id
stringlengths 8
69
| url
stringlengths 33
111
| title
stringlengths 0
173
| summary
stringlengths 1
1.1k
| text
stringlengths 110
51.6k
|
---|---|---|---|---|
150708_sindh_rangers_power_zz | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/07/150708_sindh_rangers_power_zz | رینجرز کے اختیارات اسمبلی کی منظوری سے مشروط | پاکستان کے صوبہ سندھ میں مشتبہ افراد کو 120 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے حاصل اختیارات آج بدھ سے غیر موثر ہو جائیں گے۔ | وفاقی حکومت، دفاعی ادارے اور رینجرز ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں صوبائی حکومت نے ان اختیارات میں توسیع سے انکار کر دیا ہے اور کہا کہ ان اختیارت کا فیصلہ سندھ اسمبلی کرے گی۔ ’اپنے دائرۂ اختیار میں رہیں:‘ ڈی جی رینجرز کو وزیراعلیٰ کی چٹھی کراچی آپریشن میں جب رینجرز کو مرکزی کردار دیا گیا تو ساتھ میں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 1997 کے تحت کسی بھی مشتبہ شخص کو 90 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے اختیارات بھی دیے گئے، جن میں ہر چاہ ماہ کے بعد محکمہ داخلہ کی درخواست پر وزیر اعلیٰ سندھ توسیع کرتے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت سندھ حکومت رینجرز کو اختیارات دینے سے قبل صوبائی اسمبلی سے منظوری حاصل کرنے کی پابند ہے۔ ’اس مرتبہ رینجرز کی مدت میں توسیع دینے میں بعض دشواریوں کا سامنا ہے، کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت سندھ ازخود رینجرز کی مدت میں توسیع نہیں کر سکتی اور انھیں منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی سے رجوع کرنا پڑے گا۔‘ آئینی امور کے ماہر بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے تحت اگر صوبائی حکومت کسی وفاقی ادارے کو اختیار دیتی ہے تو اس کی 60 روز میں اسمبلی سے منظوری لینا ضروری ہے لیکن سندھ حکومت ایسا نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان اختلافات اُس وقت کھل کر سامنے آئے تھے جب رینجرز نے دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ بدعنوانی کے معاملات میں بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ رینجرز نے دعویٰٰ کیا تھا کہ کراچی میں 230 ارب روپے سے زائد رقم غیر قانونی طریقوں سے وصول کی جاتی ہے۔ اس عمل میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور اہم شخصیات ملوث ہیں۔ رینجرز نے ان الزامات کے بعد بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور لائنز ایریا ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ پر چھاپے مارے اور بعض ملازمین کو حراست میں لیا، جس پر وزیر اعلیٰ نے ڈی جی رینجرز کو ایک خط تحریر کر کے یاد دہانی کرائی کہ رینجرز نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے ایک خط کے ذریعے رینجرز حکام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہیں اور اختیارات سے تجاوز نہ کریں تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ حکومت رینجرز کے اختیارات میں اضافہ نہیں چاہتی ورنہ ماضی میں تو مدت پوری ہوتے ہی توسیع کر دی جاتی تھی، لیکن اب اسمبلی میں لے جانے کی بات کی جارہی ہے حالانکہ جب اختیارات میں اضافہ ہوا تھا تب بھی سندھ اسمبلی سے توثیق کرائی گئی تھی اور نہ ہی یہ سندھ اسمبلی کا یہ فیصلہ تھا۔ ’موجودہ صورت حال کی وجہ سیاسی ہے انتظامی یا قانونی نہیں۔ پیپلز پارٹی حکومت کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ انھوں نے رینجرز کو جو اختیارات دیے تھے اب وہ خود ان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ کراچی آپریشن میں بہت سے ایسے عوامل بھی شامل ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی غیر مستحکم ہو گی اور جو چند سرگرم لوگ ہیں جن پر بدعنوانی کے مقدمات ہیں وہ بھی سامنے آئیں گے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔‘ رینجرز کو اختیارات نہ دینے پر حکمران پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا اور اس کے سینکڑوں کارکن بھی گرفتار کیے گئے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ماضی میں بھی رینجرز پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں اور انھوں نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا ہے کہ سندھ کو رینجرز کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سندھ اسمبلی کے تمام ارکان یا توسندھ کو دھرتی ماں کہنا چھوڑ دیں یا پھر وہ مل کر ایک بل پاس کریں کہ اب ہمیں مظلوموں پر ظلم کرنے والی رینجرز نہیں چاہیے۔‘ مشتبہ افراد کو زیر حراست رکھنے کے اختیارات کے علاوہ رواں ماہ ہی رینجرز کے پاس موجود پولیس اختیارات کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، اگر ان میں توسیع نہ ہوئی تو قانونی طور پر رینجرز 11 جولائی کے بعد گھروں پر چھاپے نہیں مار سکے گی۔ صوبائی حکومت کی درخواست پر سندھ میں معاونت کے لیے بھیجی گئی بارڈر سکیورٹی فورس رینجرز کی آمد کو رواں سال 20 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ہر سال ان کے قیام میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال یہ مدت 19 جولائی کو ختم ہو جائے گی۔ صوبائی حکومت اس معاملے پر بھی اسمبلی کی رائے چاہتی ہے۔ وبائی حکومت کی درخواست پر سندھ میں معاونت کے لیے بھیجی گئی بارڈر سکیورٹی فورس رینجرز کی آمد کو رواں سال 20 سال مکمل ہوگئے ہیں وفاقی حکومت، دفاعی ادارے اور رینجرز ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومت میں ٹکراؤ کا امکانات بھی موجود ہیں۔ اس سے پہلے بھی میاں نواز شریف ہی کی حکومت میں حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد اکتوبر 1998 میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد گورنر رائج کا نفاذ دشوار ہوگیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 232 میں گورنر راج کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں ایک اندرونی خلفشار دوسرا بیرونی حملہ۔ ’صوبے میں اندرونی خلفشار ہو تو سندھ اسمبلی کو ایک قرار منظور کرنا ہو گی کہ وہ گورنر راج نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی کے برعکس سندھ اسمبلی میں موجودہ وقت حکمران اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم اس نکتے پر متفق ہیں کہ رینجرز کے اختیارات میں اضافہ نہ ہو۔ دوسری صورت میں صدر پاکستان اس وقت صوبے میں گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں جب بیرونی خطرہ ہو، لیکن نفاذ کے دس روز کے اندر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الگ الگ منظوری لینا ہو گی۔ اگر حکومت یہ چاہے بھی تو نہیں کر سکتی کیونکہ فی الوقت سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے وہاں سے اس کی منظوری ممکن نہیں ہو گی۔‘ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تمام صورت حال سے بخوبی آگاہ ہے کہ قانونی اور سیاسی طور پر اس کی پوزیشن مستحکم ہے اسی لیے وہ سودے بازی کی بنیاد پر دباؤ سے نکلنے کی خواہش مند ہے۔ |
080907_dilli_diary_ka | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/09/080907_dilli_diary_ka | جوہری علیحدگی سے جوہری کلب کی طرف | متنازعہ ہند امریکہ جوہری معاہدے کو جوہری سازو سامان فراہم کرنے والے ممالک کے گروپ (این ایس جی) کی منظوری ملنےکے ساتھ ہی ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ جوہری کلب میں شامل ہو گیا ہے۔ | اس منظوری سے ہندوستان دنیا کا واحد ملک بن گیا جسے جوہری عدم توسیع کے معاہدے ’این پی ٹی‘ اور ’سی ٹی بی ٹی‘ پر دستخط کیے بغیر پوری دنیا میں جوہری سازو سامان اور ٹیکنالوجی کی تجارت کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ امر کافی دلچسپ ہے کہ پینتالیس ملکوں کے جوہری گروپ نے ہند امریکہ معاہدے کو اتفاق رائے سے منظوری دی جب کہ ملک کے اندر سیاسی جماعتوں کے اندر اس معاہدے پر شدید اختلافات ہیں۔ حزب اختلاف کی حماعت بی جے پی نے اسے ’ملک کے اقتدار اعلٰی سے سمجھوتہ ‘ قرار دیا تو وہیں بائیں بازو کی جماعتیں بھی اسے’امریکی سامراجیت کے آگے گھٹنے ٹیکنے‘ کے مترادف بتا رہی ہیں۔ اس کے برعکس جوہری سائنسدانوں، توانائی کے اداروں اور حکومت اور میڈیا میں اس بات پر خوشی ظاہر کی جا رہی ہے کہ ہندوستان کے خلاف تین عشرے سے زیادہ عرصے جاری جوہری پابندی اب ختم ہونے کو آ رہی ہے ۔ ہند امریکہ معاہدے کے مکمل نفاذ میں اب صرف ایک مرحلہ باقی ہے ۔ اسے امریکی کانگریس میں منظور کیا جانا ہے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے شاید یہ معاہدہ اسی مہینے ایوان میں پیش کر دیا جائے اور اس کی منظوری میں کوئی بڑی دقت پیش آنے کی توقع نہیں ہے۔ اس معاہدے کے نافذ ہوتے ہی ہندوستان امریکہ، فرانس، روس، برطانیہ، کینیڈا جاپان اور کئی دیگر ممالک سے کم از کم بیس جوہری ری ایکٹروں اور ایندھن کی خریداری پر بات چیت شروع کر دے گا۔ ہندوستان میں اقتصادی ترقی کے ساتھ بجلی کی مانگ میں سپلائی سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں اس وقت پندرہ ایٹمی ری ایکٹر موجود ہیں لیکن یورینیم کی کمی کے سبب ان سے دو ہزار میگا واٹ سے بھی کم بجلی پیدا ہو پا رہی ہے۔ اس معاہدے کے نفاذ سے آئندہ دس برس میں جوہری ری ایکٹروں سے تیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ جوہری توانائی کے محکمے مطابق سنہ 2050 تک ایٹمی ری ایکٹروں سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ طویل مدتی منصوبے کے تحت اس صدی کے وسط تک ہندوستان کی بجلی کی ضروریات کا 26 فیصد جوہری ٹیکنالوجی سے پورا کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ ہندوستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔ ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار صرف پانچ برس میں دوگنی ہوگئی ہے لیکن سڑکوں، جدید بندرگاہوں، سٹوریج اور سب سے اہم بجلی کی کمی کے سبب اس ترقی کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ چین اگر آج ہندوستان سے برسوں آگے چل رہا ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے ترقی کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل آج سے تیس برس پہلے شروع کر دیا تھا۔ اور وہاں جو منصوبے بنائے گئے وہ حال کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ مستقبل کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں جو جدید ڈھانچے تیار ہو رہے ہیں وہ امریکہ اور یورپ سے برسوں آگے ہیں۔ ہندوستان میں بجلی کی کتنی قلت ہے اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ صنعتی ریاست میں بھی صنعتوں کے لیے روزانہ کئی گھنٹے بجلی کی سپلا ئی بند کرنی پڑتی ہے۔ کانپور جیسے صنعتی شہر بجلی اور دوسری سہولیات کی کمی کے سبب’تباہ‘ ہوگئے اور نوئیڈا اور غازی آباد جیسے علاقوں میں صنعتی یونٹ چلائے رکھنے کے لیے ہر برس ہزاروں کروڑ روپے جنریٹر ڈیزل پر صرف ہوتے ہیں۔ مستقبل میں ترقی کا سب سے زیادہ انحصار اس بات پر ہو گا کہ کس ملک کے پاس توانائی کے کتنے ذرائع ہیں۔ اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ تحقیق توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش پر کی جا رہی ہے۔ ہندوستان بھی توانائی کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ ایران ، ترکمانستان ، اور کئی دیگر ملکوں سے قدرتی گیس کی خریداری کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ امریکہ اور چین کی طرح ہندوستان بھی مستقبل کے لیے توانائی کی سپلائی کو محفوظ کر لینا چاہتا ہے۔ اتنی شدید سیاسی مخالفت کے باوجود امریکہ سے جوہری اشتراک کا معاہدہ کرنا مستقبل کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پینتیس برس کی جوہری تنہائی کے دوران بہترین ری ایکٹرز ، بہترین سیاست دانوں اور بہترین جوہری تحقیقی اداروں کی موجودگی کے باوجود پندہ جوہری ری ایکٹروں سے دو ہزار میگا واٹ سے بھی کم بجلی پیدا کی جا سکی ہے۔ ہندوستان اس سے زیادہ کیا کھو سکتا ہے۔ رہی بات مزید جوہری دھماکے کرنے کی تو ہندوستانی سائنسدانون نے بم بنانے کے تمام تجربے پہلے ہی کر لیے ہیں اور ہندوستانی قیادت کو یہ پتہ ہے کہ مستقبل میں جوہری بموں کی نہیں جوہری تونائی کی ضرورت ہوگی۔ |
160401_indian_women_right_to_enter_temple_sr | https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/04/160401_indian_women_right_to_enter_temple_sr | ’مندروں میں جانے عورتوں کا بنیادی حق ہے‘ | بھارت کی ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاست مہاراشٹر کی خواتین کو مندروں داخل ہونے اور دعا کرنے کا بینادی حق ہے۔ | ممبئی کی ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرے ممبئی کی ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرے۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک درخواست کے جواب میں دیا ہے جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ عورتوں کی صدیوں پرانے تاریخی مندروں میں جانے سے روکا جائے۔ رواں سال جنوری میں سینکڑوں عورتوں نے مندر میں داخلے پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ خواتین کی اس مہم کی سربراہی بھومت رنگ راگنی بریگیڈ کر رہی ہے اور ریاست کی مندروں میں جانے سے روکنے کے خلاف اس گروپ نے مہم چلائی ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے۔ سرکاری خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ریاستی حکومت نے خواتین کو مندر میں داخلے سے روکنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ |
120726_docotors_strike_punjab_zs | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/07/120726_docotors_strike_punjab_zs | نوجوان ڈاکٹروں کا احتجاج دوبارہ شروع | پنجاب میں نوجوان ڈاکٹرز نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات کے لیے پرامن احتجاج شروع کر دیا ہے تاہم اس مرتبہ احتجاج کے دوران ڈاکٹروں نے ایمرجنسی، آؤٹ ڈور اور وارڈز میں کام جاری رکھا ہے۔ | چند ہفتے پہلے ڈاکٹروں نے سروس سٹرکچر کے حصول کے لیے بیس روز تک ہڑتال کی تھی پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز اپنے سروس سٹرکچر کے لیے پہلے بھی کئی مرتبہ ہڑتال اور احتجاج کر چکے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ناصر عباس نے بی بی سی کی نامہ نگار شمائلہ جعفری کو بتایا کہ ان کا احتجاج پرامن رہے گا اور وہ اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے رہیں گے۔ ڈاکٹروں نے احتجاج کے دوران بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کام کیا اور لاہور کے جنرل ہسپتال میں احتجاجی جلسہ منعقد کیا جس میں ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو اپنے مطالبات سے متعلق حکومتی رویے سے آگاہ کیا گیا اور آئندہ احتجاج کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مشاورت کی گئی۔ ینگ ڈاکٹرز کے ترجمان نے بتایا کہ اگلے مرحلے میں وہ نواز شریف، عمران خان اور پرویز الٰہی سمیت مختلف سیاستدانوں سے رابطے کرنے کا ارارہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اسحاق ڈار، پرویز رشید اور سیکرٹری صحت سے بدھ کی رات بھی ان کے مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ ترجمان نے کہا کہ خاص طور پر بھرتیوں اور ترقیوں سے متعلق معاملات پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ چند ہفتے پہلے ڈاکٹروں نے سروس سٹرکچر کے حصول کے لیے بیس روز تک ہڑتال کی تھی۔ اس ہڑتال کے دوران ینگ ڈاکٹرز کے تیس نمائندوں کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ تنظیم کے اجلاس میں ہڑتال کا لائحہ عمل طے کر رہے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کی مداخلت پر ڈاکٹروں کو رہا تو کر دیا گیا لیکن عدالت نے ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں۔ ہائیکورٹ نے ڈاکٹروں کو جاری کیے گئے شو کاز نوٹسز اور ان کے تبادلوں پر عملدرآمد بھی روک دیا تھاـ تاہم ڈاکٹروں نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی گئی یا انھیں بند گلی میں دھکیلا گیا تو وہ دوبارہ ہڑتال کا راستہ اختیار کریں گے۔ |
world-54864539 | https://www.bbc.com/urdu/world-54864539 | امریکی صدارتی انتخاب: صدر ٹرمپ کے ساتھ گزرا وہ دن جب وہ الیکشن ہارے | پچھلے چار برسوں میں ، میں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اچھے اور برے گزرنے والے دنوں میں دیکھا ہے۔ لیکن 7 نومبر، جس دن وہ صدارتی الیکشن ہارے اُس جیسے دن کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ | گہرے رنگ کی ونڈ بریکر، کالی پتلون اور سفید میگا ٹوپی یعنی جس پر یہ الفاظ درج تھے کہ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ پہنے صدر 10 بجے سے چند منٹ پہلے وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ انھوں نے اپنے دن کا ابتدائی حصہ انتخابی دھاندلی کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے گزارا تھا۔ وہ آگے کی طرف جھکے ہوئے چلتے دکھائی دیے جیسے ہوا انھیں پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہو اور اس چال کے ساتھ وہ ایک گہرے رنگ کی گاڑی میں چڑھ کر بیٹھے اور وائٹ ہاؤس سے 25 میل (40 کلو میٹر) کے فاصلے پر اسٹارلنگ ورجینیا میں اپنے گولف کلب ٹرمپ نیشنل کا رخ کیا۔ اس لمحے میں انھوں نے بھرپور خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک خوبصورت دن تھا، جو گولف کے لیے بہترین تھا، اور وہ یہ دن کلب میں گزارنے جا رہے تھا۔ لیکن وہ لوگ جو اُن کے لیے کام کرتے ہیں وہ مضطرب نظر آئے۔ 'آپ کیسی ہیں؟' میں نے عملے کی ایک جونیئر اہلکار سے پوچھا۔ انھوں نے جواب میں کہا ’ٹھیک‘، لیکن آنکھیں سُکیڑتے ہوئے مسکرائیں۔ پھر انھوں نے آنکھیں نیچی کر کے اپنے فون کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ یہ بھی پڑھیے امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت کی دوڑ میں مقدمات کا راستہ اپنا لیا کیا نتائج سے متعلق ڈراؤنا خواب حقیقت کا روپ دھار رہا ہے؟ انتخابات کا صدمہ انتخابات کے بعد سے وائٹ ہاؤس میں ماحول سوگوار رہا ہے۔ گو کہ یہ صرف منگل کی بات ہے لیکن ایسا لگتا ہے پوری عمر گزر گئی ہو۔ جب میں ہفتے کی صبح عمارت سے گزر رہا تھا تو ویسٹ ونگ کے بہت سارے ڈیسک خالی تھے۔ عملے کے متعدد اہلکار کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، اور وہ دفتر نہیں آئے تھے۔ باقی قرنطینہ میں تھے۔ پھر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے جب صدر اپنے گولف کلب میں تھے تو بی بی سی اور امریکی ٹی وی نیٹ ورکس نے ان کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن کو انتخابات میں فاتح قرار دینا شروع کیا۔ جب میں نے یہ خبر سنی تو میں کلب سے ایک میل کے فاصلے پر ایک اطالوی ریستوران میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وائٹ ہاؤس کے پریس پول کا رکن ہوں، یعنی صحافیوں کا ایک چھوٹا گروپ جو صدر کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ ہم سب ان کے کلب سے نکلنے کے منتظر تھے۔ ریستوران کے باہر کی ایک خاتون نے کہا ’وہ زہریلا ہے۔‘ ، انھوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرنے والے اس علاقے میں اپنے بیشتر پڑوسیوں کی طرح صدر کے حریف کو ووٹ دیا تھا۔ دوسروں نے بلند آواز میں اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ صدر آخر کب کلب چھوڑ کر واپس وائٹ ہاؤس جائیں گے۔ وقت گزرتا رہا اور کئی منٹوں سے گھنٹے بیت گئے۔ قانون نافذ کرنے والے افسر نے خاموشی سے اپنے ایک ساتھی سے کہا،’وہ اپنا وقت لے رہے ہیں۔‘ صدر کو جانے کی جلدی نہیں تھی۔ کلب میں وہ اپنے دوستوں کے درمیان تھے۔ کلب کے دروازے کے باہر ان کے حامی مجھ پر اور دوسرے نامہ نگاروں پر چیخے اور کہا: 'میڈیا کو ملنا والا پیسہ بند کریں۔‘ مضبوط ہیل والی جوتی پہنے اور سر پرسرخ سفید اور نیلے رنگ کا کپڑا باندھے ایک عورت کھڑی تھی جس نے ایک پوسٹر اٹھایا ہوا تھا جس پر درج تھا کہ ’چوری بند کرو۔‘ ایک شخص اپنے ٹرک کو کلب کے سامنے سڑک سے گزار رہا تھا جس پر متعدد جھنڈے لگے ہوئے تھے، جن میں سے ایک پر صدر ٹینک پر کھڑے نظر آئے، گویا وہ پوری دنیا کے کمانڈر ہوں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان کے حامی انھیں کس طرح دیکھتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے چار سالوں میں خود کو کس طرح دیکھا ہے۔ آخر کار، وہ کلب سے باہر نکلے اور اپنے گھر واپسی کا سفر شروع کیا۔ ان کے نقاد ہزاروں کی تعداد میں اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ 'آپ ہار گئے اور ہم سب جیت گئے' ورجینیا سے صدر کا قافلہ چیختا چنگھاڑتا ہوا گزرا ، میں بھی اس قافلے کا حصہ تھا اور ایک وین فیئر فیکس کاؤنٹی پارک وے پر حادثے سے بال بال بچی۔ سائرن بلند آواز میں بج رہے تھے۔ ہم جتنا وائٹ ہاؤس کے قریب پہنچے ہجوم بھی بڑھتا چلا گیا۔ لوگ ان کی شکست کا جشن منانے باہر نکلے تھے۔ ایک شخص نے پوسٹر اُٹھایا ہوا تھا جس پر درج تھا کہ: ’آپ ہار گئے اور ہم سب جیت گئے۔' لوگوں نے ہارن بجائے اور نعرے لگائے۔ پھر ہم وائٹ ہاؤس واپس پہنچے، صدر ٹرمپ عمارت کے پہلو میں موجود دروازے سے اندر گئے، ایک ایسا داخلی دروازہ جسے صدور شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے کندھے ڈھلکے ہوئے تھے اور سر نیچے جھکا ہوا تھا۔ انھوں نے ایک نظر ہماری طرف دیکھا اور مجھے اور پریس پول کے دیگر صحافیوں کو انگوٹھے سے پسندیدگی کا اشارہ دیا۔ یہ ایک بے دلی سے دیا گیا اشارہ تھا۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بھرپور طریقے سے نہیں اٹھایا اور مٹھی نہیں ہلائی، جس طرح وہ اکثر کیا کرتے تھے۔ چاہے وائٹ ہاؤس میں ہوں یا گولف کلب میں، صدر کے قدم کبھی بھی ڈگمگائے نہیں۔ وہ انتخابی دھاندلی کے بارے میں بغیر شواہد کے دعوے کرتے رہے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ انھیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ انھوں نے صبح کی گئی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے ووٹوں کے بارے میں بات کی اور دوپہر کے آخر تک وہ جلی حروف میں لکھے گئے اپنے پیغام میں اعلان کر رہے تھے کہ ’میں انتخاب جیت گیا ہوں۔‘ ’مبصرین کو گنتی کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ میں انتخاب جیتا ہوں مجھے 71،000،000 قانونی ووٹ ملے ہیں۔ انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی ہے جو ہمارے مبصرین کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ لاکھوں افراد کو پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے والے بیلٹ پیپر بھیجے گئے حالانکہ انھوں نے یہ مانگے بھی نہیں تھے۔‘ یہ تو تھے ٹوئٹر پر نظر آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ۔ جس آدمی کو میں نے دیکھا اس نے ایک مختلف تاثر چھوڑا۔ جب وہ دوپہر کے آخری پہر وائٹ ہاؤس کے پہلو میں موجود دروازے سے اندر جا رہے تھے تو ان کی ساری شوخی جا چکی تھی۔ |
050118_iraq_bishop_release_fz | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050118_iraq_bishop_release_fz | عراق: آرچ بشپ رہا | عراق میں موصل شہر سے اغوا ہونے والےمسیحیوں کے ایک اعلٰی ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ بیسل جارجس کسموسا کو رہا کر دیا گیا ہے۔ | موصل میں چرچ کے حکام نے کہا ہے کہ بشپ بیسل کی رہائی کے لیے کوئی ہرجانہ ادا نہیں کیا گیا۔ اس پہلے اطلاعات ملی تھیں کے اغوا کنندگان نے بشپ کو رہا کرنے کے لیے دو لاکھ ڈالر ادا کرنے کو کہا تھا۔ ویٹیکن میں حکام نے بشپ کے اغوا کی شدید مذمت کی تھی اور اسے دہشت گردی قرار دیا تھا۔ حالیہ دنوں میں عراق میں عیسائی اقلیت پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔ دسمبر میں موصل میں دو گرجوں کو بم سے اڑا دیا گیا تھا۔ عراق میں عیسائی کل آبادی کا تین فیصد ہیں۔ عراق میں مختلف مذاہب کے درمیان مفاہمت کے مرکز کے منتظم کینن اینڈریو کا کہنا ہے کہ ’یوں تو موصل میں کلیسا کے رہنماؤں کو کسی نہ کسی طرح خطرات درپیش رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں، خاص طور پر فلوجہ میں کارروائی کے بعد حالات نہایت خراب ہوگئے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلوجہ سے بہت سے دہشت گرد موصل آچکے ہیں جس سے وہاں صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے‘۔ |
150615_china_uk_relationship_sa | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150615_china_uk_relationship_sa | چینی برطانوی رشتے کی پیچیدگیاں | کسی چینی سربراہ کی جانب سے برطانیہ کا سرکاری دورہ دس سال قبل ہوا تھا۔ ان دس برس میں چین بہت بدل گیا ہے۔ | اس اکتوبر چینی صدر شی جن پنگ برطانیہ کا دورہ کریں گے اور اپنے پیش رو کے برعکس ان کا انداز قدرے مختلف ہوگا 2005 میں صدر ہو جنتاؤ کے دورے کے بعد سے چینی معیشت تین گنا بڑی ہو چکی ہے جبکہ برطانیہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک نے سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کا سامنا کیا۔ چین میں اب ایک متوسط طبقہ پروان چڑھ رہا ہے جو کہ سروسز سیکٹر میں کام کرتا ہے، نئے نئے وسیع شہروں میں رہائش پزیر ہے اور مستقبل میں اس طبقے کے اندازِ خرچ کا عالمی معیشت پر بڑا اثر پڑے گا۔ چین کی فی کس سالانہ قومی پیداوار تیزی سے متوسط آمدنی والے ممالک کے برابر ہوتی نظر آتی ہے جو تقریباً سالانہ نو ہزار امریکی ڈالر ہے۔ اور اگرچہ اس وقت چینی شرحِ نمو 2000 کی دہائی کی طرح دس فیصد سے زیادہ تو نہیں تاہم یہ اب بھی سات فیصد سے زیادہ پر برقرار ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو بطور بیرونی سرمایہ کار اور تجارتی ساتھی کے، چین کی گذشتہ ایک دہائی میں برطانیہ کے لیے اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس برس اکتوبر میں چینی صدر شی جن پنگ برطانیہ کا دورہ کریں گے تو اپنے پیش رو کے برعکس ان کا انداز قدرے مختلف ہوگا۔ صدر ہو جنتاؤ کم گو اور خود کو زیادہ نمایاں کرنے کے شوقین نہیں تھے۔ بہت سے لوگوں کو شاید ان کا دورہ یاد بھی نہ ہو۔ بڑے پیمانے کے عوامی جلسے اور تقاریر انھیں شدید ناپسند تھیں۔ صدر شی کو قدرے زیادہ ملنسار تصور کیا جاتا ہے اور 2012 میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے ان کی تقاریر کا انداز بھی عالی شان بتایا جاتا ہے مثلاً چین اور امریکہ ’عالمی قوتیں‘ ہیں، یورپ اور چین ’تہذیبی ساتھی‘ ہیں۔ صدر شی نے کئی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے طے کیے ہیں۔ کیا صدر شی برطانیہ اور چین کے تعلقات کو چند الفاظ میں قلم بند کرنے کی کوشش کریں گے؟ اور اس رشتے کے کون سے پہلو پر ان کی توجہ کا مرکز ہوگا؟ طویل تاریخ صدر شی کو قدرے زیادہ ملنسار تصور کیا جاتا ہے اور 2012 میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے ان کی تقاریر کا انداز بھی عالی شان بتایا جاتا ہے برطانیہ اور چین کے تعلقات کو ایک نعرے میں پیش کرنے کا امکان انتہائی کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات بہت پیچیدہ رہے ہیں۔ اس پیچیدگی کی وجہ بہت سادہ ہے۔ تاریخ میں دونوں ممالک کے درمیان کشمکش رہی ہے جس میں چین کی نظر میں برطانیہ کی جانب سے سامراجی حکومت قائم کرنے کی کوشش، 1839 میں اوپیئم وارز اور ہانگ کانگ کے اقتدار کے معاملے پر مذاکرات جو کہ 1997 میں برطانوی کنٹرول سے چین کو منتقل کیا گیا۔ اور اگرچہ بہتری کی کوششیں جاری رہی ہیں تاہم جب بھی برطانوی قیادت چینی لیڈران سے انسانی حقوق کے معاملے پر بات کرتی ہے تو انھیں پرجوش جوابات دیے جاتے ہیں۔ جولائی 2012 میں دلائی لاما سے ملاقات کے بعد ڈیوڈ کیمرون تقریباً ایک سال تک چینی دارالحکومت بیجنگ نہ جا سکے۔ چین کے لیے برطانوی پالیسی ہمیشہ مبہم رہی ہے اور اب بھی اس کے واضح ہونے کا امکان کم ہے۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کی تبلیغ کے تلے برطانیہ اپنے مفاد سے بھی بخوبی واقف ہے۔ ڈیوڈ کیمرون سے ناراضگی کے دوران بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا۔ برطانیہ ان پہلی یورپی معیشتوں میں سے تھا جس نے چینی قیادت میں قائم ہونے والے ایشیئن انفراسٹچر انویشٹمنٹ بینک کو تسلیم کر لیا جس کی وجہ سے اسے اپنے قریبی ترین اتحادی امریکہ سے بھی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ کا سوال صدر شی کے لیے اس دورے پر شاید سب سے اہم سوال یورپی یونین میں برطانیہ کے مقام کو سمجھنا ہوگا۔ اس تنظیم سے برطانیہ کے ممکنہ اخراج کا دونوں ممالک کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا، چاہے اس کا اظہار کیا جائے یا نہیں لیکن چین کو یورپی یونین کی جانب سے اقتصادی ہم آہنگی پسند ہے اور اگرچہ چین کبھی بھی عوامی سطح پر اس حوالے سے کچھ نہیں کہے گا تاہم برطانوی اخراج کو وہ قدرے بری نگاہ سے دیکھے گا۔ جولائی 2012 میں دلائی لاما سے ملاقات کے بعد ڈیوڈ کیمرون تقریباً ایک سال تک چینی دارالحکومت بیجنگ نہ جا سکے حقیقت یہ ہے کہ صدر شی کے دورے میں ہمیں حقیقت پسندانہ اور تصوراتی دونوں ہی تاثر ملیں گے مگر سب سے اہم ترجیح چین سے مزید سرمایہ کاری اور مالیاتی تعاون حاصل کرنا ہے۔ برطانیہ اس وقت چینی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کی ایک اہم جگہ ہے اور 2014 میں اس حوالے سے 5.1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ گذشتہ سال بی پی نے چینی نیشنل آفشور آئل کمپنی کے ساتھ تقریباً 20 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا۔تاہم چینی معیشت کے کل حجم اور ممکنہ سرمایہ کاری کی صلاحیت کے تناظر میں یہ بہت تھوڑی مقدار ہے۔ گذشتہ سال اس کا ہدف 18 بلین پاؤنڈ تعین کیا گیا تھا اور صدر شی کے دورے میں اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ صدر شی جہاں بھی گئے ہیں انھوں نے اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ گذشتہ سال آسٹریلیا میں اپنے دورے پر انھوں نے مذاق میں کہا کہ اب انھیں اس بات کی عادت ہوگئی ہے کہ وہ سارا دن کھڑے ہو کر معاہدوں پر دستخط ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ وزیراعظم کیمرون کا کام کافی مشکل ہے۔ انھیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھانا ہوگا اور تجارتی تعاون کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ بیانات بھی جو بھی کہا جائے حقیقت میں دونوں جانب قیادت کی یہی امید ہوگی۔ |
151122_india_protest_on_cow_sr | https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/11/151122_india_protest_on_cow_sr | اصلی کے بعد اب نقلی گائے پر بھی تنازع | بھارت کی ریاست راجھستان میں پولیس نے پلاسٹک سے بنائی گئی گائے کی شبیہہ کو غبارے کے ساتھ ہوا میں معلق کرنے پر فنکاروں کو حراست میں لے کر ’گائے‘ کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ | ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروع ہو رہے ہیں کیونکہ گائے ہندو مت میں مقدس مقام رکھتی ہے: مظاہرین اتوار کو راجھستان کے شہر جے پور میں پولیس نے جے پور آرٹ سمٹ میں اُس وقت چھاپا مارا، جب وہاں ایک نمائش جاری تھی۔ اس نمائش میں پلاسٹک سے بنی گائے میں ہیلیم گیس بھر کر اُسے فضا میں معلق کیا گیا تھا۔ راجھستان کی پولیس کا کہنا ہے کہ بعض مظاہرین کے احتجاج کے بعد وہ نمائش میں آئے ہیں۔ مقامی پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’کئی افراد ہمارے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ بعض آرٹسٹوں نے گائے کو غلط انداز میں دکھایا ہے۔‘ پولیس کا کہنا کے مظاہرین کے مطابق ایک بڑی سی گائے ہوا میں معلق ہے جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروع ہو رہے ہیں کیونکہ گائے ہندو مت میں مقدس مقام رکھتی ہے۔ مظاہرین کے احتجاج کے بعد پولیس نے نمائش میں آ کر گائے کی شکل کے غبارے کو نیچے اُتارا۔ جس کے بعد ہندو مظاہرین نے گائے کی پوجا کی اور اُس پر پھول چڑھائے۔ پولیس نے نمائش میں شریک دو فنکاروں انیش آلوہوالیا اور چیتن اوپادھئے کو کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔ ایک فنکار سدھارت کاروال کا کہنا ہے کہ گائے کی شبیہہ کے اس غبارے کو انھوں نے’ مقدس گائے‘ کا نام دیا تھا۔ اس کے ذریعے وہ بھارت میں گائے کے آبادی میں کمی کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں جو کہ پلاسٹک کھاتی ہیں اور جو اس کے گلے میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر اس کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ فنکاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو ظاہر کرتا ہے۔ |
060902_balochistan_update_na | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/09/060902_balochistan_update_na | بلوچستان: مظاہرے، توڑ پھوڑ، گرفتاریاں | بلوچستان میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ بعض اضلاع سے کشیدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ پنجگور میں ایک نجی سکول کو آگ لگا دی گئی ہے۔ کاہان میں سکیورٹی فورسز نے بعض مقامات پر حملے کیئے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ | بلوچستان کی متحدہ حزب اختلاف نے اتوار سے احتجاجی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کےتحت ریلیاں ہڑتال اور جلسے منعقد کیئے جائیں گے۔ پنجگور کے تحصیل ناظم رحمدل بلوچ نے بتایا ہے کہ علاقے میں سنیچر کی صبح ایک سکول کو آگ لگا دی گئی ہے جبکہ وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ پولیس نے دو روز میں پچاس سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ نوشکی سے مقامی صحافی سعید خان نے بتایا ہے کہ دالبندین اور نوشکی میں حالات کشیدہ ہیں۔ فرنٹیئر کور اور پولیس کے اہلکار مختلف مقامات پر تعینات ہیں جبکہ خاران میں کل رات ایک سکول کو نذر آتش کیا گیا ہے۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لیڈر جاوید بلوچ نے بتایا ہے کہ پولیس نے صوبہ بھر سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں اکثریت طلبا کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ اتوار سے اب تک ایک ہزار لوگوں کو اٹھایا گیا جبکہ کل اور آج پنجگور قلات سے ڈیرہ مراد جمالی اور کوئٹہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان رازق بگٹی نے کہا ہے کہ حکومت امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ پر امن احتجاج لوگوں کا حق ہے لیکن اگر کوئی توڑ پھوڑ کر یا امن کے لیے خطرہ ثابت ہو ان کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔ اس سے قبل اتحاد برائے بحالی جمہوریت، چار جماعتی بلوچ اتحاد، اپنے آپ کو محکوم کہلوانے والی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد پونم اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے مشترکہ اخباری کانفرنس میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت اور میت ورثاء کے حوالے نہ کرنے پر سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔ |
041024_iraq_bodies_sen | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/10/041024_iraq_bodies_sen | بغداد میں دھماکہ، تین عراقی ہلاک | عراقی دارالحکومت بغداد کے وسط میں آسٹریلوی فوجی کاررواں کے قریب سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے تین عراقی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ | زخمی ہونے والوں میں دو آسٹریلوی فوجی بھی شامل ہیں۔ دھماکے کے سبب ایک فوجی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ امریکی اور عراقی حکام کے مطابق کرادا ضلع میں واقع گرین زون کے قریب ہونے والے اس دھماکے کا مقصد آسٹریلوی فوجی کاررواں کو نشانہ بنانا تھا۔ امریکی فوج نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی ہے اور ہیلی کاپٹر پرواز کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دریں اثناء عراق کے سکیورٹی اہلکاروں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ جن مشتبہ شدت پسندوں نے پچاس عراقی رضاکاروں کو ہلاک کیا ہے انہیں سکیورٹی کے اندر سے ہی مخبری کی گئی تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسے ہلاک ہونے والے پچاس رضاکاروں کی لاشیں اتوار کو ملی تھیں۔ ان فوجیوں کی لاشیں شمال مشرق میں ایران کی سرحد کے قریب ملی ہیں اور وہ منی بسوں میں جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ان فوجیوں کو پہلے زمین پر لٹایا گیا اور پھر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں قطاروں میں رکھی ہوئی ملی ہیں۔ عراقی انتظامیہ کے مطابق ان رضاکاروں ابھی اپنی بنیادی تربیت ہی مکمل کی تھی اور اس کے بعد چھٹی لے کر گھروں کو جا رہے تھے۔ ابھی کل ہی سکیورٹی فورس کے بیس اہلکار دو خود کش بم حملوں ہلاک ہو گئے تھے۔ ادھر امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے فلوجہ میں مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے اور ایک کمانڈ پوسٹ تباہ کر دی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق پہلے حملے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ |
061020_india_dewali | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/10/061020_india_dewali | دیوالی پر حفاظتی انتظامات میں اضافہ | ہندوستان میں ہندؤوں کے بڑے تہوار دیوالی کے موقع پر بہت زیادہ حفاظتی نتظامات کیئے گئے ہیں۔ دارالحکومت دِلّی جیسے کئی اہم شہروں میں سخت چوکسی برتی جارہی ہے۔ | دِلّی، بنارس، ایودھیا اور احمدآباد کے اہم مندروں پر پہرے بڑھا دیئے گئے ہیں اور مصروف بازاروں میں کئی مقامات پر پولیس کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ کیمرے بھی نصب کیئے گئے ہیں۔ گزشتہ برس دیوالی سے ایک روز قبل دلی میں کئي مقامات پر بم دھما کے ہوئے تھے جس میں پچاس سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ دِلّی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے شدت پسند تنظیم جیش محمد کے ایک کارکن کو دِلّی میں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق مشتبہ شدت پسند پرویز محمد رادو کا تعلق کشمیر کے بارہ مولہ ضلع سے ہے۔ پولیس کے ایک سینئر اہلکار آلوک کمار نے بتایا ہے کہ پرویز محمد کو دِلّی کے آزاد پور علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پرویز کے پاس سے تین کلو آر ڈی ایکس، دس لاکھ روپے اور ایک ٹائمر اور ڈیٹونیٹر برآمد ہوئے ہیں۔ پرویز محمد کو اس ماہ کی چودہ تاریخ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پرویز سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد پولیس کے اہلکار ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے جموں اور کشمیر روانہ ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کے خفیہ اداروں نے دیوالی کے موقع پر شدت پسندوں کے متوقع حملوں سے نمٹنےکے لیے چوکس رہنے کی وارنگ دی ہے۔ اس کے تحت دیوالی کے موقع پر پوری دِلّی میں حفاظتی انتظامات بڑھادیئے گئے ہیں۔ جگہ جگہ پولیس تعینات ہے۔ ہوٹلوں، پبلک فون بوتھس، کیفیز کو ہدایت جاری کئی گئی ہیں کہ وہ ہر انجان شخص پر نظر رکھیں۔ بازاروں اور پارکوں میں بھی بڑی تعداد میں پولیس تعینات ہے۔ |
080715_sc_qadeer_rr | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/07/080715_sc_qadeer_rr | ’ایٹمی سائنسدان فوجی ٹارگٹ ہے‘ | وفاق کے وکیل احمر بلال نے کہا ہے کہ ایٹمی سائنسدان ایک فوجی ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اس لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حفاظتی اقدامات سخت کیے گیے ہیں۔ | وفاق کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواستوں پر عدالت میں جواب داخل کروایا گیا اس جواب کے حق میں دلائل دیتے ہوئے احمر بلال صوفی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنہ دوہزار چار میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک سامنے آیا تو اُس وقت سے حکومت پر بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک دبئی، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی افریقہ میں تھا اور جنوبی افریقہ اور سوئٹزرلینڈ میں اس نیٹ ورک کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ احمر بلال نے کہا کہ اگر جج صاحب کہیں تو وہ یہ قانونی کارروائی انہیں چیمبر میں دکھا سکتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران، لیبیا اور شمالی کوریا گئے تھے اور انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جو صورتحال چل رہی ہے اُس کی وجہ سے ملک انتہائی نازک دور سے گُزر رہا ہے اور اس پر ڈاکٹر قدیر کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے تجویز دی ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک میں گھومنے پھرنے کے اجازت دی جائے اور اُن کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ پر کوئی بات نہ کی جائے۔ یہ تجویز انہوں نے منگل کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بےجا میں رکھنے کے حوالے سے دائر پانچ درخواستوں کی سماعت کے دوران دی۔ انہوں نے درخواست گزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری اور وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل احمر بلال صوفی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن سے کہا کہ وہ مل کر بیٹھ جائیں اور اس سلسلے میں کوئی اقدام تجویز کریں۔ درخواست گُزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری نے حکومت کی طرف سے داخل کروائے گئے جواب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں لگایا گیا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ جواب کس نے دیا ہے۔ انہوں نے فیڈریشن کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے اس جواب کو اپنے موکل کے خلاف توہین آمیز تحریر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اُن کے مؤکل کے خلاف صرف الزام تراشی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہو۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے موکل ڈاکٹر عبدالقدیر عدالت میں پیش ہوکر تمام حقائق عدالت کو بتانے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے اور ان درخواستوں کی سماعت چیمبر میں کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پیر کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ قومی راز صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’ ان دی لائن آف فائر’ میں افشا کیے ہیں۔ جاوید اقبال جعفری نے عدالت سے استدعا کی کہ ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ قومی راز افشا کرنے میں کون ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور شمالی کوریا پہلے ہی اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے کوئی ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ ملک میں بہت سے ایسے وزیر اعظم پھر رہے ہیں جن کے پاس قومی راز ہیں لیکن اُن کے ساتھ تو ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جیسا اُن کے موکل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے عدالت کو بتایا تھا کہ عبدالقیر خان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر کسی سے مل سکتے ہیں تاہم آج حکومت کی طرف داخل کرائے گئے جواب میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان پر لگائی گئیں پابندیاں مزید سخت کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ اُن کے رشتہ داروں کو بھی نہیں ملنے دیا جا رہا۔ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔ |
world-53205879 | https://www.bbc.com/urdu/world-53205879 | ہانگ کانگ سکیورٹی قانون: امریکہ نے متنازع قانون سے منسلک چینی اہلکاروں پر ویزا پابندیاں عائد کر دیں | امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ایسے حکام پر ویزا پابندیاں عائد کر رہا ہے جو ہانگ کانگ کی عوام کی خودمختاری مجروح کرنے کے ذمہ دار تھے۔ | پومپیو کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے جماعت کے ’موجودہ اور سابق‘ ارکان دونوں متاثر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اقدام صدر ٹرمپ کے اس وعدے کی پیروی ہے جس کے مطابق چین کو ہانگ کانگ کی خود مختاری محدود کرنے والے سکیورٹی قانون متعارف کروانے پر سزا دی جانی تھی۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ ایک ’غلطی‘ ہے جس پر اسے نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ یہ بھی پڑھیے دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ تیزی سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟ امریکہ چین تعلقات: امریکی کمپنیوں کو ہوائی کے ساتھ کام کرنے اجازت ’چین کی موجودہ طاقت کا امریکہ سے کوئی موازنہ نہیں‘ یہ پیش رفت چین کے پارلیمانی اجلاس کے منعقد ہونے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔ نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی اس نئے قانون سے متعلق آئندہ اتوار کو شروع ہونے والے اجلاس میں بحث کرے گی۔ چین نے ایک ایسا سکیورٹی قانون متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے ہانگ کانگ میں بیجنگ کی حاکمیت کو مجروح کرنا جرم تصور ہو گا اور اس کے باعث چین ہانگ کانگ میں پہلی مرتبہ اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر قائم کرے گا۔ اس نئے قانون کے متعارف ہونے کے بعد ہانگ کانگ میں چین مخالف مظاہروں کی ایک نئی لہر نے سر اٹھایا ہے۔ جمعہ کے روز مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کسی ایسے چینی اہلکار کا نام تو نہیں لیا جو امریکی ویزا پابندیوں سے متاثر ہوا ہے تاہم یہ پیش رفت امریکی ایوانِ بالا میں ایک حالیہ ووٹ کے بعد سامنے آئی ہے جس میں اراکین نے ان افراد پر پابندیاں عائد کرنے کا کہا تھا جو ہانگ کانگ کی خودمختاری کو محدود کرنے اور ان بینکوں کے خلاف بھی جو ان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ اس اقدام کے بارے میں اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے واشنگٹن میں چین کے سفارتخانے نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ’امریکہ کے اس غلط فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘ سفارت خانے کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کے وہ اپنی غلطیوں کی تصحیح کرے، اس فیصلے کو واپس لے اور چین کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے پرہیز کرے۔‘ گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چین کے منصوبوں کے ردِ عمل میں ہانگ کانگ سے تجارت اور سیاحت کے حوالے سے ترجیحی سلوک ختم کریں گے۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ بیجنگ ’اپنے وعدے کے خلاف ایک ملک دو نظام کے فارمولے سے ہٹ کر ایک ملک ایک نظام کی پالیسی اپنا رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہانگ کانگ کے لیے ایک سانحے سے کم نہیں، چین نے ہانگ کانگ کی خودمختاری چھین لی ہے۔ چینی پارلیمان نے پہلے ہی نئے قانون سے متعلق قرارداد کی حمایت کر دی ہے جس کے بعد اب یہ ملک کی سینیئر لیڈران کے پاس جا چکی ہے۔ ہانگ کانگ نے بھی ایک سکیورٹی قانون پاس کرنا تھا تاہم اس کی غیر مقبولیت کے باوجود اسے منظور نہیں کروایا جا سکا تھا۔ چین اب مداخلت کر کے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ شہر کا ایک آئینی ڈھانچہ ہو جس کے ذریعے چین کی حاکمیت کو درپیش خطرات سے نمٹا جا سکے۔ اس قانون کے تحت مندرجہ ذیل فعل جرم قرار دیے جائیں گے: 1۔ چین سے علیحدگی اختیار کرنا 2۔ وفاقی حکومت کے اختیار یا طاقت کو نظر انداز کرنا 3۔ دہشت گردی، یعنی اپنے ہی لوگوں کے خلاف تشدد کا رستہ اپنانا 4۔ غیرملکی فورسز کی ہانگ کانگ کے معاملات میں عمل دخل ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں ڈر ہے کہ اس قانون کے تحت ان افراد و بھی سزائیں دی جائیں گی جو بیجنگ پر تنقید کرتے ہیں جیسے چین میں ہوتا ہے۔ |
160407_quetta_young_doctors_protest_zz | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160407_quetta_young_doctors_protest_zz | کوئٹہ میں ڈاکٹروں کے احتجاج میں 10 زخمی، 20 گرفتار | پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو منتشرکر نے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے علاوہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ | ینگ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے احتجاج جاری رہے گا ینگ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے حق میں بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے چاہتے تھے لیکن پولیس نے ان کو اسمبلی کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی۔ اجازت نہ ملنے پر ینگ ڈاکٹروں نے انسکمب روڈ پر میٹرو آفس کے سامنے دھرنا دیا۔ پولیس نے ڈاکٹروں کو منتشر کرنے کے لیے آ نسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پولیس کے اہلکاروں نے ڈاکٹروں کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔ ینگ ڈا کٹر ایسوسی ایشن کے صدر حفیظ اللہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتا یا کہ پولیس کے تشدد سے 10 ڈاکٹر زخمی ہوئے جبکہ 20 کوگرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد ینگ ڈا کٹرز ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس منعقد ہواجس میں بلوچستان کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند کر نے کا اعلان کیا گیا۔ ینگ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے اور ان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹروں کے جلوس پر شیلنگ کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعلیٰ کی ہدایت پر واقعہ کی تحقیقات کے لیے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ کمیٹی نے شدید زخمی ہونے والے ڈاکٹراسد اللہ کو فوری طور پر کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ینگ ڈاکٹرز تنخواہوں میں اضافے، سرکاری ہسپتالوں میں نئے ڈاکٹرز کے لیے زیادہ آسامیاں، رہائش گاہوں کی فراہمی اور مستقل بنیادوں پر بھرتی کے مطالبات کر رہے ہیں۔ |
060822_muslims_india_sen | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060822_muslims_india_sen | ’مسلمانوں کے درد کو سمجھتا ہوں‘ | ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کے اندیشوں اور درد کو سمجھتے ہیں۔ | دہشت گردی کے مضمون پر مسلم علماء کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر سنگھ نے کہا کہ اگر آج کوئی مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر بدنام کرنا چاہتا ہے تو وہ محض بھڑکانے کی ایک سازش ہے ’یاد رکھیں کہ دہشت گردی کا نہ کوئي مذہب ہوتا ہے نہ ذات اور نہ ہی دہشت گردی کی کوئی زبان ہی ہوتی ہے ، دہشت گرد کسی کا دوست نہیں ہوتا‘۔ مسٹر سنگھ نے مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی حالات پر افسوس کا اظہار کیا اور علما پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے میں مدد کریں۔ ’اگر ملک کے پندرہ کروڑ مسلمان ترقی ميں پیچھے رہ جاتے ہيں تو ہندوستان کی ترقی ادھوری ہوگی‘۔ انہوں نے علما کو یقین دلایا کہ وہ جلد ہی سبھی ریاستوں کے وزیر اعلی کی ایک کانفرنس طلب کريں گے جس میں مسلمانوں کے تمام اندیشوں اور دیگر پہلؤوں پر غور کیا جائے گا۔ علما کی طرف سے مولانا محمود مدنی نے ایک بیان جاری کیا جس میں دہشتگردی کی سخت مذمت کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام امن اور شانتی کا مذہب ہے اور منظم طریقے سے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی متواتر مذموم کوششيں کی جارہی ہیں۔ یہ اجتماع ان کی مذمت کرتا ہے اور واضح کر دینا چاہتا ہے کہ اسلام کی نظر میں بدامنی خونریزي اور بےقصوروں کا قتل سخت گناہ اور ناقابل معافی جرم ہیں۔ دہشت گردی ہر صورت میں قابل مذمت ہے خواہ وہ افراد کی طرف سے ہو یا کسی تنظیم کی طرف سے اور اگر حکومتی ادارے دہشت گردی کو پروان چڑھائيں تو اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتاہے‘۔ ملک کے دانشوروں نے علماء کے اس قدم کی ستائش کی ہے اور کہا کہ اس سے ملک میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کسی کے ذہن میں کوئی شک باقی نہيں رہنا چاہیئے۔ |
world-49380132 | https://www.bbc.com/urdu/world-49380132 | کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس: ’پاکستان اور انڈیا اپنے معاملات باہمی سطح پر حل کریں‘ | پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر تنازعے کی گونج قریب پانچ دھائیوں کے بعد ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی گلیوں میں سنائی دی جب سنہ 1965 کے بعد پہلی مرتبہ جمعے کو سلامتی کونسل کا اجلاس اس متنازع علاقے پر ہوا۔ | سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے بند کمرے کے اجلاس کے دوران کشمیر کے مسئلے پر بحث کی۔ کہا جا رہا ہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین نے مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کو اپنے مسائل باہمی طور پر حل کرنے کی تلقین کی۔ اس اجلاس پر دنیا بھر کی نظر لگی ہوئی تھی۔ آخر دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف خبر رساں اداروں کے صحافیوں کی فوج سلامتی کونسل کے باہر اسی سلسلے میں کسی بھی خبر کے بارے میں بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ جب 90 منٹ کا اجلاس ختم ہوا تو کمرے سے باہر سب سے پہلے چین کے مستقل مندوب صحافیوں سے مخاطب ہوئے۔ یہ بھی پڑھیے ’آج دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں‘ صورہ میں احتجاج ہوا، انڈیا کی حکومت کا اعتراف عمران خان: ’ہم مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘ ’عید گزرنے دو، کشمیر میں طوفان آئے گا‘ جیسے کہ امید کی جا رہی تھی، چین نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کونسل کے ارکان کی مشترکہ رائے یہ تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کسی بھی فریق کو یکطرفہ اقدامات نہیں لینے چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں حالات نہایت سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، فرانس اور روس نے اجلاس کے دوران انڈیا اور پاکستان کے درمیان باہمی سطح پر معاملات حل کرنے کی تلقین کی۔ کچھ سفارتی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کے لیے شملہ معاہدے پر بھی سب کا زور دیکھا گیا۔ پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی جو سلامتی کونسل کی رکن نہ ہونے کے سبب اجلاس کا حصہ نہیں تھیں لیکن اس اجلاس کی کارروائی سننے کے لیے موجود تھیں۔ ملیحہ لودھی نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا 'مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل میں اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی آواز عالمی سطح پر سنی گئی۔ ملیحہ لودھی نے بعد میں یہ بھی کہا ہے کہ سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کا پہلا سفارتی قدم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جدوجہد جاری رہے گی۔ انڈیا کے مستقل مندوب سعید اکبرالدین نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کا کشمیر کے معاملے میں آرٹیکل 370 کے بارے میں لیا گیا قدم انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے اور جو بھی مسائل ہیں وہ شملہ معاہدے کے تحت ہی حل کیے جائیں۔ اس موقعے پر انڈین مندوب سے کچھ صحافیوں نے سخت سوالات کیے، جیسے انڈیا پاکستان سے بات چیت کیوں نہیں کرتا اور انڈیا کا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ اس پر انڈین مندوب نے کئی سوالوں کے صحافیوں کے ساتھ تکرار کرتے ہوئے جوابات دینے کی کوشش کی۔ ان کا اصرار تھا کہ اب کشمیر میں حالات بتدریج معمول پر آتے جا رہے ہیں اور ان کے بقول سلامتی کونسل نے بھی اجلاس میں اس سلسلے میں اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جب یہ اجلاس جاری تھا تو اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر قریب 60 سے 70 لوگ کشمیریوں کے حق اور انڈیا کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ انھوں نے بینر اور پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے جن پر کشمیریوں کے حق میں نعرے لکھے تھے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا۔ کچھ پلے کارڈز پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بھی نعرے درج تھے جن میں ان کو کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والا شخص لکھا گیا تھا۔ اسی درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی فون پر بات چیت کی بھی خبریں آنے لگیں۔ بعد میں پتہ لگا کہ صدر ٹرمپ نے عمران خان کو انڈیا سے معاملات باہمی طور پر حل کرنے کی تلقین کی۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا فی الحال تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ابھی واضح ہے کہ کرفیو اور پابندیوں میں رہنے والے کشمیریوں کے لیے زمینی حقائق تبدیل ہونے کے کوئی آثار نہیں لگتے ہیں۔ |
080521_missing_kashmiries_sen | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080521_missing_kashmiries_sen | لاپتہ: بھارت سے بات کی اپیل | پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تین لاپتہ افراد کے عزیزوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی وہ ان کی عزیزوں کی رہائی کے لیے بھارت کے وزیر خارجہ سے بات کریں۔ | لاپتہ افراد کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ انہیں گذشتہ سال ستمبر میں مبینہ طور پر بھارتی فوج وادی نیلم میں لائن آف کنڑول کے قریب سے پکڑ کر لے گئی تھی۔ لاپتہ افراد کے عزیز ولی محمد خان نے وادی نیلم کے قصبے اٹھمقام سے بی بی سی اردو آن لائن کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ’حکومت پاکستان ہمارے عزیزوں کا معاملہ ہندوستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ اٹھائے اور ہمارے عزیزوں کی جلد رہائی اور ان کی گھروں کو واپسی یقینی بنائے‘۔ لاپتہ ہونے والے ان تینوں افراد کا تعلق وادی نیلم کے گاؤں ڈھکی چکناڑ سے ہے۔ یہ گاؤں مظفرآباد سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور لائن آف کنڑول پر واقع ہے۔ اس گاؤں کو جانے والے راستے میں ایک ایسا ٹکڑا ہے جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے اور اس کے سوا اس گاؤں تک پہنچے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ ان کے عزیزوں کو ممکنہ طور پر اسی مقام سے گزرتے ہوئے بھارتی سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد صادق اس سال جنوری میں کہا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ ان تینوں افراد کو لائن آف کنڑول کے دوسری جانب لے جایا گیا ہے اور یہ کہ انہوں نے اس معاملے کو بھارتی حکام سے اٹھایا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندان والوں سمیت اس گاؤں کے لگ بھگ دو سو خاندانوں نقل مکانی کر کے وادی نیلم کے ضلعی ہیڈ کواٹر اٹھمقام میں حکومت کی طرف سے بنائی گئی ایک خیمہ بستی میں آباد ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسی صورت میں اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اگر انہیں اپنے گاؤں میں تحفظ دیا جائے گا اور گاؤں جانے کے لیے محفوظ اور متبادل راستہ فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے گاؤں میں مشکلات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی دوسری جگہ پر پر آباد کیا جائے گا۔ |
031222_idian_lawyers_si | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/12/031222_idian_lawyers_si | ہندوستانی وکلاء و جج لاہور میں | ہندوستان سے خیرسگالی کے وفود کی پاکستان آمد کا سلسلہ جاری ہے اور سوموار کے روز اٹھاون وکیلوں اور ایک جج پر مشتمل ایک وفد واہگہ کے راستے لاہور پہنچا جہاں ان کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ | کالے کوٹ میں ملبوس پاکستان کے وکلاء کے نمائندے، سرکاری وکلاء، پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل شبر رضا رضوی اور چیف جسٹس کے نمائندے جج عبدالسلام خاور ہندوستان کے وکلاء سے گرمجوشی سے گلے ملے اور بے تکلفی سے باتیں کرتے رہے۔ ہندوستان کے زیرانتظام ریاست جموں و کشمیر کے چیف جسٹس وجے کمار جھانجی اور ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ہربھگون سنگھ بھی وفد میں شریک ہیں جن میں زیادہ تعداد پنجاب اور ہریانہ کے وکیلوں کی ہے جو اگرچہ ذاتی حیثیت میں لاہور اور اسلام آباد کے چار روز کے دورے پر آۓ ہیں لیکن انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جارہا ہے۔ ہندوستان کے وفد کے ارکان جب سوموار کی صبح گیارہ بجے کے قریب واہگہ کے راستے لاہور میں آنا شروع ہوۓ تو فضا میں شدید دھند قدرے کم ہورہی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر راجندر سنگھ چیمہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی دھند چھٹنی شروع ہوگئی ہے اور مختلف چھوٹے چھوٹے وفود کے یہ دورے تاریخ کا رخ موڑ دیں گے۔ راجندر سنگھ چیمہ نے کہا کہ وفود کے ایسے دوروں سے لوگوں کے جذبات کے عکاسی ہوتی ہے۔ جموں کشمیر کے چیف جسٹس وجے کمار کو صحافیوں کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جن کا انھوں نے خاصے تحمل سے جواب دیا۔ ان سوالوں کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے ایک ریاستی کمیشن ہے اور ایک ہندوستان کا پورے ملک کے لیے انسانی حقوق کمیشن ہے جہاں ایسی شکایات آتی ہیں تو ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ تاہم چیف جسٹس وجے کمار نے اس بات کو غلط قرار دیا کہ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں عورتوں سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ انھوں نے سوال کرنے والے صحافیوں کو کہا کہ وہ ان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کشمیر آئیں اور خود دیکھیں کہ وہاں کیا صورتحال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاملات بات چیت سے حل ہوں گے اور عوام کے درمیان رابطوں سے تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ وفد میں ہریانہ کی ریاتی اسمبلی میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے قائد حزب مخالف بھوپندر سنگھ نے کہا کہ انہیں لاہور میں آ کر بہت خوشی ہوئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بہت اچھا آغاز ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے لوگ امن چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں ہریانہ اور پنجاب کی بار ایسوسی ایشن کے درانمول رتن سدھو نے کہا کہ یہ وفد پیار اور خوشیوں کا سندیسہ لے کر آیا ہے اور اس کے ارکان پیار محبت کو فروغ دینے کے لئے آۓ ہیں۔ پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل شبر رضا رضوی نے بتایا کہ یہ وفد کا نجی دورہ ہے اور اس سال اکتوبر میں پاکستان سے پچیس وکلا کا ایک وفد چندی گڑھ میں ایک قانون سے متعلق عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تھا تو وہاں کے وکلا نے پاکستان آنے کی خواہش کی تھی جس پر انھیں یہاں مدعو کیا گیا۔ پیر کی دوپہر لاہور ہائی کورٹ ے چیف جسٹس افتخار چودھری نے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور رات کو وزیراعلی پنجاب ایک عشائیہ دیں گے۔ کل دوپہر وفد اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان کی دعوت میں شریک ہوگا اور چھبیس دسمبر کو واپس جانے سے پہلے پنجاب کے گورنر کے ساتھ چاۓ کی دعوت میں شریک ہوگا۔ |
141216_tutankhamun_gallery_atk | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/12/141216_tutankhamun_gallery_atk | مصر میں طوطن خامن گیلری کا افتتاح | قاہرہ کے عجائب گھر میں طوطن خامن گیلری کے چار کمرے مرمت کے بعد سیاحوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ | قاہرہ کا عجائب گھر تزئین و آرائش کا یہ کام عجائب گھر کی تعمیر نو کے ایک سات سالہ منصوبے کا حصہ ہے۔ ان کمروں کا افتاتح مصر کے وزیر اعظم ابراہیم محلب نے کیا ان کمروں کا افتتاح مصر کے وزیر اعظم ابراہیم محلب نے کیا اور ان میں 1922 میں دریافت ہونے والی نوجوان فرعون بادشاہ کی قبر سے ملنے والی نایاب اشیاء کو رکھا گیا ہے۔ بیسوئیں صدی کے سب سے زیادہ اہم آثار قدیمہ طوطن خامن کی قبر سے ملنے والی اشیا بیسوئیں صدی کی سب سے زیادہ اہم آثار قدیمہ کی دریافت میں سے ہیں۔ تین ہزار سال پرانی نوادرات طوطن خامن کی تین ہزار سال پرانی قبر کی کھدائی برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر فلہین نے کی تھی۔ عجائب گھر کی تزئین و آرائش کے لۓ یورپی یونین کی امداد عجائب گھر کی تزئین و آرائش یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے ملنے والی رقم سے کی جا رہی ہے۔ قاہرہ میں یورپی یونین کے وفد کے سربراہ جیمز مورن نے کہا ہے کہ یورپی یونین مصر میں سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے مدد فراہم کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاحت کے شعبے کی بحالی معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی یورپی یونین عجائب گھر کی مزید تزئین و آرائش کے لیے اگلے سال ایک لاکھ ڈالر فراہم کرے گی۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار قدیم قیمتی نوادرات قاہرہ کے عجائب گھر کا افتتاح 1902 میں ہوا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار قدیم قیمتی نوادرات موجود ہیں۔ |
081007_ganguly_quits_ka | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/10/081007_ganguly_quits_ka | گنگولی کا ٹیسٹ کرکٹ کو’الوداع‘ | بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سوروگنگولی نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نو اکتوبر سے آسٹریلیا کے خلاف شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز ان کے کیریئر کی آخری ٹیسٹ سیریز ہوگی۔ | بنگلور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےگنگولی نے کہا کہ ’آسٹریلیا کے خلاف کھیلی جانے والی یہ سیریز میری آخری ٹیسٹ سیریز ہوگی۔ میں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہاں آنے سے پہلے میں نے اپنے فیصلے کے بارے میں ٹیم کو مطلع کر دیا ہے‘۔ گنگولی پریس کانفرنس میں ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد صحافیوں کو کسی سوال کا موقع دیے بغیر ہی اٹھ کر چلے گئے۔ تاہم ریٹائرمنٹ کے اعلان سے پہلے انہوں نے ٹیسٹ سیریز اور اپنے کیرئیر سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی پریس کانفرنس میں جب ان سے ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب انہیں لگے گا کہ وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے تو وہ ریٹائر ہوجائیں گے۔ چھتیس سالہ گنگولی نے آسٹریلیا سیریز سے قبل تک ایک سو نو ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں انہوں نے قریباً بیالیس کی اوسط سے چھ ہزار آٹھ سو اٹھاسی رن بنائے۔ گنگولی نے اپنے کیرئر میں اب تک پندرہ سنچریاں اور چونتیس نصف سنچریاں بھی بنائی ہیں۔ گنگولی کا شمار بھارتی کرکٹ کے بہترین اور کامیاب کپتانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی کپتانی میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے انچاس میں سے اکیس ٹیسٹ میچ جیتے تھے اور انہی کی کپتانی میں بھارتی ٹیم 2003 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہی تھی۔ گنگولی کو ماضی میں بھارتی ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کیے جانے کے بعد دسمبر سنہ 2006 میں ٹیم میں شامل کیا اور اس برس کے اوائل میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز تک انہوں نے ڈبل سنچری کی مدد سے پچاس رنز کی اوسط سے 1571 رنز بنائے۔ تاہم سری لنکا کے خلاف بھارت کی حالیہ سیریز میں وہ چھ اننگز میں صرف چھیانوے رن بنا پائے تھے۔ آسٹریلیا انڈیا ٹیسٹ سیریز کے لیے بھی ان کے ٹیم میں شامل کیے جانے کے امکانات کم ہی تھے۔ تاہم انہیں ٹیسٹ سیریز کے لیے بھارت کے مجوزہ پندرہ کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حال میں ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ یہ چاہتا ہے کہ ٹیم میں شامل گنگولی، تندولکر، ڈراوڈ کمبلے اور لکشمن جیسے سینیئر کھلاڑی اپنے الوداعی دوروں کا تعین کر کے بورڈ کو مطلع کر دیں تاکہ انہیں شایانِ شان طریقے سے رخصت کیا جا سکے۔ تاہم اس خبر پر بھارتی لیگ سپنر انیل کمبلے نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ |
150224_cwc_pak_team_practice_brisbane_rh | https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/02/150224_cwc_pak_team_practice_brisbane_rh | تازہ دم پاکستانی ٹیم کی برسبین میں پہلی پریکٹس | پاکستانی کرکٹ ٹیم نے منگل کو برسبین شہر میں واقع ایلن بورڈر فیلڈ میں پریکٹس کی۔ | پاکستانی ٹیم اپنا تیسرا میچ یکم مارچ کو زمبابوے کے خلاف برسبین کے وولن گابا میں کھیلے گی کرائسٹ چرچ سے برسبین پہنچنے کے بعد یہ پاکستانی ٹیم کی پہلی پریکٹس تھی۔ واضح رہے کہ پیر کو پاکستانی ٹیم کا پہلا پریکٹس سیشن منسوخ کردیا گیا تھا اور ٹیم منیجمنٹ اور کھلاڑی پورا دن میٹنگز میں مصروف رہے تھے جس کا مقصد ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد کھلاڑیوں کو حوصلہ دینا بتایا گیا تھا۔ اسی دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یارخان نے کپتان کوچ اور منیجر کے علاوہ چیف سلیکٹر معین خان سے بھی فون پر بات کی تھی۔ شہر یارخان نے منیجمنٹ سے کہا ہے کہ اگلے میچ میں آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کو آرام دیا جائے اور درست سلیکشن کیا جائے۔ پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کے موقع پر تمام کھلاڑی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے پاکستانی ٹیم کو بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ ورلڈ کپ میں اپنا تیسرا میچ یکم مارچ کو زمبابوے کے خلاف برسبین کے وولن گابا میں کھیلے گی۔ پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کے موقع پر تمام کھلاڑی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے اور انہوں نے کوچنگ اسٹاف کی نگرانی میں سخت ٹریننگ کی۔ پاکستانی منیجمنٹ نے کھلاڑیوں کو میڈیا سے بات چیت سے روک رکھا ہے۔ اس بارے میں جب منیجر نوید اکرم چیمہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کھلاڑی صرف کھیل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ پاکستانی ٹیم بدھ کے روز بھی ایلن بورڈر فیلڈ میں پریکٹس کرے گی جو کوئنز لینڈ کرکٹ کا مرکز ہے ۔ اس میدان سے متصل نیشنل کرکٹ سینٹر واقع ہے جہاں تمام تر سہولتوں سے آراستہ کرکٹ اکیڈمی اور بائیو مکینک لیبارٹری بھی موجود ہے جہاں پاکستانی آف اسپنر سعید اجمل کا ٹیسٹ ہوچکا ہے۔ |
060303_historical_perspective_fz | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/03/060303_historical_perspective_fz | پاک امریکی تعلقات ۔ تاریخی تناظر میں | صدر جارج بش پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورے پر چار مارچ کو اسلام آباد آئیں گے۔ یہ سنہ انیس سو انہتر (1969) کے بعد چھتیس سال میں کسی امریکی صدر کا پاکستان کا پہلا تفصیلی دورہ ہے جبکہ اس دوران میں چھ سال پہلے صدر بل کلنٹن صرف چھ گھنٹوں کے لیے اسلام آباد آئے تھے۔ | صدر بش پانچویں امریکی صدر ہیں جو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ان سے پہلے صدر آئزن ہاور (انیس سو انسٹھ)، صدر لنڈن جانسن (انیس سو سڑسٹھ)، صدر رچرڈ نکسن (انیس سو انہتر) اور صدر بل کلنٹن (سنہ دو ہزار) میں پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ابتداء تو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ میں رکھی جاچکی تھی لیکن یہ اس وقت زیادہ مضبوط ہوئے جب انیس سو پچاس کی دہائی کے شروع میں پاکستان نے باقاعدہ طور پر امریکہ کے ساتھ دفاعی سمجھوتے میں شمولیت اختیار کی۔ جون انیس سو ترپن میں جنرل ایوب خان نے امریکہ کے دورہ کے موقع پر کمیونزم کے خلاف اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ ’اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج ہوسکتی ہے۔‘ انیس سو چون میں دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ دفاعی سمجھوتہ پر دستخط کیے۔ انیس سو ترپن سے انیس سو اکسٹھ کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی۔ بھارت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو اس پر نالاں تھے لیکن صدر آئزن ہاور نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان کو دیئے جانے والا اسلحہ بھارت کے خلاف جارحیت میں استعمال نہیں ہوگا۔ اس سال پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر انیس سو پچپن میں بغداد پیکٹ میں شامل ہوا جس نے بعد میں سینٹو کے نام اختیار کیا۔ امریکی قیادت جنرل ایوب خان کو بہت پسند کرتی تھی۔ جب انہوں نے انیس سو اٹھاون میں ملک میں پہلا مارشل لگایا تو امریکہ نے اس کی مذمت نہیں کی بلکہ امریکی صدر ڈی وائٹ آئزن ہاور سات سے نو دسمبر انیس سوانسٹھ میں ایک غیرسرکاری دورہ پر پاکستان کے اس وقت دارالحکومت کراچی آئے اور جنرل ایوب خان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آئزن نے بھارت اور افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا جیسے اس بار صدر بش بھی کریں گے۔ ایوب خان نے صدر کینیڈی کے دور میں بھی صدر کے طور پر جولائی سنہ انیس سو اکسٹھ میں امریکہ کا دورہ کیا۔ اسی سال اگست میں صدر کنیڈی نے پاکستان کو بارہ ایف ایک سو چار لڑاکا طیارہ بھی فراہم کیے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ صدر ایوب خان نے کنیڈی سے کہا کہ وہ بھارت کو دی جانےوالی معاشی امداد کو لیوریج کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالیں کہ وہ پاکستان سے کشمیر کا تنازعہ طے کرے۔ لنڈن جانسن ایوب خان کےبڑے مداح تھے لیکن ان کے دورِ صدارت میں پاکستان اور بھارت میں کشمیر پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ ہوئی جسے انہوں نے سخت ناپسند کیا اور ان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہوگئے۔ اسی سال امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی امداد بند کردی۔ تاہم جانسن کے دور میں ہی ان تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔صدر جانسن تئیس دسمبر انیس سو سڑسٹھ کو ویتنام سے روم جاتے ہوئے کراچی آئے اور ایوب خان سے ملاقات کی۔ رچرڈ نکسن صدر بنے تو انہوں نے صدر جنرل یحییٰ خان سے اچھے تعلقات قائم کیے۔ سوویت یونین سے سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں صدر نکسن کمیونسٹ چین سے تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان پہلے ہی چین سے دوستانہ روابط بنا چکا تھا۔ یکم اور دو اگست سنہ انیس سو انہتر کو صدر نکسن پاکستان کے دورے پر لاہور آئے اور انہوں نے یحییٰ خان سے ملاقات کی اور ان سے چین سے سفارتی روابط قائم کرنے میں پاکستان کا تعاون مانگا۔ جنرل یحیی خان نے ایسا کردکھایا اور ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر بیجنگ بھجوایاجبکہ دنیا کو یہ معلوم تھا کہ وہ پاکستان کے پرفضا مقام مری میں ہیں۔ صدر نکسن اور ان کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے زمانہ میں امریکی انتظامیہ کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات تھے۔ سنہ انیس سو اکہتر میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی کارروائی کے دوران میں اندرا گاندھی امریکہ سے پاکستان کو فوجی سامان کی فراہمی بند کرنے پر زور دیتی رہیں لیکن امریکہ نے خاصی دیر ایسا نہیں کیا۔ انیس سو پچہتر میں امریکہ نے پاکستان کی امداد جزوی طور پر بحال کردی لیکن انیس سو اناسی میں جنرل ضیاالحق کے زمانہ میں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے لیبارٹری بنانے پر امداد دوبارہ بند کردی۔ ستر کی دہائی کے دوران میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ یہ سرد مہری جنرل ضیاالحق کے ابتدائی زمانہ تک چلتی رہی۔ اسی دور میں یکم جنوری سنہ انیس سو اٹھہتر کو امریکی صدر جمی کارٹر بھارت کے دورہ پر گئے لیکن پاکستان نہیں آئے۔ امریکہ نے ایک بار پھر اپنی پالیسی اس وقت بدلی جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور انیس سو اسی میں پاکستان کی امداد بحال کی۔ انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔ جس طرح صدر آئزن ہاور اور صدر جانسن نے جنرل ایوب خان سے اور صدر نکسن نے جنرل یحیی خان کی حکومتوں سے اچھے تعلقات قائم کیے تھے اسی طرح صدر ریگن نے پاکستان کے ایک اور فوجی حکمران جنرل ضیاء سے اچھے تعلقات استوار کیے۔ انیس سو اکیاسی میں امریکہ نے پاکستان کو تین بلین ڈالر سے زیادہ کی معاشی اور فوجی امداد کا پانچ سالہ پیکج دیا۔بعد میں انیس سو چھیاسی میں چار ارب ڈالر کا پیکج دیا۔ افغانستان سے سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک بار پھر دوری آگئی۔ انیس سو نوے میں امریکہ کے صدر جارج بش سینئر نے پریسلر ترمیم کے قانون کے تحت پاکستان کے ایٹی پروگرام کے باعث امداد بند کردی۔ تاہم دو سال بعد غذائی اور معاشی امداد پر سے پابندی اٹھالی۔ انیس سو اٹھانوے میں پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے دونوں ملکوں کی معاشی امداد بھی بند کردی اور صرف انسانی ہمدردی کے لیے دی جانےوالی معمولی معاشی اور غذائی امداد جاری رکھی۔ صدر بل کلنٹن نےامریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے بھارت سے قریبی تعلقات کا آغاز کیا۔ وہ پانچ روزہ دورہ پر بھارت کے مختلف شہروں میں گئے لیکن پاکستان کی متعدد درخواستوں کے بعد بھارت کے دورہ کے اختتام پر پانچ گھنٹے کے لیے اسلام آباد آئے۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آچکی تھی اور اس سے پہلے کارگل میں لڑائی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت تعلقات بگڑ چکے تھے۔ صدر کلنٹن کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت اور وہاں سے اسامہ بن لادن کے گروہ کی کاروائیاں باعث پریشانی تھے۔ ان حالات میں صدر کلنٹن نے بظاہر جنرل پرویزمشرف سے بہت سرد مہری سے پیش آئے۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے خطاب میں خاصی سخت باتیں کیں اور پاکستان کو دنیا میں اپنی پالیسیوں کے باعث الگ تھلگ رہ جانے کی تنبیہہ کی۔ ان کا واضح پیغام تھا کہ پاکستان سرحدوں میں تبدیلی (کشمیر کا نام لیے بغیر) کے بجائے اقتصادی ترقی اور تعلقات کا سوچے۔ تاہم بعد میں ظاہر ہونے والی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ صدر بل کلنٹن نے صدر جنرل مشرف سے ملاقات میں درخواست کی تھی کہ پاکستان اسامہ بن لادن کو پکڑ کر امریکہ کو دے دیں تو وہ پاکستان کو زبردست معاشی مدد کریں گے۔ پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک میں امریکہ پر مبینہ القاعدہ کے حملہ کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ اس بار اس کا کردار کمیونزم کے خلاف امریکی کے اتحادی کا نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اس کے اتحادی کا ہے۔ اسے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا اور فوجی اور معاشی امداد بحال کردی گئی۔ |
141117_bannu_school_blast_rk | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/11/141117_bannu_school_blast_rk | بنوں میں طالب علم بم سکول لے آیا | خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک طالبعلم اپنے بیگ میں دستی بم سکول لے کر آ گیا جس کا ڈیٹونیٹر پھٹنے سے بچہ خود زخمی ہو گیا۔ پولیس اس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔ | پولیس کے مطابق طالبعلم بنوں کا رہائشی ہے بنوں میں تھانہ سٹی کے انسپکٹر محمد رخسار نے بی بی سی کو بتایا کہ نویں جماعت کا ایک طالبعلم اپنے بستے میں ایک دستی بم ساتھ لے کر سکول آ گیا جس کا ڈیٹونیٹر پھٹنے سے وہ خود زخمی ہو گیا ہے۔ پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ طالبعلم نے ابتدائی تحقیقات میں بتایا کہ دستی بم اسے کہیں سے ملا تھا جسے وہ بیچنے کے لیے سکول لایا تھا۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ سکول میں دستی بم کا خریدار کون تھا اور یہ کہ بچے کو دستی بم کہاں سے ملا تھا۔ پولیس کے مطابق طالبعلم بنوں کا رہائشی ہے اور پولیس نے ان کے مکان پر چھاپہ مارا ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کے گھر میں کہیں مزید اسلحہ یا دھماکہ خیز مواد تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ضلع چارسدہ میں شبقدر کے مقام پر ایک مکان میں دستی بم کا دھماکہ ہوا جس میں چار افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق مکان کے افراد اپنے گھر کا سامان دوسرے مکان میں منتقل کر رہے تھے کہ اس دوران ان کے سامان میں دھماکہ ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مدعیان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ دستی بم ان کے سامان میں کیسے آیا۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں جس میں دستی بم یا دیگر دھماکہ خیبر مواد بچوں کو راستے میں ملے جس سے دھماکے بھی ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے بعض علاقوں میں پانی سے بارودی سرنگیں ملی تھیں جو جنوبی وزیرستان سے آنے والے سیلابی ریلوں میں آئی تھیں۔ |
040611_karachi_arrest_sen | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/06/040611_karachi_arrest_sen | کراچی دھماکہ: بیس ملزمان زیر حراست | پولیس نے کراچی کے مختلف علاقوں کو محاصرے میں لے کر گھر گھر تلاشی لی اور 20 افراد کو حراست میں لیاہے۔ | کراچی سے صحافی محمد بن یوسف نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ محمود آباد، اختر کالونی اور ڈیفنس ویو کے علاقوں کو پولیس نے محاصرے میں لیا اور گھر گھر تلاشی لی اور بیس مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ دریں اثنا جمعرات کی شام ان چھ فوجیوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی جو حملے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس نے ان پانچ مشتبہ افراد کے خاکے جاری کئے ہیں جو، پولیس کے خیال میں، جمعرات کے روز کورکمانڈر کے کاروان پر حملے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ پولیس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جس جگہ جمعرات کو کور کمانڈر کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا وہاں سے ایک بم بھی ملا۔ جو ایک موبائل فون کے ذریعے پھٹ سکتا تھا۔ اس بم کو حملے کے بعد ڈیفیوز کر دیا گیا تھا۔ بم ایک بوری میں رکھا گیا تھا اور اس بوری میں مختلف طرح کے نٹ بولٹ اور لوہے کے ٹکڑے تھے جو بم پھٹنے کی صورت میں اڑ کر لوگوں کو لگتے۔ پولیس نے بم ڈیفیوز کیے جانے کے بعد موبائل پر کال کرنے والے شخص کو بھی حراست میں لیا ہے اور اس شخص کو بھی تلاش کر لیا ہے جس کا موبائل بم دھماکے میں استعمال کیا گیا تھا۔ اب تک نہ تو کسی تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی پولیس نے کسی پر شک ظاہر کیا ہے۔ تاہم ماہرین اور شہریوں کا خیال ہے کہ اس کا تعلق وانا آپریشن سے ہو سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل شوکت نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے۔ |
pakistan-41349279 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-41349279 | ’ہسپتال جو کئی مجبوروں کے لیے ایک پناہ گاہ تھا‘ | میں نے طبیانِ بے سرحد یعنی ایم ایس ایف کے ساتھ پاکستان میں دو سال کام کیا اور اس دوران میں اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد، پشاور، ہنگو کرم ایجنسی اور فاٹا کے علاقے میں گزارتی تھی۔ | میں نے کرم ایجنسی میں بچوں کے لیے قائم کردہ ایم ایس ایف کے ہسپتال میں کام کیا جو صدہ کے علاقے میں واقع ہے۔ رواں مہینے حکومت نے یہ ہسپتال یہ کہہ کر بند کروا دیا کہ ایم ایس ایف کے پاس فاٹا کے علاقے میں کام کرنے کا اجازت نامہ نہیں ہے۔ کرم ایجنسی میں کالعدم تنظیموں کا خوف دس سال میں کرم ایجنسی میں کیا بدلا؟ مقامی صحافیوں کی بات سنیں تو وہ بتاتے ہیں کہ ایم ایس ایف پر الزام ہے کہ اس نے ڈرون حملے کے زخمیوں کا علاج کیا اور یہ کہ ہسپتال امریکی حکام کے لیے جاسوسی کر رہا تھا جس کے نتیجے میں اس علاقے کے قریب ہی ایک ڈرون حملہ کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے ایسی کسی بات کا تذکرہ ریکارڈ پر نہیں تو یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ میرے ایم ایس ایف کے ساتھی ریکارڈ پر اس حوالے سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں جس کا سادہ مطلب میں یہ سمجھتی ہوں کہ انھیں یا تو خوف ہے یا پتا نہیں ہے۔ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ جو میں جانتی ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ہسپتال بچوں اور ان کے خاندان والوں کے دکھ اور تکالیف سے بچنے کے لیے ایک پناہ گاہ تھی۔ لاچار اور مجبور لوگ جن کے پاس اور کوئی جگہ نہیں جہاں وہ جا سکیں وہ یہاں اپنے بچوں کو علاج کے لیے لاتے تھے۔ پشاور سے کرم ایجنسی کا سفر لمبا اور مشکل ہے اور سکیورٹی کے لحاظ سے صورتحال کسی لمحے بدل سکتی ہے۔ جس کے لیے آپ کو تیار رہنا چاہیے۔ ایسے ہی سفر کے دوران ہم کئی گھنٹے سڑک پر پھنسے رہے اور ہر 600 سو گز کے بعد سکیورٹی چیک پوسٹ سے گزرنا پڑا۔ یہ میرے لیے ایک بہت ہی مشکل سفر تھا تصور کریں ایک حاملہ خاتون یا بیمار اور زخمی بچے کے لیے یہ سفر کیسا ہوتا ہوگا؟ مشکلات اپنی جگہ مگر شدت پسندی کا خطرہ اسے مزید کٹھن بنا دیتا ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ ہسپتال اس علاقے کے لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ ہسپتال ایسے علاقے میں ہے جہاں شدت پسندی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ 2007 کے بعد سے فاٹا کے مختلف علاقوں میں جاری اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں نے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کی۔ فوجی آپریشنز کے نتیجے میں عام عوام کی مشکلات میں تو اضافہ ہوا ہی اس کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے سہولیات تک رسائی بھی شدید متاثر ہوئی۔ اپنے بیمار بچے کو ہسپتال تک لانے کے لیے ایک شخص کو پولیس، فوج اور ایف سی کی کئی چوکیوں اور چیک پوسٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں نے کئی بار ایمبولینسوں کو ان لمبی قطاروں میں پھنسے دیکھا ہے جن میں بعض اوقات انتہائی تشویش ناک حالت میں مریض موجود ہوتے اور اتنی لمبی قطاروں میں آپ شدت پسندوں کے لیے ایک آسان نشانہ بن سکتے ہیں۔ فاٹا میں کام کرنے والی مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فاٹا میں گیارہ ستمبر کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد سے 175 صحت کے مراکز کو نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں فاٹا میں موجود پہلے سے کمزور صحت کی سہولیات کا نظام متاثر ہوا اور اس کی وجہ سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامی افراد ہیں جنھیں انہی کے علاقے میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کرم ایجنسی میں واقع ہسپتال میں میری اکثر بیمار بچوں اور خواتین سے بات ہوتی تھی جو اس سارے غیر منصفانہ رویے کا شکوہ کرتی تھیں۔ یہاں کام کرنے والے کارکن چترال اور ہنزہ جیسے دور دراز علاقوں سے یہاں روزی کمانے آئے ہیں۔ ان میں سے کئی خواتین اپنے گھرانوں کی واحد کفیل ہیں۔ ان خواتین کے لیے نہ صرف اس جگہ پر کام کرنا ایک بڑی مشکل ہے بلکہ انھیں مردوں کی جانب سے بھی غیر مساوی رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس علاقے بلکہ پورے خطے کے باسیوں کے احساسِ محرومی کا دکھ ہے جن سے ایک اہم سہولت چھین لی گئی ہے۔ ان کے لیے زندگی اس ہسپتال کے بغیر مزید مشکل ہو جائے کیونکہ یہ ہسپتال صرف ایک عمارت یا سہولت نہیں تھی بلکہ زندگی کے لیے ایک امید بھی تھی۔ جاسوسی کے الزامات یا دوسری باتیں ثابت ہوں گی یا نہیں مگر اپنے عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولت سے محروم کرنا بذاتِ خود بڑی نا انصافی ہے۔ |
science-38943955 | https://www.bbc.com/urdu/science-38943955 | کیا جھینگر کی آواز ماضی کا قصہ بن جائے گی؟ | یورپ کے جھینگروں پر کیے جانے والے ایک جامع جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جھینگر اور ٹڈی (گراس ہاپر) کی نسلیں معدومی کا شکار ہو رہی ہیں۔ | جھینگر اور ٹڈی پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں، اور ان کی معدومی سے ماحولیاتی نظام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق ان جانوروں کو سب سے زیادہ خطرہ یورپ میں ہے۔ یورپ میں اس وقت جھینگر اور ٹڈی کی ایک ہزار سے زیادہ انواع پائی جاتی ہیں۔ آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ اگر فوری عمل نہ کیا گیا تو جھینگر اور ٹڈی ماضی کا قصہ بن کر رہ جائیں گے۔ یہ دونوں اقسام کے جانور آرتھوپٹیرا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ گھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں۔ یہ پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کے لیے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں، اور ان کی معدومی سے ماحولیاتی نظام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان جانوروں کو جنگل کی آگ، زیادہ سے زیادہ زمین کا زراعت کے لیے استعمال اور سیاحت کے فروغ کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔ آئی یو سی این کے ڈپٹی ڈائریکٹر ژاں کرستوف وائی نے کہا کہ ان جانوروں کے معدومی کے دہانے سے نکالنے کے لیے ان کے ماحول کا تحفظ ضروری ہے۔ انھوں نے کہا: 'زراعت کے روایتی طریقے استعمال کر کے ایسا گھاس کے میدانوں کا تحفظ کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ 'اگر ہم نے ابھی عمل نہ کیا تو یورپ کے گھاس کے میدانوں سے جھینگر کی آواز آنا بند ہو جائے گی۔' اس تجزیے پر دو سال کا عرصہ صرف ہوا اور اس میں 150 سائنس دانوں نے حصہ لیا۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ یورپ بھر میں ان جانوروں کی آبادی کے رحجانات پر نظر رکھنے کے لیے پروگرام وضع کیے جائیں۔ |
060528_quake_relief_operations | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/05/060528_quake_relief_operations | آسمان تلے دوسری شب گزارنے پر مجبور | انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں، جہاں سنیچر کے زلزلے میں 4,500 لوگ ہلاک اور ہزاروں خاندان بےگھر ہوگئے تھے، امدادی کارکن بچے ہوئے لوگوں کی تلاش کررہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بہت لوگ ابھی بھی مکانوں کے ملبوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ | جاوا کے شہر یوگ کارتا میں اس زلزلے کی شدت سب سے زیادہ تھی جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ زخمی اور بےگھر ہوگئے۔ انڈونیشیا کےنائب صدر یوسف کلاُ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ زلزلے میں زخمیوں کی تعداد 10000 اور کے 20000 درمیان ہے۔ جاوا کے جنوبی ساحل پر زلزلے سے متاثرہ خاندانوں نے سنیچر کی شب گھروں سے باہر سڑکوں پر عارضی پناہ گاہوں میں گزاری جبکہ وقتا فوقتا زلزلے کے مزید جھٹکے آتے آرہے اور متاثرین میں خوف کا ماحول تھا۔ جس علاقے میں زلزلہ آیا وہ کافی گھنی آبادی والا علاقہ ہے اور انڈونیشیا میں امدادی ادارے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے لگ بھگ دو لاکھ لوگوں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگ ہلاک ہونے والوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کررہے ہیں۔ یوگ کارتا کا جنوبی علاقہ بانتول اس زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور یہاں ہلاکتوں کی تعدد 2000 سے زائد ہے۔ عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس نے دس ملین ڈالر کی امداد کی اپیل شروع کی ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ وہ دوہزار ٹینٹ اور نو ہزار تمبو اور دوائیں ارسال کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا ہے کہ ادارے کی امدادی ٹیم ریلیف کے سامان کے ساتھ مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بمبانگ یودویونو نے امدادی کارکنوں سے چوبیس گھنٹے مسلسل کام کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق صدر یودویونو نے گزشتہ شب متاثرین کے ساتھ ایک ٹینٹ میں گزاری۔ سنیچر کی صبح کے زلزلے کے بعد جاری رہنے والے جھٹکوں کی وجہ سے ہسپتالوں کے طبی عملے زخمیوں کو عمارت سے باہر کھلے آسمان علاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انڈونیشیا کے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ اس نے ہنگامی امدادی ٹیم متاثرہ علاقے میں بھیج دیا ہے اور اکیس فیلڈ ہسپتال کام کررہے ہیں۔ یوگ یاکرتا میں واقع ہسپتالوں میں ہلاک شدہ اور زخمی افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان ہسپتالوں میں موجود طبی عملہ اتنی بڑی تعداد میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے ناکافی ہے۔ یوگ یاکرتا کا ایئر پورٹ بھی بند ہے۔ اطلاعات ہیں کہ رن وے پر بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ یوگ کارتا میراپی کی پہاڑیوں کے قریب ہے جہاں اسی ماہ آتش فشاں کے پھٹنے کے خدشے کے تحت ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کردیا گیا۔ ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ کیا زلزلے کی وجہ سے میراپی کا آتش فشاں متاثر ہوسکتا ہے لیکن میراپی کی پہاڑیوں میں زلزلے کے بعد آتش فشاں میں تیزی ضرور دیکھی گئی جس کے نتیجے میں اس کے ملبے ساڑھے تین کلومیٹر دور تک جاگرے۔ انڈونیشیا کے حکام نے کہا ہے کہ اگرچہ زلزلے سے متاثر ہونے والا علاقی ساحلی ہے تاہم سونامی کی لہروں کا خدشہ نہیں ہے۔ سمندری زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہروں کو سونامی کہا جاتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق سنیچر کی صبح پانچ بجکر چون منٹ پر چھ اعشاریہ دو کی شدت کا زلزلہ مرکزی جاوا کے جزیرے پر آیا جس کا مرکز یوگ یاکرتا نامی ساحلی شہر تھا۔ یوگ یاکرتا انڈونیشیا کا قدیمی دارالحکومت ہے جو موجودہ دارالحکومت جکارتہ سے جنوب مشرق میں 440 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ دسمبر 2004 میں انڈونیشیا کے ساحل پر سمندر میں آنے والے زلزلے سے پیدا ہونے والی سونامی کی لہروں سے لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ زلزلہ سونامی کا باعث نہیں بنا ہے۔ |
130916_mis_us_india_criticism_mb | https://www.bbc.com/urdu/world/2013/09/130916_mis_us_india_criticism_mb | بھارتی نژاد مس امریکہ کو نسلی تعصب کا سامنا | بھارتی نژاد امریکی شہری نینا داؤلوري کو 2014 کے لیے ’مس امریکہ ‘ کا فاتح قرار دیا گیا ہے۔ | نینا داؤلوري دوسری ’مس نیویارک ‘ ہیں جنہوں نے ’مس امریکہ‘ کا خطاب جیتا نینا داؤلوري پہلی بھارتی نژاد ہیں جنہوں نے مس امریکہ کا خطاب حاصل کیا ہے۔ تاہم جیسے ہی مس امریکہ کے فاتح کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا گیا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کے خلاف نسلی تعصب پر مبنی بیانات سامنے آنے لگے۔ ٹوئٹر پر کئی لوگ اس بات سے ناراض نظر آئے کہ مس امریکہ کا خطاب کسی امریکی نسل کے باشندے کو نہیں مل سکا۔ ٹوئیٹ کے نام سے ایک صارف نے لکھا: ’اب میں یہ فروخت شدہ شو کبھی نہیں دیکھوں گا، افسوس کا مقام ہے۔ یہ کہنے کے لیے معاف کیجیئے گا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ امریکی لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔‘ ایک دوسرے صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میں حیران ہوں، یہ مس امریکہ مقابلہ ہی ہے۔۔۔کہیں یہ مس پاکستان یا مس چین تو نہیں۔‘ ٹوئٹر پر ایک اور صارف نے لکھا: ’آخر ایک سفید فام کب مس امریکہ بنے گی؟‘ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے نینا داؤلوري کا تعلق عرب دنیا سے بھی قائم کرنے کی کوشش کی حالانکہ نینا کا عرب دنیا سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال مس امریکہ نینا داؤلوري نے ٹوئٹر پر ان منفی ردعمل کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’مجھے ان سب باتوں سے بالاتر ہو کر دیکھنا ہے۔ ہر چیز سے بالاتر ہو کر میں نے ہمیشہ خود کو ایک امریکی سمجھا ہے۔‘ بہرحال نسلی امتیاز پر مبنی تبصرے کے خلاف اور نینا کی حمایت میں بھی کئی صارفین نے ٹوئٹر پر لکھا ہے۔ ایک صارف نے لکھا: ’امریکہ نسلی بنیاد پر امتیاز برتنے والے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ایسا ہی ملک ہے۔‘ دوسرے نے لکھا: ’یہ دنیا کتنی جہالت میں جی رہی ہے۔ کوئی بھارتی ہو یا نہیں، انہیں مس امریکہ بننے کا پورا حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں امریکہ چھوڑنا چاہتا ہوں۔‘ نینا ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں اور اس خطاب کے ساتھ انہیں 50،000 امریکی ڈالر کی سکالر شپ ملی ہے، جسے وہ اپنی تعلیم پر خرچ کریں گی۔ نینا کے والدین بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے علاقے وجيواڑا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خاندان امریکہ میں رہتا ہے جبکہ نینا کے والد پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ |
050304_hiv-africa_nj | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050304_hiv-africa_nj | 90 ملین افریقی ایڈز کے نشانے پر | اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایڈز کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مزید کچھ نہیں کیا گیا تو اگلے بیس سالوں میں تقریباً 90 ملین افریقی ایچ آئی وی کے وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ | اس وقت افریقہ میں تقریباً 25 ملین افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں ۔ تنظیم کے اندازے کے مطابق اگلی دو دہائیوں میں افریقہ ہی میں اس بیماری کے 89 ملین نئے واقعات سامنے آسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نےکہا ہے کہ ایڈز کے خلاف ایک مربوط اور پرزور مہم کے ساتھ ساتھ اس وبا کو روکنے کے لئے 200 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بہتر یہی ہے کہ ایڈز کے خلاف سرگرم ہوکر 16 ملین لوگوں کو مرنے سے اور مزید 43 ملین افراد کو اس کی زد میں آنے سےبچایا جائے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر 2025 تک بھی لاکھوں افریقی ایچ آئی وی کا شکار ہوتے رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کا کوئی طریقہ یا راستہ نہیں تھا ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ہر سطح پر لوگوں کا رویہ تبدیل کرنے میں اجتماعی طور پر سیاسی قوتِ ارادی کی کمی رہی۔ ’افریقہ میں ایڈز ‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کو تیار کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا ہے اور اس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ماہرین کی مدد لی گئی ۔ بی بی سی کی اقوام متحدہ کی نامہ نگار سوزی پرائس کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افریقہ میں ایڈز کو پھیلنے سے روکنے میں حکومت کی پالیسیاں کس حد تک اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ رپورٹ میں تین مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ ایڈز کس طرح 20 سالوں میں پورے افریقہ کو متاثر کر سکتا ہے۔اور یہ کہ اس کو روکنے میں کتنی کوششیں اور سرمایہ خرچ کیا گیا۔ اور اگر کوششوں اور فنڈز کی یہی حالت رہی تو ایڈز سے مرنے والوں کی تعداد چار گنا زیادہ ہو جائے گی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مثبت نتائج یہ سامنے آئے ہیں کہ افریقہ کو ملنے والی بین الاقوامی امداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے، صحت کے شعبے میں زیادہ سرمایہ لگنے لگا ہے اور اس کے علاوہ زراعت ، تعلیم اور علاج میں بہتری آئی ہے۔ اقوام متحدہ نے امید ظاہر کی ہے کہ وسائل کے موثر استعمال سے آخر کار افریقہ سے ایڈز کی وبا کو ختم کیا جا سکے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کارروائی کی موجودہ رفتار حالات کو بے قابو کر سکتی ہے۔ |
060211_council_of_britian_ra | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/02/060211_council_of_britian_ra | ’برطانوی مسلم اشتعال پسند نہیں‘ | برطانیہ کے مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام کے کارٹون چھاپنے کے خلاف سنیچر کے روز لندن میں مظاہرہ کیا ہے جس میں انہوں نے کوئی اشتعال انگیز پلے کارڈ نہیں اٹھا رکھا تھا۔ | یورپ کے بعض ملکوں میں پیغمبر اسلام کے کارٹون چھپنے کے بعد برطانوی مسلمانوں نے پہلے بھی ایک مظاہرہ کیا تھا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر پولیس کئی مظاہرین کے خلاف کارروائی کا سوچ رہی ہے۔ برطانوی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کونسل آف بریٹن کے زیر اہتمام ہونے والے اس مظاہرے میں چار سو پچاس تنظیموں نے حصہ لیا۔ مسلم کونسل آف بریٹن کے ترجمان عنایت بنگلہ والا نے کہا کہ وہ اس ریلی سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ برطانوی مسلمانوں کی اکثریت اشتعال پسند نہیں ہے۔ مرکزی لندن میں واقع ٹرافالگر سکوائر میں ہونے والی اس ریلی میں تقریباً تین ہزار افراد نے شرکت کی جن میں ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان مرد و خواتین شامل تھے۔ مسلم پبلک افیئرز کمیٹی کے سربراہ اصغر بخاری نے اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے جس میں اشتعال انگیزی کی گنجائش نہیں۔ اس ریلی میں شریک ایک برطانوی مسلمان خاتون انیقہ وحید نےکہا کہ آزادی اظہار کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اسلامک سوسائٹی آف بریٹن کے ڈاکٹر ظہور قریشی نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اوپر تشدد کے باوجود جب بدلہ نہیں لیا تو اشتعال انگیزی کا راستہ اپنانے والے اپنے آپ کو کیسے حق بجانب کہہ سکتے ہیں اس ریلی میں مظاہرین کے اٹھائے ہوئے پلے کارڈ پر تحریر تھا کہ اشتعال پسندی کے خلاف ہم متحد ہیں ۔اور یہ کہ پیغمبر اسلام اعتدال پسندی اور امن کے پیکر ہیں کارٹونوں کی اشاعت پر گزشتہ جمعہ کے روز ہونے والے مظاہروں میں نظر آنے والے پلے کارڈ کے اشتعال انگیز نعرے آج کی ریلی میں بالکل نظر نہیں آئے۔ ریلی مجموعی طور پر پرامن رہی لیکن ٹرافالگر سکوائر کے آس پاس کی سڑکوں پر پولیس کی کئی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔ |
080204_pak_nuclear_safety_rh | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/02/080204_pak_nuclear_safety_rh | پاکستان ایٹمی اثاثے، مغرب کی تشویش | پاکستان کا سیاسی بحران کئی سوالات اٹھاتا ہے جن میں کیا یہ ریاست ٹوٹ سکتی ہے، کیا انتہا پسند غالب ہو جائیں گے، کیا ملک کے ایٹمی اثاثے غلط لوگوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ | پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں مغرب میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ موضوع امریکی صدارتی انتخابات میں بھی زیر بحث ہے۔ صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کا تحفظ امریکہ کے ساتھ مل کر کرنا چاہئے۔ لیکن کیا یہ تشویش جائز ہے یا میڈیا کی اچھالی ہوئی ہے؟ پاکستان کی نیشنل اور کمانڈ اتھارٹی کے ساتھ منسلک رہنے والے بریگیڈیر ریٹائرڈ نعیم سالک کا کہنا ہے کہ یہ تشویش بےاعتمادی زیادہ ہے اور خطرہ کم۔ ’یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ابھی بھی پاکستان کو نیوکلیائی پاور سمجھنے کو تیار نہیں۔‘ لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی تاریخ نے اس تشویش کو بڑھاوا دیا ہے۔ ستمبر گیارہ کے بعد امریکہ میں انتہا پسندوں کے ہاتھ ایٹمی ہتھیار لگنے کی تشویش ہے۔ اس خطرے میں مزید اضافہ ہوا جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک دو عہدیداروں نے افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کی۔ اس تشویش میں اور اضافہ ہوا جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بانی ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں دو ہزار چار میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے خفیہ ایٹمی معلومات ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو بیچیں۔ لیکن حالیہ بدامنی نے سب سے زیادہ تحفظات کو جنم دیا ہے۔ تین دہائیوں سے پاکستان پر کام کرنے والے امریکی سی آئی اے کے اہلکار بروس ریڈل کا کہنا ہے ’ایک ممکنہ صورتحال یہ ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عناصر پاک فوج میں جگہ بنا لیں اور ایک یا دو بم چوری کر لیں۔‘ لیکن دیگر مبصرین اس سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کی بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات ہیں۔ پاکستان کیے گئے کچھ اقدامات کو منظر عام پر لایا ہے۔ ان میں ایٹمی بموں کے مختلف حصوں کو مختلف جگہوں پر رکھنا ہے، ان جگہوں کو خفیہ رکھا گیا ہے اور یہ بم صرف خفیہ ہندسوں ہی سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس قسم کے خفیہ ہندسے امریکہ بھی استعمال کرتا ہے۔ بریگیڈیر ریٹائرڈ نعیم سالک کا کہنا ہے ’اگر یہ ہتھیار کسی کے ہاتھ چڑھ بھی جاتے ہیں تو خفیہ ہندسوں کے بغیر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے علاوہ یہ خفیہ ہندسوں کی دو افراد تصدیق کرتے ہیں۔‘ لیکن اگر انتہا پسند حکومت میں آجاتے ہیں یا ریاست ٹوٹ جاتی ہے تو امریکہ کیا کر سکتا ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے مائک کا کہنا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول حاصل کرسکتا ہے اگر بچی ہوئی ریاست کی منظوری ہو۔ بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کوئی بھی اچھی آپشن موجود نہیں ہے۔ ’اگر ایٹمی بم چوری بھی ہو جاتے ہیں تو ہم کو بہت دیر میں معلوم ہو گا۔‘ |
world-51086840 | https://www.bbc.com/urdu/world-51086840 | کیمیا علی زادے: ایران کی واحد خاتون اولمپک مڈلسٹ نے ملک چھوڑ دیا | ایران کی واحد خاتون اولمپک مڈلسٹ کیمیا علی زادے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا چھوڑ دیا ہے۔ 21 سالہ کیمیا نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ انھوں نے ایران اس لیے چھوڑا ہے کیونکہ وہ ’منافقت، جھوٹ، ناانصافی اور خوش آمد‘ کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھیں۔ | انھوں نے خود کو ایران میں ’لاکھوں مظلوم خواتین میں سے ایک‘ قرار دیا۔ کیمیا علی زادے نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس وقت کس ملک میں موجود ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ وہ حال ہی میں ہالینڈ میں تربیت حاصل کر رہی تھیں۔ انھوں نے 2016 میں ریو اولمپکس میں ٹائی کووانڈو میں کانسی کا تمغہ لے کر تاریخ رقم کر دی تھی۔ تاہم سوشل میڈیا پر ان کے پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں حکام نے ان کی کامیابی کو پروپوگنڈا کے لیے استعمال کیا۔ یہ بھی پڑھیے ایران میں زمبا رقص پر پابندی کے مطالبے پر تنقید ’ہارنا ضروری ہے اگلا مقابلہ اسرائیلی سے نہ ہو‘ ایران امریکہ کشیدگی کم کرنے کی پاکستانی کوشش کا آغاز یاد رہے کہ اس وقت ایران بھر میں مظاہرے دو روز سے جاری ہیں جن کی وجہ ایرانی فوج کی جانب سے یوکرینی مسافر طیارے کو بدھ کے روز ایرانی فضائی حدود میں غلطی سے مار گرائے جانے کا واقعہ ہے۔ اس وقت ایران اور امریکہ کے درمیان سخت کشیدگی جاری ہے جہاں امریکہ نے ایرانی فوج کے اہم کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد ہوائی اڈے پر نشانہ بنایا اور پھر ایران نے عراق میں ہی امریکی فوجی اڈوں پر حملے کیے تاہم ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ’حکام نے مجھے بےعزت کیا‘ کیمیا علی زادے کا کہنا ہے کہ ’میں ایران میں ان لاکھوں مظلوم خواتین میں سے ایک ہوں جنھوں سالوں سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔‘ ’میں وہ پہنا جو انھو ںنے چاہا، وہ بولا جو انھوں نے حکم کیا۔ ہر وہ جملہ جس کا انھوں نے حکم دیا میں نے دوہرایا۔ ہم میں سے کوئی بھی معنی نہیں رکھتا تھا۔ ہم ان کے لیے صرف آلات تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت ان کی کامیابی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ضرور کرتی تھی مگر حکام پسِ پردہ ان کی بےعزت کرنے کے لیے ایسے جملے بولتے تھے کہ ’کسی عورت کا اپنی ٹانگیں پھیلانا نیک کام نہیں۔‘ کیمیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھیں یورپ میں دعوت دی گئی ہے یا کوئی مفید پیشکش کی گئی ہے تاہم انھوں نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ وہ کس ملک میں ہیں۔ گذشتہ ہفتے جب کیمیا علی زادے کے غائب ہونے کی خبر سامنے آئی تھی تو ایران میں اس پر شدید حیرانگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ ایرانی سیاستدان عبدالکریم حسین زادے نے ’نااہل حکام‘ پر ایران کے ہیومن کیپیٹل یعنی ہنر مند انسانوں کو جانے دینے کا الزام لگایا تھا۔ جمعرات کے روز ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی اسنا نے ایک رپورٹ چلائی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کیمیا علی زادے ہالینڈ بھاگ گئی ہیں۔ ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ علی زادے 2020 ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کرنا چاہتی ہیں مگر بطور ایک ایرانی نہیں۔ |
150624_karachi_rangers_encounters_zs | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150624_karachi_rangers_encounters_zs | کراچی میں رینجرز سے جھڑپوں میں چھ ’دہشت گرد‘ ہلاک | پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رینجرز نے دو جھڑپوں میں دس مشتبہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ | کراچی میں رینجرز اور پولیس شہر کے مختلف علاقوں اور مضافات میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے رہے ہیں رینجرز کی جانب سے جاری کیے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ چھ دہشت گرد سپر ہائی وے پر دو مقابلوں میں مارے گئے۔ بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق رینجرز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ منگل کی شب سپر ہائی وے پر کاٹھور کے علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی گئی۔ ترجمان کے مطابق کارروائی کے دوران ان ٹھکانوں میں موجود افراد نے رینجرز کے اہلکاروں پر فائرنگ کی اور گھیرا توڑنے کی کوشش کی رینجرز کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ کچھ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش کے دوران ایک اور مقابلہ ہوا جس میں مزید چار دہشت گرد ہلاک جبکہ دو رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ حکام کی جانب سے ہلاک شدگان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے تاہم رینجرز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے قبضے سے سب مشین گن اور دیگر اسلحے کے علاوہ خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس شہر کے مختلف علاقوں اور مضافات میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر شدت پسندوں اور کالعدم تنظیموں کے ارکان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ |
060402_iraqi_boy_painting_zs | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/04/060402_iraqi_boy_painting_zs | عراقی لڑکے کی تصاویر، نمائش لندن میں | عراق میں جاری تشدد کے دوران اپنے خاندان اور دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے والے پندرہ سالہ لڑکے کی بنائی گئی تصاویر کی نمائش لندن کی ایک آرٹ گیلری میں ہو رہی ہے۔ | علی عباس نامی اس لڑکے نے یہ تصاویر اپنے پیروں کی مدد سے بنائی ہیں۔ ریورسائیڈ آرٹ گیلری کے’ کیوریٹر‘ مارک ڈینوولز کا کہنا ہے کہ’ ان تصاویر نے مجھے بہت متاثر کیا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ’ میں زخمی ہونے کے صرف چار ماہ بعد علی کی جانب سے اتنے شوخ رنگوں کا استعمال دیکھ کر حیران ہوں‘۔ علی عباس کی زیادہ تر تصاویر میں رنگ برنگے پھول بنائے گئے ہیں جبکہ دو تصاویر ایک مینار اور ایک مسجد کی ہیں۔ جنوب مغربی لندن کے علاقے رچمنڈ میں ہونے والی نمائش میں علی کی تصاویر کے علاوہ دیگر عراقی فنکاروں کی تصاویر بھی رکھی گئی ہیں۔ ’لمب لیس ایسوسی ایشن‘ کے سربراہ ظفر خان کا کہنا ہے کہ’ ہم اس شاندار نمائش کا حصہ بن کر بہت خوش ہیں کیونکہ اس میں معذور افراد کی تخلیقات اور فن کی ترویج کی جا رہی ہے‘۔ علی عباس کی عمر اس وقت صرف بارہ سال تھی جب ان کے والدین اور خاندان کے تیرہ دیگر افراد بم دھماکے میں مارے گئے تھے اور اس دھماکے کے بعد زخمی اور جلے ہوئے علی کی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔ علی کو علاج کے لیئے لندن لایا گیا تھا اور وہیں انہیں مصنوعی اعضاء بھی لگائے گئے تھے۔ |
040223_iraqbomb | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040223_iraqbomb | ایران اور شام پر امریکی الزامات | امریکی وزیر ِدفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے شام اور ایران پر الزام لگایا کہ وہ شدت پسندوں کو عراق میں داخل ہونے کے لئے اپنی سرحدیں پار کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ | رمز فیلڈ نے بغداد پہنچنے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام اور ایران عراقی عوام کی مدد نہیں کر رہے ۔ انہوں نے مزید کہا ہمیں علم ہے کہ ایران نے القاعدہ کے اراکین کو پناہ دے رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ سرحد پار سے لوگ بھیج رہی ہے اور بلاشبہ ایران کو اسکا علم ہے۔ شام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ عراق میں سلامتی کی صورتِ حال کے بارے میں اس پر واشنگٹن کا دباؤ ہے۔ امریکی وزیرِدفاع کاعراق کا دورہ پہلے سے طے تھا۔صدام حکومت کے خاتمے کے بعد رمزفلیڈ کا عراق کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ خیال ہے کہ وہ بغداد اور مجموعی طور پر پورے عراق میں امریکی افواج کم کرنے کے منصوبوں کا جائزہ لیں گے ۔ انکے اس دورے سے قبل اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سن دو ہزار چار کے آخر تک عراق میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ عراق میں سیکیورٹی کی صورت حال ابھی بھی تشویش ناک ہے اور انتخابات کے لئے دائرہِ کار پر اتفاقِ رائے ہونا ضروری ہے۔ پیر کو کر کک میں ہونے والے تازہ دھماکے سے عراقیوں کے ہاتھ میں سیکیورٹی کےمعاملات سونپنے کی کوششوں کو دھجکا لگا ہے۔ دریں اثنا کرکک میں ایک پولیس اسٹیشن پر کار بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد تیرہ ہوگئی ہے ۔ موقع پر موجود بی بی سی کے نامہ نگار سٹیون سیکر نے بتایا کہ یہ بم کردوں کی آبادی میں پھٹا ہے ۔ اس سال یہ کم از کم چوتھا دھماکہ ہے جس میں عراقی سیکیورٹی سروسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس وقت یہ دھماکہ ہوا اس وقت شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور پولیس اسٹیشن عملے سے بھرا ہو تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی طاقت ور بم تھا جس سے لوگوں کے جسم کے پرخچے اڑ گئے ۔ اسٹیون سیکر کا کہنا ہے کہ اس حملے کا نشانہ عراقی پولیس تھی اور وہاں کوئی امریکی موجود نہیں تھا ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عراقی باغی سمجھتے ہیں کہ عراقی پولیس افسران امریکیوں کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ |
040916_rangersattked_sen | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/09/040916_rangersattked_sen | ملتان: 2 رینجرز اہلکارہلاک 5زخمی | پاکستانی پنجاب کے ضِلع راجن پور کے قبائلی علاقہ میں نامعلوم افراد کی طرف سے حملہ کے نتیجہ میں رینجرز کے دو اہلکار ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ | پیرامِلٹری فورس رینجرز پر یہ حملہ راجن پور کی تحصیل روجھان میں پنجاب اور بلوچستان کی سرحدی پٹی پر واقع قبائلی گاؤں بندووالہ میں جمعرات کو کیاگیا ۔ سرکاری حُکام کا کہنا ہے کہ رینجرز کے اہلکار بین الاصوبائی سرحد کے ساتھ اپنی زیرتعمیر چیک پوسٹ پر پہرہ دے رہے تھے جب قریب ہی واقع بلوچستان کے ضِلع ڈیرہ بگٹی کے علاقہ شوّال کی طرف سے گولیاں اور راکٹ برسنا شروع ہوگئے۔ حملہ اتِنا اچانک اور شدید تھا کہ رینجرز کے اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ سپاہی امجد اور نعیم رزاق زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ پانچ دوسرے اہلکاروں کو شدید زخمی حالت میں راجن پور کے ضِلعی ہیڈ کوارٹرہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے ۔ رینجرز کے زخمی اہلکاروں کے نام احمد یار ، بوٹا ، جاوید ، عرفان اور یونس معلوم ہوئے ہیں ۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران راجن پور کے قبائلی علاقہ میں رینجرز کے اہلکاروں پر حملے کا یہ پانچواں واقعہ ہے ۔ چند روز قبل بھی بلوچستان کے ملحقہ علاقوں سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں رینجرز کا ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا ۔ |
141203_cec_names_suggested_rh | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/12/141203_cec_names_suggested_rh | چیف الیکشن کمشنر کے لیے تین ناموں پر اتفاق ہوگیا | پاکستان الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری کے لیے حکومت اور قائد حزب اختلاف نے پارلیمانی کمیٹی کو تین سابق ججوں کے نام تجویز کر دیے ہیں۔ | پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے ان ناموں پر مشاورت ہوئی ہے: اسحٰق ڈار وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بدھ کی صبح اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس (ر) سردار رضا، جسٹس (ر) طارق پرویز اور جسٹس (ر) تنویر احمد خان کے نام سپیکر کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق سپیکر نے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کی صبح طلب کر لیا ہے اور وہ یہ تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے جن پر غور کیا جائے گا۔ اسحاق ڈار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں سے ان ناموں پر مشاورت کی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے ناموں کے بارے میں مشاورت کرنے کے عمل کا خیرمقدم کیا۔ اُدھر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رفیق رجوانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ چار دسمبر کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کسی ایک نام پر اتفاق کر لیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کثرت رائے جس نام پر اتفاق ہوا تو اس کا بطور چیف الیکشن کمشنر اعلان کر دیا جائے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس پارلیمانی کمیٹی میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی بھی شامل ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2013 کے انتخابات کی آزادانہ تحقیقات کے لیے الیکشن کمشنروں کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ گذشتہ 16 ماہ سے خالی پڑا ہے اور اس عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ 13 نومبر کو سپریم کورٹ نے اس عہدے کو پُر کرنے کے لیے اپنی ڈیڈ لائن میں توسیع کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ 24 نومبر تک چیف الیکشن کمشنر مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنا جج واپس بلا لے گی۔ 24 نومبر کو سپریم کورٹ نے حکومت کو پانچ دسمبر تک کی حتمی مہلت دی تھی اور اس تاریخ کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے جج کی خدمات واپس لینے کا حکم بھی دیا تھا۔ خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان دو ریٹائرڈ ججوں کے ناموں پر اتفاق ہو گیا تھا مگر اُن دونوں سابق ججوں، تصدق حسین جیلانی اور رانا بھگوان داس نے یہ عہدہ سنبھالنے سے معذرت کر لی تھی۔ جسٹس سردار رضا خان اِس وقت فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاقِ رائے سے جن تین ناموں کی منظوری دی ہے ان میں سےجسٹس سردار رضا خان اِس وقت فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے وہ سپریم کورٹ کے جج اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کےاُن ججوں میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر سنہ 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے دوران گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ تاہم اُنھوں نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے دور میں دوبارہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 16 مارچ کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے بحال ہوئے تھے۔ اس فہرست میں دوسرا نام جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز کا ہے۔ وہ بھی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ انھیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحالی کے بعد سپریم کورٹ میں لے کر آئے تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز بھی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں جسٹس طارق پرویز بھی اعلیٰ عدلیہ کے اُن ججوں میں شامل تھے جنھیں پرویز مشرف کے دور میں نوکریوں سے فارغ کرکے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم اُنھوں نے بھی افتخار محمد چوہدری کی بحالی سے پہلے اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے تیسرے امیدوار جسٹس ریٹائرڈ تنویر احمد خان سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں 2000 سے 2004 تک سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔ وہ 2004 سے 2007 تک نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ 2008 سے 2013 تک پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں۔ |
world-40664892 | https://www.bbc.com/urdu/world-40664892 | بیوی کے ہاتھوں شوہر کے قتل پر ’طوطے کی گواہی‘ | امریکی ریاست مشی گن میں ایک شخص کے قتل کے مقدمے میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ ان کی اہلیہ نے مقتول کو پانچ بار گولی ماری اور اس واقعے کو بظاہر ایک طوطے نے دیکھا تھا۔ | گلینہ ڈورم نے اپنے شوہر مارٹن کو سنہ 2015 میں اپنے پالتو طوطے کے سامنے گولی ماری تھی۔ اس سے قبل انھوں نے اسی گن سے خودکشی کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ مارٹن کی سابقہ بیوی کے مطابق طوطے نے مقتول کی آواز میں یہ نقل کرتے ہوئے کہا ’ڈونٹ شوٹ‘ یعنی گولی مت چلاؤ۔ طوطے کا نام بڈ ہے جو افریقی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کو عدالتی کارروائی میں شامل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے عدالتی کارروائی کے پہلے دن 49 سالہ گلینہ ڈورم کو فرسٹ ڈگری کیس میں مجرم قرار دیا ہے۔ انھیں اگلے ماہ سزا دی جائے گی۔ سنہ 2015 میں انھیں ایک حادثے کے دوران سر پر چوٹ آئی تھی۔ مارٹن ڈورم کی والدہ نے ان کی اہلیہ کو اس وقت ’بے حس ‘ کہا جب عدالت میں ان کے خلاف ثبوت پیش کیے گئے۔ ڈورم کی سابقہ بیوی کرسٹینا کیلر نے اب ان کے پالتو طوطے کو اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ طوطا قتل کے واقعے کی رات کی بات چیت کو دہراتا ہے۔ ان کے خیال میں اس دن آخری بات یہی ہوئی تھی کہ ’مت مارو۔‘ ڈورم کے والدین بھی ان کی رائے سے متفق ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ممکن ہے طوطے نے ان دونوں میاں بیوی کے جھگڑے کو سنا ہو۔ ان کے والد نے مقامی میڈیا کو حادثے کے وقت بتایا کہ ’میرا ذاتی خیال ہے کہ اسے وہ یاد ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے ۔‘ پراسیکیوٹر نے ابتدا میں طوطے کی جانب سے بولے جانے الفاظ کو عدالت میں قتل کے مقدمے میں بطور ثبوت پیش کیا جائے تاہم بعد میں ایسا نہیں کیا گیا۔ پراسیکیوٹر کے مطابق طوطے کو عدالت میں لانا اور بطور گواہ مقدمے میں شامل کرنا درست نہیں ہوتا۔ |
regional-55887224 | https://www.bbc.com/urdu/regional-55887224 | میانمار میں فوجی بغاوت: فوج نے ایسا کیوں کیا اور اب میانمار کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ | میانمار کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ لگ بھگ ایک دہائی قبل ہی میانمار کی فوج نے ملک سے طویل ترین فوجی دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کا اقتدار ایک سویلین حکومت کے حوالے کیا تھا اور اس حوالے سے ایک باضابطہ معاہدہ بھی ہوا تھا۔ | میانمار میں پارلیمان کے اجلاس سے قبل فوج نے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا پیر کی صبح ہونے والی فوجی بغاوت نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 50 برس تک جابرانہ فوجی حکومتیں قائم رہیں اور بالآخر سنہ 2011 میں اس ملک نے جمہوری حکمرانی کی طرف پیش قدمی کی اور نظام ایک سویلین حکومت کے پاس آئی۔ آنگ سان سوچی اور دیگر بہت سے سیاستدانوں کی صبح سویرے گرفتاریوں نے ان دنوں کی دردناک یاد پھر سے تازہ کر دی جن کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، یعنی کہ ملک میں مارشل لا کا نفاذ اور اس سے جڑی یادیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران سوچی اور اس کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے ملک کی قیادت کی۔ سنہ 2015 میں ہونے والے انتخابات، جس میں سوچی کی حکومت منتخب ہوئی تھی، کو گذشتہ 25 سالوں میں ملک میں ہونے والے انتہائی شفاف اور آزادانہ انتخابات قرار دیا گیا تھا۔ اور پیر کی صبح، جب مارشل لا نافذ کیا گیا، اس پارٹی کو اقتدار میں اپنی دوسری مدت کا آغاز کرنا تھا۔ یہ بھی پڑھیے میانمار میں مارشل لا نافذ، آنگ سان سوچی زیر حراست میانمار: فوجی سربراہ کا روہنگیا کے خلاف آپریشن کا دفاع آنگ سان سوچی: نوبل امن انعام سے روہنگیا قتلِ عام کے الزامات کے دفاع تک لیکن پسِ پردہ رہتے ہوئے میانمار کی فوج نے معاملات پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط رکھی، اور یہ میانمار کے آئین کی وجہ سے ممکن ہوا جس کے تحت پارلیمان اور ملک کی طاقتور ترین وزارتوں کا ایک چوتھائی حصہ فوج کو جاتا ہے۔ مگر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود فوج نے اب کیوں اقتدار پر قبضہ کیا، اور یہ کہ اب آگے کیا ہو گا؟ فراڈ کے الزامات فوجی بغاوت کے لیے یہ وقت کیوں چنا گیا اس کی آسان سی وضاحت بی بی سی کے جنوب مشرقی ایشیا کے نمائندے جوناتھن ہیڈ نے دی ہے۔ 'پیر کی صبح میانمار کی پارلیمان کا پہلا اجلاس ہونا تھا جس کے دوران الیکشن کے نتائج کی توثیق ہونی تھی۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔' نومبر میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ملک میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے سنگین الزامات کے باوجود یہ پارٹی بہت زیادہ مقبول رہی۔ فوجی حمایت یافتہ اپوزیشن نے انتخابات کے فوراً بعد ہی دھوکہ دہی کے الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔ ان ہی الزامات کو نئے قائم مقام صدر کی طرف سے جاری کردہ ایک دستخطی بیان میں دہرایا گیا ہے اور ایسا شاید اس لیے کیا گیا تاکہ فوج کی جانب سے اعلان کردہ ایمرجنسی کے نفاذ کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ رنگون میں فوجیوں کو سٹی ہال کے اندر دیکھا گیا ہے سابق نائب صدر مائینٹ سوی، جو کہ ایک سابق جنرل بھی ہیں، نے کہا ہے کہ 'میانمار کا الیکشن کمیشن آٹھ نومبر 2020 کو ہونے والے کثیر جماعتی عام انتخابات میں ووٹر لسٹ میں موجود بڑی بے ضابطگیوں کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔' لیکن اس الزام کے بہت ہی کم ثبوت منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے بی بی سی کو بتایا 'ظاہر ہے کہ آنگ سان سوچی نے زبردست انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس دوران انتخابی دھوکہ دہی کے الزامات لگے جو صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی طرح تھے، یعنی یہ دعوے بغیر ثبوت کے کیے گئے۔' مسٹر رابرٹسن فوج کے اقتدار پر قبضے کو 'ناقابل معافی' قرار دیتے ہیں۔ 'کیا [ووٹ] کا مطلب اقتدار سے محروم ہونا تھا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔' ’بابائے قوم شرمندہ ہیں‘ نومبر کے انتخابات میں یہ دیکھا گیا کہ فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کچھ ووٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن فوج اس کے باوجود حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ 2008 کا آئین ہے جو فوجی جنتا کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کی بدولت فوج کو خود سے پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں مل جاتی ہیں اور انھیں داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارت بھی دی جاتی ہے۔ جب تک یہی آئین رہے گا، فوج کا اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ لیکن کیا این ایل ڈی اس بار اپنی اکثریت کے ساتھ یہ آئین بدل سکتی تھی؟ جوناتھن ہیڈ کے مطابق یہ ہونا مشکل تھا کیونکہ اس کے لیے پارلیمان کی 75 فیصد اکثریت درکار ہوتی ہے جو کہ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ 25 فیصد سیٹیں تو فوج کے پاس ہوتی ہیں۔ جاپان میں میانمار کے شہریوں نے اس مارشل لا کے خلاف مظاہرے کیے ہیں سابق صحافی اور ٹیکنالوجی کی پروفیسر ایئی مِن تھینٹ کہتی ہیں کہ آج کے اقدام کی ایک اور وجہ ہوسکتی ہے: فوج میں ندامت پائی جاتی ہے۔ رنگون سے انھوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انھیں توقع نہیں تھی کہ انھیں شکست ہوگی۔ فوج سے خاندانی تعلقات رکھنے والوں نے بھی ان کے خلاف ووٹ ڈالے۔‘ ظاہر ہے کہ بات اس سے بڑی ہے۔ ’آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ فوج ملک میں اپنی پوزیشن کو کیسے دیکھتی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اکثر آنگ سان سوچی کو ’ماں‘ کا درجہ دیتی ہے۔ لیکن فوج خود کو ’بابائے قوم‘ تصور کرتی ہے۔‘ اس کے نتیجے میں فوج میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومتی سرگرمیوں میں اس پر ذمہ داری ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں بین الاقوامی تجارت بڑھی ہے اور یہ پہلے اس شدت کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔ ’وہ باہر کے لوگوں کو خطرہ سمجھتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ عالمی وبا اور روہنگیا افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق نہ ملنے پر بین الاقوامی تشویش فوج نے اس اقدام کا سوچا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود یہ ان کے لیے بھی حیران کن ہے۔ مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟ ماہرین اس حوالے سے کسی ایک وجہ پر متفق نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ لیکن ان میں ایک بات پر اتفاق ہے کہ اس سے بہت کم فائدہ ہوگا۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر جرارڈ مکارتھی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ قابل فہم ہے کہ موجودہ نظام فوج کے لیے کافی فائدہ مند ہے۔ اسے مکمل خودمختاری حاصل ہے، اس کے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بھی اچھے مواقع ہیں اور عام شہریوں کے لیے جنگی جرائم کے ذمہ دار سیاسی حلقے ہیں۔‘ ’اپنے اعلان کے مطابق ایک سال تک اقتدار پر قابض رہنے پر چین کے علاوہ بین الاقوامی ساتھی اسے تنہا چھوڑ دیں گے، فوج کے تجارتی منصوبوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور آنگ سان سوچی کے لاکھوں حمایتی جنھوں نے ان کی جماعت کو ووٹ دیا تھا وہ بھی ان کے لیے رکاوٹ بن جائیں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شاید مستقبل کے انتخابات میں یو ایس ڈی پی بہتر کارکردگی کر سکے لیکن اس اقدام سے بہت زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے فِل رابرٹسن کہتے ہیں کہ خدشہ ہے کہ اس سے میانمار ایک بار پھر ’خارج شدہ ریاست‘ بن سکتی ہے اور اس سے ملکی شہری بھی ناخوش رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا ہے میانمار کے لوگ اسے چپ چاپ قبول کر لیں گے۔ وہ مستقبل میں فوج کے ساتھ آگے جانا نہیں چاہتے۔ وہ آنگ سان سوچی کو فوجی آمریت کے خلاف ایک دیوار کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘ یہ امید بھی ہے کہ مسئلہ بات چیت سے حل ہوجائے گا۔ ’اگر ہم نے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنا شروع کردیے تو یہ ایک بڑے بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ |
050225_judges_plot_ra | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/02/050225_judges_plot_ra | اسلام آباد میں ججوں کو پلاٹ آلاٹ | وفاقی وزیر برائے ہاوسنگ سید صفوان اللہ نے جمعہ کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان حکومت نےگزشتہ سال اسلام آباد میں نئے تعمیر ہونے والے رہائشی سیکٹر ’G-14 میں ساڑھے سات سو سے زیادہ پلاٹ ججوں اور دیگر سرکاری ملازمین کو الاٹ کیے ہیں۔ | حکومت کے حامی رکن قاضی عبدالقدوس راجڑ کے سوال پر انہوں نے اپنے تحریری جواب کے ساتھ ایوان میں پلاٹ حاصل کرنے والوں کی فہرست بھی پیش کی۔ وزیر کی پیش کردہ فہرست کے مطابق ’ججز کوٹا، سےایک سو نو ججوں نے پلاٹ حاصل کیے۔ سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے کسی جج کا نام فہرست میں شامل نہیں ہے۔ پچاس اعلیٰ ’کیٹیگری، کے پلاٹوں میں سے چار پلاٹ وفاقی شرعی عدالت کے جج صاحبان، جسٹس عبدالمنان، جسٹس سعیدالرحمان فرخ، جسٹس ظفر پاشا چودھری اور جسٹس احمد ربانی کو دیے گئے ہیں۔ اسی ’کیٹیگری، میں اکتیس پلاٹ لاہور ہائی کورٹ کے جن جج صاحبان کو ملے ہیں ان میں جسٹس شاہدہ خورشید، رانا محمد ارشد، منصوراحمد، محمد غنی، محمد ظفر یاسین، پرویز احمد، نعیم اللہ خان، بشیر مجاہد، فرخ لطیف، تنویر بشیر انصاری، رستم علی ملک، سید جمشید علی، شیخ عبدالرشید، محمد اکرم، محمد اختر شبیر، چودھری اعجاز احمد، محمد سعید اختر، محمد فرخ محمود، ایم مزمل خان، علی نواز چوہان، محمود اختر شاہد ، محمد سائر علی، میاں حامد فاروق، سردار محمد اسلم، شیخ حاکم علی، سید سخی حسین بخاری، راؤ نعیم ہاشم خان، ایم جاوید بٹر، خواجہ محمد شریف، مولوی انوارالحق اور میاں ثاقب نثار شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ کے اسلام آباد میں اعلیٰ ’کیٹیگری کے پلاٹ حاصل کرنے والے سات ججوں میں چیف جسٹس سید سعید اشہد، محمد روشن عیسانی، علی اسلم جعفری، محمد صادق، محمد نجیب اللہ، سید زوار حسین اور سرمد جلال عثمانی شامل ہیں۔ پشارو ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان، قاضی احسان اللہ قریشی، ملک حامد سعید، شہزاد اکبر خان، فضل الرحمان خان اور طارق پرویز نے بھی پہلی ’کیٹیگری، میں پلاٹ حاصل کیے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں سیاست دانوں، جرنیلوں اور صحافیوں سمیت مختلف شعبوں کے لوگوں کو دیے گئے پلاٹوں کی فہرستیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان میں ججوں کے نام کم تعداد میں دیکھنے کو ملتے تھے۔ اسلام آباد میں ’جوڈیشل ٹاؤن، بھی ہے جس میں بیشتر ججوں اور وکلاء نے پلاٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ اس سیکٹر میں پلاٹ حاصل کرنے والے جج صاحبان کے ’جوڈیشل ٹاؤن، میں پلاٹ ہیں یا نہیں۔ ’فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن، کی اس رہائشی سکیم میں دوسری ’کیٹیگری، میں ججز کوٹا اور ’آئینی کوٹا، سے پانچ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں، چار سینئر سول ججوں، اور نو سول ججوں نے بھی پلاٹ حاصل کیے۔ جبکہ ان دونوں کوٹا میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد یونس خان، لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار دوست محمد ملک اور دیگر چھوٹے گریڈ کے ملازمین نے بھی پلاٹ حاصل کیے۔ حکومتی لسٹ کے مطابق ’جنرل کوٹا، میں ’تین کیٹیگریز، بنا کر چھ سو ساٹھ افسران کو پلاٹ دیے گئے۔ سب سے زیادہ پلاٹ گریڈ بیس سے بائیس کے افسران کو ملے جن کی تعداد تین سو پندرہ ہے۔ گریڈ اٹھارہ اور انیس کے افسران کو دوسری ’کیٹیگری، میں دو سو پچپن جبکہ تیسری میں گریڈ سترہ کے نوے افسران کو پلاٹ دیے گئے۔ ’جنرل کیٹیگریز، میں جن افسران نے پلاٹ حاصل کیے ان میں فوجی ہیڈ کوارٹر، خفیہ ایجنسیز، ملٹری انجنیئرنگ، ملٹری لینڈ کینٹونمینٹ اور مختلف کارپوریشنز کے افسران بھی شامل ہیں۔ اس مجوزہ رہائشی سیکٹر میں صحافیوں کے لیے بھی کوٹا مقرر کیا گیا ہے اور مقرر کردہ معیار کے مطابق وزارت اطلاعات درخواست گزار صحافیوں کے کاغذات کی چھان بین کر رہی ہے۔ |
081005_germany_wins | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/10/081005_germany_wins | ہاکی: پاکستان چھ ایک سے ہار گیا | ہیمبرگ میں جاری چار ملکی ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان اپنا تیسرا میچ اتوار کو اولمپک چیمپئن جرمنی سے چھ ایک سے ہار گیا۔ جرمنی نے پاکستان کو ہرا کر چار ملکی ہمبرگ ماسٹرز ٹورنامنٹ بھی جیت لیا۔ | تین سے پانچ اکتوبر تک کھیلے جانے والے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان جرمنی، ملائشیا اور بیلجیئم کی ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں۔ پاکستانی ٹیم اب تک اس ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست تھی اور اس نے اپنے پہلے میچ میں بلیجیئم کے خلاف فتح حاصل کی جبکہ ملائشیا اور پاکستان کا میچ برابری پر ختم ہوا۔ بیجنگ اولمپکس میں مایوس کن کارکردگی کے بعد ہیمبرگ میں جمعہ کو بلیجیئم کے خلاف اپنے ابتدائی میچ میں پاکستان نے تین کے مقابلے میں چھ گول سے فتح حاصل کر کے مثبت انداز میں ٹورنامنٹ کا آغاز کیا تھا۔تاہم سنیچر کو دوسرے میچ میں پاکستانی ٹیم فتح کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکی اور اسے برابری پر اکتفا کرنا پڑا۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ویب سائٹ کے مطابق ملائیشیا کے خلاف اس میچ میں پہلے ہاف کے خاتمے تک پاکستانی ٹیم ایک گول کے خسارے میں تھی لیکن دوسرے ہاف کے آغاز میں ہی کپتان شکیل عباسی کے گول کی بدولت پاکستان نے میچ برابر کر دیا۔ دوسرے ہاف کے اٹھارویں منٹ میں ملائیشین ٹیم نے دوبارہ برتری حاصل کر لی جسے ساٹھویں منٹ میں پاکستان کے حسیم خان نے ختم کر دیا۔ پاکستان نے ہیمبرگ ماسٹرز ہاکی ٹورنامنٹ کے لیے ایک نسبتاً نئی ٹیم جرمنی بھیجی ہے جس میں پاکستان کی جونیئر ٹیم کے کھلاڑیوں کی اکثریت شامل ہے۔بیجنگ اولمپکس کے بعد چونکہ پاکستانی ٹیم کی منیجمنٹ مستعفی ہوگئی تھی لہذا جہانگیر بٹ، دانش کلیم اور کامران اشرف پر مشتمل جونیئر ٹیم کی منیجمنٹ ہی کو سینئر ٹیم کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ |
041226_quake_highlights | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041226_quake_highlights | بحر ہند میں زلزلے: متاثرہ ممالک | انڈونیشیااتوار کو بحرہند میں آنے والے زلزلے کا مرکز انڈونیشیا کے مغربی جزیرے سماٹرا میں تھا جہاں اس کی شدت زلزلۂ پیما پر آٹھ اعشاریہ نو رجسٹر کی گئی۔ | یہاں درجنوں گاؤں اور شہر طوفانی سیلاب کی زد میں آگئے اور کئی مقامات پر طوفانی لہروں کی اونچائی دس میٹر اونچی تھی۔ شمالی سماٹرا اور ریاست آچے سب سے زیادہ متاثر رہے۔ سری لنکاسری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے جافنا تک ساحلی علاقے طوفانی لہروں کی زد میں آگئے۔ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا کہ تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ضلع موتور اور ٹرنکومالی کے علاقے چھ میٹر اونچی طوفانوں میں ڈوب گئے۔ سیلاب سے سے کولمبو کا بندرگاہ بند کردیا گیا۔ بھارتجنوبی بھارت کی ساحلی ریاستیں تامل ناڈو، کیرالہ اور آندھر پریش سب سے زیادہ متاثر رہیں۔ تامل ناڈو کے ساحلی شہر مدراس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے اور ہزاروں ماہی گیروں کی جھونپڑیاں لہروں کی زد میں آگئیں۔ ابتدائی اطلاعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی تھی۔ پانڈیچیری اور اینڈومان اور نیکوبار کے جزیرے بھی متاثر ہوئے۔ تھائی لینڈجنوبی تھائی لینڈ کا مغربی ساحل بری طرح متاثر ہوا اور طوفانی لہروں نے پھوکیٹ اور پھی پھی کے جزیروں پر تباہی مچائی۔ یہاں ہزاروں غیرملکی سیاح کرِسمس کی تعطیلات منارہے تھے۔ کئی ہوٹل تباہ ہوگئے اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ مالدیپزلزلے سے پیدا ہونے والی طوفانی لہروں نے جزیرۂ مالدیپ کو لگ بھگ ڈوبو دیا۔ دارالحکومت مالے میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بند کرنا پڑا۔ ملک کے دوسو سے زائد جزیروں سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ملائیشیاملائیشیا میں شمالی شہر پینانگ کے قریب واقع بیچ پر موجود کئی لوگ طوفانی لہروں کے ساتھ بہہ گئے۔ صومالیہ انڈونیشیا میں زلزلے کی مرکز سے چلنے والی طوفانی لہریں چھ ہزار کلومیٹر دور افریقہ کے ساحل تک پہنچیں۔ صومالیہ کا شہر گاراساد متاثر ہوا اور تین افراد ہلاک ہوئے، کئی ماہی گیروں کی کشتیاں طوفان میں ڈوب گئیں۔ |
051116_shoaib_1test | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051116_shoaib_1test | ’ٹیم مقدم ہے‘ | فاسٹ بولر شعیب اختر ملتان ٹیسٹ کے لئے پاکستانی ٹیم میں شامل کئے گئے تویہ سوال ہر ذہن میں موجود تھا کہ وہ کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرینگے۔ | اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف دو اہم سیریز میں پاکستانی ٹیم ان کے بغیر میدان میں اتری تھی اور جیتی تھی دوسری جانب ان کی فٹنس کے بارے میں بھی شکوک وشبہات سامنے آئے تھے لیکن ملتان میں چھ وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کے ذریعے شعیب اختر نے اپنے بارے میں تمام خدشات دور کردیئے ہیں اور وہ آنے والے میچوں کے لئے بھی تیار ہیں۔ شعیب اختر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی اپنی انفرادی کارکردگی کو مقدم نہیں جانا بلکہ ان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ان کی اصل پرفارمنس وہی ہے جو ٹیم کے کام آئے۔ اگر وہ چھ یا دس وکٹیں حاصل کرتے ہیں اور ٹیم نہ جتیے تو اس کارکردگی کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ان کی وکٹیں ٹیم کی جیت کا حصہ بن جائیں تو اس سے زیادہ خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ ملتان ٹیسٹ میں شعیب اختر نے دونوں اننگز میں تین تین وکٹیں حاصل کیں۔خاص کر دوسری اننگز میں انہوں نے نازک صورتحال میں جائلز جونز اور ہارمیسن کو آؤٹ کرکے پاکستان کی جیت میں مدد دی۔ شعبب اختر سے پوچھا گیا کہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز سے غیرحاضری کے بعد ٹیم میں واپس آنے کے بعد کیا کوئی اضافی پریشر تھا؟ تو وہ بولے’’ نہیں۔ جو کچھ ہوچکا وہ ماضی ہوچکا ان کی نظریں آنے والے کل پر مرکوز ہیں۔ ملتان کی وکٹ کے بارے میں سوال پر شعیب اختر کا کہنا تھا کہ وکٹ سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا انہوں نے ٹیسٹ سے قبل ملتان کی وکٹ نہیں دیکھی تھی۔ |
pakistan-38443473 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38443473 | سمارٹ فون سے پولیو کے خلاف جنگ | پولیو کی مہلک بیماری کا سنہ 2016 میں بھی پاکستان سے خاتمہ نہیں ہو سکا ہے تاہم پاکستان میں انسداد پولیو کے وزیراعظم کے سیل کی انچارج سینیٹر عائشہ فاروق کا کہنا ہے اس سال پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے۔ | پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائیجریا میں پولیو وائرس موجود ہے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیٹر عائشہ فاروق کا کہنا تھا کہ ’دو برسوں میں پولیو کیسز کی تعداد 306 سے 18 تک محدود ہوگئی ہے۔ ہمارا ہدف یہی ہے کہ پولیو کا ملک سے مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے لیکن پروگرام میں جو تبدیلیاں کی گئیں اس کے مثبت تنائج سامنے آئے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پولیو پروگرام کے تحت نچلی سطح پر لوگوں کو اعتماد میں لینے، سکیورٹی کو یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ سال 2016 میں اب تک سندھ اور خیبرپختونخوا سے آٹھ، آٹھ جبکہ فاٹا سے اور بلوچستان سے ایک پولیو کیس سامنے آیا ہے جبکہ گذشتہ سال ان کی تعداد 54 اور سنہ 2014 میں 306 رہی تھی۔ خیال رہے کہ پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائیجریا میں پولیو وائرس موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے مقامی حکومتوں اور عالمی اداروں کے تعاون سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ ابتدائی طور پر سمارٹ فون کا استعمال سات ضلعوں میں کیا گیا ماہرین کے مطابق پولیو سمیت دیگر جان لیوا بیماریوں کے بچاؤ کے لیے تمام نوزائندہ اور کم عمر بچوں کو حفاظتی ٹیکے اور ویکسینیشن انتہائی اہم ہے۔ اس حوالے سے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے پولیو، ڈینگی اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین اور ٹیکے لگانے والی ٹیموں کے ایک خصوصی موبائل ایپلی کیشن تیار کی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے بھر میں ان ٹیموں کو 11ہزار سمارٹ فونز فراہم کیے گئے ہیں اور ان کے استعمال کے لیے خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔ پنجاب انفارفیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے پروگرام مینجر ہیلتھ بلال اقبال نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیو اور دیگر حفاظتی ویکسینیشن کے لیے سمارٹ فون کا استعمال موبائل ایپلی کیشنز کا استعمال رواں سال ستمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس کا استعمال سات ضلعوں میں کیا گیا جن میں دو انتہائی رسک والے علاقے لاہور اور راولپنڈی ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں مظفر گڑھ، ڈی جی خان، رحیم یار خان، ملتان اور راجن پور شامل ہیں۔‘ بلال اقبال کے مطابق ابھی یہ پروگرام ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں ہیلتھ ٹیمیں قلم اور کاغذ سے ڈیٹا اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے بھی ڈیٹا محفوظ کررہی ہیں۔ ’موصول ہونے والے ڈیٹا کی سپروائزری افسران تصدیق کرتے ہیں کہ کیا ڈیٹا صحیح انداز میں شامل کیا گیا ہے یا نہیں۔ اس کام کے لیے پہلے سے موجود فارم کو ڈیجیٹل شکل میں ڈھال کر ایک موبائل ایپ بنا دی گئی ہے۔‘ بلال اقبال کے مطابق پولیو ورکرز کی جانب سے موبائل ایپ میں ڈیٹا شامل کیا جاتا ہے تو گوگل میپس کے ذریعے ان کا مقام ظاہر ہوجاتا ہے جس کو جی آئی ایس لوکیشن کہا جاتا ہے۔ جس سے یہ تصدیق ہوجاتی ہے کہ انھوں نے مخصوص علاقہ یا گھر میں موجود بچوں کو قطرے پلائے ہیں۔ پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے یا نا مناسب صورتحال کا سامنا کرنے کے حوالے سے بلال اقبال کا کہنا تھا کہ اس ایپلی کیشن کے ذریعے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ ٹیمیں کہاں موجود ہیں اور ایسی کسی بھی صورتحال میں ان کو بروقت مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ ’پولیو ٹیم کی مانیٹرنگ کا نظام پورے ملک میں قائم کیا گیا ہے‘ سینیٹر عائشہ فاروق کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو پروگرام میں نے سائنٹفک طریقے سے کام کیا گیا اور پورے ملک میں ایمرجنسی آپریشن سینٹرز بنائے گئے جہاں سے 'ریئل ٹائم' ڈیٹا جمع کرتے رہے ہیں۔ مہم سے پہلے، مہم کے دوران اور مہم کے بعد جو جو بھی اقدامات ناگزیر تھے وہ کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو ٹیم کی مانیٹرنگ کا نظام پورے ملک میں قائم کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی جانب سے پولیو اور دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن مہم کے حوالے سے کہنا تھا کہ مانیٹرنگ کا نظام بہت اچھا ہے لیکن پولیو پروگرام کے تحت پورے ملک میں آزاد ذرائع سے مانیٹرنگ کروائی جاتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں ہیلتھ ورکرز کی مانیٹرنگ کے لیے سمارٹ فونز کا استعمال ویکسینیشن کے عمل کو 100 فیصد یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم پاکستان میں ابھی اس کی ابتدا ہے اور اس کو مکمل طور پر نافذ العمل کرنے میں وقت درکار ہے۔ |
150305_cwc_sa_pak_match_preview_ra | https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/03/150305_cwc_sa_pak_match_preview_ra | محمد عرفان فٹ، حارث سہیل کی شرکت مشکوک | پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں ورلڈ کپ کے اپنے پانچویں میچ میں ہفتے کے روز ایڈن پارک میں مدمقابل ہو رہی ہیں۔ | حارث سہیل ایڑی کی تکلیف کے سبب شاید میدان میں نہ اترسکیں: مصباح الحق فاسٹ بولر محمد عرفان فٹ ہوگئے ہیں اور کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ وہ میچ کھیلیں گے لیکن حارث سہیل ایڑی کی تکلیف کے سبب شاید میدان میں نہ اترسکیں اور ان کی جگہ یونس خان کی ٹیم میں واپسی متوقع ہے۔ محمد عرفان متحدہ عرب امارات کے خلاف میچ میں کولہے کی تکلیف کے سبب صرف تین اوورز کرانے کے بعد میدان سے باہر چلے گئے تھے۔ جنوبی افریقہ نے عالمی کپ میں چار میں سے تین میچز کھیلے ہیں جن میں سے ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ کے خلاف آخری مسلسل دو میچوں میں اسے چار سو سے زیادہ رنز سکور کیے ہیں۔ اے بی ڈی ویلیئرز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک سو باسٹھ رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی جس میں آٹھ چھکے اور سترہ چوکے شامل تھے۔ جنوبی افریقہ نے اپنے فاسٹ بولرز کی موجودگی میں لیگ سپنر عمران طاہر کو بھی عمدگی سے استعمال کیا ہے جو چار میچوں میں نو وکٹیں حاصل کرچکے ہیں جن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پنتالیس رنز کے عوض پانچ وکٹوں کی عمدہ کارکردگی بھی شامل ہے۔ عمران طاہر پاکستان کے خلاف سات ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں بارہ وکٹیں حاصل کرچکے ہیں جس میں سب سے بہترین بولنگ ترپن رنز کے عوض چار وکٹ ہے۔ پاکستانی ٹیم مسلسل دو میچوں میں شکست کے بعد مسلسل دو میچز جیتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف شکست اس کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے لیکن جیت کی صورت میں اس کے کوارٹرفائنل میں پہنچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ جمعہ کو ویسٹ انڈیز اور بھارت جبکہ ہفتے کے روز آئرلینڈ اور زمبابوے کے میچ سے بھی گروپ بی کی شکل بڑی حد تک واضح ہوجائے گی۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کوارٹرفائنل میں پہنچے گی یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ پندرہ مارچ کو پاکستان اور آئرلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے میچ سے ہی ہوگا۔ جنوبی افریقہ اور پاکستان کےد رمیان آخری بار ون ڈے میں مقابلہ نومبر دو ہزار تیرہ میں ہوا تھا جب پاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ میں کھیلی گئی تین ون ڈے میچوں کی سیریز دو ایک سے جیتی تھی۔ |
040924_indonesia_cleric_ra | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040924_indonesia_cleric_ra | انڈونیشیا: مذہبی رہنما پر مقدمہ | انڈونیشیا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مذہبی رہنما ابو بکر بشیر پر دہشت گردی اور ممنوعہ اسلحہ رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلے گا۔ | ابوبکر بشیر پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ تشدد پسند تنظیم جامعتہ الاسلامیہ کے سربراہ ہیں جس نے بالی نائٹ کلب اور میریٹ ہوٹل جکارتا میں بم دھماکے کیے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ ابوبکر بشیر نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انڈونشیا کی ایک عدالت پہلے ہی ان کو تشدد پسند تنظیم جامعتہ الاسلامیہ کے روحانی پیشوا ہونے کے الزام سے بری کر چکی ہے۔ انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل کے ترجمان کیماس یحییٰ کے مطابق ابوبکر بشیر پر دہشت گردی کے الزامات پر مقدمہ عدالت میں دائر کیا جائے گا۔ اگر حکومت دہشت گردی کے الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ابوبکر بشیر کوسزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کے ترجمان نے کہا کہ ابو بشیر کے خلاف مضبوط شہادتیں موجود ہیں اور حکومت کو یقین ہے کہ وہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اٹارنی جنرل کے ترجمان کے مطابق ابوبکر بشیر پر جے ڈبلیو میریٹ جکارتا بم دھماکے کے الزام کا سامنا کرنے پڑے گا۔ ترجمان اس بات کی وضاحت کی کہ ابوبکر بشیرپر بالی بم دھماکے کا الزام نہیں لگے گا۔ |
070926_scourt_hearing | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070926_scourt_hearing | ’فوجی افسر کی نامزدگی جرم‘ | قانون دان اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ صدر ایک سیاسی عہدہ ہے اور ایک آرمی افسر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی وہ عہدہ صدارت کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرواسکتا ہے۔ | اس سے پہلے قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کو صدر منتخب ہوتے ہی فوجی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وردی اُتارنی چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہی دو عہدوں کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک آرمی افسر کو صدارت کے لیے اُمیدوار نامزد کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس کے تجویز اور تائید کندہ بھی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی سزا دس سال قید ہے۔ یہ بات انہوں نے صدر کے دو عہدے رکھنے، سترہویں آئینی ترمیم اور صدر کے وردی میں آئند صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کےدوران معاون طور پر اپنے دلائل دیتے ہوئے کہی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کا صدر بننے کا حق تو دور کی بات ہے وہ اس عہدے کے امیدوار ہونے کے بھی اہل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا عہدہ سیاسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاروق لغاری، نوابزادہ نصراللہ خاں اور رفیق تارڑ ووٹ مانگنے جاتے تھے اور یہ ایک سیاسی عہدہ ہے۔ انہوں نے شریف الدین کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف وردی میں الیکشن لڑیں گے اور کامیاب ہونے کی صورت میں وردی اتار دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اُن کا بیان مان لیا جائے تو جج بھی صدر کا الیکشن لڑسکتے ہیں، ہار گئے تو جج رہیں گے جیت گئے تو صدر بن جائیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اگر سارا جھگڑا وردی کا ہے تو اس پر اعتراض الیکشن کمشن میں بھی ہو سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ سترہویں ترمیم کی روشنی میں صدر صرف ایک مدت کے لیے اپنے پاس دو عہدے رکھنے کے مجاز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم صدر کے عہدے کے لیے کی گئی آرمی چیف کے عہدے کے لیے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے اردگرد ایک قانونی حصار ہے جو صدر کو آئین کے اندر رکھتی ہے اور صدر اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو عدالت اس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اعتزاز احسن کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔ اس سے پہلے قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کو صدر منتخب ہوتے ہی فوجی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وردی اُتارنی چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہی دو عہدوں کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ صدر مشرف کے صدارتی عہدے پر انتخاب کے ساتھ ہی آئین کی دفعہ تینتالیس فوری طور پر بحال ہو جائے گی اور اس کے تحت صدر مشرف کو اپنا فوجی عہدہ چھوڑنا ہوگا۔ ا انہوں نے عدالت سے کہا کہ وا اپنے فیصلے میں لکھیں کہ جب صدارتی انتخاب کے نتائج آئیں تو منتخب ہونے پر صدر جنرل پرویز مشرف اپنی وردی اُتار دیں اس طرح ان خدشات کا خاتمہ ہوجائے گا کہ وہ (مشرف) اپنا وعدہ پوار نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے حکومتی وکیل سید شریف الدین پیرزادہ نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر کے دو عہدوں کے بارے میں آئینی درخواستیں سپریم کورٹ کے سامنے قابلِ سماعت نہیں ہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس رانا بھگوان داس نے اٹارنی جنرل کی اسی نوعیت کی دلیل پر اپنے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی ان درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار دے چکی ہے۔ جب سید شریف الدین پیرزادہ نے پیر صابر شاہ کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک لارجر بینچ پہلے سے اعلان شدہ سپریم کورٹ کے ہی کسی فیصلے پر نظرثانی کر سکتا ہے۔ سید شریف الدین پیرزادہ نے جب قاضی حسین احمد کیس کا حوالہ دیا تو بینچمیں شامل جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ یہ فیصلہ سترہویں ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے آیا تھا۔ سپریم کورٹ کے زیر سماعت ان آئینی درخواستوں میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، کمیونسٹ پارٹی کے انجینئر جمیل ملک اور پمز ہسپتال کے ایک سابق ڈاکٹر انوار الحق کی درخواستیں شامل ہیں۔ ان پٹیشنوں کی سماعت جسٹس رانا بھگوان داس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک نو رکنی بینچ کر رہا ہے جبکہ اس کے ارکان میں جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس فلک شیر، جسٹس محمد نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بٹر اور جسٹس شاکراللہ جان شامل ہیں۔ |
sport-39067498 | https://www.bbc.com/urdu/sport-39067498 | کوئٹہ گلیڈی ایٹرنے کراچی کنگز کو چھ وکٹ سے شکست دے کر اپنی پہلی پوزیشن مستحکم کر لی | متحدہ عرب امارات کے دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ سیزن ٹو میں جمعرات کو کھیلے جانے والے واحد میچ میں کراچی کنگز کو کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے ہاتھوں چھ وکٹوں سے شکست ہو گئی ہے۔ | احمد شہزاد اور اسد شفیق نے پہلی وکٹ کے لیے سو رنز کی شراکت قائم کر کہ کوئٹہ گلییڈی ایٹرزکو فتح کی جانب گامزن کر دیا کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے انیسویں اوور میں کراچی کنگز کے خلاف ایک آسان فتح مکمل کر کے نو پوائنٹس کے ساتھ اپنی پہلی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ ’لالہ سیلفی نہیں لینے دیں گے‘ ’پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہی ہو گا‘ کپتان سرفراز احمد نے محمد عامر کے گیند پر میچ وننگ شاٹ کھیلا اور 19 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ گئے جبکہ ان کے ساتھ محمود اللہ آٹھ رنز پر موجود تھے۔ رائلی روسو میچ کے اختتام تک وکٹ پر نہیں رہ سکے اور اسامہ میر کی گیند پر 15 رنز کر کہ آؤٹ ہوگئے۔ احمد شہزاد اور اسد شفیق نے کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے لیے شاندار کرکردگی دکھاتے ہوئے پہلی وکٹ کی شراکت میں 105 رنز سکور کیے تھے جب احمد شہزاد کو سہیل خان نے 54 رنز پر آؤٹ کر کے کراچی کے لیے پہلے کامیابی حاصل کی۔ اسی اوور میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کو اگلا نقصان اٹھانا پڑا جب کیون پیٹرسن صفر پر رن آؤٹ ہو گئے اور آخری گیند پر اسد شفیق بھی کیچ دے بیٹھے۔ اس سے پہلے کراچی کنگز نے 20 اوورز کے اختتام تک پانچ وکٹوں کے نقصان پر 154 رنز بنائے۔ کراچی کنگز نے دس اوورز میں 69 رنز بنائے تھے لیکن بابر اعظم کے آؤٹ ہونے کے بعد کرس گیل کی سست بیٹنگ سے ٹیم دباؤ میں آگئی۔ بابر اعظم نے کپتان کمار سنگاکارا کے ساتھ مل کر ایک بار پھر اچھی شراکت قائم کی انھوں نے بمشکل 34 گیندوں پر دو چھکوں کی مدد سے 29 رنز سکور کیے۔ دوسری جانب ان کے ساتھ موجود کیئرون پولارڈ نے آغاز آہستہ کیا تھا لیکن آخری اوور میں تیز کھیل کر وہ 19 گیندوں پر 31 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ روی بوپارا بھی اس میچ میں ایک رن سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ شعیب ملک اس میچ میں کراچی کے لیے کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے اور 9 رنز کر کے آؤٹ ہو گئے۔ آٹھویں اوور میں محموداللہ نے کراچی کنگز کے کپتان کمار سنگاکارا کی 28 رنز پر قیمتی وکٹ حاصل کرکے 63 رنز کی اوپننگ شراکت ختم کی۔ کرچجی کنگز کی اس جوڑی نے پچھلے میچ میں بھی 72 رنز کی شراکت قائم کی تھی اور سنگاکارا اس میں بھی 28 رنز پر آؤٹ ہوئے تھے۔ آج کے میچ کے بعد ان دونوں ٹیموں نے چھ چھ میچز کھیل لیے ہیں۔ کوئٹہ بدستور اول پوزیشن پر جبکہ کراچی آخری پوزیشن پر موجود ہے۔ ٹورنامنٹ میں کل دو میچ کھیلے جائینگے جس میں پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے پہلے لاہور قلندرز کا مقابلہ پشاور زلمی سے ہو گا جبکہ رات نو بجے اسلام آباد یونایئٹڈ کا سامنا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے ہوگا۔ |
151010_is_advance_syria_zs | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/10/151010_is_advance_syria_zs | دولتِ اسلامیہ کی شامی باغیوں کے گڑھ کی جانب پیش قدمی | شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے حلب کے نواح میں صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں کے زیرِ اثر کئی دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔ | دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے حکومت مخالف باغی گروپوں کو نہ صرف کئی دیہات سے نکال دیا ہے جبکہ ایک فوجی اڈے پر بھی قبضہ کر لیا ہے دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی اس پیش قدمی کو کئی ماہ کے دوران اس گروپ کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ حلب میں شامی جنرل کی ہلاکت کی تصدیق امریکہ مزید شامی باغیوں کو تربیت نہیں دے گا روسی کارروائی ایران کے لیے باعثِ تقویت شدت پسندوں کی جانب سے یہ کارروائی امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد اور روس دونوں کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کو مسلسل نشانہ بنائے جانے کے دعوؤں کے باوجود کی گئی ہے۔ جمعے کو بھی روسی حکام نے کہا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں کی بمباری سے 24 گھنٹے میں تنظیم کے 300 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم علاقے میں موجود بی بی سی کے ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ بظاہر ان حملوں کا زیادہ تر نشانہ حکومت مخالف دیگر گروپ بنے ہیں اور اسی وجہ سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے پیش قدمی بھی کی ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ جمعے کو حلب کے شمال میں پیش قدمی کے دوران دونوں جانب بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ حلب شام کا دوسرا بڑا شہر اور ملک میں باغیوں کا سب سے مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے تنظیم کے اہلکار عبدالرحمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دولتِ اسلامیہ نے حکومت مخالف باغی گروپوں کو نہ صرف کئی دیہات سے نکال دیا ہے جبکہ ایک فوجی اڈے پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب خود کو دولتِ اسلامیہ قرار دینے والے گروپ کے شدت پسند حلب کے شمالی کنارے سے صرف دس کلومیٹر دور ہیں جبکہ جہاں شدت پسند موجود ہیں وہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر شام کی حکومتی افواج کا کیمپ ہے۔ عبدالرحمان کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند پہلی بار حلب کے اتنے نزدیک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ ملک کے دوسرے بڑے شہر کی جانب ان کی سب سے بڑی پیش قدمی ہے۔ خیال رہے کہ حلب سے ہی بدھ کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے جنرل حسین ہمدانی کی ہلاکت کی خبر بھی آئی ہے۔ جنرل ہمدانی دولت اسلامیہ کے خلاف شامی فوج کے جنگی مشیر کے فرائض سرانجام دیے رہے تھے۔ ایران نے ان کی ہلاکت کا الزام دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں پر ہی عائد کیا ہے لیکن ان کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ |
151207_imran_farooq_murder_case_remand_zs | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151207_imran_farooq_murder_case_remand_zs | عمران فاروق قتل کیس: تین ملزمان کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ | پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں تین ملزمان کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ | معظم علی کو رواں برس اپریل میں کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق مقدمے کے نامزد ملزمان معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم کو پیر کو رینجرز اور پولیس کی نگرانی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ ’ووٹ بینک پر اثرانداز ہونے کے لیے الیکشن کے دن مقدمہ درج کیا گیا‘ پی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے دس روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی تاہم جج کوثر عباس نے سات دن کے ریمانڈ کی منظوری دیتے ہوئے ملزمان کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ اس سے قبل اتوار کو ان تینوں ملزمان کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جنھوں نے ان کا ایک دن کا راہداری ریمانڈ دیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے گھر کے باہر ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ لندن میں میٹروپولیٹن پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم سنیچر کو واقعے کو پانچ برس سے زیادہ عرصے گزرنے کے بعد پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مدعیت میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت سات افراد پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کر دیا گیا تھا ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں الطاف حسین کے علاوہ ان کے رشتہ دار افتخار حسین، رابطہ کمیٹی کے رکن محمد انور، معظم علی، خالد شمیم، کاشف خان اور محسن علی کے نام شامل ہیں۔ ان سات ملزمان میں سے تین افراد معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم پہلے ہی پاکستان کے قانون نافد کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔ معظم علی کو رواں برس اپریل میں کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر اُن دو افراد کو لندن بھجوایا جن پر ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ حکام نے خالد شمیم اور محسن علی کی گرفتاری رواں برس جون میں ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں چمن کے قریب پاک افغان سرحدی علاقے سے پکڑا گیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق ان تینوں زیرِ حراست افراد کو اب برطانیہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا جبکہ دیگر ملزمان کو برطانیہ سے یہاں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ خیال رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ملزموں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ |
050524_screening_stop_si | https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/05/050524_screening_stop_si | دھماکہ: ممبئی سنیما مالکان ڈر گئے | بالی وڈ کی بیشتر فلمیں آج کل مشکل دور سے گزر رہی ہیں کیونکہ کئی فلموں کے خلاف عدالتوں میں مفاد عامہ کی عرضداشتیں داخل ہیں تو کئی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ | دہلی میں فلم ’جو بولے سو نہال‘ کی نمائش کے دوران بم دھماکوں کے بعد ممبئی میں گھبرا کر کئی سنیما گھروں سے فلم اتار لی گئی۔ ممبئی کے آئی نوکس ،گیلیکسی ،فیم ایڈ لیبس، اور فن ری پبلک میں ان کے مالکان نے گھبرا کر فلم کی نمائش روک دی۔ پروڈیوسرز گلڈ آف انڈیا کے صدر پہلاج نہلانی نے تمام پروڈیوسرز کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جس میں یہ طے کیا گیا کہ وہ مرکزی حکومت سے سینسر بورڈ کو مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کریں گے۔ پہلاج نے بی بی سی کو بتایا کہ بم دھماکہ فلم اور بالی وڈ کو بدنام کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے ۔لوگ فلم کی نمائش سے پہلے ہی مفاد عامہ کی عرضداشت عدالت میں داخل کر دیتے ہیں اس کے بعد ہفتہ وصولی کے لئے دھمکاتے ہیں۔ ’پہلے تو کبھی اس طرح کی بات سامنے آتی تھی لیکن اب اسی ماہ فلم کال، نینا ،اور اب جو بولے سو نہال کا تنازعہ کھڑا کیا گیا اس فلم کو پنجاب کی عدالت سے منظوری حاصل ہو چکی تھی اور وہاں کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم اکال تخت نے بھی نمائش کی یہ کہہ کر اجازت دے دی تھی کہ وہ فلم کے پوسٹرز پر یہ لکھیں کہ یہ فلم مذہبی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کی تنظیم شرومنی گردوارا پربندھک کمیٹی اعتراض کر رہی ہے۔‘ پوری میٹنگ کے دوران فلم جو بولے سو نہال کے ڈائریکٹر راہول رویل خاموش بیٹھے رہے۔ ممبئی میں یہ فلم بائیس سنیما گھروں میں دکھائی جا رہی تھی۔ پروڈیوسرز گِلڈ نے ممبئی پولیس کمشنر سے بات کی اور ان تمام سنیما گھروں پر پولیس تحفظ کا مطالبہ کیا جہاں اس فلم کی نمائش جاری ہے۔ جوائنٹ پولیس کمشنر (نظم و نسق اور تحفظ ) جاوید احمد نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کو تمام سنیما گھروں پر تعینات کر دیا ہے اور وہ ممبئی کا ماحول بگڑنے نہیں دیں گے۔ فلم ’جو بولے سو نہال‘ میں ہیرو سنی دیول ہیں اور وہ لڑکی سے پیار کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں۔ سکھوں کی تنظیم کو اعتراض ہے کہ اس فلم کے بعض مناظر میں سکھوں کی مقدس کتاب کو مسخ کرتے پیش کیا گیا ہے۔ بعض تنظیموں کو اس بات سے بھی اعتراض ہے کہ فلم کے ہیروں کو جو ایک سکھ کے کردار میں ہے ایک ایسی لڑ کی کے ساتھ کیوں دکھایا گیا ہے جو صرف ’بکنی‘ پہنے ہوئے ہے۔ |
080325_judge_shakir_fz | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080325_judge_shakir_fz | ’ججوں پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا‘ | پاکتسان میں تین نومبر کے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف نہ اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ اپنے عہدوں پر بحال ہونے کے بعد ان پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہوگا اور وہ فرائض اُسی طرح ادا کرتے رہیں گے جس طرح وہ ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے ادا کرتے تھے۔ | ججز کالونی میں اپنے گھر میں چار ماہ سے زائد عرصہ قید رہنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس میاں شاکراللہ جان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانے والے ججوں کو بحال کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ججز ارکان پارلیمنٹ کے تابع ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جج کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں اور اگر وہ کسی دباؤ میں آکر آئین اور قانون کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے تو پھر ایسے شخص کو جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ جب وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ان کے بیٹے نے ایک تعلیمی ادارے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دینا چاہی لیکن انہوں نے رجسٹرار کو کہہ دیا تھا کہ ان کے بیٹے کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور نہ کیا جائے تاکہ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ایک چیف جسٹس اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نومنتحب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے گھروں میں نظر بند ججوں کی رہائی کے بعد پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے جج جو ان کے ہمسائے ہیں ان میں سے کسی نے بھی انہیں ابھی تک مبارکباد نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو صحیح معنوں میں اُس وقت ہی آزاد قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ تمام دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں۔ سپریم کورٹ کے ایک اور معزول جج جسٹس جاوید اقبال جو اس وقت پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین ہیں کا کہنا ہے کہ اگر پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانے والے جج بحال ہوئے تو وہ بھی بحال ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سنئیر جج ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پریس کونسل کے چیئرمین کا عہدہ کیوں قبول کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدلیہ کی بہت خدمت کی ہے اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ ذرائع ابلاغ کی بھی کوئی خدمت کی جائے۔ واضح رہے کہ معزول جسٹس جاوید اقبال کو پہلے حکومت نے ان کے گھر میں نظر بند کیا تھا بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا اور انہیں پریس کونسل کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ادھر ججز کالونی میں معزول چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے علاوہ وکلاء اور سول سوسائیٹی کے ارکان ان سے ملاقات کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانے والے ججوں جن میں جسٹس ناصرالملک، جسٹس تصدق حسین جیلانی ، جسٹس سردار رضا خان اور جسٹس میاں شاکراللہ جان نے بھی افتخار محمد چودھری سے ملاقات کی۔ جامعہ حفصہ کی طالبات بھی معزول چیف جسٹس سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے گھر پر پہنچی لیکن افتخار محمد چودھری نے ان سے یہ کہہ کر ملنے سے معذرت کرلی کہ چونکہ جامعہ حفصہ کا معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ اُن سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نےچیف جسٹس ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کے اندر پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانے والے جج صاحبان اپنی ڈیوٹیوں پر جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتحار محمد چودھری سمیت دیگر جج صاحبان آج بھی سپریم کورٹ میں جاکر اپنے فرائض منصبی ادا کرسکتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ مضبوط ہو۔ انہوں نے کہا کہ جس دن معزول ججوں کی بحالی کے حوالے سے پارلینمٹ میں قراردار پیش ہو اُسی روز صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بیس جولائی سنہ دو ہزار سات کو ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا جب سپریم کورٹ نے افتخار محمد چودھری کو صدارتی ریفرنس میں بحال کیا تھا اس کے بعد اٹھارہ فروری سنہ دو ہزار آّٹھ کو عام انتخابات کے نتائج کے بعد اور پھر جب قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایوان میں صدر پرویز مشرف کے خلاف نعرے بازی ہوئی تھی اس کے بعد انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بہت جلد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کریں گے۔ |
040329_mehbooba_attack_fz | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/03/040329_mehbooba_attack_fz | محبوبہ مفتی بال بال بچ گئیں | کشمیر میں حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی عسکریت پسندوں کے حملے میں بال بال بچ گئی ہیں۔ | بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق محبوبہ مفتی کے ہمراہ گاڑیوں کے قافلے پر عسکریت پسندوں نے پیر کے روز حملہ کر دیا۔ تاہم عسکریت پسندوں کے اس حملے میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محبوبہ مفتی کے قافلے پر عسکریت پسندوں نے سری نگر کے جنوب میں انت ناگ پلگرام روڈ پر فائرنگ کی۔ اس فائرنگ سے قافلے میں شامل پولیس کی ایک گاڑی الٹ گئی۔ پولیس کے مطابق فائرنگ کافی فاصلے سے کی گئی تھی اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس حملے کا ہدف محبوبہ مفتی ہی تھیں۔ پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ فائرنگ سے سرکاری قافلے میں شامل پولیس کی ایک محافظ گاڑی کا ڈرائیور گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے وہ الٹ گئی۔ تاحال کسی عسکریت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گزشتہ مہینے محبوبہ مفتی کے والد اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید پر بھی ایک ناکام حملہ کیا تھا۔ مفتی محمد سعید بیرواہ کے علاقے میں ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے جب جلسہ پر دو دستی بم پھینکے گئے۔ اس حملے میں ایک سترہ سالہ بچی ہلاک اور چار افراد زخمی ہوگئے تھے۔ |
pakistan-53131981 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53131981 | محمد حنیف کا کالم: ’قائد اعظم ثانی‘ کے مسائل | قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا۔ جیسا بھی بنایا آج تک قائم دائم ہے۔ بنگلہ دیش والا سانحہ ہو گیا لیکن ہم جیسے محبِ وطن یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتے ہیں کہ دیکھیں اب مسلمانوں کے ایک نہیں دو ملک بن گئے ہیں۔ | عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے کے سفر میں ہیں۔ پہلے لگتا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر بازار میں ایک بٹ جیولرز کے نام سے دکان موجود ہے تو کوئی نیا آ کر نیو بٹ جیولرز کے نام سے دکان کھول لیتا ہے۔ لیکن عمران کا نیا پاکستان بنانے کا عزم جاری ہے اسی لیے ان کے چاہنے والے انھیں قائد اعظم ثانی کہتے ہیں۔ ویسے مماثلت بھی کافی ہے۔ دونوں کافی وجیہ ہیں۔ انگریزی ایسے بولتے ہیں کہ انگریز بھی ’واؤ، واؤ‘ کرنے لگتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں ہی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ قائداعظم قانون کی تعلیم حاصل کر کے لوٹے۔ عمران خان نے پتا نہیں انگلینڈ میں کیا پڑھا لیکن اب وہ اسلامی تاریخ، ترکی ڈراموں کے عروج و زوال اور کرپشن کے فلسفے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ٹیم بنانے کے تو اتنے ماہر ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کو ہی جوڑ کر ٹیم بنائی اور اب بھی اس ٹیم کا بیٹنگ آرڈر آگے پیچھے کرتے ہیں اور اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ وسیم اکرم پلس کو نہ جانے کب کس کا فون آ جائے اور گیم کا پانسہ پلٹ جائے۔ یہ بھی پڑھیے عمران خان کے استاد ’شکر ہے خان بچ گیا‘ تھپڑوں کا موسم بچپن میں معاشرتی علوم کے استاد قائداعظم کے قول سنایا کرتے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ قائداعظم نے اپنے ساتھیوں کی نالائقی کے بارے میں کہا تھا کہ میرے جیب میں کھوٹے سکّے ہیں۔ اب یہ کھوٹے سکّے بڑھتے بڑھتے پوری قوم میں تبدیل ہو چکے ہیں اور قائداعظم ثانی کہتے تو نہیں لیکن ان کے لبوں پر اکثر عوام کا گلہ ہی رہتا ہے۔ کوئی سنتا ہی نہیں، کوئی ڈسپلن ہی نہیں۔ حاسدین یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جس کی طاقت اے ٹی ام مشینوں سے آئے گی اسے تو عوام کھوٹے سکّے ہی لگیں گے۔ معاشرتی علوم کے استاد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان مصیبتوں میں اس لیے گھرا ہے کیونکہ قائداعظم پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہی انتقال فرما گئے تھے اور بھی کافی بزرگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ کاش اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو۔۔۔ ویسے کبھی کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے اگر پرانا پاکستان محمد علی جناح کی بجائے اگر قائداعظم ثانی عمران خان بنا رہے ہوتے تو کیسے سب کے چھکے چھڑا دیتے۔ فرماتے یہ ماؤنٹ بیٹن تو سارا ملک لوٹ کر کھا گیا۔ یہ نہرو، یہ پٹیل یہ سارے کرپشن مافیا کا حصہ ہیں۔ پہلے انھیں نیب کے حوالے کرو نہیں تو میں باؤنڈری کمیشن کی کوئی بات نہیں مانوں گا۔ یہ گاندھی کو ننگا گھومنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ اپنے آپ کو مہاتما کہتا ہے اور واسکٹ اس کے پاس ایک نہیں ہے۔ اور کچھ نہیں تو میری طرح کسی سے مانگ کر ہی پہن لے۔ یہ ابوالکلام آزاد ہے یہ تو ہے ہی قوم کا غدار اور گاندھی کا یار۔ مسلمان ہو کر مجھے لیڈر نہیں مانتا۔ پتا کرو کہ ختم نبوت کو بھی مانتا ہے یا نہیں۔ ہندوستان کے بٹوارے کے مذاکرات شروع ہوتے تو خان صاحب کو یاد آ جاتا کہ انھوں نے ایک دھرنا دیا ہوا ہے، ادھر بھی جانا ہے۔ کانگریسی لیڈر اور علاقہ مانگتے تو خان صاحب شاید یہ کہہ دیتے کہ چلو یہ اوکاڑہ ان کو دے دو اس میں ہے ہی کیا سوائے ایک ستلج کاٹن مل کے۔ اور مانگے تو کہتے ہاں یہ ٹیکسلا لے لو یہ تو ہے ہی ہندوؤں کا مکہ مدینہ۔ کوئی کہتا کہ نہیں خان صاحب بدھوں کا، تو کہتے ان دونوں میں کیا فرق ہے مجھے تو دونوں نہیں مانتے۔ شاید خان صاحب کی مذاکراتی ٹیم میں سے کوئی نقشہ نکال کر دکھاتا اور کہتا کہ سر یہ تو سرحد سے کافی دور ہیں تو شاید خان صاحب فرماتے کہ بلاؤ اسد عمر کو وہ اینگرو کو چلاتا رہا ہے یہ ملک تو وہ لنچ بریک میں ہی بنا لے گا۔ ویسے بھی میرا ورک آؤٹ کا ٹائم ہو گیا ہے۔ بندے کو فٹ رہنا چاہیے۔ آخر نیا ملک بنانا ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اور پھر خان صاحب شاید یہ فرماتے کہ میں نے تو پاکستان کب کا بنا لینا تھا۔ یہ تو جو چیف منسٹر بیٹھے ہوئے ہیں مراد علی شاہ جیسے ڈکٹیٹر یہ مجھے بنانے ہی نہیں دیتے۔ |
070404_assam_strike_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/04/070404_assam_strike_rs | آسام: ہڑتال سے زندگی متاثر | ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بدھ کو شدت پسند تنظیم یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام یعنی الفا کی اپیل پر ہونے والی ہڑتال سے عام زندگی متاثر ہوئی ہے۔ | ریاست میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے سبب صنعتی سرکاری دفاتر، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے اور تجارتی سرگرمیاں بند ہیں۔ سرکاری اور نجی ٹرانسپورٹ پر بھی اس کا برا اثر پڑا ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے ٹرین سروسز بھی متاثر ہوئی ہیں۔ بعض ٹرینوں کو منسوخ کردیا گیا ہے تو کئی ٹرینوں کے اوقات میں تبدیلی کی گئی ہیں۔ ابھی تک کسی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ الفا نے ہڑتال کی اپیل ریاستی پولیس کے ہاتھوں چھ الفا باغیوں کی بیویوں کی گرفتاری کے خلاف کی ہے۔ گرفتار کی جانے والی ان خواتین کے شوہر سال دو ہزار تین میں بھوٹانی افواج کی کارروائی کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ گم شدہ الفا باغیوں کی بیویاں گزشتہ دس دن سے بھوک ہڑتال پر تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں ان کے شوہروں کے بارے میں معلومات دی جائے۔ منگل کو ریاست کے شہر گوہاٹی کے ایک پُرہجوم بازار میں ایک دستی بم حملے میں نو افراد زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس کاخیال ہے کہ ان حملوں کے پیچھے الفا باغیوں کا ہاتھ ہے۔ الفا اور مرکزی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ برس ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد شمال مشرقی خطے میں جاری تشدد سے سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ |
140304_most_expensive_city_mb | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/03/140304_most_expensive_city_mb | کراچی دنیا کا دوسرا سستا ترین شہر | ایک تازہ اقتصادی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ دنیا کا سب سے سستا شہر ممبئی ہے جب کہ اس فہرست میں دوسرا نمبر پاکستانی شہر کراچی کا ہے۔ | رپورٹ میں دنیا کے 93 ملکوں کے 140 شہروں کا جائزہ لیا گیا اس کے بعد پانچ سستے ترین شہروں میں بھارت کے شہر دہلی، نیپال کے شہر کٹھمنڈو اور شام کے شہر دمشق کا نام آتا ہے۔ تقریباً دو سو ممالک کی معاشی سرگرمی پر نظر رکھنے والے ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کے مطابق دنیا کے 131 شہروں میں رہائش اور خورد و نوش کے خرچ کے لحاظ سےکراچی دوسرے نمبر پر ہے۔ دوسری جانب مشرقِ بعید کا شہر سنگاپور دنیا کا سب سے مہنگا شہر قرار پایا ہے۔ شہر کی مضبوط کرنسی کے ساتھ ساتھ کار رکھنے پر آنے والے اخراجات اور دیگر ضرورتوں کے حصول کے لیے ادا کی جانے والی اونچی قیمتوں کی وجہ سے مجموعی طور پر سنگاپور رہائش کے لیے سب سے مہنگا شہر ٹھہرا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملبوسات کی خریداری کے لیے بھی یہ دنیا کا سب سے مہنگا شہر ثابت ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جاپان کا شہر ٹوکیو سنہ 2013 میں دنیا کا مہنگا ترین شہر تھا۔ سنگاپور کے علاوہ پہلے پانچ سب سے مہنگے شہروں میں فرانس کا شہر پیرس، ناروے کے دارالحکومت اوسلو، سوئٹزرلینڈ کا شہر زیورخ اور آسٹریلیا کا شہر سڈنی کے نام شامل ہیں۔ ای آئی یو کے ذریعے عالمی پیمانے پر رہائش پر آنے والے اخراجات کے سروے میں امریکہ کے شہر نیویارک کو بنیاد بناکر سروے کیا جاتا ہے اور اس میں 400 مختلف چیزوں کی قیمتوں کو نظر میں رکھا گیا۔ اس سال کے دس سب سے مہنگے شہروں میں زیادہ تر ایشیائي اور آسٹریلوی شہر شامل ہیں۔ اس تازہ رپورٹ کے ایڈیٹر جون کوپ سٹیک کا کہنا ہے: ’پہلے ہی سے مہنگے یورپی شہروں میں بہتری کے رجحانات اور ایشیائی شہروں میں مسلسل بہتری کے نتیجے میں ان دونوں خطوں سے زیادہ سے زیادہ مہنگے شہر سامنے آر رہے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ’ایشیا اور بطور خاص برصغیر میں دنیا کے سب سے سستے شہر بھی مسلسل نظر آ رہے ہیں۔‘ زیادہ تر ایشیائی شہر خوردنی اشیا کی زیادہ قیمتوں کے سبب مہنگے شہروں کی فہرست میں ہیں اور ٹوکیو آج بھی روز مرہ کی اشیائے خوردنی کے لیے دنیا کے مہنگے ترین شہروں سر فہرست ہے۔ بہرحال تمام ایشیائی شہر مہنگے نہیں ہیں۔ بھارت کے دونوں بڑے شہر دہلی اور ممبئی دنیا کے سب سے سستے شہروں میں شامل ہیں۔ ممبئی میں قیمتیں فی کس آمدنی میں وسیع خلیج کے نتیجے میں کم ہیں اور بہت سے شہروں میں کم آمدنی کی وجہ سے لوگ کم خرچ کرتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی مراعات سے ان کا کام چل رہا ہے۔ برصغیر کے باہر شام کے شہر دمشق میں اخراجات میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے اور یہ دنیا کا چوتھا سستا ترین شہر ہے۔ ملک میں جاری خانہ جنگی کے سبب قیمتوں میں زبردست کمی آئی ہے۔ |
regional-38270365 | https://www.bbc.com/urdu/regional-38270365 | ہیلی کاپٹر سکینڈل: انڈین فضائیہ کے سابق سربراہ گرفتار | انڈیا میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اینگلو اٹالین کمپنی آگستا ویسٹ لینڈ کے ساتھ ہیلی کاپیٹروں کی خریداری کے معاملے میں مالی بدعنوانی کے الزامات کے بعد انڈین فضائیہ کے سابق سربراہ ایس پی تیاگی کو گرفتار کر لیا ہے۔ | اے ڈبليو 101 ماڈل ہیلی کاپٹروں کا شمار جدید ترین ہیلی کاپٹروں میں ہوتا ہے بھارت: ہیلی کاپٹر خرید کا معاملہ کیا ہے؟ 'آگس جب راہبر ہی راہزن ٹھہرے! سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) کا کہنا ہے ایس پی تیاگی نے کمپنی کو 'ناجائز فوائد' دیے تھے اور دیگر افراد کو رشوت دینے کی راہ ہموار کی تھی۔ انڈین حکام کی جانب سے مارچ 2013 میں آگستا ویسٹ لینڈ اور ان کی مالک کمپنی فن میکانیکا کے خلاف مجرمانہ مقدمہ دائر کیا تھا۔ ایس پی تیاگی نے اس سے قبل اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ ان کے کزنز جولی تیاگی اور ڈوکسا تیاگی کو بھی رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سکینڈل سنہ 2013 میں اس وقت منظرعام پر آیا تھا فن میکانیکا کے سربراہ گیوسیپ اورسی کو بدعنوانی کے الزام میں اطالوی شہر میلان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اطالوی حکام کا کہنا تھا کہ وہ کئی ماہ سے رشوت اور مالی غبن کی تفتیش کرتے رہے ہیں۔ گیوسیپ اورسی نے کسی قسم کے غیرقانونی کام میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) کا کہنا ہے ایس پی تیاگی نے کمپنی کو 'ناجائز فوائد' دیے تھے اطالوی تفتیش کاروں کی جانب سے ایک اطالوی عدالت میں جمع کروائی گئی ابتدائی تفتیشی رپوٹ میں ایس پی تیاگی کا نام بھی شامل کیا ہے۔ خیال رہے کہ انڈیا کی وزارت دفاع نے سنہ 2014 میں 75 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے عوض 12 ہیلی کاپٹروں کے معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اس حوالے سے خود تفتیش کریں گے۔ اے ڈبليو 101 ماڈل کے ان 12 ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا معاہدہ انتہائی خاص افراد یعنی صدر، وزیر اعظم اور سینیئر سیاست دانوں کے سفر کے غرض سے کیا گیا تھا۔ |
140426_tribal_clash_fz | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140426_tribal_clash_fz | شمالی وزیرستان: قبائلی تصادم میں آٹھ ہلاک | پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحدی مقامات پر زمین کے تنازعے پر دو قبائل کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں کم سے کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ | تاہم بعض مقامی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 15 کے قریب بتائی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے لواڑہ منڈی میں سرحد کے دونوں جانب آباد مداخیل اور پیپلی کبل خیل قبائل کے مابین گزشتہ کئی دنوں سے پہاڑی کی ملکیت کے تنازعے پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین دنوں سے اس لڑائی میں شدت آئی ہے اور فریقین نے مورچہ زن ہوکر ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر راکٹ لانچروں اور میزائیلوں سے حملے کئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک اس لڑائی میں کم سے کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم بعض مقامی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 15 کے لک بھگ بتائی ہے۔ وزیرستان کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جس پہاڑی کی ملکیت پر لڑائی ہورہی ہے وہ ایک متنازعہ علاقہ سمجھا جاتا ہے جس پر دونوں قبائل دعویداری ظاہر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں غیر ملکی افواج نے کچھ عرصہ پہلے تک سرحد پر نگرانی کےلیے ایک کمیپ بناہوا تھا جس کی وجہ سے وہاں سے مقامی قبائل کو بے دخل کیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ غیر ملکی افواج نے اب وہ علاقہ چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے ہیں جس کے بعد سے وہاں ایک قبیلے نے آکر قبضہ جمایا ہوا ہے جبکہ مخالف قبیلے کا دعوی ہے کہ پہاڑی ان کی ملکیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں ٹیلی فون یا موبائل فون کی سہولت موجود نہیں جس کے باعث وہاں سے مصدقہ اطلاعات ملنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جس علاقے پر قبائل کے مابین تنازعہ ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کی حدود میں واقع ہے۔ تاہم ابھی تک اس سلسلے میں سرکاری طورپر کچھ نہیں بتایا گیا ہے اور نہ پاکستان یا افغان حکام کی جانب سے اس پر کوئی بات کی گئی ہے۔ # |
050924_udero_sufi_rs | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/09/050924_udero_sufi_rs | صوفی بزرگ اڈیرو لال کا دوسرا جنم | سندھ میں ان دنوں ہندو اور مسلم دونوں کے لیے قابل احترام صوفی بزرگ اڈیرو لال کے دوسرے جنم کا چرچا ہے۔ | صوفی بزرگ کےدوسرے جنم کی دعویدار بھارت کے شہرگودرہ میں جنم لینے والی بارہ سالہ بچی نکیتا ہے۔ لڑکی ہونے کے باوجود اڈیرو لال کا ’روپ دھارنے‘ کی وجہ سے اسے مذ کر پکارا جاتا ہے۔ حیدرآباد کے قریب واقع اڈیرو لال کا مزار مسلم اور ہندو دونوں کے لیے قابل احترام ہے۔ ہندو ان کو بھوج امر لال اور مسلمان شیخ طاہر محمد کے نام سے جانتے ہیں۔ درگاہ کی دائیں جانب مسجد اور بائیں جانب مندر ہے۔ ان کے عقیدت مند پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی موجود ہیں۔ مزار کے اندر اڈیرو لال کی ایک خیالی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں ان کے چہرے پر سفید ڈاڑھی ہے اور وہ دریائے سندھ میں ایک مچھلی پر سوار ہیں۔ گذشتہ دنوں اڈیرو لال کے دوسرے جنم کی دعویدار بچی نکتیا اور ان کی والدہ پمی بزرگ کی درگاہ پر حاضری دینے آئی ہوئی تھیں۔ شریمتی پمی بتاتی ہیں کہ نکیتا جب ڈھائی سال کی تھیں تب سائیں اڈیرولال نےدرشن دیا تھا۔ پمی کے مطابق وہ بہت تنگ دستی میں تھے، اس اثنا میں سائیں کا درشن ہوا۔ ’انہوں نے مجھے کہا کہ بچہ جو چاہیے مانگ تیری مراد پوری ہوگی‘۔ پمی بتاتی ہیں کہ وہ یہ پیغام سمجھ نہ سکیں اور انہوں نے مارپیٹ کر نکیتا کو سلادیا۔ انہوں نے مجھ کہا کہ ’اب تم بھٹکوگی، تمہیں مشکل سے درشن ملیں گے‘۔ پمی کے مطابق اس واقعے کے ڈھائی سال کے بعد جل (پانی ) میں بھوج امر لال نے درشن دیا۔ جیسے سائیں اشنان کے وقت جل سے بات کرتے تھے، اسی روپ میں درشن ملا۔ انہوں نے ہدایات دینا شروع کردیں کہ فلاں کام کرو، فلاں نہ کرو۔ ان کے مطابق سندھ میں اڈیرو لال اور بھارت میں ورند دیو کہا جاتا ہے۔ پمی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جس میں نکیتا سب سے بڑی ہے۔ شریمتی پمی کے مطابق درشن دینے کے بعد نکتیا نے کہا کہ انہیں اپنا گرو دیکھنا ہے۔ سروپ میں موجود سائیں کے الفاظ تھے کہ ’انہیں پاکستان لے چلو وہاں سندھ میں نصرپور ان کا دیس ہے۔ ان کا جنم وہاں کا ہے‘۔ پمی بتاتی ہیں کہ وہ دو سال سے پاکستان آنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ آخر یہاں پہنچ گئے۔ یہاں لوگ سائیں کے بہت عقیدت مند ہیں ایک ماہ کا ویزا لےکر آئے تھے ڈھائی ماہ گذر چکے ہیں۔ یہاں جھولے لال کی جے جے کار زیادہ ہے۔ نکیتا نے بتایا کہ ’پاکستان میں سائیں کی جنم بھومی دیکھنے کا بہت من ہوتا تھا۔ وہاں پر وہ ادھورے تھے یہاں آکر مکمل ہوگئے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ نصرپور میں انہوں نے اپنا بچپبن محسوس کیا اور وہ مقامات دیکھے جہاں سائیں نے اپنا بچپن گذارا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گودھرا میں سائیں کا آشرم ہے جہاں ہر جمعہ اور اتوار کومیلہ لگتا ہے۔ نکیتانے ایک ہاتھ میں انگوٹھیاں پہنی ہوئی ہیں۔ جبکہ وہ صاف سندھی بولتی ہیں اور لوگوں کو بچڑا (بچہ) پکارتیہیں۔ ان کے ایک کان میں بالی ہے اور لڑکوں کی طرح بالوں کٹے ہوئے ہیں۔ چہرے کے ایک طرف سرخ نشان ہے۔ جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اڈیرو لال کے بھی ایسا ہی نشان تھا۔ عمر کم ہونے کی وجہ سے کسی دشواری پیش آنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ہیں جو ایسا سمجھتے ہیں۔ مگر ان کو سمجھنے میں وقت لگےگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا تو کچھ بھی نہیں سائیں کا ہی نام گایا اور پکارا جاتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہی نہیں ہے کہ میں بچہ ہوں، اندر سائیں بیٹھے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ ساتویں کلاس میں پڑھتی ہیں۔وہ امتحان میں چھپن فیصد مارکس لیتی ہیں وہ سال میں صرف ایک ماہ پڑھتی ہیں۔ آج کل کے ماحول کےبارے میں انہوں نے کہا کہ بچوں میں پیار ہے مگر کبھی کبھی بھٹک جاتے ہیں۔’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سب کے من اندر جوت جگائیں‘۔ سندھ میں قیام کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے درشن کو آئے جن کو وہ پرشاد کے طور پر خشک اور تازہ میوہ دیتی رہیں۔ اور لوگوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا بھی کرتی رہیں۔ نکیتا کا کہنا ہے کہ ان کی ماں نے ان کا بہت ساتھ دیا ہے اور ان کےلیے پورا گھر اور سنسار چھوڑ دیا ہے۔ |
080808_lhr_arrest_zs | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/08/080808_lhr_arrest_zs | دہشت گردوں کی گرفتاری کا دعوٰی | لاہور پولیس نے آٹھ مبینہ دہشت گردوں کوگرفتار کرنے کا دعوٰی کیا ہے جو پولیس کے بقول سرگودھا میں پاکستان ائیر فورس کی بس اور سرگودھا پولیس لائن پر ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث ہیں۔ | یہ دعویْ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر لاہور پرویز راٹھور نے ڈی آئی جی پولیس انوسٹی گیشن مشتاق سکھیرا کے ہمراہ جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ پرویز راٹھور نے بتایا کہ ان افراد کو لاہور کے نواح سے مختلف مقامات سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ان کے بقول ملزموں کے قبضے سے چار خودکش جیکٹس، دس دستی بم، دو گرینیڈ لانچر، دو کلاشنکوف اور بھاری مقدار میں گولیاں برآمد کی گئی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے ان ملزموں کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے جس کا مرکز وانا میں ہے۔ تاہم پولیس آفیسر نے اس بارے میں نہیں بتایا کہ ان گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق کس کالعدم تنظیم سے ہے۔ پولیس آفیسر نے بتایا کہ جن ملزموں کو گرفتار کیاگیا ان میں محمد محسن،دلشاد علی،سیف اللہ،نصر اللہ،زاہد اقبال، محمد شاہد، محمد محمد عثمان کا تعلق سرگودھا جبکہ بابر عثمان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ پولیس کے بقول ان ملزمان نے کالعدم تنظیم کی قیادت کی ہدایت پر اپنے ساتھی ملزم فاروق عرف حسنین عرف معاویہ کو سرگودھا جیل سے رہا کرانا تھا جو سرگودھا خودکش حملوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل میں ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزموں نے اس پولیس انسپکٹر کے قتل کا منصوبہ بھی تیار کر رکھا تھا جس نے سرگودھا خودکش حملوں کے واقعات کی تفتیش کرکے ملزموں کی نشاندہی کی تھی۔ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن مشتاق سکھیرا نے بتایا کہ یہ ملزم تاوان کے لیے اہم لوگوں کو اغوا کرانا چاہتے تھے اور تاوان سے موصول ہونے والی رقم اپنے تنظیم کو پہنچانا چاہتے تھے تاکہ اس کو مزید دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ پولیس کے بقول ان ملزموں کی گرفتاری سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق گرفتار کیے گئے ملزموں سے تفتیش جاری ہے اور اہم انکشافات کی توقع ہے۔ |
160703_imran_sis_apology_maryam_atk | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/07/160703_imran_sis_apology_maryam_atk | عمران خان کی بہن کی مریم نواز سے معذرت | پاکستان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان نے وزیرِ اعظم پاکستان کی بیٹی مریم نواز سے خط لکھ کر باقاعدہ طور پر معافی مانگی ہے۔ | پاکستان میں وی آئی پیز کو غیر معمولی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے خیال رہے کہ دو روز قبل ڈاکٹر عظمیٰ نے الزام عائد کیا تھا کہ مریم نواز کے پروٹوکول سکواڈ میں شامل سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور ان کو ہراساں کیا ہے۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وزیرِ اعظم پاکستان کی بیٹی مریم نواز کو معذرت کا خط لکھا ہے اور اس کے علاوہ انھوں نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کو بھی خط لکھا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صوبے میں پروٹوکول کی غلط روایت کی تحقیقات کریں۔ ڈاکٹر عظمیٰ کے بقول جس شخص کے گھر کے قریب یہ واقعہ پیش آیا تھا اُن کی غلط بیانی کے باعث یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ مریم نواز کو لکھے گئے خط میں ڈاکٹر عظمیٰ نے لکھا ہے کہ ’میں جعمے کی نماز کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کے ہمراہ جا رہی تھی جب راستے میں مجھے اور میرے بچوں کو اس اذیت ناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ پروٹوکول کی گاڑی تقریباً سیدھی ہماری گاڑی پر چڑھ آئی اور سکیورٹی اہلکاروں نے میری بیٹی کو گولی مارنے کی دھمکی بھی دی گئی۔‘ خط میں ڈاکٹر عظمیٰ نے مزید لکھا ہے کہ جب وہ پروٹوکول کی گاڑیوں کے پیچھے اس گھر میں گئیں جہاں وہ گاڑیاں گئیں تھیں تو ان کو گھر کے مالک نے بتایا کہ یہ مریم نواز کے پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں۔ عمران خان کی بہن نے خط میں لکھا ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ گھر کے مالک جن کو وہ بخوبی جانتی ہیں ان سے غلط بیانی کریں گے۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے خط میں مریم نواز سے اس غلط فہمی پر معذرت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ برائے مہربانی میری معذرت قبول کی جائے۔‘ لاہور کے علاقے گلبرگ میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد مریم نواز نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ جس وقت کا یہ واقعہ بتایا جا رہا ہے وہ اس وقت اسلام آباد میں تھیں۔ یہ واقعہ سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی عاصم گجر کے مکان کے قریب ہوا تھا جس کے بعدعاصم گجر نے میڈیا کے سامنے اقرار کیا تھا کہ عظمیٰ خان کے ساتھ بدسلوکی ان کے گھر کے سامنے ہوئی لیکن اس کے ذمہ دار نہ مریم نواز ہیں اور نہ فریال تالپور۔ عاصم گجر نے موقف اپنایا تھا کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر سردار یعقوب ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے لیے آئے تھے۔‘ تاہم ڈاکٹر عظمیٰ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے۔ |
060529_sexscandle_highcourt_rs | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/05/060529_sexscandle_highcourt_rs | سیکس سکینڈل، عدالت ناراض | ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ نے ’کشمیر سیکس سکینڈل‘ کی تحقیقات میں سست روی پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ | اس سیکس سکینڈل میں مبینہ طور پر کئی سیاستدان، سینئر حکومتی اہلکار اور پولیس افسر شامل ہیں اور اس کی تحقیات مرکزي تفتیشی بیور یعنی سی بی آئی کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران پیر کو سی بی آئی نے عدالت کو بتایا ہے کہ اب تک ایسے بارہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے جن کے نام اس نابالغ لڑکی نے لیئے تھے جسے جبرًا جسم فروشی کے دھندے میں پھنسا دیا گیا تھا۔ ان میں سے تین کی شناخت اس لڑکی نے کی ہے۔ ابھی مزید گیارہ افراد کو شناخت کے لیئے پیش ہونا ہے۔ سی بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ اس لڑکی نے ایک ملزم کی شناخت سے انکار کیا اگر چہ ملزم نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ یہ لڑکی نوکری کے سلسلے میں ان کے پاس آئی تھی۔ کشمیر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے مفاد عامہ کی عذرداری میں یہ درخواست کی ہے کہ ان تمام افراد کو پوچھ گچھ کے لیئے حراست ميں لیا جائے جن کے نام اس نابالغ لڑکی نے لیئے ہیں۔ ایسوسی ایشن کے وکلاء میاں عبدالقیوم اور ظفر احمد شاہ نے کہا کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس لڑکی کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بعض ملزموں کو شناخت کے دوران پہچاننے سے انکار کر دے ۔ ان وکلاء نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اس لڑکی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اس معاملے کی سماعت بند کمرے میں کی جائے تاکہ وہ معاملے سے متعلق اہم معلومات کا تبادلہ کر سکیں جس کا علم ملزموں کو نہ ہو سکے۔ عدالت نے سی بی آئی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کیس کے لیئے مزيد افسران مقرر کرے تاکہ تفتیش کا کام تیز کیا جا سکے۔ خواتین کی عسکری تنظیم دختران ملّت کی رہنما آسیہ اندرابی بھی عدالت میں پیش ہوئیں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عام آدمی سی بی آئی پر اپنا اعتماد کھو چکا ہے ۔انہوں نے ہائی کورٹ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ آسیہ اندرابی نے مزید کہا’ایک ماں کے طور پر میں اپنی بیٹی کو گھر سے باہر بھیجنے سے بہت ڈرتی ہوں کیونکہ وہ تمام سیاستدان، افسران اور پولیس افسران اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں جو سیکس سکینڈل میں ملوث ہیں‘۔ |
040102_bam_aid_worker | https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/01/040102_bam_aid_worker | ایک ماں کی لاش۔۔۔ | پائلٹ بتارہا ہے کہ ہوائی طیارہ چند منٹوں میں بام کے ہوائی اڈے پر اترنے والا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا امید کرنی چاہئے۔ جب جہاز اترا، ہم باہر آئے۔ اس اڈے پر صرف ایک رن وے ہے جس کے پاس چھوٹے اور بڑے ملٹری اور شہری طیارے موجود ہیں۔ | کچھ مشکلات کے ساتھ امدادی کارکنوں کا ہمارا گروپ ایک بس تلاش کرکے بام کی طرف روانہ ہوا۔ بام ہوائی اڈے سے کافی دور ہے۔ بام میں بیشتر مکانات مٹی سے بنے ہوئے ہیں جیسا کہ عموما یہاں رواز ہے۔ یہ مکان کافی کمزرو ہیں جس کی وجہ سے وہ زلزلے کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ لوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں خوف ہے۔ ہم امدادی کارکنوں کے کیمپ پہنچتے ہیں اور پانچ افراد کے گروہ میں کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہر گروہ بام کے مختلف علاقوں کی طرف جاتا ہے۔ ہماری کار بام کے قلعے کی جانب بڑھ رہی ہے، ایک شخص ہمیں روکتا ہے۔ وہ زاروقطار رورہا ہے، اور ملبے سے اپنے بیٹوں کی تلاش کے لئے امداد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی آوازیں سن سکتا ہے۔ خود اسے بھی اس ملبے کے نیچے سے نکالا گیا ہے۔ وہ زخمی ہے۔ ہمیں اس کے گھر کی جانب پیدل چل کر جانا پڑتا ہے کیونکہ ملبے کی وجہ سے ہماری کار ادھر نہیں جاسکتی۔ ہم اس کے گھر تک پہنچ گئے ہیں۔ کچھ بھی نہیں بچا ہے، صرف مٹی کے ٹکڑے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے احاطے میں کھجور کی ٹوٹی ہوئی درخت مجھے بام کے کھجوروں کی یاد دلاتی ہے۔ اس کے مکان کی کچھ دیواریں جو بچ گئی ہیں میں ان پر چسپاں ایک پوسٹر میں جانوروں کی تصویریں دیکھ سکتا ہوں۔ وہ شخص ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے تمام بچوں نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی تھی اور اس کا ایک بیٹا شہر میں جانوروں کا ڈاکٹر تھا۔ ہم نے گھنٹوں تک کھدائی کی، ہماری امیدیں ختم ہوچکی ہیں، لیکن اس شخص کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہم اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ وہ بھی اپنی امیدیں کھو چکا ہے۔ ملبہ ایک پہاڑ کی طرح ہے، ہمیں ایک بلڈوزر کی ضرورت ہے، یہ ممکن ہے کہ اس کے بچوں کی لاشیں بلڈوزروں کی زد میں آکر ٹکڑے ہوگئی ہوں۔ جب بلڈوزر ملبے میں کھدائی کرتا ہے، اس کے بیٹوں کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ وہ ہوش و حواس کھوبیٹھتا ہے، اس کی زندگی کی تمام کوششیں صرف چند سیکنڈوں میں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میں اپنا کنٹرول کھو بیٹھتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسو نکل کر میرے چہرے پر بہہ رہے ہیں۔ گھنٹوں کی کوششوں کے بعد ہم ناکام اپنے کیمپ واپس لوٹتے ہیں۔ اندھیرا ہوچکا ہے، ریت کی سردی شروع ہورہی ہے۔ ہمیں ابھی ٹینٹ اور کمبل نہیں ملا ہے۔ ایک امدادی کارکن اور میں ٹینٹ اور کمبل کی تلاش میں چلتے ہیں۔ زلزلے کے لاتعداد متاثرین ایک ٹرک کی طرف ٹوٹ پڑتے ہیں جو کمبل اور دیگر امدادی اشیاء لارہا ہے۔ جو لوگ کمزرو ہیں وہ بھیڑ کے نیچے دب جاتے ہیں۔ ایک شخص کمبل کے لئے اسٹوریج روم میں کود پڑتا ہے، اور پھر بےہوش ہوجاتا ہے۔ جب وہ باہر آتا ہے صرف اپنے بچوں کے بارے میں بات کرتا ہے جو سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ ان بچوں نے گزشتہ شب اپنے گھر کے ملبے میں پناہ لی تھی۔ اس کا سب کچھ کھوگیا ہے، اب صرف ایک کمبل چاہتا ہے۔ ہم روپڑتے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ ہم کمبل کے لئے آئے تھے۔ یہ تیسرا دن ہے۔ لاشوں سے بدبو آرہی ہے، اس شہر میں سانس لینے میں پریشانی ہے۔ ہر گلی سڑکوں میں ہم لاشیں ہی لاشیں دیکھتے ہیں۔ بلڈوزر ملبے لے جاتے ہیں جن میں لاشیں بھی کٹ جاتی ہیں، بہت برا منظر ہے۔ جب میں ایک ماں کی لاش اپنے ہاتھوں سے باہر نکال رہا ہوں، سوچتا ہوں: میں کیا کروں اگر میری ماں کے ساتھ ایسا ہوا؟ میرے دل میں ایک خوف ہے۔ میں نے یہ کام کرنے کے لئے سو گھنٹے کی تربیت حاصل کی تھی۔ لیکن اب جب ایک سب کچھ سامنے ہے، مجھے کچھ بھی نہیں سمجھ میں آتا۔ خدا نہ کرے میرے یا میرے گھر والوں یا کسی کے ساتھ ایسا ہو۔ |
141211_china_veiled_robe_banned_rwa | https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/12/141211_china_veiled_robe_banned_rwa | سنکیانگ: عوامی مقامات پر حجاب پر پابندی کے بارے میں غور | چین کی مغربی ریاست سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کی انتظامیہ اسلامی انتہاپسندی روکنے کے لیے عوامی مقامات پر حجاب پر پابندی عائد کرنے کا سوچ رہی ہے۔ | ایوغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لباس کے خلاف چینی حکام کا یہ تازہ ترین اقدام ہے چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ارومچی کے حکام نے اس پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اویغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لباس کے خلاف چینی حکام کا یہ تازہ ترین اقدام ہے۔ چینی حکومت علاقے میں پچھلے دو برسوں کے دوران پرتشدد واقعات میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کا الزام خطے کے علیحدگی پسندوں پر عائد کرتی ہے جبکہ اویغور کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی مظالم اور ثقافتی عدم برداشت اس تنازعے کی اصل وجوہات ہیں۔ ارومچی کی قانون سازی سے متعلق سٹینڈنگ کمیٹی نے بدھ کو یہ قانون منظور کیا ہے تاہم اس پر عمل درآمد کے لیے علاقائی سطح پر توثیق کی ضرورت ہے۔ حکام نے حجاب پر پابندی کی وضاحت نہیں کی ہے۔ دوسری جانب حکام داڑھی رکھنے والے افراد اور برقع اوڑھنے والی خواتین کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس سے مذہبی انتہاپسندی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس اقدام کے مخالفین کا کہنا ہے کہ داڑھی اور برقعے سے مذہبی انتہا پسندی کا اظہار نہیں ہوتا اور یہ ایوغوروں کی اقلیت کی ثقافت کا انتخاب ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے سخت اقدامات سے ایوغور عوام طیش میں آ سکتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے سنکیانگ کے شمالی شہر کارامے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ داڑھی رکھنے والے نوجوانوں اور برقع پہننے والی خواتین کو پبلک بسوں میں سوار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ حکام نے ’بیوٹی پروجیکٹ‘ کے نام سے ایک علیحدہ مہم میں برقعے اور ماسک پر پابندی عائد کر دی تھی۔ حکام نے ایوغور خواتین سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے چہروں کو مکمل طور پر لپیٹنے کی بجائے اپنے سروں کو سکارف کے ذریعے کانوں کے پیچھے سے لپیٹیں۔ |
040822_najaf_attacks | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/08/040822_najaf_attacks | نجف پر تازہ امریکی بمباری | نجف سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں امریکی فوج نے تازہ بمباری کی ہے۔ | عینی شاہدوں کے مطابق امریکی طیاروں نے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ ایک عینی شاہد نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ اے سی 130 ساخت کے گنشپ سے گلیوں میں زبردست فائرنگ کی۔ بظاہر لڑائی شہر گردو و نواح میں ہو رہی تھی لیکن دھواں شہر کے اوپر پھیلا ہوا تھا۔ یہ حملے تقریباً دو ہفتوں کی لڑائی کے خاتمے کے لیے ایک دن جاری رہنی والی کوششوں کے بعد ہوئے ہیں۔ مقتدیٰ الصدر کے حامی بد ستور حضرت علی کے روضے اور اس کے احاطے پر قابض ہیں۔ ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ روضے کا قبضہ مذہبی رہنماؤں کے حوالے کر نے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مزاحمت کار مزار کی باہر سے حفاظت کریں گے اور امریکی اور عراقی فوجیوں کو اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔ دریں اثنا سینکڑوں کی تعداد میں لوگ روضے میں داخل ہو چکے ہیں اور ان کا کہنا کہ وہ امریکی حملوں کے خلاف انسانی ڈھال بنیں گے۔ |
151014_modi_dadri_lynching_interview_sz | https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/10/151014_modi_dadri_lynching_interview_sz | دادری، غلام علی جیسے واقعات افسوسناک ہیں: مودی | بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست اتر پردیش کے دادری میں گائے کاگوشت کھانے کی افواہ پر محمد اخلاق کے قتل اور ممبئی میں پاکستانی گلوکار غلام علی کے پروگرام کے منسوخ ہو جانے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ | وزیر اعظم نے ان واقعات پر افسوس تو ظاہر کیا لیکن اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان واقعات میں مرکزی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بنگلہ زبان کے اخبار ’آنند بازار پتریکا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نے ان واقعات پر افسوس تو ظاہر کیا لیکن اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں مرکزی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ دلی سے متصل دادری کے واقعے پر وزیر اعظم نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا تھا اور اس معاملے پر ان کی خاموشی کو اپوزیشن نے ایک مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی اس مسئلے پر بہت سے لوگ وزیر اعظم پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مودی نے گذشتہ ہفتے ریاست بہار میں انتخابی مہم کے دوران دادری واقعے کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ لوگوں کو صدر پرنب مکھرجی کی باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔ اس ریلی میں مودی نے کہا تھا: ’آپ سیاست دانوں کی باتیں مت سنیے، خود نریندر مودی کہتا ہے تو اس کی بھی بات بھی مت سنیے۔ سننا ہے تو ملک کے صدر نے کل جو بات کہی ہے اس کو سنیے۔‘ بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے گذشتہ بدھ کو نئی دہلی میں منعقد ایک پروگرام میں کہا تھا: ’ہمیں اپنی تہذیب کے بنیادی اقدار کو کھونا نہیں چاہیے۔۔۔ ہماری بنیادی قدریں یہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ تنوع کو تسلیم کیا ہے، اور استحکام اور سالمیت کی وکالت کی ہے۔‘ |
130729_altaf_hussain_guardian_ra | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/07/130729_altaf_hussain_guardian_ra | برطانیہ الطاف حسین کا حامی کیوں؟ | برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ برطانیہ کے ایم کیو ایم کے سربراہ کو ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے اور لندن میں ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کی وجہ ایم کیو ایم کا وہ تعاون ہے جو وہ برطانوی انٹیلجنس ایجنسیوں کو مہیا کرتی ہے۔ | امریکہ نے کراچی میں برطانیہ کو انٹیلی جنس کے حصول میں ’لیڈ رول‘ کی اجازت دے رکھی ہے: رپورٹ۔ گارڈین کی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ کراچی شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو انٹیلجنس کے حصول میں ’لیڈ رول‘ کی اجازت دے رکھی ہے۔ گارڈین کے مطابق کراچی میں امریکہ کا قونصل خانہ اب ایکٹو انٹیلجنس حاصل نہیں کرتا ہے اور یہ کام برطانیہ کےحوالے ہے۔ کراچی کی انٹیلجنس کے حوالے سے برطانیہ کا سب سے بڑا اثاثہ ایم کیو ایم ہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے تعاون کی وجہ سے برطانیہ کو کراچی کی انٹیلیجنس کا حصول کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ برطانیہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس ایسا شخص موجود ہیں جس کی جماعت کے نمائندے پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ برطانوی وزارت داخلہ کےایک اہلکار نےاخبار کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کا لندن میں قیام کسی برطانوی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ ایک پالیسی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماضی میں پاکستان کی کئی حکومتوں نے لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما کو پاکستان حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن برطانیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے ایک مرتبہ برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ ان کو کیسا لگے گا کہ اگر کوئی شخص پاکستان میں بیٹھ کر برطانیہ میں لوگوں کو تشدد پر اکسائے۔ پاکستانی سیاستدان عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ایم کیو ایم کی سب سے بڑی مخالف جماعت بن کر ابھری ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کی ایک اہم رہنما کے قتل کے بعد عمران خان کے حامیوں نے برطانوی پولیس کو بارہ ہزار شکایت درج کرائی ہیں جس کے بعد برطانوی پولیس نے لندن میں الطاف حسین کی سرگرمیوں کی تحقیقات شروع کی ہیں۔ لندن کی پولیس یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر کراچی میں لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ برطانوی پولیس کو ایک انتہائی بڑے مواد کی چھان بین کرنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق الطاف حسین کے لندن میں قیام کے دوران دو بار برطانوی عدالتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔ دو ہزار دس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اسے کراچی میں ایم کیو ایم سے خطرہ ہے۔ برطانوی جج لارڈ باناٹائن نے اس پولیس افسر کو سیاسی پناہ دینے حکم جاری کیا۔ جج نے تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم نے دو سو ایسے پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ برطانوی پولیس اب لندن میں ایم کیو ایم کے ایک رہنما عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کے بارہ افسران مکمل طور پر اس مقدمے پر مامور ہیں اور اب تک سینکڑوں لوگوں کے بیانات قلمبند کر چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قتل کی تحقیقات کے دوران برطانوی پولیس کو عمران فاروق کے گھر سے ایسے کاغذات بھی ملے ہیں جو پاکستان میں گرفتار ہونے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کے ایسے بیانات کی تائید کرتے ہیں کہ انہیں بھارت میں دہشت گردی کی تربیت ملتی ہے گارڈین نے بھارت سے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق جاننا چاہا لیکن بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میٹرو پولیٹن پولیس نے لندن میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر چھاپے کے دوران 150,000 پونڈ اور مشرقی لندن کے علاقے مل ہل میں الطاف حسین کی رہائش سے0 250,00 پونڈ برآمد کیے۔ پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ اتنی بڑی رقم وہاں کیسے پہنچی۔ رپورٹ کے مطابق الطاف حسین کےخلاف تحقیقات انتہائی پیچدہ معاملہ ہے۔ پاکستانی ریاست میں کچھ عناصر ایم کیو ایم کا تحفظ چاہتے جبکہ ملک کی بڑی انٹیلجنس ایجنسی آئی ایس آئی اس کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔ الطاف حسین کو مستقل سکونت دینے کا فیصلہ ایک ’دفتری غلطی‘ کا نتیجہ تھا: رپورٹ البتہ پاکستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج سے ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے اس بات کا کم لیکن امکان موجود ہے کہ نواز شریف حکومت ایم کیو ایم کا تحفظ میں پچھلی حکومتوں سے کم دلچسپی کا مظاہرہ کرے گی۔ برطانوی پولیس نےحالیہ ہفتوں میں الطاف حسین کےخلاف جو کارروائیاں کی ہیں ان میں ان کےگھر اور دفاتر پر چھاپوں کےعلاوہ ان کے بھانجے اشتیاق احمد کو گرفتار کرنا ہے۔ اشتیاق احمد کو کس الزام پر گرفتار کیاگیا تھا اس کے بارے میں برطانوی پولیس کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں۔ اشتیاق احمد کو ستمبر تک ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ برطانوی حکومت الطاف حسین کی حامی ہے۔ وہ اس سلسلے میں الطاف حسین کو برطانیہ میں مستقل سکونت کا حوالہ دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تسلیم کیا کہ 1999 میں الطاف حسین کو مستقل سکونت دینے کا فیصلہ ایک ’دفتری غلطی‘ کا نتیجہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ہوم آفس نے کئی بار پوچھنے کے باوجود اس ’دفتری غلطی‘ کی وضاحت نہیں کی۔ پاکستانی الطاف حسین کے اس خفیہ خط کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے نائن الیون کے واقعے کے دو ہفتوں بعد برطانوی حکومت کو لکھا تھا۔ اس خط میں الطاف حسین نے برطانوی حکومت کے لیے افغانستان اور پاکستان میں انٹیلیجنس اکھٹےکرنے کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔الطاف حسین نےبرطانوی حکومت کو یقین دلایا کہ وہ پانچ دنوں کے نوٹس پر لاکھوں لوگوں کو دہشتگردی کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے اکھٹے کر سکتے ہیں۔ برطانوی حکومت ماضی میں ایسے کسی خط کی تردید کرتی رہی ہے لیکن اب اسے تسلیم کر لیا ہے۔ |
sport-49130895 | https://www.bbc.com/urdu/sport-49130895 | لستھ ملنگا نے ایک روزہ کریئر کو اپنے انداز میں خیرباد کہہ دیا | کرکٹ کے شائقین کے سامنے جب بھی لستھ ملنگا کا نام لیا جائے تو وہ ان کے گھنگھرالے بالوں اور غیر روایتی بولنگ ایکشن کا ذکر کریں گے۔ | بلے بازوں سے پوچھا جائے تو یقیناً وہ ان کے پیر توڑ یارکرز کی کہانیاں سنائیں گے جبکہ بولرز ضرور یہی کہیں گے کہ ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ ملنگا جیسا کوئی نہیں ہے اور یہ بات انھوں نے اپنے آخری میچ کی پانچویں گیند پر باور کروائی جب انھوں نے بنگلہ دیش کے مایہ ناز بلے باز تمیم اقبال کو ان سوئنگنگ یارکر پر بولڈ کر دیا اور تین اہم وکٹیں حاصل کر کہ سری لنکا کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔ یہ بھی پڑھیے وزیرِ کھیل کا بندر سے موازنہ کرنے پر ملنگا پر جرمانہ ’چندیمل، ملنگا اور میتھیوز بھی پاکستان نہیں جائیں گے‘ ملنگا کی ہیٹ ٹرک مگر پھر بھی بنگلہ دیش کی جیت ملنگا کے یارکرز ایسا نہیں کہ بلے باز ملنگا کے یارکرز کی تیاری نہیں کرتے۔ ملنگا کو کھیلتے ہوئے بلے بازوں کے ذہن میں شاید یہ پہلی چیز ہوتی ہے۔ کرک وز کے مطابق ملنگا نے اپنے کریئر میں 500 سے زائد یارکرز کرائے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ یارکرز کرانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس یارکرز کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں ایک خطرناک سلو یارکر بھی شامل ہے۔ لیکن اتنے سالوں بعد بھی حالیہ ورلڈ کپ میں ملنگا نے اس ہتھیار کے ذریعے انگلینڈ جیسی ٹیم کو چاروں شانے چت کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملنگا جیسا کوئی نہیں ہے۔ ملنگا کے کریئر کے اعداد و شمار ملنگا نے اپنے ایک روزہ کریئر میں 226 ایک روزہ میچوں میں 28 کی اوسط سے 338 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے اپنے ایک روزہ کریئر کا آغاز سنہ 2004 میں متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک میچ سے کیا لیکن انھیں پہلی مرتبہ سنہ 2007 کے ورلڈ کپ میں شہرت حاصل ہوئی جب انھوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں چار گیندوں پر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کہ عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک روزہ میچوں میں ملنگا کی سب سے اچھی کارکردگی 38 رنز کے عوض چھ وکٹیں لینا رہی۔ ریکارڈز کی بات کی جائے تو شاید انھیں ایک روزہ ورلڈ کپ نہ جیتنے کا افسوس رہے گا کیونکہ عالمی کپ مقابلوں میں ان کی کارکردگی عمدہ رہی ہے۔ ملنگا کے ریکارڈز اگر بالوں کے سٹائل تبدیل کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ ہوتا تو وہ ضرور ملنگا کے پاس ہوتا۔ زیادہ تر شائقین کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ ملنگا کے بال ہمیشہ سے ہی ایسے نہیں تھے۔ کریئر کے آغاز میں ان کے بالوں کا انداز روایتی تھا البتہ آہستہ آہستہ ان کی بولنگ کی طرح یہ بھی غیر روایتی ہونے لگا۔ چار عالمی کپ مقابلوں میں 56 وکٹیں حاصل کر کے ملنگا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ملنگا کے پاس سب سے زیادہ تین مرتبہ ایک روزہ میچوں میں ہیٹرک کرنے کا اعزاز بھی موجود ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ملنگا ایک میچ ونر تھے۔ سری لنکا نے ملنگا کی موجودگی میں جن میچوں میں کامیابی حاصل کی ان میں ملنگا 24.7 کے سٹرائک ریٹ کے ساتھ سرِفہرست رہے۔ انھوں نے بطور ٹی ٹوئنٹی کپتان سری لنکا کو سنہ 2014 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کریئر کے آخر میں انھیں فٹنس کے مسائل درپیش تھے جن کی وجہ سے وہ اتنی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے جس کی ان سے امید کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2015 سے سنہ 2019 کے عرصے میں ان کی بولنگ اوسط صرف 36 ہی رہی۔ تاہم حالیہ ورلڈ کپ کے آغاز میں وہ ایک مرتبہ پھر سے اپنے ہی رنگ میں نظر آئے اور انھوں نے لڑکھڑاتی ہوئی سری لنکن ٹیم کو سہارا دیے رکھا۔ سلنگا ملنگا کے نام سے جانے جانے والے اس بولر نے سری لنکا کے غیر روایتی کھیل پیش کرنے کی وراثت کو آخری دم تک سنبھالے رکھا لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس کا وارث کون بنے گا؟ |
141221_kashmir_poll_analysis_riyaz_mb | https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/12/141221_kashmir_poll_analysis_riyaz_mb | کشمیر میں مودی ماڈل کیوں نہیں چلا؟ | بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ماہ پر محیط انتخابی عمل سکیورٹی پابندیوں، قدغنوں، تشدد اور بھاری پولنگ سے عبارت رہا۔ | بی جے پی نے 87 میں سے 44 نشستیں جیتنے کا ہدف طے کیا تھا کشمیر کی 63 سالہ انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی بھی اس بار یہاں کے انتخابی ہنگاموں پر غالب تھی۔ پارٹی نے ’جمہوری طریقہ پر کشمیر کو فتح‘ کرنے کے لیے 87 میں سے 44 نشستیں جیتنے کا ہدف طے کیا اور اس کے لیے انتہائی مہنگی اور جارحانہ میڈیا مہم چھیڑی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پانچ ہفتوں میں کشمیر کے نو دورے کیے۔ اس کے علاوہ پارٹی صدر امیت شاہ کے علاوہ ارون جیٹلی، راج ناتھ سنگھ اور دیگر کئی مرکزی رہنماؤں نے متعدد بار کشمیر میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ بی جے پی نے کشمیر میں مسلمان چہروں کو آگے لا کر واضح عندیہ دیا کہ یہ پارٹی محض حکومت پر قبضہ چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ متنازع مسلم کش عزائم کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ مقامی اخبارات میں نریندر مودی کی اس ’بدلتی سوچ‘ پر بھی تبصرے کیے گئے۔ بی جے پی کے جلسوں میں کشمیری نوجوانوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد ہوتی تھی۔ بظاہر یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت ہورہا تھا، اور بھارتی میڈیا کا غالب حلقہ یہ اشارے دیتا رہا کہ کشمیر کی نئی حکومت بی جے پی کی ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق بی جے پی اور کانگریس کو 40 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی لیکن بیس دسمبر کو انتخابات کا آخری مرحلہ اختتام کو پہنچتے ہی ایسے اندازے سامنے آئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ بی جے پی کا ’مشن 44‘ ایک پبلسٹی بلندڑ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ بی جے پی کی موجودہ 11 نشستوں میں اضافہ نہیں ہوگا، لیکن یہ تقریباً واضح ہوچکا ہے کہ اس پارٹی کے لیے جموں سے بھی متوقع نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ علیحدگی پسندوں کی ’بائیکاٹ سیاست‘ پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ انھیں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ علیحدگی پسند قیادت کی عدم بصیرت اور مذاکرتی سیاست میں ناتجربہ کاری اپنی جگہ، لیکن کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ووٹنگ کا رُخ دہلی کی حکمرانی کا عوامی اعتراف نہیں کہا جا سکتا۔ نریندرمودی کہ زیرِ قیادت حکومت ہند کو کشمیر الیکشن سے دو سبق ملے ہیں۔ ایک یہ کہ کشمیر کی غالب اکثریت نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی پر کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی۔ دوسرا یہ کہ اقتدار کی سیاست کتنے ہی لبھاونے نعروں میں لپیٹی جائے کسی بھی جماعت کی نظریاتی اساس عوامی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتی۔ انتخابات کے پانچوں مراحل میں ووٹروں کی آرا تقریباً یکساں تھیں۔ ہر بار لوگوں نے ہڑتال کی، لیکن ووٹنگ کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے پولنگ مراکز کا رخ کررہے ہیں۔ مودی نے کشمیر کو فتح کرنے کے لیے انتہائی مہنگی اور جارحانہ میڈیا مہم چھیڑی بھارتی میڈیا اور بعض اداروں کے ایگزٹ پول کے مطابق نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو کل ملا کر 50 سے زائد نشستیں حاصل ہوں گی جبکہ ایک اندازے کے مطابق بی جے پی اور کانگریس کو 40 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ بی جے پی اور کانگریس بھارت کی قومی جماعتیں ہیں اور دونوں کا موقف یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے برعکس نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی علاقائی جماعتیں ہیں اور دونوں الگ الگ لہجوں اور الفاظ میں کشمیر کی خود حکمرانی کی وکالت کرتی ہیں۔ دونوں تنظیمیں پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک اہم فریق مانتی ہیں اور یہاں کی مسلح قیادت کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہیں۔ اگر ان انتخابات میں ان ہی دو جماعتوں کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں تو ووٹ کی سمت صاف ظاہر ہے۔ کم از کم یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ ووٹ کشمیر کی بھارتی وفاق سے آئینی آزادی کے لیے دیا گیا۔ نریندر مودی کا کشمیر ماڈل انتخابی فتح کی جلدبازی میں بنایا گیا تھا لہذا اس کی ناکامی یقینی تھی فی الوقت کشمیر کی مقامی سیاست مکمل آزادی، بھارتی کنٹرول کے تحت آئینی خودمختاری اور بھارت کے ساتھ انضمام کی نظریاتی تثلیث پر مشتمل ہے۔ کشمیر کی تاریخ اور عوام کا مزاحمتی مزاج دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بھارتی وفاق میں کشمیر کا مکمل انضمام کشمیر کا مقبول سیاسی نعرہ نہیں بن سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی جیسی سخت گیر جماعت نے بھی کشمیر میں اس نعرے سے احتراز کیا اور ووٹروں کو تعمیرو ترقی اور آسودگی کے خواب دکھائے۔ سماجی رضاکار عبدالقیوم کہتے ہیں: ’سیاسی مستقبل اپنی مرضی سے طے کرنے کی خواہش یہاں اس قدر گہری ہے کہ اگر آپ اس خواہش کو فوجی قوت سے دبائیں گے، تو یہ دوسرے ذرائع سے سر اُبھارے گی۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حکومت جو بھی ہو کشمیر کی 87 رکنی اسمبلی میں علیحدگی پسندی اور نیم علیحدگی پسندی کی ہی گونج ہوگی۔ ان زمینی حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی کا کشمیر ماڈل انتخابی فتح کی جلدبازی میں بنایا گیا تھا لہذا اس کی ناکامی یقینی تھی۔ |
050930_football_championship_ra | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/09/050930_football_championship_ra | سیف فٹبال چمپئین شپ کراچی میں | ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن نے اس سال سیف فٹبال چیمپئن شپ کراچی کے پیپلز فٹبال اسٹیڈیم میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مقابلے سات سے سترہ دسمبر تک ہونگے۔ | ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن کے اس فیصلے سے ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے جو کئی ماہ سے اس چیمپئن شپ کے کراچی میں انعقاد کے بارے میں جاری تھیں اور یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ یہ مقابلے کراچی سے لاہور منتقل کردیئے جائیں گے۔ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سراج الاسلام بچو نے دو مرتبہ کراچی کے پیپلز اسٹیڈیم کا دورہ کرکے سہولتوں کا جائزہ لیا اور انہی کی رپورٹ کی روشنی میں اس میدان پر چیمپئن شپ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیپلز فٹبال اسٹیڈیم ایک طویل عرصہ فٹبال میچوں کے بجائے رینجرز کے استعمال میں رہا ہے۔ اس دوران اس گراؤنڈ کی حالت بہت ہی خراب رہی یہی وجہ ہے کہ ساؤتھ فٹبال فیڈریشن کے حکام کو یہاں آکر تمام سہولتوں اور میدان کی حالت کے بارے میں جائزہ لینا پڑا۔ساف چیمپئن شپ پہلے سارک گولڈ کپ کے نام سے ہوتی تھی۔ اس میں سارک کے سات ممالک کے علاوہ افغانستان کی ٹیم حصہ لے گی۔چیمپئن شپ کے ڈراز کے مطابق افتتاحی میچ میزبان پاکستان اورسری لنکا کے درمیان کھیلا جائے گا۔پاکستان سری لنکا ۔ مالدیپ اور افغانستان ایک گروپ میں ہیں۔ دوسرا گروپ دفاعی چیمپئن بنگلہ دیش۔ بھارت۔ نیپال اور بھوٹان پر مشتمل ہے۔ |
140505_swat_kids_sen | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/05/140505_swat_kids_sen | سوات:سات ہزار یتیموں کے لیے صرف ایک ادارہ | خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں فوج اور شدت پسندوں کے مابین تین سال جاری تک رہنے والی لڑائی میں جہاں مبینہ طور پر ہزاروں افراد ہلاک ہوئے وہیں ایک سروے کے مطابق لڑائی کے نتیجے میں لگ بھگ سات ہزار بچے یتیم اور بےسہارا ہوئے۔ | ’پرورش‘ کے تمام اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر ان بچوں کی کفالت اور بہتر مستقبل کا کوئی ادارہ تو قائم نہیں کیا جا سکا، تاہم درد دل رکھنے والے لوگوں نے چار سال قبل ضلع سوات کے علاقے قمبر میں ’پرورش‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس میں کشیدہ حالات اور آپریشن کے دوران یتیم ہونے والے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس فلاحی ادارے میں پانچ سے دس سال تک کے 155 بچے زیرِ تعلیم رہے۔ اس فلاحی مرکز میں ایک بچے کا سالانہ خرچ 1200 ڈالر بتایا جاتا ہے جس میں دو سو ڈالر بچے کے میٹرک سے آگے کی تعلیم کے لیے فیوچر فنڈ کے نام سے جمع کیے جاتے ہیں۔ فیروز علی کی عمر دس سال ہے اور وہ وادی سوات کے ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہیں جن کے والدین دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں۔ وہ کلاس فور میں پڑھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلاحی مرکز نے انھیں اور ان جیسے دوسرے بچوں کو سہارا دیا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ بڑے ہو کر فوجی بنیں اور لوگوں کی حفاظت کریں۔ سکول کے ڈائریکٹر محمد نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں جنگ کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے اور متاثرین کی واپسی کے بعد ہونے والے سروے کے مطابق سوات میں یتیم ہونے والے ان بچوں کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس خدشے کے پیش نظر کہ اگر ان بچوں کو سہارا نہ دیا گیا اور ان کی سرپرستی نہ کی گئی تو یہ ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں، ایک ایسے ادارے کے قیام کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی جہاں ان بچوں کی تعلیم و تربیت اس طرح کی جائے کہ کل یہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرے کا سہارا بنیں۔ انھوں نے بتایا کہ اسی لیے اس ادارے قیام عمل میں آیا ہے اور ادارے کے تمام اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو پڑھانے میں انھیں خوشی محسوس ہوتی ہے پرورش میں بچوں کی صبح نماز فجر سے شروع ہوتی ہے اور تعلیم اور کھانے پینے کا انتظام ایک ہی چھت کے نیچے کیا جاتا ہے۔ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو پڑھانے میں انھیں خوشی محسوس ہوتی ہے اور انھیں آج تک یہ محسوس نہیں ہوا کہ یہ بچے یتیم ہیں۔ سکول انتظامیہ کے مطابق بچوں کو روزانہ 20 روپے جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے تا کہ وہ سکول میں قائم ٹک شاپ سے اپنی پسند کی چیزیں خرید سکیں اور تنگ دستی کے احساس کا شکار نہ ہوں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے تا کہ ہزاروں کی تعداد میں یتیم ہونے والے ان بچوں کی بہتر کفالت اور تعلیم کا بندوبست کیا جائے تاکہ ان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ |
150609_us_supreme_court_israel_fz | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150609_us_supreme_court_israel_fz | ’جائے پیدائش یروشلم، مگر اسرائیل نہیں‘ | امریکی سپریم کورٹ نے سنہ 2002 کے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جس کے تحت مقبوضہ بیت المقدس میں پیدا ہونے والے امریکی بچے کی جائے پیدائش کے خانے میں اسرائیل کا نام لکھا جا سکتا تھا۔ | یہ فیصلہ امریکی شہری مسٹر میناچم زیوفٹسکی کی سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست پر سنایا گیا ہے امریکی سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کی خبر کو دنیا بھر کے اخبارات نے شائع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کے جج جسٹس انتھونی نے تین کے مقابلے میں چھ ججوں کے اکثریتی فیصلے میں امریکی حکومت کے مؤقف کو تسلیم کیا۔ یاد رہے کہ ایک امریکی شہری مسٹر میناچم زیوفٹسکی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں پیدا ہونے والے ان کے بیٹے کے پاسپورٹ کے جائے پیدائش کے خانے میں یروشلم کے ساتھ اسرائیل بھی لکھا جائے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ اختیارات کی تقسیم کے اس اہم معاملے میں سپریم کورٹ نے پیر کو اس قانون کو کالعدم قرار دیے دیا جس کے تحت یروشلم یا بیت المقدس میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین ایسے بچوں کے پاسپورٹس کے پیدائش کے ملک کے خانے میں اسرائیل درج کروا سکتے تھے۔ اخبار کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ یروشلم کے بارے میں قومی پالیسی کے تعین کا حق امریکی صدر کے پاس ہے نہ کہ امریکی کانگریس کے پاس۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس انتھونی ایم کینیڈی نے چھ ججوں کی طرف سے تحریری فیصلے میں کہا کہ عدالت نے اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ جسٹس کینیڈی نے کہا کہ یروشلم کی سیاسی حیثیت کا تعین طویل عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کا بڑا اہم اور حساس مسئلہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ عالمی معاملات میں یہ اب بھی ایک بڑا نازک مسئلہ ہے۔ تین کے مقابلے میں چھ ججوں کے اس اکثریتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرنا آئین کی روح سے صدر کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بین الاقوامی اہمیت ہے انھوں نے کہا کہ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کون سے ملک امریکہ کی نظر میں جائز ہیں اور کون سے نہیں اس بارے میں قوم کی پالیسی ایک ہی ہونی چاہیے۔ جسٹس کینیڈی نے کہا کہ اس بارے میں قوم کو یک آواز ہو کر بات کرنی چاہیے اور یہ آواز صدر کی ہونی چاہیے۔ اختلافی نوٹ میں جسٹس رابرٹس نے لکھا کہ اکثریت نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اس سے قبل عدالت نے کبھی خارجہ امور کے معاملات میں صدر کی طرف سے کانگریس کی خواہش کی سرکشی یا حکم عدولی کی کبھی حمایت نہیں کی ہے۔ یہ مقدمہ سنہ دو ہزار دو کے ایک قانون سے بھی متعلق تھا جس میں امریکی وزارتِ خارجہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ یروشلم میں پیدا ہونے والے امریکی بچوں کے والدین اگر چاہیں تو پاسپورٹس میں پیدائش کے ملک کے خانے میں اسرائیل درج کیا جائے۔ اس قانون کی ایک اہم علامتی حیثیت بھی تھی اور اس سے یروشلم کے بارے میں ایک واضح پیغام جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت بھی یروشلم کی حیثیت متنازع ہے۔ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیوں بش نے اس قانون کی توثیق کر دی تھی مگر اس کے ساتھ یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ یہ قانون صدر کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ |
051011_aamer_khan_bagh_ra | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051011_aamer_khan_bagh_ra | فرق شاید سیمنٹ اور لکڑی کا تھا | مظفر آباد سے باغ تک کا سفر عام حالات میں بارہ گھنٹے میں طے ہو جانا چاہیے لیکن میں بیس گھنٹوں میں بھی یہ سفر طے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہوں۔ | کوہالہ پل کے پار جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو پنجاب سے ملاتا ہے، سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ باغ کی مزید کہانیاں پڑھنے اور تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں باغ میں انسانی جان کا ضیاع مظفر آباد سے کم ہے اس کی شاید وجہ گھروں کی بناوٹ ہے۔ مظفر آباد میں تباہ ہونے والے گھروں کی اکثریت اینٹوں اور سمینٹ سے بنی ہوئی تھی جبکہ باغ میں اکثر گھر لکڑی سے بنے ہوئے ہیں۔ ضلع باغ میں مرنے والوں کی تعداد یقیناً ہزاروں میں ہوگی لیکن ان کی تعداد مظفر آباد میں مرنے والوں سے بہر حال بہت کم ہے۔ مظفرآباد اور باغ میں جانی نقصان میں فرق کی وجہ گھروں کی بناوٹ ہے۔ باغ میں لکڑی کے ڈھانچے کے اوپر ٹن کی چھت بنائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے شاید ہزاروں لوگ جو زلزلے کی وجہ سے گھروں میں دب گئے تھے لیکن باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ حیرت انگیز طور پرمختلف جہگوں پر زلزلے کے اثرات بلکل مختلف تھے۔ بعض جگہوں پر زلزلے سے تمام مکانات تباہ ہو چکے تھے جبکہ بعض جگہ تمام کے تمام سلامت نظر آتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بہت ہی بڑی بلا چلتی جا رہی تھی اور جہاں اس کے پاؤں پڑتے وہاں سب کچھ زمین بوس ہو جاتا ہے جبکہ جہاں اس کا پاؤں نہیں پڑا تو وہاں سب کچھ محفوظ ہے۔ امدادی کارروائیاں اب ہر جگہ ہوتی نظر آتی ہیں۔روڈ خراب ضرور ہیں لیکن وہ کھلے ہیں۔ سڑک پرچلنے والی ہر تیسری گاڑی ٹرک ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے امدادی سازوسامان لے کر وہاں پہنچا ہے۔ پچھلی رات میں نے راولپنڈی میں سنا تھا کہ زلزلہ سے متاثرین کے لئے کھانے پینے کی ہزاروں ٹن اشیا بھیجے جانے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستانی کشمیریوں کی مدد کے لیے نکل آئے ہیں۔ پاکستان سے ہزاروں نوجوان کالج جانے کی بجائے کشیمریوں کی مدد کے لیے یہاں پہنچ چکے ہیں اور امدادی کارروائیاں میں حصہ لے رہے ہیں۔ باغ کے دیہاتی مشکل صورتحال کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی امدادی سامان لانے والے ٹرکوں پر حملہ کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ میں جہاں بھی رکا، لوگوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے امداد دینے والوں سے صرف اتنا سامان لیا ہے جتنی ان کو ضرورت تھی اور امدادی کارکنوں کو ان جگہوں کا راستہ دکھایا ہے جہاں مدد کی ضرورت ان سے زیادہ ہے۔ امداد کارکن جن میں سے اکثریت کو کارروائیوں کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے،وہ بھی باغ کے لوگوں کی شرافت اور دیانتداری کے قائل ہو چکے ہیں۔ ایک اٹھارہ سالہ امدادی ورکر نے مجھے بتایا کہ اس نے مجبوروں کی مدد کر کے اتنا کچھ سیکھا ہے جتنا شاید وہ آرام کی تین زندگیاں گزارنے کے بعد بھی نہ سیکھ سکتا اور اس نے مشکل گھڑی میں پاکستان اور پاکستانیوں کو سمجھا ہے۔ ایک اور نے کہا کہ اس سے پہلے بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ کا تو سن رکھا تھا لیکن اس کو اس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی لیکن اس سانحہ کے بعد وہ کشمیر کے ساتھ محبت کا شکار ہو گیا ہے اور اس کی خواہش ہو گی کہ جب حالات ٹھیک ہوں تو وہ کشمیر میں آ کر رہے۔ |
world-39584340 | https://www.bbc.com/urdu/world-39584340 | ملالہ کینیڈا کی نئی بہادر ترین شہری ہیں: جسٹن ٹروڈو | پاکستان سے تعلق رکھنے والے دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دی گئی ہے۔ | ملالہ کو یہ اعزازی شہریت اکتوبر 2014 میں ہی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہ دنیا کی چھٹی ایسی شخصیت ہیں جنھیں کینیڈین حکومت نے اپنا اعزازی شہری بنایا ہے۔ * ملالہ کے لیے نیا اعزاز 'میسینجر آف پیس' 19 سال کی عمر میں ملالہ اعزازی شہریت پانے والی سب سے کم عمر فرد بھی ہیں۔ اوٹاوا میں ایک سرکاری تقریب میں شہریت قبول کرنے کے بعد ملالہ کا کہنا تھا کہ وہ اچھا محسوس کر رہی ہیں۔ انھوں نے کینیڈا کے سیاستدانوں سے کہا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے فنڈ جمع کرنے میں مدد دیں۔ ملالہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور تعلیم کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں۔ اس موقع پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ملالہ کے کام کی تعریف کی اور انہیں ’کینیڈا کی سب سے نئی اور شاید بہادر ترین شہری‘ قرار دیا۔ 19 سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب نوجوان فرد بھی ہیں پاکستان کی طالبہ اور کارکن ملالہ کو یہ اعزازی شہریت اکتوبر 2014 میں ہی دی جانی تھی جب اس وقت کی حکومت نے انہیں اس اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن وہ تقریب ایک گارڈ نیتھن سرللو کی فائرنگ میں ہلاکت اور پارلیمنٹ پر حملے کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھی۔ ملالہ سے پہلے جن پانچ لوگوں کو یہ کینیڈا کی اعزازی شہریت دی گئی ہے ان میں نیلسن منڈیلا، دلائی لامہ، مذہبی رہنما آغا خان، سويڈن کے كوٹنيتجن راؤل ویلینبرگ اور میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی شامل ہیں۔ |
031018_osama_newtape_rza | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/10/031018_osama_newtape_rza | امریکہ خبردار رہے:اسامہ کی دھمکی | عربی کے ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے اسامہ بن لادن کا ایک نیا پیغام نشر کیا ہے جسے ٹیپ کے ذریعے اسامہ کے مبینہ پیغامات کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی قرار دیا گیا ہے۔ | اس ٹیپ پر موجود آواز جو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کی ہے، امریکہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ عراق سے اپنی فوج واپس بلا لے۔ ٹیپ میں امریکہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ کے اندر اور باہر مزید خود کش حملے ہوں گے۔ مبینہ طور پر اسامہ کے نئے پیغام میں عراق کے اندر امریکیوں پر ہونے والے مسلسل حملوں کی تعریف کی گئی ہے۔ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے لئے اسامہ بن لادن کی القاعدہ کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ اسامہ کا نیا پیغام ایسے وقت آیا ہے جب عراق میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ایک سو ہو گئی ہے۔ ہفتے کو عراق کی حکمراں کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیان میں عراقی عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تشدد سے باز رہیں اور یہ کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا نہیں ہے لہذا جو بھی قانون شکنی کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔ امریکہ پر خود کش حملوں کے بعد سے الجزیرہ ٹیلی وژن کو اسامہ بن لادن یا ان کے ساتھیوں کے کئی پیغام موصول ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کا آخری پیغام گزشتہ ماہ اٹھائیس تاریخ کو نشر کیا گیا تھا جس می اسامہ کے ساتھی ایمن الزواہری نے پاکستان میں مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ ہفتے کو نشر ہونے والا پیغام دو حصوں میں تھا۔ پہلے حصے میں دنیا بھر کے نوجوان مسلمانوں سے، خصوصاً ’ہمسایہ ممالک اور یمن کے مسلمانوں‘ کہا گیا کہ وہ عراق جا کر جہاد کریں۔ دوسرے پیغام کے مخاطب امریکی عوام ہیں جن سے کہا گیا ہے: ’ہم آپ کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور امریکہ کے اندر اور باہر شہادت پر منتج ہونے والی کارروائی اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک آپ لوگ ناانصافی کا خاتمہ نہیں کرتے۔‘ پیغام میں کہا گیا ہے: ’ہم ہر اس ملک کے خلاف مناسب وقت پر جوابی حملے کا حق محفوظ رکھتے ہیں جو اس غیر منصفانہ جنگ میں شامل ہے یعنی برطانیہ، سپین، آسٹریلیا، پولینڈ، جاپان اور اٹلی۔‘ پیغام کے مطابق وہ اسلامی ملک ، خصوصاً خلیج کے ممالک بالخصوص کویت، جو اس ’غیر منصفانہ‘ جنگ میں شریک ہوں گے، انہیں بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ سی آئی اے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیپ پر موجود آواز غالباً اسامہ بن لادن ہی کی ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس وڈیو کو کب تیار کیا گیا تھا جس میں اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی الزواہری دکھائی دیتے ہیں۔ |
141026_brazil_elections_run_off_mb | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/10/141026_brazil_elections_run_off_mb | برازیل: صدارت کے لیے کانٹے دار مقابلہ آج | برازیل کے لاکھوں ووٹرز نیا صدر منتخب کرنے کے لیے اتوار کو دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈال رہے ہیں جسے مبصرین برازیل کے سخت ترین انتخاب میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ | جیلما روسیف کا سامنا ایسیو نیوس سے ہو رہا ہے اور دونوں نے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا ہے واضح رہے کہ صدارتی انتخاب کی دوڑ دوسرے راؤنڈ میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ گذشتہ اتوار کو ہونے والے انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو واضح برتری حاصل نہیں ہو پائی تھی۔ دوسرے راؤنڈ میں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی ورکرز پارٹی (پی ٹی) کی برسراقتدار صدر جیلما روسیف ہیں تو دوسری جانب دائیں بازو کے ایسیونیوس ہیں۔ دونوں امیدواروں نے برازیل کی معیشت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا عمل برازیل کے مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوگا۔ برازیل میں 18 سے 70 برس تک کے افراد پر ووٹ ڈالنا لازم ہے اور اتوار کو ہونے والے انتخاب میں 14 کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ 56 سالہ جیلما روسیف، ، نے کہا کہ وہ اور دیگر سوشلسٹ رہنما آنے والے دنوں میں مل بیٹھ کر انتخابات کے بارے میں حمکتِ عملی بنائیں گے گذشتہ اتوار کو ہونے والی پولنگ میں ووٹ ڈالنے کی شرح 80 فیصد رہی۔ ان انتخابات میں روسیف کو 42 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روسیف کو قدرے برتری حاصل ہے۔ ڈیٹا فولہا کے ایک تازہ سروے نے روسیف کو 52 فی صد ووٹ جبکہ نیویس کو 48 فیصد دیے۔ آئی بوپ کے ایک دوسرے اوپینین پول میں روسیف کو 53 فی صد ووٹ دیے گئے ہیں۔ اور ان دونوں پولز میں غلطی کے دو فی صد امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے حیران کن طور پر سامنے آنے والے نتائج میں اہم ماحولیاتی کارکن مارینا سلوا، جو کہ ایک مرحلے پر پسندیدہ ترین شخصیت تھیں، اب صدارت کی دوڑ سے باہر ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب مقابلہ سخت ہوگا کیونکہ دونوں امیدواروں کی کوشش ہو گی کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔ نتائج پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے جیلما روسیف نے، جو کہ چار سال صدر رہ چکی ہیں، کہا کہ عوام نے ’ماضی کے بھوتوں، کساد بازاری اور بے روزگاری‘ کو رد کر دیا ہے۔ نیوس کا میلان دائیں بازو کی جانب ہے اور وہ خود کو تبدیلی کا نمائندہ بتا رہے ہیں ’میں نے بیلٹ باکسز اور گلیوں سے بھیجا گیا پیغام واضح طور پر سمجھ لیا ہے۔ برازیل کے شہریوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ ہم اس برازیل کی تعمیر میں تیزی لائیں جو ہم بنانا چاہتے ہیں۔‘ 54 سالہ سینیٹر اور مناس گیریئس ریاست کے سابق گورنر ایسیو نیوس کہتے ہیں کہ جیلما روسیف کے حمایتی اب انھیں ووٹ ڈالیں کیونکہ وہ ’امید اور تبدیلی‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 56 سالہ جیلما روسیف، ، نے کہا کہ وہ اور دیگر سوشلسٹ رہنما آنے والے دنوں میں مل بیٹھ کر انتخابات کے بارے میں حمکتِ عملی بنائیں گے۔ برازیل نے کانگریس کے اراکین اور علاقائی گورنروں کو بھی اتوار کو ہی منتخب کیا۔ انتخابی مہم کے آغاز میں روسیف کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ واضع برتری سے جیت جائیں گی۔ لیکن اس کے بعد اس مہم کی شکل ہی بدل گئی جب پہلے سوشلسٹ امیدوار ایڈورڈو کیمپوس کی ایک فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد سلویا صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ |
080708_india_reax | https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/07/080708_india_reax | ’حکومت پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘ | ہندوستان میں کانگریس کی قیادت والی وفاقی حکومت سے بائیں محاذ کے الگ ہو جانے کے بعد سماجوادی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ حکومت پر آنچ نہیں آنےدے گی۔ | بایاں محاذ کےحمایت واپس لینے سے وفاقی حکومت اقلیت میں آگئی ہے لیکن سماجوادی پارٹی نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ہند امریکہ جوہری معاہدے پر پارلیمان میں حکمراں یونائٹڈ پروگریسو الائنس یعنی یو پی اے کی حمایت میں ووٹ دے گی۔ پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ پارٹی کی مجلس عاملہ میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے تو ان کی جماعت کے سبھی 39 اراکین پارلیمان حکومت کے حق میں ووٹ دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہری معاہدے کو لوگ مسلمانوں کے جذبات سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہيں جو بالکل غلط ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری امر سنگھ کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈیل مسلمان یا ہندو ڈیل نہیں ہے۔ یہ ملک کے فائدے کے لیے ہے اور ہندوستان کا مسلمان ملک کے مفاد میں اس کی حمایت کرتا ہے۔‘ ادھر حکمراں کانگریس کا کہنا ہے کہ بائيں بازو کی جماعتوں کے فیصلے کے باوجود ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہيں ہے اور وہ پارلیمنٹ ميں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ پارٹی کے ترجمان منیش تیواری کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ پارٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کا انتظار کر رہے ہيں اور آگے کی حکمت عملی ان کے آنے پر ہی طے ہوگا۔‘ حزب اختلاف کی بڑی جماعت بی جے پی نے کہا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کرنی چاہیے۔ پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ بائيں محاذ اور کانگریس کا اتحاد غیر فطری تھا اور اسے تو ایک نہ ایک دن ٹوٹنا ہی تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس اور کمیونسٹ دونوں ہی نے عوام کے درمیان اپنا بھروسہ کھو دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم شروعات سے ہی جوہری معاہدے کی حمایت کر رہے تھے اور ان کی جانب سے کوئی نیا رد عمل ظاہر نہيں کیا گیا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کمیونسٹوں نے حمایت واپس لینے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔ |
151126_india_parliament_winter_session_sz | https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/11/151126_india_parliament_winter_session_sz | آئینی اصولوں کو خطرہ لاحق ہے: سونیا گاندھی | بھارتی پارلیمان کا جمعرات سے سرمائی اجلاس شروع ہوا جس میں بھارتی آئین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ | انہوں نے کہا کہ اصل بھارتی آئین میں لفظ سیکولر نہیں تھا اور 42 ویں ترمیم کر کے اس میں سیکولر اور سوشلسٹ شامل کیے گئے اس دوران آئین پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس وقت آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’آج کل آئین کے اصولوں کو ہی خطرہ لاحق ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں ہم نے جو مشاہدہ کیا ہے وہ آئینی قدروں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا ’چاہے آئین بذات خود کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اس کو نافذ کرنے والے لوگ برے ہیں تو پھر آئین بھی برا ہی بن جاتا ہے، اسی طرح اگر آئین اچھا نہ ہو تو بھی اگر اس کے نافذ کرنے والے اچھے ہوں تو وہ اچھا ہوجاتا ہے۔‘ بحث کا آغاز وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کیا اور انھوں نے بھی بھارت میں جاری بڑھتی مذہبی منافرت کی بحث پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سیکولرازم کا غلط استمعال بند ہونا چاہیے۔ سونیا کا کہنا تھا کہ آج کل آئین کے اصولوں کو ہی خطرہ لاحق ہے، گذشتہ چند ماہ میں ہم نے جو مشاہدہ کیا ہے وہ آئینی قدروں کی صریحا خلاف ورزی ہے ان کا کہنا تھا کہ انگریزی کے لفظ سیکولر کا مطلب عدم مذہبیت نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب غیر فرقہ پرست ہونا ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان پر اپوزیشن کے ارکان نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اصل آئین میں لفظ سیکولر نہیں تھا اور 42 ویں ترمیم کر کے اس میں سیکولر اور سوشلسٹ لفظ شامل کیےگئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا مسودہ تیار کرنے والے کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اس کے حق میں نہیں تھے اسی لیے آئین کے دیباچے میں ان الفاظ کو نہیں شامل کیا تھا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے عامر خان کے حالیہ بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے امتیازی سلوک اور ذلت آمیز سلوک سہتے ہوئے بھی ہندوستان چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ انھوں نے ملک میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور ملک میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کے لیے کام کیا۔ |
081211_pak_consider_ban_ra | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/12/081211_pak_consider_ban_ra | پابندی پر غور کر رہے ہیں: ملک | حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے اور وزارت خارجہ اس سلسلے میں باقاعدہ ردعمل بعد میں جاری کرے گی۔ | ادھر امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگروپونٹے جمعرات کے روز پاکستانی قیادت سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچے ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان لوفونٹر نے جان نیگروپونٹے کی پاکستان آمد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی قیادت سے علاقائی امور پر گفتگو کریں گے۔ نیگروپونٹے کے بارے میں امریکی ترجمان نے کچھ بتانے سے گریز کیا ہے کہ وہ کب تک پاکستان میں قیام کریں گے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے صحافیوں کو بتایا کہ ابھی حکومت اس کارروائی پر غور کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اس سلسلے میں ایک باضابطہ بیان جاری کرے گی۔ مشیر داخلہ کے مطابق ہندوستان نے ابھی تک ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف کوئی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی گرفتاریاں ایک جاری عمل ہے البتہ انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ یہ گرفتاریاں کسی کے کہنے پر کی جا رہی ہیں۔ |
080428_taleban_talks_rza | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/04/080428_taleban_talks_rza | حکومت سے بات چیت معطل: طالبان | پاکستان میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قائم طالبان کی تنظیم نے کہا ہے کہ حکومت سے ان کے مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ | تنظیم کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ان کے بعض اہم مطالبات ماننے سے انکار کیا ہے جس کی وجہ سے ’دونوں طرف‘ ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور مذاکرات کا عمل رک گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا موقف معلوم کرنے کےلیے رابطہ کیا گیا تو وہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ مذاکرات کی تعطلی کا اعلان پیر کو بیت اللہ محسود کے ترجمان مولوی عمرنے بی بی سی کو کیے گئے ٹیلی فون پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے جو اراکین جرگہ میں شامل تھے وہ حکومت کی رویے سے مایوس ہوکر واپس آگئے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمیں نئی حکومت سے بہت توقعات تھیں لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے خیر سگالی کے جو بیانات جاری کیے جارہے تھے وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔‘ انہوں نے الزام لگاگیا کہ حکومت مذاکرات میں مخلص اور سنجیدہ نہیں ہے۔ ترجمان نے دھمکی دی کہ اس کے بعد اگر عسکریت پسندوں کی طرف سے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ان سے جب مذاکرات کی ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو ترجمان نے کہا کہ ’حکومت میں شامل بعض ادارے نہیں چاہتے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کامیاب ہوں۔‘ ترجمان نے کہا کہ پاکستانی ادراوں کے علاوہ کچھ بیرونی ممالک بھی سرگرم عمل ہیں اور وہ بھی نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان اور خاموشی ہوں۔ مولوی عمر نے کہا کہ ’مذاکرات میں بنیادی بات یہ تھی کہ امن معاہدے سے قبل حکومت وزیرستان، سوات اور درہ آدم خیل سے فوج واپس بلائے گی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور ان سے کیا گیا وعدے پر عمل درامد نہیں کیا جاسکا۔ ترجمان نے کہا کہ ’ہماری طرف سے فوج کا قبائلی اور دیگر علاقوں سے انخلاء ہی سب سے بڑا مطالبہ تھا لیکن حکومت نے اپنا وعدہ پوار نہیں کیا لہذا ہم نے بھی مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔‘ ایک سوال کے جواب میں مولوی عمر نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو چار مطالبات پیش کئے تھے جن میں جنوبی وزیرستان، سوات اور درہ آدم خیل سے فوج کا فوری انخلاء، قیدیوں کا تبادلہ، حکومتی کاررورائیوں میں وزیرستان سے سوات تک متاثر ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ دینا اور تحریک طالبان کے کارکنوں کو وزیرستان سے کراچی تک آزادانہ سفر کی اجازت شامل ہوگی ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے تین مطالبات تسلیم کیے تاہم وزیرستان اور دیگر علاقوں سے فوج کی واپسی اور چیک پوسٹیں ختم کرنے سے انکار کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوج کی واپسی کا مطالبہ تسلیم کیا تو بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس وقت تقریباً ایک سو فوجی اور سکیورٹی اہلکار طالبان کے زیرحراست ہیں جبکہ دو سو کے قریب طالبان جنگجو مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اٹھارہ فروری کو ہونے والےانتخابات کے نتیجے میں قائم حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں امن وامان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کا عندیہ دیا تھا اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات شروع ہونے کے بعد قبائلی اور دیگر علاقوں میں مقامی طالبان کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ |
world-40298689 | https://www.bbc.com/urdu/world-40298689 | شام میں امریکی میزائل لانچرز کی تنصیب پر روسی تشویش | روس نے مشرقی شام میں ایک فوجی اڈے پر امریکہ کی جانب سے راکٹ لانچرز کی تنصیب پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ | شامی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تنف پر اپنا قبضہ بحال کر چکی ہے روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن نہیں کہ دو ہمرس لانچرز جنھیں التنف میں نصب کیا جا رہا ہے ان افواج کے خلاف استعمال ہو جائیں جو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ’شامی افواج کا باغیوں کے علاقے پر قبضہ‘ ان لاکٹ لانچرز کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انھیں اردن سے التنف کے اس فوجی اڈے پر لایا گیا ہے جسے باغی اور مغربی ممالک کی افواج کے خصوصی دستے استعمال کر رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ امریکی طیاروں نے اس علاقے میں ایک حکومتی قافلے پر بمباری بھی کی تھی۔ اطلاعات ہیں کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب شامی اور ایرانی حکومت کے حمایت یافتہ ملیشیا کے ارکان کم گنجان آباد صحرائی علاقے میں موجود اپنے اڈے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ شامی حکومت نے اسی ہفتے میں کہا تھا کہ اس نے تنف کے علاقے میں اپنا قبضہ بحال کر لیا ہے۔ روسی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'یہ ناممکن نہیں ہے کہ شامی افواج پر مستقبل میں حملے جاری رکھے جائیں اور اس بار ان کے لیے ہمرس استعمال ہوں۔‘ یاد رہے کہ روس شامی حکومت کا اہم فوجی اتحادی ہے۔ |
141007_ransom_debate_as | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/10/141007_ransom_debate_as | کیا تاوان ادا کرنا درست ہے؟ | شام میں امریکی صحافی اور برطانوی امدادی کارکنوں اور الجیریا میں ایک فرانسیسی سیاح کے قتل کے بعد حکومتوں کو ایک کشمکش کا سامنا ہے کہ کیا انہیں بچانے کے لیے تاوان ادا کیا جائے یا نہیں۔ کیا جانیں بچانے کے لیے رقوم ادا کی جائیں، یا کیا ایسا کرنے سے اغوا اور تنازعات کو فنڈ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے؟ | مئی 2009 میں، سہارا ریگستان کے دور دراز علاقے میں موجود ایک عارضی کیمپ میں اسلامی عسکریت پسندوں کا ایک گروہ ایک برطانوی یرغمالی کو قتل کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ ان کے قیدی ایڈون ڈائر کو تین دیگر یورپی سیاحوں کے ساتھ چار ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا۔ وہ صحرا میں توریگ لوک موسیقی کے ایک سالانہ فیسٹیول میں شرکت کرنے کے لیے آئے تھے۔ انھیں مالی۔ نائیجر کی سرحد سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کی موت کی صبح ڈائر کو اس کے خیمے سے باہر لایا گیا اور ایک عسکریت پسند نے کہا کہ اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ ڈائر کو معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ایک فرانسیسی صحافی سرج ڈینیل کہتے ہیں کہ اس نے کہا: ’اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ بے دین کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھا جائے، اور کیونکہ ایسا ہی ہے اس لیے اس یرغمالی کو قتل کر دیا جائے گا۔‘ ایک عینی شاہد نے کہا ڈائر بہت خوف زدہ تھے ’اور یقیناً انھیں معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔‘ ڈائر کو سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والےگیبریلا بارکو گریئنر اور وارنر گریئنر اور جرمنی کی 76 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر ماریانے پیٹزولڈ کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا۔ اگرچہ انہیں اکٹھے اغوا کیا گیا تھا لیکن ان کی قسمت ایک دوسرے سے بہت مختلف تھی۔ پیٹزولڈ کو یاد ہے کہ وہ سب کس طرح شروع ہوا۔ انہوں نے گولیوں کی آوازیں سنی اور دیکھا کہ دو پک اپ ٹرکوں کا قافلہ آ رہا ہے۔ توریگ قبائلی نیچے اترے اور ان پر فرانسیسی زبان میں چلائے۔ وہ اس وقت تک ریت پر لیٹی رہیں جب تک قبائلیوں نے انہیں حکم نہیں دیا کہ وہ ٹرک پر چڑھ جائیں۔ ٹرک گولیوں کے خولوں اور کلاشنکوفوں سے لدا ہوا تھا۔ ابھی وہ اٹھ ہی رہی تھیں کہ ایک قبائلی نے انھیں دھکا دیا جس سے وہ گر پڑیں اور ان کی بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ وہ سارا دن سفر کرتے رہے۔ پیٹزولڈ پہلے ہی اپنی عینک کھو چکی تھیں بعد میں ان سب سے ان کے زیورات، گھڑیاں، جیکٹیں بھی لے لی گئیں۔ انھیں کہاگیا کہ نیلے رنگ کے جبا پہنیں جو توریگ قبائلی پہنتے ہیں۔ انھیں جلد ہی ایک مختلف گروپ کے حوالے کر دیا گیا۔ ’انہوں نے ہمیں بتایا کہ اب آپ القاعدہ کے قیدی ہیں۔‘ انھیں اب اسلامی عسکریت پسندوں کو فروخت کر دیا گیا تھا۔ پیٹزولڈ کہتی ہیں کہ ان کے نئے اغوا کار ہر یرغمالی کو جانتے تھے۔ ’یقینی طور پر ہمارے آنے سے پہلے ہمارے پاسپورٹ ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔‘ گروپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا رہا تھا، وہ کچھ دنوں کے لیے ایک وادی میں بھی رکے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک 40 سالہ داڑھی والے شخص سے ہوئی جس کا نام عبدل حمید ابو زید بتایا گیا تھا۔ اس کے متعلق انھیں بتایا گیا کہ وہ اسلامی مغرب میں القاعدہ کا اعلیٰ کمانڈر ہے۔ ماریانا پیٹزولڈ اپنی رہائی کے بعد قیدیوں کی تصاویر لی گئیں اور ہر یرغمالی سے یہ ریکارڈ کرایا گیا کہ ’ہم اپنی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ہمیں رہا کروائیں۔‘ اغوا کاروں کے مترجم نے پیٹزولڈ کو بتایا کہ فکر نہ کریں جلد ہی انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ غیر واضح ہے۔ لیکن تین مہینے بعد پیٹزولڈ اور گیبریئلا گریئنر کو رہا کر دیا گیا۔ گرینئر کے شوہر کو مزید دو مہینے یرغمال رکھاگیا لیکن بالآخر انھیں بھی رہا کر دیا گیا۔ سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ شاید انھیں چھڑانے کے لیے تاوان ادا کیا گیا لیکن جرمن حکام نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جرمنی نے تاوان ادا کیا تھا لیکن سوئس حکومت جو گریئنرز کی رہائی کے لیے متحرک ہوئی تھی اس کے سرکاری دستاویزات یہ بتاتے ہیں کہ وہاں پیسے کا ادل بدل ہوا تھا۔ سنہ 2009 میں سوئس حکومت نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کسی قسم کے بھی تاوان کی ادائیگی کی تردید کی تھی۔ لیکن ایک خصوصی سرکاری میٹنگ کے منٹس سے یہ پتہ چلتا ہے وزرا نے دو سوئس شہری چھڑانے کے لیے آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے رقم دینے کی منظوری دی تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی پارلیمان کی اقتصادی امور کی کمیٹی کے مطابق ’فیڈرل فائنانس ڈیلیگیشن نے تین ملین فرانک (تین اعشاریہ دو ملین ڈالر) کی منظوری دی تھی جو کہ وفاقی کونسل نے طلب کیے تھے تاکہ مالی میں پھنسے ہوئے سوئس یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے۔‘ محقق ولفرام لیچر کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس قسم کا اقدام اٹھایا ہو۔ عام طور پر حکومتیں اس طرح کے سودوں کو خفیہ رکھتی ہیں۔ القاعدہ اور اس سے وابستہ دیگر گروہوں کو تاوان دینا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1904 کی خلاف ورزی ہے۔ اور امریکہ اور برطانیہ سمیت بعض حکومتیں اس تاوان نہ دینے کی اس قرارداد پر سختی سے عمل کرتی ہیں۔ |
031117_korea_rumsfeld_jr | https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/11/031117_korea_rumsfeld_jr | ’شمالی کوریا منصوبہ ظاہر کرے‘ | امریکہ اورجنوبی کوریا نے شمالی کوریا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے جوہری امور کو مکمل طور پر کھول کر دنیا کے سامنے لائے۔ | جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں ایک اجلاس کے بعد امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ان کے کوریائی ہم منصب شوہ ینگ کل نے مشترکہ طور پر اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ شمالی کوریا کو وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے تجربات، تیاری اور برآمد کو بھی روک دینا چاہیے۔ ایک اور امریکی رہنما جیمس کیلی بھی شمالی کوریا کے جوہری امور پر کثیرالقومی مذاکرات کے لیے ان دنوں میں جاپان میں ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات آئندہ ماہ دسمبر کے وسط تک بیجنگ میں منعقد ہوسکتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ نے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان سرحد کے اگلے مورچوں سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کی یقین دہانی کو بھی دہرایا۔ اس سے قبل امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ کی جنوبی کوریا آمد کے موقع پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین جنوبی کوریا میں امریکی فوجوں کی موجودگی اور عراق پر امریکی حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ رمسفیلڈ کی سیئول آمد کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری کو سڑکوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ مشرقی ایشیاء کے دورے کے اس مرحلے میں امریکی وزیر خارجہ جنوبی کوریا کے رہنماؤں کے ساتھ امریکی اڈوں، عراق میں اتحادی فوجوں میں جنوبی کوریا کی شمولیت اور شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کے موضوع پر کریں گے۔ رمسفیلڈ مذاکرات کے دوران ملک میں موجود سینتالیس ہزار امریکی فوجیوں کی ازسرنو تعیناتی کے معاملے پر بھی بات چیت کریں گے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں قائم اڈوں کو ملک کے جنوبی حصے میں منتقل کر دیا جائے۔ اپنے دورے کے دوران رمسفیلڈ جنوبی کوریا کے صدر روہموہیون سے ملاقات کریں گے اور شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔ بات چیت کے دوران جنوبی کوریا کی فوج کو عراق بھیجنے کا معاملے بھی زیر بحث آنے کی توقع ہے۔ جنوبی کوریا نے گزشتہ ہفتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ عراق میں صرف تین ہزار فوجی بھیجے گا۔ دوسری طرف امریکہ جنوبی کوریا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ زیادہ تعداد میں فوجی عراق بھیجنے کا اعلان کرے۔ جنوبی کوریا میں عوامی سطع پر ان معاملات پر شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ |
080530_balochistan_missing_ka | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080530_balochistan_missing_ka | دھماکے سالگرہ، دو بلوچ رہنما لاپتہ | انسانی حقوق کی ایشیائی تنظیم کے مطابق پاکستان میں ایٹمی دھماکے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر احتجاجی مظاہرہ کرنے والے جن دو کارکنوں اور دو بلوچ قوم پرست رہنماؤں عبدالوہاب بلوچ اور غلام محمد بلوچ کو گرفتار کیاگیا تھا ان میں سے ایک کارکن اب بھی لاپتہ ہے۔ | عبدالوہاب بلوچ کے ساتھ بلوچ رائٹس کونسل میں کام کرنے والے شہزاد ظفر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہیں عبدالوہاب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے وہ لاپتہ ہیں ان سے کوئی رابطہ ہوا ہے نہ ان کا جرم بتایا جا رہا ہے۔ دونوں مظاہرین کو کراچی پریس کلب کے سامنے اٹھائیس مئی کو مظاہرہ کرنے کےبعد عبداللہ ہارون روڈ پر واقع انسانی حقوق کمیشن کے دفتر جاتے ہوئے راستے میں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ہانگ کانگ میں قائم ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق گرفتار شدگان میں سے بلوچ رائٹس کونسل کے رہنماء عبدالوہاب بلوچ کو انتیس مئی کے دن تھانے سے بدنام زمانہ سی آئی ای سینٹر منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے انہیں سرخ ڈبل کیبن گاڑی میں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق ایسی سرخ گاڑیاں متعدد بلوچ رہنماؤں کو لاپتہ کرنے والے ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکاروں کے زیراستعمال رہتی ہیں۔ دوسری جانب بلوچ نیشنلسٹ موومنٹ کے رہنماء غلام محمد بلوچ کو فریئیر روڈ تھانے میں زیر حراست رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔ ایشیائی انسانی حقوق تنظیم کےمطابق غلام محمد بلوچ کے خلاف تھانے میں ایٹمی دھماکوں کے خلاف تقریر کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ غلام محمد بلوچ کو دو ہزار چھ میں گرفتاری کے بعد لاپتہ بتایا گیا تھا۔انہوں نے رہائی کے بعد پہلی بار کسی مظاہرے میں شرکت کی تھی ۔ پاکستان کےایٹمی دھماکے کے خلاف مظاہرے میں دونوں رہنماؤں نے بتایا تھا کہ چاغی میں مقامی بلوچ لوگ آج بھی تعلیم ،صحت اور پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں مگر حکمران ملکی خزانے کے اربوں روپے جوہری اسلحے اور جوہری تجربات پر خرچ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ چاغی کے پسماندہ لوگوں کے لیے ترقیاتی کام شروع کیے جائیں۔ایٹمی دہماکوں پر اربوں روپے خرچ نہ کیے جائیں۔ تعلیم ،صحت اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات کے لیے ملکی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ |
120110_pakistan_neutration_tk | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/01/120110_pakistan_neutration_tk | پینتیس فیصد پاکستانی گھرانے غذائی کمی کا شکار | پاکستان میں پینتیس فیصد گھرانے خوراک کی کمی کا شکار ہیں، دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں صورتحال سنگین ہے جہاں ستر فیصد گھرانوں کو مطلوبہ خوراک دستیاب نہیں ہے۔ | سروے کے مطابق ماں اور بچوں کی غذائیت کے معاملات میں پچھلے دس سال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان حقائق کی نشاندہی قومی سروے برائے نیوٹریشن میں کی گئی ہے۔ یہ سروے آغا خان یونیورسٹی کی مدد سے کیا گیا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پچاس فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں، یعنی ان کا قد اور وزن اپنی عمر کے مطابق ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح پچاس فیصد بچوں میں خون اور وٹامن اے اور ڈی کی کمی ہے جبکہ ماؤں میں زِنک کی بھی کمی ہے۔ یہ سروے دس سال بعد کیا گیا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ساجد صوفی کا کہنا ہے کہ ماں اور بچوں کی غذائیت کے معاملات میں پچھلے دس سال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے حالانکہ اس سے متعلق حکومت کے کئی پروگرام موجود ہیں۔ ’حکومت کے پروگرامز میں کوئی ربط نہیں ہے، اس لیے مشترکہ کوششیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ ماؤں میں تعلیم کی کمی ہے۔ ساٹھ فیصد مائیں ان پڑھ ہیں، دیہی علاقوں میں تو صورتحال اور زیادہ خراب ہے ۔‘ پورے پاکستان میں کیے گئے اس سروے کے مطابق غربت بھی خوراک کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے پچاس فیصد گھرانے ایسے ہیں جنہیں مطلوبہ خوراک کا سامان دستیاب نہیں ہے۔ کراچی میں ایک تقریب میں اس سروے پر بحث کی گئی، جس میں سندھ کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد شیخ بھی شامل تھے۔ انہوں نے سروے کے اعداد و شمار کو ایک حقیقت قرار دیا ہے۔ محکمہ صحت کے پروٹین ، نیوٹریشن اور دیگر کئی پروگرام چل رہے ہیں۔ بقول ان کے گزشتہ دو سال میں سیلاب اور بارش کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بے دخل ہونا پڑا جس کے باعث لوگوں کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’محکمہ صحت کے پروٹین، نیوٹریشن اور دیگر کئی پروگرام چل رہے ہیں۔ جب ہم امیونائزیشن کی بات کرتے ہیں کہ اس کا مطلوبہ نتیجہ کیوں سامنے نہیں آرہا تو اس کی ایک بڑی وجہ خوراک کی کمی ہے۔‘ صوبائی وزیر صحت کے مطابق خوراک کی کمی کا ذمہ دار صرف محکمۂ صحت کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فوڈ پروگرام محکمۂ صحت کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ اس عمل میں محکمۂ خوراک، بہبود آبادی سمیت مختلف محکموں کو شریک کیا جائے گا تاکہ مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسف کے ماہر صحت ڈاکٹر آصف اسلم فرخی کا کہنا تھا کہ یونیسیف، حکومت سندھ اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام لوگ مل جل کر غذائی صورتحال کو بہتر کرسکیں۔ |
070206_afghan_refugees | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/02/070206_afghan_refugees | ’افغانستان آپ کاگھرہے،خوش آمدید‘ | پاکستان نےاقوام متحدہ کے تعاون سے افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھجوانےکے لیے نئے اقدامات کیے ہیں اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے ان علاقوں میں نئے سائن بورڈ نصب کیے ہیں جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے۔ | یہ سائن کوئٹہ سے چمن، ژوب اور دالبندین جانے والے قومی شاہراہوں پر بھی نظر آنے لگے ہیں اور اس کا مقصد اِن پناہ گزینوں کو بتانا ہےکہ افغانستان میں اب مکمل امن ہے اور وہاں لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئٹہ کی افغان قونصلیٹ میں پناہ گزینوں کے انچارج امداد اللہ خان نے بتایا کہ بلوچستان میں لگائے گئے ان سائن بورڈوں کے تمام اخراجات افغانستان میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ایک غیرملکی ادارے (آراکوزیا) نے برداشت کیے ہیں۔ حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو جلد سے جلد افغانستان بھجوایا جا سکے کیونکہ 2005 کی مردم شمار کے مطابق اب بھی تیس لاکھ افغان پاکستان میں آباد ہیں جونہ صرف اقتصادی لحاظ سے پاکستان پربوجھـ ہیں بلکہ امن و امان کی صورتحال میں خرابی کا بھی بعض اوقات انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ واضع رہے کہ پاکستان کی حکومت نے جون 2005 سے صوبہ میں شمشتواورکچہ گڑی کے علاوہ بلوچستان کے گردی جنگل اورجنگل پیرعلی زئی کیمپ بند کیےتھے لیکن ان کیمپوں میں اب بھی ڈھائی لاکھ سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں ان کیمپوں میں آنے والے جانے والوں پرسخت نظر رکھی جاتی ہے۔ بند ہونے والے ان کیمپوں میں رہنے والے زیادہ تر پناہ گزین افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بالخصوص جنوبی صوبوں میں طالبان اورامریکی اور نیٹوفورسز کے درمیان جاری لڑائی، بے روزگاری اوردیگر سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ملک جانے کے لیےتیارنہیں ہیں۔ یہاں بعض ماہرین کا کہناہے کہ جب تک افغانستان کے جنوبی صوبوں ہلمند ، قندھار، زابل اورغزنی میں امن قائم نہیں ہوگا اس وقت تک کسی کا اپنی مرضی سے جانامشکل ہے۔ |
160809_rio_olympics_2016_day3_mb | https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/08/160809_rio_olympics_2016_day3_mb | برازیل کا پہلا گولڈ میڈل، امریکہ بدستور سرفہرست | ریو ڈی جنیرو میں جاری اولمپکس کے تیسرے روز کے اختتام پر چین اور امریکہ کے طلائی تمغوں کی تعداد برابر ہوگئی ہے تاہم مجموعی طور پر امریکہ 19 تمغوں کے ساتھ میڈل ٹیبل پر لگاتار دوسرے دن سرفہرست ہے۔ | برازیل کی رفیلا سلوا نے میزبان ملک کے لیے پہلا طلائی تمغہ حاصل کیا ان اولمپکس کے میزبان ملک برازیل کو بھی دو دن کے انتظار کے بعد پہلا طلائی تمغہ مل گیا ہے۔ ٭ ریو اولمپکس: تمغوں کا مکمل ٹیبل دیکھیں برازیل کے لیے طلائی تمغہ خواتین کے جوڈو کے 57 کلوگرام زمرے میں رفیلا سلوا نے جیتا۔ ان کے اس کارنامے کو غیرمعمولی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی پرورش ریو کے انتہائی پسماندہ علاقے میں ہوئی ہے۔ تیسرے دن تیراکی میں چار مقابلوں کے فائنل کھیلے گئے۔ گذشتہ روز 400 میٹر فری سٹائل مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے چینی تیراک سن یانگ نے پیر کو 200 میٹر فری سٹائل مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ لیلی کنگ نے روسی تیراک کو شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا انھیں دو دن قبل آسٹریلیا کے طلائی تمغہ حاصل کرنے والے میک ہورٹن نے ممنوعہ ادویات لینے والا دھوکے باز کہا تھا اور چین نے اس بیان پر معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کے رائن مرفی نے مردوں کے 100 میٹر کے بیک سٹروک مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کیا جبکہ چین کے شو جیاؤ کو نقرئی اور امریکہ کے ڈیوڈ پلمر کو کانسی کا تمغہ ملا۔ خواتین کے 100 میٹر بریسٹ سٹروک مقابلے میں امریکہ کی لیلی کنگ نے روس کی متنازع تیراک یولیا ایفیمووا کو شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ روسی تیراک پر ممنوعہ ادویات کے استعمال کا شبہ رہ چکا ہے۔ 19 سالہ کنگ پہلی بار اولمپکس میں شریک ہوئی ہیں اور انھوں نے اس مقابلے میں نیا اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔ انھوں نے مقررہ فاصلہ 01.04.93 سیکنڈز میں طے کیا جبکہ روسی تیراک کا وقت 01.05.50 سیکنڈز رہا۔ اس مقابلے میں کانسی کا تمغہ امریکہ کی کیٹی مائلی کو ملا۔ کولمبیا کے ویٹ لفٹر کا رد عمل تیراکی میں ہی ہنگری کی خاتون تیراک کیٹنکا ہوسزو نے 100 میٹر بیک سٹروک مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ انھوں نے امریکہ کی کیتھلین بیکر کو شکست دی۔ جاپان نے مردوں کے جمناسٹکس مقابلے میں طلائی تمغہ حاصل کر کے اس تمغے پر چین کی آٹھ سالہ حکمرانی کو ختم کر دیا۔ ویٹ لفٹنگ یا وزن اٹھانے کے مقابلے میں کولمبیا کے آسکر فیگیوروا نے مردوں کے 62 کلو زمرے میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ اس زمرے میں انڈونیشیا نے نقرئی جبکہ قزاکستان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اولمپکس میں پہلی بار خواتین کے رگبی مقابلے منعقد کرائے گئے جس میں آسٹریلیا کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کو 17-24 سے شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا جبکہ کانسی کا تمغہ کینیڈا نے برطانیہ کی ٹیم کو ہرا کر حاصل کیا۔ چین کے لن یوے نے اپنے طلائی تمغے کو اپنی والدین کو منسوب کیا ہے کیونکہ بچپن میں انھوں نے ان کی ٹریننگ کے لیے اپنے گھر بار کو بیچ دیا تھا۔ لن یوے نے چین ایسن کے ساتھ دس میٹر سنکرونائز ڈائیونگ میں طلائی تمغہ حاصل کیا ہے۔ چین کے لن یوے نے اپنے تمغے کواپنے والدین کے نام منسوب کیا ہے روس کی یانا ایگورین نے خواتین کے شمشیر زنی کے مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کیاہے۔ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی روسی خاتون ہیں۔ انھوں نے روس کی ہی سوفیہ ویلیکایا کو شکست دی جبکہ یوکرین کی اولگا خارلان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ جرمنی نے انڈیا کی ہاکی ٹیم کو ایک کے مقابلے دو گول سے شکست دی ہے تاہم ابھی بھی ہندوستان کو ہاکی میں میڈل کی امید قائم ہے۔ اٹلی کے نکولو کیمپریانی نے دس میٹر ایئر رائفل میں طلائی تمغہ حاصل کیا ہے۔ تیسرے دن کے اختتام پر امریکہ پانچ طلائی، سات نقرئی اور کانسی کے سات تمغوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ چین پانچ طلائی، تین نقرئی اور کانسی کے پانچ تمغوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا چار طلائی کے ساتھ تیسرے جبکہ اٹلی اور جاپان چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ ہنگری کی تیراک کیٹنکا نے طلائی تمغہ حاصل کیا |
061201_beirut_rally_demands_change_ur | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/12/061201_beirut_rally_demands_change_ur | ’لبنانی حکومت مستعفی ہو جائے‘ | لبنان کے دارحکومت بیروت میں لاکھوں کی تعداد میں حزب اللہ کے حامیوں اور ان کے شام نواز حلیفوں نے لبنان کی حکومت کے خلاف ریلی نکالی۔ | سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان مظاہرین نے وزیراعظم فواد سنیورا کے خلاف نعرے لگائے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت مستعفی نہیں ہو جاتی وہ اس طرح کے مظاہرے کرتے رہیں گے۔ یہ احتجاج لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک کڑی ہیں جو کہ شام مخالف رہنما کے قتل اور کابینہ میں پیش کیے گئے استعفوں کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔ لبنانی وزیر اعظم فواد سنیورا نے کہا ہے کہ وہ کسی احتجاجی جلوس کے دباؤ میں حکومت سے مستعفی نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ لبنانی پارلیمنٹ کی حمایت سے حکومت کر رہے ہیں اور جب تک ان کو پارلیمنٹ کی حمایت حاصل رہے گی وہ اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ حزب اللہ کا مطالبہ ہے کہ اسے کابینہ میں زیادہ نماہندگی دی جائے جس سے ان کے پاس یہ طاقت ہو کہ وہ حکومت کے فیصلوں کو ویٹو کر سکیں۔ بلٹ پروف گلاس سکرین کے پیچھے سے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عیسائی حزب اختلاف کے رہنما ماہیکل آون نے کہا کہ اس حکومت کی بنیاد قومی یکجہتی پر نہیں ہے اور اس بنا پر یہ غیر آہینی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’میں وزیر اعظم اور ان کے وزراء سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مستعفی ہو جائیں‘۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ اس سال موسِم گرما میں اسرائیلی فوجوں کے لبنان پر حملے کے بعد زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان حملوں میں جنوبی لبنان کے کئی علاقے تباہ ہو گئے تھے لیکن یہ حزب اللہ کی تحریک کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ حزب اللہ لبنانی حکومت پر اس بات کا الزام بھی لگا رہی ہے کہ اس نے لڑائی میں اس کی حمایت نہیں کی تھی۔ شام مخالف پارٹیاں حزب اللہ پر اس بات کا الزام لگاتی ہیں کہ یہ جماعت شام کے مفادات کو اپنے ملک کے مفادات پر ترجیح دیتی ہے۔ حزب اللہ کے حامیوں اور اس کے حلیفوں کو جن میں ماہیکل آون کی پارٹی بھی شامل ہے، کو بسوں میں مظاہرے کے لیے بیروت لایا گیا اور یہ مظاہرہ لبنان کے مقامی وقت کے مطابق ایک بجے شروع ہوا۔ پولیس کے مطابق مظاہرے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد آٹھ لاکھ تھی جبکہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھی۔ شیخ نصراللہ کی بارہا اس یقین دہانی کے باوجود کہ احتجاج پرامن رہے گا کئی اسلحہ سے لیس گاڑیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں فوجیوں کو سرکاری عمارات کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ۔ بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار کِم گھٹاس کے مطابق بیروت کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہاں ایمرجنسی نافذ ہو۔ شام مخالف رہنما ولید جمبلت نے بی بی سی کو بتایا کہ حزب اللہ سابقہ وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی ٹریبیونل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالیہ حکومت نے پچھلے سال اس وقت اقتدار سنبھالا تھا، جب شامی فوجیں جنھیں لبنان میں جاری خانہ جنگی کے باعث تعینات کیا گیا تھا، لبنان سے واپس گئیں تھیں۔ |
041208_britian_letter_zs | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041208_britian_letter_zs | عراقی ہلاکتیں، تحقیقات کا مطالبہ | برطانیہ میں فوجی افسران، سابق سفارتکاروں اور چرچ کے پادریوں سمیت چھیالیس ممتاز شخصیات نے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیں۔ | ان برطانوی شخصیات نے ٹونی بلیئر کو خط لکھنے کا فیصلہ ایک طبی جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے بعد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ عراق میں امریکی اور برطانوی افواج کے حملوں کے بعد اب تک ایک لاکھ عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ برطانوی وزراء نے ’لانسیٹ‘ نامی اس جریدے میں شائع ہونے والی تعداد کو مسترد کر دیا ہے ، تاہم اس خط پر دستخط کرنے والوں نے جن میں برطانیہ کی متعدد ممتاز شخصیات شامل ہیں ٹونی بلیئر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوراً ایک آزادانہ انکوائری کا حکم دیں تاکہ عراق میں امریکی اور برطانوی افواج کے حملوں کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہونے والے شہریوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ مذکورہ انکوائری میں عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کی وجوہات کا بھی پتہ لگانا ضروری ہے۔ خط پر دستخط کرنے والوں میں فوج کے ریٹائرڈ جنرل سر ہیوز بیچ، برطانوی فوج کے سابق نائب سربراہ لارڈ گارڈن، عراق میں برطانیہ کے ایک سابق سفیر اور مشہور مصنف ہیرلڈ پنٹر شامل ہیں۔ اس خط میں ٹونی بلیئر سے مخاطب ہو کر کہا گیا ہے کہ ’ مسٹر بلیئر آپ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہوگا کہ کہ آپ کی حکومت بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ وہ عراق میں عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے‘۔ ’لیکن جب تک یہ نہیں پتہ چلتا کہ عراق میں کل کتنے افراد ہلاک یا زخمی ہوئے کسی کو یہ پتہ نہیں چلے گا کہ آیا برطانیہ یا اتحادی ممالک عراق میں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں یا نہیں‘۔ |
050915_bomb_fresh_rs | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/09/050915_bomb_fresh_rs | عراق: 34 ہلاک، متعدد زخمی | عراق کے دارالحکومت بغداد میں جاری تشدد کے دوسرے دن جمعرات کو ہونے والے دھماکوں کے تازہ سلسلے میں چونتیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ | بغداد کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سب سے ہولناک حملہ جنوبي بغداد کےضلع الدورہ میں ایک کار بم دھماکے کے ذریعے پولیس کارواں پر کیا گیا جس میں بیس افراد ہلاک اور اکیس زخمی ہوئے جن میں پندرہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کار بم حملہ مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے اس وقت ہوا جب ایک خود کش حملہ آور نے پولیس کی گاڑیوں کے قافلے کے پاس خود کو بم سےاڑا لیا۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد ہی اسی علاقے میں دو بم دھماکوں ہوئے۔ جن کا نشانہ خصوصی فورسز کے اہلکار تھے۔ شمالی شہر کرکک میں ایک اور دھما کے میں دو مزید پولیس افسران ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ جمعرات کو ہونے والے بم دھماکوں کا نشانہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان تازہ حملوں کے بعد عراق کی حکومت نے عوام سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان دھماکوں سے ایک دن قبل ضلع کاظمیہ بم دھماکوں میں ایک سو بیاسی افراد ہلاک اور چار سو کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر شعیہ مزدور افراد تھے۔ عراق کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک سو بیاسی اور زخمیوں کی چھ سو انہتر تک پہنچ گئی۔ تشدد کی اس لہر میں اضافہ اس وقت ہوا کہ جب ملک کا آئین اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ دو ہزار تین میں عراق پر اتحادی فوج کے قبضے کے بعد بدھ کو ہونے والےدھما کےسب سے بدترین دھماکے تھے۔جس میں لوگوں کی اتنی بڑی تعدادہلاک ہوئی۔ عراق میں ایک گروہ نےاپنا تعلق عسکریت پسند تنظیم القاعدہ سے کرتے ہوئے ایک اسلامی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے تلعفر میں جنگجوؤں کے خلاف امریکی اور عراقی فوج کی کارووائی کا جواب ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہونے والے ایک اور آڈیو ٹیپ میں القاعدہ کے رہنما ابو معصب الزرقاوی نے عراق میں شیعوؤں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ آئین کی تشکیل کے لیےکئی مہینوں سے چلنے والے مذاکرات کے بعد توقع ہے کہ پندرہ اکتوبر کو ہونے والے ریفرنڈم سے پہلے اس کی نقول عراقی عوام میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ |
060916_shane_warne_coach_ra | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/09/060916_shane_warne_coach_ra | ’آسٹریلیا کو کوچ کی ضرورت نہیں‘ | ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے لیگ سپنر شین وارن نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم کو کوچ جان بکانن کی ضرورت نہیں ہے۔ | جان بکانن 1999 سے آسٹریلوی ٹیم کے کوچ ہیں اور ان کے دور میں آسٹریلیا نے دو دفعہ ایشز سیریز اور ورلڈ کپ جیتا ہے۔ شین وارن نے کہا کہ جان بکانن کا ٹیم کی جیت میں کردار اہم نہیں ہے اور آسٹریلوی ٹیم کو صرف ایک اچھے مینجر کی ضرورت ہے۔ شین وارن نے کہا کہ بطور کھلاڑی آپکو پتہ ہوتا ہے کہ آپ کتنے اچھے ہیں اور آپ کو ایسے کوچ کی ضرورت نہیں ہوتی جو بہت زیادہ تکنیکی ہو۔ شین وارن نے کہا کہ ان کی جان بکانن نے اچھی بنتی ہے لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ کئی دفعہ کوچ بعض چیزوں کو غیر ضروری طور پر پیچدہ بنا دیتے ہیں اور وہ ان کے خیال میں جان بکانن میں سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔ شین وارن کے بیان نے آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کو پریشان کر دیا ہے۔ رکی پونٹنگ نےجو ملیشیا میں سہ ملکی ٹورنامنٹ میں ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، کہا ہے کہ انہوں نے اور کوچ جان بکانن نے شین وارن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی بات نہیں ہو سکی ہے ۔ رکی پونٹنگ نے کہا کہ انہوں نے شین وارن کے ٹیلی فون پر اپنا پیغام ریکارڈ کر ا دیا ہے۔ رکی پونٹنگ نے کہا جب پچھلی دفعہ ان کی شین وارن سے بات چیت ہوئی تھی تو ان کو کوچ سے کوئی شکایت نہیں تھی اور وہ ٹیم میں مکمل ہم آہنگی چاہتے تھے۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایشز سیریز کا آغاز 23 نومبر سے آسٹریلیا میں ہو رہا ہے جس میں آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر یہ اعزاز انگلینڈ سے واپس لینے کی کوشش کرے گا۔ |
040414_nsc_meeting_police_reforms | https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/04/040414_nsc_meeting_police_reforms | ’قومی سلامتی کونسل نا منظور‘ | پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے قومی سلامتی کونسل کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ جب بھی ان کی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی تو اس کونسل کو ختم کردیں گے۔ | پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے ایک سوال پر کہا کہ کونسل کے قیام سے فوج براہ راست اقتدار میں شریک ہوجائے گی اور سیاست میں اس کے قائدانہ کردار سے پارلیمینٹ اور دیگر ادارے مفلوج ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف سلامتی کونسل بلکہ ستروہیں آئینی ترمیم جس کے تحت لیگل فریم ورک آرڈر کو آئین میں شامل کیا گیا تھا اس کو بھی ختم کردیں گے۔ حکومت کے حامی سینیٹر ایس ایم ظفر کی رائے تھی کہ سلامتی کونسل کی حیثیت مشاورتی ادارے کی ہے اس لئے پارلیمینٹ کی بالادستی ان کے بقول متاثر نہیں ہوگی۔ متحدہ مجلس عمل کے سینیٹر پروفیسر خورشید کا کہنا تھا کہ جس انداز میں جلد بازی کرتے ہوئے حکومت نے قوائد اور ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے ایسا سینیٹ میں نہیں ہوتا۔ انہوں نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کونسل کے قیام کو جمہوری اداروں کے لئے خطرناک قرار دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید نے حزب اختلاف کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خزب اختلاف بحث میں سنجیدہ ہی نہیں تھی اور حکومت کے پاس واضح اکثریت بھی تھی اس لئے بل تو پاس کرنا ہی تھا۔ واضح رہے کہ محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، عمران خان عبدالرؤف مینگل اور دیگر رہنما پہلے ہی کونسل کے بل کے قیام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس سے نہ صرف پارلیمان فوج کے ماتحت ہو جائے گی بلکہ صوبائی خود مختاری بھی ان کے بقول ختم ہو جائے گی۔ |
pakistan-47154227 | https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47154227 | پشتو کی جگہ اردو: افغان پناہ گزین طلبہ ’نہ اِدھر کے رہیں گے اور نہ اُدھر کے‘ | پاکستان میں پناہ گزینوں کے تحفظ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے زیر انتظام چلنے والے تمام افغان پناہ گزینوں کے سکولوں میں رواں سال سے نصاب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مطابق اب بیشتر کتابیں افغانوں کی قومی زبان پشتو اور دری کی بجائے اردو اور انگریزی زبانوں میں پڑھائی جائیں گی۔ | افغان پناہ گزینوں کے بچے مادری زبان سے محروم کیوں؟ اس سے پہلے زیادہ تر کتابیں پشتو اور دری زبانوں میں پڑھائی جاتی تھیں لیکن پاکستان میں رہائش پزیر افغان پناہ گزینوں نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ کرامت اللہ ایک افغان مہاجر ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے یو ایچ سی آر کے زیرانتظام چلنے والے ایک سکول میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یو این ایچ سی ار نے نصاب میں تبدیلی کا فیصلہ کرکے پاکستان میں زیر تعلیم پناہ گزین طلبہ کے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے فارسی زبان کی فراموشی کا خوف ’پاکستان پناہ گزینوں کو جگہ دینے والا تیسرا بڑا ملک‘ انھوں نے کہا کہ پہلے بیشتر کتابیں پشتو اور دری میں پڑھائی جاتی تھی لیکن رواں سال ستمبر سے یہ نصاب تبدیل کیا جارہا ہے جس کے تحت اب زیادہ تر کتابیں اردو زبان میں پڑھائی جائیں گی۔ ان کے بقول ’نئے نصاب میں صرف ایک کتاب پشتو کی ہے اور باقی تمام کتابیں اردو اور انگریزی میں ہیں جبکہ دری کو سرے سے نصاب سے غائب ہی کر دیا گیا ہے۔‘ کرامت اللہ کے مطابق نصاب تبدیل کرنے کا سب سے بڑا نقصان ان طلبہ کو ہوگا جو اگر کسی وجہ سے یہاں تعلیمی سلسلہ برقرار نہیں رکھ پاتے اور واپس افغانستان جاتے ہیں اور ایسے طلبہ ہمیشہ تذبذب اور مشکل کا شکار رہیں گے۔ ’جو طلبہ اردو پڑھ کر یہاں سے واپس سرحد پار جائیں گے ایسے طالب علم نہ ادھر کے رہیں گے اور نہ ادھر کے۔‘ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کے سو سے زائد سکول قائم ہیں جن میں چالیس ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں بیشتر سکول ان علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں جہاں پناہ گزینوں کی آبادی زیادہ ہے۔ یہ علاقے اب پناہ گزین کیمپوں کی بجائے 'پناہ گزین گاؤں' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب کوئی باضابطہ پناہ گزین کیمپ موجود نہیں جبکہ پناہ گزینوں کے گاؤں کو بھی کیمپوں کا درجہ حاصل نہیں۔ نصاب میں ردوبدل کے بعد نئی کتابیں بھی چھپ کر سکولوں میں بھیج دی گئی ہیں لیکن تاحال طلبہ میں تقسیم نہیں کی گئی ہے۔ تاہم بیشتر پناہ گزینوں کے رہنماؤں نے نصاب کی تبدیلی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے افغانوں کی تاریخ تبدیل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ چارسدہ روڈ پر واقع پناہ گزین گاؤں کے ایک مشر اؤل گل کا کہنا ہے کہ افغانوں کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے اور اپنی مادری زبان چھوڑنا ایسا ہی جیسے اپنی ثقافت اور تمدن کو ترک کرنا ہو۔ ان کے مطابق ' پشتو میرے باپ دادا کی زبان ہے اور کوئی اپنے آباؤ اجداد کی زبان کیسے چھوڑ سکتا ہے، یہ تو اپنے ہی قوم سے ناانصافی ہے۔' انھوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ نصاب میں تبدیلی کا فیصلہ کس کی طرف سے کیا گیا ہے لیکن اس میں پناہ گزینوں کی نمائندوں کی مرضی شامل ہے اور نہ انہیں اس ضمن میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔ ان کے بقول ' نصاب تبدیلی کی یہ پالیسی نہیں چل سکتی لیکن اگر پھر بھی زور زبردستی سے یہ نافذ کیا گیا تو ہم غیر ملک میں احتجاج تو نہیں کرسکتے لیکن اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا لیں گے انہیں کسی افغان نجی تعلمیی ادارے میں داخل کرادیں گے۔' اؤل گل کے مطابق زیادہ تر پناہ گزینوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کا نصاب تبدیل کیا جارہا ہے۔ ادھر دوسری طرف پاکستان میں پناہ گزینوں کے تحفظ کے ادارے یو ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ نصاب کی تبدیلی کی فیصلہ ان کی گلوبل تعلیمی پالیسی کا حصہ ہے جس میں افغان پناہ گزینوں کی مرضی شامل ہے۔ اسلام آباد میں یو ایچ سی آر کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ جن ممالک میں پناہ گزینوں کو دو سے تین دہائیوں گزر جاتی ہے وہاں پالیسی کے مطابق اسی ملک کا نصاب لاگو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نصاب کی تبدیلی کا فیصلہ افغانوں کے مشکلات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے اور جس سے افغانوں کو نقصان کی بجائے سب فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔ ترجمان کے مطابق ان سکولوں کے پڑھے ہوئے پناہ گزینوں کو ان اداروں سے سرٹفکیٹ ملیں گے جس کے ذریعے سے وہ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں گے اور انہیں نوکریاں ملنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ |
060215_austrlia_abughraib_uk | https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/02/060215_austrlia_abughraib_uk | ابو غریب کی نئی تصاویر | ایک آسٹریلوی ٹیلی وژن چینل نے عراق کے ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ مظالم کی نئی تصاویر دکھائی ہیں۔ | یہ دو سال قبل منظر عام پر آنے والی ابو غریب میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تصاویر سے کہیں زیادہ خوفناک اور خونریز ہیں۔ ان میں عراقی قیدیوں کی کچھ ایسی خونریز تصاویر ہیں جس میں یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ یہ بے ہوش ہیں یا مر چکے ہیں۔ ایس بی ایس ٹی وی نیٹورک کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ قیدی جیل میں ایک بغاوت کے دوران مارے گئے تھے جب امریکی فوجیوں کے پاس ’ربر بلٹس‘ ختم ہو گئیں اور انہوں نے دوسرا اسلحہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ٹی وی نیٹورک کا کہنا ہے اسے یقین ہے یہ تصاویر جعلی نہیں ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ انیں یہ تصاویر اسی ذریعے سے ملی ہیں جو دو سال قبل کی تصاویر کا ذریعہ تھا۔ نیٹ ورک نے یہ تصاویر اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کی ہیں۔ یہ تصاویر ان شواہد کا حصہ ہیں جو ابو غریب میں بدسلوکی کے واقعات کی تفتیش کرنے والے امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ ان شواہد میں سو سے زیاد فوٹو ار چار ویڈیو ٹیپ شامل ہیں۔ یہ تصاویر امریکہ میں جاری ایک مقدمے میں شامل تھیں۔ ستمبر میں نیو یارک کے ایک جج نے فیصلہ دیا کہ ان تصاویر کی اشاعت کو آزادی اظہار کے قانون کے تحت شائع ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔ جج نے یہ فیصلہ عوامی حقوق کی تنظیم ’امیرکن سول لبرٹیز یونین‘ کی درخوست کے جواب میں دیا۔ ان تصاویر میں تشدد، قتل اور جنسی تذلیل کے مناظر شامل ہیں۔ امریکہ حکام نے ابھی ان تصاویر پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے تاہم سنہ دو ہزار چار میں ابو غریب میں بد سلوکی کی تصاویر کی اشاعت پر عالمی سطح پر شور مچا تھا اور اس سلسلے میںنو امریکی فوجیوں کو سزا بھی ہوئی۔ |
061224_raja_dopping_fz | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/12/061224_raja_dopping_fz | معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا، رمیز | پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کے خیال میں فاسٹ بولرز شعیب اختر اور محمد آصف کو ڈوپنگ کیس میں بری کئے جانے کے باوجود یہ معاملہ سرد نہیں ہوا ہے۔ | ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی ( واڈا) نے پاکستانی ڈوپنگ اپیل کمیٹی کی جانب سے شعیب اختر اور محمد آصف کو بری کئے جانے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے کھیلوں کی ثالثی عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رمیز راجہ جو اس وقت کمنٹری کے شعبے سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس معاملے کو صحیح طریقے سے نہ نمٹتے ہوئے دو کمیٹیاں بناکر اسے متنازعہ بنادیا اور اب جبکہ واڈا نے بھی اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے تلوار پاکستانی بولرز کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ رمیز راجہ پہلے بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دونوں بولرز کو جو سزا دی وہ بہت سخت اور غیرضروری تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے نتیجے میں پاکستانی کرکٹ تنقید کی زد میں آگئی اور بولرز پر بھی ساری زندگی یہ دھبہ لگا رہے گا۔ رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ کپتان انضمام الحق کے نزدیک ورلڈ کپ ان کی اولین ترجیح ہے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ ورلڈ کپ کے موقع پر اس مسئلے میں الجھے رہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان دونوں بولرز کی ذہنی حالت کیسی ہے کیونکہ اس طرح کی صورتحال میں کھلاڑی جسمانی طور پر نہیں ذہنی طور پر بہت زیادہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے دونوں کو اس کیفیت سے نکال کر کرکٹ کی طرف لانے کے لئے ڈریسنگ روم کا خوشگوار ماحول اہم کردار ادا کرے گا۔ |
150611_barrel_bomb_crticised_sq | https://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150611_barrel_bomb_crticised_sq | ’ہم بچّے ہیں، تم بیرل ہو‘ | ان دنوں عرب دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شام میں بیرل بموں کے حملوں میں زخمی و ہلاک ہونے والے بچوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صدر بشارالاسد کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ | مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ شام میں بیرل بم استعمال کرنے کی صلاحیت صرف بشار الاسد کی حکومت کے پاس ہے اس مقصد کے لیے ہزاروں لوگ معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’ہم بچّے ہیں اور تم بیرل ہو‘ کے عنوان یا ہیش ٹیگ کے تحت اپنی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بیرل بم بنانے کے لیے عموماً تیل کے خالی ڈرم، پانی کی ٹینکیاں اور اس قسم کے دوسرے ڈرم استعمال کیے جاتے ہیں۔ بم بنانے کے لیے ان ڈرموں میں بارود اور لوہے کے ٹکڑے بھرے جاتے ہیں اور عموماً انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے گرایا جاتا ہے۔ چونکہ بیرل بموں سے بلاتفریق تباہی پھیلتی ہے اس لیے انھیں ہمیشہ شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ ’سیریئن نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے ایسے بموں پر پابندی کے باوجود شام میں جاری خانہ جنگی میں ان کے بے دریغ استعمال سے ہزاروں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ شام میں بیرل بم استعمال کرنے کی صلاحیت صرف بشار الاسد کی حکومت کے پاس ہے اور ہیلی کاپٹر سے لیس فضائیہ کسی دوسری تنظیم یا متحرب گروہ کے پاس نہیں ہے۔ تاہم بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بشارالاسد کا کہنا تھا کہ انھیں شام میں بیرل بموں کے استعمال کے بارے میں معلوم نہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں میں حلب میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں بیرل بموں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہونے اور ان تصاویر میں دکھائی جانے والی ہولناکی کے باعت بی بی سی یہ تصاویر شائع نہیں کر سکتا، لیکن گذشتہ چند دنوں سے عربی سوشل میڈیا پر صارفین ایسی کئی تصاویر نشر کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تباہی شامی حکومت کی جانب سے بیرل بموں کے استعمال سے ہو رہی ہے۔ ’ہم بچًے ہیں اور تم بیرل ہو‘ کے ہیش ٹیگ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ عرصے میں عرب دنیا میں بشارالاسد حکومت کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ہیش ٹیگ کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے ابتدائی لوگوں میں محمود اویمیر بھی شامل ہیں جن کا تعلق غزہ سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شامی عوام کا کرب دیکھ کر انھیں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دن یاد آتے ہیں۔ ’شام میں پچھلے چار سال سے جو ہو رہا ہے اسے دیکھ کر ہمیں شدید دکھ پہنچ رہا ہے اور ہمیں شامیوں کی اس اذیت کا خاتمہ ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔ شامیوں کی تصاویر دیکھنے والا کوئی شخص بھی غمزدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں آپ اس معاملے پر بات کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘ اس ہیش ٹیگ کے تحت کی جانے والی پانچ ہزار ٹویٹس میں سے نصف لبنان سے پوسٹ کی گئی ہیں جہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے خاص طور پر ان پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ لبنان میں اس ہیش ٹیگ کو آگے بڑھانے والوں میں ریم الایوبی بھی شامل ہیں۔ بی بی سی ٹرینڈنگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں بیرل بموں کا شکار ہونے والے شامی بچوں کی حالت زار نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ ’اس ہیش ٹیگ کا نشانہ شامی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ہیں۔‘ لبنانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی ٹویٹس میں حزب اللہ، لبنانی شیعہ ملیشیا اور بشارالاسد حکومت اور ایران کے ساتھ ان تنطیموں کے رابطوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بی بی سی مانیٹرنگ کی سارہ فیاض کہتی ہیں کہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ لبنان کو بھی اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ |
150401_fawad_ahmed_england_squad_zz | https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/04/150401_fawad_ahmed_england_squad_zz | فواد احمد ایشز سیریز کے سکواڈ میں شامل | آسٹریلیا نے پانچ میچوں کی ایشز سیریز کے 17 رکنی سکواڈ میں پاکستانی نژاد لیگ سپنر فواد احمد کو شامل کر لیا ہے۔ | فواد احمد نے 36 فرسٹ کلاس میچوں میں 125 وکٹیں حاصل کیں ٹیسٹ سکواڈ میں 33 سالہ سپنر فواد احمد کے علاوہ مڈل سیکس کے کپتان ایڈم ویجز بھی شامل کیاگیا ہے۔ فواد احمد کو وزیر کی مداخلت پر ویزا ملا فواد احمد کو ٹیم میں دوسرے سپنر کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ سکواڈ کے مرکزی سپنر ایشٹن اگر نے 2013 میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں 11ویں پوزیشن پر کھیلتے ہوئے ریکارڈ رنز بنائے تھے۔ مڈل سیکس کے کپتان ایڈم ویجز کو 104.6 کی اوسط سے 1358 رنز بنانے پر شیفیلڈ شیلڈ کا ایوارڈ ملا تھا۔ آسٹریلیا کی ٹیم مائیکل کلارک کی سربراہی میں پانچ ٹیسٹ میچوں کی ایشز سیریز کا پہلا میچ 8 جولائی کو کارڈیف میں کھیلا جائے گا اور اس سے پہلے آسٹریلیا کی پانچ جون سے ویسٹ انڈیز کے خلاف دو میچوں کی سیریز شروع ہو رہی ہے۔ آسٹریلیوی ٹیم کے سلیکٹر روڈ مارش کے مطابق ایڈم اور فواد احمد نے ڈومیسٹک سطح پر بہت شاندار کرکٹ کھیلی اور ان کی کاررکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ’ہمیں یقین ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو یہ اہم کردار ادا کریں گے۔‘ فواد احمد نے سال 2010 میں آسٹریلیا میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ ان کی بولنگ میں صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی درخواست کو تیزی سے نمٹاتے ہوئے آسٹریلیوی شہریت دے دی تھی۔ انھوں نے اب تک آسٹریلیا کے لیے تین ایک روزہ میچ اور دو ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے ہیں تاہم ابھی تک ٹیسٹ میں نمائندگی نہیں کی ہے۔ انھوں نے تین ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں تین جبکہ دو ٹی ٹوئنٹی میچوں میں بھی تین ہی وکٹیں حاصل کی ہیں۔ کرکِ انفود پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق فواد احمد نے 36 فرسٹ کلاس میچوں میں 125 وکٹیں حاصل کیں تھیں۔ اس سے پہلے پاکستانی نژاد عثمان خواجہ بھی ایشز سیریز میں آسٹریلیا کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ |
140110_kenya_airstrike_alshabab_tk | https://www.bbc.com/urdu/world/2014/01/140110_kenya_airstrike_alshabab_tk | کینیا: فضائی حملے میں 30 شدت پسند ہلاک | کینیا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک فضائی حملے میں شدت پسند تنظیم الشباب کے کمانڈروں سمیت 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ | شدت پسند تنظیم الشباب القاعدہ سے منسلک ہے اور وہ وہاں سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے یہ حملہ کینیا اور ایتھیوپیا کی سرحد کی قریب کیا گیا ہے۔ صومالیہ کی تنظیم ’الشباب‘ کیا ہے؟ نیروبی: ’حملہ آوروں میں امریکی، برطانوی شامل تھے‘ مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق اس حملے میں کم سے کم دس افراد ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حملے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ کینیا کے ہزاروں فوجی صومالیہ میں موجود ہیں۔ وہ الشباب کے خلاف لڑائی میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ صومالیہ میں سرگرم شدت پسند تنظیم الشباب القاعدہ سے منسلک ہے اور وہ وہاں سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ انھوں نے گذشتہ برس کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک شاپنگ سنٹر میں کینیائی فوج کی صومالیہ میں موجودگی کی وجہ سے حملہ کیا تھا۔ اس میں 67 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کینیا کی دفاعی فوج نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ فضائی حملے میں شدت پسندوں کی کم سے کم پانچ گاڑیاں اور دوسرے اہم اثاثے تباہ ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے کمانڈروں کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ فوج کے ترجمان کے مطابق الشباب کے رہنما مختار علی زبیر المعروف احمد گوڈین فضائی حملے سے 30 منٹ قبل وہاں سے نکل گئے تھے۔ الشباب نے تاحال اس حملے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیاہے۔ |
040821_england_won_fz | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/08/040821_england_won_fz | انگلینڈ کی مسلسل ساتویں کامیابی | انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے لارڈز کے کرکٹ کے میدان پر آخری ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کو دس وکٹوں سے شکست دے کر ویسٹ انڈیز کو سریز میں ’وائٹ واش‘ کردیا ہے۔ | آخری ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ویسٹ انڈیز نے شدید مزاحمت کی جس میں کرس گیل نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں دسویں تیز ترین سنچری بھی بنائی لیکن وہ بھی ویسٹ انڈیز کو شکست سے نہ بچا سکی اور پوری ٹیم تین سو اٹھارہ رن بنا کر آوٹ ہو گئی۔ انگلینڈ کی نپی تلی بالنگ کے خلاف ویسٹ انڈیز شکست سے بچنے میں ناکام رہے بلکہ وہ اننگز کی شکست سے بچے میں کامیاب ہو گئے۔ کرکٹ کی تاریخ میں انگلینڈ نے پچہتر سال میں پہلی مرتبہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ساتویں مسلسل کامیابی حاصل کی ہے۔ انگلینڈ کے تیز رفتار بالر جیمز اینڈرسن جو کہ گزشتہ کئی میچوں میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے اس میچ میں برائن لارا اور کرس گیلز کو آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ سٹیو ہارمیسن نے اس سیریز میں سترہ وکٹیں حاصل کیں اور اس میچ میں انہوں نے ایک سو اکیس رن دے کر نو وکٹ حاصل کئیں۔ ویسٹ انڈیز نے پہلی انگز میں ایک سو باؤن رن بنائے تھے جس کے جواب میں انگلینڈ نے چار سو ستر رن بنائے۔ دوسری اننگز میں ویسٹ انڈیز تین سو اٹھارہ رن بناسکی اور میچ جیتنے کے لیے انگلینڈ کو صرف ایک رن بنانے کی ضرورت تھی۔ |
060609_virtual_replay_help_zs | https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/06/060609_virtual_replay_help_zs | ورچوئل ری پلے ہیلپ گائیڈ | ورچوئل ری پلے کیسے دیکھا جائے؟میچ یا اس کے کسی حصے کا ورچوئل ری پلے چلانے کے لیئے ٹائم لائن پر دیئے گئے آئیکونز یا ٹیکسٹ کمنٹری میں موجود’واچ اینیمیشن‘ کے لنک پر کلک کر کے اسے سلیکٹ کریں۔ | جب میچ براہ راست نشر کیا جا رہا ہوگا تو آپ تمام شاٹوں، گولوں اور دیگر اہم واقعات کی بنیادی اینیمیشن دیکھ سکیں گے۔ بعض اوقات میچ کے خاتمے کے بعد آپ چنندہ واقعات کی مکمل اور تفصیلی اینیمیشن بھی ملاحظہ کر سکیں گے اور اس کے لیئے آپ کو ’ڈیٹیل ٹیب‘ میں ’ہائی لائٹس ‘ کی آپشن پر کلک کرنا ہوگا۔ آپ اپنی پسندیدہ کیمرہ پوزیشن بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ ہر میچ کی اینیمیشن تین سو کلو بائیٹ کےحجم کی ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ 56kbps موڈیم پر اینیمیشن کا لوڈنگ ٹائم قریباً تین منٹ ہو گا جبکہ یہی اینیمیشن 512kbps کنکشن پر بیس سیکنڈ میں لوڈ ہو جائے گی۔ شاک ویو پلیئر کی ڈاؤن لوڈنگ اور انسٹالیشنورچوئل پلیئر اینیمیشن چلانے کے لیئے شاک ویو کا پلگ ان ورژن 10 درکار ہے۔ آپ شاک ویو کا تازہ ترین ورژن مندرجہ ذیل لنک پر کلک کر کے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ شاک ویو کی ڈاؤن لوڈنگ میں ناکامی: ممکن ہے کہ آپ کے براؤزر پر شاک ویو پلیئر پہلے ہی خراب حالت میں موجود ہو اور نئے پلیئر کی انسٹالیشن میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہو۔ یہ مسئلہ پرانے شاک ویو پلیئر کو اُن انسٹال کر کے حل کیا جا سکتا ہے۔ ونڈوز اور میک کے لیئے اُن انسٹالر مندرجہ ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کریں۔ مزید تفصیلات کے لیئے آپ نیچے دیے گئے لنک کی مدد سے ویب وائز ڈاؤن لوڈ گائیڈ پر جا سکتے ہیں۔ شاک ویو پلیئر کام نہیں کر رہااگر انسٹالیشن کے باوجود آپ کا شاک ویو پلیئر کام نہیں کر رہا تو ممکن ہے کہ: 1۔ آپ کے براؤزر یا ہارڈ ڈرائیو پر پلیئر کی ایک سے زیادہ نقول موجود ہوں۔ تسلی کر لیں کہ آپ کے ڈاؤن لوڈ کردہ پلگ ان اسی شاک ویو پلیئر میں انسٹال ہوئے ہیں جو آپ استعمال کر رہے ہیں۔ 2۔ آپ اپنے سسٹم اور براؤزر کے لیئے صحیح پلگ ان استعمال نہیں کر رہے ہیں مثلاً ایک 16bit بِٹ کا براؤزر 32bit کا پلگ ان قبول نہیں کرے گا۔ 3۔ آپ کے پاش شاک ویو پلگ ان کا جو ورژن ہے وہ اب کارآمد نہیں۔ پرانے پلگ ان کو اُن انسٹال کریں اور نیا پلگ ان انسٹال کریں اور دیکھیں کہ آپ کا براؤزر اسے سپورٹ کرتا ہے یا نہیں۔ 4۔ اگر یہ سب حل کام نہیں کرتے تو میکرو میڈیا کی ویب سائٹ پر ونڈوز اور میکنٹوش کے صارفین کے لیئے مکمل مدد موجود ہے جس کے لنک نیچے دیئے گیے ہیں۔ پلگ ان پر بی بی سی کی گائیڈ کے لیئے نیچے موجود لنک پر کلک کریں |