے مگر اس کے لیے انھیں پہلے موجودہ معلومات کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ آرتیمیسیا سے بنی اشیا کا کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ تمام ادویاتی پودوں کے پہلے کلینکل ٹرائلز صروری ہیں۔ آرتیمیسیا پودے میں کے خشک پتوں میں جو اہم چیز پائی جاتی ہے اسے آرتیمیسینن کہتے ہیں اور ملیریا کے خلاف یہ مؤثر ہے۔ کیونکہ آرتیمیسیا سے بنی اشیا اب ملیریا کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگی ہیں جیسے کہ اس سے چائے، ماہرین کو ڈر ہے کہ کہیں ملیریا کا وائرس اس دوا کے خلاف مدافعت پیدا نہ کر لے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملیریا کا پیراسائٹ اس دوا کے خلاف مزاحمت قائم کر لے لگا مگر اس وقت کو طویل سے طویل بنانا ہے۔
/urdu/vert-fut-53322660
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایسے کئی وائرس موجود ہیں جن کے بارے میں ہم ویسے تو کچھ نہیں جانتے لیکن وہ پسِ پردہ رہ کر اس زمین پر حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کے وائرس موجود ہیں، بس اتنا معلوم ہے کہ ان میں سے زیادہ تر وائرس انسانوں میں کوئی بیماری نہیں پھیلاتے۔ ہزاروں وائرس ایسے ہیں جو اس زمین کے ماحولیاتی نظام کو چلانے میں بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں جس میں کیڑے مکوڑے، مویشی اور انسان زندہ رہتے ہیں۔ بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ وائرس اس زمین پر زندگی کو چلانے کے لیے کتنے اہم ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم صرف اُن وائرسوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم اب بعض سائنس دانوں نے وائرسوں کی انجان دنیا کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔ چونکہ ہم زیادہ تر وائرسوں کے بارے میں نہیں جانتے، لہٰذا ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کون سے وہ وائرس ہیں جو انسان کے لیے خطرناک ہیں۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدان کرٹس سٹل کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم وائرس کی اقسام کی مجموعی تعداد پر غور کریں تو ان میں انسان کو نقصان پہنچانے والے وائرسز کی تعداد صفر کے برابر ہوگی۔‘ وہ وائرس ہمارے لیے سب سے اہم ہیں جو بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں۔ انھیں 'فیج' کہا جاتا ہے یعنی نگل جانے والا وائرس۔ ٹونی گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ فیج وائرسوں کا سمندروں میں بیکٹیریا کی آبادی متوازن رکھنے میں اہم کردار ہے۔ اگر یہ وائرس ختم ہوجائیں تو اچانک سمندر کا توازن بگڑ جائے گا۔ دنیا میں حیاتیات کی آبادی پر قابو پانے کے لیے بھی وائرس ضروری ہیں۔ جب بھی کسی نوع کی آبادی بڑھتی ہے تو وائرس اس پر حملہ کر کے آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وبا کے ذریعے انسانی آبادی پر قابو پایا جاتا ہے۔ اگر وائرس نہیں ہوں گے تو زمین پر موجود حیاتیات کی آبادی قابو سے باہر ہوجائے گی اور اگر ایک ہی قسم کی حیاتات کا غلبہ ہوگا تو گوناگونیت ختم ہوجائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایسے کئی وائرس موجود ہیں جن کے بارے میں ہم ویسے تو کچھ نہیں جانتے لیکن وہ پسِ پردہ رہ کر اس زمین پر حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ماہرین کو یقین ہے کہ کثیر خلیوں والی تمام حیاتیات میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ سٹل کہتے ہیں کہ 'ممکنہ طور پر ایسے کئی عوامل ہیں جن کے بارے میں ہم اب تک جانتے بھی نہیں ہیں۔'
/urdu/regional-58846422
ٹاٹا گروپ نے ہی سنہ 1932 میں اس ایئرلائن کی بنیاد رکھی تھی اور سنہ 1953 میں انڈین حکومت نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔
انڈیا نے اپنی خسارے میں ڈوبی ہوئی قومی ایئرلائن ایئر انڈیا ملک کے سب سے بڑے کاروباری ادارے ٹاٹا گروپ کو فروخت کر دی ہے۔ ٹاٹا گروپ نے ہی سنہ 1932 میں اس ایئرلائن کی بنیاد رکھی تھی اور سنہ 1953 میں انڈین حکومت نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ یہ ایئرلائن اس وقت ساڑھے نو ارب ڈالر کے خسارے میں ہے اور حکومت اسے کافی عرصے سے فروخت کرنا چاہ رہی تھی۔ مگر حال ہی میں اس نے قرض کی شرائط میں نرمی کر کے اس معاہدے کو خریدار کے لیے آسان بنا دیا تھا۔ ایئرلائن کے حصول کے کچھ ہی منٹوں بعد ٹاٹا سنز کے چیئرمین رتن ٹاٹا نے کمپنی کے سابق چیئرمین جہانگیر رتنجی دادابھائی ٹاٹا کی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ایئر انڈیا کے ایک طیارے کے ساتھ ہوائی اڈے پر کھڑے ہیں۔ ٹاٹا سنز کے پاس پہلے ہی انڈیا میں دو ایئرلائنز ہیں۔ وسٹارا نامی فل سروس ایئرلائن سنگاپور ایئرلائنز کی شراکت سے اور ایئر ایشیا انڈیا نامی بجٹ ایئرلائن ملائشیا کی ایئر ایشیا بی ایچ ڈی کے تعاون سے چلائی جا رہی ہیں۔ قومی ایئرلائن سنہ 2007 میں ملکی سطح پر آپریٹ کرنے والی سرکاری انڈین ایئرلائنز کے ساتھ انضمام کے بعد سے خسارے میں ہے اور اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ملنے والی مالی معاونت پر منحصر تھی۔ سال در سال اس ایئرلائن نے فضائی ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ایئرپورٹ استعمال کرنے کے بڑھتے ہوئے خرچ، کم خرچ ایئرلائنز سے بڑھتی ہوئی مسابقت، روپے کی قدر میں کمی اور اس کی خراب مالی کارکردگی کے باعث سود کے بوجھ کو اس سب کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ سنہ 2001 میں بی جے پی کی حکومت نے ایئرلائن میں حکومت کا 40 فیصد حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ کئی غیر ملکی ایئرلائنز بشمول لفتھانسا، برٹش ایئرویز اور سنگاپور ایئرلائنز نے اس میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم جب حکومت نے بولی لگانے کی خاطر اُن کی کسی انڈین کمپنی سے شراکت کو لازمی قرار دیا تو وہ ایئرلائنز اس سے دستبردار ہو گئیں۔ اس کے بعد سنہ 2018 میں مودی حکومت نے ایئرلائن میں 76 فیصد حکومتی شیئرز اور اس کے قرض کا کچھ حصہ فروخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر ممکنہ خریداروں کو اس کی شرائط پرکشش محسوس نہیں ہوئیں۔ گذشتہ سال دسمبر کے اختتام تک ایئر انڈیا کے لیے دو بولیاں موصول ہوئی تھیں جن میں سے ایک ٹاٹا سنز کی تھی اور دوسری اس کے ملازمین کے ایک گروپ اور امریکی سرمایہ کار فرم انٹیرپس کی طرف سے تھی۔ اس وقت حکومت نے ایئر انڈیا، اس کے کم قیمت حصے ایئر انڈیا ایکسپریس اور ایئر انڈیا ایئرپورٹ سروسز کو مکمل طور پر فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
/urdu/world-49699170
ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کو مسترد کیا ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سنیچر کو ہونے والے ڈرون حملوں میں ایران ملوث ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس الزام کو ’صریحاً دھوکے بازی’ قرار دیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں سنیچر کو ہونے والے ڈرون حملوں میں ایران ملوث ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ حملے یمن سے کیے گئے۔ انھوں نے یمنی حوثی باغیوں کے اس دعوے کو بھی رد کیا تھا جس میں انھوں نے بقیق اور خریص میں سعودی تیل کمپنی ’آرامکو‘ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ایران نے دنیا کے توانائی کے ذخائر پر ایسا حملہ کیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔‘ سعودی عرب کے وزیر توانائی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیل تنصیبات پر حملوں سے خام تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل فی دن کمی واقع ہوئی ہے، جو ملک میں تیل کی نصف پیداوار ہے۔ جواد ظریف نے اتوار کے روز ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ایران پر ’بھرپور دباؤ‘ ڈالنے میں ناکامی کے بعد سیکریٹری پومپیو اب ’صریحً دھوکے بازی‘ پر تلے ہوئے ہیں۔‘ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ایران یا عراق میں موجود ان کے حمایتی ہو سکتے ہیں جنھوں نے ڈرونز کی جگہ کروز میزائل استعمال کیے۔ اپنی ٹویٹ میں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ڈرون یمن سے آئے۔ یمن میں حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے مشرقی سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل ریفائنری پر حملے کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جس کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بقیق پلانٹ اور خریص آئل فیلڈ پر حملے کے لیے 10 ڈرون بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے خلاف حملوں کا دائرہ وسیع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ دونوں ہی نے ایران پر جون اور جولائی میں خلیج میں ہونے والے دو آئل ٹینکروں پر حملوں کا الزام عائد کیا۔ سعودی عرب اور اس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن نے ایران پر الزام عائد کیا تھا۔ تاہم تہران کی جانب سے ان الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔ اہم ترین بحری راستوں میں تناؤ میں جون میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب ایران نے آبنائے ہرمز کے اوپر ایک امریکی جاسوس ڈرون کو مار گرایا۔
/urdu/pakistan-59716378
جہاں افغانستان میں بحران کی صورتحال پر پاکستان او آئی سی کے ایک غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے تو وہیں اسی دن انڈیا میں اسی موضوع پر ایک ڈائیلاگ ہو رہا ہے جس میں پانچ او آئی سی اراکین کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔
افغانستان کی صورتحال پر سعودی عرب کی تجویز اور پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرا خارجہ کی کونسل کا 17واں غیر معمولی اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل شرکت کر رہے ہیں۔ او آئی سی کے کُل 57 رکن ممالک میں سے 20 کے وزرائے خارجہ اسلام آباد میں اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ 10 کے نائب وزرا یا وزیر مملکت اپنے ملکوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مگر اسی دوران انڈیا میں بھی اتوار کو افغانستان میں بحران اور علاقائی روابط پر ایک ڈائیلاگ ہو رہا ہے جس میں وسطی ایشیائی ممالک کرغزستان، تاجکستان، قزاقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شریک ہیں۔ تاہم ان ممالک کے وفود پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی ضرور کر رہے ہیں۔ لیکن اُن کے وزرائے خارجہ نے اسلام آباد میں او آئی سی کے اجلاس میں جانے کے بجائے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے پر انڈیا سے بھی تعاون برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے او آئی سی اجلاس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 17ویں غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کرنا پاکستان کے لیے انتہائی مسرت کا موقع ہے۔ پاکستان نے ماضی میں افغانستان کی صورتحال پر او آئی سی کے اجلاس میزبانی کی ہے۔ مگر افغانستان کے ایک سابق نائب وزیر خارجہ محمود صیقل نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ سنہ 1980 میں افغانستان میں سوویت مداخلت پر بھی پاکستان نے او آئی سی وزرا خارجہ اجلاس کی میزبانی کی تھی مگر اس بار او آئی سی کے کسی غیر جانبدار رکن کو اجلاس کی میزبانی کرنی چاہیے تھی۔ اسی دوران انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں پانچ مسلم اکثریتی وسطی ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک ڈائیلاگ میں شرکت سے کچھ حلقے یہ تاثر لے رہے ہیں کہ یہ ڈائیلاگ ایک طرح سے پاکستان میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ دوسری طرف اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس محض دو ہفتے پہلے شیڈول ہوا اور اس میں بہت سے وزرائے خارجہ نہیں آ رہے مگر اسلام آباد کے اجلاس میں ان کی شمولیت نائب وزرا اور خصوصی نمائندوں کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ان دونوں چیزوں کو ملانا مناسب نہیں۔‘
/urdu/pakistan-55031864
لطافتوں سے بھرا موسم سرما دروازے پہ دستک دے رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کورونا کی دوسری لہر بھی سر اٹھا چکی ہے۔ کتنی ہی تقریبات، جن میں لاہور کا مشہور ’فیض فیسٹیول‘ بھی شامل ہے اس بار منعقد نہیں ہوئیں۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔
شادیوں کے ساتھ ساتھ ادبی تقریبات بھی مقابلے پہ منعقد کی جاتی ہیں۔ کتابوں کی تقریب رونمائی تو اس شدت سے ہوتی ہے کہ کئی بار لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں اس قدر ادیب و شاعر موجود ہیں تو بے وجہ ہی خواندگی کی شرح کم بتائی جاتی ہے۔ یہ اور بات کہ ان میں سے بیشتر کتب کو ایک نظر دیکھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی واقعی بہت کم ہے۔ لاہور کی سماجی زندگی چونکہ دسترخوان پہ ہی جمتی ہے اس لیے سردی آتے ہی تلی مچھلی کی دعوتیں، کنے ،پائے، نہاری کے بلاوے اور ساگ مکئی کی روٹی کے نیوتے بھی آنے لگتے ہیں۔ کسی جگہ سے کھگے کے شوربے کا ڈونگا آتا ہے تو کہیں سے کڑھی کی پتیلی، کوئی شلجم کے اچار کا مرتبان چھوڑ جاتا ہے تو کوئی برابر سے کھوئے والا گاجر کا حلوہ بھجواتا ہے۔ لطافتوں سے بھرا موسم سرما دروازے پہ دستک دے رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کورونا کی دوسری لہر بھی سر اٹھا چکی ہے۔ کتنی ہی تقریبات، جن میں لاہور کا مشہور ’فیض فیسٹیول‘ بھی شامل ہے اس بار منعقد نہیں ہوئیں۔ تعلیمی اداروں کی تقریبات بھی منسوخ ہیں، ملنا جلنا، آنا جانا بھی کم سے کم ہے۔ وبا، چنڈال کی صورت دھند بھری گلیوں میں تاک لگائے بیٹھی ہے۔ سرد موسم کے ساتھ اس بار بھی کورونا کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے۔ لاہور کی رونقیں ماند ہیں۔ لوگ باہر تو نکلتے ہیں مگر ڈرتے ڈرتے۔ ابن انشا کی نظمیں اب بھی پڑھی جا رہی ہیں لیکن وہ سر خوشی کا عالم نہیں۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ جب وہ دن نہ رہے تو یہ دن بھی نہیں رہیں گے۔ کورونا کی اس وبا نے تباہ حال معیشت کا وہ حال کیا ہے کہ مت پوچھیے۔ جس کو دیکھو وہ پھٹی جیب سے انگلیاں لہرا کے دکھا رہا ہے۔ ویسے پہلے بھی یہاں کون سا ہن برستا تھا لیکن اب تو بالکل ہی پھونسڑے نکل آئے ہیں اور لتے لگ گئے ہیں۔ زندگی میں نرم گرم سب چلتا رہتا ہے۔ یہ وقت جب گزر جائے گا تو لاہور کی رونقیں پھر بحال ہوں گی۔ ویسے آپس کی بات ہے کورونا کی اس لہر کی لاہوریے کچھ خاص پروا نہیں کر رہے۔ گو پہلے کی طرح انھیں اس پہ عالمی سازش کا اس قدر پکا شبہ تو نہیں لیکن اب بھی انھیں اندر ہی اندر یہ یقین ہے کہ بین الاقوامی نہ سہی، مقامی ہی سہی مگر ہے یہ ایک سازش ہی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس موسم سرما کے ساتھ ہی کورونا بھی رخصت ہوتا ہے یا جم کے بیٹھا رہتا ہے؟ ویکسین آئے گی تو اسے لگواتے ہوئے ہمیں وہی خطرات تو لاحق نہیں ہو جائیں گے جو پولیو کی ویکسین سے ہیں؟
/urdu/pakistan-49673353
وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کی جانب سے شق 149 کے نفاذ کے بیان کے بعد بحث کا رخ اس جانب مڑ گیا ہے کہ آیا وفاقی حکومت کے پاس آئینی طور پر ایسا کوئی اختیار ہے بھی یا نہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے بدھ کو یہ بیان سامنے آیا کہ وفاقی حکومت کراچی کے انتظامی معاملات میں بہتری لانے کے لیے ’آئین کی شق 149 کے نفاذ‘ پر غور کر رہی ہے۔ نجی ٹی وی چینل 92 نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان کی جانب سے شق 149 کے متعلق پوچھے گئے سوال پر کراچی کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاق (اب اس حوالے سے) اپنا اختیار استعمال کرنے جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی کراچی کے عوام کو درپیش مسائل کے حل میں وفاقی حکومت کی جانب سے شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ بدھ کو سندھ کے وزیرِ اطلاعات سینیٹر سعید غنی نے اپنی پریس کانفرنس میں اس کمیٹی کی تشکیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'ایک دروازہ ہے سندھ حکومت، اور اگر وفاقی حکومت کراچی کا کوئی بھی مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو اسے اس دروازے سے گزر کر جانا ہوگا۔' مگر وفاقی وزیرِ قانون کے اس بیان کے بعد بحث کا رخ اس جانب مڑ گیا ہے کہ آیا وفاقی حکومت کے پاس آئینی طور پر ایسا کوئی اختیار ہے بھی یا نہیں، اور یہ کہ ایسے کسی بھی اقدام کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟ پاکستان کے آئین کا پانچواں حصہ صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ضوابط کا تعین کرتا ہے۔ آئین کی شق 149 کے تحت وفاقی حکومت چند معاملات پر صوبائی حکومت کو ہدایات دے سکتی ہے، ان میں قومی یا فوجی اہمیت کے حامل ذرائع مواصلات کی تعمیر و مرمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کے امن و سکون یا اقتصادی زندگی کے لیے سنگین خطرے کے انسداد کے لیے اپنا انتظامی اختیار استعمال کرنے کی ہدایت شامل ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کا اختیار صرف ہدایات دینے تک محدود ہے، تو شق 149 کے بارے میں وفاقی حکومت کی جانب سے انتظامی اختیارات کے استعمال کے ذریعے کراچی کے امور اپنے ہاتھ میں لے لینے کا تاثر کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ 'صوبائی معاملات میں وفاقی مداخلت کی ماضی میں بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے اور ایسا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے۔ اور 149 کا بھی یہ منشا نہیں ہے۔' احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام اٹھارہویں ترمیم کی روح کے خلاف ہوگا اور یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ وفاقی حکومت کو ایسے کوئی خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شق 149 (4) کے تحت وفاقی حکومت جن معاملات پر ہدایت دے سکتی ہے وہ صرف قومی اہمیت کے ہی معاملات ہوسکتے ہیں۔
/urdu/world-56786273
گذشتہ ماہ امریکہ نے سات روسی عہدیداروں اور ایک درجن سے زیادہ روسی حکومتی اداروں پر روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کو زہر دیے جانے پر پابندیوں کا نشانہ بنایا تھا۔
روس نے 10 امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے اور آٹھ اعلیٰ امریکی حکام کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس کی جانب سے یہ اقدام جمعرات کو امریکہ کی جانب سے اعلان کردہ پابندیوں کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ پابندیاں گذشتہ سال کیے گئے 'سولر ونڈز' ہیک، روس کی جانب سے یوکرین کو ہراساں کرنے اور 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کے ردِعمل میں عائد کی ہیں۔ گذشتہ ماہ امریکہ نے سات روسی عہدیداروں اور ایک درجن سے زیادہ روسی حکومتی اداروں پر روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کو زہر دیے جانے پر پابندیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ روس الیکسی نوالنی کو زہر دیے جانے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔ لیکن رواں ہفتے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو سربراہی ملاقات کی پیشکش کی تھی۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشکش کو مثبت انداز میں دیکھتا ہے اور ابھی اس پر غور کر رہا ہے۔ ماسکو نے 10 روسی سفارت کاروں سے ملک چھوڑ دینے کے لیے کہا ہے۔ اس نے آٹھ امریکی عہدیداروں کے ملک میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پولینڈ کی جانب سے پانچ روسی عہدیداروں کو بے دخل کیے جانے کے بعد روس نے بھی پانچ پولش سفارت کاروں کو اپنا سامان باندھنے کا حکم دے دیا ہے۔ دس روسی سفارت کاروں کو بے دخل کرنے کے علاوہ امریکہ 32 اداروں اور حکام کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنا رہا ہے جن پر سنہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے اور 'گمراہ کُن معلومات پھیلانے' کا الزام ہے۔ امریکی مالیاتی اداروں پر بھی جون سے روبل کے بانڈز خریدنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ امریکہ نے جمعرات کو کیا پابندیاں عائد کیں؟ امریکہ محکمہ خزانہ نے ملک کے صدر جو بائیڈن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک نئے ایگزیکیٹیو آرڈر کے تحت روس کی ایما پر امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزام میں متعدد افراد اور کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کیں جن میں 6 پاکستانی افراد اور 5 کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ محکمہ خزانہ کی ویب سائیٹ کے مطابق صدر بائیڈن کی طرف سے جاری ہونے والے نئے ایگزیکیٹیو آرڈر کا مقصد روس کی حکومت کی ’نقصان پہنچانے والی کارروائیوں‘ سے وابستہ املاک پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ 'صدر نے روس کی طرف سے بڑھتے ہوئے منفی رویے کا سامنا کرنے کے لیے یہ جامع حکم نامہ جاری کیا ہے۔' امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس کی حکومت نے مختلف ایجنٹوں اور کمپنیوں کے ذریعے امریکہ کے 2020 صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ امریکی حکام نے 2016 کے انتخابات کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف امریکی اداروں کی رپورٹس کے مطابق صداقت ہے۔
/urdu/entertainment-59507781
سلمان خان نے اپنی فلم انتِم کی کامیابی کے بعد پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم میں ان کا کردار کچھ دیر کا نہیں بلکہ کافی لمبا ہے۔
سلمان خان نے اپنی فلم انتِم کی کامیابی کے بعد پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم میں ان کا کردار کچھ دیر کا نہیں بلکہ کافی لمبا ہے۔ فلم میں اپنے جیجا جی آیوش شرما کی اداکاری کی تعریف کرتے ہوئے سلمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے سلمان خان نے بتایا کہ فلم میں 'لو میکِنگ' کے ایک منظر پر ان کے پاپا سلیم خان کو اعتراض تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تمہاری فلم دیکھ سکتے ہیں اس لیے اس طرح کا منظر فلم کا حصہ نہیں ہونا چاہیے'۔ تو کیا واقعی کترینہ کیف وکی کوشل سے شادی کر رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ تو اب تک کترینہ نے دیا اور نہ ہی وکی کوشل نے۔ ان دونوں نے تو کبھی اس بات کی بھی تصدیق نہیں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ڈیٹ کر رہے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کی شادی کہاں ہو رہی ہے، کب ہو رہی ہے، کیا کیا تیاریاں ہو رہی ہیں یہاں تک کہ مہمانوں کی فہرست تک میڈیا میں چھائی ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں جاری ہونے والی مہمانوں کی فہرست میں سلمان کے بجائے ان کی دونوں بہنوں کا نام ہے۔ جبکہ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سلمان کی بہن ارپتا نے کہا ہے کہ ان کے گھر میں کسی کو شادی کا دعوت نامہ نہیں ملا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ شادی ریاست راجستھان کے سوائے مادھو پور میں چودھویں صدی کے ایک قلعہ میں ہوگی لیکن اس سے پہلے ممبئی کی ایک عدالت میں شادی رجسٹر کروائی جائے گی۔ 'پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا'، آجکل یہ لائن سنیل شیٹی کے بیٹے آہان شیٹی کے بارے کہی جا رہی ہے۔ آہان شیٹی اپنے پاپا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایکشن ہیرو کے روپ میں سنیما حال تک پہنچ گئے ہیں۔ اس ہفتے ان کی فلم 'تڑپ' ریلیز ہوئی ہے۔ فلم کی ریلیز سے پہلے ہی آہان کی ایکٹنگ اور ان کے ٹیلنٹ کی تعریفیں کی جا رہی ہیں اور لوگ انہیں نیا سٹار بتا رہے ہیں۔ تاہم آہان کا کہنا ہے کہ انہیں ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ صرف سر جھکا کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ویب سائٹ بالی ووڈ ہنگامہ سے بات کرتے ہوئے آہان نے کہا کہ ایکشن ہیرو کا کردار انہوں نے اس لیے نہیں کیا کیونکہ ان کے پاپا ایک ایکشن ہیرو ہیں دراصل انہیں ایسے ہی کردار آفر کیے گئے تھے۔ فلم میں آہان کے ساتھ اداکارہ تارہ سوتاریہ مرکزی کردار میں ہیں۔
/urdu/pakistan-58806120
مریم نواز نے عرفان قادر ایڈووکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست جمع کرائی جبکہ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مریم نواز کی درخواست پر اعتراض عائد کر دیا۔
مریم نواز اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے متفرق درخواستوں کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔ یاد رہے کہ منگل کے روز مریم نواز نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی تقریر، مرحوم سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو اور دیگر شواہد کی بنا پر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے متفرق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔ بدھ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے مریم نواز کی متفرق درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کے بعد آئندہ سماعت 13 اکتوبر کو مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مریم نواز نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کہاں ہے وہ جے آئی ٹی جسے ایک بریگیڈیئر چلاتا تھا۔ میں یہ بتا سکتی ہوں کہ جب میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی، تو مجھ سے تمام سوال اس بریگیڈیئر نے کیے، نیب کے نمائندے سمیت تمام افراد ڈمی بن کر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ جے آئی ٹی کو ڈرائیو بریگیڈیئر نے کیا، پیچھے جنرل فیض حمید تھے۔‘ واضح رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو دس سال، مریم نواز کو سات سال جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی درخواست پر ان سزاؤں کو معطل کر رکھا ہے۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کے پاکستان کا میڈیا دباؤ کی وجہ سے میری باتیں نہیں چلا سکتا، لیکن یہ بھی کہا گیا کہ مریم نے کسی ادارے پر حملہ کیا، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی فردِ واحد کی حرکتوں کو ادارے کا نام نہیں دینا چاہیے، ادارہ ملک کا ہے کسی فردِ واحد کا نہیں ہے۔‘ مریم نواز نے دائر کی گئی متفرق درخواست میں موقف اختیار کیا کہ احتساب عدالت نے چھ جولائی 2017 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی، جو پاکستان کی تاریخ میں سیاسی انجینئرنگ اور قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کی کلاسک مثال ہے۔ درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔ مریم نواز نے اپنی درخواست میں مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں تفتیش اور استغاثہ کی نگرانی کی، سپریم کورٹ نے ایک طرح سے اس کیس میں پورا عمل ہی کنٹرول کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا کسی کیس میں نہیں کیا گیا۔
/urdu/entertainment-56637114
تین ماہ کی تحقیقات میں بی بی سی نے متعدد شکایات سنیں جن میں گونڈیچا کے تینوں بھائیوں پر جنسی استحصال کا الزام عائد کیا گیا ہے تاہم اماکانت اور اکھلیش نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
گنڈیچہ نومبر 2019 میں وفات پا گئے تھے لیکن ان کے دو بھائیوں اماکنت اور اکھلیش پر ان کے میوزک سکول کے متعدد طلبا نے بھی جنسی استحصال کا الزام عائد کیا تھا۔ تین ماہ کی تحقیقات میں بی بی سی نے متعدد شکایات سنیں جن میں گونڈیچا کے تینوں بھائیوں پر جنسی استحصال کا الزام عائد کیا گیا ہےتاہم اماکانت اور اکھلیش نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ کلاسیکی موسیقی کی دنیا کو گنڈیچہ بھائیوں کے خلاف ہونے والے ان الزامات کو سن کر ایک بڑا دھچکا لگا ہے اور اس کیس نے اساتذہ اور شاگردوں کی دیرینہ روایت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جہاں شاگرد غیر رسمی طور پر گرو کے لیے خود کو پوری طرح وقف کرتا ہے۔ اسی سکول کی ایک اور طالبہ سارہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے بی بی سی کو بتایا کہ اکھلیش گنڈیچہ نے ان کا استحصال کیا۔ کل پانچ خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دھروپ انسٹیٹیوٹ کے کیمپس میں ان کا استحصال کیا گیا تھا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ رماکانت کے جنسی سلوک کو مسترد کرنے پر، اسے ان لڑکیوں کو تعلیم دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں تک کہ اگر کوئی لڑکی اس کے بارے میں شکایت کرتی تو، اسے کلاس میں ذلیل کیا جاتا۔ اگرچہ اکھلیش اور اماکانت گونڈیچا کے وکیل ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ طلبا برادری سے باہر کے لوگ ’مصلحت پسندانہ مفادات‘ کی وجہ سے گنڈیچہ بھائیوں اور دھروپ سنستھان کے فن اور وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب گنڈیچہ برادران کے خلاف الزامات سامنے آئے تو انھوں نے انڈین ایکسپریس کے لیے اپنے مضمون میں کہا ’زیادہ تر تعلقات کی طرح اساتذہ اور شاگرد کا رشتہ بھی طاقت کے عدم توازن پر مبنی ہے لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ عدم مساوات ہے جسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔‘ معروف انڈین پاپ اور کلاسیکی موسیقی کی گلوکارہ شوبھا مدگل کہتی ہیں ’اس معاملے کے بعد اور حالیہ الزامات کے تناظر میں کیا یہ معلوم کرنے کے لیے ایسے اداروں سے رابطہ کیا گیا کہ آیا ان کے کیمپس میں شکایات کے ازالے کے لیے کوئی کمیٹی موجود ہے یا نہیں؟‘ کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں کرشنا، بھاگوت اور مدگل ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس معاملے پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرنے والے طلبا کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی کے معاملے میں انڈین عدلیہ پر اعتماد کا فقدان ایک اہم وجہ تھی کہ انھوں نے قانونی اقدامات نہیں اٹھائے۔ مستقبل میں اس معاملے میں کیا ہو گا اس کے بارے میں کوئی واضح وضاحت نہیں، خاص کر اس وجہ سے بھی کہ اب زیادہ تر لوگ انڈیا چھوڑ چکے ہیں۔
/urdu/world-60831037
جغرافیائی طور پر دیکھیں تو ماریوپول نقشے پر ایک نقطے جتنا ہی ہے مگر یہ جزیرہ نُما کرائمیا سے آگے بڑھ کر آنے والی روسی افواج کے سامنے اب بھی چٹان کی طرح قائم ہے۔
جغرافیائی طور پر دیکھیں تو ماریوپول نقشے پر ایک نقطے جتنا ہی ہے مگر یہ جزیرہ نُما کرائمیا سے آگے بڑھ کر آنے والی روسی افواج کے سامنے اب بھی چٹان کی طرح قائم ہے۔ حملہ آور فوجوں کو گذشتہ تین ہفتے سے روکے رکھ کر دفاعی فورسز نے روسی فوجیوں کی بڑی تعداد کو مصروف رکھا ہوا ہے۔ مگر روس کی جانب سے اس شہر پر فوری قبضے میں ناکامی کے بعد روسی جرنیلوں نے 21 ویں صدی میں قرونِ وسطیٰ کے محاصروں کی حکمتِ عملی اپنا لی ہے۔ یوکرین نے آخری سپاہی تک شہر کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ شاید نوبت یہاں تک پہنچ ہی جائے۔ روسی فوجی آہستہ آہستہ شہر کے مرکز کی جانب بڑھ رہے ہیں اور کسی قابلِ عمل امن معاہدے کی عدم موجودگی میں روس ممکنہ طور پر بمباری میں شدت لائے گا جس میں مسلح فوجیوں اور دو لاکھ سے زائد کی عام آبادی کے درمیان شاید ہی فرق روا رکھا جائے۔ اس کی گہری برتھس کے باعث یہ بحیرہ ازوف کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور یہاں لوہے اور سٹیل کے بڑے کارخانے موجود ہیں۔ عام حالات میں ماریوپول سے ہی مشرقِ وسطیٰ اور آگے سٹیل، کوئلہ اور مکئی جاتے ہیں۔ اب آٹھ برسوں سے جب سے ماسکو نے کرائمیا پر 2014 سے قبضہ کر رکھا ہے، تو یہ شہر جزیرہ نُما کرائمیا میں روسی افواج، اور دونیسک اور لوہانسک میں روس نواز باغیوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ ویسے تو یہ یوکرینی فورسز کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں مگر یہ پھر بھی ماسکو کے لیے ایک کارآمد پروپیگنڈا ہتھیار ہے۔ روس اپنے لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ روسی نوجوان فوجی یوکرین کو دورِ جدید کے نازیوں سے پاک کرنے کے لیے گئے ہیں۔ مگر یوکرین کے لیے ماریوپول کا ہاتھ سے چلے جانا بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ نہ صرف عسکری اور اقتصادی طور پر، بلکہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑنے والے مرد و خواتین کے لیے بھی۔ ماریوپول خیرسون کے بعد روسیوں کے قبضے میں جانے والا پہلا بڑا شہر ہو گا۔ خیرسون ماریوپول کے مقابلے میں تزویراتی طور پر کہیں کم اہم شہر ہے اور اس کا بمشکل ہی کسی نے دفاع کیا۔ ماریوپول نے اب تک زبردست مزاحمت کی ہے مگر اس کی قیمت تو دیکھیں۔ شہر برباد ہو چکا ہے اور بڑی حد تک ملبے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ یہ شہر گروزنی اور حلب کی صفوں میں کھڑا ہو گا جہاں روس نے اتنی بمباری کی کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ دیگر یوکرینی شہروں کو بھی یہ واضح پروگرام ہے کہ اگر آپ نے ماریوپول کی طرح مزاحمت کی تو آپ کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے۔
/urdu/world-61199582
تیل اور گیس اس وقت پوری دنیا میں کئی تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ مقابلہ کچھ اور معدنیات کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
تیل اور گیس اس وقت پوری دنیا میں کئی تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ مقابلہ کچھ اور معدنیات کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کے باعث قیمتوں میں اس اضافے سے واضح ہو گیا کہ نکل جیسی دھات دنیا میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ایک ایسی معیشیت کے لیے اہم ہے جو فوسل فیول پر کم سے کم انحصار کرنا چاہتی ہے۔ روس گیس اور تیل کا بڑا سپلائر ہے۔ روس یوکرین جنگ کے دوران گیس اور تیل کے لیے یورپی ممالک کا روس پر انحصار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایندھن کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر روس جس کی اقتصادی طاقت بنیادی طور پر زمین سے حاصل کیے جانے والے ایندھن پر منحصر ہے، یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گیس پیدا کرنے والا اور تیسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ متبادل توانائی کے لیے ماہرین دنیا میں کم از کم 17 معدنیات کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک کے پاس ان معدنیات کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی صلاحیت ہے وہ زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ کون سی اقوام توانائی کی منتقلی سے سب سے زیادہ مستفید ہو سکتی ہیں، تائی یون کم معدنیات کو نکالنے اور پروسیسنگ کرنے والے ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اگرچہ الیکٹرک بیٹریوں میں دھات کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ صنعتی سرگرمیوں کے لیے کئی قسم کی توانائی کو ذخیرہ کرنے میں بھی اہم ہیں۔ بوئر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک اہم عنصر ان دھاتوں کو نکالنے کا عمل ہے۔ درحقیقت ان دھاتوں کو نکالنے کے لیے شروع کیے گئے کان کنی کے منصوبوں میں ایک دہائی (اوسطاً 16 سال) لگتے ہیں۔ اس لیے آنے والے دنوں میں ان دھاتوں کی مزید قلت ہو سکتی ہے۔ بوئر کہتے ہیں ’یہ دھاتیں ایک طرح سے ’نیا تیل‘ ہو سکتی ہیں، اور چین دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرکے سب سے بڑا کھلاڑی بن گیا ہے، جیسا کہ اس نے کوبالٹ پیدا کرنے والے کانگو میں سرمایہ کاری کی ہے۔‘ نئے جنگی حالات میں جب مغربی ممالک کو توانائی پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے، ایسے ممالک بھی ہیں جو تبدیلی کے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی ضرورت کا کچھ حصہ فراہم کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر چین روس کی دھاتوں کی پیداوار کو اپنی ریفائنری میں لانے اور اسے دوسرے ممالک کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ تبدیلی کے اس عمل میں سب سے بڑا فاتح بن سکتا ہے۔
/urdu/pakistan-49944251
عمران خان نے کہا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے انڈیا کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور لائن آف کنٹرول کے اس پار حملے کا جواز ملے گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتے ہیں مگر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کرنا انڈین بیانیے کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔ عمران خان نے ٹوئٹر پر یہ پیغامات ایسے وقت میں جاری کیے ہیں جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں متحرک خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے کارکنان سینچر کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے عام لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے اور وہاں جاری لاک ڈاؤن کے خلاف ایل او سی کی جانب پیدل مارچ کر رہے ہیں۔ مارچ کے شرکا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت انھیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی اجازت دیں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے لوگوں کی مدد یا جدوجہد میں ان کی حمایت کی غرض سے جو بھی پاکستانی ایل او سی پار کرے گا، وہ انڈیا کے بیانے کے ’ہاتھوں میں کھیلے گا۔‘ انھوں نے لکھا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے انڈیا کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور لائن آف کنٹرول کے اس پار حملے کا جواز ملے گا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سمیت ان کے حامیوں کو ایل او سی عبور کرنے کی اجازت دیں۔ جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ اپنے آپ کو ’خود مختار کشمیر‘ کا حامی قرار دیتی ہے۔ ستمبر کے اوائل میں جے کے ایل ایف کے ایک دھڑے نے لائن آف کنٹرول کے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے خلاف چار روز تک دھرنا دیا۔ آج ہونے والے احتجاج کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ کمشنر مظفرآباد ڈویژن چوہدری امتیاز نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی صورت حال کے پیش نظر کسی بھی فرد کو ایل او سی کی جانب جانے کی اجازت دینا ممکن نہیں، اس لیے مارچ کے شرکا کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر کسی کو بھی لائن آف کنٹرول تک جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی انڈیا کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے اور وہاں جاری لاک ڈاؤن کے خلاف مختلف لوگوں کی جانب سے پانچ اگست کے بعد سے اب تک تین مرتبہ ایل او سی پار کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
/urdu/sport-57766158
کارڈف میں کھیلے جانے والے پہلے ون ڈے میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 142 رنز کا آسان ہدف دیا تھا، جسے انگلینڈ نے باآسانی 21.5 اوورز میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلے گئے پہلے ون ڈے میچ میں انگلینڈ نے پاکستان کو نو وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی اور پاکستانی ٹیم 35.2 اوورز میں صرف 141 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ جس کے جواب میں انگلینڈ نے 142 رنز کا ہدف باآسانی 21.5 اوورز میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ انگلینڈ کی پہلی وکٹ اس وقت گری جب پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلنے والے فلپ سالٹ شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر سلپ میں کیچ آؤٹ ہو گئے جبکہ ڈیوڈ ملان 68 اور زیک کرالی 58 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ اس سے قبل پاکستان کو اپنی اننگز میں پہلے اوور میں ہی بھاری نقصان اٹھانا پڑا جب کپتان بابر اعظم اور امام الحق آؤٹ بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئے۔ ایک موقع پر 26 رنز کے مجموعی سکور پر پاکستان کی چار وکٹیں گر چکی تھیں۔ پہلے صہیب مقصود احمقانہ انداز میں رنز آؤٹ ہو گئے اور پھر فخر زمان سپنر میٹ پارکنسن کو اپنی وکٹ تھما کر پویلین لوٹ گئے۔ اس کے بعد پاکستان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں اور پوری ٹیم 141 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور انگلینڈ کے کی ایک ناتجربہ کار ٹیم کے لیے میچ جیتنے کا سنہری موقع فراہم کر دیا۔ صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا: ’میرے خیال میں پاکستان اور انگلینڈ کی سیریز ٹیلی کاسٹ نہ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنا بہتر رہتا۔ کم از کم ہمیں اس قسم کی ذلت نہ دیکھنا پڑتی۔‘ توصیف احمد اعوان نے لکھا: ’35.2 اوورز میں پاکستان کی ساری ٹیم 141 پر آؤٹ۔ سب نے بہت بری کرکٹ کھیلی۔‘ احمر نجیب ستی جو بظاہر پاکستان کی ٹیم سے ہمدردی کرتے دکھائی دے، نے لکھا: ’پاکستان کے شائقین کرکٹ اور صحافیوں کو اپنے ناپسندیدہ کھلاڑیوں کو نشانہ بنانے کا موقع مل گیا۔ میچ جیتنے پر ایسا موقع کہاں ملتا ہے۔‘ اس سے قبل انگلش کپتان بین سٹوکس کا ٹاس جیت کر کہنا تھا کہ ’ہم بولنگ میں ایک کامیاب ٹیم ہیں، سو صرف اس لیے کہ ٹیم میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں ہم اپنا طریقہ کار نہیں بدلیں گے۔‘ ثاقب محمود نے پہلے اوور میں دو وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کی بیٹنگ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا پاکستان کے پاس حارث سہیل کی جگہ لینے کے لیے سکواڈ میں بیشتر کھلاڑیوں کے آپشن موجود ہیں تاہم اس میچ میں ٹیم انتظامیہ نے سعود شکیل کو ان کی جگہ کھلایا۔ اس سیریز میں بولنگ کے میدان میں پاکستانی شائقین کی نظریں شاہین آفریدی اور حسن علی پر ہوں گی جو کہ حالیہ دنوں میں اچھے فارم میں رہے ہیں جبکہ شاداب خان پہ درپہ انجریز کا شکار ہونے کے بعد ابھی تک مکمل طور پر فارم میں نہیں ہیں۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اگلا میچ سنیچر کو لارڈز میں کھیلا جائے گا۔
/urdu/pakistan-53237473
انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کے واقعات کے بعد انڈیا کی جانب سے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی کے بعد سوشل میڈیا پر بحث۔
انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کے واقعات کے بعد انڈیا میں چینی مصنوعات پر پابندی کی مہم چلتی نظر آئی ہے اور اب ایک بار پھر یہ موضوع سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس بار چینی ایپس کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ انڈیا میں 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کی گئی ہے جن میں مقبول ایپ ٹک ٹاک بھی شامل ہے۔ انڈین اخبار دی ہندو کی مدیر سہاسنی حیدر نے اس بارے میں ٹویٹ کی کہ ’امید ہے کہ حکومت اس کی زیادہ وضاحت کرے گی۔ اگر 59 ایپس پر پابندی لگانا پی ایل اے کے خلاف کارروائی ہے جنھوں نے گلوان پر چڑھائی کی اور 20 فوجیوں کو ہلاک کیا تو یہ جواب ناکافی ہے۔ اگر اس سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچانا مقصد تھا تو یہ بھی ناکافی ہے‘۔ شہریار آفتاب خان نے کہا کہ ’دشمن کی چڑھائی کے دو مہینے بعد نئے انڈیا کا ایپس پر پابندی کے ذریعے جواب۔ کیا زبردست حملہ ہے۔ مگر لگتا ہے کہ پے ٹی ایم، ویوو، اوپو، فلپکارٹ، سویگی، زوماٹو، ہواوے، اولا، ژاؤمی اور ون پلس پر پابندی نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ چینی ایپس ہیں۔ کیوں؟‘ انڈین صحافی ساکیت گوکھلے نے انڈین حکومت کے اس اعلان کے حوالے سے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی اور بظاہر ٹک ٹاک انڈیا کی جانب سے بیان کا سکرین شاٹ شیئر کیا اور انٹرنیٹ پر خوب زور سے ہنسنے کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ایل او ایل کا استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایپس پر یہ پابندی ایک عارضی حکم ہے اور ایپ کمپنیوں کو حکومت نے وضاحت جمع کرانے کے لیے بلایا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پابندی انڈینز کو بیوقوف بنانے کے لیے ہے اور یہ عارضی تاثر پیدا کرنے کے لیے ہے کہ مودی نے کچھ کیا ہے۔‘ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی متنازع علاقے وادئ گلوان میں دونوں ملکوں کی افواج کی جھڑپ کے بعد سے انڈیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ایک چینی صارف نے انڈیا کی جانب سے 59 ایپس پر پابندی کی خبر کو ری ٹویٹ کیا اور لکھا ’تھوڑی مایوسی ہو رہی ہے کہ کوئی انڈین چیز نہیں مل رہی جو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہوں، کوئی انڈین ایپلیکیشن/سافٹ ویئر ہماری ڈیوائسز پر انسٹال نہیں ہے۔ کیا ہم آموں کا بائیکاٹ کر دیں؟ ارے ٹھہریں وہ تو پاکستان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔‘ چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہی۔ بہت سے لوگ #RIPtiktok ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ جو اس فیصلے سے خوش ہیں اسے ’مودی جی کی ڈیجیٹل سٹرائیک‘ کہہ رہے ہیں اور #DigitalStrike ٹرینڈ کر رہا ہے۔
/urdu/world-50149161
صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ترکی اور روس کے کرد فورسز کو ترکی سے متصل شام کی سرحد سے دور رکھنے کے معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ ترکی پر نو روز قبل شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے پر عائد کی گئی پابندیاں ختم کر رہا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ روس کے شام کی سرحد پر جنگ بندی میں توسیع کے لیے فوج کی تعیناتی پر ترکی کے ساتھ معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت روسی اور شامی افواج اس بات کی نگرانی کریں گی کہ کرد فورسز وہاں سے فوری نکل جائيں۔ ترکی نے کرد افواج کے خلاف کارروائی کا آغاز رواں ماہ کے شروع میں صدر ٹرمپ کے شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے غیر متوقع اقدام کے بعد کیا تھا۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے شام سے اچانک فوجی انخلا کے فیصلے پر شدید تنقید کی تھی۔ کیونکہ ترکی کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے کرد اس خطے میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کے کلیدی حلیف تھے۔ واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد سے متصل 32 کلو میٹر تک کے شامی علاقے کو 'سیف زون' بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔ ترکی کا مطالبہ ہے کہ کرد جنگجو شمالی شام کی 32 کلومیٹر کی حدود سے باہر چلے جائیں اور یہ علاقہ 'سیف زون' کہلا سکے۔ دفاعی و سفارتی امور کے تجزیہ کار جوناتھن مارکس نے اس پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ صرف امریکی سفارتکاری ہی تھی جس نے شام میں ترک فوجی کارروائیوں کو روک دیا اور کرد جانوں کو بچانے کے لیے ایک پائیدار معاہدہ طے کیا ہے۔ ترکی اور روس کرد فورسز کو ترکی کے ساتھ شام کی سرحد سے دور رکھنے کے معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اس معاہدے کو تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے۔ یہ معاہدہ ترکی کی جانب سے کرد افواج کو سرحد سے دور رکھنے اور اس علاقے میں ایک 'سیف زون' قائم کرنے کے لیے جاری جنگ میں تعطل کے دوران طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے تحت آئندہ ہفتے ترکی اور روس کا سرحد کی مشترکہ نگرانی کا منصوبہ ہے۔ اس معاہدے کا اعلان منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور روسی میزبان ولادی میر پوتن کے درمیان بحر اسود کے شہر سوچی میں چھ گھنٹے کی بات چیت کے بعد کیا گیا۔ خیال رہے کہ امریکہ نے ترکی سے جو جنگ بندی کرائی تھی اس کی مدت منگل کی شام کو ختم ہونے والی تھی اور ترکی نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ پھر سے کرد جنگجوؤں کے خلاف حملے شروع کر دیں گے۔ معاہدے کے تحت روس نے ترک فوج کو وہاں رہنے اور اس علاقے کا مکمل کنٹرول رکھنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
/urdu/world-55303095
کینیا میں بچوں کی خرید و فروخت زوروں پر ہے مگر کوئی ماں آخر کن حالات کے تحت اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے؟
کینیا میں غربت کی شکار خواتین حالات سے مجبور ہو کر بچے فروخت کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں کئی خواتین اس پریشانی سے بخوبی واقف ہوں گی کہ ایک بچے کو دنیا میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے مگر دو لوگ تو چھوڑیں، ایک کے بھی کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ زیادہ تر خواتین کبھی بھی کسی اجنبی کو اپنا بچہ فروخت کرنے کے بارے میں سوچیں گی بھی نہیں۔ مگر کینیا میں چند غریب حاملہ خواتین کے لیے انسانی تجارت میں ملوث لوگوں کو اپنا بچہ فروخت کرنا زندہ رہنے کے لیے دستیاب آخری چند آپشنز میں سے ایک ہے۔ وہ کہتی ہیں 'اگر باپ پیسے نہیں دے گا تو ان خواتین اور لڑکیوں کو اس آمدنی کے متبادل کے طور پر دوسرے راستے تلاش کرنے پڑیں گے۔ اور اسی وجہ سے وہ بچے فروخت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں تاکہ وہ خود کی دیکھ بھال کرنے یا پہلے سے موجود بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کچھ پیسے تو حاصل کر سکیں۔ لوگ اس بارے میں عام طور پر بات نہیں کرتے مگر یہ مسئلہ موجود ہے‘۔ اگر کینیا میں کوئی خاتون خود کو ایڈاما کی صورتحال میں پائے تو کئی عوامل انھیں انسانی تجارت میں ملوث افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ اسقاطِ حمل تب تک غیر قانونی ہے جب تک کہ بچے یا ماں کی زندگی کو خطرہ نہ ہو، جس کے باعث صرف غیر قانونی اور خطرناک متبادل ہی بچتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکپن کی عمر میں موجود افراد کے لیے سیکس اور تولیدی صحت کی تعلیم کی بھی کمی ہے، خاص طور پر اگر وہ دیہی علاقوں میں رہتے ہوں۔ بچے گود لینے کے قانونی طریقوں کے بارے میں بھی آگہی کی کمی ہے۔ میری اوما کا کلینک کایولے سٹریٹ پر ایک عام سی نظر آنے والی دکان کے پیچھے چھپے دو کمرے ہیں۔ دکان میں کئی شیلف ہیں جو زیادہ تر خالی ہیں اور ان میں کچھ پرانی دوائیں رکھی ہیں۔ ان کے پیچھے بچوں کو جنم دینے کے لیے کمرے موجود ہیں۔ اوما اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ اندر بیٹھتی ہیں اور کچھ منافع کے لیے بچوں کی خرید و فروخت کرتی ہیں، اور خود کو یہ پتا کرنے کی مشکل میں نہیں ڈالتیں کہ کون ان سے بچے خرید رہا ہے اور کیوں۔ ایڈاما 29 سال کی ہیں اور ایک مرتبہ پھر اسی گاؤں میں رہ رہی ہیں جہاں وہ پلی بڑھی تھیں۔ اب بھی وہ کبھی کبھی بھوکی سوتی ہیں۔ زندگی اب بھی مشکل ہے۔ انھیں کبھی کبھار قریبی ہوٹل پر کام مل جاتا ہے مگر یہ کافی نہیں ہوتا۔ وہ بہت کوشش کرتی ہیں کہ شراب نہ پیئیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ گاؤں میں جوتوں کی دکان کھولیں اور نیروبی سے جوتے لا کر فروخت کریں، مگر یہ ایک خواب لگتا ہے۔ ان کا اب اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ نہیں ہے مگر انھیں کوئی افسوس نہیں۔
/urdu/sport-48622224
اعداد و شمار اور انڈین ٹیم کے توازن کو دیکھا جائے تو انڈیا کی پاکستان کے خلاف فتح یقینی ہے لیکن پاکستان کی ہار اور جیت کا فیصلہ اعداد و شمار نے کب کیا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اولڈ ٹریفرڈ میں اس سے پہلے ایک ہی میچ کھیلا گیا ہے اور اتفاق سے یہ سنہ 1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ کا وہ میچ تھا جس میں انڈیا نے پاکستان کو 47 رنز سے شکست دی تھی۔ یہ راہل کا پاکستان کے خلاف پہلا ایک روزہ میچ ہو گا اور انھوں نے روہت شرما کے ساتھ بھی کبھی اننگز کا آغاز نہیں کیا۔ راہل ویسے تو ایک سٹائلش بلے باز ہیں لیکن ان کی ناتجربہ کاری اور متعدد مرتبہ بولڈ اور ایل بی ڈبلیو ہونا انڈیا کے لیے آغاز میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے فخر زمان اور امام الحق کے درمیان اب تک پانچ نصف سنچری جبکہ چار سنچری شراکتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن حالیہ میچوں میں فخر کو جلدی آؤٹ کرنے کی یہ ترکیب سامنے آئی ہے کہ انھیں آف سٹمپ کے باہر گیند کرائی جائے۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں بھی وہ ایسے ہی آؤٹ ہوئے تھے۔ کچھ بھی ہو لیکن جب یہ دونوں بیٹنگ کرتے ہیں تو لگتا ہے شاعری ہو رہی ہے، اگر اتوار کو ان دونوں نے اپنی بلے بازی کے گر دکھائے تو یہ کرکٹ کا میچ کم اور مشاعرہ زیادہ لگے گا۔ شاداب خان اور یوزویندرا چہل اس وقت دنیا کے بہترین لیگ سپنرز کی فہرست میں شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے حساب سے چہل شاداب سے بہتر سپنر ہیں جس کا مظاہرہ انھوں نے اب تک ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں کیا ہے۔ چہل کی جنوبی افریقہ کے خلاف چار وکٹوں نے ان کی بیٹنگ کی کمر توڑی تھی جبکہ شاداب نے انگلینڈ کے خلاف رائے اور روٹ کی اہم وکٹیں لے کر پاکستان کی فتح یقینی بنائی تھی۔ دہائیوں بعد انڈیا کی ٹیم میں کوئی ایسا بولر آیا ہے جس سے بلے باز صحیح مانوں میں ڈرتے دکھائی دیے ہیں۔ جسپریت بمرا نے اپنے کریئر کا آغاز تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے کیا لیکن وہ دیکھتے ہی دیکھتے تینوں فارمیٹس میں چھا گئے۔ نہ صرف ان کی گیند کی رفتار بہت تیز ہے، بلکہ ان کی لائن اور لینتھ بلے بازوں کو ہلنے کا موقع نہیں دیتی۔ ان کا اس ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف سپیل برسوں یاد رکھا جائے گا جس میں انھوں نے کوئنٹن ڈی کاک اور ہاشم آملہ جیسے کھلاڑیوں کو پویلین لوٹایا۔ اعداد و شمار بہت کچھ بتاتے ہیں جیسے یہ کہ پچھلی دہائی میں دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والے 18 مقابلوں میں پاکستان صرف سات میں ہی فتح حاصل ہو پائی تھی اور یہ بھی کہ ہم ہدف کے تعاقب میں اکثر چوک جاتے ہیں۔ اعداد وشمار جو بھی کہیں لیکن اگر پاکستان نےاپنی پل میں تولہ پل میں ماشہ کی روایت قائم رکھی تو وہ انگلینڈ کی طرح ٹورنامنٹ کی دوسری مضبوط ترین ٹیم کو بھی ہرا سکتے ہیں حالانکہ ایسا سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں کیا کسی بھی ورلڈکپ میں نہیں ہوا۔
/urdu/pakistan-61596463
بدھ کی شام پی ٹی آئی کے مظاہرین ڈی چوک پہنچے لیکن جمعرات کی صبح حکومت کو الٹی میٹم دے کر عمران خان گھر چلے گئے۔ پولیس کی شیلنگ اور مظاہرین کی جانب سے آگ لگائے جانے کے واقعات کے بعد شہر اور ڈی چوک کا احوال نامہ نگار ریاض سہیل کی زبانی
یہاں اسلام آباد کے ڈی چوک کی فضا میں آنسو گیس کی بُو اب بھی رچی ہوئی ہے جو آنکھوں میں جلن کا احساس پیدا کر رہی ہے۔ شیلنگ اور آگ لگنے کے جو واقعات پیش آئے ان سمیت یہاں شاہراؤں پر کھڑے کنٹینرز یہاں بدھ کو ہونے والی تباہی اور بدنظمی کا پتہ دے رہے ہیں۔ جمعرات کی شب ڈی چوک میدان جنگ بن گیا تھا جہاں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس میں کئی گھنٹے جھڑپیں جاری رہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بتدریج آنسو گیس کا استعمال کیا اور رد عمل میں مظاہرین نے آس پاس کی جھاڑیوں کو آگ لگا دی۔ ’جیسے لوگ جمع ہوتے پولیس شیلنگ کرتی اور مظاہرین جھاڑیوں اور پودوں کو آگ لگانا شروع کردیتے، اس سے دھواں نکلتا تھا اور آنسو گیس کا دھواں دب جاتا تھا اور کھانسی و آنکھوں میں جلن نہیں ہوتی تھی۔‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے خطاب میں چھ روز میں انتخابات کرانے کا الٹی میٹم دیکر چلے گئے ہیں جس کے بعد قافلوں کی روانگی شروع ہوئی لیکن ڈی چوک اور آس پاس کے علاقے میں پارکوں میں درختوں کے نیچے کئی لوگ آرام کرتے ہوئے اور سیلفیاں لیتے ہوئے نظر آئے جبکہ ڈی چوک کے قریب بھی درجنوں کارکن موجود تھے جن میں سے ایک دو سامنے موجود کنٹینروں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ ’ڈر گئے امریکہ کے پٹھو ڈر گئے۔' ڈی چوک پر مظاہرین کے لیے بریانی کے پیکٹس اور پانی کی فراہمی کی گئی جو سامان ایک سوزوکی میں موجود تھا۔ گذشتہ شب شیلنگ کے وقت پانی کی قلت پیدا ہوگئی تھی اور ٹوئٹر پر ایسے پیغام بھی شیئر ہوئے جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی ڈی چوک پر پانی پہنچا دے تو وہ پیسے منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جناح ایونیو پر کئی ایسے لوگ بھی نظر آئے جنھوں نے بیک پیک اٹھا رکھے تھے۔ ان میں لوئر دیر سے آنے والے جاوید خان شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بیک پیک میں مچھر دانی ہے جس کو رات کو انھوں نے استعمال کیا اس کے علاوہ ایک چھوٹا کمبل تھا، خوراک کی کچھ چیزیں تھیں اور ماسک تھے جب شیلنگ ہوئی تو انہیں یہ چیزیں کام آئیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے مارچ ختم کرنے کا اعلان بعض کارکنوں کے لیے غیر متوقع تھا تاہم انہیں یقین تھا کہ بہتر مفاد میں یہ اقدام کیا گیا ہے۔ ڈی چوک پر صورتحال پولیس کے قابو سے نکلنے کے بعد عمران خان کی آمد سے چند گھنٹے قبل وفاقی حکومت نے ریڈ زون میں فوج طلب کرلی تھی جبکہ رینجرز پہلے سے موجود تھے۔ حکومت کو عمران خان کی جانب سے دیا گیا چھ دن کا الٹی میٹم ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا، کیا پھر یہی مناظر ہوں گے یا اس سے پہلے پرامن حل نکل آئے گا، اس پر فی الحال قیاس آرائیاں ہی ہو رہی ہیں۔
/urdu/regional-52719215
انڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے لاک ڈاؤن نافذ ہے اور اس صورتحال سے مندر بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے مندروں کو مالی مشکلات درپیش ہیں جہاں کروڑوں کے نذرانے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔
عام طور پر اس مندر میں روزانہ دو سے تین لاکھ کے چڑھاوے یا نذرانے وصول ہوتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب صرف آن لائن نذرانے ہی موصول ہو رہے ہیں، اور اس مد میں حاصل ہونے والی رقم کم ہو کر دس سے 20 ہزار روپے ہی رہ گئی ہے۔ مندر کی انتظامیہ نے رواں سال مارچ اور اپریل میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ چار سے چھ کروڑ روپے کے درمیان لگایا ہے۔ اگر ملک کے امیر ترین مندر کی حالت ایسی ہے تو جنوبی انڈیا میں موجود ایسے سبھی مذہبی مقامات جیسے سبری مالا مندر کی مالی حالت تو اور بھی پتلی ہے۔ سبری مالا میں بھگوان ایپپا کی مُورت ہے۔ ٹی ڈی بی کے تحت کیرالہ میں تقریباً 125 مندروں کے انتظام و انصرام کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ان میں سبری مالا مندر بھی شامل ہے۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ان مندروں میں پیسہ آنا بند ہو گیا ہے۔ ٹی ڈی بی کی نگرانی میں جتنے مندر ہیں ان میں سے صرف سبری مالا مندر سے ہی 100 کروڑ روپے نذرانے آتے ہیں۔ جبکہ باقی دوسرے تمام مندروں سے بھی مجموعی طور پر اتنے رقم بطور نذرانہ موصول ہوتی ہے۔ کیرالہ کے دوسرے سب سے امیر ترین مندر گرو وایور کی پوزیشن باقی مندروں سے قدرے بہتر ہے۔ مندر کے ایک کارکن نے بتایا کہ ’ہم صورتحال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ جنوبی انڈیا کی دوسری ریاست کرناٹک کے ساحلی اضلاع میں واقع کللور موکامبیکا مندر اور کوککے سبرامنیا مندر میں نہ صرف جنوبی انڈیا بلکہ بیرون ملک سے بھی عقیدت مند آتے ہیں۔ مندر کے ٹرسٹی ڈاکٹر ابھیلاش پی وی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معمول پر آنے میں ہمیں ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگے گا۔ ہماری سالانہ آمدنی 40 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ ہمارے ماہانہ اخراجات قریب 90 لاکھ روپے ہیں اور رواں سال مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں ہم نے اپنے مستقل عملے اور آؤٹ سورس سٹاف کو تنخواہ دی ہے۔ نیز وہ لوگ جو روزانہ کی پیش کشوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم ان کا بھی خیال رکھ رہے ہیں۔‘ کوککے سبرامنیا مندر میں انڈیا کے مشاہیر بھی جاتے ہیں یہاں کرکٹر تندولکر کو دیکھا جا سکتا ہے (فائل فوٹو) محکم وظائف کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’کرناٹک میں بندوبست قانون کے تحت تقریبا 34 ہزار 562 مندر ہیں۔ ان میں سے 202 مندر گروپ ’اے‘ میں آتے ہیں جبکہ 139 گروپ ’بی‘ میں آتے ہیں۔ ان دونوں گروپس کے مندروں میں پجاریوں کو تنخواہ دی جا رہی ہے۔ گروپ ’سی' کے مندروں میں پجاریوں کو سالانہ 48 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ہم تمام ضرورت مند پجاریوں کو 1000 روپے راشن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دے رہے ہیں۔‘