url
stringlengths
14
138
Summary
stringlengths
39
3.22k
Text
stringlengths
230
2.44k
/urdu/regional-50472712
سدھارک اولوے 20 برس سے ممبئی میں گٹر صاف کرنے اور غلاظت اٹھانے والے کارکنوں کی زندگیوں کو عکس بند کر رہے ہیں۔
سدھارک اولوے 20 برس سے ممبئی میں گٹر صاف کرنے اور غلاظت اٹھانے والے کارکنوں کی زندگیوں کو عکس بند کر رہے ہیں۔ انڈیا میں ہونے والی اقتصادی، سماجی اور تکنیکی ترقی کے باوجود ان افراد کی زندگیوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے۔ والمیکی برادری سے تعلق رکھنے والے سینیٹری ورکرز مدھیہ پردیش کے علاقے امن گنج کے بیت الخلاؤں سے انسانی فضلہ اور غلاظت صاف کرتے ہیں۔ ’اگر ہم کسی چھوٹے سے ڈھابے پر بھی جائیں تو ہمیں پلاسٹک کے ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے کپوں میں چائے دی جاتی ہے۔‘ ان سینیٹری ورکرز میں شامل زیادہ تر خواتین دمے اور ملیریا کا شکار ہو چکی ہیں لیکن انھیں کوئی طبی سہولیات میسر نہیں اور بیماری کی وجہ سے چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ بھی کاٹ لی جاتی ہے۔ مکیش دیوی 42 برس کی ہیں۔ اترپردیش کے شہر میرٹھ میں بھگوت پورہ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کا ایک بڑا خاندان ہے اور وہ ماہانہ دو ہزار روپے ہی کما پاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ہمارے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں۔ اگر ہم کوئی دکان بھی کھول لیں تو کوئی ہم سے کچھ نہیں خریدے گا کیونکہ ہم والمیکی ہیں۔‘ سنتوش امن گنج میں اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں۔ اس واقعے میں ان کی بینائی ہمیشہ کے لیے متاثر ہوئی لیکن انھیں کوئی زرِ تلافی نہیں ملا۔ آگرہ محلہ میں پنّا گیتا مٹو، ساشی والمیک اور راجو دمڑ روزانہ صبح پانچ بجے سے دوپہر ایک بجے تک سات ہزار روپے ماہانہ کمانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہم سے بہت برا سلوک کیا جاتا ہے اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘ گذشتہ برس اپریل میں بہار میں تھلائی نامی گاؤں کے باہر دوم برادری کی جھگیوں میں آگ لگی جس سے دس جھونپڑیاں اور ان کے زیادہ تر مویشی جل گئے۔ وہ قریبی شہر سسرام میں کام کرتے ہیں لیکن شناختی کاغذات جل جانے کی وجہ سے نہ تو انھیں سرکاری مدد ملی اور نہ کوئی زرِ تلافی۔ 58 سالہ مینادیوی رہتاس میں ایک مسلم اکثریتی علاقے سے فضلہ اور غلاظت اٹھاتی ہیں۔ انھوں نے 25 برس قبل اپنی ساس کے ہمراہ یہ کام شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے ’شروع میں مجھے متلی محسوس ہوتی تھی۔ میں تیار نہیں تھیں اور اس کام سے جڑے برے ردعمل کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتی تھی۔ میں اب بدبو کی عادی ہو چکی ہوں کیونکہ غربت آپ کو انتخاب کا کوئی موقع نہیں دیتی۔‘ ’میری ساس یہی کام کرتے کرتے مر گئیں۔ وہ سیوریج کو ٹین کے ڈبوں میں لے جایا کرتی تھیں۔ میں نے بھی یہی کیا۔ اب ہم ٹین کے ڈبے استعمال نہیں کرتے لیکن ہمارے نصیب میں یہی لکھا ہے۔‘ تمام تصاویر کے جملہ حقوق سدھارک اولوے اور واٹر ایڈ کے نام محفوظ ہیں۔
/urdu/world-61476857
اگرچہ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے کبھی بھی پرائیویٹ طیارے کا تجربہ نہیں کیا ہے لیکن یہ ایک پرتعیش اور خصوصی دنیا ہے جہاں آپ بڑے ہوائی اڈوں کی گہما گہمی اور دیگر مسافروں سے بچ سکتے ہیں۔
اگرچہ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے کبھی بھی پرائیویٹ طیارے کا تجربہ نہیں کیا ہے لیکن ریک شرمر کی اس بات کو سمجھنا آسان ہے۔ یہ ایک پرتعیش اور خصوصی دنیا ہے جہاں آپ بڑے ہوائی اڈوں کی گہما گہمی اور دیگر مسافروں سے بچ سکتے ہیں۔ اور آپ کو چیک ان کے لیے وقت کی پابندی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کی جلدی ہوتی ہے۔ کیونکہ جب آپ طیار ہوتے ہیں تو یہ جھوٹا سا طیارہ پرواز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے معاملات میں آپ کو ٹرمینل کی عمارت میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بجائے لیموزین جیسی کوئی بڑی کار آپ کو ٹرمک پر بالکل طیارے تک لے جاتی ہے۔ جہاں طیارے کا کوئی عملہ مسکراتا ہوا آپ کو شیمپین کا گلاس پیش کرتا ہے جب آپ آرام سے نرم چمڑے کی آرامدہ کرسی پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ دنیا کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ اس نے وبائی بیماری کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو ایسے میں کیا اب نجی طیاروں کا استعمال کم ہو جائے گا؟ اور کیا ان کے استعمال کو ان کی وجہ سے ہونے والے اہم ماحولیاتی اثرات کے پیش نظر جائز قرار دیا جائے؟ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ نجی جیٹ طیارے کبھی سستے نہیں رہے۔ اور اکثر صارفین انھیں اپنی جیب سے ادا کرنے کے بجائے اپنی کمپنی کے اخراجات میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ طیارے کی خدمات پیش کرنے والے بڑے سائز کے طیارے کا استعمال کرتے ہیں (نجی جیٹ طیاروں میں عام طور پر چھ سے 20 افراد بیٹھتے ہیں)، لیکن آپ کو ان میں ایس مسافروں کے ساتھ سفر کرنا پر سکتا ہے جنھیں آپ نہیں جانتے۔ اور صرف محدود مقامات کے لیے اس کی سروسز پیش کی جاتی ہیں۔ نجی طیارے کی سہولیات فراہم کرنے والے اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کاربن آفسیٹ کے لیے مسافروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اور کچھ کمپنیاں بایو فیول کے استعمال کی طرف بھی جا رہی ہیں، اور وہ الیکٹرک، ہائیڈروجن اور دوسرے ہائبرڈ ایندھن سے چلنے والے طیاروں کی تلاش میں ہیں۔ وسٹا جیٹ کے مسٹر مور کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی 2025 تک کاربن نیوٹرلیٹی حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ 'اور آج، جب سے ہم نے اپنا قابل عمل اور پائیدار انیشی ایٹو شروع کیا ہے ہمارے پاس 85 فیصد سے زیادہ ممبران ایسے ہیں جنھوں نے اپنی پروازوں کے ایندھن کی کھپت کے مقابلے میں کاربن کے اخراج کو کم کیا ہے۔'
/urdu/science-49368994
آسٹریلین تصویری مقابلے میں پہلا انعام ایک ایسے ڈرون شاٹ کو ملا ہے جس میں شارک مچھلیوں نے ایک وہیل کو گھیرا ہوا ہے۔
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انٹارکٹیکا اور بحر الکاہل کےچند جزیروں سے فطرت اور جنگلی حیات کی حیرت انگیز تصاویر ہر سال آسٹریلین جغرافیائی نیچر فوٹوگرافر آف دی ایئر مقابلے میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ دیکھیے اس سال کی چند انعام یافتہ تصاویر: جنوبی آسٹریلیا کے ایک ساحل پر شارک مچھلیوں میں گھری وہیل کی اس تصویر کو پہلے انعام سے نوازا گیا۔ مقابلے کے ججوں کا کہنا تھا کہ یہ تصویر 'موت میں ناقابلِ یقین خوبصورتی' کو ظاہر کرتی ہے جونیئر انعام 17 سالہ فلائیڈ میلن نے نیو ساؤتھ ویلز میں آسمانی بجلی کے طوفان والی اس تصویر کے لیے جیتا سڈنی میں لی گئی اس تصویر میں ایک کلغی دار سینگوں والی شارک مچھلی، پورٹ جیکسن شارک مچھلی کے انڈے والا خول کھا رہی ہے کیکڑوں کی یہ تصویر انڈونیشیا میں لی گئی جس میں کیکڑوں کا خود کو شکاریوں سے بچاؤ کا طریقہ دکھایا گیا ہے نیو ساؤتھ ویلز کے نیشنل پارک میں سرمئی رنگ کے اچھلتے کودتے کینگروز سیلابی موسم کے دوران کوئینز لینڈ کے بیرن فالز سے پانی گزر رہا ہے ایک سمندری جانور فوٹو گرافر ایٹین لٹل فئر کے کیمرے کے قریب پہنچ گیا نیو ساؤتھ ویلز کے نیشنل پارک میں ایک ریچھ اور اس کا بچہ قریبی سوراخ تک جانے کے لیے برف پر چل رہے ہیں ٹونگا کے نزدیک ایک نر ہمپ بیک وہیل اپنی مادہ کی تلاش میں ڈولفنز کے گروہ کے قریب سے گزر رہی ہے آسٹریلیا میں میننڈی لیکس کی ایک سوکھی کھاڑی۔ یہ علاقہ خشک سالی کا شکار ہے اور یہاں جانوروں کی اموات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
/urdu/science-53161608
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے خودکشی کے واقعات پیش آنے کے بعد عارضی طور پر ویڈیو گیم ’پب جی‘ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عارضی طور پر ویڈیو گیم ’پب جی‘ یعنی ’پلیئر ان نون بیٹل گراونڈ‘ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی اے کی طرف سے بدھ کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقوں سے موصول ہونے والی شکایت کے بعد اس ویڈیو گیم کو عارضی طور پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ پی ٹی اے کے بیان کے مطابق حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گیم کی وجہ سے خود کشیوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔ یاد رہے کہ چند روز قبل لاہور پولیس نہ کہا تھا کہ شہر میں دو نوجوانوں نے ویڈیو گیم 'پب جی' کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کر لی ہے۔ یاد رہے کہ 24 کو لاہور پولیس کے مطابق شہر میں چار روز میں دو نوجوانوں نے ویڈیو گیم 'پب جی' کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کر لی تھی، جس کے بعد پولیس کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسی تمام پُرتشدد گیمز اور آن لائن پیجز کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے کو درخواست دی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق لاہور کی ملتان روڈ کے رہائشی، 16 سالہ نوجوان نے خودکشی کا فیصلہ اس وقت کیا جب اس کے والدین نے اسے آن لائن گیم کھیلنے سے منع کیا اور اس نے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر خودکشی کر لی۔ پولیس کے مطابق خودکشی کرنے کے بعد بھی اس کے موبائل پر پب جی گیم چل رہی تھی۔ ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تشدد کو فروغ دینے والی گیمز کے باعث نوجوانوں میں خودکشی کرنے کا رجحان بڑھنا ایک افسوک ناک اور تشویش ناک عمل ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پب جی کھیلنے والے ایک صارف نے بتایا کہ یہ گیم ایک مشن کے تحت کھیلا جاتا ہے جس میں دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے بندقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ گیم کھیلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ سے اس کے منفی اثرات کی شکایات آنے بعد گیم میں ایک اور فیچر متعارف کروایا گیا ہے جس کی مدد سے بتایا جاتا ہے کہ آپ کا سکرین ٹائم بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لیے اب گیم کو بند کر دیں۔ 'اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایک درخواست دیں گے کہ وہ خود ایسی تمام گیمز جس میں پب جی بھی شامل ہیں، جس میں تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے، انھیں پیچھے سے بلاک کر دیا جائے تاکہ صارفین تک ان کی رسائی نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام ایپلیکیشنز اور آن لائن پیجیز کو بلاک کرنے کا اختیار صرف پی ٹی اے پاس ہی ہے۔'
/urdu/pakistan-52276009
عبدالعلیم خان تجربہ کار سیاست دان ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ تو کیا ان کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ پنجاب کی کابینہ کو ان کے تجربے کی ضرورت تھی؟
وہ صوبہ پنجاب کی نئی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے نئے وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کی کابینہ میں سینیئر وزیر مقررر ہوئے۔ بلدیات کا قلمدان بھی انہیں سونپا گیا۔ ان دنوں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے حقیقی وزیرِاعلٰی ہیں۔ عبدالعلیم خان تجربہ کار سیاست دان ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ تو کیا ان کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ پنجاب کی کابینہ کو ان کے تجربے کی ضرورت تھی؟ اگر ایسا تھا تو ان کی ضمانت پر رہائی کے بعد دس ماہ تک انتظار کیوں کیا گیا؟ تاہم ان حالات میں پنجاب سے ایک اور خبر سامنے آئی۔ چند روز قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی گرم رہی ہے کہ عبدالعلیم خان کا ٹیلی فون پر حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ سے رابطہ ہوا تھا۔ صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی جو کہ خصوصاً ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بابت ان کی رانا ثنا اللہ سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علیم خان سے پرانے ذاتی تعلقات ہیں۔ 'جہانگیر ترین کی موجودگی میں جماعت کو وسائل کی فراہمی کے حوالے سے بھی اور جماعت کے اندر بھی علیم خان کی حیثیت ثانوی تھی۔ اب ان کے دور ہونے کے صورت میں ہو سکتا ہے کہ علیم خان اشارہ دینا چاہتے ہوں اور اگر ایسا تھا تو اس میں وہ کامیاب ہوئے۔' تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق 'علیم خان ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور جماعت کے ساتھ ان کا تعلق بھی پرانا ہے اس لیے وہ جماعت کے اندر اس وقت استحکام لانے کے حوالے سے کافی بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔' تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس کا انحصار اس پر ہو گا کہ وزیرِاعظم عمران خان کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ 'اگر وہ انہیں اتنی ڈھیل دیں گے تو ان کے اختیارات میں وسعت آ جائے گی اور اگر نہیں تو وہ اپنی حدود و قیود میں کام کریں گے۔' صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عبدالعلیم خان کا اثر و رسوخ تو ضرور ہو گا لیکن وہ کتنا ہو گا اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 'پی ٹی آئی اس بات سے بھی واقف ہو گی کہ ان کے خلاف نیب کا مقدمہ تو چل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آگے چل کر پھر ان کے لیے بحرانی کیفیت نہ پیدا ہو جائے۔'
/urdu/pakistan-52628713
میڈیکل کے طالبعلم عبداللہ نے جب دیکھا کہ ان کے گاؤں بصیرپور میں لوگوں میں کورونا کے خلاف آگہی نہیں تو انھوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر خود سینیٹائزر بنا کر تقسیم کرنے اور آگہی پھیلانے کا بیڑہ اٹھایا۔
عبداللہ (انتہائی دائیں) اپنے دوستوں کے ساتھ، جو سینیٹائزر بنانے اور لوگوں میں آگہی پھیلانے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں جب پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے متاثرہ شخص کی تصدیق ہوئی تو میڈیکل کے طالبعلم عبداللہ اپنے گاؤں واپس آگئے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ 'جب میں اپنے گاؤں واپس لوٹا تو دیکھا کہ لوگ کورونا وائرس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ گھر واپس جاتے ہوئے میں نے جب اپنے ایک پڑوسی سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا تو انھوں نے کہا کہ 'کورونا وائرس مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔'' 'اگلے دن 17 مارچ کو جب میں نے پاکستان میں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت کی خبر سنی تو میں نے ارادہ کر لیا کہ گاؤں کی ہر مسجد میں جا کر لوگوں کو کورونا کے خلاف آگہی دوں گا اور بتاؤں گا کہ موجودہ صورتحال میں گھر پر رہنا کیسے ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔' عبداللہ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں مسجد ہی وہ جگہیں ہیں جہاں وہ لوگوں کی اکثریت سے بیک وقت مخاطب ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اٹلی اور چین سے کورونا وائرس کے بارے میں خبریں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے چند ریسرچ پیپر پڑھے اور یوٹیوب ویڈیوز دیکھیں کہ گھر پر ہینڈ سینیٹائزر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ پھر عبداللہ اور ان کے دوست جمعے کی نماز سے قبل مسجد گئے اور مساجد کے آئمہ سے کہا کہ وہ لوگوں کو صرف سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہی مسجد میں داخل ہونے دیں۔ لوگوں کے ہاتھ سینیٹائز کروائے جا رہے ہیں۔ عبداللہ اور ان کے دوستوں نے مساجد سمیت کئی جگہوں پر سینیٹائزر تقسیم کیے ہیں عبداللہ نے مقامی سرکاری ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹروں کو سینیٹائزر فراہم کیے جن کے پاس ویسے سینیٹائزر موجود نہیں تھے۔ 'باقی بچ جانے والی بوتلیں ہم نے تھانے، ڈاکخانے، ٹاؤن کمیٹی اور ریلوے سٹیشن میں تقسیم کر دیں۔ چند افسران نے تو مزید سینیٹائزر بنانے میں ہماری مدد بھی کی۔' اس کے بعد وہ سینیٹائزر کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وائرس سے بچنے کے بارے میں بھی آگاہ کرتے رہے۔ 'چونکہ ہمارے گاؤں میں زیادہ تر لوگوں کے پاس ٹی وی نہیں ہیں، اس لیے انھیں اس سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ کورونا وائرس کس قدر خطرناک ہے۔' عبداللہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمعے کی نماز سے قبل لوگوں سے کورونا وائرس کے بارے میں خطاب کرتے تو لوگ ان سے اس حوالے سے سوالات پوچھا کرتے عبداللہ کہتے ہیں کہ 'جب میں واپس جا رہا تھا تو کافی اداس تھا، مگر جب مجھے ایک 64 سالہ کاشتکار نے بتایا کہ وہ اپنی بھینسوں کے لیے گھاس کاٹنے کے بعد اپنے ہاتھ سینیٹائز کر رہی ہیں اور دوسروں سے فاصلہ بھی رکھیں گی، تو مجھے چین آ گیا۔'
/urdu/pakistan-58685585
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے خواتین کو وراثت میں حصہ لینے سے متعلق ایک درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ اگر کوئی خاتون وفات پا جائے تو اس کی اولاد کو اپنے نانا کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
حال ہی میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے خواتین کو وراثت میں حصہ لینے سے متعلق ایک درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ اگر کوئی خاتون وفات پا جائے تو اس کی اولاد کو اپنے نانا کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے جس مقدمے پر یہ ریمارکس سامنے آئے کہ عورت کو اپنی زندگی میں ہی اپنی والد کی وارثت میں حصہ لے لینا چاہیے اور اگر کوئی خاتون اپنی زندگی میں ہی حصہ نہ لے تو اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد اپنے نانا کی وراثت میں حصے کا دعوی نہیں کر سکتی، اس کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ میں پشاور کی دو خواتین، جو کہ آپس میں بہنیں تھیں، کے بچوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایپل دائر کی۔ اس اپیل میں کہا گیا تھا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی والدہ کو اپنے باپ کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہیں ملا تھا اب وہ اپنے نانا سے اپنی والدہ کا حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن عدالت عالیہ نے ان کے نانا کی جائیداد میں حصہ لینے کا دعوی مسترد کر دیا۔ اس اپیل کو مسترد کیے جانے کے بارے میں ابھی سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ تو سامنے نہیں آیا لیکن اس اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون وراثت خواتین کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ خواتین خود اپنے حق سے دستبردار ہوں یا دعویٰ نہ کریں تو پھر کیا ہو گا۔ قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے برعکس وراثت کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنی والد کی جائیداد سے حصہ ملنے سے پہلے ہی وفات پا جائے تو اس کے بچے اپنے نانا کی جائیداد میں سے حصہ لینے کے اہل ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے سابق چیف جسٹس افضل ظلہ کا فیصلہ بھی موجود ہے جس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بہن اپنے والد کی جائیداد کے حصے میں سے دستبردار ہوتی ہے تو پھر بھی عدالت کو اس دستبرداری کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1960 کے وراثت کے قانون کے مطابق اگر کوئی خاتون اپنے باپ کی زندگی میں ہی وفات پا جاتی ہے اور اس کی اولاد زندہ ہے تو وہ اپنے نانا کی جائیداد میں اپنا حصہ لینے کا حق رکھتی ہے۔‘ عالم دین علامہ طاہر اشرفی کی رائے اس سے مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی زندگی میں اپنے والد کی وارثت سے حصہ نہیں لے سکی تو اس کی وفات کے بعد ان کے بچے اپنے نانا کی جائیداد میں حصہ لینے کے حق دار نہیں ہیں۔
/urdu/vert-cul-53832559
ان کی وفات کے سینکڑوں سال بعد بھی اب تک رومی کے کلام کو پڑھا جاتا ہے، اس کا ورد کیا جاتا ہے، اسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے، اور ناولوں، نظموں، موسیقی اور فلموں کے لیے اس سے تحریک حاصل کی جاتی ہے، مگر آخر ان کا کلام اب تک اتنا مقبول کیوں ہے؟
ان کی وفات کے سینکڑوں سال بعد بھی اب تک رومی کے کام کو پڑھا جاتا، اس کا ورد کیا جاتا ہے اسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے، اور ناول، نظموں، موسیقی اور فلم کے لیے اس سے تحریک حاصل کی جاتی ہے، مگر آخر ان کا کلام اب تک اتنا مقبول کیوں ہے؟ ان برسوں کے دوران رومی نے شاعری، موسیقی اور رقص کو مذہبی عمل میں شامل کر دیا۔ گوچ کہتے ہیں کہ 'رومی جب مراقبے میں جاتے یا شعر کہتے تو ایک انداز میں رقص کرتے اور گھوم کر اسے لکھواتے۔' اسے بعد میں ان کی وفات کے بعد پروقار استغراق والے رقص کے طور پر بنایا گیا۔' اور جیسا کہ خود رومی نے اپنی 2351 ویں غزل میں لکھا ہے۔ 'میں دعائیں کرتا تھا، اب میں شعر، نظم اور گيت پڑھتا ہوں۔' ان کی وفات کے سینکڑوں سال بعد بھی اب تک رومی کے کلام کو پڑھا جاتا ہے، اس کا ورد کیا جاتا ہے، اسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے، اور ناولوں، نظموں، موسیقی اور فلموں کے لیے اس سے تحریک حاصل کی جاتی ہے، اس کے تعلق سے یوٹیوب ویڈیوز اور ٹویٹس کے طور پر ان کے قول سامنے آتے ہیں۔ گوچ بھی رومی سیکریٹس کے تحت ٹویٹ کرتے ہیں۔ رومی کا کلام آخر اتنے عرصے تک کیونکر زندہ ہے؟ رومی کے کلام کو ترجمہ کرکے امریکہ میں روشناس کروا کر نشاۃِ ثانیہ پیدا کرنے والے اور امریکہ میں رومی کو ’بیسٹ سیلنگ‘ کا درجہ دلوانے والے کولمین بارکس بتاتے ہیں کہ رومی کو دوام اس لیے نصیب ہے کیونکہ 'ان کے تخیل کی حیرت انگیز تازگی ہے اور اس سے پیدا ہوتی ہوئی شدید آرزو ہے، ان کے حس مزاح اور ان کے کھیل میں بھی عقل و دانش مندی کی باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔' بارکس کا کہنا ہے کہ 'مجھے لگتا ہے ابھی ایک مضبوط عالمی تحریک چل رہی ہے، ایک ایسا جذبہ بیدار ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور مذہب کی قائم کردہ حدود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ 1273 میں رومی کے جنازے میں آئے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے عقیدے کو پختہ کرتے ہیں۔ ان کی اپیل میں یہ ایک طاقتور عنصر ہے۔'
/urdu/science-61003470
جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ پر غیرقانونی خرید و فروخت کی مالیت ایک ارب ڈالر سالانہ تھی۔
جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ ڈارک نیٹ سائٹ کو بند کرنا ان کے لیے بڑا حیران کن تھا یہ ویب سائٹ سائبر کرائم یا انٹرنیٹ پر کیے جانے والے جرائم کا گڑھ تھی جس پر چھ برس سے زیادہ تک منشیات اور غیر قانونی اشیا کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ مگر اس کے متعلق مخبری ہونے کے بعد جرمن پولیس نے اس کے سرورز پر چھاپہ مارا اور تقریباً 25 ملین ڈالر کی مالیت کے بِٹ کوائن قبضے میں لے لیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس مارکیٹ پلیس پر 17 ملین کسٹمر اور 19 ہزار سیلر اکاونٹ رجسٹرڈ تھے جن پر اب پولیس کی جانب سے قبضے میں لیے جانے کے نوٹس چسپاں ہیں۔ سبیشیئن زویئبل کا کہنا ہے کہ اس ویب سائٹ کو بند کرنے کا آپریشن اس خفیہ اطلاع کے بعد شروع کیا گیا جس کے مطابق ویب سائٹ کے انفراسٹرکچر کو جرمنی میں لگایا جانا تھا۔ یہ جاننے میں کئی مہینے لگ گئے کہ جرمنی میں کونسی فرم ہائڈرا کو ہوسٹ کر رہی ہے۔ بالآخر اس کا پتا چل گیا جو بظاہر ایک ’بلٹ پروف ہوسٹنگ‘ کمپنی تھی۔ ڈارک نیٹ سائٹ پر اکاؤنٹ رکھنے والوں کو اب یہ نوٹس دکھتا ہے جس میں لکھا ہے کہ سائٹ کو پولیس نے قبضے میں لے لیا ہے اس کمپنی کو پولیس کا کہنا ماننے پر مجبور کیا گیا ورنہ اس کے عملے کو بھی گرفتار کر لیا جاتا۔ ویب سائٹ پر جانے والوں کو اب وہاں ایک پولیس نوٹس ملتا ہے جس پر لکھا ہے کہ ’یہ پلیٹ فارم اور اس پر موجود مجرمانہ مواد قبضے میں لیا جا چکا ہے۔‘ اگرچہ جرمن حکام اپنی کامیابی پر خوشی منا رہے ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہائڈرا چلانے والے گروہ کو گرفتار نہیں کر لیا جاتا انھیں خدشہ ہے کہ ایسی دوسری ویب سائٹس سامنے آ سکتی ہیں۔ زویئبل کاکہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ وہ اپنے کاروبار چلانے کا دوسرا راستہ نکال لیں گے۔ غالباً وہ ایک نیا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کریں گے، اور اس سلسلے میں ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ ہم مجرموں کو نہیں جانتے اس لیے اب یہ جاننا ہی ہمارا اگلا ہدف ہو گا۔‘ یہ خبر ڈارک نیٹ کے لیے ایک ایسے برے وقت میں آئی ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں اور بھی کئی اہم ویب سائٹیں یا تو رضاکارانہ طور پر یا پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں بند ہو چکی ہیں۔ اس برس کے اوائل میں کی گئی بی بی سی کی تحقیق کے مطابق ڈارک نیٹ سائٹس کے بند کرنے کا سب سے عام طریقہ ’ایگزٹ سکیم‘ ہے جس میں ایڈمنسٹریٹرز رضاکارانہ طور پر سائٹس کو بند کر دیتے ہیں مگر اس دوران اپنے کسٹمرز کا تمام پیسہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
/urdu/world-52101280
یہ برطانیہ میں مقیم تین ایسے ڈاکٹرز کی کہانی ہے جنھوں نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپنی جان بھی دے دی۔
ڈاکٹر حبیب حیدر زیدی برطانیہ کے پہلے ڈاکٹر ہیں جو کووِڈ-19 (کورونا) وائرس کے مریض کا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے اور پھر اپنی جان کی بازی بھی ہار گئے۔ وہ ساؤتھ اینڈ میں سرجن تھے۔ ان کی ایک بیٹی ڈاکٹر سارہ زیدی جو خود بھی ایک جی پی ہیں، نے کہا ہے کہ ڈاکٹر زیدی کی حالت اور علامتیں بتا رہیں تھیں کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے۔ ان کی بیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس طرح ان کے ساتھ ہوا ہے اور ان کی جیسے موت ہوئی ہے وہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔ یہ ان کی قربانی کا جذبہ ظاہر کرتی ہے۔ وہ اپنے کام سے نہایت پیشہ وارانہ وابستگی رکھتے تھے۔‘ ڈاکٹر سارا زیدی نے مزید کہا کہ ’اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ (اُن کے والد) کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے ٹیسٹ سے تصدیق تو ایک رسمی سی اکیڈمک کارروائی ہے۔‘ ’ان کے جانے کی وجہ سے ہمارے دلوں پر ایک گہرا صدمہ لگا ہے۔ پوری کمیونٹی نے ان کے چلے جانے کی تکلیف کو محسوس کیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی یہاں کے لوگوں کے لیے وقف کردی تھی۔‘ ساؤتھ اینڈ کونسل کے لیڈر این گلبرٹ نے ڈاکٹر زیدی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ڈاکٹر زیدی کے انتقال کی خبر سے ہمیں بہت صدمہ ہوا ہے۔ یہاں کی مقامی کمیونٹی میں وہ اور ان کا پورا خاندان نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘ برطانیہ میں قومی سطح پر صحت کے ادارے این ایچ ایس سے وابستہ کورونا وائرس کے انفیکشن سے ہلاک ہونے والے ڈاکٹر عادل الطیار پہلے شخص ہیں۔ وہ پیوند کاری کے سینئر کنسلٹنٹ تھے۔ برطانیہ آنے سے پہلے سوڈانی نژاد ڈاکٹر الطیار سعودی عرب اور سوڈان سمیت دنیا کے کئی ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ انھوں نے لندن کے سینٹ میری اور سینٹ جارجز ہسپتالوں میں بھی کام کیا تھا۔ سوڈان میں برطانیہ کے سفیر اور بی بی سی کی سینئیر صحافی زینب بداوی نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ وہ زینب بداوی کے قریبی عزیز بھی تھے۔ مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد تریسٹھ برس کے ڈاکٹر عادل الطیار خود سے قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔ زینب بداوی کے بقول ڈاکٹر الطیار نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپنے آپ کو صف اوّل میں رضاکارانہ طور ہر پیش کیا تھا اور بالآخر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ سوڈانی نژاد ڈاکٹر الحورانی کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ’مہربانی اور ہمدردی کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ایک محبت کرنے والے شوہر، بیٹے، باپ، بھائی اور دوستوں کے دوست تھے۔
/urdu/world-59634802
بی بی سی کی نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی ’ بلیک ایکس‘ نامی مافیا پر ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اس گروہ کے سیاسی شخصیات سے روابط، اس کے عالمی سطح کے فراڈ، اور قتل کے واقعات ملوث ہونے کے شواہد کو افشا کیا گیا ہے۔
ان تکلیف دہ یادوں کے پیچھے ڈاکٹر سٹون کا وہ ماضی چھپا ہے جو افریقی ملک نائجیریا سے شروع ہونے والے ایک ایسے پرتشدد مافیا کے رکن کے طور پر گزرا جو اب دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ ڈاکٹر سٹون بلیک ایکس نامی اس فرقے کے ناصرف رکن تھے بلکہ بنین شہر میں قصائی کے نام سے جانے جاتے تھے جس کی وجہ وہ مظالم تھے جو اس فرقے کی جانب سے ڈھائے گئے۔ یہ فرقہ انسانی سمگلنگ، انٹرنیٹ فراڈ اور قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہا جس کی شناخت انتہائی بدترین قسم کی پرتشدد کارروائیوں اور خفیہ رسومات سے کی جاتی ہے۔ اس کے اراکین کی وفاداری اس کا خاصہ مانی جاتی ہے اور آج بھی اس گروہ کو چھوڑنے والے اراکین کی مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر نائجیریا کے سوشل میڈیا پر ملتی ہیں۔ بی بی سی افریقہ نے بلیک ایکس نامی اس مافیا پر دو سال کی تحقیق میں یہ سراغ لگایا کہ طلبا کے ایک انتہائی خفیہ گروہ سے شروع ہونے والے بلیک ایکس نامی اس خطرناک مافیا نے کس طرح سے دنیا بھر میں ایک پرتشدد جال پھیلا دیا اور کیسے سیاسی حلقوں تک رسائی حاصل کرنے کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر مالی فراڈ رچایا۔ بی بی سی کی تحقیقات کا آغاز موت کی دھمکیوں کے ایک خط کے واقعے سے ہوا۔ یہ ایک آڑھی ترچھی تحریر میں ہاتھ سے لکھا گیا خط تھا جو سنہ 2018 میں بی بی سی کے صحافی کو دیا گیا تھا۔ اس خط کو ایک موٹر سائیکل سوار نے رپورٹر کی کار کی ونڈ اسکرین پر چسپاں کیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ ہفتے قبل یہ صحافی نائیجیریا میں افیون کی غیر قانونی تجارت کی کھوج لگانے پر کام کر رہا تھا اور اس نے بلیک ایکس کے متعدد ارکان سے بالمشافہ ملاقاتیں کی تھیں۔ بعد میں ایک دوسرا خط اس شخص کے گھر والوں کو دیا گیا۔ کوئی نہ کوئی اس صحافی کا سراغ لگا رہا تھا جس نے ان کے گھر کا پتہ بھی تلاش کر لیا تھا۔ ان سوالات کے جوابات کی تلاش نے ہمیں ایک ایسے شخص تک پہنچا دیا جس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں بلیک ایکس کی خفیہ دستاویزات کو ہیک کر لیا ہے جن میں قتل اور منشیات کی اسمگلنگ کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ ان میں ای میلز اور وسیع اور منافع بخش انٹرنیٹ فراڈ کی تفصیلات بھی ہیں۔ ان میں ایسے پیغامات بھی ملے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مافیا اپنی سرگرمیوں میں عالمی سطح پر توسیع کا منصوبہ رکھتا ہے۔ چار براعظموں پر پھیلی بلیک ایکس کی مجرمانہ سرگرمیوں کا مفصل نقشہ تھا۔
/urdu/vert-tra-49465256
جرمنی کے لوگوں میں گاڑیوں کے لیے ایک شدید جذباتی محبت پائی جاتی ہے جس میں نہ صرف گاڑیوں کی تیاری، انھیں بہتر سے بہتر بنانا بلکہ ان کی ڈرائیو کا مزہ لینا بھی شامل ہے۔
سڑکوں کے نقشوں اور جی پی ایس کی ایجاد سے پہلے کے دور میں برتھا کو ان کی والدہ کے گھر تک پہنچانے کے لیے صرف دریا اور ریل کی پٹڑیاں تھیں۔ سیاہ پتھروں سے بنی سڑک پر دو ہارس پاور کے فور سٹروک انجن اور لکڑی کے پہیوں پر چلنے والی گاڑی میں کیے گئے اس سفر کا تصور کر کے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کتنی بہادر تھیں، اور شاید تھوڑی سی جنونی بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا منصوبہ کامیاب ہوا۔ بدلتی ہوئی دشمنیاں جن سے سٹیٹس کو میں تبدیلی آتی، وہ لازماً بری بات نہ ہوتیں، کبھی کبھی ان کا اثر یہ ہوتا کہ اس سے جدت کا راستہ کھلتا ہے۔ پورشے کمپنی کے شعبہ آرکائیو کے سربراہ فرینک جنگ کہتے ہیں کہ جنوبی جرمنی کا ہر روایتی کار ساز ردوبدل پر یقین رکھتا اور آزمائش و غلطی کے ذریعے بار بار اپنی مصنوعات میں بہتری لاتا رہتا، کیونکہ بہرحال اگر آپ پرفیکشن یا مکمل ہونے کی تلاش میں نہیں، تو آپ ردوبدل کیوں کریں گے؟‘ جرمنی کے گاڑیوں کے میوزیمز میں آپ کو یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ کس طرح ان مؤجدوں نے موٹر ویگن کی پیروی کی جبکہ گاڑیوں کے پہلی بار تیار ہونے والے پرزوں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جرمنی کے گاڑیوں کے میوزیمز میں آپ کو یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ کس طرح ان مؤجدوں نے موٹر ویگن کی پیروی کی جبکہ گاڑیوں کے پہلی بار تیار ہونے والے پرزوں کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔ سنہ 1890 میں فرانس کی تخلیقی لہر کو ایک طرف رکھیں تو جرمن کار ساز کمپنیاں اس صنعت میں ہمیشہ سب سے اوپر رہی ہیں۔ ہائیڈبرنک کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ کام تخلیقی سوچ کے ساتھ کیا ہے اور ہر آنے والے دور میں گاڑیوں کی تیاری میں کوئی نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ 'جدت اور لگژری کا سفر ہمیشہ ساتھ ساتھ رہا ہے۔' مثال کے طور پر ہر سال دنیا بھر سے آؤڈی اے جی کے ورکرز بہتری کے لیے ہزاروں آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی تجاویز میونخ سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع آؤڈی کے عالمی ہیڈ کوارٹر اور مرکزی اسمبلی پلانٹ میں تسلیم بھی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کے اندر گاڑیوں کے لیے ایک شدید جذباتی محبت پائی جاتی ہے جس میں نہ صرف ان کی تیاری اور انھیں بہتر بنانا، بلکہ ان کا مزہ لینا اور ڈرائیو کا مزہ لینا بھی شامل ہے۔ مصنف مارک ٹوئین نے جرمنی کے جنوب مغرب میں اپنے بے پناہ سفر کے بارے میں لکھا تھا، 'گرمیوں میں جرمنی درحقیقت خوبصورتی کی تکمیل ہے۔'
/urdu/pakistan-53592712
شاہداد ممتاز اپنے نظریے کی وجہ سے مارے گئے۔ لیکن کیا ان کی طرح ثنا بلوچ، جو فی الحال لاپتہ ہیں، بھی پاکستانی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرسکتے ہیں؟
ان کے خاندان والوں کی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں، یا پھر وہ بتاتے نہیں۔ نہ ہی انھوں نے عدالت سے رابطہ کیا ہے یا حکام سے کہا ہے کہ ثنا بلوچ کو ڈھونڈا جائے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پریشان نہیں ہیں۔ شاہداد ممتاز بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم تھے۔ وہ 2015 میں لاپتہ ہوئے تاہم ان کی فیملی خاموش رہی اور چند ماہ بعد وہ لوٹ آئے۔ مگر آخر میں ان کے ساتھ جو ہوا، اس میں سب کے لیے سبق ہے۔ یکم مئی 2020 کو، ثنا بلوچ کے لاپتہ ہونے سے دس روز قبل شاہداد بلوچ فوج کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ ان کو جاننے والے بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ بلوچ لبریشن آرمی، ایک مسلح علیحدگی پسند تنظیم، نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے رکن تھے۔ تب سے اب تک فوج نے صوبے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے، نئی چھاؤنیاں بنائی ہیں، اور اطلاعات کے مطابق جاسوسوں کے نیٹ ورک بنائے ہیں جو کہ اصل اور مبینہ قوم پرستوں کو پکڑتے ہیں۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ فوج ایسے لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے لاپتہ کر دیتی ہے۔ فوج پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کا استعمال کر کے ہمسایہ افغانستان اور بلوچستان کے علاقوں میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر مقامی جرائم پیشہ عناصر کی مدد سے ’ڈیتھ سکواڈ‘ چلانے کا الزام ہے جو کہ فوج کو معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ وہ بلوچ قوم پرستوں کو جا کر مار سکیں۔ مگر جو طلبہ انھیں جانتے تھے انھیں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں گے۔ بلکہ انھوں نے اپنا ماسٹرز کیا اور ایم فل میں داخلہ لیا۔ وہ ایک دوست کے ساتھ سی ایس ایس کی تیاری کرنے کے لیے لاہور بھی گئے۔ ثنا بلوچ کا کیس کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی ایک قوم پرست ہیں، اور بی این پی ایم پارٹی کے رکن ہیں۔ وہ بھی ایک قابل طالب علم ہیں اور انھوں نے بلوچی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں۔ ان کے ایک استاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں اپنا ایم فل کا تھیسز تقریباً مکمل کر لیا تھا اور مئی کے آخر میں جمع کروانا تھا مگر کورونا وائرس کی وجہ سے انھیں اپنے گھر لوٹنا پڑا۔ کیا اب ان کی لاش کسی کوڑے کے ڈھیر سے ملے گی؟ کیا وہ اپنے ساتھیوں کی مخبری کریں گے؟ یا وہ شاہداد کی طرح لوٹیں گے کچھ دیر نظروں سے اوجھل رہیں گے اور پھر ہتھیار اٹھا لیں گے۔۔۔
/urdu/entertainment-58892449
’ایک شخص کا 40 سال کا تجربہ ہے اور ایک ابھی آیا ہے اور آپ کہیں کہ یہ باپ کی طرح کا نہیں ہے۔ آخر وہ کیسے اپنے والد کی طرح ہو سکتا ہے وہ تو ابھی آیا ہے، ابھی تو انڈے سے چوزہ نکلا ہے ابھی اس نے مرغی یا مرغا بننا ہے، تو اسے وقت دیں۔‘
’جب میں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا تو اُس دور میں بہت جدوجہد کرنا پڑتی تھی کیونکہ سوشل میڈیا اتنا مقبول نہیں تھا۔ انسٹاگرام کے آنے سے اب ہر کوئی اپنی دنیا میں سٹار بن گیا ہے۔ آج کل آسان ہے کہ آپ اداکاری اور وقت کی نہیں بلکہ پیسوں کی سرمایہ کاری کریں اور لمحوں میں سٹار بن جائیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اقربا پروری ایک فرضی بات ہے۔ اگر یہ فرضی بات نہ ہوتی تو ابھیشک بچن بالی وڈ کے سب سے بڑے اداکار ہوتے کیونکہ وہ بالی وڈ کے سب سے بڑے سٹار کے بیٹے ہیں۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو ایک یا دو بار تو سہارا دے سکتا ہے لیکن تیسری بار دیکھنے والے اسے مسترد کر دیں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا نہیں کہ باپ اس انڈسٹری میں اپنے بچوں کی مدد نہیں کر رہے۔ بینکر باپ بھی اپنے بچے کو بینک میں ایک بار انٹرن شپ دلا دیتا ہے لیکن اگر وہ قابل ہو گا تو نوکری اسے تب ہی ملے گی۔ اگر نوکری مل بھی جائے تو وہ ترقی تب ہی کرے گا جب اس میں قابلیت ہو گی۔‘ علی عباس پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے نامور اداکار وسیم عباس کے صاحبزادے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے والد سے اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے والد سے کبھی نہیں پوچھا کہ آپ نے میرا وہ ڈرامہ دیکھا، نو سال میں انھوں نے کوئی چار سے پانچ مرتبہ ہی مجھے کہا کہ تم نے اچھا کام کیا لیکن میں اپنے کام کے حوالے سے ان سے بہت کم ہی بات کرتا ہوں۔‘ ’ایک شخص کا 40 سال کا تجربہ ہے اور ایک ابھی آیا ہے اور آپ کہیں کہ یہ باپ کی طرح کا نہیں ہے۔ آخر وہ کیسے اپنے والد کی طرح ہو سکتا ہے وہ تو ابھی آیا ہے، ابھی تو انڈے سے چوزا نکلا ہے ابھی اس نے مرغی یا مرغا بننا ہے، تو اسے وقت دیں۔‘ جب علی عباس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے بچوں کو اس انڈسٹری میں آنے کی اجازت دیں گے تو انھوں نے کہا کہ ’میں بلکل چاہوں گا کہ اگر میرے بچے اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں تو ضرور آئیں کیونکہ میں اپنی فیلڈ کی بہت عزت کرتا ہوں اور ان لوگوں کی بالکل عزت نہیں کرتا جو اس کی عزت نہیں کرتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’پڑھائی بہت ضروری ہے لیکن انگریزی بولنا اتنا ضروری نہیں۔ انگریزی تو دو سال امریکہ میں رہ کر آنے والے میٹرک فیل بھی بول لیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا دماغ کھل گیا ہے یا وہ پڑھے لکھے انسان بن گئے۔‘
/urdu/pakistan-59198941
فیصل آباد کے قریب واقع خوش پور گاؤں ناصرف پاکستان میں کیتھولک مسیحیوں کا سب کا بڑا گاؤں ہے بلکہ ایک چیز جو اسے منفرد بناتی ہے وہ ’یسوع بادشاہ کی عید‘ نامی تہوار ہے جو گذشتہ 125 برس سے یہاں منایا جا رہا ہے۔
پہلی نظر میں تو یہ خوبصورت گاؤں پاکستانی پنجاب کے کسی بھی دوسرے گاؤں کی طرح ہی نظر آتا ہے، لیکن اِس چھوٹے سے گاؤں میں ایک بڑی خاص بات ہے اور وہ یہ کہ پانچ ہزار افراد کی آبادی پر مشتمل خوش پور پاکستان میں کیتھولک مسیحیوں کا سب سے بڑا گاؤں ہے۔ لیکن ایک چیز اور ایسی ہے جس نے خوش پور کو منفرد بنایا ہے۔ وہ ہے ہر سال اکتوبر کے مہینے کے آخری اتوار یہاں منایا جانے والا انوکھا تہوار۔ ’یسوع بادشاہ کی عید‘ یا ’فیسٹ آف کرائسٹ دی کنگ‘ کا گذشتہ 125 برس سے ہر سال خوش پور میں انعقاد کیا جاتا ہے۔ آخر اِس تہوار میں کیا خاص بات ہے اور کیوں یہ پاکستان کے کیتھولک مسیحیوں کے لیے اہم ہے؟ آئیے ’یسوع بادشاہ کی عید‘ میں شرکت کر کے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ گاؤں کے ایک دوسرے حصے میں گھروں کے سامنے بیٹھے بہت سے بچے اور چند بڑے لکڑی کے بُرادے کو رنگ رہے ہیں جسے جلوس کے راستے میں زمین پر بچھایا جائے گا۔ یہ استقبال کا ایک منفرد انداز ہے جو صرف خوش پور میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جلوس سے ایک رات پہلے خوش پور میں میلے کا سماں ہوتا ہے۔ جگہ جگہ دیگیں چڑھی ہیں جہاں جلوس کی تیاری کرنے والے رضا کاروں کے لیے کھانا تیار کیا جا رہا ہے۔ چائے کے دور چل رہے ہیں اور ساؤنڈ سسٹم کے شور کے درمیان تیاریوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ تہوار کے دنوں میں خوش پور کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جہاں اِس موقع کی مناسبت سے تیاریاں نہ کی جا رہی ہوں۔ انتظامات ہفتوں پہلے شروع کر دیے جاتے ہیں اور ہر خاندان اپنے گھر کے سامنے والے حصے کی سجاوٹ کا ذمہ دار بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستانی مسیحی سارا سال اِس تہوار کا انتظار کرتے ہیں۔ کئی ملک کے مختلف شہروں یہاں تک کے بیرونِ ملک سے بھی ’یسوع بادشاہ کی عید‘ میں شرکت کرنے آتے ہیں۔ 125 ایکڑ پر پھیلا یہ گاؤں انیسویں صدی کے آخر میں مشنری جذبے کے تحت آباد کیا گیا۔ سنہ 1897 میں انگریز پادری فلیکس سیالکوٹ سے یہاں آئے اور خوش پور کی بنیاد رکھی۔ آج خوش پور کی آبادی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ گاؤں کا واحد چرچ سنہ 1903 میں بنایا گیا تھا۔ یہاں ایک مسجد بھی قائم ہے جس کی بنیاد چرچ کے پادری نے خود اپنے ہاتھ سے رکھی تھی۔ خوش پور میں تین درجن کے قریب گھر مسلمانوں کے ہیں جن کے اجداد گاؤں کے قیام کے وقت مسیحیوں کے ساتھ آ کر یہاں بسے تھے۔ اب اُن کی اولادیں خوش پور کے اکثریتی مسیحیوں کے ساتھ مل جُل کر رہتی ہیں اور ’یسوع بادشاہ کی عید‘ کے تہوار میں شامل ہوتی ہیں۔
/urdu/world-60566100
یوکرین پر روس کے حملے کو پانچ دن ہو چکے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوؤں اور غلط خبروں کی بھرمار ہے اور یہ غلط اور گمراہ کن خبریں مسلسل وائرل ہو رہی ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے کو پانچ دن ہو چکے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوؤں اور غلط خبروں کی بھرمار ہے اور یہ غلط اور گمراہ کن خبریں مسلسل وائرل ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والی چند جھوٹی خبروں میں ایسی پرانی ویڈیوز ہیں جنھیں حالیہ صورتحال کے تناظر دکھایا یا شیئر کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پرانی ویڈیوز کو تازہ اور حالیہ دنوں کی ویڈیوز کہہ کر جاری کیا جا رہا ہے اور حالیہ تصاویر کو بھی جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ تو پرانی تصاویر ہیں جبکہ ان کی تازہ ہونے کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔ اس غلط سب ٹائٹلز والی ویڈیو میں وہ خطاب کے دوران کہتے ہیں کہ ’جو بھی یہ کہتا ہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد سے روس دنیا میں تنہا رہ گیا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے، رواں ہفتے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا ہے، انھوں نے مغربی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود میری دعوت کو قبول کیا اور ہم نے اس دوران افغانستان اور تجارتی معاہدوں سمیت مختلف باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا اور جلد ہی میں پاکستان کا دورہ کروں گا اور ایک اہم گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کروں گا۔‘ مشرق یوکرین کے علاقے چاوئف میں گزشتہ جمعرات تباہ ہونے والی رہائشی عمارت کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں جن میں ایک عورت کے زخمی چہرے کی تصاویر کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ تصویر تو 2018 کی ہے۔ اس تصویر کے بارے میں کہا گیا کہ یہ سنہ 2018 میں روس کے شہر میگنیتاگورس میں ہونے والے گیس دھماکے کی ہے۔ ایک ڈرامائی نوعیت کا کلپ بھی سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو رہا ہے جس میں یوکرین کے پائلٹ کو روسی لڑاکا طیارے کو مار گراتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ کلپ بیلاروس کے ایک ٹی وی چینل نیکسٹا ٹی وی نے ٹویٹ کیا ہے۔ جھوٹے دعوؤں اور غلط خبروں کی بھرمار میں ایک تصویر یہ بھی ہے جس میں دو بچوں کو یوکرین کے فوجی دستوں کو جنگ کے لیے خدا حافظ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس تصویر کو سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے پسند اور شیئر کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی یوکرینی افواج کے ساتھ میدان جنگ میں چائے پی کر ان کے حوصلے بڑھا رہے ہیں بہت وائرل ہوئی ہے۔ ہفتے کے اختتام پر اس ویڈیو کو تقریباً 30 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
/urdu/regional-59047521
ممبئی میں ہائی کورٹ منگل کو آرین خان کی درخواستِ ضمانت کی سماعت کر رہی ہے جبکہ نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے آزاد گواہ کرن گوساوی نے ایک انٹرویو میں رشوت مانگنے کے الزام کو مسترد کیا ہے۔
انڈیا میں منشیات کی روک تھام کے ادارے نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کے آزاد گواہ کرن گوساوی پر شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کیس میں جبرآً پیسہ وصول کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس کیس کے ایک دوسرے آزاد گواہ پربھاکر سائل نے گوساوی پر 25 کروڑ روپے رشوت مانگنے کا الزام لگایا ہے۔ بی بی سی نے اس بارے میں مہاراشٹر پولیس سے بھی بات کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کرن گوساوی ابھی تک پولیس کی حراست میں کیوں نہیں ہیں تو پولیس حکام نے کہا کہ 'کرن گوساوی نے ابھی تک خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا ہے۔ ہم چوکس ہیں۔ ہم تھانے اور عدالت میں بھی الرٹ ہیں۔ انھوں نے بعض میڈیا ہاؤسز سے بات کی ہے اور انٹرویو دیا ہے۔' واضح رہے کہ آرین خان کو رواں ماہ کے اوائل میں منشیات کے استعمال کے معاملے میں حراست میں لیا گیا تھا اور 20 دن سے زیادہ عرصے سے وہ جیل میں ہیں۔ منگل کو بومبے ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔ اس سے قبل نچلی عدالتوں میں ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ان پر ماضی میں بھی الزامات لگے ہیں اس کے باوجود وہ این سی بی کی کارروائی میں شامل تھے۔ کیا اس کی وجہ سے ان پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو انھوں نے کہا: 'میرے خلاف کیس ختم ہو چکا ہے۔ وہ معاملہ میرے کام سے متعلق تھا اور تکنیکی نوعیت کا تھا۔ یہ معاملہ پونے سے متعلق ہے اور میں نے ایک شخص کو ملائیشیا بھیجا تھا۔ گوساوی کی آرین خان کے ساتھ سیلفی ان دنوں میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ جب ان سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: آریان کو سیلفی لیتے وقت گرفتار نہیں کیا گیا۔ سیلفی لینا غلط تھا۔ میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آریان میری گاڑی سے باہر نکلا اور اسی وقت اس کا پاؤں پھسل گیا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر سہارا لیا۔ اس وقت تک، وہ اور میں نہیں جانتے تھے کہ ان کے خلاف کوئی الزام تھا یا نہیں۔ اس لیے میڈیا سے اس کا چہرہ چھپانے کے لیے ہم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔'
/urdu/world-55302125
مشرقی ایشیا میں چینی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نام کسی کی بھی قسمت کو ہر لحاظ سے بدل کر رکھ سکتا ہے اور اس کے اثرات زندگی، صحت اور محبت سے لے کر معاشی اور تعلیمی کارکردگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
مشرقی ایشیا میں بسنے والی چینی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نام کسی کی بھی قسمت کو ہر لحاظ سے بدل کر رکھ سکتا ہے اور اس کے اثرات زندگی، صحت اور محبت سے لے کر معاشی اور تعلیمی کارکردگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے کورونا وائرس کی وبا معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی جا رہی ہے، ماندے جیسے کئی لوگ، جو ملازمت کی تلاش میں ہیں، بجائے اپنے سی وی میں بہتری لانے کہ وہ یہ معلوم کرنے کے لیے قسمت بتانے والوں کا رخ کرتے ہیں کہ کیا ان کا نیا نام ان کی زندگی بدل سکتا ہے؟ ہانگ کانگ کے لی شنگ چک فینگ شوئے کے علم کے لیے مشہور ہیں۔ فینگ شوئے قدیم چینی سائنسی علم ہے جس کا تعلق ہوا اور پانی کے تناسب سے ہے۔ یہ دونوں عناصر اچھی صحت کی نشانی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چینی فن ہے جس سے کسی کی قسمت کا پتا بھی لگایا جاتا ہے۔ توانائی کے بہاؤ اور توازن سے متعلق قدیم چینی عقیدے کے مطابق کسی بچے کا نام رکھنے سے پہلے بڑے غور سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس کی پیدائش کا وقت کیا ہے اور چینی عناصر آگ، لکڑ، پانی، دھات اور زمین میں سے کس کی علم نجوم کے کلینڈر سے مطابقت ہے۔ نام کے حوالے سے چینی نظریئہ تو یہی ہے کہ اگر نام رکھنے کے بعد بھی زندگی کے معاملات خرابی کی ڈگر پر ہیں تو پھر ایسے میں آپ اس عدم توازن کو بہتر کرنے کے لیے ایک نیا عنصر متعارف کروا سکتے ہیں جو آپ کی خوش قسمتی کا باعث بنے۔ قسمت کا حال بتانے والا ہر کوئی علم نجوم اور فینگ شوئے سے متعلق اپنی علیحدہ تشریح کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ماندے پانگ کی قسمت کا حال بتانے والے نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے نام کے پہلے حصے سے ایک چینی عنصر کو دوسرے کسی عنصر سے بدل دیں تاکہ ان کی قسمت جاگ اٹھے۔ پروفیسر یانگ کا کہنا ہے کہ ’غیر یقینی کی صورتحال میں لوگ خود کو معمول پر رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں نام کی تبدیلی سے لوگوں کو اپنے اندر کنٹرول کا احساس ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ نام کی تبدیلی کے ساتھ اپنی قسمت کو بھی بدل سکتے ہیں۔‘ لیکن ہانگ کانگ میں فینگ شوئے سے وابستہ میک لنگ لنگ کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں نام تبدیل کرنے کے مشورے کی مانگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور تقریباً 60 سے 70 فیصد لوگ اپنی بری قسمت سے جان چھڑانے کے لیے ان کے پاس آئے تھے۔ ان کے مطابق کسی کا نام تبدیل کرنے سے قسمت کو ایک نئی سمت میں لانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن یہ یقینی طور پر کسی کی بنیادی صلاحیتوں سے زیادہ آگے نہیں جاتا۔
/urdu/world-54543979
دنیا بھر میں پاسپورٹ کے مختلف ملکوں کے مختلف ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں ایک طرح کی یکسانیت بھی پائی جاتی ہے۔ پاسپورٹ کب بننا شروع ہوئے اور جدید دور میں یہ کیا صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
پاسپورٹ ڈیزائن کرنے والے اپنے تخلیقی جوش و جذبے میں پاسپورٹ کے ڈیزائن میں پرندوں، تتلیوں اور چالوں کے پودوں کے عکس بنانے اور اس کو مختلف رنگوں سے آراستہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں لیکن ایک بنیادی سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاسپورٹ جس طرح کے بنائے جاتے ہیں اس طرح کے کیوں بنائے جاتے ہیں۔ جنگ عظیم اوّل کے شروع ہو جانے کے بعد حکومتوں نے پاسپورٹ دیکھنا شروع کر دیے تاکہ دشمن ممالک کے جاسوسوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ پہلا جدید برطانوی پاسپورٹ سنہ 1915 میں جاری کیا گیا۔ یہ پاسپورٹ ایک صفحے پر مشتمل تھا جس کو کارڈ بورڈ کی ایک جلد میں تہ کر لیا جاتا تھا۔ اس پر برطانیہ کا شاہی نشان بنا ہوا تھا۔ یہ شیر اور ایک سینگ والا گھوڑا جو بالترتیب انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا قومی نشان ہیں آج بھی پاسپورٹ پر موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاسپورٹ میں یہ سب چیزیں قوم پرستی کے جذبے اور قوم کی فنی صلاحیتوں کو ممتاز کرنے کے لیے کی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد پاسپورٹ کو محفوظ بنانا ہے تاکہ اس کی نقل نہ بنائی جا سکیں۔ کسی پاسپورٹ کا ڈیزائن جتنا زیادہ پیچیدہ ہو گا اس کی نقل بنانا اتنا ہی زیادہ مشکل ہوگا۔ جدید پاسپورٹ میں جو لوازمات ہوتے ہیں وہ صرف اور صرف سکیورٹی خدشات کے پیش نظر شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً سنہ 2015 میں جاری ہونے والے کینیڈا کے نئے پاسپورٹ کو دیکھیں۔ اگر اس پاسپورٹ کے صفحوں پر 'یو وی' لائٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں ڈالی جائیں تو ان کے اوپر کے حصے میں بنائی ایک عام سی تصویر کا آسمان روشن ہو جائے گا جیسے آتش بازی ہو رہی ہو اور ایک قوس قزح نمو دار ہو جائے گی۔ قطع نظر اس کے کہ پاسپورٹ کتنی مختلف قوموں کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن مختلف ملکوں کے پاسپورٹ میں ایک طرح کی یگانگت بھی پائی جاتی ہے چاہے یہ چین، امریکہ، آسٹریلیا یا ایران کے پاسپورٹ ہوں۔ پاسپورٹ کی ایک تاریخ ہے لیکن تیزی سے آگی بڑھتی ہوئی دنیا میں جہاں اس دستاویز میں شامل ٹیکنالوجی بدل رہی ہے وہیں اس کی علامتی حیثیت میں بھی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ پاسپورٹ ہمشیہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا تھا۔ خوش قسمت افراد میں یہ ملکیت اور تعلق کے احساس کی تسکین کا باعث رہا ہے۔ ان کے لیے یہ بیرونی دنیا کے دروازے کی کنجی رہا ہے جو مہم جوئی اور فضائی سفر کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر تارکین وطن کے لیے پاسپورٹ چین کی زندگی گزارنے کی ضمانت ہے۔ سلگتے ہوئے بین الاقوامی تنازعات اور کشیدگی میں بعض ملکوں کے پاسپورٹ دنیا کے وسیع حصوں کے دورازے کھول دیتے ہیں اور حالیہ عالمی وبا کی وجہ سے بین الاقوامی سفر اب اکثر لوگوں کے لیے اتنا آسان نہیں رہا۔
/urdu/pakistan-57304234
ڈبو نامی اس ریچھ کی جائے پیدائش پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم ہے مگر اسے اپنی ماں اور اپنے گھر سے دور راولپنڈی میں ایک خاتون کو بیچا گیا تھا اور اس کی یہ تکلیف ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں منظر عام پر آئی تھی۔
ڈبو نامی اس ریچھ کی جائے پیدائش پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم ہے مگر اسے اپنی ماں اور اپنے گھر سے دور راولپنڈی میں ایک خاتون کو بیچا گیا تھا اور اس کی یہ تکلیف ایک ٹک ٹاک ویڈیو میں منظر عام پر آئی تھی۔ ٹک ٹاک پر مشہور انیلہ عمیر نے اس بات سے تو انکار نہیں کیا کہ ڈبو ان کے گھر سے برآمد ہوا ہے مگر ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں اور ڈبو کو انھوں نے ’شکاریوں سے محفوظ کرنے کے لیے حاصل کیا تھا۔‘ انیلہ کا کہنا ہے کہ جس ٹک ٹاک ویڈیو کی بات کی جارہی ہے وہ ان کی ایک ساتھی کارکن کے ساتھ ہے۔ یہ ویڈیو ’ریکارڈ رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی مگر بدقسمتی سے ہم لوگ اس کو پرائیوٹ کرنا بھول گئے تھے۔‘ انیلہ عمیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ رمضان میں انھیں اپنے ہمسائیوں کے ذریعے اطلاع ملی کہ وادی نیلم میں شکاریوں نے ایک مادہ ریچھ کو ہلاک کر کے اس کا بچہ اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور وہ اس کو فروخت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انیلہ عمیر کا کہنا تھا کہ ’مجھے شکاریوں نے نیلم سے ریچھ کی ویڈیو بھجوائی جس میں وہ رو رہا تھا۔ چیخ رہا تھا۔ فریاد کررہا تھا۔ اس کے بعد میں نے محکمہ وائلڈ لائف پنجاب سے رابطہ قائم کیا کہ ہماری مدد کی جائے کہ کسی طرح ہم اس کو بازیاب کروا سکیں جس پر ہمیں کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔‘ ’جب ریچھ کو مقامی لوگ یا خانہ بدوش پکڑتے ہیں تو وہ عمومی طور پر اس کی بلیک مارکیٹ سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ان سے مڈل مین رابطہ کرتا ہے جو ان سے 30 سے 50 ہزار روپے میں ریچھ خریدتا ہے جس کے بعد وہ یہ ریچھ پشاور پہنچاتا ہے جہاں سے اسے گوجرانوالہ پہنچایا جاتا ہے یا اس کو پشاور ہی میں اس دھندے میں ملوث لوگ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے میں خریدتے ہیں۔‘ نعمان رشید کے مطابق 'ناچنے اور تماشا دکھانے والے ریچھوں کے مالکان کے خلاف سب سے پہلے سنہ 2002 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں کارروائی ہوئی اور اس حوالے سے قانون بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک ایسی سرگرمی سامنے نہیں آئی ہے۔ سنہ 2005 میں ایسا ہی قانون بلوچستان میں پاس ہوا جس کے بعد اس دھندے میں ملوث لوگ سندھ پہنچ گئے تھے جن کے خلاف سندھ میں وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت تو کارروائیاں ہوتی تھیں مگر صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرح قانون نہیں تھا تاہم سنہ 2015 میں سندھ میں بھی ریچھ کو رکھنے، نچانے، تماشا دکھانے وغیرہ میں استعمال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا تھا اور وہاں پر بھی کارروائیاں ہوئی تھیں۔'
/urdu/world-55053645
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن تک اقتدار کی منتقلی کے باضابطہ عمل کا آغاز کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک اہم وفاقی ایجنسی کو ’ضروری اقدامات کرنے‘ کی ہدایات دے چکے ہیں تاہم انتخابی نتائج کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعادہ بھی کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن تک اقتدار کی منتقلی کے باضابطہ عمل کا آغاز کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایک اہم وفاقی ایجنسی کو 'ضروری اقدامات کرنے' کی ہدایات دے چکے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے انتخابی نتائج کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعادہ بھی کیا۔ جی ایس اے ایک ایسا ادارہ ہے جو دیگر وفاقی ایجنسیوں کی معاونت کرتا ہے اور ساتھ ہی باضابطہ طور پر اقتدار کی منتقلی کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کی ہوتی ہے۔ اس سے قبل جو بائیڈن کو امریکی ریاست مشیگن میں بھی سرکاری طور پر فاتح قرار دیا گیا تھا جو صدر ٹرمپ کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا ٹویٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب جی ایس اے کی جانب سے جو بائیڈن کے کیمپ کو یہ خبر دے دی گئی تھی کہ اب اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے 'حق کی لڑائی' جاری رکھنے کا اعادہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ 'اپنے ملک کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں ایملی اور ان کی ٹیم کو ابتدائی پروٹوکولز مکمل کرنے سے متعلق ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کر رہا ہوں اور میں نے اپنی ٹیم سے بھی یہی کہا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے تعینات کی گئی ایملی مرفی نے کہا کہ 'حالیہ پیش رفت جیسے مقدمات کے فیصلے اور الیکشن کے نتائج کی سرٹیفیکیشن‘ کے باعث انھوں نے یہ خط بھیجا ہے۔ مرفی کا کہنا تھا کہ انھیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس فیصلے کی ٹائمنگ کے حوالے سے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انھوں نے بائیڈن کو اس خط میں کہا کہ 'میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھ پر اس سلسلے میں تاخیر کرنے کے بارے میں کہیں سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔' انھیں دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کے عمل میں تاخیر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو عام طور پر الیکشن اور افتتاحی تقریب کے درمیان ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔ ادھر بائیڈن کی ٹیم نے ان کے خط کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'آج کا فیصلہ اس لیے ضروری تھا کہ اس سے قوم کو درپیش مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ ان میں عالمی وبا پر قابو پانا اور معیشت کی بحالی شامل ہیں۔' 'وفاقی اداروں کے ساتھ باقاعدہ طور منتقلی کے عمل کو شروع کرنا ایک حتمی فیصلہ ہے جو انتظامی سطح پر کیا گیا۔' اہم ریاستوں میں ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں نے انتخابی عملی کو چیلنج کیا تھا لیکن متعدد بار عدالتوں میں ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا ہے۔ بعض رپبلکن رہنماؤں نے بھی ٹرمپ کو شکست تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
/urdu/pakistan-60762193
وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے بارے میں تنقیدی انٹرویو اور بدھ کو اس کے بارے میں وضاحتی بیان کے بعد چوہدری پرویز الٰہی سمیت مسلم لیگ ق کی قیادت کی اچانک لاہور روانگی نے تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے موجود سیاسی غیر یقینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کس دن ہو گی، یہ تو آئندہ آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہو گا مگر اس دوران ہونے والی ’نمبر گیم‘ میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا کردار نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کے بارے میں تنقیدی انٹرویو اور بدھ کو اس کے بارے میں وضاحتی بیان کے بعد چوہدری پرویز الٰہی سمیت مسلم لیگ ق کی قیادت کی اچانک لاہور روانگی نے تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے موجود سیاسی غیر یقینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں ق لیگ کی جماعت کے تمام سینیئر رہنماوں کی اسلام آباد سے لاہور روانگی کو سیاسی اعتبار سے اہم سمجھا جا رہا ہے جس سے پہلے اسلام آباد میں پارٹی قیادت کی ایک ملاقات بھی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پُرامید ہیں کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دے گی اور بلدیاتی نظام میں جو ترمیم کے لیے سپریم کورٹ کا حکم ہے اس پر صوبائی حکومت پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ رہنما ن لیگ احسن اقبال نے بدھ کے دن اسلام آباد میں ہی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر شہپباز شریف کی تجویز ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں نمائندہ جماعتوں کو مل کر مخلوط حکومت بنانی چاہیے تاکہ ملک کے بڑے مسائل کو اتفاق رائے سے حل کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ انھوں نے اس موقع پر یقین دہانی کروائی کہ جلسوں کی صورت میں تمام رہنماؤں کو حفاظت دی جائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلام آباد میں جب دونوں طرف سے (یعنی حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں کی صورت میں) لوگ آئیں گے تو اس سے کیا تصادم ہو گا تو ان کا جواب تھا ’ظاہر ہے۔‘ پرویز الہیٰ کے انٹرویو سے متعلق سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ ان سے اسد عمر اور پرویز خٹک ڈیل کر رہے ہیں۔ ’اتحادیوں سے مجھے امید ہے، ایم کیو ایم کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔۔۔ میرا کسی سے رابطہ نہیں، کسی مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں۔ ان سے کہوں گا ضرور کہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ 25 تاریخ تک سب کا پتا چل جائے گا۔‘ ق لیگ کی قیادت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں پتا۔ میں نے ایک عام بات کی تھی وہ بُرا منا گئے۔ کم از کم الیکشن تک اپنی وجہ سے کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے بعد دیکھوں گا۔‘
/urdu/regional-60720963
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق اسلام آباد میں انڈین ناظم الامور کو سنیچر کے دن طلب کیا گیا جنھیں پاکستانی حدود میں ’حادثاتی طور‘ پر میزائل گرنے کے واقعے پر پاکستان کے شدید خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
انڈیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے اگلے دن یعنی 11 مارچ کو ایک بیان میں اعتراف کیا گیا کہ ’معمول کی دیکھ بھال کے دوران تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہو گیا تھا۔‘ جبکہ انڈین وزارتِ دفاع نے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے اندرونی کورٹ آف انکوائری کے ذریعے اس حادثے کی تحقیقات کا فیصلہ ناکافی ہے کیوںکہ یہ میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، اس لیے پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے کے حقائق طے کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کی جائیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق اسلام آباد میں انڈین ناظم الامور کو سنیچر کے دن طلب کیا گیا جنھیں پاکستانی حدود میں حادثاتی طور پر میزائل گرنے کے واقعے پر پاکستان کے شدید خدشات سے آگاہ کیا گیا۔ بیان کے مطابق انڈین ناظم الامور سے کہا گیا کہ ’اتنے سنجیدہ معاملے کو ایک سادہ وضاحت سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان کو اس بات کی توقع ہے کہ جوہری ماحول میں حادثاتی یا بنا اجازت میزائل لانچ سے جڑے سیکیورٹی پروٹوکولز اور تکنیکی حفاطتی انتظامات کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا۔‘ پچھلے 17 برسوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چھ بڑے تنازعات چھڑے ہیں جن کو بات چیت اور بین الاقوامی مداخلت کے بعد ختم کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں میزائل کا حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بیانیے کو دونوں ملکوں میں ماہرین تشویش سے دیکھ رہے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری اور ہتھیاروں کے معاہدوں کو شیئر کرنے کے بارے میں بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ 21 فروری 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حفاظتی یاد داشت پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس ایم او یو میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کے بیلسٹک میزائل کا ٹیسٹ کرنے سے پہلے بتائیں گے۔ دونوں ممالک زمینی یا بحری بیلسٹک میزائل لانچ کرنے سے تین دن پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔ اور آگاہ کرنے کی ذمہ داری دونوں ملکوں کے دفترِ خارجہ اور ہائی کمیشن پر ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اس کا تعلق صرف اس بات سے نہیں ہے کہ صفائی کرتے ہوئے بٹن دب گیا اور میزائل چل گیا۔ ’اس کا تعلق صرف تکنیکی باتوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق کمانڈ اور کنٹرول کے نظام سے بھی ہے۔ یہ میزائل کس کے کنٹرول میں ہیں، کیا جس افسر کے ماتحت یہ میزائل تھے ان کے یا ان کی ٹیم کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟ اجازت کون دیتا ہے کہ میزائل لانچ کر دیں؟ اس بات کا جواب ضروری ہے کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔‘
/urdu/world-56606093
لارا ٹرمپ نے، جنھوں نے حال ہی میں فوکس نیوز کے ساتھ کام شروع کیا ہے،ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو لے رہی ہیں اور ان سے مختلف امور پر بات کر رہی ہیں۔
اپنی صدارت کے دوران ٹرمپ اکثر اوقات سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے فیس بک نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہو لارا ٹرمپ کے پیج سے ٹرمپ کی ویڈیوز کو ہٹا دیا ہے۔ رواں برس جنوری میں جب امریکی کے دارالحکومت میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بولا تھا اور اس کے بعد ہنگامے شروع ہوئے تھے تو فیس بک نے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بلاک کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لارا ٹرمپ نے، جنھوں نے حال ہی میں فوکس نیوز کے ساتھ کام شروع کیا ہے،ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو لے رہی ہیں اور ان سے مختلف امور پر بات کر رہی ہیں۔ پھر بعد میں انھوں نے ایک ای میل کا سکرین شارٹ پوسٹ کیا جو انھیں فیس بک کی جانب سے موصول ہوئی تھی۔ ای میل میں ان کے لیے فیس بک کی طرف سے وارننگ تھی۔ ای میل میں لکھا ہے:’فیس بک اور انسٹا گرام اکاؤنٹس پر ڈونلڈ ٹرمپ پر پابندی کی وجہ سے ان کی آواز میں اگر کچھ بھی پوسٹ کیا جاتا ہے تو اسے نہ صرف ہٹا دیا جائے گا بلکہ اس کی وجہ سے اکاؤنٹ پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔‘ لارا ٹرمپ نے، جن کی شادی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک سے ہوئی ہے، اس انٹرویو کو اپنے آن لائن شو دی رائٹ ویو کے ویڈیو پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا تھا اور اسے اپنے فیس بک پیج سے لِنک کر دیا۔ . ’انھوں نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’واہ، ہم اورویل 1984 سے ایک قدم قریب ہیں۔‘ طویل عرصے سے ٹرمپ کے حامی اور فوکس نیوز کے میزبان سئین ہینٹی نے اپنی ٹوئیٹ میں اس اقدام کو ’سنسر شپ کی انتہا' قرار دیا ہے۔ فیس بک نے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ کیپیٹل ہل پر حملے کے ایک روز بعد سات جنوری کو معطل کر دیا تھا۔ اس اقدام کا نئے نگرانی بورڈ کی جانب سے جائزہ لیا جا رہا ہے جسے اس طرح کے متنازعہ اقدام پر حتمی فیصلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ فیس بک کے چیف مارک زکربرگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کی معطلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ’ہمیں یقین ہے کہ اُس وقت صدر ٹرمپ کو مسلسل اپنی سروس کو استعمال کرنے کی اجازت دیے رکھنے میں بہت خطرات تھے۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ پر ٹوئٹر اور یو ٹیوب کی طرف سے بھی پابندی عائد ہے۔
/urdu/sport-56056651
معجزے روز روز نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک شخص اپنے زورِ بازو سے قسمت کا لکھا بدل دیتا ہے اور باقی سب کی خامیاں، کوتاہیاں اس ایک کارکردگی تلے دب جاتی ہیں مگر کرکٹ میں ہر روز ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے دوسرے ٹی 20 میچ پر سمیع چوہدری کا کالم۔
معجزے روز روز نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک شخص اپنے زورِ بازو سے قسمت کا لکھا بدل دیتا ہے اور باقی سب کی خامیاں، کوتاہیاں اس ایک کارکردگی تلے دب جاتی ہیں۔ مگر کرکٹ میں ہر روز ایسا ممکن نہیں کہ ایک کھلاڑی کی کارکردگی اس قدر اہم اور نمایاں ہو جائے کہ میچ کا نتیجہ بدل ڈالے۔ جمعرات کے میچ میں محمد رضوان کی اننگز کھیل پر اس قدر حاوی ہوئی کہ تن تنہا ہی میچ کا نتیجہ بدل ڈالا۔ آج کے میچ میں بھی پاکستان غالباً یہی توقع کر رہا تھا کہ رضوان کی فارم ہی انھیں میچ جتوانے کو کافی ہو گی، اس امر سے قطع نظر کہ دوسرے اینڈ سے انھیں مدد کون فراہم کرے گا۔ پچھلے میچ میں ان کے رن آؤٹ ہونے کے بعد رضوان نے پاکستانی اننگز کی باگ ڈور سنبھالی اور کشتی کو منجدھار سے نکال کر لے گئے۔ آج بھی ان کے جلد آؤٹ ہونے کے بعد متوقع یہی تھا کہ رضوان اننگز کا بہاؤ ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ جنوبی افریقہ نے پچھلے میچ میں ہی اپنے عزائم واضح کر چھوڑے تھے کہ وہ پاکستان کے لئے کوئی تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر پاکستانی کیمپ میں اس حوالے سے کوئی شبہات باقی رہ گئے تھے تو وہ آج جنوبی افریقی بولرز بالخصوص پریٹوریس نے دور کر دیئے۔ یہ وکٹ پچھلے میچ کی وکٹ سے بھی بہتر تھی، اس میں سپن کم تھی اور حالات بلے بازی کو سازگار تھے۔ اگر دوسری اننگز میں رات کی اوس اور بولنگ کی مشکلات کو مدِنظر رکھا جاتا تو پاکستان کو یہاں جیت کے لئے کم از کم 190 رنز کا ہدف متعین کرنا چاہیے تھا۔ لیکن کلاسن نے اس میچ کے لئے ٹیم بھی بہتر چنی اور اپنے بولرز کا استعمال بھی پچھلے میچ سے بہتر کیا۔ تبریز شمسی کا سپیل وہ مرحلہ تھا جہاں پاکستانی مڈل آرڈر کی ناتجربہ کاری بری طرح آشکار ہوئی اور اننگز کا ردھم بکھر گیا جو ایسا بکھرا کہ پھر جوڑے نہ جڑا۔ پریٹوریس نے ان دونوں عوامل کا بھرپور استعمال کیا اور بجا طور پر ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اپنے ملک کی جانب سے بہترین کارکردگی کے حق دار ٹھہرے۔ اگر پاکستان کو اتوار کا میچ جیت کر یہ سیریز اپنے نام کرنی ہے تو اسے بیٹنگ آرڈر میں کچھ انقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ رضوان تو بطور اوپنر اپنا لوہا منوا ہی چکے ہیں لیکن بابر اعظم کو شاید اپنا بیٹنگ نمبر نیچے لانا چاہیے تاکہ ابتدائی نقصان کے بعد تیسرے یا چوتھے نمبر پر کوئی ایسا کھلاڑی موجود ہو جو مڈل اوورز میں اننگز چلانے کا ہنر جانتا ہو۔ بہر حال یہ پاکستان کا ایک نیا کمبینیشن ہے اور اس میں چیزوں کو اپنی جگہ پر آتے آتے وقت لگے گا۔ مگر ٹرانزیشن کے اس عمل سے گزرنے کے لئے کچھ انقلابی تبدیلیاں کر لی جائیں تو بدلاؤ کا یہ مشکل مرحلہ کافی حد تک آسان ہو سکتا ہے۔
/urdu/science-61600954
سٹیون غالبا دنیا کے پہلے شخص ہیں جن کو لاحق بیماری کی وجہ سے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کی گئی۔ اس آپریشن میں 30 ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا جو دمسبر 2021 میں 12 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس سے قبل ان کے لیے موزوں ڈونر (عطیہ کرنے والا) تلاش کیا گیا تھا۔
جب سٹیون گیلیگر کو پہلی بار مشورہ دیا گیا کہ ان کے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری ہو سکتی ہے تو وہ ہنس دیے تھے۔ ان کے کیس میں اس بیماری نے ناک، منہ اور ہاتھوں کو متاثر کیا۔ سات سال قبل ان کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑنا شروع ہو گئیں حتی کہ انھوں نے ایک مٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ ان کو ناقابل برداشت درد کا سامنا تھا۔ سٹیون کو گلاسگو کے کنسلٹنٹ پلاسٹک اور ہاتھوں کے سرجن پروفیسر انڈریو ہارٹ کے پاس بھیجا گیا جنھوں نے سب سے پہلے ان کو دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کا مشورہ دیا۔ پروفیسر ہارٹ سے بات چیت کے بعد سٹیون نے برطانیہ کے لیڈز ٹیچنگ ہسپتال کے کنسلٹنٹ پلاسٹک سرجن پروفیسر سائمن سے بھی مشورہ کیا۔ پروفیسر سائمن نے برطانیہ کی طبی تاریخ میں پہلی بار 2016 میں کسی کے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کا آپریشن کیا تھا۔ ’میں نے اپنی بیوی سے بات کی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ میں ویسے بھی اپنے ہاتھ کھو سکتا ہوں تو پھر کیوں نا یہ خطرہ مول لیا جائے تو میں نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ میں یہ آپریشن کروانا چاہتا ہوں۔‘ سٹیون، جن کی تین بیٹیوں کی عمریں 12، 24 اور 27 سال ہیں، کو سب سے پہلے ایک نفسیاتی ٹیسٹ سے گزرنا پڑا جس میں جانچا گیا کہ وہ اس پیوند کاری کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں یا نہیں۔ سٹیون غالبا دنیا کے پہلے شخص ہیں جن کو لاحق بیماری کی وجہ سے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کی گئی۔ اس آپریشن میں 30 ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا جو دمسبر 2021 میں 12 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس سے قبل ان کے لیے موزوں ڈونر (عطیہ کرنے والا) تلاش کیا گیا تھا۔ آپریشن کے بعد لیڈز جنرل انفرمری میں چار ہفتے گزارنے پر سٹیون کو گھر بھیج دیا گیا۔ اب ان کو باقاعدگی سے گلاسگو جانا پڑتا ہے جہاں ان کی فزیوتھراپی کی جاتی ہے۔ اب بھی بٹن بند کرنے جیسے کام، جن کے لیے دونوں ہاتھ درکار ہوتے ہیں، سٹیون کے لیے کچھ مشکل ہیں لیکن ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ وہ اپنے کتے کو ہاتھوں سے پیار کر سکتے ہیں، اسے سہلا سکتے ہیں، پانی کا گلاس بھر سکتے ہیں۔ ’اسی لیے ہم پہلے ہر مریض کا نفسیاتی معائنہ کرتے ہیں کہ کیا وہ ذہنی طور پر پیوند کاری کے بعد کی زندگی کے لیے تیار ہے یا نہیں اور کیا وہ ان خطرات کے لیے تیار ہے کہ اس کا جسم ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہاتھ کو قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔‘ سٹیون کے لیے تو اس آپریشن نے سب کچھ بدل دیا۔ اب ان کو امید ہے کہ ان کے ہاتھ کسی حد تک بہتر ہوئے تو وہ کسی قسم کا کام بھی کر پائیں گے۔
/urdu/pakistan-58250172
پی آئی اے کے کیپٹن مقصود بجرانی کو اندازہ نہیں تھا کہ کابل کی یہ غیر معمولی پرواز ان کی کپتانی کی صلاحیت، ان کے تجربے اور قابلیت سب کو امتحان میں ڈالے گی۔
پی آئی اے کے کیپٹن مقصود بجرانی کو اندازہ نہیں تھا کہ کابل کی یہ غیر معمولی پرواز ان کی کپتانی کی صلاحیت، ان کے تجربے اور قابلیت سب کو امتحان میں ڈالے گی۔ ان کے بقول ان کی تربیت جنگی زون میں کپتانی کے لیے نہیں ہوئی کہ وہ ہیرو کہلا سکیں۔ کیپٹن مقصود بجرانی پی کے 6252 کے کپتان تھے جس نے کابل ائیرپورٹ پر انتہائی خراب حالات ہونے کے باوجود جرات مندانہ فیصلہ کر کے پرواز اور 170 مسافروں کو بحفاظت اسلام آباد پہنچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے فرسٹ آفیسر سجاد غنی کی ہوشیاری اور عقلمندی بھی ان کے کام آئی۔ بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس فلائٹ کے کیپٹن مقصود بجرانی اور فرسٹ آفیسر سجاد غنی کو کابل پہنچنے پر کن حالات کا سامنا تھا، وہاں کیا ہوا اور کس طرح وہ 170 افراد کو بحفاظت اسلام آباد پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ کپتان نے اس دوران ایسے اہم اقدامات کیے جنھوں نے ان کی طیارے کی بحفاظت اڑان میں مدد کی۔ چونکہ پی آئی اے کی کابل کے لیے روزانہ ایک پرواز ہوتی ہے مگر اس دن دو پروازیں تھیں اس لیے پی آئی اے کے بڑے ٹرپل سیون طیارے کو گراؤنڈ کنٹرولر نے ایئر برج دینے کا فیصلہ کیا اور کیپٹن بجرانی کے ایئربس اے تھری ٹوئنٹی طیارے کو تھوڑے فاصلے پر بغیر ایئربرج کے مسافروں کو سوار کروانے کے لیے متبادل جگہ دی۔ پی آئی اے کے سربراہ ایئرمارشل ارشد ملک سے جب پوچھا گیا کہ اتنے غیر یقینی حالات میں پرواز کیوں چلائی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ’ہم اس ساری صورتحال میں تمام وسائل بروئے کار لائے۔ کابل میں اپنے عملے کو ہوائی اڈے پر موجود رہنے کا کہا، دوسرا میں نے چیک کیا کہ ہوائی اڈے پر صرف ہم ہی نہیں دوسری ایئرلائنز بھی ہیں تو مجھے سکون ملا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں اور اسی چیز کو مدِ نظر رکھ کر پروازوں کو چلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔‘ کپتان مقصود بجرانی نے بتایا کہ ’ہولڈنگ پوزیشن پر کھڑے ہوئے مجھے صرف یہ خدشہ تھا کہ چونکہ ہمیں اجازت نہیں مل رہی کہیں ہمارا رن وے پر راستہ نہ روک لیں اگر انھیں لگے کہ ہم ان کی اجازت کے بغیر پرواز کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جو بھی ہو اب ہم پرواز ہی کریں گے۔ واپس نہیں جائیں گے۔‘ فرسٹ آفیسر سجاد کے مطابق جیسے ہی طیارے نے پرواز کی تو انھیں فضا میں درجنوں طیارے اور ہیلی کاپٹر نظر آئے اور یہ ایک اضافی چیلنج تھا جس کے لیے ان کو اپنے آلات کی مدد اور نظر کا استعمال کر کے پرواز کرنی تھی جیسا کہ پرانے زمانے میں کی جاتی تھی مگر موسم کا صاف ہونا مددگار رہا اور یوں یہ ڈرامائی پرواز اسلام آباد واپس پہنچی۔
/urdu/regional-58309124
امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات کے بارے میں کہا جاتے ہے یہ ایک ’خاص رشتہ‘ ہے لیکن اس رشتے کی حقیقت کیا ہے وہ امریکہ کے رویے سے عیاں ہے اور برطانیہ کے ہاتھ صرف شرمندگی ہی آتی ہے۔
امریکہ کی تاریخ کے اس انتہائی سنجیدہ لمحے میں بھی حاضرین میں سے ایک شخص کی بہت تعریف کی گئی اور اس کے لیے تالیاں بھی بجائی گئیں اور وہ شخص تھے، اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر۔ ٹونی بلیئر امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ’خاص رشتے‘ پر کامل یقین رکھتے تھے۔ بالکل۔۔۔ وہ چودہ سال پہلے وزیر اعظم تھے اور اب وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر وہ آج وزیر اعظم ہوتے تو انھوں نے کبھی بھی اخبارات میں اشاعت کے لیے ایسی رائے کا اظہار کرنے کی جرات نہیں کی ہوتی۔ اس کا قطعی کوئی امکان نہیں تھا۔ خاص یا خصوصی رشتے اِس طرح نہیں چلتے۔ لیکن میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ بورس جانسن اس طرح کی بات کرنے کے لیے بے قرار ہوں گے۔ یہاں میں بورس جانسن سے کوئی نرمی نہیں برت رہا اور نہ ہی میں ان کی طرف سے وضاحتیں پیش کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت پر مبنی ایک بیان ہے، ’خاص رشتے‘ پر جب بات عملی اقدام کی آتی ہے یا جب امریکہ کو کسی بات پر پریشانی ہوتی ہے تو یہ خاص رشتہ اتنا خاص نہیں رہتا۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر فیصلہ کیا یا جو بائیڈن نے یہ یک طرفہ فیصلہ کیا ہے، جو بھی ہے مگر امریکی انتظامیہ کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ برطانیہ اس پر کیا سوچتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق جو بائیڈن کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ خفیہ ادارے اور فوج کی اعلیٰ قیادت کن خدشات کا اظہار کرتے ہیں یا لندن کی طرف سے کن خطرات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ وہ نکلنا چاہتے تھے۔ جتنا مجھے علم ہے برطانوی شاہی حکومت کی طرف سے بہت شدت سے ان خطرات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن واشنگٹن میں ان پر کسی نے کان نہیں دھرا اور ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ برطانیہ اعتدال پسندی اور دانشمندی سے کام لینے کا کہہ سکتا ہے لیکن جیسا کہ برطانیہ کے آئین کے تحت لوگوں کے ووٹ سے وجود میں آنے والے دارالعوام اور غیر منتخب نامزد لوگوں پر مشتمل دارالعمرا کے پیچیدہ تعلقات ہیں بالکل اسی طرح سے طاقتور امریکہ اور اس سے کہیں کمزور برطانیہ کے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ سنہ 1941 میں طے پانے والا 'لینڈ لیز ایکٹ' مکمل طور پر امریکہ کے مفاد میں تھا جب چرچل نے امریکی جنگی جہازوں کو خریدنے کے لیے بھاری قیمت ادا کی تھی۔ اس کے بعد نہر سویز بحران کے وقت امریکہ نے برطانیہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے فرانس اور اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر جو حملہ کیا ہے اسے نہ روکا تو وہ اسے دیوالیہ کر دے گا۔
/urdu/world-45047634
دنیا میں ایسا ملک بھی ہے جہاں وقت پر پہنچنا غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو پارٹی میں بلایا جائے اور اگر آپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہو سکتا ہے کہ میزبان تیار نہ ہو۔
بچپن سے ہی ہم سب کو وقت کی پابندی کا سبق سکھایا جاتا ہے کہ اگر کسی کو وقت دو تو اسے پورا کرو، ہر کام وقت پر پورا کرو اور اگر کہیں جانا ہو تو وقت پر پہنچو۔ لیکن ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں وقت پر پہنچنا غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو پارٹی میں بلایا جائے اور اگر آپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہو سکتا ہے کہ میزبان تیار نہ ہو۔ برازیل لاطینی امریکہ میں واحد ایسا ملک ہے جہاں پرتگالی زبان بولی جاتی ہے اور جہاں وقت کے بارے میں لوگوں کا جو رویہ ہے وہ پوری دنیا کے برعکس حیران کر دینے والا ہے۔ مجھے آج بھی جب وہ دن یاد آتا ہے تو بہت خفت محسوس ہوتی ہے۔ عادت کے مطابق میں دیے گئے وقت پر اپنی میزبان کے گھر پہنچ گئی اس نے گھبرا کر دروازہ کھولا اس وقت وہ باتھ روم میں تھی ایک بار تو مجھے لگا کہ میں غلط پتے پر پہنچ گئی ہوں۔ جنوبی برازیل کی ٹیکنو کالج فیڈرل یونیورسٹی کی لیکچرار ڈاکٹر جیکلین بون کہتی ہیں کہ 'کسی بھی پارٹی میں وقت پر پہنچنا برازیل میں برا مانا جاتا ہے'۔ ریو میں تو خاصں طور پر اسے سماجی روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ فیونا کہتی ہیں کہ یہاں غیر تحریری اصول ہے کہ میزبان پارٹی کے طے شدہ وقت کہ بعد پارٹی کے لیے تیار ہونا شروع کر دیتےہیں۔ لیٹ لطیفی تو پرتگالی زبان میں بھی جھلکتی ہے جس میں دیر یا تاخیر سے متعلق الفاظ تو ہیں لیکن وقت کی پابندی سے متعلق الفاظ نہیں ہیں۔ برازیل کے لوگوں کا یہ رویہ نیا نہیں ہے پیٹر فلیمنگ نے 1933 میں اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر کوئی جلد باز ہے تو برازیل میں اس کا برا حال ہو جائے گا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ وہاں دیر ہونا ایک ماحول ہے اور آپ اسی ماحول میں رہتے ہیں اور اپ اس کا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کی زندگی ہی آرام طلب ہے۔ لیکن ریو کے لوگوں نے بھی لیٹ لطیف ہونے کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ آپ کے اوپر وقت پر پہنچنے کا دباؤ نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ کتنی بھی دیر سے پہنچیں۔ فیونا کا کہنا ہے کہ 'ایک بار میں پارٹی میں اتنی دیر سے پہنچی کے بار ہی بند ہو گیا تو زیادہ دیر کرنا بھی ٹھیک نہیں۔ فرانسس موریک کہتی ہیں کہ کاروباری میٹنگوں میں لوگ وقت پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی ایسی میٹنگوں میں بھی آدھے گھنٹے تک کی دیر ہو ہی جاتی ہے اور اس تاخیر کو برداشت کیا جاتا ہے۔
/urdu/world-52997464
انڈیا اور چین کے سرحدی تنازع پر امریکی ثالثی کی پیشکش کو چین نے مسترد کر دیا جس کے بعد چینی میڈیا نے کہا کہ انڈیا کو امریکہ کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے بجائے چین کے لیے گرم جوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔
چین کے سرکاری میڈیا نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ انڈیا اور چین کی سرحد پر جاری کشیدگی کو ختم کرنے کی دونوں ممالک خود صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے لیے امریکہ کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔ اس درمیان چین کے شمال مغرب کے دور دراز علاقوں میں چینی فوجیوں کی جنگی مشقوں کی خبریں میڈیا میں لگاتار شائع ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی وزارت خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک بغیر امریکی ثالثی کے اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔ دراصل ژاوٴ لیجیان نے یہ بیان ایسے وقت دیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈین وزیر اعظم مودی کو چین کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ ٹرمپ نے اس سے قبل بھی 27 مئی کو ٹوئٹر پر انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ گلوبل ٹائمز نے کئی ماہرین کا موقف بھی شائع کیا ہے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انڈیا اور چین کی حکومتوں نے کس طرح سرحد پر کشیدگی اور دخل اندازی کی امریکی کوشش کو اہمیت دینے سے خود کو دور رکھا ہے۔ گلوبل ٹائمز میں پانچ جون کو اداریے میں لکھا گیا کہ 'انڈیا کو دشمن بنانے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن چین اپنی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا۔ انڈیا اگر حکمت عملی میں کوئی غلطی کرتا ہے اور چین کی زمین چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو چین اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ چین سخت جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہوگا۔ چین نے انڈیا کی جانب دوستانہ انداز واضح کر دیا ہے۔ انڈیا کو امریکہ کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے بجائے چین کے لیے گرم جوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔' اس کے بعد نو جون کو پی ایل اے ڈیلی اخبار نے بتایا کہ ایک پی ایل اے پیرا ٹروپر بریگیڈ نے ایک جون کو شمال مغربی چین میں ایک نامعلوم ریگستانی مقام پر دشمن کے ٹھکانوں پر چھاپا مارا۔ ساتھ ہی جنگی مشقوں کا انعقاد بھی کیا گیا۔ 2017 میں متنازع ڈوکلام علاقے پر انڈیا کے ساتھ اسی طرح کے سرحدی کشیدگی کے دوران، چین کے سرکاری میڈیا نے پی ایل اے کی ایک فوٹیج دکھائی تھی جس میں فوجیوں کو تبت کے میدان مُرتفع پر ایک 'پی ایل سی زیرو تھری ہووتزر' کا ٹیسٹ کرتے دکھایا گیا تھا۔ بیجنگ میں مقیم فوجی امور کے ماہر ژووٴ چینمنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ 2017 میں ویڈیو فوٹیج اور اس ہفتے انڈین فوج کو متنبہ کرنے کے لیے پی ایل سی کی جانب سے کی جانے والی مشقوں کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ ان کا مقصد انڈین فوج کے ساتھ جنگ چھیڑنا تھا۔
/urdu/world-60694435
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد وہاں سے ہزاروں انڈین طلبا کو نکال کر پولینڈ اور رومانیہ پہنچانے والی ایک انڈین سماجی تنظیم کے مطابق ایسا کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے اور ان سے فی طالبعلم 250 سے 500 ڈالر تک کرائے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یوکرین میں روسی مداخلت اور فوجی پیش قدمی کے دوران سماجی تنظیم ایس او ایس انڈیا نے وہاں سے ہزاروں طلبا کو نکالنا چاہا تو ان کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ جنگ زدہ علاقوں سے پولینڈ اور رومانیہ کی سرحد تک ٹرانسپورٹ کا تھا۔ ان کے مطابق یوکرین میں بس ڈرائیور اور نجی گاڑیوں کے مالکان فی طالبعلم 250 سے 500 ڈالر تک کرایہ لے رہے تھے۔ معظم خان کے مطابق یوکرین میں بہت سے طلبا انھیں جانتے ہیں۔ ’جب تنازع شروع ہوا تو اس رات یہاں گولہ باری ہو رہی تھی اور ہر طرف سائرن بج رہے تھے۔۔۔ ان طلبا نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ کسی طرح ہمیں یہاں سے نکال کر بارڈر تک لے جائیں۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے پاکستانی، انڈین، عرب اور افریقیوں سمیت مختلف قوموں کے تقریباً 3000 سے 3500 طلبا کو جنگ زدہ علاقوں سے نکال کر سرحد تک پہنچایا ہے جن میں زیادہ انڈینز تھے کیونکہ معظم کے مطابق وہاں کی یونیورسٹیوں میں 70 فیصد انڈین شہری زیرِ تعلیم ہیں۔ معظم خان بتاتے ہیں کہ جب سب طلبا لیویو سے نکال لیے گئے اور ایک بندہ پیچھے رہ گیا تو انھوں نے کئی بس کمپنیوں اور ٹیکسیوں کو کال کی کہ ’ہمارا بندہ پیچھے رہ گیا ہے۔ براہِ مہربانی اسے بارڈر تک پہنچا دیں۔۔۔ مگر کوئی نہ مانا۔۔۔ کوئی مجھ سے 250 ڈالر مانگ رہا تھا اور کوئی 500 ڈالر سے کم پر بات نہیں کر رہا تھا۔ معظم نے مجھے وہ ویڈیوز اور پیغامات بھی دکھائے جو انڈین طلبا نے انھیں بھیجے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایک انڈین طالب علم سبھم شرما بتا رہے ہیں کہ کیسے جب ان کی یونیورسٹی انتظامیہ اور سفارت خانے نے یہ کہہ کر مدد سے ہاتھ اٹھا لیا کہ ’ہم کچھ نہیں کر سکتے، اپنے طور پر سرحد تک پہنچیں‘ تو انھوں نے خان بھائی کو کال کی اور وہ ان کی مدد کو آئے اور اب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رومانیہ پہنچ چکے ہیں ہیں۔ معظم بتاتے ہیں کہ اب تک یوکرین سے تقریباً 90 فیصد غیر ملکی طلبا نکال لیے گئے ہیں۔ اور انھوں نے سرحد تک پہنچانے کے علاوہ کئی پاکستانی اور انڈین خاندانوں کو فلیٹس وغیرہ میں رکھنے کا انتظام بھی کیا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تو اِدھر اُدھر جہاں سے مدد مانگی جائے، جانا پڑتا ہے۔ رات کو بھی میں لیویو میں تھا کیونکہ وہاں ایک ہاکستانی کی فیملی نے پہنچنا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ بندہ خود نہیں تھا۔ لہذا مجھے جا کر انھیں ریسیو کر کے انتظامات کرنے تھے۔‘
/urdu/pakistan-50363528
اگر رام جی آج موجود ہوتے تو شاید عدالت کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیتے۔ رام چندر جی جیسا شخص کیسے فقط اس لیے کروڑوں انسانوں کی جان خطرے میں ڈالتا کہ ایک مسجد کے نیچے مبینہ طور پہ ان کا جنم استھان تھا؟
آج ایک عام پاکستانی مہنگائی، بے روزگاری اور آلودگی سے اس بری طرح متاثر ہے کہ سنہ 1992 کی طرح کوئی سڑکوں پہ نہیں نکلا۔ کشمیر کے لیے بھی ایک مرا مرا سا احتجاج کر کے سب اپنی اپنی روزی روٹی کی فکر میں لگ گئے۔ عہد وسطی کے بعد دور جدید میں ایک ان لکھے معاہدے کے تحت تمام عبادت گاہوں میں جس مذہب کی عبادت جاری تھی وہی جاری رہی، ظاہر ہے وہ حملہ آوروں کا مذہب ہی تھا۔ بابری مسجد کا فیصلہ عجیب فیصلہ ہے۔ خیر عدالتوں کے فیصلے عجیب ہی ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان کو یہ باور کرایا گیا کہ کرتار پور تمہارا ذاتی معاملہ تھا اور بابری مسجد ہمارا ذاتی مسئلہ؟ ہم تمہاری اس خیر سگالی کو غریب رشتے دار کے تحفے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے یا اس کے پیچھے اس جذبے کو ہوا دینے کی مصلحت کارفرما تھی کہ دائیں بازو کے لوگ کہیں کہ ہم تو ان کے لیے مذہبی زیارتوں کے راستے کھولیں اور وہ ہمارے مذہبی مقامات کو مسمار کریں؟ انڈیا کے مسلمان پہلے ہی روز بروز ایک پسی ہوئی اقلیت بنتے جا رہے ہیں۔ کشمیر میں اٹھائے گئے حالیہ اقدامات اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت پاکستان کے لیے جو مسئلے اٹھائے گی سو اٹھائے گی مگر انڈیا کے لیے یہ انتہا پسندی کے ایک افسوسناک دور کا آ غاز ہے۔ یہ ایک طرح کی اجتماعی بے حسی ہے شاید یا پھر خطے کی سیاست نئی کروٹ لینے والی ہے۔ انڈیا کی تقسیم کے پیچھے ایک بہت بڑا خوف سپین میں مسلمانوں کا انجام بھی تھا۔ ہم نے جس دور میں آنکھ کھولی، اس میں یہ بات مذاق ہی لگتی تھی کہ بھلا انڈیا جیسی مضبوط اور سیکولر جمہوریت میں ایسا ممکن ہے؟ مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا میں مودی کی صورت ملکہ ازابیل کا نیا جنم ہوا۔ کئی نسلوں کا خوف، تشخص کے مٹ جانے کی فکر آج پھر منھ پھاڑ ے کھڑی ہے۔ جو ہونے والا ہے، وہ اچھا نہیں ہے۔ یوں ہی اک خیال سا آتا ہے کہ اگر رام جی آج موجود ہوتے تو شاید عدالت کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیتے۔ رام چندر جی جیسا شخص کیسے فقط اس لیے کروڑوں انسانوں کی جان خطرے میں ڈالتا کہ ایک مسجد کے نیچے مبینہ طور پہ ان کا جنم استھان تھا؟ بھگوان کا اوتار ہونا اتنا آسان نہیں، انسان سے پیار کرنا پڑتا ہے اور اوتار کا بھگت ہونا بھی آسان نہیں، دشمن سے بھی پیار کرنا پڑتا ہے بغل میں چھری، منھ میں رام رام سے کام نہیں چلتا۔ یوں تو ہم نے آج تک جو چال چلی وہ ایسی تھی کہ پلٹ کے اپنے ہی منھ پہ آئی لیکن اس بد قماری کے باوجود کرتار پور راہداری کھولنا حُکم کا اکا پھینکنے جیسا ہے۔
/urdu/pakistan-51511116
کسی حادثے، بیماری، یا ذہنی دباؤ کی صورت میں یادداشت کی کمزوری ہی صرف ڈیمنشیا نہیں بلکہ یہ یادداشت کے علاوہ کئی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بتدریج کمزوری کا نام ہے۔
کسی حادثے، بیماری، یا ذہنی دباؤ کی صورت میں یاداشت کی کمزوری ڈیمنشیا نہیں بلکہ یہ یاداشت کے علاوہ کئی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بتدریج کمزوری کا نام ہے الزائمرز اور اس کے تحت ڈیمنشیا کو بالعموم بھول جانے کی بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن یہ اس قدر سادہ بھی نہیں ہے۔ کسی حادثے، بیماری، یا ذہنی دباؤ کی صورت میں یاداشت کی کمزوری ڈیمنشیا نہیں بلکہ یہ یاداشت کے علاوہ کئی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بتدریج کمزوری کا نام ہے۔ جن میں توجہ اوردھیان نہ دے پانا، جسم اور ذہن کی ہم آہنگی کم ہونا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی سبھی شامل ہیں۔ الزائمرز پاکستان کے سیکرٹری ڈاکٹر حسین جعفری نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان میں ڈیمنشیا کے اعداد و شمار کے لیے کوئی رجسٹری قائم نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق پانچ سے دس لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر حسین جعفری کے مطابق ڈیمنشیا سے متاثرہ شخص کی دیکھ بھال کرنے والے افراد زیادہ بڑی مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے چوبیس گھنٹے ایسے مریض کے لیے وقف ہوں تو ہی ان کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں دیکھ بھال کرنے والے افراد کی اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کاؤنسلنگ درکار ہے۔ اہلخانہ کو متاثرہ فرد کے جسمانی مسائل میں مدد کے علاوہ ان کا چڑ چڑا پن، غصہ، جھنجھلاہٹ بھی برداشت کرنا ہوتا ہے اور یہ سب آسان نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور گھریلو خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھیں جن کے گھر میں ان کے شوہر کے بڑے بھائی ڈیمنشیا کے مریض ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریض کا غصہ اور چڑچڑاپن بہت بڑھ گیا ہے اور وہ خود اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ دی گلوبل وائس آن ڈیمنشیا نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کا خطرہ مردوں سے زیادہ ہے۔ اور ان میں ظاہر ہونے والی علامات کی نوعیت بھی شدید ہے۔ گھر کے کام کاج اور بچوں کی زمہ داری کے ساتھ گھریلو خاتون کو اگر ڈیمنشیا کے کسی مریض کی دیکھ بھال بھی کرنا ہو تو اس کی اپنی ذہنی صحت کئی خطرات سے دوچار ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمرز، ڈیمنشیا سے بچاؤ کا کوئی مخصوص اور ثابت شدہ طریقہ کار نہیں ہے۔ اس مرض کی تشخیص بھی اتنی سیدھی سادی نہیں ہے۔ علامات کئی سال کے عرصے تک دھیرے دھیرے ظاہر ہوتی ہیں اور زور پکڑتی ہیں۔ ان کی والدہ کے علاوہ ان کے ماموں بھی اس مرض میں مبتلا رہ چکے ہیں۔ خاندان میں بیماری کی اس بہتات کے بعد وہ اور ان کی اہلیہ خود بھی بڑھاپے کی دہلیز پر یہ خدشہ محسوس کر تے ہیں کہ یاداشت ان کا ساتھ چھوڑ سکتی ہے۔
/urdu/regional-61303772
انڈیا میں 40 فیصد سے زیادہ خواتین اور 38 فیصد سے زیادہ مرد کہتے ہیں کہ شوہروں کے ہاتھوں بیویوں کی مار پیٹ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
بحیثیت مجموعی اس جائزے میں حصہ لینے والی 40 فیصد خواتین اور 38 فیصد مردوں نے سروے کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو بتایا کہ اگر کوئی بیوی اپنے سسرال والوں کی بے عزتی کرتی ہے، گھر یا بچوں کو نظر انداز کرتی ہے، شوہر کو بتائے بغیر باہر نکل جاتی ہے، ہم بستری سے انکار کرتی ہے یا کھانا ٹھیک نہیں پکاتی اور اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جن ریاستوں میں یہ سروے کیا گیا، ان میں سے اکثر میں مردوں کی نسبت زیادہ خواتین نے بیویوں پر تشدد کو جائز قرار دیا اور ماسوائے ریاست کرناٹکا کے تمام ریاستوں میں مردوں کی نسبت زیادہ خواتین کا کہنا تھا کہ اگر بیوی اچھا کھانا نہیں پکاتی اور شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ انڈیا میں برطانوی غیر سرکاری تنظیم آکسفیم کی سربراہ امریتا پِتری کہتی ہیں کہ اگرچہ اس سروے میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اعدادوشمار میں کمی آئی لیکن لوگوں کے رویے تبدیل نہیں ہوئے۔ اس سے پچھلے سال 52 فیصد خواتین اور 42 فیصد مردوں نے بیویوں پر تشدد کو جائز قرار دیا تھا۔ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین بیویوں پر تشدد کو جائز کیوں سمجھتی ہیں، امریتا کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ’صنفی رویوں کا تعین پدرسری روایات کرتی ہیں اور خواتین بھی ایسے ہی رویے اپنا لیتی پیں اور ان کے خیالات بھی معاشرے اور خاندان کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔‘ ’ایسے واقعات کی شکایات اور ان کا اندراج ایک مشکل کام ہے۔ اکثر لوگ اب بھی یہی کہتے ہیں کہ ’گھر کی بات گھر میں رہنی چاہیے‘ چنانچہ خواتین کے پولیس کے پاس جانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔‘ ’اکثر والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹی گھر واپس آ جائے کیونکہ انھیں بدنامی کا خوف ہوتا ہے۔ اکثر اوقات چونکہ ماں باپ خود غریب ہوتے ہیں، ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ بیٹی کو بھی کھلا سکیں۔ ایسی خواتین کی مدد کے لیے کوئی نظام نہیں، پناہ گاہیں بہت کم ہیں اور بے گھر ہو جانے والی عورتوں کو خیرات سے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ صرف 500 روپے سے 1500 روپے تک اور اتنے پیسوں میں بچوں کو تو چھوڑیں اکیلی عورت بھی گزارہ نہیں کر سکتی۔‘ ’ان دونوں واقعات میں شوہروں نے اپنی بیویوں کو پڑوسیوں کے سامنے مارا پیٹا اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ دونوں شوہروں کا الزام تھا کہ ان کی بیویاں کھانا ٹھیک نہیں پکاتیں لیکن یہ بہانہ شکایتوں کے انبار میں ہمیشہ شامل ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ کچھ بھی ہو اور گھریلو تشدد کی وجہ کچھ بھی ہو، شکایات کی تان اکثر کھانے پر ہی ٹوٹتی ہے۔‘
/urdu/sport-52185238
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کی طرح وقار یونس بھی وہاب ریاض اور محمد عامر کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کے فیصلے پر خاصے برہم دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ فاسٹ بولرز وہاب ریاض اور محمد عامر نے آسٹریلوی دورے سے پہلے اچانک ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کر کے پاکستان کو نقصان پہنچایا اور ایسا کر کے یہ دونوں پاکستانی ٹیم کو مشکل میں چھوڑ گئے تھے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کی طرح وقار یونس بھی وہاب ریاض اور محمد عامر کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کے فیصلے پر خاصے برہم دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاب ریاض اور محمد عامر کو اگر ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنی تھی تو انھیں کرکٹ بورڈ سے باقاعدہ بات کرنی چاہیے تھی۔ یہ دونوں ٹیم کو مشکل میں چھوڑ گئے تھےاور ان کی اس حرکت سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے کہ محمد عامر نے آسٹریلیا کے دورے کے بعد سری لنکا کے خلاف ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز کی ٹیم میں منتخب نہ ہونے پر طنزیہ ٹوئٹ کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں ٹیسٹ نہ کھیلنے کے فیصلے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ ٹوئٹ انھوں نے بعد میں ڈیلیٹ کردی تھی۔ وقار یونس نے سڈنی سے ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹ اور خصوصاً کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔ ’کھلاڑی فیصلہ کرنے سے پہلے بورڈ کو اعتماد میں لے اور اچانک فیصلہ نہ کرے جیسا کہ وہاب ریاض اور محمد عامر نے کیا۔ ان دونوں کا آسٹریلوی دورے سے پہلے اچانک ٹیسٹ چھوڑنے کا فیصلہ ایک بڑا جھٹکا تھا۔‘ وقار یونس کہتے ہیں کہ انھوں نے ہیڈ کوچ مصباح الحق کے ساتھ یہ منصوبہ بندی بنا رکھی تھی کہ بنگلہ دیش کی سیریز کے بعد ہمارے پاس جو بھی وقت ہے اس میں ہم انگلینڈ کے دورے کی بھرپور تیاری کریں گے۔ ’ہمارے لیے انگلینڈ کا دورہ بہت اہم تھا کیونکہ پچھلے دو دوروں کے دوران پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی ہے اور ہم چاہتے تھے کہ اس بار بھی اچھی کارکردگی دکھائیں کیونکہ انگلینڈ میں اچھی کارکردگی سے کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور ان میں غیرمعمولی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی ٹیم انگلینڈ کا دورہ نہ کر سکی تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔‘ وقار یونس کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اصل کھیل ٹیسٹ کرکٹ ہے اور ٹیسٹ میچ بولرز جتواتے ہیں۔ وقار یونس کا کہنا ہے کہ کرکٹ کو کپتان چلاتا ہے جبکہ کوچ اس کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے مصباح الحق سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ وقار یونس کا کہنا ہے کہ اس بار ہیڈ کوچ کے بجائے بولنگ کوچ کا عہدہ انھوں نے اس لیے سنبھالا ہے کہ وہ نوجوان فاسٹ بولرز کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ جونیئر بولرز کے ساتھ بھی کام کریں گے اور اپنے اوپر تنقید کا کسی کو بھی موقع نہیں دیں گے۔
/urdu/science-49903501
علیحدہ ہونے والے برفانی تودے کو ’ڈی 28‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا رقبہ 1636 مربع کلومیٹر، موٹائی 210 میٹر جبکہ یہ تقریباً 315 بلین ٹن برف پر مشتمل ہے۔
گذشتہ 50 برسوں میں اس برفانی خطے سے علیحدہ ہونے والا یہ سب سے بڑا برفانی تودہ ہے جس کا سائز لگ بھگ پاکستان کے شہر لاہور جتنا ہے۔ اس تودے کا رقبہ 1636 مربع کلومیٹر ہے اور اسے ڈی 28 کا نام دیا گیا ہے۔ اس تودے کا سائز بڑا ہونے کی وجہ سے اس پر نظر رکھی جائے گی کیونکہ مستقبل میں یہ جہاز رانی کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل سے ایمری آئس شیلف سے اتنا بڑا برفانی تودہ علیحدہ نہیں ہوا ہے۔ ایمری آئس شیلف نامی برفانی خطے کا رقبہ 9000 مربع کلومیٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس برفانی خطے سے برفانی تودہ علیحدہ ہونے جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ توجہ اس خطے کے مشرقی علاقوں پر مرکوز کی گئی جو کہ اب ٹوٹ کر علیحدہ ہو چکا ہے۔ اس عرفیت کی وجہ یہ ہے کہ سیٹلائیٹ تصاویر میں یہ کسی چھوٹے بچے کے دانت کی طرح نظر آتا ہے جو ٹوٹنے کے قریب ہو۔ان دونوں برفانی علاقے کا رفٹ سسٹم ایک ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں اتنے برسوں کے بعد برفانی تودے کو برفانی خطے سے علیحدہ ہونے کا عمل دیکھنے جا رہی ہوں۔ ہمیں معلوم تھا آخر کار ایسا ہو گا، تاہم یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں ہم نے توقع کی تھی۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کا موسمیاتی تبدیلی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ نوے کی دہائی سے موصول ہونے والے سیٹلائیٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ ایمری برفانی خطہ اپنے قرب و جوار کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے ہے اس بات سے قطع نظر کہ گرمیوں میں اس کی سطح بہت زیادہ پگھلتی ہے۔ آسٹریلین انٹارکٹک ڈویژن ایمری خطے پر یہ جاننے کے لیے نگاہ رکھے گی کہ آیا اس عمل کا کوئی ردِعمل تو نہیں گا۔ اس ڈویژن کے سائنسدانوں نے اس خطے میں آلات نصب کر رکھے ہیں۔ یہ ممکن ہے اتنے بڑے برفانی تودے کا علیحدہ ہونا اس برفانی خطے کے سامنے کی سطحی شکل کو بدل دے گا۔ اور یہ دراڑوں کے رویے اور یہاں تک 'لوز ٹوتھ' کے استحکام پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ڈی 28 نامی اس نئے برفانی تودے کی موٹائی 210 میٹر ہے جبکہ اس میں 315 بلین ٹن برف ہے۔ اس تودے کو یہ نام امریکی نیشنل آئس سینٹر کی جانب سے کی گئی درجہ بندی کے تحت دیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی کے تحت انٹارکٹیکا کو مختلف حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ ساحلی کرنٹ اور ہوائیں ڈی 28 کو مغرب کی جانب دھکیلیں گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تودے کو ٹوٹنے اور مکمل طور پر پگھلنے میں بہت سے سال لگیں گے۔
/urdu/science-48850441
ٹک ٹاک پر مداح اپنی پسندیدہ ویڈیو بنانے والے کو ’ڈیجیٹل گفٹ‘ بھیج سکتے ہیں جس کا خرچ تقریباً 49 پاؤنڈ تک ہے اور اس کے بدلے انفلوئنسرز مداحوں سے اپنا فون نمبر شیئر کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بعض بچوں اور نوجوانوں پر ایپ کے ذریعے اپنے پسندیدہ انفلوئنسرز کو پیسے بھیجنے کا دباؤ تھا۔ ٹک ٹاک مداحوں کو اپنی پسندیدہ ویڈیو بنانے والوں کو ’ڈیجیٹل گفٹ‘ بھیجنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جس میں تقریباً 49 پاؤنڈ کے اخراجات آ سکتے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ انفلوئنسرز تحفے کے بدلے میں مداحوں سے اپنا فون نمبر شیئر کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کلیئر (اصل نام نہیں) نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں اس بات کا افسوس ہے کہ انھیں اپنے پسندیدہ ٹک ٹاک سٹار کا فون نمبر حاصل کرنے کے لیے 100 پاؤنڈ خرچ کرنے پڑے اور اس نے کبھی بھی ان کے فون کا جواب نہیں دیا۔ کلیئر 12 سال کی ہیں اور وہ شمال مغربی انگلینڈ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے ٹک ٹاک سٹار سیبسٹیئن موے کو 48.99 پاؤنڈ کا ’ڈرامہ کوئن‘ تحفہ ارسال کیا تاکہ ان کی ویڈیو کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر سکیں۔ ٹک ٹاک سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والی سوشل میڈیا ایپ ہے اور اس کے 50 کروڑ مستقل صارف ہیں لیکن کمپنی اپنے صارفین کی تعداد نہیں بتاتی ہے۔ تاہم اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایپ سٹورس پر اسے ایک ارب سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ اس ایپ کے تحت صارف 15 سیکنڈ تک کے ویڈیو ڈال سکتے ہیں۔ یہ تازہ ترین ٹرینڈ کرنے والے گیتوں پر نوجوانوں کو گانے (لپ سنکنگ) اور رقص کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ جن ویڈیو میکرز کے ایک ہزار سے زیادہ فالوورز ہوتے ہیں وہ ٹک ٹاک کے پلیٹ فارم پر براہ راست نشریات بھی کر سکتے ہیں۔ براہ راست نشریات کے دوران مداح اپنی پسندیدگی کے اظہار کے لیے انھیں ڈیجیٹل تحفے بھیج سکتے ہیں۔ اس کے بدلے میں انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے بدلے میں انھیں سوشل میڈیا پر فالو کریں گے یا پھر ان کے ساتھ مل کر گانا بنائيں گے جس کے تحت ٹک ٹاک کے سپلٹ سکرین پر سٹار کے ساتھ اس کے مداح کا ویڈیو بھی شامل ہو سکتا ہے۔ بعض ویڈیو بنانے والے مستقل طور پر تحائف کے بدلے میں اپنا فون نمبر اور میسیج کرنے کی تفصیلات شیئر کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ 49 پاؤنڈ قیمت کے ’ڈرامہ کوئن‘ تحفے کے بدلے وہ اپنے مداح کو فالو کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور اگر ان کے مداح انھیں زیادہ تحفے بھیجیں تو ان کے نام وہ اپنے سر پر لکھنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم پر دوسرے اہم ویڈیو بنانے والوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور یہ کہ ان کو تحفے بھیجنے والے زیادہ تر افراد تقریباً 30 سال تک کی عمر کے ہیں۔
/urdu/regional-57172915
دریائے گنگا میں اور اس کے کنارے پڑی ہوئی لاشیں اموات کی اس تعداد کی کہانی سنا رہی ہیں جو سرکاری اعداوشمار میں نظر نہیں آ رہی۔ شمشان گھاٹوں میں 24 گھنٹے چتائیں جلائی جا رہی ہیں اور انھیں جلانے کے لیے جگہ بھی کم پڑ گئی ہے۔
گذشتہ چند دنوں سے انڈیا کا ’سب سے مقدس دریا‘ لاشوں سے بھرا ہوا ہے۔ دریائے گنگا میں مختلف مقامات پر سینکڑوں لاشیں یا تو تیر رہی ہیں یا اس دریا کے کنارے پر ریت میں دبی ہوئی ہیں۔ جس علاقے میں یہ میتیں موجود ہیں وہ ملک کی شمالی ریاست اُتر پردیش میں ہے اور قریبی علاقوں میں رہنے والوں کو خدشہ ہے کہ یہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ہیں۔ گنگا میں اور اس کے کنارے پڑی لاشیں اموات کی اس تعداد کی کہانی سُنا رہی ہیں جو سرکاری اعدادوشمار میں نظر نہیں آ رہی۔ شمشان گھاٹوں میں 24 گھنٹے چتائیں جلائی جا رہی ہیں اور انھیں جلانے کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔ اخبار ہندوستان کے مطابق پولیس اب تک 62 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ کناوج، کانپور، اناو اور پریاگراج میں دریا کے کنارے پر ہر طرف قبریں نظر آ رہی ہیں جو بہت کم گہری ہیں۔ کناوج میں مہندی گھاٹ سے جو ویڈیوز بی بی سی کو بھیجی گئی ہیں ان میں انسانی جسم کے سائز کے مٹی کے ٹیلے جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر ٹیلے نے ایک انسانی جسم چھپا رکھا ہے۔ قریب ہی ماہا دیوی گھاٹ پر بھی 50 لاشیں ملی ہیں۔ کئی غریب لوگ لاش کو جلانا مالی طور پر برداشت نہیں کر سکتے لہذا وہ لاش کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر دریا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی لاش کے ساتھ پتھر باندھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ پانی میں ڈوبی رہے۔ عام طور پر بھی کبھی کبھی گنگا میں تیرتی ہوئی کوئی لاش دکھائی دینا کوئی انھونی بات نہیں تاہم اتنے کم وقت میں اتنی زیادہ تعداد میں اور اتنی زیادہ جگہوں پر دریا میں لاشیں ملنا ایک غیر معمولی بات ضرور ہے۔ ’ایک بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں پر بھی ہلاک ہو رہے ہیں اور ایسے لوگوں کے ٹیسٹ بھی نہیں ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کے رشتے دار ان لاشوں کو شہر کے مضافات یا قریب ہی واقع اناو جیسے دوسرے ڈسٹرکٹ لے جا رہے ہیں۔ جب انھیں لکڑیاں یا جگہ نہیں ملتی تو وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کو دریا کے کنارے دفنا دیتے ہیں۔‘ کئی علاقوں میں پولیس ڈنڈوں کی مدد سے تیرتی ہوئی لاشوں کو کنارے پر لانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کشتی بانوں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں تاکہ لاشوں کو کنارے ہر لا کر یا تو دفنا دیا جائے یا جلا دیا جائے۔ غازی پور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ منگلا پرساد سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس دریا اور شمشان گھاٹوں کی نگرانی کے لیے گشت کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو لاشیں دریا میں پھینکنے یا کنارے پر دفنانے سے روکا جائے لیکن ان کی ٹیم کو ہر روز دریا میں ایک یا دو لاشیں مل رہی ہیں۔
/urdu/pakistan-57893757
’میں نے فیصلہ کیا کہ اگر لوگوں کے بارے میں سوچوں گی تو آگے نہیں بڑھ سکوں گی پھر میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا کہ 'لوگ کیا کہیں گے'، اب میں اپنے دل کی بات سُنتی ہوں اور دل سے کام کرتی ہوں۔‘
’میں نے فیصلہ کیا کہ اگر لوگوں کے بارے میں سوچوں گی تو آگے نہیں بڑھ سکوں گی پھر میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا کہ 'لوگ کیا کہیں گے'، اب میں اپنے دل کی بات سُنتی ہوں اور دل سے کام کرتی ہوں۔‘ جانوروں کی ڈاکٹر سحرش پیرزادہ کا تعلق سندھ کے ضلع نوشہروفیروز سے ہے اور وہ دیہی سندھ کی اُن چند لیڈی وٹرنری ڈاکٹروں میں سے ہیں جو فیلڈ میں کام کر رہیں ہیں۔ ڈاکٹر سحرش کا ماننا ہے کہ وہ دیہی سندھ کی واحد فعال لیڈی وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ سحرش بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ابتدا میں وہ بھی گھر بیٹھ گئیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر انھوں نے باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو لوگ اُن پر ہنسیں گے۔ مگر وہ بتاتی ہیں کہ یہ وقت تھا کہ اُن کے گھر والوں نے ان کی ہمت افزائی کی اور کہا کہ ’سرکاری ملازمت نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، تم کام جاری رکھو۔‘ ’ابتدائی دنوں میں لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ پہلے تو یہ سمجھتے تھے کہ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں، جب انھیں معلوم ہوتا تھا کہ میں جانوروں کی ڈاکٹر ہے، تو وہ ہنستے اور حیران بھی ہوتے۔ لوگوں کی باتیں سُن کی دل برداشتہ ہو کر میں دوبارہ گھر بیٹھ گئی۔ پھر سوچا کہ آگے بڑھنا ہے تو لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرنا ہی پڑے گا۔‘ ڈاکٹر سحرش پیرزادہ کے مطابق جب کوئی مرد ڈاکٹر جاتا ہے تو بعض اوقات جانور غصے میں آ جاتے ہیں اور وہ اپنے معائنے کی اجازت نہیں دیتے مگر اگر کوئی لیڈی ڈاکٹر جائے تو جانور اتنا تنگ نہیں کرتے کیونکہ یہ جانور خواتین سے مانوس ہوتے ہیں۔ ’عموماً ہوتا ایسا ہے کہ خواتین جانوروں کے مسائل اپنے گھر کے مردوں کو بتاتی ہیں اور پھر مرد یہ مسئلہ ڈاکٹر کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے کچھ مسائل رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی خاتون ڈاکٹر گھر جائے تو خواتین سارے مسائل کھول کر بتا دیتی ہیں جس سے علاج میں آسانی رہتی ہے۔‘ سحرش پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اُن کی پرائیوٹ پریکٹس تو جاری ہے لیکن اگر سرکاری ملازمت ہو تو زندگی میں غیر یقینی کی صورتحال نہیں ہوتی۔ ’دوسرا یہ بھی ہے کہ اگر سرکاری ڈاکٹر نہ ہو تو لوگ یقین ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی ڈاکٹر ہے۔‘ ڈاکٹر سحرش پیرزداہ کو اپنے بھائیوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کے بھائیوں کی خواہش ہے کہ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوں اور لائیو اسٹاک اس کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ ’میں صرف جانوروں کا علاج ہی نہیں کرتی بلکہ خواتین کو شعور اور آگاہی بھی فراہم کرتی ہوں کہ جانوروں کا خیال کیسے رکھا جائے، انھیں کون سی فیڈ کھلائی جائے اور بیماریوں سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔‘
/urdu/world-60575435
سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یوکرین دنیا کا تیسرا بڑا جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک تھا لیکن اب وہ اس حالت میں ہے کہ اپنے دفاع کرنے کے بھی قابل نظر نہیں آتا۔
لیکن گذشتہ دہائیوں میں یوکرین کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ وہ دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت سے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس پر اس کے ہمسایہ ملک نے حملہ کرنے کا خطرہ مول لیا۔ اس وقت یوکرین کی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ ملک نے 1991 میں آزادی حاصل کی اور سویت دور کے بعد وہ بین الاقوامی سطح پر شناخت کی تلاش کے لیے کوشاں تھا۔ زیلنسکی نے 19 فروری کو ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’یوکرین کو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کو چھوڑنے کے بعد سکیورٹی کی ضمانتیں ملی تھیں، ہمارے پاس اب یہ ہتھیار نہیں ہیں، لیکن ہمارے پاس سکیورٹی بھی نہیں ہے۔‘ یوکرین کی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہونے والے سابق فوجی کمانڈر وولوڈیمیر تولوبکو نے سنہ 1992 میں مقننہ کے ایک اجلاس میں دلیل دی تھی کہ یوکرین کو سلامتی کے وعدے کے بدلے میں مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا خیال ’رومانوی اور قبل از وقت‘ تھا۔ تازہ ترین روسی حملے کے ساتھ، یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی ہے، حکومتی عہدیداروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو روس کی جانب سے ہونے والی دراندازی کو یوکرین روک سکتا تھا۔ ان کے مطابق جو ممالک جوہری ہتھیار رکھتے ہیں اُن کے لیے کم خطرات ہوتے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ واقعی جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو ایک گارنٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور حملے کی دھمکی کی صورت میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔ ’ان خیالات کے حامی اکثر اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے سرد جنگ کی مثال استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان کبھی بھی براہ راست تنازع نہیں ہوا تھا اور وہ دھمکیوں سے باز نہیں آئے تھے۔‘ محقق کا کہنا ہے کہ ’یوکرین میں یہ ہتھیار موجود ضرور تھے لیکن ان کا عملی کنٹرول یوکرین کے پاس نہیں تھا۔‘ یونیورسٹی آف لیسٹر (برطانیہ) میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر اینڈریو فوٹر بھی بتاتے ہیں کہ یوکرین میں ہتھیار رکھنے کا مطلب مستقبل کے خطرات تھے۔ فوٹر کے مطابق اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ماسکو یوکرین کے خلاف اپنے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ’مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ماسکو یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرے گا۔ نہ صرف اس لیے کہ اس کی سرحد کے قریب کوئی بھی تابکار مواد پھیل سکتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ شاید ملک اور یوکرین کی آبادی کو تباہ نہیں کرنا چاہتے، جیسا کہ لگتا ہے کہ ان کا منصوبہ اس علاقے کو روس میں شامل کرنا ہے۔‘
/urdu/regional-54134969
پہلوان نوید افکاری کی پھانسی کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر ایرانی حکومت سے بہت اپیلیں کی گئیں تھی جن میں عالمی سطح پر 85 ہزار اتھلیٹس کی نمائندگی کرنے والی ایک یونین بھی شامل تھی۔
ایران نے قتل کے الزام میں سزائے موت کاٹ رہے اپنے ایک عالمی شہرت یافتہ پہلوان نوید افکاری کو پھانسی دے دی ہے۔ جبکہ اس ریسلر کی سزا میں کمی اور انھیں پھانسی نہ دینے کے حوالے سے بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے رحم کی اپیلیں بھی کی گئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کی گئی ایک لیک ریکارڈنگ میں افکاری کہتے ہیں کہ 'اگر مجھے پھانسی دے دی گئی تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو علم ہو کہ ایک بے گناہ شخص جو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے پوری طاقت سے لڑا اور کوشش کی کو پھانسی دی گئی ہے۔' حسن یونس نے ٹوئٹر پر یہ کہا کہ 'کیا تم لوگ نوید کو پھانسی دینے کی اتنی عجلت میں تھے کہ تم لوگوں نے نوید کو اہلخانہ سے آخری ملاقات سے بھی محروم رکھا؟' پہلوان نوید افکاری کی پھانسی کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر ایرانی حکومت سے بہت اپیلیں کی گئیں تھی جن میں عالمی سطح پر 85 ہزار اتھلیٹس کی نمائندگی کرنے والی ایک یونین بھی شامل تھی۔ ورلڈ پلیرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ انھیں مظاہروں میں حصہ لینے پر'غیر منصافانہ طور پر نشانہ بنایا گیا' اور اگر ایران نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد کیا تو دنیا کے کھیلوں سے ایران کو نکال دیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نوید افکاری کی پھانسی کی سزا کے متعلق رحم کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریسلر نوید افکاری کا جرم صرف حکومت مخلاف مظاہروں میں شامل ہونا تھا۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے نوید افکاری کو پھانسی دیے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے 'انتہائی افسوس ناک خبر قرار دیا ہے' اور کہا ہے کہ اس وقت میں ان کے دوستوں اور اہلخانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق نوید افکاری کے بھائی واحد اور حبیب کو بھی اس مقدمے میں 54 برس اور 27 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق نوید افکاری کے بھائی واحد اور حبیب کو بھی اس مقدمے میں 54 برس اور 27 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس جیل سے لیک ہونے والی ایک آڈیو میں جہاں نوید افکاری کو قید کیا گیا تھا افکاری کا کہنا تھا کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹوں کو ایک دوسرے کے خلاف گواہی دینے پر جبری طور پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان کے وکیل کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ 'ایرنی خبروں کے برعکس اس وقت سیکورٹی گارڈ کو ہلاک کرنے کی کوئی ویڈیو موجود نہیں تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جس فوٹیج کو بطور ثبوت اس مقدمے میں پیش کیا گیا تھا وہ اس واقعے سے ایک گھنٹہ قبل کی تھی۔ تاہم ایرانی حکام نے نوید افکاری پر تشدد کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
/urdu/pakistan-52406455
کورونا وائرس کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کچھ اضافی احتیاط کرنی پڑ رہی ہیں۔ تہمینہ قریشی بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنھوں نے بی بی سی سے اپنی ڈائری شیئر کی ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کے مکین خطرے کی زد میں ہیں لیکن اس صورتحال میں کچھ اضافی احتیاط ان خواتین کو کرنی پڑ رہی ہے جو ماں بننے والی ہیں۔ تہمینہ قریشی بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنھوں نے بی بی سی سے اپنی ڈائری شیئر کی ہے۔ میرے پہلے بچے کی پیدائش اگلے ہفتے متوقع ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ میری ہائی رسک پریگنینسی ہے یعنی سی سیکشن ہو گا۔ اس صورتحال کی وجہ سے مجھے عام حاملہ خواتین کی نسبتاً زیادہ مرتبہ تقریباً یعنی ہر دوسرے ہفتے ہی ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرے گھر کے پاس قریب چند علاقے سیل ہیں۔ مجھے باہر نکلتے وقت راستوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ کس جانب زیادہ ناکے ہیں تاکہ اس طرف سے نہ جائیں کیونکہ اس کی وجہ سے چیکنگ میں مزید وقت لگتا ہے اور یوں اضافی وقت گھر سے باہر وبا کے خطرے میں گزرنے میں لگتا ہے۔ اب ہسپتالوں کے شعبہ بیرونی مریضاں میں رش کم ہو گیا ہے اور ٹیلی کلینک کا آغاز ہوا ہے۔ بلکہ ایک بار میرا چیک اپ بھی آن لائن ہی ہوا تھا۔ اب چیک اپ کے لیے ہسپتال آنے سے پہلے فون پر بھی طبعیت اور جسمانی حالت پوچھی جاتی ہے تاکہ جتنا کم ہو سکے ہستپال میں حاملہ خواتین کو بلایا جائے۔ ڈاکٹرز اب ہر حاملہ خاتون کو ہسپتال نہیں بلاتیں بلکہ میرے جیسے مریضوں کو بلا رہی ہیں جن کی حمل میں پیچیدگیاں ہیں یا پھر ان کے بچے کی ولادت کا وقت قریب ہے۔ شاید بھوکا رہنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اب گھر آ کر مجھے تھکن اتارنے میں دگنا وقت لگتا ہے۔ اپنے فون اور اپنی عینک کو سینیٹائزر سے صاف کرتی ہوں ماسک اور دستانے اتارنا، کپڑے بدلنا انھیں دھونا اور خود نہانا یہ گھر میں داخل ہوتے ساتھ فوری طور پر کیے جانے والے کام ہیں۔ تھوڑی سی چیزیں ہی خرید پائے تھے لیکن اب احساس ہو رہا ہے کہ بہت سی چیزیں جو ضروری ہیں وہ ہم میاں بیوی نہیں لے پائے۔ میں نے آن لائن خریداری کی کوشش کی ہے۔ ابھی میں انتظار کر رہی ہوں کہ ایک ہفتے میں مجھے یہ چیزیں مل جائیں۔ لیکن اگر کہیں چیزیں مل بھی رہی ہیں تو مسئلہ ڈیلیوری سروس کا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بچے کی ولادت عام حالات میں نہیں ہو رہی۔ یہ تو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سی سیکشن ہوگا لیکن اب سماجی دوسری کی وجہ سے مجھے اندازہ ہے کہ نہ تو ہسپتال میں مجھے اور میرے بچے کو دیکھنے کوئی آ سکے گا اور نہ ہی میرے گھر آنے کے بعد فوری طور پر عزیز و اقارب مٹھائی کھانے آ پائیں گے یا پھر کوئی رسم ہو پائے گی۔
/urdu/pakistan-61217695
کراچی سے دس دن قبل لاپتہ ہونے والی لڑکی دعا زہرا کے معاملے نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے اور اب صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ دعا اور ان کا شوہر ہونے کے دعویدار لڑکا ان کی تحویل میں ہیں۔
کراچی سے دس دن قبل لاپتہ ہونے والی لڑکی دعا زہرا کے معاملے نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے اور اب صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ دعا اور ان کا شوہر ہونے کے دعویدار لڑکا ان کی تحویل میں ہیں۔ اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر فیصل گلزار کے مطابق دعا اور اُن کے مبینہ شوہر اس وقت تھانہ حویلی لکھا پولیس کی تحویل میں ہیں۔ ڈی پی او کا کہنا تھا دعا زہرا نے اپنے اہلخانہ کے خلاف لاہور میں ہراسانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے اور اسی لیے انھیں ابھی کراچی پولیس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ ادھر لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دعا زہرا اور ظہیر کو ڈی پی او آفس اوکاڑہ سے لاہور پولیس کی ٹیم کی حفاظت میں لاہور لایا جا رہا ہے جبکہ اس حوالے سے کراچی پولیس کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے اور آئی جی کی ہدایات کے مطابق کراچی پولیس سے تعاون کیا جا رہا ہے۔ ڈی پی او اوکاڑہ فیصل گلزار کے مطابق دعا نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے۔ اس بیان میں دعا کا موقف ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آئی تھیں اور انھوں نے ظہیر نامی لڑکے سے کورٹ میرج کی ہے۔ پولیس کی جانب سے ریلیز کی گئی ویڈیو میں دعا بتا رہی ہیں کہ ان کے والدین زبردستی ان کی شادی کسی اور سے کروانا چاہ رہے تھے جس پر وہ راضی نہیں تھیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر سے آئی ہیں۔ لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق دعا زہرا اور ان کے شوہر کو ڈی پی او آفس اوکاڑہ سے لاہور پولیس کی ٹیم کی حفاظت میں لاہور لایا جا رہا ہے اُس وقت سندھ پولیس کے اعلیٰ افسر ڈپٹی انسپکٹر جنرل کریمنل انویسٹی گیشن ایجنسی کریم خان نے بی بی سی اُردو کو بتایا تھا کہ دعا زہرا اپنی مرضی سے گئی تھیں، انھیں اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ دعا کاظمی کو لاہور سے تلاش کر لیا گیا ہے اور تاحال وہ لاہور پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہیں اور جلد انھیں کراچی پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ ادارہے کے سربراہ ظفر عباس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس شب وہ لوگوں کو سحری کرانے کے بعد بیٹھے تھے کہ دعا زہرا کے والد سید مہدی علی کاظمی، ان کی والدہ اور خالہ آئیں اور بتایا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہے لیکن پولیس ان کی نہیں سن رہی اور کہہ رہی ہے کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسے میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پولیس کا عدم تعاون ہے بلکہ ’یہ ایک فطری عمل ہے کہ ایسے کیسز میں فیملی اور والدین تو یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ جلد از جلد واپس آئے لیکن پولیس اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
/urdu/pakistan-56734167
صوبے میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تعینات صوبائی محتسب نے فیصلے میں کہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف جنسی ہراسانی بلکہ طالبہ کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم رکوانے کے لیے بھی کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے۔
صوبے میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تعینات صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے اس مقدمے کی سماعت کی جس میں انھوں نے دونوں جانب سے دلائل سنے اور تمام متعلقہ افراد کے بیانات قلم بند کیے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف جنسی ہراسانی بلکہ طالبہ کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم رکوانے کے لیے بھی کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے۔ صوبائی محتسب کے 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ہراسانی کی شکار طالبہ کا مؤقف بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ طالبہ کی بہن نے بھی ای میل پر تفصیل بیان کی تھی جس پر محتسب نے انھیں باقاعدہ درخواست میں تفصیل لکھنے کا حکم دیا تھا۔ محتسب کی کارروائی میں یونیورسٹی کی جانب سے چیف پراکٹر ڈاکٹر فہیم کا بیان بھی قلم بند کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ مذکورہ طالبہ کے خلاف کسی قسم کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تاہم انھوں نے یہ کہا تھا کہ ’طالبہ کا رویہ قدرے بچکانہ ہے۔‘ یونیورسٹی انتظامیہ اور جن پروفیسر کے خلاف شکایات سامنے آئی تھیں انھیں بھی طلب کیا گیا تھا۔ متعلقہ پروفیسر نے اپنے دفاع میں خیبر پختونخوا کے محتسب کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھائے اور ان تمام الزامات کی ترید کی۔ اس کے علاوہ محتسب کے فیصلے میں ان خواتین اساتذہ کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے ہیں جو اس شعبہ میں پروفیسر کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان اساتذہ نے کہا ہے کہ انھیں متعلقہ پروفیسر کے ساتھ کام کرنے میں کبھی کوئی دشواری یا مشکل پیش نہیں آئی تاہم ایک خاتون نے کہا کہ ’کبھی کبھار پروفیسر کا غصہ بڑھ جاتا ہے جس سے مشکل ضرور ہوتی ہے‘۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں گذشتہ سال طلبا اور طالبات نے جنسی ہراسانی کے خلاف مظاہرہ اور ایک آگاہی واک کی تھی جس کے بعد یہ معاملہ ابھر کر سامنے آیا تھا۔ اس مظاہرے کو ذرائع ابلاغ میں کوریج ملی اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث شروع ہو گئی تھی۔ ان انکوائریوں کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے تھے کہ اس دوران ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ مظاہرے میں شامل بعض طلبا و طالبات نے ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبائی محتسب کو درخواست دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک طالبہ نے بتایا کہ انھوں نے باقاعدہ شکایت یونیورسٹی انتظامیہ کو درج کروا دی ہے جس کے بعد انھوں نے اس بارے میں یونیورسٹی انتطامیہ سے کہا کہ انکوائری غیر جانبداری سے کروائی جائے۔ جابر خان نے بتایا کہ انکوائری کے دوران انھیں یونیورسٹی کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں رہا جس وجہ سے انھوں نے صوبائی محتسب کو درخواست دی تاکہ اس کی انکوائری غیر جانبدارانہ ہو سکے۔
/urdu/pakistan-58676609
ن لیگ کو ش کے ہاتھ جانے سے روکنے اور بیانیوں کی جنگ میں بٹی ن کو بچانے کے لیے نواز شریف کو واپسی کا فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ ن میں تیزی سے سرایت کرتی ’ش‘ کے مقابلے میں شدید تحفظات رکھنے والی ایک اور ’ش‘ کب منظر عام پر آتی ہے۔
اس ہفتے کا آغاز شہباز شریف کے لیے اچھی خبر سے ہوا۔ لگتا ہے شہباز شریف کے ستارے اپنی چال بدل رہے ہیں۔ لندن کی عدالت نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بےقصور ثابت کر دیا ہے۔ یہ انہونی ہے یا ہونی اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ شہباز شریف اور سلمان شہباز بےگُناہ ہیں البتہ شہزاد اکبر نے ان تفصیلات کو مُسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ شہباز شریف اور سلیمان شہباز کی مبینہ بریت کی خبر درست نہیں اور یہ کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے خود فنڈز منجمد کیے تھے اور خود ہی اُن پر مزید کوئی تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر خاندانی مقابلے میں شہباز شریف کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا اور نتیجتاً شہباز شریف روٹھ گئے۔ منانے کے لیے بڑے میاں صاحب کیا جتن کریں گے اس کا فیصلہ شاید جلد ہو جائے تاہم گذشتہ چند اہم اجلاسوں سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی غیرحاضری نے ایک صاف اور واضح پیغام دے دیا ہے۔ اُدھر اُن کی جماعت کے چند سینیئرز نے بھی ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ کا مشورہ دیا ہے۔ شہباز شریف کے ستاروں کی اُڑان اُس وقت اونچی ہوئی جب اُن کی سربراہی میں کنٹونمنٹ انتخابات میں کامیابی اور ’کام کو ووٹ دو‘ کا نعرہ اپنا کام دکھا گیا۔ غیر سیاسی نعروں سے پرہیز نے کنٹونمنٹ انتخابات میں ’غیرجانبداری‘ پر مہر ثبت کر دی یوں یقین دہانی کرائی گئی کہ اگلے انتخابات ’شفاف‘ کروائے جائیں گے۔ بہرحال کون جیتا ہے تیری زُلف کے سر ہونے تک۔ بیانیے کی عملی جنگ میں بھی شہباز شریف اگلے محاذ پر ہیں اور مفاہمت کے ساتھ ساتھ مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ راہ و رسم بھی ٹھیک ہے اور پارلیمانی سیاست میں ہم آہنگی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں جو انتخابات سے قبل یا بعد میں ’قومی حکومت‘ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ شہباز شریف کی ’اُڑان‘ اب اُسی وقت رُک سکتی ہے اگر نواز شریف وطن واپس آ گئے ورنہ پاکستان میں موجود ن لیگ ’ش‘ کے ہاتھ تقریباً جا چکی ہے۔ ن لیگ کو ش کے ہاتھ جانے سے روکنے اور بیانیوں کی جنگ میں بٹی ن کو بچانے کے لیے نواز شریف کو واپسی کا فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ ن میں تیزی سے سرایت کرتی ’ش‘ کے مقابلے میں شدید تحفظات رکھنے والی ایک اور ’ش‘ کب منظر عام پر آتی ہے۔
/urdu/regional-56961189
55 سالہ غلام حضرت کا تعلق زرمت شہر سے ہے اور وہ پکتیا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جمعے کو وہ داخلہ امتحان دینے گئے تو اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں مکمل امید ہے کہ ان کا داخلہ ہو جائے گا۔
لیکن پھر اچانک غلام حضرت بتاتے ہیں کہ ان کی عمر 55 برس ہے اور وہ یونیورسٹی میں خود اپنے داخلے کے لیے آئے ہیں۔ افغانستان کے صوبہ پکتیا میں اس لمحے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تو معلوم ہوا کہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے عمر کی قید سے بالاتر ہو کر ایک بزرگ نے کئی دہائیوں بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ٹھانی ہے۔ غلام حضرت کا تعلق زرمت شہر کے مدھیاوال گاؤں سے ہے اور وہ پکتیا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جمعے کو وہ داخلہ امتحان دینے گئے تو اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں مکمل امید ہے کہ ان کا داخلہ ہو جائے گا۔ داخلہ امتحان کے روز غلام حضرت اپنی نیند پوری نہیں کر سکے تھے اور انھیں ڈر تھا کہ کہیں وہ لیٹ نہ ہو جائیں غلام حضرت نے بی اے تو پشتو، دری لٹریچر اور انگریزی کے مضامین میں کیا تھا لیکن اس کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ انھوں نے پکتیا سے بی بی سی اردو کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ خوش ہیں کہ ان کا داخلہ یونیورسٹی میں ہو جائے گا۔ اس داخلہ امتحان کے لیے وہ سفر کر کے اپنے گاؤں سے شہر آئے اور یہاں کسی قریبی عزیز کے گھر میں رُکے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے وہ اپنی نیند بھی مکمل نہ کر پائے۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں داخلہ امتحان کے لیے تاخیر نہ ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ امتحان کے دوران ادارے کے سربراہ اور دیگر متحمن ان سے ملنے آئے۔ وہ بہت خوش تھے اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں کہ یہ ان کے لیے فخر کی بات ہے کہ وہ داخلہ لینے پہنچے ہیں۔ غلام حضرت کے مطابق ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا اس سال قبل پکتیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا ہے جبکہ دوسرا بیٹا کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ان کے داخلہ لینے کی خواہش پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور وہ ’سب کو بتا رہی تھیں کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھنے جائیں گے۔‘ غلام حضرت ایک سکول میں بطور استاد بھی کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس سے فائدہ ہو گا اور ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں صرف غلام حضرت ہی نہیں بلکہ اس طرح کے لاکھوں افراد ہیں جو تعلیم کی پیاس بجھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اگر وہ خود تعلیم حاصل نہیں کر سکے تو اپنے بچوں کو یہ تعلیم دینے کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی تعلیمی اداروں پر شدت پسندوں کے حملے بھی ہو چکے ہیں۔ مگر اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم کا سلسلہ وقتی طور پر رُک تو سکتا ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یقیناً علم کے حصول کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔
/urdu/pakistan-57824116
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سیکٹر ای الیون کے ایک فلیٹ میں لڑکی اور لڑکے کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے کیس میں ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سیکٹر ای الیون کے ایک فلیٹ میں لڑکی اور لڑکے کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے کیس میں ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی ہے کہ اس کیس میں ملزمان کے کردار کا الگ الگ تعین کیا جائے۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے لڑکی اور لڑکے کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے جرم میں مرکزی ملزم عثمان ابرار، حافظ عطاالرحمن، فرحان اور ادارس قیوم بٹ کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر آج جوڈیشل مجسٹریٹ وقار حسین گوندل کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزمان کی پیشی کے دوران سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ویڈیو بنانے والے موبائل فون سمیت دو موبائل برآمد ہو چکے ہیں۔ اسلحہ بھی برآمد کیا جا چکا ہے جبکہ لڑکے اور لڑکی کے دفعہ 164 کے بیانات بھی قلمبند کیے جا چکے ہیں۔ تفتیشی افسر کے مطابق دونوں لڑکا اور لڑکی نے مزید ملزمان کا انکشاف کیا ہے اور بتایا ہے کہ ملزمان نے لڑکی کو برہنہ کر کے ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو بنائی۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ لڑکی کو برہنہ کر کے زیادتی کروانے کی کوشش کی گئی۔ مقدمے میں بھتہ لینے کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے تاہم ویڈیو وائرل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرنا ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب ملزمان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ کب کا واقعہ ہے پولیس کو بھی علم نہیں اور ویڈیو کے معاملات کے لیے پولیس سائبر کرائم سیل کیوں نہیں جا رہی؟ جس نے بھی ویڈیو وائرل کی اس کو بھی گرفتار کیا جائے۔ معاملے میں تشدد کا نشانہ بننے والے جوڑے کی جانب سے وکیل حسن جاوید شورش عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ سائبر کرائم سیل کی طرف نہیں جائے گا اور ابھی تو فلیٹ کے معاملہ کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔ عدالت کے استفسار پر حسن جاوید شورش نے بتایا کہ انھیں لڑکے اور لڑکی نے وکیل مقرر کیا ہے اور سیکورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’اس کیس میں پوری سوسائٹی ڈسٹرب ہوئی ہے، ہر شہری خوف میں مبتلا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کیس ہے اس کو مثال بنانا چاہیے۔ ویڈیو برآمدگی، لیپ ٹاپ اور دیگر چیزیں برآمد کرنا ہیں لہذا ملزمان کو زیادہ سے زیادہ ریمانڈ دیا جائے۔‘ متاثرہ جوڑے کے وکیل نے کہا کہ یہ واقعہ کئی ماہ پرانا ہے جبکہ جو وقوعہ دو تین دن پرانا ہو اس کی تفتیش کیلئے بھی وقت درکار ہوتا ہے لہذا ملزمان کا زیادہ سے زیادہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کے سات دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے ملزمان کو مزید چار روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
/urdu/world-55680685
برطانیہ میں ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر فیک نیوز (جعلی خبروں) کی وجہ سے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی برادریوں کے کچھ افراد کووڈ ویکسین کو مسترد کر سکتے ہیں۔
برطانیہ میں ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر فیک نیوز (جعلی خبروں) کی وجہ سے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی برادریوں کے بعض افراد کووڈ 19 کی ویکسین کو مسترد کر سکتے ہیں۔ برطانیہ کے قومی صحت کے ادارے این ایچ ایس اینٹی ڈس انفارمیشن مہم کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر ہرپریت سود نے کہا کہ یہ ’بہت بڑی تشویش‘ ہے اور حکام ’اتنی جعلی خبروں کو درست کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ غلط معلومات میں زبان اور ثقافتی رکاوٹوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ویسٹ مڈلینڈ میں ایک جی پی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے جنوبی ایشیائی مریضوں میں سے کچھ نے ویکسین لینے سے انکار کر دیا تھا۔ این ایچ ایس انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سود نے کہا کہ حکام جنوبی ایشین کمیونیٹیز کے رول ماڈل اور برادری کے رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ اس ویکسین کے بارے میں غلط افواہوں کی نشاندہی کریں۔ ڈاکٹر سمارا افضل انگلینڈ کے وسطی علاقے کے ایک شہر ڈڈلی میں لوگوں کوویکسینیشن دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم تمام مریضوں کو فون کر کے ان کو ٹیکے لگوا رہے ہیں لیکن سٹاف کا کہنا ہے کہ ساؤتھ ایشین مریض انکار کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے دوستوں سے اور خاندان میں بھی اسی قسم کی باتیں سنی ہیں۔ ’میرے دوستوں نے مجھے فون کیا تھا کہ میں ان کے والدین یا ان کے دادا دادی کو بھی ویکسینیشن لینے پر راضی کروں۔‘ رینا پُجارا انگلینڈ کے شہر ہیمپشائر میں بیوٹی تھیراپسٹ اور ایک باعمل ہندو خاتون ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے ان پر کسی نے غلط معلومات کی بمباری کر دی ہو۔ انھوں نے کہا کہ 'کچھ ویڈیوز خاصی پریشان کن ہیں خاص طور پر جب آپ دیکھتے ہو کہ اطلاع دینے والا شخص ایک ڈاکٹر ہے اور آپ کو بتا رہا ہے کہ ویکسین آپ کے ڈی این اے میں تبدیلی لائے گی۔' 'ایک عام آدمی کے لیے یہ بہت الجھا ہوا مسئلہ ہوتا ہے اور خاص کر جب آپ یہ بھی پڑھتے ہیں کہ ویکسین میں شامل اجزا گائے سے نکلالے گئے ہیں اور ہندوؤں کی حیثیت سے ہمارے لیے گائے مقدس ہے۔۔۔یہ پریشان کن ہے۔‘ دریں اثنا ایک سو کے قریب مساجد نے ویکسین کے خلاف ہونے والے گمراہ کن پراپیگنڈا کے رجحان کی روک تھام کے لیے ایک مہم میں شمولیت اختیار کی ہے اور اپنی برادریوں کو بھی ویکسین لینے پر راضی کیا ہے۔ رائل سوسائٹی آف پبلک ہیلتھ کے ذریعے جاری کردہ ایک حالیہ سروے میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ نصف سے زیادہ سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی نسلی (بی اے ایم ای) افراد کورونا وائرس کی ویکسین لینے پر خوش ہوں گے۔
/urdu/pakistan-61172504
تحریکِ انصاف سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والی پہلی جماعت تھی اور ایک دہائی بعد بھی دوسری جماعتیں بظاہر سوشل میڈیا پر اتنی غالب نہیں ہیں۔
اگرچہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں سنہ 2013 کے انتخابات کے پہلے سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ ناصرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بسے ہزاروں پاکستانیوں تک پہنچانے کا کام شروع کیا اور اب بھی یہ اس کام میں دوسری جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ تحریکِ انصاف سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والی پہلی جماعت تھی تو آج تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی باقی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے اتنی پیچھے کیوں ہیں اور کیا پی ٹی آئی اس مرتبہ سوشل میڈیا پر کامیابی کو ووٹوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریکِ انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا کو انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کرتی ہے ’پاکستان کے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے اور دوسری جماعتوں کا پی ٹی آئی سے مقابلہ تو دور کوئی موازنہ تک نہیں بنتا۔‘ حجا کامران، میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے ساتھ بطور ڈیجیٹل رائٹس لیڈ منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا بہت دیر سے آیا مگر وہ آیا ہی پی ٹی آئی کی وجہ سے تھا۔ اُن کے مطابق یہ وہ پہلی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کے حوالے سے حجا کا کہنا ہے اس جماعت نے سنہ 2013 اور 2018 دونوں انتخابات میں نوجوانوں پر توجہ دی جو اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر گزارتے ہیں، حتیٰ کہ اس عمر کے نوجوانوں پر جن کی ابھی ووٹنگ کی عمر تک نہیں تھی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آگے چل کر یہی لوگ ان کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوں گے۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ وہ ’پرانی وضع کے سیاستدان ہیں اور وہ اپنے حلقوں اور اپنے اپنے اعتبار سے (اگرچہ انھیں نہیں کرنا چاہیے) سوشل میڈیا کے استعمال میں بے چینی محسوس کرتے ہیں، ان کا اپنا ایک روایتی انداز ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ہمارا معاشرہ اتنا تبدیل نہیں ہوا اور ہم اپنے طور پر مقابلہ کر لیں گے۔‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بظاہر عمران خان کی خواتین حامیوں کی تعداد بھی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نظر آتی ہے۔ حجا کامران اس کی وجہ عمران خان کی جماعت کی جانب سے نوجوانوں پر توجہ اور معلومات تک آسان رسائی کو قرار دیتی ہیں۔ یہ تو اب سبھی مانتے ہیں کہ صورتحال چاہے جیسی بھی ہوں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی حسِ مزاح کا کوئی مقابلہ نہیں اور تحریکِ انصاف کے اس سپیس کے بعد میمز بنانے والوں کو کافی مواد مل گیا ہے۔
/urdu/science-56443745
پاکستان میں سمارٹ فونز کی تیاری کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ کچھ نئے اسمبلی پلانٹس کے قیام سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ درآمد شدہ فونز کے مقابلے یہاں تیار کردہ فونز کی قیمتیں کم ہوں گی اور اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ درآمد شدہ فونز کے مقابلے یہاں تیار کردہ فونز کی قیمتیں کم ہوں گی اور اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سام سنگ اور ایپل کے موبائل فونز کی قیمتیں مسلسل بڑھنے کی بدولت صارفین کا رجحان سستی چینی سمارٹ فون کمپنیوں جیسے ویوو، اوپو اور شاؤمی کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ہواوے پر امریکی پابندیوں کے بعد اس کی فروخت متاثر ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر چین کے بعد انڈیا دوسری سب سے بڑی سمارٹ فون مارکیٹ ہے جہاں ایسے سستے موبائل فونز تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہاں سام سنگ، شاؤمی، اوپو، ویوو اور ون پلس کئی برسوں سے مقامی سطح پر سمارٹ فون اسمبلی انجام دے رہے ہیں۔ اور تو اور ایپل کا نیا آئی فون 12 بھی انڈیا میں تیار ہونے جا رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں جو سمارٹ فون 10 ہزار روپے کا مل رہا ہے، وہ حکومت کی جانب سے مقامی طور پر تیار کردہ فونز پر ٹیکس میں چھوٹ کے بعد 7500 روپے کا ملنا چاہیے۔ ’آنے والے وقتوں میں جیسے جیسے مقامی سطح پر سمارٹ فونز کی تیاری بڑھتی ہے اور پوری دنیا میں الیکٹرونکس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے، پاکستان میں بھی ان کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔۔۔ قیمت میں کمی 40 سے 50 فیصد بھی آسکتی ہے۔‘ زرتاش عزمی نے کہا کہ سمارٹ فونز کی تیاری کے موجودہ مرحلے میں بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ صرف پرزے جڑ رہے ہیں مگر یہ بات اس سے بڑھ کر ہے۔ ’اس طرح کی کوششوں سے اس سے منسلک صنعت ترقی پاتی ہے۔۔۔ کچھ برسوں بعد شاید ان موبائل فونز کی ایکسیسیریز پاکستان میں بننے لگیں گی جن میں چارجر، ہینڈز فریز اور بیٹریز کی صنعت سے پاکستان میں مواقع بڑھیں گے اور ہنر پیدا ہو گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ نئے پالیسی فریم ورک کے تحت آئندہ برسوں میں ان نئی کمپنیوں کے لیے لازم ہو گا کہ اسمبل ہونے والے فونز میں سے کم از کم کچھ کی ایکسیسیریز مقامی سطح پر تیار کریں۔ ملک میں چینی موبائل فونز کی اسمبلی کے بعد ان کمپنیوں کی ٹیسٹنگ اور آر اینڈ ڈی لیبارٹریز بن سکتی ہیں۔ زرتاش عزمی نے اس خیال کو رد کیا ہے کہ پاکستان میں ہنرمند انجینیئرز نہیں۔ ’میں آپ کو اپنے ایک طالبعلم کی مثال دے سکتا ہوں جو پاکستان میں یہاں الیکٹریکل انجینیئرنگ پڑھ رہا تھا مگر اسے موسیقی کا شوق تھا اور وہ ساؤنڈ انجینیئرنگ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ یہاں سے پڑھنے کے بعد اس نے امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں بوز کمپنی میں کام کرنے لگا جو دنیا بھر میں اپنے خاص ہیڈ فونز کے لیے مشہور ہے۔‘
/urdu/world-61595141
یوکرین سے اجناس کی برآمدات سے عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتیں کم رکھنے میں مدد ملی سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روس کے محاصرے کے بعد انھیں عالمی منڈیوں تک کیسے پہنچایا جائے۔
بین الاقوامی منڈی میں اجناس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انھوں نے ان فصلوں کا کچھ حصہ ذخیر کر لیا تاکہ اس کو بعد میں فروخت کر کے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اس کے بعد روس نے یوکرین پر چڑہائی کر دی۔ انھوں نے کہا کہ جب سے حملہ ہوا ہے وہ اپنی زرعی پیداوار کو فروخت نہیں کر پائے ہیں۔ زرعی اجناس کی قیمتیں جنگ سے قبل کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہیں۔ یوکرین اپنی حیثیت سے زیادہ اجناس برآمد کرتا ہے اور سورج مکھی کے تیل کی عالمی برآمدات میں اس کا حصہ 42 فیصد ہے، مکئی میں اس کا حصہ 16 فیصد ہے اور گندم میں نو فیصد ہے۔ اس سال کے آغاز میں دنیا کے بہت سی اشیاء خوردنی کی قیمتیں اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ رہی تھیں۔ بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ یوکرین کی فصلیں عالمی کمی کو پورا کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ جنگ سے پہلے، یوکرین کی 90% برآمدات بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے بھیجی جاتی تھیں، جہاں سے یہ طویل فاصلہ طے کرنے کے لیے بڑے بڑے ٹینکروں میں لوڈ کی جا سکتی ہیں ۔ چین یا انڈیا ۔ اور پھر بھی منافع بخش ہوتا ہیں۔ لیکن اب سب بند ہیں۔ روس نے یوکرین کی ساحلی پٹی کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور باقی کی ناکہ بندی کم از کم 20 جہازوں کے بیڑے کے ساتھ کر دی ہے، جن میں چار آبدوزیں بھی شامل ہیں۔ ملک سے باہر کا اہم راستہ اب ریل ہے۔ لیکن یوکرین کی ریل کی پٹریاں یورپی یونین سے زیادہ چوڑی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مال کو سرحد پر نئی ویگنوں میں منتقل کرنا پڑتا ہے۔ بروکریج، میکسیگرین کی یوکرائنی اناج کی تجزیہ کار ایلینا نیروبا کے مطابق اگرچہ خوراک کی کمی کے بارے میں عالمی بات چیت زیادہ تر گندم کے بارے میں ہے، لیکن اس وقت یوکرین سے نکلنے والا زیادہ تر اناج مکئی ہے۔ اور یہ دو وجوہات کی بناء پر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یوکرائن کے کسان گندم بیچنے میں ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہ ہولوڈومور کی یاد سے پریشان ہیں، جو 1932 میں سٹالن کی طرف سے پیدا کیا قحط تھا جس میں لاکھوں یوکرینی ہلاک ہو گئے تھے۔ دوسری طرف مکئی یوکرین میں اتنی زیادہ نہیں کھائی جاتی ہے۔ اس وقت گندم کی بہت سی فصلیں خاص طور پر خراب حالت میں ہیں۔ وسطی یورپ، امریکہ، بھارت، پاکستان اور شمالی افریقہ میں خشک موسم کا مطلب ہے کہ پیداوار کم ہے۔ اس کے برعکس یوکرین میں گندم کے لیے موسم اچھا رہا ہے۔
/urdu/world-57232818
اینا ڈوڈچ کے لیے کچھ بھی دوبارہ کبھی پہلے جیسا نہیں ہو گا کیونکہ ان کی بیٹی صوفیا سپیگا اس پرواز میں سفر کر رہی تھیں جس کا رخ زبردستی بیلاروس کے دارالحکومت منسک کی جانب موڑا گیا اور ان کی بیٹی اور اس کے بوائے فرینڈ صحافی رومن پروٹاوچ کو گرفتار کر لیا گیا۔
اینا ڈوڈچ کے لیے فی الحال کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہے کیونکہ ان کی بیٹی صوفیا سپیگا یونان سے لیوتھینا جانے والی اس پرواز میں سفر کر رہی تھیں جس کا رُخ زبردستی بیلاروس کے دارالحکومت منسک کی جانب موڑا گیا تھا۔ اتوار کو صوفیا سیپگا اور ان کے ساتھی اور منحرف صحافی رومن پروٹاوچ کو بیلاروس حکام نے منسک میں حراست میں لے لیا تھا۔ مغربی ممالک نے بیلاروس پر ہوائی جہاز کو ہائی جیک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ بیلا روس حکومت مخالف صحافی کو گرفتار کرنے کے لیے یہ غلط خبر جہاز کے عملے کو دی تھی کہ طیارے میں بم ہے اور جب طیارہ نزدیکی ایئرپورٹ اترا تو پتا چلا یہ سب کھیل صحافی کو گرفتار کرنے کے لیے رچایا گیا تھا۔ اینا (صوفیا کی والدہ) کو اپنی بیٹی کی جانب سے موصول ہونے والے آخری پیغام میں صرف ایک لفظ ’ماما‘ لکھا تھا، جس کے بعد صوفیا کا فون بند ہو گیا۔ اینا کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ میری بیٹی کو کیوں حراست میں لیا گیا، وہ ایک عام نوجوان عورت کی طرح بس اپنی زندگی گزار رہی ہے، پڑھ رہی ہے، بھرپور زندگی گزار رہی ہے اور وہ محبت کرتی ہے۔ کسی نے ان چیزوں پر پابندی نہیں لگائی۔ مجھے اس بارے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔‘ صوفیا سپیگا جن کا تعلق روس سے ہے وہ ولنس جا رہی تھیں جہاں انھیں یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے لیے ایک مقالہ پیش کرنا تھا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق اور آزادیوں کی پاسداری کی گارنٹی بیلاروس کے آئین میں دی گئی ہے۔ صوفیا سپیگا کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ صوفیا پر منسک میں مقدمہ چلائے جانے سے قبل دو ماہ کے لیے انھیں حراست میں رکھا گیا۔ روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ان پر فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اتوار کو صوفیا سیپگا اور ان کے ساتھی اور منحرف صحافی رومن پروٹاوچ کو بیلا روس کے حکام نے منسک میں حراست میں لے لیا صوفیا کے ایک ہم جماعت کے مطابق صوفیا نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بیلاروس میں گزارا اور وہ کبھی حزب اختلاف کی کارکن نہیں رہیں۔ صوفیا کی والدہ اینا نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ صوفیا لیتھوینا میں بیلاروس کے حزب اختلاف کے رہنما سولٹانا ٹکناوسکا کے لیے کام کر رہی تھیں۔ صوفیا کی والدہ اور ان کے بہت سے ہم جماعتوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اگست سنہ 2020 سے ولنس میں مقیم تھیں اور منسک میں صدر الیگزینڈر لکشچنکو کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے کے لیے بطور خاص نہیں گئیں تھیں۔ صوفیا کی والدہ کو کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو رومن پروٹاوچ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے گرفتار کیا گیا جو تقریباً چھ ماہ قبل شروع ہوا۔
/urdu/entertainment-51422510
حال ہی میں بالی وڈ ہیروئن سونم کپور نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے بہت سے اردو اشعار پوسٹ کیے، کئی مداح ان کے اس اقدام کی تعریف کرتے نظر آئے تو چند شکوہ کرتے۔
حال ہی میں بالی وڈ اداکارہ سونم کپور نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے ایک نہیں بلکہ متعدد اردو اشعار پوسٹ کر کے اپنے مداحوں کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ مرزا غالب سے لے کر امیر مینائی اور جگر مراد آبادی، بشیر بدر، اور مومن خان مومن سے لے کر فیض احمد فیض تک، سونم نے ان تمام مشہور شعرا کے اشعار اپنی خوبصورت تصاویر کے ساتھ شیئر کیے۔ اور جیسا کہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے مداحوں کو کبھی مکمل طور پر خوش نہیں رکھ سکتے، ایسا ہی کچھ سونم کے ساتھ بھی ہوا۔ بہت سے لوگ ان کی پوسٹوں پر سر دھنتے نظر آئے اور اس بات کی تعریف کی کہ انھوں نے اردو اشعار پوسٹ کیے مگر کچھ ایسے تھے جنھیں اشعار تو پسند آئے مگر ان کا گلہ یہ تھا کہ اردو زبان میں شعر ہی کیوں؟ ان کے مداحوں کی جانب سے کچھ اس طرح کے سوال پوچھے گئے کہ ’واقعی، کیا آپ کو اردو ٹائپنگ آتی ہے۔ اردو! خوبصورت سرپرائز۔ آپ کو اردو کس نے سکھائی۔‘ یاد رہے کہ چند دن قبل انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت کے متنازع بل کے خلاف ہونے والے مظاہرے پر ایک شخص کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے بعد سونم کپور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس واقعے کی مذمت کی تھی جس پر انھیں زبردست ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنی ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسا واقعہ ہے جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ انڈیا میں ہو گا۔ اس تفرقہ انگیز خطرناک سیاست کو بند کرو۔ یہ (سیاست) نفرت کو بڑھائے گی۔ اگر آپ خود کو ہندو مانتے ہیں تو سمجھ لیں کہ مذہب کرما اور دھرم کے بارے میں ہے اور یہ (واقعہ) ان میں سے کچھ بھی نہیں۔‘ اور اب ان کی جانب سے اردو شاعری پوسٹ کرنے کو بھی چند لوگوں کی جانب سے اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بی بی سی نے سونم کپور سے اس حوالے سے سوال کیا تو انھوں نے اپنے مختصر جواب میں کہا کہ ’یہ بالکل مناسب ہے۔ یہ شاعری ہے۔‘ انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی شاعری کو بھی وہاں کے نوجوان اس حوالے سے ہونے والے مظاہروں میں خوب بڑھ چڑھ کر پڑھتے ہیں۔ سونم نے فیض کی مشہور زمانہ غزل کا یہ شعر ’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا‘ بھی پوسٹ کیا۔ تاہم چند انڈین انسٹاگرام صارفین پر یہ اردو اشعار گراں گزرے۔ ایک صارف نے ان کی پوسٹ پر ردعمل میں لکھا کہ ’انڈیا کی سلیبرٹی ہونے کے ناطے ہندی میں لکھیے۔ تشہر کے لیے اوور ایکٹنگ مت کیجیے۔‘
/urdu/pakistan-57781084
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے گولڑہ میں پولیس نے خاتون پر تیزاب پھینکنے کے الزام میں اس کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ سسر کی تلاش جاری ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے گولڑہ میں پولیس نے خاتون پر تیزاب پھینکنے کے الزام میں اس کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ سسر کی تلاش جاری ہے۔ متاثرہ خاتون کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق تیزاب کی وجہ سے خاتون کی آنکھیں اور بازو متاثر ہوئے ہیں۔ تھانہ گولڑہ کے پولیس اہلکاروں نے متاثرہ خاتون کے شوہر شمائل کو گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کی شادی سات سال قبل اپنے کزن شمائل سے ہوئی تھی اور ان کے دو بچے ہیں۔ متاثرہ خاتون کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کی بہن نے کچھ عرصہ پہلے بتایا تھا کہ ان کا شوہر مبینہ طور پر ان پر تشدد کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے گھر والوں نے بہن کو سمجھایا کہ ’گھروں میں چھوٹے موٹے واقعات ہو جاتے ہیں‘ لہذا اس کو ’اپنے گھر اور بچوں کی پرورش پر توجہ دینی چاہیے‘۔ انھوں نے بتایا کہ ملزم پہلے سکول میں بچوں کو ڈراپ کرنے کے لیے وین چلاتا تھا جس کے بعد اس نے اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ مل کر سینیٹری کی دکان کھول لی۔ متاثرہ خاتون کے بھائی نے الزام عائذ کیا ہے کہ ان کا بہنوئی کاروبار پر توجہ دینے کی بجائے ’دوسری لڑکیوں میں دلچسپی‘ لیتا تھا جوکہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی اصل وجہ تھی۔ مقامی پولیس کے مطابق واقعے کے روز بھی اسی بات پر جھگڑا ہوا جس پر ملزم شمائل نے طیش میں آکر اپنی بیوی پر تیزاب پھینک دیا جس سے اس کی انکھیں اور بازو متاثر ہوئے۔ اس واقعہ سے متعلق مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ لڑکی کے سسر نے بھی تیزاب پھینکنے میں ملزم کی مدد کی۔ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزم شمائل نے اپنے والد اللہ بخش کی ایما پر ان کی بہن پر تیزاب پھینکا ہے۔ پولیس نے ابھی تک متاثرہ لڑکی کا بیان قلمبند نہیں کیا کیونکہ مقامی پولیس کے مطابق خاتون کی حالت اس قابل نہیں ہے کہ ان کابیان ریکارڈ کیا جاسکے۔ پولیس نے ملزم کے زیر استعمال موبائل سے اس کی لوکیشن معلوم کر کے اس کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے مقامی عدالت سے ملزم کا تین دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر کے تفتیش شروع کردی ہے جبکہ دوسرے ملزم اللہ بخش کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ایس ایس پی آپریشنز مصطفیٰ تنویر کے مطابق متاثرہ خاتون کی حفاظت کے لیے ہسپتال کے باہر سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے تاکہ انھیں کوئی مزید نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے جبکہ دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
/urdu/world-59196201
گذشتہ ہفتے چار روز تک پیرس حملوں کے حوالے سے عام سا پس منظر رکھنے والے گیارہ ملزموں کے بارے میں بات ہوتی رہی۔
پیرس حملوں کے طویل عرصے سے جاری مقدمے میں عدالت کو بتایا گیا کہ کیسے 14 عام مردوں کی زندگیاں چھوٹی موٹی نوکریوں اور چوٹھے چھوٹے جرائم میں گِھر گئیں۔ کچھ جنگ کے لیے شام چلے گئے اور پھر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا حصہ بن کر مغربی پورپ آ گئے۔ اس مرحلے میں ان ملزمان کے خلاف کونسی فردِ جرم عائد کی گئی یا ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں سوالات کو عدالت نے جنوری تک ملتوی کیا ہوا ہے۔ ستمبر میں اس مقدمے میں آغاز کے بعد سے کئی ہفتوں تک عینی شاہدین کی ان تکلیف دہ کہانیوں کے بعد اب یہ پہلا موقع ہے کہ توجہ ملزمان کی جانب مڑی اور ان کی آواز کی مدد سے اس دنیا کا نقشے بنایا جائے گا جہاں سے وہ آئے ہیں۔ براحم عبد السلام نومبر 2015 میں پیرس کیفے پر حملہ آوروں میں سے ایک تھے۔ وہ صالح عبدالسلام کے بھائی بھی ہیں جو پیرس حملوں میں 10ویں ملزم ہیں اور شاید ملزمان میں سب سے زیادہ معروف ہیں۔ اپنے بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے 32 سال کے صالح عبد السلام نے جو تصویر پیش کی وہ اس سے کافی مختلف ہے جو ابھی تک عدالت میں ان کے بارے میں پیش کی گئی ہے جس کے مطابق وہ ایک جارحانہ حد تک ندامت سے خالی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی باتوں پر عدالت میں ایک دو مرتبہ ہلکی سی ہنسی بھی سنائی دی گئی۔ 2010 کے اختتام پر عبد السلام نے عبد الحامد عباد کے ساتھ مل کر ایک ناکام ڈاکے کی کوشش کی تھی۔ یہی عبد الحامد عباد پیرس حملوں میں رنگ لیڈر بنے۔ اسی کیفے میں بار بار آیا کرتے تھے 36 سال کے محمد ابرینی۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ان حملوں سے قبل برسلز سے پیرس جہادیوں کو لے کر آئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ محمد ابرینی ہی وہ شخص ہیں جو مارچ 2016 میں برسلز ایئرپورٹ پر خودکش حملہ کرنے میں ناکام ہو گئے تھے اور ان کی تصویر ‘مین ان ہیٹ‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ سکول چھوزے کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ ایک گیراج میں کام کرنے لگے۔ وہ بتانے لگے کہ تب میں نے کسٹمرز سے بات کرنے کے لیے عربی زبان سیکھنی شروع کی۔ بقلی پر الزام ہے کہ انھوں نے لاجسٹکس کے لیے حملوں میں مدد فراہم کی۔ سنہ 2015 میں ہونے والے تھالیس حملے میں اسی قسم کے کردار ادا کرنے کے جرم میں وہ جیل کاٹ رہے ہیں۔ بہت سے مبینہ ملزمان کی قومیت فرانسیسی یا بیلجئین ہے۔ چار سویڈن، تیونیسیا، الجیریا اور پاکستان میں پلے بڑھے۔ وہ شام میں نام نہاد شدت پسند تنظئم دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے گئے تھے اور پھر انھوں نے سنہ 2015 میں یورپ عبور کیا۔
/urdu/pakistan-61636915
لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں پانچ سالہ بچے کے اغوا کی واردات جب تاوان کے لیے دس کروڑ مانگے گئے اور اغوا کار ہمیشہ کال ایک غیر ملکی نمبر سے کرتے کیونکہ ان کا ایک ساتھی مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں بیٹھ کر یہ سب کر رہا تھا۔
ایک لاچار اور بے بس باپ احمد یار جن کا پانچ سال کا بیٹا عریض 13 مئی کو گھر کے باہر پارک میں کھیلتے ہوئے اغوا ہو گیا تھا۔ انھیں 14 مئی کی دوپہر پونے ایک بجے کے قریب ایک نامعلوم غیر ملکی نمبر سے کال کرنے والا پنجابی میں یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوا۔ لیکن چونکہ احمد یار اپنے بیٹے کے اغوا کے متعلق لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن کی حدود میں واقع تھانہ سندر میں درخواست جمع کروا چکے تھے تو انھیں اندازہ تھا کہ شاید بیٹے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے اور ایسے فون آسکتے ہیں۔ احمد یار 10 کروڑ تاوان کے مطالبے پر پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے پاس اس وقت اتنے روپے نہیں تھے۔ احمد یار گذشتہ کچھ سالوں سے چاولوں کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ اس کاروبار سے معقول آمدنی کما رہے ہیں۔ احمد یار کے دو بیٹے ہیں، ایک آٹھ سالہ محمد عبد ﷲ اور دوسرا پانچ سالہ عریض۔ عریض پری نرسری کا طالبعلم تھا اور 13 مئی کو گھر کے باہر بنے پارک میں جھولا جھولتے ہوئے اغوا ہوا تھا۔ عریض اس وقت اپنے دیگر کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جب تقریباً سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کے قریب دو نقاب پوش ملزمان سرخ رنگ کی 125 موٹر سائیکل پر آئے اور عریض کو زبردستی اٹھا کر ساتھ لے گئے۔ ایس پی سی آئی اے کے مطابق ان کا ٹیکینیکل ونگ بھی پوری طرح متحرک ہوچکا تھا جو سی سی ٹی وی کی مدد سے بچے کے اغوا اور ملزمان کے فرار کے روٹ کی نشاندہی کر رہا تھا۔ کیونکہ اغوا کار ہمیشہ کال ایک غیر ملکی نمبر سے کرتے کیونکہ ان کا ایک ساتھی مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں بیٹھ کر یہ سب کر رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود ملزمان کی لوکیشن تک پہنچنا ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے مطابق پولیس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کے پانچویں روز بات پانچ کروڑ تاوان تک آگئی اور ہوتے ہوتے 19 مئی کو ڈیڑھ کروڑ روپے میں اغوا کاروں کے ساتھ ڈیل فائنل ہو گئی۔ لیکن ملزمان میں سے ایک مہوش جو کہ احمد یار کی سوتیلی ساس ہیں وہ نہیں مان رہی تھی اور ان کا بار بار اصرار تھا کہ پانچ کروڑ سے کم میں ڈیل نہیں کرنی۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق دوران تفتیش ملزمان نے سب بتا دیا اور بچے کو ان کے دیگر ساتھی لاہور کے ایک مقام پر چھوڑ گئے جہاں سے پولیس نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ریپ اور اغوا برائے تاوان کے کیسیز میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ضرور ملوث ہوتے ہیں اور اس کیس میں بھی بچے کی سوتیلی نانی مہوش کا بہت بڑا عمل دخل رہا ہے۔
/urdu/pakistan-59373059
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیا آڈیو اور بیان حلفی اس نوعیت کے ’شواہد‘ ہیں جو عدالت میں پیش کیے جا سکیں اور آیا یہ ’شواہد‘ نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف زیر سماعت اپیلوں پر اثر انداز ہو پائیں گے۔
گذشتہ روز پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار سے منسوب آڈیو کلپ سامنے آنے کے بعد جہاں مسلم لیگ نواز کی جانب سے ایون فیلڈ کیس سے متعلقہ چند ’بڑے ثبوت‘ سامنے آنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہیں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے ’جعلی شواہد‘ کی کوئی حقیقت نہیں جن کا مقصد صرف اور صرف ملکی اداروں کو بدنام کرنا ہے۔ اس دعوؤں کے بعد یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کیا مبینہ آڈیو لیک اور بیان حلفی اس نوعیت کے ’شواہد‘ ہیں جو عدالت میں پیش کیے جا سکیں اور یہ کہ آیا یہ ’شواہد‘ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف زیر سماعت اپیلوں پر اثر انداز ہو پائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے وہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی جیسے 'بڑے ثبوتوں' کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ایون فیلڈ ریفرنس اپیل کیس میں اپنے حق میں استعمال کرے گی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آڈیو لیک اور بیان حلفی جیسے معاملات عدلیہ اور فوج کے خلاف ایک منظم مہم کا حصہ ہیں اور چونکہ ایون فیلڈ ریفرنس پر اپیل کا معاملہ ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اسی لیے اس معاملے (آڈیو لیک) پر عدالت حکومت کو جو حکم دے گی وہ اس کے مطابق ہی آگے بڑھیں گے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور قانون دان امجد شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے سے متعلق احتساب عدالت کے جج ملک ارشد کی مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک درخواست کی سماعت پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو جج انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ دے تو ایسے شخص کو کسی طور پر بھی انصاف کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ اس طرح کی ویڈیو آنے کے بعد اعلی عدلیہ میں کام کرنے والے ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے اس مبینہ آڈیو کے پس منظر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے لیے سکیم بنائی گئی۔ 'اس سکیم کا پتا سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی آڈیو کلپ سے چلتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ غلطیوں کو درست کیا جائے اور قوم انصاف کی منتظر ہے۔'
/urdu/sport-49851448
کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ میں پاکستان کی جانب سے 306 رنز کے ہدف کے تعاقب میں سری لنکا کی ٹیم 238 رن پر آؤٹ ہو گئی۔
پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ایک روزہ میچوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا میچ پیر کو نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا۔ پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 50 اووروں میں پاکستان نے سات وکٹ کے نقصان پر 305 رنز بنائے تھے۔ اس کے جواب میں سری لنکا کی ٹیم 47ویں اوور میں 238 رن پر آؤٹ ہو گئی۔ گذشتہ دس سال میں یہ پہلا موقع ہے جب کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کوئی انٹرنیشنل میچ کھیلا گیا۔ تین میچوں کی سیریز کا پہلا میچ بارش کے باعث منسوخ کر دیا گیا تھا اور نیشنل سٹیڈیم کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی میچ بارش کی نذر ہوا ہو۔ سری لنکا کے خلاف اس میچ کے لیے پاکستان کی جو ٹیم میدان میں اتری اس میں صرف سرفراز احمد، حارث سہیل، بابر اعظم اور وہاب ریاض ایسے کھلاڑی تھے جنھوں نے اس سے قبل پاکستانی سرزمین پر ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیل رکھا ہے۔ ون ڈے سیریز کے تینوں میچ کراچی میں کھیلے جائیں گے اور یہ تینوں ڈے اینڈ نائٹ ہوں گے۔ اس کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کا آغاز پانچ اکتوبر سے لاہور میں ہوگا۔ دوسرا ٹی ٹونٹی میچ سات اکتوبر کو کھیلا جائے گا جبکہ تیسرا اور آخری ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ نو اکتوبر کو ہو گا۔ میچ سے قبل دونوں ٹیموں نے جمعرات کو کراچی میں پریکٹس سیشن بھی کیے۔ پریکٹس سیشن کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ یہ کرکٹ سیریز پاکستان کے لیے یادگار موقع ہے۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان اب تک 153 ایک روزہ میچ کھیلے جا چکے ہیں جس میں سے 90 میں پاکستان جبکہ 58 میں سری لنکا نے کامیابی حاصل کی۔ مارچ سنہ 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔ اس واقعے میں چھ پولیس والے اور دو شہری ہلاک ہوگئے تھے اور سری لنکن کرکٹر تھلان سماراویرا بھی زخمی ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ورلڈ الیون، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کی ٹیمیں پچھلے دو برسوں کے دوران پاکستان آ چکی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان سپر لیگ کے بھی متعدد میچ پاکستان میں منعقد ہوئے ہیں۔ سری لنکن ٹیم کے حالیہ دورے پر بھی اس وقت خطرے کے بادل منڈلانے لگے تھے جب سری لنکن وزیراعظم آفس سے سری لنکن کرکٹ بورڈ کو ایک وارننگ موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم کو اس دورے میں ممکنہ دہشت گردی کا سامنا ہے۔
/urdu/science-49644878
ماہرین کے مطابق ابھی اسے کامیاب یا ناکام مشن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انڈیا کا آربیٹر چاند کے مدار میں کام کر رہا ہے۔ ’اسے ایک سال تک کام کے لیے روانہ کیا گیا تھا لیکن ایندھن کی وافر مقدار کی وجہ سے یہ تقریباً ساڑھے سات سال تک کام کر سکے گا۔‘
ماہرین کے مطابق انڈیا کے چندریان 2 مشن کو ابھی کامیاب یا ناکام مشن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انڈیا کا آربیٹر کامیابی سے چاند کے مدار میں اپنا کام کر رہا ہے۔ 'اسے ایک سال تک کام کرنے کے لیے روانہ کیا گیا تھا لیکن ایندھن کی وافر مقدار کی وجہ سے یہ تقریباً ساڑھے سات سال تک کام کر سکے گا۔' جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر لکھنے والے معروف صحافی پلّو باگلا نے کہا کہ 'ابھی اسے کامیاب یا ناکام مشن نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ انڈیا کے چندریان مشن 2 مدار میں کامیابی کے ساتھ قائم ہوا اور وہ اپنا کام کر رہا ہے جبکہ تجرباتی سطح پر جو لینڈر بھیجا گیا تھا اس سے آخری مرحلے میں رابطہ ٹوٹ گیا لیکن اب بھی اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔' انڈیا کا یہ مشن چاند کے مدار میں داخل ہو گیا اور وہ وہاں کامیابی کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے۔ گوہر رضا نے بتایا کہ اسے ایک سال تک کام کرنے کے مقصد سے روانہ کیا گیا تھا لیکن چونکہ اس میں ایندھن وافر مقدار میں ہے اس لیے اب یہ تقریباً ساڑھے سات سال تک کام کر سکے گا۔ دوسری جانب آربیٹر سے چاند کی سطح کے لیے جو لینڈر روانہ کیا گیا تھا اسے سات ستمبر کی نصف شب کو چاند کی سطح پر اترنا تھا لیکن جب لینڈر سے چاند کا فاصلہ محض 2.1 کلومیٹر رہ گیا تو آربیٹر سے لینڈر کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ پلو باگلا نے بتایا کہ 'ایک مقصد سائنسی تھا جو کہ مدار میں آربیٹر کا قائم کرنا تھا اور وہ آپریشنل سیٹلائٹ ہے۔ اس میں آٹھ انتہائی اعلیٰ درجے کے سائنسی آلات نصب کیے گئے تھے اور وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ جبکہ وکرم لینڈر اور پرگیان روور اپنے پہلے تجرباتی مشن پر بھیجے گئے تھے۔ آپریشنل اور تجرباتی میں فرق ہو جاتا ہے۔ تجرباتی مشن یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اسی پر مبنی آپریشنل مشن بھیجا جاتا ہے۔ اس تجرباتی مشن میں خرابی آئی لیکن اس میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے اس دن اپنے صبح کے خطاب میں کہا تھا کہ سائنس میں ناکامی جیسی چیز نہیں ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو بھارت کے فخر کا پہلو تھا اور اس میں تھوڑی سی کمی رہ گئی۔' انھوں نے مزید بتایا کہ اس میں تیسری بات یہ تھی کہ انڈیا کا لینڈر چاند کے جنوبی قطب کی جانب جا رہا تھا جہاں پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ اس کے ساتھ آربیٹر میں ایک انتہائی نادر آلہ نصب ہے جسے ڈول بینڈ سنتھیٹک اپرچر راڈار کہتے ہیں۔ اس طرح کا آلہ اب تک کسی دوسرے ملک نے چاند کے لیے روانہ نہیں کیا ہے۔ سنگل بینڈ تو بھیجے گئے ہیں لیکن ڈوئل بینڈ نہیں۔
/urdu/science-57373247
یوٹوپیا ڈیلز امریکہ میں قائم کمپنی ہے جو ایمازون کا پلیٹ فارم استعمال کر کے امریکہ اور دنیا بھر میں گھریلو استعمال کی اشیا آن لائن فروخت کرتے ہیں۔ یوٹوپیا ڈیلرز کو مختلف اداروں کے علاوہ 'سیلر ریٹنگز ڈاٹ کام میں ساتواں رینک دیا گیا ہے جبکہ پچھلے مہینے ان کی رینکنگ پانچویں تھی۔
یہ الفاظ تھے جبران نیاز کے جن کی کمپنی یوٹوپیا ڈیلز کو ایمازون کے پلیٹ فارم پر سامان فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ریٹنگ میں دس بہترین کمپنیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ یوٹوپیا ڈیلز کو مختلف اداروں کے علاوہ 'سیلر ریٹنگز ڈاٹ کام‘ میں ساتواں رینک دیا گیا ہے جبکہ پچھلے مہینے ان کی رینکنگ پانچویں تھی۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں ایمازون اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے وہاں پر یوٹوپیا ڈیلز گھریلو استعمال کی مختلف اشیا فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ یوٹوپیا ڈیلز امریکہ میں قائم کمپنی ہے جو ایمازون کا پلیٹ فارم استعمال کر کے امریکہ اور دنیا بھر میں گھریلو استعمال کی اشیا آن لائن فروخت کرتے ہیں۔ جبران نیاز کے مطابق ان کی کمپنی نے کاروبار کا آغاز پاکستان سے تولیے منگوا کر کیا تھا اور بعد میں چین کی فیکٹریوں سے اپنی اشیا بنوانا شروع کر دی تھیں۔ جبران نیاز نے بتایا کہ ان کے بھائی جب امریکہ منتقل ہو گئے اور دونوں بھائیوں کو نوکری مل گئی تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ امریکہ میں سافٹ وئیر انجینیئرز کی مانگ بہت تھی اور کام کا اچھا معاوضہ ملتا تھا۔ اپنی کمپنی کی کامیابی کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے جبران بتاتے ہیں کہ ای کامرس کی وجہ سے ان کو پیسے وصول کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی اور جو آرڈر ملتے وہ ان کے والد پیک کر کے کوریئر سروس کو دیتے تھے۔ 'ایمازون پر سخت مقابلہ ہے۔ یہاں پر پوری دنیا کی بہترین کمپنیاں موجود ہیں۔ ایسے میں عدنان کی مہارت کام آئی جنھوں نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو ہمیں مارکیٹ میں رجحانات کا بتاتا ہے۔ مثلاً کون سے آئٹم میں کس رنگ، سائز اور ڈیزائن کا رجحان اور قیمت کیا چل رہی ہے۔ بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ایمازون سے اس وقت ان پاکستانیوں کو بے انتہا فائدہ پہنچا ہے جو ایمازون کی خدمات پاکستان میں پہنچنے سے پہلے کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک سے اکاوئنٹ بنا کر کاروبار کررہے تھے جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایمازون کی خدمات سے مستفید ہونا شروع گئی ہے۔ بدر خوشنود کے مطابق ایمازون خود بھی اپنے پلیٹ فارم پر کاروبار کرنے کے طریقہ کار کو سکھاتا ہے اور اس کے لیے کورسز فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے نہ صرف ایمازون پر کاروبار کرنے کے گُر سیکھے جا سکتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ایمازون پر کاروبار کرنے والوں کو مختلف سروسز فراہم کرنے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔‘ ’مثال کے طور پر ایک فروخت ہونے والے آئٹم پر خریدنے والے کاہگ نے اپنے ریویو میں غلط یا کم معیار کا آئیٹم فروخت کرنے کا کہہ دیا تو ایمازون فروخت کرنے والے کو بلاک کردے گا۔ اس کی ریٹنگ کم کر دے گا۔ یعنی کاروبار ہی ختم۔‘
/urdu/regional-54039556
چین کے وزیر دفاع ویئ فینگی نے اپنے انڈین ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ماسکو میں ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین جاری سرحدی کشیدگی کو کم کیا جانا چاہیے اور ساتھ ساتھ انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس حالیہ تناؤ کا باعث انڈیا ہے۔
چین کے وزیر دفاع ویئ فینگی نے اپنے انڈین ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ماسکو میں ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین جاری سرحدی کشیدگی کو کم کیا جانا چاہیے اور ساتھ ساتھ انھوں نے انڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس حالیہ تناؤ کا باعث انڈیا ہے۔ دونوں وزراِ دفاع شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے ماسکو میں موجود ہیں اور ان کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گذشتہ کچھ مہینوں سے انڈیا اور چین کے مابین سرحد پر تناؤ اور پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انڈین اخبار دی ہندو کے مطابق لداخ کے دو روزہ دورے پر گئے ہوئے جنرل منوج مکنڈ ناروان نے کہا ہے کہ 'ایل اے سی پر صورتحال کافی سنگین ہے لیکن ہم کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔' 'ایل اے سی پر پہلے سے موجود پوزیشن حاصل کرنے کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر مسلسل بات چیت جاری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بات چیت کے ذریعے اس کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔' چینی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری بیان کے مطابق چین کے وزیر دفاع ویئ فینگی نے کہا کہ دونوں مالکوں کے درمیان واضح طور پر بات چیت ہونی چاہیے تاکہ اس تناؤ کی کیفیت کو کم کیا جائے تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین کسی بھی صورت میں اپنی ایک انچ جگہ بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ 'چینی فوج پوری طرح تیار ہے اور انھیں اس بات کا اعتماد ہے کہ وہ اپنی قومی اور سرحدی سالمیت کا بھرپور طریقے سے دفاع کر سکتے ہیں۔' خبر رساں ادارے کے مطابق ویئ فینگی نے راج ناتھ سنگھ کو پیغام دیا کہ دونوں ملکوں کو ساتھ بیٹھ کر بات کرنا ہوگی تاکہ سرحدی علاقے میں امن قائم رہے۔ راج ناتھ سنگھ نے ایس سی او کے اجلاس میں کیا کہا؟ راج ناتھ سنگھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں ایک دوسرے پر اعتماد اور تعاون ، بین الاقوامی قوانین کا احترام ، ایک دوسرے کے مفادات کے لیے اختلافات کو پر امن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ وزیر دفاع نے اپنے خطاب میں اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت دہشت گردی کی ان تمام اقسام کی مذمت اور تنقید کرتا ہے جو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی طویل عرصے سے جاری ہے واضح رہے کہ انڈین میڈیا کے کچھ حلقوں میں یہ لکھا جارہا تھا کہ چینی فوج مئی کے پہلے ہفتے سے سرحد کے اُن حصوں میں داخل ہوچکی ہے جسے انڈیا اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ اس جھڑپ میں انڈین فوج کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہوگئے۔ انڈین حکام کے مطابق اس میں کچھ چینی فوجی بھی مارے گئے تھے لیکن ان کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس جھڑپ میں چینی فوجیوں کی ہلاکت کے بارے میں چین نے بھی کوئی سرکاری بیان دیا۔
/urdu/regional-55399589
پاکستان نے استنبول تک ریل سروس بحالی کے منصوبے کی حامی بھر لی ہے۔ اس وقت اس ٹرین کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور پاکستان اس سروس کو چلانے کے لیے کتنا تیار ہے۔ بی بی سی نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی حکام اور ماہرین سے بات کی ہے۔
قونصلر جنرل بلال پاشا کے مطابق اس منصوبے کی بحالی کا فیصلہ دو ہفتے قبل ایک آن لائن اجلاس کے دوران کیا گیا ہے۔ بلال پاشا کے مطابق تینوں ممالک نے اس ٹرین سروس سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں اور اس سروس سے متعلق مسائل اور مشکلات کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق ترکی کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں ٹرین سروس کو تیز رفتار اور باقاعدہ بنانے کے لیے ایک دوسرے کو فنی مدد دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ مسائل کے باوجود جو سروس اس وقت دستیاب ہے اسے باقاعدگی سے چلایا جائے اور پھر بعد میں اس میں بہتری لا کر اسے مزید تیز تر بنایا جائے۔ اس وقت اس ٹرین کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟ پاکستان اس سروس کو چلانے کے لیے کتنا تیار ہے اور اس کی بحالی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ بی بی سی نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی حکام، ماہرین اور تاجروں کے نمائندوں سے بات کی ہے لیکن اس تفصیلی بحث سے قبل اس کنٹینر ٹرین سروس کے تاریخی پس منظر پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس سے وابستہ صلاح الدین خلجی نے بی بی سی کو بتایا کہ تاجر برادری اس سروس کی بحالی سے خوش ہے تاہم ان کے مطابق اس کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستانی حکومت کو تاجروں کو درپیش مسائل حل کرنے ہوں گے۔ ان کے خیال میں اگلے سال سے جس سروس کی بحالی پر اتفاق ہوا ہے وہ ٹرین ایک ہفتے سے دس دن تک اسلام آباد سے استنبول تک اپنا سفر مکمل کر سکے گی جبکہ سمندری جہاز کو پاکستان سے استنبول تک 21 دن لگ جاتے ہیں۔ سیکریٹری ٹی ڈی اے پی کا کہنا ہے کہ اس سروس کو بہتر بنانے کے لیے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہاں سے جب ٹرین استنبول تک سامان لے کر جائے تو پھر کوئی ایسا نظام پہلے سے ایسا ہونا چائیے کہ واپسی پر وہی ٹرین کچھ لے کر بھی واپس آئے۔ بلال پاشا کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان علاقائی روابط بڑھانے کی ڈگر پر چل پڑا ہے اور اب یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے پاکستان گوادر تک اپنی ریل کی پٹڑی کو بہتر بنا سکے گا اور یوں تجارتی حجم کو بھی بڑھا سکے گا۔ پاکستانی حکام کے مطابق تاجر برادری نے اس ریل گاڑی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کنٹینر سروس کا خرچہ کم ہو گا اور کم وقت میں سامان یورپ کی منڈیوں تک پہنچایا جا سکے گا۔
/urdu/pakistan-58943048
لوگ نہ صرف تھک چکے ہیں بلکہ اکتا بھی چکے ہیں۔ میں نے کسی کو کسی اچھی خبر کا منتظر نہیں دیکھا۔ ہر صبح چہروں پہ یہ ہی لکھا ہوتا ہے کہ اب کیا ہو گا؟ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔
اس وقت 'باپ کی کمائی' اڑاتے تھے اور ایسے کلام کو سمجھنے کے لیے جو فہم و ادراک چاہیے ہوتا ہے وہ موجود نہ تھا، اسے صرف ایک گانا سمجھا۔ یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک روز یہ دل کی آواز بن جائے گا۔ یہ گانا جس فلم میں تھا اس میں انڈین پنجاب میں کسانوں کی بڑھتی ہوئی خودکشیوں پر معاشرے کے ردعمل پر طنز کیا گیا تھا۔ آج ہمارے ہاں بھی کچھ ویسے ہی حالات سامنے آنے والے ہیں۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بے شمار اشیا کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ دس، پانچ روپے کے اس اضافے کا شاید متوسط اور اوپری متوسط طبقے پر اس قدر برا اثر نہیں پڑتا لیکن غربت کی لکیر سے نیچے اور اس لکیر پر زندگی گزارنے والوں کے لیے یہ ایک بم سے کم نہیں۔ ہمارے کچھ مہربان ایسے بھی ہیں کہ ان حالات کے بارے میں ذکر کرنے پر سخت خفا ہو جاتے ہیں اور ڈانٹ بتا کے کہتے ہیں، ’آپ تو چوروں کے دور میں ہی خوش تھے، وہ سب مصنوعی طور پر سستا تھا، اسی لیے اب سب کچھ اتنا مہنگا ہو رہا ہے۔‘ لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ایک خوف، ایک اضطراب اور بے یقینی ہے۔ عوام کو اپنے لیڈر پر بڑا بھروسہ ہوتا ہے۔ جب لیڈر کے بارے میں ہی کچھ کا کچھ سننے کو ملے تو یہ اضطراب لازمی ہے۔ لوگ نہ صرف تھک چکے ہیں بلکہ اکتا بھی چکے ہیں۔ میں نے کسی کو کسی اچھی خبر کا منتظر نہیں دیکھا۔ ہر صبح چہروں پر یہ ہی لکھا ہوتا ہے کہ اب کیا ہو گا؟ یہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مہنگائی یوں ہی بڑھتی رہے گی یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جیسے پریوں کی کہانیوں میں سوتیلی ماں آتی تھی تو بچت کے نام پہ سب سے پہلے ننھی شہزادی کے سب اللے تللے بند کر دیے جاتے تھے۔ عین اسی طرح پاکستانی عوام کو سوتیلی ماں کی سفارشات پر یہ سب سہنا پڑے گا۔ مہنگائی کا یہ جن، کتنوں کا ذہنی سکون کھا رہا ہے۔ ایک وقت کھا کے دوسرے وقت کی فکر پڑ جاتی ہے۔ فرات کے کنارے والا کتا خوش نصیب تھا کہ اس کا کوئی پرسان تھا۔ لاکھوں کروڑوں انسان پریشان ہیں اور ان کا پرسان کوئی نہیں۔ دعوے کرنا ایک بات ہے اور نبھانا دوسری۔ خاں صاحب کی حامی ایک خاتون تو مہنگائی کے سوال پر اتنے جلال میں آئیں کہ مجھے لگا ان میں جن حلول کر گیا ہے۔ ایسا ہے کہ ہمیں جن ون کی تو کوئی خاص خبر نہیں پر یہ بات ضرور سچ ہے کہ اس ملک پہ ایک ڈائن کا سایہ پڑ گیا ہے اور اس کا اثر حکمرانوں کے لیے کبھی بھی اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ مہنگائی ڈائن، سب کچھ کھا جاتی ہے۔ کاش کوئی جی دار اس ڈائن کو قابو کر سکتا۔
/urdu/world-49253633
عروس بحیرۂ احمر کے ساحل پر واقع ایک مسحور کن سیاحتی ریزورٹ تھا لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ جگہ اصل میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا اڈہ تھی۔
عروس سوڈان کے صحرائی علاقے میں بحیرہِ احمر کے ساحل پر ایک انتہائی پرامن تفریحی ریزورٹ ہے مگر یہ مسحورکن ریزورٹ اسرائیلی جاسوسوں کے لیے ایک خفیہ مشن کا بیس بھی رہا ہے۔ انھی واقعات پر مبنی فلم ’ریڈ سی ڈائیونگ ریزورٹ‘ بھی حال ہی میں نیٹفلکس پر ریلیز کی گئی ہے مگر شاید اس جگہ کی اصل کہانی فلم سے بھی زیادہ شاندار اور حیران کن ہے۔ مگر ایک بات یہاں آنے والے سیاحوں اور مقامی حکام کو نہیں معلوم تھی: ریڈ سی ڈائیونگ ریزورٹ ایک فریب تھا۔ دراصل اس کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ تھا۔ یہ آپریشن اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اس کے بارے میں صرف ان لوگوں کو پتا تھا جو کہ آپریشن میں براہِ راست طور پر ملوث تھے۔ ان ایجنٹوں کے گھر والوں کو بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ سوڈان کے ساحل پر ممکنہ لینڈنگ کے علاقوں کی تلاش کے دوران ہی دانی اور ایک اور ایجنٹ کو عروس کا غیر آباد ریزورٹ ملا۔ یہ مقام پورٹ سوڈان سے تقریباً 70 کلومیٹر شمال میں واقع تھا۔ کچھ سینز میں تو اصل واقعات کی عکاسی کی جا رہی ہے مگر کچھ تو بالکل ہالی وڈ کے کرشمے میں، مثال کے طور پر اس ریزورٹ کے راستے کوئی یہودی نہیں بچائے گئے، وہ تو صرف بہانہ یا کوور تھی۔ اس کے علاوہ فلم کے برعکس امریکیوں کو اس آپریشن کا کچھ پتا نہیں تھا، اور فلم میں تو یہاں تک دیکھایا گیا ہے کہ امریکیوں نے پناہ گزینوں کو ایئر لفٹ کیا (اصل میں یہ کام اسرائیلی فضائیہ نے کیا)۔ انھوں نے 15 مقامی سٹاف جیسے ویٹر، ڈرائیور وغیرہ کو نوکری پر بھی رکھا۔ ایک باورچی کو مقامی ہوٹل سے توڑا گیا۔ موساد اہلکار کا کہنا ہے کہ ہم نے انھیں دوگنی تنخواہ دی۔ سٹاف میں سے کسی کو ریزورٹ کا اصل مقصد معلوم نہیں تھا یا کہ ان کے گورے باس موساد کے ایجنٹ ہیں۔ ریزورٹ کے مہمانوں میں مصری آرمی کا ایک یونٹ، اور برطانوی سپیشل فورسز کا یونٹ بھی آیا۔ اس کے علاوہ خارطوم میں تعینات غیر ملکی سفارتکار اور سوڈانی حکام بھی آتے اور انھیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان کے میزبان اصل میں کون ہیں۔ نئی حکومت نے موساد کے جاسوسوں کو ملک سے نکالنے کو اپنی ترجیح بنا لیا چاہے وہ حقیقی جاسوس تھے یا خیالی۔ موساد کے سربراہ نے ریزورٹ خالی کرنے کا حکم جاری کیا تاہم ایجنٹوں نے یہ بہتر جانا کہ وہ ایسٹر ویک اینڈ کے رش کو فزار کر ہی جائیں۔ پھر انھیں ایک موقع ملا تو انھوں نے ریزورٹ کے سٹاف سے کہا کہ وہ غوطہ خوری کے لیے بہتر مقامات ڈھونڈنے جا رہے ہیں اور اس کام میں انھیں چند روز لگیں گے۔
/urdu/live/world-56838217
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق پاکستان میں 25 اپریل کو 4825 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جبکہ 70 مزید افراد اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق پاکستان میں 25 اپریل کو 4825 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جبکہ 70 مزید افراد اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس کے 3056 نئے متاثرین کا اضافہ ہوا ہے جبکہ 67 مزید اموات ہوئی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 9.4 فیصد سے بڑھ کر 10.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس وقت شہر میں 12730 افراد اس مرض سے متاثر ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمدعلی کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کے بعد چند دنوں سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے اور گذشتہ رات جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 5611 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ 118 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی چینی ویکسین کی پہلی کھیپ اگلے چند روز میں متوقع ہے جس کے بعد پاکستان بھر میں ویکسین لگانے کا عمل آئندہ ہفتے سے شروع ہو جائے گا اور حکام کے مطابق پہلے مرحلے میں چین سے ملنے والی سائنو فارم ویکسین صحت عامہ سے منسلک افراد (جیسے ڈاکٹرز، نرسز اور ہسپتال کے عملے) کو مفت لگائی جائے گی۔ آج سے ایک برس قبل یعنی 23 جنوری 2020 کو دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث کسی شہر میں پہلا لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔ یہ لاک ڈاؤن چین کے شہر ووہان میں نافذ کیا گیا تھا، وہی شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی ابتدا یہیں سے ہوئی تھی۔ پاکستان میں ویکسین لگوانے کے اہل ترین افراد میں شامل ہونے پر ایک 27 سالہ ڈاکٹر کو اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ملک میں مہلک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں کورونا کی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات کی بھرمار دیکھی گئی جس میں مختلف ادویات، جڑی بوٹیوں یا پھر کھانے پینے میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کو اس بیماری سے صحت یابی میں مددگار یا پھر اس کا علاج ہی قرار دے دیا گیا۔ پوری دنیا میں کورونا وائرس کے مزید پھیلنے کے خدشے کے پیش نظرسکول بند ہو رہے ہیں اور اس صورتحال میں والدین کو اس طرح کے سوالات کا سامنا ہے کہ ان کے بچے گھر پر رہ کر کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اُن حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
/urdu/world-59813835
فرانس کے شمالی علاقے واز میں ایک مسجد کو یہ کہہ کر بند کر دیا گیا ہے کہ وہاں کا امام اپنے ’انتہا پسند‘ خطبے میں ’جہاد کا دفاع‘ کر رہا تھا۔
فرانس کے شمالی علاقے واز میں ایک مسجد کو یہ کہہ کر بند کر دیا گیا ہے کہ وہاں کے پیش امام نے اپنے ’انتہا پسندی‘ پر مبنی خطبات میں ’جہاد کا دفاع‘ کیا تھا۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ بووہ نامی علاقے میں واقع یہ مسجد اب آئندہ چھ ماہ تک بند رکھی جائے گی۔ واز کے حکام کے مطابق ان خطبات میں جہاد کے نام پر لڑنے والوں کو ’ہیرو‘ کہا گیا تھا اور اس طرح لوگوں کو نفرت اور تشدد پر اُکسایا جا رہا تھا۔ فرانس بھر میں حالیہ دنوں میں ایسی مساجد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے جہاں حکام کے مطابق انتہا پسندی پر مبنی نظریات کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ دو ہفتے قبل فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمنان نے کہا تھا کہ بووہ کی ایک معروف مسجد کو بند کرنے کی کارروائی شروع کر رہے ہیں۔ یہ پیرس سے 100 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے پیش امام اپنے خطبات میں ’مسیحیوں، ہم جنس پرستوں اور یہودیوں‘ کو ہدف بنا رہے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک مقامی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد کے پیش امام نے کچھ عرصہ قبل ہی اسلام قبول کیا تھا۔ مسجد کے ساتھ منسلک ایک ایسوسی ایشن کے وکیل کا کہنا ہے کہ پیش امام کے بیان کو ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ لیا گیا تھا۔ وکیل کا کہنا ہے کہ یہ پیش امام ’رضاکارانہ طور پر بول رہے تھے‘ اور انھیں معطل کر دیا گیا ہے۔ مگر وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ شخص ’جسے کبھی کبھار خطبہ دینے والا قرار دیا جا رہا ہے وہ حقیقت میں باقاعدہ پیش امام کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔‘ بیان کے مطابق وہ ’سخت گیر اسلام‘ اور ’قوانین اور ریاست پر اس (اسلام) کی برتری‘ کا دفاع کرتا تھا۔ گذشتہ برس فرانس کے وزیر داخلہ نے انتہا پسندی سے جڑی مساجد کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان مساجد کو بند کیا جا سکتا ہے جو علیحدگی پسند سوچ کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال فرانس میں سیموئل پیٹی نامی سکول ٹیچر نے اپنے طالب علموں کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد نیس شہر کے ایک گرجا گھر میں چاقو کے حملہ کر کے تین افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ دونوں واقعات میں فرانسیسی حکام کی جانب سے ’انتہا پسند سوچ کے حامل افراد‘ کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ فرانس میں وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس نے گذشتہ مہینوں کے دوران قریب 100 مساجد اور عبادت گاہوں کی تحقیقات کی ہیں۔ فرانس میں مجموعی طور پر 2620 سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔
/urdu/regional-56646031
ستیاوتی جوری کی صحت خراب تھی۔ اسی بنا پر وہ تین یا چار دن پہلے اپنے رمیش کے تبادلے کے لیے جگدالپور گئی تھیں اور حکام کو ایک درخواست دی تھی کہ وہ بڑے بیٹے کی حیثیت سے اپنی ماں، گھر والوں اور سب کا خیال رکھتا ہے۔
گاؤں کی کچھ خواتین اس گاؤں میں واقع ایک گلی کے آخری مکان میں داخل ہوتی ہیں اور پھر اس گھر سے کئی خواتین کی آہ و بکا اور رونے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ گھر ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ کے 35 برس کے ہیڈ کانسٹیبل رمیش کمار جوری کا ہے جو سنیچر کو بیجا پور میں ماؤ نواز باغیوں کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے تھے۔ گھر کے سامنے تین چار پولیس والے کھڑے ہیں۔ ایک جوان کا کہنا ہے کہ اب رمیش کمار کی جگدالپور میں آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے میت کو کانکر اور وہاں سے سڑک کے ذریعے پنڈاری پانی تک لے جایا جائے گا، جس میں مزید چند گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ رمیش کا چھوٹا بھائی سنجے جوری اپنے بھائی کی آخری رسومات کی تیاری میں مصروف ہے۔ گھر کے سامنے والے کھیت میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ایک گڑھا کھودا جا رہا ہے۔ رمیش اپنی اہلیہ سنیتا اور چار برس کی بیٹی سیجل کے ساتھ بیجا پور میں رہتے تھے۔ سنجے کو اپنے ایک پڑوسی لڑکے نے اُن کے بڑے بھائی کی موت کی خبر دی۔ سنجے کا کہنا ہے کہ ’میں پہلے اس پر یقین نہیں کر سکا تھا۔ بعد میں میں نے ٹی وی پر خبر دیکھی۔ ہم دو بھائی تھے۔ اب میں اکیلا ہوں۔ بھائی گھر میں سب سے بڑے تھے۔ وہ گھر کے تمام امور خود انجام دیتے تھے۔ آخری بار ہولی کے دو تین دنوں میں ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ وہ والدہ کے لیے کافی فکرمند رہتے تھے۔‘ اس کی خالہ ودیا یوسینڈی کانکر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ستیاوتی جوری کی صحت خراب ہے، اسی بنا پر وہ تین یا چار دن پہلے رمیش کے تبادلے کے لیے جگدالپور گئی تھیں اور حکام کو اپنے بیٹے کے ٹرانسفر کی درخواست دی تھی اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ بڑے بیٹے کی حیثیت سے ان کا بیٹا اپنی ماں، گھر والوں اور سب کا خیال رکھتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر ’جیے جوان، جیے کسان‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے نوجوانوں کا ایک گروپ وہاں پہنچا۔ ان نوجوانوں کے قافلے کے پیچھے کچھ گاڑیاں نظر آئیں، جن میں سے ایک ایمبولینس ہے جس سے رمیش کی میت کو اتارا جا رہا ہے۔ خواتین پولیس اہلکار بھی اپنے آنسو پونچھتی نظر آئیں۔ ان سب میں چار برس کی بیٹی سیجل سب سے زیادہ نامعلوم اور خاموش دکھائی دیتی ہے۔ بس، سیجل اپنی دادی کو روتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ گھر کے سامنے کھڑا ایک پولیس اہلکار اپنے موبائل فون پر کچھ سُن رہا ہے۔ دو تین دیگر پولیس اہلکاروں کی نگاہیں بھی سامنے والے میدان کی طرف ہیں، لیکن وہ سیل فون سے آنے والی آواز کو بھی سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
/urdu/science-50964578
ضروری نہیں ہے کہ صحت سے متعلق کیے جانے والے تمام فیصلے ارادی ہوں کیونکہ ہم اپنے پسندیدہ دوستوں، دفتر میں ساتھ کام کرنے والے لوگوں اور خاندان والوں کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔
تاہم، ضروری نہیں ہے کہ صحت سے متعلق کیے جانے والے تمام فیصلے ارادی ہوں کیونکہ ہم اپنے پسندیدہ دوستوں، دفتر میں ساتھ کام کرنے والے لوگوں اور خاندان والوں کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے امراض، فالج اور کینسر جیسی غیرمتعدی بیماریاں کسی انفیکشن کی طرح ایک انسان سے دوسرے کو لگ سکتی ہیں۔ ہمارا سماجی نیٹ ورک ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کی ہم قدر کرتے ہیں اور جن کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فریمنگھم ریسرچ نے نشاندہی کی کہ اگر ایک شخص روز اپنے پڑوسی کو دیکھتا ہے لیکن اس کا پڑوسی سے گہرا تعلق نہیں ہے تو اُس شخص کے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شاید کم عمر نوجوانوں میں سیگریٹ نوشی کا تعلق مقبولیت سے ہے۔ جب مشہور کم عمر لڑکے سیگریٹ پیتے ہیں تو سیگریٹ نوشی کی شرح میں اضافہ اور سیگریٹ نوشی ترک کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی آتی ہے۔ یہ علامات ڈیپریشن کی عکاسی نہیں کرتیں یعنی ڈیپریشن متعدی نہیں ہے۔ لیکن اس قسم کی افسردگی کا ایک نوجوان کی زندگی پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے اور بعد میں ڈیپریشن لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ہماری ریسرچ پر ایک تنقید یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ ہی دوستی کرتے ہیں جن کی خصوصیات اور حالات ہم جیسے ہوتے ہیں۔ اگر ہم دوستوں اور خاندان والوں کا رویہ اپناتے ہیں تو ہم اس عادت کو اپنی بھلائی کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ ڈرائے جنوری اور ویگنوری لوگوں کو شراب نوشی ترک کرنے اور ویگن بننے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ ایک ساتھ صحت مند بننے کی کوشش کی بڑی مثال ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 10 لاکھ سے زائد لوگوں نے سیگریٹ چھوڑنے کی کوشش کی۔ یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ پورا سال میسج کے ذریعے سے سیگریٹ چھڑوانے کی کوشش کے بجائے ایک بڑے گروپ کی طرف سے مل کر کوشش کرنے سے سیگریٹ نوشی ترک کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ صحت کے حوالے سے روایتی میسجنگ صحت سے جڑے عدم مساوات کو بڑھا دیتی ہے کیونکہ نصیحت سننے والے ہر شخص کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اکثر ایسی مہمات صرف صحت مند لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنی صحت کو اہم سمجھتے ہیں، اِن کے پاس تعلیم، مالی ذرائع اور سماجی حمایت ہوتی ہے جو رویے میں تبدیلی لانے میں مدد کرتی ہیں۔ تاہم، صحت کا زیادہ خیال نہ رکھنے والے افراد بھی اپنی قریبی لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں جو صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر ہم تمام آبادی کی صحت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں مشہور لوگوں کو سب سے پہلے مہم کا حصہ بنانا پڑے گا۔ یہ اثرورسوخ والے افراد اپنے حلقۂ احباب کی جان ہوتے ہیں اور جب یہ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو لوگ ان سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
/urdu/pakistan-49597471
بی بی سی اردو کی نامہ نگار ترہب اصغر نے یہ ویڈیو جمعرات کی دوپہر سی پی او لاہور کے دفتر کے گیٹ پر اس وقت ریکارڈ کی جب وہ آئی جی پنجاب کے آفس یہ معلوم کرنے جا رہی تھیں کہ پولیس کے رویے میں اصلاحات کے معاملے میں کس حد تک پیشرفت ہوئی ہے۔
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں پولیس کے ہاتھوں مبینہ تشدد کے باعث ہلاک ہونے والے شہری صلاح الدین کی خبر کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ لاہور سے ایک پولیس اہلکار کی ایک معمر خاتون سے بدکلامی کی ویڈیو سامنے آ گئی۔ یہ ویڈیو بی بی سی اردو کی نامہ نگار ترہب اصغر نے جمعرات کی دوپہر سی پی او لاہور کے دفتر کے گیٹ پر اس وقت ریکارڈ کی جب وہ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے آفس یہ معلوم کرنے جا رہی تھیں کہ پولیس کے رویے میں اصلاحات کے معاملے میں کس حد تک پیشرفت ہو پائی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سی پی اور آفس کے احاطے میں کرسی پر ایک معمر خاتون بیٹھی ہیں اور ان کے سامنے کھڑے ایک پولیس اہلکار، جن کی شناخت بعد ازاں اے ایس آئی آصف علی کے نام سے ہوئی، اس بوڑھی خاتون پر چلا رہے ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ پولیس اہلکار مذکورہ خاتون کی لاٹھی کو اٹھا کر دور پھینکتے ہیں۔ ترہب اصغر کے مطابق موبائل سے ویڈیو بنانے کے عمل کے دوران پولیس اہلکاروں نے انھیں ایسا کرنے سے روکا مگر انھوں نے ویڈیو بنانا جاری رکھی۔ سوشل میڈیا صارفین جو ابھی صلاح الدین کی زیر حراست ہلاکت پر غم و غصے میں ہیں، ایک معمر خاتون کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور ویڈیو اتنی وائرل ہوئی کہ حکام کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔ نہ صرف اے ایس آئی آصف علی کو نوکری سے معطل کر دیا گیا بلکہ ان کو گرفتار بھی کر لیا ہے جبکہ پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ہماری نامہ نگار کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون پولیس کے رویے سے کافی نالاں نظر آرہی تھیں اور ابتدا میں انھوں نے نامہ نگار سے کہا کہ ’آپ بھی پولیس کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ سب ملے ہوئے ہیں، آئی جی پنجاب اور باقی تم سب ایک جیسے ہو۔‘ ترہب اصغر نے بتایا کہ خاتون خاصی عمر رسیدہ ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ انھیں باتیں سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ ’جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی آیا ہے جو آپ کا نام پتا بتا سکے تو اس کے جواب میں خاتون کا بس یہی کہنا تھا کہ سب ملے ہوئے ہیں، کچھ بتانے کا فائدہ نہیں۔‘ تاہم خاتون نے الزام لگایا کہ ’لاہور کے علاقے رائیونڈ میں مقامی پولیس کے ایس ایچ او نے ان کے گھر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کا سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔‘
/urdu/world-59465333
رزگر حسین کو اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ اپنی بیٹی ہادیہ سے بات کرنے کے اگلے روز رزگر نے ٹی وی پر دیکھا کہ برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں 27 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔
رزگر حسین نے عراق سے منگل کو رات گئے آخری مرتبہ اپنی بیٹی ہادیہ سے بات کی تھی۔ ہادیہ نے انھیں شمالی فرانس سے یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ وہ اپنی والدہ، بہن اور بھائی کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہونے والی ہے۔ ہادیہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ وہ بلاخر برطانیہ پہنچنے والی ہے۔ لیکن اس کے بعد سے رزگر حسین کو اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہادیہ سے بات کرنے کے اگلے روز رزگر نے ٹی وی پر دیکھا برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں 27 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہ ایسے بہت سے عراقی کردوں میں سے ایک ہیں جو گزشتہ بدہ کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان سمندری راستے انگلش چینل میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوب جانے کے سانحے کے بعد سے اپنے خاندان کے افراد کی خیریت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہادیہ اپنی چھوٹی بہن ہستی کے ساتھ۔ ہادیہ نے کشتی میں بیٹھنے سے چند لمحے پہلے اپنے والد سے فون پر بات کی تھی رزگر حسین کی اہلیہ 45 سالہ کاجل حسین، ان کی بیٹی 22 سالہ ہادیہ، 16 سال کا بیٹا مبین اور سات سال کی بیٹی ہستی شمالی عراق کے ایک کرد علاقے سے گئے تھے۔ رزگر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا خاندان یورپ جائے اور یہ کہ وہ بھی ان کے ساتھ جا کر اپنی پولیس کی نوکری کھو دیں۔ رزگر حسین کے اہلِ خانہ نے چار مہینے قبل اپنا سفر شروع کیا تھا۔ یہ لوگ سب سے پہلے ترکی پہنچے جہاں سے انھیں زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے سمگل کر کے اٹلی پہنچا دیا گیا۔ اٹلی میں وہ تین ہفتوں تک ایک کیمپ میں رہے۔ پہلی مرتبہ جب یہ لوگ برطانیہ کی جانب روانہ ہونے ہی والے تھے کہ فرانسیسی پولیس نے انھیں پکڑ لیا۔ دوسری مرتبہ ان کی کشتی میں ایندھن ختم ہو گیا تو ساحل پر واپس آنا پڑا۔ تیسری کوشش میں کشتی کی موٹر خراب ہو گئی اور ان افراد کو پولیس نے ایک مرتبہ پھر ساحل پر واپس پہنچا دیا۔ اگلے دن رزگر نے ٹی وی پر 27 لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر دیکھی جو سمندر پار کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں ابھی تک اس بارے میں سرکاری سطح پر کوئی اطلاع نہیں ملی ہے اور وہ اس سلسلے میں صحافیوں سے رابطے کر رہے ہیں کہ شاید ان کے پاس کوئی خبر ہو۔ ہادیہ کا خواب تھا کہ وہ برطانیہ پہنچ کر ڈاکٹر بنے گی۔ ہادیہ کی نانی قدریا امین کا کہنا ہے کہ انگلش چینل میں ہونے والے حادثے میں ہلاکتوں کی خبر نے ان کے دل کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ اپنی بیٹی اور نواسے نواسیوں کے لیے صرف دعا ہی کر سکتی ہیں۔
/urdu/entertainment-55929695
پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل پر دکھائے جانے والے ڈرامے رقصل بسمل میں اداکار عمران اشرف ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھنے والے گدی نشین موسیٰ کا کردار ادا کر رہے جو کہ زہرا نامی ایک طوائف کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
اس بارے میں آج کل پاکستان کے تیزی سے مقبول ہوتے ڈرامے ’رقص بسمل‘ میں ’موسی‘ کا مرکزی کردار نبھانے والے اداکار عمران اشرف تسلیم کرتے ہیں کہ ’ڈرامے میں موسی کا زہرا کا پیچھا کرنا جنسی ہراس کے زمرے میں ہی آتا ہے اور یہ نہ صرف ہمارے بلکہ دنیا کی ہر معاشرے کا ایک المیہ ہے۔‘ پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل ہم ٹی وی پر دکھائے جانے والے ڈرامے رقصل بسمل میں اداکار عمران اشرف ایک مذہبی اور پیر کے خاندان سے تعلق رکھنے والے گدی نشین موسیٰ کا کردار ادا کر رہے جو کہ زہرا نامی ایک طوائف کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کردار کو ادا کرنے والے عمران اشرف کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس کہانی کو سمجھ نہیں پائے۔ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو عورتوں کی عزت نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ اسے ایک باپردہ عورت ملے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ کہانی دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان پیش آنے والے ’خوبصورت‘ تصادم کی ہے۔‘ عمران اشرف کا کہنا ہے ’موسی کا زہرا کا پیچھا کرنا غلط ہے لیکن وہ اسے بار بار کہتا ہے کہ میں نے کبھی تمہارے گھر کا پتہ جاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی تم سے مطالبہ کیا کہ تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملو۔ موسیٰ تو زہرا کو شادی کی پیشکش کرتا ہے اور یہ ہر مرد کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی کو شادی کی پیشکش کر سکے۔‘ عمران اشرف لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں لیڈ رول میں نہیں لیا جاتا، اس سوال کے جواب میں انھوں نے اپنے ایکٹنگ کیرئیر کے دوران کی جانے والی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کئی سال ڈراموں میں معمولی کردار اس امید میں نبھائے کہ ایک دن انھیں مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر مرحلے میں اس کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ ایک عمران اشرف وہ ہے جو ڈرامے میں دس سین کرنے کے بعد کہتا تھا کہ مجھے کوئی سیکینڈ لیڈ کا کردار دے دیں، ایک عمران اشرف وہ ہے جو پانچ سال تک کام کرنے کے بعد بھی لوگوں سے کہتا تھا کہ اگر جگہ بنے تو ٹائٹل میں ڈال دیں اور ایک عمران اشرف وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کے کام کو نہیں مانتے۔‘
/urdu/world-56438041
چین کے صدر کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں کی بالمشافہ ملاقات دنیا کی دو سپر پاورز کے مابین اتار چڑھاؤ سے بھرپور رشتے میں بہت اہم سمجھی جارہی ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں سے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں مسلسل کشیدگی آئی ہے اور اب صورتحال کچھ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو نئی ’سرد جنگ‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں کی بالمشافہ ملاقات دنیا کی دو سپر پاورز کے مابین اتار چڑھاؤ سے بھرپور رشتے میں بہت اہم سمجھی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں مسلسل کشیدگی آئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماضی میں اتنے برے تعلقات کبھی نہیں تھے اور ممکن ہے کہ ان میں مزید خرابی ہو۔ اور اب صورتحال کچھ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو نئی ’سرد جنگ‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو کہ نصف صدی قبل امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے ہے اور جس نے بیسویں صدی کی آخری پانچ دہاہیوں میں عالمی تعلقات میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ، چین سوویت یونین سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ سوویت یونین اپنے دور عہد میں ہی امریکی جی ڈی پی کے 40٪ تک پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔ اسی کے ساتھ ہی چین نے جی ڈی پی کو اتنی ترقی دے دی ہے ہے جتنی چند دہائیوں میں امریکہ نے کی۔ چین ان حریفوں میں سب سے زیادہ طاقت ور ہے جن کا مقابلہ امریکہ نے انیسویں صدی میں کیا ہے۔ آنے والی دہائیوں میں ، یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ایک ہی پوزیشن پر رہیں گے۔ ویسے یہ ہمارے دور کی لازمی دشمنی ہے۔ پرانے محاورے اور جھوٹے تاریخی حوالوں کو ایک طرف رکھنا چاہیے۔ حقیقت میں ، یہ سرد جنگ -2 کی صورتحال نہیں ہے، یہ اس سے زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ چین کئی میدانوں میں امریکہ کا سب سے بڑا حریف ہے اور اب تک چین عالمی سپر پاور نہیں بن سکا، وہ ان علاقوں میں امریکہ کے لیے ایک بہت بڑی حد تک فوجی حریف ہے جو اس کی اپنی سلامتی کے لیے بھی اہم ہیں۔ چین امریکی صدر بائیڈن کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ان کی اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف چین کے ساتھ تنازعات کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ چین ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں موسمیاتی تبدیلی اور استحکام کے لیے تعاون کی توقع کیسے کرسکتا ہے جبکہ چین پر بہتر کاروباری پالیسی، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے اسٹریٹجک مقابلہ کو منظم کرنے کے تبدیل ہونے والا ہے۔ چین کے بہت سے مضبوط رخ اور بہت سی کمزوریاں ہیں۔ امریکہ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں، لیکن ایک بہت بڑا متحرک معاشرہ ہے جو اپنے آپ کو نئے سرے سے تلاش کرنے کے قابل ہے لیکن کووڈ 19 کی وبا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چین میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف چین ہی میں نہیں ہوتا۔ چین ایک عالمی طاقت ہے اور وہاں کا معاملہ پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے۔
/urdu/pakistan-61291670
گمان تھا کہ کم از کم عید کی تعطیلات میں سیاستدان اپنے اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے ساتھ نجی مسرتوں کا آنند لیں گے۔ مگر یہ امید بھی خوش فہمی نکلی۔ اب پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے فرمان ہے کہ انھیں چاند رات میں قریہ قریہ پھیل کے عید کی شاپنگ میں مصروف لوگوں کو امپورٹڈ حکومت آنے کے قومی نقصانات بتانے ہیں۔
مسجدِ نبوی کے واقعے پر ہر کس و ناکس اپنی اپنی مذمتی و غیر مذمتی رائے دے رہا ہے۔ مگر تحریکِ لبیک اور مولانا فضل الرحمان نے اگر کوئی ردِعمل دیا بھی ہے تو وہ دیگر بیانات کے بوجھ تلے کہیں دب دبا گیا۔ حالانکہ ماضیِ قریب میں اس سے کم سنگین واقعات پر ہم نے دونوں کو آسمان سر پہ اٹھاتے دیکھا ہے۔ حالانکہ خود سعودی حکام اپنے قوانین کی روشنی میں پکڑ دھکڑ اور چھان پھٹک کر رہے ہیں۔ انھوں نے فی الحال حکومتِ پاکستان سے کسی اضافی قانونی مدد کی درخواست بھی نہیں کی۔ پھر بھی رانا ثنا اللہ نے سعودیوں کو رضاکارانہ صلاح دی ہے کہ جو جو اس واقعہ میں ملوث ہے اسے ڈی پورٹ کر کے وطن واپس بھیجا جائے تاکہ قرار واقعی سزا مل سکے۔ لگتا ہے رانا صاحب کو سعودی نظامِ انصاف سے تسلی نہیں ہے۔ گمان تھا کہ کم از کم عید کی تعطیلات میں سیاستدان اپنے اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے ساتھ نجی مسرتوں کا آنند لیں گے۔ مگر یہ امید بھی خوش فہمی نکلی۔ اب پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے فرمان ہے کہ انھیں چاند رات میں قریہ قریہ پھیل کے عید کی شاپنگ میں مصروف لوگوں کو امپورٹڈ حکومت آنے کے قومی نقصانات بتانے ہیں اور عید کی نماز میں گلے ملتے وقت کان میں کہنا ہے ’آزادی، سی یو ان اسلام آباد‘۔ گمان تھا کہ کم از کم عید کی تعطیلات میں سیاستدان اپنے اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے ساتھ نجی مسرتوں کا آنند لیں گے۔ مگر یہ امید بھی خوش فہمی نکلی ادھر لاہور میں دھما چوکڑی کی دوسری قسط عید کے فوراً بعد دیکھنے کو ملے گی جب الیکشن کمیشن چھ مئی سے ان چھبیس پی ٹی آئی منحرفین کو نااہل قرار دینے کی درخواست سنے گا جن کے بل پر حمزہ شہباز کی نوزائیدہ حکومت ٹکی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس درخواست پر فیصلے کے لیے کم ازکم تیس دن درکار ہیں۔ گورنر عمر چیمہ کی قانونی و سیاسی بصیرت کے بارے میں تو اتنا نہیں معلوم البتہ پرویز الہی کی شہرت یہ ہے کہ وہ سیاسی شطرنج کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ مگر پچھلے ایک ماہ میں انھوں نے جو ’پرفارمنس‘ دکھائی اس سے تو گمان ہوتا ہے کہ ان کا پینتالیس سالہ سیاسی تجربہ شائد ایک سال کا ہے جسے چوالیس برس سے دھرایا جا رہا ہے۔ ایسے وقت جب مرکز میں شہباز سرکار محض دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی ہوئی ہے اور جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ اور ان کے صاحبزادے کی پنجاب سرکار ہوا میں معلق ہے۔ جادوگر زرداری کا سندھ قلعہ بظاہر محفوظ ہے۔ ان سے یہ قلعہ کوئی سیاسی منگول ہی چھین سکتا ہے۔ مگر ہمیں جو منگول درپیش ہے وہ شمشیر زنی و نیزہ بازی کے کرتب دکھانے کے بجائے گھوڑے کے سموں سے دھول اڑانے کا ماہر زیادہ لگتا ہے۔
/urdu/world-54860671
اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی کمزوریوں کی بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ نا انصافی ہوگی کہ ان کی سیاسی طاقت کی بات نہ کریں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ انھیں شکست ہو گئی ہے اور وہ عہدِ جدید میں چوتھے صدر بن گئے ہیں جو دوسرا دورِ صدارت حاصل نہ کر سکے۔
اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی کمزوریوں کی بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ نا انصافی ہوگی کہ ان کی سیاسی طاقت کی بات نہ کریں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ انھیں شکست ہو گئی ہے اور وہ عہدِ جدید میں چوتھے صدر بن گئے ہیں جو دوسرا دورِ صدارت حاصل نہ کر سکے۔ چار سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اگر نیو یارک کی مشہور ففتھ ایوینیو سڑک پر کسی کو گولی مار دیں تو بھی ان کے ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور لوگ ان کی حمایت کرتے رہیں گے۔ لیکن ان کی اپنی پارٹی میں کئی لوگ ایسے ہیں جو ان کے جارحانہ مزاج سے خائف ہو گئے۔ اگر امریکی الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں373 کاؤنٹیز میں جو بائیڈن نے ہلیری کلنٹن سے بہتر کارکردگی دکھائی جس کی مدد سے وہ پینسلوینیا، وسکانسن اور مشیگن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس سال کے صدارتی انتخاب میں وہی ہوا جو 2018 کے وسط مدتی انتخاب میں ہوا تھا۔ پڑھے لکھے رپبلکن جنھوں نے چار سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا، اس بار ان کو ووٹ دینے پر آمادہ نہ ہوئے کیونکہ وہ ان کے طرز عمل اور رویے سے نا خوش تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے اپنے سیاسی حامیوں کو بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ 2016 میں وہ 30 ریاستوں میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کے اقدامات سے لگتا تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کے صدر ہیں جنھوں نے ان کو ووٹ دیا ہے۔ لیکن اس سال کے انتخاب گذشتہ انتخاب جیسے نہیں تھے۔ اس بار صدر ٹرمپ غیر سیاسی شخص نہیں تھے، اس بار وہ صدر تھے۔ ان کا اپنی صدارت کا دفاع کرنا تھا۔ اور اس دورِ صدارت میں کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک 230000 امریکیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ جب وبا نہیں آئی تھی تو اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت 49 فیصد تھی اور ملک کی معیشت بھی کافی اچھی کارکردگی دکھا رہی تھی۔ انھوں نے اپنے خلاف ہونے والے مواخذے کو بھی شکست دے دی تھی اور یہ وہ تمام عناصر تھے جنھوں نے ماضی کے صدور کو دوسری بار صدر بننے میں مدد کی تھی۔ امریکہ میں رپبلکن پارٹی، ان کے قدامت پسند حامی ان کی واپسی کے خواہشمند ہوں گے۔ وہ قدامت پسندوں کی تحریک میں ایک اہم شخصیت کے طور پر گنے جاتے رہیں گے۔ ٹرمپ ازم کا شاید امریکی قدامت پسندی پر اسی طرح گہرا اثر ہو سکتا ہے جو صدر ریگن کے دور صدارت نے چھوڑا تھا۔
/urdu/pakistan-53760677
گلگت بلتستان انتظامیہ کے مطابق سفر کا ارداہ رکھنے والے تمام سیاحوں کو خطے میں داخل ہونے کے لیے کورونا وائرس ٹیسٹ کی رپورٹ ہمراہ رکھنا لازمی ہے بصورتِ دیگر سیاحوں کو واپس بھج دیا جائے گا۔
گلگت بلتستان انتظامیہ کے مطابق سفر کا ارادہ رکھنے والے تمام سیاحوں کو خطے میں داخل ہونے کے لیے کورونا وائرس ٹیسٹ کی منفی رپورٹ ساتھ لانا ہو گی بصورتِ دیگر سیاحوں کو واپس بھج دیا جائے گا۔ کورونا وائرس ٹیسٹ رپورٹ کا ہمراہ ہونا آٹھ اگست کو جاری کیے گئے مروجہ قواعد و ضوابط میں شامل تھا تاہم اب تک اس حوالے سے نرمی برتی جا رہی تھی اور سیاحوں کو صرف سکریننگ کر کے داخلے کی اجازت دی جا رہی تھی۔ انتظامیہ کے مطابق سیاحت کی اجازت ملنے کے بعد سے اب تک تین ہزار چھوٹی بڑی گاڑیاں گلگت بلتستان کے علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق خطے میں اس وقت 25 ہزار سیاح موجود ہیں۔ ’اس صورتحال میں حکومت نے لازمی قرار دیا ہے کہ کوئی بھی سیاح جو پاکستان کے کسی بھی علاقے سے گلگت بلتستان کے لیے سفر کا آغاز کرتا ہے وہ اپنے ساتھ اپنی کورونا وائرس رپورٹ لازمی رکھے گا۔‘ انھوں نے بتایا کہ سیاح صرف اس صورت میں گلگت بلتستان کا سفر کرے جب اس کی کورونا رپورٹ منفی ہو، اگر وہ پازیٹو ہے تو وہ گلگت بلتستان کی طرف سفر نہ کرے اور اگر انھوں نے اپنی میڈیکل رپورٹ حاصل نہیں کی تو وہ پھر بھی سفر نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں موجود عملے کو سختی سے ہدایت کردی گئی ہے کہ ہر سیاح کی رپورٹ چیک کی جائے۔ رپورٹ موجود نہ ہونے والے سیاح کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ہمارے کیمپوں میں پہچنے والے سیاحوں نے بتایا کہ ان کے پاس یہ معلومات نہیں تھیں کہ میڈیکل رپورٹ لازمی ہے۔ جس وجہ سے ان سیاحوں کو سکرینگ کرکے جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ’سب کچھ ہمارے منصوبے بندی کے مطابق چل رہا تھا۔ مگر اس وقت انتہائی پریشانی ہوئی جب بابو سر ٹاپ کے راستے سے گلگت بلتستان کی حدود ضلع دیامیر میں داخل ہوئے تو ہماری گاڑی کو روک لیا گیا تھا۔ ایک اور ایسے سیاح احتشام جدون اپنے خاندان کے ہمراہ 11 اگست کو ایبٹ آباد سے گلگت بلتستان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بابو سر ٹاپ کا راستہ چنا تھا کہ رات گلگت میں گزار سکیں اور اس کے بعد اپنی سیاحت کا آّغاز کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکس کی بڑی تعداد کیمپس پر فراہم کی جا چکی ہے۔ اگر سیاح کے پاس میڈیکل رپورٹ ہے اور ماسک نہیں تو وہ یہ ماسک کیمپ سے حاصل کرسکتا ہے۔ تفریحی مقامات، ہوٹلوں میں بھی ماسک استعمال کرنا لازمی ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاحوں کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہیں، مگر کورونا کے اس دور میں محفوظ سیاحت کے لیے جاری کردہ ایس او پی پر مکمل عمل در آمد کرنا سیاحوں اور پھر اس صنعت سے جڑے لوگوں کی ذمہ داری ہے۔
/urdu/pakistan-58452589
پاکستان کی سیاسی قیادت نے کوئٹہ بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی قوتوں کی ایما پر بننے والے دہشتگردی کے منصوبے کو خاک میں ملا کر ہمیں محفظوظ بنانے والے اپنے محافظین کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ایف سی اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کوئٹہ کے مستونگ روڈ پر ایف سی اہلکاروں کو بارودی جیکٹ اور بارود سے بھرے موٹرسائیکل کے ذریعے ہدف بنایا۔ ملک کی سیاسی قیادت نے کوئٹہ بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرونی قوتوں کی ایما پر بننے والے دہشتگردی کے منصوبے کو خاک میں ملا کر ہمیں محفظوظ بنانے والے اپنے محافظین کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے کوئٹہ میں فورسز پر حملے کی شدید مذمت کی ہے اور انھوں نے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ امن کے مکمل حصول تک جاری رہے گی۔ صوبائی وزیر داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شرپسندی کے ایسے واقعات سے فورسز کا مورال پست نہیں ہوگا۔ دفاعی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اگست کے مہینے کے بعد کوئٹہ میں ہونے والے اس خود کش حملے کو ایک بڑا واقعہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرینڈ کافی عرصے سے چل رہا تھا اور متعدد حملے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ہورہے تھے۔ 'افغان طالبان کے دوبارہ افغانستان میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے بہت سارے بیانات آئے اور ان کے حملے بھی بڑھ گئے ہیں'۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ ماہ خیبرپختونخوا کے دوسرحدی اضلاع میں حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور بنوں کے علاقے سے بھی بد امنی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو حوصلہ ملا ہے۔ سابق لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسود نے تجویز دی ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اپنے اہلکاروں کو مسلح کرنا ہو گا، سرحدوں کو محفوظ بنانا ہو گا اور سرحد کے اُس طرف (افغانستان) سے آنے والوں پر کڑی انٹیلیجنس اور نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
/urdu/world-51153503
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں امریکہ سے تجارتی جنگ کے پس منظر میں گزشتہ برس چین کی اندرونی طلب میں شدید کمی آئی ہے اور معیشت کی شرحِ نمو تین دہائیوں میں سب سے کم رہی ہے۔
چینی حکومت گزشتہ دو برسوں سے ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے کئی ایک اقدامات کر رہی ہے۔ گزشتہ برس چین کی معیشت کی شرحِ نمو تین دہائیوں میں سب سے کم رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں سنہ 2019 میں پچھلے برس کی نسبت صرف 6.1 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ گزشتہ 29 برسوں میں سب سے کم اضافہ ہے۔ ملک کو اندرونی طور پر طلب میں کمی اور امریکہ کے ساتھ تلخ تجارتی جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چینی حکومت گزشتہ دو برسوں سے ترقی کی شرح میں اضافے کے لیے کئی ایک اقدامات کر رہی ہے۔ یہ حالات امریکہ سے دو برسوں سے جاری تجارتی تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن اب امریکہ سے تعلقات بہتر ہونے کے امکانات کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ چین کے مینوفیکچرنگ شعبے اور کاروباری حلقوں کے اعتماد میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ رواں ہفتے امریکہ اور چین نے نے تجارتی تعلقات میں بہتری کے لیے ’پہلے فیز‘ کا معاہدہ کیا ہے۔ تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ابھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس پیش رفت سے کچھ خاص استفادہ ہو گا۔ کم شرحِ نمو کی کے جواب میں توقع کی جارہی ہے کہ چین اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لیے بہت سارے اقدامات کا اعلان کرے گا۔ حکومت نے کم شرحِ نمو کو بہتر کرنے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور مقامی حکومتوں کو بڑے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کی تعمیر کے لیے بڑی تعداد میں بانڈز بیجنے کی اجازت دیے جانے سمیت کئی قسم کے اقدامات کیے ہیں۔ چین نے اپنے بینکوں کو بھی قرصے دینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس سہولت کا خاص کر فائدہ چھوٹے کاروبار کرنے والوں تک پہنچا ہے۔ مقامی کرنسی کے لحاظ سے نئے قرضوں کے حجم کا نیا ریکارڈ بنا ہے جو کہ گزشتہ برس 2.44 کھرب امریکی ڈالر ہے۔ فی الحال چینی معیشت کی شرحِ نمو میں اضافہ تیزی سے نہیں ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سرمایہ کاری کی نمو میں ریکارڈ حد تک کمی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کیے گئے معاہدے کے ’پہلے فیز‘ میں چین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ امریکہ سے سنہ 2017 کی درآمد کی نسبت 200 ارب ڈالر مالیت کی زیادہ درآمد کرے گا اور اپنے ملک میں انٹلیکچؤل پراپرٹی رائیٹس کے قواعد و ضوابط کے بہتر اطلاق کے لیے اصلاحات کرے گا۔ اس کے عوض امریکہ نے حالیہ برسوں میں چین کی درآمد پر عائد کیے جانے والے درآمدی ٹیکسوں کو نصف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ واشنگٹن میں ایک مقام پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین سے ہونے والا نیا معاہدہ امریکی معیشت میں بڑی ’تبدیلی‘ لائے گا۔
/urdu/world-60650994
جنگ زدہ یوکرین میں ایک انڈین ڈاکٹر گزشتہ ایک ہفتے سے اپنے گھر کے تہہ خانے میں اپنے دو پالتو درندوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کالی چیتی اور دوسرا تیندوا ہے۔
جنگ زدہ یوکرین میں ایک انڈین ڈاکٹر گزشتہ ایک ہفتے سے اپنے گھر کے تہہ خانے میں اپنے دو پالتو جانوروں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کالی چیتی اور دوسرا تیندوا ہے۔ گیری کمار پٹیل نے ان جانوروں کو کیئو کے چڑیا گھر سے خریدا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کے بغیر وہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔ گیری کمار پٹیل مشرقی یوکرین کے خطے ڈونباس کے ایک چھوٹے سے شہر سیویروڈونیسک میں گزشتہ چھ سال سے رہ رہے ہیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے گیری کمار کرفیو میں نرمی کے دوران صرف اپنے ان پالتو درندوں کیا کھانا خریدنے کے لیے اپنے چھوٹے سے تہہ خانے سے باہر نکلتے ہیں۔ نر تیندوے کی عمر 20 ماہ ہے جبکہ چیتی چھ ماہ کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پہلے لوہانسک میں رہتے تھے جہاں جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود روس کے حمایت یافتہ باغی سنہ 2014 سے یوکرینی فوج سے لڑ رہے ہیں۔ اس علاقے میں لڑائی کی وجہ سے ان کا گھر اور ریسٹورنٹ تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے 100 کلومیٹر دور سیویروڈونیسک منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے ایک نیا گھر اور اپنے نئے جانور خریدے اور طب کے شعبے میں کام کرنا شرع کیا۔ گیری کمار پٹیل نے بتایا کہ وہ سنہ 2007 میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یوکرین آئے تھے۔ سنہ 2014 سے وہ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور اب سیویروڈونیسک میں ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرتے ہیں جو جنگ کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پرائیوٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں۔ سیویروڈونیسک میں گیری کمار اپنے چھ کمروں کے دو منزلہ مکان میں رہتے ہیں جس میں ان جانوروں کے لیے ایک مخصوص جگہ بھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اپنے پالتو جانوروں پر خرچ کر دیتے ہیں، ان کے پاس تین کتے بھی ہیں۔ وہ اضافی آمدنی کے لیے اپنے یو ٹیوب چینلز بھی چلاتے ہیں جہاں وہ اپنی چیتی اور تیندوے کی ویڈیوز لگاتے ہیں۔ ان کے 85 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔ 'مجھے ہمیشہ سے ایسے درندوں میں دلچسپی رہی ہے، میں ساوتھ انڈین فلم انڈسٹری کے سٹار چرنجیوی کی ایک فلم میں چیتوں کے ساتھ مناظر سے بہت متاثر تھا۔' گیری کمار کے والد ایک بینک مینیجر اور والدہ سکول ٹیچر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے جانوروں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے گھر میں کتے بلیاں اور پرندے رکھا کرتے تھے۔ گیری کمار نے کہا کہ ان کے گھر سے روس کی سرحد صرف 80 کلومیٹر دور ہے لیکن روسی فوج کی وجہ سے وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ علاقے میں بجلی کی سپلائی اور انٹرنیٹ اکثر بند ہو جاتا ہے لیکن گیری کمار کسی نہ کسی طرح سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے اپنی ویڈیوز پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔
/urdu/sport-55174661
پاکستانی ٹیم میں روز نئے کیس سامنے آنے کے بعد عام ذہنوں میں کئی سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا اس کی وجہ ٹیم کی روانگی سے قبل پاکستان میں بے احتیاطی تھی؟
پاکستانی ٹیم میں روز نئے کیس سامنے آنے کے بعد عام ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا اس کی وجہ ٹیم کی روانگی سے قبل پاکستان میں بے احتیاطی تھی یا کیا کھلاڑیوں کو دوران سفر یا پھر نیوزی لینڈ پہنچنے کے بعد کورونا ہوا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں پاکستانی سکواڈ کی پاکستان میں ہونے والی کورونا ٹیسٹنگ کے درست ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ ٹیسٹنگ شوکت خانم ہسپتال جیسے قابل بھروسہ ادارے میں ہوئی تھی جس پر انھیں مکمل اعتماد ہے۔ وسیم خان کہتے ہیں کہ پاکستانی سکواڈ نے لاہور سے کرائسٹ چرچ تک طویل فضائی سفر کیا ہے لیکن ہمیں یہ پتا نہیں چل رہا ہے کہ کیا ٹرانزٹ فلائٹس میں کھلاڑیوں کو یہ انفیکشن شروع ہوا ہے۔ وسیم خان کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے لیکن اس کا پتہ دیر سے لگتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان کرکٹز کے جسم میں پہلے سے ہو اور بعد میں ظاہر ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ دیکھا جائے تو ٹیم کی نیوزی لینڈ روانگی سے لے کر وہاں پہلی ٹیسٹنگ تک تقریباً 48 گھنٹے گزر چکے تھے اور اس دوران کسی بھی مرحلے پر کھلاڑی اس میں مبتلا ہو سکتے تھے لہٰذا وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے کیوں ہوا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کورونا وائرس کے بارے میں تحقیق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو بعض اوقات 10ویں یا 11ویں دن اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور اسی لیے قرنطینہ کی مدت 14 روز رکھی گئی ہے کیونکہ اس دوران وائرس سے متاثر ہونے یا ناہونے کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اب تک کورونا کے مثبت نتائج کے حامل دس کرکٹرز کے نام نیوزی لینڈ کی وزارت صحت اور دونوں کرکٹ بورڈز نے ظاہر نہیں کیے ہیں لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ ان دس میں سے دو کرکٹرز پاکستان شاہینز ٹیم کا حصہ ہیں جنھوں نے اکانومی کلاس میں سفر کیا تھا۔ اس سوال کا جواب بھی وثوق کے ساتھ دینا ممکن نہیں ہے۔ اس بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کہتے ہیں کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ میں جا کر یہ ہوا ہے، چونکہ کورونا کا پتا دیر سے لگتا ہے تو ممکن ہے کہ کھلاڑی سفر کے دوران آپس میں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں اور یہ انفیکشن ایک سے دوسرے کو لگا ہو۔ پاکستانی ٹیم 24 نومبر کو نیوزی لینڈ پہنچی تھی۔ اس کی قرنطینہ کی مدت آٹھ دسمبر کو ختم ہو گی جس کے بعد وہ کرائسٹ چرچ سے کوئینز ٹاؤن کی جانب روانہ ہو گی۔
/urdu/regional-61304114
23 سالہ لیتھارا کےسی نے 26 اپریل کو پٹنہ کے راجیو نگر میں اپنے کرائے کے کمرے میں مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔
23 سالہ لیتھارا کےسی نے 26 اپریل کو انڈیا کے شہر پٹنہ میں واقع اپنے کرائے کے کمرے میں مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ انھیں سپورٹس کے کوٹہ پر انڈین ریلوے میں نوکری ملی تھی۔ لیتھارا 15 نومبر 2019 سے ایسٹ سینٹرل ریلوے میں جونیئر کلرک کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ 26 اپریل کو لیتھارا شام چھ بجے کے قریب اپنے گھر واپس آئیں اور خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ کیرالہ میں رہنے والے ان کے والدین نے رات کو ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ ان کے پڑوسی نشانتھ نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’لیتھارا کا خاندان مالی طور پر بہت کمزور پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ وہ سرکاری ملازمت میں تھیں، اس لیے خاندان کے لیے وہ واحد امید تھی۔ اس نے شاید چند لاکھ روپے کا قرض بھی لیا تھا۔ چند دن پہلے 11 اپریل کو ہی وہ گھر آئی تھیں اور تین دن کے بعد پٹنہ میں کام پر واپس چلی گئیں۔ وہ ایک خوش مزاج لڑکی تھی۔‘ لیتھارا کے ماموں راجیون نے پٹنہ کے راجیو نگر پولیس سٹیشن میں 27 اپریل کو درج کرائی گئی نامزد ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ’لیتھارا نے مجھے پہلے فون پر بتایا تھا کہ میرا باسکٹ بال کوچ جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کر رہا ہے، وہ مجھ پر دباؤ بھی ڈال رہا ہے۔ وہ اثر و رسوخ والا شخص ہے، میں اس کے خلاف شکایت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ مجھے (راجیون) کو پورا یقین ہے کہ لیتھارا نے اپنے کوچ روی سنگھ کے ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کی وجہ سے تنگ آ کر خودکشی کر لی ہے۔‘ تاہم لیتھارا کی خودکشی کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’کچھ لڑکے، لڑکیاں کھیلنے کے لیے میدان میں آتی ہی نہیں تھیں۔ اس بابت میں نے 19 اپریل کو ہی اپنے سینیئر حکام سے تحریری طور پر شکایت کی تھی، اگر انھیں کسی قسم کی شکایت تھی تو خاتون کھلاڑی کو چاہیے تھا کہ وہ سینیئر حکام سے اس کی شکایت کرتیں، لیکن میرے خلاف ایسی کوئی شکایت نہیں کی گئی۔‘ راجیو نگر پولیس سٹیشن کے انچارج نیرج کمار سنگھ نے کہا: ’اس معاملے میں تحقیقات جاری ہے، کوچ کو پوچھ گچھ کے لیے دو بار بلایا گیا ہے۔‘ کیرالہ کے وزیر اعلی پنّارائی وجین کی طرف سے وزیر اعلی نتیش کمار کو 28 اپریل کو لکھے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ ’خاندان کا ماننا ہے کہ ایسے حالات نہیں تھے جو لیتھارا کی خودکشی کا باعث بن سکتے تھے۔ اس لیے اہلخانہ کی جانب سے ان کی بے وقت موت کی تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے۔‘
/urdu/regional-53205880
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ جس رفتار سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس کے باعث صحت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ جس رفتار سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس کے باعث صحت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا کہ جون کے آغاز میں کیسز میں اضافے کے باعث ہسپتالوں میں بستروں کی کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نئی دہلی اب ملک کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ بن گیا ہے اور یہاں 73 ہزار سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ڈھائی ہزار اموات بھی ہوئی ہیں۔ تاہم وزیرِ اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ’دوسرے ممالک کے مقابلے میں وائرس سے نمٹنے کے لیے حالات بہتر ہیں۔‘ انھوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے دیے گئے ایک خطاب میں کہا کہ یہ اس لیے ہے کیونکہ انڈیا نے مارچ سے ملک بھر میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا اور لوگوں نے بھی احتیاط برتی تھی۔ اب تک پورے ملک میں پانچ لاکھ سے زائد کورونا وائرس کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جبکہ 15 ہزار کے قریب افراد اس وائرس سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ تاہم تقریباً دو کروڑ آبادی کے شہر نئی دہلی میں کورونا وائرس کیسز دیگر شہروں کی نسبت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے تقریباً ایک تہائی گذشتہ ہفتے رپورٹ ہوئے۔ وزیرِ اعلیٰ کیجریوال نے کہا کہ ’ہماری توقع سے زیادہ تیز رفتار سے کیسز میں اضافہ ہوا اور جون کے پہلے ہفتے میں شہر میں بستروں کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم تقریباً دو کروڑ آبادی کے شہر نئی دہلی میں کورونا وائرس کیسز دیگر شہروں کی نسبت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے تقریباً ایک تہائی گذشتہ ہفتے رپورٹ ہوئے دلی میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے شہر میں وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کرنا شروع کر دی ہے تاکہ دارالحکومت میں پھیلاؤ کی وسعت کے بارے میں جان سکیں۔ ڈاکٹر سندیپ سالوی جو سانس کی بیماریوں کے حوالے سے ایک مشہور محقق ہیں نے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وائرس کے پھیلاؤ میں کمی ایک ہی صورت میں لائی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس مرض کی جلدی تشخیص ہو سکے اور ان افراد کو خودساختہ تنہائی میں رکھا جائے۔‘ تاہم لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انڈیا اس وقت دنیا میں مصدقہ متاثرین کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر پر امریکہ، دوسرے پر برازیل جبکہ تیسرے پر روس ہے۔ تاہم ایک اعشاریہ تین ارب سے زائد آبادی والے ملک کے اعتبار سے یہاں متاثرین کی کل تعداد نسبتاً کم ہے۔ ہر 10 لاکھ افراد میں 400 سے کم اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
/urdu/pakistan-61032139
موجودہ وزیراعظم عمران خان سے قبل دو وزرائے اعظموں نے عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرتے ہوئے حزب اختلاف کو شکست دی۔ 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی جبکہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
محمد خان جونیجو کے بعد آنے والی حکومتوں میں بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف، میر ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی کو بھی اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پڑی۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان سے قبل دو وزرائے اعظم نے عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرتے ہوئے حزب اختلاف کو شکست دی۔ سنہ 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ سنہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو سپیکر کی جانب سے تحریری طور پر صدر پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا اور سیکرٹری کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے جن کا الیکشن بھی اوپن ووٹ کے ذریعے ہو گا۔ قانون کے مطابق عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اسی روز سپیکر نامزدگی جمع کروانے کا اعلان کریں گے جس کے بعد ان کی چھان بین ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کروانا چاہتے تھے۔ اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر یہ فیصلہ متحدہ اپوزیشن کرے گی کہ کب انتخابات کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کی رولنگ کو غیر آئینی تو قرار دیا ہے لیکن ڈپٹی سپیکر کے خلاف کوئی کارروائی تجویز نہیں کی نہ ہی اب تک متحدہ اپوزیشن کی جانب سے کسی کارروائی کا اعلان یا مطالبہ سامنے آیا۔ یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت کے موقع پر صدر اور وزیر اعظم کی کارروائیوں کو عدالتی احکامات کے تابع کیا تھا جبکہ تحریری حکم میں سپیکر قومی اسمبلی کو بھی ان احکامات کا تابع کیا گیا ہے۔ ان کی ساری کوشش ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ایسا بیانیہ کھڑا کریں کہ جس میں لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کے خلاف جو ہونے جا رہے ہیں وہ دراصل امریکی سازش ہے اور دوسرے اس کا حصہ ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے وزیر اعظم کے امیدوار شہباز شریف نے گذشتہ روز اُنھیں مفاہمت کی پیشکش کی تھی، تو کیا عمران خان اپوزیشن سے مذاکرات کر سکتے ہیں؟ نہیں! آصف زرداری اور شریف برادران کے بارے میں ان کا جو بیانیہ رہا ہے اس میں مذاکرات عمران خان کی ڈکشنری میں ہی نہیں ہے۔
/urdu/pakistan-54156016
سابق آئی جی پولیس افتخار رشید کے مطابق تفتیش میں کچھ کامیابیاں ملنے کے بعد کیس کی ادھوری تفصیلات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ کسی کیس کی تفتیش کے دوران جب تک ملزم گرفت میں نہ آ جائیں کسی قسم کی تفصیلات منظر عام پر آ جانے سے فائدہ ملزمان کو ہو سکتا ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹرز جنرل آف پولیس کے صدر افتخار رشید کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پی پنجاب انعام غنی نے تفتیش میں کچھ کامیابیاں ملنے کے بعد کیس کی ادھوری تفصیلات ظاہر کی ہیں جو مناسب نہیں۔ انھوں نے کہا کہ کیس کی تفتیش کے دوران جب تک ملزم گرفت میں نہ آ جائیں اس وقت تک کسی قسم کی تفصیلات منظر عام پر آجانے سے اس کا فائدہ ملزمان کو ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ’کسی بھی کیس کی تفتیش کے دوران رازداری انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس دوران بیان بازی سے نہ صرف پرہیز کرنا چاہیے بلکہ میڈیا کو بھی تفتیش کے اہم نکات نہیں بتانے چاہییں۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران نجانے کیوں مختلف قسم کی تفصیلات منظر عام پر آتی رہی ہیں جس سے ممکنہ طور تفتیش کو بھی نقصاں پہنچا اور ملزم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ سنیچر کی شام کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے کہا تھا کہ لاہور کے قریب موٹروے پر چار روز قبل ایک خاتون سے ریپ کرنے والے ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے مگر اب تک میڈیا پر قبل از وقت خبریں چلنے سے ملزمان فرار ہو گئے اور پولیس انھیں گرفتار نہیں کر سکی۔ اس کے بعد انھوں نے اسی پریس کانفرنس میں ملزمان کی شناخت ظاہر کی تھی۔ طاہر عالم کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پی پنجاب نے جو پریس کانفرنس کی تھی، وہ اسی دباؤ کا نتیجہ تھی جس میں انھوں نے اپنی تفتیش کے تمام نکات اور بہت سی ادھوری تفصیلات بھی عوام تک پہنچا دیں جس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رازداری کی اہمیت کا اندازہ قصور میں زینب کیس سے لگایا جاسکتا ہے جس میں حکومت اور پولیس پر بہت دباؤ تھا مگر اس کیس کی تفتیش کے دوران پولیس اور حکومت میڈیا کے ذریعے سے عوام سے رابطہ بھی رکھ رہی تھی مگر میڈیا سمیت حکومت کو بھی کچھ پتا نہیں تھا کہ تفتیش کن نکات پر ہو رہی ہے۔ ’زینب کیس میں مجرم کی گرفتاری میں کچھ تاخیر ہونے پر تنقید بھی ہو رہی تھی مگر پولیس اس تنقید کے باوجود اپنا کام کرتی رہی۔ پولیس نے مجرم کی شناخت اور ثبوت اس کی گرفتاری سے پہلے اکھٹے لر لیے تھے مگر جب تک پولیس نے اپنی تفتیش کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں کیا اس وقت تک کوئی بھی چیز منظر عام پر نہیں آئی تھی۔‘
/urdu/science-58151785
سنگاپور کے ایک ہسپتال میں محض 212 گرام وزن کے ساتھ وقت سے پہلے پیدا ہونے والی ایک بچی کو 13 ماہ تک انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔
سنگاپور کے ایک ہسپتال میں محض 212 گرام وزن کے ساتھ وقت سے پہلے پیدا ہونے والی بچی کو 13 ماہ تک انتہائی نگہداشت میں رکھنے کے بعد ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس بچی کو دنیا کی ’سب سے چھوٹی بچی‘ کہا جا رہا ہے۔ پیدائش کے وقت اس ننھی بچی کا وزن اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک سیب کا ہوتا ہے اور اس کا قد صرف 24 سینٹی میٹر تھا۔ کویک یو شوان نامی بچی کی پیدائش حمل کے صرف 25 ہفتوں بعد ہوئی تھی جو 40 ہفتوں کے اوسط دورانیے سے بہت کم ہے۔ یونیورسٹی آف آئیوا کی سب سے ننھے بچوں کی رجسٹری کے مطابق اس سے پہلے یہ ریکارڈ امریکہ کی ایک بچی کا تھا جس کا سنہ 2018 میں پیدائش کے وقت وزن صرف 245 گرام تھا۔ یو شوان کی والدہ پری ایکلیمپسیا نامی عارضے میں مبتلا ہو گئی تھیں جس میں بلڈ پریشر میں انتہائی اضافے کے باعث ماں اور بچے کے اہم اعضا متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سنگاپور کے نیشنل یونیورسٹی ہسپتال (این یو ایچ) کے مطابق بچی کی 'زندہ بچنے کی امید بہت کم تھی'۔ پیدائش کے وقت اس ننھی بچی کا وزن اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک سیب کا ہوتا ہے اور اس کا قد صرف 24 سینٹی میٹر تھا ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'پیدائش کے وقت صحت کی پیچدگیوں اور دیگر مسائل کے باوجود ان کی ثابت قدمی اور ان کی نشونما نے ان کے اردگرد موجود افراد کو متاثر کیا ہے اور یہ انھیں ایک غیر معمولی 'کووڈ 19 بے بی' بناتا ہے یعنی بحران میں امید کی کرن۔' ہسپتال میں یو شوان پر مختلف طریقہ علاج آزمائے گئے اور انھیں زندہ رکھنے کے لیے مختلف مشینوں کی ضرورت بھی پڑی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی صحت اور نشونما میں بہتری آتی رہی اور اب ان کی طبیعت اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ انھیں ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا جائے۔ یو شوان اس وقت بھی پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہیں اور انھیں گھر پر سانس لینے کے لیے مشینوں کی مدد درکار ہو گی۔ تمام ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ اس میں بھی بہتری آئے گی۔ ان کی والدہ وانگ می لنگ نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یو شوان کی پیدائش اور ان کا وزن اور صحت ان کے لیے بھی ایک دھچکا تھا کیونکہ ان کے چار سالہ بیٹے کی پیدائش معمول کے مطابق ہوئی تھی۔ یو شوان کے والدین ان کے ہسپتال میں طویل علاج کا خرچہ کراؤڈ فنڈنگ مہم کے ذریعے پورا کر سکے ہیں جس میں انھیں دو لاکھ 70 ہزار ڈالر کے عطیات موصول ہوئے۔
/urdu/science-49869315
برطانیہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جلد کا ایک مہلک کینسر جسے ایک دہائی قبل لاعلاج تصور کیا جاتا تھا اب اس سے متاثرہ 50 فیصد سے زیادہ افراد بچ سکتے ہیں۔
برطانیہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جلد کا ایک مہلک کینسر جسے ایک دہائی قبل لاعلاج تصور کیا جاتا تھا اب اس سے متاثرہ 50 فیصد سے زیادہ افراد بچ سکتے ہیں۔ دس سال قبل جلد کے اس مرض میں مبتلا 20 میں سے صرف ایک شخص ہی میلانوما کے آخری مرحلے میں تشخیص کے بعد پانچ سال تک زندہ بچتے تھے جبکہ زیادہ تر چند مہینوں میں ہلاک ہو جاتے تھے۔ لیکن ایک طبی ٹرائل میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام پر زین کسنے والی دواؤں کے استعمال سے اب 52 فیصد افراد کم از کم پانچ سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ میلانوما یا جلد کی رسولی برطانیہ میں پانچواں سب سے عام کینسر ہے اور اس سے ہر سال تقریباً 2300 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہو جائے تو بچنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ کینسر زیادہ جارح ہو جاتا ہے اور جسم میں پھیلنے لگتا ہے (جسے میٹاسٹیٹک کہا جاتا ہے) تو بچنے کی امید انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا: 'کینسر کے علاج کے ماہرین کے خیال میں میلانوما دوسرے قسم کے سرطانوں سے مختلف ہے اور ایک بار جب پھیلنے لگے تو اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا ہے۔' انھوں نے کہا: 'ایک ایسے مرض کے علاج کے متعلق یہ انتہائی غیر معمولی تبدیلی ہے جس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ ہر قسم کے کینسروں میں اس کا علاج اور تشخیص انتہائی مشکل ہے۔' جب انھیں بتایا گيا کہ ان کا کینسر لاعلاج ہے تو یہ سن کر وہ 'مکمل طور پر دم بخود' رہ گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایمینوتھراپی کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا نہیں تھا۔ جتنے مریض بچ گئے ہیں اب ان میں سے دو تہائی کو کینسر کے مزید علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ نیوولوماب نامی دوا خون کے سفید خلیوں جنھیں پی ڈی-1 کہا جاتا ہے اس کے آف سوئچ کو بلاک کر دیتی ہے جبکہ ایپیلیموماب اسی قسم کے ایک دوسرے سوئچ کو روک دیتی ہے جسے سی ٹی ایل اے 4 کہا جاتا ہے۔ پروفیسر لارکن نے کہا: 'ایک ہی ساتھ دونوں دواؤں کے دینے کا مطلب ہے کہ آپ مدافعتی نظام سے ایک کے بجائے ایک ساتھ دو بریک ہٹا دیتے ہیں جس سے مدافعتی نظام جس رسولی کو پہلے نہیں پہچان سکتا تھا اس کی پہچان کر لیتا ہے اور اس کو برباد کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔' یہ کینسر کے کیموتھراپی جیسے دوسرے علاج کے بالکل برعکس ہے جو کہ جوں ہی روکا جاتا ہے اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ 'اور اس پر ابھی کام جاری ہے تاکہ دوسرے قسم کے کینسر کے مریض ان جدید اور اختراعی قسم کے علاج سے مستفید ہو سکیں۔'
/urdu/regional-54231282
اب تاج محل دیکھنے کے لیے صرف پانچ ہزار سیاحوں کو روزانہ داخلے کی اجازت ہوگی اور ملک میں کووڈ 19 کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے حفاظتی اقدامات پر سختی کے ساتھ عمل در آمد کیا جائے گا۔
تاج محل کے دروازے چھ ماہ بعد سیاحوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہ یادگار پہلی بار اتنے لمبے عرصے کے لیے بند کی گئی تھی۔ اب یہاں صرف پانچ ہزار زائرین کو روزانہ داخلے کی اجازت ہوگی اور ملک میں کووڈ 19 کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے حفاظتی اقدامات پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ تاج محل دنیا میں سیاحوں کے پسندیدہ ترین مراکز میں شامل ہے جہاں کورونا وبائی امراض سے پہلے روزانہ 70 ہزار سے زیادہ افراد اس کے دیدار کو پہنچتے تھے۔ اسے آخری بار سنہ 1978 میں مختصر وقت کے لیے اس وقت بند کیا گیا تھا جب آگرہ شہر میں، جہاں یہ واقع ہے، سیلاب آیا تھا۔ اور اس سے پہلے یہ یادگار انڈیا اور پاکستان کے مابین ایک جنگ کے دوران سنہ 1971 میں کچھ دنوں کے لیے بند کی گئی تھی۔ حکام نے بتایا کہ داخل ہونے والے دروازے پر سیاحوں کا درجہ حرارت چیک ہو گا اور آنے والوں کو ٹکٹ خریدنے کے لیے ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقے استعمال کرنے کو کہا گیا ہے۔ انہیں تاج محل کے کیمپس میں سماجی دوری کا خیال رکھنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ اگرچہ زائرین سیلفیاں لے سکتے ہیں لیکن گروپ فوٹو کی اجازت نہیں ہے۔ مسٹر سنگھ نے کہا: 'لیکن وہاں کوئی بھیڑ نہیں ہے، ایسا لگتا ہی نہیں کہ آپ تاج محل دیکھنے آئے ہیں۔ میرے خیال سے جب تک (کورونا) کیسز میں اضافہ ہوتا رہے گا اس وقت تک بہت سارے لوگ ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔' انڈیا میں اب تک کورونا کے 50 لاکھ سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور اتر پردیش، جہاں تاج محل واقع ہے، وہ ملک کی پانچویں سب سے متاثرہ ریاست ہے۔ تاج محل کو دیکھنے کے لیے روزانہ تقریبا 70 ہزار لوگ پہنچتے تھے تاج محل باغات سے گھرا ہوا ہے جہاں زائرین چہل قدمی کرنے اور تصاویر کھینچنے میں کافی وقت صرف کرتے ہیں۔ لیکن مقبرہ ایک بند جگہ ہے جس میں کوئی وینٹیلیشن نہیں ہے جس سے کووڈ 19 کے ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سوموار کو تاج محل دیکھنے کے لیے دہلی سے کار پر آگرہ آنے والے گوتم شرما نے کہا کہ وہ مہینوں سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے۔ تاج محل کے دروازے پر پیر کی صبح جب وہ کھلا تو کم ہی سیاح موجود تھے جو کہ تاریخی طور پر وہاں کا عام ماحول بالکل نہیں ہے۔ یہ شاید انڈیا کی سب سے مشہور یادگار ہے اور عام طور پر ہر غیر ملکی معززین کے سفر کا یہ حصہ ہوتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ نے فروری میں تاج کا دورہ کیا تھا۔ یادگار کا دورہ کرنے والے دیگر عالمی رہنماؤں میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی شامل ہیں۔
/urdu/science-57507189
ایک نئی تحقیق کے مطابق سیلیکانتھ نسل کی مچھلی 20کی عمر برس نہیں بلکہ ایک صدی تک ہو سکتی ہے۔
مچھلی کی ایک نہایت قدیم قسم جس کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس نسل کی مچھلیاں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتیں، اب ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس مچھلی کی عمر ایک سو برس تک ہو سکتی ہے۔ اب سے پہلے عام تصور یہی تھا کہ ’زندہ فوسل‘ کہلائی جانے والی سیلیکانتھ نسل کی مچھلی کی اوسط عمر تقریباً 20 برس ہوتی ہے، لیکن نئے اندازوں کے مطابق شارک مچھلی کی طرح، سمندری حیات کی یہ قسم بھی ایک سو سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ سیلیکانتھ کو بھی ’زندہ فوسل‘ سمجھا جاتا ہے، یعنی ایسا جانور جس کی نسل میں لاکھوں برس میں کوئی ارتقاع نہیں ہوا ہے اور اس قبیلے کی دیگر سمندری حیات معدوم ہو چکی ہے۔ یہ انکشاف فرانسیسی ماہرین نے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہوئی ایک سیلیکانتھ مچھلی کی کھال پر چھلکوں کے نشانات کی بنیاد پر کیا ہے، تقریباً اسی طرح جیسے کسی درخت کی عمر کا تعین اس کے تنے میں بننے والے دائروں کو گن کر کیا جاتا ہے۔ فرانسیسی ٹیم کا خیال ہے کہ مچھلی کی یہ قسم اپنی نصف عمر گزر جانے کے بعد بچے دیتی ہے اور یہ پانچ برس تک حاملہ ہو سکتی ہے۔ اسی لیے سیلیکانتھ کے بچے کم ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے فرانس کی ایک یونیورسٹی منسلک ڈاکٹر برونو ارناڈے کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ مچھلی بہت کم بچے دیتی، اس لیے ہو سکتا کہ یہ نئی تحقیق ہمیں اس نسل کو معدومیت سے بچانے کے لیے بہتر اقدامات کرنے میں مدد دے۔ بہت عرصے تک ماہرین کا خیال تھا کہ سیلیکانتھ نسل اب تک معدوم ہو چکی ہوگی، لیکن اچانک جب سن 1938 میں اس نسل کی ایک مچھلی جنوبی افریقہ کے ساحل کے قریب ایک جال میں پکڑی گئی تو اس واقعہ کو بہت شہرت ملی۔ بحیرۂ شمالی میں تحقیق میں مصروف ایک فرانسیسی ٹیم سے منسلک ماہر، کیلگ ماہے کے بقول ’لگتا ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی مچھلیوں میں سے سیلیکانتھ کی افزائش نسل سب سے کم رفتار پر ہوتی ہے۔‘ سمندری حیات کے ماہرین کے مطابق سیلیکانتھ نسل کا ارتقاع 420 ملین سال پہلے اس وقت ہوا تھا جب جب ایک سیارچہ ہماری زمین سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں ڈائنوسارز صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور براعظموں نے اپنی جگہ بدلی تھی۔ یہ مچھلی گہرے سمندروں میں پتھر کی غاروں میں رہتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی چھ فٹ تک ہوتی ہے اور اس کی کھال پر لگے سخت چھلکوں کا مجموعی وزن 90 کلوگرام تک ہو سکتا ہے۔
/urdu/regional-58466981
افغانوں کو ڈر ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے ان کی زندگیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ مگر بعض لوگ کے لیے ملک پر طالبان کے قبضے کا مطلب ہے کہ خونی جنگ کا اب خاتمہ ہوگیا ہے اور پُرتشدد واقعات میں کمی آسکتی ہے۔
بہت سے افغان اس تشویش میں ہیں کہ نہ جانے طالبان کے اقتدار میں آنے سے ان کی زندگیاں کیسے متاثر ہوں گی؟ مگر دیہاتوں میں برسوں سے خونی جنگ کے محاذ پر زندگی گزارنے والوں کے لیے ملک پر طالبان کے قبضے کا مطلب اس تشدد کا خاتمہ ہے، جس نے ان کی زندگیوں میں تکلیف بھر دی تھی۔ اکثر طالبان اور حکومتی فوج کے درمیان آ جانے والے لوگوں کو اس بدلی ہوئی صورتحال میں کچھ امن کا احساس ہوا ہے۔ بی بی سی کے سکندر کرمانی نے مشرقی لوگر صوبے میں دیہی آبادی کے کچھ لوگوں سے بات کی ہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ان کے لیے کیا مطلب ہے۔ جنگ کے آخری ہفتوں کے دوران دیہاتی علاقوں میں طالبان کی جانب سے فائرنگ کا نشانہ بننے کے بعد حکومتی فوج کی طرف سے قریبی آبادیوں میں گھر مسمار کیے جاتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس پیسے یا گھر نہیں۔ صرف خدا میری مدد کرسکتا ہے۔ میرے پاس اپنے چھوٹے سے خاندان کے سوا کچھ نہیں۔‘ وہ اس جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔ گل کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان سے لڑائی کے دوران ان کا گھر گرا دیا تھا طالبان کا کہنا ہے کہ پورا ملک اب ان کے زیر اثر ہے اور پنجشیر پر قبضے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ تاہم قومی مزاحمتی اتحاد نے لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر افغانستان میں اس جنگ سے ہزاروں عام شہریوں کی جانیں گئی ہیں اور زندہ بچنے والوں نے بھی اس کا نقصان برداشت کیا ہے۔ طالبان کا سابقہ گڑھ کہلائی جانے والے ایک مارکیٹ میں ایک شخص نے بتایا ’سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ لوگ غریب ہیں۔ خدا نے ہمیں امن دے دیا ہے اور خدا کی مرضی سے اب معیشت بہتر ہوسکے گی۔‘ ہر شخص ناامید نہیں ہے۔ ایک نوجوان شخص کا کہنا ہے کہ ’پہلے صورتحال بہت خراب تھی۔ ہم دکانوں یا بازاروں میں بھی نہیں جاسکتے تھے۔ اب ہم کہیں بھی جاسکتے ہیں اور روزگار کما سکتے ہیں۔‘ ماضی میں جھڑپوں سے سکول بند رہتے تھے۔ اب یہاں عملے اور پیسوں کی کمی ہے لڑکوں کے سکول میں وسائل کی کمی ہے اور یہاں بہت زیادہ طلبا جمع ہیں۔ اکثر طلبا کو کھلی جگہ پر پڑھایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں کلاسز جاری ہیں مگر فی الحال ایسا صرف پرائمری کے طلبا کے لیے ہے۔ ایسی کئی مشکلات اب بھی منڈلا رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ان کا حل تلاش کر پائیں گے؟ماضی میں تدریس کا عمل جھڑپوں کی وجہ سے معطل ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن اس طرح کے گاؤں میں پُرتشدد واقعات کا خاتمہ شاید اولین ترجیح ہے۔ اور بظاہر یہ ہوچکا ہے۔
/urdu/pakistan-60055186
اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج عطا ربانی نے کہا ہے کہ عدالت اس مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ کرنے کی خواہاں ہے لیکن اس مقدمے کو حتمی نتیجے تک پہنچانے میں ملزم کو فراہم کیے گئے سرکاری وکیل کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ویڈیو کے بارے میں ملزم کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کی صحت دن بدن خراب ہو رہی ہے اس لیے انھیں کرسی پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا گیا تاہم اسلام آباد کی مقامی عدالت کے بخشی خانے کی سکیورٹی پر مامور اہلکار اس موقف سے متفق نہیں دکھائی دیتے۔ اہلکار کے مطابق گذشتہ چند سماعتوں کے دوران ملزم ظاہر جعفر نے عدالت میں شور شرابہ کیا تھا تو اس کے بعد انھیں یہ احکامات ملے تھے کہ جب عدالت کی طرف سے پیش کرنے کا حکم ہو تبھی مذکورہ ملزم کو عدالت لایا جائے اسی لیے جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو ظاہر جعفر کو دیگر ملزمان کے ساتھ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ ان وکلا میں سے کوئی وکیل اس مقدمے میں نامزد کسی ملزم کا وکیل تھا تو اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کی ڈیوٹی ملزمان کو عدالت تک پہنچانے کی ہے اور وہ کسی وکیل کو شناخت نہیں کرتے۔ جیل کے اہلکار کے مطابق قیدیوں کی وین میں بیٹھانے تک اس مقدمے کے کسی بھی ملزم نے خرابی صحت کی شکایت نہیں کی تھی جبکہ عدالت میں پیشی سے واپسی پر تمام ملزمان کو متعلقہ بیرکوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ پیر سے پہلے ہونے والی سماعت پر بھی عدالت تک پہنچنے سے کچھ پہلے پولیس اہلکار ملزم کو سہارا دے کر کمرۂ عدالت میں لے گئے تھے جبکہ اس سے دو تین سماعتیں قبل عدالت نے ظاہر جعفر کو جب کمرۂ عدالت سے نکلنے کا حکم دیا تھا تو ملزم پانچ پولیس اہلکاروں کے قابو میں بھی نہیں آ رہا تھا جس پر پولیس نے اس کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ قیدی کی شکایت پر جیل کا عملہ ڈاکٹر کو بلا کر اس کا طبی معائنہ کروانے کا پابند ہے اور اگر ڈاکٹر طبی معائنے کے بعد یہ تجویز کرے کہ ملزم سفر کرنے کے قابل نہیں ہے تو اسے پیشی پر نہیں بھیجا جاتا اور عدالت کو اس بارے میں تحریری طور پر آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے دوران بھی جب مرکزی ملزم کو عدالت میں لایا گیا تو کرسی پر بیٹھنے ہونے کے باوجود اس کا سر نیچے جھکا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اپنے بیٹے کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے ان کے والد ذاکر جعفر بھی کافی پرشان تھے۔ بشارت اللہ خان نے دعوی کیا کہ ظاہر جعفر کو جیل میں قائم ہائی سکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ کسی کی بھی ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے سے قبل ملزم سے اس طرح کا سلوک کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔
/urdu/regional-53034314
سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کی ووٹنگ کے بعد انڈیا نے اگلے دو سال کے لیے یہ نشست حاصل کر لی ہے۔ اس پر کئی لوگوں کے ذہنوں میں سوال ہے کہ اس سے خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
امریکہ کے شہر نیو یارک میں بدھ (17 جون) کو اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کے لیے جنرل اسمبلی کی خفیہ ووٹنگ ہوئی جس میں ایشیا پیسیفک خطے سے انڈیا آئندہ دو سال کے لیے منتخب ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے سنہ 1950 میں سلامتی کونسل میں عوامی جہموریہ چین کی مستقل رکنیت روکنے کے لیے انڈیا کو چین کی نشست دلوانے کی پیش کش کی تھی جبکہ 1955 میں روس نے ایک الگ مقصد کے لیے انڈیا کو مستقل رکن بنوانے کی بات کی تھی۔ بی بی سی نے سفارت کاری اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کاروں سے انڈیا کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کے طور انتخاب ہونے کے اثرات اور مضمرات پر ان کی رائے جمع کی ہے۔ جے شنکر نے اپنے ملک کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کی مہم کے آغاز کے وقت کہا تھا کہ کووِڈ-19 کی وجہ سے نہ صرف انڈیا میں بلکہ عالمی سطح پر جو جغرافیائی اور اقتصادی تبدیلیاں آ رہی ہیں ان کے پس منظر میں انڈیا کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بنیادی پالیسی چار اصولوں پر بنائی جائے گی جو 'چار س' کہلائیں گے: سمّان (باہمی عزت)، سہیوگ (باہمی تعاون)، شانتی (امن) اور سمریدھی (خوشحالی)۔ تاہم سوہاسینی حیدر تسلیم کرتی ہیں کہ 'اصل میں تو سلامتی کونسل کا ایک اپنا منفرد کام کرنے کا انداز ہے کیونکہ اس کے پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو کرنے کی طاقت ہے (یعنی سلامتی کونسل کے پانچ بڑوں کا یہ حق کہ وہ کسی تحریک پر رائے شماری یا بحث روک دیں)، اس کے بعد غیر مستقل ارکان کے ووٹوں کی کوئی حیثیت بنتی ہے۔' اسلام آباد میں اقرا یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر اعجاز حسین کہتے کہ جس طرح کی انڈیا اور چین کے درمیان ایک تصادم کی کیفیت ہے جو کہ لداخ پر مرکوز ہے، اگر انڈیا اس معاملے کو سلامتی کونسل میں اٹھا کر کوئی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اُسے چین کے سخت ردِّ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر اعجاز کے خیال میں انڈیا کے لیے یہ غیر معقول ہوگا کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل میں اٹھائے اور اگر اُس نے ایسا کیا تو اُسے سلامتی کونسل میں پاکستان اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے منہ توڑ جواب ملے گا۔ دہلی کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنے بارے میں یہ تاثر دے کہ وہ عالمی امن، اقتصادی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ 'اس طرح انڈیا کے لیے اب سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننا اچنبے کی بات نہیں ہونی چاہئیے، خاص کر اب جب چین اور انڈیا نے درمیان لداخ میں سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں۔ اور یہ نہیں بھولنا چاہئیے کے اس رکنیت کی یہ میعاد دو برس ہے۔'
/urdu/science-61206503
آپ کو اندر سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز آپ کے لیے ٹھیک ہے یا غلط ہے حالانکہ آپ کے لیے اس کی وجوہات ناقابل فہم ہو سکتی ہے۔
جب معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے ان کی ذہانت و فطانت کی اصلیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ 'میں کشف اور الہام پر یقین رکھتا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں حالانکہ میں نہیں جانتا کہ میں اس وقت تک ٹھیک ہوں بھی کہ نہیں۔' چاہے آپ ایک نئے اپارٹمنٹ کی تلاش کر رہے ہوں، کسی ممکنہ نئی نوکری پر غور کر رہے ہوں، یا کسی کی ایمانداری کا اندازہ لگا رہے ہوں، تو آپ کو اندر سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز آپ کے لیے ٹھیک ہے یا غلط ہے حالانکہ آپ کے لیے اس کی وجوہات ناقابل فہم ہوسکتی ہے۔ ایسے میں ہماری اندر کے احساس کو کسی قسم کی پراسرار 'چھٹی حس' کے طور پر سوچنا پرکشش ہوسکتا ہے، لیکن کشف یا الہام کی وضاحت کے لیے کسی ماورائے معمول سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے متعلق ان کی تحقیق نے ان مخصوص حالات کی نشاندہی کی ہے جن میں ہمارے الہام یا کشف یا وجدان کا ہمیں صحیح راستے پر لے جانے کا امکان ہے اور وہ صورت حال بھی جب یہ ہمیں گمراہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں معلومات یا علم وہ چیز ہے جو ہم سب کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ونسنٹ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگوں کی اندر کی آواز کو تجزیاتی سوچ کی جگہ نہیں لینا چاہیے، اور ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ بعض اوقات لاشعوری تعصبات، جیسے کہ نسل پرستی، عمر پرستی، یا جنس پرستی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات مارلین ابادی کہتی ہیں کہ اس وقفے سے لاشعور کو اپنے سامنے موجود پیچیدہ معلومات کا ایک درست خلاصہ تیار کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کے نتیجے میں اندر کی آواز پر لیے گئے فیصلے مزید درست ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ رہنمائی اسی طرح کی صورتحال میں بہتر ہو سکتی ہے جب ہم بے پناہ معلومات تلے دب جانے کے بعد اپنے تاثرات بنا رہے ہوں۔ 'یہ اس وقت کارآمد ہو سکتا ہے جب آپ کو ملتی جلتی خصوصیات والی ایک جیسی پراڈکٹس مثلاً کوئی فون، کمپیوٹر، ٹی وی، صوفہ، فریج، یا اوون خریدنی ہوں۔' اگر آپ پنے اندر کی آواز کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اپنے عمومی جذبات کو سمجھنا چاہیے، کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں اور ان احساسات کا ذریعہ کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ زیادہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ کیا آپ کو حقیقی سگنل مل رہا ہے یا نہیں۔
/urdu/regional-59203022
جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں تب سے طالبان اور دولتِ اسلامیہ کی جانب سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ طالبان نے دولتِ اسلامیہ کو افغانستان کا ’سر درد‘ قرار دیا ہے مگر اُن کی دولت اسلامیہ کے خلاف جاری جنگ آسان نظر نہیں آ رہی۔
بظاہر گذشتہ ماہ 18 ستمبر سے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم دولتِ اسلامیہ خراسان نے طالبان کو کمزور کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے اور دولت اسلامیہ کے اس آپریشن میں اطلاعات کے مطابق 68 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں طالبان کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ شیعہ برادری بھی حملوں کی زد میں ہے۔ طالبان نے اقلیتوں کے تحفظ کا اعلان کیا تھا مگر ان حملوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اب تک اس پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں طالبان دولتِ اسلامیہ کی موجودگی محدود کرنے کی سخت کوششیں کر رہے ہیں۔ طالبان یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ زیادہ اہم نظر نہ آئے مگر کابل میں ہسپتال پر حملے سے یہ عیاں ہے کہ دولتِ اسلامیہ طالبان کے مضبوط علاقوں میں بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری جانب طالبان نے اس حملے کو ’شہریوں پر حملہ‘ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اُنھیں (طالبان) بہت کم نقصان پہنچا ہے۔ طالبان مسلسل اس حملے کو معمولی قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کی سکیورٹی فورسز نے یہ حملہ ناکام بنا دیا تھا۔ اُنھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کو ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی روک لیا گیا تھا۔ طالبان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صورتحال 15 منٹ میں قابو میں آ گئی تھی۔ اسی دوران دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ اُس کے حملہ آوروں نے آخر تک لڑائی کی اور ہسپتال میں داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ اگست میں دولتِ اسلامیہ کے حملہ آوروں نے کابل ایئرپورٹ پر بھی حملہ کیا تھا مگر طالبان کو اس حملے کا مرکزی ہدف قرار نہیں دیا گیا تھا۔ دولتِ اسلامیہ کے کیمپ سے باہر موجود دیگر عسکریت پسند گروہوں نے طالبان پر حملوں کی مذمت کی ہے جبکہ شیعہ اقلیتوں پر حملوں کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد 19 اگست کو دولتِ اسلامیہ نے خبردار کیا تھا کہ اس کے جنگجو افغانستان میں ’جہاد‘ کے ایک نئے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دولتِ اسلامیہ کو طالبان کے اقتدار میں واپس آنے پر غصہ ہے۔ اُنھوں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ اُنھوں نے امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ’حقیقی جہادیوں‘ کو ملک سے باہر نکال دیا ہے۔ طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے افغان اخبار ’ہشت صبح‘ کو بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کی افغانستان میں موجودگی نہیں ہے۔ مگر طالبان کے دعووں اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف اس کے کوششوں کے برعکس یہ گروہ اب بھی چھوٹے پیمانے پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور ان میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔
/urdu/pakistan-53501283
سپریم کورٹ نے فرقہ وارانہ تشدد کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فرقہ وارانہ تشدد کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان میں یوٹیوب بند کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز فرقہ وارانہ تشدد کے مقدمے میں ملزم شوکت علی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے دلائل کے دوران جب سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ تشدد کو مبینہ طور پر فروغ دینے کا ذکر ہوا تو بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی کارکردگی اور فیصلوں پر عوام کو بات کرنے کا حق ہے اور وہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ان فیصلوں پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ججز کو بھی عوام کے ٹیکسز سے ہی تنخواہ ملتی ہے۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اب یہ نئی روایت پڑ گئی ہے کہ نہ صرف سوشل میڈیا پر عادلتی فیصلوں کو بےجا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر ججز کے خاندانوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے اور کئی ممالک میں سوشل میڈیا کو مقامی قوانین کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں پھر دیکھیں کیا کارروائی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیم ’بولو بھی‘ سے منسلک فریحہ عزیز یو ٹیوب پر پابندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’آٹھ سال بعد ایک لمبی عوامی بحث، کورٹ کیس، پارلیمان میں بحث اور قرارداد کے بعد ہم پھر اُسی موڑ پر لوٹ آئے ہیں۔ یہ 2012 سے 2014 کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم کبھی بھی سیکھتے نہیں ہیں۔‘ ڈیجیٹل رائٹس اکٹیوسٹ اسامہ خلجی نے لکھا کہ ’قابل احترام سپریم کورٹ آف پاکستان کو سینیٹر اعتزاز احسن نے جو 2012 میں یوٹیوب پر پابندی کے بارے میں کہا اُسے مدنظر رکھنا چاہیے‘۔ اسامہ خلجی نے اعتزاز احسن کا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ ’یوٹیوب پر کچھ قابل اعتراض وڈیوز کی وجہ سے پابندی ایسی ہے جیسے پوری لائبریری کو چند کتابوں کی وجہ سے جلا دیں جو آپکو پسند نہ ہوں۔‘ صحافی علی معین نوازش یوٹیوب پر پابندی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ہم مواد بنانے والی ایک پوری نسل اور پیشہ ور افراد کو کھو دیتے ہیں۔ ننانوے اعشاریہ نو فیصد مواد اچھا ہے چاہے وہ تعلیمی ہو یہ تفریحی۔ لوگ ان پلیٹ فارمز سے روزی کماتے ہیں۔‘ اس تھریڈ میں انہوں نے مزید یہ بھی لکھا کہ ’ہم اس سے غیر ملکی کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، ان کو کیا پیغام بھیج رہے ہیں۔‘
/urdu/entertainment-53521517
اداکارہ تاپسی پنو کی کرن جوہر کی تعریف پر کنگنا سیخ پا، بالی ووڈ کے چلبل پانڈے لاک ڈاؤن میں کھیتی باڑے میں مصروف اور سشانت راجپوت کی آخری فلم ’دل بیچارہ‘ کی ریلیز۔ یہ سب پڑھیے اس ہفتے کی شوبز ڈائری میں۔
سوشانت راجپوت کی آخری فلم ’دل بیچارہ` آج شام ساڑھے سات بجے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ریلیز ہو رہی ہے سشانت راجپوت کی آخری فلم ’دل بیچارہ‘ 24 جولائی (آج) کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ریلیز ہو رہی ہے۔ یہ فلم ڈزنی پلس ہاٹ سٹار پر انڈیا، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ میں سبسکرائبر اور نان سبسکرائیبرز سب کے لیے ریلیز ہو گی۔ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کے اہلِخانہ نے ان کی موت کے بعد سے انتہائی بردباری اور تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن بالی ووڈ کے کچھ ستارے ان کے نام کا جھنڈا اٹھا کر جیسے دنگل پر نکلے ہوئے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر برپا طوفانِ بدتمیزی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آج کل ان کا نیا نشانہ اداکارہ تاپسی پنو ہیں جنھیں ان کی بہن رنگولی کنگنا کی ’سستی کاپی‘ کہہ کر بلاتی ہیں۔ تاپسی نے سوشل میڈیا پر کرن جوہر کی تعریف کر ڈالی جو کنگنا کو سخت ناگوار گزرا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک میم پوسٹ کی ہے جس میں کنگنا کو موقع پرست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود اقربا پروری کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں جنھیں بالی ووڈ میں ان کے سابق بوائے فرینڈ ادتیہ پنچولی نے پہنچایا اور پھر مہیش بھٹ نے انھیں فلم ’گینگسٹر‘ میں بڑا بریک دیا۔ اب کنگنا کی ٹیم کو نیا کام مل گیا ہے اور اس ٹیم نے سوشل میڈیا پر نغمہ کے بخیے ادھیڑنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ادھر اداکار علی فضل بھی دیگر بالی ووڈ ہستیوں کی طرح لاک ڈاؤن میں گھر بیٹھے ہیں بالی ووڈ میں ’اندر والے اور باہر والوں‘ کی اس بحث پرعلی فضل نے بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ کھیتی باڑی کے اپنے اس شوق کو پورا کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کبھی ٹریکٹر چلاتے ان کی ویڈیو پوسٹ ہوتی ہے تو کبھی ہاتھوں میں فصل لیے تصویر نظر آتی ہے بالی ووڈ کے ان تمام ہنگاموں سے دور دبنگ خان لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی ممبئی کے نزدیک پنویل میں اپنے فارم ہاؤس پر ہیں جہاں وہ کبھی گانا ریکارڈ کرتے ہیں تو کبھی فارم ہاؤس پر اپنی زندگی کی جھلک پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل ٹائیگر چاول کی کاشت کر رہے ہیں۔ کھیتی باڑی کے اپنے اس شوق کو پورا کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کبھی ٹریکٹر چلاتے ان کی ویڈیو پوسٹ ہوتی ہے تو کبھی ہاتھوں میں فصل لیے تصویر نظر آتی ہے۔ سلمان کے اس کام میں ان کے فارم ہاوس کا تمام عملہ اور ان کی قریبی دوست یولیہ وینتور بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ حالانکہ سشانت سنگھ کی موت کے بعد کرن جوہر کے ساتھ ساتھ ان کا نام بھی گھسیٹا جا رہا تھا لیکن چلبل پانڈے ان تمام باتوں سے دور اپنی دنیا میں مست نظر آ رہے ہیں۔
/urdu/science-58810761
اگر بائیولوجی کے اعتبار سے انسان اور بندر ایک دوسرے سے اتنے مماثل ہیں تو کیوں بندروں کی دمیں ہوتی ہیں پر ہماری نہیں؟
کیونکہ اگر بائیولوجی کے اعتبار سے انسان اور بندر ایک دوسرے سے اتنے مماثل ہیں تو کیوں بندروں کی دمیں ہوتی ہیں پر ہماری نہیں؟ مثال کے طور پر امریکہ میں ہاؤلر بندروں کی دمیں لمبی ہوتی ہیں اور یہ بندر اپنی دم سے چیزیں پکڑ بھی سکتے ہیں۔ شیا کہتے ہیں کہ 'یہ سب بظاہر ایک دوسرے سے منسلک ہے اور ایک ہی ارتقائی وقت میں ہوا ہے لیکن ہم ترقی اور ارتقا کے اس مرحلے میں جینیات کے کردار کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔' تو اگر دموں کا تعلق بندروں اور انسانوں کی ارتقا سے ہے اور اس سے نقل و حرکت اور جسم کے انداز پر بھی فرق پڑا تو سوال یہ ہے کہ پہلے دمیں آئیں یا ٹانگیں؟ بو شیا کہتے ہیں: 'ہمیں یہ سب جاننے کے لیے ٹائم مشین کی ضرورت ہو گی تاکہ ہم ماضی واپس جا سکیں اور اس وقت کے واقعات کا مشاہدہ کر کے تجزیہ کر سکیں۔ مگر چونکہ ہمارے پاس ٹائم مشین نہیں ہے اس لیے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم نہیں جانتے، اور بحث ختم ہو جائے گی۔ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کو حیرت ہو کہ ہم آخر اس پر بات کر ہی کیوں رہے ہیں۔ کوکسِکس نامی یہ ہڈی ہماری ریڑھ کا آخری حصہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے میں ضم چار مہروں سے مل کر بننے والی یہ ہڈی لاکھوں سال قبل ہماری دم کی موجودگی کا پتا دیتی ہے۔ نیویارک یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹیشنل میڈیسن کے ڈائریکٹر ایتائی ینائی کہتے ہیں: 'ہم ان تمام مسائل پر اس لیے غور کرتے ہیں کیونکہ ہم انسان سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہاں جوابات تلاش کرتے ہیں۔ جینیاتی سائنس میں ہم نے گذشتہ 100 سالوں میں زبردست ترقی کی ہے۔' وہ کہتے ہیں: 'آپ کو واقعی بہت سے تصورات معلوم ہونے چاہییں جن میں کمپیریٹیو جینیٹکس اور الٹرنیٹیو سپلائسنگ شامل ہیں۔ اور بو نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر آپ ان تصورات کو سمجھتے ہیں تو آپ جینوم کے اندر دیکھ سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں۔' مگر ہمارے اجداد میں اس کے متعلق جینیاتی تبدیلیوں کا یہ شاید پہلا مطالعہ ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کی دمیں 30 سے زائد جینز پر منحصر ہوتی ہیں اور نیویارک یونیورسٹی کے محققین نے اب تک صرف ایک کا ہی مطالعہ کیا ہے۔ اور جیسا کہ شیا کہتے ہیں، تمام انسانوں کی دمچی کی ہڈیاں ایک جیسی ہوتی ہیں مگر اس تجربے میں چوہوں کی دمیں یا تو مختلف لمبائی کی پیدا ہوئیں یا پھر مکمل طور پر غائب ہی رہیں۔ شیا اور اُن کی ٹیم نے چوہوں پر تجربے سے پایا کہ ریڑھ کی ساخت میں پیدا ہونے والے مسائل ہر 1000 میں سے ایک انسان کو متاثر کرنے والی نیورل ٹیوب کی خامیوں جیسے ہی ہیں۔
/urdu/world-57897883
بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ لوگ جو انھیں ترکی کے مقبول ڈرامے ارطغرل غازی کے ہیرو ’ارطغرل‘ کا لقب دیتے تھے آج انھیں اسی ڈرامے کے ولن اور منگول کمانڈر ’نویان‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان وہ شخصیت ہیں جنھیں کئی پاکستانی اسلامی دنیا کا ’مردِ مجاہد‘ پکارتے رہے ہیں لیکن آج اردوغان کے یہی مداح ان سے خفا نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ لوگ جو انھیں ترکی کے مقبول ڈرامے ارطغرل غازی کے ہیرو ’ارطغرل‘ کا لقب دیتے تھے آج انھیں اسی ڈرامے کے ولن اور منگول کمانڈر ’نویان‘ سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ پیر کے روز ترک صدر طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ’طالبان کو اپنے بھائیوں کی سرزمین پر قبضہ ختم کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہے۔‘ انھوں نے طالبان کی طرف سے ترک فوجیوں کو کابل کا ہوائی اڈہ نہ چھوڑنے کی صورت میں نتائج کی دھمکی پر ردِعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا۔ یاد رہے گذشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کو ان منصوبوں کے خلاف متنبہ کیا تھا کہ کابل کے ہوائی اڈے کو چلانے کے لیے افغانستان میں کچھ فوجی رکھے جائیں، اور اس حکمت عملی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے نتائج کی دھمکی دی تھی۔ احمد علی قاضی نے لکھا ’ اشرف غنی اور افغان طالبان دونوں ہی افغان ہیں، قبضہ امریکہ اور نیٹو کا تھا۔اردوغان کی طرف سے اس قسم کا بیان یقیناً ان کی مقبولیت کے گراف کو نیچے گرائے گا۔‘ اعجاز خان نے ان سے پوچھا ’کیا غلط کہا ہے اردوغان نے۔۔۔ وہ ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرنے کو کہہ رہے ہیں اورانھیں بات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ طالبان کو ہوائی اڈہے پر فوجی رکھنے پر راضی کر سکیں۔۔۔ اور وہ وہاں کسی بھی گروپ پر حملہ نہیں کرنے والے۔۔۔‘ اسی طرح یوسف صدیقی نے لکھا ’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکی سے پیار کرنے والے پاکستانی اب کدھر جائیں گے۔ ترکی بے نقاب ہو چکا ہے۔ ترکی کے صدر کی مصنوعی اسلام پرستی بھی اسے اب نہیں بچا سکتی۔ وہ عوامی غضب کا نشانہ بنے گا۔ طالبان کی مخالفت اسے مہنگی پڑنے والی ہے۔ یوسف صدیقی نے بھی ایسا ہی سوال کیا’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکی سے پیار کرنے والے پاکستانی اب کدھر جائیں گے۔ ترکی بے نقاب ہو چکا ہے۔ ترکی کے صدر کی مصنوعی اسلام پرستی بھی اسے اب نہیں بچا سکتی۔ وہ عوامی غضب کا نشانہ بنے گا۔ طالبان کی مخالفت اسے مہنگی پڑنے والی ہے۔‘ تاہم کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ترکی کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور بس اپنے ڈراموں پر توجہ دینی چاہیے۔ شفاعت احمد نے لکھا ’ترکی غیرت کھائے اور اپنے مغربی آقاؤں کو نہ خوش کرے۔ چپ کر کے بس اپنے ڈرامے چلائے۔ طالبان ڈرامہ نہیں بلکہ وہ حقیقت میں ارتغرل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔‘
/urdu/pakistan-50270971
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج جاری رہے گا اور آئندہ کا لائحہ عمل کل آل پارٹیز کانفرنس میں طے کیا جائے گا۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے جمعے کو وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے سے متلعق دی گئی دو دن کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کل آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا۔ اس سے قبل جے یو آئی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا کو بتایا کہ متحدہ اپوزیشن سے مشاورت کے بعد ہی آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مولانا فضل الرحمان سے فون پر بات کی اور انھیں کامیاب مارچ پر مبارکباد دی جبکہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آج 'جعلی حکومت' نے ایک کمیٹی بنائی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم تو اسلام آباد میں گھوم رہے ہیں۔ ہر طرف کنٹینرز لگے ہوئے ہیں، نہ بنی گالا جانے کے لیے رستہ ہے، نہ تو وزیر اعظم ہاؤس اور نہ صدارتی محل کی طرف۔ تم نے تو سارے رستے بند کیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام آپ کی حکومت کے لیے کافی ہے۔ ابھی لوگ آرہے ہیں۔ آج بھی قافلے آرہے ہیں اور کل بھی آئیں گے۔ ’ایک آواز پر پوری قوم اسلام آباد میں آئے گی۔‘ خیال رہے کہ سنیچر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ رہبر کمیٹی کے آج کے ہونے والے اجلاس میں 'آگے کے لائحہ عمل کے لیے اجتماعی استعفے زیر غور آئے ہیں'۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب جمعے کو آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا کہ وہ اداروں کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ایسا محسوس ہو کہ ’ناجائز حکمرانوں کی پشت پناہی ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے اور پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں۔‘ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مخمود خان اچکزئی، آفتاب خان شیرپاؤ اور دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی تھی انھوں نے کہا ہے کہ 'یہ اچھا ہوتا اگر ڈی جی آئی ایس پی آر ایسا ہی بیان جاری کرتے جب ستمبر 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے سے چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوگیا تھا۔' یاد رہے جمعہ کی رات آل پارٹیز کانفرنس کے ہونے والے ایک اجلاس میں مولانا فضل الرحمان سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، راجہ پرویز اشرف، نیئر بخاری، مصطفیٰ نواز کھوکھر، مخمود خان اچکزئی اور آفتاب خان شیرپاؤ نے شرکت کی تھی۔
/urdu/world-52924329
سازشی نظریات کے اندر ایک اچھی کہانی کے تمام لوازمات پائے جاتے ہیں: ان میں خطرناک ولن یا دشمن ہوتا ہے، اچھوتا پلاٹ ہوتا ہے اور یہ سبق آموز ہوتے ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ اچھی طرح سے تخلیق کیا گیا ایک سازشی نظریہ عوام کی سوچ پر چھا جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس حفاظتی ٹیکے کے بارے رومانیہ میں بچیوں کی ماؤں کی بدگمانی کی کئی وجوہات ہیں۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک بڑا سبب ان سازشی نظریات کی بھرمار ہے جو اس کی مفت فراہمی کے محرکات سے متعلق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا مقصد خواتین کو بانجھ کر کے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے، اور یہ کہ ادویاتی صنعت ایک نیا طبی تجربہ کرنا چاہتی ہے، حالانکہ ان میں سے کسی بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ سازشی نظریات کے اندر ایک اچھی کہانی کے تمام لوازمات پائے جاتے ہیں: ان میں خطرناک ولن یا دشمن ہوتا ہے، اچھوتا پلاٹ ہوتا ہے اور یہ سبق آموز ہوتے ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ اچھی طرح سے تخلیق کیا گیا ایک سازشی نظریہ عوام کی سوچ پر چھا جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روایتی طور پر سازشی نظریات کا سہارا لینے والے افراد مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ان لوگوں کا ہتھیار ہے جو طاقت اور اختیار نہیں رکھتے اور ذمہ دار افراد کا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اب اس طرح کا مواد براہ راست ان لوگوں کی طرف سے آ رہا ہے جو بااختیار اور طاقتور ہیں، اور یہ ہی بات انتہائی غیر معمولی ہے۔‘ اپنی بات کی وضاحت میں وہ کہتے ہیں کہ سازشی نظریے عام طور پر کسی حقیقی بنیاد پر تعمیر کیے جاتے ہیں یعنی کوئی ایسا واقعہ جسے رونما ہوتے ہوئے دیکھا جا سکے مگر اس کی وجوہات سمجھ سے بالاتر ہوں، مثلاً کوئی سیاسی قتل یا حملہ۔ گویا اس کی اساس میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے اور پھر اس حقیقت کے ارد گرد سازش بُنی جاتی ہے۔ مگر جدید سازشی نظریے اس حقیقی بنیاد کے محتاج نظر نہیں آتے، چاہے وہ کتنے ہی جھوٹ پر مبنی ہوں۔ دوسری طرف ڈگلس اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ سمجھنا انتہائی اہم کہ سازشی نظریات کہاں سے آتے ہیں اور کیسے پھیلتے ہیں کیونکہ اس بات کے قوی شواہد ہیں کہ ان پر یقین کرنے کے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے کہ زمین کے چپٹا ہونے، ایلومیناٹی اور چاند پر جانے سے متعلق سازشی نظریات کی عمر اتنی طویل کیوں ہے اور دوسرے سازشی نظریات جلد کیوں دم توڑ جاتے ہیں۔ وہ اس بات پر خود بھی تحقیق کرنا چاہتی ہیں۔
/urdu/pakistan-52225923
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر نثار احمد کے مطابق بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کے علاوہ کورونا وائرس کے متمول علاقوں میں پھیلاؤ کے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں ابھی بھی گھروں پر تقریبات اور سماجی اجتماعات نہیں رک رہے۔
لاہور کے علاقے صدر کے سپرنٹینڈنٹ آف پولیس غضنفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان ملازمین کے علاوہ دو گلیاں جہاں دو سے تین گھروں میں کورونا کے مریض سامنے آئے تھے انہیں بھی بند کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حکام یہ معلوم کرنے کے کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ہی جگہ پر اتنے زیادہ افراد تک وائرس کیسے پہنچا۔ تاہم بحریہ ٹاؤن لاہور کی وہ واحد متمول آبادی نہیں جہاں کورونا کے مریض بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ حکام کے مطابق صوبہ پنجاب میں کورونا کے مریضوں کے سب سے بڑی تعداد لاہور میں ہے اور لاہور میں کورونا کے متاثرین کا بڑا حصہ پوش علاقوں پر مشتمل ہے۔ آفات کی روک تھام کے صوبائی منتظم ادارے پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر نثار احمد نی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں کورونا کے مریضوں کے سب سے بڑی تعداد بحریہ ٹاؤن میں ہے جو ان کا دعوٰی ہے کہ 50 کے قریب ہے۔ پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر نثار احمد کے مطابق اس کے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے رہائشی بیرونِ ملک زیادہ سفر کرتے ہیں۔ حکام کا ماننا ہے کہ بیرونِ ملک سے واپس آنے والے ایسے علاقوں کے رہائشی کورونا وائرس اپنے ساتھ لے کر آئے اور مقامی طور پر اسے پھیلانے کا باعث بنے۔ نثار احمد کے مطابق کورونا کی وبا کے آغاز سے اب تک کے گذشتہ چند دنوں میں بیرونِ ملک سے صوبہ پنجاب میں آنے والے افراد کی مجموعی تعداد 150000 ہے جن میں سے تاحال 70000 کا سراغ لگایا جا سکا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر کے مطابق بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کے بعد کورونا وائرس کی پوش علاقوں میں پھیلاؤ کے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں تمام لوگ سماجی فاصلے کی تجاویز اور احکامات پر مکمل طور پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ ‘ان علاقوں میں ابھی بھی گھروں پر بیٹھکیں اور سماجی اجتماعات نہیں رک رہے۔ پارٹیز چل رہی ہیں، پچاس، پچاس لوگوں کی کھانوں کے دعوتیں ہو رہی ہیں۔ اس طرح بہت سے ایسے لوگ جن میں بظاہر کورونا کے علامات نہیں ہوتیں مگر ان میں وائرس موجود ہوتا ہے، وہ دوسرے افراد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔' یاد رہے کہ ملک کے باقی صوبوں کے طرح پنجاب بھی گزشتہ کئی روز سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے جس دوران ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ لاہور میں متمول علاقوں ہی میں زیادہ سختی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے جہاں لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کے جوان بھی تعینات ہیں۔
/urdu/pakistan-50530698
جب دوستوں نے کہا وہاں خطرے کی کوئی بات نہیں تو میں نے انھیں یاد کرایا کہ ہم نے آدھی زندگی کراچی میں نائن زیرو کا پانی بھرتے گزاری ہے، اب ہانگ کانگ کے پپو مظاہروں سے ہمیں کیا خطرہ: محمد حنیف کا کالم۔
طالبِ علموں کی ایک جوڑی نے بتایا کہ پانچ طلبا کے وارنٹ نکلے ہیں، خدشہ ہے کہ پولیس آئے گی۔ ہم اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا دیکھو، آپ کی اپنی پولیس ہے، وہ یونیورسٹی میں آ بھی گئی تو کیا ہے۔ آپ کچھ زیادہ ہی مائنڈ نہیں کر گئے؟ جہاز ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پر اتر رہا تھا جب پائلٹ نے اعلان کیا کہ ایک وائرس پھیلا ہوا ہے، آپ اس سے متاثر ہیں تو سرجیکل ماسکل پہن لیں۔ اسی لیے گذشتہ سال جب صحافیوں اور لکھاریوں کی بین الاقوامی تنظیم ( PEN) نے دعوت دی کہ آپ ہانگ کانگ آکر یونیورسٹی میں کچھ انسانی حقوق اور ادب پر بات کریں تو میرا پہلا ردِعمل تھا کہ بھائی آپ کے انسانی حقوق کو کیا ہو گیا ساری دنیا کے امیر ترین کاروباری آپ کے ہاں موجود ہیں۔ میزبانوں سے پوچھا کہ کیا کرنا ہے، انھوں نے کہا آپ کا خطاب تو ہو کر ہی رہے گا۔ میری انا کو تھوڑی اور تسکین ہوئی۔ ہم نے ایک دھواں دار تقریر لکھنی شروع کر دی۔ فلائٹ پکڑنے سے پہلے کراچی کے دوستوں نے کہا وہاں خطرے کی کوئی بات نہیں، میں نے انھیں یاد کرایا کہ ہم نے آدھی زندگی کراچی میں نائن زیرو کا پانی بھرتے گزاری ہے اب ہانگ کانگ کے پپو مظاہروں سے ہمیں کیا خطرہ۔ صبح فون کی گھنٹی نے اٹھایا۔ پیر کا دن تھا۔ ہانگ کانگ کی نارمل زندگی بحال ہونے والی تھی۔ میزبان نے کہا کمرے سے باہر مت جانا پورے شہر میں ہنگامے ہو رہے ہیں اور یونیورسٹی میں بھی گڑبڑ ہے۔ میں نے کہا شکر ہے بچت ہو گئی۔ انھوں نے کہا بچت؟ ہانگ کانگ کی تاریخ میں پولیس نے کبھی گولی نہیں چلائی۔ آپ نے کمرے سے باہر نہیں نکلنا، ہم حالات کا جائزہ لے کر آپ کو بتاتے ہیں۔ طالبِ علموں کی ایک جوڑی سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے، انھوں نے کہا پانچ طلبا کے وارنٹ نکلے ہیں۔ خدشہ ہے کہ پولیس آئے گی۔ ہم اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میں نے کچھ بحث کرنے کی کوشش کی کہ دیکھو آپ کی اپنی پولیس ہے وہ یونیورسٹی میں آ بھی گئی تو کیا ہے۔ ہماری کراچی یونیورسٹی میں 30 سال پہلے رینجرز آئے تھے، آج بھی بیٹھے ہیں۔ مجال ہے ہمارے طالبِ علموں نے کبھی ان کے خلاف ناکے لگائے ہوں۔ انھوں نہ کہا ہانگ کانگ یونیورسٹی میں نہ کبھی پولیس آئی ہے نہ آنے دیں گے اور انکل ہم کیفے کو بھی 15 منٹ میں بند کرانے والے ہیں کوئی سینڈوچ پکڑ لیں پھر نہ کہنا ہم نے میزبانی نہیں کی۔ میزبانوں کا ایک اور پیغام آیا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے خراب حالات کی وجہ سے یونیورسٹی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب آپ کا خطاب یونیورسٹی میں تو نہیں ہو سکتا۔