url
stringlengths 14
138
| Summary
stringlengths 39
3.22k
| Text
stringlengths 230
2.44k
|
---|---|---|
/urdu/regional-52110141 | انڈیا میں حکام ملک بھر میں ان سینکڑوں افراد کی تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے دارالحکومت دلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کی تھی جس کے بعد سے ملک میں کورونا وائرس کے متعدد مریض سامنے آئے ہیں۔ | انڈیا میں حکام ملک بھر میں ان سینکڑوں افراد کی تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے دارالحکومت دلی میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی اور جس کے بعد سے ملک میں کورونا کے متعدد مریض سامنے آئے ہیں۔ دلی میں حکام اب اس عمارت کو خالی کروا رہے ہیں جہاں گذشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد تقریباً ایک ہزار افراد پھنسے ہوئے تھے۔ حکام کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کہ کتنے افراد ان پروگراموں میں شامل ہوئے اور کہاں کہاں گئے مگر انہوں نے پھر بھی سراغ لگانے اور ٹیسٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں پچھلے ہفتے وائرس سے ہونے والی پہلی موت رپورٹ کی گئی جو ایک 65 سالہ شخص کی تھی جو دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ حکام نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ خطے میں 48 میں سے 40 کیسز کا تعلق اُس ایک مریض سے جڑتا ہے۔ دور دراز علاقے اندامان اور نیکوبار آئی لینڈز میں بھی 9 کیسز سامنے آئے جن میں سے 6 افراد دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے بعد لوٹے تھے۔ انڈیا کی جنوبی ریاستیں تامل ناڈو، تلنگانہ اور اندرا پردیش میں حکام کے مطابق ان ریاستوں سے 3000 ہزار افراد اجتماع میں شامل ہوئے اور تامل ناڈو میں 16 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن کا تعلق اس اجتماع میں شامل ہونے والے افراد سے بنتا ہے۔ ان ریاستوں نے ایسے سب افراد سے ازخود اپنے آپ کو ٹیسٹ کے لیے سامنے آنے کے لیے کہا ہے جو اس اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔ دلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے مسجد کے سربراہ کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرانے کا کہا ہے۔ دوسری جانب اجتماع کے منتظمین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 مارچ کو کرفیو کا اعلان کیا انہوں نے اجتماع معطل کر کے تمام شرکاء سے جانے کو کہا۔ جہاں بیشتر افراد واپس لوٹے بہت سے لوگ پھنس گئے کیونکہ متعدد ریاستوں نے اگلے ہی دن اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں اور دو دن بعد انڈیا نے 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے بعد بسیں اور ٹرینیں چلنا بند ہوگئیں۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ کسی مذہبی اجتماع کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا ہو۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بھی تبلیغی جماعت کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا الزام لگا ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی شنک چیونجی چرچ کے خفیہ فرقے پر بہت سے کیسز پھیلانے کا الزام لگا اور گروہ نے اس پھیلاؤ میں اپنے کردار کے لیے معافی مانگی ہے۔ |
/urdu/world-53187384 | آر اے ایف وائیجر ایک ایئربس اے 330 جیٹ طیارہ ہے جسے 2015 میں ایک کروڑ پاؤنڈ کی رقم سے برطانوی حکومت کے استعمال کے قابل بنایا گیا تھا اور یہ برطانوی وزیرِ اعظم اور شاہی خاندان کے زیر استعمال رہتا ہے۔ | برطانیہ کے شاہی خاندان اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال طیارے آر اے ایف وائیجر پر نو لاکھ پاؤنڈ کی رقم سے رنگ و روغن کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم کے دفتر ڈاؤننگ سٹریٹ کا کہنا ہے کہ پہلے خاکستری رنگت کے حامل اس طیارے کو برطانیہ کے پرچم کے رنگوں سے رنگنے کا مقصد بیرونِ ملک برطانیہ کی ’بہتر نمائندگی‘ ہے۔ یہ کام مارشل ایروسپیس اینڈ ڈیفینس گروپ نے انجام دیا ہے جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ طیارہ ان معمول کے طیاروں سے کہیں بڑا تھا جن پر وہ عموماً کام کرتے ہیں۔ آر اے ایف وائیجر ایک ایئربس اے 330 جیٹ طیارہ ہے جسے 2015 میں ایک کروڑ پاؤنڈ کی رقم سے برطانوی حکومت کے استعمال کے قابل بنایا گیا تھا۔ اسے سب سے پہلے جولائی 2016 میں سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور دیگر وزرا کو نیٹو سربراہی اجلاس میں لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس وقت برطانوی حکومت نے ان اخراجات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پروازیں چارٹر کروانے سے بہتر ہے اور دعویٰ کیا تھا کہ اس سے سالانہ سات لاکھ 75 ہزار پاؤنڈز کی بچت ہوگی۔ آر اے ایف وائیجر کا پچھلا رنگ خاکستری تھا تصاویر کے جُملہ حقوق محفوظ ہیں |
/urdu/world-60227243 | انگریزی ورژن کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ڈویلپرز نے خود ہی اس کے مختلف ورژن بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت اس گیم کی 79 زبانوں میں 222 ورژن ہیں۔ | ورڈل گیم صارفین کو چھ کوششوں میں پانچ حرفی لفظ بوجھنے کا چیلنج دیتی ہے۔ اس گیم کے سادگی اور دن میں ایک بار کھیلنے کی حد کی وجہ سے اس نے مارکیٹ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ‘ورڈل لانچ کرنے کے بعد سے میں ہر اس شخص کے ردعمل پر حیران ہوں جس نے اسے کھیلا ہے۔ یہ گیم اتنی بڑی ہو گئی ہے جتنی میں نے کبھی سوچی نہیں تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارنامہ نہیں ہے کیونکہ میں نے یہ گیم صرف ایک شخصیت کے لیے بنائی تھی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ گیم اپنی گرل فرینڈ، پلک شاہ کے لیے بنائی تھی۔ پلک کو کورونا وائرس کی وبا کے دوران وقت گزارنے کے لیے لفظوں کی گیمز کھیلنے کا شوق ہو گیا تھا۔ دوستوں اور احباب کی جانب سے اس میں کچھ دلچسپی کے بعد وارڈل نے صرف تین ماہ قبل یہ گیم عام صارفین کے لیے پیش کی اور اب ایک قلیل مدت میں یہ دنیا بھر میں لاکھوں صارفین میں مقبول ہے۔ لوگ روزانہ پوچھی گئی ایک ہی پہیلی کو مکمل کرنے کے لیے لاگ ان ہوتے ہیں۔ بمبئی میں ایک مصنف اور صحافی انندیتا گھوس کہتی ہیں ‘میں نیویارک میں اپنے بھائی کے ساتھ ناشتے کے وقت اپنا سکور شیئر کرتی ہوں۔ اس نے مجھ سے شکایت کی کہ اسے رات دیر تک جاگنا پڑتا ہے کیونکہ نئی پہیلی آدھی رات کو ہی آتی ہے۔‘ سیم متعدد زبانیں بول سکتے ہیں اور انھوں نے ورڈل کے جیسے مختلف زبانوں میں دستیاب ورژن کھیلنے کی کوشش کی ہے جسے دنیا بھر کے ڈویلپرز نے مختلف زبانوں میں بنایا ہے۔ انھوں نے اس گیم کو سویڈش، مینڈارن اور کورین کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی آزمایا ہے مگر وہ ہر زبان میں ایک جیسے کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ انگریزی ورژن کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ڈویلپرز نے خود ہی اس کے مختلف ورژن بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت اس گیم کی 79 زبانوں میں 222 ورژن دستیاب ہیں۔ چنئی، انڈیا کے ایک سافٹ ویئر آرکیٹیکٹ پی سنکر نے گیم کا ایک تامل ورژن ایجاد کیا جس میں چھ دفعہ حل کا اندازہ لگانے کی حد کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ‘میں نے پہلی دفعہ ورڈل تقریباً تین ہفتے قبل کھیلی تھی اور مجھے اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ میرے پاس پہلے سے ہی اپنے پچھلے پروجیکٹس سے کینٹونیز کے لیے الفاظ کی فہرستیں تھیں، اس لیے یہ بنانا آسان تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ‘جیوٹپنگ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مقامی کینٹونیز بولنے والوں کو نہیں سکھایا جاتا ہے، اس لیے ہانگ کانگ والوں کو گیم کھیلنے کے لیے ایک نیا نظام سیکھنے کی ضرورت ہو گی۔‘ |
/urdu/regional-49249364 | انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد وادی مسلسل دوسرے دن بھی دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگاروں کے مطابق لوگوں میں غصہ بھرا ہوا ہے اور کوئی شہری بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ | انڈیا کی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو دی جانے والی نیم خودمختاری کی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے اعلان کے بعد وادی مسلسل دوسرے دن بھی باقی پوری دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ اتوار کی شب کشمیر میں جو ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہوئے تھے وہ تاحال بند ہیں۔ وادی میں پیر سے بند کیے جانے والے تمام تعلیمی ادارے اور بیشتر دفاتر منگل کو بھی بند رہے اور پوری وادی انڈین سکیورٹی فورسز کے زبردست حفاظتی حصار میں ہے۔ دہلی میں بی بی سی اردو کے شکیل اختر کے مطابق حزبِ اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد نے ایک نیوز کانفرنس میں کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'وادی کشمیر کے تمام دس اضلاع میں کرفیو نافذ ہے۔ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ سری نگر میں بی بی سی ہندی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ نے منگل کو بارہ مولا کا دورہ کیا۔ اس سفر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم آج کے دن کی بات کریں تو کسی کو نہیں پتا کہ کیا چل رہا ہے۔ ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور پولیس موجود ہے۔‘ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر آج مسلسل دوسرے روز بھی پوری دنیا سے کٹا ہوا ہے سری نگر کے پرانے شہر میں پیر کی شام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑی تعداد میں پتھراؤ کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے حوالے سے بالکل کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق کشمیر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور پولیس کی گاڑیوں سے لگاتار یہ کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ 'شہر میں کرفیو نافذ ہے اور جہاں دو سے زیادہ لوگ نظر آئیں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔' 'لوگوں کے اندر غصہ بھرا ہوا ہے۔ بارہ مولا میں ہم نے 20 سے 25 لوگوں سے بات کی۔ ان میں غصہ تھا جو کہ ہم پر نکل رہا تھا۔ ان کا ایک ہی جواب تھا کہ تم لوگ کیا کرو گے؟ ہمارے بتانے سے کیا ہو گا؟ یہ سب آپ ہی کی وجہ سے ہے۔ کوئی شہری ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ کوئی سویلین ہم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ ان کے دل میں ڈر ہے کہ اگر وہ ہم سے بات کریں گے تو شاید ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ 'جب حکام کی جانب سے پابندیوں میں نرمی ملے گی تب ہی پتا چل پائے گا کہ گراؤنڈ پر صورتحال ہے کیا اور لوگوں میں کتنا غصہ بھرا ہوا ہے۔' بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ہوٹل وادی کے زیریں علاقے میں واقع نہیں جہاں زیادہ مسئلہ ہے اور دوکانیں اور کاروبار بند ہیں۔ |
/urdu/regional-49077314 | جاری کردہ تصاویر میں برطانوی پرچم بردار بحری جہاز کے عملے کو ایرانی حکام ہدایات دے رہے ہیں۔ | سٹینا اِمپیرو کے 23 ارکان پر مشتمل عملے سے ایرانی افسر گفتگو کرتے ہوئے ایران کے سرکاری میڈیا نے اس برطانوی پرچم بردار ٹینکر کے عملے کی تصاویر شائع کی ہیں جسے خلیج فارس سے قبضے میں لیا گیا تھا۔ ویڈیو فوٹیج اور ایک تصویر میں جہاز کے باورچیوں کو کھانا تیار کرتے اور ایک ایرانی افسر کو سٹینا اِمپیرو کے عملے کو بریفنگ دیتے دکھایا گیا ہے۔ برطانیہ میں سکیورٹی کی اعلیٰ سطحی ایمرجنسی کمیٹی کوبرا کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ اس سے قبل حکومت نے جہاز پر قبضے کو ناقابلِ قبول اور کشیدگی میں انتہائی اضافہ کرنے والا فعل قرار دیا تھا۔ توقع ہے کہ برطانوی وزیرخارجہ جلد ہی ارکانِ پارلیمان کے سامنے آئندہ کا لائحہ عمل بیان کریں گے۔ اطلاعات ہیں کہ بعض وزراء ایرانی اثاثے منجمد کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ برطانوی پرچم بردار جہاز سٹینا اِمپیرو کا عملہ انڈیا، روسی، لیٹویا اور فلپائن کے شہریوں پر مشتمل ہے۔ ٹینکر کو ایران نے جمعہ کے روز قبضے میں لے لیا تھا۔ فارس اور اِیرِب نیوز ایجنسیوں کی جاری کردہ تصاویر میں عملے کے 23 ارکان میں سے چند نظر آ رہے ہیں۔ عملہ، انڈیا، روس، لیٹویا اور فلپائن کے شہریوں پر مشتمل ہے۔ ایک موقع پر ایک ایرانی افسر انھیں کیمرے کی طرف نہ دیکھنے کی ہدایت دے رہا ہے۔ اس سے قبل برطانوی حکومت نے ایران سے جمعہ کو پکڑے جانے والے ٹینکر کو فوری طور پر چھوڑنے کا مطالبہ دہرایا تھا۔ وزیراعظم ٹریسا مے نے کوبرا اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں سکیورٹی اور ممکنہ ردعمل پر غور کیا گیا۔ برطانوی وزیر خزانہ فلِپ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ برطانیہ ٹینکر پر قبضے کو نظرانداز نہیں کر سکتا ایرانی پریس کے مطابق عملے کو پوچھ گچھ کے لیے جہاز سے اتار کر لے جایا گیا تھا |
/urdu/science-51327141 | انسان ہمیشہ سے ہی جانوروں کی وجہ سے بیمار پڑتے رہے ہیں اور ہر نئے وائرس سے ایک علیحدہ بحران کے طور پر نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ احساس نہیں کرتے کہ دنیا کس طرح تبدیل ہو رہی ہے۔ | مگر یہ نیا وائرس جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ جنگلی جانوروں سے پھیلا ہے، جانوروں میں موجود جراثیم سے ہمیں لاحق خطروں پر ایک نئی روشنی ڈالتا ہے۔ 1980 کی دہائی کا ایچ آئی وی/ایڈز بحران بن مانسوں سے پھیلا، 2004 سے 2007 کے دوران ایویئن فلو کی وبا پرندوں سے پھیلی، جبکہ 2009 میں سور کی وجہ سے سوائن فلو کی وبا پھیلی۔ حال ہی میں یہ پایا گیا کہ سانس کی شدید تکلیف پیدا کرنے والا وائرس سارس مُشک بلاؤ کے ذریعے چمگادڑوں سے انسانوں تک آیا جبکہ چمگادڑوں نے ہی ہمیں ایبولا وائرس دیا۔ انسان ہمیشہ سے ہی جانوروں کی وجہ سے بیمار پڑتے رہے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر نئے انفیکشن جنگلی حیات سے ہی آتے ہیں۔ نئے متاثر ہونے والے جانداروں کا مدافعتی نظام ان جراثیم کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدافعتی نظام اور جراثیم ہمیشہ ایک ایسے ارتقائی کھیل کا حصہ رہتے ہیں جس میں دونوں کا کام ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ غذائیت کی کمی کی وجہ سے ان کے مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتے ہیں اور خراب آب و ہوا اور گندے ماحول سے ان کا سامنا بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو وہ ممکنہ طور پر طبی سہولیات کے حصول کے متحمل نہ ہوسکیں۔ اس کے علاوہ نئے انفیکشن بھی بڑے شہروں میں نہایت تیزی سے پھیل سکتے ہیں کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں اور ایک ہی طرح کی جگہوں کو چھوتے ہیں۔ اب سفری پابندیاں عائد ہوچکی ہیں اور ان کے بغیر بھی لوگ تعلق میں آنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں انھیں بھی وائرس نہ لگ جائے۔ لوگ اپنے رویے تبدیل کرتے ہیں، سرحدیں پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے، موسمی تارکینِ وطن مزدور اپنی جگہیں تبدیل نہیں کر سکتے اور سپلائی چین میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا کے مختلف معاشرے اور حکومتیں ہر نئے انفیکشن کی وبا سے ایک علیحدہ بحران کے طور پر نمٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ احساس نہیں کرتیں کہ دنیا کس طرح تبدیل ہو رہی ہے۔ شہروں میں رہنے والے کئی لوگ شہری جانوروں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں یہ احساس کرنا ہو گا کہ کئی جانوروں میں ممکنہ طور پر امراض ہوسکتے ہیں۔ یہ جاننا قابلِ فہم ہے کہ کون سے جانور شہروں میں نئے آئے ہیں اور کیا لوگ جنگلی جانوروں کو مار کر کھا رہے ہیں یا انھیں مضافاتی علاقوں سے شہری بازاروں تک لا رہے ہیں۔ دنیا کی مختلف حکومتیں ہر نئے انفیکشن کی وبا سے ایک علیحدہ بحران کے طور پر نمٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ احساس نہیں کرتیں کہ دنیا کس طرح تبدیل ہو رہی ہے |
/urdu/regional-57238490 | انڈیا میں کووڈ کے اوسطاً روزانہ چار لاکھ کیسز سامنے آ رہے تھے اور اموات کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ پڑھیئے بی بی سی کے | یہ مئی کے اوائل کی بات ہے۔ انڈیا میں کووڈ کے اوسطاً روزانہ چار لاکھ کیس سامنے آ رہے تھے اور اموات کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ انڈیا میں کووڈ کے کیسز ہر روز بڑھتے جا رہے ہیں اور صحت کے نظام پر اتنا بوجھ پڑھ چکا ہے وہ تقریباً درہم برہم ہو چکا ہے ریاست بہار وبا کی دوسری لہر میں انڈیا کی بدترین متاثرہ ریاستوں میں سے ایک ہے اور یہاں صحت کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور انڈیا کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ شریواستو نے گذشتہ برس اس خطے میں آنے والے سیلاب میں ایک مفت ایمبولینس سروس شروع کی تھی جسے انھوں نے اسے کووڈ کے دور میں مریضوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ انڈیا جیسے متنوع ملک میں جیسے ہی آپ کوئی متضاد سطح کریدتے ہیں، معاشرے کی قدیم لکیریں نمودار ہو جاتی ہیں اور ان میں سب سے کمزور دیہی علاقے، خواتین اور نچلی ذات کے لوگ اور تارکین وطن نظر آتے ہیں۔ کووڈ لاک ڈاؤن نے ایسے طبقوں کے لیے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انھوں نے اپنے اعزازات کے طور پر ملی رقم اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر بولنے سے ملنے والے رقم کو کووڈ کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن 1.4 ارب کی آبادی والے اس ملک میں یہ واضح طور پر کافی نہیں ہے۔ پھر انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پر عام لوگوں سے چندے کی درخواست بھی کرنا شروع کر دی۔ چند ہی دنوں میں ان کے پاس 73 لاکھ روپے کی رقم جمع ہو گئی۔ حالانکہ یہ رقم بھی کافی نہیں تھی لیکن اس سے لوگوں کی مدد کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ ’مجھے انڈیا اور دنیا میں ہونے والے کووڈ۔19 وائرس کے بحران یا ماحولیاتی تبدیلیوں سے کیوں پریشان ہونا چاہیے؟ مجھے تو پڑھائی کرنی چاہیے، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے۔ لیکن ہمارے رہنماؤں کو وقت ہی نہیں ملتا ہم جیسے لوگوں کی بات سننے کے لیے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘ مئی کا مہینے ختم ہونے کو ہے، کووڈ کی علامات سے تقریباً بازیافت ہونے کے بعد میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس وبائی مرض نے، جو کہ ابھی اپنے خاتمے سے کافی دور ہے، لمبے سائے چھوڑے ہیں: لواحقین، گاؤں والے، دوست، ہر سمت موت کی خبریں ہیں، اور آپ صرف اسے بے بسی سے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے شریواستو کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ ایسا کام جس کی وجہ سے انھیں اپنی بیوی کے زیورات گروی رکھنے پر مجبور ہونا پڑے، ایک سکول جانے والے بیٹے کا مستقبل سامنے ہو، اور حالیہ دنوں میں حالات بہتر ہونے کے امکانات بہت کم ہوں، ایسی صورت میں آپ کی کاوشیں کب تک ممکن ہیں؟ |
/urdu/regional-58621076 | کہتے ہیں کہ صحافی کی قابلیت کا دارومدار اپنے ذرائع پر ہوتا ہے، جس کے ذرائع زیادہ قابل اعتماد ہوں وہ ہی کامیاب صحافی بن سکتا ہے۔ تاہم اس بار ایسے لگتا ہے کہ ارنب گوسوامی کے ذرائع نے انھیں دھوکہ دے دیا۔ | ارنب گوسوامی نے اپنے اس پروگرام میں دعویٰ کیا کہ ان کے پاس باوثوق ذرائع سے اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے اہلکار کابل کے سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر رکے ہوئے ہیں۔ اس روز تو بات آئی گئی ہو گئی، تاہم اگلے پروگرام پر عبدالصمد یعقوب واپس آئے اور ارنب کے دعوؤں کو دہرایا۔ ’آپ نے یہی کہا تھا نہ کہ آئی ایس آئئ کے اہلکار سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر رکے ہیں؟ میرے ذرائع کے مطابق کابل کے سرینا ہوٹل کی صرف دو منزلیں ہیں۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل ہیں ہی نہیں۔‘ کہتے ہیں کہ صحافی کی قابلیت کا دارومدار اپنے ذرائع پر ہوتا ہے، جس کے ذرائع زیادہ قابل اعتماد ہوں وہ ہی کامیاب صحافی بن سکتا ہے۔ تاہم اس بار ایسے لگتا ہے کہ ارنب کے ذرائع نے انھیں دھوکہ دے دیا۔ اگرچہ یہ غلطی ارنب سے زیادہ ان کے کسی پروڈیوسر یا نامہ نگار کی تھی جس نے اپنے باس کو معلومات دینے سے قبل ان کی تصدیق نہیں کی تھی تاہم سوشل میڈیا پر صارفین نے ارنب کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور کئی دلچسپ اور مزاحیہ تبصرے دیکھنے کو ملے۔ علی رضا محفوظ نامی صارف نے بالی وڈ کی فلم ’گینگز آف واسے پور‘ سے انڈین اداکار نوازالدین صدیقی کی وہ تصویر شیئر کی جس میں وہ سگار سلگا کر اس کے نشے میں دھت رہنا پسند کرتے ہیں اور کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ اس تصویر کے ساتھ علی رضا نے کہا کہ ’یہ انٹیلیجنس ذرائع ہیں ارنب گوسوامی کے۔‘ ارنب گوسوامی یقینی طور پر اس طرح کی کوریج کو اپنانے والے پہلے شخص نہیں ہیں لیکن انھوں نے اس میں پہلے سے کہیں زیادہ غصیلہ اور جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ ان کا سخت لہجہ اکثر انڈین معاشرے میں حساس مذہبی تفریق پیدا کرتا ہے۔ ارنب گوسوامی نے اپنے جھگڑالو انداز میں کیے پروگراموں میں سے ایک میں کہا تھا ' آپ کو چاہے اچھا لگے یا برا لیکن آج (کورونا کے وبا) جن مشکل حالات سے یہ قوم گزر رہی ہے اگر اس کا کوئی ایک مجرم یا قصوار وار ہے تو وہ تبلیغی جماعت ہے۔' تاہم ریا چکرورتی نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن ان الزامات نے انڈین میڈیا پر ایک زن بیزار اور سخت نفرت آمیز کوریج کی لہر کو جنم دیا۔ ریپبلک ٹی وی نے سشانت سنگھ کو خودکشی پر ترغیب دینے کے الزامات پر ریا چکرورتی کے خلاف ایک مہم چلاتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا اور ٹی وی سکرین پر 'اریسٹ ریا ناؤ' یعنی 'ریا کو فوراً گرفتار کرو' کے ہیش ٹیگ بھی چلائے۔ وہ جو آج سکرین پر ہیں، اس سلسلے کی شروعات سنہ 2006 میں ہوئی جب انھوں نے ٹائمز ناؤ چینل میں شمولیت اختیار کی جس نے انھیں اپنے سب سے مرکزی چہرے کے طور پر پیش کیا۔ |
/urdu/pakistan-61488020 | مبینہ طور پر مارگلہ ہلز کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی شکایت پر خاتون ماڈل کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ | رعنا سعید خان کہتی ہیں کہ کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مارگلہ اسلام آباد میں آگ لگانے والی خاتون ماڈل کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی ہے۔ امید ہے کہ پولیس جلد ہی ان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی درخوست پر ضروری تفتیش کے بعد مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر مارگلہ کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی شکایت پر خاتون ماڈل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ کیپٹیل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے شعبہ ماحولیات کے اسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز الحسن نے پولیس کی دی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا علاقہ ہے۔ جہاں پچھلے کچھ دونوں میں آتشزدگی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ جس میں ایک وسیع رقبے پر پودوں،گھاس اور چرند پرند کو نقصاں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مبینہ طور پر خاتون ماڈل کی جانب جنگل میں آگ لگا کر بنائی جانے والی ٹک ٹاک وڈیو ایسی پہلی وڈیو نہیں ہے بلکہ اس وقت سوشل میڈیا پر کئی وڈیو وائرل ہوچکی ہیں۔ جس میں ٹک ٹاکر جنگل میں آگ لگا کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد کے مطابق خاتون ماڈل کے علاوہ اس طرح نیشنل پارک ایوبیہ مارگلہ اسلام آباد میں دو نوجوانوں کی تلاش ہے جنھوں نے جنگل میں آگ لگا کر وڈیو بنائی تھی۔ ملک کے باقی صوبوں سے بھی ایسی وڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔ ’اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں سے بھی اس طرح کی اطلاعات ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف چیخ رہے ہیں۔ اس بارے میں حکام کو بھی اطلاعات دی ہیں۔ مگر لگ رہا ہے کہ اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ایک دو کو نشان عبرت نہیں بنا دیا جاتا ہے۔ ‘ سعد اورنگ زیب جو کہ جنگلات اور پہاڑوں میں آگ لگانے کے واقعات کے خلاف سرگرم عمل ہیں کہتے ہیں کہ عموما جنگل اور پہاڑوں پر آگ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں یہ سوچ کر لگائی جاتی ہے کہ اس طرح اچھی گھاس حاصل ہوگئی مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ اس دفعہ پتا نہیں کیوں عید کے بعد سے ایسے واقعات شروع ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حوالے سے متعدد شکایات درج کروائی ہیں۔ مختلف اداروں سے رابطے کیے ہیں۔ کچھ لوگ اس جنگل پر اپنی مدد آپ کے تحت قابو پانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اس میں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹک ٹاکرز اور نوجوانوں کی جانب سے شوقیہ ویڈیوز کے لیے جنگلات میں آگے لگانے کی ویڈیوز وائرل ہونے لگیں تو سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ نوجوان فضول ویڈیوز کے لیے درختوں اور جانروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ |
/urdu/science-55375011 | پاکستان، زمبابوے اور میکسیکو جیسے کچھ ممالک کے لیے ویکسین کے حصول کی جنگ طویل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے۔ اب تک 189 ممالک ’کوویکس اِنیشی ایٹو‘ پر دستخط کر چکے ہیں۔ اس کوشش کا مقصد دنیا بھر کو ایک عالمی بلاک کی صورت میں متحد کرنا ہے تا کہ دوا ساز کمپنیوں سے سودے طے کرنا آسان ہوں۔ | کووڈ 19 کے خلاف سب سے پہلے ویکسین لگائے جانے والے لوگوں کی تصاویر نے پوری دنیا میں ہر ایک کو خوشی نہیں پہنچائی ہے۔ زمبابوے، میکسیکو اور پاکستان جیسے کچھ ممالک کے لیے ویکسین کے حصول کی جنگ طویل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے۔ اب تک 189 ممالک ’کوویکس اِنیشی ایٹو‘ پر دستخط کر چکے ہیں۔ ان ممالک نے صحت کے عالمی ادارے اور بین الاقوامی سطح پر ویکسین کی سپلائی کی حمایت کی ہے۔ اس کوشش کا مقصد دنیا بھر کو ایک عالمی بلاک کی صورت میں متحد کرنا ہے تا کہ دوا ساز کمپنیوں سے سودے طے کرنا آسان ہوں۔ ان ممالک میں سے 92 ایسے ہیں جو سارے کے سارے یا تو بہت کم آمدن یا کم آمدن والے ممالک ہیں۔ ان کے لیے ویکسین کی قیمت عطیات دینے والے ممالک ادا کریں گے۔ برطانیہ نے اس مقصد کے لیے بنائے جانے والے فنڈ میں پچاس کروڑ ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے۔ روس اور امریکہ ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس میں کوئی عطیہ نہیں دے رہے ہیں۔ باقی ممالک کوویکس کے ذریعے سے ویکسین خریدیں گے لیکن ممکن ہے کہ انھیں یہ اچھی قیمت پر دستیاب ہو جائے اگر انھوں نے اپنے لیے اچھی طرح سودے بازی کی۔ میکسیکو اس سکیم کا ایک بڑا حامی ہے اور وہ ویکیسنز اسی کے ذریعے خریدے گا۔ لیکن میکیسکو کے لیے ویکیسن کا سودا طے کرنے والی اعلیٰ عہدیدار مارتھا ڈلگاڈو جانتی ہیں 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین کے حصول سے کووِڈ-19 وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکا نہیں جا سکے گا۔ وہ دوسرے ذرائع سے بھی ویکیسن حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور اس کے حصول میں تاخیر کتنی زندگیوں کو موت کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آنے والے مہینے بہت نازک ہیں۔‘ وہ ویکسین جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں آسٹرا زینیکا کے اشتراک کے ساتھ تیار کی جا رہی ہیں اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو فروخت کرتے ہوئے کوئی منافع حاصل نہیں کرے گی۔ کوویکس کی کوششوں کا یہ ایک اہم پہلو ہے۔ لیکن اس ویکسین کی برطانیہ میں استعمال کی تاحال توثیق نہیں کی گئی ہے۔ اور کسی بھی ایک دوا ساز کمپنی کی اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کی پونے آٹھ ارب آبادی کے لیے یہ ویکسین چند مہینوں میں تیار کر سکے۔ عالمی ادارہ صحت نے کووِڈ ویکسین کے معاملے میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پر اپنے فیصلے کے اعلان کو ملتوی کردیا ہے۔ اس تجویز کو اس ادارے کے کئی ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے لیکن مغربی طاقتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اب تک دنیا کے اکثر ممالک کے لیے ویکیسن کا حصول ایک انتظار کا کھیل ہے۔ |
/urdu/sport-58128393 | پاکستان کے ارشد ندیم بھی اولمپکس میں کوئی بھی میڈل جیتنے کا 29 سالہ انتظار ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور فائنل ایونٹ میں پانچویں پوزیشن پر رہے جبکہ نیرج چوپڑا اس مقابلے میں طلائی تمغہ جیت کر انفرادی طور پر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے دوسرے انڈین بن گئے ہیں۔ | پاکستان کے ارشد ندیم بھی اولمپکس میں کوئی بھی میڈل جیتنے کا 29 سالہ پاکستانی انتظار ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انھوں نے جیولن تھرو کے فائنل ایونٹ میں مجموعی طور پر پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ یہ مقابلہ انڈیا کے نیرج چوپڑہ نے جیت کر انڈیا کے لیے نہ صرف ٹوکیو اولمپکس میں پہلا گولڈ میڈل جیتا بلکہ وہ انفرادی طور پر اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والے دوسرے انڈین بھی بن گئے ہیں۔ نیرج چوپڑا نے 87 اعشاریہ پانچ آٹھ میٹر دور جیولن پھینک کر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اس ایونٹ میں چاندی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے کھلاڑیوں کا تعلق جمہوریہ چیک سے ہے۔ چوپس سالہ ارشد ندیم اولمپکس میں تمغہ نہ جیتنے کا وہ جمود بھی نہ توڑ سکے جو 29 سال سے قائم تھا۔ پاکستان نے آخری مرتبہ اولمپکس میں تمغہ سنہ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں جیتا تھا جب ہاکی ٹیم شہباز احمد کی قیادت میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ ارشد ندیم نے بدھ کے روز ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ مقابلوں میں 85 اعشاریہ 16 میٹرز دور جیولن پھینک کر فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔وہ کوالیفائنگ مقابلوں میں گروپ بی میں پہلے نمبر پر رہے تھے جبکہ مجموعی طور پر کوالیفائنگ راؤنڈ میں ان کی تیسری پوزیشن رہی تھی۔ ارشد ندیم پہلے ہی نیا باب رقم کر چکے تھے کہ وہ پاکستان کے پہلے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے وائلڈ کارڈ انٹری یا انویٹیشن کوٹے کی بجائے اپنی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا تھا اور جب انھوں نے فائنل راؤنڈ میں جگہ بنائی تو یہ بھی پہلا موقع تھا کہ کوئی بھی پاکستانی ایتھلیٹ اولمپکس کے ٹریک اینڈ فیلڈ کے فائنل مقابلوں تک پہنچا ہو۔ پاکستان کی خاتون ایتھلیٹ صاحبِ اسریٰ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ارشد ندیم دوسرے ایتھلیٹس کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ارشد ندیم کی سب سے بڑی خوبی ان کی عاجزی ہے اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کے باوجود ان میں غرور نام کی چیز نہیں۔‘ سنہ 2019 کے ساؤتھ ایشیئن گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی صاحبِ اسریٰ کہتی ہیں ’ارشد ندیم نے ٹوکیو اولمپکس میں جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے مجھ میں بھی بے پناہ جوش پیدا ہوا ہے کہ میں بھی ان ہی کی طرح اولمپکس میں شرکت کا خواب حقیقت بنا سکوں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں بھی ان کی طرح وائلڈ کارڈ کے بجائے براہ راست کوالیفائی کرنا چاہتی ہوں۔‘ ملتان سے تعلق رکھنے والے صحافی ندیم قیصر پاکستان کی ایتھلیٹکس پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں ارشد ندیم کی کہانی دوسرے کھلاڑیوں کے لیے مثال ہے۔ |
/urdu/pakistan-57010092 | اسلام آباد میں برطانوی سفیر مارگلہ کی پہاڑیوں کے ہر جمعہ کچرا کیوں جمع کر رہے ہیں؟ | بالکل اسلام آباد میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر کی طرح۔ انھوں نے آج ٹویٹر پر مارگلہ کی پہاڑیوں میں اپنے مارننگ واک کی کچھ تصاویر شئیر کیں، اور رمضان کے مہینے میں سب کو یاد دلایا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے!‘ ہائی کمشنر صاحب اپنے مارننگ واک میں وہ کوڑا جمع کرتے ہیں جو لوگ وہاں پھینک جاتے ہیں۔ ان کی ٹائم لائن پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسا پہلی بار نہیں کیا۔ تیس اپریل کو بھی اسی طرح انھوں نے مارگلہ کی پہاڑیوں سے کچرے کے دو بڑے بیگ جمع کیے تھے، اور ساتھ ہی لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ’خوبصورت اسلام آباد کو صاف رکھیں۔‘ تب بھی اور آج بھی انھوں نے اپنی ٹویٹ میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت کو ٹیگ کیا ہے۔ تب بھی اور آج بھی ڈی سی کے دفتر اور حمزہ صاحب نے ان کے ٹویٹ کے جواب میں ’گریٹ‘ لکھا! ایک صارف نے ڈی سی صاحب کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا، ’سر، اس میں گریٹ کیا ہے؟ ایک غیر مسلم کا ہمیں اپنے ہی دین کے بارے میں سکھانا؟ یا پھر ایک سفیر کا ہمارے اپنے ہی قومی پارک کی صفائی کرنا؟‘ عمر آفتاب بٹ نے لکھا ’آپ نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہو گا، اس لیے امید ہے کہ آپ یہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ سفیر نے آپ کو ٹیگ کیوں کیا ہے؟‘ ’اشارہ: آپ کی تعریف کے لیے نہیں۔‘ جواد تبریز نے لکھا، ’دارالحکومت میں ایک اور شرمسار کر دینے والا دن۔ رمضان کا مہینہ، جمعۃ الوداع اور ایک متاثر کُن غیر ملکی سفیر جو ہمیں ایک بنیادی عہد یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔ پھر ایک بار!‘ جہاں کئی صارفین نے ڈی سی صاحب کے جواب پر تنقید کی، وہیں کئی نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ کام دراصل عام شہریوں کا بھی ہے اور عوام میں اس طرح کی عادات بچپن سے ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا، ’اوروں کا پھیلایا ہوا گند صاف کرنے کے لیے بہت شکریہ۔ پاکستان، اسلام آباد میں کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا بڑا مسئلہ ہے۔ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اور میرے خیال میں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی گھر پر اور سکولوں میں شہریوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتانا بہت اہم ہے۔‘ اس بات سے اتفاق نہ کرنا مشکل ہے کہ بچوں، بڑوں سب کو اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ صاف صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ تو کیا خیال ہے، اگلی بار جب ہم آپ کسی خوبصورت، پُرفضا مقام پر تفریح کے لیے جائیں، تو اپنا کوڑا ایک تھیلے میں ڈال کر واپس گھر لے آئیں؟ پکا؟ گریٹ! |
/urdu/pakistan-55123722 | آصفہ بھٹو زرداری اپنی بڑی بہن بختاور کے برعکس سیاسی معاملات پر زیادہ کھل کر بات کرتی ہیں اور اکثر انھیں بلاول کے بعد کی قیادت کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں مشکلات کیا ہوں گی؟ | پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری اس وقت تک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس یا عالمی فلاحی کاموں میں زیادہ سرگرم نظر آتی رہی ہیں لیکن اب انھیں باقاعدہ طور پر عوامی سیاست میں متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وہ بلاول اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات کو باقاعدگی کے ساتھ ری ٹویٹ کرتی ہیں اور کبھی کبھی سیاسی معاملات پر اپنے ردعمل کا بھی اظہار کرتی ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے 25 لاکھ فالوورز ہیں۔ خاص طور پر سول ملٹری تعلقات، سویلین اور پارلیمان کی بالادستی اور صوبائی خودمختاری پر وہ کھل کر بات کرتی ہیں۔ اپنی بڑی بہن بختاور کے برعکس آصفہ کی سیاسی اور سماجی امور میں دلچسپی زیادہ رہی ہے۔ ایک رکن اسمبلی کے بقول ان کی جانوروں کی حقوق، خواتین کی فلاح و بہبود میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی جب راولپنڈی میں ہلاکت ہوئی تو اس وقت آصفہ کی عمر 14 سال تھی۔ اس کے بعد وہ اکثر اپنے والد آصف علی زرداری کے ساتھ ہی نظر آتی ہیں، پھر گڑھی خدا بخش کا جلسہ عام ہو یا اسلام آباد میں عدالتی پیشی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ دیگر بچوں کی نسبت وہ اپنے والد سے زیادہ قریب ہیں۔ ’یقیناً ساری پارٹی، اس کے کارکنان اور قیادت موجود ہیں، لیکن بھٹو خاندان کا نام ایک بائنڈنگ فورس ہے۔ یہ نام ایک علامت ہے اور اس علامت کی نمائندگی کون کرے گا اس بات کا جواب پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دیا۔‘ آصفہ بھٹو زرداری سیاسی معاملات میں بھی اپنی الگ آواز رکھتی ہیں۔ کئی موقعوں پر بلاول بھٹو اور آصف زرداری کو آصفہ بھٹو کے اعتراض یا اختلاف کی وجہ سے اپنے فیصلے تک تبدیل کرنا پڑے ہیں۔ اسی لیے آصفہ بھٹو کو پہلا سٹیج یہاں ہی دستیاب ہوگا، جہاں انھوں نے اپنے اور پارٹی دونوں کے لیے سپیس حاصل کرنا ہے۔ اگر آصفہ کا سیاسی کردار مستقبل میں بڑھتا ہے تو ملک کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت خواتین کے ہاتھوں میں آ جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ وہ ’گرفتار ہوئے تو ان کی آواز آصفہ بنیں گی‘ یہ وہ بات ہے جو مستقبل میں ان کے مخالفین استعمال ضرور کریں گے لیکن پیپلز پارٹی کا اپنا جو ایک کلچر ہے، اس میں موروثیت کا عنصر ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنے گا۔ ’اگر پارٹی کی قیادت آصفہ بھٹو کے ہاتھ میں آئی تو انھیں دو طرح کے بوجھ کا سامنا ہو گا، ایک وہ جو ان کے والد سے جڑا ہے اور اب ان کے بڑے بھائی پر بننے والے مقدمات کا بوجھ۔ لیکن آصفہ بھٹو دلیر نظر آتی ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ سب کو حیران کر دیں۔‘ |
/urdu/world-60116100 | ایک شخص جنوبی افریقہ سے اڑنے والے جہاز کے پہیوں والے حصے میں چھپ کر ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر زندہ سلامت حکام کو مل گیا۔ | مفت سفر کرنے والے مسافر نے ایک کارگو یعنی مال بردار ہوائی جہاز کے اگلے پہیے کے خانے میں چھپ کر سفر کیا (یہ وہ جہاز نہیں ہے) ڈچ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ہوائی جہاز کے پہیے والے حصے میں چھپ کر جنوبی افریقہ سے ایمسٹرڈیم آنے والا ’سٹو اوے‘ مسافر 22 سالہ کینیائی شہری ہے۔ یہ جہاز جنوبی افریقہ سے ایمسٹرڈیم کے سکیِپال ایئرپورٹ پہنچا تھا۔ کینیائی شہری کا ارادہ نیدرلینڈز میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا ہے۔ یہ کارگو یا مال بردار پرواز جوہانسبرگ سے ایمسٹرڈیم کے لیے روانہ ہوئی تھی، اور 11 گھنٹے طویل یہ پرواز کچھ دیر کے لیے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں رکی تھی۔ اتنی لمبی پرواز پر اس طرح سے چھپ کر سفر کرنے والے مسافروں (سٹو اویز) کا زندہ بچ جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ بلندی پر سخت ٹھنڈ ہوتی ہے اور ہوا میں آکسیجن بھی کم ہوتی ہے۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں حکام کے مطابق وہ شخص جہاز کے اگلے پہیے کے خانے میں چھپا ہوا تھا جہاں سے اسے مستحکم حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔ فلائٹ ڈیٹا کے مطابق اتوار کے روز کارگولکس کی صرف ایک پرواز نیروبی رکتے ہوئے جوہانسبرگ سے سکیِپال پہنچی تھی۔ ڈچ پولیس یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا وہ جنوبی افریقہ سے چڑھا یا کینیا سے۔ وہ شخص جہاز راں کمپنی کارگولکس کی فلائٹ پر تھا جو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ سے چلی اور کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے ہوتی ہوئی ڈچ دارالحکومت پہنچی تھی۔ ڈچ فوج کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’توقع ہے کہ وہ نیدرلینڈز میں پناہ کی درخواست دے گا، لیکن اس وقت ترجیح اس کا طبی علاج ہے۔‘ ترجمان کا کا کہنا تھا کہ ان حالات میں ’زندہ بچ جانا انتہائی غیر معمولی بات ہے۔‘ ڈچ براڈکاسٹر ایس او ایس کے مطابق مذکورہ شخص کے جسم کا درجۂ حرارت ایئرپورٹ پر ہی بڑھایا گیا اور ایمبولنس کے پہنچنے تک اس کے حواس اس قدر بحال ہو چکے تھے کہ وہ بنیادی سوالوں کے جواب دے سکے۔ |
/urdu/regional-56343392 | گذشتہ روز جموں کے ایک گاؤں میں ایک طیارے کی شکل کا غبارہ گرا جس پر ’پی آئی اے‘ لکھا ہوا تھا۔ اس واقعے سے کئی لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت کی یاد تازہ ہو گئی جب سرجیکل سٹرائیک کے وقت موسم اور ریڈار کے متعلق بہت باتیں ہوئی تھیں۔ | ’باد مغرب‘ سے انگریزی کے معروف شاعر شیلی کی نظم ’اوڈ ٹو دی ویسٹ ونڈ'‘کا یاد آ جانا کوئی جائے حیرت نہیں اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کبھی آپ نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر پتنگ بنائی ہو اور تیز ہوا میں اڑائی بھی ہو اور شیلی کی نظم کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہو اور آپ کے پسندیدہ گیتوں میں فلم بھابھی کا گیت ’چلی چلی رے پتنگ میری چلی رے‘ شامل ہو۔ (نظم کا ایک بند اس کہانی کے آخر میں پیش کیا جا رہا ہے) بہر حال بغیر کسی تمہید کے یہ بتا دوں کہ انڈیا کے خبررساں ادارے اے این آئی کی ایک ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ گذشتہ روز انڈیا کے زیر انتظام جموں کے ضلع کٹھوا میں ہیرانگر سیکٹر کے سوترا چک گاؤں میں ایک طیارے کی شکل کا غبارہ گرا جس پر پی آئی اے لکھا ہوا تھا۔ جموں کشمیر پولیس نے بتایا کہ اس غبارے کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بابت شوخ و ترش جملے بازیوں سے پہلے یہ بتا دیں کہ اس خبر کے ساتھ ہی مجھے دلیپ کمار کی فلم ’اڑن کھٹولہ‘ یاد آ گئی جس میں ایک طیارہ ایک گاؤں کے گرد چکر کاٹتا ہے اور پھر وہاں گر کر تباہ ہو جاتا ہے جبکہ اس سے قبل چند گاؤں کی گوریاں گیت کے ساتھ محو رقص بھی ہوتی ہیں۔ اس خبر میں اتنا رومان تو نہیں البتہ یہ خیال گزرتا ہے کہ کسی نے تیز ہوا کو دیکھتے ہوئے اپنی پرواز کی چاہت میں اس پر تحریر پی آئی اے والا غبارہ اڑایا ہوگا۔ پی آئی اے سے یاد آیا کہ جب انڈیا، پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ہوتا تھا تو کمنٹری کے دوران اشتہار کے طور پر پی آئی اے کا اشتہار بھی آتا تھا جس میں یہ کہا جاتا تھا کہ ’پی آئی اے کے ساتھ سفر اپنوں کے ساتھ سفر‘ لیکن اب انڈیا اور پاکستان میں اتنی دوریاں ہو گئی ہیں کہ ایک غبارہ سراسیمگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ انڈیا کے جس علاقے میں یہ ’طیارہ‘ گرا وہاں موجودہ صورت حال میں سراسیمگی ضرور پھیل گئی ہو گی۔ ہرچند کہ سرحد پر جنگ بندی کا پھر سے اعلان کیا گیا ہے اور دونوں جانب سے سنہ 2003 کے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کا اعادہ کیا گیا ہے تاہم تاریخ کے پیش نظر اس سیکٹر کے لوگوں کو یہ غبارہ کسی آسمانی بلا سے کم نہیں لگا ہوگا۔ اب یہ مذاق اس کہانی کی یاد تازہ کر سکتا ہے جس میں سرجیکل سٹرائیک کے وقت موسم اور ریڈار کے متعلق بہت باتیں ہوئی تھیں۔ |
/urdu/science-57546045 | گذشتہ روز پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’دنیا کی پہلی کرکٹ این ایف ٹی مارکیٹ‘ متعارف کرانے جا رہے ہیں اور جو شخص یہ این ایف ٹی خریدے گا وہ آن لائن مواد جیسے 'اوریجنل' تصاویر یا ویڈیوز کا اصل مالک تصور کیا جائے گا۔ | گذشتہ روز پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’دنیا کی پہلی کرکٹ این ایف ٹی مارکیٹ‘ متعارف کرانے جا رہے ہیں اور جلد ان کے این ایف ٹیز کی نیلامی ہو گی۔ یعنی جو شخص یہ این ایف ٹی خریدے گا وہ آن لائن مواد جیسے 'اوریجنل' تصاویر یا ویڈیوز کا اصل مالک تصور کیا جائے گا۔ شعیب اختر کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب پاکستان کے بہترین کرکٹرز میں سے ایک وسیم اکرم 24 جون سے اپنے این ایف ٹیز کی نیلامی کر رہے ہیں۔ دراصل ان کے پیچھے ٹینپ اور بائنانس جیسی کمپنیاں ہیں جو کرکٹ فینز کے ذریعے ڈیجیٹل آرٹ اور آن لائن مواد کی این ایف ٹی میں خرید و فروخت کو پاکستان میں بھی متعارف کرانا چاہتی ہیں۔ این ایف ٹی سے مراد نان فنجیبل ٹوکن ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ہے جو کہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی تصویر، ویڈیو یا دیگر قسم کے آن لائن مواد کا اصل مالک کون ہے۔ این ایف ٹی میں جاری ہونے والے ڈیجیٹل ٹوکن یا سرٹیفیکیٹ کے ذریعے یہ پتا چل سکتا ہے کہ کسی آن لائن اثاثے کا اصل مالک کون ہے۔ اسی طرح ہم ٹھوس حالت میں پائے جانے والے اثاثوں کے لیے بھی این ایف ٹی جاری کر سکتے ہیں جو اس کے اصل ہونے کی دلیل دیتا ہے۔ ہانگ کانگ میں پرائیویٹ ایکویٹی فرم اوسیرس گروپ میں پارٹنر سردار احمد درانی کا خیال ہے کہ این ایف ٹی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ڈیجیٹل آرٹ (تصاویر، ویڈیوز یا دیگر آن لائن مواد) کی نقل تیار نہ ہوسکے اور اس میں تحریف نہ ہوسکے۔ یہ ایک قسم کی ڈیجیٹل آئی پی (انٹیلیکچوئل پراپرٹی) ہے۔ سردار درانی کے مطابق ڈیجیٹل اثاثوں اور آن لائن مواد کو این ایف ٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ اصل مالکان یا فنکار اپنا کام اور اس کے جملۂ حقوق محفوظ رکھ سکیں۔ اس سوال پر کہ آیا پاکستانی شہری این ایف ٹیز خریدنے یا بیچنے پر منافع کما سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہی سوال ہے جیسے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں یا نہیں، جس کا تعین اس بات پر منحصر ہے کہ شیئرز کی قیمت کیا ہے اور اس کے اوپر یا نیچے جانے کے کتنے امکانات ہیں۔ پاکستانی معاشی امور پر بلاگ چلانے والے ٹوئٹر صارف عزیر یونس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اکثر کہتے ہیں کہ پی سی بی کو سعید انور کی 194 رنز کی اننگز، شعیب اختر کے کلکتہ میں کرائے گئے یارکرز اور 36 گیندوں میں آفریدی کی سنچری کے این ایف ٹیز بننے چاہییں۔ |
/urdu/pakistan-56363253 | سنہ 1977 میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات اور 2021 کے سینیٹ انتخاب کے درمیان ممکن ہے کہ کوئی ایک بھی قدر مشترک نہ ہو لیکن ایک چیز ایسی ہے جس نے 44 برس کے طویل فاصلے کو چشم زدن میں ختم کر دیا اور وہ ہے ایک ریگولیٹر کی حیثیت سے روایتی طور پر اختیار کی جانے والی خاموشی کا خاتمہ۔ | سنہ 1977 میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات اور 2021 کے سینیٹ کے انتخاب کے درمیان ممکن ہے کہ کوئی ایک بھی قدر مشترک نہ ہو لیکن ایک چیز ایسی ہے جس نے 44 برس کے طویل فاصلے کو چشم زدن میں ختم کر دیا اور وہ ہے ایک ریگولیٹر کی حیثیت سے روایتی طور پر اختیار کی جانے والی خاموشی کا خاتمہ۔ اس زمانے کے حالات کے مطابق یہ طویل سفر حکمران کے لیے اس طرح عافیت کا باعث بن جاتا کہ اول تو حج پر جانے والا بزرگ برسوں کے طویل سفر کی صعوبتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسی دوران اللہ کو پیارا ہو جاتا یا خوش قسمتی سے اگر واپس بھی پلٹ آتا تو اس دوران میں ظل سبحانی اپنا اقتدار مضبوط کر چکے ہوتے۔ اسی آزمودہ فارمولے سے استفادہ کرتے ہوئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بیان میں کہا: ’چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کو طبی معائنے کے لیے بیرون ملک جانے کی فوری طور پر اجازت دے دی گئی ہے اور وہ اس مقصد کے لیے امریکا جا رہے ہیں۔‘ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے اختیار کیے گئے اس جرات مندانہ طرز عمل کے جواب میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کی گئی لیکن وزیراعظم نے جب ایک پریس کانفرنس میں ان کی علالت کا انکشاف کیا اور انھیں فوری طور پر رخصت پر بھیجنے کی بات کی تو اس سے دباؤ والے نظریے کو تقویت ملی۔ کراچی اور حیدر آباد میں کرفیو کی خلاف ورزی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ ملتان میں لوگوں نے پولیس کے مقابلے میں مورچہ بندی کر لی جب کہ پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو اس کے نتیجے میں عوام نے بینکوں سے رقوم نکلوا لیں، لازمی خدمات کے بل جمع کرانے سے انکار کر دیا گیا اور اس کے علاوہ لوگوں نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والی ریل گاڑیوں پر بلا ٹکٹ سفر شروع کر دیا۔ اس سال ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اور خاص طور پر سینیٹ الیکشن کے بعد حکومت کے سربراہ عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان بیان بازی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ سنہ 1977 کے ان ہی پر آشوب دنوں کی یاد دلاتا ہے جو کشیدگی سے شروع ہو کر مکمل انہدام تک جا پہنچے تھے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر وزیر اعظم کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کے موقع پر تند وتیز تقریر کا پیغام سمجھنے کی کوشش کی جائے تو سنہ 1977 کے واقعات کی یاد تازہ ہونے کے علاوہ یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ اس طرز عمل کے نتیجے میں کوئی چاہے یا نہ چاہے، الیکشن کمیشن جیسے قومی ادارے کے متنازع بننے کی راہ ہموار ہو گی۔ الزامات اور بے رحمانہ تنقید کے اس ماحول میں 2021 کا الیکشن کمیشن بھی زبان کھولنے پر مجبور ہوا ہے اور اس نے سینیٹ کے انتخابات کے ضمن میں حکمران جماعت کے مؤقف کے تضادات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ |
/urdu/world-56525955 | مصر کی نہر سوئز کو گذشتہ منگل سے بلاک کرنے والے دیو ہیکل مال بردار بحری جہاز کے جاپانی مالک نے اس کے باعث عالمی تجارت میں پیدا ہونے والے خلل پر معذرت کر لی ہے۔ تقریباً 150 بحری جہاز اس انتہائی اہم گزرگاہ میں موجود اس وقت قطار میں لگے اس بحری جہاز کے نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ | مصر کی نہر سوئز کو گذشتہ منگل سے بلاک کرنے والے دیو ہیکل مال بردار بحری جہاز کے جاپانی مالک نے اس کے باعث عالمی تجارت میں پیدا ہونے والے خلل پر معذرت کر لی ہے۔ اس مال بردار جہاز کے مالک شوئی کسین کائیشا کا کہنا تھا کہ بحری جہاز 'ایور گیون' کو اس صورتحال سے نکالنا 'انتہائی مشکل' ثابت ہو رہا ہے لیکن وہ اس کا 'حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔' منگل کے روز چین سے نیدرلینڈز کے شہر راٹرڈیم جانے والا یہ چار سو میٹر لمبا بحری جہاز تیز ہواؤں کے باعث توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا جو نہر کو بلاک کرنے کا سبب بنا۔ تقریباً 150 بحری جہاز اس انتہائی اہم گزرگاہ میں موجود اس وقت قطار میں لگے اس بحری جہاز کے نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ نہر سوئز بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے اور وہ ایشیا کو یورپ سے ملانے کا سب سے تیز سمندری راستہ ہے۔ ڈیڑھ سو سال قبل بنائی جانے والی سوئز کنال 193 کلو میٹر طویل اور اس کی چوڑائی 205 میٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ عالمی بحری تجارت کا 12 فیصد حصہ اس نہر سے گزرتا ہے۔ ایک ریسکیو کمپنی کے سربراہ نے، جو اس آپریشن میں معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں، خبردار کیا ہے کہ اسے نہر سوئز سے نکالنے میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں اور اس پر سے کنٹینر ہٹا کر اس کا وزن کم کرنا پڑے گا۔ بوسکالیز نامی کمپنی کے سربراہ پیٹر برڈوسکی نے نیدرلینڈز کے ایک ٹی وی سٹیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اس کام میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ ساحل پر پڑی ایک دیوہیکل وہیل کے جیسی ہے۔ جیسے ریت پر بہت زیادہ وزن پڑا ہو۔ ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے متعدد طریقے اپنانے ہوں گے، شاید اس پر موجود کنٹینر، تیل اور پانی اتار کر اس کا وزن کم کرنے، کشتیوں کے بیڑوں کی مدد سے اس کی سمت تبدیل کرنے اور نہر تلے موجود ریت کو نکالنے جیسے طریقے آزمانے پڑیں۔' ایورگیون کا وزن دو لاکھ ٹن کے قریب ہے اور اس بحری جہاز کی رجسٹریشن پانامہ میں ہوئی ہے جبکہ اسے ایک تائیوانی ٹرانسپورٹ کمپنی ایورگرین مرین آپریٹ کرتی ہے۔ منگل کے روز یہ بحری جہاز بندرگاہ کے شمال میں نہر سوئز سے گزرتے ہوئے بحیرہ روم کی جانب گامزن تھا جب جہاز مقامی وقت کے مطابق صبح 7.40 پر تکنیکی خرابی کی وجہ سے اپنے توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سوئز کنال میں کوئی بحری جہاز پھنسا ہو۔ 2017 میں ایک جاپانی جہاز وہاں پھنس گیا تھا تاہم اس چند گھنٹوں میں نکال لیا گیا تھا۔ |
/urdu/vert-fut-59281651 | گذشتہ ماہ ندیم بھائی نے مشہور کردیا کہ دبئی کے بادشاہ نے انھیں ہنگامی صلاح مشورے کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔ پھر ندیم بھائی ہفتے بھر کے لیے غائب ہو گئے۔ | یہ وہ باریکیاں ہیں جنھیں پوچھ کر نہ تو ندیم بھائی کو مشکل میں ڈالنا چاہیے اور نہ ان کے اس دعوے کو چیلنج کرنا چاہیے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلوانے میں آپ کے بھائی نے پسِ پردہ کیا کردار ادا کیا اور اندرونِ سندھ دو قبیلوں کے درمیان برسوں پرانی دشمنی آپ کے بھائی کے ایک فون پر کیسے ختم ہو گئی۔ بس بغیر دلیل و حجت تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس گلی سے لے کے واشنگٹن تک جو بھی اچھا ہو رہا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ندیم بھائی ضرور ہیں۔ بس یار آپ کے ندیم بھائی کا لوگ مان رکھ لیتے ہیں ورنہ بھائی کی کیا حیثیت ہے۔ کئی کمینے ندیم بھائی کی کسی بھی کریڈٹ سے انکار نہ کرنے کی کمزوری بھانپ کر اسے اپنے مطلب کے لیے بھی خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ ندیم بھائی ذرا موٹرسائیکل دینا بہن کو کالج چھوڑ کر آتا ہوں۔ ندیم بھائی ابا بیمار ہیں ذرا کیمسٹ سے دوا تو لے دو۔ اور کیمسٹ ندیم بھائی کے کھاتے میں حساب لکھ دیتا ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ خود ندیم بھائی کی اپنی زندگی بڑی کڑکی میں گزر رہی ہے۔ ان کے کچھ بچپن کے دوست ہیں جو اب بیرونِ ملک ہیں اور وہ ندیم بھائی کی وضع داری قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے ہیں۔ اس محسن کی وجہ سے درمیانے درجے کے دو چار افسروں سے بھی ندیم بھائی کی دعا سلام ہے۔ باقی کہانی ندیم بھائی نے رفتہ رفتہ خود اپنے منہ سے یہ کہہ کے بڑھا لی کہ بس یار مالک کا کرم ہے کہ گورنر سے لے کر چیف سیکرٹری اور چین کے سفیر سے اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل تک کوئی بھی آپ کے بھائی کی بات نہیں ٹالتا۔ گذشتہ ماہ ندیم بھائی نے مشہور کردیا کہ دبئی کے بادشاہ نے انھیں ہنگامی صلاح مشورے کرنے کے لیے طلب کیا ہے۔ پھر ندیم بھائی ہفتے بھر کے لیے غائب ہو گئے۔ خانیوال میں رہنے والے ایک مشترکہ دوست نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ندیم بھائی سے بہت دنوں بعد اچانک ملاقات ہوئی۔ بہت مزہ آیا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ ندیم بھائی تو دبئی کا کہہ کے نکلے تھے۔ پھر ندیم بھائی ایک دن نمودار ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہاں غائب تھے؟ ارے تمھیں بتایا تو تھا کہ دبئی کے بادشاہ نے صلاح مشورے کے لیے بلایا ہے۔ وہ دو ارب ڈالر یہاں انویسٹ کرنا چاہ رہا ہے۔ آپ کے بھائی نے اسے کہا دوست یہ کام تو ایک ارب میں ہی ہو جائے گا۔ کاہے کو فالتو پیسے ضائع کرتے ہو۔ تب سے وہ آپ کے بھائی کا مرید چل رہا ہے۔ ان دنوں ندیم بھائی پھر غائب ہیں۔ رمضان ملک شاپ والے کو بتا کر گئے ہیں کہ یار افغانستان کے پھنسے ہوئے پیسے امریکہ سے چھڑوانے جا رہا ہوں۔ بس دعا کرنا آپ کے بھائی کی عزت رہ جائے۔ |
/urdu/science-57576758 | کئی شدید علیل مریضوں کی حالت میں موت سے پہلے بہتری کے رجحان کو بیان کرنے کے لیے مختلف زبانوں اور زمانوں میں اصطلاحات موجود ہیں تاہم یہ ایسی بات ہے جو سائنس کے لیے ابھی تک نا قابل فہم ہے۔ | اس طرح کے رجحان کو بیان کرنے کے لیے مختلف زبانوں اور زمانوں میں مختلف اصطلاحات سامنے آئیں تاہم یہ سائنس کے لیے آج تک ناقابل بیان موضوع ہے۔ اسے موت سے قبل بہتری، آخری الوداع، موت سے پہلے روشن ہونا، زندگی کا خاتمہ، صحت کا دورہ، الوداعی بہتری، استقامت کی اقساط، متضاد نرمی، ٹرمینل نرمی یا چینی زبان میں سورج کی آخری کرن کہا گیا۔ مثال کے طور پر سانس کی شدید بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں مریض کو ایسی بہتری لانے کا موقع ملنے سے پہلے ہی تناؤ کے ہارمون کی کھپت ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن کچھ مریض جن کے پاس یہ ذخیرہ ہے وہ اس جسمانی آلے کا استعمال کر سکتے ہیں۔' ایک اور بات یہ ہے کہ زندگی کے اس مرحلے پر لوگوں پر تجربات (چاہے وہ ناگوار ہوں یا نہیں) ان کی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں یا لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ اس اہم لمحے کا تجربہ کرنے سے بھی روک سکتے ہیں۔ اگر سائنس دان ان رکاوٹوں کا حل تلاش کرسکتے ہیں تو اس کے لیے کئی ممکنہ راستے موجود ہیں، جدید ڈیمینشیا کے مریضوں میں لیوسڈیٹی کے دورانیے کو سمجھنے کے لیے مطالعے کو سپانسر کرنے والے امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ایجنگ (این آئی اے) کے مطابق یہ مرنے سے پہلے ہونا ضروری نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف ساؤ پالو کے ڈاکٹر فرنینڈس کہتے ہیں 'یہ حقیقت یہ ہے کہ وہ قابل ذکر کہانیاں ہیں اور ہماری یادداشت میں ان کی تعداد کو ہم زیادہ حد تک بڑھاوا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہمیں یہ تاثر بھی حاصل ہوتا ہے کہ حقیقت کے برعکس یہ کہیں زیادہ ہیں۔ اور شاید اس کی وضاحت بھی ہوسکتی ہے۔ شاید وہ خوشگوار واقعات ہوں جن کو ہم آسانی سے معمول کے واقعات میں بدل دیتے ہیں۔ ' 'کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب مریض بہتر ہوتا ہے اور دوسرے دن جب اس کی حالت خراب ہوتی ہے۔ اور یہ اتفاقی طور پر بے ترتیب طور پر، مرنے سے پہلے حالت میں کسی طرح کی بہتری ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق ان کےشعبے میں بھی موت سے پہلے اچانک بہتری کے واقعات کی تعداد بہت کم ہے اور اسی وجہ سے ان کی نظر میں اس امر کی وجوہ اور اثرات میں تعلق سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا 'جب مجھے اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں تکنیکی وضاحتیں موجود نہیں ہوتی ہیں تو میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ خاندان کے لیے اس کے کیا معنی ہیں اور اس تجربے سے اس تکلیف سے نمٹنے میں کس طرح مدد مل سکتی ہے۔' |
/urdu/pakistan-49828415 | ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے ملک بھر میں کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ زین ٹیک سمیت خام مال ’رانیٹیڈائن‘ سے تیار کی جانے والی ادویات کی فروخت روک دیں۔ | ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے ملک بھر کی دوا ساز کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ زینٹیک سمیت خام مال ’رانیٹیڈائن‘ سے تیار کی جانے والی ادویات کی فروخت روک دیں۔ ڈاکٹر ابتہاج علی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ الرٹ اسی کیمیکل کے حوالے سے جاری کیا گیا ہے۔ تاہم کافی عرصے سے اس پر تحقیق کی جاری ہے کیونکہ یہ پہلے بھی کچھ ادویات میں پایا گیا ہے۔ ’اگر آلودہ کیمیکل کی مقدار جسم میں بڑھ جائے تو وہ کینسر بنا سکتا ہے۔ ایف ڈی اے کی طرف سے کی جانے والی تحقیق میں زین ٹیک میں آلودہ کیمیکل کی مقدار زیادہ پائی گئی جس کے باعث اس کے استعمال کو روکا گیا ہے۔‘ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کی جانے والی دوائیوں کی فہرست میں زین ٹیک 50ویں نمبر پر آتی ہے تاہم ایف ڈی اے نے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے استعمال نہ کریں۔ ڈاکٹر سلمان کاظمی نے بی بی سی کو بتایا ’ایف ڈی اے‘ کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے اور میڈیکل کے شبعے میں زیادہ تر ہونے والی تحقیقات یا تو ان کی جانب سے کی جاتی ہیں یا پھر یورپین میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ ڈریپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عاصم رؤف نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈریپ نے مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ایسی دوائیاں جن میں این-نائٹروسوڈیمیتھیلایمین کا استعمال ہوتا ہے، اس کی فروخت روکنے کے لیے انتباہ جاری کیا ہے اور مینوفیکچرنگ کرنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کو خط لکھے گئے ہیں۔ چیئرمین پاکستان ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن محمد عثمان کے مطابق ’زین ٹیک میں استعمال ہونے والا خام مال 80 کی دہائی میں پاکستان میں تیار کیا جاتا تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈریپ کی طرف سے فارمسیز اور مینوفیکچرز کو خبردار کرنے کے لیے یہ نوٹس دیا گیا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں جب بھی کسی دوائی کو روکنے کے لیے نوٹس جاری ہوتا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے اخباروں اور ٹیلی ویژن پر اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو دوائی کے استعمال پر ہدایات جاری ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں کیا گیا۔ محمد عثمان نے مزید بتایا کہ زین ٹیک کے متبادل بہت سی اور ادویات جیسا کہ ’رائیزک‘ یا پھر ’سماٹیڈین‘ جیسی دوائیاں مارکیٹ میں موجود ہیں جو کم قیمت میں معدے کی تیزابیت اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے زین ٹیک کی فروخت بند ہونے سے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ’تاہم ڈریپ کو چاہیے کہ دوسرے مالکوں سے آنے والے ادویات کے خام مال، خصوصًا انڈیا اور چین سے درآمد شدہ خام مل کی جانچ کے بعد ہی اسے فارما کمپنیوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ |
/urdu/pakistan-51516831 | وفاقی وزیر داخلہ برگیڈیئر اعجاز شاہ نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار ہونے سے متعلق خبروں کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ | پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے ملک سے فرار ہونے سے متعلق خبروں کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ریاستی ادارے اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں اور ان تمام واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں جن کی بنا پر احسان اللہ احسان ملک سے فرار ہوئے ہیں۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ احسان اللہ احسان کے بارے میں قوم کو جلد خوشخبری ملے گی۔ یاد رہے کہ احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی حراست سے فرار ہونے کے دعوے کے فوری بعد میں جب وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اس سے پہلے سرکاری سطح پر احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کے خبر کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام جس میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس پر بی بی سی نے جب رد عمل کے لیے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تو فوجی ذرائع نے اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ احسان اللہ احسان کے بارے میں قوم کو جلد خوشخبری ملے گی واضح رہے کہ احسان اللہ احسان فوج کی تحویل میں تھے اور فوجی حکام کے مطابق کالعدم تنظیم کے ترجمان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا تھا۔ احسان اللہ احسان کے سکیورٹی فورسز کی تحویل سے فرار ہونے کے بارے میں پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف مقدمات درج کرنے پر توجہ دے رہی ہے جبکہ ’احسان اللہ احسان جو کہ ایک مبینہ شدت پسند ہے وہ ریاستی اداروں کی تحویل سے فرار ہو گیا ہے۔‘ یاد رہے کہ احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی حراست سے فرار ہونے کے دعوے کے فوری بعد میں جب وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ جب ان سے احسان اللہ احسان کے پاکستان کی تحویل میں ہونے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے علم میں نہیں کہ ادھر ہے کہ نہیں ہے۔‘ |
/urdu/pakistan-48675405 | مومن ثاقب نے ڈرامائی انداز میں پاکستان ٹیم کی ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے طنز کیا کہ ’کل رات پتا چلا ہے کہ ٹیم برگر اور پیزے کھاتی رہی‘ لہٰذا انھیں کرکٹ چھوڑ کر ’دنگل‘ میں حصہ لینا چاہیے۔ | ایسے ہی ایک کرکٹ فین مومن ثاقب ہیں۔ میچ کے فوراً بعد ایک صحافی نے ان سے انٹرویو لینا چاہا تو انھوں نے اپنے منفرد اور مزاحیہ اندازِ بیان سے انڈیا اور پاکستان دونوں میں سوشل میڈیا صارفین کے دل جیت لیے۔ انٹرویو کی ویڈیو، جو کہ پاکستانی چینل دنیا نیوز پر نشر ہوئی، میں مومن جذباتی انداز میں کہتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک میں روٹی پانی کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کی کرکٹ کی طرح کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں اور وہ خوشیاں بھی پاکستانی ٹیم نے ان سے چھین لی ہیں۔ انھوں نے ڈرامائی انداز میں پاکستان ٹیم کی لیک ہونے والی ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے طنز کیا کہ ’کل رات پتا چلا ہے کہ ٹیم برگر اور پیزے کھاتی رہی‘ لہٰذا انھیں کرکٹ چھوڑ کر ’دنگل‘ میں حصہ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ’اتنے دکھ بھرے ہوئے تھے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں! میرے کیا پورے پاکستان کے یہی حالات اور جذبات تھے۔‘ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ انٹرویو پہلے سے طےشدہ یعنی ’سکرپٹڈ‘ تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ مومن اس چینل میں ملازمت بھی کرتے ہیں جہاں ان کا انٹرویو نشر ہوا۔ تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دنیا نیوز کے ذرائع نے اس بات کی تردید کی۔ اپنے فی البدیہہ انداز اور حاضر دماغی کے بارے میں مومن کا کہنا ہے: ’یہ تب ہوتا ہے جب آپ جیسے اندر سے ہوتے ہیں ویسے ہی باہر سے ہوتے ہوں۔ لیکن جب آپ کچھ بننے کی کوشش کر رہے ہوں، کسی کی نقل اتارنے کی کوشش کر رہے ہوں تو وہ حاضر دماغی نہیں رہتی، انسان کنفیوز ہو جاتا ہے۔ جب آپ اپنے اصلی جذبات کا نقشہ کھینچیں گے تو حاضر دماغی خود بخود آ جائے گی۔‘ انھوں نے بتایا کہ انھیں نہیں پتا تھا کہ وہ انڈیا میں ’ڈبل وائرل‘ ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا میں لوگ ان کی ویڈیو سے یقیناً اس لیے لطف اندوز ہو رہے ہیں کیونکہ پاکستان میچ ہار گیا، لیکن انھیں ایسے بہت سے انڈینز کے پیغامات آئے جنھوں نے حوصلہ اور پیار دیا۔ انھوں نے پاکستان اور انڈین شائقین سے اپیل کی کہ ’جذبات میں آ کر گالی گلوچ کرنا یا نازیبا الفاظ استعمال کرنا غلط ہے۔ سب سے پہلے ہمیں کرکٹ سپورٹرز کو اس سے دور کرنا ہو گا اور تنقید مثبت ہونی چاہیے۔ اپنا غصہ اور دکھ اس انداز میں نکالیں کہ آئندہ بہتری آئے۔‘ پاکستانی ٹیم کی سپورٹ کے سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ مرتے دم تک ان کی حمایت کریں گے اور جہاں وہ غلط ہوں گے وہاں وہ ان غلطیوں کی نشاندہی کریں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے پاکستانی ٹیم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ عوام ان سے بہت پیار کرتے ہیں وہ بھی ان سے اتنی ہی محبت کریں۔ |
/urdu/regional-54477720 | جب لوگوں نے ویڈیو میں 80 برس کے بابا کا دکھڑا سنا جس میں وہ دھاڑیں مار کر رو کر بتا رہا ہوتا ہے کہ کیسے کورونا وبا کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے تو اس کے بعد اب اس ڈھابے کے باہر کھانا کھانے والوں کی قطاریں بنی نظر آ رہی ہیں۔ | ان لوگوں نے جب ویڈیو میں 80 برس کے بابا کا دکھڑا سنا جس میں وہ چلا کر بتاتے ہیں کہ کیسے کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے تو پھر اس کے بعد اب اس ڈھابے کے باہر کھانا کھانے والوں کی قطاریں بنی نظر آ رہی ہیں۔ بابا نے ایک فوڈ بلاگر کو انٹرویو میں بتایا کہ وہ ان کی اہلیہ گذشتہ 30 سال سے اس ڈھابے سے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا اس حوالے سے بھی بہت خطرناک ثابت ہوئی کہ اس سے ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ پرساد بابا اس ویڈیو میں اپنی طویل جدوجہد کے بارے میں بتاتے ہوئے چلا کر بتاتے ہیں۔ انھوں نے وہ پکوان بھی دکھائے جو وہ اس ڈھابے سے لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ جب انٹرویو میں ان سے پوچھا جا رہا ہوتا ہے کہ انھوں نے اب تک کتنے پیسے بنا لیے ہیں تو وہ دس دس روپے کے کچھ کرنسی نوٹ دکھا کر زاروقطار رونا شروع کر دیتے ہیں۔ فوڈ بلاگر گوراو واسان نے بدھ کو انسٹا گرام پر اس کا ایک کلپ شیئر کیا جو اتنی جلدی وائرل ہوا کہ پھر یہ ٹوئٹر تک پہنچ گیا۔ ایک خاتون نے اسے ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے کہا اس ویڈیو سے اس کا دل مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔ انھوں نے دلی میں بسنے والوں سے بابا کے ڈھابہ جانے کی درخواست کر ڈالی تاکہ اس سے بابا اور ان کی اہلیہ کا کاروبار بہتر ہو سکے۔ جمعرات کی شام کو کھانا ڈیلیوری والی ایپ زماٹو نے یہ اعلان کیا کہ بابا کا ڈھابہ اب ان کی ایپ پر درج کر دیا گیا ہے۔ ایپ نے لوگوں کو یہاں تک کہا کہ اگر وہ کسی اور ایسے ہی ڈھابے کے بارے میں جانتے ہیں تو مطلع کریں تاکہ ان کے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی جا سکے۔ عام لوگ اس ڈھابے سے آ کر کھانا کھاتے ہیں۔ پرساد بابا کے مطابق وبا کے دنوں میں جب کاروبار متاثر ہوا تو ان کے پاس گھر میں اپنے لیے بھی کھانا بنانے کی پیسے ختم ہو گئے تھے۔ مگر جب سے ان کی دکھ بھری ویڈیو وائرل ہوئی تو اس وقت سے کھانا کھانے والوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس ڈھابے کا رخ کرتا نظر آتا ہے۔ فوڈ بلاگر واسان نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ وہ اتفاق سے بابا کے ڈھابہ تک پہنچے۔ انھوں نے اپنے نقصان کے بارے میں انھیں بتایا۔ اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اپنے فالورز کے ساتھ شیئر کر دی۔ پرساد بابا نے اے این آئی کو بتایا کہ فوڈ بلاگر کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کے ڈھابے کا رخ کیا ہے۔ ان کے مطابق ’کل یہاں سیل نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ آج مجھے ایسا لگتا ہے کہ سارا انڈیا ہی میرے ساتھ ہے۔‘ |
/urdu/entertainment-49188067 | بالی وڈ کے ڈائریکٹر اور پرڈیوسر کرن جوہر کے گھر میں منعقد کی گئی ایک پارٹی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں کئی بالی وڈ سٹارز کو مبینہ طور پر نشے کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ | کرن جوہر سمیت ویڈیو میں نظر آنے والے کسی بھی سٹار نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا حال ہی میں بالی وڈ کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کرن جوہر کے گھر میں منعقد کی گئی ایک پارٹی کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں کئی بالی وڈ سٹارز کو مبینہ طور پر نشے کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں دپیکا پدوکون، رنبیر کپور، ارجن کپور، ملائکہ اروڑہ اور شاہد کپور سمیت انڈین فلم انڈسٹری کے کئی چہروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو کرن جوہر نے اپنے ذاتی انسٹاگرام اکاؤنٹ سے شیئر کی جس کو بعد میں انڈیا کے رکن اسمبلی مجندر سرسا نے ٹوئٹر پر شیئر کیا۔ انھوں نے اس کے ساتھ لکھا: ’ افسانہ بمقابلہ حقیقت۔ دیکھیں کس طرح بالی وڈ کے بڑے نام اپنی نشے کی حالت کو فخر کے ساتھ دکھا رہے ہیں۔ میں منشیات کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا ہوں اور اگر آپ مجھ سے متفق ہیں تو میری ٹویٹ کو ری ٹویٹ کریں۔‘ منجندر سرسا کی جانب سے یہ ویڈیو شیئر کرنے پر کانگرس رہنما ملند دیوڑا بالی وڈ سٹارز کا دفاع کرنے میدان میں آ گئے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میری بیوی بھی اس پارٹی میں موجود تھی ، وہاں کسی نے منشیات کا استعمال نہیں کیا اس لیے جھوٹ پھیلانے اور ان لوگوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے جنھیں آپ نہیں جانتے۔‘ انھوں نے اپنی ٹوئیٹ میں منجندر سرسا سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ تاہم منجندر سرسا نے اہنی ایک اور ٹویٹ میں معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ پریانکا مشرا نے لکھا ’یہ نوجوان طبقے کے لیے مثال ہیں اور پھر ہم پوچھتے ہیں کہ لوگ قدامت پسند اور بے کار کیوں بن رہے ہیں۔‘ دیپیکا یادیو نامی صارف نے لکھا کہ بالی وڈ اداکار منشیات استعمال کر رہے تھے یا نہیں اس بارے میں ثبوت سامنے آنے چائیے۔۔۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بچانا ہو گا۔ انکور مترجا نے بالی وڈ سٹارز پر آیا سارا غصہ ملند دیوڑا پر نکال دیا اور مطالبہ کیا کہ کانگریس انھیں اپنی جماعت سے نکال باہر کرے۔ ایک اور صارف نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’دیپیکا کیسے منشیات کا استعمال کر سکتی ہیں جبکہ وہ فلم کے سین تک کے لیے سگریٹ نہیں پیتی ہیں۔‘ ایک صارف نے تو کرن جوہر پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام بھی لگا دیا۔ |
/urdu/world-57499055 | امریکی اور روسی صدور کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’تناؤ سے بھرپور عرصے میں بھی‘ مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیشرفت کر سکتے ہیں۔ | امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان بدھ کو جنیوا میں ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں صدور نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اس ملاقات کو معنی خیز قرار دیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ 'تناؤ سے بھرپور عرصے میں بھی' مشترکہ مقاصد کے حصول میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔ دونوں صدور کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ کے تعاون سے آپسی تنازعات اور جوہری جنگ کے خدشے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ وہ اور صدر بائیڈن سائبر سکیورٹی پر ’بحث کے لیے پرعزم‘ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ سائبر سکیورٹی دونوں ممالک کے لیے اہم ہے اور اُنھوں نے حال ہی میں امریکہ میں ایک تیل کی پائپ لائن سسٹم اور روس میں ایک طبی نظام پر سائبر حملے کی جانب اشارہ کیا۔ جنیوا میں ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی کم درجے پر ہیں اور دونوں ممالک اپنے سفیروں کو واپس بلا چکے ہیں، تاہم اپنی پریس کانفرنس میں صدر پوتن نے کہا کہ صدر جو بائیڈن سے ملاقات میں سفیروں کی واپسی طے پا گئی ہے۔ البتہ امریکی صدر نے کہا ہے کہ تعلقات میں ’استحکام‘ اور ’غیریقینی‘ کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اس ملاقات کی اہمیت ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی نیا موڑ نہیں آئے گا اور دونوں ملکوں کی عداوت کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن یہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے لیے موقع ہے کہ وہ آمنےسامنے بیٹھ کر کھلے انداز میں اپنے خدشات پر بات چیت کر سکیں اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچا لیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ دونوں فریق سفیروں کو واپس بلانے کے معاملے پر بات کریں گے۔ امریکہ حالیہ برسوں میں درجنوں روسی سفارت کاروں کے ملک سے نکالنےکے علاوہ روسی سفارت خانے کے دو احاطوں کو بند کر چکا ہے ۔ اسی طرح روس نے بھی امریکی سفارت خانے پر مقامی لوگوں کو بھرتی کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور امریکی سفارتی عملے کو کم ویزے جاری کیے تھے۔ روسی جیلوں میں قید دو امریکی شہریوں کے خاندانوں نے سربراہ ملاقات سے پہلے قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھایا ہے۔ جب صدر پوتن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہوں گے تو ان کا جواب تھا: ’یقینا`۔ |
/urdu/pakistan-55560517 | اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ | اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں نوجوان طالب علم اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں کی طرف سے ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں طالب علم اسامہ ندیم ستی کی ہلاکت کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے عدالتی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس واقع پر پولیس کا مؤقف یہ ہے کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد مشکوک معلوم ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی ہلاکت واقع ہوئی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بدھ کو جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو جج راجہ جواد عباس نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ اس مقدمے میں کون کون ملزمان ہیں، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس مقدمے کے پانچ ملزمان ہیں اور تمام ملزمان پیش ہو گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے دوران سماعت تفتیشی افسر کو اس واقعے کی تصویریں دکھانے کا بھی کہا۔ تفتیشی افسر نے جب تصاویر دکھائیں تو جج کا کہنا تھا کہ گاڑی کی جس سیٹ سے نکل کر پانچ گولیاں لگیں وہ تصویر دکھائیں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ’سر وہ تصویر نہیں ہے‘۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس واقعے کی درست تصویر پیش نہیں کر رہے اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں جس سے تفتیشی افسر کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ اسامہ ستی کے لواحقین نے قائمہ کمیٹی میں قتل کی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں جبکہ گاڑی کے اندر خون کے نشانات نہیں ہیں۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہا کہ گاڑی کو تھانے میں کھڑا کر کے گولیاں ماری گئیں جو اس مقدمے کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لواحقین نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اُنھیں نہ جے آئی ٹی میں بلایا گیا اور نہ ہی ابھی تک جوڈیشل انکوائری کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کو اسامہ ستی قتل کیس پر بریفنگ دی اور کہا کہ پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے پانچ ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش بھی کی کہ اسامہ ستی کے مقدمے میں پولیس کا بطور محکمہ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ پانچ افراد کا انفردی عمل ہے۔ |
/urdu/pakistan-55404910 | تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی ایک کامیاب عوامی تحریک کا موجب بن سکتی ہے مگر اپوزیشن جماعتیں بجائے حکومت کو دفاعی صورت حال سے دوچار کرنے کے خود مدافعانہ حیثیت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ | یوں سمجھیے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی نے پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کو وہ تمام لوازمات فراہم کر دیے جو ایک کامیاب عوامی تحریک کا موجب بن سکتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بجائے حکومت کو دفاعی صورت حال سے دوچار کرنے کے خود مدافعانہ حیثیت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ میڈیا اور عوامی محاذ پر غیر روایتی جنگ کا روایتی انداز سے دفاع ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے ترجمان یا تو عدم دستیاب ہیں یا بیانیہ کے بوجھ تلے دبے دکھائی دیتے ہیں۔ شام سات سے رات گیارہ بجے ٹی وی چینلوں پر حکومت کو رگڑا لگانے کی بجائے کسی حکومتی ترجمان کی چھوٹی سی اڑنگی پر لڑکھڑا کر گر پڑتے ہیں۔۔۔ بظاہر جیتے ہوئے مناظروں کو حکومتی ترجمان یوں چیلنج کرتے ہیں کہ اپوزیشن منھ چھپا کر نکل لیتی ہے۔ یا تو اپوزیشن جماعتوں کے ترجمانوں میں ایک صفحے پر ہونے کے باوجود رابطے کا فقدان ہے یا وہ اس ’بدتہذیب ڈبے‘ اور ہتھیلی میں موجود ڈبیا سے آلے کے سامنے بظاہر بے بس دکھائی دیتی ہے۔ مانا کہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جس کا اظہار وزیراعظم بارہا کر چکے ہیں، عدالتیں بھی کوئی زیادہ مسئلہ نہیں جیسا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں دیکھنے میں آتا رہا۔۔ تاہم عوامی تحریک کے چند لوازمات پر اپوزیشن کو ضرور غور کرنا ہو گا۔ اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ سازی کے لیے کیا لائحہ عمل ہے اور جلسوں کے علاوہ اپوزیشن عوام کی ذہن سازی میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایک تحقیق نظر سے گزری جس میں عوام کو متوجہ کرنے کے لیے لفاظی نہیں ’انگیجمینٹس‘ پر زور دیا گیا یعنی بڑے گروپس کے بجائے چھوٹے اور موثر گروپس کے ذریعے کس طرح رائے سازی کی جاتی ہے جو تحریکوں کا اہم خاصہ ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر سڑکوں پر آئی ہیں۔ بلوچستان سے گلگت بلتستان اور کراچی سے خیبر تک سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے مگر کیا پھر بھی اپوزیشن لانگ مارچ تک مطلوبہ عوامی حمائت حاصل کر پائے گی؟ پیپلز پارٹی پر ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کا بڑھتا دباؤ سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی یک طرفہ جیت کی صورت نکل سکتا ہے اور پارلیمان میں اپوزیشن جماعتیں اپنی حیثیت کھو سکتی ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کو پیپلز پارٹی کی بات کو سمجھنا چاہیے۔ یہ تو طے ہے کہ کپتان کی حکومت کی میڈیا اسٹریٹجی کامیاب ہے۔ اپوزیشن کا مقابلہ غیر روایتی حریف سے ہے جو حکومت میں رہ کر بھی جارحانہ سٹروک کھیل رہی ہے جبکہ اپوزیشن مدافعانہ۔ اب سب نگاہیں اپوزیشن کے لانگ مارچ کی جانب ہیں، اپوزیشن مایوس عوام کی امیدوں کا محور نہ بن سکی تو سویلین بالادستی اور حقیقی جمہوریت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ |
/urdu/regional-55687832 | چین کی پروپیگنڈہ کی کوششیں اس بات کا اشارہ ہوسکتی ہیں کہ اسے یقین ہے کہ سنکیانگ کی کوریج اس کی بین الاقوامی ساکھ کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ | چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے بارے میں مصدقہ خبریں پہنچانے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی صحافیوں پر پہلے سے عائد سخت پابندیوں میں اب چین نے ایک اور پابندی کا اضافہ کیا ہے، جس میں آزادانہ کوریج کو ’فیک نیوز‘ کہا جا رہا ہے۔ ہانا بیلی نے کہا ’یہ واضح ہے کہ اسے بین الاقوامی اور مقامی سامعین کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا، جو کسی حد تک پچھلی حکمت عملیوں سے مختلف ہے کیونکہ صرف چینی سامعین کے لیے تیار کردہ پچھلا مواد مغربی ممالک پر زیادہ تنقید اور قوم پرستی سے بھر پور تھا جبکہ بین الاقوامی سامعین کے لیے تیار کردہ مواد میں مفاہمتی لہجہ اپنایا گیا ہے۔‘ چین کی پروپیگنڈہ کی کوششیں اس بات کا اشارہ ہوسکتی ہیں کہ اسے یقین ہے کہ سنکیانگ کی کوریج اس کی بین الاقوامی ساکھ کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ لیکن عام طور پر چین میں سنسر کیے جانے والے مغربی میڈیا پر چین کے اندر حملہ کرنے میں کچھ خطرات لاحق ہیں کیونکہ اس سے ایسی کہانیوں کی جھلک سامنے آسکتی ہے جو عموماً عوام کی پہنچ سے دور رہتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چین کی اس اخبار، جس نے سرکاری اصطلاح سے کیمپ کو ’پیشہ ورانہ تربیتی مرکز‘ سے تعبیر کیا ہے، کا کہنا ہے کہ تصویر لگانے کی ہماری کوشش بے معنی ہے کیونکہ اس رپورٹ کے مطابق، یہ مرکز اکتوبر 2019 میں بند ہو گیا تھا۔ ہمارے ثبوتوں کو ’فیک نیوز‘ قرار دینے اور انھیں کمزور دکھانے کے لیے کیے جانے والا پروپیگنڈہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور یہ سنکیانک سے نکلنے والی معلومات پر قابو پانے والی مشترکہ کوششوں کا بھی ثبوت ہے’۔ ہماری رپورٹ کی اشاعت کے بعد مجھے ایک اور مختصر ویزا ملا، جس کے ساتھ واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ یہ سنکیانگ سے متعلق میری رپورٹ کا نتیجہ ہے۔ چین کی اخبار نے بی بی سی پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ہم ایک خفیہ کیمرا استعمال کررہے ہیں ، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی ہانا بیلی کا کہنا ہے کہ چین کے اندرونِ ملک پروپیگنڈے کی طرح اس کا بین الاقوامی دباؤ بھی ’تیزی سے تنقیدی اور دفاعی‘ ہوتا جارہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’ٹوئٹر بوٹس سے لے کر سرکاری زیر کنٹرول بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس اور وولف واریر نامی سفارت کاروں تک، چین اس سے قبل بیرون اور اندرونِ ملک بحث کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف قسم کے حربوں کے استعمال کا مظاہرہ کرچکا ہے۔‘ چین کے روزنامہ کا جواب ہمارے مخصوص سوالوں کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ چینی اخبار کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ سنکیانگ کا دورہ کرنے اور انٹرویوز کرنے کے بعد، انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’سنکیانگ میں جبری مشقت نہیں لی جا رہی۔‘ |
/urdu/world-57480101 | الیومناٹی نام کی ایک خفیہ اور حقیقی سوسائٹی کا قیام 245 برس قبل ہوا تھا اور اسی سوسائٹی کے نام کو ایک افسانوی سوسائٹی کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جس کا سالوں سے سازشی مفروضوں سے تعلق جوڑا اور سمجھا جاتا ہے۔ | الیومناٹی نام کی ایک خفیہ اور حقیقی سوسائٹی کا قیام 245 برس قبل ہوا تھا اور اسی نام کو ایک افسانوی تنظیم کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جس کا برسوں سے سازشی مفروضوں سے تعلق جوڑا اور سمجھا جاتا ہے۔ الیومناٹی ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا قیام باوریا (موجودہ جرمنی) میں ہوا تھا۔ سنہ 1776 سے سنہ 1785 تک چلنے والی اس سوسائٹی سے منسلک افراد خود کو ’پرفیکٹبلسٹس‘ کہتے تھے۔ فری میسن ایک ایسی تنظیم ہے جو کہ صدیوں قبل اینٹیں بنانے کا کام کرنے والوں اور گرجا گھروں کی تعمیر کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ کئی ممالک، بالخصوص امریکہ میں فری میسن کے بارے میں بہت خوف پایا جاتا ہے۔ سنہ 1828 میں تو امریکہ میں ایک سیاسی تحریک کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا یک نکاتی مقصد تھا کہ وہ فری میسن کی مخالفت کریں گے۔ یہ درست ہے کہ الیومناٹی رسومات ادا کرتے تھے لیکن وہ رسومات کیا تھیں ان میں سے زیادہ تر کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اس سوسائٹی میں شامل افراد کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کیا جاتا تھا تاکہ اُن کی شناخت خفیہ رہے۔ اس نشان کو نہ صرف فری میسن بلکہ الیومناٹی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اس گروپ کی دنیا بھر میں نگرانی کرنے اور سب کو قابو میں رکھنے کا علامتی نشان ہے۔ اس نشان اور الیومناٹی کے درمیان کسی قسم کا کوئی باضابطہ تعلق نہیں ہے۔ ایسا ضرور ممکن ہے کہ اس نشان کو الیومناٹی سے ملانے کی وجہ یہ تھی کہ فری میسن گروپ کے لوگ اس نشان کو خدا کی علامات کے طور پر استعمال کرتے اور الیومناٹی اور فری میسن میں مماثلت تھی۔ ان دستاویزات سے اس شک کو مزید تقویت ملی کہ یہ گروپ ریاست اور مذہب دونوں کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے بعد سے کہا جاتا ہے کہ الیومناٹی منظر عام سے غائب ہو گئے جبکہ کئی کا خیال ہے کہ انھوں نے اپنی تنظیم کی کارروائی خفیہ طور پر جاری رکھی۔ سنہ 1963 میں پرسپنیا ڈسکارڈیا کے نام سے ایک مقالہ تحریر کیا گیا جس میں ایک متبادل دین کو پیش کیا گیا جسے ’ڈسکارڈین ازم‘ کا نام دیا گیا۔ اس نظام کے منشور کے تحت جھوٹ اور دھوکہ دہی کی مدد سے انارکی اور شہری نافرمانی پھیلانے کے بارے میں بات کی گئی۔ بعد میں ایک کتاب سامنے آئی جس کا نام ’دا الیومناٹس ٹرائلوجی‘ تھا اور وہ نہ صرف بہت مقبول ہوئی بلکہ اس کی مدد سے کئی فلمیں بھی بنیں اور سازشی مفروضوں کو فروغ ملا۔ ان میں سے ایک کتاب (اور بعد میں بننے والی فلم) اینجلز اینڈ ڈیمنز تھی۔ جو لوگ نیو ورلڈ آرڈر پر یقین رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کا ایک گروہ دنیا پر قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی سابق امریکی صدور اور کئی مشہور گلوکاروں کو بھی اسی فہرست میں گنا جاتا ہے۔ |
/urdu/world-52674358 | ڈاکٹر صالحہ احسان کے مطابق برطانیہ کا تمام طبی عملہ مکمل طور پر تیار ہے کہ حالات چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں ہمیں کورونا کے خلاف فتح تک لڑنا ہو گا۔ | برطانوی نژاد پاکستانی ڈاکٹر اور صحافی ڈاکٹر صالحہ احسان ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں اور ایک عجیب کشکمکش کا شکار ہیں۔ کشمکش یہ ہے کہ صرف وہ ہی نہیں ان کی دو بہنیں بھی ڈاکٹر ہیں اور ایک بھائی فارمیسی کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی والدہ کا انتقال حالیہ دونوں میں ہوا ہے جبکہ والد عمر رسیدہ اور بیمار ہیں۔ ڈاکٹر صالحہ احسان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کی رائل ملڑی اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والی پہلی مسلمان افسر ہیں۔ ’حالات تھوڑے سخت ہیں مگر میں اور برطانیہ کا تمام طبی عملہ مکمل طور پر تیار ہے کہ حالات چاہے جتنے ہی مشکل ہوں ہمیں کورونا کے خلاف فتح تک لڑنا ہو گا۔ شکست کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔‘ ڈاکٹر صالحہ احسان بی بی سی کے علاوہ گارڈیئن، آئی ٹیلی ویژن، چینل فور اور دیگر برطانوی میڈیا کا بھی حصہ رہی ہیں۔ کورونا وائرس کے وبائی مرض کے آغاز سے وہ بی بی سی ہیلتھ ریڈیو اور اب چینل فور پر کورونا وائرس سے متعلق معلوماتی پروگرام کر رہی ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی طور پر وہ طب کے پشے سے منسلک ہو گئیں، مگر صحافت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ڈاکٹر صالحہ احسان کہتی ہیں برطانیہ کا تمام طبی عملہ مکمل طور پر تیار ہے ڈاکٹر صالحہ احسان کا کہنا تھا ’میں جانتی ہوں کہ میں ایمرجنسی ڈاکٹر ہوں۔ کسی بھی مریض یا مشتبہ مریض کو سب سے پہلے علاج معالجہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔‘ ڈاکٹر صالحہ احسان کا کہنا تھا ’اس وقت ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔ ہمیں تربیت دے دی گئی ہے کہ ہم نے کیسے کیا کرنا ہے۔ ہمارے پاس جو بھی مریض آئے گا۔ وہ ایمرجنسی کے باہر کھڑا ہوگا۔ اس کو پہلے فوری طور پر ماسک فراہم کیا جائے گا۔ جس کے بعداس کو الگ تھلک کمرے میں منتقل کیا جائے گا۔ جہاں پر ایمرجنسی ڈاکٹر جو کہ خود مکمل طو رپر حفاظتی لباس پہننے ہوئے ہوں گے مریض کا معائنہ کریں گا۔ ٹیسٹ ہونگے اور ان کے نتائج پر مریض کو الگ تھلک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘ ڈاکٹر صالحہ احسان کا کہنا تھا کہ جو حالات اس وقت برطانیہ میں پیدا ہوچکے ہیں اور برطانیہ کے جو موسمی حالات ہیں ان سے سمجھ آتی ہے کہ شاید طب سے وابستہ افراد کو لمبے عرصے تک کام کرنا پڑے گا۔ ’اب اگر میرے لوگوں اور میرے ملک برطانیہ کومیری ضرورت ہے تو اس کے لیے میں ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہوچکی ہوں کہ جس حد تک کام کرنا پڑا کروں گئیں اور اس سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹوں گئیں۔‘ |
/urdu/pakistan-61025670 | سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ سوال ہو رہے ہیں کہ کیا یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے اہم مقدمہ تھا؟ کیا اس مقدمے کا نتیجہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اہم فیصلوں میں شامل ہے اور کیا اس فیصلے نے پاکستان میں نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا؟ | اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ سوال ہو رہے ہیں کہ کیا یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے اہم مقدمہ تھا؟ کیا اس مقدمے کا نتیجہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اہم فیصلوں میں شامل ہے؟ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے ’نظریہ ضرورت‘ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور کیا اس فیصلے نے پاکستان میں نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا؟ ’نظریہ ضرورت تو ہمیشہ ایسے کیسز میں لایا جاتا ہے جہاں اس کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور ہر گنجائش تو ہر مقدمے میں پیدا کی جا سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دی اور سپریم کورٹ کا یہ طرز عمل بھی قابل ستائش ہے کہ نظریہ ضرورت کا اطلاق نہیں کیا گیا۔‘ ’اس مقدمے میں بھی سپریم کورٹ کے 17 ججز نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’ہم ماضی میں غلطیاں کرتے رہے ہیں اور آئندہ ہم غلطیاں نہیں کریں گے‘ تو چیف جسٹس نے جب حالیہ معاملے کا از خود نوٹس لیا تو اس مقدمے کا حوالہ دیا، جو بہت معنی خیز ہے کیونکہ اس حوالے میں بھی نظریہ ضرورت کا تذکرہ بنتا ہے کہ ہم فلاں فلاں موقعوں پر انصاف کے تقاضوں سے ہٹے اور نظریہ ضرورت کو اپنایا۔‘ سینیئر وکیل اور پاکستانی کی آئینی تاریخ کے ماہر حامد خان نے مولوی تمیز الدین کیس کا حوالہ دیا جس میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جسٹس منیر کی سربراہی میں نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔ ’یہ جو تمام مقدمات تھے اور ان کے جو فیصلے تھے، انھوں نے پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ کی سمت متعین کر دی۔ آج کا پاکستان ابھی تک انھی مقدمات اور فیصلوں سے منسلک ہے اور انھی کے چنگل میں جکڑا ہے۔‘ ’ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی سزائے موت پر کی گئی اپیل، جس کا فیصلہ چار، تین سے ان کے خلاف آیا تھا، میرے خیال میں پاکستان کا سب سے اہم کیس ہے۔ تاریخ میں اس کو ابھی بھی ’عدالتی قتل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان میں عدلیہ کی خود مختاری کے بارے میں جب جب بات ہوتی ہے تو اس مقدمے کا ذکر لازماً ہوتا ہے۔‘ معروف قانون دان اور پاکستان کی عدالتی اور آئینی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے وکیل حامد خان نے اس مقدمے کے بارے میں کہا کہ شاید مشرف غداری مقدمے کو ملک کا اہم ترین کیس نہیں کہہ سکتے تاہم انھوں نے یہ ضرور کہا کہ ایک سابق فوجی حکمران کو اس طرح غداری کا مرتکب قرار دینا ایک نئی مثال ہے۔ |
/urdu/pakistan-54373797 | اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دو سال قبل لاپتہ ہونے والے شہری ساجد محمود کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جبری گمشدگی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں۔ | اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو سال قبل لاپتہ ہونے والے آئی ٹی کے ماہر ساجد محمود کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ نہیں پوچھ رہی کہ شہری کو ’لائیو سٹاک ڈپارٹمنٹ‘ اٹھا کر لے گیا یا کوئی اور۔ اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے میں ریاست یہ تو تسلیم کر چکی ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ انسان کی لاش مل جائے تو تسلی ہو جاتی ہے جبکہ جبری گمشدگی جس کے ساتھ ہوتی ہے وہی جانتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’جس کا پیارا غائب ہو جائے اور اس پر ریاست یہ کہے ہم میں سے کسی نے اٹھایا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے۔‘ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریاست نے مذکورہ شخص کے بازیاب نہ ہونے پر اپنی ناکامی مانی ہے تو پھر ریاست کو جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ کو ان کی بازیابی تک ماہانہ خرچہ دینا ہو گا۔‘ واضح رہے کہ آئی ٹی کے ماہر ساجد محمود کے لاپتہ ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنہ 2018 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت ساجد محمود کی بازیابی تک ان کے گھر کے اخراجات اٹھائے۔ درخواست گزار کے وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ ’چار سال سے بچی نے والد ساجد محمود کو نہیں دیکھا اور اس نے اپنے والد سے متعلق کچھ احساسات لکھے ہیں۔‘ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خزانہ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر لاپتہ شہری کی فیملی کی مالی امداد کے لیے چیک لے کر آئیں۔ یہ ریمارکس انھوں نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ جسٹس گلزار احمد نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ وہ لاپتہ افراد میں سے کسی کے گھر گئے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’آپ لوگ صرف افسری کر رہے ہیں اور باقی لوگ آپ کے غلام ہیں اور آپ لوگوں کو کچرا سمجھتے ہیں۔‘ گذشتہ شب بلوچستان بار کونسل کی جانب سے دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ گھمبیر ہے اور یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔‘ |
/urdu/pakistan-60467386 | سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ کے وکیل حسن عباس نے منگل کے روز اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر گیارہ ملزمان کے آپس میں رابطوں کے ثبوت ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈنگ اور ملزمان کے زیر استعمال موبائل فون سے کی جانے والی کالوں کے ریکارڈ سے ملتے ہیں۔ | سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ کے وکیل حسن عباس نے منگل کے روز اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر گیارہ ملزمان کے آپس میں رابطوں کے ثبوت ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈنگ اور ملزمان کے زیر استعمال موبائل فون سے کی جانے والی کالوں کے ریکارڈ سے ملتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تمام ملزمان نور مقدم کے قتل میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بچانے کے لیے نہ صرف حقائق کو چھپانے کی کوشش کی بلکہ پولیس کو بھی اس بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد وقوعہ کے روز یعنی 20 جولائی سنہ 2021 کی شام ساڑھے سات بجے کے قریب اپنے والد ذاکر جعفر کو ٹیلی فون کر کےاس واقعہ کے بارے میں بتایا کہ اس نے نور مقدم کو قتل کر دیا ہے۔ حسن عباس کا کہنا تھا کہ نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی کا شریک ملزم طاہر ظہور اور گھریلو ملازمین کے ساتھ کی جانے والی کالوں کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ گذشتہ روز ہونے والی سماعت میں نور مقدم قتل کیس کے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بچانے کے لیے غیرت کے نام پر قتل کی کہانی گھڑی گئی جبکہ اس مقدمے کے 19 گواہوں سے ہونے والی جرح کے دوران اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ نور مقدم کے ظاہر جعفر کے گھر میں داخل ہونے کے بعد سے قتل تک تقریباً 38 گھنٹے بنتے ہیں اور ڈی وی آر کے مطابق جب نور مقدم اس گھر میں داخل ہوئیں تو ان کے پاس صرف بیگ تھا۔ انھوں نے کہا کہ 20 جولائی کو سی سی ٹی وی میں واضع ہے کہ نور مقدم نے چھلانگ لگائی اور بھاگنے کی کوشش کی تو ظاہر جعفر کے کہنے پر شریک ملزم افتخار نے انھیں روکا جس کے بعد مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے ٹیرس سے چھلانگ لگائی اور نور مقدم کو چوکیدار کے کیپبن میں بند کردیا۔ تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے اپنے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس نےاس مقدمے کی تفتیش جانبداری سے کی ہے اور ان کے موکل کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شوکت مقدم نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی موجودگی میں کیوں نہیں لکھوایا۔ 20 جولائی: سنہ 2021 کو سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کو قتل کردیا گیا اور اسی روز اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا گیا۔ |
/urdu/sport-54579565 | عمر گل کا بین الاقوامی کیریئر چار سال قبل اختتام کو پہنچ چکا تھا تاہم یہ کیریئر خاصا متاثر کن رہا ہے۔ انھوں نے 47 ٹیسٹ میچوں میں 163 وکٹیں حاصل کیں۔ 130ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 179 رہی۔ | 36 سالہ عمر گل نے نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں بلوچستان کی طرف سے سدرن پنجاب کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلا۔ کارکردگی کے لحاظ سے یہ میچ ان کے لیے مایوس کن رہا اور وہ دو اوورز میں 34 رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے تاہم میچ کے اختتام پر جب انھیں الوداع کہا گیا تو وہ اپنے جذبات پر بمشکل قابو پاسکے۔ عمر گل کا بین الاقوامی کیریئر چار سال قبل اختتام کو پہنچ چکا تھا تاہم یہ کیریئر خاصا متاثر کن رہا ہے۔ انھوں نے 47 ٹیسٹ میچوں میں 163 وکٹیں حاصل کیں۔ 130ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 179 رہی۔ ٹی ٹوئنٹی عمر گل کا پسندیدہ فارمیٹ رہا۔ انھوں نے 60 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں 85 وکٹیں حاصل کیں۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بالادستی میں عمر گل کی بولنگ نے کلیدی کردار ادا کیا خاص کر 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی بولنگ اپنے عروج پر تھی جس نے پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنانے میں مدد دی۔ اس عالمی مقابلے میں انھوں نے سب سے زیادہ 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2007 میں پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 13 تھی جو اس ایونٹ میں کسی بھی بولر کی سب سے زیادہ وکٹیں تھیں۔ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشل میں عمر گل کے متعدد بولنگ سپیل شائقین نہیں بھول سکتے۔ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف اوول میں صرف چھ رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ یہ کسی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں پہلا موقع تھا کہ کسی بولر نے پانچ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ انھوں نے 2013 میں جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین میں محض 14 گیندوں پر چھ رنز دے کر 5 وکٹوں کی اس کارکردگی کو ایک بار پھر دوہرایا اور اس وقت وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بھی بن گئے تھے۔ سنہ 2009 میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں بھی وہ چھائے ہوئے تھے جب چار اوورز میں انھوں نے صرف آٹھ رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔ عمرگل ایک عرصے تک شاہد آفریدی اور سعید اجمل کے بعد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے تیسرے سب سے کامیاب بولر رہے تھے اس وقت ان کا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولرز میں پانچواں نمبر ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس فارمیٹ میں اپنی وکٹوں کی سنچری مکمل کریں جو پوری نہ ہوسکی۔ سوشل میڈیا پر عمر گل کی ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں جن میں عمر گل کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ فاسٹ بولر حسن علی کا کہنا تھا کہ عمر گل ان چند بولرز میں سے تھے جنھوں نے کرکٹ میں انھیں متاثر کیا۔ پاکستانی آل راؤنڈر شعیب ملک کے مطابق عمر گل کے ساتھ کھیلا گیا ہر لمحہ ان کے لیے بہترین رہا ہے۔ |
/urdu/pakistan-53875969 | پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کی پولیس کے مطابق ڈھوڈیال میں پاکستانی پرچم اتارنے پر دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ | پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کی پولیس کے مطابق ڈھوڈیال میں پاکستانی پرچم اتارنے پر دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق واقعہ 21 اگست جمعہ کی شام پیش آیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر میرپور طاہر ممتاز کا کہنا تھا کہ مقبول بٹ اسکوائر بلدیہ ڈھوڈیال کی پراپرٹی ہے۔ یہاں پر پاکستان کا پرچم 14 اگست کی تقریبات کے لیے لگایا تھا۔ جس کے بعد ایک گرفتار ملزم نے پہلے بھوک ہڑتال کی اور پھر پاکستانی پرچم اتار دیا تھا۔ جس پر ان کے خلاف عوامی جذبات امڈ پڑے تھے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ ضلع میرپور کے صدر سعد انصاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مقبول بٹ کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈھوڈیال میں مقبول بٹ شہید اسکوائر قائم کیا گیا تھا۔ اس اسکوائر پر جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پرچم لگے ہوئے تھے جن کو اتار کر کشمیر ریاست کے غیر ریاستی پرچم پاکستان کا پرچم لگایا گیا تھا۔ جس پر راجہ تنویر احمد اور ہمارے ساتھیوں نے انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ 14اگست کی تقریبات کے بعد کشمیر کے غیر ریاستی پرچم کو اتار لیا جائے گا اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پرچموں کو دوبارہ لگا دیا جائے گا۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی پرچم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی راجہ تنویر اور ہمارے دوسرے گرفتار ساتھی سفیر کشمیری نے ایسی کوئی توہین کی ہے۔ ’یہ معاملہ نظریات کا ہے۔ حکومت نے ڈھوڈیال میں مقبول بٹ اسکوائر قائم کیا ہے۔ یہ کام ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ جس کو ہم بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر مقبول بٹ اور اب ان کے ساتھی اس وقت خود مختار کشمیر کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ‘ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جماعت اسلامی کے سابق امیر اور مرکزی رہنما سردار اعجاز افضل خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا پرچم اتارانا غداری کے مترادف ہے۔‘ ان کا دعوی تھا کہ ’اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آر اور پار کے کشمیری، کشمیر کو پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ڈوڈھیال کی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے کارکناں اکھٹے ہوئے اور انھوں نے دوبارہ پاکستان کا پرچم لہرایا ہے۔ ‘ مقبول بٹ اسکوائر سے پاکستانی پرچم اتارنے کے واقعہ کے بعد اس کے حق اور مخالفت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ پرچم اتانے کی مخالفت کرنے والے اس پر سخت کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ راجہ تنویر احمد اور سفیر کشمیری کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ |
/urdu/world-49145205 | رواں ماہ کے آغاز پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے حکام نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ خلیج میں ہونے والے واقعات پر 'سخت پریشان' ہیں۔ | ایران کے حوالے سے کشیدگی میں اضافہ گذشتہ برس اس وقت ہونا شروع ہوا تھا جب امریکہ نے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق کیا تھا۔ خلیج میں تیل بردار بحری جہازوں کے معاملے پر بڑھتی کشیدگی کے سائے میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے شروع کی گئی بات چیت کے بارے میں ایرانی موقف ہے کہ یہ مثبت ہے تاہم ابھی بہت سے معاملات طے نہیں ہوئے ہیں۔ ویانا میں اس ملاقات میں ایران کی جانب سے شرکت کرنے والے ایران کی وزارتِ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار عباس اراخچی کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے ایران کا تیل بردار جہاز پکڑنا سنہ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی تھا جبکہ ایران نے برطانیہ کی اس تجویز کو بھی 'اشتعال انگیز' کہا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل بردار جہازوں کو یورپی مشن کی نگرانی میں وہاں سے گزارا جائے۔‘ ایران کے حوالے سے کشیدگی میں اضافہ گذشتہ برس اس وقت ہونا شروع ہوا تھا جب امریکہ نے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق کیا تھا۔ ایران نے رواں ماہ یورینیم افزودہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ایران کا کہنا تھا کہ یورینیم افزودگی کا مقصد ریکٹر کے لیے ایندھن پیدا کرنا ہے تاہم امریکہ اور یورپ کا ماننا ہے کہ ایسا جوہری پروگرام کی بڑھوتری کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے حکام نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ خلیج میں ہونے والے واقعات پر 'سخت پریشان' ہیں۔ ان کا کہنا تھا 'یہ وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور وہ راستہ اختیار کرنے کا ہے جس پر چل پر کشیدگی میں اضافے کو روکا جا سکے اور بات چیت کا دوبارہ آغاز کیا جا سکے۔' ملاقات میں شامل چین کے نمائندے فو کونگ کا کہنا تھا کہ 'تمام فریقین نے سنہ 2015 کے معاہدے کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی ہے اور۔۔۔۔ انھوں نے امریکہ کی جانب سے یک طرفہ طور پر پابندیاں عائد کرنے کی شدید مخالفت کی ہے۔' رواں ماہ ایران اور برطانیہ کے مابین کشیدگی اس وقت بڑھی جب برطانوی بحریہ نے گریس ون نامی ایرانی تیل بردار ٹینکر کو جبرالٹر میں اپنے قبضے میں لیا۔ برطانیہ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایرانی ٹینکر یورپی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل شام لے جا رہا تھا۔ اس واقعے کے کئی روز بعد ایران کے ایک برطانوی تیل بردار جہاز سٹینا ایمپرو کو اپنی تحویل میں یہ کہتے ہوئے لے لیا کہ جہاز نے 'بین الاقوامی بحری اصولوں کی خلاف ورزی' کی ہے۔ |
/urdu/world-58894804 | یہ تصویر بحرالکاہل میں فاکاراوا اٹول کے جزیرے کے قریب لی گئی تھی۔ اس کو عکس بند کرنے والے لورین بلیسٹا کو اس تصویر کے لیے وائلڈ لائٹ فوٹوگرافر آف دی یئر کا اعزاز دیا گیا ہے۔ | یہ تصویر بحرالکاہل میں فاکاراوا اٹول جزیرے کے قریب لی گئی تھی اور اس کے لیے لورین بلیسٹا کو وائلڈ لائٹ فوٹوگرافر آف دی یئر کا اعزاز دیا گیا ہے۔ حد سے زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے کیموفلاج گروپر کے ناپید ہونے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے مگر یہ تصویر ایک ایسے محفوظ علاقے میں لی گئی تھی جہاں ان کو پکڑنے کی ممانعت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس تصویر سے خاص لگاؤ ہے کیونکہ اس میں انڈوں سے بننے والے بادلوں کی شکل ہے جو ایک الٹے سوالیہ نشان کی مانند ہے۔ یہ ان انڈوں کے مستقبل کے بارے میں سوال ہے کیونکہ لاکھوں میں سے ایک انڈہ ہی بڑا ہو کر مچھلی بنے گا یا پھر شاید یہ ماحول کے مستقبل کے بارے میں سوال ہے۔ یہ ماحول کے مستقبل کے بارے میں اہم سوال ہے۔‘ نہ صرف وائلٹ لائٹ فوٹوگرافر آف دی یئر بلکہ ان مقابلوں میں زیرِ آب کیٹگری میں بھی یہی تصویر سب سے آگے رہی ہے۔ انڈیا کے دس سالہ ویدن آر ہیبر کو اس تصویر کے لیے جونیئر وائلڈ لائف فوٹوگرافر آف دی یئر کا اعزاز دیا گیا ہے۔ اس کا نام انھوں نے ڈوم ہوم رکھا ہے۔ روز کڈمین نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اس میں انتہائی شارپ فوکس ہے۔ آپ اگر اس تصویر کو بڑا کریں تو آپ مکڑے کی ٹانگیں علیحدہ دیکھ سکتے ہیں۔ اور مجھے یہ انتہائی پسند ہے کہ اسے ایسے فریم کیا گیا ہے۔ آپ جالے کا پورا سٹرکچر دیکھ سکتے ہیں۔‘ 1964 مں شروع ہونے والے وائلڈ لائف فوٹوگرافر آف دی یئر اعزاز لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں کروائے جاتے ہیں۔ ایڈم اوزول نے فوٹوجرنلزم کا اعزاز جیتا۔ ان کی تصویر میں تھائی لینڈ میں ایک چڑیا گھر میں ایک ہاتھی کو زیر آب پرفارم کرتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔ ہاتھیوں کے حوالے سے سیاحت ایشیا بھر میں بڑھنے لگی ہے۔ تھائی لینڈ میں اب جنگلوں سے زیادہ ہاتھی پنجروں میں بند ہیں۔ برینٹ سرنٹن کو فوٹوجرنلسٹ سٹوری ایوارڈ کا انعام دیا گیا ہے۔ ان کی تصاویر کی سیریز ان چیمپینزیز کے بحالی مرکز کی کہانی بتاتی ہیں جو کہ افریقہ میں جنگلی جانوروں کے گوشت کی تجارت کی وجہ سے یتیم ہو جاتے ہیں۔ تصویر میں مرکز کی ڈائریکٹر کو نئے آنے والے چیمپینزیز کی دیکھ بھال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈبلیو پی وائی کو اس سال برف کے حوالے سے چند بہترین تصاویر موصول ہوئی ہیں اور یہ تصویر ’میملز بیہیویئر‘ کیٹیگری میں کامیاب ہوئی ہے۔ سٹیفانو انٹرتھنر نے اس میں دو سوالبارڈ رینڈیئر کی لڑائی کو عکس بند کیا ہے۔ ہاویئار لافونتے کی اس تصویر نے ’ویٹ لینڈ دی بگر پکچر‘ کی کیٹیگری جیتی ہے۔ اس میں 1980 کی دہائی میں تعمیر کردہ ایک سڑک دکھائی گئی ہے جو کہ ایک ایسے ویٹ لینڈ کو منقسم کرتی ہے جس میں سینکڑوں قسم کے پرندے، کیڑے اور دیگر جانور رہتے ہیں۔ |
/urdu/science-52016991 | عام نزلہ زکام جیسے انفیکشن کا شکار ہونے والے مریض میں عموماً ایسی بیماریوں کے خلاف مدافعت بھی پیدا ہو جاتی ہے مگر کورونا وائرس کے معاملے میں ایسا نہیں۔ | کیا آپ کو صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ بھی کورونا وائرس نشانہ بنا سکتا ہے؟ کچھ مریض دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بیمار کیوں ہیں؟ کیا یہ مرض ہر سردی میں واپس آئے گا؟ کیا ویکسین کارگر ثابت ہو گی؟ کیا امیونٹی پاسپورٹ کی مدد سے ہم میں سے کچھ لوگ کام پر واپس جا سکتے ہیں؟ اس وائرس سے نمٹنے کے لیے کن طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے؟ لیکن یہ نظام کورونا وائرس پر اثر نہیں کر رہا۔ یہ اسے سمجھ نہیں رہا اور اس لیے آپ کے جسم میں اس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہو رہی۔ دنیا بھر کو متاثر کرنے والے نئے کورونا وائرس جسے کووڈ-19 یا سارس-کوو-2 کے نام دیے گئے ہیں، کو ابھی اتنا وقت نہیں ہوا کہ علم ہو سکے کہ اس کے خلاف مدافعت کتنے عرصے تک قائم رہ سکتی ہے تاہم انسان کو متاثر کرنے والے دیگر چھ کورونا وائرسوں سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے چار کی وجہ سے عام نزلہ زکام کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے خلاف مدافعت کا دورانیہ مختصر ہے اور تحقیق کے مطابق کچھ مریضوں کو تو سال میں دو بار اس وائرس نے متاثر کیا۔ جاپانی خبر رساں ادارے این ایچ کے کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحت یاب ہونے کے بعد اپنی روزمرہ زندگی کی جانب لوٹ گیا لیکن چند دن بعد وہ پھر بیمار پڑ گیا اور اسے بخار ہو گیا۔ وہ واپس ہسپتال آیا اور اسے اور اس کے معالجین کو یہ جان کر دھچکا لگا کہ اس میں دوبارہ کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور اسی لیے عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ حکومتیں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ایسے سرٹیفیکیٹ جاری نہ کریں جن میں کہا گیا ہو کہ صحت یاب ہونے والے شخص کے جسم میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔ اس امیونٹی پاسپورٹ کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ تجزیے میں جن لوگوں کے جسم میں وائرس کے اینٹی باڈیز پائے جائیں گے وہ کام پر واپس آ سکتے ہیں۔ یہ ہسپتالوں اور کیئر ہومز میں کام کرنے والے عملے کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ چین میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے 175 افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق ان میں سے 30 فیصد میں ایسی اینٹی باڈیز بہت کم تعداد میں پائی گئیں۔ اسی لیے عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ ’خلیاتی مدافعت صحت یابی کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘ اگر طویل المدتی مدافعت پیدا کرنا مشکل ہے تو اس کا نتیجہ ویکسین کی تیاری میں مشکلات کی صورت میں نکلے گا یا پھر اس سے ویکسین کے استعمال کے طریقے اور مدت پر بھی اثر پڑے گا۔ اور مدافعت کی مدت چاہے وہ انفیکشن کی وجہ سے ہو یا ویکسین کے استعمال سے، ہمیں بتائے گی کہ ہم اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ |
/urdu/live/sport-59101999 | کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سنیچر کو جہاں انگلینڈ نے جوز بٹلر کی برق رفتار نصف سنچری کی بدولت ایک یکطرفہ مقابلے کے بعد آسٹریلیا کو آٹھ وکٹوں سے ہرایا وہیں جنوبی افریقہ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد سری لنکا کو چار وکٹوں سے شکست دی۔ | کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سنیچر کو جہاں انگلینڈ نے جوز بٹلر کی برق رفتار نصف سنچری کی بدولت ایک یکطرفہ مقابلے کے بعد آسٹریلیا کو آٹھ وکٹوں سے ہرایا وہیں جنوبی افریقہ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد سری لنکا کو چار وکٹوں سے شکست دی۔ ہفتے کو کھیلے گئے دن کا پہلا میچ گروپ ون کی ٹیموں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کا تھا جہاں جنوبی افریقہ نے بڑے قریبی مقابلے کے بعد چار وکٹوں سے جیت حاصل کر لی۔ دن کے دوسرے میچ میں انگلینڈ نے کرس جارڈن کی بولنگ اور جوز بٹلر کی نصف سنچری کی مدد سے آسٹریلیا کو باآسانی شکست دے کر اپنی سیمی فائنل میں پوزیشن یقینی بنا لی ہے۔ انگلینڈ نے اوپنر جوز بٹلر کے 32 گیندوں پر 71 رنز کی مدد سے آسٹریلیا کا دیا ہوا 126 رنز کا ہدف صرف 11.4 اوورز میں پورا کر لیا اور اس کے ساتھ اب وہ گروپ ون میں تینوں میچ جیت کر سرفہرست ہیں اور سیمی فائنل میں یقینی طور پر جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جوز بٹلر نے اپنی اننگز میں پانچ چوکے اور پانچ بلند و بالا چھکے لگائے۔ ان کی اننگز اور انگلینڈ کی عمدہ بولنگ کارکردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا نے اپنی پوری اننگز میں مجموعی طور پر پانچ چھکے اور سات چوکے لگائے تھے۔ آسٹریلیا کی جانب سے مچل سٹارک سب سے مہنگے بولر رہے جن کو بٹلر نے خصوصی طور پر اپنے اعتاب کا نشانہ بنایا اور ان کے تین اوورز میں 37 رنز لوٹے۔ انگلینڈ کی جانب سے بٹر اور بئیرسٹو نے آسٹریلوی بولرز کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ ایڈم زیمپا نے اننگز کا 11واں اوور کرایا جس میں بٹلر نے ایک اور پھر بئیرسٹو نے مزید دو چھکے لگائے اور 20 رنز کا اوور حاصل کیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے بالآخر ایک اچھا اوور گیا جس میں سپنر ایگر نے صرف دو رنز دیے اور ملن کو کیچ آؤٹ کر وا دیا جو آٹھ رن بنا سکے۔ انگلینڈ کے جوز بٹلر نے اپنے ساتھ اوپنر کے آؤٹ ہونے سے پریشان ہوئے بغیر اپنی جارحانہ بیٹنگ جاری رکھی اور اس بار زیمپا کو 102 میٹر کا چھکا مار کر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ انگلینڈ کے اوپنرز نے آسٹریلیا کے بولرز کے پرخچے اڑاتے ہوئے اس ورلڈ کپ میں پاور پلے کے دوران سب سے زیادہ رنز بنانے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اننگز کے چھٹے اوور میں جوز بٹلر نے مچل سٹارک کو دو بلند و بالا چھکے لگائے جس میں سے ایک 95 میٹر طویل تھا۔ انگلینڈ نے اطمینان سے اپنی اننگز کا آغاز کیا ہے اور دوسرے اوور میں بھی جیسن رائے نے جوش ہیزل ووڈ کو ایک چوکا لگایا اور اس کے ساتھ آسٹریلیا نے اوور میں آٹھ رنز حاصل کیے۔ انگلینڈ نے اپنے تعاقب کے پہلے اوور میں آسٹریلیا کے مچل سٹارک پر پانچ رنز حاصل کیے جس میں جوز بٹلر کا ایک چوکا بھی شامل ہے۔ |
/urdu/world-51225075 | برازیل، پھلوں کی پیداوار کے شعبے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، لیکن ان باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ابتر ہے۔ | ہوزِ ایوانڈرو ڈی سلوا، پھلوں کے باغات میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہاں دس سال کام کیا ہے لیکن اب ان سے اور برداشت نہیں ہوتا۔ ہوزے 10 برس تک برازیل کے شمال مشرقی علاقے میں تربوز کے باغات پر کیڑے مارنے والی ادویات چھڑکتے رہے۔ لیکن گزشتہ برس ان سے رہا نہیں گیا اور انھوں نے کام چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کبھی بھی حفاظتی لباس مہیا نہیں کیا گیا اور اس سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا ہے : 'ان ادویات کی وجہ سے مجھے روز کام ختم کرنے کے بعد سر میں درد ہوتا۔ وہاں پر پانی اور صابن نہیں ہوتا تھا اور آپ ہاتھ تک نہیں دھو سکتے تھے'۔ دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ورکروں کے ادارے کے مطابق باغات میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد اڑتالیس لاکھ ہے برازیل، پھلوں کی پیداوار کے شعبے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ چین اور انڈیا اس فہرست میں اس سے آگے ہیں جبکہ امریکہ کا نمبر چوتھا ہے۔ لیکن نارنجی کے پھل کی کاشت اور پیداوار میں برازیل پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں فروخت ہونے والی ہر چار کینوؤں میں سے ایک کینو برازیل سے آتا ہے۔ برازیل میں پھلوں کی مارکیٹ بہت کامیاب اور منافع بخش کاروبار ہے۔دیہی علاقوں میں کام کرنے والے ورکروں کے ادارے کے مطابق باغات میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد اڑتالیس لاکھ ہے۔برازیل کی وزارتِ معیشیت کے مطابق یہ صنعت برازیل میں دس ارب ڈالر کا زرِمبادلہ پیدا کرتی ہے۔ برطانیہ کے فلاحی ادارے کی برازیلی شاخ آکسفیم برازیل کے مطابق اس سارے عمل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اتنا بڑا منافع پیدا کرنے کے باوجود یہ رقم باغات میں کام کرنے والے ورکروں تک نہیں پہنچتی۔ 25 برس کی کارمن سوزا کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے۔ ریو گرانتے ڈو نورتے نامی اس ریاست میں کارمن بہت عرصے سے کام کررہی ہیں۔ برازیل میں کم سے کم اجرت کے حوالے سے قانوں بھی ہے، لیکن کارمن کو صرف پانچ ماہ کام ملتا ہے جب پھلوں کو توڑنے کا موسم عروج پر ہوتا ہے۔ گستاوؤ فیرونی کا کہنا ہے: 'یہ کہنا کہ کوئی بھی کام بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے، اس لیے غلط ہے کیونکہ اس سے آپ بدترین حالات میں بھی کام کرتے ہیں اور یہ، معاشی شعبے کو اپنی ذمہ داری سے بری کردیتا ہے۔ یہ ناانصافی ہے، پھلوں کا کام بہت زیادہ دولت پیدا کرتا ہے اور اس کا تقسیم کا طریقہ کار بہتر ہونا چاہیے۔' برازیل دنیا بھر میں کیلے کی کاشت اور پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے |
/urdu/pakistan-60645241 | کارینج شارک کا منہ کھلا رہتا ہے، جس وجہ سے جب یہ پانی میں چلتی ہے تو سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے موٹے جھینگے خود بخود اس کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور وہ ہی اس کی خوراک ہوتے ہیں۔ اس شارک کے دانت اور کانٹے نہیں ہوتے اور یہ انسانوں کو کوئی نقصاں نہیں پہنچا سکتی۔ | ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان کے مطابق کارینج کا منہ کھلا رہتا ہے، جس وجہ سے جب یہ پانی میں چلتی ہے تو سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے موٹے جھینگے خود بخود اس کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور وہ ہی اس کی خوراک ہوتے ہیں۔ اس شارک کے دانت اور کانٹے نہیں ہوتے اور یہ انسانوں کو کوئی نقصاں نہیں پہنچا سکتی۔ معظم خان کے مطابق کارینج سمندری ماحول کا اہم حصہ ہے اور کارینج کے ابھی بھی پاکستانی پانی میں پائے جانے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر ابھی تک انتہائی حد تک آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار نہیں ہوا جبکہ اب بھی اس میں حیاتی تنوع باقی ہیں۔ ’پاکستان میں اس کے متاثر ہونے کی وجہ غیر محفوظ ماہی گیری کو کہا جا سکتا ہے۔ یہ مچھیروں کے جال میں بھی پھنس جاتی تھی۔ اب اس کا پاکستان میں کوئی استعمال موجود نہیں تو وہ اس کو اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ اس طرح بھی اس کو کافی نقصاں پہنچا ہے۔‘ ایک اور رپورٹ کے مطابق چین میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ادوایات میں اس کے پھیپھڑوں کا استعمال کیسنر کے علاج میں مؤثر ثابت ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے چین میں مانگ کی وجہ سے اس کی تعداد میں کمی ہوئی تاہم پاکستان میں اس طرح کی اطلاعات دستیاب نہیں کہ اس کو چین ایکسپورٹ یا فروخت کیا گیا یا نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک مالدیپ، تھائی لینڈ جیسے ممالک کا زیادہ تر انحصار سمندری سیاحت یا پانی کے کھیل ہیں۔ ’وہاں پر سیاح جاتے ہیں توسمندر کے نیچے قدرت کے نظارے دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف ممالک میں فی سیاح مختلف نرخ ہیں جو 80 ڈالر سے لے کر 150 ڈالر تک ہوتے ہیں۔‘ سید مصطفیٰ حسن کے مطابق اگر صرف کشتی کے اوپر ہی بیٹھ کر سمندر کی سیر اور سمندری مخلوق کا نظارہ کرنا ہے تو اس کے لیے پندرہ سے تیس ڈالر تک فی سیاح وصول کرتے ہیں۔ سیاح ان علاقوں کا رخ اس لیے کرتے ہیں جہاں پر کارنیج سمیت دیگر سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جبکہ چرنا اور دیگر سمندری حدود میں یہ کم ہوتی جارہی ہے۔ سید مصطفیٰ حسین کہتے ہیں کہ ’سوچیں اور تصور کریں کہ دس فٹ لمبی کارنیج کے ساتھ بندہ سمندر میں تیر رہا ہو تو کیسا محسوس ہوگا۔ پھر نیچے جا کر ریت پر بیٹھ جائیں۔ ساتھ میں مونگے کے پہاڑ ہوں تو شاید اس کو کوئی بھی سیاح اپنی ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب کچھ پاکستان میں دستیاب ہے، جو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو بڑی تعداد میں راغب کرسکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف کارینج اور دیگر سمندری مخلوق اور مونگے کو محفوظ کرنے کی۔‘ |
/urdu/vert-tra-60140231 | اس مشکل شاہراہ پر سفر کرنا آسان نہیں۔ بلکہ گاڑی چلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس شاہراہ پر گاڑی چلانے والے اور اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے والے کو اینوک ٹورسٹ دفتر کی جانب سے مشکل ترین شاہراہ پر سفر کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ | ڈیمپسٹر ہائی وے کا تصور 1950 کی دہائی کے آخر میں میک کینزی ڈیلٹا میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کیا گیا تھا اور یہ کئی دہائیوں پرانے کتوں کے ذریعے نگرانی کرنے کے راستے کی جگہ پر قائم کی گئی تھی۔ اب ایک اور مرکزی شاہراہ یا ہائی وے، اس ڈیمسٹر ہائی وے کے ساتھ آن جڑی ہے اور اس کو قطب شمالی کے قصبے انیوک سے بھی مزید 147 کلومیٹر آگے تک لے جاتی ہے۔ اس مشکل شاہراہ پر سفر کرنا آسان نہیں بلکہ گاڑی چلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس شاہراہ پر گاڑی چلانے والے اور اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے والوں کو ٹورسٹ دفتر کی جانب سے ’مشکل ترین شاہراہ پر سفر‘ کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ یہ ایک کچی سڑک ہے، جہاں نہ تو کوئی موبائل سگنل ہیں، نہ ہی قیام و طعام کے بے پناہ مواقع۔ یہاں پورے راستے میں صرف ایک پیٹرول پمپ موجود ہے جو تقریباً آدھے سفر کے بعد آتا ہے۔ اس شاہراہ پر گھنٹوں کے حساب سے آپ کے سامنے کا منظر بدلتا ہے۔ اب میں برف پوش چوٹیوں، پگھلتے گلیشیئر کے پانی سے بھرے دریاؤں اور ٹیلوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا سرسبز علاقے میں داخل ہو چکا تھا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ ’مجھے اس وقت تک گاڑی چلانی چاہیے جب تک میں تھک نہیں جاتا یا راستے میں کوئی اور مسئلہ نہیں درپیش ہوتا۔‘ ڈیمسٹر ہائی وے پر ان دنوں جب مٹی اور کٹی ہوئی بجری ڈالی گئی تھی ایسے میں ٹائر پنکچر ہونے کے امکانات کم تھے۔ لیکن یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ کوئی بھی حادثہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو میرے پاس کار جیک اور ٹائر بدلنے کے دیگر اوزار گاڑی میں موجود تھے اور میں ٹائر تبدیل کر سکتا تھا۔ لیکن میں نے اپنی گاڑی کو ایگل پلینز سرائے کے قریب ایک مقامی میکنیک تک لے جانا مناسب سمجھا اور گاڑی کو چند کلومیٹر آگے چلا کر وہاں تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم خوش قسمتی سے میری گاڑی رکنے کے چند منٹ بعد ہی وہاں سے گزرتی ایک گاڑی نے مجھے لفٹ دے دی اور میں ڈاؤسن شہر میں اپنے گیسٹ ہاؤس واپس پہنچ گیا۔ گیسٹ ہاؤس واپس پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ بھی ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کرنے کے دوران ایڈونچر کی مزے کا حصہ ہے۔ اس تمام سفر کے دوران جب بھی میں کسی مشکل یا حادثے کا شکار ہونے کی قریب پہنچا تو میری خوش قسمتی نے میرا ساتھ دیتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا۔ |
/urdu/pakistan-50581353 | طلبا تنظیموں اور ان کی حامیوں کے مطابق تعلیمی ادراوں کی خواہش ہے کہ وہ نظام کو آمرانہ انداز میں چلاتے رہیں اور ان کا کسی بھی معاملے پر احتساب نہ ہو۔ | دنیا کے جمہوری ملکوں میں سٹوڈنٹ یونین کو سیاست کی نرسری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جہاں ایک پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور خدشات کا کھل کر اظہار کرنا تعلیمی اداروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ عمل رکا ہوا ہے۔ ستر کی دہائی میں جب جنرل ضیا الحق نے ان طلبا یونینز پر پابندی عائد کی تو ان نرسریوں میں نئی سیاسی قیادت کی تربیت کا عمل رک گیا اور جب ایسا اقدام ہو جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں نئی قیادت اور پڑھے لکھے سیاستدان کہاں سے آئیں گے؟ موروثی سیاست کا خاتمہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ لاہور سے تعلق رکھنے والی طلبا تنظیم کی سرکردہ کارکن محبہ احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست کرنے کا حق دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ’ہم جمہوریت کو صحیح معنوں میں آگے لانا چاہتے ہیں۔ اس وقت جمہوریت اور سیاست صرف ایک طبقے تک محدود نظر آتی ہے اور ہم اسے اس طبقے سے چھین کر عوام تک لانا چاہتے ہیں۔‘ طالب علم آمنہ وحید بھی کہتی ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق سٹوڈنٹ یونینز اور ایسوسی ایشنز قائم کرنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ آمنہ وحید نے سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی تعلیمی ادارے کے سربراہ سے لے کر نیچے تک سیاست چلتی ہے، سٹوڈنٹ لاز میں سیاست ہے تو جب طلبا اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہاں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ آخر سیاست کوئی گالی تو نہیں۔‘ رواں ہفتے بلوچستان کے گورنر آفس سے بلوچستان یونیورسٹی کے لیے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں درج ہے کہ ’بلوچستان یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔‘ ’تعلیمی ادراوں کی خواہش ہے کہ وہ نظام کو آمرانہ انداز میں چلاتے رہیں اور ان کا کسی بھی معاملے پر احتساب نہ ہو، ملک میں جمہوریت تب تک پنپ نہیں سکتی جب تک تدریسی اداروں میں آزاد انسان نہیں پیدا ہوتے، اور ان میں جمہوریت نہیں ہوتی۔‘ ’یہ کوشش جب شروع ہو جائے کہ دماغوں کو ڈبوں میں بند کر دیا جائے، نہ سوال ہو، نہ جواب آئے، تو اس سے تقصان معاشرے کا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ ہمارا حال بیان کر رہا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ حکام اس لیے طلبہ یونینز اور تنظیموں کے خلاف ہیں کیوںکہ انھیں خوف ہے اگر طلبہ کو سیاست کا حق دیا گیا تو پھر ان کا اختیار خطرے میں پڑ جائے گا۔ ’یہی خوف کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں نیا خون شامل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔‘ |
/urdu/pakistan-50963634 | نویں جماعت کے طالب علم محمد عدنان نے گذشتہ سال مارچ میں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد تصاویر اور ویڈیو کی صورت میں ہونے والی بلیک میلنگ کے ڈر سے خودکشی کر لی تھی۔ | صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں نوعمر لڑکے سے مبینہ جنسی زیادتی اور اس کے بعد متاثرہ لڑکے کی خود کشی کے واقعے میں ملوث دو مرکزی ملزمان کو مقامی عدالت نے سات، سات سال قید، دیت اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔ یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کے علاقے شانگلی بالا سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے طالب علم محمد عدنان نے گذشتہ سال مارچ میں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد تصاویر اور ویڈیو کی صورت میں ہونے والی بلیک میلنگ کے ڈر سے خودکشی کر لی تھی۔ محمد عدنان کے چچا محمد اسحاق نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 14 مارچ کی شام کو جب عدنان کا پتا نہیں چل رہا تھا تو ہم سب لوگ پریشان ہوئے اور پورے علاقے میں تلاش شروع کر دی، کئی گھنٹے تک عدنان کو تلاش کرتے رہے مگر رات گئے جب اس کے گھر کے اوپر والے حصے میں گئے تو اس کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس موقع پر گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔ اس کی لاش کو فوراً بٹگرام ہسپتال پہنچایا گیا۔ محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہم سے اس سارے واقعے میں بہت تعاون کیا۔ عدنان کی خودکشی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ پر پولیس کو بھی شک ہو گیا تھا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ ’ہمیں جو بھی کڑی ملتی تھی وہ پولیس کو فراہم کرتے تھے اور پولیس اس پر مزید تفتیش کرتی تھی۔‘ محمد عدنان کے ایک کزن نے بی بی سی کو بتایا کہ جس روز محمد عدنان نے خود کشی کی تھی اس روز اس نے غیر معمولی طور پر اپنے والد کی قبر پر کئی گھنٹے گزارے تھے۔ 'میرا اس دوران دو مرتبہ قبرستان کے علاقے سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے والد کی قبر کے سرہانے پر بیٹھا تھا اور کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ تلاوت کررہا ہوگا۔' ’دوسری مرتبہ بھی جب اسی طرح دیکھا تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو عدنان کا کہنا تھا کچھ نہیں بس ویسے ہی بیٹھا ہوں، گھر جاتا ہوں۔ رات کو پتا چلا کہ خودکشی کر لی ہے۔ شاید والد کی قبر پر بیٹھ کر اس نے خود پر گزرنے والے حالات بیان کیے ہوں۔ پتا نہیں وہ وہاں پر کیا کیا کرتا رہا اور اس پر کیا گزرتی رہی تھی۔‘ پشاور میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکن قمر نسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے مگر اب ایک جو موبائل سے ویڈیو اور تصاویر بنا کر بلیک میل کرنے کے واقعات میں انتہائی اضافہ ہوچکا ہے۔ |
/urdu/pakistan-55960926 | اسد مینگل بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل کے بڑے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کے بڑے بھائی تھے، جن کی عمر 19 سال تھی وہ کراچی میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ انھیں سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کا پہلا جبری لاپتہ نوجوان قرار دیا جاتا ہے۔ | اسد مینگل بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل کے بڑے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کے بڑے بھائی تھے، جن کی عمر 19 سال تھی وہ کراچی میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اسد مینگل کو سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کا پہلا جبری لاپتہ نوجوان قرار دیا جاتا ہے۔ سردار اختر مینگل بتاتے ہیں کہ ان کے والد سردار عطااللہ مینگل ان دنوں حیدرآباد سازش کیس میں قید اور جناح ہسپتال کے شعبے کارڈیولوجی میں زیر علاج تھے۔ ان کو اسد نے آگاہ کیا تھا کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے اور والد نے انھیں اپنا خیال رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ بلوچستان پوسٹ ویب سائٹ پر نصیر دشتی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ اسد مینگل اور اس کا دوست احمد شاہ کرد بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کر رہے تھے۔ ریاستی اداروں کو ان پر یہ شبہ تھا کہ وہ عوامی رابطہ کاری کے علاوہ بلوچستان میں عسکریت پسندی کے لیے بھی موبلائزیشن کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کے قیام کے دس ماہ میں برطرف کر دیا گیا اور غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل اور نواب خیربخش مری سمیت نیپ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا، اس کو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اسد کی گمشدگی کے دو سال کے بعد 1978 میں اسد سے چھوٹے بھائی منیر مینگل کے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، والد (سردار عطااللہ) نے اس کا نام اسداللہ رکھا۔ سردار اختر مینگل بتاتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے اے آر وائی پر ان کے ساتھ ایک پروگرام میں اعتراف کیا تھا کہ وہ اسد کو زخمی حالت میں مظفر آباد کشمیر میں جلالی کیمپ لائے تھے اور تشدد میں اس کی ہلاکت ہوئی۔ جنرل ضیاالحق کی طیارے میں ہلاکت اور پاکستان میں جمہوری دور حکومت کی بحالی کے بعد عطااللہ مینگل اور بعد میں خیربخش مری وطن واپس آ گئے۔ انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنی سیاسی وراثت اپنے بچوں کے حوالے کر دی۔ عطااللہ کے بیٹے اختر مینگل وزیر اعلیٰ بنے جبکہ حربیار مری اور بالاچ مری اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ جب 1996 میں ان کی وزرات اعلیٰ آئی تھی اس واقعے کو بیس سال سے زائد کاعرصہ گزر چکا تھا۔ کس سے تحقیقات کرتے، اداروں اور حکمرانوں کو جو اس کے ذمہ دار ہیں وہ اس واقعے کو بلوچ جدوجہد میں شمار کرتے ہیں۔ اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں جب لاپتہ افراد سمیت بلوچستان کے معاملات پر درخواست دائر کی تھی اس میں انھوں نے جبری گمشدگیوں کے ریفرنس اور ثبوت کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب بھی پیش کی تھی۔ |
/urdu/world-55207771 | امریکہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ممکنہ طور پر کیوبا میں ان کا سفارتی عملہ مائیکروویوز کی وجہ سے ایک پراسرار بیماری ’ہوانا سینڈروم‘ کا شکار ہوا ہے۔ | کیوبا میں امریکی عملے کو لاحق ہونے والی ایک پراسرار بیماری کے بارے میں ایک تازہ ترین امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بیماری جسے ’ہوانا سینڈروم‘ کا نام دیا گیا ہے کی ممکنہ وجہ مائیکروویو تابکاری ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی ایک رپورٹ میں توانائی کی لہروں کے اخراج کا کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔ اس وقت امریکی حکام نے اس خدشے کے اظہار کیا ہے کہ کیوبا میں ان کے سفارت خانے پر صوتی حملہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سفارت خانے کے 19 اہلکاروں کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ کیوبا نے اس حملے میں کسی بھی طور پر ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیق کر رہے ہیں۔ اس بیماری سے متعلق عملے اور ان کے رشتے داروں نے یہ شکایت کی تھی کہ اس میں چکر آنا، توازن بگڑ جانا، سماعت کا چلے جانا، اضطراب اور یادداشت کا متاثر ہونا ہے۔ امریکہ نے کیوبا پر سونک حملوں کا الزام عائد کیا تھا جس کی کیوبا نے سختی سے تردید جاری کی۔ تاہم اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات میں کشیدگی واقع ہو گئی۔ گذشتہ سال امریکہ کی ایک تحقیق میں پتا چلا گیا تھا کہ اس بیماری نے متاثر ہونے والے امریکی سفارتی عملے کے دماغ کو نقصان پہنچایا تھا۔ کینیڈا نے بھی کیوبا میں اپنے عملے کی تعداد اس وقت کم کر دی جب اس کے 14 سفارتی عملے کے افراد اس طرح کی بیماری سے متاثر ہوئے۔ امریکہ میں اس بیماری سے متعلق طبعی ماہرین کی ایک ٹیم اور سائنسی ماہرین نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے حکومت کے 40 ملازمین میں اس بیماری کی علامات کا معائنہ کیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کو دیرپا اور اندر سے مسلسل کمزوری جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق ان امریکی سفارتکاروں میں بیماری کے جس قسم کی علامات ظاہر ہوئی ہیں ان کا تعلق پلسڈ ریڈیو فریکوئنسی انرجی کے اثرات کو ظاہر کرتی ہیں۔ گذشتہ پانچ دہائیوں میں شائع ہونے والے تحقیقاتی مقالے اور اس کے بدلے سویت اور مغربی ممالک کی طرف سے دیے جانے والے ثبوت بھی اس ممکنہ میکنزم کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق روس میں اس حوالے سے قابل قدر کام ہوا ہے۔ سنہ 2018 میں امریکہ نے چین سے بھی اپنے کئی سفارتکار واپس بلا لیے تھے جب چین کے تجارتی شہر گوانژو میں امریکی سفارتکاروں کو اس قسم کی علامات اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ تھا۔ اس کے بعد ان ملازمین کو واپس امریکہ بھیج دیا گیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کو علم ہوا کہ ملازمین دماغ کی چوٹ سے متاثر ہوئے ہیں۔ لی کا کہنا تھا کہ ان علامات کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں اور چین میں کہیں اور سفارتی عملے کے علاوہ بھی ایسی صورتحال پیش نہیں آئی۔ |
/urdu/pakistan-58964024 | گذشتہ دو ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری ’سمری اننگ‘ کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات تو طے ہے کہ ہاتھوں سے کبوتر نکالتے نکالتے طوطے اُڑائے جا چُکے ہیں: عاصمہ شیرازی کا کالم | طاقت کے کھیل میں لڑائی کے اُصول طے کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ کس وقت پر کس رِنگ میں کون سے پہلوان اُتارنے ہیں، کیسی ٹیم کھلانی ہے اور جیتنے کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اچھے کپتان ساری توقعات کسی ایک کھلاڑی سے نہیں لگاتے بلکہ ہر ایک کا بیک اپ ضرور رکھتے ہیں۔ موجودہ ’پراجیکٹ تبدیلی‘ کے لیے ہر جتن کیا گیا۔ بڑے گھر نے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال لیے تو چھوٹے گھر نے بھی سارا جُوا ایک ہی شخصیت پر لگا دیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں اس وقت دل گرفتہ ہیں اور جنتری سے نئے منتر نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری ’سمری اننگ‘ کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات تو طے ہے کہ ہاتھوں سے کبوتر نکالتے نکالتے طوطے اُڑائے جا چُکے ہیں۔ اب ایک طرف کمانیں تبدیل ہو رہی ہیں تو دوسری جانب الوداعی ملاقاتیں۔۔۔ یہ تو طے ہے کہ ادارہ کبھی اپنے ’باس‘ کو بائے پاس نہیں کرتا اور نہ ہی فیصلے واپس لیے جاتے ہیں۔ پہلے کبھی ہوا نہیں اور اب بھی ایسا سوچا نہیں جا سکتا۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا عدالتی معاملات وقت آ گیا ہے کہ بگاڑ کو سُدھار کی جانب لے جایا جائے۔ ادارے کے لیے اہم یہی تھا کہ وقت اور حالات کے پیش نظر فیصلے کیے جائیں مگر یہ خیال نہ تھا کہ فیصلے پر فیصلہ بھی سُنایا جائے گا؟ یہ دھچکا بہرحال لگ چُکا ہے، اب اس دھچکے کے بعد کیا ہو گا یہ وہ سوال ہے جو اسلام آباد میں ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے۔ گذشتہ چند دنوں کی دھول اب تک نہیں بیٹھی۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا؟ مملکت کے معاملات کیسے چلائے جائیں؟ معیشت اور سیاست بند گلی میں کھڑی ہے، حکومت غیر مقبول اور عوام مضطرب۔ اس سے قبل کہ غیر یقینی صورت حال حالات کو ہی قابو میں کر لے، اب کرنا کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ایک طرف ایف اے ٹی ایف کی تلوار اور دوسری جانب دُنیا بد اعتماد، آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی پاکستان کے گرد کسا جا چُکا ہے۔ کیا ان حالات میں کوئی سیاسی جماعت ملک سنبھالنے کو تیار ہو گی؟ یہ سب سوال مشکل ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ آج بھی میثاق معیشت پر بات ہو سکتی ہے۔ حزب اختلاف کی سنجیدہ سیاسی جماعتیں ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کو اختیار کریں یا قلیل المدتی حکومت بنائیں، یہ طے ہے کہ کوئی ایک جماعت حکومت نہیں چلا پائے گی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو سیاسی شہادت دیے بغیر تبدیلی کیسے لا سکتی ہیں اور نظام گرنے سے کیسے بچا سکتیں ہیں۔ یہ دونوں بڑی جماعتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اس سب کے لیے اپوزیشن کو جلد ایک صفحے پر آنا ہو گا۔ |
/urdu/world-54276200 | 28 سالہ گریس نے سوشل میڈیا پر بس اتنا پوچھا تھا کہ ’کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟‘ جواب میں ان کا اپنے ماموں اور پھوپھی سے ملاپ ایک ’معجزے‘ سے کم نہیں تھا۔ | ’کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟‘ گریس نے یہ سوال اپریل میں سوشل میڈیا پر پوچھا تھا گریس امتونی کو اپنا پیدائشی نام معلوم نہیں تھا۔ انھوں نے اپریل میں کئی واٹس ایپ گروپس، فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنی تصاویر لگائی تھیں تاکہ وہ اپنے خاندان کے افراد کو ٹریس کر سکیں۔ سرکاری ذرائع کے ذریعے وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوئی تھیں۔ اس 28 سالہ نرس کو اپنے پس منظر کے بارے میں صرف اتنا معلوم تھا کہ انھیں اپنے چار سالہ بھائی کے ساتھ نیامریمبو شہر سے دارالحکومت کیگالی کے ایک یتیم خانے لایا گیا تھا۔ ان کا بھائی بعد میں ہلاک ہوگیا تھا۔ گریس جنوب میں واقع گیکنکے ضلعے گئیں جہاں وہ کام کرتی ہیں اور ان کے ممکنہ ماموں لیلوسی مغرب میں گیزنسائی میں واقع اپنے گھر سے آئے تاکہ ایک ساتھ نتائج دیکھ سکیں۔ میری نے گریس کو ان کے بھائی کا پورا نام بتایا۔ اور یہ بھی کہ ان کا ایک اور بھائی فیبریس تھا جس کی عمر ایک سال تھی۔ یہ نسل کشی اس وقت شروع ہوئی تھی جب 6 اپریل 1994 کو ایک طیارہ گرایا گیا تھا جس میں روانڈا اور برونڈی کے صدر موجود تھے۔ دونوں کا تعلق ہوتو نسل سے تھا اور ان کی ہلاکتوں کے بعد مزید ہلاکتیں سامنے آئی تھیں۔ ہوتو ملیشیا کو بتایا گیا تھا کہ وہ اقلیتی نسل تتسی سے تعلق رکھنے والوں کو ڈھونڈ کر ان کا قتل کریں۔ کیگالی کے مضافات میں نیامریمبو ابتدائی متاثرہ علاقوں میں سے ایک تھا۔ جب گریس پرورش پا رہی تھیں تو انھیں اپنے بھائی کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ یتیم خانہ پہنچنے کے کچھ ہی وقت بعد دم توڑ گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے۔ ان پر ہوتو ملیشیا کے افراد نے گولیاں چلائی تھیں۔ بچنے والی لڑکی کو چار سال کی عمر میں ملک کے جنوب میں واقع ایک تتسی خاندان نے گود لیا اور ان کا نام گریس رکھا۔ 'میں نے اپنی زندگی غم میں گزاری ہے کیونکہ مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن میں خدا سے ایک معجزے کی دعا مانگا کرتی تھی۔' 'تاہم یہ اچھا ہوا کہ ایک خاندان نے مجھے گود لیا۔ پھر بھی میں اپنے اصل خاندان کے بارے میں سوچتی رہی۔ میرے ذہن میں صرف میرے بھائی اور شہر کا نام تھا۔ یہ ایک کھوج شروع کرنے کے لیے بہت کم معلومات تھی۔' وہ واٹس ایپ کے ذریعے اپنے رشتہ داروں سے مل رہی ہیں۔ انھیں پتا چلا ہے کہ کیگالی میں ان کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے۔ سنہ 2020 کی ابتدا سے ادارے نے خاندانوں سے 99 افراد کا ملاپ کرایا ہے۔ ان افراد نے دو دہائیوں سے اپنے خاندان کو نہیں دیکھا تھا۔ |
/urdu/pakistan-56924795 | گوادر میں دہرے قتل کا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کی جانب سے نہ صرف مقدمے کی پیروی نہیں کی گئی بلکہ انھوں نے ملزمان کو معاف بھی کر دیا تھا۔ اس کے باوجود گوادر کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے کوسٹ گارڈ کے تینوں اہلکاروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی۔ | دل مراد کو گذشتہ برس جون میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں تین کوسٹ گارڈز نے منشیات فروش قرار دے کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ گوادر میں دل مراد کے ساتھ کوسٹ گارڈز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دوسرے شخص در محمد بھی تھے جو 10 بچوں کے باپ تھے۔ کوسٹ گارڈ کے مطابق یہ دونوں فرار ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ گوادر میں دہرے قتل کا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کی جانب سے نہ صرف مقدمے کی پیروی نہیں کی گئی بلکہ انھوں نے ملزمان کو معاف بھی کر دیا تھا۔ اس کے باوجود گوادر کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے چشم دید گواہوں کے بیانات کی روشنی میں کوسٹ گارڈ کے تینوں اہلکاروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے 14، 14 سال قید اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس واقعے کے حوالے سے لواحقین کے مدعیت میں درج کروائی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق چھ جون 2020 کی شب تین کوسٹ گارڈز نے گوادر کے گول چوک کے قریب محنت مزدوری کرنے والے دو افراد کو منشیات فروش قرار دے کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ گوادر پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق کوسٹ گارڈز کی جانب سے ان افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ان پر منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم ان کے رشتہ داروں نے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔ گوادر پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ یہ کیس ابتدائی طور پر نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا لیکن اس کیس کا نہ صرف ایک چشم دید گواہ تھا بلکہ موت سے قبل درمحمد نے بھی بیان دیا تھا۔ پولیس اہلکار کے مطابق اس واقعے کے چشم دید گواہ گول چوک کے قریب ایک نرسری کے چوکیدار تھے جنھوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ دونوں افراد کو کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ہلاکت سے قبل درمحمد نے جو بیان دیا تھا اس میں بھی انھوں نے کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں پر فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ ان شواہد کی بنیاد پر کوسٹ گارڈز کے حکام کو لیٹر جاری کرتے ہوئے واقعے کے ذمہ دار اہلکاروں کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اہلکاروں کو پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا لیکن کوسٹ گارڈز کی جانب سے ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی جس میں مارے جانے والے دونوں افراد کو بھی نامزد کیا گیا۔ |
/urdu/world-58142942 | رواں برس بھی متعدد عرب ممالک میں نئے ہجری سال کا آغاز گریگورین کیلنڈر کے مطابق پیر نو اگست سے ہوا جبکہ پاکستان اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں یہ سال منگل دس اگست سے شروع ہوا ہے۔ | دنیا بھر میں نئے سال کے آغاز کی بات کی جائے تو جو تاریخ ذہن میں فوراً آتی ہے وہ یکم جنوری ہے جو گریگورین یا شمسی کیلنڈر کے مطابق نئے سال کا پہلا دن ہے لیکن اسلامی کیلنڈر میں نئے سال کا آغاز یکم محرم سے ہوتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس سال کا آغاز ایک دن کے فرق سے ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رواں برس بھی متعدد عرب ممالک میں نئے ہجری سال کا آغاز گریگورین کیلنڈر کے مطابق پیر نو اگست سے ہوا جبکہ پاکستان اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں یہ سال منگل دس اگست سے شروع ہوا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کا آغاز پیغمبر اسلام کی مکّہ سے مدینہ ہجرت کے برس سے کیا گیا ہے اور یہ ہجری کیلنڈر کا 1443 واں سال ہے لیکن ہجری کیلنڈر کے بارے میں اور بھی حقائق ہیں جن کا ہم یہاں جائزہ لے رہے ہیں۔ آپ میں سے زیادہ تر لوگ اس سے واقف ہیں کہ ہجری مہینے کا اختتام اور آغاز نئے چاند کے دیکھنے کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے جو شمسی طریقے کے برعکس ہجری مہینوں کے دنوں کو غیرمعینہ بنا دیتا ہے۔ اس کے مطابق ہجری مہینے کے دنوں کی تعداد 29 اور 30 دنوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کیلنڈر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے تمام حصوں میں ایک ہی دن ہجری مہینے شروع ہوتے ہیں، بلکہ یہ ممالک میں مہینوں کے آغاز میں فرق کو محدود کرتا ہے تاکہ یہ عالمی سطح پر ایک دن سے زیادہ نہ ہو۔ آج دنیا اسلامی نیا سال محرم کے مہینے سے شروع کرتی ہے اور یہ اسلام کے دوسرے خلیفہ کا اسلامی کیلنڈر کے آغاز کے طور پر اپنایا ہوا مہینہ ہے۔ متحدہ عرب امارات میں قائم بین الاقوامی فلکیات کا مرکز نماز کے اوقات کا تعین کرنے اور 'نئے چاندوں کے مشاہدہ کے اسلامی منصوبے' کی نگرانی سے متعلق ہے جو 21 سال قبل شروع کیا گیا تھا۔ اس پروجیکٹ میں 800 سے زیادہ سائنسدان اور ماہرین شامل ہیں، جو ہلال کا مشاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ مرکز ہلال کا شوقیہ نظارہ کرنے والے لوگوں کو بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہلال کا مشاہدہ کرنے کی اپنی تصاویر بھیجیں جسے وہ چیک کرنے کے بعد اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عودہ نے مشاہدے کے لیے ایک معیار شروع کیا جو سنہ 2005 میں ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہوا تھا، آج اسے بہت سے لوگوں نے منظور کیا ہے اور بین الاقوامی فلکیات مرکز نئے چاند کی نگرانی اور نماز کے اوقات کا تعین کرنے کے لیے اس پر انحصار کرتا ہے، اردن اور متحدہ عرب امارات کے سرکاری حکام اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ |
/urdu/world-55272304 | امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تینوں مدعی ایف بی آئی کے اُن اہلکاروں پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں جنھوں نے ان تینوں کو 'نو فلائی لسٹ' پر اس لیے ڈال دیا تھا کیونکہ انھوں نے ایف بی آئی کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا۔ | جب فروری 2007 میں نیو یارک کے رہائشی محمد تنویر سے دو فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کے اہلکاروں نے رابطہ کر کے امریکی حکام کے لیے مسلمانوں کی مخبری کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’مذہب ایسا کرنے سے منع کرتا ہے‘۔ تین سال تک محمد تنویر کو بطور مخبر بھرتی کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ایف بی آئی نے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے نیا حربہ نکالا اور انھیں 2010 میں امریکہ میں نائن الیون کے بعد بنائی گئی 'نو فلائی لسٹ' میں شامل کر دیا گیا، جس کے خلاف محمد تنویر اور دیگر دو مسلمان افراد نے 2014 میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ واضح رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے اس مقدمے کو پہلی بار عدالت میں جانے سے روکنے کی کوشش کی غرض سے ان تینوں کے نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیے تھے لیکن ان تینوں نے مقدمہ ختم نہیں کیا تھا۔ چھ سال تک مختلف عدالتوں میں جانے کے بعد بالاآخر جمعرات کو امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ تینوں درخواست گزار ایف بی آئی کے اُن اہلکاروں پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں جنھوں نے ان تینوں کو 'نو فلائی لسٹ' پر اس لیے ڈال دیا تھا کیونکہ انھوں نے ایف بی آئی کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ تینوں درخواست گزار ایف بی آئی کے اُن اہلکاروں پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں جنھوں نے ان تینوں کو 'نو فلائی لسٹ' میں ڈال دیا تھا (فائل فوٹو) محمد تنویر، جمیل الگی باہ اور نوید شنواری نے اپنی درخواستوں میں کہا تھا کہ ایف بی آئی نے ’ان پر یہ دباؤ ڈال کر ان کے عقیدے کی تضحیک کی ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی جاسوسی یا مخبری کریں‘۔ درخواست گزار نوید شنواری نے امریکی ادارے نیشنل پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ 'میں نہایت خوش اور مطمئن ہوں۔ یہ ہر اس شخص کی جیت ہے جس کی آواز نہیں سنی جاتی چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ ایف بی آئی اور ان جیسی دیگر ایجنسیوں کے لیے ایک سبق ہو گا کہ لوگوں کا مستقبل خراب کرنے پر ان سے پوچھ گچھ ہوگی۔' امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد حکومت نے نو فلائی لسٹ تیار کرنی شروع کی تھی جس میں صرف ان افراد کا نام شامل کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف 'مصدقہ یا مشتبہ دہشتگرد ہوں' بلکہ اس کے علاوہ ان کے بارے میں ایسی معلومات ہونا بھی ضروری ہیں جو یہ ثابت کر سکیں کہ 'اس شخص کی جانب سے کسی طیارے پر دہشت گردی کا خطرہ ہے۔' |
/urdu/sport-53773859 | بارش اور خراب موسم سے متاثرہ پہلے دن کے اسکور 126 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ میں ایک ہی قابل ذکر اننگز نظر آئی جو عابد علی کے 60 رنز کی تھی۔ | ساؤتھیمپٹن ٹیسٹ میچ کے پہلے دن اگر یہ کہا جائے کہ موسم نے بار بار رکاوٹ نہ ڈالی ہوتی تو ممکن تھا کہ پاکستانی ٹیم نے جس طرح کی بیٹنگ کی وہ آل آؤٹ ہو جاتی تو شاید غلط نہ ہو۔ بارش اور خراب موسم سے متاثرہ پہلے دن کے سکور 126 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ میں ایک ہی قابل ذکر اننگز نظر آئی جو عابد علی کی تھی۔ وہ 60 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ یہ وہی عابد علی ہیں جو اپنے اولین ٹیسٹ اور اولین ون ڈے دونوں ہی میں سنچری بنانے والے دنیا کے واحد بیٹسمین کے طور پر ریکارڈ بکس میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں۔ اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں وہ صرف 16 رنز بنا کر جوفرا آچر کی گیند پر بولڈ ہوئے تھے۔ دوسری اننگز میں 20 رنز پر ڈوم بیس کی گیند پر غیرضروری سویپ کھیلتے ہوئے وہ ووکس کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ ساؤتھیمپٹن ٹیسٹ کے پہلے دن جب پہلے ٹیسٹ میں سنچری سکور کرنے والے شان مسعود صرف ایک رن پر آؤٹ ہوئے تو دوسرے اینڈ پر عابد علی سے ایک ذمہ دارانہ اننگز کی امیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں۔ عابد علی اپنی 60 رنز کی اننگز سے کسی حد تک مطمئن ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ اننگز ایک بڑے اسکور میں بھی تبدیل ہوسکتی تھی۔ عابد علی کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے تھے کہ اپنی بہترین کارکردگی دکھا سکیں خاص کر ایسی پرفارمنس جو ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہو سکے۔ ’ساؤتھمپٹن کی وکٹ مشکل نہیں ہے اور گیند بلے پر بہت اچھی طرح آرہی تھی لیکن بارش کی وجہ سے کنڈیشنز مشکل ہو گئیں جس میں بیٹنگ آسان نہیں تھی۔‘ ان کی کپتان اظہرعلی کے ساتھ 72 رنز کی شراکت بھی ہوئی لیکن کھیل کے بار بار رکنے کے سبب چار وکٹیں جلدی گر گئیں۔ عابد علی کا یہ انگلینڈ کا دوسرا دورہ ہے اس سے قبل وہ گذشتہ سال ون ڈے سیریز کا حصہ تھے لیکن صرف ایک میچ میں انھیں موقع مل سکا تھا اور اسی کی بنیاد پر وہ ورلڈ کپ سکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ عابد علی کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ پہلی بار انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز کھیل رہے ہیں لہٰذا ان کنڈیشنز میں کھیلنا کسی چیلنج سے کم نہیں اور انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا ہے انھیں یقین ہے کہ وہ اس ٹور پر بڑی پرفارمنس دینے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ عابدعلی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیم مثبت سوچ کے ساتھ یہ میچ کھیل رہی ہے اور یہی سوچ کر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی گئی کہ ایک اچھا اسکور کیا جائے۔ ’پانچ وکٹیں گرگئی ہیں لیکن کریز پر بابراعظم اور محمد رضوان موجود ہیں اور ان دونوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ٹیم کا اسکور ایک اچھی پوزیشن تک لے جاسکیں۔‘ |
/urdu/pakistan-50625229 | اگر آپ نے موئن جو دڑو جانے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو 20 روپے کا نوٹ رکھنا نہ بھولیں۔ جب سیر کرتے کرتے آپ حمام کے قریب پہنچیں گے تو بائیں ہاتھ پر سٹوپا کی طرف مڑیں اور نوٹ پر بنا منظر آپ کے سامنے آ جائے گا۔ | موئن جو دڑو آ کر کچھ کچھ وہی احساس ہوتا ہے جو آپ کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی کسی پوش سوسائٹی جا کر ہوتا ہے۔ پہلے تو انسان یہاں کے طرزِ تعمیر کے معیار کا متعرف ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ خوشی احساسِ محرومی میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ کاش یہاں ایک کارنر پلاٹ ہمارا بھی ہوتا۔ موئن جو دڑو کی جدید تہذیب کا ایک نمونہ یہاں کے میوزیم میں بھی ملتا ہے۔ نمائش پر رکھے نوادرات دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں بھی کانسی جیسی دھات کا استعمال جانتے تھے اور اُس سے اوزار اور دیگر اشیا تیار کر کے برآمد کیا کرتے تھے۔ داڑھی والے پُجاری کے مجسمے نے چادر اوڑھ رکھی ہے جس پر تین پتیوں والا پھول بنا ہے جو اجرک کے ڈیزائن سے مشابہ ہے۔ موئن جو دڑو کی رقاصہ نے پورے بازو میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں جو آج بھی چولستان اور تھر کی خواتین کا رواج ہے۔ یہ ایک کم سن فنکارہ ہے جو برہنہ ہے، لیکن یہ وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ وہ رقص ہی کر رہی ہے۔ کوئی ایک ہزار سال یوں گزرے اور پھر بدھ مت کے پیروکار یہاں آ گئے۔ تباہ شدہ شہر کے ملبے کی اینٹیں جمع کیں اور اپنے لیے رہائشی علاقے اور عبادت کے لیے سٹوپا تعمیر کر لیا۔ آج یہی سٹوپا موئن جو دڑو کی تصویری علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اگر آپ موئن جو دڑو کے آس پاس دیہات میں نکل جائیں تو شاید آپ کو زندگی کچھ زیادہ مختلف نہ لگے۔ یہاں آ کر لگتا ہے جیسے وقت تھم سا گیا ہے اور شاید ہم اب بھی موئن جو دڑو کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ فلم ’لگان‘ بنانے والے نامور انڈین ہدایت کار آشوتوش گواریکر نے سنہ 2016 میں موئن جو دڑو کے زمانے کو 21ویں صدی کے فلم بینوں کے لیے فلمایا لیکن جہاں یہ فلم باکس آفس پر کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی وہیں عوام اور صوبہ سندھ کے محکمہِ ثقافت نے بھی اِسے حقیقت سے دور قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ موئن جو دڑو جانے کے کئی راستے ہیں۔ اگر آپ کراچی سے بذریعہ ٹرین لاڑکانہ جانا چاہتے ہیں تو سفر کوئی نو گھنٹے کا ہو گا اور لاڑکانہ سے بائی روڈ مزید 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے موئن جو دڑو جانے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو یاد رکھیں کہ جہاز یا بس کے ٹکٹ کے ساتھ ساتھ بیس روپے کا نوٹ بھی ساتھ رکھیں۔ ذرا جیب سے بٹوا نکال کر نوٹ کی پشت پر تو نظر ڈالیں۔ یہاں آپ کو موئن جو دڑو کے کھنڈرات کا نقش نظر آئے گا۔ جب سیر کرتے کرتے آپ حمام کے قریب پہنچیں تو بائیں ہاتھ مُڑ کر سٹوپا کی طرف رخ کر لیں۔ بیس روپے کے نوٹ پر بنا منظر حقیقت میں آپ کے سامنے آ جائے گا۔ |
/urdu/regional-49435460 | سرینگر کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار رات کے وقت ان کے گھروں میں داخل ہو کر گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور لڑکوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ | انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت کی جانب سے کرفیو میں نرمی اور حالات میں بہتری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی سیکیورٹی اہلکار آدھی رات کو ان کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں، گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے لڑکوں کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں۔ سرینگر سے بی بی سی کے نمائندے ریاض مسرور کی رپورٹ۔ |
/urdu/pakistan-52291267 | پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان کے مساجد کے حوالے سے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی جس میں کچھ صارفین اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے تو کچھ نے ان کی حکمت سے اتفاق کیا۔ | پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ روز قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد لاک ڈاؤن میں دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے دوران باجماعت نماز، تراویح، نماز جمعہ اور اعتکاف سے متلعق فیصلہ 18 اپریل کو کیا جائے گا۔ تاہم چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے حکومتی ارکان اور دیگر علما سے مشاورت سے پہلے ہی ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ مساجد میں لاک ڈاؤن نہیں ہو گا اور باجماعت نماز کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مفتی منیب کے اس اعلان کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی جس میں کچھ صارفین مفتی منیب کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے تو کچھ نے ان کی حکمت سے اتفاق کیا۔ گذشتہ روز ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #Tarawee اور #Mullah #WeStandWith_MuftiMuneeb ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔ فیصل محمد نامی صارف نے مفتی منیب کی جلد بازی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’ابھی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ مساجد میں تعداد بڑھانے کیلئے علما کرام سے مشاورت کر کے انھیں بڑھایا جائے گا لیکن مفتی منیب الرحمن سے 10 منٹ بھی صبر نہیں ہوا۔ انھوں نے از خود مساجد پر لاک ڈاون کی پالیسی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ علما حضرات میں افہام و تفہیم کے عنصر کا ختم ہونا قابل تشویش ہے۔‘ کئی ٹوئٹر صارفین نے خانہ کعبہ کی حالیہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر سعودی عرب میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں باجماعت نماز پر پابندی عائد ہو سکتی ہے تو پاکستان کی مساجد میں کیوں نہیں۔ لیکن جہاں مفتنی منیب کو لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ٹوئٹر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے اعلان سے اتفاق بھی کیا۔ محمد منیب نے مفتی منیب پر تنقید کرنے والوں سے سوال کیا: ‘دفاتر میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ جا سکتے ہیں تو مساجد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ کیوں نہیں جاسکتے؟‘ جبکہ سعودی عرب کی مثال دینے والوں کو جواب دیتے ہوئے صارف حسیب اسلم کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کی پیروی کرتے ہیں نہ کہ سعودی حکومت کی۔ اس لیے مجھے صرف اسلام کا حوالہ دیں۔ جبکہ عثمان علی نے مفتی منیب کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا: ‘یقین کرو اگر سعودی عرب میں مفتی منیب الرحمان جیسا بندہ ہوتا تو آج مکہ مکرمہ کا طواف بھی ہو رہا ہوتا۔‘ تاہم اس بحث کا آخری پتھر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پھینکا۔ یاد رہے کہ عید کا چاند دیکھنے کے معاملے پر دونوں سرکاری عہدیداران کے درمیان پہلے بھی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ |
/urdu/pakistan-50512113 | امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کی شام پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا افغانستان میں طالبان سے دو غیرملکی مغویوں کی رہائی میں سہولت کاری کے لیے شکریہ ادا کیا ہے۔ | یاد رہے کہ چند روز قبل افغان حکومت کی جانب سے انس حقانی سمیت تین طالبان جنگجوؤں کی رہائی کے بعد طالبان نے بھی دو غیرملکی مغویوں کو رہا کر دیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کی شام پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا افغانستان میں طالبان سے دو غیرملکی مغویوں کی رہائی میں سہولت کاری کے لیے شکریہ ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق عمران خان اور صدر ٹرمپ کی بات چیت کے دوران دوطرفہ امور اور خطے کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان مغربی پروفیسروں کی رہائی کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ یاد رہے کہ چند روز قبل افغان حکومت کی جانب سے انس حقانی سمیت تین طالبان جنگجوؤں کی رہائی کے بعد طالبان نے بھی دو غیرملکی مغویوں کو رہا کر دیا تھا۔ طالبان ذرائع کے مطابق امریکن یونیورسٹی آف افغانستان کے اساتذہ کیون کنگ نامی امریکی شہری اور آسٹریلیا کے ٹموتھی ویکس کو تین برس قبل کابل سے اغوا کیا گیا تھا اور انھیں منگل کو رہائی ملی ہے۔ اس سے قبل معاہدے کے تحت رہا کیے جانے والے طالبان رہنما افغانستان سے قطر پہنچے گئے تھے۔ امریکی شہری کیوِن کِنگ (دائیں) اور آسٹریلوی شہری ٹموتھی وِیکس (بائیں)، جن کے بدلے انس حقانی کی رہائی عمل میں آئی ہے اس سے قبل اکتوبر میں بھی طالبان کے کئی سرکردہ کمانڈروں کی رہائی کے بدلے میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے تین انجینیئروں کو رہا کیا گیا تھا۔ رہائی پانے والے طالبان میں حقانی گروپ کے ایک رکن کے علاوہ مزید 10 اہم کمانڈر شامل تھے۔ حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا حصہ ہے اور یہ گروہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف وجود میں آیا۔ امریکہ کی جانب سے اور پاکستان میں اس گروہ پر دہشتگردی کے الزامات میں پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ انس حقانی کون ہیں؟ بی بی سی اردو کے رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے رہا کیے جانے والے طالبان کمانڈروں میں شامل انس حقانی کا شمار افغان طالبان کے نوجوان رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی المعروف 'خلیفہ صیب' کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انس حقانی کا شمار افغان طالبان کے نوجوان رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی المعروف 'خلیفہ صیب' کے چھوٹے بھائی ہیں جمعرات کی شام پاکستانی وزیراعظم اور امریکی صدر کی کال کے دوران دونوں رہنمائوں نے پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کے عزم کو دہرایا اور اس مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کے وزیراعظم ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے کال کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے امریکی صدر کے کردار پر بھی زور دیا ہے۔ |
/urdu/pakistan-50585518 | جمعرات کو سپریم کورٹ میں غیر معمولی بھیڑ تھی۔ ماضی میں ایسا ہجوم تبھی دیکھنے کو ملا جب عدالت میں وزیراعظم کو طلب کیا گیا ہو مگر آج معاملہ فوج کے سربراہ کا تھا۔ | جمعرات کی صبح سپریم کورٹ کے باہر غیر معمولی بھیڑ تھی۔ ماضی میں ایسا ہجوم تبھی دیکھنے کو ملا جب عدالت میں وزیراعظم کو طلب کیا گیا ہو۔ سپریم کورٹ کی عمارت تک پہنچا تو وہاں صحافیوں کے ہاتھوں میں موجود کیمرے جیسے ہر آنے والے کے قدم شمار کر رہے تھے۔ یو ٹیوب چینل چلانے والے صحافی ٹی وی چینلز سے بھی پہلے اپنے ناظرین کو پل پل کی خبر دینے میں مصروف نظر آئے۔ کیمروں اور وکلا کی قطاروں سے بچتے بچاتے سپریم کورٹ کے سب سے کشادہ کمرہ نمبر ایک میں پہنچا تو وہاں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور کمرہ عدالت کی گیلری جو ججوں کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہوتی ہے وہ بھی کھچاکھچ بھری تھی۔ وقفے کے بعد جب اٹارنی جنرل انور منصور نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق نیا نوٹیفیکیشن عدالت کے سامنے پیش کیا تو عدالت نے اس میں کچھ نکات کی نشاندہی کی اور کہا کہ ’ہم تو سمجھے تھے کہ اتنے جید لوگ مل کر اتنے طویل اجلاسوں میں غور کریں گے تو کوئی خامی نہیں چھوڑیں گے۔‘ عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے کہا کہ اس سمری میں ہمارا ’ایڈوائزری رول‘ کا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایف آئی آر میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کا نام درج کر لیتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے اپنے ہاتھ میں آرمی ریگولیشنز کی کتاب لہراتے ہوئے کہا کہ اس پر لکھا ہے کہ کوئی غیر متعلقہ شخص اس کو پڑھ نہیں سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی قانونی جواز کے بغیر ہی توسیع کا معاملہ چلتا رہا، بس جس نے جو لکھ دیا۔ دوسرے دن جنرل اشفاق کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دینے والے اٹارنی جنرل کے لیے تیسرا دن نسبتاً آسان رہا اور ان کے اور بینچ کے درمیان اہم ایشوز پر اتفاق دیکھنے میں آیا۔ انھوں نے عدالت سے یہ استدعا کی کہ قانونی سقم کے باوجود آرمی چیف کے معاملے میں ریلیف دیا جائے اور یہ کہ حکومت تمام قانونی خامیوں کو دور کرے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے کا نوٹس لیے جانے پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں مقدمے کے درخواست گزار حنیف راہی بھی جمعرات کو عدالت میں موجود تھے تاہم آج ان کا ذکر ایک بار ہی سامنے آیا جب چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ’ہمارے سامنے کوئی آتا نہیں ہے، مسئلے حل ہو جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ خود ایکشن لیں، ہم کیوں لیں، ہمارے پاس ایک راہی آیا تھا پھر ہم نے ان کو جانے نہیں دیا‘۔ عدالت نے وقفے کے بعد جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا تو ذہن میں ججوں کے ریمارکس ٹکرز کی صورت چل رہے تھے کہ اتنے بڑے عہدے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ ہی موجود نہیں ہے۔ |
/urdu/pakistan-56546909 | نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم آئی ایم ایف شرائط کے تحت تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب پاکستان کا مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔ | بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خود مختاری دینے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کے تحت سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا۔ اگرچہ نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہو گا یعنی ایکسچینچ ریٹ کا استحکام جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔ سٹیٹ بینک کے قانون میں تحت ملک کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کے لیے ایک کوآررڈینیشن بورڈ ہوتا ہے تاہم ترامیم کے تحت اب گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ مجوزہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہو گا۔ گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی اور مجوزہ قانون میں تین برس کی توسییع کی بجائے پانچ سال توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔ موجودہ قانون میں صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ذمہ داریاں نہ نبھانے پر گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت صدر بہت ہی سنگین غلطی پر، جس کا فیصلہ عدالت کر ے گی، گورنر کو ہٹا سکتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت دیہی علاقوں، صنعتی شعبوں، ہاوسنگ اور دوسرے شعبوں کے لیے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے تاہم ترامیم کے تحت اب حکومت کی جانب سے ایسے شعبوں کے لیے قرض کی فراہم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کر کے اسے خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب کے منصوبہ بندی، ترقی اور اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کر کے اسے خود مختاری دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے یہ ترامیم متنازعہ بنائی جا رہی ہیں ورنہ ان ترامیم میں ایسی کوئی قباحت نہیں جس پر شور مچایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے خود مختاری کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ جیسے سٹیٹ بینک اگلے سو سال کے لیے آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ |
/urdu/pakistan-57911599 | وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے گذشتہ روز قتل ہونے والی 27 سالہ نور مقدم کے کیس میں نامزد ملزم ظاہر جعفر کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے اسے مزید تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ | پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک نوجوان خاتون نور مقدم کے ’وحشیانہ قتل‘ پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خوفناک یاد دہانی کہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ انھیں کسی سزا کے ڈر کے بغیر قتل بھی کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے گذشتہ روز قتل ہونے والی 27 سالہ نور مقدم کے کیس میں نامزد ملزم ظاہر جعفر کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے اسے مزید تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او محمد شاہد کے مطابق قتل کا یہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور میں منگل کی رات آٹھ بجے کے لگ بھگ پیش آیا۔ ایس ایچ او کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیٹی 19 تاریخ کو گھر سے گئی تھیں مگر اس کے بعد ان کا فون نمبر بند ہو گیا تھا، تاہم دوبارہ رابطہ ہونے پر مقتولہ نے بتایا کہ وہ لاہور جا رہی ہیں۔ پولیس کے مطابق بعدازاں اسلام آباد میں اُن کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی۔ ایف آئی آر کے مطابق مقتولہ نور مقدم کے والد نے بتایا کہ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی فیملی سے ان کی ذاتی واقفیت ہے۔ ان کے مطابق 20 تاریخ کو انھیں ظاہر جعفر نے کال کی اور بتایا کہ نور ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رات دس بجے انھیں تھانے سے کال آئی کہ آپ کی بیٹی نور مقدم کا قتل ہو گیا ہے آپ تھانہ کوہسار آ جائیں۔ مدعی شوکت مقدم کا کہنا ہے کہ 'میری بیٹی نور مقدم کو ظاہر جعفر نے ناحق قتل کر کے سخت زیادتی کی ہے۔ دعویدار ہوں کہ اسے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے۔' قتل کے جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس یونٹ کے اہلکار اور اس کیس کے انویسٹیگیشن افسر دوست محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے اور اب اس سے قتل کے محرکات جاننے کے لیے تفتیش کی جائے گی۔ پولیس حکام کے مطابق وقوعہ کے وقت نور مقدم اس کیس میں نامزد ملزم کے گھر پر ہی موجود تھیں اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر ملزم نے چھری سے گلا کاٹ دیا۔ جہاں کچھ افراد خصوصاً خواتین، عورتوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے حکام سے سنجیدگی دکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں گذشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بعد اسلام آباد کے 'محفوظ شہر' ہونے پر بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ |
/urdu/regional-51904880 | ایک تو کورونا وائرس کا خوف اور پھر اسی حالت میں آپ کو کسی کمرے میں الگ تھلگ رہنے کے لیے کہا جائے تو کیا ہو؟ | ایک تو کورونا وائرس کا خوف اور پھر اسی حالت میں آپ کو کسی کمرے میں الگ تھلگ رہنے کے لیے کہا جائے تو کیا ہو؟ میڈیسن نیٹ ویب سائٹ کے مطابق میڈیکل سائنس کی زبان میں قرنطینہ کا مطلب ہے: کسی متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کسی کو کچھ وقت کے لیے الگ رکھنا ہے۔ چونکہ کورونا بھی ایک متعدی بیماری ہے لہذا اس سے دوچار افراد یا متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کو الگ رکھا جا رہا ہے۔ بیرون ملک سے انڈیا آنے والے لوگوں کو بھی تقریباً دو ہفتوں کے لیے علیحدہ رکھا جا رہا ہے۔ کچھ حالات میں لوگوں سے 'از خود تنہائی' میں رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ لیکن تنہا رہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بیماری اور انفیکشن کا خوف تنہائی میں اور بھی ستاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے پروفیسر آشیش یادو سے بات کی جو حال ہی میں چین کے علاقے ووہان سے واپس آئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ووہان کورونا انفیکشن کا مرکز ہے۔ آشیش اور نیہا چھاولا کے مرکز میں 27 فروری سے 13 مارچ تک قرنطینہ کی حالت میں رہے۔ جب مرکز میں رہنے والے تمام 112 افراد کا کورونا ٹیسٹ نفی میں آیا تو انھیں سنیچر کے روز جانے دیا گیا۔ آشیش کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس پانچ منزلہ کیمپ میں رہنے کے لیے ایک کمرہ دیا گیا تھا۔ قرنطینہ مرکز میں لوگوں کا دن صبح ساڑھے چھ بجے شروع ہوتا تھا۔ صبح کی چائے کے بعد تقریباً آٹھ بجے سب کو ناشتہ دیا جاتا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آکر سب کا میڈیکل چیک اپ کرواتی۔ جب لوگوں کو کوئی پریشانی محسوس ہوئی تو لوگوں کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ آشیش بتاتے ہیں: 'ہم وہاں زیادہ مل جل نہیں سکتے تھے۔ کسی چیز کو چھونے کے بعد فوراً سینیٹائزر سے ہاتھوں کو صاف کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہم اپنے ہاتھ تھوڑی تھوڑی دیر بعد دھوتے اور ماسک اتارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم سوتے وقت بھی ماسک رکھتے تھے۔' وہ وضاحت کرتے ہیں: 'جب تک کہ ہمارے ابتدائی ٹیسٹ منفی نہیں آئے ہم بہت خوفزدہ تھے۔ مرکز میں کچھ لوگوں کے لیے باتھ روم اور بیت الخلا بانٹ دیئے گئے تھے لہذا اور بھی زیادہ خوفزدہ تھے۔ کیمپ میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد سوچتے تھے کہ کہیں سامنے والے کی رپورٹ مثبت نہ آئے۔ آشیش اور نیہا نے بتایا کہ کیمپ میں ایک 23 سالہ نوجوان تھا جس کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہو جاتا تھا اور ڈاکٹروں کو قابو کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ |
/urdu/sport-48981891 | چار گھنٹے 57 منٹ جاری رہنے والے ومبلڈن کی تاریخ کے سب سے طویل فائنل میچ میں سربیا کے نوواک جوکووچ نے سوئٹزرلینڈ کے راجر فیڈرر کو شکست دے کر پانچویں مرتبہ ومبلڈن ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ | ومبلڈن کی تاریخ کا یہ سب سے لمبے دورانیے والا فائنل مقابلہ تھا جو ریکارڈ چار گھنٹے اور 57 منٹ تک جاری رہا نوواک جوکووچ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد عالمی نمبر تین راجر فیڈرر کو آخری سیٹ میں ٹائی بریک پر شکست دے کر اپنا پانچواں ومبلڈن ٹائٹل جیت لیا ہے۔ سربیا کے جوکووچ نے فیڈرر کو دو کے مقابلے میں تین سیٹس سے شکست دی اور اس کے ساتھ انھوں نے اپنا 16واں گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتا۔ ومبلڈن کی تاریخ کا یہ سب سے لمبے دورانیے والا فائنل مقابلہ تھا جو ریکارڈ چار گھنٹے اور 57 منٹ تک جاری رہا۔ نوواک جوکووچ نے فائنل جیتنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ حقیقت میں ہو گیا ہے۔‘ 37 سالہ راجر فیڈرر اس میچ میں جیت کے خواہاں تھے تاکہ وہ ومبلڈن کی تاریخ میں دوسرے کھلاڑی بن جاتے جنھوں نے نو ومبلڈن ٹائٹل اپنے نام کیے۔ فیڈر اس ریکارڈ کو تو برابر نہ کر پائے مگر میچ کے بعد انھوں نے جوکووچ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ’یہ ایک شاندار میچ تھا جس میں سب کچھ تھا۔‘ میچ کے شروع میں جوکووچ نے پہلا سیٹ سات کے مقابلے چھ سے جیتا جبکہ فیڈرر نے دوسرا سیٹ چھ کے مقابلے میں ایک سے جیت کر مقابلہ برابر کر دیا۔ جوکووچ نے پھر تیسرا سیٹ سیٹ پوائنٹ بچا کر چھ کے مقابلے سات گیمز سے جیتا، جس کے فوراً بعد فیڈرر نے کم بیک کیا اور چوتھا سیٹ چار کے مقابلے چھ گیمز سے جیت لیا۔ فیڈرر نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اپنے سب سے بڑے حریف سپین کے رافیل نڈال کو شکست دے کر ومبلڈن کے فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ دونوں کھلاڑیوں کے مابین اب تک 47 میچ کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے 22 میں فیڈرر اور 25 میں جوکووچ کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ البتہ آخری دس مقابلوں میں سے آٹھ مقابلے جوکووچ نے جیتے ہیں۔ سیمی فائنل میں فیڈرر نے نڈال کو ایک کے مقابلے میں تین سیٹس سے شکست دی تھی۔ فیڈرر ایک ماہ بعد 38 برس کے ہو جائیں گے اور وہ سنہ 1974 میں کین روزوال کے بعد فائنل کھیلنے والے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی بن جائیں گے۔ حالانکہ ان کی عمر نے انھیں ریکارڈ 12ویں مرتبہ ومبلڈن کے فائنل تک رسائی سے نہیں روکا لیکن انھوں نے نڈال کے خلاف جیت کے بعد اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ ہیلیپ نے سٹریٹ سیٹ سے جیت کر ومبلڈن وویمن سنگلز ٹائٹل اپنے نام کرلیا دوسری جانب خواتین کے سنگلز مقابلوں کا فائنل سیرینا ولیمز اور سمونا ہیلیپ کے مابین کھیلا گیا جو کہ ہیلیپ نے سٹریٹ سیٹ سے جیت کر ومبلڈن وویمن سنگلز ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ اپنی جیت پر ہیلیپ کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقابلہ تھا، اور یہ کہ انھوں نے سیرینا ولیمز کے خلاف اپنے پرانے مقابلوں سے بہت کچھ سیکھ ہے۔ |
/urdu/pakistan-58547851 | ن لیگ کی جیتی نشستوں میں لاہور کینٹونمنٹ نمایاں نظر آ رہا ہے تاہم پاکستان تحریکِ انصاف راولپنڈی کینٹونمنٹ، چکلالہ کینٹونمنٹ اور واہ کینٹونمنٹ میں بھی ہارتی نظر آئی۔ سیاسی مبصرین اور سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہے۔ | یہ انتخابات بھی بلدیاتی انتخابات کی طرز پر ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کا انعقاد کروانے کا ذمہ دار ہے۔ ایک بیان میں الیکشن کمیشن نے اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کو پر امن اور تسلی بخش قرار دیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ صارفین خاص طور پر حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا موازنہ کر رہے ہیں۔ ن لیگ کی جیتی نشستوں میں لاہور کینٹونمنٹ نمایاں نظر آ رہا ہے تاہم پاکستان تحریکِ انصاف راولپنڈی کینٹونمنٹ، چکلالہ کینٹونمنٹ اور واہ کینٹونمنٹ میں بھی ہارتی نظر آئی۔ سیاسی مبصرین اور سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہے۔ سوشل میڈیا پر کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات پر تبصروں کے دوران پاکستانی سیاست کا یہ پہلو بھی صارفین کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ احمد شاہ خان نامی ایک صارف نے وزیرِاعظم عمران خان کو ٹیگ کر کے لکھا کہ آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ چکلالہ اور راولپنڈی کینٹونمنٹ میں کمزور انتخابی مہم، خوفناک ٹکٹنگ اور ہر وارڈ میں دو سے تین امیدوار، ن لیگ 14، جماعتِ اسلامی دو، آزاد امیدوار دو اور پی ٹی آئی ایک نشست۔' مگر کیا ان انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔ صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے لیے کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج زیادہ تر گذشتہ عام انتخابات کے نتائج کی عکاسی دکھائی دیے تاہم راولپنڈی کی چھاؤنیوں سے پی ٹی آئی کی شکست پر انھیں بھی حیرت ہوئی۔ ان کے خیال میں صوبہ پنجاب میں ن لیگ ہمیشہ سے مضبوط رہی اور ایک پرانی جماعت ہونے کے ناتے ان کی تنظیم سازی بہت بہتر ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'گذشتہ تین برس سے پنجاب میں حکمراں جماعت ہوتے ہوئے پی ٹی آئی زیادہ تبدیلی نہیں لا پائی ہے۔' سوشل میڈیا پر حکمراں جماعت کے کارکنان اور حمایت میں بولنے والوں کے علاوہ کئی دیگر صارفین کے لیے پی ٹی آئی کی ان انتخابات میں کارکردگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی شہرت میں کمی ہوئی ہے۔ لاہور کینٹونمنٹ کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں چھاؤنیوں سے ملحقہ ایسے علاقے بھی ہیں جو روایتی طور پر ن لیگ کا گڑھ رہے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے ممبران خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کے حلقے شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ان کی جماعت ان انتخابات سے ملنے والی تحریک کو آئندہ عام انتخابات تک لے کر جائے گی۔ انھوں نے پنجاب میں اپنی جماعت کی کامیابی کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کروائی۔ |
/urdu/regional-58647760 | طالبان نے کہا ہے کہ انھیں رواں ہفتے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کا موقع دیا جائے۔ اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی اس درخواست پر فیصلہ کرے گی۔ | طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے متعلق خط لکھا ہے طالبان نے کہا ہے کہ انھیں رواں ہفتے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کا موقع دیا جائے۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے پیر کو ایک خط میں یہ درخواست کی۔ اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی اس درخواست پر فیصلہ کرے گی۔ طالبان نے دوحہ میں مقیم اپنے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے۔ گذشتہ ماہ افغانستان پر قبضے کے بعد نظام سنبھالنے والے طالبان کا کہنا ہے کہ معزول حکومت کے ایلچی اب ملک کے نمائندہ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں حصہ لینے کی طالبان حکومت کی درخواست پر ایک کمیٹی غور کر رہی ہے جس کے نو ارکان میں امریکہ، چین اور روس شامل ہیں۔ تاہم آئندہ پیر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اختتام سے قبل تک اس کمیٹی کے ارکان کی ملاقات کا امکان نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق اس وقت تک سابق افغان حکومت کے ایلچی غلام اسحق زئی ہی اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے۔ واضح رہے کہ طالبان کے گذشتہ دور اقتدار کے دوران 1996 سے 2001 کے درمیان معذول حکومت کے سفیر ہی اقوام متحدہ میں ملک کے نمائندے کی حیثیت سے برقرار رہے تھے۔ امکان ہے کہ وہ 27 ستمبر کو اجلاس کے آخری دن تقریر کریں گے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا وفد اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ طالبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی ممالک اب سابق صدر اشرف غنی کو لیڈر تسلیم نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی 15 اگست کو دارالحکومت کابل پر طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے کے بعد اچانک افغانستان سے چلے گئے تھے۔ انھوں نے متحدہ عرب امارات میں پناہ لے رکھی ہے۔ طالبان نے دوحہ میں مقیم اپنے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے منگل کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں قطر نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلق قائم رکھیں۔ قطر کے حکمران شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ ان کا بائیکاٹ صرف تقسیم اور رد عمل کا باعث بنے گا جبکہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ قطر افغانستان کے معاملے میں ایک اہم مصالحت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی جن کے نتیجے میں 2020 میں امریکہ کی زیرقیادت نیٹو افواج کے انخلا کا معاہدے ہوا تھا۔ قطر نے طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان باشندوں اورغیر ملکی شہریوں کے انخلا میں مدد دی اور حالیہ بین الافغان امن مذاکرات میں سہولت فراہم کی ہے۔ |
/urdu/regional-55614433 | یہ 12 جنوری 1948 کی بات ہے جب گاندھی نے اگلے روز سے دلی میں مسلمانوں کے قتل عام اور پاکستان کو اثاثہ جات کی واجبات کی ادائیگی میں لیت و لعل کے خلاف 'مرن برت' رکھنے کا اعلان کیا۔ | یہ 12 جنوری 1948 کی بات ہے جب گاندھی نے اگلے روز سے دلی میں مسلمانوں کے قتل عام اور پاکستان کو اثاثہ جات کی واجبات کی ادائیگی میں لیت و لعل کے خلاف ’مرن برت‘ رکھنے کا اعلان کیا۔ زاہد چوہدری کے بقول ’سردار پٹیل نے جو پہلے ہی پاکستان کے وجود کے مخالف تھے، یہ معاملہ لوک سبھا میں اٹھا دیا۔ انھوں نے پاکستان کے واجبات کی ادائیگی کے معاملے کو کشمیر کے تنازع کے تصفیے کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی اور پھر 12 جنوری 1948 کو ایک پریس کانفرنس میں کھل کر اعلان کر دیا کہ کشمیر میں لڑائی کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو کسی رقم کی ادائیگی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان کی دلیل بھی وہی تھی جو اخبارات کے ذریعے پہلے ہی عوام الناس تک پہنچا دی گئی تھی کہ اگر یہ رقم پاکستان کو ادا کی گئی تو پاکستان اسے کشمیر میں ہندوستان کے خلاف جنگ میں خرچ کرے گا۔‘ وہ لکھتے ہیں ’ابوالکلام آزاد کی رائے میں گاندھی کی پٹیل سے بددلی کی وجہ یہ تھی کہ پٹیل بہت خودسر اور گستاخ ہو گئے تھے، وہ گاندھی سے توہین آمیز لہجے میں بات کرتے تھے۔ دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا جس پر نہرو بہت پریشان تھے۔ مسلمان اقلیت کے کئی ماہ تک قتل عام جاری رہنے سے ساری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہو رہی تھی اور پاکستان کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچ رہا تھا، بالخصوص تنازع کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے مؤقف کو تقویت مل رہی تھی۔ برطانوی اخبارات ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی پیش گوئی کر رہے تھے، خود پاکستان میں بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ہندوستان مستقل ایسے اقدامات کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔‘ 12 جنوری 1948 کو نہرو حسب معمول شام کے وقت گاندھی سے ملنے گئے اور ان کی واپسی کے تھوڑی ہی دیر بعد گاندھی نے اعلان کر دیا کہ چونکہ دہلی میں مسلمانوں کا کشت و خون جاری ہے اور سردار پٹیل وزیر داخلہ کی حیثیت سے امن و امان بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے میں کل یعنی 13 جنوری سے برت رکھوں گا جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک صورتحال ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس موقع پر پاکستان کو واجبات کی ادائیگی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ گاندھی یہ واجبات ادا کرنے کے حق میں تھے اور نہرو اور آزاد کی بھی یہ رائے تھی لیکن پٹیل اس پر بہت برہم تھے۔ ’پانچ کروڑ روپے ہندوستان کے بعض متوقع واجبات کی پیشگی ادائیگی کے طور پر روک لیے گئے۔ 18 جنوری کو گاندھی نے اپنا برت ختم کر دیا کیونکہ ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور ابوالکلام آزاد نے انھیں یقین دلایا تھا کہ اب دہلی میں امن و امان ہو گیا ہے اور آئندہ دارالحکومت میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں ہو گا۔‘ |
/urdu/science-50360375 | گذشتہ 18 مہینوں کے دوران ہوانگ ژشینگ کے پروگرام کو چین بھر میں 600 رضاکاروں نے استعمال کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے 700 کے قریب لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔ | گذشتہ 18 مہینوں کے دوران ہوانگ ژشینگ کے پروگرام کو چین بھر میں 600 رضاکاروں نے استعمال کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے 700 کے قریب لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔ چین کے شمالی صوبے شیڈونگ میں کالچ کی 22 سالہ طالبہ تائو یو نے وائیبو پر لکھا کہ انھوں نے دو دن بعد خودکشی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پینگ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں تاؤ یو کی سابقہ پوسٹ کے ذریعے ان کے کسی دوست کا ایک فون نمبر ملا تھا اور انھوں نے اس معلومات کو کالج تک پہنچا دیا۔ ان کا کہنا تھا ’میں نے سونے سے پہلے انھیں پیغام دینے کی کوشش کی اور بتایا کہ میں انھیں پک کر سکتی ہوں۔‘ ’اس کے بعد سے میں نے ان کی جانچ پڑتال جاری رکھی ہے کہ آیا وہ کھا رہی ہیں یا نہیں۔ ہم ہفتہ میں ایک بار انٹرنیٹ کے ذریعے انھیں پھولوں کا گلدستہ بھی خرید کر دیتے ہیں۔‘ انھوں نے یاد کیا کہ کس طرح ان کے ساتھیوں نے چینگڈو کے آٹھ ہوٹلوں کا دورہ کیا تھا تاکہ خود کشی پر آمادہ خاتون کے بارے میں پتہ کیا جا سکے جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ انھوں نے شہر میں ایک کمرہ بک کروایا تھا۔ اس کی ایک مثال چین کی 23 سالہ طالب علم زوفین کی ایک پوسٹ ہے جنھوں نے سنہ 2012 میں خود کو مارنے سے پہلے وائیبو پر پیغام لکھا تھا۔ ٹیم کو عموماً جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سب سے بڑا پرانے رشتہ داروں کا یہ عقیدہ ہے کہ دباؤ کوئی ’بڑی بات‘ نہیں ہے۔ لی نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’مجھے معلوم تھا کہ جب میں ہائی سکول میں تھا تو مجھے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن میری والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ بالکل نا ممکن تھا۔ اس کے بارے میں مزید نہیں سوچنا۔‘ لیکن جب رضاکاروں نے ان خاتون کی والدہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس نے مذاق کیا ہے اور کہا "میری بیٹی ابھی بہت خوش تھی۔ آپ کو یہ کہنے کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ خودکشی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔‘ جب رضاکاروں نے اس خاتون کو ان کی بیٹی کے ذہنی دباؤ کا ثبوت دیا تو بھی انھوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اپنی کامیابیوں کے باوجود ہوانگ نے اپنے منصوبے کی حدود کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے کہا ’کیونکہ وائیبو ویب کرالروں کے استعمال کو محدود کرتی ہے لہٰذا ہم ہر روز صرف 3,000 اندراجات جمع کرسکتے ہیں۔‘ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بازیاب ہونے والوں میں سے کچھ کو طویل مدتی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’وہ مجھ سے جمعے کو نیا فوٹو پورٹریٹ حاصل کرنے کے بارے میں بات کر رہی تھی لیکن دو دن بعد وہ ہلاک ہوگئی تھیں۔ |
/urdu/pakistan-61684158 | پاکستان نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ہونے والے مذاکرات کے دوران جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم یہ مذاکرات کب سے جاری ہیں اور دونوں فریقوں کے مطالبات ہیں کیا؟ | پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس سے قبل ٹی ٹی پی نے جمعے کے روز اپنے ایک اعلامیے میں تا حکم ثانی جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ’دو دن پہلے کابل میں ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے پشتون قوم، بالخصوص قبائلی عمائدین اور علما پر مشتمل گرینڈ جرگہ کے درمیان مذاکرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔‘ تاہم اب تک ہونے والے مذاکرات کے بارے میں سرکاری سطح پر اس سے قبل بیانات سامنے نہیں آئے تھے اس لیے یہ جاننا اہم ہے کہ دونوں فریقوں کے مطالبات کیا ہیں۔ اس سے قبل ان مذاکرات کا پسِ منظر جان لیتے ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے توسط سے پاکستانی حکام اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے امن مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ جنگ بندی کا یہ سلسلہ عید سے پہلے شروع کیا گیا تھا جس میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی، تاہم اب یہ توسیع غیر معینہ مدت کے لیے کر دی گئی ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے 29 اپریل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ 10 شوال تک جنگ بندی رہے گی۔ اس بیان میں تمام کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ اس جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور کہیں بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس دوران ملک کے کسی علاقے سے بھی تشدد کے کسی واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں محدود مدت کے لیے دو مرتبہ توسیع کی گئی تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے اس بارے میں مکمل خاموشی رہی۔ طالبان کے ذرائع نے بتایا کہ دیگر مطالبات میں مالا کنڈ ڈویژن بشمول کوہستان اور ہزارہ میں نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ، ملک بھر میں طالبان پر قائم مقدمات کا خاتمہ، حکومت کی جانب سے کیے گئے نقصان کا ازالہ اور امریکی ڈرون حملوں کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں طالبان ذرائع کے مطابق پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، اسلحے کے لیے لائسنس کا حصول، بغیر لائسنس کے اسلحے کی واپسی اور تحریک کو تحلیل کرنا شامل ہیں۔ اس سال کے پہلے چار ماہ میں جہاں حکومت کے جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں وہاں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی متعدد حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے دعوے باقاعدہ سوشل میڈیا پر پیغامات کی شکل میں جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ |
/urdu/science-48754402 | اس طیارے کی قیمت تقریباً دس کروڑ پاؤنڈ ہے اور یہ جمپ جیٹ کی طرح عمودی طور پر لینڈ کر سکتا ہے۔ اس میں ریڈار سے بچنے کے لیے سٹیلتھ ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ | برطانیہ کا نیا سٹیلتھ یعنی چپ چاپ رازدارانہ طور پر حملہ کرنے والا جنگی طیارہ ایف-35 بی لائٹننگ دوئم نے اپنے پہلے عملی مشن پر دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ جزیرہ قبرص پر تعینات ان جنگی طیاروں نے شام اور عراق میں 14 مسلح تیز رفتار مشنز میں شرکت کی ہے۔ برطانوی رائیل ايئر فورس (آر اے ایف) نے کہا کہ ایف-35بی طیاروں نے کوئی حملہ نہیں کیا تھا، لیکن آپریشن 'بطور خاص عمدہ' رہے۔ وزیر دفاع پینی مورڈونٹ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔ برطانیہ کے پاس فی الحال 17 ایف-35بی طیارے ہیں اور اس نے امریکی ہوابازی کی بڑی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سے مجموعی طور پر 138 ایسے طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ طیارہ، جس کی قیمت تقریباً دس کروڑ پاؤنڈ ہے، جمپ جیٹ کی طرح عمودی طور پر لینڈ کر سکتا ہے اور اس میں ریڈار سے بچنے کے لیے سٹیلتھ ٹیکنالوجی موجود ہے، جب کہ اس کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔ ایف 35بی طیاروں کو قبرس کے شہر لیماسول کے پاس اکروتیری ہوائی اڈے پر اترنے سے قبل دیکھا جا سکتا ہے قبرس میں آر اے ایف کے اکروتیری ہوائی بیس پر مئی کے مہینے سے چھ طیارے 'لائٹننگ ڈان' نامی تربیتی مشق کے لیے تعینات ہیں۔ برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ تربیتی مشق کے طور پر ان طیاروں نے 95 پروازیں کی ہیں جبکہ فارمیشن میں 225 گھنٹوں تک پرواز کی ہے۔ اب ان طیاروں نے جنگجوؤں کے شکار کے دولتِ اسلامیہ کے خلاف جاری ’آپریشن شیڈر‘ میں شمولیت اختیار کی ہے جس کی قیادت برطانیہ کر رہا ہے۔ ایف 35بی طیارے بدھ کی شام مرہم ایئر بیس پر پہنچے وزیر دفاع مورڈونٹ نے قبرس میں آر اے ایف کے ٹھکانے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات پر بہت فخر ہے کہ اب یہ طیارے ملک کے دفاع کے لیے پروازیں کر رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: ’اس میں واضح طور پر بعض غیرمعمولی صلاحیتیں ہیں جن سے ہمیں واقعتاً سبقت حاصل ہے۔‘ یہ طیارے آر اے ایف اور رائیل نیوی کے اشتراک سے چلائے جاتے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ موسم خزاں میں تین ارب دس کروڑ پاؤنڈ کی مالیت والے نئے کوئین الیزابیتھ کلاس طیارہ بردار بحری جہاز سے ہونے والی مزید مشقوں میں حصہ لیں گے۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ |
/urdu/world-52364231 | گذشتہ برس سعودی عرب نے 178 مردوں اور چھ خواتین کو سزائے موت سنائی تھی جن میں سے آدھی سے زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی تھی جبکہ سنہ 2018 میں 149 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔ | گذشتہ سال اپریل میں سعودی عرب نے 37 لوگوں کو دہشتگردی کے جرائم میں ایک ساتھ سزائے موت دی۔ ایمنسٹی کے مطابق ان تمام مردوں میں سے پانچ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سزائے موت میں کمی آنے کے باوجود سعودی عرب نے گذشتہ سال 184 لوگوں کو سزائے موت دی ہے۔ گذشتہ سال عراق میں بھی ہلاکتوں کی تعداد میں دُگنا اضافہ ہوا اور سو افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ ایران 251 سزائے موت کی سزاؤں کے ساتھ چین کے بعد دوسرے نمبر پر سب زیادہ سزائے موت دینے والا ملک بن چکا ہے۔ حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چار برسوں سے عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا ہے۔ اب یہ سزائیں کم ہو کر 657 تک آ گئی ہیں جو سنہ 2018 کے مقابلے میں پانچ فیصد کم ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایران، شمالی کوریا اور ویتنام نے معلومات تک رسائی کو روکتے ہوئے سزائے موت پانے والوں کی صیحح تعداد نہیں بتائی۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے سزائے موت میں اضافہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ گذشتہ سال سعودی عرب نے 178 مردوں اور چھ خواتین کو سزائے موت دی۔ سزائے موت پانے والوں میں آدھی سے ذیادہ تعداد غیر ملکیوں کی بنتی ہے۔ سنہ 2018 میں سزائے موت کی یہ تعداد 149 تھی۔ گذشتہ سال اپریل میں 37 لوگوں کو دہشتگردی کے جرائم میں ایک ساتھ ہی سزائے موت دی گئی۔ ایمنسٹی کے مطابق ان تمام مردوں میں سے پانچ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا، جن سے دوران قید تشدد کے نتیجے میں دہشتگردی کرنے کا اعترافی بیان لیا گیا۔ الگر کا کہنا ہے کہ عراق میں سنہ 2018 میں 52 افراد سے سنہ 2019 میں 100 افراد کو سزائے موت دیے جانا بہت افسوسناک ہے۔ جنوبی سوڈان میں حکام نے گذشتہ سال کم از کم گیارہ افراد کو سزائے موت دی ہے۔ سنہ 2011 سے جب یہ ملک آزاد ہوا ہے، یہ اب تک کی سب سے ذیادہ تعداد بنتی ہے۔ یمن نے 2018 میں چار جبکہ 2019 میں سات لوگوں کو سزائے موت دی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد بنگلہ دیش اور بحرین نے بھی سزائے موت پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ سنہ 2017 میں اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں تبدیلی کے بعد ایران نے مسلسل دوسرے سال ماضی کے مقابلے میں کم لوگوں کو سزائے موت دی۔ سنہ 2010 سے پہلی بار افغانستان میں کوئی سزائے موت نہیں دی گئی۔ سنہ 2018 میں موت کی سزا دینے والے تائیوان اور تھائی لینڈ میں بھی موت کی سزاؤں میں وقفہ دیکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں 106 ممالک نے تمام جرائم کے لیے سزائے موت کو قانون سے ہی ختم کر دیا ہے جبکہ 142 ممالک نے اپنے قانون سے سزائے موت کو یا تو ختم کر دیا یا اس پر عملدرآمد چھوڑ دیا ہے۔ |
/urdu/regional-58951207 | انڈیا میں صندل کی سمگلنگ کرنے والے سمگلر ویرپپن کے مشہور ہونے سے پہلے، جنوبی ریاست تمل ناڈو کے جنگلوں میں گشت پر تعینات پیٹرول پولیس ہوا کرتی تھی جس کے سربراہ لہیم شہیم گوپالکرشنن تھے۔ | ماضی میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے جنگلوں میں گشت کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ایک پیٹرول پولیس فورس ہوا کرتی تھی جس کے سربراہ گوپال کرشنن تھے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب انڈیا میں صندل کے سمگلر ویرپپن اتنے مشہور نہیں ہوئے تھے۔ ریمبو نے فیصلہ کیا کہ وہ اُسی وقت ویرپپن کو پکڑنے کے لیے نکلیں گے۔ اپنے اس مشن کے دوران جیسے ہی وہ پلار پُل پر پہنچے اُن کی جیپ خراب ہو گئی۔ انھوں نے اسے چھوڑ دیا اور پل پر تعینات پولیس اہلکاروں کو دو بسوں کا بندوبست کرنے کو کہا۔ ریمبو 15 مخبروں، چار پولیس اہلکاروں اور دو جنگل کے محافظوں کے ساتھ پہلی بس میں سوار ہوئے۔ جبکہ تمل ناڈو پولیس کے انسپکٹر اشوک کمار اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ دوسری بس میں سوار ہوئے۔ ویرپن کے گینگ نے جنگل میں موجود اپنے ٹھکانوں میں بسوں کی تیزی سے آنے کی آواز سُنی تو وہ پریشان ہوئے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ ریمبو جیپ پر سوار ہو کر آئیں گے۔ کے وجے کمار اپنی کتاب ’ویرپن چیزنگ دی بریگینڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ دور چٹان کی آڑ میں بیٹھے ویرپپن بھی کانپنے لگے اور ان کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بس جائے وقوعہ پر پہنچی جس میں انسپکٹر اشوک کمار سوار تھے۔ اس بس میں سوار افراد نے تباہ شدہ بس کے ملبے سے 21 مسخ شدہ لاشیں نکالیں۔‘ ’ایک بار ویرپپن بچی کے رونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار بھی ہوا تھا اور پکڑے جانے کے قریب تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بچی کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 1993 میں کرناٹک ایس ٹی ایف کو ماری مادوو میں ایک ہموار قطع زمین پر ایک ابھری ہوئی جگہ نظر آئی۔ جب اسے کھودا گیا تو وہاں سے ایک نومولود بچی کی لاش ملی۔‘ سنہ 2000 میں ویرپپن نے جنوبی ہند کے مشہور اداکار راج کمار کو اغوا کر لیا۔ راج کمار 100 سے زائد دنوں تک ویرپن کی قید میں رہے۔ اس دوران ویرپپن نے کرناٹک اور تمل ناڈو کی ریاستی حکومتوں کو اپنے گھٹنوں پر لا کھڑا کیا تھا۔ ان کا جواب تھا: ’اس کی تھوڑی بہت سانس چل رہی تھی۔ میں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ اس کا دم نکل رہا ہے، لیکن پھر بھی میں نے اسے ہسپتال بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ گولی اس کی بائیں آنکھ کو چیرتے ہوئے پار نکل چکی تھی۔ بغیر مونچھون کے ویرپپن ایک بہت عام آدمی لگ رہا تھا۔ بعد میں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر والینیاگم نے مجھے بتایا کہ ویرپپن کا جسم 52 سال کا ہونے کے باوجود 25 سال کے نوجوان کی طرح تھا۔‘ |
/urdu/world-60725531 | عراقی خبر رساں ایجنسی کے مطابق عراق کے شہر اربل میں امریکی قونصل خانے پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔ ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ یہ حملے اسرائیل کے 'حالیہ جرائم' کے بدلے میں کیے گئے تھے جن میں 'صیہونی سازش کے اسٹریٹجک مرکز' کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا۔ | عراقی کردستان کے دارالحکومت اربل میں امریکی قونصل خانے پر میزائل حملے کی ذمہ داری ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسداران انقلاب نے قبول کر لی ہے۔ اتوار کی صبح عراقی سیکورٹی حکام نے اعلان کیا کہ شمالی عراقی کردستان کے علاقے اربل پر بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں۔ عراقی کردستان ریجنل گورنمنٹ کے حکام کے مطابق دوپہر کے وقت امریکی قونصل خانے اور اس کے قریب ایک عمارت کے سامنے بھی دھماکے ہوئے جن میں صرف دو افراد زخمی ہوئے اور دو معمولی زخمی ہوئے۔ ایران کے فوجی دستے پاسداران انقلاب کے ادارہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ یہ حملے اسرائیل کے ’حالیہ جرائم‘ کے بدلے میں کیے گئے تھے جن میں ’صیہونی سازش کے سٹریٹجک مرکز‘ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے شام میں ہونے والے اسرائیلی حملوں میں پاسداران انقلاب کے دو ارکان مارے گئے تھے جس کے بعد انھوں نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ یہ حملہ شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب ہوا تھا جس کے بعد ایرانی حکومت نے کہا تھا کہ ’اس کا بدلہ لیا جائے گا۔‘ صابری نیوز نے ایک سیکیورٹی ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اربل میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس موساد کے زیر ملکیت دو جدید تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ تسنیم نیوز ایجنسی سمیت پاسدارانِ انقلاب کے قریبی ذرائع ابلاغ نے اسی دعوے کو دہرایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خبر رساں ایجنسی، ارنا نے بھی عراق میں شیعہ ملیشیا کے قریبی میڈیا آؤٹ لیٹ سبرین نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ درجنوں دھماکوں نے اربل شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اربل ہوائی اڈے کے قریب 14 راکٹ امریکی اڈوں پر گرے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکس پر شائع ہونے والی تصاویر میں سے ایک یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ میزائل ایک ایسی جگہ سے فائر کیے گئے جو کچھ ماہرین کے مطابق جغرافیائی محل وقوع اور تصاویر میں موجود تفصیلات کی بنیاد پر شمال مغربی ایران میں تبریز کے قریبی جگہ ہے۔ دھماکوں پر ابتدائی ردعمل میں اربل کے گورنر امید خوشناف نے کہا کہ کئی راکٹ قونصل خانے کے قریب گرے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ نشانہ شہر کا ہوائی اڈہ تھا یا امریکی قونصل خانہ۔ حملے کے بعد عراقی وزیراعظم نے کہا کہ یہ عراقی عوام کی سلامتی پر حملہ ہے۔ عراقی حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز حملے کی تحقیقات کر رہی ہیں اور وہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کریں گی۔ پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان حملوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اس حملے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے متعدد اراکین نے ریپبلکن پارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اربل پر اتوار کی صبح ہونے والے حملے کے تناظر میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر کسی بھی قسم کی بات چیت کو معطل کرے۔ |
/urdu/pakistan-56670834 | عمران خان نے اپنے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں ریپ سے متعلق سوال پر کہا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘ | پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان کے ملک میں ریپ کے واقعات سے متعلق متنازع بیان پر بدھ کو اُن کے دفتر سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا تاہم کچھ ہی دیر بعد اس بیان میں تبدیلی کر کے اسے دوبارہ جاری کیا گیا۔ عمران خان نے تین اپریل کو اپنے ایک لائیو ٹیلی وژن پروگرام میں ملک میں ریپ کے واقعات کی ایک وجہ ’فحاشی‘ کو قرار دیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ 'ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔' اس بیان کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے ردِعمل سامنے آیا جس کے چار دن بعد بدھ کو اُن کے دفتر سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا تو اُس میں ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ جنسی جرائم کو روکنے کے لیے صرف قوانین کافی نہیں ہوں گے بلکہ پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہوگا جس میں ’بہکاووں سے بچنا بھی شامل ہے۔‘ گذشتہ ہفتے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں ایک شہری کے بذریعہ فون کال پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا تھا کہ 'اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے'۔ ان کا کہنا تھا ’معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘ پہلے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ریپ کے خلاف ہمارے سخت قوانین ہی صرف جنسی جرائم میں اضافے کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس کے لیے پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہوگا جس میں بہکاووں سے بچنا بھی شامل ہے۔‘ ٹی وی پروگرام میں عمران خان کے اس بیان کے بعد جہاں متعدد لوگوں نے عمران خان کے اس بیان کی حمایت کی، تو وہیں سیاسی و سماجی شخصیات اور عام شہریوں کی جانب سے اس بیان پر تنقید بھی کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ بدھ کو عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈسمتھ نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔ |
/urdu/pakistan-49675686 | نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہونے والی ایمیچیور فوٹوگرافر سماحہ جہانگیر کہتی ہیں کہ پاکستان میں لڑکیوں کے لیے فوٹوگرافی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ | پاکستان کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی سماحہ جہانگیر پیشے کے اعتبار سے اوپٹومیٹرسٹ ہیں لیکن فوٹوگرافی کا شوق رکھتی ہیں۔ حال ہی میں معروف جریدے نیشنل جیوگرافک نے ان کی ایک تصویر شائع کی ہے۔ سماحہ کے فوٹوگرافی کے شوق، راستے کی مشکلات اور پھر کامیابی کے بارے میں دیکھیے بلال کریم اور نیّر عباس کی ڈیجیٹل ویڈیو۔ |
/urdu/regional-58238449 | طالبان کے سٹیک پر کچھ نہیں مگر وہ سٹیک ہولڈر جو ذاتی مفادات کو سامنے رکھے ہوئے ہیں اُنھیں حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا ورنہ طالبان آئے کہیں اور ہیں اور چھا کہیں اور جائیں گے۔ پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم۔ | کہا جا رہا ہے کہ اب کی بار طالبان پہلے جیسے نہیں بلکہ بدل گئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ ذہین، کہیں زیادہ سفارتی معاملات کو سمجھنے والے، دُنیا کو ساتھ لے کر چلنے والے، معاملہ فہم، سُلجھے ہوئے، ٹھہرے مزاج کے cool cool سے طالبان اب پہلے جیسے نہیں بلکہ یکسر بدل چُکے ہیں۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ اشرف غنی کو کابل کے نہ گرنے کا اتنا یقین کیوں تھا کہ وہ چند گھنٹے قبل تک معمول کے کام کرتے رہے یا وہ خود کو دھوکا دیتے رہے۔ کابل کی سرزمین نہ چھوڑنے کے دعوے کرنے والے اشرف غنی کسی آشیر باد پر رفوچکر ہوئے یا مستقبل کے کسی نئے منصوبے کا حصہ بننے کے لیے مفرور کر دیے گئے؟ طالبان کی فتح نے امریکہ کی ناکام پالیسیوں پر کئی سوالات اُٹھا دیے ہیں؟ اسے سُپر پاور کی ناکام پالیسی کہیں گے یا خطے میں اپنے تسلط کے لیے ایک نئے المیے کا انتظام؟ چین کے خلاف کسی بڑی منصوبہ بندی کے مہرے یا خطے میں ایران اور پاکستان کے لیے کسی نئے پہرے دار کا انتظام؟ نئے سیٹ اپ کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ’بدلے ہوئے‘ طالبان انسانی حقوق کا کس قدر خیال رکھیں گے؟ خواتین اور اقلیتیں کیا تحفظ پائیں گی؟ بچیاں سکول جائیں گی یا خوف کا مستقبل آنکھوں میں لیے خوابوں کی کرچیاں سمیٹیں گی؟ اب کی بار طالبان کس طرح ہزارہ برادری کو اعتماد دیں گے؟ مزار شریف کے قتل عام کے خوف سے کیسے نکالیں گے؟ طالبان کی اچانک ’فتوحات‘ نے عالمی نقشے پر قوتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں مگر وزیراعظم کے افغانستان کے غلامی کی زنجیریں توڑنے سے متعلق بیان نے اشارے ضرور دیے ہیں۔ طالبان کا خطے میں اقتدار آنے والے دنوں میں جہاں عالمی طاقت کے توازن کا فیصلہ کرے گا وہیں پر طاقت کے ارتکاز کے رجحان کو بھی جنم دے گا۔ پہلے سے موجود قوتیں اختیارات پر گرفت کیے ہوئے ہیں، ایسے میں پاکستان بھی مزید اتھاریٹیرین ازم کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد جس طرح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ طالبان ہر جگہ موجود ہیں۔ کابل میں فتح کے جھنڈے گاڑھتے جبکہ کمزور ریاستوں میں کمزور طبقات پر حکمرانی جتاتے طالبان۔ بہرحال طالبان آ گئے ہیں اور طالبان چھا گئے ہیں۔ سب بدلے ہوئے طالبان کے گُن ضرور گائیں مگر یاد رکھیں کہ افغانستان میں شروع ہونے والا اقتدار ایک نئی آزمائش لائے گا۔ وطن عزیز کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ علاقے میں ایک نئی گیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ طالبان کے سٹیک پر کچھ نہیں مگر وہ سٹیک ہولڈر جو ذاتی مفادات کو سامنے رکھے ہوئے ہیں اُنھیں حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا ورنہ طالبان آئے کہیں اور ہیں اور چھا کہیں اور جائیں گے۔ |
/urdu/regional-58867409 | 30 سال سے دلت خواتین کے حقوق کے لیے لڑ رہی منجولا پردیپ نے اس سال نیشنل کونسل آف ویمن لیڈرز کی بنیاد رکھی ہے۔ | یہ الفاظ 28 سالہ دلت سماجی کارکن بوونہ نارکر اپنی رہبر 52 سالہ منجولا پردیپ کے بارے میں استعمال کرتی ہیں۔ بوونہ ان درجنوں خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں منجولا رپپ کی شکار خواتین، خاص طور پر دلت برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین، کو انصاف حاصل کرنے میں مدد کرنا سِکھا رہی ہیں۔ 30 سال سے دلت خواتین کے حقوق کے لیے لڑ رہی منجولا پردیپ نے اس سال نیشنل کونسل آف ویمن لیڈرز کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرا ایک پرانا خواب تھا کہ میں دلت برادری میں سے خواتین لیڈر بناؤں۔ جب میں کووڈ کی وبا کے دوران جنسی تشدد کے واقعات کا اندراج کر رہی تھی تو اس وقت مجھے لگا کہ وقت آ گیا ہے کہ ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جائے جو خواتین کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کرے۔‘ ’پورا عدالتی نظام دلت خواتین کے خلاف کام کرتا ہے۔ عدالتوں میں بہت زیادہ وکٹم شیمنگ یعنی متاثرہ شخص کو ہی شرم دلانے کی عادت ہے۔ سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ ‘اونچی ذات کے مرد اس عورت کو ریپ کیوں کریں گے؟ یہ تو اچھوت ہے۔ اس نے ضرور اسے جنسی تعلق کے لیے بلایا ہوگا۔‘ اب اس نظام میں مقابلہ کرنے کی معلومات سے لیس نارکر ایسا محسوس کرتی ہیں انھیں طاقت مل گئی ہے۔ انھوں نے ایک مقامی دلت حقوق کی تنظیم میں شرکت اختیار کر لی ہے اور ان کے علاقے میں اگر وہ کسی ریپ کیس کا سنتی ہیں تو وہاں پہنچنے والی وہ پہلی خاتون ہوتی ہیں۔ اسی لیے اپنی تربیت میں منجولا ریپ کی شکار خواتین کی ہمت بڑھانے پر بہت توجہ دیتی ہیں اور انھیں ایک مفصل پولیس رپورٹ کی اہمیت سمجھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سوچ انھیں اپنے تجربے سے حاصل ہوئی ہے جب وہ ایک بچی ہو کر جنسی تشدد کا شکار تھیں اور انھیں احساس تنہائی محسوس ہوا تھا۔ وہ صرف چار سال کی تھیں جب ان کے محلے میں چار مردوں نے انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کے والد کا اب انتقال ہو چکا ہے۔ وہ اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے اور گجرات کام کی غرض سے آئے تھے۔ انھوں نے اس نئے شہر میں اپنی دلت شناخت چھپانے کے لیے اپنا فیملی نام بدل لیا تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو اپنا پہلا نام پردیپ بطور ان کے فیملی نام دیا۔ دیہی علاقوں میں جانے کی وجہ سے ان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ دلتوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ 1992 میں وہ نوسارجن میں شامل ہونے والی پہلی خاتون بنیں جو کہ دلت حقوق کی ایک تنظیم ہے۔ ایک دہائی کے بعد انھوں نے الیکشن جیتا اور وہ اس کی سربراہ بن گئیں۔ |
/urdu/world-50264577 | روس میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے سے متعلق ایک نئے قانون کا نفاذ عمل میں آ چکا ہے۔ اسے عمل کو خود مختار (سووورن) انٹرنیٹ کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔ | روس نے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے سے متعلق ایک نئے قانون کا نفاذ کیا ہے کہ جس کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ حکومت اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے استمعال کر سکتی ہے۔ 'سوورن انٹرنیٹ' نامی قانون حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ ٹریفک کو روک سکتا ہے۔ کریملن کا موقف ہے کہ اس قانون کو انٹرنیٹ تک رسائی کو محفوظ بنانے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے۔ مختصر جواب یہ ہے ہاں یہ ممکن ہے۔ انٹرنیٹ بہت حد تک ایک مادی چیز ہے۔ اگر آپ اس کی وہ تاریں جو اسے دوسرے ممالک کے ساتھ جوڑتی ہیں، کاٹ دیں تو آپ کا ان ملکوں سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ 2018 میں یہ غلطی سے ہو چکا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں ایک بحری جہاز کے ٹکرانے سے زیر سمندر فائبر کیبل جو موریطانیہ کو دنیا سے جوڑتی تھی وہ کٹ گئی تھی جس کی وجہ سے افریقی ملک موریطانیہ کا دو روز کے لیے دنیا سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ میٹ فورڈ انٹرانیٹ سوسائٹی کے ٹیکنالوجی پروگرام مینیجر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مان لیں کہ یہ کامیابی سے ہو جاتا ہے تو پھر روس میں انٹرنیٹ کے صارفین انھیں سروسز یا مواد تک رسائی حاصل کر سکیں گے جو روس کے اندر سے ہی مہیا کی جا رہی ہوں اور ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ یا سہولیات حاصل کرنا ممکمن نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ روس کو صرف اپنی ڈومین پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ یہ ڈومین سسٹم ہی ہے جس پر انٹرنیٹ کی ڈائریکٹری کا سہارا ہوتا ہے اور وہ عالمی انٹرنیٹ کےنظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 'www.example.com' درحقیقت 192.168.1.1 یہ ہے۔ یہی وہ خدشات ہیں جس سے سنسرشپ کا خدشات جنم لیتے ہیں۔ اگر روس میں تمام انٹرنیٹ ٹریف سرکاری ڈومین سٹسم سے گذرے گی تو روس اپنے صارفین کو صرف ایسے مواد تک رسائی کی اجازت دے گا جو اسے پسند ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں سینکڑوں انٹری اور ایگزٹ کے پوائنٹس کی نگرانی کرنی پڑے گی۔ اس مقام پر انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے کا رول آئے گا۔ ایسی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت عوام کے پیسے کو انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کو درپشں تکنیکی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ میٹ فورڈ کےمطابق غیر متوقع خلل پیش آ سکتے ہیں لیکن روس کی بڑی سروسز ٹھیک کام کریں گی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ایک دوسرے پر انحصار کے اس دور میں کیا کیا مسائل پیدا ہوں گے، لیکن اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ کئی سروسز کو بلاک کیا جائے گا۔ یہ بھی سیکھنے کا ایک موقع ہے۔ |
/urdu/pakistan-59559233 | پریانتھا کمار جیسے غریب الدیار شخص کی سیالکوٹ میں ہجوم کی ہاتھوں موت کے عد سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرد اور ہجوم کو ملزم یا مجرم کو سزا دینے کا اختیار کیسے ملا ،یا اُن کی طرف سے اس اختیار پر قبضہ کیسے کیا گیا؟ | مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہجوم کی پیدائش کیسے ہوئی؟ کس نے اور کیوں کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ فرد اور ہجوم کو ملزم یا مجرم کو سزا دینے کا اختیار کیسے ملا، یا اُن کی طرف سے اس اختیار پر قبضہ کیسے کیا گیا؟ مزید براں ریاست کا اس کشمکش میں کیا کردار رہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات تفصیل طلب ہیں۔ یوں ریاست ہر دَور میں فرد، افراد کے گروہوں کو اپنی ضرورت کے تحت اور مرضی کے مطابق شناخت دے کر زندگیوں کا رُخ متعین کرکے اُنھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی مگر ریاست کو اُس اندیشے کا شاید گمان تک بھی نہ تھا جو امرتیا سین نے اپنی کتاب (Identity And Violence) میں ظاہر کیا: ’یہ سوال اہم نہیں کہ مذہب چاہے اسلام ہو ،عیسائیت یا ہندومت، اَمن پسند ہوتا ہے یا اَمن پسند نہیں ہوتا؟ اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی شخص ،مسلم، ہندو اور عیسائی، اپنے مذہبی عقائد اور اعمال کو اپنے ذاتی تشخص کے دوسرے حوالوں کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتا ہے یا نہیں؟ کسی بھی شخص، مسلم، ہندو، عیسائی کی مذہبی یا ثقافتی وابستگی کو محض اجتماعی تشخص کے طورپر دیکھنا بہت زیادہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔‘ گھرگھر سپاہ کے پرچم لہرا اُٹھے، مخالف فرقے کی جانب سے ردِعمل آیا، یوں مذہب کے اندر مسلکی شناختوں کے مابین ایسے خوف ناک تعصبات پیدا ہوئے کہ سرتن سے جُداکیے گئے۔ پھر وقت کروٹ لیتا ہے۔ جو صحابہ ؓ کی حُب کے علمبردارتھے، مبینہ طورپر چُن کر مارے گئے اور ضرورت کے تحت جزوی طور پر اس حُب کو زندہ رکھنے کا پس پردہ انتظام بھی ہوتا رہا۔ اکیسویں صدی کا پاکستان مکمل طورپر فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے نرغے میں آگیا۔ ریاست نے جن فیصلوں کا اختیار قیامِ پاکستان سے اکیسویں صدی تک اپنے پاس رکھا تھا، اُن میں سے کچھ اختیارات فرد اور ہجوم نے چھین کر اپنے قبضہ میں کر لیے۔ نائین الیون کے بعد متعدد ایسے واقعات ہوئے جن میں فرد اور ہجوم نے اپنی مرضی کے فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کے سامنے ریاست بے بس تماشائی کے طور پر رہی۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر پرویز خٹک کا سیالکوٹ واقعہ پر موقف ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم کی جانب سے سیالکوٹ واقعہ پر سخت بیان سامنے آیا ،مگر ایسے بیانات سے مزید ایسے واقعات کی روک تھام نہیں کی جاسکتی کیونکہ ریاست لمحہ موجود میں بھی ماضی کی حکومتوں کی پالیسی کو آگے لے کر چل رہی ہے۔ اب یہاں چند ایسے واقعات پیش ہیں جو اکیسویں صدی کے پاکستان میں فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے قبضہ کو واضح کریں گے ۔ |
/urdu/pakistan-49290652 | سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر جو بظاہر سب سے اہم معاملہ زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ ملزمہ کو گرفتاری کے بعد کہاں پر رکھا گیا ہے۔ | سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر جو بظاہر سب سے اہم معاملہ زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ ملزمہ کو گرفتاری کے بعد کہاں پر رکھا گیا ہے۔ میڈیا کے کچھ نمائندے ذرائع سے یہ خبریں چلا رہے ہیں کہ نیب کے حکام نے مریم نواز کو گرفتار کرنے اور پھر نیب کی مقامی عدالت سے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد اُنھیں لاہور کے نیب کے دفتر میں رکھا ہے۔ 'یہ مکمل طور پر فرنیشڈ عمارت ہے جسے سب جیل قرار دے کر اس کے ایک کمرے میں مریم نواز کو رکھا گیا ہے۔' انھوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ ڈے کیئر سینٹر کو سب جیل قرار دینے کے بعد وہاں لائے جانے والے ملازمین کے بچوں کو کہاں منتقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے صرف یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ 'آج کل عید کی چھٹیاں شروع ہو چکی ہیں تو فی الحال یہ مسئلہ نہیں کہ ملازمین کے بچوں کو کہاں رکھا جائے گا۔' اس کے علاوہ اس عمارت میں ملزموں کو قید کرنے کے لیے 14 حراستی مرکز ہیں جو کہ ایک دوسرے کے سامنے واقع ہیں۔ تاہم ایک اور نیب اہلکار نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ اس عمارت میں خواتین کے لیے کوئی سیل موجود ہی نہیں ہے۔ مریم نواز کو جس جگہ پر رکھا گیا ہے وہ جگہ ڈے کئیر ک کا ایک کمرہ ہے اور وہاں پر صرف خواتین ہی جاسکتی ہیں جبکہ مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب مریم نواز کو نیب کے حکام نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا تو اُنھوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اُنھیں نیب کی بلڈنگ میں واقع ڈے کیئر سینٹر میں رکھا جائے گا۔ مریم نواز دوسری خاتون ہیں جنہیں نیب کی اس عمارت میں رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے طیبہ گل نامی خاتون کو اس عمارت میں رکھا گیا۔ چوہدری شوگر ملز کے مقدمے میں مریم نواز کے کزن کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور مقامی عدالت سے ملزمان کا 12روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا ہے۔ ان ملزمان سے نیب کی ایک ٹیم تفتیش کر رہی ہے جس میں تمام مرد شامل ہیں۔ نیب کے حکام کا کہنا ہے کہ مریم نواز سے تفتیش کے لیے یا تو کسی خاتون افسر کو شامل کیا جائے گا اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو خواتین پولیس اہلکار اس وقت تک تفتیشی کمرے میں موجود رہیں گی جب تک نیب کی ٹیم مریم نواز سے تفتیش مکمل نہیں کرلیتی۔ |
/urdu/world-59537222 | عالمی طور پر اسیر اور پالتو جانوروں میں کورونا وائرس سامنے آنے کے کیسز پہلے بھی رپورٹ ہو چکے ہیں | کورونا وائرس کا شکار ہونے والے دریائی گھوڑوں کو قرنطینہ میں رکھ دیا گیا ہے بیلجیئم کے چڑیا گھر میں دو دریائی گھوڑوں میں کورونا وائرس کی تصدیق نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ بیلجیئم کے شھر اینٹورپ کے چڑیا گھر کے منتظمین کے مطابق دونوں دریائی گھوڑوں میں وائرس کی تصدیق کے بعد انہیں قرنطینہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وائرس ان حیوانوں تک کیسے پہنچا۔ انتظامیہ کے مطابق چند دن پہلے تک چودہ سالہ ایمانی اور اکتالیس سالہ ہرمین بلکل تندرست تھے اور ناک بہنے کے سوا انہیں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ واضح رہے کہ عالمی طور پر اسیر اور پالتو جانوروں میں کورونا وائرس سامنے آنے کے کیسز پہلے بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اینٹورپ کے چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق عام طور پر دریائی گھوڑوں کی ناک گیلی رہتی ہے لیکن ان دونوں جانوروں کی ناک مسلسل بہنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ان کا ٹیسٹ کیا جائے۔ اس وقت چڑیا گھر میں پابندیوں کو مذید سخت کیا گیا ہے جو اس وقت تک لاگو رہیں گی جب تک دونوں جانوروں کا کورونا ٹیسٹ منفی نہیں آتا۔ ان دریائی گھوڑوں کے احاطے کو بند کر دیا گیا ہے جب کہ ان کے ہینڈلرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مستقل ماسک، دستانے اور حفاطتی عینکیں پہن کر رکھیں۔ ان دریائی گھوڑوں کے ہینڈلرز کا بھی ٹیسٹ کیا گیا جو منفی تھا۔ ان ہینڈلرز کو یہ تاکید بھی کی گئی ہے کہ وہ دریائی گھوڑوں سے کسی قسم کے رابطے سے پہلے اپنے جوتوں کو بھی جراثیم سے پاک کریں۔ اینٹورپ چڑیا گھر کی مویشیوں کی معالج فرانسس ورسامین کہتے ہیں کہ ان کے علم کے مطابق دریائی گھوڑوں میں کورونا وائرس کی تصدیق کا یہ پہلا کیس ہے۔ 'اس سے پہلے دنیا بھر میں کورونا وائرس زیادہ تر بڑے بندروں اور بلیوں جیسے جانوروں میں ہی دیکھا گیا ہے۔' یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں کینیڈا میں بھی ایسا ہی ایک کیس سامنے آیا تھا جب تین جنگلی ہرنوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ لیکن محدود ٹیسٹ ہونے کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ حیوانوں میں کورونا وائرس کس قدر عام ہو چکا ہے۔ |
/urdu/regional-59328706 | روس نے فضائی حملے کا دفاع کرنے والے جدید ترین ایس 400 میزائل سسٹم کی انڈیا کو فراہمی شروع کر دی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک عمدہ ہتھیار ہے جو 40 کلومیٹر سے 600 کلومیٹر کی دوری تک بیک وقت تقریباً چار سو ٹارگٹس پر نظر رکھ سکتا ہے۔ | روس نے فضائی حملوں کا دفاع کرنے والے جدید ترین ’ایس 400‘ میزائلوں کی انڈیا کو فراہمی شروع کر دی ہے۔ لیکن سابق ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امریکہ نے بیشتر ممالک پر روس سے ہتھیار خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایس 400 بہت پہلے انڈیا کو فراہم کیے جانے تھے لیکن امریکہ کی اس حوالے سے تنبیہ کے سبب یہ میزائل انڈیا نہیں آ سکے تھے۔ روسی ماہرین انڈیا پہنچ چکے ہیں اور وہ ان میزائلوں کے الگ الگ ٹکڑوں کو یہاں ایک ساتھ جوڑ کر مکمل ایس 400 مزائل نظام میں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسے اسمبل کرنے کے بعد مارچ تک انھیں نصب کر دیا جائے گا۔ راہل کے مطابق ’یہ بنیادی طور پر ایک دفاعی میزائل نظام ہے۔ یہ 40 کلومیٹر سے 600 کلومیٹر کی دوری تک بیک وقت تقریباً چار سو ٹارگٹس پر نظر رکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کہیں بھی کوئی طیارہ پرواز کرتا ہے تو انڈیا کو وارننگ آ جاتی ہے کہ وہاں سے کسی طیارے نے پرواز بھری ہے۔ اس میں چار طرح کے کروز میزائل ہیں جو آنے والے میزائلوں، جنگی طیاروں اور ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘ انڈیا کے دفاعی ماہرین کے مطابق یہ میزائل پاکستان اور چین کے فضائی حملوں کو زائل کرنے کے مدنظر حاصل کیا گیا ہے اور ان کے مطابق پورا میزائل نظام اسمبل ہونے کے بعد اسے چین یا پاکستان کی سرحد کے نزدیک کسی مقام پر نصب کیا جائے گا۔ سبھی پانچوں یونٹ سنہ 2003 تک ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب دفاعی ماہر پروین ساہنی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس 400 ایک اچھا ہتھیار ہے لیکن یہ بیلسٹک میزائل کے خلاف غیر مؤثر ہے۔ وہ کہتے ہیں ’چین اور انڈیا دونوں کے پاس ایس 400 ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ چین کی مجموعی صلاحیت انڈیا سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ایک ہتھیار سے ساری امید لگا کر بیٹھ جانا ایک غلط طریقہ ہو گا۔‘ ’آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین اور پاکستان دونوں محاذوں سے خطرہ بالکل حقیقی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آپ ہتیھاروں کی خریداری پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے آپ صحیح ہتھیار خرید رہے ہیں؟ میرے خیال میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہتھیار خریدے جا رہے ہیں وہ مؤثر نہیں ہیں۔ انڈیا کو پہلے یہ اندازہ لگانا چاہيے کہ چین کی صلاحیت کیا ہے اور وہ کس طرح لڑے گا۔‘ |
/urdu/pakistan-50178700 | لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں طبی بنیادوں پر رہائی کی درخواست منظور کر لی ہے۔ | لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں طبی بنیادوں پر رہائی کی درخواست منظور کر لی ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اس وقت لاہور میں سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ڈاکٹروں کی دس رکنی ٹیم ان کا طبی معائنہ کر رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کی رہائی کے لیے درخواست پر سماعت سوموار 28 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے نیب کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر مریم نواز کی درخواست کا جواب داخل کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے جب وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر محمود ایاز نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کی حالت تشویش ناک ہے۔ ڈاکٹر محمود ایاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ معلوم نہیں ہوا کہ کس وجہ سے پیلیٹلٹس کم ہو رہی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی متفرق درخواست منظور کرلی اور انھیں فریق بنا لیا۔ اس سے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے انھیں پیغام دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے حوالے سے عدالت نے جو بھی فیصلہ کیا حکومت اسے من و عن قبول کرے گی۔ لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ پریس کانفرنس صرف اس مقصد کے لیے بلائی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا پیغام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا دیا جائے۔ ’عدالت نواز شریف کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی نہ صرف اسے قبول کیا جائے بلکہ سپورٹ بھی کیا جائے گا۔‘ اس سے قبل جمعے کی صبح لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی ضمانت کے لیے درخواست کی سماعت کے دوران ان کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر رہائی کے لیے درخواست پر سماعت کی۔ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس سردار احمد نعیم ہیں۔ وکلا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نواز شریف کا وکالت نامہ بھی داخل کرا دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کے معالج ڈاکٹر محمود ایاز کے پیش نہ ہونے پر کچھ دیر کارروائی ملتوی کر دی۔ ایک مختصر وقفے کے بعد ہائی کورٹ نے سماعت دوبارہ شروع کی اور سابق وزیر اعظم کے معالج ڈاکٹر محمود ایاز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نواز شریف کی بیماری کی ابھی تک تشخیص نہیں ہو سکی ہے۔ |
/urdu/pakistan-52735132 | پاکستان کے صوبہ پنجاب کے چند آئسولیشن سنٹرز میں زیر علاج کورونا کے مریضوں کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ سروس پنجاب حکومت کے احکامات کے بعد معطل کی گئی ہے۔ | لاہور کے ایکسپو سنٹر میں زیر علاج کچھ مریضوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں انٹرنیٹ سروس کام نہیں کر رہی اور یہ مسئلہ کافی دن سے چل رہا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے چند آئسولیشن سنٹرز میں زیر علاج کورونا کے مریضوں کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن آئسولیشن سنٹرز میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے، ان میں لاہور کا ایکسپو اور کالا شاہ کاکو میں بنائے گئے آئسولیشن سنٹر شامل ہیں۔ یہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد ہم نے اس معاملے کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ سروس پنجاب حکومت کے احکامات کے بعد معطل کی گئی جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی جا رہی ہے۔ لاہور کے ایکسپو سنٹر میں زیر علاج کچھ مریضوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں انٹرنیٹ سروس کام نہیں کر رہی اور یہ مسئلہ کافی دن سے چل رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں اس وقت ایسے بھی مریض موجود ہیں، جو پچھلے ایک ڈیرھ ماہ سے زیر علاج ہیں لیکن ان میں کسی قسم کی علامات نہیں ہیں۔ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر کے اپنا وقت گزار لیتے تھے لیکن اب اس میں بھی کافی مسئلہ ہے۔ اس معاملے کی مزید تصدیق کے لیے ہم نے پنجاب آئی ٹی بورڈ اور پی ٹی اے کے چند سرکاری افسران سے بات کی تو معلوم ہوا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ لاہور کے ایکسپو سنٹر اور دیگر چند آئسولیشن سنٹرز میں موبائل انٹرنیٹ کی سہولت کو معطل کر دیا جائے۔ لیکن وزير صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ تمام مریضوں کے موبائل فون کام کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر والوں کو بتا سکیں کہ وہ خیریت سے ہیں تاہم ضروری نہیں کہ انٹرنیٹ کی سہولت ہر جگہ میسر کی جائے۔ انٹرنیٹ کی اس بندش پر صارفین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے یہ اقدام اپنی ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے اٹھایا ہے۔ یاد رہے کہ پہلے بھی آئسولیشن سنٹرز سے حکومتی انتظامات پر شکایات کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تھیں۔ جس کے بعد وزیراعلی پنجاب نے ان کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ ایکسپو سنٹر میں زیر علاج مریضوں کی شکایات کو دور کیا جائے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کام کرنے والے اسد بیگ کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ اقدام اٹھایا گیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب لوگوں کے پاس اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کے سوا کوئی چیز موجود نہیں۔ |
/urdu/world-61381653 | سوئٹزرلینڈ جیسا ملک جو یورپی یونین کا حصہ بھی نہیں، چند ماہ پہلے تک اس کے کسی فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں سوچا نہیں بھی جا سکتا تھا لیکن یوکرین کی جنگ نے اس رائے کو پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ | جب یورپ میں جنگ جاری ہو تو ایک یورپی ملک کیسے غیرجانبدار رہ سکتا ہے؟ سوئٹزرلینڈ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دور میں اپنی غیر جانبداری کو سنبھالے رکھا لیکن اب یوکرین پر روس کے حملے کو دیکھ کر بہت سے سوئس شہری اپنے دیرینہ مؤقف پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران، سوئس غیر جانبداری بہادری سے زیادہ عملی تھی۔ سوئٹزلینڈ نے اپنے تمام صحتمند مردوں کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار کیا تھا لیکن اس نے نازیوں کے سونے کو بھی بینکوں میں محفوظ رکھا جو انھوں نے جنگوں کے دوران لوٹا تھا۔ سوئٹزلینڈ نے نازیوں کے ستائے ہوئے ہزاروں یہودیوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا تھا جس پر اس نے نوے کی دہائی میں معافی بھی مانگی تھی۔ سوئٹزرلینڈ نے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد روس کے خلاف یورپی یونین کی تمام پابندیوں کو اپنا لیا اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ صرف 40 سال پہلے کے مقابلے میں بہت بڑی تبدیلی ہے جب سوئٹزرلینڈ نسل پرست جنوبی افریقہ کے خلاف پابندیوں میں شامل نہیں ہوا تھا، جو بہت سارے سوئس شہریوں کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھا۔ زیورخ یونیورسٹی میں سیاست کی پروفیسر سٹیفنی والٹر کہتی ہیں کہ ’سوئٹزلینڈ نے پچھلے چند عشروں میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کیا۔ اس نے 1990 کی دہائی میں عراق پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو اپنایا۔ پھر اس نے یوگوسلاویہ کے خلاف پابندیوں کو بھی اپنایا۔‘ 1907 کے ہیگ کنوینشن میں سوئٹززلینڈ کی غیرجانبداری کی جو تعریف کی گئی، اس کے مطابق وہ جنگ میں شریک کسی ملک کو ہتھیار فراہم نہیں کر سکتا۔ جب جرمنی نے سوئٹزرلینڈ سے سوئس اسلحے کو یوکرین کو دینے کی اجازت چاہی تو سوئٹزرلینڈ نے انکار کر دیا۔ اس فیصلے کو ایک ایسے حلقے کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا جس کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ چند ماہ پہلے ایسی رائے کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا جسں کی دائیں طرف سے شدید مزاحمت کی جائے گی، جہاں سوئس پیپلز پارٹی پابندیوں کو بھی غیر قانونی بنانے کے لیے ریفرنڈم کی دھمکی دے رہی ہے اور بائیں جانب جہاں سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز بھی کسی بھی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ جہاں دو تہائی سوئس اب بھی نیٹو میں شمولیت کے خیال کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ نصف سے زیادہ (52فیصد) یورپی دفاعی یونین میں شمولیت کے حق میں تھے۔ سوئٹزرلینڈ جیسا ملک جو یورپی یونین کا حصہ بھی نہیں، چند ماہ پہلے تک اس کے کسی فوجی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں سوچا نہیں بھی جا سکتا تھا لیکن یوکرین کی جنگ نے اس رائے کو پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مارکس ہیفلیگر کے مطابق یوکرین کی جنگ نے ایک نئی، منقسم دنیا میں سوئٹزرلینڈ کی پوزیشن کو واضح کر دیا ہے۔ |
/urdu/regional-52916763 | امریکہ کے سابق وزیر دفاع جیمز میٹس استعفیٰ دینے کے بعد کافی عرصے تک خاموش رہے ہیں۔ انھوں نے حالیہ مظاہروں سے متعلق کہا ہے کہ صدر ٹرمپ لوگوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ | امریکہ کے سابق وزیرِ دفاع جنرل جیمز میٹس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استمعال کرتے ہیں۔ جیمز میٹس استعفیٰ دینے کے بعد کافی عرصے تک خاموش رہے ہیں۔ اب انھوں نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر لوگوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں اور وہ خود کو ’ذمہ دار قائد‘ ثابت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ جواب میں صدر ٹرمپ نے جیمز میٹس کو ’بے جا اہمیت کا حامل جرنیل‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ جیمز میٹس اب جا چکے ہیں۔ جیمز میٹس نے اس وقت وزارت دفاع سے استعفیٰ دیا تھا جب صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کا حکم دیا تھا۔ وہ تب سے خاموش رہے ہیں لیکن بدھ کو اٹلانٹا میگزین کو دیے انٹرویو کے دوران انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو کڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے ردعمل میں صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے جیمز میٹس کو برطرف کیا تھا۔ اپنے انٹرویو کے دوران جیمز میٹس نے کہا کہ: ’ڈونلڈ ٹرمپ میری زندگی کے دوران پہلے ایسے صدر ہیں جو امریکی عوام کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یا اس کا دکھاوا بھی نہیں کرتے۔۔۔ بلکہ وہ ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ جیمز میٹس ایک رٹائرڈ جرنیل ہیں جنھوں نے دسمبر 2019 میں استعفیٰ دیا تھا اور ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ انھوں نے امریکہ میں مظاہروں کے دوران فوج استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوج کے استعمال سے سویلین اور فوج کے حلقوں کے درمیان تنازع پیدا ہوجائے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دفتر خارجہ کے سابق انسپیکٹر جنرل سٹیو لینک نے امریکی کانگریس کو بتایا ہے کہ وہ برطرف ہونے سے قبل صدر ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے اور اس کے لیے ’قومی ایمرجنسی‘ کا جواز پیش کرنے کے خلاف تحقیقات کر رہے تھے۔ انھیں گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے برطرف کیا تھا اور وہ حالیہ مہینوں کے دوران برطرف ہونے والے چوتھے حکومتی نگران ہیں۔ کانگریس کے ڈیموکریٹ اراکین کے مطابق ایک انٹرویو کے دوران سٹیو لینک نے کہا کہ وہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کی اہلیہ کے خلاف دفتر خارجہ کے وسائل کے ناجائز استعمال پر بھی تحقیقات کر رہے تھے۔ ریپبلیکن پارٹی کے ایک رکن، جو کانگریس کی اسی کمیٹی میں شامل ہیں، نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے اختیارات میں تھے جب انھوں نے سٹیو لینک کو برخاست کیا۔ جبکہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ انھوں نے خود صدر کو تجویز پیش کی تھی کہ سٹیو لینک کو برخاست کیا جائے۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے کوئی وجہ فراہم نہیں کی ہے۔ |
/urdu/world-59196200 | حکام کا کہنا ہے کہ شہر کے گرین زون میں وزیراعظم کے گھر کو دھماکہ خیز مواد سے لدے ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جو کہ مبینہ طور پر وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ تھا۔ | عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد میں وہ اپنے گھر پر ایک حملے میں بچ گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ شہر کے گرین زون میں وزیراعظم کے گھر کو دھماکہ خیز مواد سے لدے ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جو کہ مبینہ طور پر وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ تھا۔ اس سے قبل میڈیا رپورٹس کے مطابق مصطفیٰ الکاظمی کو ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ مبینہ حملے کے بعد انھوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ‘عراق کی خاطر سب کو تحمل اور اطمینان کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘ حکام کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم کی سیکیورٹی کے عملے میں سے کم از کم چھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ شہر کی گرین زون میں متعدد سرکاری عمارتیں اور سفارتخانے ہیں۔ امریکہ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور تفتیش میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ بظاہر دہشتگردانہ حملہ ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں، اس نے عراقی ریاست کے وسط کو نشانہ بنایا ہے۔‘ مصطفیٰ الکاظمی ملک کی انٹیلیجنس ایسجنسی کے سابق سربراہ ہیں اور انھوں نے گذشتہ سال مئی میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں ایران کے حامی سیاسی گروہوں نے گرین زون کے قریب مظاہرے کیے ہیں۔ وہ گذشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔ اس ہفتے 100 سے زیادہ افراد سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ |
/urdu/regional-59067585 | بنگلہ دیش کے مشرقی حصے سے متصل انڈیا کی ریاست تریپورہ ایک ہفتے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے جہاں بسنے والے مسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے متعدد شواہد سامنے آرہے ہیں۔ | انڈیا کی ریاست تریپورہ کے اناکوٹی ضلع کے سرحدی قصبے کیل شہر میں رہنے والے عبدالمنان نامی تاجر بتاتے ہیں کہ منگل کی رات ساڑھے بارہ بجے ایک ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں ان کی فیملی کو گھر سے بھاگنا پڑا۔ وہ خود اس وقت گھر پر نہیں تھے اور ریاستی دارالحکومت اگرتلہ میں تھے۔ بنگلہ دیش کے مشرقی حصے سے متصل انڈیا کی ریاست تریپورہ ایک ہفتے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے جہاں بسنے والے مسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے متعدد شواہد سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا انھیں جلایا گیا ہے اور متعدد مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار پر حملے کیے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ تریپورہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی ہے۔ مقامی لوگ تریپورہ میں حالیہ تشدد کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات کے ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں سے قائم امن و امان سے ریاست کو اپنی معیشت کی تعمیر نو میں مدد ملی ہے اور انڈیا کی 'ایکٹ ایسٹ پالیسی' میں اس کا ایک اہم کردار ہے کیوں کہ اس سے میانمار اور بنگلہ دیش کے ساتھ دوستانہ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ تریپورہ ریاست میں جماعت علما (ہند) کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو دی گئی ایک درخواست کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے ریاست کے دارالحکومت اگرتلہ اور دیگر قصبوں میں ہندو قدامت پسند جماعت 'وشو ہندو پریشد' (وی ایچ پی) اور ہندو جاگرن منچ کے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں، جو کہ مبینہ طور پر مقامی مسلمانوں کے خلاف مظاہروں میں بدل گئے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ مظاہرین نے مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاحال ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم متعدد مقامات پر حالات کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔ ریاست کے شمالی حصے میں تشدد کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 'صورتحال قابو میں ہے'۔ انتظامیہ نے کچھ علاقوں میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت چار سے زیادہ افراد کو ایک جگہ پر جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مسجدوں اور مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان میں ایک ویڈیو میں، جس کی مقامی لوگوں نے بی بی سی سے فون پر تصدیق کی ہے، ایک خاتون پولیس افسر مسلمانوں سے احتجاج نہ کرنے اور امن برقرار رکھنے میں مدد کرنے کی اپیل کر رہی ہیں۔ |
/urdu/world-60157356 | جرمنی نے یوکرین کو روس کے ممکنہ حملے کی صورت میں دفاع کے لیے اسلحہ مہیا کرنے سے انکار کیا ہے لیکن پانچ ہزار ہیلمٹ دینے کی پیشکش کی ہے۔ | ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے جرمنی نے یوکرین کو روس کے ممکنہ حملے کی صورت میں دفاع کے لیے اسلحہ مہیا کرنے سے انکار کیا ہے لیکن پانچ ہزار ہیلمٹ دینے کی پیشکش کی ہے۔ یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے جرمنی کی طرف سے ہتھیار نہ دینے کی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ولادیمیر پوتن کی حوصلہ افزائی بند کرے۔ جرمنی کے وزیرِ انصاف کرسٹین لیمریچٹ نے کہا کہ جرمنی کی طرف سے یوکرین کو ہیلمٹ دینا ایک واضح اشارہ ہوگا کہ جرمنی یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن یوکرین کے دارالحکوت کیو کے میئر وٹالی کلیچکو نے جرمنی کی پیشکش کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاید جرمنی کی اگلی پیشکش تکیے ہوں گے۔ کیو کے میئر وٹالی کلیچکو نے کہا کہ ہیلمٹ کی پیشکش نے انہیں حیران کر دیا ہے۔ وٹالی کلچکو نے کہا کہ جرمنی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’ہمارا سامنا ایک ایسی روسی فوج سے ہے جس کے پاس انتہائی جدید ہتھیار ہیں اور وہ کسی وقت بھی یوکرین پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔‘ وٹالی کلیچکو نے کہا کہ ’پانچ ہزار ہیلمٹ ایک مذاق ہے، جرمنی اس کے بعد کیا تکیے بھیجے گا؟‘ جرمنی کی جانب سے یوکرین کو 50 ہزار ہیلمٹ مہیا کرنے کی پیشکش پر جرمنی میں بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ ایک ایسی میم کو شیئر کر رہے ہیں جس میں ایک سائیکلسٹ کہتا ہے کہ ’یہ ہیلمٹ دیکھنے میں تو بیکار لگتا ہے لیکن یہ میری زندگی بچا سکتا ہے۔‘ امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا ہے روس نے دسیوں ہزار فوجی یوکرین کی سرحد پر لا کر کھڑے کر دیے ہیں اور یورپ میں ایک بڑی لڑائی چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ یوکرین نے مغربی اتحادیوں سے اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کی ایپل کی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بالٹک ریاستوں نے یوکرین کو اینٹی ٹینک اور اینٹی ایئرکرافٹ میزائل مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جرمنی نے یہ کہتے ہوئے یوکرین کو ہتھیار مہیا کرنے سے انکار کیا ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی سے تنازعے میں اور شدت پیدا ہو گی۔ جرمنی کے وزیر دفاع نے رواں ہفتے کہا تھا کہ جرمنی یوکرین کو ایک فیلڈ ہسپتال مہیا کرے گا اور جرمنی پہلے ہی یوکرین کو ریسپریٹرز مہیا کر چکا ہے۔ |
/urdu/science-54836288 | امریکہ کے محکمہ انصاف نے بدنام زمانہ ویب سائٹ 'سِلک روڈ' سے منسلک اکاؤنٹ سے ایک ارب ڈالر مالیت کے بِٹ کوائنز ضبط کر لیے ہیں۔ | امریکہ کے محکمہ انصاف نے بدنام زمانہ ویب سائٹ 'سِلک روڈ' سے منسلک ایک ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے بِٹ کوائنز ضبط کر لیے ہیں۔ رواں ہفتے کے اوائل میں کرپٹو کرنسی کے نگرانوں نے دیکھا کہ 70 ہزار بٹ کوائنز کو ایک غیر قانونی مارکیٹ سے منسلک اکاؤنٹ سے منتقل کیا گیا تھا۔ سِلک روڈ ایک آن لائن بلیک مارکیٹ تھی جہاں منشیات سے لے کر چوری شدہ کریڈٹ کارڈز تک فروخت ہوتے تھے اور کرائے کے قاتل بھی دستیاب تھے۔ اسے سنہ 2013 میں امریکی حکومت نے بند کر دیا تھا۔ یہ امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے کرپٹو کرنسی کی صورت میں ضبط کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ جمعرات کو امریکی اٹارنی ڈیوڈ اینڈرسن نے تصدیق کی کہ حکام نے کرپٹو کرنسی کی صورت میں اثاثے ضبط کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'سِلک روڈ اپنے دور کا بدنام ترین بازار تھا۔ سِلک روڈ کے بانی کے خلاف سنہ 2015 میں کامیاب کارروائی کے بعد یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ پیسہ کہاں گیا؟' سلک روڈ کے بانی روس البریچ اس وقت دو مرتبہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ان کا کہنا تھا کہ اب انھوں نے کسی حد تک اس سوال کا جواب دے دیا ہے اور یہ کہ مجرمانہ کارروائیوں سے حاصل کیے گئے ایک ارب ڈالر آج امریکہ کے قبضے میں ہیں۔' تحقیقات کرنے والے امریکی سرکاری ادارے انٹرنیشنل ریونیو سروسز (آئی آر ایس) کے مطابق اس نے سِلک روڈ کی جانب سے بٹ کوائنز میں لین دین کا جائزہ لینے کے لیے تیسرے فریق کی مدد حاصل کی تھی۔ انھوں نے ملزم کا فرضی نام بتاتے ہوئے کہا کہ اس تیسرے فریق کی تحقیقات نے انھیں اس شخص تک رسائی دلوائی جس نے مبینہ طور پر بازار سے یہ فنڈز ہیک کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین نومبر کو یہ رقم حاصل کی اور اب یہ محکمہ انصاف کے قبضے میں ہے۔ آئی آر ایس کی سپیشل ایجنٹ کیلی جیکسن کا کہنا ہے 'مجرمانہ طریقے سے کمائی گئی رقم چوروں کے ہاتھ میں نہیں رہنی چاہیے‘۔ سنہ 2015 میں بھی سِلک روڈ سے وابستہ بٹ کوائنز قبضہ میں لیے گئے تھے جنہیں امریکی حکومت نے نیلام کر دیا تھا۔ سِلک روڈ کے بانی روس البریچ اس وقت عمر قید کی دوہری سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان پر منی لانڈرنگ، کمپیوٹر ہیکنگ اور منشیات کے سمگلنگ کے الزامات ثابت ہوئے تھے۔ |
/urdu/pakistan-53696153 | دو ’لڑکیوں کی مبینہ شادی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’دینِ اسلام ہم جنسی پرستی کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ عدالت اسلامی اقدار کے باہر نہیں جا سکتی۔‘ | پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے دو لڑکیوں کی مبینہ شادی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران وزارتِ داخلہ کو ’دولہے‘ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کا شناختی کارڈ بھی بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ گذشتہ سماعت کے دوران ’دولہے‘ کی جانب سے عدالت اور جنس کے تعین کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانٹ وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس عبدالعزیز نے اپنے مختصر آرڈر میں کہا ہے کہ عدالت کے سامنے پیش کیے گئے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش ایک لڑکی ہیں اور جب تک وہ اپنی جنس کے تعین کے لیے قائم کردہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہوتیں تب تک یہی سمجھا جائے گا۔ دو لڑکیوں کی مبینہ شادی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران راولپنڈی پولیس کی طرف عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کی گرفتاری سے متعلق ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ملزم/ملزمہ کو گرفتار کرنے کے لیے راولپنڈی اور لاہور کے مختلف مقامات پر چھاپے مارے لیکن اُنھیں مبینہ دولہا کی گرفتاری میں کامیابی نہیں ملی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے پولیس کی اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم/ملزمہ کو ہر صورت میں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ دین اسلام ہم جنسی پرستی کی اجازت نہیں دیتا۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت اسلامی اقدار کے باہر نہیں جا سکتی۔ راجہ امجد جنجوعہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ پاکستان میں ’ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے ایجنڈے‘ پر کام کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دو لڑکیوں کی آپس میں شادی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ گذشتہ سماعت کے دوران ملزمہ عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے موکل نے اپنی بیوی نیہا کو طلاق دے دی ہے جس پر جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے ریمارکس دیے تھے کہ طلاق کا معاملہ تو اس وقت دیکھا جائے گا جب شادی ثابت ہو گی اور دولہا یعنی عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کی جنس کا تعین ہو سکے گا۔ عدالت نے عاصمہ بی بی عرف علی آکاش کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو بحال رکھتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر انھیں عدالت میں پیش کریں۔ |
/urdu/sport-59060351 | پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر اور پی ٹی وی سپورٹس کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کے معاملے کی انکوائری ٹیم نے تحقیقات مکمل ہونے تک دونوں کو آف ایئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ | پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر اور پی ٹی وی سپورٹس کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کے معاملے کی انکوائری ٹیم نے تحقیقات مکمل ہونے تک دونوں کو آف ایئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ ’جب تک انکوائری مکمل نہیں ہو جاتی اور واقعہ سے متعلق حقائق واضح نہیں ہو جاتے اس دوران دونوں افراد پی ٹی وی کے کسی بھی پروگرام کا حصہ نہیں ہوں گے۔‘ اس کے بعد پی ٹی وی کی پریس ریلیز کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے اپنے ردعمل میں شعیب اختر نے ٹوئٹر پر پی ٹی وی کے فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے 22 کروڑ پاکستانیوں اور دنیا بھر میں اربوں کے سامنے استعفیٰ دیا ہے۔ کیا پی ٹی وی کا دماغ چل گیا ہے؟ وہ کون ہوتے ہیں مجھے آف ایئر کرنے والے۔' اس کے بعد پی ٹی وی نے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر نعمان نیاز اور شعیب اختر کا پاکستان ٹیلیویژن کے ساتھ بالترتیب ملازمت اور کنٹریکٹ کا قانونی معاہدہ ہے۔ منسوخی ملازمت و کنٹریکٹ کا ایک قانونی ضابطہ ہے جس کے بغیر تنسیخِ معاہدہ یکطرفہ طور پر ممکن نہیں۔ اس سے پہلے جمعرات کی شام ڈاکٹر نعمان کا میچ سے پہلے پروگرام نشر نہیں ہوا تھا جس کے بعد پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر اس حوالے سے متضاد اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے یا تو ڈاکٹر نعمان نیاز کو آف ایئر کرنے کی سفارش کی ہے یا یہ کہ اُنھیں آف ایئر کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ جمعرات کی شب ڈاکٹر نعمان نیاز نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر سے فواد چوہدری کے گھر پر ملاقات کی ہے۔ اس سے پہلے جمعرات کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے پی ٹی وی سپورٹس کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ کمیٹی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی ہدایت پر قائم کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ منگل کی شب جب پی ٹی وی سپورٹس پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بارے میں لائیو پروگرام جاری تھا تو اس دوران میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز اور فاسٹ بولر شعیب اختر کے درمیان بحث و تکرار ہو گئی تھی۔ تبصروں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن اس بارے میں اگر سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو صارفین کی اکثریت شعیب اختر کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور توپوں کا رُخ ڈاکٹر نعمان نیاز کی طرف ہی رہا۔ ناصرف عام صارفین بلکہ چند حکومتی وزرا اور شخصیات نے بھی شعیب اختر کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے اس معاملے کا نوٹس لینے کی بات کی تھی۔ |
/urdu/world-53152000 | سماجی پلیٹ فارم ٹِک ٹاک کا استعمال کرتے ہوئے ٹلسا میں امریکی صدر کی متنازعہ انتخابی ریلی کو عملی طور پر برباد کر کے اِن نوعمر افراد نے اپنی صلاحیت اور طاقت کو واضح کر دیا ہے۔ ہم ان کے بارے میں اور کیا جانتے ہیں؟ | امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی ان کے منصوبے کے مطابق نہیں ہو سکی۔ ان نو عمر ایکٹیوسٹس کو مبینہ طور پر امریکی صدر کی انتخابی مہم کو برباد کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھرایا جا رہا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی ان کے منصوبے کے مطابق نہیں ہو سکی۔ ان نو عمر ایکٹیوسٹس کو مبینہ طور پر امریکی صدر کی انتخابی مہم کو برباد کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھرایا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم نے پیش گوئی کی تھی کہ 20 جون کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر ٹلسا میں ریکارڈ تعداد میں صدر ٹرمپ کے حامی انتخابی ریلی میں شرکت کریں گے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو ٹک ٹاک کے ذریعہ اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ریلی کے ٹکٹ لیں لیکن اس ارادے سے نہیں کہ وہ اس میں شامل ہوں گے بلکہ اس لیے تاکہ اس دن صدر ٹرمپ کو عدم شرکت سے بیوقوف بنائیں۔ اگرچہ اس بات پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے کہ کے پاپ کے شائقین کس طرح صدر ٹرمپ کی ’ٹرولنگ‘ میں شامل تھے۔ اس واقعہ کو زومرز کی طاقت کے اظہار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ آبادی کا ایک نیا گروپ ہے جو صدر ٹرمپ اور دوسرے سیاستدانوں کے لیے ایک نیا دردِ سر بن گیا ہے۔ زومرز کی اصطلاح بومرز کی اصطلاح پر بنی ہے، بومرز ان افراد کو کہا جاتا ہے جو 1944 سے 1964 کے درمیان پیدا ہوئے تھا اور بومرز کی یہ اصطلاح بیبی بوم جنریشن سے بنی یعنی اس دور میں جس میں بڑی تعداد میں ان لوگوں کے بچوں کی پیدائش ہوئی۔ در حقیقت، زومرز آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا میلینیئلز کی نسبت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور دن میں گزارے گئے گھنٹوں کا جائزہ لیں تو علاقائی سطح پر میلیئنیلز کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مختلف جائزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 60 فیصد زومرز سوشل میڈیا کو خبروں کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تحقیق اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ بعض ممالک میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ زومرز اپنے سے پچھلی نسل سے زیادہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ زومرز کے بارے میں ایک مشہور سروے 2016 میں ورکی فاؤنڈیشن نے کیا تھا جس نے تمام براعظموں کے 20 ممالک میں 15 سے 21 سال کی عمر کے 20،000 افراد کا انٹرویو کیا تھا۔ اس میں مختلف امور پر ان کے مؤقف کا اظہار ہوا۔ الیگزانڈرایا اوکاسیو کورٹیز نے ٹویٹ کی کہ ’دراصل صدر ٹرمپ کی مہم کو نوعمر ٹک ٹاک صارفین نے ہلا کر رکھ دیا جنھوں نے ٹکٹ کے لیے فرضی درخواستوں کی بھر مار کر دی اور آپ کو یہ گمان ہوا کہ دس لاکھ لوگ آپ کی سفید فام کی بالادستی والے اسے پروگرام میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ بھی کورونا کی وبا کے دوران، زومرز کے لیے شاباشی۔ آپ سب پر مجھے فخر ہے۔‘ |
/urdu/pakistan-54642727 | جب اس خبر کی تردید سے بھی کچھ فرق نہ پڑا تو ٹوئٹر پر پاکستانی صارفین نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور اس ہیش ٹیگ کو ’ہائی جیک‘ کر لیا، یعنی اسے اتنا استعمال کیا کہ غیر مصدقہ معلومات دب گئیں اور ہر طرف مزاحیہ مواد نظر آنے لگا۔ | جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان سوشل میڈیا کے محاذ پر چھڑنے والی جنگ نے ایک نیا موڑ لیا اور انڈین صارفین نے پاکستان میں ’خانہ جنگی کی صورتحال‘ کے بارے میں غیر مصدقہ معلومات پھیلانا شروع کیں تو ان کی اصلاح کرنے کے بجائے پاکستانی صارفین کو مستی سوجھی۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران کچھ انڈین ٹوئٹر اکاؤنٹس، جن میں انڈین میڈیا کے کچھ مصدقہ اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، نے پاکستان میں خانہ جنگی سے متعلق خبریں شیئر کیں تو متعدد پاکستانی صارفین نے ہیش ٹیگ ’سول وار ان پاکستان‘، ’سول وار ان کراچی‘، ’گلشن باغ‘ اور طنز و مزاح کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کراچی میں خانہ جنگی کی فرضی منظر کشی شروع کر دی۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے خوب میمز بنا کر اپنی تخلیفی صلاحیتوں سے ایک دوسرے کو ہنسانے کی کوشش بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حریف کو شش و پنج میں رکھا۔ کچھ صارفین کو خانہ جنگی کی غلط اطلاع سے زیادہ اس بات پر افسوس ہوا کہ 'آپ نے (کراچی کی جگہ) کرانچی نامی کون سا نیا شہر دریافت کر لیا ہے؟' اور جب پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی طارق فتح نے اسی تصویر کو خبر سمجھ کر ری ٹویٹ کیا تو پاکستانی صارفین لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کسی سیاسی، مذہبی یا سماجی گروہ کی جانب سے کسی ہیش ٹیگ کا استعمال اور اسے ٹرینڈ کروانا کوئی نئی بات نہیں اور دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کے حامی اکثر اپنی پارٹی اور رہنماؤں کے حق میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرواتے نظر آتے ہیں۔ یہ نہ تو ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ کا پہلا واقع ہے اور نہ ہی یہ صرف پاکستان تک محدود ہے۔ اس سے قبل بھی ہمیں ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ کی مثالیں دنیا کے دیگر مملک میں ملتی ہیں۔ لیکن کوریا کے مشہور بینڈ ’بی ٹی ایس‘ کے فینز نے اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے بیلو ویل اور نیلے لباس میں بی ٹی ایس کے گلوکاروں کی تصاویر شیئر کیں تاکہ سوشل میڈیا صارفین اس ہیش ٹیگ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جب اس پر کلک کریں تو انھیں ’وائٹ سپرامسسٹ‘ سے متعلق ’پراپگینڈہ‘ کے بجائے بی ٹی ایس فینز کی ٹوئٹس نظر آئیں۔ اس ریلی کے منتظمین نے ریلی سے قبل دعویٰ کیا کہ ریلی کے دس لاکھ سے زائد ٹکٹ فروخت ہوئے ہیں لیکن ریلی میں شرکا کی اتنی تعداد نظر نہ آئی تو بی ٹی ایس کی فینز نے دعویٰ کیا دراصل انھوں نے اس ریلی کے ٹکٹ بُک کیے تھے۔ اسی طرح یورپ میں دائیں بازو کی متعدد جماعتوں کے حامیوں نے کورونا سے متعلق ہیش ٹیگ کو ہائی جیک کر کے اس سے متعلق مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کی۔ |
/urdu/regional-51372714 | انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاست بی جے پی کی سرگرمیوں تک محدود ہے جبکہ دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما یا تو جیلوں میں قید ہیں یا نظر بند۔ | گذشتہ چھ ماہ پر محیط طویل قدغنوں اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تجارتی سرگرمیاں بتدریج بحال ہو رہی ہیں مگر دوسری جانب وادی کا سیاسی منظر نامہ اب بھی ڈراؤنی خاموشی کی عکاسی کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے دفاتر گذشتہ چھ ماہ سے سنسان ہیں کیونکہ تین سابق وزرائے اعلٰی سمیت درجنوں سیاسی رہنما اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔ وادی میں سیاست صرف اور صرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سرگرمیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ بی جے پی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی میدان میں ’اکیلے کھلاڑی‘ کے طور پر اُبھر کر سامنے آنا چاہتی ہے اور اس کے مقامی رہنما اپنی جماعت کی جاری سیاسی سرگرمیوں کو عوامی بیداری کی مہم قرار دے رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے وادی کے دورے پر آئے مرکزی وزیر اور بی جے پی کے رہنما مختار عباس نقوی نے سیاسی حالات سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’ہم یہاں نہ کسی کی تنقید کرنے آئے ہیں نہ ہم اُس تنقید کا جواب دینے آئے ہیں جو ہمارے خلاف ہو رہی ہے۔ ہم لوگوں کی فلاح کے لیے سرگرم ہیں، لوگوں کے درمیان کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔‘ کشمیر کی دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کے جو رہنما آزاد ہیں اُنھیں قیادت سے رابطہ نہ ہونے کے باعث معلوم ہی نہیں کہ ان کا اور ان کی پارٹی کا مستقبل میں کیا لائحہ عمل ہو گا یا انھیں حال میں کیا کرنا ہے۔ کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے بی بی سی کو بتایا کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے دو مرکزی انتظام والے علاقوں میں تقسیم کرنے سے ایک غیر معمولی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ضلع گاندربل میں بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی ریلی میں شامل ہونے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ ’کشمیر کو جو زخم گذشتہ برس پانچ اگست کو لگا تھا اُس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر حکومت کہتی ہے کہ ایسی ترقی ہو گی جو گذشتہ ستر برسوں میں نہیں ہوئی تو اب ہمیں انتظار ہے کہ ایسا کب ہو گا۔ اسی لیے میں نقوی صاحب کی بات سننے آیا ہوں۔‘ زیر حراست سیاسی رہنما اور سابق وزیر اعلٰی محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے سابق وزرا مظفرحُسین بیگ اور الطاف بخاری حالیہ صورتحال پر محبوبہ مفتی کے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے کئی بار یہ اشارے دے چکے ہیں کہ وہ نئی صورتحال کے تناظر میں سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ چھ ماہ کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں نے قدغنوں کا بوجھ تو ڈھویا ہی ہے مگر وادی میں سیاسی عمل کے بھرپور واپسی کے آثار ابھی تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-54981538 | برفباری سے سوات کے محصور علاقوں سے اپنی مدد آپ کے تحت لوٹنے والے چند افراد کا کہنا تھا کہ دریائے سوات کے پانی میں چلتے ہوئے اگر کسی ساتھی کا پاؤں پھسلتا تو ہم سب کا سانس تھم جاتا تھا، ہر لمحے ڈر رہتا کہ اگر ایک پاؤں بھی غلط پڑ گیا تو کیا ہوگا۔ | محمد سوار کہتے ہیں کہ 'ہم لوگ دریائے سوات کے کنارے کنارے پانی سے گزر کر زندگی اور موت کا سفر طے کر کے آ رہے ہیں۔ راستے میں مقامی لوگوں اور ہمارے علاقے سے بھی نوجوانوں کی ٹیم مدد کو پہنچی ہے ورنہ ہماری لاشیں بھی برف میں دفن ہو جاتیں۔' انھوں نے بتایا کہ 'برفباری رُکی اور کوئی مدد دستیاب نہ ہوئی تو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت علاقے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں پر رکنے اور مدد کا انتظار کرنے کا مطلب صرف اور صرف موت کا انتظار کرنا تھا۔' محمد سوار کا کہنا تھا کہ جب 'ہم لوگوں نے چلنا شروع کیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ مہوڈنڈ کے علاقے میں آٹھ سے دس فٹ برفباری ہو چکی ہے۔ پہاڑی اور روایتی راستوں پر پیدل چلنا بھی ممکن نہیں تھا۔ جس کے بعد ہم لوگوں نے دریائے سوات کے کنارے کنارے سفر کیا۔' انھوں نے کہا کہ 'ہم لوگوں نے زندگی اور موت کی جنگ لڑی ہے۔ دریائے سوات کے پانی میں چلتے ہوئے کئی مرتبہ اگر کسی ساتھی کا پاؤں پھسلتا تو ہم سب کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا تھا۔ چلنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے دھڑکا لگا رہتا کہ اگر ایک پاؤں بھی غلط پڑ گیا تو کیا ہو گا؟' انجینئر سعید خان کا کہنا ہے کہ مہوڈنڈ جھیل میں پھنسے 15 لوگ افراد کو نکالنے کے لیے 'ہم نے حکومت سے کئی بار مدد کی اپیل کی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جس کے بعد وہ 15 لوگ انتہائی پرخطر راستے پر سفر کرتے ہوئے کم از کم ایسے علاقے میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے مقامی طور پر نوجوانوں کی صورت میں بھیجی ہوئی مدد میسر آ چکی ہے اور ٹیلی فون سگنل بھی کام کر رہے ہیں۔' انجینیئر سعید خان کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کو اس وقت مال مویشی کو چارہ فراہم کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 'حکومت جس سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کی بات کرتی ہے اس کے لیے ہم لوگ اور اس میں خدمات فراہم کرنے والے ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر زندگی اور موت کی جنگ میں ان لوگوں کو مدد میسر نہ آئے تو پھر کس طرح سیاحت ترقی کرئے گئی؟' ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم کا کہنا تھا کہ گذشتہ دونوں کی شدید برفباری میں پہلے ہمیں اطلاعات ملی تھیں کہ مہوڈنڈ جھیل کے علاقے میں کچھ سیاح بھی محصور ہیں۔ مگر اب ہمیں پتا چلا ہے کہ ان میں سیاح شامل نہیں ہیں بلکہ ضلع سوات ہی کے لوگ تھے جو کہ وہاں پر کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اب محفوظ علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-52845310 | لگتا ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اسے ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔ | افراط و تفریط ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ اپنے پسندیدہ لیڈر کے اوصاف کو ہم بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور نا پسندیدہ شخص میں ہمیں کوئی خوبی نظر نہیں آتی بلکہ اس کے نقائص اس قدر زیادہ لگتے ہیں کہ اسے ہمارے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انڈیا کے حوالے سے بھی عمران خان اور پاکستانی ادارے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے ماضی کے سیاسی رہنماؤں کی طرح امریکی قیادت سے بھی ذاتی تعلقات کی پینگیں نہیں بڑھائیں۔ عام کھلاڑیوں کے بر عکس عمران خان شروع ہی سے سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی یہ بتاتے ہیں کہ عمران ہجوم کو دیکھ کر فوراً بتا دیتے ہیں کہ اس میں کتنا جوش و جذبہ ہے۔ عمران خان اپنے سیاسی تاثر کا خود خیال رکھتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا ٹیمز کو اپنے مخالفوں کا تیا پانچہ کرنے اور اپنی حمایت کے لیے دلائل مہیا کرنے کا فریضہ بھی وہ خود ہی انجام دیتے ہیں۔ گویا بیانیے کی جنگ میں ابھی تک انھوں نے اپنے مخالفوں کو شکست دے رکھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے وزرا پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ ہر وزیر کے بارے میں رپورٹس وہ خود دیکھتے ہیں اور جس کسی کی غلطی ہو اسے ڈانتے، سمجھاتے اور بعض اوقات ناراض بھی ہوتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے زیادہ تر وزرا اس لیے ناراض ہیں کہ وہ ان سرکاری سمریوں کو منظور نہیں کرتے جن کے بارے میں بعد میں مشکوک سوال اٹھ سکتے ہیں۔ عمران رولز اینڈ ریگولیشنز کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اکیلے رہنے سے عمران خان میں جو کمزوریاں پیدا ہو گئیں تھیں وہ بشریٰ عمران سے شادی کے بعد کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے گھر کے ماحول کو مذہبی اور روحانی بنا دیا ہے۔ بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان معیشت کے پہیے کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ ہی وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ اعتماد دے سکے ہیں کہ ملک کی فضا سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہے۔ یہی معاملہ طرز حکمرانی کا بھی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب نہ تو پاکستان کے اداروں کو پسند آیا اور نہ ہی اسے کسی بھی میرٹ پر پرکھا جا سکتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے حوالے سے جزبز نے یہ ظاہر کیا کہ ان میں قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ اسی طرح کرپشن اور احتساب کے ایجنڈے پر عمل کر کے عمران خان نے اپنے سینے پر سیاسی تمغے تو سجا لیے ہیں لیکن قومی اتفاق رائے کو شدید نقصان پہنچایا۔ لگتا یوں ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔ |
/urdu/regional-51996834 | ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کورونا وائرس کا اگلا بڑا شکار ہو سکتا ہے جہاں کم از کم تیس کروڑ افراد اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ | ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کورونا وائرس کا اگلا بڑا شکار ہو سکتا ہے۔ انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کے 376 کیسز سامنے آ چکے ہیں اور سات اموات ہو چکی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کے معاملے بہت تیزی سے بڑھیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ انڈیا میں اس کا اثر باقی دنیا سے کم ہو گا۔ ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ہینک بیکیڈم نے کہا ’اس معاملے میں انڈین حکومت اور وزیراعظم کے دفتر کا رد عمل شاندار رہا ہے۔ میں اس سے بہت متاثر ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا دیگر ممالک کے مقابلے میں ابھی بہتر حالت میں ہے۔’ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کورونا وائرس کا اگلا بڑا شکار ہو سکتا ہے ڈاکٹر رامانن نے بتایا کہ اگر انڈیا میں زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کیے جاتے تو ممکنہ طور پر اور زیادہ کیسز سامنے آتے لیکن انڈیا میں کورونا وائرس کے لیے بہت کم ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جب ٹیسٹ بڑھیں گے تو مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ تعداد اگلے دو تین دنوں میں ہزار سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ انڈیا میں ایسے جراثیم کا پھیلنا بہت آسان ہے۔ اس کی وجہ یہاں کی گنجان آبادی ہے۔ ایسا ہی چین کے ساتھ بھی ہوا۔’ لیکن اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کے رابطے میں آ رہا ہے اور اس کے ذریعہ کورونا وائرس دوسروں تک بھی پھیل گیا ہے تو صورتحال اور خراب ہو جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ انڈیا میں کم از کم بیس فیصد آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو گی لیکن انڈیا کی آبادی کے اعتبار سے یہ تعداد کم نہیں ہے۔ بیس فیصد آبادی کا مطلب ہے کہ تیس کروڑ افراد۔ ڈاکٹر رامانن نے کہا ’ہمارے پاس حالات پر قابو پانے کے لیے تین ہفتے کا وقت ہے۔ سب کچھ اسی دوران کرنا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے یں جہاں سے سامنے سونامی کو آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم وقت رہتے خبردار نہیں ہوئے تو سونامی میں ختم ہو جائیں گے۔’ انپوں نے یہ بھی کہا ’لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کسی طرح کی افراتفری نہ پیدا کریں لیکن وبا سے نمٹنے کے لیے تمام احتیات کریں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ایسی چیزیں ایک بار سامنے آتی ہیں اور ایک ہی بار میں سب کچھ تباہ کر کے چلی جاتی ہیں۔ حکومتوں کو بھی اس کی آہٹ کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اس وبا سے خود کو محفوظ رکھنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔’ |
/urdu/regional-51081165 | ایران کے دارالحکومت تہران میں سینکڑوں مظاہرین نے حکام کی جانب سے یوکرینی طیارہ گرائے جانے کے اعتراف کے بعد اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ | ایران کے دارالحکومت تہران میں سینکڑوں مظاہرین نے حکام کی جانب سے یوکرینی طیارہ گرائے جانے کے اعتراف کے بعد ایرانی حکومت ’جھوٹا‘ قرار دیا ہے۔ تہران میں کم از کم دو جامعات کے باہر مظاہرے دیکھنے میں آئے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ مظاہرے کے بعد تہران میں برطانیہ کے سفیر روب میکایئر کو بھی گرفتار کیا گیا، جنھیں تین گھنٹے تحویل میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ یوکرین کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز پی ایس 752 بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کیئو جانے کے لیے پرواز بھری تاہم طیارہ چند ہی منٹ بعد گِر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے طلبا نے تہران میں ’شریف‘ اور ’امیر کبیر‘ نامی دو یونیورسٹیوں میں مظاہرے کیے۔ ابتدائی طور پر وہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے متاثرین کی یاد میں تقریب کا انعقاد کر رہے تھے تاہم بعد ازاں یہ تقاریب مظاہروں کی شکل اختیار کر گئیں اور سنیچر کی شام تک انھوں نے شدت اختیار کر لی تھی۔ طلبا نے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی اہلکار جنھوں نے طیارہ گرایا یا اس حادثے کو ’چھپانے کی کوشش کی‘ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ تہران میں برطانیہ کے سفیر روب میکایئر کو تین گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ نے اپنے سفیر کی گرفتاری کے اقدام کو ’بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’ایرانی حکومت ایران کے باشندوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کے زمینی حقائق کی نگرانی کرنے کے لیے انسانی حقوق کے گروپس کو اجازت دے۔ پرامن مظاہرین کا ایک اور قتلِ عام نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انٹرنیٹ کی بندش۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔‘ طیارہ گر کر تباہ ہونے کے تین دن تک ایران نے ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا جن میں کہا گیا تھا کہ یہ حادثہ ان کے میزائل حملوں کی وجہ سے پیش آیا۔ ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک ’جھوٹ بول رہے ہیں اور نفسیاتی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔‘ لیکن سنیچر کی صبح ایرانی فوج کی طرف سے آیا بیان سرکاری ٹی وی پر پڑھا گیا جس میں اعتراف کیا گیا کہ یوکرینی طیارہ ’غیر ارادی طور پر‘ اور ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے گرا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے سنیچر کو ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’افواج کی اندرونی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انسانی غلطی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر یوکرین کے طیارہ پر میزائل داغے گئے جس کی وجہ سے اسے خوفناک حادثہ پیش آیا اور 176 معصوم لوگ ہلاک ہو گئے۔‘ |
/urdu/world-51021977 | ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ زیادہ تر دل کی سنتے ہیں اور زیادہ سوچتے نہیں تو آپ جلد دھوکے میں آ سکتے ہیں۔ اگر آپ نے مہنگا سواد خریدا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ ’فریب کے زیر اثر‘ ہوں۔ | اگر آپ نے مہنگا سواد خریدا ہے تو اس کی وجہ آپ کی دماغ میں آنے والی یہ سوچ ہوتی ہے جسے ’ڈیکوائے افیکٹ‘ یا ’فریب کا اثر‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کے فریب یا دھوکے میں ہوتا یہ ہے کہ آپ وہ چیز خرید لیتے ہیں جو نسبتاً مہنگی ہوتی ہے، یعنی آپ کافی کا درمیانہ سائز کا کپ خریدنے کی بجائے اکثر بڑا کپ خرید لیتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ قیمت میں تھوڑا سا فرق ہے تو میں بڑا کپ ہی کیوں نہ خرید لوں۔ یوں آپ ڈیکوائے افیکٹ کی وجہ سے عقلی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ لوگوں کو کوئی سوالنامہ دیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آیا لوگ اپنے دل کی زیادہ سنتے ہیں، یا وہ تجزیہ کر کے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جو لوگ اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے فریب میں آ جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق اگر کوئی مرد یا خاتون کسی ایسے مرد یا خاتون کے ساتھ نظر آئے جو شکل و صورت میں تو ایک جیسے ہوں لیکن ایک میں کشش تھوڑی کم ہو تو لوگ اکثر زیادہ کشش والے مرد یا خاتون کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر آپ ڈیٹنگ کے لیے ’ٹِنڈر‘ کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آپ کو کوئی مرد یا عورت زیادہ پرکشش دکھائی دی رہی ہے تو اس کا انحصار اس پر ہو سکتا ہے کہ اس تصویر سے پہلے آپ نے کون سی تصویر دیکھی تھی۔ مارکیٹنگ کے برعکس الیکشن یا ملازمت کے لیے آنے والے امیدواروں میں ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو آپ کو فریب دینے کے لیے ڈیکوائے کے طور پر دانستہ شامل نہیں کیا گیا ہو، لیکن اگر آپ کے سامنے ایسے دو امیدوار آ جاتے ہیں جو ایک جیسے ہوں، لیکن ایک تھوڑا سا بہتر ہو، تو آپ اُس کی جانب مائل ہو جائیں گے۔ آپ اپنی دوستوں کو اپنے پسندیدہ شہر میں چھٹیاں گزارنے کی دو تجاویز پیش کر سکتی ہیں، لیکن اس میں ایک تجویز ایسی ہونی چاہیے جس میں ہوٹل کے اخراجات تھوڑے زیادہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی دوستوں کے ذہن میں کوئی اور شہر ہو، لیکن جب وہ آپ کی دونوں تجاویز کا آپس میں موازنہ کریں گی تو عین ممکن ہے وہ آپ کی پسند کے شہر کا انتخاب کر لیں۔ |
/urdu/pakistan-60731412 | حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے ماحول اگرچہ اسلام آباد اور لاہور میں گرم ہے لیکن اچانک بلوچستان کے حوالے سے بھی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ | حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے ماحول اگرچہ اسلام آباد اور لاہور میں گرم ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں اچانک بلوچستان کے حوالے سے بھی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ یہ چہ مگوئیاں اسلام آباد میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال اور تحریک انصاف کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی رہنما سردار یارمحمد رند کی حزب اختلاف کے رہنماﺅں سے ملاقاتوں کے بعد سے شروع ہوئیں۔ تاہم ان میں شدت سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی کی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے بغاوت کے بعد آئی۔ ظہور بلیدی نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) میں دوبارہ جام کمال دھڑے کا حصہ بن گئے بلکہ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ بی اے پی کے اراکین پارلیمنٹ اور اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے چہ مگوئیاں اس لیے شروع ہو گئی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بی اے پی کے پانچ اراکین قومی اسمبلی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جن کو جام کمال بلوچستان میں بھی تبدیلی کا کوئی کھیل کھیلنے کے لیے اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور تحریک انصاف کے پارلیمنی رہنما سردار یارمحمد رند کی، جو کہ عمران خان سے ناراض ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری سے اس سلسلے میں ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جام کمال خان کی جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع سے بھی ملاقات ہوئی ہے جبکہ سردار یارمحمد رند کی مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات ہوئی۔ 'جام کمال کی یہ کوشش ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے بلوچستان میں بھی تبدیلی کے لیے کسی کھیل کا آغاز کرے اور جس طرح قدوس بزنجو اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر دھچکا دیا تھا اسی طرح وہ ان دونوں کو دھچکہ دینا چاہتے ہیں۔ اور وہ ان سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے خواہ وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو۔‘ 'قدوس بزنجوکو خود حکومتی اتحاد میں بلوچستان عوامی پارٹی اوراتحادی جماعتوں کے ان اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے جن کے پاس اچھے محکمے ہیں۔ ویسے تو انھیں بی اے پی اور دیگر حکومتی اتحاد میں اچھی خاصی اراکین کی حمایت حاصل ہے تاہم اگر یہ دس بھی ہوں تو حزب اختلاف کی حمایت کی وجہ سے قدوس کوکسی عدم اعتماد کی صورت میں خطرہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے اراکین میں سے بہت سارے لوگ قدوس بزنجو سے ناراض ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ اکیلے ان کے بل بوتے پر قدوس بزنجو کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو۔ |
/urdu/pakistan-57692914 | امریکہ اور پاکستان کے بنتے، بگڑتے تعلقات کی ہماری آج کی کہانی ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے ان ٹیلی گرامز، ایرگرامز(خطوط) اور پیغامات پر مبنی ہے جن کا تبادلہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی حکومت کے درمیان پاکستانی تاریخ کے اہم ترین برسوں میں سے ایک، 1977 میں ہوا۔ | امریکہ اور پاکستان کے بنتے، بگڑتے تعلقات کی ہماری آج کی کہانی ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے ان ٹیلی گرامز، ایرگرامز(خطوط) اور پیغامات پر مبنی ہے جن کا تبادلہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی حکومت کے درمیان پاکستانی تاریخ کے اہم ترین برسوں میں سے ایک ، 1977 میں ہوا۔ بائروڈ، جو 23 اپریل 1977 تک پاکستان کے سفیر رہے، نے اپنے 28 فروری کے ٹیلی گرام میں امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کو لکھا: ’بھٹو اگر معمولی اکثریت سے جیت جاتے ہیں تو قیاس ہے کہ ہم ایک غیر موثر حکومت کے دور میں داخل ہوں گے۔ اگر اپوزیشن جیتی تو حکومت میں انتشار شاید زیادہ ہی واضح ہو کیونکہ حزب اختلاف کے مابین بہت کم ہم آہنگی ہے اور عنانِ اقتدار سنبھالنے یا ملک چلانے کے بارے میں ان کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں۔‘ چھبیس اپریل کو امریکی سفارت خانے کو بھیجے گئے امریکی محکمہ خارجہ کے ٹیلی گرام میں سفیر صاحب زادہ یعقوب خان کی انڈر سیکرٹری فلپ حبیب سے ایک روز پہلے کی ملاقات کا احوال ہے۔ ’حبیب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت ہوگی لیکن زور دیا کہ امریکہ پاکستان کی داخلی فیصلہ سازی میں خود کو شامل نہیں کرے گا۔ یعقوب نے بتایا کہ پاکستان میں ایک 'باضابطہ رائے' موجود ہے کہ ایک غیر ملکی طاقت، جسے اکثر امریکا کے طور پر جانا جاتا ہے ، مالی یا کسی اور طرح سے حزب اختلاف کی حمایت کر رہا ہے۔ آنسو گیس کی کھیپ معطل کرنے کے امریکی فیصلے کو امریکا کے اس معاملہ میں فریق بننے کی مثال کے طور پر استعمال کیا گیاحالانکہ انھیں ذاتی طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔' اٹھائیس اپریل کو امریکی محکمہ خارجہ نے ایک ٹیلی گرام میں سائرس وینس کا پاکستانی وزیراعظم کے لیے پیغام پاکستان میں اپنے سفارت خانہ کو بھیجا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ 'یہ جان کر تشویش ہوئی کہ 28 اپریل کو پارلیمان میں ایک تقریر میں آپ نے امریکہ پر شدید تنقید کی اور ہم پر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ (وینس نے ایک یادداشت میں کارٹر کو بتایا کہ بھٹو نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ ان کے مخالفین کے لیے بڑی تعداد میں ڈالر بھیج رہا ہے۔ انھوں نے امریکہ کے لیے صرف ایسی 'سپرپاور' کی ترکیب استعمال کی جو پہلے ویت نام میں ملوث تھی۔ بھٹو نے کہا کہ 'اسلامی ملک پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔' انھوں نے الزام لگایا کہ دو امریکی سفارت کاروں نے سات مارچ کے انتخابات کے بعد فون پر ہونے والی گفتگو میں کہا 'کھیل ختم ہو چکا۔اب اسے جانا ہوگا۔' ان تین جملوں کے بعد کارٹر نے بائیں حاشیہ میں اپنے مختصر دستخط کیے۔) |