url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/urdu/pakistan-60369451
جب نشتر کو نئے حکومت کی جانب سے وزارت اور سفارت کی پیشکش ہوئی تو انھوں نے کہا ’جانے کیوں یہ لوگ ہر شخص کو بکاؤ مال سمجھ لیتے ہیں۔‘ پیشکش لانے والا اٹھ کر گیا تو انھوں نے یہ شعر پڑھا: بس اتنی سی خطا پر رہبری چھینی گئی ہم سے کہ ہم سے قافلے منزل پر لٹوائے نہیں جاتے۔
یہ پس منظر تھا جس میں حکومت نے انھیں خاموش کرانے کے لیے وزارت اور سفارت کی پیشکش کی۔ سردار نشتر نے محمد علی بوگرا کے پیغام بر کی بات اطمینان کے ساتھ سُنی اور ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: 'شکریہ۔ میں وزارت کا بھوکا ہوں نہ سفارت کا۔ عیش و تنعم کی زندگی میں نے کبھی بسر کی ہی نہیں۔ لہٰذا وزارت اور سفارت میسر نہ آئیں تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ ان صاحب کے اٹھتے ہی نشتر نے کہا: ’جانے کیوں یہ لوگ ہر شخص کو بکاؤ مال سمجھ لیتے ہیں۔‘ وہ ٹیلی فون کے استعمال میں بھی بڑے محتاط تھے۔ آغا شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ان کی میز پر دو ٹیلی فون ہوا کرتے تھے۔ ایک پارٹی کا اور دوسرا ذاتی۔ ایک بار ان کے صاحبزادے جمیل نشتر کو کہیں فون کرنا تھا۔ جو فون سامنے آیا ، انھوں نے اسی کا ڈائل گھما دیا۔ نشتر نے فوری طور پر انھیں روک دیا اور بتایا کہ یہ فون مسلم لیگ کا ہے۔ جمیل کہنے لگے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیوں کہ لوکل کال پر تو کوئی خرچ نہیں آتا۔ اس جواب پر انھوں نے کمال کی بات کہی: 'غلط استعمال کی عادت تو پڑتی ہے۔' سردار نشتر نے یہ واقعہ اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'ایک دن قائد اعظم نے فرمایا کہ وائسرائے نے ان کے ساتھ پاکستان کے پرچم کے متعلق بحث چھیڑی اور پوچھا کہ بھارتی نمائندے تو اس بات پر رضا مند ہیں کہ باقی نو آبادیوں کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی یونین جیک کے لیے مخصوص کر دیں۔ وائسرائے نے قائد اعظم سے پاکستان کے رویے سے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے رفقائے کار سے مشورہ کر کے مطلع کریں گے۔' نشتر کے مطابق بانی پاکستان نے اس سلسلے میں ان سے مشورہ کیا تو انھوں کہا کہ آزادی کے پرچم میں غلامی کی یادگار کو کیسے جگہ دی جا سکتی ہے؟ اس طرح فیصلہ ہو گیا کہ پاکستان کے پرچم میں یونین جیک کو جگہ نہیں دی جائے گی۔ 1945-46 کے انتخابات میں سرحد سے مسلم لیگ کے دو امیدوار تھے یعنی سردار عبدالرب نشتر اور خان عبدالقیوم خان۔ ان انتخابات میں ہر ووٹر کو دو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔ اس موقع پر طے پایا تھا کہ ہر ووٹر ایک ووٹ سردار نشتر کو اور دوسرا خان قیوم کو دے گا۔ پولنگ کے دوران کسی نے اطلاع دی کہ خان قیوم کے ووٹر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دونوں ووٹ انھیں کو ڈال رہے ہیں، کیا ہم بھی ایسا ہی کر لیں؟ سردار نشتر نے سختی سے منع کر دیا۔
/urdu/pakistan-57065351
شیر محمد مری اور نواب نواب خیر بخش مری کے بقول اگر آزادی مل جائے اور لوگوں کے لیے کچھ نہ ہو تو یہ بےمعنی سی چیز ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شیر محمد کو ایسے نوجوانوں کی توجہ حاصل ہوئی جنھیں بلوچستان سے انس یا ربط تھا۔ سیاست دان تو بہت تھے لیکن یہ دونوں نوجوانوں کے لیے ’آئیکون‘ کا درجہ رکھتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ شیر محمد کو ایف سی آر کی جس دفعہ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اُس میں جرم ثابت کیے بغیر ملزم کو تین سال کے لیے نظربند رکھا جا سکتا تھا۔ تین سال پورے ہونے کے بعد ملزم سے نیک چلنی اور تاج برطانیہ کے خلاف تقریر نہ کرنے کی ضمانت لی جاتی تھی اور اگر یہ یقین دہانی نہ دی جاتی تو ملزم کو تین سال کے لیے مزید پابند سلاسل کر دیا جاتا۔ شیر محمد مری اور نواب خیر بخش مری کے بقول اگر آزادی مل جائے اور لوگوں کے لیے کچھ نہ ہو تو یہ بےمعنی سی چیز ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شیر محمد کو ایسے نوجوانوں کی توجہ حاصل ہوئی جنھیں بلوچستان سے اُنس یا ربط تھا۔ سیاست دان تو بہت تھے، مثلاً غوث بخش بزنجو اور عطااللہ مینگل لیکن نواب خیر بخش اور شیر محمد مری نوجوانوں کے لیے لیڈر کا درجہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی کا کہنا ہے کہ شیر محمد مری اگر مری علاقے میں نہ ہوتے تو شاید خیر بخش مری کا نام آگے نہیں بڑھتا۔ ان کے مطابق خیر بخش مری کو آگے لانے اور مسلح مزاحمت کی جانب راغب کرنے میں شیر محمد مری کا بڑا کردار تھا۔ اسی سال 10 فروری کو سکیورٹی فورسز نے اسلام آباد میں واقع عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بلوچ مزاحمت کاروں کے لیے بھیجا گیا تھا، اس کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں 30 دنوں کے لیے صدارتی نظام نافذ کیا گیا نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگایا گیا، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل اور نواب خیربخش مری سمیت شیر محمد مری بھی گرفتار کر لیے گئے اس مقدمے کو حیدرآباد سازش کیس کا نام دیا ہے۔ بلوچستان میں شیر محمد خان مری نے بابو یا بابو شیر محمد کے نام سے شہرت حاصل کی بعد میں ان کا نام جنرل شیروف پڑ گیا، سنہ 1978 میں الفتح جریدے کے لیے وہاب صدیقی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ بلوچ ثقافت میں کبھی پورے نام سے مخاطب نہیں کیا جاتا صرف خیر بخش مری انھیں شیر محمد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور باقی تر لوگ ’شیرو‘ کہتے ہیں بلکہ وہ دستخط میں بھی شیرو لکھتے ہیں۔ افغانستان میں قیام کے دوران نواب خیر بخش مری اور شیر محمد مری میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ بلوچستان کی نامور شخصیات کے مصنف اختر علی خان بلوچ لکھتے ہیں وہ دوست اپنے نواب اور قبیلے کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے لیکن افسوس کہ افغانستان کے قیام کے دوران وہ اپنے نواب خیربخش مری سے خفا ہو گئے اور اپنی راہ الگ کر لی۔‘
/urdu/science-58717242
بی بی سی نے چند ایسی خواتین سے بات کی ہے جن کو نوجوانی میں ہی اس بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔
لوسی کے خیال میں کینسر کو بدنما داغ سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس بارے میں بات نہیں کرتے جب لوسی کو اپنی چھاتی میں گلٹی کا پتا چلا تو ان کے دماغ میں کینسر کا خیال بالکل نہیں آیا۔ یہ محض ’اتفاق‘ تھا کہ انھیں اس بارے میں پتا چلا ورنہ انھیں چیک کرنے کی عادت نہیں تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں سوچتی تھی کہ میں 50 برس کی عمر میں ایسا کرنا شروع کروں گی۔‘ بی بی سی کے پروگرام نیوز بیٹ میں اس فلاحی ادارے نے بتایا کہ 25-49 برس کی عمر کی خواتین میں کینسر ہونے کے باوجود ایک چوتھائی نوجوان خواتین نہیں جانتی کہ چھاتی کا کینسر ان کو متاثر کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جب لوسی کے جنرل فزیشن نے انھیں چھاتی کے ایک کلینک بھیجا تو تب بھی ان کے دماغ میں نہیں آیا کہ یہ چھاتی کا سرطان ہو سکتا ہے لیکن جب ان کی بہن نے الٹراساؤنڈ سکین کے لیے زور ڈالا تو لوسی کو محسوس ہونے لگا کہ کچھ غلط ہے۔ ’میرے خیال میں اس بیماری کو بدنما داغ سمجھا جاتا ہے۔ ہم بیماری کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے لیکن ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔‘ فرین آن لائن اپنی کہانی شیئر کرتی ہیں تاکہ یہ بات پھیلائی جا سکے کہ نوجوان خواتین کو بھی چھاتی کا کیسنر ہو سکتا ہے فرین نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہو گا لیکن 24 برس کی عمر میں انھیں اپنی چھاتی میں گلٹی کا پتا چلا۔ وہ اس بارے میں پریشان تھیں کہ وہ وقت ضائع کر رہی ہیں لیکن کچھ ٹیسٹس اور سکینز کے بعد فرین کو بتایا گیا کہ انھیں چوتھی سٹیج کا چھاتی کا سرطان ہے اور دماغ میں رسولی بھی ہے۔ انھیں زندہ رہنے کے لیے صرف دو برس کا وقت دیا گیا۔ ’میں اس بات کا زندہ ثبوت تھی کہ یہ کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔‘ فرین نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہو گا لیکن 24 برس کی عمر میں انھیں اپنی چھاتی میں گلٹی کا پتا چلا فرین کو کیموتھراپی کے ایک ’جارحانہ معمول‘ سے گزرنا پڑا اور اب ان کا کینسر کم ہو رہا ہے۔ وہ انٹرنیٹ پر اپنی کہانی شیئر کرتی ہیں تاکہ یہ بات پھیلائی جا سکے کہ نوجوان خواتین کو بھی چھاتی کا کیسنر ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں سوشل میڈیا پر اپنے سفر کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہوں۔ میں نے ان تمام چیزوں کا ریکارڈ رکھا ہوا ہے، جن سے مجھے گزرنا پڑا۔‘ ’اسے ہمیشہ سے بڑی عمر کی خواتین کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔‘ ’اس برس سے پہلے تک میں سوچا کرتی تھی کہ مجھے اس وقت تک اس بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں جب تک میں بوڑھی نہیں ہو جاتی۔‘
/urdu/regional-59759222
سری لنکا کو اس وقت بیرونی قرضوں اور زرِ مبادلہ کے زخائر سے متعلق شدید بحران کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں انتہائی کمی سے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
سری لنکا میں حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایران سے درآمد کیے جانے والے تیل کی قیمت اپنی چائے سے ادا کرے گا۔ رمیش پتھیرانا کا کہنا ہے کہ 251 ملین ڈالر کا قرضہ اتارنے کے لیے سری لنکا ہر مہینے پانچ ملین ڈالر کی چائے ایران کو دے گا۔ سری لنکا کو اس وقت بیرونی قرضوں اور زرِ مبادلہ کے زخائر سے متعلق شدید بحران کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں انتہائی کمی سے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سری لنکا میں ’ٹی بورڈ‘ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چائے کے بدلے بیرونی قرضہ ادا کیا جا رہا ہے۔ رمیش پتھیرانا کا کہنا ہے کہ قرضے کی ادائیگی کے اس طریقۂ کار سے ایران پر اقوامِ متحدہ یا امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی کیونکہ چائے کا شمار ان اشیاء میں ہوتا ہے جو انسانی فلاح کے زمرے میں آتی ہیں اور اس معاملے میں کوئی بھی ایسا ایرانی بینک شامل نہیں ہے جسے بلیک لسٹ کیا گیا ہو۔ سری لنکا کی کاشت کاری کی وزارت کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ سکیم سے سری لنکا کو زرِ مبادلہ کے لحاظ سے فائدہ ہو گا کیونکہ ایرانی قرضے کی ادائیگی سیلون چائے کی فروخت کے ذریعے سری لنکا کے روپے میں ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سری لنکا کی حکومت چائے کاشت کرنے والی کمپنیوں سے روپے میں ادائیگی کے ذریعے چائے خرید کر ایران بھیجے گی۔ 'اس سے ایکسپورٹر کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ہمیں روپے میں ادائیگی ہو گی۔ یہ فری مارکیٹ سے انحراف ہے اور ہمیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔' ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں کے مطابق سری لنکا کو آئندہ برس قرضوں کی مد میں چار عشاریہ پانچ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ صرف جنوری میں ’انٹرنیشنل سوورن بانڈ‘ کی مد میں 500 ملین کی ادائیگی ہونی ہے۔ ملک کے مرکزی بینک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے اختتام تک ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر صرف ایک عشاریہ چھ ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ مرکزی بینک کے گورنر اجیتھ نیوارد سابرال نے اس مہینے کے شروع میں کہا تھا کہ ان کا ملک پر اعتماد ہے کہ وہ 'بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا وہ سارا بیرونی قرضہ اتار دے گا جو سنہ 2022 میں واجب الادا ہے۔ سری لنکا سالانہ 340 ملین کلو گرام چائے پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ برس اس نے 265.5 ملین کلوگرام چائے برآمد کی تھی جس کی لاگت 1.24 ارب ڈالر تھی۔ سری لنکا کی آبادی کا تقریباً پانچ فیصد چائے کی صنعت سے وابستہ ہے جہاں پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر چائے کے باغات سے پتے توڑ کر کارخانوں میں چائے کی پتی تیار کی جاتی ہے۔
/urdu/world-58237590
افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضہ کے بعد دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کی سیکیورٹی ترک فوجوں کے حوالے کرنے کے منصوبے پر عملدر آمد پر کوئی واضح بات سامنے نہیں آ سکی ہے۔
افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے کے بعد دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی ترک فوجوں کے حوالے کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد پر کوئی واضح بات سامنے نہیں آ سکی ہے۔ طالبان نے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ترکی کی فوج افغانستان میں رکھنے کی مذمت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کابل کے ہوائی اڈے پر پانچ سو ترک فوجی موجود ہیں۔ ترک فوجی جو نیٹو کی افواج کے حصے کے طور پر افغانستان میں تعینات کیے گئے تھے، ان کا جنگ میں کوئی کردار نہیں تھا بلکہ وہ نیٹو کے غیر جنگی منصوبوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اخبار نے نامعلوم سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ ' ابھی تک کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ ترک فوج کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔' لیکن اگست کی 16 تاریخ کو کابل کے ہوائی اڈے پر شدید افرا تفری دیکھنے میں آئی اور اطلاعات کے مطاب اس وقت ہوائی اڈے کی سکیورٹی امریکی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ کابل کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی ترک فوج کے حوالے کرنے کے بارے میں 16 اگست کو ٹی وی چینلوں پر شدید بحث ہوئی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل این ٹی وی پر بات کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر محمد قاسم ہان نے سوال کیا کہ کیا ترکی کی فوج افغانستان میں رہے گی جبکہ تمام ملکوں کی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن ان کے خیال میں ’یہ درست نہیں ہوگا‘۔ انھوں نے کہا ہو سکتا ہے ترکی کے افغانستان اور پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے طالبان ترکی کے فوجیوں کی ملک میں موجودگی کو کچھ دیر برداشت کریں لیکن کیا ہوائی اڈے پر ترک فوج کی علامتی موجودگی کا کوئی فائدہ ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ترک فوج کا ہوائی اڈے کی سکیورٹی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کا مشن ختم ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ترک فوج کی افغانستان میں موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حزب اختلاف کے حامی صحافی قادر گرسل نے تبصرہ کیا کہ کابل میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی ترک فوج کے ہاتھوں میں رکھنے کا جواز بھی ’ختم‘ ہو گیا ہے۔ حزب اختلاف کے حامی ایک اور صحافی نوسن مینگو نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی ترک فوج کے حوالے کرنے کی تجویز اب دم توڑ گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان 14 جون کو برسلز میں ہونے والی ملاقات کے بعد کابل کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی ترک فوج کے حوالے کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی۔
/urdu/regional-56391079
’مجھے لگا کہ میں جو بھی بناؤں گی اس کا ذائقہ ’اصل بریانی‘ جیسا نہیں ہو گا اس لیے میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی مگر بالآخر یہ ایک دن تبدیل ہوا۔‘
میرا تعلق حیدرآباد سے ہے جو بریانی کی ایک خاص قسم کے لیے مشہور ہے۔ مجھے لگا کہ میں جو بھی بناؤں گی اس کا ذائقہ ’اصل بریانی‘ جیسا نہیں ہو گا۔ اس لیے میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ آپ اکثر یہ سوچتے ہوں گے کہ اجزا سے مخصوص خوشبو اور ذائقہ کیوں ملتا ہے، یا وہ آپ کی اپنی مرضی کے مطابق اپنا رنگ و روپ کیسے ڈھال لیتے ہیں؟ دلیل کے طور پر اس کتاب میں موجود ایک فارمولے کے ذریعے بریانی بنانے کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ادرک اور لہسن کو پُرانے طریقے سے کوٹنے کا طریقہ بلینڈر کے جدید طریقے سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ بلینڈر کی رفتار اور اس کی گرمی سے ان میں موجود ذائقہ مانند پڑسکتا ہے جبکہ ہاون دستے کے استعمال سے یہ ذائقہ ان اجزا میں باقی رہ سکتا ہے۔ لیکن سائنس اور اشوک دونوں ہی طویل سفر کی جگہ شارٹ کٹ کے بھی حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹماٹو پیسٹ کی جگہ کیچپ بہترین متبادل ہے اور اس سے نوڈلز میں مصالحے ملائے جاسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر وقت کی قلت ہو تو اسے دال میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل اور مصنوعی ذائقے کے درمیان فرق فرضی ہے۔ ’میں کیچپ تک ہی بات کروں گا کیونکہ یہ بہت مزیدار ہوتی ہے۔ چکی کی جگہ ہم گندم خود پیس کر آٹا نہیں بناتے۔ یہ بھی مصنوعی طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کیچپ بنائی جاتی ہے۔‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کی مدد سے کھانا زیادہ اچھا یا بُرا نہیں بنتا۔ تازہ پیسے ہوئے مصالحے ہوں یا بازار سے خریدے گئے مکس مصالحے، دونوں ہی مزے دار کھانا بنا سکتے ہیں۔ ان میں سے کون سا راستہ بہتر ہے، یہ فیصلہ تو گھر میں بیٹھے شیف کو کرنا ہے۔ اشوک نے اپنے تجربے میں بہترین اڈائی بنانے کی بھی کوشش کی جو جنوبی انڈیا میں دال سے بننے والی ایک مشہور ڈش ہے۔ گزرتے برسوں کے ساتھ انھوں نے کئی ذائقوں اور کھانا پکانے کے طریقوں کے ساتھ تجربہ کیا ہے اور نوٹس بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ ان کے کام نہ آسکے۔ وہ کوئی شیف بننا نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف اچھا کھانا بنانا چاہتے تھے۔ انھیں امید ہے کہ ان کی کتاب ایسے بہت سے لوگوں کے کام آئے گی۔ میری پہلی کوشش کافی اچھی رہی اور مجھے اس بات سے ہمت ملی کہ میں جو چاہ رہی تھی وہ کوئی ’مستند‘ ترکیب نہیں تھی بلکہ اس پکوان کا میرا ورژن تھا جسے میں بچپن سے کھا رہی ہوں (ہمارے دماغ کا ذائقے محسوس کرنے والا حصہ یادداشتیں محفوظ کرنے والے حصے کے قریب ہی ہوتا ہے۔)
/urdu/pakistan-48738293
پاکستان کے حوالے سے گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔
پاکستان کے حوالے سے گذشتہ ہفتے پیش آنے والے اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ انگلینڈ میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں 16 جون کو روایتی حریف پاکستان اور انڈیا مدِمقابل ہوئے اور شکست گرین شرٹس کا مقدر بنی۔ 22 جون کو امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی دو روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ اس دوران انھوں نے تین معاہدوں پر دستخط کیے۔ صدرِ پاکستان عارف علوی نے امیرِ قطر کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سِول اعزاز ’نشانِ پاکستان‘ سے نوازا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ 21 جون بروز جمعہ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 11 روز کی توسیع کر دی۔ ملزم کو دوبارہ دو جولائی کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ بھوربن میں افغان سیاسی قیادت کی موجودگی میں امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ افغانستان سے اس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار سمیت اہم سیاسی رہنما نے شرکت کی۔
/urdu/world-57322901
سسلی کی مافیا کے سرغنہ جویوانی بارسکا کو جن کے سنگین جرائم میں ایک بچے کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کرنا بھی شامل تھا انھیں جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
اٹلی کے شہر سسلی کی مافیا کے سرغنہ 'انسانوں کے قصاب' کے نام سے مشہور جویوانی بارسکا کو آج جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کے سنگین جرائم میں ایک بچے کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کرنا بھی شامل تھا۔ بارسکا نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سو سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے میں وہ ملوث رہے ہیں جن میں مافیا کے خلاف اٹلی کے اعلیٰ ترین جج جیوانی فلکون کا قتل بھی شامل تھا۔ پچیس سال جیل میں گزرانے کے بعد ان کی رہائی پر ان کی مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بننے والے متاثرین اور ان کے لواحقین کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ 64 سالہ بارسکا سسلی کے مافیا کے گروپ کوسا نوسٹرا کا مرکزی کردار تھے۔ سنہ 1992 میں بارسکا نے ایک بم دھماکے میں اٹلی میں مافیا کے خلاف تحقیق کرنے والے جج جیوانی فلکون کو ہلاک کر دیا تھا جو اٹلی کی تاریخ میں قتل کی سب سے خطرناک ترین واردات تھی۔ فلکون ان کی بیوی اور تین محافظ اس بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ براسکا نے نصف ٹن بارود اس راستے پر نصب کر دیا تھا جس راستے سے فلکون نے گزرنا تھا۔ اس حملے کے دو ماہ بعد ایک اور جج پاولو بورسیلانو کو ہلاک کر دیا گیا جس نے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا اور ملک میں مافیا کے خلاف مزید قانون سازی کی گئی۔ ایک اور انتہائی اندہوناک قتل ایک گیارہ سالہ لڑکے جوسیپو ڈی میتیو کا تھا جو مافیا کے ایک اور رکن کا بیٹا تھا۔ بارسکا نے بچے کو اغوا کر کے تشدد کیا اور پھر اس کو گردن میں پھندا ڈال کر ہلاک کر دیا۔ قتل کرنے کے بعد لڑکے کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کر دیا گیا تھا۔ سنہ 1996 میں گرفتاری کے بعد وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے تاکہ ان کی سزا میں کمی ہو سکے۔ سرکاری تحقیقی ادارے ان کی مدد سے مافیا گروہوں کے کئی ارکان جو سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں کئی حملوں میں ملوث تھے ان کو پکڑنے میں کامیاب رہے۔ بارسکا کی رہائی پر ان کے جرائم کا نشانہ بننے والے بہت سے متاثرین اور ان کے لواحقین کی طرف سے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک محفظ جو بارسکا کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے ان کی بیوی ٹینا مونتیناروں نے ایک اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہا وہ سخت غصے میں ہیں۔ ٹینا کا کہنا تھا کہ 'ریاست ہمارے خلاف ہے۔۔29 سال کے بعد ہمیں ابھی تک حقیقت کا علم نہیں ہے۔۔جس شخص نے میرا خاندان تباہ کر دیا وہ رہا ہو گیا ہے۔' ماریا فلکون جو ہلاک ہونے والے جج کی بہن ہیں ان کا کہنا ہے وہ رنجیدہ ہوئی ہیں یہ خبر سن کر کے بارسکا کو قانون کے تحت جیل سے رہائی مل رہی ہے۔
/urdu/pakistan-54567821
فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں آئین میں آٹھویں ترمیم کر کے ملک میں رائج پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام کی جانب لے جانے کی کوشش کی گئی اور بعدازاں اس آئینی ترمیم کا شکار ملک کے متعدد منتخب وزرائے اعظم بنے۔ یہ ترمیم کیسے اور کس کے کہنے پر منظور ہوئی پڑھیے اس تفصیلی رپورٹ میں۔
حاجی سیف اللہ نے بتایا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ آر سی او کا نفاذ اس قوم کے لیے ایک سانحے سے کم نہ تھا کیونکہ اگر جنرل صاحب کا ارادہ اسی طریقے سے آئین کی ترمیم کرنے کا تھا تو ان کے لیے لازم تھا کہ وہ انتخابات سے قبل اس کا اظہار کرتے تاکہ عوام اور ان کے نمائندے سوچ سکتے کہ اس صورتحال میں وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں کہ نہیں، مگر عام انتخابات کے فوری بعد انھوں نے آر سی او کے ذریعے آئین کو پارلیمانی سے تبدیل کر کے صدارتی شکل دے دی۔‘ ’صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دینے کی شق پیش ہوتے ہی ہم نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا، یہ شام کا وقت تھا۔ اسی اثنا میں اٹارنی جنرل اور ڈاکٹر محبوب الحق جنرل ضیا کا پیغام لے کر آئے۔ جنرل ضیا الحق کا کہنا تھا کہ آٹھویں ترمیم کا بل آج رات منظور نہ ہوا تو پھر نتائج کی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہو گی پھر اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں گا۔‘ اور یہ سب اس لیے کہ پارلیمنٹ میں قائد ایوان وزیر اعظم کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا جبکہ صدر کے اختیار کے استعمال کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور پھر پارلیمانی نظام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ مقتدر ہو اور جب آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تو اس نظام کو پارلیمانی ہی کہا جائے گا کیونکہ جب چاہے پارلیمنٹ آئینی طریق کار کے مطابق صدر کے اختیارات میں ترمیم کر سکتی ہے۔ حالیہ گفتگو میں ممتاز تارڑ نے بتایا کہ میری رائے ہے کہ آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کو دیے جانے والے اختیارات سے آئین پاکستان کی روح کو پامال کر دیا گیا، بلکہ اسے پارلیمانی سے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں بعد میں آنے والی کسی بھی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی۔ سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین کو بنانے کے ساتھ جو بڑا کارنامہ انجام دیا تھا وہ اتفاق رائے تھا جو اس آئین کو قابل قبول بنانے کے لیے پیدا کیا گیا، اپنے بدترین سیاسی مخالفین کو بھی بھٹو نے اس پر دستخط کرنے کے لیے آمادہ کیا، اور انھوں نے پارلیمانی جمہوریت کی روح کے مطابق وزیر اعظم کو اس میں بااختیار بنایا لیکن جنرل ضیا الحق نے شب خون مارا، اور آر سی او کے ذریعے آئین کے اندر صدارتی اختیارات کی بھرمار کر دی، اسمبلیاں توڑنے کا اختیار اپنی جیب میں رکھ لیا، اس طرح جنرل ضیا نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔
/urdu/entertainment-52238793
پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے دو معروف سٹارز، اداکارہ ثمینہ احمد اور منظر صہبائی کی شادی کی خبر سامنے آتے ہی مداحوں نے انھیں مبارکباد کے پیغامات بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔
پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے دو معروف سٹارز، اداکارہ ثمینہ احمد اور منظر صہبائی کی شادی کی خبر سامنے آتے ہی مداحوں نے انھیں مبارکباد کے پیغامات بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔ زندگی کے اس نئے سفر کا آغاز کرنے پر سوشل میڈیا صارفین نے اپنے محبت بھرے پیغامات میں شادی کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے نو بیاہتے جوڑے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ 70 برس کی ثمینہ احمد نے 18 سال کی عمر میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے اپنے کیریئر میں اکڑ بکڑ، الف نون، فیملی فرنٹ، ڈولی کی آئے گی بارات، آنگن، گل رانا اور سنگت جیسے ڈراموں میں کام کیا۔ دوسری طرف 70 سالہ منظر صہبائی اپنے کیریئر میں ماہ میر، بول اور زندہ بھاگ جیسی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ڈرامہ ’الف‘ میں منظر صہبائی کی اداکاری کو بھی خوب پذیرائی ملی ہے۔ ٹوئٹر پر عروج منیر نے لکھا: ’ایک نئی شروعات کے لیے کبھی دیر نہیں ہوتی۔ محبت کی کوئی عمر نہیں۔ مجھے یہ دونوں بہت پیارے لگے۔ دونوں کو مبارکباد۔‘ اسرار اعوان نے لکھا: ’ثمینہ احمد اور منظر صہبائی نے کچھ بہت اچھا کیا ہے۔ انھوں نے اپنی باقی زندگی اکیلے نہ رہنے کا انتخاب کیا ہے۔‘ صحافی انعم حمید نے لکھا: ’زندگی میں ایک نئی شروعات کے لیے کبھی دیر نہیں ہوتی۔‘ صحافی انیلہ خالد نے لکھا کہ ثمینہ احمد اور منظر صہبائی نے ایک ایسے معاشرے میں مثال قائم کی ہے جہاں جلدی شادی کو ہی واحد آپشن سمجھا جاتا ہے۔ افراسیاب خان نے لکھا: ’عمر آپ کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتی۔ ثمینہ احمد بہادر ہیں اور وہ تمام خوشیوں کی حقدار ہیں۔‘ عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے بھی اپنے پیغام میں اس جوڑے کو شادی کی مبارکباد دی لیکن کچھ سیاسی دل جلوں نے اپنے دل کی بھراس بھی نکالی۔ شیر دل نامی ایک صارف نے لکھا: ’وہ تمام لوگ جو ثمینہ احمد اور صہبائی کو مبارکباد دے رہے ہیں انھوں نے کبھی عمران خان کی 65 برس کی عمر میں تیسری شادی پر تنقید کی تھی۔‘ یاد رہے کہ بی بی سی کے معروف براڈ کاسٹر یاور عباس نے بھی گزشتہ ماہ لندن میں مصنفہ اور ڈائریکٹر نور ظہیر سے شادی کی ہے۔ یاور عباس اس سال ستمبر میں اپنی 100ویں سالگرہ منائیں گے۔
/urdu/science-53252961
ایک نئی تحقیق کے مطابق کھانا پکانے کے بعض طریقے صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ طریقے زہریلے مادے پیدا کرنے سے لے کر پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرات کو بڑھانے تک کئی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق کھانا پکانے کے بعض طریقے صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ طریقے زہریلے مادے پیدا کرنے سے لے کر پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرات کو بڑھانے تک کئی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ خوراک کو پکا کر کھانے کی وجہ سے انسان کے جبڑا چھوٹا ہوا اور دماغ کے بڑے ہونے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھنے میں مدد ملی۔ اس کے علاوہ پکانے سے کھانے پر نشوو نما پانے والے نقصان دہ بیکٹریا بھی مر جاتے ہیں جن کی وجہ سے فوڈ پوائزننگ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ کسی ڈش کو تیار کرنے کے لیے پکانے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کھانا پکانے کے کچھ مخصوص طریقوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ آپ کیا پکا رہے ہیں؟ ترقی پزیر ممالک میں چولہے خود بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ ان ممالک میں لکڑی، فصلوں کا فضلہ اور کوئلہ وغیرہ جیسا خام ایندھن کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 38 لاکھ افراد اسی وجہ سے قبل از وقت مر جاتے ہیں۔ تائیوان میں سنہ 2017 میں ہونے والی ایک تحقیق میں کھانا پکانے کے مختلف طریقوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مصنفین کے مطابق سن فلاور کوکنگ آئل اور ڈیپ فرائنگ اور پین فرائنگ کی وجہ سے ایسے زہریلے مواد پیدا ہوتے ہیں جن میں سانس لینے سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے تیل جن میں انسیچوریٹڈ فیٹ کم ہوتا ہے جیسے پام اور ہلکی فرائنگ سے یہ خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ سبزیوں کو کم پکانے اور پکانے کے لیے کم پانی استعمال کرنے سے ان کے وٹامن اور مفید غذائی اجزا باقی رہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مائکرو ویوو کا استعمال بہتر ہے کیونکہ اس طریقے سے سبزیوں میں شامل مفید اجزا کم سے کم ضائع ہوتے ہیں۔ جبکہ ابالنے کے دوران مفید اجزا پانی میں چلے جاتے ہیں۔ تیز آنچ میں فرائی کرنے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض چکنائی زیادہ گرم ہونے کے بعد ایسے کیمیائی عمل سے گزرتی ہے کہ اس میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس کے مفید اجزا تبدیل ہو کر نقصان دہ بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر زیتون کا تیل تیز گرم ہونے کی صورت میں اپنا کئی فائدے مند اجزا کھو بیٹھتا ہے جیسے اولیوکینتھال جو جسم میں سوجن ختم کرنا ہے۔ اس کے بجائے ایلڈی ہائڈز جیسے نقصان دہ اجزا پیدا ہو جاتے ہیں۔
/urdu/world-49928925
عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے بڑھ گئی ہے جبکہ بغداد کے گرین زون کو ایک بار پھر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
عراق کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔ عراقی حکام نے بغداد کے اس گرین زون کو ایک مرتبہ پھر عوام کے لیے بند کر دیا ہے جہاں سفارتخانے اور عالمی اداروں کے دفاتر واقع ہیں۔ یہ علاقہ رواں برس جون میں عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے عراق میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کو ’انسانی جانوں کا بے معنی ضیاع‘ قرار دیتے ہوئے ان کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے عراق کی سربراہ جینین ہینس پلایسچارٹ نے کہا ہے کہ ’ان پانچ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔: اس کو رکنا چاہیے۔‘ تاہم سکیورٹی اور طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں شدت آنے کے سبب ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ بغداد میں 'نامعلوم سنائپرز' نے دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ عادل عبدالمہدی کی کمزور حکومت کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال کے اندر ان مظاہروں کو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جا رہا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بغداد میں کرفیو نافذ ہے جس میں لوگوں کو شہر کے ہوائی اڈے پر جانے کی اجازت ہے، ایمبولینسیں سفر کر سکتی ہیں اور مذہبی زائرین کو سفر کی اجازت ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ احتجاج عبدالمہدی کی حکومت کے سال مکمل ہونے کے موقع پر آن لائن دی گئی کال کے جواب میں کیا گیا ہے اور بظاہر مظاہرین میں کوئی منظم قیادت نہیں ہے۔ عراق کے وزیراعظم عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لیے لگائے گئے کرفیو کا نفاذ امن برقرار رکھنے اور مظاہرین کی حفاظت کے لیے اہم ہے۔ نجی ویب سائٹ الغاد پریس نے عراق میں نظام مواصلات کے معیار کی پیمائش کرنے والے ادارے کی جانب سے جاری بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز کی گردش کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عراق کے دارالحکومت بغداد میں پولیس نے اس وقت ہوائی فائرنگ شروع کر دی جب مظاہرین نے گرین زون کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کی جانب سے جاری بیان میں شہریوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ احتجاج کی آڑ میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہروں نے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں تاہم 40 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 200 افراد زخمی ہیں۔ ہر چھ میں سے کم از کم ایک گھر کو کسی نہ کسی نوعیت کی خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
/urdu/world-54166338
ملائیشیا میں ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اسے اپنے موبائل فون پر ایک بندر کی سیلفیاں اور ویڈیو ملے ہیں۔ اس شخص کا یہ فون کھو گیا تھا جو اسے گھر کے پیچھے جنگل سے ملا۔
ملائیشیا میں ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ اسے اپنے موبائل فون پر ایک بندر کی سیلفیاں اور ویڈیوز ملی ہیں۔ اس شخص کا یہ فون کھو گیا تھا جو اسے گھر کے پیچھے جنگل سے ملا ہے۔ فون میں جو مواد موجود ہے اس میں ایک بندر کی فوٹیج بھی ہے جو بظاہر فون کو کھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سارا مواد فون کے مالک زیکریڈز روڈزی نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا جس کے بعد اسے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ان حالات کی تصدیق کی جا سکے کہ یہ تصاویر اور ویڈیو ان کے فون میں کیسے آئے۔ فون غائب ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد دوپہر دو بج کر ایک منٹ پر بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک بندر کو دیکھا جا سکتا ہے جو بظاہر فون کو کھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ویڈیو بی بی سی کو بھی بھیجی گئی ہے۔ ویڈیو میں بندر فون کے کیمرے کی جانب گھور رہا ہے اور پس منظر میں ہرے پتے اور پرندوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ زیکریڈز کا کہنا ہے کہ وہ اپنا فون ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ اگلے روز یعنی اتوار کی دوپہر ان کے والد نے گھر کے باہر ایک بندر کو دیکھا۔ اس کے بعد زیکریڈز نے ایک دوسرے فون سے اپنے فون پر کال کی تو انھیں قریب ہی جنگل سے اپنی رنگ ٹون سنائی دی۔ وہ وہاں گئے تو انھیں ایک کھجور کے درخت کے نیچے کیچڑ میں لتھڑا ہوا اپنا فون مل گیا۔ ان کے انکل نے مذاق سے کہا کہ شاید چور کی تصویر اس فون میں ہو۔ اس کے بعد زیکریڈز نے اپنا فون صاف کیا، تصاویری گیلری کھول کر دیکھی اور حیران رہ گئے کیوں کہ وہ بندر کی تصاویر سے بھری ہوئی تھی۔ زیکریڈز کو شبہ ہے کہ یہ بندر ان کے بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے اندر آیا ہو جو کھلی رہ گئی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی بندر کی سیلفیاں شہہ سرخیاں بنی ہوں۔ سنہ 2017 میں ایک بندر کے ہاتھ سے کھینچی ہوئی سیلفیوں سے متعلق ایک برطانوی فوٹوگرافر ڈیوڈ سلیٹر اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے درمیان دو سال تک چلنے والا مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا۔ سنہ 2011 میں انڈونیشیا کے جنگل میں میکاک نسل کے ایک بندر نے ڈیوڈ سلیٹر کا کیمرہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کئی سیلفیاں لے ڈالیں۔ سلیٹر کا موقف تھا کہ پوری دنیا میں مشہور اور شیئر کی جانے والی ان تصاویر کے کاپی رائٹس ان کے پاس ہیں۔ لیکن جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'پیپل فار ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز' کا کہنا تھا کہ تصاویر بندر نے کھینچی تھیں اس لیے فائدہ اسے ہونا چاہیے۔ امریکی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کاپی رائٹس کے تحفظ کا اطلاق بندر پر نہیں ہو سکتا۔
/urdu/regional-54566228
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان اور افغانستان نے بھی کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ہم سے بہتر اقدامات کیے ہیں۔‘
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’(انڈیا کی نسبت) پاکستان اور افغانستان نے کووڈ 19 کا بہتر مقابلہ کیا۔‘ جمعے کے روز ایک ٹویٹ میں انھوں نے رواں سال اس خطے کے کچھ ممالک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی تصویر شیئر کی اور طنزیہ انداز میں اسے ’بی جے پی حکومت کی بڑی کامیابی‘ قرار دیا۔ دو روز قبل بھی راہل گاندھی نے بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دکھایا تھا کہ چھ برسوں میں ’نفرت اور قوم پرستی سے بھرپور‘ بی جے پی کی وجہ سے بنگلہ دیش اب انڈیا پر جی ڈی پی کے اعتبار سے سبقت حاصل کرنے والا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو کووڈ 19 کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے پاکستان کی مثال دے رہی ہیں۔ افغانستان میں 40,026 متاثرین اور 1,481 اموات کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہاں کووڈ 19 سے نسبتاً کم جانی نقصان ہوا ہے۔ مگر یاد رہے کہ خطے میں کورونا کی دوسری لہر کا خدشہ اب بھی موجود ہے اور ماہرینِ صحت نے اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔ تاہم خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق انڈین حکومت نے آئی ایم ایف کے اندازوں کو اہمیت نہ دینے کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ انڈیا میں آبادی کے تناسب سے جی ڈی پی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا کی معیشت بنگلہ دیش کے مقابلے 11 گنا بڑی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) کے چیئرمین اسد عمر نے کہا ہے کہ قومی سطح پر گذشتہ روز مثبت متاثرین کی شرح یعنی انفیکشن ریٹ 2.37 رہا۔ 'یہ تعداد 50 روز میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔‘ انڈیا کی ریاست پنجاب کی حکومت نے 19 اکتوبر سے 9ویں اور 10ویں جماعت کے لیے سکولز کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق صرف کم متاثرہ علاقوں میں سکول کھولے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو ان کی طرح بی جے پی حکومت پر تنقید کے لیے طنزیہ انداز اپنایا جبکہ بعض کی نظر میں راہل گاندھی کے اس بیان کا جواز نہیں بنتا تھا۔ لوگوں کی کچھ ٹویٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بظاہر راہل گاندھی بی جے پی کو ’پاکستان سے سیکھنے‘ کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس پر کچھ صارفین نے انھیں ’پاکستان چلے جانے‘ کا مشورہ بھی دے دیا۔ اس کے برعکس زاہد حسین نے عمران خان کی تعریف میں لکھا کہ ’اس لیے ہم اپنے ذہین وزیر اعظم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘
/urdu/entertainment-49303096
اسلام آباد کے رہائشی دو نو عمر بہن بھائی نہ صرف صوفیانہ کلام اور موسیقی کے آلات کے دلدادہ ہیں بلکہ اس فن میں اپنا نام خوب کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم نوعمر بہن بھائی، ابراہیم اور ہاجرہ، اگرچہ ابھی بچے ہیں مگر ان کے خواب حقیقت سے بھی بڑے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر ابراہیم مستقبل میں راحت فتح علی خان بننا چاہتے ہیں تو ہاجرہ بھی مومنہ مستحسن بننے کے خواہش مند ہیں۔ اور اپنے انھیں خوابوں کو پا لینے کی جستجو میں ان دونوں نے چھوٹی سی عمر میں موسیقی کے کافی آلات بجانا سیکھ لیے ہیں۔ اسلام آباد کے رہائشی منظور احمد کے گھر کے پاس پہنچتے ہی ہارمونیم، طبلے اور ڈھول جیسے سازوں کی مسحور کر دینے والی دھنیں آپ کے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیتی ہیں۔ منظور احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کے صوفیانہ کلام سے لگاؤ کو نہ صرف آگے بڑھایا ہے بلکہ وہ اس کی تعلیم بھی ان کو خود دیتے ہیں۔ ابراہیم کو گانے کے ساتھ ساتھ ڈھول، ہارمونییم، طبلہ اور میوزیکل کی بورڈ بجانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ آخر کس عمر سے موسیقی اور ان سازوں کو بجانا سیکھ رہے ہیں، تو 11 سالہ ابراہیم کا کہنا تھا کہ وہ سات برس کی عمر سے موسیقی کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ہاجرہ نے بتایا کہ جب ان کے والد اور بھائی موسیقی کا ریاض کر رہے ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں اور وہ موسیقی کی تعلیم گذشتہ چار برس سے لے رہی ہیں۔ ہر گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں میں نوک جھوک ہونا عام بات ہے اور اسی لیے ابراہیم اور ہاجرہ موسیقی کے ریاض سے پہلے روزانہ لڑائی کی مشق بھی خوب کرتے ہیں۔ منظوراحمد کو گھر میں موسیقی کے آلات سے بھرے کمرے میں پا کر ان پر کچھ لمحوں کے لیے کسی پیشہ ور استاد کا گمان گزرتا ہے جس کا ایک ہاتھ ہارمونیم پر اور دوسرا ہاتھ سُر کے ساتھ لہرا رہا ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بچوں کا میوزک سے تعلق بہت گہرا ہے اور صوفیانہ کلام میں بیٹ ایک اہم عنصر ہے۔ ’ابراہیم نے جب مجھے اور میرے دوستوں کو قوالی گاتے دیکھا تو اس کو بیٹ نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ جس کے بعد بغیر کسی سے سیکھے ابراہیم نے ردہم میں بیٹ بجانا شروع کر دی۔ جبکہ ہاجرہ ہر وقت گاتی رہتی تھیں اور ان کے اسی شوق کے پیش نظر میں نے انھیں موسیقی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔‘ تاہم ان کے والد کا کہنا ہے کہ ’بچوں کو میوزک کا شوق صوفی میوزک کی وجہ سے ہی ہے۔ اس عمر میں صوفیانہ کلام سمجھ آنا دور کی بات ہے۔ بچوں کو تو ان کے مطلب تک نہیں پتا ہوتے۔ مگر اس کے باوجود ان کو پورے پورے اشعار یاد ہیں۔‘ منظور احمد کے بچے جس شوق سے ریاض کر رہے تھے اس کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے والد کے ادھورے خواب کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
/urdu/sport-60337499
ملتان سلطانز نے پاکستان سپر لیگ کے لاہور مرحلے کا آغاز اسی شاندار کارکردگی سے کیا جو انھوں نے کراچی میں دکھائی تھی۔ قذافی اسٹیڈیم میں اس کی زد میں آنے والی پہلی ٹیم پشاور زلمی بنی جسے اس نے 42 رنز کی شکست سے دوچار کر دیا۔
ملتان سلطانز نے پاکستان سپر لیگ کے لاہور مرحلے کا آغاز اسی شاندار کارکردگی سے کیا جو انھوں نے کراچی میں دکھائی تھی۔ قذافی اسٹیڈیم میں اس کی زد میں آنے والی پہلی ٹیم پشاور زلمی بنی جسے اس نے 42 رنز کی شکست سے دوچار کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد ملتان سلطانز پاکستان سپر لیگ 7 کے پلے آف مرحلے میں پہنچنے والی اکلوتی ٹیم بن چکی ہے۔ پشاور زلمی کی جانب سے ٹاس جیت پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت کے بعد ملتان سلطانز نے سات وکٹوں پر 182 رنز بنائے۔ جواب میں پشاور زلمی کی پوری ٹیم 140رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی اور وہ کسی بھی موقع پر اس پوزیشن میں نظر نہیں آئی جو ملتان سلطانز کے لیے خطرہ بنتی۔ اسپنرز لیئم لوونگ اسٹون اور شعیب ملک کے بولنگ اٹیک میں آنے کے بعد رنز بننے کی رفتار تھم گئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اننگز کے دوران 28 گیندوں کا وقفہ آیا جہاں ایک بار بھی گیند باؤنڈری کے پار نہیں گئی۔ ملتان سلطانز کے سکور کو ناقابل تسخیر حد تک پہنچنے سے روکنے میں پشاور زلمی کے اسپنرز کا کردار بہت اہم رہا۔ لوونگ اسٹون اور شعیب ملک کے چھ اوورز میں صرف 43 رنز بنے۔ پشاور زلمی کے لیے اس سے زیادہ مایوس کن بات اور کیا ہوسکتی تھی کہ 182 رنز کے تعاقب میں دونوں اوپنرز اننگز کے دوسرے ہی اوور میں چل دیے۔ لوونگ اسٹون سے زلمی ہی نہیں شائقین کو بھی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ اس کی وجہ ان کی وہ بیٹنگ تھی جس میں انھوں نے گذشتہ سال پاکستان کے خلاف ٹرینٹ برج کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نو چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 103 رنز بنائے تھے۔ شعیب ملک اور شرفین ردرفرڈ نے عمران طاہر اور عباس آفریدی پر اٹیک بھی کیا لیکن ہر اوور کے ساتھ رن ریٹ بھی بڑھتا جارہا تھا اور یہ اسی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ ردرفرڈ 21 رنز بنا کر موزا رابانی کی گیند پر ٹم ڈیوڈ کے ہاتھوں کیچ ہو گئے۔ وہاب ریاض اور محمد عمر کی وکٹیں گرنے کے بعد بین کٹنگ نے شاہنواز دھانی کے ایک اوور میں دو چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 17 رنز سمیٹے لیکن خوشدل شاہ نے انھیں 23 رنز پر آؤٹ کرکے اس ٹورنامنٹ میں اپنی وکٹوں کی تعداد 12 تک پہنچادی جو شاداب خان کی 14 وکٹوں کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ کراچی میں پی ایس ایل کے پہلے مرحلے میں فتوحات کی روایت برقرار رکھتے ہوئے جب ملتان سلطانز نے آج بھی فتح حاصل کی تو اُن کے ایک مداح نے لکھا: 'سٹیڈیم بدلا، صوبہ بدلا، شہر بدلا، نہیں بدلا تو ہمارا اندازِ کھیل نہیں بدلا۔' اور ملتان سلطانز کی کامیابی پر تبصرے تو اپنی جگہ، مگر پشاور زلمی کے مداح بھی اپنی ٹیم کی ناکامی پر کچھ مایوس سے نظر آئے۔
/urdu/pakistan-59345851
اپنی چھ برس کی سیاسی عمر میں مختلف مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک سات مرتبہ اسی نوعیت کے احتجاج منظم کر چکی ہے۔ ہر مرتبہ ان احتجاجوں نے پُرتشدد شکل اختیار کی اور ان کا اختتام ہر بار حکومتِ وقت سے کسی نہ کسی معاہدے پر ہوا۔
اپنی چھ برس کی سیاسی عمر میں مختلف مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک سات مرتبہ اسی نوعیت کے احتجاج منظم کر چکی ہے۔ ہر مرتبہ ان احتجاجوں نے پُرتشدد شکل اختیار کی اور ان کا اختتام ہر بار حکومتِ وقت سے کسی نہ کسی معاہدے پر ہوا۔ پیسوں کی تقسیم کی ویڈیو فوٹیج سامنے آنے پر ایک بار پھر تحریک اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی درپردہ تعلق یا ساز باز کے شکوک ابھرے اور فوج کا تحریک اور حکومت کے درمیان ہونے والے ہر معاہدے کا 'ضامن' بن جانے پر سیاسی و سماجی حلقوں اور ذرائع ابلاغ نے سوال اٹھائے۔ تحریک لّبیک کے رہنما پیر عنایت الحق نے مجھے بتایا کہ 'جب تحریک لّبیک یا رسول اللّہ کے اسی نام کو الیکشن کمیشن نے رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا تو ہم نے سوچ بچار کے بعد اپنی سیاسی جماعت کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا نام دیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس کا اندراج (رجسٹریشن) بھی ہوگیا۔' تحریک لبیک نے دوسرا اہم احتجاج اپریل 2018 میں اس وقت کیا جب اس کے حامی مظاہرین نے پنجاب بھر کی اہم شاہراہیں یہ کہتے ہوئے بند کر دیں کہ حکومت 2017 کے معاہدے کے مطالبات پر عملدرآمد کرے۔ تحریک لّبیک کے رجوع کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کے جائزہ بورڈ نے بھی کہا کہ سعد رضوی کو حراست میں رکھے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا پھر بھی حکومت ان کی حراست کی مُدّت 90 روز کے لیے بڑھا دی گئی اور 14 اپریل کو موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تحریک لّبیک پاکستان کو 'عسکریت پسند جماعت' قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی یعنی 'کالعدم' قرار دے دیا۔ تحریک لّبیک کے تمام مالی اثاثے منجمد کر کے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس سوال پر کہ پولیس مشتعل مظاہرین پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کرتی کیوں دکھائی نہیں دیتی ایک صوبے کے سابق آئی جی نے کہا کہ 'پولیس افسر حکومت کے حکم پر گولی چلائے مظاہرین کی ہلاکت ہو جائے تو انکوائری (تحقیات) بھگتے، نہ چلائے اور پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو انکوائری بھگتے! پھر کیا ہوتا ہے؟ حکومتِ وقت تو سیاسی مصلحت سے کام لے کر دوسرے دن یا دوسرے ہفتے مذاکرات بھی کر لیتی ہے معاہدہ بھی۔ اس بار بھی 6 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آپ نے کیا کیا؟ معاہدے و معافی کا وعدہ! شہید بھی پولیس ہوئی اور 4 نومبر کو تادیبی کارروائی کا سامنا بھی پولیس کو کرنا پڑا اور بطور سزا پورے پنجاب میں تبادلے بھی پولیس افسروں کے ہوئے۔'
/urdu/world-55523367
نئے سال کے آغاز پر اگر آپ پر اپنے کیریئر کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ لے لیا ہے یا آپ ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں تو رکیے اور ان پانچ باتوں پر غور ضرور کیجیے۔
اگر آپ اس شخص سے ملیں اور سوال کریں کہ بھائی ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو عموماً ملنے والا جواب کچھ اس طرح کا ہوتا ہے ’میں کسی کے ماتحت کام نہیں کرنا چاہتا، میں اپنا مالک خود بننا چاہتا ہوں اور زیادہ پیسے کمانا چاہتا ہوں۔‘ اور جب کوئی شخص آپ کو یہ باتیں بتا رہا ہوتا ہے تو آپ دل ہی دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ’کیا میں کسی نڈر، بے باک اور بڑا فیصلہ لینے والے شخص سے باتیں کر رہا ہوں یا کسی ایسی شخص سے جو زندگی کے بارے میں انتہائی لاپرواہ واقع ہوا ہے؟‘ ایمازون کے بانی جیف بیزوس یا فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنے کاروبار جمائے اور اربوں ڈالر کمائے۔ ’میرے نزدیک انھوں نے ابتدا میں جو بڑا فیصلہ لیا (کسی کی نوکری کی بجائے اپنا بزنس کرنا) اس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے، مگر یہ فیصلے کتنے رسک سے بھرپور تھے اس کا فیصلہ ہر انسان کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کیسے دیکھتا ہے۔‘ بہادری اور بیوقوفی میں کچھ فرق ہے یہی وجہ ہے پروفیسر ڈیریک ایسے پانچ اقدامات تجویز کرتے ہیں جن کا تجزیہ آپ کو کسی نوکری یا کاروبار میں بڑا قدم یا فیصلہ لینے سے قبل کرنا چاہیے۔ کوئی بھی بڑا قدم صرف اس لیے مت اٹھائیں کیونکہ آپ کا دل ایسا کرنے کو چاہ رہا ہے یا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ بہت نڈر ہیں۔ رُکیے اور اپنے آپ سے پوچھیے کہ ’میں کیا کرنے جا رہا ہوں اور میں یہ کیوں کرنا چاہتا ہوں؟‘ صرف آخر میں حاصل ہونے والی جیت پر نظر رکھنے کے بجائے یہ کافی اہم ہے کہ اپنے ہر اقدام یا فیصلے پر کامیابی سے عملدرآمد کریں۔ اپنے ہر اقدام کی کامیابی پر توجہ دیں، تاکہ چھوٹے چھوٹے صحیح اور بروقت فیصلوں کا مجموعہ آپ کی حتمی اور آخری مقصد کی طرف رہنمائی کرے۔ اگر آپ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے تو کچھ ہی عرصے میں آپ کو اپنے اقدامات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج کا ایک پیٹرن نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ اس پیٹرن کو دیکھیں، غور کریں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کہیں آپ ضرورت سے زیادہ نڈر نظر آنے کے چکر میں زیادہ رسکی اور پرخطر فیصلے تو بار بار نہیں لے رہے یا دوسری طرف آپ کہیں چھوٹا خطرہ بھی مول لینے سے گھبرا تو نہیں رہے۔ آخر میں پروفیسر ڈیریک وضاحت کرتے ہیں کہ آپ کو یہ جانچنے کی ضرورت ہے کہ آیا آپ کے اقدامات اپنے آپ بہادر محسوس کرنے کی خواہش کی اندھی تابعداری کی عکاسی کر رہے ہیں یا وہ سمجھداری سے اٹھائے گئے اقدامات اور کاروباری فیصلوں کی غمازی کرتے ہیں۔
/urdu/pakistan-54929204
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشات کے پیش نظر اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کئی ملکوں میں نئے متاثرین اور اموات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشات کے پیش نظر اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ پاکستان میں مسلسل دو روز سے دو ہزار سے زیادہ نئے متاثرین سامنے آئے ہیں۔ کئی ملکوں میں نئے متاثرین اور اموات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ امریکی ریاست اوریگن میں سختیوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اب تک کووڈ 19 کے 53,309,069 مصدقہ متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ اموات کی تعداد 1,301,975 ہے۔ انڈیا مجموعی متاثرین کے اعتبار سے عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں یہ تعداد 8,728,795 ہے اور 128,668 اموات ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں دیوالی کا تہوار منانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ برطانیہ میں انگلینڈ کا ملک گیر لاک ڈاؤن جاری ہے اور ماہرین کے مطابق انفیکشن ریٹ یعنی نئے لوگوں میں وبا کی منتقلی کی شرح بتدریج زیادہ ہے۔ کورونا وائرس جہاں دنیا بھر میں اموات بانٹ رہا وہیں اس وائرس سے کم متاثر سمجھے جانے والے خطے جنوبی ایشیا میں بھی اس کی دوسری لہر تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش نے دوسری لہر کے خطرے کے پیش نظر ملک بھر میں 19 دسمبر تک تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں جنوبی ایشیا میں سردیوں کے موسم میں وائرس کی یہ لہر ذیادہ مہلک ہو سکتی ہے۔ جبکہ این ڈی ایم اے کے چیئرمین محمد افضل میں کورونا وائرس کی تشخیص کی خبر کے بعد صارف حسن زیدی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اب یہ وائرس خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اب یہ اعلیٰ حکام کو بھی متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ شاید اس وائرس کو سنجیدگی سے نہ لینا اور احتیاط نہ کرنا ہے۔ این سی او سی نے تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور سردیوں کے چھٹیوں کو جلدی اور طویل کرنے کی تجویز دی ہے۔ اب اسی سلسلے میں 16 نومبر کو وفاقی وزیر برائے تعلیم مختلف صوبوں کے وزرا سے مشاورت کریں گے اور ملک کے تعلیمی اداروں میں درپیش صورتحال پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کو دیکھتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر، این سی او سی، نے ملک بھر میں بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کرنے اور سینما گھروں، تھیٹروں اور مزاروں کو مکمل طور پر بند کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔ تازہ تجاویز میں ریستوران اور کھانے پینے کے مقامات کو دس بجے تک بند کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ سینیما، تھیٹر، مذہبی مقامات، درگاہوں کو جلد از جلد بند کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بازاروں کو جلدی بند کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
/urdu/science-57933698
چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تھوڑے عرصے میں یہ دوسری گرمی کی لہر ہے جس سے تقریباً پورا پاکستان ہی متاثر ہو گا۔ تاہم ہر حصے میں وہاں کے معمول کی گرمی سے درجہ حرارت مزید پانچ سے سات ڈگری تک بتدریج بڑھتا رہے گا۔ محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر خالد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ اس گرمی کی شدت کا زیادہ اثر 27 اپریل سے دیکھنے کو آئے گا جہاں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی درجہ حرارت 39 اور 40 سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے۔ پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ سننے میں یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے۔ یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر گھٹا دیتی ہیں اور ہمارے دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کی بیماری جیسے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم اس بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں۔ زیادہ اموات اس وقت واقع ہوتی ہیں جب درجہ حرارت 25-26 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات بہار یا موسمِ گرما کے آغاز میں ہوتی ہیں نہ کہ موسم گرما کے عروج پر۔
/urdu/regional-58181737
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور اسی دوران بی بی سی نے چند طالبان کمانڈروں سے بات کی ہے جو اب بھی حصول اقتدار کے بعد سخت ترین سزاؤں کی حمایت کرتے ہیں۔
ہم رواں سال کے اوائل میں یہاں سے گزرے تھے جب یہ حکومت کے کنٹرول میں تھا مگر اس کے نواحی دیہات طالبان کے قبضے میں تھے۔ اب یہ اُن 200 کے قریب اضلاع میں سے ہے جن پر طالبان نے حملوں کی تازہ ترین اور غیر معمولی لہر کے ذریعے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ اب بھی اس شہر کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے اور میں نے جس کسی سے بھی بات کی، اُنھوں نے طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ سے متعلق خدشات کا اظہار کیا، خاص طور پر اُن ’آزادیوں‘ کے حوالے سے جو نوجوانوں کو ماضی قریب میں حاصل رہی ہیں۔ آپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے طالبان کے ضلعی گورنر عبداللہ منظور کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے جبکہ اُن کے آدمی کھلکھلا کر ہنسنے لگتے ہیں۔ افغانستان میں کئی دیگر جگہوں کی طرح یہاں بھی لڑائی بے حد ’ذاتی‘ اور ’نظریاتی‘ بنیادوں پر جاری رہی ہے۔ اس سے پہلے وہ اسلحے کے نگران تھے اور اب ٹیکسز کے نگران ہیں۔ وہ مجھے فخر سے بتاتے ہیں کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے وہ حکومت کے مقابلے میں کم ٹیکس لے رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ طالبان بیرونی دنیا کے سامنے اپنا ایک نسبتاً نرم تشخص پیش کرنا چاہتے ہیں مگر ملک کے دیگر حصوں میں اطلاعات کے مطابق طالبان زیادہ سختی سے پیش آ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فرق مقامی کمانڈروں کے رویوں کی وجہ سے ہو۔ طالبان کے زیرِ قبضہ چند علاقوں سے ماورائے عدالت انتقامی قتل اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی اطلاعات سامنے آنے پر مغربی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان نے بزورِ طاقت ملک پر قبضے کرنے کی کوشش کی تو افغانستان کو عالمی طور پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب ہم نے بلخ کا دورہ کیا اور وہاں طالبان کی مقامی عدالت گئے تو وہاں زیر سماعت زیادہ تر کیس زمین کے تنازعات سے متعلق تھے۔ اگرچہ بہت سے شہری طالبان کے طرز انصاف کے باعث خدشات کا شکار ہیں مگر بہت سے ایسے ہیں جو بدنام اور کرپٹ حکومت کے مقابلے میں جلد انصاف ملنے کا امکان پیش کرتے ہیں۔ طالبان عدالت کے جج حاجی بدرالدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے چار ماہ کے دوران ابھی تک کسی مجرم کو جسمانی سزا کا کوئی حکم نہیں سُنایا ہے۔ اور اس بات پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ طالبان کے پاس اپیل دائر کرنے کے لیے عدالتوں کا ایک نظام ہے جو سخت اور سنجیدہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے گا۔ اب تک طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے باوجود حکومت کا بڑے شہروں پر کنٹرول موجود ہے۔ مگر آئندہ چند ماہ میں شاید تشدد مزید شدت اختیار کر جائے کیونکہ طالبان اور حکومت کے درمیان کنٹرول کی جنگ مزید تیز ہو گی۔
/urdu/pakistan-56664659
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ریپ سے متعلق بیان کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ ادھر برطانوی میڈیا میں اس بیان سے متعلق خبریں شائع ہونے کے بعد عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔
یہ تبصرے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا ایک نمونہ ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی کو قرار دیا تھا۔ ادھر برطانوی میڈیا میں عمران خان کے اس بیان سے متعلق خبریں چھپنے کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں کئی معروف خواتین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی حلقوں نے ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ’ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے‘۔ پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان نے بھی اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ شئیر کیا تھا۔ سڑک کے بیچ پر کھڑے ہو کر انھوں نے ویڈیو میں کہا کہ: 'آپ نے ہمیشہ میری طرف سے لڑکیوں کے سائیکل چلانے پر حوصلہ افزائی کا سنا ہوگا۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی۔ یہ غیر محفوظ ہے۔ میں اسلام آباد میں سائیکلنگ کر رہی تھی۔ 'فیض آباد کے قریب ایک بندہ آیا جو شاید دفتر سے آرہا تھا۔ اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا اور بھاگ گیا۔‘ اس خط میں ان کے بیان کی مذمت کے ساتھ ساتھ عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
/urdu/pakistan-61497714
پاکستانی حکام کے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں سے افغانستان میں مذاکرات جاری ہیں۔ ہم جائزہ لیں گے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کس سطح پر ہو رہے ہیں اور یہ ماضی کے مذاکرات سے کتنے مختلف ہیں اور ان سے عام لوگوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ایک جانب پاکستانی حکام کے ساتھ افغانستان میں جاری مذاکرات کے دوران جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری جانب صوبہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں قتل و غارت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کشیدگی کی یہ حالیہ لہر کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کس سطح پر ہو رہے ہیں اور یہ ماضی کے مذاکرات سے کتنے مختلف ہیں۔ تاہم خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہو رہے ہیں تو اس میں صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بیان دے سکتے ہیں۔ پشاور کے سی سی پی او اعجاز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پشاور ہمیشہ سے شدت پسندوں کی ہِٹ لسٹ پر رہا ہے اور ان واقعات کی ذمہ داریاں کالعدم تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان میں بیشتر واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ اس بارے میں عقیل یوسفزئی اور قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی صفدر داوڑ کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات جاری ہیں اور اس عمل کو بڑھایا جا رہا ہے لیکن اب تک کوئی حتمی اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر ان مذاکرات کے بارے میں کوئی تفصیلات دی جار رہی ہیں۔‘ اس کے برعکس دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ سرکاری سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے بلکہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان واپسی کے لیے راستہ اور محفوظ علاقہ مانگ رہے ہیں کیونکہ ٹی ٹی پی کے لوگ اگر واپس آتے ہیں تو اپنے علاقوں میں ان کی دشمنیاں ہیں اور ان کے لیے اپنے علاقے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ بڑی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ کہ افغان امارات اسلامی کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اور یہ کہ امارات اسلامی اس میں ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ آخری قدم کے طور پر اگر افغانستان میں مداخلت بھی کرنا پڑے تو ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق لیکن حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہیں کر سکتی کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے اور اس سے حکومت طالبان کو ایک قوت کا درجہ دے دے گی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ماضی میں ان مذاکرات کے نتیجے میں شدت پسندوں نے کچھ علاقوں میں ایک طرح سے اپنا قانون اور اپنا نظام رائج کر دیا تھا جس میں وہ خود اپنے طور پر لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔
/urdu/pakistan-58437632
حیدرآباد کی نشانی پکا قلعہ کا مرکزی گیٹ منہدم ہوگیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 18ویں صدی میں بنائے گئے اس قلعے کی مرمت کے دوران پیش آیا اور تحقیقات میں معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا یا حادثہ۔
سندھ کے سابق دارالحکومت حیدرآباد کی نشانی پکا قلعہ کا مرکزی گیٹ منہدم ہوگیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دوران مرمت پیش آیا ہے اور تحقیقات میں معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا یا حادثہ۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا پکا قلعہ (جسے سندھی میں پکو قلعو کہتے ہیں) وسطی شہر میں موجود ہے جس کے سامنے یہاں کا قدیم بازار کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے 18ویں صدی میں اس وقت تعمیر کیا گیا جب یہ شہر اس نام سے وجود میں آیا تھا۔ سردار علی شاہ کے مطابق ان کے محکمے نے دیواروں کے ساتھ اس دروازے اور میروں کے ’حرم‘ کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ ’گذشتہ روز مرکزی گیٹ گرنے کا واقعہ حادثاتی طور پر ہوا ہے یا اس میں غفلت ہے، اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘ حیدرآباد کے اس قلعے کی صورتحال تالپور دور حکومت میں خستہ ہونا شروع ہوگئی تھی جس کا پتا خود انگریز فوجی افسران اور سیاحوں کی تحریروں سے ملتا ہے۔ الیگزینڈر برنس لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کی آبادی 20 ہزار تھی۔ ’لوگوں کی اکثریت جھونپڑیوں میں رہتی ہے جبکہ امیر کا اپنا گھر بھی عام سا ہے۔ قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے جس کے چاروں اطراف 10 فٹ اور 8 فٹ گہری کھائی ہے۔ قلعے کے اندر داخل ہونے کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ ایڈورڈ لکھتے ہیں کہ قلعے کے وسط میں ایک بڑا ٹاور ہے جس سے چاروں اطراف پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہاں خزانہ رکھا جاتا تھا جس کی مالیت ’20 ملین سٹرلنگ سے کم نہیں تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں چھوٹے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے جو صرف اس شہر کی کھپت کے مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں یہاں کے رہائشیوں کو لطیف آباد میں متبادل جگہ فراہم کی گئی تھی جن میں سے کچھ لوگ وہاں گئے اور اکثریت واپس آگئی۔ ’موجودہ وقت بھی حکومت سندھ انھیں دوبارہ متبادل جگہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ سندھ کے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو بچایا جائے لیکن مقامی آبادی اس کے لیے راضی نہیں۔‘ کراچی کے بعد حیدرآباد متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ رہا ہے۔ حیدرآباد میں لسانی بل کے معاملے پر متعدد بار لسانی فسادات ہوچکے ہیں۔ ان ہی فسادات کے دوران قلعے کے اندر میوزیم میں توڑ پھوڑ ہوئی اور اس کو آگ لگائی گئی۔
/urdu/sport-60831038
اگر پاکستان فیلڈنگ میں بھی ویسی ہی مستعدی دکھا پاتا جو آفریدی کی بولنگ میں تھی تو شاید آسٹریلوی بیٹنگ اننگز دوسری صبح ہی نہ دیکھ پاتی۔
جس طرح سے پاکستان نے دوسرے دن کی بولنگ کا آغاز کیا، وہ ہرگز اس کارکردگی کے شایانِ شان نہ تھا جو وہ پہلے دن دکھلا چکے تھے۔ نئی گیند کے ساتھ پاکستان کے پاس جو برتری پانے کا سںہرا موقع تھا، وہ گنوا دیا گیا۔ شاہین شاہ آفریدی لاہور کی وکٹ سے ایسے ہی مانوس ہیں جیسے اپنے ہاتھ کی لکیروں سے۔ یہیں چند ہفتے پہلے اُنھوں نے اپنی پی ایس ایل ٹیم لاہور قلندرز کو ان کی پہلی ٹرافی جتوائی۔ قلندرز کے اس سفر میں شاہین کی بولنگ فارم کلیدی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن کل صبح جب اُنھیں سرخ گیند تھمائی گئی تو شاید کوئی بھی لاہور کی اس سست وکٹ پر ایسے تُند آغاز کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ عمومی شہرت کے برعکس یہاں آفریدی کا پہلا نہیں، بلکہ دوسرا اوور تھا جو آسٹریلوی ٹاپ آرڈر کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ اوپر تلے وارنر اور لبوشین کی وکٹیں حاصل کر کے شاہین نے گویا پاکستان کے لیے ایک خواب ناک آغاز میسر کر دیا۔ اگر پاکستان فیلڈنگ میں بھی ویسی ہی مستعدی دکھا پاتا جو آفریدی کی بولنگ میں تھی تو شاید آسٹریلوی بیٹنگ اننگز دوسری صبح ہی نہ دیکھ پاتی۔ مگر عثمان خواجہ اور سٹیو سمتھ کی صبر آزما پارٹنرشپ کے بیچ پاکستان نے کئی مواقع گنوائے۔ پاکستان نے یہاں اپنی ٹیم کے چناؤ میں ایک خاصا عجیب سا فیصلہ کیا کہ فہیم اشرف کو ڈراپ کر کے ان کی جگہ نسیم شاہ کو بولنگ اٹیک میں شامل کیا۔ حالانکہ نسیم شاہ کی واپسی کے لیے حسن علی بھی جگہ خالی کر سکتے تھے جو فارم اور فٹنس کے مسائل سے دوچار ہیں۔ بعینہٖ اگر ریورس سوئنگ شروع ہو جائے تو یہ لینتھ بلے بازوں کو تشکیک میں مبتلا کر دیتی ہے۔ وہی تشکیک جو یہاں ہمیں مچل سٹارک اور نیتھن لیون کی بیٹنگ میں نظر آئی۔ جن دو گیندوں پر اُنھیں پویلین لوٹنا پڑا، دونوں ہی ریورس سوئنگ پر عبور کی عکاس تھیں۔ اگرچہ پاکستان صبح کے سیشن میں وہ بولنگ نہ کر پایا جو پہلے روز کی شہ سرخی رہی تھی مگر لنچ کے بعد کے سیشن میں پاکستان نے جس مہارت سے بولنگ کی وہ نظم و ضبط اور صلاحیت کی عمدہ مثال تھی جس نے یہ یقینی بنایا کہ آسٹریلیا یہاں پہلی اننگز میں ہی میچ لے نہ اڑے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پاکستان کو یہاں کوئی برتری حاصل ہے مگر یہ برتری حاصل ضرور کی جا سکتی ہے اگر پاکستان اپنی بیٹنگ اننگز اسی جذبے سے شروع کرے جیسے یہ کراچی میں تمام ہوئی تھی۔ اور شکست و فتح تو بھلے تین روز بعد طے ہو گی مگر فی الوقت یہ نوید ہی کم نہیں کہ پاکستان کو شاید اپنا خوابناک پیس اٹیک مل گیا ہے۔
/urdu/pakistan-53765140
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین کے مطابق معراج احمد گزشتہ کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار تھے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بدھ کی شب احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک 61 سالہ شخص کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔ پولیس تھانہ ڈبگری نے اس قتل کا مقدمہ ہلاک ہونے والے شخص معراج احمد کے بیٹے کی مدعیت میں درج کر لیا ہے۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ واقعہ مذہبی منافرت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق ’معراج احمد گزشتہ کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی جبکہ ان کی دکان میں کام کرنے والے ملازمین نے بھی حال ہی میں ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘ معراج احمد کے بیٹے کے مطابق وہ ڈبگری گارڈن میں واقع اپنا میڈیکل سٹور بند کر کے گھر واپس جا رہے تھے جب انھیں اطلاع ملی کہ ان کے والد کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کے والد کی لاش پڑی تھی جنھیں آتشین اسلحے سے قتل کیا گیا تھا۔ معراج احمد کے بیٹے کی جانب سے درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کے والد کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'میں نہیں جانتا کہ میرے والد کو کس نے قتل کیا ہے اور نہ ہی وہ کوئی مشہور آدمی تھے۔ ان کی اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ تلخ کلامی نہیں ہوئی تھی۔' انھوں نے بتایا کہ پہلے ان کے والد میڈیکل سٹور پر خود کام کرتے تھے مگر عمر کے تقاضے کی وجہ سے اب ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ سے اب وہ خود میڈیکل سٹور پر ڈیوٹی نہیں دیا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے والد زیادہ تر وقت گھر ہی پر گزارتے تھے تاہم شام کے اوقات میں تھوڑا بہت باہر نکلتے تھے۔ جماعت احمدیہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ معراج احمد کی تدفین ربوہ میں کر دی گئی ہے اور انھوں نے سوگوران میں بیوہ، تین بیٹے اور بیٹی چھوڑی ہے۔ جماعت کے ترجمان کے مطابق ریاستی ادارے احمدیوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں احمدیوں کی جان و مال کو خطرات بڑھ چکے ہیں۔ ایس ایس پی پشاور منصور امان کے مطابق واقعے کے بعد پولیس نے اعلیٰ سطح پر تفتیش شروع کر دی ہے اور جائے وقوعہ سے ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ پشاور پولیس کے مطابق واقعے کے بعد پولیس نے کئی لوگوں سے پوچھ کچھ کی ہے اور چند مشکوک افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
/urdu/regional-56059791
'کُو' نامی مائیکرو بلاگنگ ایپ کو اس سے کہیں بڑے اور وسیع امریکی پلیٹ فارم ٹوئٹر کی جگہ سرکاری محکموں میں ترجیحی بنیادوں پر رائج کیا جا رہا ہے۔
یہ چوزہ 'کُو' نامی اس مائیکرو بلاگنگ ایپ کا نشان ہے اور اس کو کہیں بڑے اور وسیع امریکی پلیٹ فارم ٹوئٹر کی جگہ سرکاری محکموں میں ترجیحی بنیادوں پر رائج کیا جا رہا ہے۔ اس نے ٹوئٹر پر 'دوہرے معیار' اپنانے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹوئٹر نے امریکہ کے کیپیٹل ہل کے محاصرے کے دوران غلط یا گمراہ کن معلومات پھیلانے کے خلاف تو کارروائی کی تھی لیکن 26 جنوری کو دہلی کے لال قلعے میں ہونے والے احتجاج کے دوران اسی طرح کے کام کرنے والوں کے خلاف اس نے وہ رخ اختیار نہیں کیا۔ انڈین مائیکرو بلاگرز کے لیے 'کُو' کی خاص بات یہ ہے کہ اس وقت یہ پانچ قومی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی دستیاب ہے اور اس میں مزید 12 قومی زبانوں کو متعارف کرانے کے منصوبے ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں لانچ کیے جانے والے اس پلیٹ فارم کو حکومت کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ خود انحصاری کا دعویٰ کرتی ہے۔ 'کُو' بھی ٹوئٹر کی طرح ہی کام کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے آغاز کے بعد سے اب تک اسے 30 لاکھ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے جس میں سے ایک تہائی فعال صارف ہیں۔ اسے 'میڈ اِن انڈیا' کی ایپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ٹوئٹر پر بہت سے صارفین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسے چینی حمایت بھی حاصل ہے۔ متعدد وزرا اور بی جے پی کے حامیوں نے انڈیا کے بنے اس ایپ کی حمایت کی ہے البتہ بہت سے لوگوں نے امریکہ کے سوشل میڈیا ایپ پارلر کے ساتھ اس کا موازنہ کیا ہے۔ پارلر نے ایک 'فری سپیچ' پلیٹ فارم کی حیثیت سے خود کو متعارف کرایا لیکن پھر وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ساتھ کیو اینون جیسے سازشی تھیوری گروپس اور دائیں بازوں کے خیالات رکھنے والوں میں بھی مقبول ہوگیا کیونکہ بہت سے افراد ٹوئٹر کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے۔ حال ہی میں انڈیا کے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ اس ایپ پر اب ان کے پانچ لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ ان کی وزارت کے اکاؤنٹ کے فالوورز کی تعداد پچھلے کچھ دنوں میں ایک لاکھ 60 ہزار سے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ 'کُو' پر بے حد مقبول ہونے والی چند پوسٹس کو چینل پر نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اور اس کے ٹی وی پروگرامز میں ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز کی تشہیر کی جاتی ہے۔ نکھل پہوا کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اس کے موثر ماڈریشن کی کمی کے سبب انتہاپسندانہ نظریات کا دروازہ کھل سکتا ہے کیونکہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر 'یہاں تک کہ اصل ناموں اور توثیق شدہ شناختوں کے تحت بھی نفرت انگیز مواد پوسٹ کیے جاتے ہیں۔'
/urdu/regional-50697227
انڈیا میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2012 کے بعد سے ریپ کے مقدمات میں تقریباً ہر چار میں سے صرف ایک ملزم کو سزا دی جاتی ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں کیا سزا دینے کی یہ شرح کم ہے؟
جنوبی انڈیا میں ایک نوجوان لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعے کے چار ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت نے ایک بار پھر انڈیا میں ملک کے عدالتی نظام اور اس سے منسلک مشکلات پر بحث شروع کردی ہے۔ سنہ 2017 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں روزانہ ریپ کے اوسطاً 90 واقعات کی شکایتیں درج ہوتی ہیں۔ ہم نے اعداد و شمار پر غور کرنےکے بعد انڈیا کا موازنہ دوسرے ممالک کے ساتھ کیا ہے۔ انڈیا کے دارالحکومت دلی میں 2012 میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی ریپ اور ان کے قتل کے واقعے کے بعد انڈیا میں خواتین کے خلاف ریپ اور جنسی تشدد کے معاملات کو زیادہ توجہ ملی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے ریپ کے واقعات کی شکایت درج کروانے کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار نمایاں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تعداد سنہ 2012 میں 25000 سے بڑھ کر سنہ 2016 میں 38000 تک پہنچ گئی۔ تازہ ترین اعداد و شمار سنہ 2017 کے ہیں جن کے مطابق ریپ کے 32559 واقعات کی شکایات پولیس تھانوں میں درج کروائی گئیں۔ جبکہ سنہ 2012 کے بعد سے سزا دیے جانے کی شرح میں قدرے اضافہ ہوا لیکن پھر سنہ 2016 میں یہ شرح کم ہو کر تقریباً 25 فیصد سے کچھ زیادہ رہ گئی۔ انڈیا کی عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے اور جس طرح بعض اوقات متاثرین اور اہم گواہوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، اس کے باعث ملزمان کو سزا دلوانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اںڈیا میں ریپ کے مقدمات میں سزا دینے کی شرح بعض ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ نظر آتی ہے۔ سنہ 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ میں عدالت تک پہنچنے والے ریپ کے مقدمات میں صرف آٹھ فیصد ملزمان کو ہی سزا سنائی گئی۔ جبکہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کی سنہ 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش میں یہ شرح بہت ہی کم رہی۔ بعض ممالک میں جہاں ‎سزا دیے جانے کی شرح زیادہ ہے وہاں یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم مقدمات عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اسی وجہ سے ریپ کے مقدمات میں مجموعی طور پر نسبتا کم ہی سزائیں ہوتی ہیں۔ رواں سال انگلینڈ اور ویلز میں عدالت تک پہنچنے والے ریپ کے مقدمات کا تناسب ایک دہائی میں کم ترین سطح پر تھا جس کا سبب استغاثہ کی خواہش سے ہے کہ وہ سزا دیے جانے کی شرح کو 60 فیصد سے زیادہ رکھنا چاہتے ہیں۔ عالمی سطح پر صنفی مساوات کے لیے کیے گئے سروے میں زیادہ سکور کرنے کے باوجود، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے سویڈن اور دیگر نورڈک ممالک کو ریپ اور جنسی تشدد کے مقدمات میں سزاؤں کی نسبتاً کم شرح کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
/urdu/science-54565502
ناسا، ایریون اور بوم سپرسونک تینوں ہی اپنے اپنے سپر سونک طیارے بنا رہی ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے حریف نہیں ہوں گے بلکہ مختلف اقسام کے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کریں گے۔
اور اس کے بعد ایریون نامی کمپنی بھی موجود ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس کا ’اے ایس ٹو‘ ڈیزائن اس دہائی کے آخر تک سپرسونک رفتار کی شہری پروازیں شروع کر دے گا۔ مگر محض آٹھ سے 10 مسافروں کی گنجائش کے حامل اس طیارے کی نظریں ایک بالکل مختلف مارکیٹ پر ہیں، یعنی سپرسونک کاروباری سفر۔ بینسٹر کہتے ہیں کہ یہ بات زیرِ غور ہونی چاہیے کہ یہ طیارے ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ کمرشل پروازوں کے شعبے میں داخل ہونے والے یہ طیارے بالکل مختلف شعبوں میں کام کریں گے۔ بزنس جیٹ طیارے چلانے والی کمپنیاں اپنے کلائنٹس کو مختلف اقسام کے طیاروں کی پیشکش کرتی ہیں اور ایریون کے حکام سمجھتے ہیں کہ اے ایس ٹو ان بیڑوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہو سکے گا۔ انھیں امید ہے کہ وہ 10 برسوں میں 300 طیارے فروخت کر سکیں گے۔ مگر باوجود اس کے کہ بوم نے سمندر پر سپرسونک رفتار سے پرواز کرنے کا اعلان کیا ہے اور بوم کو یقین ہے کہ خشکی کے اوپر آواز کی رفتار سے زیادہ تیز پروازوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے، اب بھی امریکی ریگولیٹری اداروں نے شہری سپر سونک پروازوں سے پابندی ہٹائی نہیں ہے۔ ناسا کو لگتا ہے کہ سونک بوم اب بھی سپر سونک پروازوں کو دوبارہ شروع کروانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھلے ہی ناسا کی اپنی سپرسونک تحقیق میں شامل منصوبہ ایکس بی ون اور ایکس 59 ایک ہی کام کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں مگر اس کے باوجود ایکس 59 ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ ایکس 59 ایک طویل پینسل جیسا جہاز ہو گا جس میں آگے اور پیچھے کی جانب فور پلینز (کینارڈز) کہلانے والے چھوٹے پروں اور دم کی سطح کے درمیان تکونے پر (ڈیلٹا ونگز) موجود ہوں گے اور اس میں کاک پٹ جہاز کی ناک میں کہیں پیچھے کی جانب ہو گا۔ اس سب کی وجہ سے ایکس 59 ایک ترقی پذیر ٹیکنالوجی ہے جو مستقبل میں زیادہ سے زیادہ مسافروں کو سپرسونک پروازیں کروا سکے گی۔ آواز کی رفتار سے اعشاریہ چار گُنا زیادہ کی حد کے حامل ایکس 59 کی کوشش ہو گی کہ اس کا سونک بوم بمشکل ہی زمین سے ٹکرائے۔ یہ سب ’این ویو‘ نامی لہر پر منحصر ہے اور اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ جب سونک بوم اونچائی سے زمین کی جانب آتا ہے تو جو دباؤ ہم محسوس کرتے ہیں وہ انگریزی حرف این کی شکل کا ہوتا ہے۔ ایکس 59 کی کوشش ہے کہ ریگولیٹری ادارے ایک قابلِ برداشت سونک بوم کی حد متعین کریں۔
/urdu/pakistan-48935161
عمران خان کے دورۂ امریکہ کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ یہ ایک ’ورکنگ وزٹ‘ ہے جس میں قیام و طعام کی ذمہ داری مہمان کی ہوتی ہے نہ کہ میزبان کی۔
عمران خان کا دورہ امریکہ سفارتی آداب کے تحت ’ورکنگ وزٹ‘ کی کیٹگری میں آئے گا۔ اس کیٹگری کے تحت عموماً مہمان سربراہ مملکت کو امریکی صدر کے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت نہیں دی جاتی منگل کی شام عمران خان کے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس دورے کے دوران سرکاری وسائل کا بےجا استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ وہ فائیو سٹار ہوٹل کے بجائے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔ منگل کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عمران خان کے دورہ امریکہ پر لاعلمی کے اظہار پر بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا اور اس کو غیر معمولی کہا جا سکتا ہے مگر اس میں پاکستان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے مطابق اس کا حالیہ ثبوت صدر ٹرمپ کا وہ بیان بھی ہے جس میں انھوں نے برطانیہ کے سفیر سے بات نہ کرنے کا کہا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ان کے پاس اس طرح کی کوئی ہدایات نہیں آئی اور یہ کہ امریکہ کے برطانیہ سے گہرے تعلقات ہیں جب تک ہمارے پاس باضابطہ حکم نہیں آتا تب تک ہم بات چیت جاری رکھیں گے۔ نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ہم امریکہ کی بات کریں تو یہاں سفارتی دوروں کی درجہ بندی میں پروٹوکول کے حساب سے سب سے بڑا دورہ ’سٹیٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو امریکی صدر کی جانب سے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر ’آفیشل ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات کے ساتھ ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت شامل ہوتی ہے۔ جبکہ اس میں مہمان کو سرکاری گیسٹ ہاوس ’بلیئر ہاوس‘ میں قیام کی سہولت اس کی دستیابی کی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔ چوتھے نمبر پر ’ورکنگ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سے ملاقات ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ اس میں کھانے کی دعوت شامل نہیں ہوتی اور دورہ کرنے والے مہمان کو اپنے قیام اور دیگر امور کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے۔ اور آخری نمبر پر ’پرائیویٹ وزٹ‘ ہوتا ہے جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ مملکت، حکومتی سربراہ یا وزیر خارجہ امریکی صدر کی دعوت کے بغیر امریکہ کا دورہ کرتے ہیں، وہ وہاں امریکی صدر سے ملاقات کی درخواست کر سکتے ہیں اور انھیں امریکی صدر کی مصروفیات کے مطابق ملاقات کا وقت دیا بھی جا سکتا ہے اور مصروفیت کی صورت میں انکار بھی ہو سکتا ہے۔ ورکنگ وزٹ کی طرح پرائیوٹ وزٹ پر اٹھنے والے اخراجات بھی مہمان ہی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔
/urdu/world-57377220
ٹوئٹر نے کووڈ ویکسین کے خلاف غلط خبریں پھیلانے پر امریکی مصنفہ ناؤمی وولف کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔
نومی وولف ٹوئٹر نے کووڈ ویکسین کے خلاف غلط خبریں پھیلانے پر امریکی مصنفہ ناؤمی وولف کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر نومی وولف نے کووڈ وائرس کی تیسری لہر کے دوران ’دی بیوٹی متھ‘ نامی کتاب سے شہرت حاصل کی ہے۔ انھوں نے کووڈ ویکسین سے متعلق بڑی تعداد میں بے بنیاد اور سازشی نظریات کو بھی خوب ترویج دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ویکسین ایک سوفٹ ویئر پلیٹ فارم ہے جو اپ لوڈ کے نوٹیفیکیشن موصول کر سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک لاکھ اور 40 ہزار سے زائد فالورز کے سامنے امریکہ کے کووڈ پر ایڈوائرز ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا موازنہ شیطان سے کیا۔ اپنے ایک تازہ ترین ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’ایسے لوگ جنھوں نے ویکسین لگوائی ہے ان کے پیشاب کو بھی نکاسی کی عام سپلائی سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ پینے کے پانی کے ذریعے ایسے لوگوں پر اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا ہے جنھوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے۔‘ ڈاکٹر ناؤمی وولف نے بغیر تصدیق کے ٹویٹ کیے اور ان میں سے ایک وہ بھی شامل ہے جس میں بالغوں کے بننے والی فلموں کے ایک امریکی اداکار ڈاکٹر کے روپ میں کھڑا ہے۔ ٹوئٹر پر کئی لوگوں نے ڈاکٹر ناؤمی وولف کے اکاؤنٹ کی معطلی کو اچھا فیصلہ قرار دیا ہے۔ پروفسیر گیون یامے نے ٹویٹ کیا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر ناؤمی وولف کے ٹویٹس کو انتہائی خوفناک، خطرناک اور فضول قرار دیا ہے۔ تاہم کچھ ایسے صارفین بھی ہیں جنھوں نے ڈاکٹر ناؤمی وولف کے اکاؤنٹ کی معطلی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادی اظہار رائے کو دبانے کے مترادف ہے۔ سنہ 2019 میں ایک امریکی ناشر نے ڈاکٹر ناؤمی وولف کی کتاب کو حقائق سے متعلق درست معلومات نہ ہونے سے متعلق تحفظات سامنے آنے کے بعد منسوخ کر دیا تھا۔ بی بی سی ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈاکٹر ناؤمی وولف نے اپنی کتاب میں 19 ویں سینچری سے تعلق رکھنے والی قانونی اصطلاحات کو غلط انداز میں لیا ہے۔
/urdu/pakistan-60156340
وفاقی حکومت نے ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت میں سات سو کے قریب ترامیم کے مسودے کی منظوری دی ہے، جسے اب پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت نے ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت میں سات سو کے قریب ترامیم کے ایک مسودے کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد اسے باقاعدہ منظوری کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق ضابطہ فوجداری کے قوانین میں ترامیم کے لیے نہ صرف ماہرین ِقوانین بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریٹائرڈ اور احاضر سروس افسران سے رائے اور تجاویز طلب کی گئی تھیں۔ اہلکار کے مطابق ضابطہ فوجداری کے قوانین میں ترامیم کے لیے ماہرین سے آراء لینے اور انھیں تجاویز کی شکل دینے میں سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ حالیہ ترامیم میں تجویز دی گئی ہے کہ اگر مقدمہ غلط ثابت ہو تو ایف آئی آر درج کرنے والے شخص پر پانچ سے سات سال تک سزا کے علاوہ پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ اس سے پہلے مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے پر مدعی مقدمہ کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ کے تحت کارروائی کی جاتی تھی اور وہ بھی اس صورت میں جب متاثرہ فریق مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کروانا چاہے۔ ضابطہ فوجداری اور تعزیرات پاکستان میں ترامیم کی ان تجاویز کے ساتھ ساتھ قانون شہادت میں ترمیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ویڈیو اور آڈیو کو مستند ہونے کی صورت میں قابل قبول سمجھا جائے گا۔ ضابطہ فوجداری کے میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ کسی بھی شخص کی جانب سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کسی پولیس افسر کو اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت مجٹسریٹ کو دیے جانے والے بیان کی ویڈیو بنائی جائے گی اور اسے مقدمے کی سماعت کے دوران متعقلہ عدالتوں میں بطور ثبوت پیش کیا جائے گا۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ قانون شہادت میں گواہ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور اگر وہ عدالت میں طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہ ہو تو عدالت گواہ کی جائیداد کی ضبطگی کے احکامات بھی دے سکتی ہے۔ وزارت قانون کے اہلکار کے مطابق اگر کوئی ایسی ویڈیو، جو کہ پبلک مقام پر بنائی گئی ہے اور فرانزک لیب اس کے مستند ہونے کی تصدیق کرتی ہے، تو ایسی صورت میں ویڈیو بنانے والے کا عدالت میں پیش ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان ترامیم میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متعلقہ عدالت کریمنل مقدمات کا فیصلہ نو ماہ میں کریں گی جبکہ سول نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں کیا جائے گا۔ وکلا برادری کی سب سے اہم تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے حکومت کی طرف سے ضابطہ فوجداری قوانین میں ترامیم کی تجاویز کو یکسر مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس ضمن میں ان سے نہ تو کوئی تجاویز مانگی گئی تھیں اور نہ ہی اس حوالے سے کسی نے ان سے رابطہ کیا ہے۔
/urdu/regional-60864154
اگرچہ کشمیر پر انڈیا کا مؤقف متوقع ہے لیکن چین کے خلاف اس کا ایسے وقت میں سخت ردعمل جب کہ چین کے وزیر خارجہ انڈیا کے دورے پر آنے والے ہیں ایک حد تک حیران کن ہے۔
ایسی صورتحال میں جب کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کا انڈیا کا دورہ متوقع ہے، کشمیر پر دونوں ممالک کے بیانات خطے میں بحث کا موضوع بن گئے ہیں۔ انڈیا نے اس بیان پر چین کے وزیر خارجہ کا نام لے کر ردعمل دیا جسے ایک غیر معمولی عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ نے بدھ کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم او آئی سی کے افتتاحی تقریب میں تقریر کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی طرف سے انڈیا کے نام نہاد حوالے کو مسترد کرتے ہیں۔‘ انڈیا کی وزارت امور خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی کے ذریعے جاری کی گئی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے سے متعلق معاملات مکمل طور پر انڈیا کے اندرونی معاملات ہیں۔ چین سمیت دیگر ممالک کے پاس تبصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ انڈیا اپنے اندرونی مسائل کے بارے میں عوامی فیصلے سے گریز کرتا ہے۔‘ اگرچہ کشمیر پر انڈیا کا مؤقف متوقع ہے لیکن چین کے خلاف اس کا ایسے وقت میں سخت ردعمل جب کہ چین کے وزیر خارجہ انڈیا کے دورے پر آنے والے ہیں ایک حد تک حیران کن ہے۔ چینی اُمور کے ماہر پروفیسر سری کانت کونڈاپلی کہتے ہیں کہ 2019 میں جب سے چین نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا، انڈیا کشمیر پر چین کے مؤقف کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ سری کانت کا خیال ہے کہ چین سے منسلک مسائل پر انڈیا کے ہوشیار ردعمل کا لداخ کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جبکہ وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ پارلیمنٹ کی 2019 کی قرارداد نے لداخ میں زمینی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر یہ کہنا چاہتے تھے کہ ’ہم نے چینی کنٹرول میں کسی بھی علاقے کو قبضہ نہیں کیا ہے۔ چین نے لداخ یونین ٹیریٹری کو غیر قانونی کہہ کر اس مسئلہ کو اٹھایا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’او آئی سی میں اس طرح کی قرارداد آتی ہیں اور پہلے بھی آتی تھیں۔ جب بھی دونوں فریقین کی بات ہوتی تھی تو کوئی عرب یا اسلامی ملک اس مسئلے کو نہیں اٹھاتا۔ اور یہ ملک اپنے ملک میں بھی جا کر اس کے لیے مہم نہیں چلاتے۔ یہ تھوڑا پاکستان کا دباؤ ہوتا ہے کہ عوامی جلسے کے وقت پر کشمیر یا فلسطین پر بیان آتا ہے۔‘ تاہم سری کانت کا کہنا ہے کہ انڈیا کا حالیہ بیان اس کی چین کی مخالفت میں واضح اضافہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ جزوی طور پر اس لیے ہے کہ کمانڈر سطح کی کئی میٹنگوں کے بعد بھی [انڈیا اور چین سے متعلق] معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں تاکہ جھڑپیں بند اور تناؤ کو ختم کیا جا سکے۔‘
/urdu/pakistan-50736957
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے سیشن کے آغاز سے قبل بلاامتیاز ان اراکین کے پروڈکشن آڈرز جاری کرنا سپیکر کا فرض ہے اور ایسا نہ کرنے کا مطلب لوگوں کے حقوق کی نفی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے منگل کے روز پارلیمان کے ایوان زیریں میں خطاب کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو ہدفِ تنفید بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (اسد قیصر) کسی دباؤ کی وجہ سے ایوان کے اُن منتخب ارکین کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر رہے جو مختلف مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں۔ سابق وزیر اعظم کو منگل کے روز ان کے پروڈکشن آرڈرز کے اجرا کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں لایا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا رویہ غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب اُنھوں نے دیگر اسیر اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی استدعا کی تھی تو اُنھوں (اسد قیصر) نے ایک سیکشن افسر کے ذریعے اُنھیں خط لکھا تھا کہ پروڈکشن آرڈرز کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ اس خط کو قومی اسمبلی کی لائبریری کے ریکارڈ میں رکھوائیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اُنھیں پروڈکشن آرڈرز کے سلسلے میں عدالتوں سے ریلیف ملا ہے۔ اُنھوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مشورہ دیا کہ وہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی نااہلی کے مقدمے کا فیصلہ پڑھ لیں جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی حلقے کی عوام کو پارلیمان میں اس کی نمائندگی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیشن کے آغاز سے پہلے بغیر کسی امتیاز کے ان اراکین کے پروڈکشن آڈرز جاری کرنا ان کا فرض ہے اور ایسا نہ کرنے کا مطلب لوگوں کے حقوق کی نفی ہے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے پروڈکشن آرڈرز چار دسمبر کو جاری کیے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد 10 دسمبر کو کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو کہا کہ کیا ’آپ میں ہمت ہے کہ اس کا نوٹس لیں کہ آپ کے حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا۔‘ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ سپیکر قومی اسمبلی سے پروڈکشن آرڈرز کے اجرا کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے رانا ثنا اللہ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر احتجاجاً قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے سابق وزیر اعظم کو اپنی وضاحت دینا چاہی لیکن شاہد خاقان عباسی اس سے قبل ایوان چھوڑ چکے تھے۔ قومی اسمبلی کی کارروائی میں طلبا یونین پر سے پابندی اُٹھانے کا معاملہ بھی زیر بحث رہا اور اس بارے میں ایوان کے رائے منقسم تھی جس کی وجہ سے یہ معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
/urdu/pakistan-54498208
صوبہ خیبر پختونخوا میں سوات یونیورسٹی کے وویمن کیمپس کی خاتون پروفیسر نے پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی اور دھمکیوں کے خلاف درخواست جمع کروائی ہے تاہم یونیورسٹی ترجمان نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں قائم سوات یونیورسٹی کے وویمن کیمپس کی خاتون پروفیسر نے پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی اور دھمکیوں کے خلاف درخواست جمع کروائی ہے۔ خاتون پروفیسر کی جانب سے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر سوات کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کو سوات یونیورسٹی کے انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ خاتون پروفیسر نے درخواست میں ان موبائل نمبرز کی تفصیل بھی فراہم کی ہے جن سے انھیں کالز اور پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ یہ چھ مختلف نمبر ہیں جن میں سے ایک برطانیہ کا ہے۔ سوات یونیورسٹی کے ترجمان نے پروفیسر کے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ سوات یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق یہ خاتون سوات یونیورسٹی کے وویمن کیمپس میں انتظامی عہدے پر تعینات ہیں اور انھیں ’دو مرتبہ مناسب کارگردگی نہ دکھانے پر شوکاز نوٹسز جاری ہو چکے تھے۔‘ ترجمان کے مطابق ’یونیورسٹی کے اندر اس طرح کی شکایات کے ازالے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے شعبہ قائم ہے۔ اگر خاتون پروفیسر کو کوئی شکایت تھی تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس شعبے سے رجوع کرتیں اور اگر ان کی شکایت کا ازالہ نہ ہوتا تو اس کے بعد پولیس سے رجوع کرتیں۔‘ ایس ایچ او تھانہ تانجو مجید عالم نے بتایا کہ خاتون پروفیسر کی جانب سے دو روز قبل درخواست جمع کروائی گئی ہے۔ جس میں واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پیغامات بھی منسلک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاتون نے اپنی درخواست کے ہمراہ ایک بڑی فائل ثبوتوں کے طور پر فراہم کی ہے جس کی جانچ کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ خاتون نے ایسی درخواستیں بھی جمع کروائی ہیں جو انھوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو کارروائی کے لیے دی تھیں۔ مجید عالم کا کہنا تھا کہ پولیس اس وقت پوری تن دہی سے اس درخواست پر اپنی تفتیش کررہی ہے۔ خاتون نے جن نمبروں سے متعلق شکایات کی ہیں ان کی سی ڈی آر بھی نکالی جا رہی ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں طویل عرصے سے دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’رات کے دو دو بجے مجھے فون کیے جاتے اور پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ مجھے واضح طور پر کہا گیا کہ اگر میں ناجائز مطالبات کو تسلیم نہیں کروں گی تو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ ان کا کہنا تھا ’معذرت کے دو لفظ کیا لکھتے، انھوں نے مجھے شکایت کا خط واپس لینے کے لیے خط کا نمونہ بھی بھیجا۔ جس پر میں نے انکار کیا تو دباؤ، دھمکیوں اور ہراسانی میں اضافہ ہو گیا۔‘ ’میرے ساتھ جو ہونا ہے ہو جائے مگر امید ہے کہ اس کے بعد کم از کم سوات یونیورسٹی کے اندر آئندہ کسی کو کسی خاتون کے ساتھ ہراسانی کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔‘
/urdu/pakistan-52413727
بی بی سی اردو نے ایک خصوصی فوڈ سیریز شروع کی ہے جس میں وہ پکوان گھر پر تیار کرنے کی ترکیب بتائی جائے گی جو عموماً صرف بازار ہی سے خریدنے کا رواج تھا: آج کا پکوان ہے قتلمہ
دنیا کے کئی مسلمان ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی روزہ افطار کرنے کے لیے خاص قسم کے پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پکوان بازار سے لانے کو فوقیت دی جاتی ہے لیکن اس بار کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں لاک ڈاؤن ہے اور حکام لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ ایسے میں بی بی سی اردو نے ایک خصوصی فوڈ سیریز شروع کی ہے جس میں وہ پکوان گھر پر تیار کرنے کی ترکیب بتائی جائے گی جو عموماً صرف بازار ہی سے خریدنے کا رواج تھا۔ آج کا پکوان ہے قتلمہ: مزید دیکھیے وقاص انور کی اس رپورٹ میں
/urdu/science-51837177
عالمی وبا عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہوا، لوگوں کو آرام سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں مؤثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو اور کورونا وائرس ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔
اس حوالے سے یہ سوال عام پوچھا جا رہا ہے کہ وباؤں کے مختلف درجوں این ڈیمک (endemic)، ایپی ڈیمک (epidemic)، اور پین ڈیمک (pandemic) میں کیا فرق ہوتا ہے اور یہ کہ اب تک آخرالذکر اصطلاح یعنی عالمی وبا کورونا وائرس کے لیے استعمال کیوں نہیں کی جا رہی تھی۔ عالمی وبا کی اصطلاح کسی بھی ایسی متعدی بیماری کے لیے مختص ہے جس میں مختلف ممالک میں ایک کثیر تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر بیمار پڑ رہے ہوں۔ آخری مرتبہ سنہ 2009 میں سامنے آنے والے سوائن فلو کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا جس سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ عالمی وبا عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہوا، لوگوں کو آرام سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں مؤثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو۔ نیا کورونا وائرس ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا نا تو کوئی علاج ہے اور نہ ہی ایسی ویکسین جو اسں کی روک تھام کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ سمجھنے کے لیے ہم فلو کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایک انسان سے دوسرے انسان میں کھانسنے یا چھینکنے سے پھیل سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تب بھی پھیل سکتا ہے کہ جب کسی بیمار شخص کا بلغم کسی جگہ موجود ہو۔ ’اس لیے اپنے ہاتھ دھونا بہت ضروری ہے۔‘ مگر اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ اب یہ اصطلاح (عالمی وبا) اس لیے استعمال کر رہا ہے کیونکہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ’اقدامات کی خطرناک حد تک کمی‘ پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ فروری کے اختتام پر ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس میں عالمی وبا بننے کی صلاحیت ہے مگر فی الحال ہم ’اس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کو وقوع پذیر ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘ مگر وقت کے ساتھ مختلف ممالک میں اس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اب 114 ممالک میں کورونا وائرس کے 118000 مصدقہ کیسز ہیں۔ وائرس کے بارے میں زبان کی تبدیلی اس وائرس کے اثرات میں بدلاؤ نہیں لاتی مگر اب عالمی ادارہ صحت کو امید ہے کہ کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد ممالک اس سے نمٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں گے۔ ایک بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس اصطلاح کا غلط استعمال کیا گیا تو یہ غیر ضروری خوف اور مایوسی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس سے اموات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
/urdu/vert-tra-57283012
سنگاپور کی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کے قریب ہی ایک دیہی ’نخلصتان‘ موجود ہے، جو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ تیزی سے ترقی کرتا ہوا یہ ملک کبھی کیسا ہوا کرتا تھا۔
یہاں وہ پھول پودے مثلاً مقامی ساحلی درخت کیٹاپانگ اگے ہوئے ہیں جو کنکریٹ کے سنگاپور سے پہلے اس کا مکمل احاطہ کیے ہوئے تھے۔ قریب ہی اوپر سے بجلی کی تاریں گذر رہی ہیں جو کہ خود ہی ایک نادر شے نظر آتی ہیں کیونکہ اب یہ شہر کے باقی حصوں میں زیادہ تر زیر زمین ہیں۔ اس کے برعکس قریب ہی حکومت کی طرف سے بنائے گئے بلاک میں ایک کمرے کا کرایہ جو کہ کامپونگ کے مکان کے سائز سے دس گنا چھوٹا ہے، تقریباً اس سے 20 گنا زیادہ ہے۔ اور اس جگہ کو شہر سے تقسیم کرنے والی نہر کے اس پار مکانات چند ملین سنگاپوری ڈالر میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنا بچپن یاد کرتی ہیں جب ان کے والد اس زمین کی دیکھ بھال کرتے تھے اور وہ ان کے پیچھے پیچھے یہاں گھوما کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنے والد سے ہی روایتی چینی طب کا علم سیکھا تھا جو اب وہ اپنے پڑوسیوں کو سیکھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر گاؤں کے مہندی والے پودوں کی پتیوں کو کھلے زخموں اور جلے ہوئے حصوں پر رکھنے سے راحت ملتی ہے اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں کھانے سے آنتوں کے السر سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ سینگ کو پتہ ہے کہ وہ ایک مہنگی جگہ پر بیٹھی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں جگہ کی شدید قلت ہے، اس گاؤں کو خریدنے کی امید کرنے والے ڈِویلپرز کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کے لیے کوئی بھی پیشکش اتنی اہم نہیں جتنا وہ وعدہ ہے جو انھوں نے اپنے مرتے ہوئے باپ سے کیا تھا اور وہ یہ کہ لوورنگ بوانگکوک کا تحفظ کرنا ہے۔ لی کہتے ہیں کہ ’جب پورے علاقے کے بارے میں اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دینے کا وقت آئے گا تو حکومت کو چاہیئے کہ وہ متعلقہ حصہ داروں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ترقیاتی (پروگراموں) کو جامع اور مربوط طریقے سے انجام دیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس وقت وہاں موجود کامپونگ خاندانوں کو پوری طرح شامل کیا جائے، تاکہ ان کی ضروریات اور مفادات کو سمجھا جا سکے۔‘ ’آپ کو کچھ اپنے پیچھے چھوڑنے کی ضرورت ہے جو ہمارے نوجوانوں کو یاد دلائے کہ یہ ملک کیسے بنا۔ ہم ان جھونپڑیوں میں سے آئے ہیں۔‘ سنگاپور میں، جہاں زمین ایک قیمتی جنس ہے، ہمیشہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھنے اور نئی ترقی کرنے کے درمیان تناؤ رہے گا۔ اگرچہ لورونگ بوانگکوک کا مستقبل غیر یقینی ہے، پھر بھی اس کو بچانے کا ایک مطلب آئندہ نسلوں کے لیے قوم کی جڑوں، ثقافت اور ورثے کی ایک جھلک برقرار رکھنا بھی ہے، جو کہ سنگاپور جیسے نوجوان ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔
/urdu/pakistan-60811340
پاکستان کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ گیریژن کے قریب اسلحے کے ایک گودام میں شارٹ سرکٹ سے آشتزدگی ہوئی۔ ریسکیو حکام کے مطابق حادثے میں کم از کم دو افراد زخمی ہوئے ہیں اور اب صورتحال قابو میں ہے۔
پاکستان کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ گیریژن کے قریب اسلحے کے ایک گودام میں شارٹ سرکٹ سے آشتزدگی ہوئی۔ ریسکیو حکام کے مطابق حادثے میں کم از کم دو افراد زخمی ہوئے ہیں اور اب صورتحال قابو میں ہے۔ یہ واقعہ مدثر شہید روڈ پر ایک گاؤں بھلا والا کے پاس پاکستانی فوج کے اسلحہ ڈبو کے مقام پر ہوا جہاں حکام کے مطابق آگ لگنے اور ’دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے‘ سے علاقے میں مسلسل دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حادثے کے بعد فوری ردعمل کی بدولت نقصان کو محدود کیا گیا اور اب آگ بجھا دی گئی ہے۔ ادھر عسکری ذرائع نے ’انڈین‘ اکاؤنٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر واقعے سے متعلق ان ’غلط اطلاعات‘ کی تردید کی ہے جن کے مطابق وہاں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ عینی شاہدین نے صحافی احتشام شامی کو بتایا ہے کہ سیالکوٹ کے قریب اس مقام پر اتوار کی صبح سوا پانچ بجے کے قریب آگ کے باعث زور دار دھماکے ہونے لگے جس سے لوگ گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئے اور اہل علاقہ کو گھبراہٹ اور خوف محسوس ہوا۔ اہل علاقہ نے بتایا ہے کہ ’مسلسل دھماکوں کی گونج‘ سے گھروں کی کھڑکیاں لرز اُٹھیں اور یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں کے باعث آگ کے شعلے فضا میں بلند ہونے لگے۔ ریسکیو 1122 کے کنٹرول روم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آرمی کے ایمونیشن سٹور میں آگ لگنے کے بعد سات فائر وہیکلز اور تین ایمبولینسز کو فوری طور پر بھجوایا گیا اور تمام افسران کو مطلع کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق حادثے کی وجہ ’انتہائی دھماکہ خیز مواد‘ کا پھٹنا ہے تاہم اب گولہ بارود کے دھماکوں کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کے جوانوں نے بھی ریسکیو آپریشن میں بھی حصہ لیا۔ جبکہ امدادی کارروائیوں اور آگ بجھانے میں ریسکیو 1122 اور فائر بریگیڈ کے اہلکار بھی شامل تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کم از کم دو شہری زخمی ہوئے ہیں جنھیں سی ایم ایچ سیالکوٹ میں طبی امداد دی گئی ہے۔ 26 سالہ اللہ رکھا کو چہرے پر زخم آیا جبکہ 35 سالہ قیصر، جو دل کے مریض ہیں، دھوئیں کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ تاہم زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ادھر آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ادھر آئی ایس پی آر اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسے شارٹ سرکٹ سے ہونے والا ایک حادثہ قرار دیا ہے۔ اب تک ضلعی انتظامیہ یا پولیس کے حکام نے صورتحال سے متعلق میڈیا کو کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
/urdu/sport-58382514
انگلینڈ کے 244 رنز کا جواب دینے کے لیے پاکستان کو ایک ایسی بڑی اننگز کی ضرورت تھی جو ڈیوڈ لائیڈ نے بنائی تھی اور یہ جواب ماجد خان نے بھرپور انداز میں دیا۔
31 اگست 1974 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے ُاتری تو اسے اوپنر ڈیوڈ لائیڈ کے ناقابل شکست 116 اور اس اننگز کی بدولت بننے والے انگلینڈ کے 244 رنز کا جواب دینے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی اننگز کی ضرورت تھی۔ ماجد خان نے صادق محمد کے ساتھ اننگز شروع کی۔ ان دونوں نے ٹیم کو 113 رنز کا ٹھوس آغاز فراہم کر دیا۔ ماجد خان جب تک کریز پر رہے ان کے ہر سٹروک پر کمنٹیٹرز گلوریئس آف ڈرائیو، بیوٹی فل شاٹ اورگریٹ شاٹ جیسے الفاظ کے ساتھ ان کی تعریف کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آج جو لوگ بھی یہ اننگز دیکھ رہے ہیں انھیں یہ مدتوں یاد رہے گی اور واقعی گراؤنڈ کے مختلف اسٹینڈز میں بیٹھے شائقین بیٹنگ کے سحر میں کھوچکے تھے۔ اس اننگز کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی پہلی سنچری تھی۔ اس وقت تک ون ڈے انٹرنیشنل میں بننے والی یہ محض چوتھی سنچری تھی۔ ان سے پہلے انگلینڈ کے ڈینس ایمس نیوزی لینڈ کے کین ورڈزورتھ اور انگلینڈ کے ڈیوڈ لائیڈ تین ہندسوں کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ سنہ 1967 ء میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ میں ماجد خان تین ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام رہے تھے لیکن دورے کے فرسٹ کلاس میچوں میں ان کے بیٹ سے رنز رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس دورے میں انھوں نے کینٹ، مڈل سیکس، سسکس اور گلیمورگن کے خلاف سنچریاں اسکور کی تھیں۔گلیمورگن کاؤنٹی کے خلاف ان کی 147 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز فرسٹ کلاس کرکٹ کی چند یادگار اننگز میں شمار ہوتی ہے۔ جب اس میچ میں کپتانی کرنے والے سعید احمد نے جو خود ماجد خان کے ساتھ بیٹنگ کر رہے تھے پاکستان کی اننگز 324 رنز تین کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی تو ماجد خان اپنی اس جارحانہ اننگز میں 10 چوکے اور 13 چھکے لگا چکے تھے۔ ماجد خان کی یہ اننگز جس نے بھی ایک بار دیکھ لی وہ خود کو خوش قسمت انسان تصور کرتا ہے کیونکہ اسے یہ اننگز دوبارہ دیکھنے کا موقع اس لیے نہیں مل سکا کہ اس اننگز کی ریکارڈنگ پاکستان ٹیلی ویژن کے ریکارڈ تک میں محفوظ نہیں ہے۔ ماجد خان کی ایسی ہی ایک اننگز سنہ 1980 میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں دیکھنے میں آئی تھی جہاں رے برائٹ، اقبال قاسم اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے توصیف احمد کسی بھی بیٹسمین کو کھل کر کھیلنے نہیں دے رہے تھے ایسے میں جہاں جاوید میانداد اور گریگ چیپل کے لیے بڑی اننگز کھیلنا ممکن نہ ہو سکا ماجد خان نے 89 رنز کی غیر معمولی اننگز کھیلی تھی۔
/urdu/world-51311026
تین سال، تین وزرائے اعظم اور دو انتخابات کے بعد برطانیہ نے بالآخر یورپی یونین چھوڑ دیا تاہم متعدد ایسی تبدیلیاں ہیں جن میں ابھی وقت لگے گا، پیش ہیں وہ چیزیں جو بدلیں گی اور جو ابھی جاری رہیں گی۔
تین سال، تین وزرائے اعظم اور دو انتخابات کے بعد برطانیہ نے بالآخر جمعہ 31 جنوری کو رات گیارہ بجے (23:00 جی ایم ٹی) یورپی یونین چھوڑ دیا ہے۔ اس دور میں برطانیہ یورپی یونین کے قوانین کی پابندی جاری رکھے گا اور یورپی یونین کو فنڈز دیتا رہے گا۔ کچھ چیزیں تو بالکل ویسی ہی ہوں گی جیسی ہیں لیکن کچھ مکمل طور پر بدل جائیں گی۔ نائیجل فراج جو کہ برطانوی بریگزٹ پارٹی کے سربراہ ہیں اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی مہم میں پیش پیش تھے، ان 73 ارکانِ یورپی پارلیمان (ایم ای پیز) میں سے ایک ہوں گے جو یورپی پارلیمان میں اپنی نشست چھوڑیں گے، کیونکہ بریگزٹ کے ساتھ ہی برطانیہ یورپی یونین کے تمام سیاسی اداروں اور ایجنسیوں سے نکل جائے گا۔ تاہم منتقلی کے اس دور میں برطانیہ یورپی قوانین کی پاسداری کرتا رہے گا اور قانونی قضیوں میں یورپی عدالتِ انصاف فیصلے کرتی رہے گی۔ جب تک برطانیہ یورپی یونین کا ممبر تھا اس وقت تک وہ امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ رسمی طور پر مذاکرات نہیں کر سکتا تھا۔ بریگزٹ کے حامی کہتے رہے ہیں کہ اپنی تجارتی پالیسی بنانے سے برطانوی معیشت بہتر ہو گی۔ سکے پر برطانیہ میں ملا جلا ردِ عمل آیا ہے اور یورپی یونین میں رہنے کے حامی کچھ افراد نے کہا ہے کہ وہ اس سکے کو قبول نہیں کریں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ اس پابندی کا اطلاق دوسرے ممالک پر بھی ہوگا یا نہیں۔ مثال کے طور پر سلووینیا نے کہا ہے کہ صورتِ حال پیچیدہ ہے جبکہ یورپی یونین نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ کیونکہ منتقلی کا دور بریگزٹ کے فوری بعد شروع ہو جائے گا، اس لیے بہت سی چیزیں اسی طرح رہیں گی جیسی اب ہیں، کم از کم 31 دسمبر 2020 تک۔ منتقلی کے دور میں وہ خصوصی ہیلتھ کارڈ قابلِ استعمال رہیں گے جن پر برطانوی شہری یورپی یونین میں طبی سہولیات حاصل کر سکتے تھے یہ یورپی یونین کے سبھی ممبر ممالک اور سوئٹزرلینڈ، ناروے، آئس لینڈ اور لیچنسٹائن میں استعمال کیے جا سکتے ہیں اور یہ منتقلی کے دور میں بھی جائز رہیں گے۔ منتقلی کے دور میں نقل و حمل کی آزادی رہے گی تاکہ برطانوی شہری اسی طرح یورپی یونین میں کام کرتے رہیں جیسے وہ اب کر رہے ہیں۔ اسی طرح جو یورپی یونین کے باشندے برطانیہ میں رہنا یا کام کرنا چاہیں وہ یہ کر سکتے ہیں۔ منتقلی کے دور میں برطانیہ یورپی یونین کے بجٹ میں اپنا حصہ ڈالتا رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یورپی یونین کے فنڈز سے چلنے والی سکیموں کو فنڈز ملتے رہیں گے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت بغیر کسی اضافی چارج کے جاری رہے گی اور کوئی نئی پابندیاں بھی متعارف نہیں کروائی جائی گی۔
/urdu/pakistan-61615576
الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق علی رضا سدپارہ نے پاکستان میں موجود آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیوں کو 17مرتبہ سر کیا تھا۔ شاید کسی اور کے لیے ان کا یہ ریکارڈ توڑنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق علی رضا سدپارہ نے پاکستان میں موجود آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیوں کو 17 مرتبہ سر کر رکھا تھا۔ ابھی ان کا کے ٹو سر کرنے کا پلان اپنی ایک محنتی شاگرد اور پاکستان میں موجود آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی کو پہلی مرتبہ سر کرنے والی پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی کے ساتھ بنا تھا مگر اس پلان سے پہلے اس کی ریہرسل کے دوران ہی وہ جان لیوا حادثے کا شکار ہو گئے۔ یوں کے ٹو کی چوٹی علی رضا سدپارہ کے پاؤں چومنے سے محروم رہ گئی۔ نائیلہ کیانی کہتی ہیں کہ چاچا علی رضا نے چار آٹھ ہزار میٹر کی چوٹیوں کو سترہ مرتبہ سر کرنے کا نا قابل یقین ریکارڈ بنا رکھا ہے۔ مگر افسوس کہ ان کو ساری زندگی کوئی بھی اسپانسر نہیں مل سکا۔ جس وجہ سے وہ کے ٹو سر نہیں کرسکے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ کے ٹو کو سر کرتے۔ نائیلہ کیانی بتاتی ہیں کہ حادثے سے ایک روز قبل چاچا علی رضا سے میری بات ہوئی تھی۔ یہ بات میری ممکنہ آنے والی کے ٹو کی مہم جوئی کے حوالے سے تھی۔ اس مہم جوئی میں چاچا ہی تربیت کے علاوہ میری مدد کرنا تھی۔ مگر میں چاہتی تھی اور چاچا بھی چاہتے تھے ان کو کو کوئی اچھی اسپانسر شپ مل جائے۔ یہ چاچا کا بھی خواب تھا مگر افسوس کہ دنیا کا عطیم ترین کوہ پیما اور استادوں کے استاد کا یہ خوب پورا نہ ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا چاچا علی رضا کو کیوں اسپانسر شپ نہیں مل سکے یہ ہماری کوہ پیمائی کے لیئے ایک بڑا سوال ہے۔ ہمارے ملک کے لینڈ اسکیپ کی وجہ سے غیر ملکی پاکستان آتے رہیں گے اور شاید ہمارے کوہ پیماوں کی قسمت میں صرف ان کی مدد کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ نائیلہ کیانی کہتی ہیں کہ اگر چاچا کو کوئی اسپانسر شپ ملتی تو وہ اتنے بڑے کوہ پیما تھے کہ وہ دنیا کی ساری قابل ذکر چوٹیاں سر کرلیتے۔ اب جب میں کے ٹو کی چوٹی کی مہم پر جاوں گئیں تو یہ مہم میں چاچا علی رضا سدپارہ کے نام پر کروں گئیں۔ جب میں تربیت کروں گئیں اور مہم پر ہوں گئیں تو چاچا بہت یاد آئیں گے۔ وہ نہ صرف ہم لوگوں کہ ہی شفیق استاد اور چاچا نہیں تھے بلکہ اپنے خاندان سے محبت کرنے والے اور ان کے لیئے قربانیاں دینے والے بھی تھے۔ نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ جب میں نے پاکستان میں آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا تو میرا پہلا رابطہ کوہ پیما سرباز خان سے ہوا تھا۔ اس مشن کے لیے میں نے تربیت شروع کرنا تھی تو مجھے سرباز خان نے مشورہ دیا کہ ’سب سے بہتر تو چاچا علی رضا سدپارہ ہیں۔‘
/urdu/world-53621094
ہانگ کانگ کی انتظامیہ حال ہی میں منظور ہونے والے سکیورٹی قانون کے تحت چھ ایسے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے جن میں کچھ برطانیہ میں مقیم ہیں۔
ہانگ کانگ کی پولیس سائمن چینگ اور نیتھن لا کو نئےسکیورٹی قانون کے تحت گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے ہانگ کانگ کی پولیس چھ ایسے جمہوریت نواز کارکنوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں مقیم ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہانگ کانگ کی پولیس کو ہانگ کانگ میں برطانوی قونصلیٹ کے سابق ملازم سائمن چینگ، امریکی شہری سیموئیل چو، اور جانے پہچانے کارکن نیتھن لا کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی خبروں کے مطابق پولیس کو ’شرپسند‘ عناصر کی گرفتاری مطلوب ہے جن پر شبہ ہے کہ انھوں نے ہانگ کانگ میں حال ہی میں نافذ ہونے والے سکیورٹی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ جمہوریت کے حامی سیاستدانوں کو امید تھی کہ وہ چین کی طرف سے ہانگ کانگ کے لیے سکیورٹی قانون کی منظوری کی وجہ سے پائے جانے والے غم و غصے کو اپنے حق میں استعمال کریں گے۔ برطانیہ کی سابقہ کالونی ہانگ کانگ میں جسے 1997 میں چین کو واپس کیا گیا تھا، کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ معاہدے کے مطابق ملک میں نظام کے تحت حاصل آزادیوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ہانگ کانگ کے بارے میں سکیورٹی قانون کی منظوری کے بعد برطانیہ اور آسٹریلیا ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کے معاہدے ختم کر چکے ہیں۔ جرمنی نے بھی جمعے کے روز ہانگ کانگ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ہانگ کانگ کی حکومت جن چھ افراد کو گرفتار کرنا چاہتی ہے ان میں سے ایک نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی کے مطابق چھ افراد غیر ملکی طاقتوں سے ساز باز کرنے اور ہانگ کانگ کی علیحدگی کے شبہے میں مطلوب ہیں۔ سائمن چینک ہانگ کانگ میں برطانوی قونصلیٹ کے سابق ملازم ہیں۔ انھیں حال ہی میں برطانیہ میں سیاسی پناہ مل چکی ہے۔ انھیں گذشتہ برس اگست میں چین کے ایک کاروباری دورے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ہانگ کانگ میں سیاسی بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیتھن لا نے کہا کہ وہ جلا وطنی میں رہنے کے خیال سے خوفزدہ ہیں اور وہ ہانگ کانگ میں اپنے خاندان کے ساتھ تمام روابط کو ختم کر رہے ہیں۔ رے وانگ 2017 میں ہانگ کانگ سے فرار ہو کر جرمنی آ گئے تھے۔ وہ اب برطانیہ میں ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مطلوب افراد کی فہرست بنانے کا مقصد ایسے لوگوں کو ڈرانا ہے جو ہانگ کانگ کے حقوق کے لیےعالمی امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اٹھارہ سالہ لو ہانگ برطانیہ میں مقیم ہیں۔وہ پہلی بار 2017 میں منظر عام پر آئے جب انھوں نے ہانگ کانگ کی لیڈر کیری لام کے پاس جمہوریت نواز بینر لہرایا تھا۔
/urdu/pakistan-61166151
پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے جب نیلے رنگ کے لباس میں نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر قدم رکھا تو انڈین میڈیا کی ساری توجہ ان کی پُرکشش شخصیت پر مرکوز ہو گئی تھی۔
یہ 26 جولائی 2011 کی ایک دوپہر ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نیلے رنگ کے لباس میں جب نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر قدم رکھتی ہیں تو انڈین میڈیا کی ساری توجہ ان کی پُرکشش شخصیت پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ انڈین میڈیا ان کی ’سحرانگیز‘ شخصیت کو اپنے اپنے عنوانات دیتا ہے۔ اس وقت میڈیا کی طرف سے پذیرائی اور توجہ کے نیچے، پاکستانی وزیرِ خارجہ کے دورے کے سیاسی پہلو بظاہر دب کر رہ جاتے ہیں، نیز ان کو اس وقت وزارتِ خارجہ کا منصب ملنے پر بعض حلقوں کی جانب سے جس ’کم عمر اور کم تجربے‘ کی آڑ میں تنقید کی گئی تھی، وہ تنقید بھی دب گئی۔ اس الیکشن کی انتخابی مہم ان کے والد نے ہی چلائی تھی، حتیٰ کہ انتخابی پوسٹروں پر اِن کی تصویر تک نہیں چھاپی گئی تھی۔ مظفرگڑھ کا یہ حلقہ ان کے خاندان کا آبائی حلقہ ہے۔ یہاں سے غلام نور ربانی کھر نے 1990 کے انتخابات میں کامیابی سمیٹی تھی۔ سنہ 2008 کے الیکشن میں جب وہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں تو اِن کو وزیر مملکت برائے خزانہ و اقصادی اُمور بنایا گیا۔ 18 جولائی 2011 کو وہ پاکستان کی پہلی خاتون وفاقی وزیرِ خارجہ بن گئیں اور 19 جولائی کو اس عہدے کا حلف اُٹھایا۔ حنا ربانی کھر کو وزارت ِخارجہ کا منصب سنبھالنے کے چند دن بعد 27 جولائی 2011 کو انڈیا کا دورہ کرنا تھا، نومنتخب اور نوجوان خاتون وزیرِ خارجہ کو انڈیا میں پاک انڈیا وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنا تھی۔ جب وہ 26 جولائی 2011 کی دوپہر کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اُتریں تو اِن کے نیلے لباس کی نیلاہٹ نے گویا پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ان کے دورے کے موقع پر انڈین میڈیا میں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ پاکستان کی وزیرِ خارجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی اس لیے ان کے دورے سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کم ہوگی اور نئے تعلقات اُستوار ہوں گے۔ ان مذاکرات کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ انڈین وزیرِ خارجہ آئندہ برس کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ حنا ربانی کھر اور اِن سے لگ بھگ پینتالیس سال بڑے اور تجربہ کار ایس ایم کرشنا کے اعتماد میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ ان مذاکرات کے بعد پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر اور اِن کے انڈین ہم منصب ایس ایم کرشنا نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات میں اَمن اور تعاون کا نیا باب رقم کرنے کا عزم جھلکتا ہوا پایا گیا تھا۔ نیٹو سپلائی بند ہونے سے افغانستان میں موجود نیٹو فوج شدید مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ پاکستان سے اس قدر شدید ردِعمل دیا گیا کہ تین جولائی 2012 کو ہیلری کلنٹن نے اُس وقت کی پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کو فون کیا اور معذرت کی۔
/urdu/pakistan-52225988
پاکستان کے سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے لیے حفاظتی لباس اور آلات کی ڈاکٹروں کو عدم فراہمی اور صدر مملکت کے این 95 ماسک پر چھڑی بحث میں کسی نے صدر مملکت کی حمایت کی تو کوئی ان کی جانب سے دی گئی وصاحت پر مطمئن دکھائی نہیں دیا۔
وہیں بدھ کو پاکستان کے صدر عارف علوی دورہ لاہور کے دوران منظر عام پر آنے والی تصاویر میں این 95 ماسک پہنے ایک اجلاس کی سربراہی کرتے نظر آئے جس پر سوشل میڈیا اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی جانب سے جاری ایک بیان میں حکومتی عہدیداروں، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی جانب سے این 95 ماسک کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے سوشل میڈیا پر ہی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے اپنی صفائی میں ایک ٹویٹ کر دی۔ اپنی ٹویٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’بطور ڈاکٹر میں اچھی طرح سے غلط استعمال اور ضیاع سے واقف ہوں۔ میں نے اپنے اس این 95 ماسک کو دوبارہ استعمال کیا جو مجھے چین کے دورے کے دوران دیا گیا تھا۔ بلاخر اس کا ایک سٹریپ ٹوٹ گیا ہے، لہذا شہید ونگ کمانڈر نعمان اکرم کے اہلخانہ سے تعزیت کے موقع پر آپ مجھے ایک عام ماسک پہنے دیکھ سکتے ہیں۔‘ جبکہ مہ بینا نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے ان کی حمایت کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ ’جناب صدر آپ کو لوگوں سے ملتے وقت این 95 ماسک یا اچھا سرجیکل ماسک ضرور پہننا چاہیے۔‘ جبکہ دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ کس کس کو حفاظتی لباس پہننے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بدھ کی رات بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے ٹوئٹر پر عوامی رائے کو جانچنے کے لیے رائے شماری کے لیے ایک ٹویٹ شئیر کی جس میں انھوں نے عوام سے پوچھا کہ ’کیا آپ کے خیال میں ایسے ڈاکٹروں کو جو اس ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں کورونا سے متاثرہ ایک بھی مریض موجود نہیں ہے، ذاتی حفاظتی لباس پہننا چاہیے؟ بلال ڈار نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’او پی ڈی وہ جگہ ہے جہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں اس لیے ان ڈاکٹروں کا حفاظتی کِٹس کی اشد ضرورت ہے، جیسے آپ N95 ماسک پہن کر باہر نکالتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹرز اور طبی عملے کو بھی اس کی ضرورت ہے۔‘ سوشل میڈیا صارفین فرحان ورک نے ویڈیو بنا کر جبکہ ڈاکٹر گلزار نے ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اکثر افراد جن میں یہ وائرس پایا جاتا ہے ان میں اس کی علامات نہ ہوں۔ تاہم ایک طرف جہاں بعض حکومتی عہدیدار ڈاکٹروں سمیت تمام عوام کو اس بات کی تلقین کر رہے ہیں کہ این 95 ماسک جیسے حفاظتی سامان صرف ان ماہرین صحت کے لیے ہیں جو کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال پر معمور ہیں۔
/urdu/regional-48902444
برطانیہ میں تعینات چینی سفیر نے بی بی سی کی اس رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی سنکیانگ میں مسلمان بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیا جارہا ہے۔
برطانیہ میں تعینات چینی سفیر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ مشرقی سنکیانگ میں ایک منظم طریقے سے مسلمان بچوں کو زبردستی ان کے والدین سے الگ کیا جارہا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا تھا کہ مسلمان اویغر برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بچوں کے والدین کو زیر حراست رکھا جا رہا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے کیا جارہا تاکہ یہ بچے مسلمان برادری سے دور رہیں۔ لیکن برطانیہ میں چین کے سفیر لیو شیومِنگ نے اس بات کی تردید کی ہے۔ بی بی سی کے اینڈریو مار شو پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'کوئی بھی بچہ اپنے والدین سے الگ نہیں کیا گیا، ہر گز نہیں۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں تو مجھے ان کے نام دیں، ہم ان کا پتہ لگانے کی کوشش کریں گے۔' انھوں نے مزید کہا کہ جن والدین نے بی بی سی سے بات کی ہے وہ 'حکومت مخالف' لوگ ہیں۔ بی بی سی نے اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت اکٹھے کیے ہیں جن کی بنیاد عوامی سطح پر دستیاب دستاویزات ہیں اور انھیں بیرون ملک مقیم افراد نے اپنی شہادتوں سے مزید سہارا دیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق صرف ایک شہر میں ہی 400 سے زیادہ بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا ہے۔ ان والدین کو کیمپوں یا جیلوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ چینی حکام کی موقف ہے کہ اویغر مسلمانوں کو مختلف شعبوں میں 'پیشہ ورانہ تعلیم' دی جارہی ہے اور اس کا مقصد شدت پسندی سے نمٹنا ہے۔ تاہم اگر اکھٹے کیے گئے ثبوتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ لگتا ہے کہ لوگوں کو صرف اپنے مذہب کے اظہار، جیسے نماز پڑھنے یا نقاب کرنے، یا دوسرے ممالک جیسے ترکی میں بسنے والوں سے تعلقات رکھنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ چین میں سیکنڑوں کی تعداد میں بچوں کے والدین کو زیر حراست رکھا گیا ہے۔ ان لوگوں کا تعلق مسلمان اویغر برادری سے ہے۔ ان کے مطابق ان بورڈنگ سکولوں کے ذریعے اقلیتی بچوں کو زندگی میں 'بہتر عادات' سکھائی جاتی ہیں اور حفظانِ صحت سے متعلق گھر سے بہتر معلومات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ کچھ بچوں نے اپنی استانیوں کو 'ممی' کہنا شروع کر دیا ہے۔ ایک مقامی سرکاری افسر سے جب بی بی سی نے پوچھا کہ ان بچوں کا پرسانِ حال کیا ہے جن کے والدین کو کیمپس منتقل کر دیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 'وہ بورڈنگ سکولوں میں داخل ہیں۔ ہم انھیں رہائش، کھانا اور کپڑے فراہم کرتے ہیں۔۔۔اور ہمیں حکومتی اداروں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہم ان کی اچھی دیکھ بھال کریں'۔ تاہم برطانیہ میں چینی سفیر لیو شیومِنگ کا کہنا ہے کہ جن افراد سے بی بی سی نے بات کی ہے وہ ’حکومت مخالف‘ ہیں۔
/urdu/regional-58717190
طالبان کی کھلی حمایت اور دنیا کو یہ باور کروانے کے باوجود کہ طالبان اب تبدیل ہو چکے ہیں، پاکستان، چین اور روس نے تاحال طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان ممالک کی ہچکچاہٹ کی وجہ کیا ہے؟
تاہم طالبان کی کھلم کھلا حمایت اور دنیا کو یہ باور کروانے کے باوجود کہ طالبان اب بدل چکے ہیں، اِن تینوں ممالک نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستان، چین اور روس سے جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کر رہے تو وہ ایک جامع حکومت کی تشکیل، عالمی برادری کی امنگوں کی پاسداری، دہشت گرد تنظیموں سے فاصلہ رکھنے اور طرزِ حکمرانی میں ترقی پسند سوچ جیسی شرائط گنواتے دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ ’طالبان کے بارے میں منفی اطلاعات آ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں انھیں تسلیم کرنے میں جلدی نہیں کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر چین، روس اور پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کے درمیان اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی سطح پر موجود رضامندی کے خلاف ہے۔‘ ’دراصل یہ ممالک بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت کی حمایت کے لیے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان نے جو تقریر کی تھی اس کا بنیادی ایجنڈا دنیا کو طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ جتنے ممالک اس سمت میں جائیں گے، پاکستان طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں اتنا ہی مضبوط ہو گا۔‘ شروع سے ہی روس، چین اور پاکستان نے اس بات زور دیا ہے کہ طالبان کی حکومت میں افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک طالبان کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں آگاہ کرتا رہا ہے جبکہ چین کو ڈر ہے کہ اس کے سنکیانگ صوبے میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ مضبوط نہ ہو جائے اور روس چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن برقرار رکھے۔ ’جو بات انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ طالبان حکومت میں حقانی گروپ کا غلبہ ہے اور اس گروہ کے متعصبانہ رویے کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں ممالک ایک جامع حکومت کی بات کر رہے ہیں تاکہ ایک لبرل طالبان حکومت کو ان کے خلاف استعمال نہ کیا جا سکے۔‘ ’پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ پہلے ممالک تھے جنھوں نے پہلی طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، اب وہ دونوں اس معاملے پر خاموش ہیں۔ اس لیے پاکستان فی الحال اتنا بڑا قدم اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔‘ ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے ان شدت پسند تنظیموں کا صرف ایک دشمن تھا یعنی امریکہ اور افغان حکومت کا اتحاد۔ تاہم اب چونکہ صورتحال بدل چکی ہے اس لیے اب ان کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہو گی جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں، جب تک استحکام نہیں آتا، کسی بھی ملک کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔
/urdu/world-56616419
اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو اور حزبِ اختلاف دونوں ہی عام انتخابات میں فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ایک ایسی عرب جماعت سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں جو کہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیل کے عام انتخابات میں فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور ان کے مخالفین ایک ایسی غیر معمولی پوزیشن میں پھنس گئے ہیں کہ دونوں کو اتحادی حکومت بنانے کے لیے ایک عرب پارٹی کی حمایت حاصل کرنا پڑ رہی ہے جس کی پشت پناہی حکمران اتحاد کے قیام کے لیے ضروری نظر آرہی ہے۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد نتن یاہو اور ان کے اتحادی اور نہ ہی ان کے حریف 120 رکنی پارلیمان میں اکثریت حاصل کر سکیں ہیں۔ دونوں فریق پارلیمان میں اتنے حامی اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت بنانے کے لیے ریاست کے صدر کی منظوری حاصل کر سکیں۔ عباس کی جماعت کی چار نشستیں نتن یاہو کے مخالفین کو پارلیمنٹ میں اکثریت دے سکتی ہیں جس کے بعد وہ وزیر اعظم کو بے دخل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ وہ نتن یاہو کی حمایت بھی کر سکتے ہیں تاکہ وہ پارلیمان میں مطلوبہ حمایت کے ساتھ ایک نیا اتحاد تشکیل دے سکیں۔ انتخابات کے بعد عباس نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں شامل ایک رہنما یائر لیپڈ ہیں جو نتن یاہو مخالف اتحاد کے لیے حامی تلاش کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے نتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی ہے۔ لیکوڈ کے عہدے داروں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ عباس اور ان کی جماعت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، جو کہ انتخابی مہم کے دوران نتن یاہو کے اس بیان سے بہت مختلف ہے جس میں انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دھڑے کی حمایت پر منحصر اتحاد تشکیل نہیں دیں گے۔ یائر لیپڈ، جو کہ حزبِ اختلاف کے رہنما ہیں، ایک عرب جماعت، جوائنٹ لسٹ، کے نمائندوں سے بھی مل چکے ہیں۔ عباس اس جماعت سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ جوائنٹ لسٹ نتن یاہو کی شدید مخالف ہے اور اس کی چھ نشستیں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ منصور عباس نے جنوری 2021 میں سیاسی اتحاد جوائنٹ عرب لِسٹ پارٹی سے علیحدہ ہو کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصور عباس اسرائیلی عربوں کے حقوق کے لیے نتن یاہو کی حکومت سے تعاون پر اتفاق کرتے ہیں اور اس پر جوائنٹ عرب لسٹ کے ساتھ عدم اتفاق کی وجہ سے وہ اتحاد سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ جوائنٹ عرب لسٹ پہلے ہی موجودہ اپوزیشن کے حق میں ہے لیکن عباس کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پر کسی امیدوار یا اتحاد کے حوالے سے ’کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘۔ انتخابات سے پہلے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نتن یاہو منصور عباس کی جماعت کی حمایت سے حکومت بنانے کے امکان کو خارج کر چکے ہیں۔
/urdu/pakistan-52102214
وزیراعظم لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنے کا سلسلہ ایسے موقع پر جاری رکھے ہوئے ہیں جب پورے ملک میں، بشمول وہ صوبے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے اور اب اس کے دورانیے میں اضافے کی بات چل رہی ہے۔
وزیراعظم لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنے کا سلسلہ ایسے موقع پر جاری رکھے ہوئے ہیں جب پورے ملک میں، بشمول وہ صوبے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے اور اب اس کے دورانیے میں اضافے کی بات چل رہی ہے ایک جانب جہاں عالمی رہنما اپنے اپنے ممالک میں کورونا وائرس کی روک تھام اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے لاک ڈاؤن اور اس جیسے دیگر انتہائی اقدامات کو سخت سے سخت تر کرنے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں وہیں چند رہنما ایسے ہیں جو لاک ڈاؤن جیسے اقدام کی بظاہر مسلسل نفی میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی طرح برازیل میں بھی تعلیمی ادارے، عوامی مقامات، کاروباری ادارے اور تجارتی مراکز بند ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کی طرح برازیل کے صدر مختلف توجیہات، جن میں سرِفہرست معیشت ہے، پیش کرتے ہوئے موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن کی کھلے عام مخالفت کر رہے ہیں، اور یہی وہ وجہ ہے کہ برازیل کے صدر کو لاطینی امریکہ میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنے کا سلسلہ ایسے موقع پر جاری رکھے ہوئے ہیں جب لگ بھگ پورے ملک میں، بشمول وہ صوبے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے، لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے اور اب اس کے دورانیے میں اضافے کی بات چیت چل رہی ہے۔ ان تصاویر میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ یہاں تمام سٹرکیں اور آبادیاں سنسان نظر آ رہی ہیں۔ صوبائی وزیر صحت کی جانب سے عوام کے گھروں سے باہر نہ نکلنے اور کامیاب لاک ڈاؤن پر شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف کی گئی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا ’ہمارے ہمسایہ ملک نے چند روز قبل فیصلہ کیا کہ وہ پورے ملک کو لاک ڈاؤن کر دیں گے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ان کے وزیر اعظم نے (ایسا کرنے پر) پوری قوم سے معافی مانگی ہے اور معافی یہ مانگی ہے کہ ہم نے سوچے سمجھے بغیر لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔‘ عمران خان کے خیال میں اب انڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ ’اگر وہ لاک ڈاؤن کو اب ختم کرتے ہیں تو کورونا وائرس پھیل جائے گا اور اگر وہ اس کو جاری رکھتے ہیں تو خدشتہ یہ ہے کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔۔۔۔ تو اس لیے میں آج آپ کو کہتا ہوں کہ یہ جنگ ہم نے حکمت سے لڑنی ہے۔‘ اسی طرح برازیل میں کورونا کے مصدقہ متاثرین کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 165 ہے جبکہ یہاں کے صدر بھی پابندیاں عائد کرنے یا لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے کے سخت مخالف ہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے ہی ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔
/urdu/pakistan-51657238
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سیکٹر 11-I میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے دوران چار ہزار سال پرانے مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن ملے ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سیکٹر I-11 میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے دوران چار ہزار سال پرانے مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن ملے ہیں۔ محققین اور ماہرین کی ایک ٹیم نے وہاں سے ملنے والے برتنوں اور قدیم پتھروں کا جائزہ لینے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ یہ برتن اور پتھر ہاکڑہ تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینٹر فار کلچر اینڈ ڈیویلپمنٹ سے منسلک ماہر بشریات (اینتھروپالوجسٹ) ندیم عمر تارڑ نے بتایا کہ ’یہ ایک سطحی سروے تھا اور یہاں سے ملنے والی اشیا کا تعلق قبل از تاریخ تہذیب سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے مزید معلومات حکومت کی طرف سے اس جگہ پر تفصیلی سروے کرنے سے ملیں گی۔‘ ان برتنوں میں سے زیادہ تر بدھ مت دور کے ہیں۔ دریافت ہونے والی اشیا میں چوڑیوں کے ٹکڑے بھی پائے گئے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان زبیر شفیع غوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس طرح کے برتن پہلی مرتبہ جہاں دریافت ہوتے ہیں بعد میں اُن کو اسی جگہ یا تہذیب کا نام دے دیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برتن چار ہزار سال پرانے ہیں۔ اپلیک برتنوں کے ٹکڑوں کو قبل از تاریخ دور اور ہڑپہ دور کے آخر سے جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ معلوت حاصل کرنے اور دریافت حاصل کرنے کے لیے محتاط رویہ اور صبر سے کام لینا پڑے گا۔‘ سیکٹر 11- I میں دو پہاڑوں کے بیچ یہ زمین موجود ہے جس میں محققین کے مطابق سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پتھر اور برتنوں کے ٹوٹے ہوئے حصے موجود ہیں۔ جبکہ ایک طرف قبرستان بھی موجود ہیں جس میں کھدائی کے دوران مزید برتن دریافت ہوئے ہیں۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
/urdu/sport-52467698
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کرکٹرز حکومت اور کرکٹ بورڈ سے میچ فکسنگ کے متعلق سخت قوانین بنانے اور کرپشن میں ملوث کرکٹرز کو سزا دینے کی حمایت کر رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے کرپشن میں ملوث ہونے کے متواتر واقعات کے بعد سابق ٹیسٹ کرکٹرز شعیب اختر اور رمیز راجہ نے میچ فکسنگ کو مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بارے میں جلد از جلد قانون سازی کی جائے تا کہ کرپٹ کھلاڑیوں کو ملکی قوانین کے تحت سخت سزائیں دی جاسکیں۔ شعیب اختر اور رمیز راجہ کا یہ ردعمل ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے بیٹسمین عمراکمل پر مشکوک افراد کی جانب سے رابطے کی اطلاع کرکٹ بورڈ کو نہ دینے کی پاداش میں تین سال کی پابندی عائد کی ہے جبکہ دوسری جانب میچ فکسنگ میں تاحیات پابندی کا سامنا کرنے والے سابق کپتان سلیم ملک کرکٹ میں واپسی کے لیے اپیل کر رہے ہیں۔ سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان کرکٹ بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ میچ فکسنگ میں ملوث کرکٹرز کے خلاف سخت قدم اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ شعیب اختر نے سوال کیا کہ ’آخر پاکستان میں میچ فکسنگ کو ایک جرم قرار دیتے ہوئے اس بارے میں کوئی قانون کیوں نہیں بنایا گیا؟یہاں ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس میں کرپٹ کرکٹر کو جیل بھیج دیا جائے اوراس کی جائیداد ضبط کر لی جائے۔ اس سے لوگوں میں خوف پیدا ہو گا اور وہ کوئی بھی غلط حرکت کرنے سے پہلے سوچیں گے۔‘ شعیب اختر کا کہنا ہے کہ لوگ اب پاکستان کرکٹ بورڈ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کرکٹ میں کرپشن کے سدباب کے لیے قانون سازی کرے اس سلسلے میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں جتنا جلد ممکن ہو سکے کرکٹ میں کرپشن سے متعلق قانون سازی ہونی چاہیے۔ شعیب اختر کی طرح سابق کپتان رمیز راجہ بھی میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کو مجرمانہ فعل قرار دے کر اس کے خلاف قانون بنانے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا پے کہ اس قانون کے ذریعے ملک کا وقار داغدار کرنے والے کرپٹ کرکٹرز کو سخت سزائیں دی جانی چاہیے۔ رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ حکومت کے ساتھ مل کر قانون سازی کرے تا کہ اگر اب کوئی بھی کرکٹر فکسنگ میں ملوث پایا جائے تو اسے ملکی قوانین کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکے۔ رمیز راجہ نے اپنے انٹرویو میں پاکستانی شائقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایسے کرپٹ کرکٹرز کی ہرگز حمایت نہ کریں کیونکہ جب بھی پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ کرپٹ کھلاڑی اپنے شائقین کے ذریعے دباؤ ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور ٹیم میں اپنی واپسی کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ شائقین کو اچھی طرح اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایسے کرکٹرز کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ بہت زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے۔‘
/urdu/world-59413623
لاس اینجلس میں رہنے والے 72 برس کے چان ایک سابق ٹیکس وکیل ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک امریکہ بھر میں تقریباً آٹھ ہزار ریستوران میں کھانا کھا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لاس اینجلس میں رہنے والے 72 برس کے چان ایک سابق ٹیکس وکیل ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک امریکہ بھر میں تقریباً آٹھ ہزار ریستوران میں کھانا کھا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ انھوں نے گذشتہ چار دہائیوں سے ہر ریستوران کا ریکارڈ ایک سپریڈ شیٹ میں محفوظ رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ہزاروں ریستوران کے بزنس کارڈ اور مینو بھی موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص روزانہ بھی ایک چینی ریستوران میں جاتا ہے تو مسٹر چان کی طرح 7812 ریستوران میں جانے کے لیے اسے 20 برس سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اگرچہ ان کا یہ سفر بحیثیت ایک چینی امریکی اپنی شناخت کی تلاش میں شروع ہوا لیکن وہ کہتے ہیں کہ گزرتے برسوں کے ساتھ ان کی کہانی امریکہ میں چینی کھانوں کی پذیرائی اور چینی ثقافت کے بدلتے رنگوں کی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ مسٹر چان کوئی چینی کھانے کے کوئی روایتی ناقد نہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے کے زیادہ شوقین بھی نہیں۔ انھوں نے کیفین سے پرھیز کے لیے چائے بھی چھوڑ رکھی ہے اور زیادہ تر کم چینی اور کم کولیسٹرول والا کھانا ہی کھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مخلتف قسم کے مستند چینی کھانوں کے لیے امریکہ میں بہترین جگہ لاس اینجلس میں سان گبریئیل ویلی ہے لیکن ایک نوالے کے سائز کے چینی کھانوں کے لیے سان فرانسکو بہترین جگہ ہے۔ مسٹر چان کا خیال ہے کہ گذشتہ دہائی میں امریکی یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں چین سے آنے والے طلبا کی وجہ سے ملک میں چینی کھانا ’جمہوری‘ بن چکا ہے۔ اب جس علاقے میں بھی کالج ہے وہاں چینی کھانوں کا ایک اچھا ریستوران ضرور موجود ہے۔ چین امریکہ ریستوران ایسوسی ایشن کے ایک اندازے کے مطابق آج امریکہ بھر میں 45 ہزار سے زیادہ چینی ریستوران موجود ہیں جو میکڈونلڈ، برگر کنگ، کے ایف سی کے کل ریستوران سے بھی زیادہ ہیں۔ چینی ریستوران کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ریستوران چھٹیوں کے موقع، جیسے کرسمس اور تھینکس گیونگ، پر بھی کھلے رہتے ہیں۔ مسٹر چان کے لیے یہ ٹرینڈ نئے چینی ریستوران میں جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ مزید کتنے ریستوران میں جائیں گے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن مسٹر چان کے فالوورز میں سے ایک ان کی مہارت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے اور وہ ان کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق چین سے ہے اور وہ اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتی ہیں کہ لوگ مسٹر چان سے چینی کھانوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
/urdu/entertainment-54098008
یمن کے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے رقم اکھٹی کرنے کی غرض سے دو ننھے دوستوں نے لیموں پانی کا ایک سٹال لگایا لیکن انھیں ایک ایسے ذریعے سے رقم موصول ہوئی جو وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
جب مشرقی لندن میں چھ سالہ ایان موسیٰ اور میکائل اسحاق کو یمن تنازع کے متعلق پتا چلا تو انھوں نے لیموں پانی کا ایک سٹال لگانے کی ٹھانی۔ لیکن وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ان کے اس سٹال پر آئے بغیر اور لیموں پانی پیے بغیر ہی ان کی کافی مدد کرے گا۔ اداکارہ اینجلینا جولی کو جب بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ سے اس مہم کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے ان بچوں کو ایک نوٹ لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں معذرت خواہ ہوں، آپ کے سٹال سے لیموں پانی تو نہیں خرید سکتی لیکن کچھ رقم عطیہ کرنا چاہتی ہوں۔‘ ایان کی والدہ کا کہنا ہے کہ یہ یقیناً عجیب مگر مہم کے لیے عمدہ بات تھی۔ عدیلہ موسیٰ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہالی وڈ کی سٹار نے ایان اور میکائل کی مہم کے حوالے سے جاننے کے بعد برطانیہ میں اپنے نمائندے سے بات کی جنھوں نے پھر ہم سے اس حوالے سے رابطہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہفتے کہ اختتام پر ریڈبرج میں رہنے والے ان بچوں کو اینجلینا جولی سے ایک ’خوبصورت رقعہ‘ موصول ہوا اور ساتھ ہی امداد کے لیے ایک خطیر رقم بھی۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا جب ان سے پوچھا گیا کہ رقم موصول ہونے پر بچوں کے کیا تاثرات تھے تو ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اینجلینا جولی کون ہیں لیکن ’ان کے والد بہت پر جوش تھے۔‘ جلد ہی ان بچوں کو ان کی چند کلپس اور فلمز دکھائی گئیں تو انھیں اندازہ ہوا کہ ٹومب ریڈر اور میلیفیشنٹ کی اداکارہ کون ہیں۔ ان دونوں دوستوں نے اینجلینا جولی کو ایک ویڈیو پیغام بھیجا ہے جس میں انھوں نے اداکارہ سے کہا کہ ’آپ کا جب بھی لندن آنا ہو تو آپ بلا جھجھک یہاں سے تازہ لیموں پانی کا ایک گلاس ضرور پی سکتی ہیں۔‘ یمن میں خانہ جنگی کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ افراد کو زندہ رہنے کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔ اینجلینا جولی جو خود اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیں کی خصوصی سفیر کے طور پر فریض سرانجام دے رہی ہیں اور انھوں نے اس سے قبل بھی یمن بحران کے حوالے سے بات کی ہے۔ عدیلہ موسیٰ کا کہنا ہے کہ اینجلینا جولی کی جانب سے عطیہ کی جانے والی رقم سے ان کے بچوں کی کاوش کے حوالے سے آگاہی پھیلی ہے اور اب انھیں دنیا بھر سے آن لائن مہم کے لیے رقم موصول ہو رہی ہے اور اب تک یہ دونوں دوست 67 ہزار پاؤنڈ اکھٹے کر چکے ہیں۔ یہ دونوں بچے رواں ہفتے اپنے سکول روانہ ہو گئے ہیں۔ عدیلہ موسیٰ کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام فریقین کے لیے انتہائی ضروری تھا۔‘
/urdu/regional-58854417
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں رونما ہونے والے واقعے کے حوالے سے اسلامی ممالک کی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی مذمت کے بعد حکومت ہند کا بیان آیا ہے اور اس نے او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں مسلمان شہری کی لاش کی بے حرمتی کے واقعے کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی مذمت کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے ردِ عمل دیتے ہوئے او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہے کہ او آئی سی نے ایک بار پھر انڈیا کے اندرونی معاملے پر تبصرہ کیا ہے جس میں اس نے انڈین ریاست میں ایک بدقسمت واقعے کے بارے میں حقیقت پسندانہ طور پر غلط تبصرہ کیا ہے۔ اور ایک گمراہ کن بیان جاری کیا ہے۔ اس کے بعد بیان کے اختتام پر انڈیا نے او آئی سی کو خبردار کیا ہے کہ ’انڈیا کی حکومت ان تمام بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ مستقبل میں ایسے بیانات نہیں دیے جائیں گے۔‘ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے گذشتہ ماہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع درنگ میں مبینہ طور پر سینکڑوں مسلم خاندانوں کو سرکاری زمین سے 'تجاوزات ہٹانے کی مہم' کے تحت بے دخل کرنے کے دوران ہونے والی پولیس کارروائی کو 'منظم تشدد اور ہراساں کرنا' کہا ہے۔ او آئی سی نے اپنے بیان میں انڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے تمام مذہبی اور سماجی بنیادی حقوق کا احترام کرے۔ نہ صرف او آئی سی بلکہ غیر ملکی میڈیا نے بھی آسام کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اس واقعے کا موازنہ امریکہ میں جارج فلوئیڈ قتل کیس سے کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ نفرت، خونریزی اور ماتم کے اس خوفناک سلسلے کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ آسام میں ہونے والے واقعے کا ذکر خلیجی ملک کی میڈیا 'الجزیرہ' نے بھی اپنی خصوصی رپورٹ میں کیا ہے۔ الجزیرہ لکھتا ہے کہ آسام حکومت کی باگ ڈور ہندو قوم پرست تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور اس واقعے نے سول سوسائٹی کو بڑا دھچکہ پہنچایا ہے۔ ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ آسام حکومت کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں انکوائری کی جائے گی۔ تفتیش میں اس واقعے کے رونما ہونے والے حالات کا پتا چلایا جائے گا۔
/urdu/world-61051708
کئی دہائیوں سے انٹیلیجنس عام طور پر جس حد تک ممکن ہو کم سے کم افراد کے ساتھ شیئر کرنا ہوتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ راز عام کرنے کا یہ فیصلہ پوری دنیا کو جنگ جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔
کئی دہائیوں سے انٹیلیجنس عام طور پر جس حد تک ممکن ہو کم سے کم افراد کے ساتھ شیئر کرنا ہوتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ راز عام کرنے کا یہ فیصلہ پوری دنیا کو جنگ جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔ انٹیلیجنس کی درست معلومات تو ابھی بھی پوشیدہ ہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ معلومات متعدد ذرائع سے عام ہوئی ہیں۔ مگر ان معلومات نے امریکہ اور برطانیہ کے لیے صورتحال واضح کر دی کہ روس جنگ کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ خفیہ مواد جاری کرنے کا سہرا واشنگٹن میں نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینس، جنھوں نے نومبر میں نیٹو میں اتحادیوں کو بریف کیا اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو جاتا ہے۔ معلومات عام کرنے سے متعلق مہارت رکھنے والے خطرات کو سمجھنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت اسی کام میں مگن رہتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا عام کرنا ہے اور کسے خفیہ رکھنا ہے۔ لندن میں جی سی ایچ کیو اور ایم آئی سکس سے آنے والی انٹیلیجنس کو کچھ حلقوں کی جانب سے کسی حد تک بداعتمادی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے اندر اور باہر ایک مشترکہ مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ 21ویں صدی میں یورپ میں ایک بڑی زمینی جنگ چِھڑ سکتی ہے۔ عراق جنگ سے لے کر اب تک اور بھی مواقع آئے ہیں جب انٹیلیجنس کو عام کیا گیا ہے، مثال کے طور پر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ایسا ہوا مگر اس پیمانے پر کبھی یوکرین میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ ایسی معلومات کو عام کرنے سے بھی ماسکو کو مؤقف سے پیچھے نہیں دھکیلا جا سکا۔ یہ شاید کبھی ممکن نہ ہو لیکن حکام کا خیال ہے کہ اس نے روس کے منصوبوں کو متاثر ضرور کیا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ پورے مغرب میں رد عمل اس سے زیادہ اور یکساں تھا جتنا کہ دوسری صورت میں ہوسکتا تھا۔ اب اس طرح معلومات عام کرنے کے نظام سے ایک نئی دنیا بھی متعارف ہوئی ہے، جس میں نام نہاد اوپن سورس انٹیلیجنس، تجارتی سیٹلائٹ امیجری اور ڈیٹا جیسی چیزوں نے دعوؤں کی تصدیق یا حمایت کرنا زیادہ ممکن بنا دیا ہے اور یہ کہ معلومات کی جنگ لڑنا بشمول انٹیلیجنس کے ذریعے اہم ہو گیا ہے، جزوی طور پر یہ روسی دعوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ انٹیلیجنس کی اپنی حدود ہوتی ہیں، خاص طور پر جنگ کی کچھ پیچیدگیوں اور لوگوں کے حوصلے اور ردعمل کی غیر یقینی صورتحال کی پیشگوئی بالکل درست نہیں کی جا سکتی۔ اپنی تمام کامیابیوں کے باوجود مغربی جاسوس تسلیم کرتے ہیں کہ انٹیلیجنس انھیں یقین سے نہیں بتا سکتی کہ آگے کیا ہو گا۔
/urdu/pakistan-49825305
سندھ کے شہر ڈگھڑی میں ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی ہے جس کا دھڑ ایک لیکن سر دو ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایک لاکھ نومولود بچوں میں سے صرف ایک ایسا بچہ پیدا ہوتا ہے۔
علی مراد کھوسو کی اہلیہ فوزیہ کھوسو نے گذشتہ دنوں آپریشن کے ذریعے اس بچے کو جنم دیا ہے پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر ڈگھڑی میں ایک ’غیر معمولی‘ بچے کی پیدائش ہوئی ہے جس کا دھڑ تو ایک ہے لیکن سر دو ہیں۔ علی مراد کھوسو کی اہلیہ فوزیہ کھوسو نے گذشتہ دنوں آپریشن کے ذریعے اس بچے کو جنم دیا ہے۔ اس وقت ماں اور بچہ دونوں ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ بچے کے والد مزدوری کرتے ہیں اور ٹرک میں بوریاں لوڈ کرتے ہیں۔ ان کی شادی کو ایک سال ہوگیا ہے اور یہ ان کی پہلی اولاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کا وزن ساڑھے تین کلو ہے اور ماں کا دودھ پیتا ہے۔ علی مراد نے زچگی کے ابتدائی دنوں میں اور اس کے بعد بھی ایک مرتبہ الٹراساونڈ کرایا۔ تاہم ان کے مطابق ڈاکٹر نے یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ بچے کی کمر تھوڑی ’ابھری‘ ہوئی ہے لیکن یہ پیدائش کے وقت تندرست ہو گا۔ سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے علی مراد اپنی بیوی کو دنبالو سے ڈگھڑی کے نجی ہسپتال لے آئے۔ جس کے بعد انھوں نے آپریشن کرانے کی حامی بھر لی۔ آخر کار جب بچے کی پیدائش ہوئی تو پتہ چلا کہ اس بچے کے سر دو اور دھڑ ایک ہے۔ کراچی سے تقریباً 270 کلومیٹر دور واقع ڈگھڑی کے نجی ہسپتال میں لوگ اس دو سر والے بچے کو دیکھنے آرہے ہیں۔ اس بچے کا دھڑ، کان، ہاتھ، ٹانگیں اور دیگر اعضا تو ایک عام انسان کی طرح ہی ہیں لیکن اس کے سر دو ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ ان کے سامنے حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق ایک لاکھ نومولود بچوں میں سے صرف ایک ایسا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ماں کے رحمِ مادر میں جب بیضہ کے ساتھ بچے کی افزائش کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے تو یہ ایک خلیہ ہی رہتا ہے اور بعض اوقات دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس سے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں یہ خلیہ دو حصوں میں تقسیم نہیں ہو پاتا۔ اس کا ایک حصہ سوکھ جاتا ہے یا اس کی مزید افزائش نہیں ہو پاتی جس کے نتیجے میں بچوں میں پیدائش کے بعد مسائل ہوتے ہیں۔ نجی ہسپتال کے ڈاکٹر منصور بھرگڑی کا کہنا ہے کہ بچہ صحت مند ہے اور اس کی حرکات ایک نارمل بچے کی طرح ہیں۔ انھوں نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچے کو کراچی لے جائیں جہاں مزید علاج ہوسکے کیونکہ آگے چل کر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ بچے کے والد علی مراد کے مطابق ڈاکٹر نے انھیں کہا ہے کہ بچے کو کراچی لے جائیں لیکن فی الحال وہ کہیں نہیں جا رہے۔
/urdu/regional-55887224
پیر کی صبح ہونے والی فوجی بغاوت نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ آنگ سان سوچی اور دیگر بہت سے سیاستدانوں کی صبح سویرے گرفتاریوں نے ان دردناک دنوں کی یاد پھر سے تازہ کر دی جنھیں لوگ ماضی کا حصہ سمجھنے لگے تھے۔
پیر کی صبح ہونے والی فوجی بغاوت نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 50 برس تک جابرانہ فوجی حکومتیں قائم رہیں اور بالآخر سنہ 2011 میں اس ملک نے جمہوری حکمرانی کی طرف پیش قدمی کی اور نظام ایک سویلین حکومت کے پاس آئی۔ آنگ سان سوچی اور دیگر بہت سے سیاستدانوں کی صبح سویرے گرفتاریوں نے ان دنوں کی دردناک یاد پھر سے تازہ کر دی جن کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، یعنی کہ ملک میں مارشل لا کا نفاذ اور اس سے جڑی یادیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران سوچی اور اس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے ملک کی قیادت کی۔ سنہ 2015 میں ہونے والے انتخابات، جس میں سوچی کی حکومت منتخب ہوئی تھی، کو گذشتہ 25 سالوں میں ملک میں ہونے والے انتہائی شفاف اور آزادانہ انتخابات قرار دیا گیا تھا۔ اور پیر کی صبح، جب مارشل لا نافذ کیا گیا، اس پارٹی کو اقتدار میں اپنی دوسری مدت کا آغاز کرنا تھا۔ فوجی بغاوت کے لیے یہ وقت کیوں چنا گیا اس کی آسان سی وضاحت بی بی سی کے جنوب مشرقی ایشیا کے نمائندے جوناتھن ہیڈ نے دی ہے۔ 'پیر کی صبح میانمار کی پارلیمان کا پہلا اجلاس ہونا تھا جس کے دوران الیکشن کے نتائج کی توثیق ہونی تھی۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔' نومبر میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ملک میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے سنگین الزامات کے باوجود یہ پارٹی بہت زیادہ مقبول رہی۔ فوجی حمایت یافتہ اپوزیشن نے انتخابات کے فوراً بعد ہی دھوکہ دہی کے الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔ ان ہی الزامات کو نئے قائم مقام صدر کی طرف سے جاری کردہ ایک دستخطی بیان میں دہرایا گیا ہے اور ایسا شاید اس لیے کیا گیا تاکہ فوج کی جانب سے اعلان کردہ ایمرجنسی کے نفاذ کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے بی بی سی کو بتایا 'ظاہر ہے کہ آنگ سان سوچی نے زبردست انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس دوران انتخابی دھوکہ دہی کے الزامات لگے جو صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی طرح تھے، یعنی یہ دعوے بغیر ثبوت کے کیے گئے۔' ’اپنے اعلان کے مطابق ایک سال تک اقتدار پر قابض رہنے پر چین کے علاوہ بین الاقوامی ساتھی اسے تنہا چھوڑ دیں گے، فوج کے تجارتی منصوبوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور آنگ سان سوچی کے لاکھوں حمایتی جنھوں نے ان کی جماعت کو ووٹ دیا تھا وہ بھی ان کے لیے رکاوٹ بن جائیں گے۔‘
/urdu/world-54399122
ذہنی صحت کے لیے مدد حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا لیکن لندن میں مقیم پنجابی برادری کا کہنا اس کے ساتھ شرمندگی کا جو احساس منسلک ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے مدد کا حصول مزید مشکل ہو گيا ہے۔
ذہنی صحت کے لیے مدد حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا لیکن لندن میں مقیم پنجابی برادری کا کہنا اس کے ساتھ شرمندگی کا جو احساس منسلک ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے اس کا حصول مزید مشکل ہو گيا ہے۔ کلیئر کوچ کے بانی ڈاکٹر راکیش رانا کا کہنا ہے کہ جو 'دماغی پریشانیوں' کا شکار ہیں انھیں اکثر اہل خانہ پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دماغی صحت سے متعلق تعلیم کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ اس پر بات کرنا باعث شرم یا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی صحت کے بارے میں گفتگو کرنا آسان ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ اب بھی کلنک منسلک ہے جو کہ پرانی نسلون سے چلا آ رہا ہے۔ اپنے گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یہ سننے کو ملتا ہے کہ بڑے بہتر جانتے ہیں۔ علاج بہت مہنگا ہے اور اس حقیقت کا سامنا کرنا مزید خوفناک ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ غلط ہے۔ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ خوفناک ہے۔ یہ بے چینی سے دو چار لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ میں شاعری کرتا ہوں جو 14 سال کی عمر سے ہی میری ذہنی صحت کی پریشانیوں سے نمٹنے کا ایک ذریعہ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نے مجھے میرے احسال سے کہیں زیادہ بچایا ہے۔ میں گیمز کھیلتا ہوں، میں نقل اتارتا ہوں، میں اسکرپٹ اور مختصر کہانیاں لکھتا ہوں۔ میں یہ یقینی بنانے کے لیے تمام چیزین کرتا ہوں کہ میں خود نہیں ہوں، کیوں کہ میں خود کا سامنا کرنے اور میرے اندر چھائی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میرے خیال سے ہمارے معاشرے میں شامل اس کلنک کے ساتھ جو بات زیادہ مایوس کن ہے وہ سماج میں پیوستہ منافقت ہے کہ ایک ہی وقت جب ہم پنجابی کاشتکار برادریوں میں خودکشی کی شرح میں اضافے کی سرخیاں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ 'ذہنی صحت ایک مسئلہ ہے جس کے لیے ہمیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے' اور اسی کے ساتھ ہم اپنے گھر کے کسی آدمی کو سزا دیتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اس چیخ پکار اور بے عزتی کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے ان میں خوف و اضطراب پیدا ہوتا اور ان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ جس کے بارے میں آپ کا یہ خیال ہو کہ وہ غیر مشروط طور پر آپ کو چاہتا ہے اس سے اس طرح کی بات سننا ایسا ہے جیسے اس نے ایک بیلچہ کالی گندگی آپ پر پھینک دی ہے اور وہ آپ کو اس گہرائی میں مزید دھنسا دیتا ہے جو ذہنی صحت کے مسائل نے اپ کے اندر پیدا کی ہوئی ہے۔
/urdu/pakistan-49839580
ملتان میں عدالت نے ماڈل اور اداکارہ قندیل بلوچ کے قتل کے جرم میں ان کے بھائی محمد وسیم کو عمرقید کی سزا سنا دی ہے جبکہ ان کے دوسرے بھائی اسلم شاہین اور مفتی عبدالقوی سمیت پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی ماڈل عدالت 2016 میں ماڈل اور اداکارہ قندیل بلوچ کے مقدمۂ قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم اور مقتولہ کے بھائی محمد وسیم کو عمرقید کی سزا سنا دی ہے۔ ملتان میں موجود بی بی سی اردو کی ترہب اصغر کے مطابق اس مقدمے کے ایک ملزم محمد عارف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے جبکہ قندیل کے بھائی اسلم شاہین اور مذہبی سکالر اور پاکستان تحریک انصاف کے علما ونگ کے سابق رکن مفتی عبدالقوی سمیت پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ عدالت کے جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ محمد وسیم کو دفعہ 311 کے تحت عمرقید کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ استغاثہ دیگر ملزمان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خیال رہے کہ محمد وسیم نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا تھا کہ یہ جرم انھوں نے کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ’قندیل بلوچ خاندان کے لیے رسوائی کا سبب بن رہی تھیں‘ تاہم بعد میں جب ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ فیصلے کے موقع پر قندیل بلوچ کی والدہ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں اور بیٹے کو عمرقید سنائے جانے کے بعد وہ زاروقطار رونے لگیں۔ خیال رہے کہ قندیل کے والد نے بھی گذشتہ ماہ عدالت سے محمد وسیم اور اسلم شاہین کو معاف کرنے کی درخواست کی تھی جسے رد کر دیا گیا تھا۔ فیصلے کے بعد ملزم محمد وسیم کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ ملزمان کی بریت پر مطمئن ہیں اور پرامید ہیں کہ اعلیٰ عدالت وسیم کو بھی بری کرے گی۔ اس مقدمے کے ملزمان میں قندیل کے دو بھائیوں محمد وسیم اور اسلم شاہین کے علاوہ ان کے قریبی رشتہ دار حق نواز، ظفر اقبال، محمد عارف، مفتی عبدالقوی اور عبدالباسط شامل تھے۔ محمد وسیم اور حق نواز اس مقدمے کے مرکزی ملزمان تھے جبکہ ملزم عبدالباسط ٹیکسی ڈرائیور تھا اور اُس پر الزام تھا کہ اس نے قندیل بلوچ کے قتل کے بعد محمد وسیم اور حق نواز کو فرار کروانے میں مدد کی تھی۔ خیال رہے کہ جب قندیل بلوچ کو تین سال قبل قتل کیا گیا تھا تو اس وقت مقتولہ کے والد اور مقدمے کے مدعی محمد عظیم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ قطعی طور پر ملزمان کو معاف نہیں کریں گے۔ تاہم بیٹے کو اس کے والد کے پاس بھیجنے کے بعد ہی فوزیہ عظیم قندیل بلوچ بنیں۔ ان کی بےباکانہ حرکات کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے لیکن قندیل نے اپنے انداز اور خیالات کے بارے میں کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔
/urdu/world-57183894
ملنسار اور ہمیشہ خوش رہنے والی لوسی جب بیمار ہوئیں تو ان کی شخصیت سرے سے بدل گئی اور وہ ہر ہر وقت مایوس رہنے اور رونے والی بن گئیں اور آخر انھیں نفیساتی امراض کے وارڈ میں منتقل کرنا پڑا۔
سنہ 2016 میں لوسی یونیورسٹی آف لیسسٹر، انگلینڈ میں کریمنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کے آخری سال میں تھیں جب وہ بیمار ہو گئیں اور ان کی شخصیت سرے سے بدل گئی۔ لوسی جن کی عمر اب 25 برس ہے، کہتی ہیں ’صرف ایک ہفتے میں میرا رویہ مکمل طور پر بدل گیا۔ میں بہت ملنسار، ہمیشہ خوش رہنے والی اور حوصلہ افزا انسان سے ہر وقت مایوس رہنے اور رونے والی بن گئی۔‘ ایک دن لوسی کی روم میٹس کی آنکھ ان کی چیخوں سے کھلی۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کو بتایا گیا کہ وہ ذہنی تناؤ کی وجہ سے اس صورتحال کا شکار ہیں۔ انھیں سانس کی کچھ ورزشیں بتائی گئیں اور گھر بھیج دیا گیا لیکن اگلی ہی صبح وہ پھر چیخنے لگیں۔ لوسی کے والدین نے انھیں گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے۔ اس دوران لوسی کا رویہ اتنا غیر متوقع تھا کہ انھوں نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگانے کی بھی کوشش کی۔ ہسپتال پہنچنے پر لوسی کے والدین کو بتایا گیا کہ ان کا ’مینٹل بریک ڈاؤن‘ ہوا ہے اور مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت انھیں ہسپتال میں داخل کیا جائے گا۔ انھیں نفیساتی امراض کے وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں انھوں نے تین ماہ کا عرضہ گزارا۔ لوسی کو نفیساتی امراض میں مؤثر ادویات دی گئیں لیکن ان کی حالت جلد ہی بگڑ گئی۔ لوسی کے والدین کو بتایا گیا کہ وہ ’ہلکا سا گر گئی تھیں‘ لیکن اس جلنے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہو سکا جب بعد میں لوسی نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سنہ 2016 میں کرسمس سے صرف چند دن پہلے ہی لوسی کو ذہنی امراض کے یونٹ سے ڈسچارج کر دیا گیا اور آخر کار جنوری میں ان کے والدین کو ان کی بیماری کے صحیح تشخیص کے بارے میں علم ہوا۔ وہ کہتی ہیں ’میرے پسندیدہ سنگر ایلوس پریسلے ہیں تو میرے نانا نے ایلوس کے گانوں کے تمام سکرپٹ انٹرنیٹ سے حاصل کیے اور انھیں کی بورڈ پر پلے کرنا شروع کر دیا اور ایسے میں نے گانے گا کر دوبارہ بولنا سیکھنا شروع کیا۔‘ ہسپتال سے فارغ ہونے کے ایک برس بعد لوسی کو پتا چلا کہ انھیں چلنے میں اب تک دشواری کیوں پیش آ رہی تھی۔ ریڈی ایٹر نے ان کی ٹانگ کے نچلے حصے میں اعصاب کو متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ٹانگ کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔ اپنے ماڈلنگ کیریئر میں لوسی اپنی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی رنگ برنگی چیزوں کے ساتھ ماڈلنگ کرتی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ ایسا کرنے سے میڈیا پر معذور افراد کی نمائندگی میں اضافہ ہو گا۔ لوسی معذور افراد کو زیادہ سے زیادہ سامنے لانے اور انسیفلائٹس کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے اپنا کام جاری رکھنے کی امید کرتی ہیں۔
/urdu/pakistan-58032944
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں تین سال قبل بننے والی حکومت کے بعد ڈاکٹر عشرت حسین کو ادارہ جاتی اصلاحات کا کام سونپا گیا تھا اور استعفیٰ دینے کے بعد سے یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ آیا وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے یا اس کی وجہ ان کی تجویز کردہ اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہونا بنی۔
وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کی جانب سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد سے یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ آیا وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے یا اس کی وجہ ان کی تجویز کردہ اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہونا بنی۔ تین برس قبل پاکستان تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت بنائی تو ڈاکٹر عشرت حسین کو ادارہ جاتی اصلاحات کا کام سونپا گیا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے ڈاکٹر عشرت حسین کا پیشہ وارانہ کرئیر 50 برس سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ تاہم ان کا نام اس وقت ملکی سطح پرزیادہ نمایاں ہوا جب فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں انھیں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر لگایا گیا تھا۔ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اعظم عمران خان نے اگست میں اپنے عہدے پر حلف اٹھانے کے بعد انھیں اپنا مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات مقرر کیا جس پر انھوں نے تین سال تک کام کرنے کے بعد استعفی دے دیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین کے ذمے پاکستان کے سرکاری شعبے کے کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات تیار کرنے کا کام لگایا گیا اور اسی مقصد کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کا سیل وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں قائم کیا گیا۔ ان کے مطابق ’ڈاکٹر عشرت حسین کی جانب سے پیش کی جانے والی اصلاحات کی مخالفت میں ایک تو ایلیٹ کلچر رکاوٹ بنا جو ان اصلاحات پر عمل درآمد نہیں چاہتا تو اس کے ساتھ خود بیوروکریسی نے بھی اس پر مزاحمت کی اور ساتھ ساتھ وہ افراد جو پاور کوریڈور میں اثر رکھتے ہیں اور حکام اعلیٰ کے دوست اور ان سے قربت رکھتے ہیں وہ بھی اس کام میں رکاوٹ ڈالتے رہے ہیں۔‘ ڈاکٹر عشرت حسین نے ملکی میڈیا کو اپنے استعفیٰ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’80 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ مزید ذمہ داری انجام نہیں دینا چاہتے اور اب وہ اس ذمہ داری کو خدا حافظ کہنا چاہتے ہیں۔‘ انھوں نے اصلاحات پر اپنی کاوشوں اور اس کے نتائج کا بھی ذکر کیا۔ ان کے استعفے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہارون شریف نے کہا ان کی سمجھ کے مطابق ڈاکٹر عشرت حسین اپنی پیش کردہ اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے بھی شاید مستعفی ہوئے ہوں کیونکہ وہ وزیر اعظم کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے جس کے پاس عمل درآمد کا اختیار نہیں ہوتا۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ وہ کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے پریشان ہو کر استعفیٰ دیا یا نہیں دیا اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم وہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیوروکریسی اضطراب کا شکار ہے کیونکہ سوائے ان بیوروکریٹ کے جو سیاسی روابط کے ذریعے ترقی و تبادلہ پاتے ہیں دوسرے لوگ اصلاحات کے مخالف نہیں تھے۔
/urdu/regional-60724446
انڈیا کی ریاست اڑیسا میں دیہاڑی دار مزدور ایسک منڈا نے کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران یوٹیوب کا رُخ کیا۔ اب وہ ایک سوشل میڈیا سٹار بن چکے ہیں اور لاکھوں روپے کماتے ہیں۔
ایسک منڈا انڈیا کی ریاست اڑیسا میں دیہاڑی دار مزدور تھے جنھوں نے کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران یوٹیوب کا رُخ کیا۔ اب وہ ایک سوشل میڈیا سٹار بن چکے ہیں اور لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ سندیپ ساہو اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ مارچ 2020 کے دوران منڈا نے جب یوٹیوب پر اپنی پہلی ویڈیو لگائی تو وہ ایک مخدوش صوتحال کا سامنا کر رہے تھے۔ کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے ملک گیر لاک ڈاون نے انڈیا کے تعمیراتی شعبے کا کام ٹھپ کر دیا تھا جس سے منڈا کو بھی اُجرت ملتی تھی۔ لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور سوچا کہ ایک کوشش اور کی جائے۔ اب انھوں نے مدد کے لیے یوٹیوب کا ہی سہارا لیا اور دیکھا کہ کس طرح بہت سے لوگ اپنی ویڈیوز کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ اب وہ بھی کیمرے کی آنکھ کے سامنے آرام دہ نظر آتے ہیں اور کبھی گاؤں میں مرغی کی پارٹی اور کبھی اپنے خاندان کے ساتھ مشروم کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منڈا کی ویڈیوز ایک ایسی کیٹیگری میں شامل ہیں جن میں لوگ کھانا کھاتے ہیں اور اس دوران ناظرین سے گفتگو کرتے ہیں۔ انڈین شہری ہر جگہ سے ان کی ویڈیوز دیکھتے ہیں اور ان پر تبصرے کرتے ہیں جن میں وہ اپنے گھروں کے کھانے سے ان کے کھانوں کا موازنہ بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ کتنی سادگی اور بناوٹ کے بغیر اپنی زندگی دوسروں کے سامنے لاتے ہیں۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’ان کی کمیونٹی کی دعوت میں تو بہت مزہ آتا ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ان کو واقعی معلوم ہے کہ خوراک کی قدر کیا ہے اور اس کی عزت کیسے کرنی ہے۔‘ وقت کے ساتھ منڈا کی شہرت بھی پھیل چکی ہے۔ اپنے پسندیدہ گھر کے پکوانوں سے اب وہ اپنے چینل کے صارفین کی فرمائشوں پر بھی مختلف پکوان بناتے ہیں۔ شمالی انڈیا کے آلو پراٹھے اور چاو من کی انڈین ترکیب بھی ان کی ویڈیوز میں شامل ہیں۔ منڈا جب مزدوری کرتے تھے تو دن میں ڈھائی سو روپے کماتے تھے اور ایک مہینے میں 18 سے 20 دن کام کرتے تھے۔ اپنے والدین کے علاوہ چھ افراد کے خاندان کے گزر بسر کے لیے یہ رقم ناکافی تھی۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے بھی پیسے بچا رکھے ہیں اور ایک استعمال شدہ گاڑی بھی خریدی۔ اب وہ ویڈیوز کی ایڈیٹنگ کے لیے بھی ایک لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ منڈا اپنے علاقے کی ایک مشہور شخصیت بن چکے ہیں اور کبھی کبھار وہ گاؤں والوں کے لیے شاہانہ دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں مرغی کی ڈش بھی ہوتی ہے۔
/urdu/world-52223983
الیگزینڈرا ٹولسٹوئے کو سنہ 2008 میں اس وقت اپنے خوابوں کا شہزادہ ملا جب ان کی ایک روسی ارب پتی سرگئی پُگاچیو سے ملاقات ہوئی۔
الیگزینڈرا ٹولسٹوے کی روسی ارب پتی سرگئی پگاچیو سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انھیں انگلش پڑھانے کے لیے ٹیوٹر رکھا گیا برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی الیگزینڈرا ٹولسٹوئے کو سنہ 2008 میں اس وقت اپنے خوابوں کا شہزادہ ملا جب ان کی ایک روسی ارب پتی سرگئی پُگاچیو سے ملاقات ہوئی۔ جب الیگزینڈرا اور ان کے شوہر مشکل سے اپنی زندگی گزار رہے تھے تو الیگزینڈرا کی زندگی میں زرہ بکتر پہنے ایک بادشاہ آیا۔ ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب سرگئی پُگاچیو نے الیگزینڈرا ٹولسوئے کو انگلش پڑھانے کے لیے ٹیوٹر رکھا۔ سرگئی پگاچیو سے ملاقات کے پہلے سال الیگزینڈرا کا پہلا بچہ پیدا ہوا اور ان کی زندگی ماسکو، لندن، یا کریبئین کے عالیشان گھروں میں گزری۔ کیمونزم کے بعد کے روس میں سرگئی پُگاچیو کی دولت پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ ان کے کاروباروں میں کوئلے کی کان، شپ یارڈ، مشہور ڈیزائنر برانڈز اور روس کا سب سے بڑا پرائیویٹ بینک تھا۔ سنہ 2008 میں پُگاچیو کا بینک مشکلات کا شکار ہو گیا اور روسی ریاست نے اسے بچانے کے لیے ایک ارب ڈالر دیے۔ حکومتی بیل آؤٹ کے باوجود سرگئی پُگاچیو کا بینک دو برس میں ختم ہو گیا۔ سرگئی پُگاچیو کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بینک کو ایک سال پہلے بیچ دیا تھا لیکن روسی حکومت اس فروخت سے متفق نہیں تھی۔ ڈی آئی اے کے اہلکار سرگئی پُگاچیو سے وہ ایک ارب ڈالر مانگ رہے تھے جو روسی ریاست نے ان کے پرائیویٹ بینک کو بچانے کے لیے بیل آؤٹ دیا تھا۔ عدالت نے روسی ریاست کے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پُگاچیو کو ایک ارب ڈالر روس کو دینے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ روسی حکومت کی طرف سے سرگئی پُگاچیو کے بینک کو ایک ارب ڈالر کا جو بیل آؤٹ ملا، وہ انھوں نے سوئس بینک اکاؤنٹ میں جمع کیا اور پھر وہاں سے انھیں کئی اکاؤنٹس میں ڈالا اور پھر یہ رقم کہیں غائب ہو گئی۔ سرگئی پُگاچیو برطانیہ سے فرار ہو کر فرانس میں اپنے محل میں پہنچ گئے جہاں وہ اب بھی مقیم ہیں۔ سرگئی پگاچیو نے روسی حکومت کے خلاف ان کا کاروبار تباہ کرنے کے الزام میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ جب سرگئی پگاچیو نے الیگزینڈرا سے کہا کہ ان کے خاندان کو مستقل فرانس منتقل ہو جانا چاہیے تو الیگزینڈرا نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور فرانس منتقل ہونے سے انکار کیا۔ الیگزینڈرا کہتی ہیں کہ انھیں پیشکش ہوئی کہ اگر وہ اس گھر میں ایک سال کے لیے رہنا چاہتی ہیں تو پھر وہ سرگئی سے نہ تو کسی قسم کی دیکھ بھال کا تقاضہ کریں گی اور نہ ہی ان سے اپنا ادھار مانگیں گیں۔ الیگزینڈرا اپنا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ آکسفورڈ شائر میں اپنے کاٹیج میں گزارتی ہیں۔ ان کے بچوں نے سنہ 2016 کے بعد سے اپنے والد کو نہیں دیکھا ہے۔
/urdu/science-55056511
کوئی ایک گانا ایسا ہو گا جو آپ کے دل کے انتہائی قریب ہو گا اور سال ہا سال گزرنے کے باوجود آپ کے ذہن میں اس پسندیدہ گانے کے بول اور دھن آج بھی ہمیشہ کی طرح تازہ ہو گی۔ ہزاروں گانوں میں سے ایک مخصوص گانا ہمیشہ کے لیے ذہن میں رہ جانا کیسے ممکن ہو پاتا ہے؟
اور یہ جانے بغیر کہ ایسا کیوں ہے مگر موسیقی ان چند ہتھیاروں میں سے ایک ہے جو معالجین الزائمر کے مرض میں مبتلا افراد کی یاداشت کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن موسیقی کا اثر یاداشت پر کیسے پڑتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ یاداشت کھونے کے مرض میں مبتلا افراد اپنی آخری پسندیدہ چیز جو بھولتے ہیں، موسیقی ان میں سے ایک ہے؟ ان حوالے سے دستیاب مفروضوں میں سے ایک مفروضہ کافی حیرت انگیز ہے اور اس کے مطابق موسیقی کی سب سے پہلے ابتدا ان ماؤں نے کی جو اپنے چھوٹے بچوں کو پُرسکون کرنے کے لیے گنگناتی تھیں۔ ایک مفروضہ اور ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انسانی زندگی میں موسیقی کی ابتدا کا مقصد جانوروں کی ’گائیکی‘ کی تقلید کرنا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی ایک گانا کسی خاص لمحے کے ناقابل فراموش سفر کا حصہ بن جاتا ہے، جیسا کہ کوئی یادگار سیر، ایک اہم کامیابی، کسی کی محبت میں گرفتار ہو جانا۔ اور ایسا ہوتے وقت ناصرف گانا بلکہ اس گانے کی ترجمانی کرنے والے فنکار یا گانے کی دھن بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘ ’اور ایسا صرف ایک مختصر مدت کے لیے نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک گانا جسے ہم نے 15 سال کی عمر میں سُنا ہوتا ہے، ہم اسے اپنی باقی زندگی میں کئی بار سُن سکتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی انداز میں ہماری یادوں میں موجود رہتا ہے۔‘ لوسیا اوموروسو نے اپنی ایک تحقیق میں لکھا کہ وہ افراد جنھوں نے برسوں تک ٹانگو، جنوبی امریکہ کی میلوڈی جس پر مخصوص ڈانس کیا جاتا ہے، سُن رکھا ہو وہ ان لوگوں کے برعکس، جنھوں نے یہ دھن نہ سنی ہو اور اس پر ڈانس نا دیکھا ہو، ایک سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں پہلی مرتبہ ٹانگو کرنے والے شخص کی غلطی پکڑ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ دماغ میں جو ردعمل ہمیں اس غلطی کا اندازہ لگانے میں مدد کرتا ہے وہ اس تجربے کی بنیاد پر ہے جو ٹانگو کو برسوں سننے اور اس پر رقص کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ یہ گانا شروع ہونے کی دیر تھی کہ اپنی وہیل چیئر میں بیٹھی یہ بوڑھی خاتون آنکھیں بند کر کے ایک روشنی محسوس کرتی ہیں اور اپنی ہاتھوں کو مخصوص بیلے ڈانس کے انداز میں حرکت دیتی ہیں اور اس وقت وہ ایسا محسوس کر رہی ہوتی ہیں کہ جیسے وہ لوگوں سے بھرے کسی آڈیٹوریم کے سامنے پرفارم کر رہی ہیں۔ مارتھا نے نوجوانی میں کیوبا میں بیلے سیکھا تھا اور الزائمر کی بیماری کے خطرناک حد تک پہنچ جانے کے باوجود ’سوان لیک‘ ان کے ذہن سے محو نہیں ہو پایا تھا۔ اور وہی پرانی یادیں اس وقت تازہ ہو گئیں جب کسی نے ان کے قریب اس گانے کو بجایا۔
/urdu/world-53413681
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی طلبہ کے لیے گذشتہ ہفتے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم ہارورڈ اور ایم آئی ٹی سمیت کئی دیگر یونیورسٹیوں کی جانب سے مقدمات کے بعد اب یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
امریکہ کی حکومت کی جانب سے یہ یو ٹرن نئی پالیسی کے اعلان کے ایک ہفتے کے بعد ہی لیا گیا ہے۔ اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس معاہدے کے تحت مارچ میں وبا پھوٹنے پر جو پالیسی نافذ کی گئی تھی، اسے بحال کیا جائے گا جس کے مطابق غیر ملکی طلبا ضرورت ہونے پر اپنی کلاسیں آن لائن بھی لے سکتے ہیں اور اسی دوران تعلیمی ویزا پر ملک میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر سال دنیا بھر سے بڑی تعداد میں طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کا رُخ کرتے ہیں جس سے وہاں کی یونیورسٹیوں کو خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ ہارورڈ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر اگلے تعلیمی سال سے کورسز آن لائن پڑھائے جائیں گے جبکہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح ایم آئی ٹی نے بھی کہا تھا کہ وہ آن لائن تعلیم ہی جاری رکھے گی۔ غیر ملکی طلبہ کو مطلع کیا گیا تھا کہ اگر انھوں نے رواں سال فال سیمیسٹر میں کسی ایسے کورس میں اندراج نہیں کروایا جہاں ذاتی طور پر حاضری ضروری ہو، تو انھیں امریکہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی غیر ملکی طلبہ کو گذشتہ ہفتے مطلع کیا گیا تھا کہ اگر انھوں نے رواں سال فال سیمیسٹر میں کسی ایسے کورس میں اندراج نہیں کروایا جہاں ذاتی طور پر حاضری ضروری ہو، تو انھیں امریکہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو طلبہ مارچ میں تعلیمی سال کے اختتام پر اپنے اپنے ممالک کو لوٹ گئے تھے ان کے لیے اعلان میں کہا گیا تھا کہ اگر اُن کی کلاسیں مکمل طور پر آن لائن ہو چکی ہیں تو انھیں واپس نہیں لوٹنے دیا جائے گا۔ ان ضوابط کا اطلاق ایف ون اور ایم ون ویزا کے حامل افراد پر ہونا تھا جو طلبہ اور ہنری تربیت حاصل کر رہے افراد کو دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے محکمہ تجارت کے مطابق غیر ملکی طلبا کی وجہ سے سنہ 2018 میں امریکی معیشت کو 45 ارب ڈالر (36 ارب پاؤنڈ) کا فائدہ ہوا۔ دو دن کے بعد ہارورڈ اور ایم آئی ٹی نے حکومت کی ان ہدایات کی منسوخی کے لیے مقدمہ دائر کر دیا۔ درجنوں دیگر یونیورسٹیوں نے بھی عدالتی دستاویزات پر اپنی حمایت کے دستخط کیے۔ ان 59 یونیورسٹیوں نے اپنی حمایتی دستاویز میں مؤقف اختیار کیا کہ 'اصل مقصد طلبہ کے مکمل کورسز میں اندراج کو یقینی بنانا یا سٹوڈنٹ ویزا پروگرام کی ساکھ برقرار رکھنا نہیں، بلکہ یونیورسٹیوں پر دوبارہ کھلنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔' ان کے مطابق کئی ماہ کی افراتفری اور ہنگامی حالت کے بعد یہ حالات کی بہتری کا ایک اشارہ ہوگا جو نومبر میں ان کے دوبارہ انتخاب کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ مگر کئی تعلیم دانوں کو طلبہ کی صحت کے حوالے سے خدشات ہیں اور وہ وبا کے دوران سماجی دوری کے ضوابط کی پاسداری جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
/urdu/regional-59501135
افغانستان پہلے ہی شدید خشک سالی اور کئی دہائیوں کے تنازعات سے متاثر تھا لیکن طالبان کے قبضے نے ملک کو مزید تیزی کے ساتھ معاشی تباہی کی طرف بڑھا دیا۔ کئی دہائیوں تک افغانستان کی معیشت اور اس کے صحت کے نظام کو سہارا دینے والی امداد بھی اگست میں رک گئی۔
افغانستان پہلے ہی شدید خشک سالی اور کئی دہائیوں کے تنازعات سے متاثر تھا لیکن طالبان کے قبضے نے ملک کو مزید تیزی کے ساتھ معاشی تباہی کی طرف بڑھا دیا۔ بین الاقوامی امداد کی جس نے کئی دہائیوں تک افغانستان کی معیشت اور اس کے صحت کے نظام کو سہارا دیا، اگست میں رک گئی۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق افغانستان بھوک کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اس موسم سرما میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ بچوں کے غذائی قلت سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک بھر میں بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنے والے ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تقریباً 2300 مراکز پہلے ہی بند ہیں۔ ’اور جو وقت پر پہنچ جاتے ہیں ان کی مدد کے لیے بہت کم وسائل موجود ہیں۔ ہسپتال کو کھانے اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہاں تک کے مریضوں کو سردی سے بچانے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘ ’ایک دن ہم آپریشن تھیٹر میں تھے کہ بجلی چلی گئی۔ سب کچھ رک گیا۔ میں بھاگ کر گئی اور مدد کے لیے پکارا۔ کسی کی گاڑی میں ایندھن تھا جو انھوں نے ہمیں دیا تاکہ ہم جنریٹر چلا سکیں۔‘ اس طرح کے مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہونے کے باوجود صحت کی دیکھ بھال کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر کو اس وقت تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی۔ صوبہ ہیرات کے ایک ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمانی، جو کورونا کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، نے بی بی سی کو طالبان کی وزارت صحت کا 30 اکتوبر کا ایک خط دکھایا، جس میں ہسپتال کے سٹاف کو فنڈز ملنے تک بغیر تنخواہ کے کام کرنے کا کہا گیا تھا۔ منگل کے روز ڈاکٹر رحمانی نے تصدیق کی کہ انھیں ہسپتال کو بند کرنا پڑا کیونکہ فنڈز نہیں ملے۔ تصاویر میں دیکھا گیا کہ مریضوں کو سٹریچر پر ہسپتال سے باہر لے جایا جا رہا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ یہ ہسپتال بھی کم ہوتے عملے کی وجہ سے اب بند ہونے کے دہانے پر ہے اور اگر یہ بند ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر نوروز کو فکر ہے کہ آنے والی شدید سردی میں ان مریضوں کا کیا ہو گا۔ طالبان کے مقرر کردہ وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد نے نومبر میں بی بی سی فارسی کو بتایا کہ حکومت امدادی کوششوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ طالبان حکومت آنے کے بعد پہلی بار 10 نومبر کو اقوام متحدہ افغانستان کے صحت کے نظام میں براہ راست ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد دینے میں کامیاب ہوا۔ تقریباً 80 لاکھ ڈالر ہیلتھ ورکرز کی تنخواوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے گئے۔
/urdu/sport-52691511
شیڈول کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اگست میں انگلینڈ میں تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے ہیں۔ ایک تجویز میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام میچز بند سٹیڈیم میں شائقین کے بغیر کھیلے جائیں گے۔
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو دورہ انگلینڈ کی پیشکش کی ہے اور اس حوالے سے ایک پریزنٹیشن دی ہے۔ یاد رہے کہ شیڈول کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اگست میں انگلینڈ میں تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے ہیں۔ یہ تمام میچز بند سٹیڈیم میں شائقین کے بغیر کھیلے جائیں گے۔ اس سے قبل آئر لینڈ کے خلاف جولائی میں پاکستان کی دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز منسوخ کر دی گئی تھی۔ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) وسیم خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے حکام نے انھیں تفصیل سے اس دورے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ کردیا ہے جسں میں سب سے زیادہ اہمیت کھلاڑیوں کی صحت اور ان کی حفاظت کو دی گئی ہے۔ وسیم خان کا کہنا ہے کہ پریزنٹیشن کے مطابق پاکستانی ٹیم جولائی کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ پہنچے گی جہاں اسے پہلے 14 دن قرنطینہ میں گزارنے ہوں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی معمول کی پریکٹس کا آغاز کریں گے۔ ویسم خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم عام فلائٹ کے بجائے چارٹرڈ فلائٹ سے انگلینڈ جائے گی جس کے اخراجات انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ برداشت کرے گا۔ وسیم خان نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کے دورے میں کسی کاؤنٹی کے ساتھ کوئی وارم اپ میچ نہیں ہوگا لہذا انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا ہے کہ وہ اس دورے میں 25 کھلاڑی بھیج سکتا ہے۔ ’اضافی کھلاڑیوں کے اخراجات بھی میزبان بورڈ برداشت کرے گا۔‘ وسیم خان کا کہنا ہے کہ اس دورے میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کا باقاعدہ ٹیسٹ لیا جاتا رہے گا کیونکہ دونوں کرکٹ بورڈز کھلاڑیوں کی صحت کے معاملے میں کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سی ای او کا کہنا ہے کہ دورے میں کھیلے جانے والے تین ٹیسٹ میچوں کے گراؤنڈز کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا لیکن چونکہ اولڈ ٹریفرڈ اور ساؤتھمپٹن کے گراؤنڈز میں ہی ہوٹل موجود ہیں لہذا ٹیسٹ میچز انھی گراؤنڈز میں ممکن ہوسکیں گے۔ ’لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی سیریز کے بعد ہوگا۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پاکستانی ٹیم کو پریکٹس کے لیے بھی ایک گراؤنڈ مہیا کرے گا۔‘ وسیم خان نے کہا کہ اس دورے کے سلسلے میں وہ ’حکومت پاکستان سے بھی بات کریں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے تمام کھلاڑیوں سے بھی بات کریں گے۔ ’کھلاڑیوں پر دورہ کرنے کے سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا تاہم انھیں پتا چلا ہے کہ تمام کھلاڑی اس دورے کے سلسلے میں خاصے پُرجوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد دوبارہ میدان میں نظرآئیں۔‘
/urdu/world-51569875
اس وقت شمالی شام میں ایچ ٹی ایس شاید طاقتور ترین ملیشیا ہے۔ اُن کے مطابق وہ ایک آزاد گروہ ہیں جبکہ اقوام متحدہ، ترکی اور امریکہ انھیں القاعدہ کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں۔
جنوری 2019 میں حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس، جو کہ خود متعدد عسکریت پسند گروہوں کی تنظیم ہے) نے علاقے میں دیگر گروہوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا۔ اس وقت شمالی شام میں یہ گروہ شاید طاقتور ترین ملیشیا ہے۔ یہ ادلب کے بیشتر علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے جن میں صوبائی دارالحکومت اور باب الاہوا کے نام سے ترکی کے ساتھ بارڈر کراسنگ ہے۔ اگرچہ ایچ ٹی ایس کا اصرار ہے کہ وہ ایک آزاد گروپ ہے تاہم اقوام متحدہ، ترکی، اور امریکہ اسے القاعدہ کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں۔ ماہرین عموماً اس حوالے سے اعداد و شمار دینے سے کتراتے ہیں تاہم ایک آزاد تجزیہ کار ایمن جواد التمیمی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ایچ ٹی ایس سب سے بڑا گروپ ہے جو ابھی بھی صوبہ ادلب کے بڑے علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے، حکومت کے خلاف زیادہ تر لڑائیاں یہی گروپ لڑتا ہے اور اس کے جنگجوؤں کی تعداد 15 ہزار سے 20 ہزار ہے۔ التمیمی کے مطابق ایچ ٹی ایس اس علاقے میں ایک ایسا سول نظام نافذ کیا اور اس کی حمایت کر رہی ہے جہاں قائم اپوزیشن کی حکومت کو ہزاروں ملازمین بھی دستیاب ہیں۔ ان کے مطابق اس کے باوجود کہ گروپ اس بات کی تردید کرتا ہے لیکن ایچ ٹی ایس کی وابستگی القاعدہ کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ (ایچ ٹی ایس) القاعدہ کے جھنڈے تلے جمع ہیں اور وہ القاعدہ جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔‘ امریکہ کے ایک تحقیقاتی ادارے دی سینچری فاؤنڈیشن کے آرون لنڈ کے مطابق این ایل ایف ابھی بھی وہی گروہ ہے جو وہ اپنی ایس این اے کی صورت تشکیل نو سے پہلے تھا۔ ان کے خیال میں اس اتحاد میں اب بھی وہی (سخت گیر) گروپس شامل ہیں۔ ان کے خیال میں اس اتحاد کو ترکی کی طرف سے ہر طرح کی افرادی، مالی اور دفاعی مدد حاصل ہے۔ آرون لنڈ کے مطابق یہ اتحاد ایچ ٹی ایس کے مقابلے میں واضح طور پر ایک کمزور طاقت ہے۔ ان کے خیال میں ان میں نظم و ضبط، آپریشن اور تنظیمی ڈھانچے جیسے اجزا کی کمی ہے اور اس اتحاد کو اس قدر اسلحہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ ’تاہم اس گروہ کے پاس کچھ مزید انفرادی طاقت حاصل ہے اور یہ ترکی کے بھی زیادہ قریب ہے جس کا ادلب کے مستقبل میں اہم کردار ہے۔‘ حرس الدین میں زیادہ افراد ایچ ٹی ایس چھوڑنے والوں میں سے شامل ہیں۔ اس وقت اختلافات کی وجہ سے کبھی کبھار محدود اتحاد کے علاوہ دونوں گروہوں کے لیے ایک ساتھ کام کرنا انتہائی مشکل بن چکا ہے۔
/urdu/pakistan-57373943
حزب اختلاف نے انسانی حقوق کی کمیٹی حکومتی رکن سینیٹر ولید اقبال کے حوالے کر دی ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنے رہنما اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کے مطابق اب حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ نہ کیا تو پھر اس کی ذمہ داری بھی اپوزیشن پر ہو گی۔
پاکستان کے پارلیمان میں سینیٹ (ایوان بالا) میں مختلف قائمہ و فنکشنل کمیٹیوں کے نئے سربراہان منتخب کیے جا رہے ہیں جس میں ایک اہم پیش رفت جمعے کو سامنے آئی جب انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف سے لے کر حکومت کو دے دی گئی یا خود حزب اختلاف نے یہ کمیٹی حکومتی رکن کے حوالے کی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنے رہنما اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کے مطابق اب حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ نہ کیا تو پھر اس کی ذمہ داری بھی اپوزیشن پر ہو گی۔ حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے صرف پاکستان کی پیپلز پارٹی نے اپنے سینیٹر مصطفی نواز سے اس بارے میں اختلاف کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ کے ترجمانوں اور رہنماؤں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ خیال رہے کہ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی کچھ پالیسیوں اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے دوری اختیار کرنے پر اختلاف رائے کیا تھا۔ کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹر مصطفی نواز سے ناراضگی کی وجہ سے یہ کمیٹی مسلم لیگ ن کو تحفے میں پیش کی جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس کمیٹی کو حکومتی رکن سینیٹر ولید اقبال کے حوالے کرنے میں اہم کردار اد کیا۔ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، جو کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ تھے، نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ اس کمیٹی کی سربراہی حکومت کے پاس جانے اور اسے فنکشنل کمیٹی سے قائمہ کمیٹی میں تبدیل کرنے سے اس کے پر کاٹے گئے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید نے اس کی سربراہی حکومت کو دے کر دفاع کی کمیٹی حاصل کر لی، اب متاثرین کی آہوں کے مجرم ہم بھی ہوں گے ان کے مطابق چیئرپرسن کے پاس یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی کمیٹی اپنی مدت کے دوران کتنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اپنے تجربے سے بتاتے ہیں کہ 'کمیٹی کے اراکین بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ میٹنگ بلانے کے لیے کم از کم 25 فیصد ممبران کو طلب کرنا ہوگا۔۔۔ ممبران کو بلایا بھی جائے تو 25 فیصد کی حاضری مشکل ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی کی سربراہی کرنا اہم اس لیے ہے کہ حکومت سے وابستگی رکھنے والا سربراہ اپنی حکومت پر ایک حد تک تنقید ہی کرسکتا ہے۔ 'اسے حکومت اور حکومتی اراکین کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے کہ آپ اپنی ہی جماعت و حکومت کو بدنام کر رہے ہو۔ یہ مسئلہ اپوزیشن کے چیئرمین کے ساتھ نہیں ہوتا، وہ بغیر کسی دباؤ اور حد کے فعال کردار ادا کرسکتا ہے، مسئلے اٹھا کر میڈیا پر لا سکتا ہے۔'
/urdu/vert-fut-59335805
شمال مشرقی انڈیا میں مقامی لوگ صدیوں سے سر سبز انجیر کی جڑوں کو آپس میں بل دے کر پل بناتے رہے ہیں۔ انڈیا کا یہ قدیم ہنر اب یورپی شہروں تک پہنچ گیا ہے۔
شمال مشرقی انڈیا میں مقامی لوگ صدیوں سے سر سبز انجیر کی جڑوں کو آپس میں بل دے کر ندیوں اور نالوں پر پل بناتے رہے ہیں۔ انڈیا کا یہ قدیم ہنر اب یورپی شہروں تک پہنچ گیا ہے۔ جب مون سون کی موسلادھار بارشیں ٹائرنا کے گاؤں پر برستی ہیں تو شائلِنڈا سائیملی نزدیک ہی بنے پل پر چل کر تیز دھار ندی کے دوسرے کنارے پہنچ جاتی ہیں۔ یہ سیمنٹ اور دھات کا بنا عام پل نہیں ہے۔ یہ ندی کے کنارے کھڑے انجیر (ربڑ پلانٹ) کے تناور درخت کی ہوا میں جھولتی جڑوں کو آپس میں بُن کر بنایا گیا ہے۔ یہ پل لوگوں کے تو کام آتا ہی ہے اس کے ساتھ یہاں کے ماحولیاتی نظام کے لیے بھی اہم ہے۔ ٹائرنا بنگلادیش کے میدانی علاقوں سے ذرا سا اوپر شمال مشرقی انڈین ریاست میگھالایا میں واقع ہے، جہاں ایسے سینکڑوں پل موجود ہیں۔ یہ پل صدیوں سے یہاں آباد کھاسی اور جائنتیا برادریوں کو مون سون کے دوران تیز دھار بہتی ندیوں اور دریاؤں کے پار جانے میں مدد دیتے رہے ہیں۔ سائیملی کہتی ہیں: 'ہمارے اجداد بہت ہوشیار تھے۔ جب ان کے لیے دریا عبور کرنا ممکن نہیں رہتا تو وہ درختوں کی جڑوں کو آپس میں بُن کر 'زندہ جڑوں' کے پل بنا لیتے تھے۔' محقق ان زندہ جڑوں سے بنے ہوئے پلوں کو آب و ہوا کے مقابلے کی مقامی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خشکی کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے ساتھ یہ پل سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بھی ہیں، اور مقامی قدرتی ماحول کی بقا میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ زندہ طرزِ تعمیر کی ان قدیم مثالوں کو جدید شہروں میں بھی اپنا کر ماحولیاتی تبدیلی سے بہتر مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ روایتی پلوں کے برعکس یہ پل اپنے گرد و پیش کے لیے بھی اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ایک تو ان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان یہ خود فراہم کرتے ہیں، اور دوسرا یہ کلائمیٹ چینج کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو بھی زندگی بھر کے لیے جذب کرتے رہتے ہیں۔ یہ زمین کو بھی مضبوط بناتے اور پانی کے ریلے میں بہہ جانے سے روکتے ہیں۔ ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ کے پروفیسر فرڈینینڈ لُڈوِگ، جو 13 سال سے ان پلوں پر تحقیق کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پلوں کی جڑیں زمین کے اندر دور تک پھیل کر مٹی کی مختلف پرتوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہیں۔
/urdu/science-51175437
چین کے علاقے ووہان سے شروع ہونے والے نئے وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کی تصدیق ہو گئی ہے اور چین میں اس وائرس کے 200 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ چین کے گوانگ ڈونگ صوبے میں اس انفیکشن کے دو کیسز انسان سے انسان میں منتقلی کی وجہ سے ہوئے چین کے علاقے ووہان سے شروع ہونے والے نئے وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کی تصدیق کے ساتھ اس سے مرنے والے افراد کی تعداد چار ہو گئی ہے جبکہ یہ وائرس اب ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے۔ چین میں اس وائرس سے متاثرہ 200 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر ووہان میں ہوئے جبکہ بیجنگ، شنگھائی اور شینزین میں بھی لوگوں کو سانس کی تکالیف کی شکایت ہوئی ہے۔ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے پیر کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چین کے گوانگ ڈونگ صوبے میں اس انفیکشن کے دو کیسز انسان سے انسان میں منتقلی کی وجہ سے ہوئے۔ ایک الگ بیان میں ووہان میونسپل ہیلتھ کمیشن نے کہا ہے کہ ووہان میں کم از کم 15 طبی کارکن بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ ان مریضوں کو علاج کے دوران الگ رکھا جارہا ہے۔ جنوبی کوریا نے بھی پیر کے روز اپنے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے جبکہ تھائی لینڈ میں دو اور جاپان میں بھی ایک کیس سامنے آیا ہے۔ متاثرہ افراد حال ہی میں ووہان سے واپس آئے تھے۔ ان کیسز میں تیزی سے اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لاکھوں چینی باشندے نئے قمری سال کے موقع پر سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے چین میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ برطانوی ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد 1700 کے قریب ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چین میں اس وقت اس وائرس سے متاثرہ کیسز کی تعداد 218 ہے۔ پیر کو اس کے 136 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے پہلے شہر میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 62 تھی۔ یاد رہے کہ سائنس دانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک عجیب و غریب وائرس کی وجہ سے چین میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد 1700 کے قریب ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کورونا وائرس ہے۔ اس وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ سنہ 2002 میں چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے اور مجموعی طور پر اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔
/urdu/pakistan-58944412
چیئرمین نادار طارق ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ سماجی تعصبات کے خاتمے کے ذریعے خواتین کو بااحتیار بنانے کی پالیسی بنائی گئی ہے اور اب خواتین نام سے لے کر جائیداد تک اور کام سے لے کر حق رائے دہی تک کا تمام سفر اپنی شناخت سے ہی کر سکیں گی۔
چیئرمین نادرا محمد طارق ملک نے بی بی سی سی کو بتایا کہ ’خواتین کو بااختیار بنانے، ان کی رجسٹریشن اور وراثت سمیت ان کے ہر حق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اب ہم نے انھیں ان کے نام پر مکمل اختیار دے دیا ہے، وہ چاہیں تو شادی کے بعد بھی اپنا نام نہ تبدیل کرائیں اور اگر شوہر سے علیحدگی ہو جائے تو پھر انھیں یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا نام اپنی آزادانہ مرضی سے تبدیل کروا سکیں اور کوئی ان سے سوال نہ کرے کہ ایسا کیوں اور یہ کیا۔‘ طارق ملک تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نادرا کی ایک ’غیر اعلانیہ‘ پالیسی تھی کہ جب کوئی خاتون طلاق کے بعد اپنا نام تبدیل کرانے آتی تھی تو اس سے طلاق نامہ طلب کیا جاتا تھا اور تصدیق کی دیگر دستاویز تک کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فرق ہر جگہ ہی سامنے آ رہا ہے تاہم اب نادرا نے خواتین کے لیے ایسی سہولیات کا اہتمام کیا ہے کہ وہ آسانی سے گھر بیٹھے بھی اپنی رجسٹریشن کرا سکیں گی اور ان کی کال پر نادرا کی گاڑی جس میں زنانہ عملہ ہو گا ان کے گھر پہنچ جائے گی۔ ان کے مطابق ثقافتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نادرا نے مردان اور پشاور میں خواتین عملے پر مشتمل رجسٹریشن کے لیے دو سینٹرز قائم کیے ہیں جہاں ڈیٹا آپریٹر سے لے کر مینیجر تک سب خواتین ہی ہیں۔ ایسے سینٹرز دیگر علاقوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔ طارق ملک کے مطابق اب نادرا کی خواتین کو متحرک کیا ہے کہ وہ نہ صرف خواتین بلکہ خواجہ سرا اور اقلیتوں کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان بنائیں۔‘ چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق سندھ کے شہر جیکب آباد میں ایک سماجی کارکن نے پانچ ہزار ہندو خواتین کو رجسٹر کرانے میں نادرا کی مدد کی ہے۔ ’اب یہ خواتین نام سے لے کر جائیداد تک اور کام سے لے کر حق رائے دہی تک کا تمام سفر اپنی شناخت سے ہی کر سکیں گی۔‘ طارق ملک کے مطابق اب نادرا نے ایسے مردوں کے خلاف بھی مہم چلائی ہے جو خواتین کو رجسٹریشن نہیں کرانے دیتے تاکہ وہ وراثت میں شریک نہ ہو سکیں۔ ’اب ایسے مردوں کو نادرا کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ اپنے خاندان کی تمام خواتین کی رجسٹریشن جلد سے جلد یقینی بنائیں۔‘ چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق عوام کے ڈیٹا تک عوام کو رسائی دیتے ہوئے نادرا نے ایک ایسی سروس بھی متعارف کرائی ہے کہ جس سے کوئی اپنے خاندان کی تصدیق کے لیے 8009 پر مکمل معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق نادرا ابھی تک چار کروڑ خاندانوں کی تصدیق کا عمل مکمل کر چکا ہے۔ ان کے مطابق اب خواتین اس سروس سے یہ پتا بھی چلا سکتی ہے کہ کہیں ان کے شریک حیات نے کسی اور کو خفیہ طور پر تو شریک حیات نہیں بنا رکھا ہے۔
/urdu/pakistan-49121727
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کو کراچی متحدہ اپوزیشن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سلیکٹڈ اور جعلی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم سلیکٹڈ اور جعلی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ملک میں اس وقت جمہوریت، سیاست، آزادیِ صحافت، انسانی حقوق، غریب، مزدور، کسان، صوبے اور وفاق نشانے پر ہیں۔ جب تک سلیکشن اور کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف جدوجہد نہیں ہو گی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں ایک ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق جمعرات کی شب باغ جناح کراچی میں متحدہ اپوزیشن کے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 25 جولائی 2018 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن ایک جعلی اور سلیکٹڈ حکومت قائم کی گئی۔ آج ہم اس جعلی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے متحدہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود اور دیگر کے ساتھ مل کر 1973 کا آئین بنایا۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا جس کی وجہ سے 18 ویں ترمیم منظور اور 73 کا آئین بحال ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سب نے مل کر جمہوریت کے لیے جدوجہد کی۔ آج ہم سب کو نظر آ رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔ وفاق پر حملے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے مسائل ہیں۔ کوئی ایک سیاسی جماعت یہ مسائل حل نہیں کر سکتی اس لیے آج ہم پھر متحد ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جب تک سلیکشن ہوتی رہے گی اور کٹھ پتلی حکومتیں بنتی رہیں گی ہمارے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ سلیکٹڈ عوام کے ووٹ سے نہیں آتے۔ یہ امپائر کی انگلی پر ناچتے ہیں۔ یہ عوام کی چیخیں نکالتے ہیں۔ جب تک ہم ان کے خلاف جدوجہد نہیں کریں گے سلیکٹڈ عوام کو مارتے رہیں گے۔ ہمیں سلیکٹڈ لوگوں کے خلاف جدوجہد کرنا پڑے گی اور علم بغاوت بلند کرنا پڑے گا۔ ہم کٹھ پتلی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم سلیکٹڈ کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت سنگین بحرانوں سے دوچار ہے جن سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے اور ہر ادارہ اپنے حدود میں رہ کر کام کرے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ آج آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ جب لاہور نکلتا ہے تو پورا پاکستان نکلتا ہے۔ آج پورے ملک میں اپوزیشن نے اکٹھے ہو کر یہ پیغام دے دیا کہ اب ہم نہیں یا تم نہیں۔
/urdu/world-58778234
رقم کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے پہنچانا اور وہ بھی بغیر اسے اپنی جگہ سے منتقل کیے بغیر، اس کے لیے نہ تو بینکوں کی اور نہ ہی کرنسی ایکسچینج کی ضرورت ہے، نہ کوئی فارم بھرنا ہے اور نہ ہی فیس ادا کرنی ہے۔
رقم کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے تک پہنچانا اور وہ بھی اسے اپنی جگہ سے منتقل کیے بغیر، اس کے لیے نہ تو بینکوں کی اور نہ ہی کرنسی ایکسچینج کی ضرورت ہے، نہ کوئی فارم بھرنا ہے اور نہ ہی فیس ادا کرنی ہے۔ اس کے ذریعے لاکھوں ڈالر دنیا بھر میں ادھر سے ادھر منتقل کیے جا سکتے ہیں، اس علم کے بغیر کہ رقم کتنی ہے اور اسے کون کنٹرول کر رہا ہے۔ رقم کو دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں غیر قانونی طور پر منتقلی کا نام ہی حوالہ ہے اور اس میں سب سے اہم کردار ایجنٹ یا مڈل مین کا ہوتا ہے جسے ثالث کہا جا سکتا ہے۔ مڈل مین شاذ و نادر ہی کسی لین دین کا ریکارڈ چھوڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ معلوم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہوتی کہ رقم حوالہ کے ذریعے کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ رہی ہے اور اس کا استعمال ممکنہ طور پر منی لانڈرنگ، منشیات کی سمگلنگ اور انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نیویارک سے کوئی شخص بینک اکاؤنٹ کھولے بغیر ہی اسلام آباد رقم بھیج سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے مقامی مڈل مین سے رجوع کر کے اسے ڈالر میں رقم اور پاس ورڈ دینا ہوتا ہے جس پر پیسے بھیجنے والے اور وصول کرنے والے دونوں متفق ہوں۔ یعنی ان دونوں کے علاوہ یہ پاس ورڈ اب بیچ والے افراد کو بھی معلوم ہے۔ یہ دوسرا مڈل مین پاکستانی روپے میں اتنی ہی رقم اس شخص کو دیتا ہے جہاں پیسے پہنچانے تھے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ رقم صحیح شخص تک پہنچے اور اس کے لیے وہ پاس ورڈ پوچھتا ہے۔ آج دنیا جس رفتار سے ٹیکنالوجی کے معاملے میں ترقی کر رہی ہے اسی آسانی کے ساتھ حوالہ کے کام بھی آسان ہو گیا ہے۔ آج فوری پیغام رسانی کے ایپ کے ذریعے پاس ورڈ کی جگہ کوڈ بھیجے جاتے ہیں۔ لہذا مڈل مین اپنی کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ متوازی طور پر بھی اسے بہت آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص روایتی طریقے سے کسی دوسرے ملک میں واقع اپنے خاندان کو امریکہ سے رقم بھیجنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے کئی مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اگر آپ بینکنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک مخصوص رقم ہونی چاہیے۔ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آپ کو کچھ دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے جیسے آپ کی شناخت اور وہاں آپ کی قانونی حیثیت وغیرہ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک میں 9/11 کے حملوں میں دہشت گردوں کو بھی ان غیر روایتی طریقوں سے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ نئے اور سخت قوانین کے نفاذ کے ساتھ اب نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں چند ہزار ڈالر کے بین الاقوامی لین دین اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
/urdu/pakistan-58522356
راولپنڈی کے علاقے فتح جنگ میں موٹروے ٹول پلازہ پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے موٹروے پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سجاد افضل آفریدی شدید زخمی جبکہ ان کے بھائی اور سرکاری افسر نعمان افضل ہلاک ہو گئے ہیں۔
راولپنڈی کے علاقے فتح جنگ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے موٹروے پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سجاد افضل آفریدی شدید زخمی جبکہ ان کے بھائی اور سرکاری افسر نعمان افضل ہلاک ہو گئے ہیں۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی سجاد افضل آفریدی اپنے چھوٹے بھائی نعمان کے ہمراہ ویک اینڈ پر اپنے گھر جا رہے تھے کہ اسی دوران فتح جنگ انٹرچینج کے قریب پولیس کنٹرول پر کسی مشکوک گاڑی کی کال چلی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ فتح جنگ انٹرچینج کی طرف جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق اس کال کے بعد سجاد افضل آفریدی نے مذکورہ گاڑی کو تلاش کرنا شروع کیا اور جب تھوڑی دور جا کر کالے شیشوں والی ایک سفید رنگ کی گاڑی نے ان کی گاڑی کو اوور ٹیک کیا تو ایڈیشنل آئی جی موٹر وے نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی۔ پولیس نے نامہ نگار کو بتایا کہ فتح جنگ ٹول پلازہ کے قریب یہ گاڑی رک گئی اور جونھی ایڈیشنل آئی جی کی گاڑی پیچھے آ کر رکی تو اس گاڑی سے فائرنگ کی گئی جس سے ایڈیشنل آئی جی کے بھائی نعمان افضل موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹول پلازہ پر کالے شیشوں والی ایک سفید رنگ کی گاڑی تیزی سے آتی ہے لیکن ٹول پلازہ کا بیئریر نیچے ہونے کی وجہ سے کچھ لمحموں کے لیے رکتی ہے۔ اتنی دیر میں ایڈیشنل آئی جی موٹر وے کی جیپ اس مشکوک گاڑی کے پیچھے رکتی ہے تو مشکوک گاڑی میں سوار ملزمان گاڑی ریورس کر کے پولیس افسر کی گاڑی سے ٹکراتے ہیں۔ اتنی دیر میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے نعمان افضل نیچے اترتے ہیں تو ملزمان گاڑی سے فائرنگ شروع کر دیتے ہیں جس کے بعد نعمان افضل زمین پر گر جاتے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق اس فائرنگ سے نعمان افضل موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ دو گولیاں ایڈیشنل آئی جی موٹر وے سجاد افضل آفریدی کو بھی لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ سجاد افضل آفریدی کو زخمی حالت میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال لے جایا گیا جہاں پر ڈاکٹروں کے مطابق آپریشن کے بعد ان کے جسم سے گولیاں نکال دی گئی ہیں اور انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور فائرنگ کے بعد تیزی سے گاڑی ٹول پلازہ سے نکال کر لے جاتے ہیں۔ پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام علاقے کی ناکہ بندی کر دی ہے لیکن فوری طور پر کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس واقعے کانوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے اور کہا ہے کہ فائرنگ کرنے والے ملزمان کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے اور زخمی ایڈیشنل آئی جی کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں۔
/urdu/regional-50210411
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے دوران کئی بڑے معاہدوں کی امید۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دو دن کا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں۔ 28 اکتوبر کو ریاض پہنچنے کے بعد وہ 29 اکتوبر کو شاہ سلمان سے ملاقات کریں گے۔ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی انڈین معیشت میں اندرونی سست روی سے نمٹ رہے ہیں وہیں عالمی معیشت میں سست روی کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت بھی مشکل میں ہے۔ ایسے میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ممکنہ طور پر ہونے والے بڑے معاہدوں پر سب کی نظر ہے۔ انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات پر پڑھیے تجزیہ کار قمر آغا کیا کہتے ہیں۔۔ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان بہت گہرے تجارتی تعلقات ہیں۔ انڈیا کا 17 فیصد تیل اور 32 فیصد ایل پی جی سعودی عرب سے آتا ہے اور دونوں کے درمیان تقریباً 27 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اس میں 22 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات انڈیا سعودی عرب سے خریدتا ہے جبکہ انڈیا کی برامدات صرف 5 اعشاریہ 5 ارب ڈالر مالیت کی ہیں۔ انڈیا کے لیے یہ تجارتی عدم توازن تشویشناک ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب انڈیا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔ تجارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے علاوہ بھی انڈیا اور سعودی عرب کے کئی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 15 لاکھ انڈین شہری کام کرتے ہیں، جن کے ذریعے انڈیا کو کئی ارب ڈالر کا زر مبادلہ بھی ملتا ہے۔ انڈیا تیل کا ذخیرہ بھی بنا رہا ہے۔ جنوبی انڈیا میں اس طرح کے ذخائر بن چکے ہیں۔ اب انڈیا ایسا ہی ایک اور ذخیرہ بنا رہا ہے تاکہ ایمرجنسی میں یا قیمتوں میں اچانک اضافے کی صورت میں اس کا استعمال کیا جا سکے۔ اس منصوبے میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کافی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک ملک کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری انڈیا کے فوری اقتصادی مسائل کا حل تو نہیں ہوگی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات سے فرق ضرور پڑے گا۔ یہاں تک کہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے وزیر اعظم مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین سولین اوارڈ سے نوازا۔ انڈیا اور سعودی عرب کا ایک دوسرے پر انحصار کافی بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پاکستان کی مکمل حمایت کرنے والا سعودی عرب اب انڈیا کے قریب آ رہا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ اس کی 2008 کی ’لُک ایسٹ‘ کی پالسی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ پاسکتان کے ساتھ سعودی عرب کے کئی شعبوں میں قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کے درمیان نہایت ہی قریبی تعلقات ہیں۔
/urdu/media-59406246
آج کل پاکستان کے نوعمر لڑکے لڑکیوں میں کورین میوزک، کلچر، اور یہاں تک کہ زبان کی بھی دھوم ہے۔
آج کل پاکستان کے نوعمر لڑکے لڑکیوں میں کورین میوزک، کلچر، اور یہاں تک کہ زبان کی بھی دھوم ہے۔ پاکستان میں کورین میوزک کے دیوانے خود کو پاکستانی بی ٹی ایس آرمی کہتے ہیں۔ کے پاپ کیا ہے اور اس میں نوجوانوں کی دلچسپی کی وجہ کیا ہے۔ میزبان: عالیہ نازکی رپورٹر: سارہ عتیق فلمنگ: کریم السلام
/urdu/pakistan-53803418
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ’کشیدگی‘ کم کرنے کے لیے ریاض پہنچ گئے ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کیشدگی کے بارے میں خبریں شائع ہوئی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ’کشیدگی‘ کم کرنے کے لیے ریاض پہنچ گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب پر شدید تنقید کی۔ اگرچہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن میڈیا کے مختلف اداروں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں انھوں نے چحف آف جنرل سٹاف فیاض بن حمد الرویلی اور کمانڈر جوئنٹ فورسز لیفٹینینٹ جنرل فاہد بن ترکی السعود سے ملاقات کی ہے جس دوران ملٹری تعلقات اور تربیت پر بات چیت ہوئی ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید اختر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جو وقتی طور پر سرد مہری آئی ہے آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب سے اس کو ختم کرنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ کشمیر کے بارے میں سعودی عرب کی طرف سے او آئی سی کا اجلاس نہ بلانے کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا ہے اس میں الفاظ غیر مناسب ہو سکتے ہیں لیکن وہ ریاستی پالیسی کی بات کر رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی نے سخت لہجے میں کہا تھا کہ اب پاکستان خود اس حوالے سے او آئی سی کا اجلاس طلب کرے گا۔ وزیر خارجہ کے بیان کو او آئی سی میں سعودی عرب کی قیادت کو چیلنج کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔ ایسی صورت حال میں ملک کے فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کا یہ دورہ تاریخی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو مالی امداد روکنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ آخری بار پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سنہ 2015 میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب پاکستان نے یمن میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ افواج کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہتر ہوئے۔
/urdu/world-52687365
نیدر لینڈ میں سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے ہدایت نامے میں لاک ڈاؤن میں تنہا رہ جانے والے افراد کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ جنسی فعل کے لیے وبائی امراض سے پاک دوست تلاش کریں۔
ہالینڈ کی حکومت نے وبائی مرض کے دوران قربت کے خواہاں سنگلز یعنی غیر شادی شدہ افراد کے لیے نئی رہنما ہدایات جاری کی ہیں اور انھیں ایک ’سیکس پارٹنر‘ یعنی جنسی رفیق کی تلاش کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن ہدایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو بھی کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہو تو وہ آپس میں جنسی تعلقات قائم نہ کریں۔ یہ ہدایت نامہ اس تنقید کے بعد سامنے آیا ہے جب ناقدین نے کہا کہ غیرشادی شدہ افراد کے لیے کوئی جنسی مشورہ نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن 14 مئی کو شائع ہونے والے رہنما اصول میں آر آئی وی ایم نے کہا: ’وبائی امراض کے دور میں تنہا رہنے والے شخص کے لیے یہ فطری بات ہے کہ ان میں جسمانی تعلق قائم کرنے کا احساس ہو۔‘ ادارے نے کہا کہ اگر تنہا رہنے والے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تو کورونا وائرس کے خطرے کو کم کرنے کے پیش نظر انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ آر آئی وی ایم کے جاری کردہ ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’مل کر کرنے والے اس کام کے بہترین طریقوں پر تبادلہ خیال کریں۔ ’مثال کے طور پر جسمانی یا جنسی رابطہ قائم کرنے کے لیے ایسے شخص (جس دوست کے ساتھ بوس و کنار کرنا ہو یا جس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا ہو) سے ملاقات کریں جو بیماری سے پاک ہوں۔‘ آر آئی وی ایم نے ان لوگوں کے لیے بھی مشورے جاری کیے ہیں جن کے طویل مدتی شراکت داروں کو شبہ ہے کہ وہ کورونا وائرس کی زد میں آ گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'اگر آپ کے ساتھی کو کورونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے الگ تھلگ کیا گیا ہو تو ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہ کریں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اپنے ساتھ جنسی فعل یا فاصلے پر کسی دوسرے کے ساتھ جنسی فعل بھی ممکن ہے۔ اور اس کا ممکنہ حل ’شہوانی کہانیاں‘ یا ’دو طرفہ مشت زنی‘ ہے۔‘ پیر کے روز نیدرلینڈز نے لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے پانچ مرحلے کے ایگزٹ پلان کے پہلے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ پہلے مرحلے کے طور پر 11 مئی سے لائبریریوں، ہیئر ڈریسرز، مینی کیور پیڈی کویور کے بارز، بیوٹیشنز، مساج سیلونز اور پیشہ ورانہ تھراپی فراہم کرنے والے مقامات کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ پابندیوں میں نرمی نیدرلینڈز کے وزیر اعظم مارک روٹے کے اس اعتراف کے بعد آئی ہے کہ ملک نے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماریوں اور اموات کی تعداد کو کم کرنے میں ’پیش قدمی‘ کی ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں ابھی تک 43 ہزار 880 افراد میں کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ساڑھے پانچ ہزار سے زيادہ اموات ہوئی ہیں۔
/urdu/pakistan-53690469
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے بیٹے زین ملک سے متعلق کہا ہے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں کی گئی پلی بارگین کیسے تسلیم کر لی گئی اور عدالت کیسے یقین کرلے کہ پلی بارگین ملزم کی طرف سے ہی کی گئی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے داماد زین ملک سے متعلق کہا ہے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں کی گئی پلی بارگین کیسے تسلیم کر لی گئی اور عدالت کیسے یقین کرلے کہ پلی بارگین ملزم کی طرف سے ہی کی گئی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ اب تک پلی بارگین سے متعلق جو کچھ بھی کیا گیا چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اگر ملزم کل آ کر یہ کہے کہ پلی بارگین اُنھوں نے نہیں کی بلکہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف سے کی گئی ہے تو پھر کیا ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ پلی بارگین کی منظوری کے لیے زین ملک کا عدالت آنا ضروری ہے کیونکہ عدالت کو اپنا اطمینان بھی کرنا ہے کہ کیا واقعی ملزم نے خود پلی بارگین کی۔ واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو کی طرف سے ایک رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ملزم زین ملک کے خلاف چھ مقدمات میں نو ارب پانچ کروڑ اورپانچ لاکھ روپے میں ان کی پلی بارگین منظور کرلی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ زین ملک کو وہ سہولت اس لیے نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔ ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل پلی بارگین سے مجرم نہیں بنیں گے تاہم قانون میں لکھا ہے کہ ان کی صرف حیثیت مجرم جیسی ہو گی۔ اُنھوں نے کہا کہ زین ملک خود پہلے عدالت کے سامنے قبول کریں گے انھوں نے جرم کیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ کل زین ملک کہہ سکتے ہیں پلی بارگین میں نے نہیں، ہاوسنگ سوسائٹی نے کی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہے شخصیات کو دیکھ کر نہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ان مقدمات میں پلی بارگین سے متعلق زین ملک اور ان مقدمات کے تفتیشی افسران کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا ادارہ جعلی اکاؤنٹس مقدمات کے روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کے لیے تیار ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پلی بارگین سمیت دیگر معاملات نمٹا کر عدالت چاہے تو کل سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے جعلی نیب افسر کی ضمانت کی درخواست کے مقدمے میں تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے اور اس حکمنامے میں عدالت نے چیئرمین نیب کی تعیناتیوں سے متعلق اختیارت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو اس معاملے کو الگ سے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔
/urdu/world-54699339
پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا حساس معاملہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں کوئی ایک نیا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے لیبیا، وسطی ایشا کی دو ریاستوں (آرمینیا اور آذربائیجان) کے درمیان لڑائی اور شام میں مختلف متحارب گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔
ترکی نے عرب ممالک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کا دفاع کرنے کی وجہ سے وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ عالمِ عرب اور دیگر مسلم ممالک نے اس سے قبل بھی یورپی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ اس سے پہلے جب ڈنمارک کے اخبار یولندے پوستن نے سنہ 2005 میں پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تھے تو اس وقت بھی کئی مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا حساس معاملہ فرانس اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں کوئی ایک نیا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے لیبیا، وسطی ایشا کی دو ریاستوں (آرمینیا اور آذربائیجان) کے درمیان لڑائی اور شام میں مختلف متحارب گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔ امکان ہے کہ ترکی فرانس سے کشیدگی بڑھانے میں ایک ایسی حد تک جائے گا جہاں اس کے اپنے بنیادی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ ساتھ ساتھ ترکی اپنی نئی اسلامی شناخت کو عالم عرب کی قیادت کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں عالم عرب میں کوئی ایسا نام نہیں ہے جو قائدانہ کردار ادا کرسکے۔ پیغمبرِ اسلام کے کارٹونوں پر فرانسیسی صدر کو مذمت کا نشانہ بنا کر ترک صدر عالمِ عرب میں اس خلا کو پرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس وقت عرب ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان اسرائیلی پالیسی پر شدید تضاد ہے جو کسی وقت بھی ایک زلزلہ پیدا کر سکتا ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگرنو قرہ باغ پر تنازع اس وقت ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے اگرچہ امریکہ جنگ بندی کی کوششیں کر رہا ہے جس کی کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرہِ روم میں قبرص کی تقسیم کی وجہ سے فرانس اور ترکی کا ایک پرانا تنازعہ دوبارہ سے متحرک ہو رہا ہے۔ ان ہی حالات کے پس منظر میں لیبیا میں جہاں یورپ کی حکمتِ عملی ناکام نظر آرہی ہے، ترکی نے براہِ راست فوجی مداخلت کرکے کئی یورپی ممالک کو اور خاص کر فرانس کو مزید ناراض کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تنازعات کی وجہ سے ترکی کے صدر نے فرانسیسی صدر کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔ لیکن جیسا کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک مسجد پر توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد معاملہ صرف حکومتوں یا ریاستوں کے ہاتھ سے باہر نکل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ سڈنی کی مسجد ترک مسلمانوں سے وابستہ ہے۔ حملہ آور ایک ذہنی مریض بتایا گیا ہے، لیکن کشیدگی بڑھنے کی صورت میں کئی عام افراد ذہنی مریض ہو سکتے ہیں۔
/urdu/science-59925418
10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ خلائی دوربین جیمز ویب کے اس انتہائی بڑے آئینے کو نصب کرنا خلائی تاریخ کے مشکل ترین مشنز میں سے ایک تھا۔
کرسمس کے روز مشن کے آغاز پر اس آئینے کو کسی تہہ ہوجانے والی میز کی طرح موڑا گیا تھا۔ جدید جیمز ویب دوربین کی مدد سے اب کائنات کے کئی ایسے حصوں پر تحقیق کی جا سکے گی جن پر تحقیق اب تک ہمارے لیے ممکن نہیں تھی۔ سائنسدان چاہتے ہیں کہ وہ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ اس نئی دوربین اور رصد گاہ (آبزرویٹری) کی مدد سے بِگ بینگ سے قریب 20 کروڑ سال بعد پیش آنے والے واقعات کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔ وہ کائنات کو روشن کرنے والے پہلے ستاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا آئینہ نصب کرنے والی ٹیم کے سربراہ لی فائنبرگ کہتے ہیں کہ ’یہ دوربین لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردے گی۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی جو ہبل ٹیلی سکوپ کی تصاویر دیکھتے رہتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ تصور کرنا مشکل ہے۔‘ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو امریکہ، یورپی ممالک اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ اسے ڈیزائن اور تیار کرنے میں قریب 30 سال لگے۔ یہ ہبل ٹیلی سکوپ کی جانشین ہے۔ ہبل اپنی آپریشنل زندگی مکمل کرنے کے قریب ہے۔ ٹیلی سکوپ کی جانب سے آسمان سے بھیجے گئے پیغام نے تصدیق کی کہ دوربین کے پینل اپنی جگہ پر لاک ہوچکے ہیں۔ مشن کے آپریشنز مینیجر کارل سٹار نے اعلان کیا کہ ’ہم نے جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی رصد گاہ کو مکمل طور پر تعینات کر دیا ہے۔‘ ناسا میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے پروگرام مینیجر بل اوشز کہتے ہیں کہ ’گذشتہ دو ہفتے بہترین رہے۔ اس دوربین پر ہزاروں لوگوں نے کام کیا تاکہ یہ کامیابی مل سکے۔ میں آپ کو ہر روز بتاؤں گا کہ مجھے اس ٹیم کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔‘ عام طور پر کسی خلائی مشن میں اس کی اُڑان سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ مگر گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اس دوربین کی تعیناتی انتہائی پیچیدہ مرحلے سے گزری ہے۔ اتنی بڑی دوربین کو آسمان میں کھولنا اب تک خلا میں کی گئی سب سے مشکل تعیناتیوں میں سے ایک ہے۔ مگر جیمز ویب ٹیم نے یہ کر دکھایا۔ حتیٰ کہ یہ توقع سے زیادہ بہتر انداز میں کیا گیا۔ انھوں نے یہ کام ایسے کیا جیسے یہ بہت آسان تھا۔ ٹیلی سکوپ کے ڈیزائن میں دہائیوں تک کام جاری رہا اور اس کی جدید انجینیئرنگ نے متاثر کُن نتائج دیے۔ ان مراحل میں آئندہ پانچ ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق جولائی کے اواخر تک جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے تصاویر مصول ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ تاہم خلائی ایجنسی کے حکام کہتے ہیں کہ ہمیں حیرت میں مبتلا ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
/urdu/pakistan-56792128
منگلی کی صبح جاری ہونے والے اپنے پیغام میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد یہ بات طے پا گئی ہے کہ آج قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد پیش کریں گے اور تحریک لبیک مسجد رحمت العٰلمین سمیت سارے ملک سے دھرنے ختم کرے گی۔‘
پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے منگل کو کہا ہے کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد آج قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی جبکہ تحریک لبیک ملک بھر سے دھرنے ختم کرے دے گی۔ ٹوئٹر پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد یہ بات طے پا گئی ہے کہ آج قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد پیش کریں گے اور تحریک لبیک مسجد رحمت العٰلمین سمیت سارے ملک سے دھرنے ختم کرے گی۔‘ واضح رہے کہ اس سے قبل مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن اور جماعت کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کرنے والے ڈاکٹر محمد شفیق امینی نے پیر کی رات اپنے ایک آڈیو پیغام میں ملک بھر میں اپنے پیروکاروں سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ صرف لاہور میں ان کے مرکز رحمت العٰلمین میں پر امن احتجاج جاری رہے گا۔ پیر کی صبح اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ انھیں افسوس ہے کہ ملک میں چند عناصر پاکستانیوں کی پیغمرِ اسلام کے لیے عقیدت اور محبت کا غلط استعمال کر کے اپنے ہی ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کیا فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے سے یہ گارنٹی ہے کہ نبی کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرے گا۔ میں مغرب کو جانتا ہوں، فرانس کے بعد یہ کسی اور ملک میں ہوگا۔ انھوں نے اسے اظہار رائے کی آزادی بنایا ہوا ہے۔‘ اتوار کو یہ احتجاج ایک مرتبہ پھر پرتشدد رخ اختیار کر گیا تھا اور لاہور میں تحریکِ لبیک اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد پیر کی صبح سحری کے بعد جاری کی گئی ایک ویڈیو میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا کہ اتوار کو لاہور میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تمام اہلکاروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکات پر معاہدہ کیا تھا جن کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنا تھا۔ اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
/urdu/world-57194494
اخبار سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا کے دونوں بیٹوں سے معذرت کی تاہم انھوں نے شہزادہ ولیم کے اس الزام کی تردید کی کہ مارٹن کے انٹرویو نے ڈیانا میں خوف کے احساس کو بڑھایا۔
مارٹن بشیر کا کہنا ہے کہ 1995 میں شہزادی ڈیانا کے ساتھ ان کے انٹرویو میں ان کا مقصد ڈیانا کو نقصان پہنچانا ہرگز نہیں تھا اور ان کے خیال انھوں نے ایسا کیا بھی نہیں۔ سنہ 1995 میں مارٹن بشیر کے شہزادی ڈیانا سے کیے گئے انٹرویو پر حال ہی میں ایک انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کے وقت بی بی سی نے اپنی ’دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو برقرار نہیں رکھا تھا۔‘ اخبار سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا کے دونوں بیٹوں سے معذرت کی تاہم انھوں نے شہزادہ ولیم کے اس الزام کی تردید کی کہ مارٹن کے انٹرویو نے ڈیانا میں خوف کے احساس کو بڑھایا۔ مارٹن بشیر کا کہنا ہے کہ ’انٹرویو کے حوالے سے ہم نے جو کچھ کیا، کب پیلس کو مطلع کرنا تھا، کب نشر کرنا تھا اور اس میں کون سا مواد نشر کرنا تھا، یہ سب شہزادی کی مرضی کے مطابق تھا۔‘ تاہم مارٹن بشیر نے کہا ہے کہ ان کا اس وقت جعلی دستاویزات تیار کروانا ’ایک احمق ترین حرکت تھی‘ اور وہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ان کی اس حرکت کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ اور جیسے جیسے انٹرویو میں میڈیا کی دلچسپی بڑھتی گئی ، بی بی سی نے اس بات پر پردہ ڈال دیا کہ بشیر نے اس انٹرویو کو کس طرح ممکن بنایا تھا۔ جج لارڈ ڈائیسن کا کہنا تھا کہ ادارے نے اپنی ’دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو برقرار نہیں رکھا تھا جو اس کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔‘ اپنے ایک بیان میں مسٹر بشیر نے جعلی دستاویزات بنانے پر معذرت کی لیکن انھوں نے اصرار کیا کہ وہ یہ انٹرویو کرنے پر’بے انتہا فخر‘ محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’بینک کی دستاویزات کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے ذاتی فیصلے پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔‘ ٹیلی ویژن کے ناظرین نے اسے شہزادہ چارلس کے ساتھ ڈیانا کی ناخوشگوار شادی اور ان کے نجی امور کے بارے میں خبروں میں دلچسپی کی وجہ سے بہت شوق سے دیکھا تھا لیکن اس کے بعد سے شہزادی ڈیانا کے بھائی، ارل سپینسر نے صحافی مارٹن بشیر کے انٹرویو کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں پر سوال اٹھایا تھا۔ شہزادی ڈیانا کے بھائی ارل سپنسر نے بی بی سی پینورما کو بتایا: ’ستم ظریفی یہ ہے کہ میں نے 31 اگست 1995 کو مارٹن بشیر سے ملاقات کی تھی اور اس کے ٹھیک دو سال بعد ہی ان (شہزادی ڈیانا) کی موت ہوگئی تھی اور میں ان دونوں واقعات کے مابین ایک لکیر کھینچ رہا ہوں۔‘
/urdu/regional-54084681
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ملک کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح کو نشانہ بنانے والے ایک دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم امراللہ صالح کو صرف معمولی چوٹیں آئی ہیں۔
افغانستان کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح نے حملے کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ایک ہاتھ معمولی جلا ہے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ملک کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح کو نشانہ بنانے والے ایک دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوگئے ہیں تاہم امراللہ صالح کو صرف معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ بی بی سی کے سکندر کرمانی کے مطابق افغان ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں جائے وقوعہ سے کالا دھواں اٹھتا ہوا دیحکھا جا سکتا تھا۔ حملے کا ہدف امراللہ صالح کا قافلہ تھا جو اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا۔ حملے کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں افغان نائب صدر نے کہا کہ ان کا ایک ہاتھ جلا ہے۔ صالح، جو کہ طالبان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے رہے ہیں، نے اسی پیغام میں اپنے سیاسی کام جاری رکھنے کا عہد کیا۔ اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایک ایتسے وقت ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان بلآخر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے قریب ہیں۔ اب تک کسی بھی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ حملے کے تقریبا دو گھنٹے بعد جاری ہونے والے ویڈیو پیغام میں امراللہ صالح نے کہا کہ اس واقعے میں ان کے متعدد محافظ زخمی ہوگئے ہیں اور انھیں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی ہسپتال لایا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جہاں حملہ ہوا وہاں سڑک تنگ تھی اور بہت سے لوگوں حملے کی وجہ سے کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس حملے میں امراللہ صالح کے محافظوں سمیت 10 شہری ہلاک اور نو زخمی ہوگئے۔ افغان صدر محمد اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے وقت جب سب ہی طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات کے آغاز کے منتظر ہیں، نائب صدر پر دہشت گرد حملہ امن مذاکرات کی واضح خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ اور پاکستانی قانون ساز محسن داوڑ نے بھی اپنی ٹویٹس میں اس حملے کی مذمت کی۔ منگل کو شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کی برسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امر اللہ صالح نے کہا تھا ’امن مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغان حکومت یا طالبان ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔‘ صالح نے گذشتہ اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈیورنڈ لائن کے بارے میں بھی بات کی تھی۔ وہ اس سے قبل افغانستان کے وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ صالح کے دفتر پر پانچ جولائی کو بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اُس وقت وہ افغانستان کے پہلا نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔
/urdu/sport-58097246
سات اگست کو ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کا مقابلہ دنیا بھر کے ٹاپ ایتھلیٹس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے 23 سالہ نیرج چوپڑا سے ہوگا۔
ٹوکیو میں جاری اولمپکس نے دونوں ممالک کی شائقین کو اپنے لہو کو گرمانے کا ایسا ہی ایک موقع فراہم کیا ہے کیونکہ سات اگست (ہفتے کے روز) انڈیا اور پاکستان کے ایتھلیٹس ایک ایسے کھیل کے فائنل راؤنڈ کے مقابلے میں آمنے سامنے ہوں گے جو ایشیا میں زیادہ مقبول نہیں یعنی جیولن تھرو۔ سات اگست کو ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کا مقابلہ دنیا بھر کے ٹاپ ایتھلیٹس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے 23 سالہ نیرج چوپڑا سے بھی ہو گا۔ ویسے تو اس فائنل کے لیے کُل 12 کھلاڑیوں نے کوالیفائی کیا ہے مگر 24 سالہ ارشد نے گروپ بی میں بہترین تھرو کی تھی جبکہ انڈین ایتھیلٹ نیرج 86 اعشاریہ 85 میٹر کی تھرو کے ساتھ گروپ اے میں سر فہرست رہے تھے۔ 85.16 میٹر کی تھرو کے ساتھ ارشد ندیم گروپ کی سطح پر تیسرے نمبر پر رہے تھے مگر اس مقابلے میں دوسرے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی ہیں جن کے انفرادی ریکارڈ ارشد اور نیرج سے کافی بہتر ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلے کو ’انڈیا پاکستان ٹاکرے‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ اگرچہ ایتھلیٹکس فیڈریشن آف انڈیا نے اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے یہ مثبت پیغام لکھا کہ ’آئیے جیولن تھرو میں انڈیا اور پاکستان کے قومی چیمپیئنز کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں‘ مگر دونوں ممالک کے شائقین کھیل کا کیا کیجیے جو اس مقابلے کو زبردست ٹاکرے سے تشبیہ دیے بیٹھے ہیں۔ ٹوکیو اولمپکس میں اب تک کی کارکردگی میں ارشد ندیم تیسرے جبکہ نیرج پہلے نمبر پر ہیں۔ دونوں ملکوں میں اپنے اپنے ایتھلیٹ کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک کے ایتھلیٹ کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس سے قبل انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے نیرج سمیت دیگر ایتھلیٹس کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے تمام کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ ارشد ندیم اولمپکس کی تاریخ میں پہلے پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے کسی ’انویٹیشن کوٹے‘ یا وائلڈ کارڈ کے بجائے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا ہے اور انھیں ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کے لیے تمغہ حاصل کرنے کی ’آخری امید‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے کوچ رشید احمد ساقی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘ وہ کہتے ہیں ’یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔‘
/urdu/world-57627560
ریپ جرم ہے، ایک بھیانک جرم ،جس کے لیے عورت کے کم یا زیادہ کپڑوں کا ہونا، بلکہ عورت کا ہونا نہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ مثالیں سوشل میڈیا پہ وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور برسات کے ختم ہوتے ہوتے امید ہے مزید مثالیں سامنے آ جائیں گی۔
ہم چونکہ ڈیجیٹل عہد میں زندہ ہیں اس لیے اب سے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اسی موسم میں ہمارے معاشرے کے کچھ مخصوص رویوں میں کج روی بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ عالم کا باعمل ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم تو عالم بے عمل کی بحث پہ ہی اٹکے تھے کہ عالم شوقین طبع سامنے آ گئے۔ ہمارے ایک عزیز جنہیں بے وجہ کی دانشوری جھاڑنے کا شوق ہے ،دور کی کوڑی لائے اور فرمایا کہ افغان جہاد کے لیے فتوے دینے کو یہ نقلی علما بنائے گئے اور اب جبکہ امریکہ جارہا ہے تو ان نقلی علما کی اصلیت بھی سامنے لائی جا رہی ہے۔ خان صاحب کا تو کوئی دشمن بھی نہیں، جو ان کی تنہائی میں کہی باتیں باہر آ کر سنائے یا دکھائے۔ یہ عظیم کام وہ خود ہی سرانجام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں اس لیے پاکستانی مردوں کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔ یقیناً ان بےقصور مردوں میں وہ تمام بزرگ بھی شامل ہیں جو پچھلے دنوں ڈیجیٹل عہد کی ستم ظریفی کا شکار ہو چکے ہیں۔ان کا کیس اگر وزیر اعظم کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو دور دور تک کسی عورت کے موجود نہ ہونے کے باوجود انہوں نے یہ ثابت کیا کہ انسان ہیں اور خطا کے پتلے ہیں۔ سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ انسان تو عورت بھی ہے ، پھر مرد کے جرم پہ بھی وہی خطا کار اور خود اس سے اگر کوئی خطا سرزد ہو جائے تو کیا اسی قسم کی کوئی تاویل، کوئی دلیل،کوئی معافی کا خانہ اس کے لیے بھی ہے یا نہیں؟ خیر سے عمران خان صاحب کی حکومت بہت مضبوط ہے، راجہ باسک ان کے تخت تلے کنڈلی مارے بیٹھے ہیں، کیا آنے والے دنوں میں خان صاحب عورتوں کے حق میں بھی کوئی اسی طرح کا بیان دیں گے؟ ان کی زبان جو اکثر پھسل جاتی ہے، کبھی ایسے بھی پھسلے گی کہ صرف اتنا ہی کہہ جائے، عورت بھی روبوٹ نہیں ہے۔ ممکن ہے ایسا کبھی نہ ہو، کیونکہ خان صاحب میں لاکھ خامیاں سہی ایک اچھائی ہے اور وہ یہ کہ سچ کہتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ سچ یہ ہی ہے صاحبو، کہ پاکستانی عورت روبوٹ ہے اور پاکستانی مرد خطا کا پتلا، قابل معافی، معصوم اور بے چارہ۔ ریپ جرم ہے، ایک بھیانک جرم ،جس کے لیے عورت کے کم یا زیادہ کپڑوں کا ہونا، بلکہ عورت کا ہونا نہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ مثالیں سوشل میڈیا پہ وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور برسات کے ختم ہوتے ہوتے امید ہے مزید مثالیں سامنے آ جائیں گی۔ کپڑوں میں کچھ نہیں دھرا،بگاڑ معاشرتی رویوں میں ہے ،سدھار بھی وہیں تلاش کیجئے ورنہ یہ گندی گندی باتیں کرنے اور دہرانے سے سوائے ان معاملات کی حساسیت ختم ہو نے کے کچھ نہیں ہو گا۔
/urdu/pakistan-58222028
زہرہ یعقوب ان ڈاکڑوں سے بھی ملنا چاہتی ہیں جنھوں نے ان کی والدہ کو کہا تھا کہ ’یہ کیا لوتھڑا اٹھا کر لے آتی ہو۔‘ وہ کہتی ہیں انھیں نہیں معلوم کہ آج وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
زہرہ کی والدہ فوراً انھیں لے کر ہسپتال کی طرف دوڑ پڑتیں۔ ڈاکٹر ہڈی جوڑ دیتے اور انھیں وقتی طور پر آرام آ جاتا۔ تاہم ڈاکٹروں کے پاس ایسا کوئی علاج نہیں تھا کہ وہ زہرہ کی ہڈیاں مستقل طور پر ٹوٹنے سے بچا پائیں۔ ان کی والدہ کھل کر نہیں بتا پاتیں تاہم انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جو علامات بتائیں اور جو ڈاکٹروں سے انھیں معلوم ہوا تھا کہ اس کے مطابق زہرہ کو ایک جینیاتی بیماری لاحق تھی جس کا علاج ممکن نہیں تھا۔ ایک ڈاکٹر نے انھیں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’بی بی تم کیا یہ لوتھڑا اٹھا کر لے آتی ہو۔ اس نے نہیں بچنا۔‘ یہ سُن کر ان کی والدہ کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور انھیں غصہ بھی آیا۔ انھوں نے ڈاکٹر کو جواب دیا کہ ’جسے تم آج لوتھڑا کہہ رہے ہو، ایک دن یہ ایک کامیاب انسان بنے گی۔‘ کچھ ڈاکٹر ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ ’کوئی کہتا تھا اس کو ہاتھی کے انڈے کھلاؤ۔ کوئی کہتا تھا بی بی کیا تم روز اس کو اٹھا کر لے آتی ہو۔ اس نے زیادہ دن زندہ نہیں رہنا، کیوں اس پر پیسے ضائع کر رہی ہو۔‘ پھر انھوں نے اپنا اکاؤنٹ پبلک بنانے کے فیصلہ کیا یعنی ہر شخص اسے دیکھ سکتا تھا تو ساتھ ہی انھوں نے اپنے فالوورز کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ ویل چیئر پر تھیں۔ زہرہ کہتی ہیں اس کے بعد ان کے فالوورز میں زیادہ اضافہ ہوا۔ زہرہ کو معلوم ہے وہ کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکیں گی لیکن ایسا نہیں کہ ان کا دل ہی نہیں چاہتا۔ جب کبھی ان کا چلنے کا شدت سے دل چاہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر کے تصور کر لیتی ہیں۔ ’میں سوچ لیتی ہوں کہ ویل چیئر خود چلا رہی ہوں یا میرے قدم زمین پر ہیں اور میں آگے کو بڑھ رہی ہوں۔‘ نہ ہی وہ اپنی مشکلات پر شکوہ کرتی ہیں اور نہ ہی اپنی بیماری کو یاد کر کے ان کی آنکھیں چھلکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اللہ تعالٰی نے کہا کہ آخری سانس تک لڑو۔‘ جب ان کا ارادہ کبھی کمزور ہونے لگے تو ’میں کہتی ہوں یا اللہ تیرے حوالے۔ تو نے کہا ہے نہ کہ آخری سانس تک لڑنا ہے تو بس پھر لڑنا ہے۔‘ زہرہ یعقوب ان ڈاکڑوں سے بھی ملنا چاہتی ہیں جنھوں نے ان کی والدہ کو کہا تھا کہ ’یہ کیا لوتھڑا اٹھا کر لے آتی ہو۔‘ وہ کہتی ہیں انھیں نہیں معلوم کہ آج وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
/urdu/world-61581872
امریکی ریاست ٹکساس میں فائرنگ کے واقع میں 19 بچوں کی ہلاکت کے بعد صدر بایڈن نے استفسار کیا ہے کہ 'ہم کب گن لابی کے سامنے کھڑے ہوں گے۔'
حال ہی میں امریکی ریاست ٹکساس میں فائرنگ کے ایک واقعے میں 19 بچوں کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے استفسار کیا ہے کہ ’ہم کب گن لابی کے سامنے کھڑے ہوں گے؟‘ سنہ 1975 کے بعد اس گروپ نے پالیسی پر براہ راست اثر انداز ہونا شروع کیا جب اس کا قانونی شعبہ 'لیجسلیٹو ایکشن' قائم ہوا۔ سنہ 1977 میں اس نے سیاسی ایکشن کمیٹی (پی سی اے) قائم کی جس کا مقصد قانون سازوں کو براہ راست پیسے دینا تھا۔ نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں حکومتی وکلا اس وقت اس تنظیم کو تحلیل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، ان پر الزام ہے کہ اعلیٰ قیادت نے خیراتی فنڈ کا غلط استعمال کیا اور مالی وسائل سے ذاتی اخراجات اور تعیش پر صرف کیے۔ این آر اے اس مقدمے کو بے بنیاد اور سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا۔ سنہ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق این آر اے ہر سال تقریباً 25 کروڑ ڈالر خرچ کرتی ہے، جو کہ ملک کے تمام گن کنٹرول ایڈوکیسی گروپس سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن این آر اے کی رکنیت ان میں سے کسی بھی گروپ کے مقابلے بہت زیادہ ہے اور وہ اپنے فنڈز کو گن رینجز اور تعلیمی پروگراموں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ این آر اے نے امریکی کانگریس کے اراکین کو بندوق رکھنے کے حقوق کے لیے ان کی وابستگی پر کھلے بندوں ان کی درجہ بندی کر رکھی ہے جو ’اے‘ سے ’ایف‘ تک ہے۔ ان درجہ بندیوں کا انتخابات پر سنگین اثر پڑ سکتا ہے اور یہاں تک کہ گن کنٹرول کے حامی امیدواروں کو اس کی قیمت اپنی سیٹ کی صورت میں بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد، سیاسی مہموں پر این آر اے نے اخراجات کم کر دئیے۔ یہ کنٹرول کے حامی گروپوں کے عروج کے درمیان ہوا، جنہوں نے این آر اے کی زیادہ تر پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں سے لاکھوں ڈالر وصول کیے ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ گن کنٹرول گروپوں نے 2018 میں پہلی بار اس اقدام کے ذریعے این آر اے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا کہ 2012 میں سینڈی ہک سکول میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے جواب میں رکنیت بڑھ کر 50 لاکھ کے قریب پہنچ گئی، لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے یہ تعداد 30 لاکھ کے قریب بتائی۔ تنظیم پر اعداد و شمار کو بڑھانے کا الزام لگایا گیا ہے. ہیسٹن نے 1999 میں کولمبائن ہائی سکول میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ کے بعد این آر اے کے ایک کنونشن میں اپنے سر سے اوپر رائفل بلند کی تھی، اور گن کنٹرول کے حامیوں سے کہا تھا کہ انہیں اس کو ’میرے مردہ اور بے حرکت ہاتھ سے لینا پڑے گا۔
/urdu/sport-51673523
راولپنڈی اور ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پاکستان سپر لیگ کے میچوں میں پشاور زلمی نے لاہور قلندرز کو جبکہ ملتان سلطانز نے کراچی کنگز کو یکطرفہ مقابلوں میں شکست دے دی۔
راولپنڈی اور ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پاکستان سپر لیگ کے میچوں میں پشاور زلمی نے لاہور قلندرز کو جبکہ ملتان سلطانز نے کراچی کنگز کو یکطرفہ مقابلوں میں شکست دے دی۔ آج کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں پشاور زلمی نے لاہور قلندرز کو 16 رنز سے شکست دی۔ اس میچ کو گیلے گراؤنڈ کے باعث 12 اوورز تک محدود کر دیا گیا تھا۔ ٹاس جیت کر لاہور قلندرز نے پشاور زلمی کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو انھوں نے مقررہ 12 اوورز میں حیدر علی اور ٹام بینٹن کے 34، 34 رنز کی بدولت 132 رنز بنائے۔ دوسری جانب لاہور قلندرز کے دلبر حسین نے چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ لاہور قلندرز کے فاسٹ بولر حارث رؤف انجری کے باعث اس میچ کا حصہ نہیں ہیں اور ان کی جگہ سلمان ارشاد کو ٹیم میں شامل کیا گیا جبکہ نو عمر لیگ سپنر معاذ خان اور فاسٹ بولر دلبر حسین کو بھی ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ دوسری جانب پشاور زلمی نے لیگ سپنر محمد محسن اور لیوس گریگوری کو ٹیم میں شامل کیا۔ دوسری جانب آج ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے دسویں میچ میں میزبان ملتان سلطانز نے کراچی کنگز کو 52 رنز سے شکست دے دی تھی۔ کراچی کنگز کی پوری ٹیم صرف 17 اوورز میں 134 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ کراچی کی جانب سے ایلکس ہیلز نے سب سے زیادہ 29 جبکہ ملتان سلطانز کی جانب سے عمران طاہر نے تین اور شاہد آفریدی اور سہیل تنویر نے دو دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔ کراچی کنگز نے پچھلے برس پی ایس ایل کے دوران عمدہ بولنگ کرنے والے لیفٹ آرم سپنر عمر خان کو تو کھلایا لیکن انھوں نے پورے میچ میں ایک بھی اوور نہیں کرایا۔ کراچی کنگز نے پورے میچ خراب فیلڈنگ کی اور معین علی کے دو کیچ ڈراپ کیے۔ بعد میں معین علی کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ دوسری جانب ملتان سلطانز نے اپنی اننگز کے دوران بہترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا اور چند مشکل کیچ بھی پکڑے۔ اگر کراچی کو اگلے میچوں میں اچھی کارکردگی دینی ہے تو انھیں اچھی فیلڈنگ کرنا پڑے گی۔ کراچی کنگز کے سپنرز کے برعکس ملتان سلطانز کے سپنرز نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر چھ وکٹیں حاصل کیں کراچی کنگز کے سپنرز کے برعکس ملتان سلطانز کے سپنرز نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ جہاں کراچی کنگز کے سپنرز عماد وسیم اور افتخار احمد کو چار اوورز میں ایک وکٹ کے عوض 54 رنز پڑے، وہیں ملتان کے سپنرز معین علی، شاہد آفریدی اور عمران طاہر نے سات اوورز میں 71 رنز کے عوض چھ وکٹیں حاصل کیں۔
/urdu/regional-52095724
انڈین ریاست اتر پردیش کے ضلع بریلی میں انتظامیہ کی جانب سے بس اڈے کی صفائی کے دوران وہاں موجود افراد کو بھی کیمیکل سے نہلا دیا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات اور ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ریاست اتر پردیش کے ضلع بریلی میں انتظامیہ کی جانب سے بس اڈے کی صفائی کے دوران وہاں موجود افراد کو بھی کیمیکل سے نہلا دیا گیا۔ بریلی میں جن کیمیکلز سے بسوں کو صاف کیا جا رہا ہے اسی سے بس اڈوں پر آنے والے مردوں، خواتین اور بچوں کو فائر برگیڈ کے پائپوں سے نہلا کر ’سینیٹائز‘ کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بارے میں بریلی کے چیف فائر آفیسر چندر موہن شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس میں جو کیمیکل استعمال ہوتا ہے وہ آنکھوں اور جلد کے لیے خطرناک ہے۔ ہم نے بھی یہ ویڈیو دیکھی ہے۔ تاہم جو بھی لوگ اس میں شامل پائے جائیں گے ان کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔’ سی ایف او کے مطابق اتوار کو بریلی میں ایک شخص کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد مقامی انتظامیہ کے محکمہ صحت کی ٹیم اور فائر بریگیڈ نے شہر کے اہم مقامات پر سینیٹائیزیشن کا کام شروع کر دیا اور اسی سلسلے میں بریلی کے بس اڈے پر آنے والے افراد کو اکٹھا کر کے ان پر یہ کیمیکل والا پانی چھڑکنے کی کارروائی شروع کر دی۔ وہاں پر انڈین ریاستوں ہریانا، راجستھان اور دلی جیسے متعدد مقامات سے آنے والے افراد موجود تھے۔ سی ایف او کے مطابق چند اہلکاروں نے ان افراد کو بھی صفائی کے لیے استعمال ہونے والے پانی سے نہلا دیا۔ انہوں نے قبول کیا کہ ایسا کیا جانا ٹھیک نہیں تھا۔ مقامی صحافی منویر نے بتایا کہ ’بڑی تعداد میں افراد اس پانی سے نہلائے جانے کی مخالفت بھی کر رہے تھے۔ لیکن اہلکاروں نے انہیں زبردستی وہاں بیٹھنے پر مجبور کیا اور کیمیکل والے پانی سے نہلا دیا۔ لوگ خود بھی بھیگے اور ان کا سامان بھی بھیگ گیا۔ چھڑکاوٴ کرنے والوں نے کسی کی نہیں سنی اور وہ خود کو محفوظ رکھنے والے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔’ یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد بریلی کے ڈسٹڑکٹ مجسٹریٹ نے اس حرکت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس ویڈیو کی جانچ کی گئی، متاثرہ افراد کا چیف میڈیک آفیسر کے حکم کے مطابق علاج کیا جا رہا ہے۔ بریلی منسپالٹی اور فائر بریگیڈ کو بسوں کو صاف کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے، لیکن انہوں نے ایسی حرکت کر دی۔ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔’ ڈسٹرکٹ مجسڑیٹ نے ٹویٹ کر کے یہ بھی کہا کہ جن افراد کو اس طریقے سے سینیٹائز کیا گیا ہے ان کا مکمل علاج کروایا جائے گا۔ لیکن بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ اب انتظامیہ کے لوگ انہیں ڈھونڈ کر ان کا علاج کروائیں گے۔ ایسی امید نہیں کی گئی تھی۔
/urdu/entertainment-49760511
عالیہ بھٹ کو فلم ’راضی‘ کے لیے بہترین اداکارہ اور رنویر سنگھ کو فلم ’پدماوت‘ کے لیے بہترین اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جبکہ ’راضی‘ کو بہترین فلم چنا گیا۔
20ویں انڈین انٹرنیشنل فلم ایوارڈز 18 ستمبر کو ممبئی میں منعقد ہوئے۔ سنہرے گلابی رنگ کے گاؤن میں گولڈ اور برانز میک اپ کے ساتھ ریڈ کارپٹ پر عالیہ بھٹ کسی خواب سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔ عالیہ بھٹ کو فلم ’راضی‘ کے لیے بہترین اداکارہ اور رنویر سنگھ کو فلم ’پدماوت‘ کے لیے بہترین اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جبکہ ’راضی‘ کو بہترین فلم چنا گیا۔ رنویر سنگھ نے اس موقع پر اپنے فن کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کیا۔ ان کا بے باک انداز ہمیشہ کی طرح پسند کیا گیا۔ رنویر کی سٹیج پر شوخی اور پروگرام کو پیش کرنے والوں کے ساتھ ہنسی مذاق ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دیکھنے کو ملا۔ پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والوں میں ’دھک دھک گرل‘ کے نام سے مشہور مادھوری دکشت بھی شامل تھیں۔ ماں امریتا سنگھ سے زبردست مشابہت رکھنے والی سارہ علی خان کو ان کے مختلف انداز اور شوخی کے لیے جانا جاتا ہے۔ پروگرام کے دوران سارہ نے بھی سٹیج پر ڈانس کیا۔ سارہ علی خان کو ان کی پہلی فلم ’کیدارناتھ‘ کے لیے بیسٹ ’ڈیبیوڈانٹ‘ اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ جبکہ مرد اداکاروں میں بہترین ’ڈیبیوڈانٹ‘ کا ایوارڈ ایشان کھتر کو ان کی فلم ’دھڑک‘ کے لیے ملا۔ اداکار رنویر سنگھ ایک بار پھر اپنے پہناوے کی وجہ سے کیمروں سے گھرے رہے۔ انھیں ان کے انوکھے کپڑوں اور سٹائل کے لیے جانا جاتا ہے۔ اداکارہ کترینا کیف نے بھی اپنی پرفارمنس سے مداحوں کا دل جیت لیا۔ پروگرام کو پیش کرنے والوں میں آیوشمان کھرانا کے ساتھ ان کے بھائی اور خود ایک اداکار اپارشکتی کھرانا موجود تھے۔ ان کے علاوہ اداکارہ رادھیکا آپٹے نے بھی پروگرام کو پیش کرنے میں مدد کی۔ آیوشمان کھرانا کی فلم ’اندھادھند‘ کو کہانی کے لیے ’بیسٹ سٹوری ایوارڈ‘ دیا گیا۔ عام ایوارڈز کے علاوہ اس مرتبہ آئیفا نے گزشتہ بیس برسوں کے بہترین اداکاروں اور فلم کا ایوارڈ بھی دیا۔ گزشتہ بیس برسوں کی بہترین اداکارہ دیپیکا پادوکون اور بہترین اداکار کے اعزاز سے رنبیر کپور کو نوازا گیا۔ جبکہ فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ کو بیس برسوں کی بہترین فلم چنا گیا۔ ۔
/urdu/science-53995453
آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربوں سے معلوم ہوا ہے کہ شہد کی مکھیوں میں پایا جانے والا زہر چھاتی کے سرطان کے چند جارحانہ خلیوں کو تلف کرنے میں مدد دیتا ہے۔
آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربوں سے معلوم ہوا ہے کہ شہد کی مکھیوں میں پایا جانے والا زہر چھاتی کے سرطان کے چند جارحانہ خلیوں کو تلف کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس دریافت کو ’دلچسپ‘ قرار دیا جا رہا ہے لیکن سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس حوالے سے ابھی مزید تجربات اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ چھاتی کا سرطان دنیا بھر میں خواتین میں خاصا عام ہے۔ ایسے ہزاروں کیمیائی اجزا ہیں جو لیبارٹری میں سرطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت کم انسانوں میں علاج کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مکھیوں میں پائے جانے والے زہر میں اس سے پہلے بھی سرطان مخالف خصوصیات پائی گئی تھیں جن سے میلانوما سمیت سرطان کی دیگر اقسام کا علاج کیا جا سکتا تھا۔ اس تحقیق کے دوران 300 سے زائد شہد کی چھوٹی اور بڑی مکھیوں کے زہر کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے۔ 25 سالہ پی ایچ ڈی ریسرچر سیارا ڈفی اس تحقیق کی سربراہی کر رہی تھیں اور اُن کے مطابق شہد کی مکھیوں سے ملنے والے زہر کے اثرات ’انتہائی طاقتور تھے۔‘ زہر کی ایک مقدار کے نتیجے میں سرطان کے خلیے ایک گھنٹے میں تلف ہو گئے اور ان سے دوسرے خلیوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ تاہم مقدار بڑھانے سے اس کے اثرات بھی زیادہ ہوئے۔ محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ میلیٹن کمپاؤنڈ ازخود بھی کینسر کے خلیوں کی افزائش کو ’روکنے‘ میں مدد دیتا ہے۔ میلیٹن قدرتی طور پر شہد کی مکھی کے زہر میں پایا جاتا ہے لیکن اسے کیمیائی تجربے کے ذریعے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر ٹرپل نیگیٹو کینسر بریسٹ کینسر کی سب سے موذی قسم سمجھا جاتا ہے اور اس کا سرجری، ریڈیوتھیراپی اور کیمیوتھیراپی کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ یہ قسم چھاتی کے سرطان کا کل 10 سے 15 فیصد ہوتا ہے۔ پروفیسر پیٹر کلنکین نے کہا کہ ’یہ تحقیق ایک انتہائی اہم انکشاف کرتی ہے کہ کیسے میلیٹن چھاتی کے سرطان کے خلیوں میں داخل ہو کر ان کے سگنلنگ کے نظام میں خلل پیدا کرتا ہے جس سے یہ مزید بڑھ نہیں پاتے۔ تاہم محققین نے خبردار کیا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا یہ زہر کینسر سے لڑنے والی دوا کے طور پر استعمال کی جا سکتا ہے۔ ’سڈنی کے گارون انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ اسوسیئیٹ پروفیسر ایلکس سواربک کہتے ہیں کہ ’ابھی یہ سب بہت قبل از وقت ہے۔ متعدد کمپاؤنڈز ایک ڈش یا چوہوں میں چھاتی کے سرطان کے خلیے کو تلف کر سکتے ہیں۔ لیکن ابھی اس حوالے سے کلینکل پریکٹس تبدیل کرنے میں خاصا وقت اور مزید تحقیق درکار ہو گی۔‘
/urdu/sport-48822111
کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف میچ ہارنے کے بعد بعض انڈین مداح شکست کا ذمہ دار انڈیا کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر مہندر سنگھ دھونی کو ٹھیرا رہے ہیں تو بعض انڈیا کی نئی جرسی کو منحوس قرار دے رہے ہیں۔
انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں اتوار کو کھیلے جانے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے 38ویں میچ میں انگلینڈ نے جہاں اپنا دم خم دکھایا وہیں انڈیا کی مسلسل جیت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا۔ انڈیا اور انگلینڈ کے میچ پر صرف انڈیا اور برطانوی مداحوں کی نظر نہیں تھی بلکہ پاکستان کے شائقین بھی اس پر خاصی توجہ دے رہے تھے بلکہ وہ انڈیا کی جیت کے آرزومند بھی تھے۔ بعض مداح شکست کا ذمہ دار انڈیا کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر مہندر سنگھ دھونی کو بتا رہے ہیں تو بعض انڈیا کی نئی جرسی کو منحوس قرار دے رہے ہیں۔ جس کے جواب میں انڈیا کے سابق کپتان اور کمنٹیٹر ساروو گنگولی نے کہا کہ 'میرے پاس ان سنگلز کا جواب نہیں ہے۔' کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کیا: 'مجھے آپ توہم پرست کہہ سکتے ہیں لیکن میں کہوں گی کہ یہ جرسی ہے جس نے ورلڈ کپ 2019 میں انڈیا کی جیت کا سلسلہ روک دیا۔' ایک دوسرے صارف اور انڈین اداکار سدھارتھ نے لکھا: 'جرسی کا نتیجے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ لیکن میں اس جرسی کو دوبارہ نہیں دیکھنے کے لیے بے چین ہوں۔ نیلے پر واپس آئيں اور جیت کے سلسلے پر واپس آئیں۔۔۔' معروف صحافی سگاریکا گھوش نے اس بحث کو ایک نیا زاویہ دیتے ہوئے لکھا: '۔۔۔ جہاں تک انڈیا بمقابلہ انگلینڈ کی بات ہے تو ہم نے جہاں تک (انڈیا کی) جدو جہد آزادی کے بارے میں پڑھا ہے ہم نے یہ پایا ہے کہ بھگوا (رنگ) پہننے والے کبھی بھی برٹش سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھنے کے بارے میں جانے جاتے ہیں۔' صحافی زین شمسی نے فیس بک پر ایک سوال پوسٹ کیا: 'ورلڈ کپ میں پہلی بار بھارت کی شکست بھگوا جرسی کی منحوسیت تھی یا پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کرنے کی منصوبہ بند ذہنیت۔' بہر حال بہت سے لوگ انڈیا کی جرسی کے حمایتی بھی نظر آئے اور زیادہ تر لوگوں نے دھونی کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ ہاردک پانڈیا یا دوسرے کھلاڑیوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ اس میچ میں ان کی کار کردگی دیکھ لیں۔ منی کانت وامسی نامی صارف نے لکھا کہ آئی پی ایل میں چار اوورز میں 64 رنز چاہیے تھے اور دھونی نے میچ تقریباً اپنی ٹیم چنائی کے حق میں موڑ دیا تھا لیکن جب انگلینڈ کے خلاف پانچ اوورز میں 71 رنز چاہیے تھے تو وہ آئی پی ایل کے مقابلے میں صفر صفر صفر ایک فیصد بھی نہیں کھیلے۔ بہر حال یہ بحث جاری ہے لیکن ابھی بھی پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا امکان موجود ہے بشرطیہ انگلینڈ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو اور پاکستان اپنا آخری میں میچ بنگلہ دیش سے جیت لے۔
/urdu/world-49630047
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات پر کڑی نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا صدر ٹرمپ نے بتایا اور مذاکرات کو ملتوی کرنے کا فیصلہ محض ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کی بنا پر نہیں لیا گیا۔
دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان گذشتہ 10 ماہ سے جاری مذاکرات اتوار کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تین ’بم شیل ٹویٹس‘ پر ختم ہوئے۔ کچھ سیکنڈز میں کیے گئے مسلسل تین ٹویٹس میں امریکی صدر نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی منسوخی کی وجہ جمعرات کو کابل میں ہونے والا خودکش حملہ قرار دیا، جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے جانے والے جواز کے قائل نہیں کہ صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر اُنھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم بعض تجزیہ کار جمعرات کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان کو کابل میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجی کی ہلاکت کا ردِعمل ہی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’امریکہ میں پینٹاگون، وائٹ ہاوس، سی آئی اے اور کانگریس کے بعض ارکان کو بھی تشویش تھی، افغان حکومت اور افغانستان کے عوام کو بھی خدشات تھے کہ پردے کے پیچھے کیا چل رہا ہے۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کو دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کی سیاسی قیادت اور جنگجوؤں کے درمیان امن معاہدے پر اتفاق نہیں تھا۔‘ اگرچہ بعض مبصرین مذاکرات کے دوران ہونے والے حملوں کو طالبان کی جانب سے اپنے آپ کو ’طاقتور‘ دکھانے کا ایک حربہ مانتے ہیں، لیکن نجیب ننگیال کے بقول مذاکرات کے درمیان پرتشدد واقعات میں اضافے کی وجہ خود طالبان کے اندر گروہ بندی ہے۔ انھوں نے کہا ’قطر دفتر والے کچھ کہتے تھے، وہ کہتے تھے اُن کے جنگجو ایسا نہیں کر رہے۔ آخری دنوں میں یہ ثابت بھی ہوا کہ نہ صرف افغان شہریوں پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا بلکہ غیرملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے کئی حملے طالبان اور امریکی وفد کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق کے بعد بھی ہوئے تھے۔‘ پاکستان کے سابق سینیٹر اور سیاستدان افراسیاب خٹک افغانستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر غصے کا اظہار کیا، لیکن ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کی کسی نے کوئی پروا نہیں کی۔ اس فاتحانہ سوچ کے پیچھے صدر ٹرمپ کا افعانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کے حوالے سے بیان تھا۔ اس کے علاوہ طالبان یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ویسے ہی افغانستان سے نکل رہا ہے اور مذاکرات کر کے وہ اپنے آپ خطے سے باعزت طور پر نکلنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب، امریکہ کی جانب سے مذاکرات میں دکھائی گئی لچک نے بھی طالبان کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا۔
/urdu/world-59818603
ایک نوجوان کے قتل کے مقام پر سیلفیاں لینے پر ایک پولیس آفیسر کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس نوجوان کو چاقو مار کر قتل کیا گیا تھا۔
مرسی سائیڈ پولیس کی تحقیقات کے بعد پولیس کانسٹیبل کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے ایک نوجوان کے قتل کے مقام پر سیلفیاں لینے پر ایک پولیس آفیسر کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس نوجوان کو چاقو مار کر قتل کیا گیا تھا۔ انگلینڈ میں مرسی سائیڈ پولیس کے لیے کام کرنے والے پی سی ریان کونولی نے نسل پرستانہ اور ہم جنس پرستوں کے خلاف تصاویر بھی شیئر کی تھیں اور ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی اس وقت تصاویر بھی کھینچی تھیں جب انھیں ہسپتال میں داخل کیا جا رہا تھا۔ مرسی سائیڈ پولیس نے کہا ہے کہ 37 سالہ شخص کو بدعنوانی کے خلاف تحقیقات کے بعد سخت غیر اخلاقی فعل کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق انھیں 2015 اور 2018 کے درمیان لی گئی ’انتہائی ناگوار‘ تصاویر ملی ہیں۔ کونولی کو، انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازش، پولیس کمپیوٹر کے غلط استعمال اور عوامی عہدے پر رہتے ہوئے بد اعمالی کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا ہے۔ انھیں مانچیسٹر کراؤن کورٹ میں 10 جنوری کو سزا سنائی جائے گی۔ تفتیش کے دوران پتا چلا کہ انھوں نے ڈیوٹی کے دوران ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور لوگوں کی تصاویر لی تھیں اور ان کے فون میں ’خوفناک ہومو فوبک، نسل پرستانہ اور ناگوار تصاویر‘ تھیں۔ نامناسب سلوک کے متعلق سماعت میں بتایا گیا کہ انھوں نے قتل کے ایک جائے وقوعہ پر جہاں 2018 میں نوجوان کو چاقو مارا گیا تھا، پولیس کے گھیرے کی تصویر لی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’کو کلکس کلین‘ کے رکن کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔ ڈپٹی چیف کانسٹیبل ایین کرچلی نے کہا: ’میں کونولی کے اقدامات سے حیران ہوں، وہ سمجھ سے بالاتر ہیں اور ان اعلیٰ معیارات اور اقدار کے مطابق نہیں ہیں جن کی ہم یہاں مرسی سائیڈ پولیس میں توقع کرتے ہیں۔ ’ہمارے افسران ہر روز غیر معمولی طور پر بے لوث بہادرانہ کارروائیاں کرتے ہیں، ہماری کمیونٹیز کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں، اس کے باوجود یہاں ہم ایک انتہائی خود غرض فرد کی نفرت انگیز حرکتیں دیکھتے ہیں جس کی ہماری پولیس سروس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘ پی سی ریان کونولی کی حرکات کو بہت برا کہا جا رہا ہے انھوں نے مزید کہا: ’اس افسر کا رویہ افسوسناک ہے اور اس سے پولیس پر عوام کے بھروسے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ’ہم بالکل کلیئر ہیں، اگر کوئی افسر ایسا برتاؤ کرتا ہوا پایا گیا جو ہمارے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اترتا، تو ہم فوری اور سخت کارروائی کریں گے۔‘ اس ماہ کے اوائل میں، میٹروپولیٹن پولیس کے دو افسران کو دو مقتول بہنوں کی تصاویر لینے اور واٹس ایپ گروپس پر انھیں شیئر کرنے پر جیل بھیجا گیا تھا۔
/urdu/pakistan-60405033
انگریزوں نے ایک شیڈیول پاس کیا اور اس میں ان کمیونٹیز کو شامل کیا جن کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور انھیں تعلیم کی سہولیات فراہم کیں، ان کمیونٹیز میں کولھی، بھیل، باگڑی سمیت دیگر بھی شامل تھے لیکن مینگھواڑ سب سے بڑی کمیونٹی تھی۔
محقق و صحافی معصوم تھری کا کہنا ہے کہ مینگھواڑ کمیونٹی بھی ان دراوڑ قبائل میں شامل ہے جو یہاں کے قدیمی لوگ ہیں۔ جب آریا اس خطے میں آئے تو انھوں نے ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے جس کی وجہ سے وہ پسماندگی کی طرف دھکیلے گئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک انگریز اس خطے میں نہیں آئے۔ ’انگریزوں نے ایک شیڈول پاس کیا اور اس میں ان کمیونٹیز کو شامل کیا جن کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور انھیں تعلیم کی سہولیات فراہم کیں، ان کمیونٹیز میں کولھی، بھیل، باگڑی سمیت دیگر بھی شامل تھے لیکن مینگھواڑ سب سے بڑی کمیونٹی تھی۔‘ مینگھواڑ کمیونٹی کے آگے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق مارکیٹ اور شہروں سے تھا کیونکہ یہ ایک ہنر مند قبیلہ ہے جبکہ دیگر قبائل جیسے کولھی بھیل وغیرہ ان کا تعلق دیہی علاقے اور زراعت سے تھا لہٰذا مینگھواڑوں کو شہروں کی وجہ سے تعلیم کے حصول کے زیادہ مواقع میسر ہوئے۔ ان میں کانگریس کے مشہور رہنما کامریڈ سگل چند بھی شامل تھے جن کا تعلق ننگر پارکر سے تھا وہ تحصیل دار رہے اور انھوں نے بعد میں ملازمت سے مستعفی ہو کر رانا چندر سنگھ کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ معصوم تھری کا کہنا ہے کہ ’سندھ کی بمبئی (موجودہ ممبئی) سے علیحدگی کے بعد مینگھواڑ کمیونٹی نے تعلیم کی طرف راغب ہونا شروع کیا جو ابتدائی تعلیم ہوتی تھی وہ حاصل کی کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وسائل میسر نہیں تھے اس ابتدائی تعلیم کے بعد کئی تعلیم کے شعبے سے جڑ گئے اور اس طرح استاد بن گئے۔ ’یہ دھتکار نہ صرف سماج میں بلکہ ہمارے اپنے دھرم کے لوگوں میں مذہبی تفریق کی وجہ سے بھی موجود تھی۔ اس صورتحال میں صرف تعلیم واحد راستہ تھا جو ہمیں اوپر لا سکتا تھا اس لیے مینگھواڑ کمیونٹی نے یہ راستہ اپنایا، اس سب کے لیے ہمارے والدین جو پہلی یا دوسری نسل سے تھے انھوں نے قربانیاں دیں اور نتیجے میں ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔‘ جیون لال نے بھی رواں سال سی ایس ایس پاس کیا ہے اور انھیں کسٹم گروپ دیا گیا ہے۔ ان کے دادا پرائمری پاس تھے، والد میٹرک تک پڑھ سکے جبکہ بھائی انجینیئر اور سرکاری ملازمت میں ہیں۔ ان کا تعلق تھر کی تحصیل چھاچھرو سے ہے۔ گوبند مینگھواڑ کہتے ہیں کہ ’کمیونٹی کو اس طرح فائدہ ہوتا ہے کہ کسی ضلع میں کوئی افسر اگر ہمارا کوئی جان پہچان والا ہے اور اس میں ہماری کمیونٹی کے کسی بندے کا کام ہو تو ہمارے ریفرنس کی وجہ سے وہ کام نسبتاً جلدی ہو جاتا ہے یہ معاشرے کا کڑوا سچ ہے کہ واسطے اور تعلقات سے کاموں میں آسانی ہوتی ہے۔‘
/urdu/world-49514702
مصر کے سرکاری میڈیا ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ ٹی وی میزبان نے ایسے جملوں اور محاوروں کا استعمال کیا جو ملک میں خواتین کے لیے ہتک آمیز سمجھے جاتے ہیں۔
مصر کی ایک ٹی وی میزبان ریہام سعید کو موٹے افراد سے متعلق ریمارکس دینے کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ مصر کے سرکاری میڈیا ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ ٹی وی میزبان نے ایسے جملوں اور محاوروں کا استعمال کیا جو ملک میں خواتین کے لیے ہتک آمیز سمجھے جاتے ہیں۔ اپنے شو میں ٹی وی اینکر نے کہا کہ موٹے لوگ ’اپنے خاندان اور ریاست پر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔‘ انسٹا گرام پر اپنے الفاظ کا دفاع کرتے ہوئے ریہام سعید کا کہنا تھا کہ اب وہ ریٹائرمنٹ لے رہی ہیں۔ ریہام سعید کے یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے مصری شہریوں کو وزن کم کرنے کے بارے میں مشورہ دیا ہے۔ سنہ 2018 میں مصری صدر نے مصری عوام سے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی اپیل کی تھی۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ٹی وی اینکر ریہام سعید نے الحیاح ٹی وی پر اپنے ٹاک شو ’سبایا‘ میں کہا تھا کہ بہت سی موٹی خواتین اپنی نسوانیت اور خوشی سے اس وجہ سے محروم ہوجاتی ہیں کہ ان کے جسم میں زہریلے مادے کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مرد موٹی خواتین کی طرف راغب نہیں ہوتے اور اکثر وہ اپنی موٹی بیگمات سے علیحدگی اختیار کر لتیے ہیں یا منگنیاں توڑ دیتے ہیں۔ ان کے ریمارکس کے بعد سوشل میڈیا پر جیسے تنقید کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہو۔ ریہام سعید کا کہنا ہے کہ انھیں سوشل میڈیا پر ہدف بنایا جارہا ہے اور ٹی وی میزبان نے انسٹا گرام پر یہ پیغام دیا کہ اب وہ ریٹائر ہونے جارہی ہیں۔ ریہام سعید کا کہنا ہے کہ ’میں تھک چکی ہوں کیونکہ ہر کوئی آپ کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ انھوں نے میرے خلاف مہم شروع کر دی ہے جس میں وہ جعلی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ اور یہ کہ دو سو یا تین سو یا چار سو یا پانچ لاکھ ایسے افراد جن کا آپ پس منظر بھی نہیں جانتے وہ سوشل میڈیا پر آپ کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں۔‘ ٹی وی اینکر کا کہنا ہہ کہ اس وجہ سے وہ اس سب سے تھک چکی ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھ سکیں۔ ٹی وی اینکر کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ 12 سال سے زیادہ عرصے میں موٹے افراد کی مدد کے لیے بہت کام کیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ٹی وی اینکر اپنے ریمارکس کی وجہ سے تنازعہ کا شکار بنی ہوں۔ شامی مہاجرین سے ملاقات کے دوران انھوں نے ان کو ’بدتمیز‘ قرار دیا تھا۔ ایک اور موقع پر انھوں نے ایک دہریے کو اپنے شو سے اٹھا دیا حالانکہ مہمان کو شو میں اسی موضوع پر گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
/urdu/regional-59733614
انڈین حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ گجرات کی ساحلی حدود میں مبینہ طور پر پاکستان سے آنے والی ایک کشتی سے 77 کلو گرام ہیروئن برآمد کر کے عملے کے چھ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انڈین ریاست گجرات کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ساحل کے قریب مبینہ طور پر ایک پاکستانی کشتی 77 کلو گرام ہیروئن کے ساتھ پکڑ لی گئی ہے۔ پاکستانی روپوں میں قبضے میں لی گئی ہیروئن کی قیمت 900 کروڑ بتائی گئی ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ’الحسینی‘ نامی کشتی کو حاجی حسین نامی ڈرگ مافیا نے مبینہ طور پر کراچی کی بندرگاہ سے روانہ کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جس گروہ کو یہ ڈلیوری کی جانی تھی اس کا تعلق پنجاب کے انڈر ورلڈ گروہ سے ہے۔ ہیروئن رات کے وقت حوالے کی جانی تھی اس لیے اطلاع ملتے ہی اے ٹی ایس نے کوسٹ گارڈز کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی۔ تلاشی لینے پر کشتی سے 77 کلوگرام ہیروئن برآمد ہوئی۔ ٹیم نے عملے کے چھ افراد کو فوراً گرفتار کر لیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تفتیش کے دوران ملزمان نے انکشاف کیا کہ ہیروئن کی ڈلیوری کے لیے ’ہری-1‘ اور ’ہری-2‘ کے کوڈ ورڈز استعمال کیے جانے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 1993 میں ممبئی (بمبئی) میں ہونے والے دھماکوں میں استعمال کیا گیا آر ڈی ایکس اور ہتھیار پوربندر کی گوسابارا بندرگاہ کے ذریعے لائے گئے تھے۔ گذشتہ چند برسوں سے گجرات کو ٹرانزٹ روٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں انڈیا کے اندر منشیات کی بڑی مقدار میں سمگلنگ گجرات کے ساحلوں سے کی جانے لگی ہے۔ سنہ 2018 میں 500 کلوگرام ہیروئن سمندری راستے سے انڈیا پہنچنے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سالایا کے راستے کا استعمال کیا گیا تھا۔ منشیات کی یہ کھیپ ایک کار میں اُنجھا سے کچ بھیجی گئی تھی۔ وہاں سے اسے زیرے سے لدے ایک ٹرک کے ذریعے پنجاب لے جایا گیا تھا۔ تفتیش کے مطابق کچ سے تعلق رکھنے والے ایک چھوٹے جہاز نے یہ منشیات مبینہ طور پر انڈیا سمگل کرنے کے لیے بحیرۂ روم میں ایک پاکستانی جہاز سے حاصل کی تھیں۔ گجرات کا ساحل 1600 کلومیٹر طویل ہے اور ملک کا سب سے لمبا ساحل ہے۔ یہاں 30 ہزار سے زیادہ کشتیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ کھلے سمندر میں ان کی نگرانی بہت مشکل کام ہے۔ پولیس حکام کے مطابق افغانستان میں افیون کی بڑی مقدار میں کاشت ہوتی ہے جس سے ہیروئن بنا کر انڈیا کو سمگل کی جاتی ہے۔ گجرات اور پنجاب کے درمیان سرحد کو سیل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر بھی تجارت بند ہے۔ حکام کے مطابق یہ وجہ ہے کہ منشیات سمگلر اب دوسرے راستے استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک سابقہ تفتیش میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اگر منشیات انڈیا پہنچ جائیں تو پھر ایک یا دو کلو گرام کی مقدار میں اسے خلیج یا مغربی ممالک کو سمگل کیا جاتا ہے۔
/urdu/sport-51502105
جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس کے کھلاڑی بہت زیادہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس دباؤ کی وجہ سے ان کے لیے پاکستان آکر کھیلنا ممکن نہیں ہے۔
جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ نے آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ اس کی وجہ ’زیادہ کرکٹ کھیلنے کے باعث کھلاڑیوں پر دباؤ بڑھنا‘ بتایا گیا ہے۔ اس دورے میں اسے پاکستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کھیلنی تھی۔ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے دورہ نہ کرنے کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو باضابطہ طور پر مطلع کردیا ہے۔ مزید ہڑھیے جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس کے کھلاڑی بہت زیادہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس دباؤ کی وجہ سے ان کے لیے پاکستان آکر کھیلنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کے مطابق جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اسی سال کسی وقت پاکستان میں یہ سیریز ضرور کھیلے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے جنوبی افریقہ کو پاکستان میں تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کی تجویز پیش کی تھی اس نے ان میچوں کے لیے راولپنڈی کا نام تجویز کیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے اس تجویز سے اتفاق کیا تھا تاہم یہ بھی کہا تھا کہ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کا سکیورٹی وفد روری اسٹین کی سربراہی میں پاکستان آکر سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لے گا۔ خیال رہے کہ اس وقت میریلبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کا حصہ ہے جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم اس وقت انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں مصروف ہے جس کے بعد اسے آسٹریلیا کے خلاف تین ٹوئنٹی اور تین ون ڈے میچوں کی سیریز کی میزبانی کرنی ہے اور پھر بھارت کا دورہ کرنا ہے جس کا آخری میچ اٹھارہ مارچ کو ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا خیال تھا کہ چونکہ پی ایس ایل کا فائنل 22 مارچ کو ہے لہٰذا جنوبی افریقی ٹیم کو چار دنوں کے لیے دبئی میں رکھا جائے کیونکہ ان کے لیے بھارت سے وطن واپس جا کر فوراً پاکستان آنا مشکل ہو گا۔ جنوبی افریقی کرکٹرز 18 مارچ کو بھارت کے خلاف سیریز کے بعد اب آئی پی ایل میں حصہ لیں گے جو 28 مارچ کو شروع ہو گی۔ خیال رہے کہ اس وقت میریلبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کا حصہ ہے۔ اس ٹیم کی قیادت سری لنکا کے سابق کپتان کمار سنگاکارا کر رہے ہیں جو اس وقت ایم سی سی کے صدر بھی ہیں۔