url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/urdu/pakistan-58605421
واپڈا ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چین کی متاثرہ کمپنی گیژوبا گروپ کارپوریشن نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے نو چینی انجینیئرز کا معاوضہ مانگا ہے جس کی ادائیگی اور بعض دیگر معاملات طے نہ ہونے پر کمپنی کام شروع کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔
واپڈا ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چین کی متاثرہ کمپنی گیژوبا گروپ کارپوریشن نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے نو چینی انجینیئرز کا معاوضہ مانگا ہے جس کی ادائیگی اور بعض دیگر معاملات طے نہ ہونے پر کمپنی کام شروع کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے تاہم امید ہے کہ حکومت پاکستان معاوضے کی ادائیگی کے حوالے سے جلد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ واضح رہے کہ داسو پراجیکٹ کے کارکنوں پر حملے کے بعد علاقے میں فوج کی آمد کے معاملے پر مقامی لوگوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ضلع میں فوج کی تعیناتی کے حوالے سے ان کے ساتھ کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور اس تعیناتی سے ان کے ہاں بعض مشکلات پیدا ہوں گی جن میں سب سے زیادہ تشویش کا باعث چیک پوسٹوں پر تلاشی کا عمل ہو گا۔ مقامی افراد کا مطالبہ تھا کہ ان چیک پوسٹوں پر صرف پولیس ہی تعینات رہے۔ چیئرمین واپڈا لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کے حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا وہ داسو پراجیکٹ پر کام کی بحالی کے لیے متعلقہ کمپنی گیژوبہ کے ساتھ بات چیت کے تقریباً 10 ادوار کر چکے ہیں اور کمپنی کو پاکستانی حکومت کے موقف سے بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ پراجیکٹ پر چینی کمپنیوں کے کام شروع کرنے اور معاوضے کے مطالبے سے متعلق بی بی سی کے سوالوں کے جواب میں واپڈا ترجمان کا کہنا تھا کہ داسو پراجیکٹ پر کام کرنے والی دیگر چار چینی کمپنیاں اپنا کام شروع کر چکی ہیں جبکہ حملے کی زد میں آنے والے کارکنوں کی کمپنی گیژوبہ نے ابھی کام شروع نہیں کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ داسو جیسے منصوبوں کے کنٹریکٹ میں اس نوعیت کے حادثات میں ہلاک ہونے والوں کے لیے معاوضے کی گنجائش موجود ہوتی ہے تاہم اس بابت چینی کمپنی کو معاوضے کی ادائیگی کا فیصلہ حکومت پاکستان کرے گی اور امید ہے حکومت جلد ہی یہ فیصلہ کر لے گی۔ واپڈا ترجمان کا کہنا تھا کہ جس کمپنی کے انجینئرز اس حملے میں مارے گئے ہیں ان کارکنوں کا متبادل تلاش کرنے میں بھی وقت لگ سکتا ہے جبکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک جامع سیکورٹی پلان بنایا جا چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت بھی اس معاملے پر چینی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا جاسکے جبکہ اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی سربراہی میں قائم سٹیئرنگ کمیٹی بھی تعمیراتی کام دوبارہ شروع کرنے کے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ واپڈا ترجمان سے اس سوال کی بابت پوچھا گیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ انتظامیہ اور اہل علاقہ کے مابین بات چیت کے بعد فوج کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔
/urdu/pakistan-58459666
فہیم دشتی کہتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہوجائے۔ تاجک، پختون، ہر قوم اور علاقہ امن کے ساتھ مل کر افغانستان کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اس وقت نہ تو ہم میدان صحافت میں تھے اور نہ ہی کسی اور چیز کی فکر تھی۔ فہیم دشتی اپنی مصروفیات کے بعد وقت گزاری کے لیے کسی ساتھی کی تلاش میں ہوا کرتے اور ہم بھی۔ فہیم دشتی کے ساتھ 1997 سے لے کر 2000 تک ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں جس کے بعد اُن کے ساتھ آخری ملاقات 2005 میں ہوئی تھی۔ اُس کے بعد ان کا خاندان افغانستان کے حالات بہتر ہونے کے بعد کابل اور پنجشیر منتقل ہو گیا تھا۔ ان ہی ملاقاتوں کے دوران ایک مرتبہ ہم نے پوچھا کہ اگر ایران اور فرانس کے ساتھ اتنے قریبی روابط موجود ہیں تو پھر اپنے خاندانوں کو فرانس یا ایران کیوں منتقل نہیں کر دیتے تو فہیم دشتی نے کہا کہ ہمارے خاندان عام فارسی بانوں کی طرح پاکستان میں محنت مزدوری کر کے اپنا وقت گزار رہے ہیں جس پر ہم مطمئن ہیں، اور ہم نے کبھی بھی پاکستانی حکام سے ان کے لیے کوئی مراعات نہیں مانگی ہیں۔ اس ملاقات کے دوران اُنھوں نے بہت کھل کر اپنے بارے میں باتیں کی تھیں۔ اس زمانے میں وہ کہتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہوجائے۔ تاجک، پختون ہر قوم اور علاقہ امن کے ساتھ مل کر افغانستان کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اُس زمانے میں طالبان اور احمد شاہ مسعود کے درمیاں جنگ بندی کی باتیں چل رہی تھیں۔ فہیم دشتی نے بتایا تھا کہ جن شرائط پر جنگ بندی کی باتیں ہو رہی ہیں وہ پنجشیری لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ سنہ 2005 میں افغانستان کے حالات بہتر ہو چکے تھے۔ افغانستان کے فارسی، تاجکوں اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واپسی کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ فھیم دشتی کے خاندان والے بھی واپسی کی تیاری کر رہے تھے۔ واپسی کے اس سفر میں فہیم دشتی ان کو خود لینے کے لیے ایبٹ آباد آئے تھے۔ طالبان نے پنجشیر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ پچیس اگست کو فہیم دشتی کے خاندان کے ایک فرد جو کہ کبھی کبھار رابطے میں رہتے تھے کا پیغام ملا کہ فہیم دشتی بات کرنا چاہتے ہیں۔ فہیم دشتی کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ پنجشیر پر بڑی جنگ مسلط ہونے جا رہی ہے جس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنا کردار بتایا کہ خود کو رضاکارانہ طور پر مزاحمتی فورس کا ترجمان بننے کی پیش کش کی ہے۔ صحافت میں تجربے اور احمد شاہ مسعود سے قربت کی وجہ سے احمد مسعود نے خوش دلی کے ساتھ یہ کردار قبول کر لیا تھا۔ فہیم دشتی جب ہلاک ہوئے تو وہ اس وقت صحافی نہیں تھے مگر کابل کے علاوہ اس وقت پوری دنیا میں افغانستان سے تعلق رکھنے صحافی مختلف حیثیتوں میں کام کر رہے ہیں، ان سب کی بڑی تعداد صحافت میں فہیم دشتی کو اپنا استاد مانتی ہے۔
/urdu/world-49723981
ایران اور سعودی عرب خطے میں اپنی برتری کے لیے کوشاں ہیں لیکن ایک دوسرے کا اثر و رسوخ روکنے کی کوشش میں براہ راست جنگ کے بجائے وہ متعدد پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران دو طاقتور ہمسائے ہیں اور خطے میں اپنی برتری کے لیے شدید کوشاں ہیں۔ تاریخی اعتبار سے سعودی عرب ہی میں اسلام کا آغاز ہوا اور وہ خود کو مسلم دنیا کے سربراہ کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ لیکن یہ صورتحال سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تبدیل ہو گئی جب اس نے اس خطے میں ایک نئی قسم کی ’مذہبی انقلابی‘ ریاست بنائی اور اس کا ایک مشن اس نئے نظام کو اپنی سرحدوں کے باہر بھی متعارف کروانا تھا۔ سنہ 2003 میں امریکہ کی سربراہی میں حملے کے نتیجے میں عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم ہو گئی، جو کہ سنی عرب تھے اور ایران کے بڑے مخالف۔ اس سے علاقے میں ایران کا مقابلہ کرنے والی ایک بڑی فوجی طاقت ختم ہو گئی۔ بغداد میں شعیہ اثر و رسوخ والی حکومت کے لیے راستہ کھل گیا اور اس وقت سے ملک میں ایران کے اثر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اب سیدھا سال 2011 کی بات کی جائے تو مختلف بغاوتوں کی بدولت عرب ممالک میں سیاسی عدم استحکام آیا جس سے پورا خطہ متاثر ہوا۔ ایران اور سعودی عرب نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی خاص طور پر شام، بحرین اور یمن میں اور اسی دوران ان کے باہمی شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا۔ ایران اور سعودی عرب براہ راست ایک دوسرے سے نہیں لڑ رہے لیکن خطے میں کئی پراکسی جنگوں میں شامل ہیں جن میں وہ خطے میں اپنی اپنی حلیف ملیشیا یا گروہوں کی پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں۔ اب تک تہران اور ریاض نے صرف پراکسی جنگیں لڑی ہیں۔ دونوں ملک براہ راست جنگ کے لیے تیار نہیں۔ تاہم حوثی باغیوں کے سعودی عرب کے دارالحکومت پر کسی بڑے حملے یا حالیہ واقعے کی طرح اگر اس کی کسی اہم اقتصادی جگہ کو نشانہ بنایا گیا تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کافی عرصے سے ایران کو مشرق وسطیٰ میں ایک عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سعودی حکومت کے لیے ایران ایک خطرہ ہے اور یہ تاثر ملتا ہے کہ سعودی ولی عہد اس کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ایران کا بڑھتا اثر و رسوخ روکا جا سکے۔ تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں نے سعودی عرب کی کمزوری کو نمایاں کر دیا ہے۔ دونوں میں جنگ چھڑنے کے زیادہ امکانات کسی سوچے سمجھے منصوبے کے بجائے اچانک کسی واقعے کے رونما ہونے سے ہیں۔ لیکن سعودی عرب کی جارحانہ پالیسی اور ٹرمپ انتظامیہ کی خطے میں پالیسی کے بارے میں ابہام بھی خطے میں ٹینشن کی وجہ ہے۔
/urdu/sport-52519379
دہلی پولیس زبردستی رقم کی وصولی کے کیس میں مختلف کاروباری شخصیات کی موبائل فون کالز پر نظر رکھے ہوئے تھی لیکن خود انھیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس سے بھی بڑی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
میچ فکسنگ کی ان تمام کہانیوں میں یہ بات قدر مشترک تھی کہ کرپٹ کرکٹرز کے بک میکرز سے رابطوں کا سراغ ان کی ٹیلیفونک کالز کے ذریعے ملا تھا دراصل دہلی پولیس زبردستی رقم کی وصولی کے کیس میں مختلف کاروباری شخصیات کی موبائل فون کالز پر نظر رکھے ہوئے تھی لیکن خود انھیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس سے بھی بڑی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ ہنسی کرونئے نے پہلے تو میچ فکسنگ سے اپنے تعلق سے انکار کیا تھا لیکن پھر انھوں نے اعتراف کر لیا کہ انھوں نے پہلے مکمل سچ نہیں بتایا تھا۔ نہ صرف ان کی کپتانی گئی بلکہ ان پر تاحیات پابندی بھی عائد کی گئی۔ راشد لطیف بعد ازاں ثبوت کے طور پر آڈیو ٹیپس کے ساتھ سامنے آئے لیکن طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ چند پاکستانی کرکٹرز کی میچ فکسنگ سے مبینہ تعلق پر مبنی یہ گفتگو کس طرح ریکارڈ ہوئی تھی اور ان تک یہ ٹیپس کس طرح پہنچے۔ جسٹس ملک محمد قیوم بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت میں آڈیو شواہد پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی فرانزک تصدیق نہ ہو تاہم چونکہ میچ فکسنگ کی انکوائری تھی لہذا راشد لطیف کے فراہم کردہ وہ آڈیو ٹیپس کمیشن نے سنے تھے اور ان سے کمیشن کی کارروائی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی تھی۔ جنوبی افریقہ میں کنگ کمیشن کی سماعت کے دوران جسٹس ای ایل کنگ نے بھی یہ بات واضح کی تھی کہ اگر جنوبی افریقی کرکٹ کو کرپشن سے صاف کرنا ہے تو کرکٹرز کی فون کالز اور ای میلز پر کڑی نظر رکھنی ہوگی اور ایسا کرنا جنوبی افریقی آئین میں موجود انسانی حقوق کی شقوں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ شاہد آفریدی نے اپنی کتابʹ گیم چینجرʹ میں اس معاملے کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سری لنکا کے دورے میں مظہر مجید کھلاڑیوں کے بہت قریب تھا اس دوران ان کا موبائل فون ان کے بیٹے سے خراب ہو گیا۔ شاہد آفریدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مظہرمجید اور سلمان بٹ کے درمیان مشکوک رابطوں کے بارے میں انھیں آل راؤنڈر عبدالرزاق نے بھی آگاہ کیا تھا لیکن انھیں یقین نہیں آیا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا تھا لیکن جب انھوں نے خود وہ پیغامات پڑھے تو انھیں اندازہ ہوا کہ معاملہ خراب ہے۔ شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہیڈ کوچ وقار یونس اور منیجر یاور سعید کو اس صورتحال سے آگاہ کیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی بلکہ یاور سعید نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم اس بارے میں کیا کرسکتے ہیں؟
/urdu/science-60240048
کمپنی نے اپنے ریونیو میں اضافے میں بھی سست روی کا عندیہ دیا ہے اور اس کی وجہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسی کمپنیوں سے مقابلے اور اشتہارات میں کمی بتائی ہے۔
کمپنی نے اپنے ریونیو میں اضافے میں بھی سست روی کا عندیہ دیا ہے اور اس کی وجہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسی کمپنیوں سے مقابلے اور اشتہارات میں کمی بتائی ہے۔ میٹا نیٹ ورکس کی حصص کی قیمت نیویارک میں مارکیٹیں بند ہونے کے بعد تقریباً 20 فیصد گر گئی ہے۔ اس گراوٹ سے کمپنی کی قیمت میں تقریباً 200 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے۔ دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں جیسے کہ ٹوئٹر، سنیپ چیٹ، پن ٹرسٹ کے حصص کی قیمتوں میں بھی تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ میٹا نیٹ ورکس کے پاس گوگل کے بعد دنیا میں دوسرا بڑا ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ پلیٹ فارم ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اپیل کے آپریٹنگ سسٹم میں پرائویسی قواعد کی تبدیلی کی وجہ سے بھی اسے نقصان ہوا۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے اشتہار لگانے والوں کو انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنے اشتہارات کو مخصوص لوگوں تک پہنچانے اور اپنے اشتہارات کے نتائج جانچے میں مشکلات ہوئیں۔ میٹا کے چیف فائنینشل آفسر ڈیو ویہنر کے مطابق ان تبدیلیوں کی وجہ سے دس ارب ڈالر تک کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم انھوں نے آئندہ سہ مائی کے لیے 27 سے 29 ارب ڈالر ریونیو کی پیشگوئی کی، جو کہ توقعات سے کم ہے۔ ادھر کمپنی نے ٹک ٹاک کا مقابلے کرنے کے لیے اپنا ویڈیو پلیٹ فارم بھی بنایا ہے تاہم ابھی وہ اتنا منافع بخش نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہماری ٹیمز بہترین کام کر رہی ہیں اور ہمارا پروڈکٹ تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر یہاں جو بات نئی ہے وہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک ایک بہت بڑا حریف پہلے ہی مارکیٹ میں موجود ہے اور وہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘ فیس بک ہمیشہ سے ہی ایسا پلیٹ فارم رہا ہے جو ترقی کرتا ہے۔ جب سے یہ پلیٹ فارم بنا ہے عالمی سطح پر اس کے اعداد و شمار ایک ہی سمت میں جاتے رہے ہیں تاہم گذشتہ چند سال میں امریکہ اور یورپ میں اس کی مقبولیت رک سی گئی ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں اضافے کی وجہ سے یہ سب کچھ چھپ گیا تھا۔ مگر کچھ اور وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے میٹا کے سرمایہ کار پریشان ہیں۔ میٹا نے اپنا نام اس لیے تبدیل کیا تھا تاکہ وہ میٹا ورس پر توجہ دے سکیں مگر میٹا ابھی میٹا ورس بننے سے کافی دور ہے اور یہ فی الحال ایک خواب ہے۔ آپ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میٹا کے مسائل کا فوری حل یہ ہو کہ وہ ٹک ٹاک خرید لیں؟ مگر امریکہ میں حکام انسدادِ اجارادی قوانین کی وجہ سے ایسا ہونے نہیں دیں گے اور سیلیکون ویلی میں بہت سے لوگ فیس بک کو ناکام برانڈ ماننے لگے ہیں۔ دس سال پہلے کے برعکس آج یہ کام کرنے کے لیے کوئی مقبول جگہ نہیں۔
/urdu/regional-59383677
پرینکا چوپڑا نے انسٹا گرام پر اپنے نام سے نک کا نام ہٹایا تو سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی اور صارفین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا دونوں میں علیحدگی ہو گئی ہے۔
پرینکا چوپڑا نے آج اپنی آنے والی فلم 'میٹرکس ' کا پوسٹر اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر شیئر کیا ہے تاہم ان کی آنے والی فلم سے زیادہ ان کے نام کا چرچا ہو رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پرینکا چوپڑا نے اپنے ٹوئٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹ سے اپنے شوہر نک جوناس کا نام ہٹا دیا ہے، جس نے بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ اب مین سٹریم میڈیا پر بھی یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ پرینکا نے ایسا کیوں کیا اور اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تاہم پرینکا چوپڑا نے خود ابھی اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی ہے۔ تاہم انھوں نے صرف 11 گھنٹے قبل اپنے شوہر نک جونس کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سی باتوں کی وضاحت کر دی۔ نک جوناس نے جم میں ورزش کرتے ہوئے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ ڈالی ہے۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پرینکا چوپڑا نے لکھا ’ہائے میں مر جاواں‘۔ پرینکا کے اس تبصرے پر کئی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ پرینکا نے سوشل میڈیا پر نک جوناس کا نام اپنے نام سے نکال دیا ہے کیونکہ وہ اپنی نئی فلم کی تشہیر چاہتی ہیں یعنی ’یہ ایک پبلسٹی سٹنٹ ہے۔‘ نِک کی پیدائش امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں پال کیون جوناس سینیئر کے ہاں ہوئی۔ جو اور کیون کو ملا کر نک نے دی جونس برادرز کے نام سے ایک بینڈ بنایا۔ سنہ 2014 میں یہ بینڈ قائم نہ رہ سکا، جس کے بعد نک نے ایک سولو البم جاری کیا۔ سنہ 2017 میں ان کی 'ریممبر آئی ٹولڈ یو' آئی، جس میں برطانوی اداکارہ این میری تھیں۔ نک جوناس شادی سے پہلے کئی بار انڈیا کا دورہ کر چکے ہیں اور پرینکا کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کر چکے تھے۔ پرینکا اور جوناس کے درمیان افیئر کی بات مئی 2018 سے شروع ہوئی، جب وہ ایک سے زیادہ مواقع پر ایک ساتھ دیکھے گئے۔ شادی راجستھان میں جودھ پور کے امید بھون پیلس میں ہوئی۔ جب کہ شادی کی تقریب بہت نجی تھی۔ اس کے بعد پرینکا نے دلی اور ممبئی میں شاندار استقبالیہ دیا۔ سنہ 2018 تک نک کے اثاثوں کی کل مالیت 18 ملین ڈالر بتائی جاتی رہی ہے۔ یہ اثاثے جونس برادرز بینڈ، فلموں میں اداکاری اور ٹی وی کیریئر کے مرہون منت ہیں۔ اس سے پہلے بھی نِک کی زندگی میں کئی بڑے نام شامل رہ چکے ہیں۔ سنہ 2006-07 میں ان کی گرل فرینڈ مائلی سائرس تھیں۔ مائلی کی کتاب میں اس افیئر کا انکشاف ہوا تھا۔ سنہ 2009 میں دونوں ایک بار پھر قریب آئے لیکن پھر ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔
/urdu/pakistan-51202995
بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل عالمی رینکنگ میں پاکستان اس وقت 270 پوائنٹس کے ساتھ پہلی پوزیشن پر ہے لیکن صرف ایک پوائنٹ کے فرق کے ساتھ آسٹریلیا دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 24 جنوری کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ بنگلہ دیش کی عالمی رینکنگ نویں ہے۔ عالمی رینکنگ میں دونوں ٹیموں کے درمیان اتنے واضح فرق کے باوجود پاکستان کی نمبر ایک پوزیشن خطرے میں ہے۔ عالمی رینکنگ میں اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو سیریز کے تینوں میچوں میں کامیابی حاصل کرنی ضروری ہے۔ اگر بنگلہ دیش نے سیریز کا ایک میچ بھی جیت لیا تو پاکستان اپنی پہلی پوزیشن سے محروم ہو جائے گا اور اس کی جگہ آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان کے اس وقت 270 پوائنٹس ہیں۔ اس کے اور دوسرے نمبر کی ٹیم آسٹریلیا کے درمیان صرف ایک پوائنٹ کا فرق ہے۔ اگر پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کے دو میچ جیت لیتا ہے تو اس کی عالمی رینکنگ دوسری ہوگی لیکن سیریز کے تینوں میچ ہارنے کی صورت میں پاکستان عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر چلا جائے گا۔ پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ہمیشہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ 90 میچز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیت چکا ہے۔ پاکستان پہلی مرتبہ نومبر 2017 میں ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن نیوزی لینڈ نے اس سے یہ پوزیشن چھین لی تھی۔ پاکستان نے جنوری 2018 میں نیوزی لینڈ کو سیریز میں دو ایک سے شکست دینے کے بعد دوبارہ ٹاپ پوزیشن حاصل کرلی۔ سنہ 2016 سے لے کر سنہ 2018 تک دو سال کے عرصے میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی غیرمعمولی رہی۔ اس عرصے میں پاکستان نے مسلسل گیارہ ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتیں۔ ٹیم نے یہ تمام کامیابیاں سرفراز احمد کی قیادت میں حاصل کیں۔ سرفراز احمد ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان ہیں جنھوں نے37 میں سے 29 میچز جیتے ہیں۔ مگر 2019 پاکستان کے لیے انتہائی مایوس کن سال رہا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف اسے شعیب ملک کی قیادت میں تین میچوں کی سیریز میں دو ایک سے شکست ہوئی۔ سرفراز احمد کی قیادت میں انگلینڈ سے واحد میچ ہارنے کے بعد پاکستان کو عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبر کی ٹیم سری لنکا کے خلاف وائٹ واش کی ہزیمت کا سامنا رہا۔ سرفراز احمد کپتانی سے ہٹادیے گئے اور آسٹریلیا کے دورے میں بابراعظم کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن اس دورے میں پاکستان سیریز کے تین میں سے دو میچ ہارگیا۔ ایک میچ بارش کی وجہ سے نامکمل رہا۔ اسی دوران عالمی نمبر دو ٹیم انگلینڈ کو نیوزی لینڈ نے شکست دے دی تھی اس طرح پاکستان کی نمبر ایک عالمی رینکنگ آسٹریلوی دورے میں ختم ہونے سے بچ گئی تھی۔
/urdu/world-52309408
اپنے گھر یا اپارٹمنٹ میں پہلے سے تنہا رہنے والوں کے لیے قرنطینہ کا مطلب تنہائی میں مزید اضافہ ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے چند آسان حل اس مضمون میں پڑھیے۔
لوسیا کے لیے لاک ڈاؤن میں گزرے ابتدائی چند ہفتے بہت ہی مشکل تھے، زندگی کی یک رنگی اور الگ تھلگ اپنے اپارٹمنٹ میں رہنے نے ان پر منفی اثرات مرتب کیے۔ اینجی امریکی ریاست ’مین‘ میں گذشتہ چار برسوں سے اکیلی رہ رہی ہیں۔ تنہا اپارٹمنٹ میں رہنے کی ضرورت انھیں اس لیے بھی تھی کیونکہ وہ اپنے شوہر سے طلاق کے بعد کچھ وقت اپنے آپ کو دینا چاہتی تھیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہی چند ہفتے قبل اینجی کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا اور اب اسے اس مشکل وقت سے اکیلے ہی نمٹنا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’عام حالات میں اگر آپ اپنی نوکری کھو دیتے ہیں تو کم از کم آپ کے خاندان کے افراد آپ کو گلے لگانے کے لیے موجود ہوتے ہیں یا دوست احباب جو آپ کو خوش کرنے کے لیے اپنے گھر دعوت دیتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ہماری موجودہ صورتحال، جس میں اربوں افراد کو عام زندگی سے قطع تعلق کا سامنا ہے، بہت بےنظیر ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایسے تمام افراد جو اپنے گھروں میں تنہا رہتے ہیں وہ ایسے افراد سے ضرور رابطے میں رہیں جنھیں ان کی فکر یا خیال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنی توقعات اور ذہن کو ایڈجسٹ کرنا اکیلے پن کو محسوس کرنے سے بچنے کا ایک اہم گُر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیش آنے والے واقعات کو یہ سوچ کر قبول کرنا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہیں اور یہ سوچ کہ اپنے پیاروں سے دور ہونا مستقل نہیں صرف عارضی ہے۔ اینجی کے لیے اس کا مطلب آرٹ کے اپنے لگاؤ سے واپس جڑنا ہے۔ اس فیچر میں نظر آنے والے تمام خاکے اینجی ہی کے تخلیق کردہ ہیں۔ اس طرح وبا کے اس دور میں وہ تنہا رہنے کے حوالے سے اپنے جذبات اور نقطہ نظر کو شیئر کر پائی ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ روزانہ اپنے لیے صرف تین اہداف معین کیجیے اور انھیں مکمل کرنا آپ کو کامیابی کا احساس دلانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ’ایسا کرنے کے بعد آپ رات کو سکون سے بستر پر لیٹ سکیں گے کیونکہ آپ جانتے ہوں گے کہ اگلے روز آپ کے پاس کرنے کو کچھ ہے، آنے والے دن کے لیے کوئی مقصد۔‘ اپرنا سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کو کیا مشورہ دیں گی۔ ان کا پیغام سادہ سا ہے: ’اپنے آپ کو سنیے اور اپنے آپ پر رحم کیجیے، آپ جرم یا سمجھوتے کے احساس کے بغیر سب کچھ کرنے، کچھ نہ کچھ کرنے یا کچھ نہ کرنے کے لیے آخرکار وقت نکال سکتے ہیں۔‘ ’دنیا کے دیگر انسانوں سے وابستگی کا احساس ہونا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ اور یہ احساس ضروری بھی ہے اور خوبصورت بھی، یہاں تک کہ آج کل کے مشکل ترین دور میں بھی۔‘
/urdu/sport-55467142
اس میں دو رائے نہیں کہ بیٹنگ کوچ یونس خان نے کھلاڑیوں کی تکنیک پہ کافی کام کیا ہے۔ بالخصوص عابد علی کی اننگز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے وہ بہت تیار ہو کر آئے تھے۔ لیکن تکنیک کی اپنی جگہ ہے اور ذہنی کیفیت کی اپنی۔
یہاں بنیادی اہمیت تکنیک کو حاصل ہے۔ کب کریز کے اندر کھڑا ہونا ہے، کب بیک فٹ پہ جمنا ہے اور کب آگے بڑھ کر کھیلنا ہے۔ پھر یہ تکنیک مختلف کنڈیشنز میں مختلف طرح سے ایڈجسٹ بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بیٹنگ کوچ یونس خان نے کھلاڑیوں کی تکنیک پہ کافی کام کیا ہے۔ بالخصوص عابد علی کی اننگز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے وہ بہت تیار ہو کر آئے تھے۔ لیکن تکنیک کی اپنی جگہ ہے اور ذہنی کیفیت کی اپنی۔ پاکستانی بلے باز کس ذہنی کیفیت میں تھے اور کیا کرنا چاہ رہے تھے، یہ کسی گرو یا کوچ کے سکھائے ہوئے علوم سے ماورا ہے۔ پہلے دو سیشنز میں تو یہ واضح ہی نہیں ہو پایا کہ پاکستانی کھلاڑی کس پلان کی پیروی کر رہے تھے۔ جب مخالف ٹیم اتنی بڑی سبقت حاصل کیے بیٹھی ہو تو بیٹنگ ٹیم کی پلاننگ نہ صرف سبقت مٹانے پر مرکوز ہوتی ہے بلکہ دفاع اور بقا بھی بنیادی اہداف کی جگہ لے لیتے ہیں۔ دوسرے دن کے آخری سیشن میں پاکستان نے بھرپور مزاحمت دکھائی اور سارا دھیان بقا پر مرکوز کیے رکھا۔ عابد علی اور محمد عباس نے بجا طور پر وکٹ کے آگے بند باندھ ڈالے اور یقینی بنایا کہ پہلے سیشن کی اس مشکل وکٹ پر کسی نئے بلے باز کو کیوی امتحان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر کیا صرف مڈل آرڈر کو مہلت دینا ہی کافی تھا؟ عابد علی پورے کنٹرول میں تھے۔ وہ کریز کو بخوبی استعمال کر رہے تھے اور جیمی سن کے باؤنس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بیک وقت بیک فٹ اور فرنٹ فٹ کا توازن برقرار رکھ رہے تھے۔ مگر کیا ان کی ذمہ داری صرف اسی پہ موقوف تھی؟ ایسے حالات میں بیٹنگ ٹیم کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لمبے اہداف ذہن میں رکھنے کی بجائے صرف سٹرائیک بدلنے پر توجہ دیں تاکہ سکور بورڈ چلتا رہے اور دباؤ بھی یکسر بڑھنے نہ پائے۔ مگر یہاں پاکستان کی بنیادی حکمتِ عملی وکٹ کا بچاؤ تھا۔ اور یہ پہلے گھنٹے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی مگر عابد علی کے گرنے کی دیر تھی کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور قطار در قطار وکٹیں ضائع ہونے لگیں۔ اگر فہیم اشرف اور محمد رضوان بھی ایسے بے خوف نہ کھیلتے تو میچ کا توازن بالکل برعکس ہوتا اور اننگز کی شکست کے بادل سر پہ منڈلا رہے ہوتے۔ پاکستان اس پارٹنر شپ کی بدولت نری رسوائی سے تو بچ گیا مگر نتیجہ ابھی بھی کچھ مختلف نہیں لگ رہا۔ 2020 کے ہنگاموں کے بیچ اگر کوئی چالیس سال پرانی کرکٹ کھیل کر جیت کا خواب دیکھ رہا ہو تو اس سے صرف ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے۔ اور یہ ہمدردی بھی صرف آپ کے شائقین کر سکتے ہیں، مخالفین نہیں۔
/urdu/regional-60430968
سنہ 2008 میں انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے مختلف علاقوں میں ایک گھنٹے کے دوران ہونے والے 20 بم دھماکوں میں 57 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
انڈیا میں عدالت نے 14 برس قبل میں احمد آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمے میں 38 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔ انڈیا کی ریاست گجرات کے دارالحکومت میں سنہ 2008 میں ہونے والے دھماکوں میں 57 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ احمد آباد کی مقامی عدالت نے اس مقدمے میں 11 ملزمان کو عمرقید کی سزا بھی سنائی ہے اور تمام مجرم اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ اس کیس میں نامزد 28 ملزمان کو عدالت نے بری کر دیا۔ ان دھماکوں کے سلسلے میں 78 افراد کے خلاف مقدمہ چلا تھا جن میں سے ایک ملزم ایاز سعید نے بعد میں تفتیشی اداروں کی مدد کی تھی۔ کیس سننے والے سپیشل جج اے آر پٹیل نے حکام کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ متاثرین کے خاندانوں کو ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ ادا کریں۔ 26 جولائی 2008 کو ایک ہی گھنٹے کے دوران احمد آباد کے مختلف علاقوں میں 20 بم دھماکے ہوئے تھے جن میں سے کچھ رہائشی علاقوں میں ہوئے جبکہ کچھ کا ہدف بازار اور ہسپتالوں کے قریبی علاقے بھی تھے۔ ان دھماکوں کے علاوہ پولیس نے بعد میں مزید کئی ایسے بم بھی دریافت کیے تھے جو پھٹ نہیں سکے۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ان دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم انڈین مجاہدین نے میڈیا کو بھیجی جانے والی ایک ای میل میں قبول کی تھی۔ یہ اس وقت ایک گمنام تنظیم تھی جس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ انڈین مجاہدین نے انڈیا میں کئی بڑے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن یہ ستمبر 2008 میں دلی کے بم دھماکوں کے بعد نظروں میں آئی تھی۔ اس کے علاوہ 2008 میں ہی احمد آباد میں سلسلہ وار دھماکوں اور 2010 میں پونے کی جرمن بیکری ریستوران پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔ انڈین حکومت نے پونے میں حملے کے بعد اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے ہوئے 2010 میں اس پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ امریکہ نے سنہ 2011 میں انڈین مجاہدین کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس وقت امریکی انتظامیہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس تنظیم کے پاکستان سے کام کرنے والی لشکر طیبہ، جیش محمد اور حر کت الجہاد اسلامی سمیت متعدد ممنوعہ دہشت گرد تنطیموں سے قریبی روابط ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم 2005 سے انڈیا میں درجنوں بم دھماکوں میں ملوث رہی ہے جن میں سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انڈین مجاہدین کا مقصد غیر مسلموں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی کرنا ہے تاکہ وہ اپنے نصب العین یعنی پورے جنوبی ایشیا میں اسلامی خلافت کے قیام کو حاصل کر سکے۔
/urdu/world-58208146
امریکی فوج کی اعلیٰ ترین قیادت، خارجہ پالیسی کے کرتا دھرتا، امریکہ کے سمندر پار اتحادی سب یہ سمجھتے تھے کہ حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علاوہ کچھ بھی کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوگا۔
موجودہ دور کے امریکہ میں ایسا لگتا ہے کہ تمام راستے گیارہ ستمبر کی طرف واپس جاتے ہیں۔ پرل ہاربر پر حملے کے بعد ایسا ہولناک واقعہ جس نے حالات کا رخ بدل دیا۔ پرل ہاربر میں لنگر انداز امریکہ کے بحرالکاہل کے بحری بیڑے پر جاپانی فوج کا اچانک حملے جس سے امریکہ کو آخر کار دوسری جنگ عظیم میں کودنا پڑا۔ نوجوان بلکہ ہر عمر کے لوگ فوج میں بھرتی کے مراکز کے باہر لائن لگا کر کھڑے تھے۔ امریکہ حملوں کی زد پر تھا۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار یہ لوگ اپنی سرزمین کا دفاع کرنا چاہتے تھے جو 'آزاد لوگوں کی سرزمین' ہے اور ان لوگوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے جنھوں نے امریکہ کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس جذبے کو کسی وقتی غصے سے تعبیر نہ کیا جائے۔ ایسا نہیں تھا۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن میں صرف امریکی شہری شامل نہیں ہیں، جو لبرل خیالات کے حامل تھے اور وہ امریکہ کی پالیسیوں کہ حامی نہیں تھے۔ ان کے لیے یہ فیصلے کا وقت تھا، ایک ایسی گھڑی جب آپ کو کسی ایک طرف ہونا پڑتا ہے۔ سنہ 2016 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب میں یہ بھی ایک اہم عنصر تھا۔ طویل نہ ختم ہونے والی جنگ سے تنگ، ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے عراق اور افغانستان کو دلدل قرار دیا اور امریکہ کے عالمی پولیس اہلکار کے کردار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ اپنی فوجیں بلانے کی امریکی فوجیوں کی خواہش بالکل قابل فہم تھی۔ وہ اپنی فوجیں واپس بلانا چاہتے تھے، ان ملکوں کے مسائل ان پر چھوڑنا چاہتے تھے اور اس سوچ کو ترک کرنا چاہتے تھے کہ لبرل جمہوریت کا امریکی نظام کوئی برآمدی شے ہے جس کو دوسرے ملکوں پر تھوپا جا سکتا ہے۔ گذشتہ نومبر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابی کامیاب حاصل ہو جاتی تو شاید وہ امریکی فوج کو اس سے بھی پہلے افغانستان سے نکال لیتے۔ گو کہ جو بائیڈن کو ٹرمپ کا انتخابی وعدہ ورثے میں ملا تھا لیکن ان کے لیے یہ کام کہیں آسان تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات امریکی مرد اور خواتین فوجیوں کی تنخواہوں کی ایک اور سال تک منظوری دیتے رہتے۔ اور پھر ایک اور سال کے لیے اور پھر ایک اور سال کے لیے۔ سیاسی دباؤ ان پر واقعی بہت شدید تھا۔ امریکی فوج کی اعلیٰ ترین قیادت، خارجہ پالیسی کے کرتا دھرتا، امریکہ کے سمندر پار اتحادی سب یہ سمجھتے تھے کہ حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علاوہ کچھ بھی کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوگا۔ گھر بیٹھ کر خود کو دنیا کے مسائل سے دور رکھنے کی خواہش قابلِ فہم ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ اتنا دلفریب کیوں تھا۔ جارج بش نے 2001 میں اس کی وکالت نہیں کی تھی مگر اس وقت افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی نہیں تھے۔
/urdu/regional-56904408
اوانی سنگھ ان ہزاروں انڈین شہریوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنے خاندان کی مدد کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔
لیکن طلب رسد سے کہیں زیادہ ہے اور بیماروں کے پاس زیادہ وقت کی آسائش نہیں ہے۔ جب میں نے جمعہ کو یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو، میں نے اتر پردیش میں ایک شخص سے بات کی جو اپنے 30 سالہ کزن کے لیے واٹس ایپ پر آکسیجن تلاش کر رہا تھا۔ اتوار کو جب میں نے یہ مضمون مکمل کیا، تب تک وہ شخص ہلاک ہو چکا تھا۔ اوانی سنگھ دلی میں اپنے 94 سالہ نانا کے ساتھ جو اس وقت کووڈ۔19 کی وجہ سے بیمار ہیں ان کے 94 سالہ نانا دہلی میں کووڈ۔19 سے شدید بیمار ہیں۔ امریکہ میں واقع اپنے گھر سے اوانی اور ان کی والدہ امریتا بتاتی ہیں کہ ان کے گھر والوں، دوستوں، رشتہ داروں اور پیشہ ورانہ رابطوں کا ایک جال ہے، جس نے ان کی مدد کی جب ان کے والد بیمار ہوئے اور پھر ان کی حالت خراب تیزی سے خراب ہوتی چلی گئی۔ اوانی کہتی ہیں کہ ’ہم ہر اُس شخص سے رابطہ کر رہے تھے جسے ہم جانتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہی تھی، میں ایسے صفحات کے متعلق جانتی ہوں جن میں کہا گیا ہوتا ہے کہ ’فلاں فلاں نے آئی سی یو بیڈز کی تصدیق کی ہے‘ یا ’اس جگہ پر آکسیجن موجود ہے‘۔ ہم نے مل کر 200 کے قریب مقامات پر کوشش کی۔‘ آخر کار سکول کے ایک دوست کے ذریعہ انھیں ایک ہسپتال ملا جس میں بستر تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں آکسیجن نہیں ہے۔ اب تک اوانی کے نانا بے ہوش ہو چکے تھے۔ امریتا تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پھر میں نے فیس بک پر ایک درخواست پوسٹ کی اور ایک دوست نے آکسیجن والے ایک ایمرجنسی کے کمرے کا بتایا۔ اس دوست کی وجہ سے اس رات میرے والد کی جان بچ گئی۔‘ جب ہم نے ہفتے کو بات کی تو ان کی حالت پہلے سے بہتر تھی لیکن اب اوانی اور امریتا کے کا کام ریمیڈیسویر انجیکشن کی تلاش کرنا ہے۔ وہ کال کرتی ہیں اور دہلی میں امریتا کے بھائی ایک دن میں سو سو میل کی مسافت طے کر کے مختلف مقامات پر جاتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ سوشل میڈیا پر دیے گئے نمبروں پر کال کرتی ہے جہاں آکسیجن، بیڈز، پلازما یا ادوایات کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ تصدیق شدہ معلومات آن لائن شائع کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ کووڈ مریضوں کے لواحقین کی مدد کے لیے درخواستیں ان تک پہنچاتی ہیں۔ واٹس ایپ کے ذریعے خاندان نے ایک آکسیجن سلینڈر حاصل کیا، لیکن اب انھیں اسے چلانے کے لیے ایک کونسینٹریٹر کی ضرورت تھی۔ وہ جمعے کو نہیں مل رہا تھا لیکن ایک سپلائر نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ انھیں ایک مل سکتا ہے۔
/urdu/pakistan-60426676
برطانوی عدالت کے الطاف حسین کو بری کرنے کے فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس سے الطاف حسین کو پاکستان میں سیاسی اور قانونی ریلیف مل سکتا ہے اور کیا یہ فیصلہ ان کی سیاسی لائف لائن ہے؟
تاہم برطانوی عدالت کے اس فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس سے الطاف حسین کو پاکستان میں سیاسی اور قانونی ریلیف مل سکتا ہے اور کیا یہ فیصلہ ان کی سیاسی لائف لائن ہے؟ سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ 'برطانوی جیوری کی بریت کے فیصلے سے الطاف حسین کو ایک نئی سیاسی زندگی ضرور مل گئی ہے لیکن یہ فیصلہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہے۔ جب تک ان کے معاملات اسٹیبلشمنٹ سے ٹھیک نہیں ہوتے وہ کوئی سرگرمی نہیں کر سکتے، اس لیے انھیں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ملے گا۔' لندن میں سینیئر صحافی اور اس الزام کی تحقیقات سے لے کر جیوری کے فیصلے تک اس مقدمے کی پیروی کرنے والے مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا ہے کہ الطاف حیسن کو زندگی کی ایک نئی لیز مل گئی ہے، اگر کسی پر اس عمر میں مقدمہ چلایا جائے اور دوسرا اس پر دہشت گردی کا الزام ہو تو پھر اس کا بیانیہ بالکل فارغ ہو جاتا ہے۔ بعد میں اس نے ایک اور آپریشن اور تقسیم کا سامنا کیا اور سنہ 2018 میں اس کی نشستیں کم ہو کر سات ہوگئیں، یہ الیکشن ایم کیو ایم نے الطاف حسین کے بغیر لڑا جبکہ اس سے قبل سنہ 1988 سے لے کر سنہ 2013 تک تمام انتخابات ان کی تصویر پر لڑے گئے۔ ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے اور پولیس چالان میں کہا گیا ہے کہ 'الطاف حسین نے ٹیلیفون پر خطاب کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان مردہ باد، بھوک ہڑتال میں نے شرو ع کروائی تھی پانی پیو اس کو ختم کرو سب اپنے گھروں کو جاؤ میرا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس تحریک سے کوئی تعلق ہے۔ انھوں نے لوگوں کو اشتعال دلوایا جس کے بعد انھوں نے ہنگامہ آرائی کی۔' الطاف حسین سیاسی جلسوں اور تنظیمی اجلاسوں سے ٹیلیفون پر خطاب کرتے تھے۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں کراچی میں تحریک انصاف کے ابھرنے کے بعد ان کی ناراضگی سامنے آئی اور انھوں نے کئی تنظیموں کے رہنماؤں کو معطل بھی کیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد سنہ 2013 میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں متعدد کارکن گرفتار ہوئے اور تنظیم نے ماورئے عدالت ہلاکتوں کے بھی الزامات عائد کیے۔ اس تقریر کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے اور ایک شہری نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔
/urdu/sport-53861961
یاسر شاہ، نسیم شاہ اور شان مسعود پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں تین انتہائی اہم کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے کورونا وائرس کے دوران محدود رہتے ہوئے کرکٹ کھیلنے، جیمزاینڈرسن اور سٹورٹ براڈ کا سامنا کرنے، مداحوں کے لیے اداس ہونے کے بارے میں اور ایسی ہی دیگر باتیں کیں۔
مایہ ناز لیگ سپنر، نوجوان سٹار فاسٹ بولر اور سنچری بنانے والے اوپنر۔ یاسر شاہ، نسیم شاہ اور شان مسعود پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں تین انتہائی اہم کھلاڑی ہیں۔ یاسر، نسیم اور شان نے کورونا وائرس کے دوران محدود رہتے ہوئے کرکٹ کھیلنے، جیمزاینڈرسن اور سٹورٹ براڈ کا سامنا کرنے، مداحوں کے لیے اداس ہونے کے بارے میں اور دیگر موضوعات پر بات کی۔ پاکستان کا سکواڈ 28 جون کو برطانیہ پہنچا اور جب ان کی واپسی ہو گی تو انھوں نےکورونا وائرس کے باعث بنائے گئے ’بائیو سکیور‘ ماحول میں 10 ہفتے گزار لیے ہوں گے۔ ایسے میں انھیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈ ہی لیے۔ نسیم: ہم اس موقعے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ہمیں ایک دوسرے کی زندگیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے، کہانیاں سننے کو ملی ہیں اور ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ سب ہی بہترین کہانیاں سناتے ہیں لیکن فاسٹ بولر عمران خان سب سے مزیدار کہانیاں سناتے ہیں، وہ بہت ہنساتے ہیں۔ پاکستان کی کوچنگ لائن اپ لیجنڈ کھلاڑیوں سے بھری ہے جن میں پاکستان کے لیے ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے یونس خان اور سابق فاسٹ بولر وقار یونس شامل ہیں۔ بیٹنگ کوچ یونس خان کو دوسرے ٹیسٹ کے دوران یاسر شاہ کے بالوں سے کھیلتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یاسر: مجھے یونس بھائی کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہے۔ جب وہ ہمارے ساتھ کھیل رہے تھے تب ان کے ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔ اب وہ بیٹنگ کوچ ہیں اور وہ ہم سب سے پیار کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں، تم میں اور اپنے بیٹے میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا۔‘ انھوں نے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کوئی اس منظر کی عکس بندی کر رہا ہے۔ نسیم: اینڈرسن ایک لیجنڈری بولر ہیں۔ ان کی لائن اور لینگتھ، سوئنگ، کنٹرول اور ان کا ایکشن سب کچھ ہی کمال ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنے فون پر ویڈیو دیکھی تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ میں انھیں ٹی وی پر دیکھا کرتا تھا۔ یہ سب اس وقت بہت بہتر ہو جائے گا جب بین سٹوکس، جو روٹ، جاس بٹلر جیسے ہیروز اور سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈریسن جیسے کھلاڑی پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاکستان کرکٹ کی مدد کریں۔ ہم نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، بہت بھاری قیمت ادا کی اس سب کے لیے دنیا میں ہوتا رہا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہمارے لوگ خاص طور پر بچے ہماری آنے والی نسل وہ نہ صرف پاکستانی ہیروز کو دیکھنے کے بلکہ دنیا بھر سے کرکٹ کے ہیروز کو دیکھنے کے حق دار ہیں۔
/urdu/pakistan-61201328
تقریباً 19 برسوں پر محیط یہ سفر تھکا دینے والا تھا اور اس دوران اُن کے سامنے مشکلات بھی آئیں مگر اب اُنھیں اپنی محنت کا ثمر مل گیا ہے۔
تقریباً 19 برسوں پر محیط یہ سفر تھکا دینے والا تھا اور اس دوران اُن کے سامنے مشکلات بھی آئیں مگر اب اُنھیں اپنی محنت کا ثمر مل گیا ہے۔ جب وہ 2003 میں نادرا میں بطور سینیٹری ورکر بھرتی ہوئے تو اس وقت اُنھوں نے صرف میٹرک کر رکھا تھا۔ مگر یہ ملازمت مل جانے کے بعد اُنھوں نے یہ نہیں سوچا کہ بس اب زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا، بلکہ اُنھوں نے اپنے دل میں مزید آگے بڑھنے کی ٹھان رکھی تھی۔ ملازمت، بیٹی کا علاج اور پڑھائی، یہ سب ساتھ کرنا کچھ مشکل تھا مگر اس دوران اُنھیں افسرانِ بالا کی حوصلہ افزائی حاصل رہی، یہاں تک کہ سنہ 2012 میں اُنھوں نے اپنی ڈگری مکمل کر لی۔ اب اُن کی بیٹی 12 برس کی ہو چکی ہے اور اس کا علاج اب بھی جاری ہے۔ ’میں اب بھی سینیٹری ورکر ہی تھا مگر چونکہ ہاتھ میں ڈگری اور دل میں سیکھنے کا جذبہ تھا، اس لیے میں اپنے اردگرد ہونے والے دفتری کام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا، اپنے افسران سے سوالات پوچھا کرتا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا۔‘ ’کبھی کبھار کوئی میری ملازمت یعنی سینیٹری ورکر ہونے کا طعنہ بھی دے دیتا جو بہت تکلیف دہ ہوتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگنے لگا تھا کہ میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا اور نہ کبھی ترقی کروں گا، مگر ہمدردوں کے ہمت دلانے سے میرا حوصلہ واپس بحال ہو جاتا۔‘ اُنھیں اُن کے دوستوں نے کہا کہ چلو اس کا ٹیسٹ دیتے ہیں۔ اُن کا دل نہیں مان رہا تھا مگر دوستوں نے اصرار کیا اور کہا کہ تاج محمد، دیکھو تمہارا موقع آ گیا ہے۔ یہاں تک کہ اُنھیں چیئرمین نادرا طارق ملک کی کال آئی اور بعد از مبارکباد اُنھوں نے کہا کہ وہ تاج محمد کو اپنے ہاتھوں سے اسلام آباد میں آفر لیٹر دینا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ دارالحکومت روانہ ہو گئے اور اپنی محنت کا پھل وصول کیا۔ جب کامیابی کی اطلاع ملی تو اُن کے کیا تاثرات تھے اور اب کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اس سوال پر تاج محمد نے کہا کہ ’گذشتہ چار پانچ دنوں میں کامیابی کی اطلاع ملنے سے لے کر اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا یہ کوئی خواب ہے۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ کیا ہوا ہے، شاید کچھ دن تک یہی احساس رہے۔‘ تاج محمد نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے ماموں کے ساتھ گزارا ہے اور اُنھوں نے ہی سنہ 2003 میں نادرا میں ملازمت کے بارے میں تاج محمد کو بتایا تھا۔ آج وہ بھی تاج محمد کی اس کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ اور تاج محمد کی والدہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے کیونکہ اُن کے بیٹے نے ترقی حاصل کی ہے۔
/urdu/world-53907428
برطانیہ میں شدید بارشوں اور 70 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہواؤں کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیلاب کا پانی گھروں میں گھس گیا ہے۔ محمکہ موسمیات نے کئی علاقوں میں سیلاب کی وارننگ جاری کی ہے۔
برطانیہ میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے برطانیہ میں فرانسس نامی طوفان کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ برطانیہ کے بعض علاقوں میں ہوائیں ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔ محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں اور تیز ہواؤں کی پیشگوئی کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ اس سے ملک میں ٹریفک کا نظام متاثر ہوسکتا ہے۔ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے اڑتی ہوئی اشیا سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں 90 ملی میٹر (تین اعشاریہ پانچ انچ) بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں 70 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں۔ جزیرے آئل آف وائٹ میں منگل کے روز دن گیارہ بجے 74 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں ریکارڈ کی گئیں۔ ویلز کے شہروں ، نیتھ ، وٹلینڈ اور ٹونیریفل کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔ شمالی آئرلینڈ میں شدید بارشوں کی وجہ سے زندگی متاثر ہوئی ہے اور کئی علاقوں میں سڑکیں سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ دریائے شمنا کے پشتے ٹوٹنے کی وجہ سے قریبی سڑک زیر آب آ گئی ہے۔ پولس نے ڈرائیوروں کو سفر کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ برطانیہ میں بارش، سیلاب، اور تیز ہواؤں کی وجہ سے کئی ٹرینیوں کو منسوخ یا ملتوی کر دیا گیا ہے۔ نیٹورک ریل کے مطابق ملک بھر میں تیز ہواؤں کی وجہ سے ٹرینوں کی رفتار کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ڈرائیوروں کو خبردار کیا گیا کہ بارش اور طوفان کی وجہ سے ڈرائیونگ کے لیے حالات غیر موافق ہو سکتے ہیں محکمہ موسمیات کے ایک اہلکار ایلکس ڈیکن نے کہا ہے کہ منگل کے روز برطانیہ کے زیادہ تر علاقے بارش اور تیز ہواؤں کی زد میں رہیں گے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں غیر معمولی تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں درمیانے درجے کا موسمی انتباہ جاری کر رکھا ہے۔ برطانیہ کے وسطی علاقوں خاص طور پر برمنگھم کے آس پاس کے علاقوں میں لوگوں کو سیلاب کے خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔ طوفان فرانسش رواں ماہ کا دوسرا طوفان ہے۔ گذشتہ ہفتے آنے والے طوفان ایلن نے ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو درہم برہم کر دیا تھا۔ محکمہ موسمیات کے اہلکاروں کے مطابق اگست کے مہینے میں اس رفتار سے تیز ہوائیں چلنا غیر معمولی ضرور ہے لیکن ماضی میں اس سے کہیں زیادہ تیز ہوائیں چلنے کا ریکارڈ موجود ہے۔ 1996 اگست میں 87 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں برطانیہ میں اگست کے مہینے میں چلنے والے تیز ہواؤں کا ریکارڈ ہے۔
/urdu/pakistan-52750433
وزیرِ اعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفظ ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک سے نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن لوٹنے والوں کو احساس پروگرام میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کرے گی۔
وزیرِ اعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفظ اور احساس کیش پروگرام کی سربراہ ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک سے نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن لوٹنے والوں کو احساس پروگرام میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کرے گی۔ حال ہی میں وزارت برائے بیرونِ ملک پاکستانی کی جانب سے خلیجی ممالک سے کورونا وائرس کے باعث وطن واپس لوٹنے والے اُن پاکستانیوں کے اعداد و شمار بتائے جن کی نوکریاں ان ممالک میں ختم ہو چکی ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے احساس کیش پروگرام میں ان پاکستانیوں کو بھی شامل کیا جائے گا؟ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ’ایمرجنسی کیش ٹرانسفر میں اور بھی بہت لوگ آ سکتے ہیں۔ ہمیں بہت ساری درخواستیں مختلف وزارتوں سے موصول ہو رہی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کے کوائف کی تصدیق قومی سماجی و معاشی سروے کے ذریعے نہیں ہو سکے گی ان کو ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کا کہا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ سے تصدیق شدہ افراد کو ہی شامل کیا جائے گا جبکہ ان تمام افراد کی تصدیق نادرہ کی مدد سے کی جائے گی۔ اس بارے میں ثانیہ نشتر نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ بِسپ ویسے ہی ایک حکومتی ادارہ ہے جیسے پی ٹی اے اور اوگرا ہے اس بارے میں ثانیہ نشتر نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ بِسپ ویسے ہی ایک حکومتی ادارہ ہے جیسے پی ٹی اے اور اوگرا ہے۔ ثانیہ نے کہا کہ اس وقت وکلا اور اخبار ایسوسیشن کے نمائندے بھی اس کیش پروگرام میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پر فیصلہ کرنا کابینہ کا استحقاق ہے ثانیہ نے کہا کہ ’اگر آپ اس پروگرام کی بات کریں تو وہ ایک دفعہ کی گرانٹ ہے۔ وزیرِ اعظم کے کہنے پر ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو دیا گیا لیکن اس کے علاوہ ہمارا جو موجودہ کیش ٹرانسفر کا کام ہے، جس میں معاشی طور پر سب سے نچلے طبقے کے افراد شامل ہیں وہ جاری رہے گا اور اس بارے میں نئی رجسٹریشن جاری ہے۔‘ ثانیہ نے کہا کہ اس وقت وکلا اور اخبار ایسوسیشن کے نمائندے بھی اس کیش پروگرام میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پر فیصلہ کرنا کابینہ کا استحقاق ہے۔ جس کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو رقم دی جا رہی ہے اور صرف احساس ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر پروگرام کو بھی کورونا وائرس کے تناظر میں دیکھنا ہے۔
/urdu/regional-59266269
انڈیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے، لیکن یہ صورت حال تبدیل ہونے والی ہے۔ ملک کی کوئلے کی صنعت کا زوال اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔
انڈیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے، لیکن یہ صورت حال تبدیل ہونے والی ہے۔ ملک کی کوئلے کی صنعت کا زوال اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ انڈیا نے یہ عزم کیا ہے اور دنیا سے وعدہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک اپنی توانائی کی ضروریات کا 50 فیصد حصہ توانائی حاصل کرنے کے غیر روایتی یا دوبارہ قابل استعمال ذرائع سے پوری کرے گا۔ انڈیا نے سنہ 2070 تک مضر گیسوں کے اخراج کو مکمل طور پر ختم کرنے یا دوسرے الفاظ میں 'نیٹ زیرو' کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئلے کو جلایا جاتا ہے تو اس سے بڑی مقدار میں 'گرین ہاؤس' یا مضر گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج میں انڈیا کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے اور سب سے زیادہ فضائی آلودگی پیدا کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اس کا نمبر تیسرا ہے۔ تاہم فی کس آبادی کے حساب سے یہ اس فہرست میں بہت نیچے ہے۔ کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے بارے میں عالمی دباؤ کے باوجود اکتوبر سنہ 2021 میں انڈیا کی حکومت نے سنہ 2024 تک ملک کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ارب ٹن کوئلہ پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انڈیا میں کوئلے کا استعمال مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا متبادل ذرائع کی تلاش میں بھی ہے اور حال ہی میں گلاسگو میں ہونے والی کاپ 26 کانفرنس میں اس نے سنہ 2030 تک پانچ سو گیگا واٹ بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انڈیا نے اگست سنہ 2021 میں متبادل ذرائع سے سو گیگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دی تھی جو کہ برطانیہ کے مقابلے میں دگنی ہے۔ انڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا ارادہ ہے کہ سنہ 2030 تک وہ اپنی توانائی کی ضروریات کا پچاس فیصد متبادل ذرائع سے حاصل کرنا شروع کر دے گا۔ واضح طور پر انڈیا انتقال توانائی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن ایک ایسا ملک جس کی توانائی کی ضروریات میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بے اندازہ اضافہ ہونے والا ہے وہاں منظم اور منصفانہ انداز میں توانائی کی پیداوار کو متبادل ذرائع پر منتقل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ حکومت نے 'منصفانہ انتقال' کے اصول کی بنیاد پر ایک خاکہ ترتیب دیا ہے لیکن اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔ اب تک سرکار کی طرف سے کوئی اقدام نہیں لیا گیا ہے۔
/urdu/pakistan-60566101
اب ایک بار پھر پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بحث زور پکڑ گئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کو حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ مگر یہ کھیل اتنا سادہ بھی نہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ، ایک تیسری قوت کی بات بھی بار بار کی جاتی ہو۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔ ہم یہ تحریر پہلی مرتبہ یکم مارچ کو شائع کی تھی جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بحث زور پکڑ رہی تھی۔ اب ایک بار پھر پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بحث زور پکڑ رہی ہے اور اس بیچ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے ہی مستعفیٰ ہونے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کی غرض سے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ مگر یہ کھیل اتنا سادہ بھی نہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ، ایک تیسری قوت کی بات بھی بار بار کی جاتی ہو۔ کچھ یہی صورتحال متحدہ قومی موومنٹ کی بھی ہے۔ لیکن گذشتہ تین برس کے دوران حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور زیادہ تر مواقع پر اتحادی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔ اب ملک کی معاشی صورتحال اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ اس وقت بڑھ گیا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں بھی نہ صرف حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ حکومتی کارکردگی سے مایوس آئندہ انتخابات میں خود اپنے ووٹ بینک کو قائل کرنے کے لیے پریشان نظر آتی ہیں۔ اس بارے میں اپوزیشن میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں کے مطابق اس کا فیصلہ ’اگلے مرحلے‘ پر کیا جائے گا اور فی الحال تمام تر توجہ عدم اعتماد کے ووٹ پر ہے۔ البتہ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وہ ’نئے وزیراعظم کی بجائے نئے انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ عوام کو اس حکومت سے نجات مل سکے۔‘ اپوزیشن کے ایک اور رہنما، جو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں، نے یہ اشارہ بھی دیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگر موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ آتا ہے تو وہ اس وقت دیکھا جائے گا: ’ہم نے تو نواز شریف کو بھی کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن دے دیں۔ انھوں نے نہیں دی تو اب دیکھیں قانون میں ہی ترمیم کر دی گئی۔ ترمیم ہونا ایک غلط اقدام تھا۔‘ یہ ایک مشکل سوال ہے اور فلور آف دی ہاؤس پر نمبرز کا کھیل کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ فی الحال اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے اپنے دائروں میں خاصے پراعتماد نظر آتے ہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ابھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات میں شدت اب بھی قائم ہیں۔
/urdu/science-58831948
آکٹوپس کے پورے جسم میں اس کے ذہن کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ آکٹپس ایک شرارتی اور تجسس والا جانور ہے جس کی صلاحیتیں شاید آپ کو حیران کر دیں۔
آکٹوپس کے پورے جسم میں اس کے ذہن کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ آکٹوپس ایک شرارتی اور تجسس میں رہنے والا جانور ہے جس کو حاصل صلاحیتیں شاید آپ کو حیران کر دیں۔ آکٹوپس کا عصبی نظام یعنی نروس سسٹم بہت بڑا ہوتا ہے اور ایک عام آکٹوپس میں تقریباً 500 ملین نیورون یعنی برین سیلز پائے جاتے ہیں۔ مگر کتوں، انسانوں اور دیگر جانوروں کے برعکس ان کے زیادہ دماغی خلیے ان کے دماغ کے نظام کے بجائے اُن کے بازوؤں میں پائے جاتے ہیں۔ آٹھ بازوؤں والے آکٹوپس کے ایک بازو میں اوسطاً دس ہزار نیوروز ہوتے ہیں تاکہ وہ ذائقہ چکھ سکیں اور لمس محسوس کر سکیں۔ گذشتہ 70 سالوں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آکٹوپس کو عام اور سادہ سا کام کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ آکٹوپس کے بینائی کے ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں جس میں وہ کوئی سادہ سا کام یاد رکھتے ہیں اور اس کے لیے پہلے ان کی ایک آنکھ بند کی جاتی ہے اور پھر دوسری۔ یہ ایک طویل تجربہ تھا مگر اس میں آکٹوپس کی پرفارمنس دیگر اور جانوروں سے بہتر رہی جیسا کہ کبوتر وغیرہ۔ مندرجہ بالا لیور والے تجربے میں تین آکٹوپس شامل کیے گئے تھے۔ ان کے نام ایلبرٹ، برٹریم اور چارلس رکھے گئے تھے۔ ایلبرٹ اور برٹریم متواتر کامیاب ہوتے رہے مگر چارلس کبھی کبھی اپنے ہدف کو نہیں پہنچاتا تھا اور ایک موقع پر اُس نے لیور توڑ دیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں یہ اس قدر مہنگا پڑ رہا تھا کہ ایک آکٹوپس کو واپس سمندر میں چھوڑنا پڑ گیا۔ نیوزی لینڈ میں اسی لیب میں ایک آکٹوپس کو لیب کے عملے میں سے ایک مخصوص شخص پسند نہیں تھا۔ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ کچھ آکٹوپس اپنے ٹینک میں خالی بوتلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکتے اور ایک دوسرے کی طرف پھیکنتے بھی دیکھتے گئے ہیں۔ نر آکٹوپس مادہ آکٹوپس کی جانب یہ بازو بڑھاتے ہیں اور اگر وہ تسلیم کر لے تو نر آکٹوپس مادہ کے بازو میں سپرم کا ایک پیکٹ رکھ دیا جاتا ہے۔ جب آکٹوپس کہیں جا رہے ہوتے ہیں تو وہ اکثر اپنے بلوں میں بیٹھے سمندری کیکڑوں کی جانب بازو ہلا کر ہیلو بول رہے ہوتے ہیں۔ پروفیسر سٹیون لنکوئسٹ جو آکٹوپس کے رویے پر تحقیق کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ ایک طریقہ ہے جس سے سمندری کیکڑے ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے خون میں تانبے کے مالیکیول آکسیجن لے کر جاتے ہیں جیسے کہ ہمارے خون میں یہ کام آئرن کے مالیکیول کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا خون لال ہوتا ہے۔ جب کوئی نر آکٹوپس کسی اور آکٹوپس پر حملہ کرنے والا ہوتا ہے وہ تو اپنا رنگ گہرا کر لیتا ہے اور اپنے بازو ایسے پھیلاتا ہے جس سے اس کا حجم زیادہ معلوم ہو۔
/urdu/pakistan-49481601
میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے پیر کو مصطفیٰ کمال کو کراچی میں کچرا اٹھانے کا پراجیکٹ ڈائریکٹر بنایا گیا تھا مگر منگل کو ہی انھیں معطل کر دیا گیا۔
سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کو موجودہ میئر کراچی کی جانب سے کچرا اٹھانے کے لیے پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا مگر 19 گھنٹے کے اندر ہی انھیں معطل بھی کر دیا بات شروع ہوئی پیر کی صبح سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس سے جنھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر کراچی کا کچرا صاف کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ پیر کی دوپہر کو میئر کراچی کے دفتر سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ مصطفیٰ کمال کو 'پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بیانات میں کراچی کو 90 دن میں صاف کرنے کی خواہش' کے پیشِ نظر فوری طور پر اور تاحکمِ ثانی رضاکارانہ طور پر پراجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج یعنی کچرا اٹھانے کا انچارج بنایا جا رہا ہے۔ اس پر سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ معروف گلوکار شہزاد رائے نے اپنے میز کی تصویر پر بیٹھی مکھیوں کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں گندگی کی وجہ سے مکھیاں بہت بڑھ گئی ہیں، اور انھیں امید ہے کہ مصطفیٰ کمال اب کراچی کو صاف کر دکھائیں گے۔ جتنی دیر میں مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس سن کر میئر کراچی نے ان کی تعیناتی کا فیصلہ کیا، اتنی ہی دیر میں شام کے وقت مصطفیٰ کمال نے اپنی تعیناتی کو ایک پریس کانفرنس میں قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) سمیت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے زیرِ انتظام کراچی کے چار اضلاع اور 130 یونین کمیٹیوں کا چارج لینے کے لیے آ رہے ہیں۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کی نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا اور اس کو سیاست میں تبدیل کیا گیا جس سے ’ثابت ہوا کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔‘ میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کی نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا اور اس کو سیاست میں تبدیل کیا گیا جس سے 'ثابت ہوا کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔' منگل کی دوپہر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے یہ چیلنج قبول کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ میئر کراچی وسیم اختر کے دعوے کے برعکس ’مسئلہ اختیارات کا نہیں بلکہ نیت کا ہے۔‘ ایک صارف عباد احمد نے اس جانب توجہ دلائی کہ مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر کے درمیان جاری اس 'ڈرامے' میں اہم بات یہ ہے کہ کراچی کی 21 میں سے 14 قومی نشستیں لینے والی پاکستان تحریکِ انصاف مکمل طور پر منظرنامے سے غائب ہے۔
/urdu/regional-59685794
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جب بات ہوتی ہے تو اکثر تجزیہ کار اس کے ماضی کو اس کے حال سے بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن گذشتہ کئی برسوں میں یونیورسٹی کا ماضی اس کے موجودہ حالات میں پریشانی کا باعث بھی بنا ہے۔
اکثر تجزیہ کار اے ایم یو کے ماضی کو اس کے حال سے بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن گذشتہ کئی برسوں میں یونیورسٹی کا ماضی اس کے حال کی پریشانی کا باعث بنا ہے۔ مئی 2018 میں انڈیا میں ریاستی انتخابات سے پہلے علی گڑھ سے بی جے پی کے ممبر پارلیمان ستیش گوتم نے یونیورسٹی کو ایک خط لکھ کر کہا کہ وہ یہ واضح کریں کہ طلبا یونین ہال میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کیوں لگی ہے۔ وہ یونیورسٹی کورٹ کے ممبر رہ چکے ہیں لیکن اس سے پہلے انھوں نے اس پر کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا۔ لیکن اے ایم یو سے متعلق تنازعات صرف جناح تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بی جے پی سے وابستہ ایک سٹوڈنٹ نے یونیورسٹی کی لائبریری کے باہر ہندو مذہب میں تعلیم کی دیوی سرسوتی کا مجسمہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی میں مندر کی تعمیر کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ہندو طلبا کو رمضان کے دوران ناشتہ نہ کرانے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے آزادی سے کچھ سال پہلے یہاں مسلم لیگ کا زور تھا اور اس لیے تقسیم کے بعد لوگوں میں خوف تھا کہ کیا یہ ادارہ زندہ بچے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ لیکن آزادی کے بعد بھی 'علی گڑھ نے نسلوں کو تیار کیا ہے۔ اور ان لوگوں نے پوری دنیا میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہوگا جہاں اے ایم یو کے سابق طلبا نہیں ہوں گے۔ تعلیمی بیداری اور معاشی خود مختاری میں یہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔' لیکن تاریخ کے علاوہ اے ایم یو کے ایسے دیگر اندرونی مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے ادارے سے جڑی امیدوں پر پورا اترنے میں رکاوٹیں ہیں۔ مثال کے طور پر مبینہ اقربا پروری، علاقائیت اور اساتذہ اور طلبا میں تنوع کی کمی۔ اگرچہ یہ مسئلہ اے ایم یو کے لیے منفرد نہیں ہے لیکن یونیورسٹی سے وابستہ اکثر افراد دبے لفظوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مذہب اور روایت کا مرکب دیگر طریقوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ آہستہ آہستہ حالات بدل رہے ہیں لیکن یونیورسٹی بطور ادارہ طالبات کی نقل و حرکت کے معاملے میں مقابلتاً زیادہ چوکس نظر آتا ہے جسے کئی طلبہ اور ٹیچر نقل و حرکت کی آزادی پر پابندی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر سر سید احمد موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آئیں تو وہ خود اس ادارے کو تسلیم نہیں کر پائیں گے جو انھوں نے خود قائم کیا تھا۔ وجیہہ الدین یونیورسٹی میں اردو کے ایک سابق استاد راشد صدیقی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ جب وہ کسی خوش لباس انسان سے ملتے اور وہ اچھی زبان بولتا، تو وہ اس سے سوال کرتے کہ 'کیا آپ نے علی گڑھ میں پڑھائی کی ہے' اور اگر وہ ہاں کہتا تو راشد صدیقی بہت خوش ہوتے تھے۔
/urdu/science-52702098
پاکستان میں اتوار کی شب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر تک رسائی میں تقریباً دو گھنٹے طویل بندش دیکھنے میں آئی جس پر #Twitterdown نے ٹرینڈ کرنا شروع کر دیا اور صارفین نے سوالات کیے کہ اس کی وجہ کیا ہے اور حکام سے مطالبہ کیا کہ اس کی وضاحت کی جائے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سرکاری نگرانی اور پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہے اور حاضر اور ماضی کی حکومتوں نے مختلف مواقعوں پر اس بارے میں بیانات دیے اور اقدامات اٹھائے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی جب اتوار کی شب دس بجے کے بعد ٹوئٹر پر کچھ صارفین نے تبصرہ کیا کہ انھیں ٹوئٹر تک رسائی حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، تو لوگوں کے ذہنوں میں سوالات بھی ساتھ ساتھ پیدا ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ انھیں جواب دیتے ہوئے ایک اور صارف ہالا ملک نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس کی جانچ کرنے والی ایک ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ دشواری صرف پاکستان میں صارفین کو آ رہی ہے۔ ویب سائٹس کی بندش کی جانچ کرنے والے ادارے کے اس نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹوئٹر تک رسائی میں دشواری آ رہی تھی کچھ دیر بعد انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس تک رسائی میں دشواری اور پابندیوں کا جائزہ لینے والے ادارے نیٹ بلاکس نے اپنی ٹویٹ میں تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ' پاکستان بھر میں ٹوئٹر اور پیری سکوپ تک رسائی حاصل کرنے میں دخل اندازی دیکھی گئی ہے جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔' اس ٹویٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق یہ نظر آیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے مختلف ادارے (آئی ایس پی) ٹوئٹر کی ویب سائٹ اور ایپ تک رسائی نہیں دے پا رہے تھے۔ نیٹ بلاکس کی ٹویٹ پر صارفین نے مزید سوالات کیے کہ کیا یہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر بندش کا ثبوت تو نہیں ہے۔ حال ہی میں فیس بک کے ’اوور سائٹ بورڈ‘ کی رکن منتخب ہونے والی اور ڈیجیٹل رائٹس کی سرگرم کارکن نگہت داد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف آئی ایس پیز کا ڈیٹا دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹوئٹر اور زوم تک رسائی تقریباً ایک ساتھ بند ہوئی، اور ایک ہی وقت پر واپس شروع ہوگئی۔ نگہت داد نے مزید کہا کہ پی ٹی اے اور دیگر سرکاری حکام پر لازم ہے کہ وہ اس بندش کی وضاحت کریں اور شفافیت کے مظاہرہ کرتے ہوئے بتائیں کہ یہ کیا ہوا تھا کیونکہ یہ شکایت صرف پاکستان میں صارفین کو درپیش ہوئی تھی، نہ کہ دنیا بھر میں۔ اسی حوالے سے جب بی بی سی نے اسلام آباد میں آئی ایس پی 'نیا ٹیل' میں ذرائع سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر تک رسائی بند ہے لیکن اس کے لیے ان کے ادارے کے پاس بند کرنے کے لیے کوئی احکامات نہیں موصول ہوئے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں کسی ویب سائٹ کی بندش صرف ' انٹرنیٹ گیٹ وے' سے ہو سکتی ہے، جو کہ پاکستان کا عالمی مواصلاتی نظام سے رابطے کا ذریعہ ہے اور وہ سرکاری نگرانی میں ہے۔
/urdu/world-50204615
امریکی صدر ٹرمپ نے اتوار کو اپنی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ بغدادی نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ اب تک اس آپریشن کے بارے میں کیا کیا معلومات سامنے آئی ہیں؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے امریکی سپیشل فورسز کے شام میں ایک آپریشن کے دوران اپنی جان لے لی۔ اتوار کے روز اپنے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ 'دنیا کے نمبر ایک دہشت گرد رہنما' کی ہلاکت امریکا کی سپیشل فورسز کی جانب سے 'رات کے وقت کیے جانے والے ایک خطرناک اور دلیرانہ حملے کے دوران شمال مشرقی شام میں ہوئی۔' صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ سپیشل فورسز کے ہیلی کاپٹر سنیچر کے روز ایک نامعلوم مقام سے امریکی وقت کے مطابق شام پانچ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق اتوار کی صبح دو بجے) آپریشن کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی اثنا وہ اور دیگر رہنما وائٹ ہاؤس کے سچوئیشن روم میں جمع ہوئے۔ یہ ہیلی کاپٹرز ترکی کی فضائی حدود سے ہوتے ہوئے شام اور روسی فوجوں کے زیر اثر علاقوں کے اوپر سے گزرے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق روس کو حالانکہ اس آپریشن کے حوالے سے نہیں بتایا گیا تھا پھر بھی انھوں نے تعاون کرتے ہوئے فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ 'کمپاؤنڈ کو اس وقت تک مکمل طور پر کلیئر کر لیا گیا تھا اور باقی لوگوں کو یا تو ہلاک کردیا گیا یا پھر انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ 11 بچوں کو اس کمپاؤنڈ سے بحفاظت نکال لیا گیا۔ تین بچوں کو بغدادی اپنے ساتھ اس سرنگ میں لے گئے تھے جہاں ان کی ہلاکت یقینی تھی۔' صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو سرنگ کے آخر میں جا کر دھماکے سے اڑا دیا تھا اس کی لاش پر کچھ ٹیسٹ کیے گئے جس کے بعد 'ان کی شناخت کر لی گئی اور اس بات کا مکمل یقین کر لیا گیا' کہ وہ شخص بغدادی ہی ہے۔ ایک عراقی سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’اتھاوی نے مفید معلومات فراہم کیں جن کی مدد سے عراقی خفیہ اداروں کی ٹیم کو بغدادی کی آمد و رفت اور خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں پتا چلا۔ متعدد خفیہ اداروں سے قریبی روابط کے حامل ایک عراقی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ '’نھوں نے ہمیں وہ تمام جگہیں بتا دیں جہاں وہ شام میں بغدادی سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور ہم نے سی آئی اے سے رابطہ کر کے اس علاقے کی نگرانی کے لیے مزید اہلکار بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’کسی امریکی اہلکار کی اس آپریشن میں ہلاکت نہیں ہوئی جبکہ بغدادی کے جنگجو اور ساتھی ایک بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔‘ بغدادی کی دو بیویاں بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں خواتین نے بھی خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں، تاہم وہ اپنے آپ کو دھماکے سے نہ اڑا سکیں۔
/urdu/world-51452987
امریکہ نے چینی فوج کے چار افسروں کے خلاف اس الزام کے تحت فرد جرم عائد کی ہے کہ انھوں نے ہیکنگ کے ذریعے مبینہ طور پر 14 کروڑ امریکی شہریوں کی ذاتی معلومات کو چرایا تھا۔
امریکہ میں چین کی فوج کے چار افسروں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر کریڈٹ ریٹنگ کپمنی ایکوائی فیکس کی ہیکنگ کر کے چودہ کروڑ سے زیادہ امریکی شہریوں کی ذاتی معلومات چوری کر لی تھیں۔ سنہ 2017 میں ہیکنگ کے اس واقعے میں چودہ کروڑ سے زیادہ امریکی شہریوں کی ذاتی معلومات اور ان کے نام اور پتے چوری ہو گئے تھے۔ امریکی اٹارنی جنرل ولیئم بار نے چار چینی فوجی افسران کے خلاف فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہ یہ انسانی تاریخ میں ڈیٹا چوری کی بڑی وارداتوں میں سے ایک واردات تھی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ہیکر کئی ہفتوں تک کمپنی کے سیکورٹی نیٹ ورک کو توڑ کر اس کے سسٹم میں گھسے رہے اور لوگوں کی ذاتی معلومات اور دستاویزات کو چوری کرنے کے بعد ہی اس سسٹم سے نکلے۔ امریکی اٹارنی جنرل کی طرف سے جاری نو نکاتی فرد جرم میں چینی فوجی افسران پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے نظام اور اس کے ڈیزائن کو بھی چوری کیا۔ جن چینی فوجیوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی ہے وہ لاپتہ ہیں اور اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ کبھی امریکہ میں اپنے خلاف لگائے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکی عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔ کمپنی نے الزام عائد کیا کہ ہیکروں نے اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے بیس ممالک سے 34 سرورز سے اس نظام تک رسائی حاصل کر کے ہیکنگ کی۔ ایکوئئ فیکس نامی کریڈٹ ریٹنگ کمپنی کے پاس 82 کروڑ صارفین اور نو کروڑ کاروباروں کی معلومات ہیں۔ ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ ابھی تک ایسی کو شہادت سامنے نہیں آئی ہے کہ اس چوری شدہ ڈیٹا کو استعمال کر کے کسی فرد کے بینک اکاونٹ یا کریڈٹ کارڈ سے رقم چوری کی گئی ہو۔ ایکوئی فیکس کے چیف ایگزیکٹو مارک بیگر نے ایک بیان میں کہا کہ کمپنی ان تحقیقات کے لیے امریکہ کے وفاقی اداروں کی شکرگزار ہے۔ انھوں نے کہا ’یہ بڑے اطمینان کا باعث ہے کہ وفاقی ادارے سائبر کرائمز اور خاص طور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے کرائمز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘ اس واقعے کے بعد ایکوئی فیکس کو لوگوں کی معلومات کا تحفظ نہ کرپانے کی پاداش میں سزا کے طور پر 700 ملین ڈالر جرمانہ فیڈرل ٹریڈ کمیشن کو ادا کرنا پڑا تھا۔ امریکی اٹارنی جنرل ولیئم بار نے ایک بیان میں کہا: ’یہ امریکی لوگوں کی ذاتی معلومات تک پہنچنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی ۔ آج ہم پی ایل اے کے ہیکروں کو ان مجرمانہ فعل کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور ہم چین کی حکومت کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم انٹرنیٹ پر رازداری کے لبادے کو اتارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسے ہیکروں کی شناخت کو پہنچ سکتے ہیں جو بار بار ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔‘
/urdu/regional-50443819
بی بی سی #100Women کی فہرست میں شامل اچاریہ پرس ایک بم حادثے میں بینائی سے محروم ہو گئیں تھیں تاہم انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی زندگی کے پہیے کو پھر سے گھمایا۔
بی بی سی کے 100 ویمن سیزن میں اس برس سری لنکا سے تعلق رکھنے والی فیشن ڈیزائنر اچاریہ پرس بھی شامل ہیں۔ سنہ 2000 میں ہونے والے ایک بم حادثے میں بینائی سے محروم ہونے کے بعد انھیں اپنی نوکری بھی کھونی پڑی۔ لیکن اس سب کے باوجود اچاریہ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے لیے جینے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ ایک فیشن ڈیزائنر اور لیڈر شپ ٹرینر ہیں۔ مزید جاننے کے لیے دیکھیے ہماری ڈیجیٹل ویڈیو۔
/urdu/regional-51223076
انڈین قانون کے تحت ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں لیکن وہاں کے روایتی معاشرے میں ابھی بھی اس بات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہے کہ ایک خاندان دو مرد یا دو عورتیں مل کر بنائیں۔
’یہ حقیقت ہے کہ یہ وہ خاندان تو بالکل نہیں جس کا میں نے تصور کیا تھا۔ کیونکہ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ خاندان ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے خاندان میں بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک ’مثالی‘ اور روایتی خاندان میں ہوتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جو پارٹنر ہیں وہ مرد اور عورت نہیں ہیں۔ ہم دونوں مرد ہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ بھی جدا نہیں ہے۔‘ ہرش بتاتے ہیں ’لوگوں کو ایسا لگ سکتا ہے کہ ہمارا خاندان عام خاندان کی طرح نہیں ہے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں بھی گھر کے کام بٹے ہوئے ہیں، ذمہ داریاں بٹی ہوئی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا اور فلم دیکھنے جانا پسند ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’بعض اوقعات ایسا ہو سکتا ہے کہ دو سگے بھائی بھی آپس میں کھل کر بات نہیں کر سکتے اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی دوست کے ساتھ اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات شیئر کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آپ ہی بتائیں کس کو خاندان کہنا صحیح ہو گا۔‘ انڈین قانون کے تحت ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں لیکن وہاں کے روایتی معاشرے میں ابھی بھی اس بات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہے کہ ایک خاندان دو مرد یا دو عورتیں مل کر بنائیں لیکن ہرش اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کا خاندان ایک روایتی خاندان نہیں ہے۔ ایک عام انڈین خاندان میں یہ مانا جاتا ہے کہ خاندان چلانے کے لیے سمجھوتے تو کرنے ہی پڑتے ہیں۔ لیکن یہ بات اکثر خواتین کے تناظر میں زیادہ کہی جاتی ہے لیکن کیا ایک ہم جنس جوڑے کے رشتے میں بھی سمجھوتے اور قربانی کی جگہ ہے؟ عام خیال یہ بھی ہے کہ اگر دو لوگوں کا مزاج ایک جیسا ہو تو رشتہ نبھانے میں آسانی ہوتی ہے لیکن ایلیکس اور ہرش کا مزاج ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ ایلیکس کو ہر چیز میں پرفیکشن چاہیے وہیں ہرش کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ بھلے ہی انڈیا میں ہم جنس پرستی قانونی طور پر جرم نہ ہو لیکن سماج میں آج بھی اس کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ کہتے ہیں ’لوگوں کو اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کے زمانے میں خاندان کو جو تصور یا ڈھانچہ تھا اب وہ بدل رہا ہے۔ اور جو تصور آج ہے وہ کل نہیں رہے گا۔‘ ان کا مزید کہنا ہے ’لوگ سمجھتے ہیں کہ ساری تبدیلی شہروں میں آ رہی ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے دیہات میں بھی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں بہت کم لوگ کھل کر سامنے آ پاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل جاری ہے۔‘
/urdu/entertainment-61158527
کمپنی اپنے کاروبار میں اضافے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹوں پر نظریں رکھے ہوئے ہے اور تقریباً دس کروڑ صارفین کو پاس ورڈ شیئرنگ سے روکنے کے راستے تلاش کر رہی ہے، ان میں سے تقریباً تین کروڑ امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔
صارفین میں کمی کی وجہ کمپنی کے روس سے انخلا کے بعد امریکہ اور برطانیہ جیسی بڑی مارکیٹوں میں قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ کمپنی کا اندازہ ہے کہ دس کروڑ صارفین ایک دوسرے کے ساتھ پاس ورڈ شیئر کر کے اصول توڑ رہے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ ریڈ ہیسٹنگ کا کہنا ہے کہ ’جب ہمارے صارفیب تیزی سے بڑھ رہے تھے، یہ معاملہ (اکاؤنٹ شیئرنگ) ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ اور اب ہم اس پر بہت سختی سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ایسا لگتا ہے کہ کمپنی ان چیزوں کی نشاندہی کر رہی ہے جس سے ان کے صارفین کو بڑھانے میں مدد ملے۔ ’انھوں نے ماضی میں بھی پاس ورڈ شیئرنگ کو روکنے کی کوشش کی تھی تاہم انھیں مشکل کا ساما کرنا پڑا تھا۔‘ اپنے شیئر ہولڈرز کو لکھے گئے ایک خط میں نیٹ فلکس کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران اس کے نئے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے، کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ شاید اگلے تین ماہ میں جولائی تک مزید 20 لاکھ صارفین چھوڑ جائیں گے۔ اس سے پہلے آخری مرتبہ کمپنی کے صارفین میں کمی اکتوبر 2011 میں ہوئی تھی۔ تاہم اب بھی دنیا بھر میں اس کے بائیس کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے روس میں اپنی سروس بند کرنے کی وجہ سے اس نے سات لکھ صارفین گنوائے ہیں۔ نیٹ فلکس کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے قیمتیں بڑھائے جانے کے بعد امریکہ اور کینیڈا سے مزید چھ لاکھ صارفین نے سروس کا استعمال بند کر دیا ہے۔ نیٹ فلکس کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے توقعات کے مطابق نتائج حاصل ہو رہے ہیں اور صارفین میں کمی کے باوجود اس سے کمپنی کو معاشی فائدہ ہوگا۔ کمپنی اپنے کاروبار میں اضافے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹوں پر نظریں رکھے ہوئے ہے اور تقریباً دس کروڑ صارفین کو پاس ورڈ شیئرنگ سے روکنے کے راستے تلاش کر رہی ہے، ان میں سے تقریباً تین کروڑ امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔ کمپنی اب اشتہارات اور اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ پاس ورڈ شیئر کرنے والوں سے آمدن حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مارکیٹ ریسرچ فرم کنٹر کی تحقیق کے مطابق برطانیہ میں گھریلو صارفین نے سال کے پہلے تین مہینوں میں پندرھ لاکھ سے زیادہ سٹریمنگ سبسکرپشنز منسوخ کیں، 38 فیصد نے کہا کہ وہ پیسہ بچانا چاہتے ہیں۔ یہ اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ نیٹ فلکس کو بھی شدید مقابلے کا سامنا ہے، کیونکہ ایمازوں اور ایپل سے لے کر ڈزنی جیسی روایتی میڈیا کمپنیاں بھی اپنی آن لائن سٹریمنگ سروسز میں پیسہ لگا رہی ہیں۔ اگرچہ نیٹ فلکس اور دیگر سروسز لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ استعمال ہوئیں تاہم صارفین اب اپنے خریداری کے رویے کے بارے میں دوبارہ سوچ رہے ہیں۔
/urdu/world-52845311
ایک غیر مسلح سیاہ فام افریقی-امریکی شہری کی منیاپولس کے افسر کے ہاتھوں قتل کے خلاف امریکہ بھر کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور لوگ انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک غیر مسلح سیاہ فام افریقی-امریکی شہری کی منیا پولس کے پولیس افسر کے ہاتھوں قتل کے خلاف امریکہ بھر کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ خیال رہے کہ فلوئیڈ کے معاملے نے پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکیوں کی ہلاکتوں کے خلاف غصے کو ایک بار پھر سے بھڑکا دیا ہے۔ جمعے کی شام بھیڑ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہو گئی اور اس نے مسٹر فلوئيڈ کی تصاویر اٹھا رکھی تھی اور وہ 'میں سانس نہیں لے پا رہا' کا نعرہ لگا رہے تھے یہ وہ آخری الفاظ تھے جو فلوئيڈ نے ادا کیے تھے۔ ایسے ہی الفاظ سنہ 2014 میں نیویارک میں ایک دوسرے سیاہ فام ایرک گارنر نے کہے تھے جب پولیس نے انھیں دبوچ رکھا تھا۔ اٹلانٹا کے بعض علاقوں میں لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کے پیش نظر ہنگامی صورت حال نافذ کر دی گئی ہے۔ جب لوگ امریکی میڈیا ہاؤس سی این این کے دفتر کے باہر یکجا ہوئے تو انھوں نے عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی اور ایک پولیس گاڑی کو آگ لگا دی۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث دیگر تین پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی مختلف الزامات کے تحت کارروائی ہو گی، تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ جارج فلوئیڈ کے اہلخانہ اور وکلا کی جانب سے این بی سی نیوز کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس گرفتاری کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر ایسا کرنے میں بہت تاخیر کی گئی ہے۔ جارج کے اہلخانہ کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار پولیس افسر پر تھرڈ ڈگری کے بجائے فرسٹ ڈگری قتل کا مرتکب قرار دیے جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے اس واقعے میں ملوث دیگر پولیس اہلکاروں کی جلد از جلد گرفتاری کا مطالبہ بھی گیا ہے۔ جارج کا واقعہ بھی ایرک فارنر سے ملتا جلتا ہے۔ ان پر 2014 میں پولیس نے تشدد کیا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد پولیس کی بربریت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے اور بلیک لائیوز میٹر کی مہم نے زور پکڑا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ جارج کی ویڈیو دیکھ کر کافی مایوس ہوئے۔ ’وہ چاہتے ہیں کہ انصاف کیا جائے۔‘ ایک سفید فام افسر کو دیکھا جاسکتا ہے جو اپنے گھٹنے سے جارج کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اس موقع پر جارج کہتے ہیں کہ ’پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا‘ اور ’مجھے مت مارو۔‘ شہر کے حکام نے چاروں پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کر لی ہے۔ ان میں سے مقامی میڈیا نے ڈیریک چاؤین پر الزام لگایا ہے کہ وہ جارج کا گلا گھونٹ رہے تھے۔ پولیس کے یونین کا کہنا ہے کہ ملوث اہلکار تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔ ’فیصلے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ ہمیں پوری ویڈیو دیکھنی ہوگی اور طبی معائنہ کار کی رپورٹ کا انتظار کرنا ہوگا۔‘
/urdu/regional-58297100
افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا 'سلطنتوں کے قبرستان' کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے جیتنے کی کوشش میں کیوں ناکام ہوئیں؟
افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟ 19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔ اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ ایسی دلیری ہے جس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور اس سے قبل کابل پر حملہ کرنے والی آخری تین بڑی سلطنتیں اپنی کوشش میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ کئی مجاہدین تنظیموں نے سوویت یونین کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں مجاہدین نے امریکہ، پاکستان، چین، ایران اور سعودی عرب سے پیسے اور اسلحے حاصل کیے۔ اسی دوران اس وقت کے سوویت لیڈر میخائل گورباچوف نے محسوس کیا کہ روسی معیشت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ جنگ جاری نہیں رکھ سکتے اور انھوں نے سنہ 1988 میں اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس انخلا سے سوویت یونین کی تصویر کبھی اچھی نہ ہوسکی۔ افغانستان سوویت یونین کے لیے 'ویت نام جنگ' بن گیا۔ یہ ایک انتہائی مہنگی اور شرمناک جنگ تھی جس میں سوویت یونین اپنی تمام تر طاقت لگا دینے کے باوجود مقامی گوریلا جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوا۔ اسبی کہتے ہیں کہ 'سوویت یونین نے افغانستان میں جائز حکومت کا اس وقت دعویٰ کیا جب سوویت نظام میں اس کی حکومت اور اس کی فوج کے درمیان سنگین اور بنیادی تنازعات تھے۔ 'یہ سوویت یونین کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک تھی۔' اس کے بعد سوویت یونین ٹوٹنے لگا اور تقسیم ہو گیا۔ افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کی ناکام کوششوں کے بعد امریکہ نے 9/11 کے حملوں کے بعد افغانستان میں جمہوریت کی حمایت اور القاعدہ کے خاتمے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ اور اگر عالمی برادری کے لیے طالبان سے نمٹنا ناممکن ہو جاتا ہے تو یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ کیا کوئی دوسری طاقت دنیا کی سلطنتوں کا قبرستان کہے جانے والے افغانستان پر حملہ کرنے کا خطرہ مول لیتی ہے؟
/urdu/science-55799177
دوسرے سائنس دانوں کی طرح، کمپنی بھی اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا وائرس کی نئی اقسام کے لیے ویکسین کو ایک بہتر تحفظ قرار دینے کے لیے دوبارہ تیار کرنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔
امریکی دوا ساز کمپنی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موڈرنا کی کووڈ ویکسین برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے وبائی کورونا وائرس کی نئی اور زیادہ متعدی اقسام کے خلاف بھی کام کرتی ہے۔ کورونا وائرس کی نئی اور متعدی اقسام پر لیبارٹری میں کیے جانے والے تجزیوں اور تجربوں سے بھی بات سامنے آئی ہے کہ موڈرنا ویکسین میں موجود کورونا وائرس کی اینٹی باڈیز نئی اقسام کو پہچان سکتی ہیں اور ان کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ کورونا وائرس کی نئی اقسام تیزی سے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہیں۔ کورونا وائرس کی نئی اقسام کی وجہ اس وائرس میں تبدیلیاں آئی ہیں یا اس نے اپنی خصوصیات تبدیل کی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ عالمی وبا کی شکل اختیار کرنے والے ابتدائی کورونا وائرس کی اصل حالت سے کہیں زیادہ آسانی اور تیزی سے انسانی خلیوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں تیار کی جانے والی موجودہ کورونا ویکسینز ابتدائی وائرس کے اعتبار سے تیار کی گئیں ہیں، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انھیں ابھی بھی نئی اقسام کے خلاف کام کرنا چاہیے حالانکہ شاید ایسا نہیں ہے۔ تاہم امریکی کمپنی فائز کی تیار کردہ ویکسین کے بارے میں پہلے سے کچھ ایسے نتائج حاصل ہوئے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ برطانیہ میں موجود کورونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف کام کرتی ہے۔ تاہم اس کے نتائج کا تفضیلی جائزہ لینا ابھی باقی ہے لیکن اس تجزیہ سے اس بات کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ اس ویکیسن سے وائرس کے خلاف پیدا ہونی والی قوت مدافعت وائرس کی نئی اقسام کو پہچان کر اس کے خلاف کام کرتی ہے۔ ان افراد کے خون کے نمونوں کو جب وائرس کی نئی اور تبدیل شدہ اقسام کے سامنے لایا گیا تاکہ یہ وائرس کو بےاثر کرنے کے لیے اینٹی باڈیز تیار کر لے تو اس کے نتائج مثبت رہے البتہ یہ جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کی سامنے آنی والی قسم کے خلاف اتنی مؤثر نہیں تھی جتنی برطانیہ کی قسم کے خلاف ہے۔ دوا ساز کمپنی موڈرنا کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف تحفظ زیادہ جلدی ختم ہوسکتا ہے۔ موڈرنا اب اس بات کا تجربہ کر رہی ہے کہ اس کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک لگانا شاید جنوبی افریقہ میں سامنے آنی والی کورونا وائرس کے قسم کے خلاف فائدہ مند ثابت ہو۔ دوسرے سائنس دانوں کی طرح، کمپنی بھی اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا وائرس کی نئی اقسام کے لیے ویکسین کو ایک بہتر تحفظ قرار دینے کے لیے دوبارہ تیار کرنا فائدہ مند ثابت ہوگا۔ وائرس ویکسین تیار کرنے والی دوا ساز کمپنی موڈرنا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سٹیفن بینسل کا کہنا تھا کہ کمپنی کا خیال ہے کہ 'وائرس کے ارتقاء کے ساتھ ہی اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔'
/urdu/science-52286123
ایک تحقیق کے مطابق یورپ میں زیتون کے درختوں کو ایک انتہائی خطرناک جرثومے سے خطرہ ہے جو معیشت کو اربوں یورو کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق پیتھوجن یا مرض پھیلانے والا جرثومہ یورپ میں زیتون کے درختوں کو تباہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت کو 20 ارب یورو کے نقصان کا خطرہ ہے۔ انھوں نے زائیلیلا فاسٹڈیوسا نامی پیتھوجن کے مستقبل میں انتہائی بدترین اثرات کے متعلق ایک ماڈل تشکیل دیا ہے۔ اس جرثومے نے اٹلی میں بڑے پیمانے پر زیتون کے درخت تباہ کر دیے ہیں۔ یہ بیکٹیریا کیڑوں کے ذریعے پھیلتا ہے اور اب سپین اور یونان میں زیتون کی فصلوں کو اس سے سے ممکنہ نقصان کا خطرہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ’اس بیماری کی وجہ سے زیتون کا تیل مہنگا ہو سکتا ہے جس کا بوجھ بالآخر صارفین کو اٹھانا پڑے گا۔‘ زائیلیلا کو ایک انتہائی خطرناک جرثومہ سمجھا جا رہا ہے، جو پودوں کے لیے دنیا میں کہیں بھی شدید خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ زیتون کے علاوہ چیری، بادام اور آلوبخارے کے درختوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اٹلی میں اس بیماری کے پھیلنے کے اثرات بہت نقصان دہ نظر آئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس جرثومے کے سنہ 2013 میں پہلی بار سامنے آنے کے بعد سے فصلوں کی پیداوار میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس بیماری سے اس وقت نمٹنے کے لیے متاثرہ درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور پودوں کے مواد کو لانے لے جانے میں کمی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر سپین میں یہ انفیکشن مزید پھیل گیا تو زیادہ تر درخت متاثر یعنی مر جائیں گے، جس سے اگلے 50 برسوں کے عرصے تک 17 ارب یورو تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس بیماری سے اٹلی پانچ ارب یورو سے زیادہ جبکہ یونان میں دو ارب یورو کے قریب نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم جو بھی ہو، اس تحقیق کے مصنفین کو یقین ہے کہ اس کا اثر صارفین پر پڑے گا۔ محققین کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے تجزیے میں معاشی نقصان پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن بیکٹریا سے بڑے پیمانے پر ہونے والے سیاحتی اور ثقافتی نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تحقیق کار سمجھتے ہیں کہ اس جرثومے کے حتمی خاتمے کے لیے آخر کار ان درختوں کی ضرورت ہو گی جو اس سے پیدا ہونے والی بیماری کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کیڑوں کی نسل کو کم کرنے کی پائیدار حکمتِ عملی اس بیماری پر کنٹرول کرنے کا ایک ستون ہے اور اس حوالے سے بہار میں جڑی بوٹیوں کو مکینیکل طریقے سے اکھاڑنا ایک نہایت کار آمد عمل ہے۔ اگرچہ زیتون کے درخت کی دو قسموں میں اس بیماری کے خلاف کچھ مزاحمت دیکھی گئی ہے، تاہم محققین کا خیال ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
/urdu/entertainment-60458893
بھوبن کا تعلق بیر بھوم ضلع ہے اور وہ وہاں مونگ پھلی بیچا کرتے تھے۔ ان کا ’کچا بادام‘ گانا اتنا مقبول ہوا کہ اس گانے پر بنی ہر دوسری ویڈیو انسٹاگرام کی ریلز میں اب بھی نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا راتوں رات کسی کی زندگی کیسے بدل سکتا ہے، اس کی حالیہ مثال انڈیا میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بھوبن بدایاکار ہیں۔ بھوبن کا تعلق انڈیا میں جس علاقے سے ہے وہاں کچی مونگ پھلی کو ’کچا بادام‘ کہا جاتا ہے۔ اس گانے پر نہ صرف انڈیا والے بلکہ غیر ملکی بھی ڈانس کر رہے ہیں۔ بالی وڈ کی کئی مشہور شخصیات نے بھی ’کچا بادام‘ گانے پر انسٹا ریلز بنائی ہیں۔ بھوبن کا کہنا ہے کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس گانے کو اتنا پسند کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن یہ بھگوان کے فضل اور لوگوں کی محبت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ وہ اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے پہلی بار ان کے گانے کی ویڈیو شوٹ کی اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔ بھوبن کا کہنا ہے ’میں نہیں جانتا کہ وہ شخص کون تھا لیکن میں اس کے لیے دعاگو ہوں۔‘ بھوبن نے ٹیلی گراف کو اپنے پس منظر اور خاندان کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں بیر بھوم کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا خاندان اس گانے کی کامیابی سے بہت خوش ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میں جب بھی گھر سے باہر جاتا ہوں (جیسے میں ابھی پروگرام کے لیے کولکتہ آیا ہوں) میری بیوی بہت پریشان ہو جاتی ہے۔ میرا بیٹا بھی پریشان رہتا ہے کہ میں سفر کیسے کروں گا اور کہاں رہوں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر خدا نے آپ کو راستہ دکھایا ہے تو وہ آپ کی رہنمائی بھی کرے گا۔‘ کچی مونگ پھلیاں بیچنے کے متعلق بھوبن کہتے ہیں ’کچے بادام (مونگ پھلی) بیچنے کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ میرے پاس اسے بھوننے کا وقت نہیں ہوتا تھا اور ویسے بھی کچی مونگ پھلی زیادہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے اور یہ ہمارے بالوں اور نظامِ ہضم کے لیے بھی اچھی غذا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں بھنی ہوئی مونگ پھلی لذیذ ہوتی ہے لیکن کچی مونگ پھلی صحت کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ بھوبن نہ صرف پیسوں بلکہ پرانے اور ناکارہ موبائل فونز اور دیگر کاٹھ کباڑ کے عوض بھی مونگ پھلی بیچتے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں صرف پیسوں کے عوض مونگ پھلی بیچتا تو آمدنی کم ہوتی تھی۔ بھوبن بتاتے ہیں کہ مونگ پھلی بیچتے ہوئے وہ بھجن اور روحانی کلام بھی گاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میری زندگی میں جو تبدیلی آئی ہے وہ میرے تصور سے بہت زیادہ ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ لوگ مجھے اتنا پسند کیوں کر رہے ہیں۔‘ بھوبن بتاتے ہیں کہ حکومت اور ریاستی پولیس نے بھی ان کی بہت مدد کی ہے اور سنیما اور فلم کی دنیا سے لوگوں نے بھی اُن سے بات کی ہے۔
/urdu/pakistan-61581069
پاکستان تحریکِ انصاف کے ’آزادی مارچ‘ میں پکڑ دھکڑ، پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنان اور لیڈران میں آنکھ مچولی اور فیک نیوز کی بھرمار کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن ساتھ ایک اور سلسلہ طعنوں اور طنزوں کا بھی چل رہا ہے جس میں بظاہر برسرِ اقتدار پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈران زیادہ سرگرم نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ’آزادی مارچ‘ میں پکڑ دھکڑ، پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنان اور لیڈران میں آنکھ مچولی اور فیک نیوز کی بھرمار کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن ساتھ ایک اور سلسلہ طعنوں اور طنزوں کا بھی چل رہا ہے جس میں بظاہر برسرِ اقتدار پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈران زیادہ سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ بلاشبہ عمران خان کی ایک بہت بڑی ’فین فولوئنگ‘ ہے اور پی ٹی آئی کے جلسوں میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شرکت بھی کرتی ہے۔ لیکن پھر جب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے کارکنوں کو کال دی کہ جب وہ انھیں اسلام آباد بلائیں تو وہ چاہتے ہیں کہ 20 لاکھ افراد دارالحکومت پہنچیں۔ اس کے بعد جب تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ 25 مئی کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا تو لوگوں کی تعداد پر پھر بحث شروع ہو گئی۔ یہاں تک کے حکومت بھی مخمصے میں پڑ گئی اور کئی دن یہی سوچتی رہی کہ انھیں روکا جائے یا نہ روکا جائے۔ بالآخر 24 مئی کو اتحادیوں کی حکومت نے لانگ مارچ کو اسلام آباد سے پہلے ہی روکنے کا فیصلہ کیا اور پکڑ دھکڑ اور مار کٹائی کا سلسلہ شروع ہوگیا جو اب تک جاری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طنز اور تمسخر کی تیر بھی چل رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں طنزاً کہا کہ ’تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فواد چوہدری اس وقت ڈیڑھ سے دو سو افراد کے عوامی سیلاب کے ساتھ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں جبکہ 2 سے 3 سو افراد پر مشتمل عوامی انقلاب بتی چوک لاہور کے مقام پر پولیس کیساتھ آنکھ مچولی میں مصروف ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’عمران نیازی پانچ سے چھ ہزار کے تاریخ کے سب سے بڑے جلوس کیساتھ صوابی انٹرچینج پر 20 لاکھ لوگوں کا انتظار کر رہا ہے۔‘ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا ’عوام پوچھتی ہے عمران نیازی تین بج چکے ہیں۔ کہاں ہے بیس لاکھ لوگوں کا انقلاب جو ڈی چوک آنا تھا۔‘ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ ’کدھر گئے 20 لاکھ افراد؟ پنجاب بھر سے کُل ملا کر 500 افراد نہیں نکلے۔ لگتا ہے خیبر پختونخوا نے بھی فتنہ خان کی کال پر کان نہیں دھرے۔ اچھی بات ہے کہ عوام نے فتنے کو نا صرف پہچان لیا بلکہ اسکا راستہ روک دیا۔ کارکن تپتی دھوپ میں سڑکوں پر خوار اور موصوف ہیلی کاپٹر پر سوار! بُری بات!‘ اسی طرح سابق وزیر حماد اظہر بھی متواتر پیعامات میں دعثے کر رہے ہیں کہ انھیں گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے اور ان کے لوگوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔
/urdu/world-61372892
جان (فرضی نام) ایک ایسی صنعت کا حصہ ہیں جس کا فلپائن کے نئے صدر کو چننے میں کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔ ان کا مقصد اپنے گاہکوں کے لیے حمایت اکٹھی کرنا ہے چاہے اس دوران وہ جھوٹی خبریں ہی کیوں نہ پھیلا رہے ہوں۔
جان (فرضی نام) ایک ایسی صنعت کا حصہ ہیں جس کا ملک کے نئے صدر کو چننے میں کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔ جان جعلی خبروں کے ایکوسسٹم کا حصہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے تقریباً 30 'ٹرولز' کام کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے گاہکوں کے لیے حمایت اکٹھی کرنا ہے چاہے اس دوران وہ جھوٹی خبریں ہی کیوں نہ پھیلا رہے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر اس طرز کا کام کئی برسوں سے کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار وہ مخالفین کے بارے میں ایسی خفیہ معلومات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ 'ہم نے ایک مشہور سیاستدان کا فون نمبر حاصل کیا اور اسے فوٹو شاپ کر کے اس سے ایک پیغام بھیجا جس میں ان کا روپ دھار کر یہ کہا گیا کہ مجھے ایک داشتہ کی ضرورت ہے۔ آخرکار اس سے میرے کلائنٹ کو فائدہ ہوا۔' ہارورڈ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ سے متعلق تحقیق کرنے والے جانیتھن کارپس اونگ کہتے ہیں کہ 'جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ پیلٹ فارمز، فیکٹ چیکرز اور محققین کے درمیان ایک بلی اور چوہے کی لڑائی جیسی ہے جو اس قسم کی جعلی خبریں پھیلانے والوں کو بے نقاب کر رہے ہیں اور یہ آپریٹرز خفیہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔' اس رپورٹ میں وہ ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جعلی خبریں پھیلانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جس میں تشہیر کرنے والے اور رائے عامہ سے متعلق حکمت عملی بنانے والے افراد شامل ہیں جو انفلوئنسرز اور جعلی اکاؤنٹ بنانے والوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں ایک تحقیق شائع کی گئی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس وقت صدارتی دوڑ میں سب سے آگے فرڈیننڈ ’بونگ بونگ‘ مارکوس جونیئر کو فیک نیوز سے سب سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے جبکہ ان کی مخالف لینی روبریدو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ سیمسن کہتی ہیں کہ ’ہم نے سنہ 2021 میں الیکشن سے متعلق جھوٹی خبروں کے بارے میں تحقیق کی اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس میں سے زیادہ تر بونگ بونگ مارکوس کی حمایت میں کی گئی تھی۔ اس میں ان کے خاندان کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ حکومتی خزانے سے دولت چوری نہیں کرتے تھے اور ان کے والد کا کبھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔‘ جان، جو خود کو ٹرول کہتے ہیں، بتاتے ہیں کہ انھیں ان کے ایک دوست کی جانب سے ایک صدارتی امیدوار کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے منع کر دیا۔ بی بی سی کی جانب سے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی۔
/urdu/world-55447922
روس کے ایک تاریخ داں جنہوں نے اپنی ایک شاگرد اور ساتھی کو سینٹ پیٹر برگز میں گولی مار کر ہلاک کرنے اور پھر اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا ان کو ساڑھے بارہ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
روس کے ایک تاریخ داں جنہوں نے اپنی ایک شاگرد اور ساتھی کو سینٹ پیٹر برگز میں گولی مار کر ہلاک کرنے اور پھر اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا ان کو ساڑھے بارہ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اولیگا سوکولوف جن کی عمر 63 برس کی ہے اور جو نپیولین کی جنگی مہمات کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں انھوں نے 24 سالہ انستاسیا یشچنکو کو قتل کرنے کے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ اس سال نومبر میں وہ نشے میں دھت ایک دریا میں پائے گئے تھے جب کہ ان کے پشتی بیگ میں ایک لڑکی کا کٹا ہوا بازو ملا تھا۔ روس میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ قتل کی یہ واردات اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک میں خواتین پرگھریلو تشدد اور ان کی حراساں کیے جانے والے واقعات کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آن لائن پر ایک درخواست جس پر ساڑھے سات ہزار سے زیادہ لوگ دستخط کر چکے ہیں اس میں سینٹ پیٹرز سٹیٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ سوکولوف کے خلاف اس وادرات سے قبل ملنے والی تمام شکایت کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ سوکولوف کو یونیورسٹی سے اب برطرف کر دیا گیا ہے اور فرانس میں ایک تدریسی عہدے سے معطل کر دیا گیا ہے۔ عدالت میں اپنا اعترافی بیان درج کراتے ہوئے سوکولوف نے وہ ساری تفصیل بیان کی کہ کسی طرح انھوں نے پہلے یشچنکو کو تین گولیاں مار کے ہلاک کیا اور پھر ایک چھری اور آری سے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ ان کے پشتی بیگ سے ایک سٹن پستول بھی برآمد ہوا۔ پولیس نے سوکولوف کے فلیٹ کے پاس سے گزرنے والے دریا میں سے مقتولہ کی لاش کے کچھ اور حصے برآمد کیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے بعد سوکولوف نپولین کا حلیہ بنا کر سر عام اپنی زندگی بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ سوکولوف تین سال سے اپنی شاگر اور ساتھی یشچنکو کے ساتھ رہ رہے تھے۔ انھوں اس دوران کئی مرتبہ نپیولین کی زندگی پر ڈرامے کیے جس میں انھوں نے نپیولین کا کردار خود ادا کیا اور یشچنکو نے بھی ان میں حصہ لیا۔ یشچنکو جنوبی روس کے ایک دور افتادہ علاقے سے سینٹ پیٹر برگ آئی تھیں اور اپنی موت کے وقف وہ پوسٹ گریجویٹ کی طالب علم تھیں۔ ان طالب علموں نے مزید بتایا کہ سکولوف یشچنکو کو جوزفین کے نام سے پکارتے تھے جو نپولین کی ساتھی تھیں اور یشچنکو سے کہتے تھے کہ وہ انھیں سر کہہ کر مخاطب کریں۔ عدالت میں انھوں نے بتایا کہ ان دونوں کے درمیان جھگڑا بڑھ گیا اور یشچنکو نے ان پر چھری سے حملہ کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے یشچنکو پر گولی چلا دی۔ یشچنکو کے والدین نے سوکولوف کے بیان کو رد کر دیا ہے۔
/urdu/pakistan-60211543
متحدہ اپوزیشن قومی اسمبلی میں کوئی چمتکار دکھا سکتی ہے یا نہیں یہ سوال میڈیا پر ہر روز دہرایا جاتا ہے تاہم اُس کے لیے نواز شریف کو اپنی جماعت یا شاید شہباز شریف پر اعتماد کرنا ہو گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔ ن لیگ کی ساری سیاست مقدمات کے گرد ہی گھوم رہی ہے: پڑھیے عاصمہ شیرازی کا کالم
آخری تبدیلی یا ’جرنیلی سڑک کا انقلاب‘ جنرل کیانی کے دور میں آیا۔ اُس وقت کی تحریک انصاف یعنی ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانے کے واسطے پیپلز پارٹی کے ہی وکیل رہنما چوہدری اعتزاز احسن کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا لانگ مارچ وہ واحد لانگ مارچ تھا جو مقتدر حلقوں کی مبینہ آشیرباد کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا۔ شاید سابقہ سیاسی جماعتوں نے وقت کی چکی میں پس کر کچھ سیکھ لیا تھا یا پھر خان صاحب کے ہاتھ ایمپائر تک نہ پہنچ سکے اور نہ ہی 126 دن کا دھرنا، جلاؤ، گھیراؤ کام آ سکے اور یوں ڈی چوک پر ٹینٹ لپیٹنا پڑے۔ متحدہ اپوزیشن قومی اسمبلی میں کوئی چمتکار دکھا سکتی ہے یا نہیں یہ سوال میڈیا پر ہر روز دہرایا جاتا ہے تاہم اُس کے لیے نواز شریف کو اپنی جماعت یا شاید شہباز شریف پر اعتماد کرنا ہو گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔ ن لیگ کی ساری سیاست مقدمات کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ ابھی سینیٹ میں اکثریت اقلیت میں بدل گئی جبکہ جن کے سر پہلے الزام تھا اب اُن کا فیض بھی نہیں پھر یہ اعجاز کس کا ہے کہ دن دیہاڑے اے این پی کے حاضر سینیٹر بھرے ایوان میں لاپتہ ہو جاتے ہیں، جبکہ ایک نہیں سات سینٹرز سرے سے اتنے اہم اجلاس میں آتے ہی نہیں۔ سینیٹ کے دلاور خان گروپ کے سینٹرز بیٹھتے تو اپوزیشن نشستوں پر ہیں مگر ان کے دل مسلسل حکومت کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بیچ سینٹرز کا یہ ٹولہ اپوزیشن پر بوجھ ہے یا اپوزیشن کا خوف ان کے وزن پر ہے یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کا دعویٰ کرنے والی حزب اختلاف قومی اسمبلی کی اقلیت کو اکثریت میں کیسے بدلے گی اس بارے میں سیاسی پنڈت بہرحال خاموش ہیں۔ ن لیگ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود آشیرباد کی منتظر ہے۔ میاں صاحب ’اشاروں پر تبدیلی کا کیا فائدہ‘ کے بظاہر اصولی مؤقف جبکہ اندرونی طور پر مریم نواز کی سیاست کی فال نکلوانے پر بضد ہیں۔ جماعت صرف خاندانی لڑائی میں الجھ رہی ہے یا اس بات کی منتظر ہے کہ اہم تعیناتیوں کا مرحلہ خود عمران خان ہی کریں اور بھگتیں۔۔ 27 فروری بھی گزر جائے گی اور 23 مارچ بھی، اس کے بعد بھی یہی نعرے ہوں گے اور یہی سیٹ اپ، اور رہ جائیں گے وہ عوام جو حکومت کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ لہذا اپوزیشن کو اپنی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی عوام کا اعتماد کھو دیں اور ان کے دن بھی گنے جا چُکے ہوں۔