url
stringlengths 14
138
| Summary
stringlengths 39
3.22k
| Text
stringlengths 230
2.44k
|
---|---|---|
/urdu/regional-50744947 | انڈین پارلیمان سے منظور ہونے والے شہریت کے متنازع ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے جبکہ ریاست آسام اور تریپورہ میں جمعرات کو بھی بل کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں اور حالات کشیدہ ہیں۔ | شہریت ترمیم بل کے متعارف کروائے جانے کے بعد انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں انڈیا کی پارلیمان سے منظور ہونے والے شہریت کے متنازع ترمیمی بل کو ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ نے غیرمسلم غیرقانونی تارکینِ وطن کو انڈیا کی شہریت دینے کے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ اسے غیرقانونی قرار دیا جائے۔ سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں انڈین یونین مسلم لیگ نے کہا ہے کہ یہ بل برابری، بنیادی حقوق اور زندہ رہنے کے حق سے متعلق آئین کی شقوں سے متصادم ہے۔ اس بل کے متعارف کروائے جانے کے بعد انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں جس کے بعد گوہاٹی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور دس اضلاع میں انٹرنیٹ بھی بند ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں ٹرینوں کی آمدورفت بھی معطل ہے۔ آسام کے علاوہ بنگلہ دیش سے ملحقہ انڈین ریاست تریپورہ میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں جہاں فوج کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں جبکہ آسام میں تعیناتی کے لیے بھی فوج تیار ہے۔ آسام اور تریپورہ میں عوام کو خدشہ ہے کہ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد ان ریاستوں میں بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب آ جائے گا۔ ریاست آسام میں شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کی جا رہی ہے کہ اس سے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ غیر قانونی طور پر رہنے والے افراد کی شناخت کر کے انہیں ملک سے باہر نکالا جائے۔ آسام معاہدے کے مطابق مہاجرین کو ملک میں رہنے کی قانونی حیثیت دیے جانے کی تاریخ 25مارچ 1971ہے، لیکن شہریت کے ترمیمی بل میں اسے 31دسمبر 2014 مانا گیا ہے۔ آسام میں تمام مخالفت اس تاریخ کے بارے میں ہے۔ شہریت کے ترمیمی بل میں نئی کٹ آف ڈیٹ کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے بھی شہری درجہ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی جو 1971 کے بعد اور 31 دسمبر 2014 سے پہلے آسام میں داخل ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ آسام ہی وہ ریاست ہے جہاں اگست میں 20 لاکھ افراد کا نام شہریت کے رجسٹر سے نکالا گیا تھا۔ اب اس بل کو بھی شہریت کے رجسٹر سے جوڑا جا رہا ہے تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگست میں جب اس رجسٹر کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا تو بہت سے بنگالی ہندوؤں کے نام بھی فہرست سے نکالے گئے تھے اور اب شہریت کے ترمیمی بل کی مدد سے ایسے غیرمسلم افراد کو تحفظ مل سکتا ہے جو ملک بدری یا گرفتاری کے خدشے کا شکار ہیں۔ |
/urdu/pakistan-56833822 | پاکستان حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان نے مذاکرات کے بعد لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اپنا احتجاج تو ختم کردیا ہے لیکن اس معاہدے کے تحت احتجاج کے دوران جن سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا ان کی رہائی سے متعلق حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ | حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان نے مذاکرات کے بعد لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اپنا احتجاج تو ختم کر دیا ہے لیکن اس معاہدے کے تحت احتجاج کے دوران جن سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی رہائی سے متعلق حکومت ’کنفیوژن‘ کا شکار ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول ان احتجاجی مظاہروں کے دوران 733 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 669 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے، ان کے مطابق ان میں سے زیادہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں سے ہے۔ اس پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے تفصیلات نہیں بتائیں کہ رہا کیے جانے والے افراد کو کن کن شہروں سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ریاست کی رٹ کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا اور جن افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملہ کر کے انھیں ہلاک اور زخمی کیا ہے انھیں کسی طور پر بھی رہا نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول صرف خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کیا جا رہا ہے تاہم پراسیکوشن برانچ کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں سے ایسے افراد کی نشاندہی کرنا کافی مشکل ہے جنہیں صرف خدشہ نقص امن کی تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران دو ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان میں سے تین سو سے زائد ایسے افراد ہیں جن کو خدشہ نقص امن کے تحت احتجاجی مظاہرے شروع ہونے سے قبل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔ پنجاب کی پراسیکویشن برانچ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں، پولیس اہلکاروں پر تشدد اور قتل سمیت متعدد قوانین کی خلاف ورزیوں پر دو سو سے زائد مقدمات درج ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان مقدمات میں کچھ افراد نامزد ہیں جبکہ باقی افراد نامعلوم ہیں جن کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی کے خلاف پولیس اہلکاروں کے قتل کے علاوہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات بھی درج ہیں۔ اگرچہ ان کو احتجاجی مظاہروں سے پہلے ہی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ان مقدمات میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 بھی لگائی گئی ہے جو کہ اعانت مجرمانہ سے متعلق ہے۔ ان مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت اگر مدعی مقدمہ معاف بھی کر دے تو پھر بھی عدالت اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ |
/urdu/regional-59223900 | بدھ کو انڈیا میں افغانستان کے معاملے پر سلامتی کے مشیروں کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں افغانستان یا پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی، البتہ اسی روز طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ایک اعلیٰ وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ | بدھ کو انڈیا میں افغانستان کے معاملے پر سلامتی کے مشیروں کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں افغانستان یا پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی، البتہ اسی روز طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ایک اعلیٰ وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی اسلام آباد جانے والے وفد کی قیادت کریں گے۔ متقی کو جمعرات کو پاکستان کے دارالحکومت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس میں روس، چین، امریکہ اور پاکستان کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اگرچہ اسلام آباد سرکاری طور پر ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ ماہ طالبان کے وزیر خارجہ کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی، جو قبول کر لی گئی روس پہلے ہی انڈیا کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے اور اجلاس میں روس اور ایران کی شرکت کو افغانستان پر اتحادیوں کے درمیان ایک اہم حکمت عملی بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی مذاکرات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے پیدا ہونے والی علاقائی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امن، سلامتی اور استحکام کے فروغ کی حمایت کی جائے گی، ساتھ ہی انسانی امداد کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی۔ وہاں کے لوگوں کو انسانی امداد کیسے پہنچائی جائے اس پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس ملاقات میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق شرکت کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ ماہ اپنے کابل دورے کے موقعے پر بتایا تھا کہ انھوں نے طالبان کے وزیر خارجہ کو پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جو متقی نے قبول کر لی۔ اگرچہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے تاہم طالبان کے مقرر کردہ اہلکار اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں تعینات ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ عمران خان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی خبر آنے کے بعد ہو رہا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ان امن مذاکرات میں بھی افغان طالبان نے کردار ادا کیا ہے۔ چینی جریدے گلوگل ٹائمز کے مطابق یہ پلیٹ فارم ایسے ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے بنایا گیا تھا جن کا افغانستان میں براہ راست کردار ہے یا ان کا فریقین پر کوئی اثر رسوخ ہے۔ یاد رہے کہ روس کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ضمیر کابلآف نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انڈیا کا طالبان پر کوئی اثر نہیں جس سے انڈیا کی اہمیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ |
/urdu/pakistan-49819827 | پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر میں 9 لاکھ انڈین فوجی تعینات ہیں اور کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل عام ہو سکتا ہے لہذا عالمی برادری اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ | پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل عام کا خدشے کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 9 لاکھ انڈین فوجی موجود ہیں اور قتل عام ہو سکتا ہے لہذا عالمی برادری اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ نیویارک میں پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں وہ انڈیا کے آئین سے متصادم ہیں۔ فروری میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حملے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’فروری میں ایک لڑکے نے انڈین فوج پر حملہ کیا، پاکستان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن بھارت نے پھر بھی اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا حالانکہ ہم نے بھارت سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے پاکستان کی سرحد سے دہشت گرد کشمیر میں داخل ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن 80 لاکھ لوگ 50 دن سے لاک ڈاؤن میں زندگی گزار رہے ہیں، کیا اس سے بڑی کوئی دہشت گردی ہے؟‘ وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے بتایا کہ حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے انڈین وزی اعظم بات کی اور انھیں بتایا کہ دونوں ملکوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان کی تمام کوششوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ کشمیر کے مسئلے پر عالمی رہنماؤں سے ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے بتایا کہ انھوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بورس جانسن، اینگلا مرکل، فرانس کے صدر میکرون سے بات کی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے اس پہلے کہ وقت نکل جائے کیونکہ کیوبا بحران کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دو جوہری طاقتیں آمنے سامنے ہونے جارہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا علاقہ متنازعہ ہے اور یہ قراردادیں کشمیریوں کو حق خود رادیت دیتی ہیں اور اس وقت جو صورتحال ہے اس پر اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ انھوں نے کہا کہ وہ او آئی سی کے اجلاس میں تمام مسلم قیادت کو جمع کریں گے اور اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ کشمیری مشکل میں ہیں اور وہ مسلمان ہیں اس لیے مسلم دنیا پر لازم ہے کہ وہ ایک مؤقف اپنائیں ورنہ اس سے بنیاد پرستی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اس موقع پر ترک صدر طیب اردوغان کی جانب سے اپنے خطاب میں کشمیر کا ذکر کرنے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ |
/urdu/regional-55066346 | گذشتہ منگل کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان دنیا میں کرسٹل میتھ کی پیداوار کے اعتبار سے نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ | گذشتہ منگل کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان دنیا میں کرسٹل میتھ کی پیداوار کے اعتبار سے نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ ملک کی پوست کی فصلیں پہلے ہی دنیا بھر میں ہیروئن کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور اب مانیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگز ایڈکشن (ای ایم سی ڈی ڈی اے) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کرسٹل میتھ بھی ملک کی اتنی ہی بڑی صنعت بن جائے گی۔ اس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اس وقت ہوا جب منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں نے دریافت کیا کہ افغانستان کے متعدد حصوں میں جھاڑیوں کے طور پر اگنے والے جنگلی پودے ایفیڈرا سے میتھ کا ایک انتہائی اہم جزو یعنی ایفیڈرین بنتا ہے۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر اور افغانستان میں منشیات بنانے والوں سے انٹرویوز کرنے کے بعد ڈاکٹر مینسفیلڈ اور محققین کی ایک ٹیم نے افغاستان کے مشرقی ضلع بکواہ میں ہی 300 سے زیادہ ممکنہ ایفیڈرین لیبارٹریز کی نشاندہی کی۔ یہ علاقہ ملک میں کرسٹل میتھ کی تجارت کا مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر مینسفیلڈ نے دیگر جگہوں پر بھی ایسی لیبارٹریز کی نشاندہی کرنی شروع کر دی ہے۔ طالبان کی جانب سے منشیات سمگل کرنے والوں سے ایک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ای ایم سی ڈی ڈی اے کی رپورٹ کے مطابق طالبان صرف بکواہ ضلع سے سالانہ اندازاً 40 لاکھ ڈالر ٹیکس کی مد میں وصول کر رہے ہیں۔ اس رقم میں کمی یا اضافہ ایفیڈرین یا میتھیمفیٹیمین کی پیداوار کی مقدار میں کمی یا اضافے سے ہو سکتا ہے۔ طالبان کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام علاقوں کی مختلف صنعتوں سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تاہم وہ بھی منشیات کی تجارت سے کسی قسم کے تعلق کو مسترد کرتے ہیں۔ افغانستان میں پیدا کی جانے والی میتھ کی کچھ مقدار ملک میں ہی استعمال ہو جاتی ہے جبکہ اسے ایران بھی سمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میتھیمفیٹیمین یورپ بھی پہنچ سکتی ہے اگر اسے بذریعہ پاکستان، ایران اور مشرقی افریقہ کے راستے سے پہنچایا جائے۔ اینڈریو کننگھم جو ای ایم سی ڈی ڈی اے رپورٹ کے ایک اور مصنف ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت یورپ میں میتھیمفیٹیمین کا استعمال بڑے پیمانے پر تو نہیں کیا جا رہا لیکن ’اس بات کا اندیشہ ضرور موجود ہے کہ کرسٹل میتھ کبھی نہ کبھی یورپ پہنچ ہی جائے گی۔‘ آسٹریلیا میں حکام کے مطابق گذشتہ چند سالوں سے ملک میں افغانستان اور اس کے ہمسائے ایران سے منسوب میتھیمفیٹیمین کو ضبط کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس میں میتھ کی بڑی مقدار بھی شامل ہے جو منرل واٹر کی بوتلوں کے کریٹس میں گھول کر لائی جاتی تھی۔ اس کی نشاندہی اپریل میں کی گئی تھی اور اس کی قیمت تقریباً پانچ کروڑ ڈالر بتائی گئی تھی۔ |
/urdu/pakistan-49056924 | قبائلی اضلاع میں ووٹرز اپنے قبیلے، عزیز اور قومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ دیتے نظر آئے جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی ان علاقوں میں ان امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ترجیح دی تھی جن کو اپنے قبیلے یا قوم کی حمایت حاصل تھی۔ | سیاسی مبصرین طویل عرصے سے فوجی آپریشنز، جنگی صورتحال اور شورش سے متاثرہ ان علاقوں میں پہلی بار پرامن انتخابات کے انعقاد کو امن کی جیت قرار دیتے ہیں۔ قبائلی اضلاع کے ہر حلقے کی سیاست کا اپنا ہی مزاج ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ تو ضرور لیا ہے لیکن ماضی کی طرح بنیادی اہمیت قومیت اور قبیلے کو دی جاتی رہی ہے۔ ووٹرز اپنے قبیلے، عزیز اور قومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ دیتے نظر آئے جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی ان علاقوں میں ان امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ترجیح دی تھی جن کو اپنے قبیلے یا قوم کی حمایت حاصل تھی۔ جمرود میں مختلف قبائل آباد ہیں اور ہر علاقے میں لوگ اپنے قبیلے اور قریبی عزیزوں کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں۔ علاقے میں جس امیدوار کے قریبی عزیز اور قبیلے کے لوگ زیادہ تھے وہاں اسی امیدوار کے حمایتی زیادہ نظر آرہے تھے۔ بظاہر تو پی ٹی ایم نے کسی امیدوار کو نا تو ٹکٹ جاری کیا ہے اور نا ہی کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا لیکن غیر اعلانیہ طور پر بھی لوگ ان امیدواروں کو پی ٹی ایم کا ہم خیال سمجھتے ہوئے ووٹ ڈالتے رہے۔ خیبر ایجنسی کی طرح دیگر قبائلی علاقوں میں بھی بیشتر ایسے امیدوار نمایاں رہے جو سابق اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز اور قبائلی رہنماؤں کے بیٹے، بھتیجے اور یا ان کے رشتہ دار ہیں۔ انتخابی امیدوار بلاول آفریدی اور امجد آفریدی سابق رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل کے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ خیبر ایجنسی کی طرح دیگر قبائلی علاقوں میں بھی بیشتر ایسے امیدوار نمایاں رہے جو سابق اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز اور قبائلی رہنماؤں کے بیٹے بھتیجے اور یا ان کے رشتہ دار ہیں ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے ایک سرکاری سکول میں قائم خواتین کے پولنگ سٹیشن کے باہر عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیدار یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ پولنگ سٹیشن کے اندر خاصہ دار اہلکار من پسند امیدواروں کے ووٹرز کو اندر آنے کی اجازت دے رہے ہیں جبکہ ان کے ووٹرز کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ضلع خیبر سے ایک خاتون جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ ایک پولنگ سٹیشن پر خواتین ووٹرز کو بتا رہی تھیں کہ کہاں مہر لگانی ہے اور وہ خواتین ووٹرز کو اپنے من پسند امیدوار کے نام پر مہر لگانے کی تجویز دیتی رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’صرف ایک آزاد امیدوار کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں اور ان کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔‘ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعلیٰ کے مشیر اجمل خان وزیر نے کہا ہے کہ یہ اہم نہیں ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک جمہوری عمل ہے جو قبائلی علاقوں میں شروع ہوا ہے اور وہ ان تمام امیدواروں کو اسمبلی میں خوش آمدید کہیں گے جو کامیاب ہوں گے۔ |
/urdu/pakistan-51971299 | پاکستان کے چیف جسٹس کو بھیجی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جسٹس سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہیں اور سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق وہ عدالتِ عظمی کے جج کے طور تعیناتی کے لیے موزوں ہیں۔ | چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے کہ سینیارٹی اور میرٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تعیناتی ان کا حق ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے ان سے جونیئر جج کی عدالتِ عظمی میں تعیناتی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سینیئر وکیل قاضی انور کے ذریعے بھیجی گئی یہ درخواست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام لکھی گئی ہے جو کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس کمیشن کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اعلی عدلیہ میں ججز کا تقرر کرنے کے ساتھ ساتھ سینیارٹی کے حساب سے ان کو عدالتِ عظمی میں تعینات کرنے کے بارے میں فیصلے کرتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان سے جونیئر جج کو عدالتِ عظمی میں شامل کر کے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے وضع کردہ طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ کے وکیل قاضی محمد انور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے یہ درخواست چیف جسٹس کو گذشتہ روز موصول ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت جسٹس وقار احمد سیٹھ کا حق ہے کہ انھیں سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے اور اس کے لیے وضع کردہ طریقہ کار ہے جس کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جسٹس سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہیں اور سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق وہ عدالتِ عظمی کے جج کے طور تعیناتی کے لیے موزوں ہیں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر انھیں آئندہ کبھی سپریم کورٹ میں تعینات کیا بھی گیا تو وہ اپنے سے جونیئر ججز کے بھی جونیئر ہوں گے اور اس سے اعلی عدلیہ میں بےیقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ۔ درخواست میں انھوں نے سپریم کورٹ کے الجہاد ٹرسٹ کیس اور ملک اسد علی بنام وفاقی حکومت میں دیے گئے فیصلوں کے حوالے بھی دیے ہیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی سینیارٹی اور میرٹ کے باوجود انھیں تین مرتبہ نظر انداز کیا گیا اور ان حوالے سے ان کی شنوائی بھی نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف تمام درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ 1990 میں ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ انھیں 2011 میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات کیا گیا اور اس کے بعد وہ بینکنگ کورٹس سمیت مختلف عدالتوں میں تعینات رہے۔ |
/urdu/pakistan-53461359 | عید الاضحیٰ کے لیے جانوروں کی خریداری سے لے کر کراچی میں شادی ہال مالکان کے احتجاج اور ہاتھی کاون کی کمبوڈیا منتقلی کے متعلق خبروں تک، گذشتہ ہفتے پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ | عید الاضحیٰ کے لیے جانوروں کی خریداری سے لے کر کراچی میں شادی ہال مالکان کے احتجاج اور ہاتھی کاون کی کمبوڈیا منتقلی کے متعلق خبروں تک، گذشتہ ہفتے پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ عید الاضحیٰ سے قبل کراچی کی ایک مویشی منڈی میں قربانی کے جانور فروخت کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے لیے مویشی منڈی سے جانور کی خرید کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن اس بار کورونا وائرس کے باعث آن لائن خریداری اور بکنگ بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ شادی ہالوں اور ہاسٹلوں کے کارکنان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں اپنے کاروبار دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رواں برس مارچ سے ملک بھر کے شادی ہال اور ہاسٹلز بند ہیں۔ وفاقی حکومت نے مرغزار چڑیا گھر کے ہاتھی کاون کو عدالتی حکم پر کمبوڈیا منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان کے وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ایک باڑ کے پیچھے سے کاون کو دیکھ رہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جمعے کے روز ہونے والی بارش نے شہری نظام درہم برہم کردیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان میں دیامر بھاشا ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھا محکمہِ صحت کے کارکن کراچی کے مقامی باشندوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے نمونے جمع کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک دو لاکھ 63 ہزار سے زیادہ افراد میں اس مرض کی تصدیق ہوئی ہے۔ پاکستان میں دینی مدارس کے سب سے بڑے امتحانی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت سالانہ امتحانات منعقد ہوئے۔ اس موقعے پر وفاق المدارس کے صوبائی ناظم مولانا حسین احمد کا کہنا تھا کہ ’وفاق المدارس نے مشکل حالات میں بھی امتحانات کے منظم اور مثالی نظم و ضبط کی روایت برقرار رکھی اور ایس اوپیز پر مکمل عمل درآمد کے ساتھ ملک بھر میں امتحانات منعقد کیے۔‘ |
/urdu/regional-59135749 | افغان طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے ہسپتال پر حملہ کیا جنھیں طالبان جنگجوؤں نے ہلاک کر دیا ہے۔ | کابل میں وزارت صحت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ شہر میں واقع فوجی ہسپتال پر ہونے والے حملے میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک اور کم از کم 16 زخمی ہوئے ہیں۔ 400 بستروں پر مشتمل سردار محمد داؤد خان ہسپتال پر حملے سے پہلے دو دھماکے ہوئے جس کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک دھماکہ ہسپتال کے سامنے جبکہ دوسرا قریب ہی ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد حملہ آور ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بی بی سی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ خراسان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے ہسپتال کے گیٹ پر پہلا دھماکہ کیا اور ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ بلاک کریمی کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے دولت اسلامیہ خراسان کے پانچ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ کابل سے آنے والی ویڈیو فوٹیج اور تصاویر میں کابل کی فضاؤں میں دھوئیں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں اور گولیاں چلنے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔ ملٹری ہسپتال کے قریب دھماکوں کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ شدت پسند تنظم نام نہاد دولت اسلامیہ کی ایک مقامی شاخ آئی ایس خراسان نے طالبان اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ رواں برس اگست میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ماضی میں بھی سردار داؤد ہسپتال کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 2017 میں داؤد ہسپتال پر ہونے والے ایک حملے میں 30 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ |
/urdu/regional-58898774 | انڈیا کی ریاست کیرالہ میں ایک شخص کو اپنی بیوی کو کوبرا سے ڈسوا کر اس کا قتل کرنے کے جرم میں دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ | اس سے پہلے بھی اتھرا کو ایک سانپ نے کاٹا تھا اور وہ اس سے صحت یاب ہو رہی تھیں انڈیا کی ریاست کیرالہ میں ایک شخص کو اپنی بیوی کو کوبرا سے ڈسوا کر اس کا قتل کرنے کے جرم میں دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سورج کمار کو گذشتہ سال اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ان کی بیوی اُتھرا کی سانپ کے کاٹنے سے موت ہوگئی تھی۔ اُتھرا کے گھر والوں نے شکایت کی تھی کہ سورج ان کی بیٹی کو جہیز کے لیے پریشان کرتا تھا اس کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کر دی تھی۔ 25 سالہ اُتھرا گذشتہ سال مئی میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ پیر کو ایک عدالت نے سورج کو اتھرا کے بستر میں سانپ چھوڑنے کا مجرم قرار دیا ہے۔ اتھرا اس وقت سو رہی تھیں۔ اس سے پہلے بھی اُتھرا کو ایک سانپ نے کاٹا تھا اور وہ اس سے صحت یاب ہو رہی تھیں، لیکن اس کے بعد انھیں کوبرا نے ڈس لیا جس پر اُتھرا کے گھر والوں کو شک ہوا۔ پولیس نے کہا کہ انھوں نے اپنی تحقیقات کا رخ سورج کی جانب موڑ دیا جس سے پتہ چلا کہ ان دونوں کوششوں میں سورج کا ہی ہاتھ تھا۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کو بھی گرفتار کیا جس نے سانپوں کی خریداری میں سورج کی مدد کی تھی جس نے بعد میں وعدہ معاف گواہ بن کر پولیس کی مدد کی۔ ایک انڈین ویب سائٹ 'لاییو لا' کے مطابق پولیس کی جانب سے فرد جرم ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی جس میں قتل کے لیے سورج کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی سازش کی تفصیل تھی۔ استغاثہ نے استدلال کیا تھا کہ یہ ایک 'عجیب و غریب معاملہ' ہے اور ملزم کو سزائے موت دی جانی چاہیے۔ جج نے اتفاق کیا کہ اس کیس کی نوعیت عام نہیں اور انھوں نے سورج کو دو بار عمر قید کی سزا سنائی اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ |
/urdu/pakistan-60241576 | بلوچستان کے دو سرحدی اضلاع میں فرنٹیئر کور کے کیمپس پر حملے کے بعد اب وہاں کے مقامی افراد بتا رہے ہیں کہ حملے سے آس پاس کے علاقوں کو کتنا نقصان پہنچا۔ | نوشکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے لگ بھگ 150 کلومیٹر کے فاصلے پر جانبِ مغرب واقع ہے اور اس ضلع کی شمال میں طویل سرحد افغانستان سے لگتی ہے۔ فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر نوشکی شہر کے مغرب میں واقع پہاڑی کے دامن میں ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ان حملوں میں اب تک ایک افسر سمیت سات فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 13 حملہ آور مارے گئے ہیں اور پنجگور میں چار سے پانچ حملہ آوروں کو محاصرے میں لے لیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نوشکی نعیم جان گچکی نے بتایا کہ نوشکی میں ایف سی ہیڈکوارٹر کے مین گیٹ پر دھماکہ کلی شریف خان روڈ والی طرف سے ہوا۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس دھماکے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ نوشکی میں مقامی صحافیوں اور ایف سی ہیڈکوارٹر کے قرب و جوار میں بسنے والے شہریوں نے بتایا کہ بدھ کی شام سات بجے سے فائرنگ کی جو آوازیں آنا شروع ہوئی تھیں وہ صبح نو بجے تک جاری رہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ فائرنگ کی آوازیں اگرچہ صبح نو بجے تک آتی رہیں لیکن ان میں شدت دھماکے کے چار، پانچ گھنٹے بعد تک بہت زیادہ تھی۔ ایک صحافی نے بتایا کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے نوشکی میں اب تک بم دھماکوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں لیکن بدھ کی شب جو پہلا دھماکہ ہوا اس شدت کے دھماکے کی آواز پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ نوشکی ہی کے ایک اور مقامی صحافی، جن کا گھر شہر کے اندر موجود ہے نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کے ساتھ قرب و جوار کے علاقے میں دھول چھا گئی اور ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کی حدود میں لوگوں کے گھروں، دکانوں اور دفاتر کے شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ظفر مینگل نے بتایا کہ ہسپتال میں کافی نقصان ہوا ہے اور سب سے زیادہ نقصان شعبہ امراضِ نسواں، آپریشن تھیٹر، لیبارٹری اور شعبہ امراض چشم کو پہنچا ہے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی برکت مری نے بتایا کہ یہ دھماکہ رات کو آٹھ بجے کے قریب ہوا اور قرب و جوار کے لوگوں نے اس کے بعد شعلے بلند ہوتے دیکھے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی برکت مری نے بتایا کہ پنجگور میں بھی طویل عرصے سے بم دھماکوں کے واقعات پیش آ رہے ہیں لیکن جو دھماکہ گذشتہ شب ہوا اس جیسا دھماکہ پہلے پنجگور میں نہیں ہوا۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس دھماکے کے بعد ایف سی کے ہیڈکوارٹر اور قرب و جوار کے علاقوں میں چھوٹے اور بڑے دھماکوں کی بھی آوازیں سُنائی دیں۔ بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ پنجگور میں سرکاری حکام نے لوگوں کو معاملہ واضح ہونے تک شہر کی جانب آنے سے منع کیا اور ان کو کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں سے نہیں نکلیں۔ |
/urdu/regional-55013880 | تقسیم ہنِد کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں کئی سڑکوں، عمارات اور اہم مقامات کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ لیکن بات اب کھانے پینے کی جگہوں کے ناموں تک آ پہنچی ہے۔ | ’اگر پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری ہو سکتی ہے تو انڈیا کے شہر ممبئی میں کراچی نام کی بیکری کیوں نہیں چل سکتی؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری تو بمبئی بیکری کے کیک سے لطف اندوز ہوتے رہیں لیکن سیکولر انڈیا میں کراچی نام کی بیکری کے کیک اور مٹھائی نہیں چل سکتے؟‘ تقسیم ہنِد کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں کئی سڑکوں، عمارات اور اہم مقامات کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ لیکن بات اب کھانے پینے کی جگہوں کے ناموں تک آ پہنچی ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا ’کراچی بیکری اور کراچی مٹھائیاں پچھلے 60 برسوں سے ممبئی میں ہیں۔ ان کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب ان کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘ یوں تو پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا صارفین کے درمیان کرکٹ سے لے کر کشمیر تک بحث کے لیے کئی موضوعات ہیں اور ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے صارفین بحث میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس مرتبہ بظاہر زیادہ تر انڈین صارفین ردِعمل میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں موجود بمبئی بیکری کی تصاویر پوسٹ کرتے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ’اگر پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری ہو سکتی ہے تو انڈیا کے شہر ممبئی میں کراچی نام کی بیکری کیوں نہیں چل سکتی؟‘ کئی انڈین صارفین اس اقدام پر سخت برہم ہیں۔ کراچی بیکری کی تاریخ بتاتے ہوئے سپنا بھونانی لکھتی ہیں کہ ’کراچی بیکری کی بنیاد خانچند رامنانی، ایک سندھی نے رکھی تھی، جنھیں تقسیم ہند کے دوران پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔ اور اس دکان پر حملہ ایک شرمناک اقدام ہے۔ سپنا کا ماننا ہے کہ ’سندھیوں کے کھوئے ہوئے گھر کی یاد دلانے کے لیے اس بیکری کا نام 'کراچی' ہی رہنا چاہیے۔‘ تاجدیپ سردسائی کے مطابق یہ افسوسناک ہے کہ آج کے انڈیا میں ممبئی اور کراچی کے مابین قریبی تعلقات دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ دونوں شہروں کے مابین 1965 تک دو سٹیمر، سبرمتی اور سرسوتی نام کی ریل سروس چل رہی تھیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات پاکستان میں رہنے والے ڈاکٹر عمیر سید کے بھی ہیں، وہ پوچھتے ہیں ’پاکستان میں بمبئی اور انڈیا میں کراچی۔۔ نام میں کیا رکھا ہے؟‘ اس کے جواب میں صدف نے انھیں پاکستان میں موجود بمبئی بریانی سے لے کر دہلی نہاری کراچی، امبالا مٹھائیاں، بمبئی چوپٹی ریستوران، جالندھر بیکرز پشاور، شملہ بیکرز راولپنڈی، امرتسر ہریسہ اور میرٹھ کباب گھر تک ناجانے کتنے نام گنوا دیے۔ |
/urdu/regional-54095508 | امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ’امریکہ ایک خودمختار، متحد، جمہوری اور پُر امن افغانستان کا حمایت کرتا ہے۔‘ | مذاکرات کے آغاز کے موقعے پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ’امریکہ ایک خودمختار، متحد، جمہوری اور پُرامن افغانستان کا حمایت کرتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں مستقبل کے سیاسی نظام کا انتخاب یقیناً آپ نے کرنا ہے۔ امریکہ کا ماننا ہے کہ جمہوریت خاص طور پر سیاسی طور پر پرُامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا اصول بہترین طرح سے کام کرتا ہے۔‘ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افتتاحی تقریب کے لیے دوحا جاتے ہوئے اس اجلاس کو ’تاریخی‘ قرار دیا تھا۔ وفد کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ’منصفانہ اور باوقار امن‘ کے خواہاں ہیں۔ اس وفد میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمار اور کابینہ کے دیگر اراکین شامل ہیں۔ طلوع ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ 'امن مذاکرات کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کا نصب العین ایک ترقی پسند، آزاد اور متحد افغانستان کا قیام ہے جس میں یہاں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔' ستانکزئی نے کئی مرتبہ پاکستان کے خلاف کھلے عام بات کی ہے اور اس پر افغانستان کے اندر مداخلت کرنے اور طالبان کی شر پسندانہ کارروائیوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان قیدیوں میں ایک حکمت اللہ ہیں افغان نیشنل آرمی کے اہلکار تھے۔ انھوں نے سال 2011 میں افغانستان کے اوروزگان صوبے میں آسٹریلیا کے تین فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکمت اللہ پر الزام ہے کہ ان فوجیوں پر حملے کے بعد وہ افغان نیشنل آرمی کی گاڑی میں فرار ہوے اور پھر سال 2011 کے آخر میں طالبان کے ساتھ مل گئے تھے۔ لیکن دوسری جانب جیسے ان مذاکرات کو بین الافغان مذاکرات کا نام دیا گیا ہے اس کے برعکس کچھ اہم افغان دھڑے ان مذاکرات میں شریک نہیں ہو رہے۔ ان اہم شخصیات میں سابق افغان وزیر اعظم اور اپنی جماعت کے سربراہ گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ افغان حکومت نے ان مذاکرات کے لیے ایک کمزور ٹیم تشکیل دی ہے جسے مذاکرات کے بارے میں کچھ تجربہ اور معلومات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے وفد کو ان مذاکرات کے ایجنڈے سے باخبر نہیں رکھا گیا اور یہ کہ موجودہ افغان مذاکراتی ٹیم ملک میں امن کے قیام کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتی۔ اس دوران امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کردے گا۔ امریکی فوجیوں کی ایک تعداد افغانستان سے واپس امریکہ روانہ ہو گئی تھی اور قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع تو ہو گیا تھا لیکن اس میں رکاوٹیں آتی رہیں اور تاخیر ہوتی رہی۔ اگرچہ بین الافغان مذاکرات معاہدے کے دس روز بعد شروع ہونا تھے لیکن اس میں 6 مہینے اور بارہ دن لگ گئے ہیں۔ |
/urdu/regional-53575581 | انڈیا میں ایودھیا کے رام مندر کی بنیاد میں ایک ٹائم کیپسول رکھے جانے کی افواہیں گردش میں ہیں لیکن یہ ٹائم کیپسول ہے کیا اور اس میں کیا ہو گا؟ | انڈیا میں ایودھیا کے رام مندر ٹرسٹ کے رکن کمیشور چوپال نے دعویٰ کیا ہے کہ رام مندر کی بنیادوں میں ایک ’ٹائم کیپسول‘ رکھے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چوپال نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹائم کیپسول کو زمین سے لگ بھگ دو ہزار فٹ نیچے گاڑا جائے گا تاکہ مستقبل میں اگر کوئی مندر کی تاریخ کے بارے میں معلوم کرنا چاہے تو اسے تمام شواہد مل جائیں اور دوبارہ اس جگہ کے حوالے سے کوئی تنازع کھڑا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی کیے جا رہے ہیں کہ اگر کیپسول کی بات صحیح ہے تو اس ٹائم کیپسول میں کیا ڈالا جائے گا۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک طرح سے ایودھیا میں رام مندر کی جگہ کی تاریخ لکھنے جیسا ہے۔ وہیں لوگ یہ بھی جاننا چاپتے ہیں کہ ٹائم کیپسول کیا ہے اور کہاں سے آیا اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے دور حاضرہ کی تمام معلومات کو کسی ایسی شکل میں جمع کرنا ہو گا جو ہزاروں برس بعد بھی محفوظ رہ پائیں۔ اس کے بعد اسے ایسی خاص جگہ زمین کے نیچے دبانا ہو گا جہاں ایک ہزار سال بعد بھی لوگ کھدائی کریں اور انھیں کھدائی کے دوران ٹائم کیپسول مل سکے۔ ٹائم کیپسول کی شکل و صورت کے بارے میں کوئی واضح اصول نہیں ہیں۔ یہ بیلن جیسا، چوکور، مستطیل یا کسی بھی اور شکل کا ہو سکتا ہے۔ شرط بس یہ ہے کہ ٹائم کیپسول اپنا مقصد پورا کرتا ہو اور معلومات کو ایک خاص عرصے تک محفوظ رکھ سکے۔ کے کے محمد کے مطابق ’ٹائم کیپسول کیسا ہو گا یہ صرف اس شخص یا تنظیم پر منحصر ہو گا جو اسے ڈیزائن کرتے ہیں۔ شکل کی بات کی جائے تو بیلن یا گول شکل میں زمین کے اندر کوئی چیز زیادہ عرصے تک دباؤ برداشت کرنے میں کامیاب رہتی ہے لیکن اب تک انڈیا میں ایسا کوئی ٹائم کیپسول نہیں ملا۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے لال قلعے کے اندر ایک ٹائم کیپسول ڈلوایا تھا۔‘ رام مندر کی بنیاد میں ممکنہ طور پر کیپسول ڈالے جانے کے بارے میں کے کے محمد نے کہا کہ ’یہ اچھا قدم ہے کیوں کہ اس طرح آنے والے دور میں کسی طرح کا کوئی نیا تنازع نہیں پیدا ہو سکے گا کیوںکہ ابھی سب کچھ عدالت کے فیصلے کے مطابق ہو رہا ہے۔‘ رام مندر کی زمین میں ٹائم کیپسول کو دبائے جانے کی خبر آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر سوالات کیے جا رہے ہیں کہ ٹائم کیپسول کے اندر کیا ڈالا جانا ٹھیک ہو گا اور کی نہیں؟ سوال یہی ہے کہ کیا ایودھیا کے رام مندر کی بنیاد میں واقعی ٹائم کیپسول ڈالے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے؟ |
/urdu/pakistan-56164946 | حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ ادارہ اس وقت اس انتخاب کے لیے نیوٹرل دکھائی دے رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت شاید پہلی مرتبہ سیاست کی چکی پر کوشش کے دانے پیس رہی ہے۔ | آئینے کو آئینے میں عکس معکوس نظر آتا ہے۔ اندھوں کے شہر میں آئینوں کے بہت سوداگر ہیں مگر آئینوں کے شہر میں اندھوں کا کیا کام؟ عکس اور معکوس کے اس کھیل میں اصل چہرے ڈھونڈنے سے ملتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے پاکستان میں مگر چند ایسے چہرے بھی ملے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر آئینے کو ڈھونڈنا نہیں پڑا۔ جج صاحب نے اپنی طرف اٹھائی گئی انگلیوں کا رُخ عدالت کی جانب موڑا تو انصاف کے بڑے گھر کے اختیار میں ارتعاش ضرور پیدا ہوا۔ ایک جانب الیکشن کمیشن تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے یہ تاثر مضبوط کیا کہ ادارے زندہ ہیں اور تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ پے در پے واقعات اس وقت میں ہوئے ہیں جب ایک طرف سینیٹ انتخابات اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور دوسری جانب افواج پاکستان کے سربراہ نے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے اور ادارے کے سیاست سے الگ رہنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہی نہیں جوڑ توڑ کی سیاست کے بے تاج بادشاہ آصف علی زرداری نے سینیٹ انتخابات کی اہم سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابل یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کر کے ایک اہم پتہ بھی کھیل دیا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں تمام انتخاب ایک طرف اور اسلام آباد کی جنرل نشست کا انتخاب دوسری طرف۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ ادارہ اس وقت اس انتخاب کے لیے نیوٹرل دکھائی دے رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت شاید پہلی مرتبہ سیاست کی چکی پر کوشش کے دانے پیس رہی ہے۔ اطلاعات اور شواہد ہیں کہ تاحال کسی بھی حکومتی اور اپوزیشن رکن کو کسی نامعلوم نمبر سے کال موصول نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ گیلانی صاحب نہ صرف شمالی پنجاب بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی اراکین اسمبلی سے رابطے میں ہیں اور پُراُمید ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس صورتحال میں وہ ’خاموش اکثریت‘ کے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومتی اراکین میں سے چند اگلے انتخابات میں پی پی پی اور ن لیگ سے صرف انتخابی ٹکٹس کے وعدے پر ہی راضی ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ کی ایک اہم شخصیت نے تجویز دی ہے کہ اوپن ووٹ دینے والوں کو ڈی سیٹ کیے جانے کی صورت پی ڈی ایم ان کے مد مقابل کوئی امیدوار کھڑا نہ کرے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس پوری صورتحال میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے اسی لیے نہ صرف یوسف رضا گیلانی کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے بلکہ چیئرمین سینیٹ عدم اعتماد کی صورت میں پی پی پی اور ن لیگ کے مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ حالیہ واقعات کی روشنی میں اہم بات یہ ہے کہ مختلف اداروں کی طرح کیا حکومتی اراکین بھی جاگ جائیں گے اور اگر طاقتور حلقے اسی طرح نیوٹرل رہے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔۔۔ کیا سینیٹ الیکشن میں دُھند چھٹ سکتی ہے؟ |
/urdu/science-57210292 | ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر اب گالم گلوچ والے پیغامات کا پتا لگایا جائے گا اور جنسی ہراسانی سے نمٹنے کی کوشش میں لوگوں کو پیغام بھیجنے سے پہلے ’رکنے اور سوچنے‘ کے لیے کہا جائے گا۔ | ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر اب گالم گلوچ والے پیغامات کا پتا لگایا جائے گا اور جنسی ہراسانی سے نمٹنے کی کوشش میں لوگوں کو پیغام بھیجنے سے پہلے ’رکنے اور سوچنے‘ کے لیے کہا جائے گا۔ اس خودکار نظام کے تحت ’تکلیف پہنچانے والی زبان‘ کو سیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کی بنیاد وہ پیغامات ہیں جن کے بارے میں صارفین نے شکایت کی ہے۔ ٹِنڈر نے کہا ہے کہ ’آر یو شیور‘ نظام کے تحت آزمائشوں کے دوران ’نامناسب زبان کے استعمال والے پیغامات‘ میں تقریباً دس فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ انسٹاگرام اور ٹوئٹر پہلے سے ہی اسی طرح کے نظام کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ گالم گلوچ والے تبصرے اور ٹویٹس کا پتا چل سکے۔ انسٹاگرام اگر کسی تصویر پر کمنٹس میں ایسا مواد پاتا ہے جو کسی کو نقصان پہنچانے یا ہراسانی کا باعث ہے تو وہ اپنے صارفین سے پوچھتا ہے کہ ’کیا آپ واقعی یہ پوسٹ کرنا چاہتے ہیں؟‘ مئی کے شروع میں ٹوئٹر نے کہا تھا کہ وہ لوگوں سے پوسٹ کرنے سے پہلے اپنے ٹویٹس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دے گا اگر ان میں ’نقصان دہ یا توہین آمیز‘ زبان کا استعمال کیا جائے۔ ٹِنڈر پہلے سے ہی لوگوں سے ایسے پیغامات موصول ہونے پر پوچھتا ہے، جس میں اسے کوئی گالم گلوچ والا جملہ ملا ہو کہ ’کیا یہ آپ کے لیے پریشان کن ہے؟‘ لیکن نئے نظام میں مصنف سے پیغام بھیجنے سے پہلے اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ ڈیٹنگ ایپ نے کہا کہ جن لوگوں نے آزمائشی ورژن کے دوران انتباہ دیکھا، ان کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف ’اگلے مہینے کے دوران غیر موزوں پیغامات کے بارے میں اطلاع دیے جانے کے امکانات کم ہوں گے۔‘ سوشل میڈیا پر زہریلے پیغامات کو روکنے کے لیے اقدامات سوشل میڈیا ایسے لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو ہراسانی یا نفرت سے بھرے پیغامات شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کو ٹِنڈر پر اجنبیوں سے ایسے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر لوگ بعض اوقات دوسروں سے گالم گلوچ میں ’مقابلہ‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹِنڈر کے تجربے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ لوگوں کو روکنے اور سوچنے کے لیے کہنے سے ہراسانی سے بھرے پیغامات میں دس فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے 90 فیصد اب بھی جال سے بچ نکل رہے ہیں۔ شاید لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف ان کی تصاویر پر مبنی ’پُرکشش ہنگر گیمز‘ پر اُکسانا اس مسئلے کا ایک حصہ ہے۔ اور یہ ٹاپ پِکس ایک حساب پر مبنی ہے جس میں سب سے زیادہ مانگ والے صارف کی فہرست تیار ہوتی ہے۔ |
/urdu/world-57334455 | چین میں ہاتھیوں کے اس آوارہ گروہ نے اب تک 500 کلومیٹر کا سفر طے کر لیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ اس سیر پر کیوں نکلے ہوئے ہیں۔ | چین میں ہاتھیوں کے ایک گشت کرتے جھنڈ کو جس نے پورے چین میں شہرت حاصل کر لی ہے ایک جنگل میں سوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ ہاتھی ژیانگ کے قصبے کے قریب سوتے ہوئے دیکھے گئے کیونکہ اس علاقے میں تیز بارشیں ہوئی تھیں اور ان بارشوں کی وجہ سے ان کے سفر کرنے کی رفتار سست پڑ گئی تھی۔ یہ ہاتھی گذشتہ 15 ماہ سے سفر کر رہے ہیں اور اپنے مخصوص علاقے سے 500 کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔ چین کے حکام ان ہاتھیوں کے سفر پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں جو بہت سے جنگلات، کھیتوں،شہروں اور دیہاتوں سے گزرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این نے اطلاع دی ہے کہ حکومت نے ان ہاتھیوں پر نظر رکھنے کے لیے 14 ڈرون اور 500 افراد تعینات کیے ہیں تاکہ ان ہاتھوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکے۔ ان ہاتھیوں کو جنوب مغرب کی طرف جانے دینے کے لیے سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔ ماضی میں ان ہاتھیوں کا رخ موڑنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں لیکن لگتا ہے کہ اب یہ ہاتھی واپس اپنے علاقے کی جانب رخ کر رہے ہیں جو کہ چین کے جنوب مغربی یونان صوبےمیں مینگیانگزی کے نیچر ریزور میں قائم ہے۔ اس جھنڈ میں بچوں سمیت 15 ہاتھی ہیں۔ یونان صوبے کے آگ بجھانے والے ادارے کے اہلکاروں کے مطابق ایک نر ہاتھی جھنڈ سے الگ ہو کر چار کلو میٹر دور موجود ہے۔ ان جانوروں نے لاکھوں ڈالر کی مالیت کی کھڑی فصلیں اپنی خوراک بنا لی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے راستے میں عمارتوں کو نقصان بھی پہنچایا اور کئی جگہوں پر گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں اپنی سونڈیں ڈالیں۔ جن شہروں اور دیہاتوں سے یہ ہاتھی گزرے ہیں ان میں کنمنگ کا شہر بھی شامل ہے جہاں کئی کروڑ افراد آباد ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان ہاتھیوں نے اپنے علاقے کو چھوڑ کر سفر کیوں اختیار کیا ہے اور اس معاملے میں پوری دنیا نے دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی ناتجربہ کار ہاتھی اس پورے جھنڈ کو لے کر نکل پڑا ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہاتھی اب نیا علاقہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایشیا میں ہاتھی ناپید ہو رہے ہیں اور ان کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ چین میں 300 کے قریب جنگلی ہاتھی ہیں جن کی اکثریت یونان کے صوبے میں ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے اس سے پہلے ہاتھیوں نے کبھی اتنا طویل سفر طے نہیں کیا ہے۔ |
/urdu/regional-59196130 | نئی دہلی کے شمالی علاقے براڑی میں بریانی کی دکان چلانے والے مسلمان دکاندار کو ایک شخص کی دھمکی دینے کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔ | انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمالی علاقے براڑی کے سنت نگر میں دیوالی کے دن بریانی کی دکان چلانے والے ایک مسلمان دکاندار کو دھمکیوں کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد دہلی پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ اس ویڈیو میں دھمکی دینے والا شخص اپنا نام نریش کمار سوریہ ونشی بتا رہا ہے اور خود کو سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل کا رکن ظاہر کر رہا ہے۔ انگریزی کے معروف اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے کہا کہ دہلی پولیس نے براڑی پولیس سٹیشن میں دفعہ 295 اے کے تحت مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا مقدمہ درج کیا ہے۔ سوما نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘مسلمانوں کو اس ملک میں عوامی مقامات اور منظرِ عام سے ہٹایا جا رہا ہے۔ ایس آر کے (شاہ رخ خان) سے لے کر این سی آر (نیشنل کیپیٹل ریجن) دہلی میں بریانی تک اور آسام کے معین الحق سے لے کر گرگاؤں میں نماز تک۔‘ 'ہمارے ملک میں کلچرل نیشنلزم (ثقافتی قوم پرستی) اس قسم کی ذہنیت کو فروغ دے رہا ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔‘ بریانی کو انڈیا کی مقبول ترین ڈشز میں سے ایک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن اسے گذشتہ چند سالوں سے ایک خاص مذہب کی ڈش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن سنہ 2019 میں جب شہریت کا متنازع بل (سی اے اے) منظور کیا گیا اور اس کے خلاف دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں تقریباً 50 دنوں تک مسلسل مظاہرہ ہوتا رہا تو حکمراں جماعت بی جے پی کے بہت سے رہنماؤں نے مظاہرین کو بریانی کھلانے کی بات کہی اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ راہل گاندھی کی انتخابی مہم کے دوران اُن کی کھانا کھاتے ہوئے ایک تصویر کو ایڈٹ کر کے بریانی کی تصویر لگا کر پروپیگنڈا کیا گیا کہ راہل گاندھی بریانی کھا رہے ہیں جس سے مبینہ طور پر اُن کا مسلمانوں کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بریانی لوگوں کی پسندیدہ ڈش ہے اور ہر علاقے میں اس کا ذائقہ اور بنانے کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ جنوبی انڈیا کے مالا بار سے لے کر حیدر آباد، دلی، مرادآباد، اودھ یعنی لکھنؤ اور کلکتے کی اپنی اپنی اور جداگانہ بریانی ہوا کرتی ہے۔ اسے بعض کھانے کے شوقین نے انڈیا کی مشترکہ تہذیب کی نمائندہ غذا بھی کہا ہے جس میں مختلف چیزوں کو ملا کر ایک لذیذ پکوان تیار ہوتا ہے۔ |
/urdu/regional-58660902 | پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو دھمکی آمیز پیغام بھیجنے کے لیے جو ڈیوائس اور ای میل آئی ڈی استعمال کی گئی وہ انڈیا سے چلائی جا رہی تھی اور اس کے پیچھے ممکنہ طور پر ’ممبئی کے اوم پرکاش مشرا‘ ملوث تھے۔ | پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو دھمکی آمیز پیغام بھیجنے کے لیے جو ڈیوائس اور ای میل آئی ڈی استعمال کی گئی وہ انڈیا سے چلائی جا رہی تھی اور اس کے پیچھے ’ممبئی کے اوم پرکاش مشرا‘ ملوث تھے۔ فواد چوہدری نے بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دھمکی آمیز پیغامات انڈین اکاؤنٹس سے موصول ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ اکثر آئی ڈیز اور ای میلز ہندی ناموں پر بنائی گئی ہیں جیسے ’فلموں، ڈراموں اور میوزک کے ناموں پر۔‘ ان کے مطابق نیوزی لینڈ کو دھمکی آمیز پیغام بھیجنے کے لیے جو ڈیوائس استعمال کی گئی وہ انڈیا سے چلائی جا رہی تھی اور اس کے پیچھے ’اوم پرکاش مشرا ہیں، جو مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔‘ فواد چوہدری نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کھلاڑی مارٹن گپٹل کی اہلیہ کو ایک ای میل موصول ہوئی تھی جس میں دھمکی دی گئی کہ ’ان کے خاوند کو پاکستان میں قتل کر دیا جائے گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اس پر ہم نے تحقیق کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ای میل کسی سوشل میڈیا نیٹ ورک سے جڑی نہیں تھی۔ ای میل اکاؤنٹ 21 اگست کو رات ایک بج کر پانچ منٹ پر بنایا گیا اور صبح 11 بجے کے قریب مارٹن گپٹل کی بیوی کو ای میل بھیجی گئی۔ اس اکاؤنٹ سے اب تک ایک ہی ای میل بھیجی گئی ہے۔‘ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر معلومات کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ممکنہ طور پر اس ای میل آئی ڈی کے صارف ممبئی کے اوم پرکاش مشرا ہیں۔ اوم پرکاش مشرا کا نام اور تصویر دکھاتے ہوئے پاکستانی وزرا نے پریس کانفرنس میں ان پر نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو ملنے والی دھمکیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ جس اوم پرکاش مشرا کی تصویر فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں دکھائی ہے وہ انڈیا میں ایک یوٹیوبر اور ریئلٹی شو سٹار کے طور پر مشہور ہیں۔ پاکستانی وزیر کے ان دعوؤں کے بعد ٹوئٹر اور فیس بک پر ’اوم پرکاش مشرا‘ ٹرینڈ کر رہے ہیں، اور ان کا نام گذشتہ روز سے بار بار سرچ کیا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دھمکی آمیز پیغامات کے حوالے سے پاکستانی اداروں نے ان کا نام اور تصویر استعمال کی ہے۔ اس پر ایک صارف نے لکھا ’(وہ سوچ رہے ہوں گے) کمال ہے، یہ میں نے کب لکھی؟‘ جبکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کے لیے اپنی مردوں اور خواتین ٹیموں کو پاکستان نہ بھیجنے کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے اس کا تعلق ’بائیو سکیور ببل‘ اور کھلاڑیوں کی ذہنی صحت سے متعلق ہے۔ |
/urdu/sport-50845571 | سری لنکا نے ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد سنہ 1982 میں اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا تھا اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا۔ | سری لنکا نے سنہ 1982 میں ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا تھا اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ آج کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان کے اس سب سے پرانے ٹیسٹ گراؤنڈ پر سری لنکا کی ٹیم اب تک پانچ ٹیسٹ میچ کھیل چکی ہے جس میں اسے چار میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک ٹیسٹ ڈرا ہوا۔ سری لنکا نے ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد سنہ 1982 میں اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا تھا اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا۔ بندولا ورنا پورا کی قیادت میں سری لنکا کی ٹیم نے یہ دورہ اس وقت کیا جب پاکستانی ٹیم کے دس سینئر کرکٹرز نے جاوید میانداد سے شدید اختلافات کے بعد ان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے پہلے تو نائٹ واچ مین کی حیثیت سے نصف سنچری سکور کی اور پھر دوسری اننگز میں صرف 27 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کر کے سری لنکا کو 149رنز پر آؤٹ کردیا۔ سری لنکا کی ٹیم دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں پریکٹس کرتے ہوئے سنہ 1985 میں سری لنکا کو نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ایک بار پھر پاکستانی سپنرز کی عمدہ بولنگ کا سامنا رہا۔ سری لنکا کو میچ جیتنے کے لیے 451 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن پاکستانی بولرز نے سری لنکا کی ٹیم کو 228 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ شاہد آفریدی کےلیے یہ میچ اس لیے اچھا رہا کہ انھوں نے تین وکٹیں حاصل کرنے کے علاوہ پہلی اننگز میں اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں 74 رنز بھی بنائے تھے۔ سنہ 2004 میں ہونے والی سیریز کا پہلا ٹیسٹ سری لنکا کی ٹیم نے فیصل آباد میں 201رنز کے زبردست مارجن سے جیتا تھا، جس میں سنتھ جے سوریا کی ڈبل سنچری نمایاں تھی۔ کراچی ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم شعیب اختر اور محمد سمیع کی خدمات سے محروم ہو چکی تھی اور اس کا بولنگ اٹیک عبدالرزاق اور دانش کنیریا کے علاوہ رانا نوید الحسن اور ریاض آفریدی ( شاہین آفریدی کے بڑے بھائی ) پر مشتمل تھا۔ عبدالرزاق کی پانچ اور دانش کنیریا کی تین وکٹوں نے سری لنکا کی پہلی اننگز کو 208 رنز پر روک دیا اور پھر کپتان انضمام الحق اور یونس خان کی سنچریوں نے پاکستان کو پہلی اننگز میں 270 رنز سے سبقت دلا دی۔ سنہ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم کا یہ دورہ لاہور ٹیسٹ کے دوران اس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے کراچی میں کھیلا گیا ٹیسٹ ڈرا ہو گیا اس طرح سری لنکا کی ٹیم اس میدان میں گذشتہ چار لگا تار ناکامیوں کا سلسلہ روکنے میں کامیاب ہو گئی۔ |
/urdu/science-52032168 | فرانس کی فوٹو گرافر کی انٹارکٹک میں برف کے ٹکڑے پر براجمان سیلوں کی ڈرون سے لی گئی تصویر کو بین الاقوامی مقابلے کا فاتح قرار دیا گیا ہے۔ | جنگلی حیات کے نئے تصویری مقابلے کے فاتحین کا اعلان کر دیا گیا ہے، جس میں برف کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے پر پر ڈرون کے ذریعے لی گئ سیل کی تصویر کو پہلا انعام ملاہے۔ فرانسیسی فوٹو گرافر فلوریئن لیڈو نے جیتنے والی تصویر کھینچی ۔ انھوں نے کہا کہ میرے لئے، آرکٹک اور انٹارکٹک علاقوں کی حالت دکھانا بہت ضروری ہے۔’یہ بھی ضروری ہے کہ ڈرون سے لی گئی اس تصویر کے اس انداز سے متاثر ہونے والے لوگ جنگلی حیات کی اہمیت کو سمجھیں، اور اپنے نقطہ نظر میں اخلاقی رویہ اختیار کریں۔ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ آپ کا ڈرون جانوروں کو پریشان نہ کرے اور مقامی قواعد و ضوابط کے مطابق آپ اسکا استعمال کریں۔‘ "' موسم خزاں کی روشنی میں اٹلی کے حصے ٹسکنی میں اوپر سے لی گئی ایک تصویر جس میں بھیڑوں کا ایک ریوڑ درخت کے سائے میں سورج سے چھپا کھڑا ہے۔' 'میٹرونا بیسیلیریس اس علاقے کا بادشاہ مانا جاتا ہے،اور یہاں ہر تین میٹر کے فاصلے پر ایک نر پایا جاتا ہے۔ آسمان کے پس منظر میں، میں نے گھاس اور اپنے محور کے ساتھ ایک منفرد ربط کو محسوس کیا۔ قدرت کے مناظر اپنے آپ میں ایک تصویر ہیں'۔ 'گزشتہ چار پانچ سال سے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ موسم سرما کے اختتام پر کسان اپنی فصل کی باقیات کو اس لیے جلاتے ہیں تا کہ انکی اگلی فصل کے لیے زمین تیار ہو جائے، لیکن جیسے ہی آگ پھیلتی ہے، زمین سے چھوٹے کیڑے مکوڑے باہر نکل آتے ہیں۔ ایسے میں صرف ایک بہادر کالا ڈی جینگو ہوتا ہے جو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آگ کے اوپر اڑتا ہے اور من پسند چیزیں نکلا کر کھاتا ہے۔'۔ ایسا طاقت ور طلوع آفتاب بہت مسحور کن تھا، ساتھ ہی تیز بارش نے تھوڑی مشکل بھی پیدا کی لیکن اس کے بعد جو دو قوس قزاح نمودار ہوئی وہ میرے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھی۔ اس نے تصویر میں روشنی کو بھی شاندار بنا دیا۔‘ 'ابتدائی موسم خزاں میں ، شیلڈ کی وادی پر اکثر دھند کی ایک موٹی پرت آ جاتی ہے۔ جب سورج چڑھنا شروع ہوتا ہے تو دھند آہستہ آہستہ غائب ہونے لگتی ہے ، جس سے نیچے زمین کا منظر ابھرنے لگتا ہے۔' میکرو کیٹیگری میں تعریف پانے والی تصویر: آسڑیلیا میں کیٹلِن ہینڈرسن کی لی گئی تصویر ۔ نتھنگ ہئیر بٹ دِس ٹری ’لائیکن ہنٹسمین آسڑیلیا کے شمال میں درختوں پر پائے جانے والی مکڑوں کی نسل ہے۔ انکی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ خود کو درختوں کے رنگوں کے ساتھ اس خوبصورتی سے ملاتے ہیں کہ دن میں انہیں ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں رات کے وقت، ٹارچ لائٹ کے ساتھ انکی تلاش میں نکلا تھا۔‘ |
/urdu/regional-53323811 | وزیر اعظم مودی عموماً کسی بھی ملکی و غیر ملکی رہنما کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دینا نہیں بھولتے اسی لیے انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی کو اس سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے کی وجہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ | انڈیا اور چین کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے دوران انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل اپوزیشن اور مخالفین کی تنقید کے نشانے پر ہیں۔ ان پر حالیہ تنقید چین کے خودمختار علاقے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو اُن کی سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے پر ہوئی ہے جو اسی ہفتے 85 سال کے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے آخری مرتبہ دلائی لامہ کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد 2013 میں دی تھی جب وہ انڈیا کے وزیرِ اعظم نہیں بلکہ ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ جب سے نریندر مودی وزیرِ اعظم بنے ہیں، وہ کسی بھی ملکی و غیر ملکی رہنما، چاہے وہ رہنما اپوزیشن کے ہی کیوں نہ ہوں، کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دینا نہیں بھولتے۔ اسی لیے کئی لوگ انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی کو اس سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے کی وجہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رندیپ سنگھ سرجیوالا نے لکھا کہ ہم انتظار کر رہے تھے کہ انڈیا کے وزیرِ اعظم قوم کی جانب سے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد دینے میں پہل کریں گے تاہم ان کی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔ صحافی و مصنف سواتی چترویدی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ افسوس ہے کہ انڈیا کے وزیرِ اعظم نے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد نہیں دی۔ چین اس سے بہت خوش ہوگا۔ محقق اور مدرس اشوک سوئین نے لکھا کہ چین کے صدر شی جن پنگ کے ڈر سے انڈیا کے صدر رام ناتھ کووِند اور وزیر اعظم نریندر مودی نے دلائی لامہ کو سالگرہ کی مبارکباد تک نہیں دی۔ کیا آپ ان سے چین کا سامنا کرنے کی توقع کرتے ہیں؟ دلائی لامہ 85 سالہ تبتی روحانی پیشوا ہیں۔ چین تبت کے خطے پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چین کو اس 85 سالہ بزرگ سے اتنی پریشانی کیوں رہتی ہے؟ دلائی لامہ جس بھی ملک میں جاتے ہیں چین سرکاری طور پراپنا اعتراض ظاہر کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سفر کے دوران جب ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں جب کوئی خبر نہیں آئی تھی تو بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ شاید ان کی موت واقع ہوگئی ہے۔ دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ وہ چین سے آزادی نہیں بلکہ خود مختاری چاہتے ہیں مگر 1950 کی دہائی سے دلائی لامہ اور چین کے درمیان شروع ہونے والا تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ دلائی لامہ کے انڈیا میں رہنے کی وجہ سے چین کے ساتھ انڈیا کے تعلقات اکثر خراب ہوتے ہیں۔ انڈیا کا تبت پر مؤقف تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جون 2003 میں انڈیا نے باضابطہ طور پر اس بات کو تسلیم کیا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔ چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زیمن کے ساتھ انڈیا کے اس وقت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد انڈیا نے تبت کو پہلی مرتبہ چین کا حصہ تسلیم کیا۔ |
/urdu/vert-fut-54074847 | کھانا پکانے کے لیے تیلوں کی اتنی ساری اقسام کے ہوتے ہوئے ہم کیسے طے کرتے ہیں کہ کون سا تیل استعمال کرنا چاہیے اور کیا ہمیں کسی تیل کے استعمال سے مکمل گریز کرنا چاہیے؟ | وہ تیل جس میں کھانا پکایا جاتا ہے اس کی تمام اقسام چربی اور کیلوریز سے بھرپور ہوتی ہیں لیکن ان کی کیمیائی اجزائے ترکیبی اور ہم پر اثرات مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں۔ کوکنگ آئل کسی بھی کچن کا بنیادی جزو ہوتے ہیں لیکن اس بارے متضاد دعوے ہیں کہ ان میں سے کون سا تیل ہماری صحت کے لیے بہتر ہے۔ کسی بھی دکان کے شیلف پر ناریل سے لے کر زیتون، سبزیوں، کنولہ، توری کے بیجوں، ناشپاتی کے تیل تک مختلف انواع و اقسام کے آئل دستیاب ہوتے ہیں۔ مگر ہم یہ کیسے طے کرتے ہیں کہ کون سا تیل ہمیں استعمال کرنا چاہیے اور کیا کس تیل کے استعمال سے مکمل گریز کرنا چاہیے؟ اس کی جگہ ماہرین کہتے ہیں کہ کم سیچوریٹڈ فیٹ والا تیل جس میں چربی کی دیگر اقسام کی مقدار زیادہ ہو، اس کا مناسب مقدار میں استعمال صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ متعدد پولی ان سیچوریٹڈ فیٹ اومیگا 3 اور اومیگا 6 سمیت اور مونو ان سیچوریٹ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں اور ضروری فیٹی ایسڈ اور وٹامنز پیدا کرتے ہیں۔ لیشٹنسٹائین کہتی ہیں ’زیادہ تحقیقاتی رپورٹیں یہ کہتی ہیں کہ وہ غذا جن میں کثير مونو ان سیچوریٹ اور متعدد پولی ان سیچوریٹ زیادہ مقدار میں ہوتی ہے ان سے امراضِ قلب کے پیدا ہونے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ تجویز یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ناسیر شدہ چربی کی جگہ متعدد پولی ان سیچوریٹڈ کا استعمال کریں، نباتات اور گری دار میووں اور بیجوں سے نکالا گیا تیل۔‘ ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی ایچ چان سکول آف پبلک ہیلتھ کے نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ سے واسبتہ ریسرچر اور منصنف مارٹا گوش فیر نے صحت اور غذا کے تعلق کا گذشتہ 24 برسوں میں ایک لاکھ افراد کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا اور انھیں پتہ چلا کہ کسی بھی قسم کے زیتون کے تیل کی زیادہ مقدار استعمال کرنے والوں میں 15 فیصد تک امراضِ قلب کے کم خطرات تھے۔ زیتون کے خالص تیل میں اینٹی آکسیڈنٹ اور وٹامنز کی کافی زیادہ صلاحیت اور مقدار ہوتی ہے اور محققین کہتے ہیں کہ یہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو محفوظ بنانے میں دیگر اقسام کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔ زیتون کے تیل کی دیگر اقسام تیل نکالنے کے بعد پراسس کی جاتی ہیں، جس سے ان کے کچھ غذائی اجزا ضائع ہوتے ہیں۔ ایلِس لیشٹنسٹائین کے بقول ’مقصد یہ نہیں کہ تیل کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا جائے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے، زیادہ استعمال سے تو بہت زیادہ کیلوریز پیدا ہوں گی۔‘ |
/urdu/regional-48876534 | ایران کی شوریٰ کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی نے کہا ہے کہا اگر برطانیہ چار جولائی کو ضبط کیے گئے ایرانی سپرٹینکر کو نہیں چھوڑتا تو ایران کو برطانوی آئل ٹینکر پکڑ لینا چاہیے۔ | ایران کی شوریٰ کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی نے کہا ہے کہا اگر لندن ایران کے چار جولائی کو پکڑے جانے والے سپر ٹینکر کو نہیں چھوڑتا تو تہران کو بھی ایک برطانوی آئل ٹینکر پکڑ لینا چاہیے۔ محسن رضائی نے پانچ جولائی کو کی جانے والی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایران نے ’کبھی کوئی تنازع شروع نہیں کیا لیکن اسے ’دھونس جمانے والوں کو بغیر کسی جھجھک کے جواب دینا آتا ہے۔‘ پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر نے کہا کہ برطانیہ کی جانب سے ایرانی آئل ٹینکر نہ چھوڑے جانے کی صورت میں یہ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ جواب دیں اور برطانوی تیل بردار جہاز کو پکڑ لیں۔ چار جولائی کو جبرالٹر میں برطانیہ کے رائل میرینز نے گریس 1 نامی ایرانی سپر ٹینکر کو تحویل میں لے لیاتھا۔ برطانوی بحریہ کے مطابق انھیں خدشہ تھا کہ یہ ٹینکر خام تیل شام لے جا رہا ہے جو یورپی یونین کی دمشق پر لگائی گئی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل ایران نے آئل ٹینکر تحویل میں لیے جانے پر احتجاج کے لیے تہران میں برطانیہ کے سفیر کو طلب کیا تھا۔ برطانوی رائل میرینز نے جبرالٹر میں حکام کو ایرانی جہاز ضبط کرنے میں مدد اس لیے کی کیونکہ ان کے پاس ثبوت تھا کہ وہ یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کی جانب گامزن تھا۔ ایران کے ٹی وی چینل کو دیے جانے والے ایک مختصر انٹرویو میں عباس موسوی نے کہا کہ ٹینکر کو تحویل میں لینا ’بحری لوٹ مار کی ایک قسم‘ ہے اور اس کی کوئی قانونی یا بین الاقوامی بنیاد نہیں ہے۔ انھوں نے ٹینکر کو فوری طور پر چھوڑے جانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ انھوں نے مزید کہا ’یہ اقدام اشارہ کرتا ہے کہ برطانیہ امریکہ کی دشمنی کی بنیاد پر قائم پالیسیوں کی پیروی کرتا ہے جو کہ ایرانی عوام اور حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔‘ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ جبرالٹر کے حکام اور شاہی بحری جہازوں کی فوری کارروائی شام کے صدر بشارالاسد کی ’قاتل حکومت‘ کے قیمتی وسائل سے انکاری ہے. امریکہ گزشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں کو پہچنے والے نقصان کا الزام ایران پر عائد کرتا ہے جبکہ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ برطانیہ کے اس بیان کے بعد کہ جون میں آئل ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ دار یقینی طور پر ایرانی حکومت ہے، ایران اور برطانیہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ برطانیہ ایران پر دوہری شہریت رکھنے والی نازنین زغاری ریٹکلف کی رہائی کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے جن کو سنہ 2016 میں جاسوسی کے الزامات میں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے انکاری ہیں۔ |
/urdu/world-52127553 | سٹیسی ڈولی نے جنوبی کوریا کے ایک ایسے خاندان سے بات کی جن کی بیٹی نے خفیہ کیمرے سے اپنی فلم بنائے جانے کے بعد خودکشی کر لی۔ جنوبی کوریا میں خواتین کے خلاف ایک نئے قسم کے جرم ’مولکا‘ نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ | جنوبی کوریا میں گذشتہ چند برسوں میں ایک نئے قسم کے جرم نے معاشرے میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے۔ اسے ’مولکا‘ کہتے ہیں۔ کوریائی زبان میں مولکا لفظ کا استعمال خفیہ کیمرے کے لیے ہوتا ہے۔ بی بی سی تھری کی ایک تازہ دستاویزی فلم میں سٹیسی ڈولی نے اس معاملے کی تفتیش کی جس کا نام ہے ’سپائی کیم سیکس کرمنلز۔‘ اس میں انھوں نے جنوبی کوریا میں مولکا کے پھیلاؤ کے بارے میں دکھایا ہے اور ایک ایسے خاندان سے بات کی جن کی بیٹی نے مولکا سے متاثر ہونے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ سنہ 2019 میں جنوبی کوریا کے ایک ہسپتال کے ایک کلینیکل پیتھالوجسٹ کا معاملہ سامنے آیا جو ایک سوپر مارکیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گھومتے ہوئے خواتین کی سکرٹ کی تصاویر بناتے پکڑا گیا تھا۔ متاثرہ خواتین میں سے ایک کے والد نے سٹیسی کو بتایا ’میری بیٹی نے (جو ہسپتال میں کام کرتی تھی) بہت غصے میں مجھے فون کیا۔ اس نے مجھے اپنی خفیہ انداز میں بنائی گئی ویڈیو کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اس کے ساتھ ایسا کرنے والا شخص ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔‘ متاثرہ خاتون کے والد نے کہا کہ ’میں اس (اپنی بیٹی) کی جان بچا سکتا تھا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔‘ خاتون کی والدہ نے بتایا کہ ’اس ویڈیو میں دیگر خواتین کے پرائیویٹ حصے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے خود وہ ویڈیو نہیں دیکھی، ہماری بیٹی نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا۔‘ متاثرہ لڑکی کے والدین سٹیسی سے بات کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے فلیٹ سے اس کا سامان اٹھا رہے تھے۔ والد نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بچی کو مار ڈالا۔‘ متاثرہ لڑکی کے والدین سٹیسی سے بات کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے فلیٹ سے اس کا سامان اٹھا رہے تھے۔ والد نے کہا کہ 'مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بچی کو مار ڈالا‘ اس کے والد نے کہا ’اس وقت میں نے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے اس سے کہا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی نے تمہارا ریپ کر دیا ہو۔ ویسے بھی تم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، تم مکمل خود اعتمادی کے ساتھ زندگی جیو۔’ انھوں نے کہا ’میں بہت زیادہ عملی اعتبار سے بات کر رہا تھا لیکن میری بیٹی کو شرمندگی کی فکر تھی۔ اس نے مجھ سے اس بارے میں خاموشی اختیار کرنے کو کہا اس لیے میں خاموشی سے سب کچھ ہوتا دیکھتا رہا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہو۔ یہ خیال مجھے پاگل کر دیتا ہے۔’ |
/urdu/pakistan-53454307 | کراچی میں بارش شروع ہوتے ہی شہری یوں تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے ہی بارش کے دورانیے بڑھتا ہے تو تیرتی گاڑیاں اور گھروں میں داخل ہوتا پانی آزمائش بن جاتا ہے۔ | آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جمعے کے روز ہونے والی بارش نے ایک مرتبہ پھر شہری نظام درہم برہم کردیا ہے اور شہریوں کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ محکمہ موسمیات نے سنیچر کو آئندہ 24 گھنٹوں میں مزید بارش کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ عمومی طور پر یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ بارش کے بعد سوشل میڈیا پر ایک مخصوص سوندھی خوشبو کا ذکر کیا جاتا ہے۔ موسم کی مناسبت سے بننے والے پکوان کی تصاویر شئیر کی جاتی ہیں اور صارفین کے مزاج میں خوشگوار تبدیلی بھی ان کے پیغامات سے عیاں ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس کراچی میں بارش شروع ہوتے ہی شہری یوں تو ابتدا میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے جیسے بارش کے دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے اس شہر سے تیرتی گاڑیوں کی تصاویر موصول ہونے لگتی ہیں اور گھروں میں داخل ہوتا پانی علاقہ مکینوں پر آزمائش بن جاتا ہے۔ موسم کے حوالے سے کراچی کا ذکر عالمی شہ سرخیوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ انھوں نے مقامی انگریزی اخبار ڈان کے سنہ 1955 کے ایڈیشن کا ایک صفحہ صارفین کے ساتھ ٹوئٹر پر شئیر کیا جس میں شائع ایک تصویر میں مون سون کی بارش کے بعد پانی میں تیرتی ایک گاڑی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ندیم فاروق نے بے شک اس بات کا ذکر کیا کہ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے مگر ماجدہ ملک نامی صارف کے لیے گذشتہ روز کی بارش ان کے گھر پانی کے ساتھ کچھ انوکھا لے آئی۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف بارش کے بعد شہری نظام مفلوج ہونے کا ذکر سوشل میڈیا پر عام ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ انتظامیہ اور حکومت کو کوسنے کی روایت بھی دہرائی جاتی ہے۔ کراچی کے شہری بجلی نہ ہونے کے عمل سے بخوبی واقف ہیں اور گاہے بگاہے سوشل میڈیا پر وہ اس حوالے سے شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بجلی فراہم کرنے والی نجی کمپنی کے الیکٹرک کے سربراہ مونس علوی نے 16 جولائی کو یہ تسلیم کیا تھا کہ ’اس میں شک نہیں کہ لوڈ شیڈنگ زیادہ ہور ہی ہے۔‘ اس ٹویٹ کے نیچے مہوش کے بہت سے مداح ان سے اتفاق کرتے دکھائی دیے اور طنزیہ انداز میں یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کچھ مت کہو وہ صرف آخر 12 برس سے زیادہ ہی صوبے میں اقتدار میں رہی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال ہونے والی بارشوں کے دوران حیدر آباد میں بلاول بھٹو زرداری نے بیان دیا تھا کہ ’ہمیں یہ چیز سمجھنا ہو گی کہ جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے۔ جب زیادہ بارش آتی ہو تو زیادہ پانی آتا ہے۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے حامیوں کو یہ تنقید ایک پل نہ بھائی وہ نہ صرف یہ موقف پیش کرتے رہے کہ نکاسی کا نظام شہری حکومت کے پاس ہے بلکہ انھوں نے وفاقی حکومت کو بھی اس معملے میں ذمہ دار ٹھرایا۔ |
/urdu/pakistan-59948062 | ملکِ عزیز میں بسنے والوں کے شب و روز جس تکلیف میں ہیں اُس کا احساس تو شاید کسی کے پاس نہیں لیکن اب جب معاشی اُفتاد ٹوٹ پڑی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز برف تلے دب گئی ہے۔ معیشت، سیاست اور ان سے جُڑی ریاست بھی۔ پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔ | کیسا سسٹم؟ سسٹم ہی تو نہیں بن پایا گذشتہ 70 برسوں میں اور سسٹم کیسے بنے گا؟ کیسے سوالات ہیں کہ جواب سب کے پاس ہیں مگر الفاظ نہیں۔ سانحے ہوتے رہیں گے اور ہم شاید سسٹم بننے کی آس برف کی ڈھیری میں رکھ کر رخصت ہو جائیں گے۔۔ بے حسی کا ماتم ہے، بے بسی کا نوحہ ہے اور نااہلی کا المیہ۔ ملکِ عزیز میں بسنے والوں کے شب و روز جس تکلیف میں ہیں اُس کا احساس تو شاید کسی کے پاس نہیں لیکن اب جب معاشی اُفتاد ٹوٹ پڑی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز برف تلے دب گئی ہے۔ معیشت، سیاست اور ان سے جُڑی ریاست بھی۔ ریاست کو کن حالات سے گُزرنا پڑے گا اس کا اندازہ ہے مگر احساس نہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کے معاشی طوفان کا سامنا تو دوسری جانب سیاسی راستے مسدود ہو رہے ہیں۔ معاشی حالت ملک کو سیاسی بند گلی میں داخل کر چکی ہے۔ حزب اختلاف خالی لفظوں سے خود کو اُمید دلا رہی ہے جبکہ حکومت خود اپنے معنی کھو رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا اور میڈیا سکرینوں کو کنٹرول کر کے بے معنی بحثوں میں الجھا کر نہ جانے کس طرح کا رعب حکمرانی ہے جو دکھایا جا رہا ہے۔ ملک کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ مالیاتی بل یا منی بجٹ پارلیمنٹ میں ہے۔ آئی ایم ایف اگلا پیکج موخر کر چکی ہے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ اپوزیشن بل منظور کروانا چاہتی ہے جبکہ حکومت بل لٹکانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن اس بل کو حکومت کے گلے کا پھندا بنانا چاہتی ہے جبکہ حکومت اسے کسی اور کے گلے ڈالنا چاہ رہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ حکومت بغیر لائحہ عمل حکمرانی کا خواب لیے بیٹھی ہے اور اپوزیشن لائحہ کے ساتھ بھی بے عمل ہے۔ اس دلچسپ صورتحال میں وہ جو چپ چاپ بیٹھے ہیں، دراصل بند گلی میں ہیں۔ فارمولے کی تلاش ہے جبکہ سب فارمولے ناکام معیشت کے سامنے بے بس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر گھر نہیں چلتا اور اُن کی شرائط پر ملک کی خودمختاری نہیں چلتی۔ ماہر معیشت قیصر بنگالی کے بقول اس بند گلی سے نکلنے کے دو راستے ہیں، ایک بجٹ خسارہ کم ہو۔۔۔ جو ہو نہیں سکتا جب تک کہ غیر ترقیاتی بجٹ کم نہ کیا جائے جس کا براہ راست اثر دفاعی بجٹ پر پڑ سکتا ہے یا دوسری صورت تجارتی خسارے کو کم کرنے میں ہے جس پر اس ملک کی اشرافیہ تیار نہیں ہو گی۔ بابا بلھے شاہ فرما گئے ہیں کہ ہم تو تب سے پھنسے ہیں جب سے اُنھوں (اماں باوا) نے گندم کھائی تھی، کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی لیکن اماں باوا کے کام اب ہمارے آگے آ رہے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-52908780 | پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایک آٹھ سالہ گھریلو ملازمہ بچی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعے نے ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ زہرہ شاہ نامی بچی کی ہلاکت اور کم عمر بچوں کو بطور گھریلو ملازم رکھنے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ | پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایک آٹھ سالہ گھریلو ملازمہ بچی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعے نے ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیرِ علاج بچی کے جسم کے مختلف اعضا، خاص کر رانوں کے درمیان زخموں کے نشانات تھے اور ڈاکٹر کے مطابق بچی سے مبینہ طور پر جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی جس کی تصدیق کے لیے خون کے نمونے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیج دیے گئے ہیں۔ اس واقعے کی مزید تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن پولیس کی جانب سے تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ٹوئٹر پر #JusticeForZohraShah (جسٹس فار زہرہ شاہ) گذشتہ کئی گھنٹوں سے ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ایک اور صارف ندا کرمانی نے لکھا کہ ’بچوں کو نوکری پر رکھنا بند کریں، یہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔ ان حالات میں بچے غیر محفوظ ہوتے ہیں اور انھیں بدسلوکی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اِن کے والدین کو نوکری دیں۔ ان (بچوں) کی سکول جانے میں مدد کریں۔ سب بچوں کے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کریں، عزت اور ہمدردی کے ساتھ۔ ایک اچھے انسان بنیں۔‘ راولپنڈی میں پیش آئے دلخراش واقعے کے بعد جہاں ایک جانب لوگ ملزمان کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچانے اور انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ یہ تقاضہ کر رہے ہیں کہ کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ طاہرہ کلیم نامی ایک صارف نے اپنی تنظیم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25A پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتی ہیں، اس آرٹیکل کے تحت پانچ سے 16 برس کی عمر کے ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے لکھا کہ خاص کر لڑکیوں کی تعلیم ان کی حفاظت کی بہترین ضامن ہے۔ مہر نامی ایک صارف نے لکھا کہ آج بھی ہمارے ملک میں گھریلو ملازمین کی فلاح و بہود کے لیے آواز اٹھانے والی کوئی یونین، ایجنسی یا کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہے۔ ’کسی کی کیسے ہمت ہوئی کہ اتنی چھوٹی عمر کی بچی کو ملازمہ رکھا؟ یہ پہلا مجرمانہ فعل نہیں کہ اشرافیہ میں سے کسی نے چھوٹی عمر کے گھریلو ملازم کو قتل کیا ہو۔‘ ان تصاویر کے ساتھ یاسف نامی صارف نے لکھا کہ ’زہرا سات برس کی عمر میں ایک گھر میں کام کر رہی تھی جو بچوں سے مزدوری کروانے کے قانون کی خلاف ورزی ہے، اور پھر اُس پر تشدد کیا گیا اور اسے قتل کردیا گیا۔ مگر ہماری وزیر برائے انسانی حقوق جنھیں ان قوانین کو نافذ کروانا چاہیے وہ نیند کے مزے لوٹ رہی ہیں۔‘ |
/urdu/regional-52728135 | بالی وڈ کے چند ہدایت کار لاک ڈاوٴن کے باعث اپنی فلمیں او ٹی ٹی پلیٹفارمز پر ریلیز کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایسے میں سنیما گھروں کے مالکوں کے سامنے ایک نیا چیلینج کھڑا ہو گیا ہے۔ | کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاوٴن کی وجہ سے انڈیا کے سنیما گھر بند پڑے ہیں۔ گذشتہ دو ماہ سے سنیما گھروں کے مالکوں کی کوئی کمائی نہیں ہو پا رہی ہے اور اب انھیں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ دراصل امیتابھ بچن اور آیوشمان کھرانا کی نئی فلم ’گلابو ستابو’ ریلیز ہونے کے لیے تیار تھی کہ تبھی لاک ڈاوٴن کا اعلان ہو گیا۔ فلم کے ڈائریکٹر سوجیت سرکار نے گذشتہ دنوں بتایا تھا کہ وہ اس فلم کو سنیما گھروں کے بجائے او ٹی ٹی پلیٹفارم یعنی اوور دا ٹاپ پلیٹ فارم ایمازون پرائم پر ریلیز کرنے جا رہے ہیں۔ سنیما گھروں کے مالکوں کو یہ خوف پریشان کر رہا ہے کہ اگر فلمیں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ریلیز ہونے لگیں تو تھیٹر بند کرنے کی نوبت آ سکتی ہے۔ گلابو ستابو کے علاوہ اداکارہ ودیا بالن کی فلم ’شکُنتلا’ بھی ایمازون پرائم پر ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ فلم سازوں کے اس فیصلے سے سنیما گھروں کے مالک اور فلم ایکزیبیٹر سخت ناراض ہیں۔ سنیما اونرز اینڈ ایکزیبیٹرز ایسوسی ایشن کے صدر نتن داتار نے بی بی سی سے کہا ’ہم قطعی نہیں چاہتے کہ فلمیں سیدھے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ریلیز ہوں۔ اگر انھیں ایسا قدم اٹھانا تھا تو پہلے ہمارے ساتھ مذاکرات کر لیتے۔ اس طرح بغیر بتائے فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔’ انھوں نے کہا ’جس طرح فلم سازوں کا فلموں پر پیسہ لگا ہوا ہے، اسی طرح ایکزیبیٹرز نے بھی سنیما گھروں میں کافی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے بہتر ہوتا کہ وہ سب کی پریشانی سمجھتے، پھر چاہے وہ پیسوں کے بارے میں ہو یا کوئی اور پریشانی۔ پہلے مذاکرات کرتے پھر کوئی فیصلہ کرتے۔’ انھوں نے کہا ’جب دو ماہ انتظار کیا تھا تو کیا دو ماہ مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے؟ ایسے فیصلے سے لاکھوں افراد بےروزگار ہو جائیں گے کیوں کہ تھیٹر میں چین کا نظام چلتا ہے۔ مثال کے طور پر کھانے کی کینٹین میں کام کرنے والے، پارکنگ اور صفائی میں ملوث کارکنان، سیکیورٹی ورکرز جیسے متعدد افراد کا تعلق سنیما گھروں سے ہے۔ اگر یہی حال رہا تو بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔’ نتن داتار نے کہا ’دوسری بات یہ کہ ویب سیریز کی طرح بغیر سینسر کے فلمیں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر آ جائیں گی۔ ہم حکومت کے ساتھ مل کر اس کا حل نکال سکتے ہیں۔ اگر دیوالی کے تہوار کے بعد ممکن ہے تو دیوالی کے بعد ہی سہی یا اور بھی انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان نکات پر سرکار سے بات کی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔’ |
/urdu/regional-58223520 | ایئر انڈیا کا پائلٹ لینڈنگ کے لیے تیار تھا کہ تبھی کابل ایئر ٹریفک کنٹرولرز نے بغیر کچھ بتائے انھیں فضا میں ہی رہنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد 90 منٹ تک طیارہ افغانستان کے اوپر فضا میں چکر کاٹتا رہا۔ | ایئر انڈیا کی پرواز جب 40 افغان شہریوں کو لے کر اتوار کی دوپہر دلی سے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچی تو ایئر ٹریفک کنٹرول نے اسے لینڈنگ کی اجازت نہیں دی۔ ایئر انڈیا کی فلائٹ پر سوار چھ رکنی کیبن ٹیم کو اس بات کا زیادہ اندازہ نہیں تھا کہ کابل میں اس وقت حالات کتنی تیزی سے بدل رہے تھے۔ طالبان جنگجو افغان حکومت کے ہاتھوں سے اختیار چھین کر خود اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے رہے تھے۔ ایئر انڈیا کے پائلٹ کابل میں لینڈنگ کے لیے تیار تھے لیکن تبھی ایئر ٹریفک کنٹرول نے بغیر وجہ بتائے ان سے فضا میں ہی رہنے کو کہا۔ ایئرلائن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے تقریباً 90 منٹ تک طیارہ دارالحکومت کے اوپر 16000 فٹ کی اونچائی پر چکر کاٹتا رہا۔ اس وقت دو دیگر غیر ملکی ایئر لائنز بھی کابل کی فضا میں چکر کاٹ رہی تھیں اور انھیں بھی لینڈنگ کے لیے اجازت کا انتظار تھا۔ دلی سے کابل تک کا فضائی سفر مکمل کرنے میں عام طور پر 105 سے 120 منٹ کے درمیان وقت لگتا ہے لیکن اتوار کی دوپہر ایئر انڈیا کو یہی پرواز مکمل کرنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگے۔ ایئر انڈیا کے طیارے پر سوار ایک مسافر نے بتایا کہ انھیں ’معلوم ہوا کہ ہوائی اڈے کے ملازمین نے وہیں پناہ لی ہوئی تھی۔ لوگوں کا زبردست رش ہوائی اڈے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔‘ طیارے کے زمین پر اترنے کے بعد کابل کے پروٹوکال پر عمل کرتے ہوئے پائلٹ ٹیم کاک پٹ میں ہی رہی اور باہر نہیں نکلی۔ ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایئر انڈیا کے اس طیارے نے 129 مسافروں کے ساتھ واپس دلی کے لیے پرواز بھری۔ زیادہ تر ایئرلائنز نے افغانستان کے اوپر فضا میں پرواز سے بچنے کے مقصد سے اپنا راستہ ہی بدل دیا تھا۔ پیر کی صبح ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متعدد افراد کے کابل ہوائی اڈے پر انخلا کے مقصد سے جانے والی ایک فلائٹ پر چڑھنے کے لیے افراتفری کا عالم ہے۔ طیارے کو افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا۔ طیارہ اغوا کرنے والوں نے مسافروں کے بدلے کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی۔ انڈیا نے مسافروں کے بدلے ان میں سے تین کو رہا کر دیا تھا۔ اغوا کرنے والے پانچ مسلح افراد میں سے انڈیا کی گرفت میں ایک بھی نہیں آیا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد سے ہی ایئر انڈیا کی کابل کے لیے پروازیں چل رہی ہیں لیکن اب غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ ایئر انڈیا کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پیر کی دوپہر ایک کمرشل فلائٹ کابل جانی تھی ’لیکن اگر فضائی حدود کو ہی بند کر دیا گیا تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘ |
/urdu/pakistan-55349411 | جاتی امرا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ کل پرسوں سے سینٹ کے انتخاب سے متعلق جو اعلانات ہو رہے ہیں اور خوف کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جب کوئی نااہل، نالائق اور ناکام حکومت عوامی گھیرے میں آ جاتی ہے تو وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں پر اتر آ تی ہے۔ | جاتی امرا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ کل پرسوں سے سینیٹ کے انتخاب سے متعلق جو اعلانات ہو رہے ہیں اور خوف کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جب کوئی نااہل، نالائق اور ناکام حکومت عوامی گھیرے میں آ جاتی ہے تو وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں پر اتر آ تی ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں آپ کو پی ڈی ایم کی تحریک اور جلسوں سے فرق نہیں پڑ رہا تو اچانک ایسی کیا آفت آ پڑی ہے کہ آپ کو ایک مہینہ پہلے الیکشن کا اعلان کرنا پڑا جو پہلے پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 'مگر آج جب آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ آپ کمزور ہو چکے ہیں اور اپنی حکومت جاتی نظر آ رہی ہے، اپنی نالائقی اور نااہلی کے باعث آپ نے ملک کا جو حال کر دیا ہے آپ کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اپے حلقوں میں جانے کے قابل نہیں رہے اور آپ کو ان پر اعتماد نہیں رہا تو آپ کو شو آف ہینڈز یاد آ گیا ہے۔' ان کا کہنا تھا ہمیں وہ وقت یاد ہے جب عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر الیکشن کمیشن کو احکامات دیا کرتے تھے کہ آپ کسی کا ذاتی ادارہ نہیں ہیں اور آپ کو آئین پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ آج جب آپ کا وقت آیا تو آپ نے خود ہی الیکشن کمیشن کے چیئرمین بن کر خود ہی اعلانات کر دے۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے ناقابلِ تلافی ثبوت اور شواہد الیکشن کمیشن کے پاس آ چکے ہیں لیکن اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ جعلی حکومت کس طرح ایک قومی ادارے پر دباؤ ڈلوا کر من پسند فیصلے لے رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے استعفوں کے بعد آپ 500 سیٹوں پر بائی الیکشن نہیں کروا سکتے۔ ان کا کہنا تھا اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی دھمکیوں سے کوئی مرعوب ہو جائے گا یا ڈر جائے گا تو یہ کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے، آپ کو کیا لگتا ہے آپ الیکشن کا اعلان کریں گے تو کیا ہم چوڑیاں پہن کر گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ نفسیات کو سمجھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان تصاویر کے پیچھے آپ کا خوف جھلک رہا تھا اور کتوں سے کھیلنا اور بات ہے، قومی اداروں سے کھیلنا بہت خطرناک ہے اور اس کے نتائج آپ کو بھگتنا پڑیں گے اور اس کی قیمت آپ سے قوم وصول کرے گی۔ |
/urdu/world-59515356 | جمعرات کو سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والے تمام مسافروں کو امریکہ چھوڑنے سے 24 گھنٹے پہلے وائرس کا ٹیسٹ کروانا ہو گا چاہے وہ ویکسین لگوا چکے ہوں جبکہ مارچ تک جہازوں، ٹرینوں اور بسوں میں ماسک پہننا لازمی ہو گا۔ | امریکہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے چند کیسز سامنے آنے کے بعد صدر جو بائیڈن نے سفری پابندیاں سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ ان کے منصوبے میں ’شٹ ڈاؤن یا لاک ڈاؤن شامل نہیں‘ اور اس سے ویکسین لگوانے کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ کیلیفورنیا، کولوراڈو، مینیسوٹا، نیویارک اور ہوائی میں اومیکرون کے نئے کیس سامنے آئے ہیں تاہم ان افراد میں وائرس کی ہلکی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وائرس کی یہ نئی قسم 30 ممالک میں سامنے آئی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا وائرس کی انتہائی تبدیل شدہ قسم اومیکرون زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے یا ویکسین اس کے سامنے کم کارآمد ہے۔ جمعرات کو سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والے تمام مسافروں کو امریکہ چھوڑنے سے 24 گھنٹے پہلے وائرس کا ٹیسٹ کروانا ہو گا چاہے وہ ویکسین لگوا چکے ہوں۔ مارچ تک جہازوں، ٹرینوں اور بسوں میں ماسک پہننا لازمی ہو گا۔ امریکی حکومت پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد کو گھروں پر مفت ٹیسٹ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔ مسوم سرما میں انتظامیہ عوامی تعلیمی مہم کے ذریعے تمام بالغوں کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ ویکسین کا بوسٹر شاٹ (اضافی خوراک) لگوائیں۔ واضح رہے کہ چار کروڑ سے زیادہ امریکی شہری ویکسین کو بوسٹر شاٹ لگوا چکے ہیں لیکن امریکی صدر کا کہنا ہے کہ تقریباً دس کروڑ اس کے اہل ہیں لیکن انھوں نے ابھی تک ویکسین کی اضافی خوراک نہیں لگوائی۔ امریکہ اور کئی دوسرے ممالک نے آٹھ جنوبی افریقی ممالک کے سفر پر پابندی لگا دی ہے۔ ماہرین صحت نے کہا ہے کہ سفری پابندیاں انھیں وائرس کی اس نئی قسم کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت دے گی۔ حکام نے بتایا ہے کہ نومبر کے آخر میں مین ہٹن میں ایک کنونشن میں شرکت کرنے والے ایک شخص میں نئی قسم کے وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ کیتھی ہوچول کے مطابق سفولک کاؤنٹی میں ایک 67 برس کی خاتون، جن کو ویکسین لگ چکی تھی، میں بھی اس نئی قسم کے وائرس کی تصدیق ہوئی ہے تاہم ان میں ہلکی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ بدھ کو کیلیفورنیا اور جمعرات کو کولوراڈو میں تصدیق شدہ ایک کیس کی ان مسافروں میں شناخت کی گئی ہے، جو حال ہی میں جنوبی افریقہ سے واپس آئے ہیں۔ مینیسوٹا میں جس شخص میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے وہ حال ہی میں نیویارک شہر سے ایک تین روزہ کنونشن سے واپس آیا تھا۔ ہوائی میں جس شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، اس نے ویکسین نہیں لگوا رکھی جبکہ وہ اس سے قبل سنہ 2020 میں بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوا تھا تاہم اس شخص نے حال ہی میں کوئی سفر نہیں کیا۔ حکام کے مطابق ہوائی میں وائرس سے متاثرہ شخص میں بھی وائرس کی ہلکی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ |
/urdu/regional-55807111 | انڈیا ایس ایم اے کا کوئی علاج موجود نہیں ہے اور اس کے لیے دوائیں بیرونِ ملک سے لائی پڑتی ہیں جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ | مہر بتاتے ہیں ’پہلی بات یہ ہے کہ ہم یہ ادائیگی کس طرح کریں گے۔ اتنی بڑی رقم ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی اتنی بڑی رقم اب تک ادا نہیں کی۔ کیا ہمیں اس کی ادائیگی کے لیے ٹرانسفر فیس ادا کرنا پڑے گی؟ کیا ڈالر کا تبادلہ ہو گا؟ ہمارے پاس اس سب کا کوئی جواب نہیں ہے۔ مہر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’نایاب دوائیں کسٹم ڈیوٹی سے خارج کر دی گئیں ہیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیا اس دوا کو زندگی بچانے والی دوائیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ کیا ہمیں اس کے لیے جی ایس ٹی ادا کرنا پڑے گی؟ اگر ہمیں جی ایس ٹی ادا کرنا پڑے تو 12 فیصد کی شرح سے، پھر وہ بھی بہت بڑی رقم ہو گی۔‘ مہر کا ماننا ہے کہ جب تک کمپنیاں یہ دوائیں انڈیا نہیں لاتی ہیں تب تک متاثرہ بچوں کا علاج نہیں ہو گا۔ اس کے انھیں بیرون ملک جانا پڑے گا۔ وہاں جانے کے لیے قیام کریں اور تارکین وطن کی حیثیت سے جانے کی اجازت حاصل کریں، ان مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ممبئی ہسپتال کی نیورولوجسٹ ڈاکٹر نرمل سوریہ کہتی ہیں کہ ’ایس ایم اے ریڑھ کی ہڈی کے گرد پٹھوں کی اٹروپی کی چار اقسام میں سے ایک ہے۔ ان میں سب سے پہلی قسم انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہ چھ ماہ تک کے بچوں میں پائی جاتی ہے اور اس میں اعصاب بے جان ہو جاتے ہیں۔ مریض کے جسم سے دماغ کو کوئی معلومات منتقل نہیں ہوتیں اور دماغ کمزور ہونے لگتا ہے، اور آخر کار یہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بچے کا بچنا مشکل ہے۔ آج بھی اس کا یہاں کوئی علاج نہیں ہے۔‘ الپنا شرما کا بیٹا سنہ 2013 میں ایس ایم اے ٹائپ 2 کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ بین الاقوامی اداروں نے ان کے بیٹے کے علاج میں مدد کی تھی۔ سنہ 2014 سے الپنا نے انڈیا میں ایس ایم اے سے متاثرہ بچوں کے لیے کیور ایس ایم اے فاؤنڈیشن تشکیل دی۔ یہ انسٹیٹیوٹ ایس ایم اے میں مبتلا بچوں کی مدد کرتا ہے۔ الپنا شرما نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ ’ایس ایم اے کا صرف ایک چھوٹا سا علاج ہے۔ تمام بچے قیمت کے سبب اسے حاصل نہیں کر سکتے۔ بہت ساری دوا ساز کمپنیاں یہ دوائیں اپنی سی ایس آر یعنی کارپوریٹ سوشل ذمہ داری کے طور پر فراہم کرتی ہیں۔ یہ بالکل لکی ڈرا کے مترادف ہے۔ جبکہ ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ کوئی والدین اپنی آنکھوں کے سامنے بچے کو مرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سمت میں پہل کرے۔‘ |
/urdu/pakistan-54745270 | انتخابات میں فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی پاداش میں لطیف آفریدی کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے پابند سلاسل رکھا گیا اور وہ بطور سیاسی کارکن سابق ڈکٹیٹر ضیاالحق کے دور میں بھی پانچ مرتبہ جیل گئے۔ | پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس سال 76 برس کے ایڈووکیٹ عبدالطیف آفریدی کو اپنا صدر منتخب کیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ گروپ کے امیدوار لطیف آفریدی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ پیشہ وارانہ امور اور وکلا کی سیاست دو الگ الگ معاملات ہیں لیکن ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر پیشہ وارانہ امور میں ایسے کسی معاملے کی مخالفت کی جا رہی ہے جو ان کے نظر میں غیر آئینی ہے تو پھر سیاسی میدان میں بھی اصولوں کو اپناتے ہوئے ایسے افراد کی مخالفت کرنی چاہیے جو غیر آئینی اقدام کی حمایت کرتے ہوں۔ امجد شاہ نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق حساس ادارے ان انتخابات میں بڑے متحرک نظر آئے اور اُنھوں نے ان انتخابات میں اس دھڑے کو کامیاب کرانے کے لیے کسی حد تک اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی، جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کی حمایت کرتا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر لطیف آفریدی ان افراد میں شامل ہیں جو 70 کی دہائی کے بعد ملک میں جتنے بھی مارشل لا نافذ کیے گئے اور پھر ملک میں حزب مخالف کی جتنی تحاریک چلیں تو وہ ہر بار جیل گئے۔ ان کی آواز اور دبنگ انداز آج سے نہیں بلکہ زمانہ طالب علمی سے ہے۔ انھیں محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں حمایت کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں طالبعلم رہنما کی حیثیت سے پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ بطور سیاسی کارکن سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں بھی پانچ مرتبہ جیل گئے۔ سماجی کارکن عمار علی جان نے اس خبر پر اپنے ردعمل میں لکھا ’لطیف آفریدی صاحب نے آمریت کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اپنی پوری زندگی شہری آزادی کے لیے کام کیا۔ ان کا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے انتخاب ان تمام لوگوں کے لیے لاجواب خبر ہے جو معاشرتی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔‘ ممبر صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ لطیف آفریدی کا انتخاب ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ پاکستان قانون کی حکمرانی اور انسانی و شہری حقوق کے حوالے سے شدید بحران سے گزر رہا ہے تاہم انھوں نے یقین ظاہر کیا کہ وہ سول اور سیاست کی بحالی اور گنجائش کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدارتی انتخابات میں لطیف آفریدی کے ساتھ سیکریٹری سپریم کورٹ بار کے انتخابات جیتنے والے امیداور احمد شہزاد فاروق رانا ہیں۔ انھوں نے اپنے مخالف امیدوار کو 866 ووٹوں سے شکست دی تھی جو کہ سپریم کورٹ بار کے انتخابات کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ احمد شہزاد رانا کا تعلق لاہور سے ہے۔ |
/urdu/world-60903471 | جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنسی کاروبار کے لیے عورتوں کی سمگلنگ کرنے والے گروہ یوکرین اور اس کے اطراف پوری سرگرمی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں۔ | اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوتریس نے ٹوئٹر پر خبردار کرتے ہوئے کہا: ’شکاریوں اور انسانی سمگلروں کے لیے یوکرین کی جنگ سانحہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک موقع ہے۔۔ اور خواتین اور بچے نشانے پر ہیں۔‘ انسانی سمگلروں کے گروہ حالتِ امن میں یوکرین اور پڑوسی ممالک میں بہت سرگرم رہے ہیں۔ جنگ زدہ فضا ان کا کاروبار چمکانے کے لیے مزید سازگار ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے بچے یوکرین سے بغیر کسی رشتہ دار کے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ان کی رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے اب ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ’عورتیں اور بچے خوفناک جنگ سے بچنے کے لیے یہاں پہنچے ہیں۔ وہ پولِش یا انگریزی نہیں بول سکتے۔ انھیں نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے، بس جو دوسروں سے سنتے ہیں اسے مان لیتے ہیں۔ اس سٹیشن پر کوئی بھی آ سکتا ہے۔ میں نے جب پہلے دن میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا تو مجھے اٹلی کے تین آدمی نظر آئے۔ وہ جنسی کاروبار کے لیے خوبصورت عورتوں کی تلاش میں تھے۔ مارگریٹا کا کہنا ہے کہ مقامی حکام اب زیادہ منظم ہو گئے ہیں۔ سٹیشن پر پولیس باقاعدگی سے گشت کرنے لگی ہے۔ دلکش مقامات کی تختیاں لیے کھڑے افراد جو ابتدائی دنوں میں اس سٹیشن پر موجود تھے اب غائب ہو چکے ہیں۔ صرف منظم جرائم (جن میں سیکس، اعضا کی سمگلنگ اور جبری مشقت شامل ہیں) ہی کا خطرہ نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر بھی لوگ پناہ گزینوں کو مختلف طرح کے جھانسے دیتے ہیں۔ پولینڈ، جرمنی اور برطانیہ میں لوگوں نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے ہیں، زیادہ تر کی نیت اچھی ہے۔ مگر افسوس کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ جس شخص نے انھیں پناہ دی اس نے ان کے کاغذات ضبط کر لیے اور انھیں بلا معاوضہ اپنے گھر کی صفائی کرنے پر مجبور کیا۔ بعد میں انھوں نے جنسی طور پر استحصال کی کوشش بھی کی۔ جب عورت نے انکار کیا تو انھیں گھر سے نکال دیا گیا۔ اِرینا نے بتایا کہ ان کی تنظیم کئی ایسے کئی کیسز پر کام کر رہی ہے جن میں یوکرینی لڑکیوں کو میکسیکو، ترکی اور یو اے ای جانے کے لیے ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے، حالانکہ یہ لڑکیاں ان مردوں کو جانتی تک نہیں۔ اِرینا کہتی ہیں، ’میرے ساتھ کام کرنے والی رضاکار ایک 19 برس کی لڑکی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ایک مرد کے گھر میں رہنے والی اپنی سہیلی کے پاس نہ جائیں۔ |
/urdu/world-51256868 | برطانیہ کی مہارانی وکٹوریہ کے 119 ویں یوم وفات پر ان کی زندگی کے ایک اہم باب پر ایک نظر۔ | برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے اپنی زندگی کے آخری 13 برسوں کا ایک بڑا حصہ اپنے ہندوستانی منشی عبدالکریم کے ساتھ گزارا۔ ان کے والد بھی جیل میں حکیم تھے۔ جب مہارانی کی سلور جوبلی کی تقریب کا وقت قریب آیا تو آگرہ کی جیل کے سپرنٹینڈنٹ نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع پر مہارانی کو ایک تحفہ بھیجا جائے۔ انھوں نے مہارانی کو آگرہ سے دو ملازم بھیجے۔ ملکہ وکٹوریہ عبدالکریم سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے ان سے کہا کہ مجھے اردو زبان سکھاؤ۔ کریم اس کے بعد رانی کی نوٹ بک میں اردو کی ایک لائن لکھ دیتے اور اس کے بعد اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے اور پھر اسی لائن کو رومن سکرپٹ میں لکھتے تھے۔ مہارانی وکٹوریہ اس کو ہو بہو لکھتیں اور اس کا مطالعہ کرتیں۔ شربانی بسو بتاتی ہیں،’مہارانی واقعی میں اردو سیکھنے کی خواہش مند تھیں۔ کریم ان کے استاد بن گئے اور انھوں نے 13 برسوں تک اردو کی تعلیم دی۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ مہارانی وکٹوریہ اردو لکھنا اور پڑھنا بخوبی جانتی تھیں اور انھیں اپنی اس کامیابی پر بہت فخر تھا۔ ملکہ وکٹوریہ عبدالکریم سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھوں نے انھیں آگرہ شہر میں 300 ایکڑ کی جاگیر دلوائی اور برطانیہ میں اپنے تینوں شاہی محلوں میں الگ الگ گھر دلوائے۔ انھيں اپنے سینے پر میڈل لگا کر چلنے اور تلوار رکھنے کی اجازت دی گئی۔ مہارانی کے کہنے پر کریم کے حکمت کا کام کرنے والے والد کی پینشن مختص کرائی گئی۔ لیکن ملکہ کی وفات کے کچھ دن بعد ہی عبدالکریم پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ہر ایک خط ان کے حوالے کر دیں جو ملکہ نے انھیں لکھے ہیں۔ پھر ان کے سامنے ان خطوط کو نذر آتش کر دیا گیا۔ شربانی بسو بتاتی ہیں: ’رانی کی وفات کے بعد سارا شاہی خاندان ان پر ٹوٹ پڑا۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ ان سے رانی کے سارے خطوط ضبط کر کے انہیں وہیں جلادیا گیا۔ کریم کی اہلیہ اور ان کے بھتیجے بھی وہاں موجود تھے۔ انھیں سب کے سامنے بے حد ذلیل کیا گیا۔ ان سے انڈیا واپس جانے کے لیے کہا گیا۔ ملکہ نے آگرہ میں انہیں بہت جاگیر دی تھی۔ انگلینڈ سے واپس آکر وہ وہیں رہے اور 1909 میں ان کی وفات ہوگئی۔‘ |
/urdu/pakistan-55002415 | جماعت کے ترجمان قاری زبیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ خادم رضوی کی وفات کی وجہ فی الحال معلوم نہیں ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند روز سے ان کی طبیعت خراب تھی۔ | مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی 55 سال کی عمر میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔ جماعت کے ترجمان قاری زبیر نے بی بی سی کے اعظم خان کو بتایا ہے کہ ان کے وفات کی وجہ فی الحال معلوم نہیں ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند روز سے خادم رضوی کی طبیعت خراب تھی۔ لاہور میں شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اکبر حسین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ رات 8 بج کر 48 منٹ پر خادم رضوی کو مردہ حالت میں ہسپتال کے ایمرجنسی وراڈ لیا گیا تھا اور اس سے قبل وہ یہاں زیر علاج نہیں تھے۔ ڈاکٹر اکبر حسین کے مطابق کسی کو مردہ حالت میں لائے جانے کی صورت میں ہسپتال موت کی وجہ کا تعین نہیں کرسکتا۔ تحریک لبیک کی جانب سے جاری پیغام میں بتایا گیا ہے کہ خادم رضوی کی نمازِ جنازہ سنیچر کی صبح 10 بجے مینارِ پاکستان لاہور میں ادا کی جائے گی۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر خادم رضوری کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے خادم حسین کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا پیغام فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا گیا۔ چند روز قبل انھیں میڈیا پر اس وقت دیکھا گیا تھا جب ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے لیے ریلی نکالی اور مظاہرے کے بعد فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔ مذاکرات کی کامیابی کے چند گھنٹوں بعد اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا تھا۔ مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ پھر نومبر 2017 میں انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا ہے۔ ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ بنے۔ محکمہ دفاع کے نمائندے کرنل فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خادم حسین رضوی خطیب ہیں اور ان کی سیاسی جماعت ہے جو چندے سے چلتی ہے۔ |
/urdu/pakistan-48978605 | پاکستانی میڈیا میں اول تو اقلیتوں کے بارے میں بات ہوتی ہی نہیں اور کبھی کبھار ہو بھی جائے تو اس کا مرکز و محور توہین مذہب ہی ہوتا ہے۔ | انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ نے ’پاکستانی میڈیا مذہبی اقلیتوں کو کیسے رپورٹ کرتا ہے؟‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں میڈیا کا تحقیقاتی جائزہ لیا ہے، جس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے متعلق خبروں کی کوریج میں ان کا موقف اور رائے زیادہ تر شامل ہی نہیں ہوتی۔ اس تجزیاتی رپورٹ کے لیے 12 مختلف اداروں کی کوریج کی نگرانی کی گئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ اخبارات نے مذہبی اقلیتوں کے متعلق سب سے زیادہ خبریں اور تصاویر شایع کیں، ریڈیو نے انھیں مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کی سب سے زیادہ مخالفانہ خبریں بھی اخبارات میں ہی شائع ہوئیں۔ میڈیا میں اقلیتوں کے حوالے سے خبروں میں سب سے زیادہ موضوع توہین مذہب کا تھا، ان خبروں میں مسیحی برادری کو اجاگر کیا گیا، تاہم ٹی وی اور ریڈیو نے توہین مذہب کے متعلق کوئی خبر نہیں دی۔ انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈولپمنٹ کے محقق اور صحافی عدنان رحمت کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کا معاملہ عددی لحاظ سے دیکھیں تو مسلمانوں کے خلاف زیادہ ہے لیکن جب اقلیتوں کی بات ہوتی سخت گیر پوزیشن آجاتی ہے۔ ’جب اقلیتوں کے بارے میں رپورٹنگ ہی نہیں ہو گی اور کبھی کبھار جب ہوتی ہے تو اس میں مفروضے پر مبنی سوچ سامنے آ جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسیحی اور ہندو کمیونٹی کا توہین مذہب کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔‘ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ہندو اور مسیحی کمیونٹی کا جو جبری مذہب تبدیلی کا مسئلہ ہے اس کو اردو میڈیا اور بلخصوص ٹی وی چینل زیر بحث ہی نہیں لاتے، دوسرا مسئلہ امتیازی سلوک کا ہے جو آئینی، قانونی اور روایتی ہے اس پر بھی بحث نہیں ہوتی کیونکہ آئین میں سب شہری یکساں حقوق نہیں رکھتے اور اگر کوئی یہ مطالبہ کرتا ہے تو اسے ہائی لائیٹ نہیں کیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مذہبی اقلیتوں کے نمائندہ جماعتیں ہیں وہ اپنی فطرت میں مذہبی ہیں سیاسی نہیں۔ میڈیا واقعات کو رپورٹ کرتا ہے جب تک اقلیتی اپنے پروگرامز میں اپنے سیاسی معاشی حقوق اور مسائل کی بات نہیں کریں گے میڈیا رپورٹ نہیں کرے گا۔ سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ نیوز چینلز کے بجائے انفوٹینمنٹ چینلز زیادہ ہو گئے ہیں جس میں نیوز ہوتی ہے لیکن اس کی پیشکش ایک تفریحی انداز میں کی جاتی۔ اب اس کا دفاع وہ اس طرح کرتے ہیں کہ جو ریٹنگ کا فارمولا ہے اس میں ان چیزوں کو ہی زیادہ ریٹنگ ملتی ہے جس میں جوش، تفریح، اور دہشت ہو۔ |
/urdu/pakistan-58524561 | مزار قائد کے ڈیزائن کا مقابلہ جیتنے والی کمپنی کو 25 ہزار روپے انعامی رقم دی گئی مگر بعض حلقوں نے تنقید کی کہ یہ ڈیزائن اسلامی فن تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا اور جناح کی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے۔ | محمد علی جناح کی وفات کے بعد سے پوری ملت بابائے قوم کے شایان شان ان کا مقبرہ تعمیر کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ اس مقصد کے لیے 20 ستمبر 1948 کو پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں قائداعظم میموریل فنڈ کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا جس نے ایک روپے، پانچ روپے اور سو روپے کے کوپن جاری کیے۔ مقابلے کی انعامی رقم 25 ہزار روپے بھی اسی ادارے کو دی گئی۔ ریگلان سکوائر اینڈ پارٹنرز کا مجوزہ ڈیزائن جدید فن تعمیر کا شاہکار تھا اور فن تعمیر کے اسلوب ہائپر بولائیڈ میں بنایا گیا تھا۔ مگر بہت جلد اخبارات میں اس ڈیزائن کے خلاف مراسلات شائع ہونے لگے۔ ان مراسلات میں کہا گیا تھا کہ یہ ڈیزائن اسلامی فن تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا اور جناح کی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے مادر ملت کی خواہش کا احترام کیا اور یحییٰ مرچنٹ سے رابطہ کر کے انھیں محمد علی جناح کا مزار ڈیزائن کرنے کے لیے کہا۔ یحییٰ مرچنٹ نے فوری طور پر اس درخواست کی تعمیل کی اور جناح کی شخصیت، کردار اور وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ان کے شایان شان ایک مقبرے کا ڈیزائن تیار کیا جسے محترمہ فاطمہ جناح نے بھی پسند فرمایا، ان کی پسندیدگی کے بعد 12 دسمبر 1959 کو حکومت پاکستان نے بھی یہ ڈیزائن منظور کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یحییٰ مرچنٹ کا یہ ڈیزائن دہلی میں غیاث الدین تغلق اور بخارا (ازبکستان) میں اسماعیل سامانی کے مزار کے ڈیزائن سے شدید متاثر ہے۔ یحییٰ مرچنٹ نے بمبئی میں سپورٹس میوزیم اور کراچی میں لگنے والی مشہور نمائش کا مین گیٹ بھی ڈیزائن کیا تھا۔ یحییٰ مرچنٹ اپنی مادر علمی سر جے جے سکول آف آرٹس کے شعبہ تدریس سے بھی اعزازی طور پر منسلک رہے تھے۔ ان کی وفات نو ستمبر 1990 کو ممبئی میں ہوا۔ چند ماہ بعد 15 جنوری 1971 کو یہ تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اس موقع پر صدر مملکت جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے محمد علی جناح کی ہمشیر محترمہ شیریں بائی کے ہمراہ جناح کے مزار پر حاضری دی جہاں ان کا استقبال پرنسپل سٹاف آفیسر اور قائد اعظم میموریل بورڈ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ نے کیا۔ اس موقع پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے مزار کا تفصیلی معائنہ کیا اور جناح اور ان کے رفقا کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ انھوں نے اعزازی مشیر تعمیرات انجینیئر مسٹر ایم رحمن اور آرکیٹکٹ ایم اے احد کا شکریہ ادا کیا جن کی لگن اور توجہ سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یہ خوبصورت فانوس مزار میں محمد علی جناح کی لحد کے ریپلیکا کے عین اوپر نصب کیا گیا۔ جنرل پیرزادہ نے یہ تحفہ پیش کرنے پر عوامی جمہوریہ چین کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ تحفہ بابائے قوم کی اس یادگار کو چار چاند لگا دے گا۔ |
/urdu/science-60245535 | دنیا میں اس بات کی تحقیق کی جائیں گی کہ خلائی سرگرمیوں کے لیے کیا اصول وضع کیے جائیں۔ تو کیا خلا جنگ کا نیا میدان بن رہا ہے؟ | سوال یہ ہے کہ خلا میں کوئی اقدام کرنے کے لیے کیا قواعد و ضوابط ہونے چاہییں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلا جنگ کا نیا میدان بن رہا ہے؟ وہ کہتی ہیں ’میرے خیال میں اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ خلا کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے اور زمین پر ہونے والے کام کے لیے خلا سے کیا معلومات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر آپ ان معلومات کو دشمن تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں، تو آپ کے پاس یہ بہترین صلاحیت ہو گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ سنہ 1967 کے معاہدے میں کسی مخصوص اقدام کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا گیا لیکن ہاں ایک خاص بات ضرور ممنوع ہے، ’اس میں کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اور جوہری ہتھیاروں کو نہ تو مدار کے قریب رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی خلا میں۔ اس پر اتفاق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ آج اگر ہم خلائی قوانین کی بات کر رہے ہیں، تو یہ معاہدہ ان کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر امید ہے کہ ممالک اس سلسلے میں ضبط سے کام لیں گے۔‘ ششانک کی بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ روس پر الزام ہے کہ اس نے یوکرین کی سرحد پر حملے کی تیاری کے لیے فوجی ساز و سامان جمع کر رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے سیٹلائٹ تصاویر سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ششانک کا کہنا ہے کہ شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ روس ان تصاویر کو ریڈار پر آنے سے روک رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سینٹینل ون نامی ایک ریڈار سیٹلائٹ ہے۔ اسے یوکرین کے ارد گرد روسی فوجی اڈوں کی ریڈار تصاویر لینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تصاویر نہیں لی جا سکتیں، اس لیے روس انہیں روکنے کے لیے سیٹلائٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔ یہ خود اپنے آپ میں خلائی جنگ سے پہلے کی جنگ ہے جو روز ہو رہی ہے۔‘ تو ہم اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ کیا خلا تنازعات کا نیا میدان بن رہا ہے؟ ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے ماہر جاناتھن میکڈیول کا کہنا ہے کہ سوچنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے اب بھی وقت ہے: ’خلا کی ٹریفک لین کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔ خلا میں ملبے کے بارے میں اصول ہونے چاہییں کیونکہ یہ اب غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایک موقع ہے جہاں ہم تھوڑا پیچھے ہٹ سکتے ہیں، رُک سکتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ کیسے؟ خلا کو ُپرامن طریقے سے استعمال کر کے۔‘ |
/urdu/live/world-57139940 | پاکستان میں گذشتہ روز ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کے یومیہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ملک میں چار ہزار سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ ادھر انڈیا میں گذشتہ چند روز سے مثبت کیسز کی شرح میں بتدریج کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس ماہ کے آغاز میں جو شرح 19 فیصد سے زیادہ تھی اب 12 فیصد پر آ گئی ہے۔ | پاکستان میں گذشتہ روز ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کے یومیہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ملک میں چار ہزار سے زیادہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ ادھر انڈیا میں گذشتہ چند روز سے مثبت کیسز کی شرح میں بتدریج کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس ماہ کے آغاز میں جو شرح 19 فیصد سے زیادہ تھی اب 12 فیصد پر آ گئی ہے۔ امریکہ میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے جو سرکاری طور پر تسلیم کردہ سب سے زیادہ تعداد ہے لیکن کئی دوسرے ملکوں میں عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اموات کی تعداد کہیں زیادہ رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کووڈ کی وجہ سے بتائی گئی تعداد سے آٹھ گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تاہم پاکستان میں وزیر اعظم کے سابق معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ مفروضوں اور اندازوں پر مبنی ہے اور اس میں زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ عالمی ادرہ صحت کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں کووڈ 19 سے 47 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کہ سرکاری ریکارڈ سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہیں تاہم حکومت نے ان اعدادوشمار کو مسترد کیا ہے کیونکہ انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری طور پر پانچ لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ پاکستان میں اب تک اطلاعات کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ بچے اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ملک میں وائرس کی تیسری لہر کے دوران میڈیا میں ایسی کئی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اس بار کم عمر بچے اس بیماری سے کافی متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ویکسین لگوانے کے اہل ترین افراد میں شامل ہونے پر ایک 27 سالہ ڈاکٹر کو اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں مہلک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ امریکہ اس وبا کا نیا مرکز بن گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں روز بروز کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر کچھ ممالک اس وبا کے بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے انٹرایکٹو نقشے اور چارٹس کی مدد سے جانیے کہ دنیا بھر میں کورونا کے متاثرین کی تعداد کیا ہے اور کون سے ملک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کووڈ 19 کے مردوں اور خواتین کی صرف صحت پر ہی نہیں بلکہ ہر اعتبار سے بہت مختلف اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک ایسا وائرس جو بلا تفریق ہر شخص کو متاثر کر رہا ہے اس کے صنف کے لحاظ سے اتنے مختلف اثرات کیوں ہیں۔ |
/urdu/regional-58007785 | جب جے پور کے مہاراجہ من سنگھ دوئم نے گائیتری دیوی کی والدہ سے رشتے کی بات کی تو انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دیا۔ کیونکہ وہ اس سے قبل دو بار شادی کر چکے تھے۔ تاہم والدہ سے اجازت نہ ملنے کے باوجود گائتری اور مہاراجہ کا رومانس بیرونِ ملک جاری رہا۔ | جب جےپور کے مہاراجہ من سنگھ دوئم نے گائیتری دیوی کی والدہ سے رشتے کی بات کی تو انھوں نے یہ پیشکش مسترد کر دیا۔ کیونکہ وہ اس سے قبل دو بار شادی کر چکے تھے۔ تاہم والدہ سے اجازت نہ ملنے کے باوجود گائیتری اور مہاراجہ کا رومانس بیرونِ ملک جاری رہا۔ جب من سنگھ ایک پولو میچ جیت کر لوٹے تو جشن میں گائیتری دیوی کی والدہ نے ان سے کہا کہ وہ ان سے 'جو چاہیں' وہ مانگ سکتے ہیں۔ گائیتری دیوی لکھتی ہیں کہ 'میں حیرت زدہ تھی جب انھوں نے فوراً کہا کہ وہ مجھے جشن منانے کے لیے کلکتہ کے ایک مشہور ریستوران میں لے جانا چاہتے ہیں اور اس سے زیادہ اس بات سے حیران ہوئی کہ ماں نے اس کی اجازت دے دی۔' یہ ظاہر تھا کہ من بھی ان کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک بار جب گائتری دیوی کا کنبہ جےپور کے دورے پر تھا تو انھوں نے گائیتری دیوی کی والدہ سے پوچھا کہ کیا وہ ان کو گھڑ سواری کے لے جاسکتے ہیں؟ واپس آنے کے بعد گائیتری نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ’وہ کافی اچھے گھڑ سوار ہیں لیکن جب انھوں نے مجھے کچھ مشورے دیے تو میں نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ماں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ان کے مشورے کو کیوں نہیں سنا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا کہ 'میں وہی کروں گی جو انھوں نے بتایا لیکن ان کی موجودگی میں نہیں۔‘ وہ لکھتی ہیں کہ ان جے پور کے دورے کے فوراً بعد ہی والدہ نے انھیں بتایا کہ من نے ان سے کہا تھا کہ وہ گائیتری کے بڑے ہونے کے بعد ان شادی کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے جواب دیا تھا کہ 'میں نے ایسی جذباتی بکواس پہلے کبھی نہیں سنی ہے۔' جب وہ لندن اور سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کررہی تھیں تو دونوں کی دوبارہ ملاقات ہوئی اور وہ خفیہ طور پر ملنے لگے۔ من نے ان سے شادی کی بات کی اور انھوں نے ہاں کر دیا لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی والدہ کو اس کے بارے میں بتاسکیں۔ اس کے برعکس جے پور میں رانیاں پردے میں رہتی تھیں تو یہاں انھوں نے ایک درمیانہ راستہ نکالا۔ وہ ریاستی امور کے لیے پردے کا اہتمام کرتیں لیکن دیگر معاملات میں اپنے من پسند لباس پہنتیں، چاہے وہ اپنی ٹریڈ مارک شفون ساڑی میں ہوں، ٹینس کھیل رہی ہوں، گھڑ سواری کررہی ہوں، پولو کھیل رہی ہوں، خود سے گاڑی چلارہی ہوں یا محل کے منتخب مہمانوں کی میزبانی کر رہی ہوں۔ |
/urdu/world-51570691 | ایک دہائی کے عرصے میں پینزوٹو بھتہ خوری اور اپنے آبائی علاقے لا ٹوریتا سے سمندر کے راستے منشیات سمگلنگ کے اہم کردار بن گئے۔ برطانیہ آ کر انھوں نے اپنا ایک مقام بنا لیا لیکن آخر کار پکڑے گئے۔ | علیک سلیک کے بعد ہم بات چیت کرنے بیٹھ گئے اور انھوں نے اپنے کیے گئے جرائم کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔ وہ اپنی زندگی کے بارے میں اہم انکشافات کر رہے تھے اور ایسے سوالات کا جواب بھی دے رہے تھے جن میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ اتنے عرصے برطانیہ میں کیا کچھ کرتے رہے۔ لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انھوں نے کیمورا گروہ کے ایک اور شخص پر حملہ کیا اور اسے نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام تھا اور وہ اپنے جرائم کی سنگینی کی نوعیت کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر جو کرنا ہوتا تھا کر گزرتے تھے۔ ایک دہائی کے عرصے میں پینزوٹو بھتہ خوری اور اپنے آبائی علاقے لا توریتا سے سمندری رستے سے منشیات سمگلنگ میں اہم کردار بن گئے۔ لیکن لنکا شائر میں پریسٹن وہ جگہ تھی جہاں سنہ 2006 کے ابتدائی مہینوں میں پینزوٹو آ بسے۔ تو آخر انھوں نے برطانیہ کے ایک مختلف سے حصے کا انتخاب کیسے کیا؟ جیل میں ہونے والی ملاقات میں پینزوٹو نے اس کی وضاحت کی تھی۔ پینزوٹو نے کاروان پارک میں ایک گھر کرائے پر لیا اور اس کے بعد نیپلس سے ان کی اہلیہ اور بچے برطانیہ آ گئے۔ گینارو پینزوٹو سے جب لنکاشائر کے غصیلے رہائشی نے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے مِک سے معافی طلب کر لی۔ انھوں نے مِک کو ایک فون نمبر دیا اور فون گمھانے پر فون کی دوسری طرف موجود شخص نے ان سے کہا کہ وہ 20 منٹ میں مسئلہ سلجھانے آ رہا ہے۔ اس کے بعد مِک اور پینزوٹو آپس میں دوست بن گئے۔ گرمیوں میں جرمنی میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں انھوں نے مل کر بیئر پی اور خوب ہنسی مذاق کیا جب وہ چوتھی بار اٹلی کو یہ ٹورنامنٹ جیتتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ پینزوٹو کو سب سے پہلے ان مقروض افراد کو سبق سکھانا تھا۔ برطانوی تاجر اپنا کام جلد ختم کر کے پب میں چلے جاتے اور وہاں اپنے نئے دوست کی تعریفیں کرتے۔ لیکن اب انھیں اپنے مسئلے کا حل چاہیے تھا۔ پینزوٹو نے ریاست سے تعاون کا فیصلہ کیا۔ پراسیکیوٹر مائیکل ڈیل پریٹی کے ساتھ کئی انٹرویوز کے دوران انھوں نے اپنے مافیا کی دنیا کے بڑے نام، واقعات، قتل اور قتل کرنے والوں کے بارے میں بتایا۔ اس نے منشیات سمگل اور بھتہ لینے والے گروہوں، ڈاکوؤں، چوروں، آگ لگانے والوں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ان کا جواب تھا کہ کیمورا کے گینگ ابھی بھی بنیادی خطرہ ہیں۔ وہ صرف اس وجہ سے ختم نہیں ہو گئے کہ ریاست نے اپنا ایک ایسا پروگرام شروع کر دیا جس کے بعد کیمورا کے اہم رہنما جیل میں قید ہو گئے۔ |
/urdu/regional-49148921 | بعض لوگ دوران سفر کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کی صورت میں وہاں سے جاتے ہوئے چادریں اور تولیے لے جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی انھوں نے قیمت ادا کررکھی ہے لہٰذا ان چیزوں پر ان کا حق ہے۔ | سوشل میڈیا پر صارف ہیمنتھ ان کئی لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس ویڈیو کو شیئر کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’یہ فیملی ہوٹل کے سامان چراتی ہوئی پکڑی گئی۔ انڈیا کے لیے یہ کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ ہم سب انڈین پاسپورٹ رکھنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کے سفیر ہیں اور ہمیں ویسا ہی رویہ رکھنا چائیے۔ انڈیا کو اس طرح کے لوگوں کے پاسپورٹ کو منسوخ کر دینا چاہیے جو ہمارے اعتبار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘ ایک دوسری ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’میرے خیال سے یہ واقعہ بالی میں ہوا۔ میں انڈونیشیا میں رہ چکا ہوں اور ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ انڈونیشیا کے لوگ نرم مزاج ہوتے ہیں۔ جن سے میں ملا وہ بہت باعزت تھے۔ وہ انڈیا اور انڈیا والوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس طرح کی صورت حال پریشان کر دیتی ہے۔‘ اس ویڈیو میں مہمانوں کے بیگز سے ہوٹل کا سامان برآمد ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے تو فیملی اس سے انکار کرتی ہے لیکن پھر وہ ان اشیا کی قیمت ادا کرنے کا کہتی ہے۔ اس فیملی کا سربراہ ہوٹل کے ایک اہلکار کو ’سوری سوری‘ کہتا ہوا دوسری جانب لے جاتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہرش گوئنکا نے لکھا: ’جب میں نے یہ نوٹس دیکھا تو مجھے غصہ آیا اور بے عزتی محسوس کرتے ہوئے میں نے اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہا۔ لیکن پھر یہ احساس ہوا کہ سیاح کے طور پر ہم شیخی باز، غیر مہذب اور تہذیب کی حساسیت سے نابلد ہیں۔ انڈیا جب بین الاقوامی قوت بن رہا ہے تو ایسے میں سیاح کے طور پر ہم اپنے ملک کے سفیر ہیں۔ ہمیں اپنا امیج بدلنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔‘ دو سال قبل جنوبی انڈیا سے خبر آئی تھی کہ ایک شخص نے سستے ہوٹلوں سے چار ماہ کے دوران 120 ٹی وی سیٹ چرائے۔ وہ شخص بڑے سوٹ کیس کے ساتھ کسی ہوٹل میں آتا اور انتہائی مہذب طرز عمل کا مظاہرہ کرتا لیکن درحقیقت وہ پیشہ ور چور تھا۔ حالیہ واقعے پر ٹکٹ اور ہوٹلوں کی بکنگ کرنے والی ایک کمپنی اکزیگو نے ٹوئٹر پر ویڈیو جاری کی ہے جس کا عنوان انھوں نے ’مفاد عامہ میں جاری‘ رکھا ہے۔ چوری کرنا ایک لت ہے لیکن بعض لوگ ٹرین اور ہوٹل کی چادروں اور تولیے کو لے جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان چیزوں کی انھوں نے قیمت ادا کررکھی ہے تو وہ ان کو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-61359108 | فرح گوگی کو ہمارے سیاسی بحران کا آئٹم نمبر بنا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز شریف صاحبہ کے ساتھ بھی یہ ہی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اس علیم خانوں، ملک ریاضوں،ترینوں کے ملک میں اگر کسی نے لوٹا ہے تو وہ فرح گوگی ہیں۔ پڑھیے محمد حنیف کا کالم۔ | خان صاحب نے معزولی سے پہلے ہی کہا تھا کہ ان کی بیگم کی ایک دوست کے بارے میں سکینڈل بنائے جائیں گے۔ اس وقت تک فرح گوگی صاحبہ کا کسی نے نام تک نہیں سنا تھا۔ ماہر معاشیات کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے، تاریخ پر نظر رکھنے والے بزرگ فرماتے ہیں کہ ملک سول وار کے دھانے پر ہے، تازہ تازہ فارغ ہوئے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سنو انڈیا کا آرمی چیف کیا کہہ رہا ہے (یہ بھی اچھا ہے کہ اس کو گالی دینے سے پہلے سوشل میڈیا والوں کو گوگل کر کے نام ڈھونڈنا پڑتا ہے، پاکستان میں آپ کوئی مسئلہ نہیں بنے۔ مارخور کی ڈی پی لگانے والے بھی باجوہ صاحب کے خلاف ٹرینڈ کا حصہ بن سکتے ہیں) لیکن ہمارے صحافی بھائی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہی پوچھتے ہیں کہ گوگی صاحبہ کو دبئی سے کب واپس لایا جائے گا اور یہ لیں ان کی جہاز میں بیٹھی تصویر ایک بار پھر دیکھ لیں۔ فرح گوگی کو ہمارے سیاسی بحران کا آئٹم نمبر بنا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز شریف صاحبہ کے ساتھ بھی یہ ہی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اس علیم خانوں، ملک ریاضوں،ترینوں کے ملک میں اگر کسی نے لوٹا ہے تو وہ فرح گوگی ہیں۔ باقی سب تو غریبوں کے لیے گھر بناتے ہیں، اپنی جیب کاٹ کر سستی چینی پہنچاتے ہیں اور اگر ان کے پاس اپنے پرائیویٹ جہاز ہیں تو وہ سب حلال کی کمائی سے بنائے گئے ہیں۔ باقی رہ گئی پاکستان کی ویڈیو گیم تو اس میں بھی خان صاحب نے پہلا اور کاری وار کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ آج تک کس ویڈیو کی وجہ سے پاکستان میں کسی مرد سیاستدان، جج یا بیوروکریٹ کو نقصان پہنچا؟ نیب کے سربراہ، مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ، اسامہ بن لادن کمیشن کے سربراہ (جی ہاں یہ ایک ہی شخص ہیں) ان کی ویڈیو ٹی وی پر بھی چل گئی اور اب وہ فرح گوگی صاحبہ کی تفتیش بھی کریں گے۔ اب ان کے مخالف بھی، چاہنے والے بھی، قوم کا دیوالیہ ہونے کے خبر دینے والے، خانہ جنگی سے خبردار کرنے والے، نمازی پرہیزگار صحافی جنھوں نے زندگی میں کبھی گندی ویڈیو نہیں دیکھی، وہ بھی جنھوں نے کبھی غلطی سے دیکھ لی تو اولاد کو منع کیا کہ یہ کام کبھی نہیں کرنا، وہ بھی جو کہتے ہیں کہ لوگوں کی ذاتی زندگی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور یقیناً کئی پردہ دار عورتیں بھی، چھپ چھپ کر سوشل میڈیا کو چیک کرتے ہیں کہ وہ ایک بدبخت جعلی ویڈیو آنی تھی، اس کا کیا ہوا۔ |
/urdu/world-48652061 | لندن میں گذشتہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں کے بعد امریکی صدر ٹرمپ اور میئر لندن صادق خان میں عرصے سے جاری لفظی جنگ ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ | امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لندن کے میئر صادق خان کو ایک مرتبہ پھر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’قوم کے لیے رسوائی‘ کا باعث ہیں اور ’برطانیہ کے دارالحکومت لندن کو تباہ کر رہے ہیں‘۔ ان کا حالیہ بیان لندن میں گذشتہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں پیش آنے والے پانچ پرتشدد واقعات کے پسِ منظر میں ہے جن میں تین افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹس صادق خان سے ان کی کافی عرصے سے جاری چپقلش کی ایک کڑی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی مبصر کیٹی ہاپکنز کی لندن میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بارے میں کی جانے والی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ صادق خان ’ایک مصیبت ہیں‘ اور لندن کو جلد از جلد ایک نئے میئر کی ضرورت ہے۔ یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا کیونکہ بعد میں کی جانے والی ایک اور ٹویٹ میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’وہ (صادق خان) قوم کے لیے باعثِ ذلت ہیں جو کہ لندن شہر کو تباہ کر رہے ہیں۔‘ اس کے جواب میں صادق خان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میئر اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہیں اور وہ اپنا وقت ’اس نوعیت کی ٹویٹس کا جواب دینے میں ضائع نہیں کریں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ میئر کی پوری توجہ شہر میں بسنے والے لوگوں کی مدد کرنے اور دباؤ کا شکار ہنگامی سروسز سے نمٹنے پر ہے۔ لندن میں پرتشدد واقعات کے بعد پولیس نے اب تک 14 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ زیرِ حراست افراد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ تازہ ہلاکتوں کے بعد لندن میں سنہ 2019 میں قتل ہونے افراد کی تعداد 56 ہو گئی ہے۔ گذشتہ برس لندن میں 77 افراد قتل ہوئے تھے جن میں سے 48 کو چاقو سے حملوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ ماضی میں صدر ٹرمپ اور صادق خان میں کئی مرتبہ لفظی جنگ ہو چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے برطانیہ کے اپنے حالیہ دورہ شروع کرنے سے تھوڑی دیر پہلے لندن کے میئر صادق خان کو ’ایک مکمل ناکام شخص‘ قرار دیتے ہوئے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ’لندن میں ہونے والے جرائم پر توجہ دیں‘۔ اس بیان کے تناظر میں صادق خان نے حکومت برطانیہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے دورہ برطانیہ کے موقعے پر ان کا ’پرتپاک استقبال‘ نہ کریں۔ ماضی میں صدر ٹرمپ نے صادق خان کو ذہانت کے امتحان کا چیلنج دیا تھا جبکہ ٹرمپ نے خان کی طرف سے سنہ 2017 میں ہونے والے لندن برج حملے پر ردِ عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لندن کے میئر صادق خان انڈیا کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں جہاں وہ فنکاروں سمیت مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ |
/urdu/vert-fut-56672140 | جہاں ایک طرف ناسا کے مرکری سیون سے وابستہ چہرے دنیا بھر کے میڈیا میں چمک رہے تھے وہیں روس کے خلابازوں کو عوام کی نگاہوں سے دور راز داری سے تربیت دی جا رہی تھی۔ | اگرچہ انسان کے خلا میں جانے کے ڈرامائی واقعات کو ناسا کی جانب سے عوامی سطح پر بیان کیا گیا لیکن حال ہی میں اس بات کا علم ہوا ہے کہ کس طرح سوویت یونین نے اپنے خلا بازوں کو چنا اور ان کی تربیت کی گئی۔ جہاں ناسا نے اپنے مرکری خلائی جہاز کو اڑانے کے لیے خلا بازوں کے طور پر تربیت یافتہ فوجی پائلٹس کو بھرتی کیا وہیں سوویت خلائی جہاز ’ووسٹوک‘ کو زمین سے کنٹرول کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ صرف ہنگامی حالت میں ہی پائلٹس اسے چلاتے ورنہ ان کا پرواز سے زیادہ لینا دینا نہیں تھا۔ ان خلابازوں کو ناسا کے خلابازوں کی طرح کی کئی ٹریننگز کرنی پڑیں جس میں بے وزنی کی کیفیت سے خود کو ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے سوویت خلابازوں کو جن امتحانات سے گزارا گیا وہ ہر اعتبار سے امریکی خلابازوں کے امتحانات سے زیادہ سخت گیر اور مشکل تھے۔ ایک مہینے کے دوران امیدواروں سے متعدد سوالات پوچھے جاتے، انھیں انجیکشنز لگائے جاتے اور انھیں مختلف جسمانی ورزشیں کروائی گئیں۔ انھیں مختلف کمروں میں رکھ کر درجہ حرارت 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا گیا، انھیں ایسے چیمبرز میں بھی رکھا گیا جہاں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہوتی اور ایسی سیٹوں پر بٹھایا گیا جو مسلسل لرز رہی ہوتیں۔ کچھ امیدوار ان امتحانات کے باعث بے ہوش ہو جاتے، کچھ پر سکون انداز میں ان میں سے گزر آتے۔ یہ ٹریننگ پروگرام امریکی پروگرام سے خاصی مماثلت رکھتا تھا، لیکن اس میں خلائی جہاز کو کنٹرول کرنے پر کم توجہ دی گئی تھی۔ خلا میں بھیجے جانے والے کتوں کی طرح ان امیدواروں کو بھی انتہائی تیز رفتاری سے گول گھمایا جاتا، انھیں کئی کئی دن ایسے چیمبرز میں بند کیا جاتا جن میں آواز داخل نہ ہو سکے اور پھر ان کے مسلسل جسمانی اور ذہنی امتحانات لیے جاتے۔ ایک بڑا فرق جو ان دونوں پروگرامز میں تھا، وہ یہ کہ روسی خلابازوں کو پیراشوٹ کی ٹریننگ بہت زیادہ کروائی گئی تھی۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ انھیں واپسی پر خلائی جہاز سے نکل کر پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر اترنا تھا تاکہ وہ لینڈنگ کے دوران شدید زخمی ہونے سے بچ سکیں۔ یہ تفصیل کہ کیپسول اور پائلٹ علیحدہ لینڈ کریں گے اسے بھی کافی سالوں بعد منظر عام پر لایا گیا۔ پانچ اپریل 1961 کو یہ تمام امیدوار قزاقستان کے صحرا میں قائم بیکونور کوسموڈروم پہنچے جہاں کورولیف کا آر سیون راکٹ ان کا منتظر تھا۔ ابھی تک کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کون سب سے پہلے خلا میں جائے گا۔ لانچ سے کچھ ہی روز قبل گاگارن کو خلا میں جانے کی اجازت مل گئی۔ |
/urdu/pakistan-60336690 | پاکستان کے صوبہ سندھ میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ایک زیر تربیت نرس کی جانب سے ایک انتظامی عہدیدار پر جنسی ہراس کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ | سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے نوابشاہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی میں ایک زیر تربیت نرس پر مبینہ تشدد اور ہراساں کیے جانے کی تحقیقات 15 روز میں مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے نوابشاہ میڈیکل یونیورسٹی میں مبینہ ہراسانی کی خبروں کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ منگل کو اس کیس میں ہونے والی سماعت کے موقع پر متاثرہ نرس ننگے پاؤں چیف جسٹس کے چیمبر میں پیش ہوئیں، جبکہ اس موقع پر اعلیٰ پولیس حکام اور رجسٹرار پیپلز میڈیکل یونیورسٹی بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے اور دوران سماعت چیف جسٹس نے بھی پولیس کے حوالے سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے کہ نرس کی جانب سے ایک انتظامی عہدیدار پر جنسی ہراس کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ایس ایس پی نوابشاہ سعود مگسی نے بتایا تھا کہ نامزد ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ ہاسٹل وارڈن کو یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے ہی معطل کر دیا ہے۔ زیر تربیت نرس اپنا نرسنگ کورس پاس کرنے کے بعد پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں اور جمعرات کے روز انھوں نے اپنے اہلخانہ سمیت نوابشاہ میں احتجاجی دھرنا دیا تھا اور مطالبہ کیا کہ متعلقہ حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایک انتظامی عہدیدار وقتاً فوقتاً جنسی تعلقات رکھنے کے لیے ہراساں اور پریشان کرتا رہتا تھا، جس کی شکایت انھوں نے اپنے سینیئرز کو بھی کی تھی۔ نرس کے مطابق نو فروری کی صبح نو بجے کے قریب وہ اپنے کمرے میں موجود تھیں کہ تین خواتین، جنھوں نے چہرے پر ماسک لگائے ہوئے تھے، نے کمرے میں داخل ہو کر ان کا گلا دبایا اور مار پیٹ کی اور وہ جان بچانے کے لیے دروازے کی جانب بھاگیں۔ مدعی کے مطابق خواتین نے ان پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے فلاں انتظامی عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں رکھے تو تمھیں مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائے گی۔ اسی دوران اس نرس نے موقع ملتے ہی اپنے چچا کو ٹیلی فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ پولیس نے نرس کی درخواست پر اقدام قتل اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن سے اس بارے میں جاننے کے لیے بار بار رابطے کے باوجود ان کا مؤقف سامنے نہیں آ سکا تھا تاہم مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ متعلقہ نرس کو ہراساں نہیں کیا گیا اور لڑکی پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔ |
/urdu/sport-60020735 | وراٹ کوہلی نے انڈین مردوں کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انھوں نے 68 ٹیسٹ میں انڈیا کی کپتانی کی اور 40 میچ جیت کر ریکارڈ قائم کیا جو کہ تاریخ میں کسی بھی ٹیسٹ کپتان کا چوتھا بہترین ریکارڈ ہے۔ | وراٹ کوہلی نے انڈین مردوں کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انھوں نے 68 ٹیسٹ میں انڈیا کی کپتانی کی اور 40 میچ جیت کر ریکارڈ قائم کیا جو کہ تاریخ میں کسی بھی ٹیسٹ کپتان کا چوتھا بہترین ریکارڈ ہے۔ اس رپورٹ میں کھیل کے مصنف سریش مینن نے اُن کی کرکٹ میراث کا جائزہ لیا ہے۔ انڈیا میں کسی بھی کپتان نے انڈین بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ (بی سی سی آئی) کو اس طرح نہیں لیا جس طرح سے کوہلی نے لیا، کیونکہ انھوں نے بورڈ کے صدر کو اس وقت واقعتاً جھوٹا قرار دیا جب انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ سورو گنگولی نے کوہلی کو ٹوئنٹی 20 کپتان کے طور پر برقرار رہنے کے لیے کہا تھا، اس وقت جب انھوں نے اس فارمیٹ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے تجربے سے کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ کوہلی کو ان کی حیثیت دکھانے کا کوئی بھی بہانہ جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد استعمال کیا جائے گا۔ انڈیا کا ایک کمتر ٹیم سے سیریز 1-2 سے ہارنے کا مطلب بورڈ کو کسی کارروائی کے لیے جواز مل جانا تھا۔ مگر اس سے قبل کوہلی نے خود کو ایک کونے میں دھکیل دیا۔ کوہلی 68 ٹیسٹ میں 40 فتوحات کے ساتھ (24 انڈیا میں اور 16 دوسرے ممالک کے دورے پر) انڈیا کے سب سے کامیاب کپتان ہیں۔ تاریخ ان کے بارے میں ان کے ہم عصروں سے زیادہ مہربانی کا مظاہرہ کرے گی۔ اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے، کوہلی نے کہا کہ اپنی کرکٹ میں انھوں نے ’کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘ وہ ذاتی طور پر بھی پیچھے نہیں ہٹے، اور آپ نے جو دیکھا وہ وہی پرعزم، خود اعتماد، اور متاثر کن شخص تھے۔ اس کے باوجود، مثبت باتوں کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے: خود اعتمادی اور جارحیت، ٹیم میں سب کے لیے ایک ہونے کا جذبہ۔ تیز گیند بازی کی میراث جو اب فطری معلوم ہوتی ہے، جسپریت بمراہ سے لے کر قطار میں انتظار کرنے والے عالمی معیار کے تیز گیند کروانے والوں کا ایک تیار گروپ کوہلی کے کردار کا نتیجہ ہے۔ پھر بھی، یہ دلچسپ بات ہے کہ جب کوہلی پہلے ٹیسٹ کے بعد آسٹریلیا سے واپس آئے تو ان کی جگہ کپتانی کے فرائض انجام دینے والے اجنکیا رہانے کی ٹیم کم جنگجویانہ دکھائی دی! خود اعتمادی کبھی کبھی خود کو نقصان پہنچانے والے کُبر تک پھسل سکتی ہے اور ہم جتنا سمجھتے ہیں یہ شاید کپتان کی شخصیت پر اس سے زیادہ منحصر ہوتا ہے۔ فٹنس پر کوہلی کا زور جیسی میراث انڈین ٹیم کی خصوصیت بنی رہنی چاہیے۔ اور دیگر تمام فارمیٹس سے بڑھ کر ٹیسٹ کرکٹ کے لیے ان کی حمایت کی روایت بھی جاری رہنی چاہیے۔ |
/urdu/regional-54931865 | نازیہ کہتی ہیں کہ ’آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ آزادی نہیں ملی جس کی وہ حقدار ہیں۔ میں ایک ایسے معاشرے کی خواہش رکھتی ہوں جہاں والدین اپنی لڑکیوں کو صرف اس لیے تعلیم نہ دلوائیں کہ انھیں شادی کے لیے ایک اچھا لڑکا یا شریک حیات ملے گا بلکہ اس لیے پڑھائیں کہ وہ تعلیم حاصل کر کے خو مختار بنیں۔‘ | یہ ہیں نازیہ نسیم جنھوں نے انڈین ٹیلی ویژن کے مقبول شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ یعنی کے بی سی کے تازہ ترین سیزن میں ایک کروڑ روپے جیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ اس سیزن کی پہلی کروڑ پتی بن گئی ہیں۔ اب وہ دہلی سے رانچی آ گئی ہیں جہاں ان کے گھر والے اور دیگر رشتے دار رہتے ہیں۔ ان کا بچپن اس شہر کی گلیوں میں گزرا ہے اور اس کی بہت سی یادیں انھیں اور بھی مضبوط بناتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 'میری اور میری والدہ کی خواہشات پوری ہو چکی ہیں۔ اس کا سہرا میرے گھر والوں کو جاتا ہے جنھوں نے مجھے باہر جانے اور پڑھنے کی آزادی دی۔ خاص کر میری والدہ، جنھوں نے کم عمری میں شادی کے باوجود نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی تھی بلکہ وہ ایک بزنس وویمن بھی ہیں اور ایک بوتیک چلاتی ہیں وہ خود کفیل ہیں۔‘ نازیہ کہتی ہیں ’میں پچیس لاکھ روپے کے لیے پوچھے گئے تیرہویں سوال کے جواب کے بارے میں پر اعتماد نہیں تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار خطرہ مول لیا ہے ایک مرتبہ اور لے لیتی ہوں۔ میں نے جو جواب دیا وہ درست نکلا اور اس کے ساتھ ہی میں نے 25 لاکھ روپے جیت لیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ آزادی نہیں ملی جس کی وہ حقدار ہیں۔ میں ایک ایسے معاشرے کی خواہش رکھتی ہوں جہاں والدین اپنی لڑکیوں کو صرف اس لیے تعلیم نہ دلوائیں کہ انھیں شادی کے لیے ایک اچھا لڑکا یا شریک حیات ملے گا بلکہ اس لیے پڑھائیں کہ وہ تعلیم حاصل کر کے خو مختار بنیں اور لڑکے تو پھر بھی مل جائیں گے۔‘ نازیہ کہتی ہیں کہ ’بچپن میں امی اور ابو سے فیمن ازم سیکھا اور شادی کے بعد میرے شوہر نے میرے لیے ایسا ماحول پیدا کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر اپنے خاندان میں خواتین اور ان کی آزادی کا احترام کرے یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’نازیہ بھائیوں بہنوں کے جھگڑوں کو خود ہی سلجھا دیا کرتی تھی۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مستقبل میں یہ ہمارا نام روشن کرے گی۔ آج ہم خوش ہیں اور اس کی وجہ ہماری بیٹی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔ سب نے ایک ساتھ ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اسی وجہ سے آج ہر شخص اپنی زندگی میں خوش اور مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین اس کے علاوہ اور کیا چاہتے ہیں،مجھے یقین ہے کہ نازیہ کی زندگی میں مزید خوشیاں آئیں گی اور کے بی سی صرف پہلی سیڑھی ہے۔‘ |
/urdu/regional-58541369 | اگر بیجنگ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے افغانستان سے کافی معاشی اور سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہ طالبان کو ماضی جیسے حالات میں جانے سے روک سکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر طالبان تنہا رہ جائیں گے۔ | کئی سال پہلے پاکستانی حکام نے اس کا ظاہری نقشہ یکسر بدل دیا تھا۔ اب یہاں انتظار کرتا ہجوم ماضی کی نسبت زیادہ منظم دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں کے ماحول میں خوف اور عجلت کا عنصر نمایاں ہے کیونکہ لوگ افغانستان کے نئے حکمرانوں یعنی طالبان سے فرار چاہتے ہیں۔ صرف طبی بنیادوں پر افغانستان چھوڑنے والوں کو یہاں سے داخل ہونے کی اجازت ہے اور وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ یہ سرحد عبور کر سکتے ہیں۔ طالبان کو مجھ سے بات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے ان میں سے ایک، جس کی گھنی داڑھی تھی اور اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا، سے پوچھا کہ سبز اور سرخ رنگوں پر مشتمل افغانستان کا قومی پرچم سرحد پر کیوں نہیں لہرا رہا اور یہ کہ اب وہاں طالبان کا سفید جھنڈا کیوں لہرا رہا ہے۔ کبھی کبھار یہاں کشیدگی کے لمحات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں تاہم زیادہ تر تو پاکستانی اور طالبان سرحدی محافظ بغیر کسی دشمنی کے یہاں کام کرتے ہیں، اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ بہت سے افغان شہری افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور خاص کر آئی ایس آئی نے ان عسکریت پسندوں کی بنیاد رکھی اور ان کو فروغ دیا۔ درحقیقت عمران خان کے سنہ 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کچھ اتنے قریبی نہیں رہے اور طالبان پر ان کا اثر ورسوخ نمایاں طور پر کم بھی ہو رہا ہے۔ وہ ملک جس کا طالبان کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلق ہے وہ چین ہے اور چین اس بارے میں ذرا بھی شرمندگی ظاہر نہیں کر رہا۔ لہذا افغانستان کو آگے بڑھانے کے لیے چین کی اقتصادی مدد کی ضرورت ہو گی اور اس طرح بیجنگ کو طالبان کی پالیسی پر کافی حد تک کنٹرول ملے گا۔ اس نے انڈیا کی افغانستان سے متعلق پالیسی کو بھی روک دیا ہے۔ انڈیا نے کثیر رقم اور مہارت افغانستان میں لگا رکھی ہے اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں پر انڈیا کا اچھا اثر و رسوخ تھا، لیکن اب یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ طالبان کو اپنے گذشتہ دور حکومت میں بین الاقوامی سطح پر اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ سنہ 2001 تک ملکی معیشت کا حال اتنا برا تھا کہ ایندھن خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور بچی کھچی گاڑیوں کو بھی سڑکوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اب فرق چین ہے۔ اگر بیجنگ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے افغانستان سے کافی معاشی اور سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہ طالبان کو ماضی جیسے حالات میں جانے سے روک سکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر طالبان تنہا رہ جائیں گے۔ |
/urdu/sport-53634604 | پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ بدھ کے روز سے مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گراؤنڈ میں شروع ہونے جا رہا ہے اور یہ سوال دلچسپی سے خالی نہیں کہ کیا پاکستانی کرکٹ ٹیم دو سپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گی یا نہیں؟ | پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ بدھ کے روز سے مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گراؤنڈ میں شروع ہونے جا رہا ہے اور یہ سوال دلچسپی سے خالی نہیں کہ کیا پاکستانی کرکٹ ٹیم دو سپنرز کے ساتھ میدان میں اترے گی یا نہیں؟ اولڈ ٹریفرڈ سے وڈیو لنک پریس کانفرنس میں مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ’اس ٹیسٹ کی پچ ابھی تک ویسی ہی دکھائی دے رہی ہے جیسی ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اُس میچ میں پہلے دن سے سپنرز کا رول تھا اور گیند اچھی سپن ہو رہی تھی۔ ہم بھی اس چیز پر غور کر رہے ہیں، حتمی فیصلہ پچ اور موسم کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ دو سپنرز کھلانے کا امکان ضرور موجود ہے اور یہ ہمارے لیے حوصلہ افزا بات بھی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈرائی کنڈیشنز ہیں لیکن یہ تمام باتیں اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ جیتے ہوئے ہیں، اصل ضمانت اچھی کرکٹ ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں آسان ٹیم نہیں ہے لیکن اگر ہماری ٹیم اپنی اہلیت اور صلاحیت پر کھیلتی ہے تو یقیناً جیت کے امکانات موجود ہیں۔ مصباح کے مطابق ٹیم آخری دو ٹیسٹ سیریز جیت کر انگلینڈ آئی ہے اور اس نے یہاں ایک ماہ کی جو ٹریننگ کی ہے وہ اس سے بڑی حد تک مطمئن ہیں۔ مصباح الحق کو اس بات اندازہ ہے کہ اس سیریز میں پاکستانی ٹیم اپنے دو پسندیدہ گراؤنڈز لارڈز اور اوول میں میچز نہیں کھیل رہی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اچھی ٹیم کے خلاف آپ کو ہر طرح کے چیلنجز ہوتے ہیں۔ ’جب آپ کسی بھی بڑی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ جائیں اور بڑے آرام سے جیت جائیں۔ جب آپ کسی ٹیم کی ہوم کنڈیشنز میں کھیلتے ہیں تو آپ کو تینوں شعبوں میں حریف ٹیم کو زیر پڑتا ہے۔‘ ’جب ہم میں اولڈ ٹریفرڈ میں کھیلے تھے تو اس وقت پچ میں سپنرز کے لیے کچھ نہیں تھا لیکن اب سپنرز کے لیے مدد نظر آئی ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کنڈیشنز کا استعمال کیسے کرتے ہیں اور کس طرح کھیلتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ انگلینڈ کی بیٹنگ کنڈیشنز مشکل ہونے کی وجہ سے تگ ودو کر رہی ہے۔ دونوں ٹیموں میں جہاں بولنگ کے شعبے میں مقابلہ ہے وہاں بیٹنگ میں بھی ایسا ہی ہے جو میچ کی سمت متعین کرے گی۔ پہلی اننگز میں تین سو سے زائد رنز بنانے کی صورت میں جیتنے کے امکانات ستر فیصد ہو جائیں گے۔ |
/urdu/world-53684680 | سابق امریکی خاتون اوّل مشیل اوباما کا کہنا ہے عالمی وبا، نسلی امتیاز اور ٹرمپ انتظامیہ کی منافقت کے باعث وہ 'نچلے درجے کے ڈپریشن' کا شکار ہو گئی ہیں۔ | سابق امریکی خاتون اوّل مشیل اوباما کا کہنا ہے عالمی وبا، نسلی امتیاز اور ٹرمپ انتظامیہ کی منافقت کے باعث وہ 'نچلے درجے کے ڈپریشن' کا شکار ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے ابھرتے ڈوبتے جذبات‘ کے لیے ’خود شناسی‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسی چیزوں کا علم جن سے آپ کو خوشی ملتی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ورزش اور نیند کے اوقات کے دوران مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ مشیل اوباما کا کہنا تھا ’میں آدھی رات کو جاگ جاتی ہوں کیونکہ یا تو میں کسی وجہ سے پریشان ہوتی ہوں یا بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنے ایک پاڈ کاسٹ کے دوران کیا۔ مشیل اوبامہ کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے حالات کی وجہ سے پریشان ہیں مشیل اوباما کا کہنا تھا ’یہ وقت روحانی طور پر تسکین بخش نہیں ہے، میں جانتی ہوں میں نچلے درجے کے ڈپریشن کا شکار ہوں۔‘ ’یہ صرف قرنطینہ کیے جانے کی وجہ سے نہیں ہے لیکن اس کی وجہ نسلی جھگڑے، ایسی انتظامیہ کو دیکھنا، اس کی منافقت کو دیکھنا ہے، دنوں کو گزرتے دیکھنا دل توڑنے والا ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر روز یہ دیکھنے کے لیے جاگنا کہ ایک اور سیاہ فام انسان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا، اسے نقصان پہنچایا اسے مارا دیا گیا یا اس پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا یہ سب تھکا دینے والا ہے۔ ‘ مشیل اوباما نے بتایا کہ ’اس سب کی وجہ سے مجھ پر ایک بوجھ سا آن پڑا ہے کہ گویا میں نے کچھ عرصے سے اپنی زندگی میں کچھ محسوس ہی نہیں کیا۔‘ تاہم ان کا کہنا تہا کہ چیزوں کو مرتب کرنا بہت اہم ہے اس سے احساسات کو ضابطے میں لایا جا سکتا ہے۔ اور وبا کے دوران اپنی ایک معمول بنانا ان کے لیے اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ اپنے پہلے پاڈ کاسٹ کے دوران انھوں نے اپنے شوہر براک اوباما کا انٹرویو کیا جو ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کے صدر تھے۔ |
/urdu/world-61409997 | امریکہ کے نیشنل انٹیلجنس ڈائریکٹر نے کہا ہے روس کے صدر ولادیمیر پوتن یوکرین جنگ میں انتہائی اقدام کر سکتے ہیں۔ | اگر روس کی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو صدر پوتن جوہری ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے: یو ایس انٹیلجنس امریکی انٹیلیجنس نے خبردار کیا ہے کہ روس کو اگر یوکرین کے مشرقی علاقوں میں کامیابی حاصل ہو بھی گئی تب بھی جنگ ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ یہ وارننگ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب مشرقی یوکرین میں جنگ زوروں پر ہے اور جہاں روسی افواج یوکرین کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ روسی افواج یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں سخت مزاحمت کے باجود مشرقی علاقے ڈانباس کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس اوریل ہینز نے امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے بیان میں کہا کہ صدر پوتن اب بھی ڈانباس کے باہر بھی اپنے اہداف کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں لیکن روسی فوج کی صلاحتیوں اور ان کی خواہشات میں مسابقت نہیں ہے۔ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس نے کہا کہ صدر پوتن کا شاید خیال تھا کہ مہنگائی، خوراک کی کمی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یوکرین کے لیے یورپی یونین اور امریکی حمایت کم ہو جائے گی۔ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس نے کہا کہ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو صدر پوتن زیادہ سخت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماسکو اسی وقت جوہری ہتھیار استعمال کرے گا جب اس کی بقا کو خطرات لاحق ہوں گے۔ ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر سکاٹ بیریئر نے سینٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ روس اور یوکرین میں تعطل کی صورتحال ہے۔ حالیہ دنوں میں یوکرین نے دعوی کیا تھا اس کی افواج نے شمال مشرقی خارخیو خطے میں چار آبادیوں کو روس کے قبضے سے چھڑوا لیا ہے۔ یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین کی افواج بتدریج روسی افواج کو خارخیو کے علاقے سے پیچھے دھکیل رہی ہیں جہاں جنگ شروع ہونے کے بعد سے فضائی حملے جاری ہیں۔ ازیم شہر میں ایک مہندم عمارت سے 44 شہریوں کی لاشیں ملی ہیں۔ اس علاقے میں جنگ جاری ہے۔ پانچ منزلہ عمارت مارچ میں گر گئی تھی جس کے رہائشی روسی گولہ باری سے بچنے کے لیے تہہ خانے میں چھپ گئے تھے۔ امدادی کارکن اب وہاں پہنچ پائے ہیں۔ خارخیو کے جنوب مشرق میں واقع ازیم شہر کو ڈانباس کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلات اور ندیوں سے گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ قدرتی قلعہ ہے۔ ماریوپول کے لیے آخری جنگ ازوسٹال سٹیل ورکس میں لڑی جا رہی ہے، جہاں سینکڑوں یوکرینی جنگجو زیر زمین سرنگوں اور بنکروں میں چھپے ہوئے ہیں، جنہیں روسی فوجیوں نے گھیر رکھا ہے۔ ساحلی شہر اوڈیسا پر حملوں میں کئی عمارتوں کو میزائیلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے جس نے آس پاس کے گھروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یوکرین کی مسلح افواج نے بتایا کہ ایک شخص ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے۔ |
/urdu/pakistan-50849801 | پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کے جرم میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں سزا پر عملدرآمد یقینی بنانے کو کہا ہے۔ | پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی پر سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے تھا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔ خصوصی عدالت نے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔ جسٹس وقار نے اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے۔ اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل اگر وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔ مشرف کو سزا دینے کے حق میں فیصلہ دینے والے دوسرے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس سیٹھ وقار کے فیصلے میں پرویز مشرف کی موت کی صورت میں ان کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے حکم سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم کافی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین شکنی اور سنگین غداری ایک آئینی جرم ہے اور یہ وہ واحد جرم ہے جس کی سزا آئینِ پاکستان میں دی گئی ہے۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غداری ایک بہت سنگین جرم ہے اور اس میں نہ صرف فرد جرم عائد ہونے کے حوالے سے بھی قوانین زیادہ سخت ہیں بلکہ سزا بھی زیادہ کڑی ہے اور یہ اپنی نوعیت کا منفرد جرم ہے جس پر سخت ترین سزا بھی دی جائے تو کم ہے۔ تاہم جسٹس شاہد کریم نے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے اس حصے سے اختلاف کیا جس میں اُنھوں نے کہا کہ اگر مجرم فیصلے پر عمل درآمد ہونے سے پہلے مر جائے تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد کے ڈی چوک میں تین روز کے لیے لٹکایا جائے۔ |
/urdu/sport-51856392 | پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے 26ویں میچ میں آج نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی میں میزبان کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو 10 وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ | پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے 26ویں میچ میں آج نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی میں میزبان کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو 10 وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس میچ میں کراچی کے کپتان عماد وسیم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تو لاہور قلندرز مقررہ 20 اوورز میں 150 رنز ہی بنا سکی۔ یہ ہدف کراچی کنگز نے باآسانی 18ویں اوور میں بغیر کسی نقصان کے حاصل کر لیا۔ ایسا پی ایس ایل کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی ٹیم دس وکٹوں سے میچ جیتی ہے۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں پشاور زلمی نے لاہور قلندر کو شارجہ میں دس وکٹوں سے ہرایا تھا۔ ایک ایسی پچ پر جہاں بیٹنگ کرنا اتنا آسان نہیں تھا، لاہور کے 150 رنز پھر بھی کم ہی دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم کراچی نے پاور پلے میں آغاز زیادہ جارحانہ نہیں کیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وکٹیں گرنے سے دباؤ بڑھایا جا سکے گا۔ ان کے پہلے ہی اوور میں شرجیل خان کا کیچ پہلے بین ڈنک نے وکٹوں کے پیچھے چھوڑا، پھر محمد فیضان نے سکوائر لیگ باؤنڈری پر چھوڑا اور ایسے لاہور نے میچ میں واپسی کا سنہرا موقع بھی کھو دیا۔ پہلی اننگز میں لاہور کے کپتان سہیل اختر نے آٹھ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 68 رنز بنائے، تاہم ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکا۔ کراچی کی جانب سے عمید آصف نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاور پلے میں ایک مرتبہ پھر لاہور قلندرز نے زیادہ وکٹیں نہیں کھونے دیں اور اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 49 رنز بنائے۔ تاہم پاور پلے کی آخری گیند پر عمید آصف نے فخر زمان کو بولڈ کر کے کراچی کو پہلی کامیابی دلوائی۔ کراچی نے اپنی ٹیم میں تین تبدیلیاں کی ہیں، عمر خان، کیمرون ڈیلپورٹ اور عامر یامین کی جگہ عمید آصف، اسامہ میر اور ارشد اقبال کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ عماد وسیم کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انھوں نے بولنگ کو بہتر بنانے کے لیے یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر نے ٹاس کے موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے لاہور سے دور کھیلنا اس لیے مختلف نہیں ہے کیونکہ لاہور قلندرز کے مداح پورے پاکستان میں موجود ہیں۔ اس سے قبل، گذشتہ اتوار کو دونوں ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے میچ میں لاہور قلندرز نے کراچی کنگز کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔ اس میچ کی خاص بات بین ڈنک کے 99 ناٹ آؤٹ کی اننگز تھی جس میں انھوں نے 12 چھکے لگائے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے حکومتِ سندھ کی سفارش پر کراچی میں منعقد ہونے والے پی ایس ایل 2020 کے بقیہ میچ تماشائیوں سے خالی سٹیڈیم میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ |
/urdu/regional-51885557 | صدر اشرف غنی نے طالبان کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست میں شامل 5000 قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں اور رہائی کا یہ عمل سنیچر سے شروع ہو گا۔ | امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کے اعلانات کیے جا رہے ہیں لیکن اسی دوران طالبان نے کہا ہے کہ وہ پہلے افغان حکومت کی جانب سے رہا کیے جانے والے قیدیوں کی تصدیق کریں گے کہ کیا وہی قیدی رہا کیے جا رہے ہیں جن کی فہرست انھوں نے کابل انتظامیہ کو فراہم کی تھی۔ امریکہ نے معاہدے کے مطابق 10 مارچ سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کر دیا ہے جبکہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی گذشتہ دنوں 1500 قیدیوں کی رہائی کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ قطر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی اردو کو ٹیلیفون پر بتایا کہ انھیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کابل انتظامیہ جن 1500 قیدیوں کو رہا کر رہی ہے وہ جرائم پیشہ افراد ہیں اور جو فہرست انھوں نے کابل انتظامیہ کو دی تھی، یہ وہ قیدی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد 5000 افراد کی ایک فہرست فراہم کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ان افراد کو رہا کیا جائے۔ دوسری جانب افغان حکومت کی جانب سے بھی 1000 افراد کی ایک فہرست تیار کی گئی تھی۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے مطابق امریکہ نے 10 مارچ سے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کر دیا ہے اور اس دوران امریکہ کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان بین الافغان مذاکرات جلد شروع کریں۔ امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے گذشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق 5000 تک قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں اور رہائی کا یہ عمل سنیچر سے شروع ہو گا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان نمایاں اقدامات کے باوجود طالبان کی جانب سے تشدد کے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں اور وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کے لیے تشدد کے واقعات میں کمی لائیں گے تاکہ قیدیوں کی رہائی بہتر انداز میں مکمل ہو سکے۔ قطر کے شہر دوحہ میں معاہدے پر دستخط کے دوران افغان حکومت کا ایک چھ رکنی وفد پہنچ گیا تھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ طالبان نمائندے اس وفد سے مذاکرات کریں گے لیکن طالبان نے مبینہ طور پر ان سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ قطر کے شہر دوحہ میں 29 فروری کو جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کے تحت امریکہ 10 مارچ سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرے گا، افغان طالبان کے 5000 قیدی رہا کیے جائیں گے اور اسی طرح طالبان کی تحویل میں موجود 1000 افراد کو رہا کیا جائے گا۔ |
/urdu/regional-60245542 | طالبان حکومت کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے میں ان کی خواتین سے متعلق پالیسی ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ | طالبان حکومت کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے میں ان کی خواتین سے متعلق پالیسی ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے ثانوی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ امورِ خواتین کی وزارت کو ختم کر دیا گیا ہے اور بہت سی خواتین کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمت پر پابندی تھیں۔ اس لیے اس بار خواتین کے یونیورسٹی جانے کا محتاط خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اگرچہ جن خواتین نے طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنا اندراج کروایا تھا ان کے لیے یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں مگر لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک سفر کے بارے میں بہت کچھ غیر یقینی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں طالبان نصاب کے اندر مزید شریعت اور اسلام سے متلعق مضامین شامل کریں گے۔ لڑکیوں کے کھیلوں پر پابندی ہے اور انھیں خود کو ڈھانپنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں طالبان کی تعلیم لڑکیوں کی انتخاب کی آزادی ختم کر دے گی اور یہی میری سب سے بڑی پریشانی ہے۔ مجھے واقعی ڈر ہے۔ یونیورسٹیاں کھلنے کا عمل طالبان کے ناروے میں مغربی حکام سے مذاکرات کے بعد شروع ہوا ہے، جن میں طالبان پر زور دیا گیا کہ اگر وہ غیر ملکی امداد تک رسائی اور بیرون ملک افغانستان کے اثاثے غیر منجمد کروانا چاہتے ہیں تو انھیں خواتین کے حقوق میں بہتری لانا ہوگی۔ مزار شریف میں میڈیکل کی ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یونیورسٹی واپس جانا اب ان کی ترجیح نہیں رہی۔ ’ہم فاقوں پر مجبور ہیں۔ میرے والد سابقہ حکومت کے لیے کام کرتے تھے مگر طالبان کے آنے کے بعد سے وہ بے روزگار ہیں۔ ظاہر ہے کہ میرے والد اب میری تعلیم کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ مجھے کتابوں کی ضرورت ہے، کپڑوں کی ضرورت ہے، مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘ تخار کی ایک طالبہ، جن کی جامعہ 27 فروری کو کھل رہی ہے، کہتی ہیں کہ ’ہمارا بہت سا تعلیمی وقت ضائع ہوا اور اگرچہ میں خوش ہوں کہ وہ کھولنا چاہتے ہیں مگر اب بہت سے نئے ضابطے ہیں جن پر یونیورسٹی میں رہتے ہوئے عمل کرنا پڑے گا۔ کچھ باتیں ہیں جن سے میں مطمئن نہیں ہوں، جیسا کہ یونیورسٹی جانے کے لیے کسی محرم کا ساتھ ہونا۔‘ پشتنہ درانی ’لرن افغانستان‘ کی بانی ہیں جو ملک میں سکول چلانے کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے فاصلاتی تعلیم کا انتظام بھی کرتی تھیں مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ ان کے لیے یہ خبر تلخ و شیریں ہے۔ |
/urdu/world-55242323 | اس وقت ایک نئی امریکی انتظامیہ وائٹ ہاؤس میں آنے کی تیاری کر رہی ہے اور نومنتخب صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ کچھ سعودی معاملات پر اپنے پیش رو سے زیادہ سخت مؤقف رکھیں گے۔ | اس وقت ایک نئی امریکی انتظامیہ وائٹ ہاؤس میں آنے کی تیاری کر رہی ہے اور نومنتخب صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ کچھ سعودی معاملات پر اپنے پیش رو سے زیادہ سخت مؤقف رکھیں گے۔ مارچ 2015 میں موجودہ ولی عہد اور اس وقت کے وزیرِ دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے خفیہ انداز میں عرب ممالک کا ایک اتحاد قائم کیا اور بھرپور فضائی قوت کے ساتھ جنگ کا حصہ بن گئے۔ انھیں امید تھی کہ وہ چند ہی ماہ میں حوثی باغیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیں گے۔ ایران کی مدد سے حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملے بھی کیے اور سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا ہے۔ یہ تنازع یقیناً ایک مہنگا تعطل ہے اور اس حوالے سے وضع کیے جانے والے اکثر امن کے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔ یمن جنگ کے باعث جہاں ہلاکتیں ہو رہی ہیں وہیں سعودی عرب کے خزانے سے اس جنگ پر ایک خطیر رقم بھی خرچ ہو رہی ہے اور بین الاقوامی میڈیا میں اس حوالے سے شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت اس جنگ سے پروقار انداز میں نکلنا چاہتی ہے تاہم ان کا مؤقف ہے کہ وہ اس جنگ کا حصہ اس لیے بنے تھے تاکہ ’اپنی جنوبی سرحد پر ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روک سکیں‘ اس لیے وہ ایرانی حمایت یافتہ مسلح ملیشیا کو اقتدار میں نہیں دیکھ سکتے۔ سنہ 2016 تک اپنی صدارت کے اواخر میں سابق امریکی صدر براک اوباما سعودی عرب کو امریکی حمایت دینے سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو انھوں نے آتے ہی اس پالیسی کو ختم کیا اور ریاض کو وہ تمام خفیہ معلومات اور اشیا مہیا کیں جس کی انھیں ضرورت تھی۔ تاہم اب بائیڈن انتظامیہ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ اب تک 13 پُرامن سعودی خواتین سماجی کارکنان کو جیلوں میں بند کیا جا چکا ہے اور کچھ کیسز میں تو ان پر تشدد بھی کیا گیا ہے حالانکہ ان کا ظاہری جرم صرف یہی تھا کہ وہ خواتین کے لیے ڈرائیونگ کا حق یا مردوں کی سرپرستی کے غیرمنصفانہ نظام کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ یمن جنگ کی طرح یہ وہ گڑھا ہے جو سعودی قیادت نے اپنے لیے خود کھودا ہے اور اب وہ جیسے تیسے اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یمن کے حوثی باغیوں کی طرح قطری حکومت سے بھی یہی توقع کی گئی تھی کہ وہ بالآخر گھٹنے ٹیک دیں گے جو غلط ثابت ہوئی۔ اس کی ایک وجہ ان کے پاس موجود دولت کی فراوانی ہے۔ قطر کے پاس سمندر میں گیس کے ذخائر ہیں اور اس نے صرف برطانیہ کی معیشت میں 40 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ ترکی اور ایران کی مدد بھی کرتاہے۔ |
/urdu/pakistan-53723576 | وزیر اعلی پنجاب کی پریس کانفرنس سوشل میڈیا پر وائرل ہثئی اور اس پر ایک بحث جاری ہے۔ اُس پریش کانفرنس کا متنازع حصہ ٹوئٹر پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے نیب کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور اس سوال پر اُن کے ساتھ کھڑے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان آنکھ کھجاتے ہوئے اپنا منہ موڑتے ہوئے وزیر اعلی کے کان میں کہتے ہیں کہ نیب کے خلاف نہیں بولنا۔ | گذ شتہ روز لاہور میں شجرکاری مہم میں شرکت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار سے سوال پوچھا گیا کہ نیب بغیر ثبوت کے دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کرتا رہا ہے اور پیشی کے لیے بلاتا رہا ہے تو کیا آپ پیش ہوں گے۔ اس سے پہلے کے وزیرِ اعلٰی اس کا جواب دیتے، ان کے ساتھ موجود پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے ان کے کان میں سرگوشی کی کہ نیب کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی۔ پیر کے روز سیف سٹی اتھارٹی کے دورہ کے موقع پر وزیرِاعلٰی پنجاب سے اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے سوال کیا کہ ان کی گزشتہ ویڈیو پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وزیرِاعلٰی خود جواب نہیں دیتے، انہیں ڈکٹیشن دی جاتی ہے تو اس کے ردِ عمل میں ان کا کہنا تھا کہ 'ایسی کوئی بات نہیں، میں یہاں کھڑا ہوں آپ نے جو پوچھنا ہے پوچھیں، میں جواب دوں گا۔' نون لیگ کی پنجاب اسمبلی میں رکن ثانیہ عاشق نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس کا اُس حصے کی وڈیو ٹویٹ کی اور اس وڈیو کے ساتھ اپنے پیغام میں فیاض الحسن چوہان کے الفاظ دہرائے ’نیب کے خلاف نہیں بولنا’ اور ہنس ہنس کر آنسو آجانے والی اموجی شیئر کی۔ اس وڈیو پر عابد توصیف نامی ایک صارف نے طنزاً کہا کہ 'چوہان صاحب کی آنکھ میں کسی چیز کا بال پڑ گیا تھا بس اور کوئی بات نہیں' بی بی سی اردو نے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے اُن کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پنجاب کے لیے نون لیگ کی سیکرٹری اطلاعات عظمی زاہد بخاری نے کہا کہ ' نیب کے خلاف نہیں بولنا، وزیر اطلاعات کا مشورہ، ظاہر ہے ان کو تو بیلنسنگ ایکٹ کے لیے بلایا گیا ہے، اصل تکلیف تو مریم نواز سے ہے، بیچارے'۔ اکرم جاوید نے ٹویٹ کی ' کٹھ پتلیوں کی اصلیت ۔۔۔ اور کیا وزیر اعلیٰ بنایا ہے جسے بچوں کی طرح کان میں بتاتے رہتے ہیں ساتھ والے۔' محمد احسان اللہ نے فیض الحسن چوہان کے مشورے کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ' وہ ٹھیک کہ رہے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہے۔' عمیر حسین ملک نے بھی اس بارے میں اپنی ٹویٹ میں کہا کہ 'اپنی منفی سوچ دور رکھیں، یہ پریس کانفرنس میں عام ہوتا ہے جب صحافی شہ سرخی کی خاطر ایسے مشکل سوال کرتے ہیں۔' ایک اور صارف کے مطابق اس کا ایک قانونی پہلو بھی ہے اور اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ'عمدہ مشورہ! وہ مشیر ہیں کے نہیں؟ اور یہ بھی کہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس پر تبصرہ توہین عدالت ہے ایک اسی بات جو میڈیا کو سیکھنی چاہیے۔' |
/urdu/pakistan-54701325 | پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اسحاق ڈار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود، میاں نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان نہیں لے جایا سکتا۔ | پاکستان مسلم لیگ کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اسحاق ڈار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود، میاں نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان نہیں لے جایا سکتا۔ خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں ایک خط کے ذریعے حکومتِ برطانیہ سے علاج کی غرض سے لندن جانے والے نواز شریف کو ملک بدر کرنے کی درخواست کی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ نواز شریف کو واپس پاکستان لانے کے لیے انھیں اگر برطانوی وزیراعظم سے رابطہ کرنا پڑا تو وہ ایسا کریں گے۔ انٹرویو کے دوران اس سوال پر کہ میاں نواز شریف کو پاکستان کی عدالت نے نااہل قرار دیا اور کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ پاکستان جا کر عدالتوں کا سامنا کریں، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہم دیکھیں کہ عدالتوں کی فنکشننگ کیا ہے اور کیا وہ انصاف کرتی نظر آرہی ہیں۔ ‘ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ فوج کا ادارہ قابل احترام ہے، اس کی ملک اور قوم کے لیے بہت قربانیاں ہیں اور مسلم لیگ کا فوج کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ’جب بھی ملک کے دفاع کا معاملہ آیا ہم نے فوج اور سکیورٹی اداروں کا دفاع کیا، دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا۔‘ تاہم ان کے بقول کچھ افراد نے ’عمران خان کو لانے کے لیے انٹریگ کی جس میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو استعمال کیا گیا۔‘ اس سوال پر کہ ایک طرف تو نواز شریف آرمی چیف پر الزام عائد کرتے ہیں اور دوسری جانب انھی کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے مسلم لیگ ن نے ووٹ کیوں دیا؟، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میاں صاحب نے قومی مفاد میں اس کی اجازت دی تھی۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے بقول ریاست کے اداروں میں موجود بعض افراد مسلم لیگ ن کو حکومت میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں، تو پھر ایسی صورت میں ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’جنرل ریٹائرڈ مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد بھی یہی صورتحال تھی، آج بتائیں کہ مشرف کہاں ہیں؟ ہماری سیاست تو آج بھی ہے۔‘ اس سوال پر کہ وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت کے بارے میں اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں کہا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں ملک میں کرنٹ اکاؤنٹ 792 ملین ڈالر فاضل ہے، برآمدات میں 29 فیصد جبکہ ترسیلات زر یا ریمیٹنس میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اشارے تو ملک کے لیے اچھے ہیں، سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایک مہینے کی بنیاد پر حکومت کو نہیں پرکھنا چاہیے۔ |
/urdu/world-53851056 | امن ویاس کو 2009 میں کیے گئے اس قتل کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے انڈیا نے انگلینڈ کے حوالے کیا تھا۔ مجرم پر مشرقی لندن کے علاقے والتھم سٹو کی 35 سالہ مشعل سماراویرا کے قتل کا الزام تھا۔ | امن ویاس کو 2009 میں کیے گئے ایک قتل کے مقدمے کی سماعت کے لیے انڈیا سے انگلینڈ کے حوالے کیا گیا تھا ’نائٹ سٹاکر‘ نامی سلسلے وار ریپ کے مجرم کو دس برس قبل کیے گئے ایک خاتون کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ امن ویاس کو 2009 میں کیے گئے اس قتل کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے انڈیا نے انگلینڈ کے حوالے کیا تھا۔ مجرم پر مشرقی لندن کے علاقے والتھم سٹو کی 35 سالہ مشعل سماراویرا کے قتل کا الزام تھا۔ 35 برس کے امن ویاس پر ریپ کے پانچ الزامات اور ارادی طور پر جسمانی نقصان پہنچانے کا جرم بھی ثابت ہوا ہے۔ امن ویاس کو کروئڈن کراؤن کورٹ کی جانب سے کم سے کم 37 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ویاس رات کے وقت تنہا خواتین کو اپنا شکار بناتا اور اس نے اپنے گھر کے نزدیک ایک چھوٹے سے علاقے میں کم از کم چار خواتین کو پرتشدد ریپ کا نشانہ بنایا۔ امن ویاس نے سنہ 2009 میں مشعل سماراویرا کا ریپ اور قتل کیا مجرم ویاس کی عمر 24 برس کے تھی جب اس نے 24 مارچ 2009 کو پہلی بار ایک خاتون پر حملہ کیا۔ ویاس نے اس عورت کا پیچھا کیا اور اس کے ہی گھر میں اس کا ریب کیا اور مارا پیٹا۔ اسی برس 22 اپریل کی رات ویاس نے ایک دوسری خاتون کا ایک گلی میں پرتشدد ریپ کرنے سے پہلے اسے ڈرایا اور دھمکایا۔ 29 اپریل کو ویاس نے ایک اور عورت کا پیچاھا کیا اور پھر ایک گرجا گھر کے ساتھ واقع قبرستان میں اس کا ریپ کیا۔ سماراویرا پر حملے سے پہلی ویاس کو اسی دکان کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا جہاں سماراویرا موجود تھیں امن ویاس نے چوتھا اور آخری حملہ سماراویرا پر کیا جو 30 مئی کو ایک سپر مارکیٹ سے گھر واپس جا رہی تھیں۔ امن ویاس نے ان کا ریپ کیا اور زخمی حالت میں بچوں کے ایک کھیل کے میدان میں چھوڑ دیا جہاں اگلی صبح ایک راہگیر کو ان کی لاش ملی۔ پوسٹ مارٹم کے مطابق سماراویرا کی موت گردن پر دباؤ کی وجہ سے ہوئی۔ پروگرام کرائم واچ میں ویاس کا یہ خاکہ دکھایا گیا تھا سمارویرا کے قتل کے کچھ دن بعد برطانوی پروگرام کرائم واچ میں اس کیس سے متعلق معلومات کے لیے اپیل کی گئی اور 2 جولائی کو ویاس نے انڈیا کا ایک طرفہ ٹکٹ لیا اور برطانیہ سے بھاگ گیا۔ وہ سنہ 2011 تک گرفتاری سے بچتا رہا جس کے بعد اس کے سابق باس نے پولیس کو ویاس کے بھائی کی استعمال کردہ ایک بوتل فراہم کی جس سے پولیس کو ان جرائم کے ڈی این اے لنکس کا پتہ چلا۔ آٹھ سال کی عدالتی جنگ کے بعد ویاس انڈیا کے وہ تیسرے شہری ہیں جنھیں اب تک برطانیہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ |
/urdu/world-50474595 | معروف خیراتی ادارے میری سٹوپس کی طرف سے مہیا کیے گئے ان کنڈومز میں سے کئی ایک میں سوراخ تھے اور ان کے پھٹنے کا خدشہ رہتا تھا۔ | میری سٹوپس کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کر رہی ہے ایسا کیسے ہوا معروف خیراتی ادارے میری سٹوپس نے اعلان کیا ہے کہ یوگینڈا میں تقسیم کیے گئے دس لاکھ سے زیادہ کونڈومز کو واپس لیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے استعمال کے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔ یوگینڈا کی نیشنل ڈرگ اتھارٹی (این ڈی اے) کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بننے والے کونڈومز کے لائف گارڈ برانڈ پر کیے گئے ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے کچھ میں سوراخ ہیں اور ان کے پھٹنے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ میری سٹوپس 25 سے زیادہ ممالک میں مانع حمل اشیا اور خاندانی منصوبہ کی سروسز مہیا کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق یوگینڈا میں چھ فیصد کے نزدیک افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ کینیا کے مچھیروں کے لیے کونڈوم کی کیا افادیت ہے؟ ایک اور تحقیق کے مطابق ملک میں صرف 11 فیصد افراد ’پلینڈ پریگننسی‘ یعنی منصوبہ بندی کے تحت بچے پیدا کرتے ہیں۔ میری سٹوپس ہر ماہ تقریباً 15 سے 20 لاکھ کے درمیان کونڈومز یوگینڈا میں فراہم کرتی ہے۔ ادارے نے بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں بتایا کہ ’ہم تصدیق کرتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہمارے کنٹری پروگرامز میں سے ایک نے اس طرح اپنی اشیا کو واپس لیا ہو۔‘ ان کو اس وقت واپس لیا گیا جب 30 اکتوبر کو این ڈی اے نے خیراتی ادارے کو لکھا کہ لائف گارڈ کونڈومز کی دو کھیپیں کوالٹی ٹیسٹ میں پوری نہیں اتر سکیں ہیں۔ میری سٹوپس نے کہا ہے کہ وہ این ڈی اے کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے کہ فوری طور پر یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کھیپوں کے ساتھ کیا ہوا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہمارے مال کا اعلیٰ معیار قائم رہے۔ ادارے نے کہا کہ ’ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ جو دو کھیپیں ہم واپس بلا رہے ہیں ان میں تقریباً 335000 کونڈومز کے ڈبے ہیں، جو کہ دس لاکھ سے کچھ زیادہ کونڈوم بنتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے آدھے سے زیادہ کو حاصل کر لیا ہے۔ |
/urdu/world-50946901 | شام کے گاؤں کفرنبل میں ایک وقت تھا جب 40 ہزار سے زیادہ لوگ رہتے تھے۔ لیکن اب یہاں 100 سے کم لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ | کئی ماہ سے جاری شامی اور روسی افواج کی شدید بمباری کے بعد شام میں کفرنبل نامی ایک گاؤں میں انسانوں سے زیادہ اب بلیاں آباد ہیں۔ بی بی سی کے مائیک تھامسن لکھتے ہیں کہ یہاں اب انسان اور بلیوں کی مختلف نسلیں اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کو دلی سکون پہنچاتے ہیں۔ شدید بمباری سے بچنے کے لیے ایک آدمی میز کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ یہ میز ایک ایسے تہہ خانے کے کونے میں پڑا ہے جہاں جگہ جگہ ملبہ پھیلا ہوا ہے۔ لیکن یہاں 32 سالہ صلاح جار تنہا نہیں ہے۔ صلاح کے آبائی گاؤں کفرنبل میں ایک وقت تھا جب 40 ہزار سے زیادہ لوگ آباد تھے۔ لیکن اب یہاں 100 سے کم لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہاں کتنی بلیاں ہیں۔ لیکن ان کی تعداد یقیناً سینکڑوں یا ممکنہ طور پر ہزاروں میں ہے۔ ’ہر گھر میں اب تقریباً 15 بلیاں ہیں۔ کبھی کبھار یہ اس سے زیادہ ہوتی ہیں۔‘ صلاح اب بھی ایک مقامی ریڈیو سٹیشن ’فریش ایف ایم‘ میں نیوز رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے اصل سٹوڈیو کو ایک حالیہ فضائی حملے میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ صلاح بتاتے ہیں ’اس عمارت میں کئی بلیاں پیدا ہوئیں۔ ان میں سے ایک سفید رنگ کی بلی تھی جس پر بھورے دھبے تھے۔ یہ بلی راید فارس کے کافی قریب تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہر جگہ جاتی تھی اور ان کے ساتھ ہی سوتی تھی۔‘ یہ بلیاں طاقت کے اعتبار سے کتوں سے کمزور ہیں لیکن صلاح کے مطابق ان جھگڑوں میں ہمیشہ صرف ایک فاتح ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر بلیاں اپنے خاندانوں کے ساتھ محبت سے رہا کرتی تھیں لیکن پھر یہ خاندان اس وقت گاؤں چھوڑ کر چلے گئے جب شامی حکومت کی حمایت یافتہ افواج نے گذشتہ اپریل ادلب سے قبضہ چھڑانے کے آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ صلاح جیسے لوگ کبھی یقینی طور پر زندہ بچنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ اور نہ ہی انھیں اس بات کی تسلی ہے کہ اگلا کھانا کدھر سے آئے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے اُن کی میز پر ان چار ٹانگوں والے دوستوں کے لیے ہمیشہ جگہ رہے گی۔ وہ کہتے ہیں ’میرا ایک دوست ہے جس کے گھر میں بلیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بلی راکٹ حملے میں زخمی ہوئی اور اس کا ایک اگلا پنجہ تقریباً نکل ہی گیا تھا۔ لیکن ہم اسے طبی امداد کے لیے ادلب شہر لے گئے اور اب یہ پہلے کی طرح چلتی پھرتی ہے۔‘ شام کے صدر بشارالاسد کی افواج اب کفرنبل سے زیادہ دور نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ جلد ہی اس گاؤں کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صلاح یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے پریشان ہیں بلکہ ان بلیوں کے لیے بھی فکرمند رہتے ہیں۔ |
/urdu/regional-58621078 | انڈیا کے سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ کانگریس نے چرنجیت سنگھ چننی کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا کر پنجاب اسمبلی الیکشن سے چار ماہ قبل دلت کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی یہ پنجاب کی سیاست میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ | پنجاب میں کچھ عرصے سے ہندو بمقالہ سکھ وزیر اعلی کی بحث نے ضرور زور پکڑا ہے۔ سکھوں میں جٹ سکھوں کا اثر زیادہ ہے اور جٹ کی جگہ ایک دلت کو وزیر اعلی بنانا ایک بڑا فیصلہ تھا۔ وہ ایک دلت کو وزیر اعلیٰ مقرر کرنے کے فیصلے کو محض علامتی قدم سے آگے کا ایک جرات مندانہ فیصلہ تصور کرتے ہیں لیکن ملک کے نامور صحافی ہرتوش سنگھ کا خیال ہے کہ کانگریس نے دلت کارڈ کھیل کر کیپٹن امریندر سنگھ اور نوجوت سدھو دونوں کو وقتی طور پر خاموش کرایا ہے۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے مستعفی ہونے کے بعد نوجوت پر ملک دشمن ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا تھا کہ اگر کانگریس نے سدھو یا ان کے کسی قریبی ساتھی کو وزیر اعلی مقرر کیا تو وہ اس کی شدت سے مخالفت کریں گے لیکن فی الحال دونوں خیموں میں خاموشی ہے۔ کانگریس کے سیںئیر رہنما رنندیپ سنگھ سورجے والا نے دلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ کانگریس نے ایک غریب اور عام آدمی کو وزیر اعلی کا عہدہ دیا ہے۔ پنجاب میں کانگریس کو اصل چیلنج بی جے پی اور اکالی دل سے نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی سے ہے۔ کانگریس نے ریاست میں کسی نئے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے ایک دلت وزیر اعلی ضرور مقرر کیا ہے لیکن ریاست کی اصل قیادت اب سدھو کے ہاتھ میں ہوگی۔ چرنجیت سنگھ کے ایک اور قریبی ساتھی مکیش کمار منکا کا کہنا ہے کہ مطالعے میں ان کی دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ وزیر ہونے کے بعد بھی وہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ 58 برس کے چرنجیت سنگھ چنّی کا سیاسی سفر سنہ 1996 میں شروع ہوا جب وہ کھر بلدیہ کے چیئرمین بنے۔ اس دوران ان کی ملاقات کانگریس کے سینئیر رہنما رمیش دت سے ہوئی۔ سیاست میں وہ ابتدائی دنوں سے ہی رمیش دت سے رابطے میں رہے۔ اگرچہ چرنجیت سنگھ دلت کانگریس لیڈر چوہدری جگجیت سنگھ کے ساتھ بھی رابطے میں تھے لیکن سنہ2007 کے انتخابات میں اُنھیں ٹکٹ نہیں مل سکا۔ چرنجیت سنگھ نے فیصلہ کیا کہ وہ چمکور صاحب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ ریاستی اسملبی میں کانگریس کے نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر چرنجیت سنگھ کے نام کے اعلان کے ساتھ ساتھ بی جے پی پنجاب کے ایک رہنما نے ٹوئٹر پر ان سے متعلق تین سال پرانے کیس کا بھی حوالہ دیا۔ سنہ 2018 میں جب چرنجیت سنگھ وزیر تھے تو ان پر ایک خاتون آئی اے ایس افسر کو ’نامناسب پیغامات‘ بھیجنے کا الزام لگا تھا۔ جب یہ معاملہ اٹھا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بیان دیا تھا کہ ’جب یہ معاملہ چند ماہ قبل میرے نوٹس میں لایا گیا تو میں نے وزیر چرنجیت سنگھ سے کہا کہ وہ خاتون افسر سے معافی مانگیں اور وزیر نے ان سے معافی مانگ لی تھی۔‘ |
/urdu/world-50641627 | نیم برہنہ مردوں اور خواتین کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد ملائیشیا کے ایک وزیر نے ٹیٹو ایکسپو کو ’فحش‘ قرار دے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ | نیم برہنہ مردوں اور خواتین کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد ملائیشیا کے ایک وزیر نے ٹیٹو نمائش کی تقریب کو ’فحش‘ قرار دے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ سیاحت، فن اور ثقافت کے وزیر کا کہنا تھا کہ نمائش ایک اجازت نامہ جاری کیا گیا تھا مگر تقریب میں کسی بھی قسم کی عریانی کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ محمدین کیٹاپی نے کہا کہ یہ شو ’ملائیشیائی ثقافت کی عکاسی نہیں کر رہا تھا۔۔۔ ملائیشیا کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے۔‘ حال ہی میں ملائیشیا میں اسلامی قدامت پسندی کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے۔ ’ٹیٹو ملائیشیا ایکسپو‘ میں 35 ممالک کے افراد نے شرکت کی اور یہ شو ہفتے کے اختتام پر کوالالمپور میں منعقد کیا گیا۔ یہ پروگرام سنہ 2015 سے منعقد کیا جا رہا ہے لیکن صرف اس سال کے شو پر حکومت نے تنقید کی اور شو ترتیب دینے والوں کے خلاف ’سخت کارروائی‘ کا حکم دیا ہے۔ ایک بیان میں وزیر کیٹاپی کا کہنا تھا کہ وزارت کے لیے کسی ایسے پروگرام کی اجازت دینا ناممکن ہے جس میں اس قسم کی عریانی ہو. وائرل ہونے والی تصاویر میں ٹیٹو سے ڈھکے ہوئے افراد نے نیم برہنہ پوز بنائے ہوئے ہیں۔ ملائیشیا میڈیا نے چند تصاویر کو دھندلا کر دیا ہے۔ محمدین کیٹاپی نے مزید کہا کہ ’ہم مکمل تفتیشی رپورٹ کا انتظار کریں گے اور اگر کسی نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہو گی تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے سے نہیں کترائیں گے۔‘ ملائیشیا کی تقریباً تین کروڑ بیس لاکھ آبادی میں سے 60 فیصد مسلمان ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک مزید اسلامی قدامت پسندی کی طرف جا رہا ہے۔ رواں سال ایک مذہبی کورٹ نے پانچ مردوں کو ہم جنس پرستی کے جرم میں قید، لاٹھی سے مارنے اور جرمانے کی سزا سنائی۔ سنہ 2018 میں قدامت پسند ریاست تیرانگانو میں ہم جنس پرستی کے جرم میں دو خواتین کو جسمانی سزا سنائی گئی۔ |
/urdu/regional-58446330 | مدر ٹریسا کا خیال تھا کہ انسان کو گناہ سے نفرت کرنی چاہیے نہ کہ گنہگار سے۔ 'وہ ہر سنجیدہ صورت حال کو ہلکے انداز میں لیتی تھیں۔ جب وہ کسی سسٹر کی تقرری کرتیں تو ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس میں مزاح کی حس ہونی چاہیے۔ وہ ہمیشہ لطیفے سناتیں۔ جب کوئی چیز بہت مزاحیہ ہوتی تو وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے دوہری ہو جاتیں۔' | انھوں نے بتایا: 'وہ ہر سنجیدہ صورت حال کو ہلکے انداز میں لیتی تھیں۔ جب وہ کسی سسٹر کی تقرری کرتیں تو ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس میں مزاح کی حس ہونی چاہیے۔ وہ ہمیشہ لطیفے سناتیں۔ جب کوئی چیز بہت مزاحیہ ہوتی تو وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے دوہری ہو جاتیں۔' رگھو نے بتایا: 'میں نے سوچا کہ اگر میں نیچے بیٹھ جاؤں تو مجھے ایک اچھا زاویہ ملے گا۔ میں مدر سے پوچھے بغیر اچانک بیٹھ گیا اور ان کی تصویر لینے لگا۔ مدر اچانک غصے میں آگئیں اور کہا کہ تم زمین پر کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا مدر لک ایٹ دوز سسٹرز، دے لک لائک اینجلز۔۔۔ پھر انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنی ایمانداری اور عزم کے ساتھ کچھ کیا ہے تو وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔' مدر ٹریسا کا خیال تھا کہ انسان کو گناہ سے نفرت کرنی چاہیے نہ کہ گنہگار سے۔ 'مدر نے پھر اصرار کیا۔ اس کے بعد عورت نے دو چار منٹ تک کچھ نہیں کہا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس نے مسکرا کر کہا کہ میں نے اسے معاف کر دیا۔ وہ یہ کہہ کر مر گئی۔ جب مدر مجھے یہ کہانی سنارہی تھیں تو ان کے چہرے پر اداسی تو تھی لیکن وہ یہ بھی کہنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کوئی کسی کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتا ہے؟' انھوں نے بتایا: 'میں نے کہا کہ کولکتہ جانے والے طیارے میں تو بورڈنگ ہو رہی ہے۔ آج آپ اپنے آشرم پر رکیں۔ کل صبح چھ بجے آپ کو کولکتہ بھیجیں گے۔ مدر نے کہا کہ میں کل تک انتظار نہیں کر سکتی۔ میں ایک بچے کے لیے ایک دوا لائی ہوں۔ اگر اسے آج یہ دوا مل جائے تو وہ بچ سکتا ہے۔ مجھے پسینہ آ رہا تھا۔ بہت سے لوگ وہاں ان کے آٹو گراف لینے کے لیے آ رہے تھے۔ وہ سب سے کہہ رہی تھی کہ کسی طرح تم مجھے کولکتہ پہنچا دو۔' چاولہ نے کہا: 'یہ بات کسی طرح کنٹرول ٹاور تک پہنچی اور وہاں سے پائلٹ کو بھی اس کا علم ہوا۔ آپ حیران ہوں گے کہ پائلٹ نے ٹیکسی کرتے ہوئے جہاز کو روک دیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میں مدر ٹریسا کو گاڑی پر بٹھا کر ٹیرمک پر لے جاؤں۔ مدر کے پاس سوٹ کیس نہیں تھا۔ ان کے پاس پانچ چھ گتے کے ڈبے تھے۔ ایک میں اس کے کپڑے اور باقی میں دوائیں تھیں۔ میں نے گاڑی میں سب کچھ لاد دیا۔ ایک سیڑھی کہیں سے آئی اور مدر ٹریسا ہوائی جہاز میں سوار ہو کر کولکتہ کے لیے روانہ ہو گئیں۔' |
/urdu/regional-55696934 | امدادی حکام نے کہا ہے کہ چین میں سونے کی کان میں ایک ہفتہ قبل پھنس جانے والے 12 کان کُن ابھی بھی زندہ ہیں۔ سرکاری میڈیا کی خبروں کے مطابق کان میں پھنسے ہوئے مزدور حادثہ ہونے کے سات دن بعد باہر یہ پیغام بھجوانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کو نکالنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں | چین میں امدادی حکام نے کہا ہے کہ سونے کی کان میں ایک ہفتہ قبل پھنس جانے والے 12 کان کُن ابھی بھی زندہ ہیں۔ سرکاری میڈیا کی خبروں کے مطابق کان میں پھنسے ہوئے مزدور حادثہ ہونے کے سات دن بعد باہر یہ پیغام بھجوانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کو نکالنے کی کوششیں جاری رکھیں جائیں۔ 'ہم تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں۔' تاہم ان کے علاوہ مزید دس کان کُن کے بارے میں علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں۔ چین میں اکثر اوقات کانوں میں حادثے ہوتے رہتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ حفاظتی قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ مشرقی چین کے شانڈونگ صوبے میں 10 جنوری کو ایک دھماکے کے باعث ہوشان کان میں پھنسنے والے 22 افراد کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا، نکنے کے تمام راستے بند ہو گئے اور مواصلاتی نظام مکمل نہ ہونے کے باعث میسر نہیں تھا۔ سرکاری میڈیا نے بتایا کہ امدادی کارکنان کان میں ایک بہت تنگ راستے کے ذریعے کان کُنوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی سراخ کی مدد سے امدادی کارکنوں نے پھنسے ہوئے مزدوروں تک کھانا، دوائیں اور کاغذ پینسل پہنچائے۔ کان کنوں سے ملنے والا خط کان کنوں سے ملنے والے نوٹ کے مطابق 12 افراد زندہ ہیں جو کہ کان کے درمیانے حصے میں پھنسے ہوئے ہیں، تاہم دیگر دس افراد کے بارے میں انھیں کچھ نہیں معلوم ہے۔ ان خبروں کے مطابق 12 کان کنوں نے مزید دوائیں مانگیں ہیں اور زخمیوں کی مدد کے لیے سامان منگوایا ہے۔ انھوں نے مزید پیغام دیا کہ زیر زمین پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق کان کے اوپر دیگر مقامات پر سراخ کیے جا رہے ہیں تاکہ مزدوروں کو نکالا جا سکے۔ کان کنوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ داخلی راستے سے چھ سو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ |
/urdu/pakistan-50896247 | ’پرویز مشرف کی عدالتی سزا پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون کی قیادت کو جیسے سانپ سونگھا ہو لیکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ ردعمل احسن اقبال کے اسی بیان کی صورت سامنے آیا۔‘ | جس وقت غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سترہ ستمبرکو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف موت کی سزا سنائی تو عین اسی وقت پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے پنجاب بھر سے آئے معطل بلدیاتی اداروں کے نمائندے احتجاج کررہے تھے۔ ان احتجاجی مظاہرین سے اظہاریکجہتی کے لیے مسلم لیگ نون کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال بھی موجود تھے۔ پرویز مشرف کی عدالتی سزا پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون کی قیادت کو جیسے سانپ سونگھا ہو لیکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ ردعمل احسن اقبال کے اسی بیان کی صورت سامنے آیا۔ مسلم لیگ نون میں احسن اقبال کو احتیاط پسند سیاستدان کے طورپر جانا جاتا ہے جو کبھی تنقید کرتے ہوئے بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتے۔ احسن اقبال نون لیگ میں نوازشریف کے وفاداروں میں سے ایک ہیں لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے بھی کافی قریب ہیں۔ ان کا پارٹی سیکرٹری جنرل بننا بھی اسی بات کی علامت تھا کہ شہبازشریف اپنے ساتھ ایک احتیاط پسند رہنما کو ہی رکھنا چاہتے تھے۔ احسن اقبال کے حافظ سعید سے تعلقات میں ایک اہم موڑ 2018 میں آیا۔ ان دنوں مرکز میں نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعظم کی حیثییت سے معزول ہوچکے تھے اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم تعینات کردیا گیا تھا۔ عالمی سطح پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے کالعدم جماعت الدعوۃ کے اثاثے منجمند کرنے کی بات کی جا رہی تھی اور اس حوالے سے حکومت کڑے فیصلے لے چکی تھی۔ اس ماحول میں ایک روز احسن اقبال خاموشی سے لاہورمیں اپنے استاد حافظ سعید سے ملے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کردیا۔ احسن اقبال ان دنوں وزیرداخلہ تو تھے مگر ان کا دل کبھی وزارت داخلہ میں نہیں لگا بلکہ وہ اس بات کا برملا اظہاربھی کرتے تھے کہ ان کی دلچسپی پلاننگ کمشن آف پاکستان میں ہی ہے ۔ وہ جون دو ہزار تیرہ سے سال دو ہزارسترہ میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمے تک پلاننگ کمشن کے وزیر بھی رہے۔ پرویزمشرف کی فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے بلکہ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں معلم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ سال 2008 میں پارٹی میں ایک موثر رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی زیادہ تر توجہ اپنی پارٹی کی اندرونی سیاست، گورننس اور پلاننگ کے ایشوز پر ہی مرکوز رہی۔ تاہم پارٹی کے اندر بھی وہ تنازعات سے دوربھاگنے والے رہنما کے طورپر ہی جانے جاتے ہیں۔ جب وہ وزیرداخلہ بنے تو ان کے پیشرو چوہدری نثارعلی خان نے ایک سے زائد مواقعے پرایسے بیانات دئیے جن سے احسن اقبال کو شرمندگی اٹھانا پڑی مگر جواب میں احسن اقبال نے احتیاط کا دامن ہی تھامے رکھا۔ احسن اقبال احتیاط پسند تو تھے مگر اپنے پارٹی رہنماؤں کی حراست پر ہمیشہ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ |
/urdu/world-54369855 | بی بی سی کی اس گیم کے ذریعے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے خیال میں امریکہ کا اگلا صدر کون ہو سکتا ہے؟ | ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں یہ روایتی طور پر رپبلکن پارٹی کی حامی ریاست جیت تو لی تھی مگر یہاں ان کی کامیابی کا فرق صرف چار فیصد تھا جو کہ ماضی کے رپبلکن امیدواروں سے کہیں کم ہے۔ اس دفعہ رائے شماری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس ریاست میں جو بائیڈن سے ہار جائیں گے۔اس ریاست میں لاطینی امریکہ سے آنے والوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور شہری علاقوں میں لوگوں کی آمدن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں گروہ عموماً ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس ریاست پر کورونا وائرس کی وبا کا بھی شدید اثر پڑا ہے تو اسی لیے جو ووٹر یہ سمجھتے ہیں کہ صدر نے اس وبا کا مقاملہ صحیح سے نہیں کیا، ممکن ہے کہ وہ پارٹی بدل لیں۔ مگر صدر ٹرمپ کا ریاست کی جنوبی سرحد پر دیوار بنانے پر توجہ مرکوز رکھنا اور غیر ملکیوں کے لیے ورک ویزے کم کرنا شاید یہاں ان کے لیے آج بھی مقبولیت کا باعث بنے۔ شمالی کیرولائنا رپبلکن پارٹی کا اہم گڑھ ہوا کرتا تھا مگر 2008 میں براک اوباما نے یہ ریاست انتہائی تھوڑے فرق کے ساتھ جیتی تھی۔ ریاست کے روایتی طور پر رپبلکن ہونے کے باوجود ایک ڈیموکرٹک امیدوار کے جیتنے کا مطلب ہے کہ یہاں ڈیموکریٹک کامیابی ناممکن نہیں ہے۔ٹرمپ اور بائیڈن دونوں نے اس ریاست میں تشہیری مہم پر بھاری رقم خرچ کی ہے جبکہ انتخابی جائزوں میں یہاں بائیڈن کا پلڑا بھاری ہے۔شمالی کیرولائنا وہ پہلی ریاست تھی جس نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ شروع کر دی تھی اور بڑی تعداد میں ڈاک والے ووٹ پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے نصف کے قریب رجسٹرڈ ڈیموکریٹ پیں۔ اگر ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں نے اس ریاست میں فیصلہ کیا تو شاید صدر ٹرمپ کو مشکل ہو۔ جورجیا میں 1960 سے اب تک سوائے دو مرتبہ کے ہر بار ریپبلکن پارٹی کامیاب رہی ہے۔ مگر اس سال بائیڈن کی انتخابی مہم کے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ یہاں جیت سکتے ہیں۔ ان کا انحصار سیاہ فام ووٹروں پر ہوگا جو کہ ریاست کے ووٹروں میں ایک چوتھائی ہیں۔ نسلی امتیاز کے حوالے سے بائیڈن ٹرمپ کے مقابلہ میں رائے شماری میں بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اس سال ملک میں بلیک لائیوز میٹر کی مہم ملک بھر میں چلی ہے اور دیگر شہروں میں بھی ان کی قیادت جورجیا کے نوجوانوں نے کی ہے۔ مگر ٹرمپ خود کو لا اینڈ آرڈر والا امیدوار بنا کر پیش کر رہے ہیں جو کہ سفید فام قدامت پسند لوگوں میں مقبول ہو سکتے ہیں اور اس ریاست میں نتائج میں ان کا بہت اثر ہوتا ہے۔ بات یہی ہوگی کہ الیکشن کے دن کون باہر نکلے گا۔ ہم نے ان ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ مذکورہ امیدواروں کو دیے ہیں جہاں ان کی کامیابی کی توقع ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کھیل میں صدر ٹرمپ 188 جبکہ جو بائیڈن 233 ووٹوں سے شروعات کر رہے ہیں۔ |
/urdu/regional-58593076 | تاجکستان میں ایس سی او اجلاس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم ایک بزنس کنونشن میں موجود تھے جہاں ایک شخص کی تنقیدی شاعری پر ان کا کہنا تھا کہ ’بزنس کی باتیں کریں، شعر و شاعری بعد میں ہوتی رہے گی۔‘ | شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان تاجکستان کے دورے پر ہیں اور جمعے کو ہونے والے اس اجلاس میں افغانستان کے مسئلے پر بات چیت کے لیے چین، انڈیا، روس، ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے رہنما بھی موجود ہیں۔ اسی سلسلے میں عمران خان نے جمعرات کو دارالحکومت دوشنبے میں پاکستان، تاجکستان بزنس کنونشن سے خطاب کیا جہاں انھوں نے تاجکستان کے کاروباری طبقے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور وعدہ کیا انھیں حکومت کی معاونت حاصل ہوگی۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق ایس سی او اجلاس کے لیے پاکستانی وفد میں ٹیکسٹائل، معدنیات، ادویات اور لاجسٹکس جیسے شعبے کے نمائندے بھی موجود تھے۔ مگر جب اس بزنس کنونشن میں پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے مشیر برائے کامرس رزاق داؤد کے سامنے بیٹھے کاروباری حضرات کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا گیا تو ایک شخص نے اچانک اس بزنس فورم کو شاعری کی محفل میں تبدیل کر دیا۔ دوشنبے میں اس بیٹھک کے دوران ایک بزنس مین نے شروع میں تعلیم اور طلبہ کے لیے سکالرشپس کی بات کی، پھر اپنی شاعری سے عمران خان اور رزاق داؤد کو کافی متاثر کیا۔ آغاز میں دونوں بظاہر انھیں داد دیتے نظر آئے۔ یہاں تک تو سٹیج پر بیٹھے پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے مشیر مسکراتے رہے۔ مگر پھر جب انھوں نے ایک مخصوص شعر عمران خان کے لیے سنایا تو چہرے کی رونقیں مانند پڑنے لگیں۔ ادریس آزاد کے اس شعر کا اگلا حصہ ’تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں‘ تھا مگر سرکاری چینل پی ٹی وی کی ویڈیو میں عمران خان اس سے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ’بزنس کی باتیں کریں، شعر و شاعری بعد میں ہوتی رہے گی انشا اللہ۔‘ ٹوئٹر پر ایک صارف سہالیہ مسعود کہتی ہیں کہ ’دل سے برا لگتا ہے بھائی۔ اتنا سچ نہیں بولتے منھ پر۔‘ اسی طرح پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’ظالم پر غصہ آیا، بات دل کو لگ گئی۔‘ ثروت سہیل کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی موقع نہیں اس قسم کی شاعری کرنے کا۔ یہ باتیں، تنقیدیں کسی اور وقت بھی ہو سکتی ہیں۔ کام کی بات کرنا چاہیے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بیسویں سربراہ اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم کے علاوہ اس اتحاد کے دوسرے ممالک بھی شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق ایس سی او میں جمعرات کو تمام فریقین نے اتفاق کیا کہ ’افغانستان کو اس صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کے لیے ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔‘ |
/urdu/science-50494969 | کبھی آپ نے جہاز میں سفر کرتے ہوئے فضائی عملے کی خفیہ زبان سننے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جن الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے۔ | کیا کبھی آپ نے جہاز میں سفر کرتے ہوئے فضائی عملے کی خفیہ زبان سننے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جن الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں، ان کا مطلب کیا ہے۔ اگر کوئی ایسا مسافر جو آخری موقع پر جہاز میں داخل ہوا ہو اور گیٹ ایجنٹ نے اسے کہا کہ وہ اپنے لیے کوئی خالی سیٹ ڈھونڈ لے، تو وہ مسافر خالی نشت کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہا ہو تو آپ کو عملے کی جانب سے یہ اعلان سننے کو مل سکتا ہے کہ کیبن میں ایک سپنر ہے، کیا جہاز کے پچھلے حصے میں کوئی سیٹ خالی ہے۔ ڈیمو دراصل ڈیمانسٹریشن کا مخفف ہے اور یہ وہ ہدایات ہیں جو جہاز کی اڑان سے پہلے فضائی عملہ مسافروں کو دیتا ہے کہ سیٹ بیلٹ کو کیسے باندھنا ہے اور کیبن میں ہوا کا دباؤ کم ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ عام طور پر فضائی عملے کے ہاتھوں میں سیٹ بیلٹ ایکسٹینڈر ہوتا ہے جس سے وہ سیٹ بیلٹ لگانے اور کھولنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ ریڈ آئی کی اصطلاح ایسے فضائی عملے کے لیے استعمال ہوتی ہے جو رات کو پرواز کر رہا ہو۔ رات کی شفٹ یا پرواز کو فضائی عملے کے لوگ قبرستان کی شفٹ بھی کہتے ہیں۔ فضائی عملے کے ایسے افراد جو ابھی نائٹ شفٹ کے عادی نہیں ہوئے یہ ان کے لیے بہت مشکل ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے فضائی میزبان جو نائٹ شفٹ کے عادی ہو چکے ہیں وہ اس شفٹ کو پسند کرتے ہیں کیونکہ زیادہ تر مسافر سو جاتے ہیں اور عملے کے پاس گپ شپ لگانے کا موقع ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ اعلان سننے کو ملے کہ ہم ’رنزز‘ یعنی بھاگنے والوں کا انتظار کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری پرواز سے آنے والے مسافر دیر سے آ رہے ہیں۔ جب فضائی عملہ یہ اعلان کرے کہ رنزز آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا سامان جلدی سے جہاز میں رکھنے میں ان کی مدد کرنی ہے اور انھیں جلدی جلدی سیٹوں پر بٹھانا ہے تاکہ پرواز اپنے وقت پر روانہ ہو سکے۔ یہ یاد رکھیں کہ کچھ ایئرلائنز رنرز کے لیے انتظار کرتی ہیں لیکن کچھ رنرز پر اتنی مہربان نہیں ہوتیں۔ والدین کےلیے انتباہ: اگر آپ بچوں کے ہمراہ ہوائی سفر کر رہے ہیں تو دھیان رکھیں کہ کال بٹن کوئی کھلونا نہیں ہے، اور اگر آپ نے بچوں کو اسے استعمال کرنے کا موقع دیا اور انھوں نے اسے میوزک کا کوئی آلہ سمجھ کر بجانا شروع کر دیا تو پھر آپ کو فضائی عملے کی ناگوار نظریں گھورتی رہیں گی۔ |
/urdu/regional-59013508 | ماسکو فارمیٹ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان افغانستان میں ایک نئی حقیقت ہیں اور اس ملک کے ساتھ تعلقات میں بھی اسے مدنظر رکھنا ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا ماسکو فارمیٹ سے جاری ہونے والے اس بیان سے خوش نہیں ہے۔ | ادھر روس میں افغانستان پر مذاکرات کے لیے کیا گیا ماسکو فارمیٹ بھی ختم ہو چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا ماسکو فارمیٹ سے جاری ہونے والے بیان سے خوش نہیں ہے۔ ماسکو فارمیٹ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان افغانستان میں ایک نئی حقیقت ہیں اور اس ملک کے ساتھ تعلقات میں بھی اسے مدنظر رکھنا ہو گا۔ کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ ہے تو ایسے میں ماسکو فارمیٹ کے اس بیان کو انڈیا کے حق میں نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ ادھر روسی صدر پوتن نے کہہ دیا کہ افغان طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات صرف طالبان کے ساتھ ہوں گے۔ ایک جامع حکومت کے بارے میں بھی بات ہوئی ہے، اب طالبان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ ہر کوئی ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت سربراہی اجلاس بلانے کی بات بھی ہوئی ہے۔‘ انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ماسکو فارمیٹ کے بیان میں انڈیا کو بے چین کرنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اب نئی حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ افغان طالبان اب اقتدار میں ہیں، چاہے عالمی برادری طالبان کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اگر آپ افغانستان میں انسانی امداد بھی بھیجیں گے تو وہاں کی نئی حقیقت کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ ماسکو فارمیٹ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو اصلاحات کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ایک جامع حکومت تشکیل دی جا سکے۔ ماسکو فارمیٹ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ شامل ممالک نے طالبان حکومت کے اس عزم پر اطمینان کا اظہار کیا جس میں اُنھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری طرف انڈیا یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان کے بارے جو بھی گروپ بنائے جائیں یا اس کے بارے میں جو بھی مذاکرات ہوں وہ اس میں بھی شامل ہو۔ اس بارے میں بھی کنفیوژن ہے کہ ماسکو فارمیٹ کا بیان مشترکہ ہے یا صرف میزبان ملک روس کا ہے۔ افغان طالبان نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب ماسکو فارمیٹ میں انڈیا کے نمائندے مذاکرات کے لیے موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے ایک سینیئر عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ اُنھوں نے افغانستان میں غذائی اشیا کی مدد کے لیے نئی دہلی سے رابطہ کیا ہے۔ |
/urdu/regional-58411454 | پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے سے تین ہفتے پہلے سابق افغان صدر امریکہ سے ہوائی مدد مانگتے رہے اور امریکی صدر انھیں زمین حکمت عملی بنانے کی تاکید کرتے رہے | خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے امریکی صدر جو بائڈن اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان 23 جولائی کو ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے اقتباسات جاری کیے ہیں۔ یہ گفتگو 15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کے داخلے اور صدر غنی کے ملک سے فرار ہونے سے تقریباً تین ہفتے قبل ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ آپ کے پاس بہترین فوج ہے، آپ کے پاس ستّر سے اسّی ہزار کے مقابلے میں اسلح سے لیس تین لاکھ فوجی ہیں، اور واضح طور پر ان میں لڑنے کی صلاحیت بھی ہے، اور اگر ہمیں پلان کے بارے میں علم ہو اور یہ کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو ہم فضائی مدد بھی دیں گے۔ اور یہ سب اگست کے آخر تلک، اور پھر کسی خبر ہے اس کے بعد کیا ہوگا۔ مگر میں واقعی سمجھتا ہوں، مجھے نہیں جانتا کہ آپ کو پتہ ہے یا نہیں، دنیا بھر میں یہ تاثر کتنا زیادہ پایا جاتا ہے کہ اس کا انجام شکست کے سوا کچھ نہیں، جو کہ نہیں ہے، ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، تو آخر میں بس آپ سے یہ ہی کہوں گا کہ آپ دوستم، کرزئی اور دوسرے سب کو متحد کریں، اگر وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ وہ آپ کی بنائی ہوئی حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں، اور اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا چارج آپ ایک سپاہی کو دیدیں، آپ اس فوجی کو جانتے ہیں، (وزیر دفاع بسم اللہ) خان کو اس منصوبے پر عمل درآمد کا اختیار دیدیں، تو اس سے یہ تاثر بدل جائے گا، میرے خیال میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ اور سوئم، دوسری امداد کے بارے میں طریقۂ کار سے متعلق، مثلاً، فوج کی تنخواہ دس برس سے زیادہ عرصے سے نہیں بڑھی ہے۔ ہمیں سب کو ساتھ ملانے کے لیے کچھ کرکے دکھانا ہوگا تو اگر آپ اپنے قومی سلامتی کے مشیر یا پینٹاگون، جسے بھی آپ چاہیں ہمارے ساتھ تفصیلات طے کرنے کے لیے مقرر کر دیں، اور خاص طور سے آپ کی فضائی مدد سے متعلق ہماری توقعات کے لیے بھی۔ طالبان کے ساتھ سمجھوتے ہیں جن کے بارے میں ہم (یا 'آپ' واضح نہیں ہے) پہلے سے با خبر نہیں تھے، اور جن کی وجہ سے آپ کی ایئر فورس ان پر حملے کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتی ہے۔ |
/urdu/pakistan-60729766 | ’جس مہارت سے حسنین شاہ پر فائر کیے گئے وہ پیشہ ور شوٹر کا ہی کام تھا۔ شوٹر نے اس مہارت سے فائر کیے کہ گاڑی کا سائڈ مرر بھی مکمل نہیں ٹوٹا اور ایک بھی فائر اِدھر اُدھر نہیں بلکہ تمام سیدھے سینے پر لگے جو فوری موت کی وجہ بنے۔‘ | حسنین شاہ کی گاڑی جیسے ہی شملہ پہاڑی کے اشارے پہ رکتی ہے تو موٹر سائیکل کی پچھلی نشت پہ بیٹھا شوٹر نیچے اُترتا ہے اور بند شیشے سے ہی پستول کی10گولیاں فائر کرتا ہے جو تمام حسنین سینے پر لگتی ہیں جبکہ دونوں شوٹرز پولیس لائنز سے ہوتے ہوئے برانڈرتھ روڈ کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ دونوں شوٹرز تاحال گرفتار نہیں ہوسکے جبکہ اس قتل کے ماسٹر مائنڈ سمیت دیگر ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان کے مطابق جس مہارت سے حسنین شاہ پر فائر کیے گئے وہ پیشہ ور شوٹر کا ہی کام تھا۔ ’شوٹر نے اس مہارت سے فائر کیے کہ گاڑی کا سائڈ مرر بھی مکمل نہیں ٹوٹا اور ایک بھی فائر اِدھر اُدھر نہیں بلکہ تمام سیدھے سینے پر لگے جو فوری موت کی وجہ بنے۔‘ دوسری طرف حسنین شاہ کی بیوہ مہوش کے مطابق اُن کے شوہر نے کچھ ماہ قبل انھیں اتنا ضرور بتایا تھا کہ وہ شہر کے جیولرز کے پیچھے پڑ ے ہیں کیونکہ وہ اچھا کام نہیں کرتے۔ح سنین شاہ کی بیوہ کی مطابق اس کے مقتول شوہر لوگوں کے تھانے، کچہریوں کے کام حل کرواتے تھے جس کے عوض انھیں کچھ آمدن ہو جاتی تھی اور اسی آمدن سے وہ اپنا گھر اور گاڑی خریدنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم یہ واحد کیس نہیں لاہور شہر ہی میں دسمبر میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے بلال شاہ اور ایف بی آر افسران پر حملوں کی تفتیش میں بھی پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان وارداتوں میں بھی کرائے کے قاتلوں کا استعمال کیا گیا۔ ’اس دوران ایک ’دیہاڑی دار‘ نے سکول انتظامیہ کو کہا کہ وہ ان کا ٹیکس کا معاملہ کم پیسوں کے عوض حل کروا دیتا ہے لیکن جیسے ہی ڈپٹی کمشنر اور سکول مالک کے معاملات سلجھنے لگے تو مڈل مین نے ملزمان کو پیسے دیکر ایف بی آر کے افسر پر گولیاں چلوا دیں اور اسے زخمی کروا دیا۔‘ ’انڈر ورلڈ یا جرم کی دنیا سے جڑے لوگ ڈرا ،دھمکا کر اپنا کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زخمی کرکے یا ڈرا دھمکا کر اگر کام نکل جاتا ہے تو بندہ مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر ان کا کام ڈرا کر ہی ہو جاتا ہے تو وہ زخمی کرنا بھی پسند نہیں کرتے، یہ انڈر ورلڈ کا بزنس ماڈل ہے۔‘ اس کا قصور وار وہ خود پولیس کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کیسز کی تفتیش سے جان چھڑانے اور اپنا کام آسان کرنے کی غرض سے کہہ دیتی ہے کہ فلاں کیس میں تو کرائے کے قاتل ملوث تھے۔‘ ایک سوال کے جواب سینیئر اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ایسے لوگ باقاعدہ رجسٹریاں کرواتے ہیں اس لیے ان کے نام وہ جائیداد باقاعدہ قانونی طریقے سے منتقل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتی۔ |
/urdu/regional-50166527 | بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے اپنے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی لڑکی نصرت جہاں رفیع کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کے الزام میں 16 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔ | بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے نصرت جہاں رفیع نامی لڑکی کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کے الزام میں 16 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔ نصرت جہاں ایک مدرسے میں پڑھتی تھیں اور انھوں نے اپنے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ 27 مارچ (2019) کو مدرسے کے ہیڈ ماسٹر نے انھیں اپنے دفتر میں بلایا اور ’متعدد بار غیر مناسب طریقے سے چھونے کی کوشش کی‘۔ جنسی ہراس کی شکایت کرنے کے پانچ دن بعد ہی نصرت جہاں کو زندہ جلائے جانے کے واقعے اور اس کے رد عمل نے بنگلہ دیش کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہراس کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ نے جیل ہی سے قتل کا حکم دیا تھا۔ ان سمیت تین اساتذہ کو جمعرات کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔ دیگر دو ملزمان روح الامین اور مقصود عالم بھی بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ پارٹی کے مقامی رہنما ہیں۔ بنگلہ دیش میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔ اس سال کے اوائل میں چیریٹی ایکشن ایڈ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی لباس کی صنعت میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین نے یا تو کام پر جنسی تشدد دیکھا ہے یا اس سے گزری ہیں۔ تاہم نصرت جہاں کی طرح اس موضوع پر بات کرنا ابھی تک عام نہیں ہے۔ ان جیسی لڑکی کے لیے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بات کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ افراد کو اکثر اپنی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذاتی حیثیت یا آن لائن پر ہراساں کیا جاتا ہے اور بعض واقعات میں ان کو پر تشدد حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نصرت جہاں کا کیس خاص طور پر غیر معمولی اس لیے تھا کہ وہ پولیس کے پاس گئیں۔ پولیس نے موبائل پر ان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی اور بعد میں میڈیا کو لیک کر دی۔۔ نصرت کی موت کے نتیجے میں ملک میں مظاہرے ہوئے اور ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر ان کی موت اور بنگلہ دیش میں جنسی حملوں کا شکار ہونے والے کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر اپنا غم و غصہ نکالا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں نصرت کے گھر والوں سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ ان کے قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا 'کوئی بھی مجرم قانون سے بچ نہیں پائے گا‘۔ بنگلہ دیش 'مہیلہ پریشد' نامی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق سنہ 2018 میں ریپ کے 940 واقعات ہوئے مگر محققین کا کہنا ہے کہ ان کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ |
/urdu/science-60132166 | بعض معاشروں میں اس فعل کا تعلق لڑکیوں کے کنوارپن سے ہے اور اسے تشدد سمجھا جاتا ہے۔ | ہائمنو پلاسٹی ایک عمل جراحی یا آپریشن ہے جس کے ذریعے خواتین کے ہائمن یا پردۂ بِکارت (کنوارپن کی جھلی) کو پھر سے جوڑا جاتا ہے۔ بعض معاشروں کے اندر ہائمن یا پردہ بکارت کو کنوار پن کی علامت سمجھا جاتا ہے، تاہم اس آپریشن کو نام نہاد ’غیرت‘ سے جوڑا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کنوارپن جانچنے کا رواج کم سے کم 20 ملکوں میں موجود ہے۔ اس کے لیے لڑکیوں کے پردہ بکارت کو باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے کہ وہ سلامت ہے۔ بعض رجعت پسند معاشروں میں پردہ بکارت کو کنوارپن سے جوڑا جاتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ شادی کی پہلی رات سیکس کرنے پر پردہ بکارت پھٹنا اور اس کے نتیجے میں خون بہنا چاہیے جو اس بات کی نشانی ہے کہ لڑکی کنواری ہے۔ اب برطانیہ میں ہیلتھ اینڈ کیئر کے مسودۂ قانون (بل) میں ترامیم متعارف کروائی ہیں جن سے ’ہائمنو پلاسٹی میں مدد دینے اور اسے جاری رکھنے‘ کو جرم قرار دیا جائے گا۔ ان ترامیم کے تحت اس مقصد کے لیے کسی لڑکی یا عورت کو بیرون ملک لے جانا بھی جرم ہو گا۔ اس مسودۂ قانون میں ورجینٹی ٹیسٹنگ یا کنوارپن جانچنے کو بھی ’ناقابل دفاع‘ یا بلاجواز قرار دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ورجینٹی ٹیسٹنگ اور ہائمنو پلاسٹی کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ہے۔ ڈیانا نمّی ’ایرانین اینڈ کردِش وویمنز رائٹس‘ آرگنائزیشن کی سربراہ ہیں اور پابندی کی حق میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہر وہ عورت جو یہ آپریشن کرواتی ہے اسے ایسا حالت مجبوری میں کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ کنواری نظر آئے اور کئی بار تو خاندان والوں کی مرضی سے جبری شادی کروانے کے لیے یہ سب کروایا جاتا ہے۔‘ پابندی کے حق میں ایک اور سرکردہ خاتون صالحہ طاہری کا کہنا ہے کہ ان رواجوں سے چھٹکارا پانے کے لیے تعلیم اور وقت درکار ہے۔ رفاحی تنظیم ’کرما نِروانا‘ سے وابستہ اندرا ورما کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو یہ تسلیم کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے کہ وہ پردۂ بکارت کی تشکیل نو کروانے کے لیے آپریشن کروانا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹر بھار لندن کے ایک پلاسٹک سرجن ہیں اور وہ اس پابندی کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی ورجنینٹی ٹیسٹ نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ اس کے حق میں ہیں، البتہ وہ ہائمنو پلاسٹی کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اس پر اوسطاً تین سے چار ہزار پاؤنڈز خرچ آتا ہے اور تقریباً 45 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ ان کے خیال میں اس عمل پر پابندی سے لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے، اس لیے پابندی کی بجائے اس کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں۔ |
/urdu/pakistan-57026685 | کوئٹہ کے نوجوان طالب علم فیضان جتک سریاب روڈ پر مبینہ طور پر پولیس کے ایگل سکواڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ خاندان کے مطابق وہ بے گناہ تھے جبکہ حکومت بلوچستان نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس کے چار اہلکار زیر حراست ہیں۔ | فیضان بدھ کی شب کوئٹہ شہر میں سریاب روڈ پر مبینہ طور پر پولیس کے ایگل سکواڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ ان کے کزن شہزاد زخمی ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایگل سکواڈ کے جن چار اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا ان کو باقاعدہ گرفتار کر کے ان کی ریمانڈ حاصل کر لی گئی ہے۔ حکومت بلوچستان نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں ایک پولیس آفیسر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ محمود جتک کے مطابق فیضان ایک طالب علم تھے اور ان کی عمر سولہ یا سترہ سال تھی ۔وہ ہیلپر سکول سیٹلائٹ ٹاﺅن میں پڑھتے تھے اور حال ہی میں انھوں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی فیضان جتک انتہائی خوش مزاج تھے اور وہ ہر وقت اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کے چچا زاد بھائی مرتضیٰ گل نے، جو کہ بلوچستان انسٹیٹیوٹ میں فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں، بتایا کہ فیضان نہ صرف ایک خوش اخلاق لڑکا تھا بلکہ ’جب ہم کزنز اور دیگر رشتہ دار اکٹھے بیٹھتے تھے تو فیضان مذاق وغیرہ کر کے محفل کو رونق بخشتے تھے۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ سیر و سیاحت کے بہت شوقین تھے اور ’ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ چھٹیوں کے دن ہم کہیں نہ کہیں پِکنک وغیرہ پر جائیں۔ چھٹیوں کے دن ہم بولان اور دیگر علاقوں میں اکٹھے سیر و سیاحت کے لیے جاتے تھے۔‘ محمود کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی گھر کا ایک نوجوان فرد گھر سے باہر نکلے، وہ بیمار نہ ہو اور اچانک ان کی موت ہو تو اس گھر میں کیا حالت ہوتی ہے وہی حالت ہمارے گھر کی ہوگئی اور پورے گھر اور خاندان میں صف ماتم بچھ گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کسی بے گناہ کو اس طرح نہیں مارنا چاہیے۔ ’یہاں تو جو لوگ دہشتگرد ہیں وہ کارروائی کر کے چلے جاتے ہیں جبکہ بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں۔‘ فیضان جتک کی ہلاکت اور ان کے چچا زاد بھائی کے زخمی ہونے کا واقعہ بدھ کو سریاب روڈ پر سدا بہار ٹرمینل کے قریب پیش آیا تھا۔ ان کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ان پر ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے فائرنگ کی تاہم فائرنگ کے فوراً بعد پولیس کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ’گاڑی نہ روکنے پر ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے فائرنگ کی۔‘ تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سریاب پولیس نے ایگل سکواڈ کے چاروں اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا۔ دوسری جانب حکومت بلوچستان نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ |
/urdu/sport-48699684 | 2015 کے ورلڈ کپ سے لے کر یہ ورلڈ کپ شروع ہونے تک پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 82 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے جن میں سے 35 جیتے، 42 میں اسے شکست ہوئی جبکہ پانچ میچ نامکمل رہے۔ | کرکٹ کے ہر عالمی کپ کے بعد چار سال کا وقفہ ہوتا ہے جو کسی بھی ٹیم کو تیار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انگلینڈ کی ہے جس نے سنہ 2015 کے عالمی کرکٹ کپ کی ہزیمت سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی ٹیم اور انتظامی ڈھانچے میں اتنی مؤثر تبدیلیاں کیں کہ آج چار سال میں انگلینڈ کی ون ڈے کی عالمی نمبر ایک ٹیم بن چکی ہے۔ سنہ 2015 کے عالمی کپ کے بعد اور موجودہ عالمی کپ شروع ہونے تک پاکستانی کرکٹ ٹیم نے مجموعی طور پر 82 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے جن میں سے 35 جیتے، 42 میں اسے شکست ہوئی جبکہ پانچ میچ نامکمل رہے اس طرح پاکستانی ٹیم کی جیت کا تناسب 68.42 فیصد رہا۔ لیکن یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ان چار برسوں میں اپنے سے اوپر کی کسی بھی ٹیم کے خلاف دو طرفہ سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اس نے اپنے سے نچلی رینکنگ کی ٹیموں ویسٹ انڈیز، زمبابوے، آئرلینڈ، سری لنکا اور افغانستان کے خلاف ہی بازی جیتی ہے۔ سنہ 2015 کے عالمی کپ کے فوراً بعد پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف تین میچوں کی سیریز کھیلی جس میں اسے تین صفر کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف چار برسوں کے دوران تین دو طرفہ سیریز کھیلیں اور تمام کی تمام میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چیمپیئنزٹرافی میں پاکستانی ٹیم انگلینڈ کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔ انگلینڈ کے خلاف پاکستانی ٹیم 15 میں سے صرف تین میچ جیتنے میں کامیاب ہو سکی 11 میں اسے شکست ہوئی اور ایک میچ نامکمل رہا۔ آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے دو سیریز کھیلیں اور دونوں میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جن میں سے ایک سیریز میں اسے وائٹ واش کی ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے 10 میچوں میں پاکستان کو صرف ایک میں کامیابی ہوئی اور نو میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی پاکستان نے تین سیریز کھیلیں جن میں سے ایک برابر رہی لیکن دیگر دو کے نتائج نیوزی لینڈ کے حق میں رہے اور ان میں سے ایک سیریز ایسی ہے جس کے تمام میچ نیوزی لینڈ نے جیتے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 11 میں سے آٹھ میچ پاکستانی ٹیم ہاری، صرف ایک جیتی اور دو نامکمل رہے۔ انڈیا کے خلاف پاکستان نے چار میچوں میں سے صرف ایک جیتا جو چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل تھا جبکہ اسی ٹورنامنٹ کے گروپ میچ کے علاوہ ایشیا کپ کے دو میچوں میں انڈیا نے کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی ٹیم نے گذشتہ ورلڈ کپ کے بعد موجودہ ورلڈ کپ تک اپنے سے نچلی رینکنگ کی ٹیموں ویسٹ انڈیز، سری لنکا، زمبابوے، افغانستان، آئرلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف جو 36 میچ کھیلے ان میں سے اس نے 26 جیتے اور آٹھ میں اسے شکست ہوئی۔ |
/urdu/world-50916274 | ابتدائی طور پر موٹورولا ریزر فولڈنگ فون امریکہ میں 26 دسمبر سے دستیاب ہونا تھا اور اس کی قیمت 1500 امریکی ڈالرز کے لگ بھگ تھی، مگر اب یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ | موبائل فون بنانے والی کمپنی موٹورولا نے اپنے نئے ’ریزر‘ موبائل فون کے اجرا میں تاخیر کا اعلان کیا ہے۔ ریزر سنہ 2005 میں متعارف کروائے جانے والے فلپ فون کا جدید ورژن ہے جس کی سکرین فولڈ ہو سکتی ہے۔ ابتدائی پلان کے تحت یہ فولڈنگ فون امریکہ میں 26 دسمبر سے فروخت کے لیے دستیاب ہونا تھا اور اس کی قیمت 1500 امریکی ڈالرز کے لگ بھگ تھی، مگر اب یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ لینوو نامی کمپنی کا کہنا ہے تاخیر کی بڑی وجہ ریزر کی مقبولیت ہے اور مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی نئے موبائل کی طلب اس کی رسد سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ تاہم یہ فولڈنگ فون کے مارکیٹ میں دستیاب ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہی درپیش مشکلات کی ایک واضح مثال ہے۔ اگرچہ 1500 ڈالر کی ابتدائی قیمت تھوڑی زیادہ لگتی ہے تاہم یہ قیمت مارکیٹ میں پہلے سے موجود دو بڑے فولڈنگ فونز سام سنگ فولڈ (قیمت 1980 ڈالرز) اور ہواوے میٹ ایکس (2600 ڈالر) سے پھر بھی کم ہے۔ سام سنگ نے اپنے فولڈنگ فون کی رواں برس اپریل میں ہونے والی لانچنگ کو اس وقت منسوخ کر دیا تھا جب تجزیہ کاروں نے آگاہ کیا کہ ٹرائل کے دوران ان کی ڈیوائس کی سکرین ٹوٹ گئی تھی۔ کیلیفورنیا میں قائم ایک چھوٹی سے کمپنی رائل کارپوریشن نے مارکیٹ کی ان دونوں بڑی کمپنیوں کو اس وقت پریشان کر دیا تھا جب انھوں نے اکتوبر 2018 میں بیجنگ میں منعقد ہوئے ایک پروگرام میں اپنے فولڈنگ فون 'فلیکسپائی' کی تقریب رونمائی کی۔ یہ فون کبھی بھی بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے حوالے سے زیادہ مضبوط ریویوز موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فولڈنگ فونز کے اگرچہ اپنے ہی مسائل ہیں کیونکہ وہ اپنے سے پہلے مارکیٹ میں آنے والے فونز سے کافی حد تک نازک ہیں تاہم ریزر کی مارکیٹ میں طلب اور اس سے قبل آنے والے سام سنگ فولڈ کی ابتدائی سیلز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صارفین ان میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور ہم میں سے ان لوگوں کے لیے جنھیں موٹورولا کے نئے آنے والے فولڈنگ فون کی قیمت کچھ زیادہ لگ رہی ہے ان کے لیے ایک خبر اور بھی ہے۔ رواں ماہ ایسکوبار انک نامی ایک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سمارٹ فونز کی مارکیٹ میں جلد ہی قدم رکھیں گے اور ان کے منصوبے کے مطابق وہ جلد ہی ایک فولڈنگ فون مارکیم میں متعارف کروائیں گے جس کی قیمت فقط 349 ڈالرز ہو گی۔ یہ فولڈنگ فون فی الحال صرف کمپنی کی اپنی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ |
/urdu/regional-53062037 | چین نے کہا ہے کہ وہ وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ میں 20 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار نہیں کیونکہ انڈین فوجیوں نے سرحدی پروٹوکول کی خلاف وزری کی تھی۔ | چین نے کہا ہے کہ اسے وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور انڈین فوجیوں نے سرحدی پروٹوکول کی خلاف وزری کی تھی۔ 15 جون کی شب لداخ میں ہونے والی اس جھڑپ میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ چین کی جانب سے تاحال جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا ہے کہ ’وادی گلوان پر خودمختاری ہمیشہ سے چین کی ہی رہی ہے۔ انڈین فوجیوں نے سرحدی معاملات پر ہمارے پروٹوکول اور کمانڈرز کی سطح کے مذاکرات پر طے شدہ اتفاقِ رائے کی سنگین خلاف ورزیاں کیں‘۔ انڈین حکومت کی جانب سے جھڑپ پر پہلا سرکاری بیان بدھ کو وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے دیا۔ انھوں نے کہا کہ 20 انڈین فوجیوں کی ہلاکت پریشان کن اور تکلیف دہ نقصان ہے اور ’قوم سرحد پر مارے جانے والے فوجیوں کی بہادری اور قربانی کبھی فراموش نہیں کرے گی‘۔ اس سے قبل چینی فوج کے ایک ترجمان نے انڈیا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو قابو میں رکھے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ترجمان چینگ شویلی کا بیان پی ایل اے کے مصدقہ ویبو اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے۔ منگل کی صبح بتایا گیا تھا کہ پیر کی شب چینی فوج کے ساتھ وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ میں انڈین فوج کے ایک افسر سمیت تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں تاہم منگل کی شب انڈین فوج نے کہا کہ جھڑپ میں شدید زخمی ہونے والے فوجیوں میں سے مزید 17 فوجی ہلاک ہوگئے ہیں اور ہلاک شدگان کی کل تعداد 20 ہو گئی ہے۔ وادی گلوان لداخ میں انڈیا اور چین کی سرحدی لائن کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور اس تناؤ کو سنہ 1999 میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا ہے۔ مئی میں بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا تھا کہ 'مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیا کے ذریعے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے۔' اس سے قبل انڈیا نے کہا تھا کہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ بہر حال انڈیا اور چین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اور جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیا ہے تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔ |
/urdu/science-49499372 | برطانوی ماہر ڈاکٹر جین مونکٹون سمتھ کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ متاثرین اپنے شریک حیات کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر مقدمات میں قاتل ایک مرد ہی ہوتا ہے۔ | برطانوی ماہر ڈاکٹر جین مونکٹون سمتھ کا کہنا ہے کہ اپنی شریک حیات کو جان سے مار دینے والے مرد ’ہوموسائیڈ ٹائم لائن‘ کو فالو کرتے ہیں اور پولیس اس کا سراغ لگا کر اس طرح سے ہونے والی اموات کی روک تھام ممکن بنا سکتی ہے۔ ڈاکٹر سمتھ نے برطانیہ میں ہونے والے 372 قتل کے واقعات کے طریقہ کار میں ’آٹھ مراحل‘ کی نشاندہی کی ہے۔ یونیورسٹی آف گلوسٹر شائر کی لیکچرار کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھی پر کنٹرول حاصل کرنے کا رویہ کسی شخص کے بارے میں اس بات کا اہم اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر مونکٹون سمتھ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ متاثرین اپنے شریک حیات کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر مقدمات میں قاتل ایک مرد ہی ہوتا ہے۔ اپنی رپورٹ کے لیے ڈاکٹر سمتھ نے ایسے تمام مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا، جن میں خواتین کا اپنے قاتل سے کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسے بہت سارے دیگر مقدمات بھی ہیں جن میں مرد اپنے مرد پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ڈاکٹر مونکٹون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا ’ہم قتل کے معاملے میں ہمیشہ سے ’جذبات اور اچانک کسی کیفیت کے طاری ہوجانے‘ جیسی وضاحتوں پر بھروسہ کرتے رہے ہیں۔ یہ سچ پر مبنی نہیں ہے۔‘ اس مطالعے پر ردعمل دیتے ہوئے قتل ہونے والی ایک 24 سالہ خاتون ایلس رگلز کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر پولیس کو ڈاکٹر مونکوٹن سمتھ کے آٹھ مراحل کے ماڈل کے بارے میں معلوم ہوتا تو صورتحال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹر مونکوٹن سمتھ نے اپنے ماڈل کو وکلا، ماہرینِ نفسیات، برطانیہ بھر میں پولیس فورس اور ٹریننگ پر آئے افسران کو بھی پڑھایا ہے۔ ڈاکٹر سمتھ کی رپورٹ خواتین کے خلاف تشدد کے میگزین میں بھی شائع ہوئی ہے اور وہ امید رکھتی ہیں کہ ان کی اس رپورٹ کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے گا۔ ’وہ جیسے ہی اس تحقیق کو دیکھیں گے تو متاثرین اور ماہرین یہ کہنے کے قابل ہوں گے ’او خدایا تیسرے مرحلے کا ایک کیس میرے سامنے آیا ہے‘ یا یہ کہ ’میرا رشتہ اب پانچویں مرحلے پر ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس مطالعے سے متعلق پولیس کا ردعمل ناقابل یقین حد تک اچھا رہا ہے اور وہ جن کیسز پر کام کر رہے ہیں ان میں ان مراحل کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ یہ رپورٹ ان کے تجربات سے عین مطابقت رکھتی ہے اور اس انتشار سے نکلنے کا حکم دیتی ہے جو گھریلو زیادتی، زبردستی کنٹرول اور تعاقب سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر سمتھ کہتی ہیں کہ ان طریقوں کے بارے میں مزید تحقیق ہونی چاہیے جن کے ذریعے متاثرین ایسے رشتوں کو محفوظ طریقے سے ختم کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ کیسے بعض لوگ رشتوں میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ |
/urdu/regional-57794991 | جہاں افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب سے حالیہ واقعات پر ردعمل سامنے آیا ہے وہیں انڈیا، ایران اور ترکی جیسے خطے کے بڑے ممالک کے حوالے سے بہت سے ایسے اشارے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ | طالبان کی جانب سے افغانستان کے متعدد علاقوں پر قبضے کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے اور دنیا کے کئی ممالک امریکہ کی وہاں سے واپسی کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔ جہاں افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب سے حالیہ واقعات پر ردعمل سامنے آیا ہے وہیں انڈیا، ایران اور ترکی جیسے خطے کے بڑے ممالک کے حوالے سے بہت سے ایسے اشارے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ پروفیسر مقتدر خان کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان، ایران، چین اور انڈیا، سب ممالک میں اضطراب بڑھ جائے گا۔ ’طالبان چین کی سرحد تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خطرہ پیدا کرسکتے ہیں، پاکستان کو طالبانائز کرسکتے ہیں ، ایران بھی اس خطرے سے دور نہیں ہے۔ آنے والے چند مہینوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان ممالک کے مابین تعلقات کو نئی شکل دی جا رہی ہے۔' انس کا کہنا ہے کہ ’ایس جے شنکر کے تہران پہنچنے سے پہلے ایک طالبان کا وفد وہاں موجود تھا۔ جب وہ روس پہنچے تو وہاں بھی طالبان موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اس وقت ایران اور روس دونوں کے ساتھ افغانستان پر کام کر رہا ہے۔' کشمیر کے بارے میں ترکی کے بیانات کے بعد انڈیا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں خلیج بڑھ گئی ہے اور ترکی بھی انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے قریب ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان کی وجہ سے انڈیا اور ترکی کو قریب آنا پڑ سکتا ہے۔ پروفیسر مقتدر خان کہتے ہیں 'ترکی اور انڈیا کے تعلقات ویسے نہیں ہیں جو ترکی کے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ لیکن اگر افغانستان کی خانہ جنگی میں پاکستان طالبان کے ساتھ ہوتا ہے تو شاید ترکی اور انڈیا قریب آ سکتے ہیں کیونکہ ترک حکومت افغان حکومت کی حمایت کرتی ہے۔' پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ اگر ترکی ، ایران ، روس اور انڈیا افغانستان کے حوالے سے مشترکہ پالیسی بناتے ہیں تو یہ زیادہ موثر ہوگی۔ چین اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ چین پاکستان پر اپنے اثرورسوخ کو طالبان پر اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا بھی چاہے گا۔ عمیر انس کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ ترکی کی خواہش ہو کہ پاکستان چین پر اپنا انحصار کم کرے اور مغربی ممالک کی طرف جائے۔ |
/urdu/sport-60664289 | آسٹریلوی ٹیم کے 24 سال کے بعد پاکستان کے دورے پر کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ میچ برابر ہوگیا ہے۔ راولپنڈی ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 1187 رنز بنے اور صرف 14 وکٹیں گریں۔ | آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کو 24 سال کے طویل انتظار کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت دی گئی اور دینی بھی چاہیے تھی کیونکہ دنیا کی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر کھیلتا دیکھنے کے لیے شائقین کی بے صبری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس جوش وخروش کا اندازہ پنڈی ٹیسٹ کے پانچوں دن سٹیڈیم میں بڑی تعداد میں شائقین کی موجودگی اور ان کے ہاتھوں میں موجود مختلف خیرمقدمی اور دلچسپ پلے کارڈز دیکھ کر بخوبی ہوگیا۔ ٹیسٹ کرکٹ دیگر دو فارمیٹس سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں شائقین کی دلچسپی اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک میدان میں دلچسپ کرکٹ ہوتی رہے اور آخر میں نتیجہ بھی برآمد ہو جائے لیکن راولپنڈی ٹیسٹ کے لیے جو پچ تیار کی گئی اس پر میچ کا اختتام یہی ہوسکتا تھا یعنی رنز کی بھرمار کے بعد ڈرا۔ پاکستان کے دورے پر آنے والی آسٹریلوی ٹیم میں پیٹ کمنز، مچل سٹارک اور جوش ہیزل ووڈ کی شکل میں ایک بہترین پیس اٹیک موجود ہے جبکہ نیتھن لائن جیسا ورلڈ کلاس سپنر آسٹریلوی اسلحہ خانے کو مزید خطرناک بنائے ہوئے ہے۔ واضح رہے کہ راولپنڈی ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 1187 رنز بنے اور صرف 14 وکٹیں گریں۔ نعمان علی کی 107 رنز کے عوض 6 وکٹیں ان کے مختصر ٹیسٹ کریئر کی بہترین کارکردگی ہے۔ اس سے قبل ان کی سب سے بہترین بولنگ گزشتہ سال کراچی میں جنوبی افریقہ کے خلاف ان کے اولین ٹیسٹ میں تھی جس میں انہوں نے 35 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے زمبابوے کے خلاف ہرارے ٹیسٹ میں بھی 86 رنز دے کر 5 کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔ پاکستان نے پہلی اننگز کی سترہ رنز کی معمولی برتری کے ساتھ اپنی دوسری اننگز شروع کی تو امام الحق اور عبداللہ شفیق ایک بار پھر ٹیم کو 252 رنز کی مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح وہ ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے والے دسویں پاکستانی بیٹسمین بن گئے۔ ان دس میں سے چار بیٹسمینوں یونس خان، مصباح الحق، اظہرعلی اور امام الحق نے یہ اعزاز آسٹریلیا کے خلاف حاصل کیا ہے۔ یہ آخری تین ٹیسٹ میچوں کی چھ اننگز میں پاکستانی اوپنرز کی چوتھی سنچری پارٹنرشپ ہے اور ان چاروں میں عبداللہ شفیق شریک رہے ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف اپنے اولین ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں عابد علی کے ساتھ 146 اور 151 کی شراکت قائم کی تھی اور اب پنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 105 اور دوسری اننگز میں 252 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی ہے جو آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت بھی ہے۔ |
/urdu/pakistan-55522583 | ہمارے لیے یہ کان کن انسان نہیں سائے ہیں۔ کسی سائے کی موت پر آخر کتنی دیر افسردہ رہا جا سکتا ہے۔ ٹی وی پر چلنے والی خبری پٹی ختم تو خود احستابی کا دکھ بھی ختم۔ پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات | چونکہ یہ کان کن دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں لہذا جیسا کہ رواج ہے اب ان کے پس منظر کے پارچے بن رہے ہیں۔ کسی کو اس میں دلچسپی ہے کہ مرنے والے شیعہ ہزارہ ہیں، کسی کو اس واردات میں اندرونی کینسر سے زیادہ غیر ملکی ہاتھ دیکھنے سے مطلب ہے۔ کسی نے اس واردات کی بریکنگ نیوز سنتے ہی اسے مذہبی دہشت گردی پر منڈھ دیا اور کسی نے خبر کی تفصیل میں جائے بغیر اس واردات کا رشتہ مسلح بلوچ شورش سے جوڑ دیا۔ ان پارچہ سازوں میں سے اوپر سے نیچے تک شائد ہی کوئی ہو جس نے کبھی کان کن کو ہزاروں فٹ زیرِ زمین کام کرتے دیکھا ہو، ان کا نیم انسانی رہن سہن ملاحظہ کیا ہو، ان کو جان کی حفاظت کے لیے حفاظتی آلات نہ ملنے کے لالچی اسباب پر دھیان دیا ہو، ان کے معاوضوں اور ان معاوضوں میں بات بات پر کٹوتی کی جانب رمق برابر توجہ دی ہو۔ ان کی غریب الوطنی و سماجی یتیمی پر زندگی کے کسی بھی ایک لمحے میں سوچا ہو۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والے کان کن پاکستانی نہیں افغان شیعہ ہزارہ ہیں۔ چنانچہ ان کے لواحقین کو معاوضہ ملنے کی امید کم ہی ہے۔ داد رسی اور اشک شوئی کی امید تب ہونی چاہیے جب مرنے والے کو پہلے انسان اور پھر کچھ اور سمجھا جائے مگر ہمارے قانون اور اس قانون کو موم کی ناک بنانے والی ریاکارانہ اخلاقیات میں شہریت کی تشریح تو ہے انسان کی کوئی تشریح نہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ واقف ہیں کہ کان کنی ویسے تو دنیا بھر میں خطرناک پیشوں میں شمار ہوتی ہے مگر پاکستان میں کان کنی کا مطلب لگ بھگ سزائے موت ہے۔ پاکستانی کانوں میں زیادہ تر مالاکنڈ ڈویژن کے پختون اور افغان مہاجرین کام کرتے ہیں۔ یہ جواں سال محنت کش جب گھر سے سینکڑوں میل دور جانے کے لیے اپنے اہلِ خانہ کو الوداع کہتے ہیں تو ان کے بارے میں تصور کر لیا جاتا ہے کہ اب پیسے آتے رہیں گے مگر پیسے بھیجنے والا شاید تابوت میں ہی گھر لوٹے۔ اگر ان دس کان کنوں کی موت ان جیسے دیگر ہزاروں کی زندگی کو زرا سا بھی باوقار، انسانی و قانونی بنا سکے تو یہ قربانی بہت زیادہ نہیں۔ لیکن آنے والے دنوں کا بھی سچ یہی ہے کہ شہروں اور قصبوں سے دور پہاڑوں میں سینکڑوں ہزاروں فٹ نیچے کام کرنے والی اس مخلوق کا مرنا کیا اور جینا کیا۔ ہمارے لیے یہ کان کن انسان نہیں سائے ہیں۔ کسی سائے کی موت پر آخر کتنی دیر افسردہ رہا جا سکتا ہے۔ ٹی وی پر چلنے والی خبری پٹی ختم تو خود احستابی کا دکھ بھی ختم۔ |
/urdu/science-60071986 | کورونا وائرس کی اومیکرون قسم بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہے اور اس نے دنیا بھر میں حکومتوں کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عمل تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ | کورونا وائرس کی اومیکرون قسم بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہے اور اس نے دنیا بھر میں حکومتوں کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عمل تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اومیکرون وائرس دوسرے وائرس کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے جس میں ویکسین سے بچانے اور دوسرے لوگوں تک پھیلنے کی زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اومیکرون وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد نسبتاً کم رہی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں آئسولیشن یا تنہا رہنے کی پابندی کو کم کر کے پانچ دن کر دیا گیا تاکہ سکول یا کام پر نہ جانے والوں کی مشکلات کم کی جا سکیں۔ لیکن عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اومیکرون سے لاپرواہ نہ ہوں۔ ڈبلیو ایچ او نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ قسم اب بھی ’مہلک‘ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنھیں ویکسین نہیں ملی ہے۔ اگرچہ اومیکرون پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے لیکن جتنی تحقیق ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تازہ ترین قسم کی شدت نہ صرف پچھلی قسموں کی شدت سے کم ہوسکتی ہے، بلکہ اس کی انکیوبیشن مدت بھی کم ہوسکتی ہے۔ سپین میں لا ریوجا کی بین الاقوامی یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ویسینٹے سوریانو نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کسی کو اومیکرون لگ جاتا ہے تو ایک دن کے اندر وائرس کی تعداد بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اومیکرون کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وائرس کی علامات ظاہر ہونے سے ایک سے دو دن پہلے اور دو سے تین دن بعد تک یہ وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر سوریانو کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس صرف پانچ دنوں کے لیے متعدی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت یا وائرس کی منتقلی کا خطرہ، ٹیسٹ کے مثبت آنے کے بعد تین سے پانچ دن تک رہتا ہے۔‘ • اگر آپ کو کووڈ 19 ہے اور آپ میں علامات پائی جاتی ہیں، تو کم از کم پانچ دن کے لیے الگ رہیں۔ آپ کی پانچ دن کی تنہائی کی مدت کا حساب لگانے کے لیے، آپ علامات ظاہر ہونے کے دن سے اگلے دن گنتی شروع کریں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کووڈ سے متاثرہ لوگ، جن میں علامات نہیں ہیں، پھر بھی دوسروں کو کورونا وائرس منتقل کر سکتے ہیں۔ حکام فیس ماسک کے استعمال کی سفارش کرتے ہیں، خاص طور پر گھر کے اندر، لوگوں کے نادانستہ طور پر وائرس پھیلانے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے۔ |
/urdu/world-52734358 | امریکی دواساز کمپنی کو ایسے ہزاروں مقدمات کا سامنا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کا ٹیلکم پاؤڈر ایسبیسٹوس نامی مادے سے آلودہ ہے جسے کینسر کا سبب خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم کمپنی اس کی تردید کرتی ہے۔ | دوا ساز کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ آنے والے وقتوں میں امریکہ اور کینیڈا میں اپنا ٹیلکم پاؤڈر نہیں بیچے گی۔ کمپنی کے خلاف ہزاروں صارفین نے مقدمات درج کروائے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ’جانسز بے بی پاؤڈر‘ کے نام سے فروخت ہونے والے اس ٹیلکم پاؤڈر کی وجہ سے انھیں کینسر ہوا ہے۔ کئی برسوں تک جانسن اینڈ جانسن کے خلاف مقدمات کی کارروائیاں چلتی رہی ہیں جن میں کمپنی کو تصفیے کے طور پر اربوں ڈالر ادا کرنا پڑے ہیں۔ تاہم کمپنی نے متعدد بار اپنی مصنوعات کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محفوظ ہیں۔ جانسن اینڈ جانسن نے کہا ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں ان مصنوعات کی فروخت کو کم کریں گے۔ امریکہ میں ان کی اس مصنوعات کے 0.5 فیصد صارفین ہیں۔ تاہم دکاندار پہلے سے موجود ان مصنوعات کی فروخت جاری رکھ سکیں گے۔ اس امریکی کمپنی کو ایسے 16 ہزار سے زیادہ مقدمات کا سامنا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کی ٹیلکم کی مصنوعات ایسبیسٹوس نامی مادے سے آلودہ ہیں۔ اس مادے کو کینسر کا سبب خیال کیا جاتا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ جنوبی امریکہ میں جانسنز بے بی پاؤڈر کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے ’کیونکہ صارفین کے رویوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور یہ غلط معلومات پر مبنی ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کی منصوعات محفوظ نہیں۔‘ اس کا کہنا ہے کہ اسے ایسے کئی وکلا کا سامنا ہے جو اشتہار بازی کے ذریعے صارفین سے کمپنی کے خلاف مقدمات درج کرواتے ہیں۔ ’ہمیں اپنے جانسنز بے بی پاؤڈر سمیت ٹیلکم کی مصنوعات کے محفوظ ہونے پر مکمل اعتماد ہے۔ دنیا بھر میں طبی ماہرین کی دہائیوں تک چلنے والی آزادانہ سائنسی تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ ہماری مصنوعات استعمال کے لیے محفوظ ہیں۔‘ کمپنی کا کہنا تھا کہ مصنوعات کے حوالے سے یہ فیصلہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اکتوبر میں تحقیق سے ثابت ہوا تھا کہ بے بی پاؤڈر میں ایسبیسٹوس موجود نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکی ادارے ایف ڈی اے کی تحقیق میں پاؤڈر میں ایسبیسٹوس کے ذرات دریافت ہوئے تھے۔ |
/urdu/world-52393088 | دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث بڑھتی اموات کے دوران عالمی ادارہ خوارک نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کو ’بھوک کی عالمی وبا‘ کا ممکنہ سامنا ہے کیونکہ رواں برس خوراک کی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔ | دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث بڑھتی اموات کے دوران عالمی ادارہ خوارک نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کو ’بھوک کی عالمی وبا‘ کا ممکنہ سامنا ہے کیونکہ رواں برس خوراک کی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ خوارک کے مطابق سنہ 2019 کے اختتام پر دنیا بھر میں ساڑھے 13 کروڑ افراد کو ’شدید بھوک‘ کا سامنا تھا اور اب چونکہ دنیا کے بیشتر ممالک کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے تو یہ تعداد رواں برس بڑھ کر ساڑھے 26 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے کہا ہے کہ ’کورونا وائرس کے مسئلے کے سر اٹھانے سے بھی قبل میں متعدد وجوہات کی بنیاد پر کہہ رہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 2020 ایسا سال ہو گا جس میں بدترین انسانیت سوز بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘ عالمی ادارہ خوارک کے چیف اکانومسٹ عارف حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسے جیسے تنازع طویل ہو رہا ہے زیادہ سے زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ سنہ 2016 میں ہم یمن میں 30 سے 40 لاکھ افراد کو امداد فراہم کر رہے تھے۔ اب یہ تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔‘ رواں ماہ کے آغاز پر یمن میں کورونا وائرس کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آیا تھا۔ امداد فراہم کرنے والے اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ جلد ہی یہ وبا یمن کے کمزور صحت کے نظام پر حاوی ہو جائے گی۔ کانگو کے 15 فیصد عوام کو ’کھانے کے حوالے سے شدید ترین عدم تحفظ کا شکار‘ افراد کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کا شمار دنیا بھر کے ان تین کروڑ افراد میں ہوتا ہے جو براہ راست جنگی زون میں بستے ہیں اور ان کا مکمل دارومدار امداد پر ہوتا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے متنبہ کیا تھا کہ کانگو میں جاری تصادم کورونا وائرس کی روک تھام کی کوششوں کو متاثر کر رہا ہے۔ کورونا کی وبا اب تک کانگو کے دارالحکومت کو متاثر کر چکا ہے۔ عالمی ادارہ خوارک نے متنبہ کیا ہے کہ جنوبی سوڈان میں بھوک اور غذائیت کی کمی سنہ 2011 سے اپنی انتہائی سطح پر ہے اور ملک کی لگ بھگ 60 فیصد آبادی ہر روز کھانا ڈھونڈنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے 18 سال بعد اب یہاں کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے رہ رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ وبا سے شدید متاثر ملک ایران سے ڈیڑھ لاکھ افراد افغانی شہریوں کے حال ہی میں ملک واپس آنے کے بعد یہاں متاثرین کی تعداد بتائی گئی تعداد سے کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ |
/urdu/entertainment-59432943 | یہ پہلی فلم ہوگی جس میں سلمان خان کے کردار کی زندگی میں کوئی رومانوی پہلو نہیں ہے جبکہ فلم میں ایک ہیروئن کو شامل کر لیا گیا تھا لیکن بعد میں فیصلہ بدل لیا گیا۔ | انڈین فلم سٹار سلمان خان کی فلم 'انتم، دی فائنل تروتھ‘ جمعے کو ریلیز ہوئی ہے جو کہ ان کی دو برس کے بعد پہلی فلم ہوگی جسے سینیما میں ریلیز کیا جائے گا۔ کورونا کی وجہ سے دو برس کے دوران سلمان خان کی صرف ایک فلم 'رادھے‘ ریلیز ہوئی تھی لیکن یہ بھی سینیماؤں کی زینت نہیں بن پائی اور اسے آن لائن ریلیز کیا گیا تھا۔ ’انتم‘ میں سلمان خان ایک سکھ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عموماً فلموں میں مختلف مذاہب یا برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جب نمائندگی کی جاتی ہے تو کئی بار اس سے مختلف تنازعات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب سلمان خان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ 'ہر فلم میں کوئی بھی کردار کرنے سے پہلے احتیاطی تدابیر لی جاتی ہیں۔ اب ہم کسی کی ثقافت یا روایات سینیما میں دکھا رہے ہوتے ہیں تو اس میں خاص خیال رکھا جاتا ہے‘۔ رپوٹروں سے بات کرتے ہوئے سلمان خان نے کہا کہ انتم فلم میں ان کے سکھ کردار کو بہت اچھے طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجرنگی بھائی جان میں بھی انھوں نے کچھ غلط نہیں دکھایا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی کردار کو ادا کرتے وقت ان کی ثقافت دکھانا بہت ضروری ہے۔ سلمان خان کی ہر فلم میں ہیروئن کا کردار ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہ ان کی پہلی فلم ہے جس میں وہ ہیروئن کے ساتھ رومانس کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا 'جب یہ فلم بنائی جارہی تھی تو اس میں ہیروئن کا کردار تھا اور ایک رومانوی پہلو کو شامل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا تھا جس کے لیے ہیروئن بھی طے کر لی گئی تھی اور گانا بھی شوٹ کر لیا گیا تھا۔ لیکن جب میں نے فلم کے کچھ حصے دیکھے تو مجھے لگا کہ اس کردار کو اکیلا ہی ہونا چاہیے ورنہ کردار کمزور نظر آتا۔‘ سلمان خان نے یہ فلم خود پروڈیوس کی ہے اور یہ مراٹھی میں بنائی گئی 'ملشی پیٹرن‘ نامی فلم کا ری میک ہے۔ یعنی کہ اسے ہندی زبان میں دوسرے اداکاروں کے ساتھ دوبارہ بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں فلموں کی پائریسی ابھی بھی جاری ہے اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس سے فلم انڈسٹری مسلسل نمٹ رہی ہے۔ سلمان خان نے بتایا کہ ان کی فلم رادھے سب سے زیادہ اس کا شکار بنی۔ یہ فلم ڈیجیٹل فارمیٹ میں ریلیز کی گئی اور اسے لوگ ڈھائی سو روپے میں دیکھ سکتے تھے لیکن پھر بھی بہت زیادہ پائریسی ہوئی۔ |
/urdu/pakistan-60282003 | اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں واقع گیسٹ ہاؤس کا امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے پاکستانی ایس ایس جی کمانڈوز کی مدد سے گھیراؤ کر لیا تھا۔۔۔ امریکہ کو انتہائی مطلوب شخص کی پاکستان سے گرفتاری کی کہانی۔ | ’کیا یہی وہ شخص ہے جو آپ کو مطلوب ہے؟‘ پاکستانی فوجی کمانڈو نے ایک نوجوان کو اپنے شکنجے میں کس کر اُس کا چہرہ امریکی ایف بی آئی ایجنٹ کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا۔ سات فروری 1995 کی صبح لگ بھگ دس بجے امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے پاکستانی ایس ایس جی کمانڈوز کی مدد سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ٹو میں واقع ’سوکاسا گیسٹ ہاؤس‘ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ برطانوی صحافی و مصنف سیمن رئیو کی رمزی یوسف پر لکھی گئی کتاب کے مطابق پانچ امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں نے سات پاکستانی کمانڈوز کے ہمراہ گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں گھس کر رمزی یوسف کو قابو کر کے ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا تھا۔ ’کیا یہی وہ شخص ہے جو آپ کو مطلوب ہے؟‘ پاکستانی فوجی کمانڈو کے اس سوال پر امریکہ سے خصوصی طور پر آئے ایف بی آئی ٹیم کے اہلکار جیف رینئر نے جیب سے ایک تصویر نکال کر اس سے رمزی یوسف کے چہرے کا بغور موازنہ کر کے جلد ہی تصدیق کی کہ گرفتار ہونے والا شخص ہی امریکہ کو انتہائی مطلوب اسلامی شدت پسند رمزی یوسف ہے۔ شناخت پتہ چلنے کے بعد امریکہ نے پاکستانی حکومت سے رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد کے لیے رابطہ کیا اور اس وقت پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، کے ایک ڈائریکٹر رحمان ملک کو رمزی یوسف کی گرفتاری کا مشن سونپا کیا گیا تھا۔ (رحمان ملک پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔) بعدازاں ہونے والے تحقیقات کے دوران ایف آئی اے نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رمزی یوسف کے ایک ٹھکانے کا پتہ لگایا تھا، مگر امریکی اور پاکستانی سکیورٹی اداروں کی مشترکہ کارروائی سے محض چند گھنٹے قبل رمزی یوسف وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور ان کی گرفتاری کا آپریشن ناکام ہوا۔ رمزی یوسف کی گرفتاری کے متعلق معلومات اُن کی گرفتاری سے محض چار روز قبل اُن کے قریبی ساتھی اشتیاق پارکر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کو فراہم کی تھیں، اور انتہائی مطلوب شدت پسند کی گرفتاری میں مدد دینے پر اشتیاق پارکر کو امریکی حکومت کی طرف سے رمزی یوسف کی گرفتاری پر رکھا گیا 20 لاکھ امریکی ڈالرز کے انعام سے نوازا گیا۔ گرفتاری کے بعد رمزی یوسف کی امریکہ منتقلی پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا کہ جس میں امریکی انٹیلیجنس اداروں نے اپنے ایک ایسے مجرم کو پاکستانی سرزمین سے گرفتار کر کے بغیر عدالتی کارروائی امریکہ منتقل کیا تھا جو کہ ایک لحاظ سے پاکستانی شہری بھی تھا اور جن کا پاکستان کے بااثر سیاسی مذہبی حلقوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی تھا۔ |
/urdu/pakistan-48999426 | فاٹا کا انضمام تو ہو چکا لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ قبائلی عوام خود اس حکومت کا حصہ ہوں جہاں صوبے سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں۔ | پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور مقامی افراد نے اس عمل سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ سات قبائلی اضلاع اور ایک ایف آر ریجن سے کل 16 جنرل نشستوں پر انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت میں سینکڑوں امیدوار مدِمقابل ہیں۔ اس سے پہلے قبائلی عوام صرف قومی اسمبلی کے انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ ان کے منتخب نمائندوں کو علاقے کے مخصوص حالات کے باعث زیادہ اختیارات بھی حاصل نہیں ہوتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات ماضی میں ہونے والے انتخابات سے کس حد تک مختلف ہونگے اور اس سے عوام نے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے ضلع خیبر کے رہائشیوں سے سے گفتگو کی۔ ان کے مطابق پاکستان بننے سے لے کر 80 کے عشرے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس دوران صرف ان لوگوں کو علاقے کی نمائندگی دی جاتی تھی جو بااثر یا مالی طور پر مستحکم ہوتے تھے کیونکہ اس زمانے میں صرف قبائلی ملک یا سرداروں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا جبکہ عام عوام حق رائے دہی سے محروم تھے۔ محمد رؤف آفریدی کے خیال میں 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ یہ الیکشن ایسے وقت ہورہا ہے جب فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے اور اصلاحاتی عمل تیزی سے جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلے بھی اسمبلیوں میں ہمارے نمائندے تھے لیکن ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ انھیں قانون سازی کے لیے صدر کے آرڈنینس کا محتاج ہونا پڑتا تھا۔ لیکن صوبائی اسمبلی کا حصہ بننے کے بعد ان کے نمائندوں کے پاس پہلی مرتبہ قانون سازی کا اختیار مل جائے گا۔ امید ہے کہ اس سے وہ اپنے علاقے کے لیے موثر انداز میں آواز اٹھاسکیں گے۔‘ 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی مختلف ہیں کیونکہ یہ الیکشن ایسے وقت ہورہا ہے جب فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے اور اصلاحاتی عمل تیزی سے جاری ہے قبائلی علاقے برسوں سے پسماندگی کا شکار رہے ہیں اور یہاں بنیادی ضرویات کابھی شدید فقدان پایا جاتا ہے لیکن حالیہ الیکشن میں پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار علاقے کے مسائل پر بات کررہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ رؤف خان کے مطابق ’اب وقت آگیا ہے کہ قبائلی عوام کو بھی زندگی کی وہ سہولیات گھروں کے دہلیز پر ملیں جس کے لیے وہ دہائیوں سے بڑے بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔‘ فاٹا کا انضمام تو ہوچکا ہے لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچانے کےلیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور یہ صرف اسی صورت میں بہتر انداز میں ممکن ہے جب قبائلی عوام خود اس حکومت کا حصہ ہوں جہاں صوبے سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-55482124 | کچن چلانا جہاں پاکستان کی بیشر خواتین کے لیے قابلِ فخر بات ہے، وہیں کچھ افراد عورتوں کی قابلیت کو بس کچن چلانے تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔ اور ایسے تبصرے کہ اگر کسی عورت نے گھر کا کچن نہیں چلایا اور اس بنیاد پر وہ ملک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتیں، کیا یہی مردوں پر بھی لاگو نہیں ہونے چاہیں؟ | ’کیا کچن میں کام کرنے والی شرط صرف خواتین سیاستدانوں کے لیے ہے؟‘ وزیرِ اعظم عمران خان کو کون سی دیگیں پکانے کا تجربہ حاصل ہے؟ یہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کے بارے میں حال ہی میں دیے گئے ایک بیان کے بعد شروع ہونے والی بحث سے لیے گئے دو تبصرے ہیں۔ فواد چوہدری کے اس بیان پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے اور اسے معاشرے میں عورتوں کے خلاف متعصبانہ رویے کی مثال کہا گیا جس کے تحت عورت کی قابلیت و اہلیت صرف گول روٹی اور کچن چلانے کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کے اس بیان پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے، کئی افراد کا کہنا ہے کہ گھر کا کچن چلانا اپنے آپ میں ایک انتہائی تخلیقی اور محنت طلب کام ہے لیکن اس پر ایسے متعصابہ طعنے دینا انتہائی نامناسب بات ہے۔ صحافی ماریانا بابر نے بھی ایسا ہی سوال کیا کہ ’کیا کچن میں کام کرنے والی شرط صرف خواتین سیاستدانوں کے لیے ہے؟‘ انھوں نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا ’آپ کا دوست عجیب و غریب معیار طے کر نے کے ساتھ ساتھ خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘ ایک صارف نے لکھا ’فواد چودھری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنی زندگی میں کبھی کچن کا انتظام نہیں سنبھالا لیکن وہ ملک چلانا چاہتی ہیں۔ انھوں نے باورچی خانے کا ذکر کیوں کیا؟ کیا وزیر کے خیال میں یہ ایک صنفی کردار ہے؟ کیا فواد چودھری کو کچن کا انتظام سنبھالنے کا تجربہ ہے؟ اگر نہیں، تو انھیں فوراً استعفی دے دینا چاہیے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو بھی کسی کچن چلانے والی نے ہی پالا ہے اور ان کی برکات سے آج وہ اس مقام تک آئے ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ پہلے جب میں نے انگلش میں ہیڈ لائن پڑھی تو وہ مجھے کافی متعصبانہ لگی لیکن جب میں نے ان کا پورا کلپ سنا جس میں مہنگائی کی بات ہو رہی تھی اور اس پر فواد کا کہنا تھا کہ ’مریم نے کبھی اپنا کچن نہیں چلایا کیونکہ وہ اپنے والد کے گھر میں رہ رہیں تھیں‘ اور اس کے تناظر میں میرا خیال ہے ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ’وہ کچن میں کام نہیں کر رہیں بلکہ وہ گھریلو اخراجات ادا نہیں کر رہیں۔‘ اس سوال کے جواب میں کہ کچن میں کام کرنے والی شرط صرف عورتوں پر ہی کیوں لاگو کی جاتی ہے اور کسی بھی عہدے پر براجمان مردوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے کبھی کچن چلایا ہے؟ |
/urdu/pakistan-50417068 | جب عدالت نے استفسار کیا کہ جب تک فوج اس علاقے میں موجود ہے تو کیا اس وقت تک گرفتار ہونے والے افراد حراست میں ہی رہیں گے، تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کو حراست میں رکھنا سزا نہیں ہے۔ | عدالت نے استفسار کیا کہ جب تک فوج اس علاقے میں موجود رہے گی تو کیا اس وقت تک گرفتار ہونے والے افراد حراست میں ہی رہیں گے جمعرات کو اٹارنی جنرل انور منصور نے اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حراستی مراکز میں جتنے افراد رکھے گئے ہیں ان کو دفاع کا حق دیا گیا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر پشاور ہائی کورٹ کو اس صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کی ضرورت کیا تھی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں حراستی مراکز ہیں وہاں امن و امان کی صورت حال خراب اور دہشت گردی عروج پر تھی اسی لیے دہشت گردی اور فرنٹیر کرائم ریگولیشن کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو گرفتار کر کے حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی اصلاح کی جاسکے۔ عدالت نے جب استفسار کیا کہ جب تک فوج اس علاقے میں موجود رہے گی تو کیا اس وقت تک گرفتار ہونے والے افراد حراست میں ہی رہیں گے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کو حراست میں رکھنا سزا نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس بیان پر حیرت ہوئی ہے کہ حراست میں رکھنا سزا کے ذمرے میں نہیں آتا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوج اور سویلین حکام ہر چار ماہ کے بعد ان افراد کے مقدمات کا جائزہ لیتے ہیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ واقعی ایسا ہوتا ہے یا پھر یہ زبانی جمع خرچ ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کروڑوں افراد کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اگر چند ہزار لوگوں کو حراست میں رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک کروڑ افراد کے تحفظ کی خاطر ایک بھی شخص کو حراست میں لے جائے جس کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ کروڑوں افراد کے ساتھ نہیں بلکہ اس فرد واحد کے ساتھ ہوں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس بیان پر حیرت ہوئی ہے کہ حراست میں رکھنا سزا کے ذمرے میں نہیں آتا عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فاٹا اور پاٹا کے لیے آرڈیننس حالات کو دیکھتے ہوئے لایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے چیلنج ہونے والے آرڈیننس آئین کے مطابق ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حراستی مراکز کے بارے میں معاملہ 11 سال تک زیر التوا ہے اور معلوم نہیں کہ کتنے ہزاروں افراد اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عدلیہ کی حالیہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا کیس ہے۔ |
/urdu/science-50991191 | یہ کینسر 15 سے 49 سال کی عمر کے مردوں میں کینسر کی سب سے عام قسم ہے مگر ایک نئی تحقیق میں پایا گیا ہے کہ اس کا علاج کیموتھراپی کے ایک راؤنڈ سے ممکن ہے۔ | غیر معمولی طور پر اس کا نشانہ نسبتاً کم عمر مرد بنتے ہیں اور یہ 15 سے 49 سال کی عمر کے مردوں میں کینسر کی سب سے عام قسم ہے ایک نئے تحقیقی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خصیوں کے کینسر کا علاج زہریلی کیموتھراپی کی ادویات کے کم راؤنڈز سے بھی کامیابی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یورپیئن یورولوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں 246 مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور اس میں پایا گیا کہ کیموتھراپی کے روایتی دو راؤنڈز کے برعکس ایک راؤنڈ بھی اتنا ہی مؤثر تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’مختصر، کم تکلیف دہ اور سستے‘ طریقے کے استعمال سے کینسر کے مریضوں پر علاج کے منفی اثرات کم ہوجاتے ہیں۔ خصیوں کا کینسر کم لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور ہر سال برطانیہ میں اس سے 2400 افراد متاثر ہوتے ہیں۔ مگر غیر معمولی طور پر اس کا نشانہ نسبتاً کم عمر مرد بنتے ہیں اور یہ 15 سے 49 سال کی عمر کے مردوں میں کینسر کی سب سے عام قسم ہے۔ مگر چونکہ یہ نسبتاً کم عمر افراد کو متاثر کرتا ہے اس لیے علاج کے ضمنی اثرات ممکنہ طور پر زندگی بھر کے لیے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ٹرائل میں جو مریض شامل تھے ان کے بارے میں خدشہ تھا کہ ان میں کینسر واپس آ سکتا ہے، انھیں کیموتھراپی کا صرف ایک کورس دیا گیا۔ انسٹیٹوٹ آف کینسر ریسرچ کے پروفیسر رابرٹ ہڈارٹ نے کہا کہ ’کیموتھراپی کے مجموعی ڈوز کو گھٹانے سے وہ نوجوان مرد بچ سکتے ہیں جن کے سامنے ضمنی اثرات جھیلنے کے لیے پوری زندگی پڑی ہوتی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ انھیں اپنے علاج کے لیے کم ہی مرتبہ ہسپتال جانا پڑے گا۔‘ کیموتھراپی جسم کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے جس کی وجہ سے انفیکشنز، جسم کے اہم اعضا کو نقصان اور مردانہ بانجھ پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کی ایک اور سائنسدان پروفیسر ایما ہال نے کہا: ’ہماری تحقیق میں اس حوالے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خصیوں کے کینسر کو کیموتھراپی کے دو راؤنڈز کے بجائے ایک راؤنڈ سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، جس سے علاج مختصر، کم تکلیف دہ اور سستا ہوجاتا ہے۔‘ کینسر ریسرچ یو کے میں ہیڈ انفارمیشن نرس مارٹن لیڈویک کہتے ہیں: ’ان متاثرہ مردوں کو علاج کا کم تکلیف دہ اور کم ضمنی اثرات والا طریقہ فراہم کر کے ہم ان کے معیارِ زندگی میں بہت زبردست فرق پیدا کر سکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ: ’اب جبکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کینسر کو شکست دے پاتے ہیں، اس لیے اس طرح کے تحقیقی مطالعے ضروری ہیں جن سے بیماری سے متاثر اور بیماری کو شکست دینے والے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنائی جا سکیں۔‘ |
/urdu/world-60063026 | ملزم محمد گوہر خان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس شخص سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس نے اُن کا کاروبار تباہ کر دیا تھا۔ | ایک برطانوی شخص جس کے خلاف ایک پاکستانی بلاگر کو قتل کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں لندن کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس کا پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ صرف اس شخص سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس نے اُن کا کاروبار تباہ کر دیا تھا۔ محمد گوہر خان کا پولیس کو دیا گیا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا۔ محمد گوہر خان نے کہا کہ ان کا ورلڈ وائڈ کارگو سروس کے نام سے کاروبار تھا جس میں برطانیہ سے اشیا پاکستان پہنچائی جاتی تھیں اور مسٹر ’مڈز‘ اُن کے ایک ڈلیوری ایجنٹ تھے۔ ملزم محمد گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز سے اُن کی جان پہچان اس وقت ہوئی جب اُن کے خاندان نے انھیں تعلیم کی غرض لندن سے لاہور بھجوایا تھا اور وہاں وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز کی وجہ سے ان کا کاروبار تباہ ہوا اور مسٹر مڈز کے ذمے ان کی رقم تھی۔ محمد گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر مڈز نے ان سے رابطہ کر کے کہا کہ ان کے پاس ایک پراجیکٹ ہے اور اگر وہ کر لیں تو اس کے عوض ان کو ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈز کی رقم مل سکتی ہے۔ ملزم گوہر خان نے کہا کہ ابتدا میں انھیں اس پراجیکٹ کی تفصیلات کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا لیکن اُنھوں نے اس کوشش میں پراجیکٹ کرنے کی ہامی بھری تاکہ وہ کسی طرح مسٹر مڈز سے اپنی رقم وصول کر لیں۔ گوہر خان نے کہا کہ اُنھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان میں کسی کے پاس اتنی رقم ہے اور وہ صرف کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح وہ مسٹر مڈز سے اپنی رقم حاصل کر لیں اور اسی لیے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی ہامی بھر رہے تھے۔ ملزم نے بتایا کہ وہ مسٹر مڈز کے ساتھ بات چیت میں لفظ ’ہم‘ کا استعمال کرتے رہے تاکہ اُنھیں یہ باور کروا سکیں کہ اور لوگ بھی اُن کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں (تاہم) حقیقت میں اُن کے ساتھ کوئی اور شخص نہیں تھا۔ ملزم گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سے واپسی پر وہ ابتدائی طور اپنے ایک چچا کے ساتھ وائٹ چیپل کی مارکیٹ میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور رشتے دار کی ٹریول ایجنسی پر کام شروع کیا جس کے بعد وہ مشرقی لندن کے علاقے اپٹن لین میں اپنے والد کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ گوہر خان نے بتایا کہ ان کے والد پراپرٹی اور گڈز فارورڈنگ کا کام کرتے تھے۔ |
/urdu/pakistan-56651666 | روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ اس دورے کے دوارن دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو طرفہ تعلقات اور اہم علاقائی و عالمی امور تو زیر بحث آئیں گے لیکن فی الحال پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا اپنی چھتری نہ پکڑنا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ | روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ اس دورے کے دوران دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو طرفہ تعلقات اور اہم علاقائی و عالمی امور تو زیر بحث ہیں ہی لیکن فی الحال پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا روسی وزیر خارجہ کے استقبال کے موقع پر اپنی چھتری نہ پکڑنا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ لہذا جب وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی چکلالہ ائیر بیس پر روسی وزیر خارجہ کا خیر مقدم کرنے پہنچے تو اس موقع پر ان کی اپنی جانب سے ہی ٹوئٹر پر شئیر کردہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف تو اپنی چھتری خود پکڑ کر طیارے سے باہر آ رہے ہیں لیکن پاکستانی وزیرِ خارجہ کی چھتری ایک دوسرے شخص نے پکڑ رکھی ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان، روس کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بتدریج وسعت آ رہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات دو طرفہ باہمی افہام و تفہیم اور اعتماد کا مظہر ہیں۔پاکستان اور روس کے مابین وفود کی سطح پر دو طرفہ مذاکرات بدھ کو وزارت خارجہ میں ہوں گے۔ ان مذاکرات میں دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو طرفہ تعلقات اور اہم علاقائی و عالمی امور زیر بحث آئیں گے۔ دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر بات چیت مذاکرات کا اہم حصہ ہے۔دونوں ممالک کے مابین افغان امن عمل کے حوالے سے بھی خصوصی تبادلہ خیال ہوگا۔ شاہ محمود قریشی نے بھی دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے، باہمی تعاون اور باہمی وابستگی جیسے الفاظ کے ساتھ روسی وزیرِ خارجہ کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہی ٹویٹ کے ساتھ تصاویر شئیر کیں مگر اس سب میں بعض سوشل میڈیا صارفین نے جو چیز نوٹ کی اور ان کی نظریں جس چیز پر ٹھہریں، وہ تھا شاہ صاحب کا اپنی چھتری نہ پکڑنا۔ طاہر کشمیری نامی صارف نے شاہ محمود قریشی کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’آپ میں اور روسی وزیر خارجہ میں فرق صاف نظر آ رہا ہے۔ جو لوگ ملک و قوم کی خدمت کے لیے آتے ہیں وہ اپنے آپ کو قوم کا ملازم سمجھتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے چھتری خود پکڑی ہے اور آپ نے چھتری پکڑنے کے لیے ایک بندہ رکھا ہوا ہے۔‘ ایک صارف لکھتی ہیں ’اہم اور موضوعِ گفتگو روسی وزیرِ خارجہ کا دورہ پاکستان ہے، شاہ محمود قریشی کا چھتری نہ پکڑنا نہیں۔‘ شاہ محمود قریشی پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے ایاز بلوچ لکھتے ہیں ’روسی وزیرِ خارجہ بغیر دعوت کے یعنی اپنی خواہش کے تحت پاکستان آئے ہیں۔ اس موقع پر بجائے اتنی بڑی سفارتی کامیابی کو ہائی لائیٹ کیا جاتا، کچھ لوگ چھتری چھتری کر رہے ہیں۔‘ |
/urdu/world-53844742 | سابق ہسپانوی بادشاہ کارلوس اور کورینا کی ملاقات فروری 2004 میں ایک شوٹنگ پارٹی میں ہوئی۔ کورینا کہتی ہیں کہ ’شروع میں ہم کئی ماہ تک صرف فون پر بات کرتے رہے۔ ہماری پہلی ڈیٹ گرمیوں کی ابتدا میں ہوئی۔‘ | ’پہلی بات تو یہ کہ بادشاہ کھلے عام ملکہ صوفیہ سے بے وفائی کر رہے تھے۔ دوسرا یہ سب ایک مالی بحران کے دوران ہوا اور بادشاہ نے ایک ایسے ملک کا دورہ کیا جس کے ساتھ سپین کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں تو ایسے میں سپین کا سربراہ ہسپانوی حکومت کے ریڈار سے غائب تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ ایک انتہائی مہنگا دورہ تھا اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے اخراجات کس نے اٹھائے۔ اس سب سے بادشاہ کی ساکھ کو کافی نقصان ہوا۔‘ بادشاہ کارلوس اور کورینا کی ملاقات فروری 2004 میں ایک شوٹنگ پارٹی میں ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’بادشاہ کو اپنی شاٹ گن استعمال کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ مجھے اس بارے میں کافی معلوم ہے تو اس لیے میں بتا سکی کہ مسئلہ کہاں ہے۔ میرے خیال میں وہ کافی حیران ہوئے تھے۔‘ کورینا کہتی ہیں ’شروع میں ہم کئی ماہ تک صرف فون پر بات کرتے رہے۔ ہماری پہلی ڈیٹ گرمیوں کی ابتدا میں ہوئی۔ ہم بہت ہنسے۔ ہماری دلچسپی بہت سے یکساں معاملات میں تھی جیسے کہ سیاست، تاریخ، اچھا کھانا، شراب۔‘ ایک موقع پر کورینا نے بادشاہ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ملکہ صوفیہ کا اس سب کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بادشاہ نے کہا ’ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے کہ وہ شاہی خاندان کی نمائندگی اکھٹے کریں مگر اس کے علاوہ وہ بالکل علیحدہ زندگی گزارتے ہیں اور بادشاہ ابھی ابھی کسی اور خاتون کے ساتھ ایک 20 سالہ رومانوی رشتے سے نکلے تھے جن کی ان کے دل میں خاص جگہ تھی۔‘ سوئس استغاثہ ان تین افراد کی تحقیقات کر رہا ہے جن کا سابق بادشاہ سے تعلق تھا۔ اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا یہ رقم تین سال بعد سعودی عرب میں تیز رفتار ریلوے لنک تعمیر کرنے کے لیے ایک ہسپانوی کمپنی سے بڑے پیمانے پر معاہدہ کرنے سے منسلک تھی یا نہیں۔ تو اس سب میں کورینا زسائن وٹگنسٹائن کہاں فٹ ہوتی ہیں؟ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جن کی تفتیش سوئس استغاشہ کر رہی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2012 میں بوٹسوانا کے واقعے کے بعد، اس وقت کے بادشاہ یوہان کارلوس نے سعودی عرب سے ملنے والی 100 ملین ڈالر کی رقم سے بچ جانے والے 65 ملین ڈالر کورینا کو ٹرانسفر کیے تھے۔ وہ کہتی ہیں ’میں بہت حیران ہوئی کیونکہ یہ یقینی طور پر بہت فراخدلی والا تحفہ تھا۔ اگرچہ میں کہوں گی کہ ان کی زندگی کے دوران ہی سنہ 2011 میں انھوں نے اپنی وصیت کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے اپنی موت اور وہ اپنی وصیت میں کیا چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، اس پر بات کرنا شروع کر دی تھی۔ |
/urdu/sport-55678396 | مڈل آرڈر بیٹسمین سعود شکیل، کامران غلام، آغا سلمان، لیفٹ آرم سپنر نعمان علی، آف سپنر ساجد خان اور فاسٹ بولر تابش خان کے لیے جنوبی افریقہ کےخلاف ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے 20 رکنی پاکستانی ٹیسٹ سکواڈ میں شمولیت دراصل ان کی اس محنت کا صلہ ہے جو وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں کرتے آ رہے ہیں۔ | مڈل آرڈر بیٹسمین سعود شکیل، کامران غلام، آغا سلمان، لیفٹ آرم سپنر نعمان علی، آف سپنر ساجد خان اور فاسٹ بولر تابش خان کے لیے جنوبی افریقہ کے خلاف ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے 20 رکنی پاکستانی ٹیسٹ سکواڈ میں شمولیت دراصل ان کی اس محنت کا صلہ ہے جو وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں کرتے آ رہے ہیں۔ نعمان علی کہتے ہیں کہ اس وقت ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کے علاوہ دوسرے لیفٹ آرم سپنرز میں ظفر گوہر اور کاشف بھٹی شامل ہیں۔ ان دونوں کو دیکھ کر وہ یہی سوچتے رہے ہیں کہ اگر ان دونوں کو موقع مل سکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ کراچی میں پاکستان کرکٹ کلب کی نیٹ پریکٹس جاری تھی۔ فاسٹ بولرز انور علی اور تابش خان بولنگ کررہے تھے سرفراز احمد بھی وہیں موجود تھے اس دوران ایک گیارہ، بارہ سال کا لڑکا پیڈ کر کے نیٹ میں آیا تو ان کرکٹرز نے ٹیم کے منیجر اعظم خان سے کہا یہ چھوٹا سا بچہ ہے اسے کہیں گیند نہ لگ جائے۔ 25سالہ سعود شکیل بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتے ہیں۔ وہ فرسٹ کلاس سیزن میں 10 سنچریاں بناچکے ہیں۔ اس سیزن میں انھوں نے تین سنچریوں اور پانچ نصف سنچریوں کی مدد سے 970 رنز بنائے جن میں ناردن کے خلاف کریئر بیسٹ 174 کی اننگز بھی شامل ہے۔ ان کے 970 رنز سیزن میں کسی بھی بیٹسمین کے دوسرے سب سے زیادہ رنز ہیں۔ 25 سالہ کامران غلام کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقہ اپر دیر سے ہے۔ وہ 2013 سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں تاہم اس سال قائداعظم ٹرافی میں انھوں نے1249 رنز بنائے ہیں جو کسی ایک قائداعظم ٹرافی ٹورنامنٹ میں کسی بھی بیٹسمین کے سب سے رنز کا نیا ریکارڈ ہے۔ کامران غلام کے علاوہ آف سپنر ساجد خان۔ مڈل آرڈر بیٹسمین آغا سلمان اور فاسٹ بولر تابش خان بھی پہلی بار قومی اسکواڈ کا حصہ بنے ہیں۔ 37سالہ فاسٹ بولر تابش خان فرسٹ کلاس کرکٹ میں مجموعی طور پر598 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برس سے ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں تاہم اس کے باوجود انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں موقع نہیں مل سکا۔ بابراعظم ( کپتان ) محمد رضوان ( نائب کپتان ) عابدعلی، عمران بٹ، اظہرعلی، فوادعالم، سرفرازاحمد، فہیم اشرف، یاسر شاہ، شاہین شاہ آفریدی، عبداللہ شفیق، آغا سلمان، سعود شکیل، کامران غلام، محمد نواز، نعمان علی، ساجدخان، حسن علی، حارث رؤف اور تابش خان۔ |
/urdu/pakistan-61416676 | عدالت نے 62 ملزمان کو شک کی بنا پر بری کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ جرمانے کی رقم متاثر ہونے والے مندر کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی۔ | بہاولپور میں انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل بھونگ میں اگست 2021 میں ایک مندر پر حملے اور توڑ پھوڑ کا جرم ثابت ہونے پر 22 ملزمان کو پانچ پانچ برس قید اور چار لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر ملزمان کو دیگر دفعات کے تحت مجموعی طورپر 11،11 ماہ مزید قید بھگتنی ہو گی جبکہ عدالت نے 62 ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جرمانے کی رقم متاثر ہونے والے مندر کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی۔ یہ واقعہ چار اگست 2021 کو پیش آیا تھا۔ اس وقت سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے ہیں۔ ملزمان پر الزام تھا کہ اُنھوں نے 4 اگست 2021ء کو بھونگ میں مندر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس کا مقدمہ تھانہ بھونگ میں 84 ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے جرم ثابت ہونے پر 22 ملزمان شفیق، شیراز، لطیف، فاروق، غلام عباس، دھنی بخش، بخشہ، عبدالحکیم، اسامہ، ابوبکر، محمد خان، محمد اکبر، خدا بخش، شاہد حسین، محمد علی، محمد جہانگیر، نذیر احمد، محمد آصف، شاہ میر، امیر دین، فخر عباس اور مطلوب احمد کو جرم ثابت ہونے پر پانچ پانچ سال قید اور چار چار لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ مندر پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی سماعت کے دوران کہا تھا کہ اگر مندر کی جگہ مسجد کو گرا دیا جاتا تو پھر مسلمانوں کے کیا جذبات ہوتے؟ چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ مجرم ثابت ہونے والے افراد سے مندر کی دوبارہ تعمیر پر آنے والے اخراجات بھی لیے جائیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کے علاقے کرک میں بھی ہندوؤں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچانے کے مقدمے میں بھی عدالت نے ذمہ دار افراد سے ان مقدس مقامات کی دوبارہ تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات لینے کا حکم دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو اس ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جس نے آٹھ سالہ ہندو بچے کو گرفتار کرکے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ عدالت نے پولیس کو ایک ہفتے کے اندر اندر ذمہ داروں کی شناخت کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور بے گناہ افراد کو کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت کو بتایا تھا کہ علاقہ مکینوں کے مطابق پولیس نے اس مقدمے میں متعدد بے گناہ افراد کو بھی حراست میں لیا۔ |
/urdu/pakistan-61661252 | آٹھ رکنی کابینہ میں پانچ وزراء کا تعلق مسلم لیگ ن سے، دو کا پیپلز پارٹی سے ہے جبکہ ایک آزاد ایم پی اے ہیں۔ | سیاست میں دلچسپی رکھنے والی نئی نسل کا ایک حصہ ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سے کئی موضوعات پر اختلافات رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کے ناقدین کا یہ موقف درست ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے اور سیاسی گھرانوں سے تعلق نہ رکھنے والے نوجوانوں کو پارٹی اہم مواقع پر نظر انداز کر دیتی ہے؟ ان کے والد فاروق لغاری پیپلز پارٹی کی جانب سے صدرِ پاکستان اور وفاقی وزیر رہے جبکہ ان کے بھائی جمال لغاری ایم پی اے اور سینیٹر رہ چکے ہیں۔ سابق ایم این اے سمیرا ملک اور عائلہ ملک ان کی کزن ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ 2002 میں مسلم لیگ ق سے ایم پی اے بنے اور پارلیمانی سیکرٹری رہے۔ سنہ 2008 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن جیت نہ سکے، 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور دوسری مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔ دس سال تک سپیکر پنجاب اسمبلی رہنے والے رانا اقبال چھٹی مرتبہ ایم پی اے بن کر صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے 1979 میں بلدیاتی سیاست سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے والد رانا پھول محمد خان 1965 سے 1990 تک چھ مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے اور ایک سے زائد مرتبہ وزیر بھی رہے۔ اس طرح پاکستان میں اسے ایک سیاسی ریکارڈ کہا جا سکتا ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں چھ چھ مرتبہ ایم پی اے رہے۔ ان کی والدہ بیگم فرحت رفیق اندرون لاہور سے مقامی کونسلر رہیں اور بعد ازاں 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ایم پی اے منتخب ہوئیں۔ ان کے بھائی سعد رفیق 1997 اور 2018 میں دو مرتبہ ایم پی اے رہے اور چوتھی مرتبہ ایم این اے ہیں۔ انھیں ریٹائرمنٹ کےکچھ ہی سال بعد سینیٹر منتخب کروایا گیا اور بعد میں وہ صدر پاکستان بنے۔ عطاءاللہ تارڑ کے چھوٹے بھائی بلال تارڑ گکھڑ منڈی گوجرانوالہ سے موجودہ ایم پی اے ہیں جبکہ ان کی چچی سائرہ افضل تارڑ وفاقی وزیر اور ایم این اے رہ چکی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کے دو بیٹوں اور ایک بھائی کو ان کی وزارت عظمی میں انتخابات جیتنے کا موقع ملا لیکن اس کے بعد ابھی تک تینوں دوبارہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پیپلز پارٹی دور میں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمی ختم ہونے کے بعد گیلانی خاندان کی نوجوان نسل میں سے علی حیدر گیلانی 2018 میں پنجاب اسمبلی کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے بھائی خالد جاوید وڑائچ بھی ایم پی اے رہے اور اب دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن سے ایم این اے ہیں۔ خاندان میں سیاسی اختلافات کے بعد بھائی نے بھائی کے خلاف، دیور نے بھابھی کے خلاف الیکشن لڑے۔ |