id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
0
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
150403_baluchistan_search_operation_sh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/04/150403_baluchistan_search_operation_sh
بلوچستان:سرچ آپریشن میں چھ مبینہ شدت پسند ہلاک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں فرنٹیئر کور نے ایک سرچ آپریشن میں چھ مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
آپریشن کے دوران شدت پسندوں کے حملے میں ایف سی کا ایک اہلکار زخمی ہوا یہ سرچ آپریشن ضلع لورالائی اور ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی میں کیے گئے۔ کوئٹہ میں فرنٹیئر کور کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ان علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ اس اطلاع پر ایف سی نے ان کے خلاف سرچ آپریشن کیا جس میں ایف سی کے 450 اہلکاروں نے حصہ لیا۔ آپریشن کے دوران شدت پسندوں نے ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا جس میں ایف سی کا ایک اہلکار زخمی ہوا۔ ایف سی کی جوابی کاروائی سے دو خود کش بمباروں سمیت 6 شدت پسند ہلاک ہوئے اور آپریشن کے دوران متعدد شدت پسندوں کوگرفتار کر لیا گیا ۔ بیان کے مطابق شدت پسندوں نے بڑی تعداد میں خودکش جیکٹس اورآئی ای ڈیز تیارکر رکھی تھیں جن کو قبضے میں لیا گیا ہے۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسند میختر، تنگی اورسنجاوی کے علاقوں میں عام شہریوں، لیویز اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ لورالائی اورمیختر کے علاقوں سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملوث تھے۔
160207_pls_peshawar_quetta_zz
https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/02/160207_pls_peshawar_quetta_zz
پی ایس ایل:کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فتوحات کا سلسلہ جاری
پاکستان سپر لیگ کے اہم میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پشاور زلمی کو تین وکٹوں سے شکست دے کر ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست رہنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانے والی پاکستان سپر لیگ کے ساتویں میچ میں پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو فتح کے لیے 136 رنز کا ہدف دیا تھا جو اُس نے سات وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ یہ اس ٹورنامنٹ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی لگاتار تیسری فتح اور پشاور زلمی کی پہلی شکست ہے۔ اتوار کی شب کھیلے جانے والے میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد نے ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ پشاور زلمی کے اوپنرز محمد حفیظ اور تمیم اقبال 22 رنز کی شراکت کے بعد 24 کے مجموعی سکور پر اوپر تلے آؤٹ ہوگئے۔ اس کے بعد بھی وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا اور ایک موقعے پر پشاور زلمی کی نصف ٹیم 59 رنز پر پویلین لوٹ چکی تھی۔ تاہم اس کے بعد ڈیرن سیمی اور شاہد یوسف کے درمیان 57 رنز کی شراکت داری کی وجہ سے پشاور کی ٹیم قدرے بہتر ہدف فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ سمی نے سب سے زیادہ 48 رنز بنائے اور شاہد یوسف 21 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے آل راؤنڈر محمد نواز نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے 136 رنز کے تعاقب میں بیٹنگ شروع کی تو 35 کے مجموعی سکور پر اس کے اوپنرز احمد شہزاد اور لیوک رائٹ بھی آؤٹ ہو گئے۔ ایسے میں کیون پیٹریسن نے ذمہ دارانہ انداز میں بیٹنگ کی اور ساتھی بلے بازوں کے ساتھ مل کر سکور آگے بڑھایا۔ 18ویں اوور میں میچ اُس وقت دلچسپ ہو گیا جب پیٹرسن 35 رنز بنا کر جنید خان کی گیند پر آؤٹ ہوگئے۔ آخری اوور میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو چھ رنز درکار تھے جو اُس نے پانچویں گیند پر حاصل کر لیے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے سعید اجمل نے تین وکٹیں حاصل کیں اسلام آباد یونائیٹڈ کی پہلی فتح اس سے پہلے اتوار کو ہی کھیلے جانے والے لیگ کے چھٹے میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کراچی کنگز کو دو رنز سے شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پہلی فتح حاصل کی۔ کراچی کنگز نے ٹاس جیت کر اسلام آباد یونائیٹڈ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی جس نے 8 وکٹوں کے نقصان پر 132 رنز بنائے۔ جواب میں کراچی کنگز 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 130 رنز ہی بنا سکی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے خالد لطیف 39 رنز بنا کر نمایاں بلے باز رہے۔ اس کے علاوہ شرجیل خان نے 28 رنز بنائے۔ کراچی کنگز کی جانب سے بولنگ میں بوپارا نے دو کٹیں حاصل کیں۔ جواب میں کراچی کنگز کی اننگز کا آغاز اچھا نہیں تھا اور تین کے سکور پر اس کے دو کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس اننگز میں جہاں تین کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے وہیں پانچ کھلاڑیوں کا سکور دہرے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے سعید اجمل 3 اوورز میں تین وکٹیں حاصل کر کے نمایاں بولر رہے۔
140213_balochistan_mass_grave_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/02/140213_balochistan_mass_grave_fz
خضدار میں اجتماعی قبر کا معائنہ
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبر کی تحقیقات کرنے والے ٹریبونل کے جج نے جمعرات کو خضدار کے علاقے توتک میں اس مقام کا معائنہ کیا ہے جہاں سے 13 افراد کی تشدد زدہ لاشیں بر آمد ہوئی تھیں۔
پشین کے علاقے سے بھی ایک لاش برآمد ہوئی ہے دوسری جانب صوبے کے مرکزی شہر کوئٹہ اور پشین سے مزید چار افراد کی تشدد زدہ لاشیں بر آمد ہوئی ہیں۔ محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹریبونل کے جج مسٹر جسٹس محمد نور مسکانزئی نے انتہائی سخت سیکورٹی میں جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ اہلکار نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے تین سو گولیوں کے خول بھی ملے ہیں جو شاید ان افراد کو ہلاک کرنے کے لیئے استعمال کیئے گئے ہوں جن کی لاشیں اجتماعی قبر سے ملی تھیں۔ ٹریبونل نے خضدار میں سات افراد کے بیانات کو بھی ریکارڈ کر لیا جن کا تعلق خضدار اور آواران سے تھا۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شہک بلوچ اس ٹریبونل کی معاونت کر رہے ہیں۔ ان کے کوئٹہ میں واقع گھر میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب 6افراد داخل ہوئے تھے۔ بظاہر یہ افراد ان کے گھر میں چوری یا ڈکیتی کی غرض سے داخل ہوئے تھے لیکن شہک بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ا ن کی حرکات و سکنات سے یہ لگتا تھا کہ وہ چوری یا ڈکیتی کی غرض سے نہیں آئے تھے بلکہ ان کا مقصد دھمکانا یا خوفزدہ کرنا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شور سننے کے بعد محلے کے لوگو ں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی جس کے باعث گھر پر آنے والے افراد فرار ہوگئے تاہم پولیس نے قریبی چوک سے ان میں سے دو افراد کو گرفتار کر لیا۔ سیٹلائٹ ٹاؤ ن پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان میں سے مزید تین افراد کو جمعرات کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔ ادھر کوئٹہ اور اس کے گردونواح سے مزید چار افراد کی تشدد زدہ لاشیں بر آمد ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کی لاش پشین کے علاقے بوستان سے ملی۔ پشین انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے شخص کے سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے شخص کے ہاتھ پلاسٹک کی ہتھکڑیو ں میں بندھے ہوئے تھے جن پر میڈ ان یو ایس اے لکھا ہوا تھا۔ دوسرے شخص کی لاش کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد سے ملی جبکہ دو دیگر افراد کی لاشیں گزشتہ شب مشرقی بائی پاس کے علاقے سے ملیں جو کہ ناقابل شناخت ہیں۔ ادھر شورش سے متاثرہ ڈیرہ بگٹی میں فرٹیئر کور بلوچستان نے دو علاقوں چھبدر اور ڈے وڈھ میں سرچ آپریشن کے دوران چھ افراد ہلاک کر نے کا دعوی کیا ہے ۔ ایف سی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ کارروائی ڈیرہ بگٹی انتظامیہ اور امن فورس کے ہمراہ کی گئی۔ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد گیس پائپ لائنوں کو اڑانے اور دیگر تخریبی کاروائیوں میں ملوث تھے۔
061116_tahir_commuted_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/11/061116_tahir_commuted_fz
پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے برطانوی شہری مرزا طاہر حسین کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایوان صدر کے ایک سینئر افسر نے صدر کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے مختلف عدالتوں کی جانب سے مختلف نتائج اخذ کرنے، طویل مدت تک قید رہنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسا کیا ہے۔ لیڈز میں رہائش پذیر مرزا طاہر حسین کے خاندان نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ جلد ہی پاکستانی جیل سے رہا ہو کر برطانیہ آ جائیں گے۔ لیڈز میں اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے مرزا طاہر حسین کے بھائی مرزا امجد حسین نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اٹھارہ سال سے جاری مصیبت کے اس طویل دور کا خاتمہ ہونے کو ہے۔ ’ہم اس خبر کا انتظار کر رہے ہیں کہ آخر کار طاہر ہمارے پاس آ سکے گا اور اپنی زندگی کو ایک نئے سرے سے شروع کر سکے گا۔ ہم امید ہے کہ یہ خبر جلد آئے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پرنس چارلس کی مداخلت بہت اہم ثابت ہوئی ہے۔ دوسری طرف شہزادہ چارلس کی سرکاری رہائش گاہ کلیرنس ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پرنس چارلس نے مرزا طاہر حسین کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے فیصلہ پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے۔ صدر کا یہ فیصلہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے پاکستان پہنچنے سے تین روز قبل سامنے آیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی مشاورت کے بعد وزیراعظم نے صدر کو سفارش کی تھی کہ مرزا طاہر کی سزا عمر قید میں تبدیل کی جائے۔ حکام کے مطابق ملزم کی رہائی کسی بھی وقت متوقع ہے۔ واضح رہے کہ برطانوی حکومت اور انسانی حقوق کے کئی اداروں نے بھی طاہر حسین کی موت سزا پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی تھی۔ مرزا طاہر حسین گزشتہ اٹھارہ سال سے ایک ٹیکسی ڈرائیور جمشید خان کے قتل کے جرم میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ مرزا طاہر حسین ٹیکسی ڈرائیور کے قتل سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے ان سے جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ملزم مرزا طاہر حسین کی اپیل سپریم کورٹ رد کرچکی ہے اور صدر نے بھی ان کی رحم کی اپیل پہلے مسترد کردی تھی اور ان کی پھانسی پر چار بار عمل درآمد روک دیا تھا۔ ادہر مقتول ڈرائیور کے چچا صحبت خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدر کے فیصلے کو پاکستانی عدالتوں کی توہین قرار دیا اور کہا کہ وہ اس بارے میں قانونی چارہ جوئی کے لیے اپنے وکیل سے مشاورت کریں گے۔ یاد رہے کہ مرزا طاہر کو معاف کرنے کے لیے مقتول کے اہل خانہ کے پاس حکمران مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور کئی جرگے گئے تھے۔ اہل خانہ کو خون بہا دینے سمیت مختلف مراعات کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا تھا۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالےسے کہا کہ اب یہ وزارتِ قانون پر منحصر ہے کہ مرزا طاہر حسین کو کب رہا کیا جاتا ہے۔
051108_bangla_ferry_capsize_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/11/051108_bangla_ferry_capsize_ra
بنگلہ دیش: کشتی ڈوبنے سے25 ہلاک
بنگلہ دیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک کشتی ڈوبنے سے کم از کم پچیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والی مال براد کشتی تھی جس میں ایک سو بیس مسافر بھی بیٹھا لیے گئے تھے۔ یہ کشتی جزیرہ سواندیپ سے جنوبی شہر چٹاگانگ جا رہی تھی۔ اکثر مسافروں کو پیچھے آنے والی کشتی نے بچا لیا۔کشتی کے مسافر اپنے آبائی جزیرہ سواندیپ میں عید کی چھٹیاں گزار کر واپس چٹاگانگ میں واپس آ رہے تھے۔ کوسٹ گارڈ نے کہا کہ مسافروں کو بچانے کے لیے فوراً آپریشن شروع کر دیا گیا تھا لیکن خراب موسم ان کے آڑے آ رہا ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ کشتی گنجائش سے زیادہ مسافر بٹھانے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہر سال کشتی ڈوبنے کے واقعات میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہاں کشتیاں انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہیں اور ان پر مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں۔
140910_us_father_killed_childern_rk
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/09/140910_us_father_killed_childern_rk
امریکی باپ بچوں کے قتل کرنے کے الزام میں گرفتار
امریکہ پولیس نے ایک شخص کو اپنے پانچ بچوں کو قتل کرنے کے شبہے میں گرفتار کر لیا ہے۔
مقامی میڈیا کےمطابق روئے جونز نے اپنے پڑوسیوں کو بتایا تھا کہ وہ کسی دوسری ریاست منتقل ہو رہے ہیں خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ٹموتھی روئے جونز کو اپنی ریاست ساؤتھ کیرولینا میں کئی الزامات کا سامنا ہے۔ انھیں سنیچر کو میسسپی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سے آٹھ سال کے عمر کے پانچ بچوں کی گمشدگی کی اطلاع اس وقت دی گئی جب ان کی ماں نے پولیس کو بتایا کہ ان کا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حکام کو بچوں کی لاشیں سارے دن کی تلاشی کے بعد ملیں جنھیں الاباما کی سڑک کے قریب دفنایا گیا تھا۔ الاباما کے محکمۂ عوامی تحفظات کے ترجمان سٹیو جاریٹ نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ٹموتھی روئے جونز تفتیش کاروں کو اس جگہ پر لے کر گئے تھے۔ میسسیپی کی سمتھ کاؤنٹی کے پولیس سربراہ چارلی کرمپٹن نے صحافیوں کو بتایا کہ جونز کو سنیچر کے روز ایک چیک پوسٹ پر روکا گیا اور معلوم ہوا کہ وہ نشے میں گاڑی چلا رہے تھے۔ چارلی کرمپٹن نے کہا کہ ایک پولیس اہلکار نے ان کی کار سے مقامی طور پر نشہ آور دوا تیار کرنے کا مواد برآمد کیا۔ تفتیش کاروں کو روئے جونز کی گاڑی میں بلیچ، تیزاب، خون اور ممکنہ طور پر انسانی جسم کی رطوبت بھی ملی۔ جب پولیس نے قومی ڈیٹا بیس پر ان کاریکارڈ چیک کیا تو وہ اپنے بچوں کے لاپتہ ہونے کے معاملے میں مطلوب تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق روئے جونز نے ساؤتھ کیرلینا میں اپنے پڑوسیوں کو بتایا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ہمراہ کسی دوسری ریاست منتقل ہو رہے ہیں۔
150210_dehli_election_reactions_tim
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/02/150210_dehli_election_reactions_tim
دہلی میں ’آپ‘ کی جیت عام آدمی کی جیت
بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرنے والے رہنما اروِند کیجریوال کی دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی بھارتی دارالحکومت میں ہر ایک کی زبان پر ہے۔
عام آدمی پارٹی کی جیت کو عوام کی جیت قرار دیا جا رہا ہے اروِند کیجریوال کے ہزاروں حامیوں نے پارٹی کے دفتر کے باہر جشن منایا، مٹھایاں بانٹیں، گانے گائے اور رقص کے ساتھ آتش بازی بھی کی۔ بہت سے بھارتی شہریوں نے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر اس کامیابی کے بارے میں رائے دینے کو ترجیح دی اور AAPSweep# کے علاوہ DehliDecides# اور KiskiDehli# کے ہیش ٹیگ استعمال کیے جو بھارت میں ٹاپ ٹین ٹرینڈز میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایک دن قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر شکست تسلیم کرتے ہوئے ٹویٹ کی۔ میں نے ارونِد کیجریوال کو فون کر کے کامیابی پر مبارک باد دی اور انھیں مرکز کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اس کے بعد مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار کرن بیدی نے بھی ٹوئٹر پر اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ٹویٹ کی۔ اروِند کو پورے نمبر۔ مبارکباد۔ اب دہلی کو نئی بلندیوں پر لے جائیے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اسے ایک عالمی معیار کا شہر بنا دیں دوسرے کئی سیاست دانوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں نے ٹوئٹر پر اروند کیجریوال کو مبارکباد دی جن میں کشمیر کے سابق وزیرِاعلیٰ عمر عبداللہ بھی شامل تھے۔ زبردست، بہت بہت مبارکبار دہلی کو اور عام آدمی پارٹی کو اور اروِند کیجریوال کے لیے اگلے پانچ سال کے لیے نیک تمنائیں بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائے قریشی نے عام آدمی پارٹی کے رہنما کو آگے آنے والے چیلنج یاد دلائے۔ مبارک ہو اروِند کیجریوال۔ آپ کا کام شروع ہوا۔ یاد رکھیں کہ بھارتی ووٹر دنیا کا سمارٹ ترین ووٹر ہے طلب کرنے والے، معاف نہ کرنے والا اور بے صبرا۔ دہلی کی سڑکوں پر رکشہ چلانے والے پون بسواس نے کہا کہ انھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیا مگر خوش ہیں کہ عام آدمی پارٹی جیتی ہے۔ پون بسواس نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا پون نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’میں نے بی جے پی کو ووٹ اس لیے دیا کیونکہ میں نے سوچا کہ جب تک مرکزی حکومت کی حمایت نہ ہو، دہلی کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ مگر میں خوش ہوں کہ میرے ووٹ نے بی جے پی کو کامیابی نہیں دلائی۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی میرے جیسے عام آدمی کی کامیابی ہے میں اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگلے پانچ سال تک کیجریوال کو دہلی کے عوام کی خدمت کرنی چاہیے اور شہر سے بدعنوانی کا خاتمہ کر کے مہنگائی کم کرنی چاہیے۔‘ ڈولی دارالحکومت کی میونسپل کارپوریشن کے لیے خاکروب کے طور پر کام کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عام آدمی پارٹی کی جیت میرے جیسے ’جھاڑو پھیرنے والے‘ لوگوں کی کی جیت ہے۔ عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان جھاڑو تھا جس کے بارے میں پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ شہر سے بدعنوانی کے خاتمے کی علامت ہے۔ ڈولی دہلی کی سڑکوں پر جھاڑو پھیرتی ہیں جو عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان بھی ہے ڈولی نے کہا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں جیتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہمارے مسائل کے لیے کام کریں گے جیسا کہ بجلی، پانی اور رہائش کے مسائل۔ انھوں نے وعدے کیے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ وعدے پورے کریں گے۔ ہم تبدیلی کی تلاش میں ہیں، کانگریس یا بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ کسی اور جماعت کی تلاش میں جو اب ہمارے پاس ہے۔‘ ڈولی نے امید ظاہر کی کہ ’وہ یقینی بنائیں گے کہ شہر میں بدعنوانی پر مکمل پابندی ہو۔ مگر ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ نئی حکومت دہلی کو کیسےچلائے گی۔‘ دہلی حکومت کے ملازم جیون سنگھ نے کہا کہ انتخابات کے نتائج ’وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا مگر کیا اسی کو ہی جمہوریت نہیں کہتے؟‘ یاشیکا شرما کو امید ہے کہ کیجریوال دہلی کو خواتین کے محفوظ بنائیں گے یونیورسٹی کی 19 سالہ طالبہ یاشیکا شرما کو کیجریوال سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کیجریوال دہلی کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے کے وعدے کو پورا کریں گے۔ میں شہر میں مزید سی سی ٹی وی کیمرے چاہتی ہوں، خواتین کے لیے مخصوص بسیں، خواتین کے لیے مزید بیت الخلا اور بہتر پولیسنگ بھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’سکولوں اور کالج میں داخلہ لینا مصیبت سے کم نہیں۔ بہت کم کالج ہیں اور بہت سارے طلبہ ہیں۔ امید ہے کالجوں میں داخلہ لینے کے عمل کوآسان بنایا جائے گا کیونکہ کیجریوال نے مزید کالج کھولنے کا وعدہ کیا ہے۔ مجھے ان کے تصورات پر پکا اعتماد ہے۔‘ جے مشرا کی عمر 21 سال ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ عام آدمی پارٹی جیت گئی ہے کیونکہ یہ ’نوجوانوں کو بنیاد بنانے‘ والی پارٹی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جماعت میں بہت سی توانائی ہے اور اس کے زیادہ تر امیدوار پڑھے لکھے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی جیت نے ہمیں امید دلائی ہے کہ اب حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ شہر کو ایک دیانت دار اور شفاف حکومت کی ضرورت ہے۔‘ بی بی سی ہندی کے نامہ نگاروں شالو یادو، نتن سری واستوا اور سلمان روی کی رپورٹنگ۔
040719_honor_killing_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040719_honor_killing_ra
غیرت کے نام پر ایوان میں جھگڑا
پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومتی اراکین غیرت کے نام پر قتل یا ’کاروکاری‘ کی رسم کے معاملے پر آپس میں الجھ گئے۔ حکومتی ارکان ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے جس پر ایوان میں شدید ہنگامہ ہوگیا اور اسپپیکر نے اجلاس کی کاروائی منگل کی صبح تک ملتوی کردی۔
پیر کی شام حکمران جماعت کے اراکین کشمالہ طارق، گل فرخندہ، گیان سنگھ اور دیگر نے توجہ دلاؤ نوٹس پر صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے ایک جوڑے کو پسند کی شادی کرنے پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیوں کا معاملہ ایوان میں اٹھایا۔ حکومت کے حامی اراکین کا کہنا تھا کہ پسند کی شادی کرنے والوں کو غیرت کے نام یعنی کارو کاری کی رسم کے تحت قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے حکومت سے وضاحت پوچھی کہ ضلع نوشہرو فیروز کے پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ وفاقی وزیرنوریز شکور نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور وہ سندھ حکومت سے بات کریں گے۔ کشمالہ طارق اور دیگر کا کہنا تھا کہ سولنگی برادری کے با اثر لوگ جوڑے کو کارو کاری کی رسم کے تحت قتل کرنا چاہتے ہیں جو کہ ان کے بقول غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کارو کاری کی رسم ختم کرنے کے بارے میں بات شروع کی، جس پر مسلم لیگ کے سندھ سے رکن اسمبلی سردار سلیم جان مزاری نکتۂ اعتراض پر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے کارو کاری رسم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کارو کاری کی رسم کے خلاف بات کرنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ رسم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رسم کو ختم کرنے کی بات کرنے کی اجازت دے کر ان کے بقول بے غیرتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سردار سلیم جان مزاری کی طرف سے کاروکاری کا دفاع کرنے پر حکومت اور حزب اختلاف کے کئی اراکین بالخصوص خواتین کھڑی ہوگئیں اور سلیم جان مزاری کے خلاف بولنا شروع کردیا۔ اس دوران سرکاری اراکین ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور ایوان میں شدید شور شرابہ اور ہنگامہ ہوگیا۔ حکومت کی حامی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نے موضوع پر بات کرنے ی اجازت نہ ملنے پر ایوان سے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔ ایوان میں شور شرابہ بدستور جاری رہا اور جب کسی نے اسپیکر کی بات نہیں سنی تو انہوں نے اجلاس کی کاروائی منگل کی صبح تک ملتوی کردی۔ واضع رہے کہ پینتالیس سالہ غلام مصطفی ٰ اور چوالیس سالہ آمنت جو کہ دونوں سولنگی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹرز ہیں ، انہوں نے قتل کی دھمکیوں کے خلاف پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ چند روز قبل پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات نے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بتایا تھا کہ گذشتہ چھ برسوں میں پاکستان کے اندر غیرت کے نام پر 4101 افراد کو قتل کیا گیا جس میں ستائیس سو چوہتر خواتین شامل تھیں۔
151102_rsf_pak_embassy_streets_rwa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/11/151102_rsf_pak_embassy_streets_rwa
’پیرس کی سڑک کا نام پاکستانی صحافی کے نام پر‘
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز نے صحافیوں کے خلاف بغیر مواخذے کے جرائم کرنے والوں کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر پیرس کی 12 شاہراہوں کو ایسے صحافیوں کے نام منسوب کیا ہے جو قتل، تشدد یا گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں۔
پاکستان کے صحافی سلیم شہزاد کے نام سے بھی ایک شاہراہ کو منسوب کیا گیا ہے جن شاہراہوں کا نام تبدیل کیا گیا ہے ان پر ان ممالک کے سفارت خانے واقع ہیں جہاں متاثرہ صحافیوں کو ناکردہ جرائم کی سزائیں دی گئیں۔ حامد میر پر حملے کی تحقیقات پر ابہام دور کرنے کا مطالبہ ’بلوچ مسلح گروہ صحافیوں کے قتل میں ملوث‘ تنظیم نے پیرس میں پاکستانی سفارت خانہ جس سڑک پر واقع ہے اسے صحافی سلیم شہزاد کے نام سے موسوم کیا گیا ہے رپورٹرز ودآؤٹ بورڈرز کے مطابق اس عمل کا مقصد ان ممالک کی ناکامی کو دنیا کے سامنے لانا ہے جنھوں نے صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر کوئی کارروائی نہیں کی، اور انھیں یاددہانی کروانا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز ان 12 شاہراہوں کو صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو نمایاں کرنے کے لیے علامت کے طور پر استعمال کر رہی ہے کیونکہ تنظیم کے خیال میں صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والے افراد نامناسب سرکاری تحقیقات اور حکومت کی سرد مہری کی وجہ اکثر اوقات سزا سے بچ جاتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق صحافیوں کے خلاف ہونے والے 90 فیصد سے زائد جرائم کے مقدمات کبھی بھی حل نہیں ہوتے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کی مہم کی حمایت اس ویب سائٹ http://fightimpunity.orgwebsite کو وزٹ کریں۔ تنظیم کے مطابق اس ویب سائٹ پر آنے سے لوگوں کو لنبان کے صحافی صامر کثیر، فرانس کے گے آندرے کیفر اور میکسیکو کی ماریہ ایشٹر کے خلاف بلا سزا جرائم کی تفصیلات مل جائیں گی۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کی سیکریٹری جنرل کرسٹوف ڈیلوئر کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کر کے بچ جانے والوں کے مقدمات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند حکومتوں نے جان بوجھ کر ان مقدمات میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ تنظیم کے مطابق گذشتہ دس سالوں کے دوران تقریباً 800 صحافیوں کو ان کے کام کے دوران ہلاک کیا گیا جبکہ رواں برس کے آغاز سے اب تک 48 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
150130_saudi_cabinet_reshuffle_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/01/150130_saudi_cabinet_reshuffle_zs
سعودی کابینہ میں تبدیلیاں، سابق بادشاہ کے دو بیٹے بھی گورنر نہ رہے
سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ملک کی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا ہے۔
شاہ سلمان کی اولین ترجیح ملک میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال کو برقرار رکھنا ہے انھوں نے ملک میں انٹیلی جنس کے سربراہ اور قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ مکہ اور ریاض کے گورنر بھی بدل دیے گئے ہیں۔ تاہم دفاع، تیل اور خارجہ جیسی اہم وزارتوں کے ذمہ داران اپنے عہدے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق جمعرات کو جاری ہونے والے شاہی فرمان کے مطابق خالد بن بندر بن عبدالعزیز کی جگہ جنرل خالد بن علی کو ملک کے خفیہ ادارے کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جن کا عہدہ وزیر کے برابر ہو گا۔ ایک اور فرمان میں سابق شاہ عبداللہ کے بھتیجے اور امریکہ میں 22 برس تک سعودی عرب کے سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان کو قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل اور بادشاہ کے مشیر کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ شاہ سلمان نے بادشاہ بننے کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا نیا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا 79 سالہ شاہ سلمان نے اپنے سوتیلے بھائی اور سابق بادشاہ کے دو بیٹوں کو بھی ان کی عہدوں سے سبک دوش کر دیا ہے۔ ان میں سے شہزادہ مشعال مکہ اور شہزاد ترکی دارالحکومت ریاض کے گورنر تھے۔ تاہم شاہ عبداللہ کے ایک اور بیٹے شہزادہ متعب نیشنل گارڈ کے انچارج وزیر کی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ شاہ سلمان کی 31 رکنی کابینہ میں ثقافت اور اطلاعات، سماجی امور، سول سروس، انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی وزارتوں پر نئے چہرے سامنے آئے ہیں۔ تاہم ملک کے وزیرِ تیل علی النعیمی، وزیرِ خارجہ شہزاد سعود الفیصل اور وزیرِ خزانہ ابراہیم العصاف کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔ نامہ نگاروں کے مطابق تیل کی وزارتِ پر علی نعیمی کو برقرار رکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صنعت کے لیے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی سرحد پر دولتِ اسلامیہ تو دوسری پر القاعدہ اور شیعہ باغی موجود ہیں خیال رہے کہ شاہ سلمان نے بادشاہ بننے کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا نیا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ 69 سالہ شہزادہ مقرن کو ولی عہد اور وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو نائب ولی عہد بنانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا اور وہ شہزادوں کے نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ اس وقت سعودی عرب اندرونی اور بیرونی طور پر کئی مشکلات کے گھیرے میں ہے اور شاہ سلمان کی اولین ترجیح ملک میں سکیورٹی کی صورت حال کو قائم رکھنا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل کے تحت شاہ عبداللہ کے برعکس بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر قدرے کم مائل ہوں۔ سعودی بادشاہ کو اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی کا مسئلہ ہے اور امکان یہی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ وہ اپنے پیشرو کے برعکس سماجی اصلاحات کرنے کے زیادہ حامی نہیں ہیں۔
060731_hockey_secretary_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/07/060731_hockey_secretary_zs
اختر پی ایچ ایف کے نئے سیکرٹری
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر طارق کرمانی نے سابق اولمپیئن اخترالاسلام کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا نیا سیکرٹری مقرر کیا ہے۔
وہ دو اگست کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ اخترالاسلام نے سنہ 1969 سے 1975 تک پاکستانی ہاکی ٹیم کی نمائندگی کی اور اس عرصے میں پاکستان نے کئی بین الاقوامی اعزاز حاصل کیئے۔فل بیک کی پوزیشن پر کھیلنے والے اخترالاسلام کے گول کی بدولت ہی پاکستان نے ہاکی کا پہلا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1971 میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہونے والے پہلے عالمی کپ کے فائنل میں پاکستان کی ٹیم نے صفر کے مقابلے ایک گول سے فتح حاصل کی تھی اور یہ واحد گول اخترالاسلام نے پنلٹی کارنر پر کیا تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اخترالاسلام نے چھ سال تک پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کی اور وہ 1975 سے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن میں مارکیٹنگ کے شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اختر اس وقت پی آئی اے کے کراچی آفس میں جنرل مینجر مارکیٹنگ کے عہدے پر فائز ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نئے مقرر کردہ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ وہ اس تقرری پر بہت خوش ہیں اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر طارق کرمانی کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ان پر اعتماد کیا۔ تاہم وہ اس عہدے کو اپنے لیئے ایک آزمائش بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں ہاکی کے حالات بہتر نہیں۔ اخترالاسلام نے کہا کہ وہ ہر فیصلے میں میرٹ اور صرف میرٹ کو ملحوظ رکھیں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ ہر کام شفاف اور باوقار طریقے سے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ میں ہر اس شخص کو خوش آمدید کہوں گا جو پاکستان میں ہاکی کے کھیل کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاکی سے وابستہ لوگوں سے ان کا کبھی کوئی اختلاف نہیں اور وہ خود کو ایک غیر متنازعہ شخص سمجھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ایسے اقدامات کیئے جائیں جن سے پاکستان کی ہاکی کا سنہری دور واپس لایا جا سکے۔ یاد رہے کہ چھ سال تک پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری رہنے والے بریگیڈئر ریٹائرڈ مسرت اللہ خان نے فیڈریشن کے صدر کو اپنا استعفٰی دے دیا تھا اور ان کے استعفے کا سبب پاکستان کی ہاکی ٹیم کا کارکردگی کا مسلسل گرتا ہوا معیار بتایا گیا تھا۔
070929_journalist_protest_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070929_journalist_protest_si
صحافیوں کا احتجاج، وزیر کی پٹائی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر سنیچر کو ہونے والے ہنگامے میں پولیس نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم ایک مشتعل ہجوم کے تھپڑوں اور گھونسوں کا نشانہ بن گئے۔
قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کو چند مشتعل افراد نے پولی کلینک میں تشدد کا نشانہ بنایا بعد ازاں پولی کلینک کے ڈاکٹروں نے انہیں مشتعل ہجوم سے نکال کر ایک کمرے میں چھپا دیا۔ جب اس واقعہ کی اطلاع اعلی حکام کو دی گئی تو انہوں نے پولیس کی بھاری نفری کو پولی کلینک بھیجا اور ان افراد کو پولیس کی حفاظت میں نکال لیا گیا۔ پولیس کے تشدد کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے صحافیوں نے سنیچر کے روز وزیر اعظم شوکت عزیز کی طرف سے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اس کے علاوہ اتوار کے روز یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس کے تشدد اور پتھراو کی وجہ سے بیس سے زائد افراد زخمی ہوگئے جن میں چھ صحافی اور چودہ وکلاء شامل ہیں جبکہ اسلام آباد پولیس کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ وکلاء کی طرف سے ہونے والے پتھراؤ کے باعث دس پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق وزیر مملکت برائے اطلاعات سینیٹر طارق عظیم نے ایک ایمبولنس میں چھپ کر الیکشن کمیشن کے اندر جانے کی کوشش کی تو ایک مشتعل ہجوم نے ان کی پٹائی کر دی۔ اس مشتعل ہجوم سے پولیس نے طارق عظیم کو بچایا اور پولیس کی گاڑی میں بیٹھا کر وہاں سے فرار ہونے میں مدد کی۔ صحافیوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہی کی گاڑی کو بھی روکنے کی کوشش کی لیکن ان کے محافظوں نے صحافیوں کو بندوقوں کے بٹ مار کر گاڑی سے دور رکھا۔ وزیر اعلی کی گاڑی صحافیوں کے ہجوم کو چیرتی ہوئی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ پرویز الہی کی گاڑی کی ٹکر لگنے سے ایک مقامی رپورٹر الطاف بھٹی زخمی ہو گئے۔ انہیں فوری طور پر پولی کلینک منتقل کر دیا گیا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے ایک بار الیکشن کمیشن سے جانے کی کوشش کی لیکن وہ وہاں سے نہ نکل سکے اور اپنی گاڑی سے اتر کر دوبارہ الیکشن کمیشن کی عمارت کے اندر چلے گئے۔ صحافیوں کا احتجاج اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹیم پر تشدد کیا اور انہیں زخمی کر دیا۔ صحافیوں کے نمائندوں کے مطابق پولیس تشدد سے ایک درجن سے زائد صحافی، کیمرہ مین اور معاون عملے کے افراد زخمی ہوئے ہیں اور انہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز گروپ سے تعلق رکھنے والے پچیس سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرکے قریبی تھانوں میں منتقل کردیا۔ ادھر پولیس نے علی احمد کُرد سمیت متعدد وکلاء کو رہا کردیا ہے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے صدارتی اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے موقع پر امن وامان قائم رکھنے کے لیے پنجاب پولیس کے پندرہ سو سے زائد پولیس اہلکاروں کو شہر میں طلب کیا تھا۔ بی بی سی رپورٹنگ ٹیم انتخاب امیر، اعجاز مہر اور شہزاد ملک
070128_china_failing_na
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/01/070128_china_failing_na
چین: ماحولیاتی ناکامی کا اقرار
چینی حکومت نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ چین ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال بہتر بنانے یا ماحول کو محفوظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین دنیا کے ان بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں ماحولیات سے متعلق ضروری اقدامات نہیں کیے گئے اور سن 2004 سے اب تک صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکہ کے بعد چین وہ دوسرا بڑا ملک ہے جہاں زہریلی یا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج، گندے پانی کی نکاسی اور پینے کے صاف پانی اور دیگر عناصر کی فراہمی یا اخراج کا پیمانہ مقرر کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ حکومتی اور اہلکاروں اور ماہرین ماحولیات نے مرتب کی ہے۔ چین کو 118 ممالک کی فہرست میں سواں (100) نمبر دیا گیا ہے۔ تحقیقات کاروں کی ٹیم کے سربراہ ہیچونکی کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے مقابلے میں ماحولیاتی جدت ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ چین کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہے جبکہ دنیا کے تیل کی پیداوار کا صرف 4 فیصد یہاں خرچ ہوتا ہے۔ چین کے حالیہ معاشی منصوبوں کے مطابق ملک کو ہر ہفتے ایک نئے توانائی پیدا کرنے کے کارخانے کی ضرورت ہے جن میں سے بیشتر کوئلے سے چلتے ہیں۔ بیجنگ میں بی بی سی کے نامہ نگار ڈینیئل گرفتھ کے مطابق یہ نئی رپورٹ چین کے رہنماؤں کے لیے باعث پریشانی ہے جنہوں نے بارہا یہ وعدے کیے ہیں کہ وہ ملک کی آلودہ فضا صاف کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ نامہ مگار کا کہنا ہے کہ چین اپنی معاشی ترقی کی قیمت ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں ادا کررہا ہے۔ سنیچر کو برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ڈیووس میں عالمی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ کیوٹو معاہدے کی جگہ ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس کی شقیں مزید سخت ہوں اور اس میں تمام بڑے ممالک شامل ہوں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ایسا کوئی بھی ماحولیاتی معاہدہ ناکامی سے دوچار ہوگا جس میں انڈیا اور چین کی جانب سے رضامندی شامل نہ ہو۔
080825_pmln_meeting_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/08/080825_pmln_meeting_ra
اتحاد رہنا ہے یا نہیں ، فیصلہ آج
حکمران اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ نون کی مرکزی مجلس عاملہ اور پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس سوموار کو اسلام آباد میں ہورہا ہے جس میں مسلم لیگ نون حکمران اتحاد میں رہنے یا اس سے علیحدگی کے علاوہ اور صدارتی امیدوار کے بارے میں فیصلہ کا اعلان کرے گی۔
دوسری جانب سابق حکمران جماعت مسلم لیگ قاف کا اجلاس میں اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں مسلم لیگ قاف صدارتی امیدوار کے نام کا اعلان کرے گی۔ خیال رہے کہ پاکستان میں صدارتی انتخاب چھ ستمبر کو ہو رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی جماعت کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیں۔ آصف زرداری کو ایم کیو ایم،اے این پی اور جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مسلم لیگ نون کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کے بقول اس مشترکہ اجلاس کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ مسلم لیگ نون موجودہ سیاسی صورت حال میں حکمران اتحاد اور صدارتی انتخاب کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کی جائے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے سینچر کو پیپلز پارٹی کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد ناصرف ججوں کی بحالی کے لیے ڈیڈ لائن کو تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی شیڈول کے اعلان کی وجہ سے ججوں کی بحالی سوموار تک کی جائے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نے اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی اور مجلس عاملہ کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوموار کو جج بحال نہ ہونے پر مسلم لیگ نون اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ خیال رہے کہ اتوار کے روز نواز شریف کی رائے ونڈ میں واقع رہائش گاہ پر مسلم لیگ نون کے رہنما سید غوث علی شاہ کے اعزاز میں ایک تقریب ہوئی جس میں احسن اقبال کے بقول اس تقریب میں سات اگست کے اعلان پر عمل درآمد نہ ہونے سے پیدا ہونے والی صورت حال پربات چیت ہوئی اور اس ضمن میں مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ مسلم لیگ نون کے جنرل سیکرٹری اقبال ظفر جھگڑا اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے مطابق پارلیمانی پارٹی اور مجلس عملہ کے مشترکہ اجلاس میں اراکان کی تجاویز کی روشنی میں نواز شریف آئندہ کے لائحہ کا اعلان آج شام چھ بجے میں ایک پریس کانفرنس میں کریں گے۔ خیال رہے کہ ججوں کی بحالی کے لیے اعلان اسلام آباد پر عمل درآمد نہ ہونے پر وکلاء نے احتجاج کے نیا پروگرام کا اعلان کردیا ہے اور اس ضمن میں سوموار سے اعتزاز احسن کے اعلان کے مطابق بار ایسوسی ایشنوں کی عمارتوں پردوبارہ سیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔ صدر پرویز مشرف کے استعفیْ کے بعد بار ایسوی ایشنوں کی عمارتوں سے سیاہ پرچم اتر دیئے گئے تھے۔
040511_cannesfestivaldeals_nj
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/05/040511_cannesfestivaldeals_nj
فلمی میلہ:ہڑتالیوں کے ساتھ معاہدہ
کینز فلمی میلے کے منتظمین نے ہڑتال کرنے والے ان فنکاروں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے جنہوں نے فیسٹیول میں روکاوٹیں پیدا کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یہ فنکار گزشتہ موسمِ گرما سے ہڑتال پر ہیں اور ان اصلاحات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جن کے تحت ان کا بےروزگاری بھتہ کم کر دیا گیا ہے۔اس میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ ان مظاہرین کو فیسٹیول کے دوران اپنے مطالبات پر بیانات دینے کی اجازت دیں گے۔ اور انہیں ایک مقامی تھیئٹر بھی دیا جائے گا جس کو وہ اپنے اجلاس کرنے اور دفتر کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ ملک کے وزیرِ اعظم کی جانب سے مداخلت کے بعد ہوا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ سرکاری امداد کے انچارج جو بےروزگاری بھتہ میں کٹوتی کا منصوبہ بنا رہے ہیں انہیں ان فنکاروں سے بات چیت کرنی چاہئے۔ اس سال جنوری تک فرانس کے ایک لاکھ فنکار اگر سال میں صرف تین ماہ بھی کام کر لیتے تھے تو بے روزگاری بھتے کے حقدار ہوتے تھے لیکن اب نئی تبدیلیوں کے بعد بھتے کی رقم بہت کم کر دی گئی ہے۔ اس منصوبے کا نفاذ اگلے سال سے ہونا ہے۔گزشتہ برس اس تنازعہ کی وجہ سےملک بھر میں کئی پروگرام منسوخ کرنے پڑے تھے۔ گزستہ برس اس تنازعہ کی وجہ سے ملک بھر میں کئی اہم پروگرام منسوخ کرنے پڑے تھے۔
080710_french_quits_iran_deal_rr
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/07/080710_french_quits_iran_deal_rr
ایران میں سرمایہ کاری سے انکار
فرانس کی توانائی کی ایک کمپنی ٹوٹل کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔
اس فرم کے مینیجر کرسٹوف ڈی مرگری نے اخبار فائنینشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کی فرم ایران کے جنوب میں گیس فیلڈز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن اب انہوں نے اپنا یہ منصوبہ ترک کردیا ہے۔‘ کمپنی کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کہ جوہری پروگرام کے تنازع پر تہران کی واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسی دوران ایران نے میزائلوں کے کئی تجربے کیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کی توانائی کی انڈسٹری کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔ ٹوٹل کا شمار ان بڑی مغربی کمپنیوں میں ہوتا ہے جس کے پاس ایران کےگیس کے وسیع ذخائر کو قابل استعمال بنانے کی ٹیکنالوجی موجود تھی اور وہ ایران میں سرمایہ کاری میں سنجیدہ تھی۔ تہران میں بی بی سی کے نامہ نگار جان لینی کا کہنا ہے کہ ٹوٹل کے اس پروجیکٹ سے ایران کو خلیج سے گیس کی وسیع مقدار حاصل کرنے میں مدد ملتی اور یہی پروجیکٹ اس کو دنیا میں توانائی مہیا کرنے والے سب سا بڑا ملک بنا دیتا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹوٹل کا یہ اقدام صرف اقتصادی پابندیوں یا سیاسی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ بڑے بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہ ہونا بھی ہے۔ اس سے قبل بدھ کے روز ایران نےطویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل ’شہاب سوئم‘ کا تجربہ کیا تھا جو کہ اسرائیل میں اندر تک مار کر سکتا ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق طویل فاصلے تک مار کرنے والے شہاب تین کی رینج دو ہزار کلو میٹر ہے اور یہ ان نو میزائلوں میں سے ایک ہے جسے کسی نامعلوم مقام سے فائر کیا گیا۔ امریکی نائب وزیرِ خارجہ ولیئم برنز نے ایران کے اس تجربے کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دییے ہوئے کانگریس کے ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ’طاقت کا استعمال ایک راستہ ہے لیکن یہ (تجویز) ابھی میز پر ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ابھی تمام سفارتی امکانات کو پوری طرح آزمایا نہیں گیا۔ منگل کے روز امریکی حکومت نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق کچھ اداروں اور افراد پر نئی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ اِن پابندیوں کا اِطلاق اُن اداروں اور افراد پر ہوگا جن کے بارے میں محکمے کو یہ شک ہوگا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو فروغ دینے میں شریک ہیں۔ امریکی پابندیاں دراصل ایران کو یورینیم کی افزودگی سے باز رکھنے کے لیے ہیں۔ ایران اس کو اپنا حق قراردیتا ہے۔
050725_loc_wedding_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/07/050725_loc_wedding_si
بارات لے جانے کی اجازت دی جائے
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک کشمیری پناہ گزیں خاندان نے پاکستانی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ انھیں اپنے بیٹے کی برات وادی کشمیر لے جانے کی اجازت دی جائے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے فیاض احمد خان کی منگنی لائن آف کنڑول کے دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آباد اپنی پھپھی زاد سمائرہ بشیر سے گذشتہ سال ہوئی تھی ۔اب لڑکے والوں کا یہ مطالبہ ہے کہ بس کے ذریعے براتیوں کو وادی کشمیر سفر کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ دسمبر سن دوہزار چار میں کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنڑول کے دونوں جانب فیاض احمد خان اور سمائرہ بشیر کے خاندان والے وادی نیلم میں دریا کے دونوں کناروں پر جمع ہوئے اور منگنی کی رسم ادا کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرینگر اور مظفرآباد کے درمیان بس سروس کے امکان پر بات چیت ہورہی تھی اور منقسم کشمیری خاندان وادی نیلم میں مختلف مقامات پر دریائے نیلم کے دونوں کناروں پر کھڑے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھتے اور بات کیا کرتے تھے۔ فیاض خان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہیں جب کہ انکی ہونے والی بیوی سمائرہ لائن آف کنڑول کے دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہیں۔ اب فیاض احمد خان کے خاندان والوں کا یہ ارادہ ہے کہ وہ روایتی طور پر بارات مظفرآباد سے وادی کشمیر لے کرجائیں اور وہاں سے دلہن لے آئیں۔ لیکن خان کے والد محمد اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے نام پر اجازت کے لئے انکی تحریری درخواست کا بھی ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ میں نے’ مظفرآباد کے ڈپٹی کمشنر جن کو سرینگر اور مظفرآباد کے درمیان بس سروس کے مسافروں کو پرمٹ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے کو جون کے اوائل میں ایک درخواست دی جس میں ہم نے ان سے یہ درخواست کی کہ ہمیں اپنے بیٹے کی بارات بھارت کے زیر انتظام کشمیر لے کر جانے کی اجازت دی جائے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اس درخواست کے ساتھ میں نے اپنے بیٹے سمیت پچیس باراتیوں کی فہرست بھی دی اور اس فہرست میں شامل تمام نے مارچ میں پرمٹ کے لئے اپنے درخواست فارم جمع کرائے ہیں۔‘ محمد اشرف کا کہنا ہے کہ ’تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا لیکن ہماری درخواست کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہماری پاکستان حکومت سے صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سے مودبانہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں انسانی بنیادوں پر بیٹے کی بارات لے کر وادی کشمیر لے کر جانے دیں تا کہ ہم اس شادی کو انجام دیں سکیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کی والدہ کی عمر نوے سال ہے اور وہ بیمار رہتی ہیں ان کی یہ تمنا ہے کہ وہ پوتے اور نواسی کی شادی اپنے آنکھوں سے دیکھیں اور چودا سال سے بچھڑی ہوئی بیٹیوں سے ملاقات کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف ہماری اپیل کو رد نہیں کریں گے۔‘ فیاض خان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ وہ شادی کی تاریخ سفر کی اجازت ملنے کے بعد ہی طے کریں گے۔ خان اپنے والدین ، بھائی بہنوں اور دو چچاوؤں کے ہمراہ سن 1990 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے کیرن گاؤں سے لائن آف کنڑول عبور کرکے کشمیر کے اس علاقے میں آکر مظفرآباد کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ میں آباد ہوگئے جبکہ فیاض کی چار پھپھیاں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کیرن گاؤں میں ہی رہ گئیں۔ سن 1988 میں مسلح تحریک کے آغاز کے بعد اب تک ہزاروں کشمیری خاندانوں نے لائن آف کنڑول عبور کی اور وہ اب کشمیر کے اس علاقے میں حکومت کی جانب سے قائم مختلف پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں اور سن 1988 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک کے باعث ہزاروں خاندان لائن آف کنڑول عبور کرکے پاکستان یا اسکے زیر انتظام کشمیر میں آباد ہوگئے ہیں۔ اب تک جتنے بھی منقسم خاندان کے افراد نے دونوں کشمیر کے درمیان سات اپریل سے شروع ہونے والی بس سروس کے ذریعے مظفرآباد سے وادی کشمیر کا سفر کیا ان میں سن نوے یا اسکے بعد آنے والے کشمیری پناہ گزینوں میں سے شائد ہی کوئی ہو۔ محمد اشرف مستقبل قریب میں اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجا کر بارات کے ساتھ وادی کشمیر کا رخ کرسکیں گے یا نہیں ، سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ سن نوے کے پناہ گزینوں کو بس پر سوار نہ کرنا محض ایک اتفاق ہے یا کسی طے شدہ حکومتی فیصلے کے تحت ایسا کیا جارہا ہے۔
060707_durrani_reaction_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/07/060707_durrani_reaction_rs
لندن حملے: پاکستان متعلق نہیں
وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے گزشتہ سال سات جولائی کو لندن میں ہونے والے خود کش بم حملوں میں ملوث افراد کے ساتھ پاکستان کے کسی تعلق کے امکان کو رد کردیا ہے۔
جمعہ کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا جس میں شبہہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ایک بمبار تنویر شہزاد کا حالیہ ویڈیو ٹیپ پاکستان میں تیار کیا ہوگا۔ اس نئے ویڈیو ٹیپ میں لندن بم دھماکوں میں ملوث قرار دیے جانے والے تنویر شہزاد نے مزید حملوں کی دھمکی دی تھی۔ محمد علی درانی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ’فرنٹ لائن سٹیٹ، کا کردار ادا کر رہا ہے اور تاحال ان کے بیسیوں سکیورٹی اہلکار اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے پاس لندن دھماکوں میں ملوث خود کش بمباروں کے ساتھ پاکستان کے تعلق کے بارے میں کوئی ثبوت ہے تو وہ حکومت کو فراہم کرے اور پاکستان اس بارے میں ہونے والی تحقیقات میں مکمل تعاون کرے گا۔ جیسا کہ ان کے بقول پہلے بھی کرتا رہا ہے۔ جمعہ کو لندن دھماکوں کی پہلی برسی ہے اور ان دھماکوں میں چار میں سے تین پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے۔ لندن بم حملوں میں کم از کم باون افراد مارے گئے تھے۔ واضح رہے کہ برطانوی تفتیش کار یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ایک حملہ آور تنویر شہزاد دھماکوں سے قبل پاکستان آئے تھے اور القاعدہ کے اراکین سے ملاقات کے علاوہ ایک مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ اس بارے میں بھی وزیر اطلاعات نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کو ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ تنویر شہزاد نے پاکستان کے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ لندن دھماکوں میں ملوث قرار دیے جانے والے پاکستانی نژاد خود برطانیہ کے شہری تھے اور وہ وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی تھی۔
060922_us_terror_deal_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/09/060922_us_terror_deal_as
مشتبہ دہشتگردوں پر امریکی معاہدہ
امریکہ کے صدر جارج بش نے کہا ہے کہ ان کا ریپبلیکن پارٹی کے ناراض سینیٹروں سے مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے بارے میں قوانین پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے اس موضوع پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی۔ صدر بش نے کہا کہ معاہدے کے بعد اب انتظامیہ فوجی ٹریبونل دوبارہ شروع کر دے گی جو کہ معطل کر دیئے گئے تھے۔ گزشتہ ہفتے سینیٹ کی ایک کمیٹی نے مشتبہ دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ایک بل کی حمایت کی تھی۔ صدر بش نے کہا کہ معاہدے سے وہ پروگرام بچ جائے گا جس سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا پتہ لگا کر امریکیوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔ ابھی تک اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے سی آئی اے مشتبہ افراد سے تفتیش کرے گی، اور فوجی کمیشن بنائے جائیں گے جو ان افراد پر مقدمات کریں چلائیں گے۔ گوانتانامو بے کی جیل میں قید افراد پر مقدمے چلانے کے لیئے معاہدے کی اس شک کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ’باغی‘ سینیٹروں میں سے ایک جان مکین نے کہا ہے کہ صدر کے پاس اب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیئے وہ اوزار ہاتھ آ گیا ہے جس کی انہیں ضرورت تھی۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ریپپلیکن پارٹی دہشت گردی اور قومی سلامتی کے مسائل پر متحد نظر آنا چاہتی ہے تاکہ نومبر میں ہونے والے مڈ ٹرم انتخابات میں کانگرس میں اپنی اکثریت برقرار رکھ سکے۔
070511_sc_abrarhaq_notice
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/05/070511_sc_abrarhaq_notice
متنازعہ گانا، سپریم کورٹ کا نوٹس
پاکستان کی سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے ملک کے معروف پاپ گلوکار ابرار الحق کو ان کے ایک متنازعہ گانے پر عدالت میں طلب کرلیا ہے۔
ابرار الحق کا متنازعہ گانا ان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی البم ’نعرہ ساڈہ عشق اے‘ میں شامل ہے جس میں وہ ایک فرضی کردار پروین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’نی پروین! بڑی نمکین اے، اتّوں توں مسکین پر وچوں بڑی شوقین اے۔ ڈھول وجدا وجدا نی آجا ڈھول وجدا ڈھول وجدے دے نال ٹھمکا وی سجدا۔‘ قائم مقام چیف جسٹس نے ایک اردو اخبار میں شائع ہونے والے کالم پر اس گانے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ کالم نگار کے مطابق طالبہ نے اپنے خط میں شکایت کی تھی کہ اس گانے کے مارکیٹ میں آنے کے بعد کالج میں آنا جانا اس کے لئے بہت مشکل ہوگیا تھا اور وہ جب بھی کالج کی کینٹین کے قریب سے گزرتی تھی لڑکے یہ گانا گانا شروع کردیتے تھے اور اس پر ہنستے تھے۔ جسٹس رانا بھگوان داس نے ابرار الحق کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے تاہم معاملے کے سماعت کی تاریخ ابھی مقرر نہیں کی گئی ہے۔ ابرار الحق گلوکار بننے سے قبل لاہور کے ایچی سن کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ وہ اب تک اپنے چار البم ریلیز کرچکے ہیں اور ان کے بقول تمام گانے وہ خود ہی لکھتے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان کے بعض گانے تنازعے کا شکار رہے ہیں اور ان کا پہلا گانا ’کنے کنے جانا اے بلو دے گھر‘ ہی ان کی مقبولیت کا باعث بنا تھا۔
061123_china_analysis_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/11/061123_china_analysis_fz
چینی صدر کا دورہ: توقعات اور امکانات
چین کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران ساری دنیا کی نظریں دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی بجلی گھروں کے معاہدوں پر لگی ہوئی ہیں لیکن جنوب مشرقی ایشیا کی دفاعی اور جغرافیائی صورت حال کے تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ دورہ خطے پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔
چین کے صدر ہو جنتاؤ جمعرات کو چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو اسلام آباد میں حکومتی سطح پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں اس دورے کی اہمیت ایٹمی تعاون تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا سایہ پورے جنوبی ایشیا کے دفاعی منظر پر چھاتا نظر آئے گا۔ پاکستان کے ماہر دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ اس دورے کا بنیادی مقصد تو چین اور پاکستان کی دیرینہ دوستی کی پورے خطے کے لیے اہمیت کو ابھارنا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کے مطابق ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ نسبتاً اونچی سطح کے رہے ہیں۔ ’بنیادی طور پر چین پاکستان اور باقی دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات برصغیر کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔‘ دونوں ممالک کے صدور میں خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ سب کچھ خوش اسلوبی سے ہو جائے گا۔ لیکن اسلام آباد میں مقیم دفاعی تجزیہ کار اور مصنفہ عائشہ صدیقہ آغا پاکستان کے سیکیورٹی سے متعلق پالیسی ساز اداروں کی سوچ میں چند نئے خدشات کا ذکر کرتی ہیں۔ عائشہ آغا کا کہنا ہے ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے روایتی دفاعی پس منظر میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اس خطے میں طاقت کے توازن کا ایک نیا نقشہ دیکھیں جو خصوصاً پاکستان کے لیے کچھ خدشات پیدا کر سکتا ہے۔‘ عائشہ صدیقہ کے مطابق برصغیر میں چین کی موجودہ دلچسپی کا محور علاقے میں ایٹمی توانائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی منڈی ہے جس کی موجودہ مالیت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن اگر چین اس منڈی میں امریکہ کا تجارتی حریف بن کر ابھرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے آپ کو اس خطے میں امن کے سفیر کے طور پر پیش کرنا ہو گا۔ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ’چین کی اس منڈی میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستان میں امریکہ کے ساتھ مل کر ایک تکونے تجارتی معاہدے کا حصہ بننے کو تیار ہو گیا ہے جو سب کے لیے ہی ایک نئی بات ہے۔ اس وقت پاکستان کے مقتدر حلقوں میں اس پر کچھ نہ کچھ تشویش تو ضرور ہو گی۔‘ لیکن ڈاکٹر رضوی ان خدشات کو دو مختلف پس منظر میں پرکھتے ہیں۔ ان کے مطابق درمیانی مدت کے تناظر میں چین کے پاکستان اور ہندوستان سے تعلقات میں ایک ساتھ بڑھائی میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا۔ البتہ لمبی مدت کے تناظر میں ہو سکتا ہے کہ چین اور ہندوستان میں سرحدی یا دیگر مسائل پر کشیدگی پیدا ہو جائے۔ اس کے برعکس پاکستان سے چینی تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ صرف اور صرف بہتری اور مضبوطی کی توقع ہی کی جا سکتی ہے اور پاکستان کو اس سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سب تو تجزیہ نگاروں کی سوچ ہے۔ پیش منظر میں اس وقت صرف وہ تیاریاں نظر آ رہی ہیں جو پاکستانی دارالحکومت میں گزشتہ روز سے جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی قدآور تصاویر رنگ برنگی جھنڈیوں کے بیچ بڑی بڑی شاہراوں پر آویزاں ہیں۔ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ چینی صدر کی پاکستان میں مصروفیات کی پوری تفصیل فی الحال دینے سے گریزاں ہیں۔ لیکن کچھ حلقوں میں قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ اس دورہ میں گوادر بھی جائیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان کی بگڑی ہوئی صورتحال کے باوجود بھی چینی صدر گوادر جاتے ہیں تو چین کے لیے پاکستان کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت شاید ہی کچھ ہو۔
150706_nigeria_twin_blasts_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/07/150706_nigeria_twin_blasts_zs
نائجیریا میں ریستوران اور مسجد میں دھماکے، 44 ہلاک
افریقی ملک نائجیریا کے وسطی شہر جوز میں حکام کا کہنا ہے کہ دو بم دھماکوں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
نائجیریا میں میں گذشتہ چند دنوں کے دوران پرتشدد واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی ہے حکام کے مطابق یہ دھماکے اتوار کی شب ایک ریستورن اور ایک مسجد میں ہوئے۔ تاحال کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم جوز ماضی میں بھی شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ بوکوحرام کے شدت پسند ملک کے شمال مشرقی علاقے میں زیادہ سرگرم ہیں۔ ان ہلاکتوں کے بعد ملک میں گذشتہ چند دنوں کے دوران پرتشدد واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یاد رہے کہ نائجیریا میں بوکو حرام کی مسلح بغاوت میں سنہ 2012 سے اب تک 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تشدد کی یہ لہر اب پڑوسی ممالک نائجر، چاڈ اور کمیرون تک پھیل چکی ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں حکومت نے بوکوحرام سے جنگ بندی کے معاہدے کی بات کی تھی لیکن بوکو حرام نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
040323_wanna_update_na
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/03/040323_wanna_update_na
ایم ایم اے: وانا آپریشن کی مخالفت
متحدہ مجلس عمل بلوچستان نے وانا میں فوجی آپریشن کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ تنظیم کے قائدین نے کہا ہے کہ مجلس عمل ملک بھر میں جمعہ کے روز مظاہرے اور آئندہ ماہ سے عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی۔
سائنس کالج کوئٹہ کے آڈیٹوریم میں مجلس عمل کے زیر اہتمام وانا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں مجلس عمل کے قائم مقام جنرل سیکرٹری اور رکن قومی اسمبلی حافظ حسین احمد صوبائی وزیر بلدیات حسین احمد شرودی اور مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی اتخابی مہم کے لیے حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی ہے جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ حافظ حسین احمد نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ماضی میں پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں کارروائی کی تھی جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں اب ایک مرتبہ پھر اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس فوجی کارروائی کے خلاف مجلس عمل جمعہ کے روز ملک گیر مظاہرے کرے گی اور اگلے ماہ سے عوامی رابطہ مہم شروع کرےگی۔ انھوں نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان اور عراق سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اسے راستہ نہیں مل رہا۔ صوبائی وزیر بلدیات حسین احمد شرودی نے کہا ہے کہ وزارتیں اور حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں لیکن حکومت کی خاطر وہ اپنے لوگوں کی حمایت اور پشت پناہی ترک نہیں کر سکتے انھوں نے کہا ہے کہ مشرقی پاکستان پر یلغار کے نتیجے میں ملک کے دو ٹکڑے تو ہو گئے لیکن بنگالیوں کو فتح نہیں کیا جا سکا۔ اب قبائلی علاقوں میں کارروائی سے کیا ملے گا کیونکہ بنگالی آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور ان کا اپنا وطن ہے۔ عبدالحق ہاشمی نہ کہا ہے کہ جو مہم وانا میں جاری ہے اسی طرح کی مہمات غاصب حکمرانوں نے اپنی مسلمان رعایا کے خلاف دنیا بھر میں شروع کر رکھی ہیں۔ یہاں یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ بلوچستان کے ضلع ژوب سے فوجی اور نیم فوجی دستوں کو پاک افغان سرحد کی طرف روانہ کیا گیا ہے تاکہ وانا میں جاری آپریشن سے بھاگ کر مطلوب افراد ان علاقوں کی طرف نہ آجائیں۔ صوبائی وزیر بلدیات سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوج ہماری ہے اور پاکستانی فوج کہیں بھی جا سکتی ہے۔ ضلع ژوب کی سرحدیں صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان جنوبی وزیرستان ایجنسی اور افغانستان کے ساتھ مشرق اور شمال مشرق میں ملتی ہیں۔
150502_bollywood_round_up_mb
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2015/05/150502_bollywood_round_up_mb
انوشکا اداکارہ نہیں ماڈل بننا چاہتی تھیں
بالی وڈ کی معروف اداکارہ انوشکا شرما نے گذشتہ روز یکم مئی کو اپنی سالگرہ منائی جس میں بالی وڈ کی معروف شخصیات یکجا تھیں۔
انوشکا شرما نے شاہ رخ خان کے ساتھ فلم رب نے بنادی جوڑی سے اپنے کریئر کی ابتدا کی انھوں نے یش راج فلمز سے اپنے کریئر کا آغاز کیا لیکن وہ اداکارہ کے بجائے ماڈل بننا چاہتی تھیں۔ بالی وڈ راؤنڈ اپ سننے کے لیے کلک کریں اس سے قبل بی بی سی کے ساتھ ایک گفتگو میں انھوں نے اپنے کریئر کے بارے میں بتایا: ’میں یکایک فلموں میں چلی آئی، میں نےکبھی اس کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔‘ انھوں نے اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو میرے خیال سے میرا سفر بہت ہی خوبصورت رہا ہے۔ میں جو کرنا چاہتی تھی وہ میں کر پائی اور میں اس میں بہت کامیاب بھی رہی۔‘ فلم پی کے اور این ایچ 10 کے بعد اب ان کی آنے والی فلم بامبے ویلوٹ ہے انوشکا کا فلمی آغاز بالی وڈ کے معروف ترین اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ فلم ’رب نے بنادی جوڑی‘ سے ہوا لیکن اس کے بعد ان کو بہت زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ان کی اداکاری کو ’بینڈ باجا بارات‘ سے سراہا گیا۔ وہ کہتی ہیں: ’مجھے اس فلم پر ناز ہے کیونکہ پہلی بار مجھے نوٹس کیا گیا۔ ایک ایسی فلم میں جس میں اداکار بھی نیا تھا اور ہدایت کار کی بھی وہ پہلی فلم تھی۔ تب یہ ہوا کہ لوگ آپ کو آپ کی صلاحیت پر پسند کرتے ہیں اور اس کا احساس مختلف ہوتا ہے۔‘ پھر انوشکا کی فلم ’لیڈیز ورسز رکی بہل‘ آئی اور گذشتہ دنوں فلم ’پی کے‘ اور ’این ایچ 10‘ نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کمل ہاسن کی فلم اتتم ولین کی ریلیز میں تاخیر جنوبی ہند کے معروف اداکار کمل ہاسن جو فلموں میں اپنی جدت پسندی کے لیے معروف ہیں ان کی فلم ’اتتم ولین‘ گذشتہ روز جمعے کو ریلیز نہ ہوسکی۔ ان کے زبردست مداحوں نے فلم ریلیز نہ ہونے پر برانگیختہ نظر آئے اور انھوں نے چینئی میں سڑکیں روک دیں اور نعرے بازی کی۔ کمل ہاسن کے ساتھ کے بالا چندرن نظر آ رہے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے کمل ہاسن کی فلم ’اتتم ولین‘ تمل فلموں کے سپر سٹار منورجن کے کردار پر مبنی ہے جو اپنے ماضی سے حال کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ خیال رہے کہ اس فلم پر ہندو سخت گیر تنظیم نے وی ایچ پی نے پابندی عائد کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا کیونکہ بقول ان کے اس میں ہندو دیوتا وشنو کی قابل اعتراض پیشکش کی گئی تھی لیکن ہائی کورٹ نے اس پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ فلم مالی وجوہات کی بنا پر جمعے کو ریلیز نہ ہو سکی تاہم وہ سنیچر کو ریلیز کی جا رہی ہے۔ ایک عرصے بعد کمل ہاسن کے مداح ان کو ایک منفرد کردار ادا کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ اس فلم کی ہدایت اداکار رمیش اروند نے کی ہے اور اس میں دادا صاحب پھالکے انعام سے سرفراز کے بالا چندرہن کے علاوہ پوجا کمار، اروشی اور دیگر اداکار ہیں۔ سلمان کی حمایت میں بالی وڈ سلمان خان کے خلاف ان دنوں دو پرانے مقدمات زیر سماعت ہیں سلمان خان کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ’کالے ہرن کے شکار‘ کے معاملے میں جودھ پور عدالت کی سماعت آئندہ کے لیے ملتوی ہو گئی ہے جبکہ ’ہٹ اینڈ رن‘ کے ایک دوسرے مقدمے میں فیصلہ چھ مئی کو آنا ہے۔ سلمان خان بالی وڈ میں ہر دل عزیز تصور کیے جاتے ہیں اور ان کے دوست ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں۔ معروف اداکار انوپم کھیر جو ان کے ساتھ ’پریم رتن دھن پایو‘ فلم میں ہیں انھوں نے کہا: ’سلمان حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ بہت انسان دوست اور شاندر انسان ہیں۔ میں ان کے لیے خدا سے دعاگو ہوں کہ سب کچھ بخیرو خوبی انجام پائے۔‘ اداکارہ سوہا علی خان نے کہا: ’سلمان ہمیشہ ہماری فیملی سے قریب رہے ہیں اور ہمیشہ ہماری مدد کی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ ان کے لیے سب بہتر ہو اور انھیں ہمیشہ ہماری حمایت حاصل ہے۔‘ سوہا کے شوہر کھیمو نے کہا کہ ’عدالت کے فیصلے پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا بس اتنا کہ خدا انھیں ان کے اہل خانہ کو بہت ہمت عطا کرے۔‘ اس سے قبل بالی وڈ کی ڈریم گرل ہیما مالنی نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیاتھا۔
science-53501285
https://www.bbc.com/urdu/science-53501285
انڈونیشیا میں سمندر کی تہہ میں رہنے والا دیوقامت لال بیگ دریافت
پہلے کورونا وائرس کی عالمی وباء اور پھر دنیا کے کئی علاقوں پر ٹڈی دل کا حملہ، اس برس سائنس سے متعلق خبریں کافی غیر معمولی رہی ہیں۔
اس وقت دنیا میں آسوپوڈز کی صرف سات اقسام کے بارے میں معلوم ہے۔ اب انڈونیشیا میں سائنسدانوں نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے سائز کے لحاظ سے دنیا کے بڑے کرسٹیشیئن میں سے ایک کو دریافت کیا ہے جسے انھوں نے بڑا لال بیگ کہا ہے۔ کیکڑے اور جھینگے وغیرہ کرسٹیشیئن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’بلیک بلینکٹ‘ آکٹوپس پاکستانی سمندری حدود میں’ برطانیہ کے سمندر اور ان سے جڑی زندگی’ دیو قامت جیلی فش سے غوطہ خوروں کی ملاقات اس نئی مخلوق کا تعلق بیتھینومس قسم سے ہے جو ایسے بڑے جانور ہیں جن کے جسم سپاٹ اور سخت ہوتے ہیں اور وہ دیکھنے میں گھُن کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان سے بہت بڑے ہوتے ہیں۔۔ یہ گھرے پانیوں میں رہتے ہیں۔ یہ بیتھینومس راکاسا انڈونیشیا کے جاوا جزائر اور سماّٹرا کے درمیان سمندر میں 957 سے 1259 میٹر گہرائی میں پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیائی زبان میں راکاسا کا مطلب دیوقامت ہے۔ اس کے علاوہ یہ بحرِ ہند میں بھی موجود ہیں۔ جوان ہونے پر ان لال بیگوں کا سائز 33 سینٹی میٹر تک ہو جاتا ہے جو بہت بڑا سائز سمجھا جاتا ہے۔ بیتھینومس کی دوسری اقسام سر سے دم تک 50 سینٹی میٹر تک بڑی ہو سکتی ہیں۔ بیتھینومس راکاسا سر سے دم تک 33 سینٹی میٹر لمبے ہو سکتے ہیں۔ اس تحقیق کی قیادت کرنے والی اور انڈونیشیئن انسٹیٹیوٹ آف سائنسز (ایل آئی پی آئی) سے منسلک کونی مارگیریٹا سیڈابیلوک کہتی ہیں ’یہ واقعی بہت بڑا ہے اور اس طرح کے جانوروں کے خاندان میں یہ سائز کے لحاظ سے دوسری بڑی قسم ہے۔‘ اس وقت دنیا میں آسوپوڈز کی صرف سات اقسام کے بارے میں معلوم ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انڈونیشیا کے گہرے سمندر میں بیتھینومس دریافت کیا گیا ہے۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بہت کم تحقیقی کام ہوا ہے۔ ایل آئی پی آئی میں حیاتیات کے شعبے کے سربراہ کاہیو راہمادی کہتے ہیں کہ یہ دریافت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انڈونیشیا میں کتنا حیاتیاتی تنوع ہے جس پر تحقیق ہونا باقی ہے۔ انتہائی بڑے آسوپوڈز کا سائز 50 سینٹی میٹر تک ہو سکتا ہے۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق اس بارے میں کئی سائنسی آراء ہیں کہ یہ سمندری مخلوق اتنی بڑی کیوں ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ سمندر میں اتنی زیادہ گہرائی میں رہنے والے جانوروں کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کے جسم بڑے اور ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں۔ ان کے بڑے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سمندر میں اتنی گہرائی میں ان کو شکار کرنے والے جانور کم ہوتے ہیں تو انھیں با آسانی بڑے ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بیتھینومس قبیلے کے جانوروں کے جسم میں کم گوشت ہوتا ہے، مثلا کیکڑا، اس وجہ سے دوسرے شکاری جانوروں کو ان میں کم دلچسپی ہوتی ہے۔ ان جانوروں کے سر میں لمبے اینٹینا ہوتے ہیں جو تاریکی میں انھیں چلنے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم یہ دیکھنے میں تو عجیب سے نظر آتے ہیں لیکن زیادہ پریشان نہیں کرتے۔ یہ جانور بنیادی طور پر سمندر کی تہہ میں گھومتی پھرتے ہیں اور شکار کے بجائے ادھر ادھر پڑی ہوئی یا دوسروں کی چھوڑی ہوئی خوراک کو کھاتے ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق ان کا غذا کو ہضم کرنے کا نظام انتہائی سست ہوتا ہے اس لیے یہ بغیر خوراک کے بھی کافی عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اسی قسم کے ایک بڑے جانور کو جاپان میں رکھا گیا تھا جو پانچ سال تک بغیر خوراک کے زندہ رہا۔ یہ جانور بنیادی طور پر سمندر کی تہہ میں گھومتی پھرتے ہیں اور شکار کے بجائے ادھر ادھر پڑی ہوئی یا دوسروں کی چھوڑی ہوئی خوراک کو کھاتے ہیں۔ یہ تازہ تحقیق طور پر ایل آئی پی آئی، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور اور لی کونگ چیئن نیچرل ہسٹری میوزیم کی مشترکہ کوشش ہے۔ سنہ 2018 میں اس ٹیم نے دو ہفتے پر مشتمل اپنے تحقیقی کام کے دوران 63 مختلف جگہوں سے ہزاروں مخلوقوں کو اکھٹا کیا اور ایک درجن نئی اقسام دریافت کیں۔ ٹیم نے بیتھینومس کے دو نمونے دریافت کیے جن میں سے ایک نر اور دوسری مادہ تھی۔ نر کا سائز 36 عشاریہ 3 سینٹی میٹر تھا جبکہ مادہ کا سائز 29 عشاریہ 8 سینٹی میٹر تھا۔
071009_ejaz_mush_uniform_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/10/071009_ejaz_mush_uniform_zs
’جج کسی بھی وقت سرپرائز دے سکتے ہیں‘
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے چند ماہ قبل بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فوجی وردی ان کی کھال ہے اور وہ اس سے کیسے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔
پہلے قومی مفاد کا عذر پیش کرتے ہوئے انہوں نے باوردی صدر رہنے کا فیصلہ کیا اور متحدہ مجلس عمل سے وعدہ تو کیا مگر وفا نہ کیا۔ لیکن انہوں نے اس بار قومی مصالحت کے نام پر خود کو صدر منتخب کرانے کے لیے پیپلز پارٹی سے اپنی’ کھال‘ اتارنے کا وعدہ کیا ہے۔ قومی مصالحت کے معاہدے کے تحت جنرل پرویز مشرف صدر تو منتخب ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کا اضطراب ختم نہیں ہوا۔ اطلاعات کے مطابق وہ راولپنڈی کے آرمی ہاؤس سے کچھ اپنا سامان ایوان صدر اسلام آباد منتقل بھی کر چکے ہیں اور کلی طور پر ان کی ہجرت ابھی باقی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی اضطرابی کیفیت کا خاتمہ اور ان کی کلی ہجرت اس وقت ہی مکمل ہوسکے گی جب سپریم کورٹ کی لٹکتی تلوار ان کے سر سے ہٹے گی۔سپریم کورٹ میں ان کے باوردی صدر منتخب ہونے کے خلاف دائر درخواستوں کی باضابطہ سماعت سترہ اکتوبر سے شروع ہونے والی ہے اور اس مقصد کے لیے گیارہ ججوں پر مشتمل بینچ بھی بن چکا ہے۔ بطور جنرل صدر کا انتخاب لڑنے کے خلاف آئینی درخواست تو پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم نے بھی دائر کی ہے لیکن قومی مصالحت کے تحت اب شاید وہ اس کی پیروی میں زیادہ دلچسپی نہ لیں لیکن جسٹس (ر) وجیہہ الدین پہلے ہی مطالبہ کر چکے ہیں کہ ان کی درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس بارے میں عید کے بعد ججوں کی دستیابی کے بعد غور کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس وقت اٹھارہ جج ہیں جس میں سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری خود تاحال صدر مشرف کے خلاف کسی مقدمے میں بینچ میں نہیں بیٹھے اور اب بھی مشکل ہے کہ وہ خود فل کورٹ کا حصہ بنیں۔ جسٹس بھگوان داس ، جسٹس رضا محمد خان اور جسٹس شاکراللہ جان پہلے ہی باوردی صدر کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں جبکہ جسٹس فلک شیر نے تکنیکی بنیاد پر فوجی عہدہ رکھتے ہوئے صدر کے انتخاب کے خلاف جماعت اسلامی اور دیگر کی درخواستیں مسترد تو کردی تھیں لیکن انہوں نے اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ جنرل مشرف کا صدارتی انتخاب غیر آئینی ہے۔ باقی دو جج ایسے بچتے ہیں جو فل کورٹ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جن میں جسٹس سید سعید اشہد اور جسٹس ناصر الملک شامل ہیں۔ فل کورٹ بنے یا کہ موجودہ گیارہ ججوں والا لارجر بینچ سماعت کرے لیکن اب بھی بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اب بھی جنرل پرویز مشرف کے لیے ایک خطرہ ہے جو کسی بھی وقت قومی مفاد اور قومی مصالحت والوں کی نیندیں حرام کرسکتی ہے۔ کیونکہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا نعرہ لگانے والے جج کسی بھی وقت سرپرائز دے سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنا جان نشین مقرر کرنے کے باوجود اس وقت تک اپنی’ کھال‘ نہیں اتارنا چاہتے جب تک کہ وہ بطور سویلین صدر حلف نہیں اٹھا لیتے۔
160502_peshawar_madrassa_bomb_na
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/05/160502_peshawar_madrassa_bomb_na
مسجد پر دستی بم حملہ کرنے والوں میں سے ایک گرفتار
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حکام کا کہنا ہے کہ اہل حدیث کی ایک مسجد پر ہونے والے دستی بم کے ایک حملے میں کم سے کم 19 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
ختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں موٹر سائکل پر سوار حملہ آوروں نے اہل حدیث مسلک کے ایک مدرسے پر دستی بم پھینکا حملہ آور کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب پشاور کے علاقے تہکال بالا میں پیش آیا۔ تہکال پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جامع مسجد بیت المکرم میں ایک اجتماع کے اختتام پر محلے کے افراد کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران ایک حملہ آوار نے قریب آکر ان پر دستی بم سے حملہ کردیا۔ انھوں نے کہا کہ حملے میں محلے کے 19 افراد زخمی ہوئے۔ پولیس اہلکار کے مطابق دھماکے کی آواز سنتے ہی وہاں موجود محلے کے لڑکوں نے جمع ہوکر حملہ آور پر پستول سے فائرنگ کردی جس سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ زخمی حملہ آوار کو گرفتارکرکے سی ایم ایچ پشاور میں داخل کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق حملہ آوار تین تھے جو موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ واقعے کے ایک عینی شاہد اور محلے کے مشر حاجی مقبلی خان نے ہمارے نامہ عزیزاللہ خان کو بتایا کہ مسجد میں جماعتہ الددعوۃ کا ایک اجتماع ہورہا تھا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ انھوں نے کہا کہ اجتماع کے اختتام کے چند منٹوں کے بعد ہی حملہ آواروں کی طرف سے دستی بم کا حملہ کیا گیا تاہم زیادہ تر افراد اس سے پہلے مسجد سے جاچکے تھے۔ حاجی مقبلی خان کے مطابق اس حملے میں ان کا بیٹا بھی زخمی ہوا ہے۔ اس حملے کی وجہ فوری طورپر معلوم نہیں ہوسکی اور نہ ہی کسی تنظیم کی جانب سے اسکی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ تہکال کا علاقہ پشاور میں یونیورسٹی روڈ کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں پہلے بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ تہکال کا علاقہ ایک طرف شہری علاقوں سے منسلک ہے تو دوسری جانب اس کے کھیت اور دیہی طرز زندگی ہے۔ پشاور میں دستی بم کے بیشتر حملے بھتے کی غرض سے پھینکے جاتے ہیں جن میں نقصانات کم ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے پجگی روڈ پر ایک عمارت پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ بھتے کے لیے کیا گیا تھا۔
130714_iraq_blasts_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2013/07/130714_iraq_blasts_zs
عراق میں خودکش حملہ اور دھماکہ، 16 ہلاک
عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک خودکش حملے اور ایک بم دھماکے میں 16 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔
عراق میں گزشتہ چند ماہ میں تشدد میں تیزی آئی ہے خودکش حملہ شہر کے جنوبی حصے میں سنّی اکثریتی علاقے دورا میں ہوا۔ حکام کے مطابق خودکش حملہ آور نے سنیچر کی شام افطار کے بعد نماز کے لیے جمع ہونے والے افراد کو نشانہ بنایا۔ طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔ بغداد کے شمال مشرقی علاقے میں بم دھماکے کا نشانہ ایک جنازہ بنا اور اس حملے میں مزید تین افراد ہلاک ہوئے۔ اس دھماکے میں دس افراد زخمی بھی ہوئے۔ تاحال کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ دارالحکومت میں یہ پرتشدد کارروائیاں ملک کے شمالی شہر کرکوک میں جمعہ کو ایک کیفے میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہوئی ہیں جس میں 38 افراد مارے گئے تھے۔ عراق میں گزشتہ چند ماہ میں تشدد میں تیزی آئی ہے اور اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2013 سے اب تک ڈھائی ہزار عراقی مارے جا چکے ہیں۔
070807_dara_clash_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/08/070807_dara_clash_fz
درہ آدم خیل: جھڑپ میں تین ہلاک
پاکستان کے نیم خودمختار قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں حکام کا کہنا ہے کہ مقامی طالبان اور ایک مسلح گروہ کے مابین جھڑپ میں تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف صوبہ سرحد کے ضلع کوہاٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے فرنٹیر کور کے ایک اہلکار کو ہلاک اور ایک کو زخمی کردیا ہے۔ درہ آدم خیل سے ملنے والی اطلاعات میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ منگل کی صبح دس بجے کے قریب شینی کلی میں پیش آیا جب گزشتہ روز نامعلوم حملے میں ہلاک کئے جانے والے علاقے میں ایک مبینہ اغواء کار گروہ کے سرغنہ امیر سید عرف چرگ کے حامیوں نے مقامی طالبان کے کچھ افراد پر ہینڈ گرینڈ اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد طالبان جنگجو بھی بڑی تعداد میں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ وہاں پر پہنچے اور دونوں کے مابین شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں حکام کے مطابق تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ تاہم مقامی ذرائع کے مطابق جھڑپ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ واقعہ کے بعد مقامی طالبان بڑی تعداد میں درہ بازار میں نکل آئے اور حملہ آواروں کی تلاش شروع کردی جبکہ کوہاٹ پشاور سڑک بھی بند کردی گئی ۔ ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی جنگجوؤں نے اردگرد کے پہاڑوں پر قبضہ کرکے وہاں بھاری ہتھیار نصب کردیئے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار سے رابط کیا گیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مقامی مشران پر مشتمل ایک جرگہ نے دونوں گروپوں سے بات چیت شروع کردی ہے۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات دینے سے انکار کردیا۔ آخری اطلاعات آنے تک درہ بازار میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز درہ آدم خیل میں مختلف جرائم میں مبینہ طورپر ملوث ایک گروہ کے سرغنہ امیر سید عرف چرگ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کیا تھا جبکہ اس قتل کا شبہ مقامی طالبان پر ظاہر کیا جارہا ہے۔ ادھر صوبہ سرحد کے ضلع کوہاٹ میں حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے فرنٹیر کور کا ایک اہلکار ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوا ہے۔ کوہاٹ پولیس کے مطابق خیبر رائفلز کے دو اہلکار چھٹیاں گزار کر لنڈی کوتل جا رہے تھے کہ انڈس ہائی وے پر سرگل چوک کے قریب نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی جس سے ایک اہلکار جمشید الرحمان ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی جی ٹی روڈ پر واقع لاہور بس سٹینڈ میں ایک بم دھماکہ ہوا ہے جس میں کسی کی ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہے۔
031220_squash_quarter_si
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2003/12/031220_squash_quarter_si
سکواش: اپ سیٹ کاسلسلہ جاری رہا
عالمی اوپن سکواش میں اپ سیٹ کی جو روایت ٹورنامنٹ کے آغاز میں قائم ہوئی وہ جمعہ کو ہونے والے کواٹر فائنل مقابلوں میں بھی جاری رہی۔
جمعہ کو اس وقت ایک اور اپ سیٹ ہوا جب پانچویں نمبر کے کھلاڑی آسٹریلیا کے انتھونی رکٹ نویں سیڈ مصر کے امر شبانہ سے ایک زبردست اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد ہار گئے۔ یہ میچ اس لحاظ سے خاصا دلچسپ تھا کہ آخر تک یہ میچ برابر رہا اور صرف ایک پوائنٹ سے اس کا فیصلہ ہوا۔ انتھونی نے پہلی گیم 14/15 سے جیت لی اور جواب میں امر شبانہ نے دوسری گیم اسی طرح 14/15 سے جیتی۔ تیسری گیم میں بھی امر شبانہ چھائے رہے اور یہ گیم 12/15 سے جیت لی۔ چوتھی گیم میں رکٹ میچ میں پھر واپس آئے اور انہوں نے اس گیم میں شبانہ کو 12/15 سے ہرا دیا۔ اس موقع پر یہ میچ دو دو گیم سے برابر ہو گيا۔اور فیصلہ پانچویں گیم پر ہونا ٹھہرا۔آخری گيم بھی خاصی کانٹے دار رہی جس سے تماشائي خوب محظوظ ہوئے۔ ایک موقع پر میچ انتھونی رکٹ کی جھولی میں گرتا دکھائی دیا جب انتھونی دس کے مقابلے چودہ پوائنٹ سے آگے تھے اور جیت کے لیے صرف ایک میچ پوائنٹ درکار تھا لیکن آج قسمت امر شبانہ کے ساتھ تھی اور انہوں نےلگاتار چار پوائنٹس حاصل کیے اور فیصلے کے لیے تین پوائنٹ کی کمی رہ گئی اور یوں امر شبانہ یہ گیم 16/17 سے ہار گئے۔ سات سیڈ مصر کے کریم درویش اور اٹلی کے ڈیوڈ بیانکیتی کا مقابلہ یک طرفہ رہا اور کریم نے یہ میچ تین لگاتار گیمز سے جیت لیا۔ فرانس کے تھیاری لنکو نے برطانیہ کے نک میتھیو کو ایک کے مقابلے تین گیمز سے شکست دی۔ کوارٹر فائنل کے چوتھے اور آخری میچ میں برطانیہ کے لی بچل اور آسٹریلیا کے جوزف کنائپ کے درمیان ہوا اس میچ میں بھی بڑا کانٹے دار مقابلہ ہوا اوراس کا فیصلہ بھی پانچ گیمز کے بعد ہوا اور آسٹریلیا کے جوزف کنائپ نے دو کے مقابلے تین گیمز سے میچ حیت کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔ اب ہفتے کو ہونے والے سیمی فائنل مقابلوں میں ایک سیمی فائنل دونوں مصری کھلاڑیوں کریم درویش اور امر شبانہ کے درمیان ہو گا لہذا فائنل میں ایک مصری کھلاڑی کی موجودگی تو یقینی ہے۔ دوسرا سیمی فائنل تھیاری لنکو اور جوزف کنائپ کے درمیان ہو گا۔ سیمی فائنل میں پہچنے والے چاروں کھلاڑیوں میں تھیاری لنکو ٹاپ سیڈ ہیں اگرچہ ٹورنامنٹ میں وہ چوتھے سیڈ تھے۔لیکن پہلے دوسرے اور تیسرے سیڈ کے فارغ ہونے کے بعد ان کا ہی چانس زیادہ نظر آتا ہے۔ تاہم کل سیمی فائنل میں جوزف کے ارادے بھی کافی خطرناک ہیں۔
150218_islamabad_imam_bargah_blast_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/02/150218_islamabad_imam_bargah_blast_tk
اسلام آباد کی امام بارگاہ پر حملے میں تین افراد ہلاک
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی کری روڈ پر واقع امام بارگاہ میں نماز کے دوران ہونے والے حملے میں ایک حملہ آور سمیت کم سے کم چار افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے ہیں۔
حالیہ کچھ دنوں سے پاکستان میں شیعہ برادری اور امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے حکام کا کہنا ہے کہ امام بارہ گاہ پر حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک حملہ آور بھی مارا گیا ہے۔ دوسری جانب مظاہرین نے اسلام آباد کی ایکسپریس وے کو دونوں جانب سے بند کر کے توڑ پھوڑ کی۔ نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا ہے کہ پولیس کے مطابق امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے دو افراد تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دونوں نے امام بار گار میں داخل ہونے کی کوشش کی اور ان میں سے ایک نے فائرنگ کی اور دستی بم پھینکا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور اور دو افراد ہلاک ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ایک حملہ آور اپنے ہی ساتھی کے پھینکے ہوئے دستی بم اور فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گیا۔ ہلاک ہونے والے حملہ آور نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی اور اس کی لاش قابلِ شناخت ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کے فوراً بعد امام بار گاہ میں موجود افراد نے دروازہ اندر سے بند کر لیا جس کی وجہ سے دوسرا حملہ آور اندر داخل نہیں ہوسکا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دوسرا حملہ آور باہر سے ہی فرار ہو گیا۔ ادھر وزیرِاعظم نواز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سکیورٹی اداروں سے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کی ہے۔ حملے کے وقت امام بارگاہ میں نماز جاری تھی۔ یاد رہے کہ اسی ’امام بار گاہ قصرِ سکینہ‘ پر اس سے پہلے دو حملے ہو چکے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی منگل کو لاہور میں پولیس لائنز کے قریب خودکش بم حملے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حالیہ کچھ ہفتوں سے پاکستان میں شیعہ برادری اور امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ آخری بڑا حملہ شکار پور میں ہوا تھا جہاں 61 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
120816_mansehra_passenger_bus_attack_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/08/120816_mansehra_passenger_bus_attack_tk
مانسہرہ میں مسافروں پر حملہ، انیس ہلاک
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع مانسہرہ کے دور دراز علاقے بابوسر روڈ پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے مقامی پولیس کے مطابق کم سے کم اُنیس افراد ہلاک ہوگئے۔
اپریل میں بھی گلگت بلتستان کے شہر چلاس میں ایک مُسافر گاڑی پر حملے میں نو افراد ہلاک ہوگئے تھے جس پر علاقے میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد پبلک ٹرانسپورٹ میں راولپنڈی سے گلگت جارہے تھے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد چوبیس ہے جبکہ گلگت بلستستان کے وزیرِ خزانہ محمد علی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد پچیس ہے۔ مانسہرہ کے ضلعی پولیس آفیسر شیر اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ تاہم انہوں نے اس واقعے کو فرقہ وارانہ تشش کی کارروائی قرار دیا۔ کالعدم تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی طالبان کے المنصورین گروپ نے کی جس کی سربراہی گروپ کے امیر طارق منصور خود کر رہے تھے۔ اس سے پہلے گلگت جانے والے مختلف راستوں پر فائرنگ کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد شعیہ برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ مقامی پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ تین مسافر گاڑیاں راولپنڈی سے گلگت جار رہی تھی کہ بابو سر روڈ پر لولوسر کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے مذکورہ انہیں روک لیا اور ان گاڑیوں میں سوار افراد کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد اُنہیں گاڑیوں سے اُتارا اور اُنہیں لائن میں کھڑا کرکے گولیاں مار دیں۔ پولسی کے مطابق اُنیس افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں تاہم ملزمان ہلاک ہونے والوں کے پاس نقدی اور اُن کی شناخت کے دیگر دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ گلگت کے مقامی صحافی سعادت علی مجاہد نے بی بی سی کو بتایا عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور ان کی تعداد پندرہ کے قریب تھی۔ مرنے والے تمام افراد اہلِ تشیع سے بتایا گیا ہے۔ مقامی پولیس کے بقول ہلاک ہونے والے افراد کے سازو سامان سے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ عید منانے کے لیے گھر جارہے تھے۔ کاغان تھانے کے سربراہ اورنگ زیب کے مطابق پولیس کو اطلاع ملی کہ اُن کی حدود میں واقع لولوسر کے مقام پر لاشیں پڑی ہوئی ہیں جس پر پولیس نے جائے حادثہ پر پہنچ کر لاشیں قبضے میں لے لیں۔ حفاظتی اقدامات گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں گاڑیوں کو روک کر مسافروں کو اُتار کہ اُنہیں نشانہ بنانے کے واقعات کے سدباب کے لیے گلگلت بلتستان کی حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر ایک حکمت عملی طے کی تھی کہ مسافر گاڑیاں جن جن علاقوں سے گُزریں گے تو متعقلہ تھانے کے اہلکار اُن کی حفاظت کے لیے گاڑی فراہم کریں گے جو کہ اگلے تھانے کی حدود شروع ہونے تک اس مسافر گاڑی کے ساتھ ہوں گے تاہم اس حکمت عملی پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ہلاک ہونے والوں کی شناخت ہوسکی ہے جس پر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ابھی تو لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال مانسہرہ شفٹ کیا جارہا جہاں پر پوسٹ مارٹم کے بعد اُن کی شناخت کا عمل شروع ہوگا۔ پولیس کے بقول ہلاک ہونے والوں کی عمریں پچیس سے تیس سال کے درمیان ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔ پولیس اہلکار کے بقول ملزمان نے مسافروں پر کلاشنکوف اور دیگر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔ تھانے سٹی مانسہرہ کے ایس ایچ او ذوالفقار عباسی کے مطابق پولیس کنٹرول پر یہ پیغام چل رہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بائیس سے تجاوز کر گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جائے حادثہ مانسہرہ شہر سے تین سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اس لیے لاشوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی کافی وقت لگ جائے گا۔ ابھی تک کسی تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں گاڑیوں کو روک کر مسافروں کو اُتار کہ اُنہیں نشانہ بنانے کے واقعات کے سدباب کے لیے گلگلت بلتستان کی حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر ایک حکمت عملی طے کی تھی کہ مسافر گاڑیاں جن جن علاقوں سے گُزریں گے تو متعقلہ تھانے کے اہلکار اُن کی حفاظت کے لیے گاڑی فراہم کریں گے جو کہ اگلے تھانے کی حدود شروع ہونے تک اس مسافر گاڑی کے ساتھ ہوں گے تاہم اس حکمت عملی پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
050118_sham_marriage_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050118_sham_marriage_as
جعلی شادیاں، 25 افراد کو سزا
برطانیہ کے شہر لیئسٹر کی ایک عدالت نے پچیس افراد کو جعلی شادیاں کرانے کے جرم میں کل پینتیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔
ان افراد نے جعلی شادیاں کرانے کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا اور اس کے سرغنہ لیئسٹر کے پچاس سالہ سلیم ملان اور ایسٹ ہیم لندن کے سڑسٹھ سالہ ابراہیم عمرجی تھے۔ دونوں نے غیرقانونی طور پر برطانیہ میں آنے والے افراد کی مدد کرنے کا اعتراف کیا۔ لیئسٹر کے کراؤن کورٹ کو بتایا گیا گینگ نے کئی افراد کی جعلی شادیاں کروائیں تاکہ برطانیہ کے امیگریشن سسٹم کو استعمال کر کے ان کو امیگریشن دلوائی جا سکے۔ سلیم اور ابراہیم کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سلیم ملان کی اہلیہ جہارہ کو منی لانڈرنگ کے جرم میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ چھبیس افراد کو سزا سناتے ہوئے جج سائمن ہیمونڈ نے کہا کہ ’سزا سے اس عوامی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اس طرح کے پیسہ کمانے کے جعلی کاموں سے دوسروں کو روکا جا سکے‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کام کو کرنے کا برطانوی شہریوں کا مقصد پیسہ کمانا تھا اور بھارتی باشندوں کا برطانیہ میں داخل ہونا اور یہاں رہنا تھا۔ سزا پانے والوں میں سے چودہ خواتین تھیں۔ گینگ نے کل 36 شادیاں کروائی تھیں جن میں سے کچھ برطانیہ اور کچھ بھارت میں انجام پائی تھیں۔
080820_amarnath_samiti_talks_np
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/08/080820_amarnath_samiti_talks_np
امرناتھ سمیتی: بات چيت کے لیے تیار
امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین واپس دلانے کی جدوجہد کرنے والی امرناتھ سنگھرش سیمیتی نے تنازعہ کے حل کے لیے گورنر کی جانب سے پیش کی گئی پانچ نکاتی تجویز منظور کر لی ہے اور مذاکرات کے لیے تیار ہو گئی ہے۔
وہیں اس کمیٹی نے اپنا احتجاج پچیس اگست تک بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ طے شدہ پروگرام کے مطابق بدھ کو بھی مسلسل تیسرے دن احتجاجیوں کی جانب سے گرفتاریاں دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس قسم کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہوئی ہیں کہ بدھ کو قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن حالات کا جائزہ لینے کے لیے جموں کشمیر جا رہے ہیں۔ امرناتھ سنگھرش سمیتی کے ترجمان نریندر سنگھ نے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے پانچ نکاتی تجویز ملنے کے بعد منگل کی رات سمیتی کی ایک ایمرجنسی میٹنگ طلب کی گئی جس میں گورنر کے مشیر سدھیر سنگھ بلوریا کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں بدھ کو ایک اور میٹنگ ہوگي جس میں سنگھرش سمیتی کی طرف سے چار مذاکرہ کار بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت نے بات چیت کا جو ایجنڈا دیا ہے اس میں’امر ناتھ گپھا یاترا‘ کے دوران بالتل علاقے سے دومیل کے درمیان آٹھ سو کینال زمین کو امرناتھ مندر بورڈ کو استعمال کرنے کی منظوری دینا بھی شامل ہے۔ ساتھ اس بات کہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ مندر بورڈ کو مختلف مقامات پر اور کتنی زمین کی ضرورت ہوگی۔ تاہم بورڈ کو دوبارہ تشکیل دیے جانے ، اس کے کردار اور اس کے حقائق پر بھی غور کیا جائے گا۔ منگل کو حکومت کی جانب سے شرائن بورڈ سے زمین واپس لیے جانے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر ہزاروں افراد نے گرفتاریاں دیں۔ واضح رہے گزشتہ پچاس دنوں سے جموں ميں اس معاملے پر پر تشدد احتجاج ہو رہے ہیں اور امرناتھ سنگھرش سمیتی نے پیر سے تین روز کی جیل بھرو تحریک شروع کی ہوئی ہے۔ امرناتھ شرائن بورڈ کو چالیس ہیکٹر جنگلات کی زمین دینے جانے اور پھر اس فیصلے کو واپس لیے جانے کے خلاف احتجاج میں جموں خطے میں اب تک بارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کئی افراد زخمی ہو ئے ہیں۔ حکومت نے امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین دینے کے بعد اسے واپس اس لیے لے لیا تھا کیوں کہ اس فیصلے کی مخالفت میں وادی میں پر تشدد احتجاج شروع ہو گئے تھے۔
041211_squash_final_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/12/041211_squash_final_as
ولسٹروپ پاکستان اوپن جیت گئے
دو سابق عالمی چیمپئنز جوناتھن پاور اور ڈیوڈ پامر کی موجودگی میں پاکستان اوپن اسکواش کا ٹائٹل ایک سابق جونیئر عالمی چیمپئن لے اڑے۔
انگلینڈ کے جیمز ولسٹروپ جنہوں نے گزشتہ سال چنئی بھارت میں ورلڈ جونیئر ٹائٹل جیتا تھا جمعہ کو اسلام آباد کے مصحف علی میر اسکواش کمپلیکس میں کھیلے گئے پاکستان اوپن کے فائنل میں آسٹریلیا کے انتھونی رکٹس کو چار گیمزکے مقابلے میں شکست دے دی۔ سیمی فائنل میں دفاعی چیمپئن جوناتھن پاور کو ہرانے والے رکٹس کی ولسٹروپ کو قابو کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی۔ ولسٹروپ نے سیمی فائنل میں ہم وطن نک میتھیو کو ہرایا تھا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستان اوپن اس لیے ناکام رہی کہ چار کھلاڑیوں میں صرف ایک شاہد زمان ہی کوارٹر فائنل میں پہنچ سکے جہاں وہ نک میتھیو سے ہارگئے۔ تاہم دو میچوں میں انہوں نے ایڈرین گرانٹ اور جوزف نیپ جیسے سیڈڈ کھلاڑیوں کو ہرایا تھا۔ یاسربٹ پہلے جبکہ منصور زمان اور شمس کاکڑ کو دوسرے راؤنڈ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1998 میں امجد خان کے بعد کوئی بھی پاکستانی پاکستان اوپن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
world-47613536
https://www.bbc.com/urdu/world-47613536
کرائسٹ چرچ حملے کی ویڈیو دکھانے پر ترکی کے صدر اردوغان پر تنقید
نیوزی لینڈ میں ایک مسجد میں حملے کے دوران بنائی گئی ویڈیو کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی اور اسے سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں سے ہٹا دیا گیا۔
ترکی کی صدر نے ایک ریلی کےدوران بڑی سکرین پر کرائسٹ چرچ میں حملے کی وڈیو دکھائی لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو اس ماہ کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل ہونے والی انتخابی ریلی کے دوران اس ویڈیو کو بڑی سکرین پر دکھانے میں کچھ غلط نہیں لگا۔ اتورا کو ہونے والی ریلی کے دوران صدر اردوغان نے اپنی تقریر روک کر مسجد کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کی تصاویر کو ایک بہت بڑی سکرین پر دکھایا۔ انہوں نے کہا ’دنیا بھر میں لیڈر، اقوام متحدہ سمیت تمام تنظیمیں اسے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ ’عیسائی دہشت گرد ہے‘۔ ترک صدر نے مزید کہا کہ ’اگر یہ کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اسے اسلامی دہشت گرد کہتے۔‘ مزید پڑھیے کرائسٹ چرچ قتل عام پر بعض انڈین افراد کا جشن ’نیوزی لینڈ تو ذیشان کے خوابوں کی سرزمین تھی‘ ’کریڈٹ کارڈ مشین سے حملہ آور کا مقابلہ کیا‘ گھناؤنے مناظر ریلی میں دکھائی گئی ویڈیو میں حملہ آور کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور فائرنگ شروع کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ حملے میں کم از کم 50 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آور نے گو پرو کیمرے کے ذریعے اس واقعے کے تمام مناظر فیس بک پر لائیو نشر کیے تھے۔ لیکن جلد ہی صارفین کے دباؤ کی وجہ سے سوشل میڈیا کمپنیاں اس ویڈیو کو ہٹانے پر مجور ہو گئی تھیں۔ صدر اردوغان نے کہا کہ حملہ آور نے تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا فیس بک نے کہا کہ اس نے پہلے 24 گھنٹوں میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کی کم سے کم 15 لاکھ ویڈیوز اپنی سائٹ سے ہٹائیں۔ فیس بک کے مطابق اس واقعے کی ایڈٹ کی ہوئی ویڈیوز کو، جن میں گھناؤنے مناظر کاٹ دیے گئے تھے، بھی ہٹایا جا رہا ہے۔ صدر اردوغان اس وقت 31 مارچ کو ہونے والے بلیداتی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ انتخابی حمایت کی کوشش بی بی سی کے نامہ نگار مارک لوین کا کہنا ہے کہ انتخابی ریلی میں اس ویڈیو کو دکھانے کا مقصد اپنی حامیوں کو متحرک کرنا ہے۔ صدر اردوغان نے اپنی تقریر میں کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسند حملہ آور 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ نے آن لائن اپنے منشور میں خاص طور پر ترکی اور استنبول کے مشہور تاریخی مقام ’ہایا صوفیا‘ کا ذکر بھی کیا ہے، جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسجد میں تبدیل کیے جانے سے پہلے ’گریک آرتھوڈوکس‘ چرچ تھا اور اب ایک عجائب گھر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آور نے سن 2016 میں دو بار ترکی کا دورہ کیا اور وہاں 40 دن گزارے۔ ترکی کے صدر نے کہا برینٹن ٹیرنٹ کے ترکی میں رابطوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حملہ آور کے منشور میں ترکی کا ذکر تھا ترکی کے صدر نے کہا کہ اگر ’مسلمان متحد ہوں تو کوئی بھی ہم پر اس طرح کے حملے نہیں کر سکتا۔ اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو منظم نہ کیا تو وہ ہم پر اس طرح کے حملے کر سکتے ہیں جیسے انہوں نے کیا۔ اس لیے ہم متحد رہیں گے، ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔‘ انہوں نے اپنی سیاسی مخالف کمال کریدارولو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’وہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو اسلام سے نفرت کرتے ہیں‘۔ ان کے سیکولر مخالفین اس طرح کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ حزب اختلاف کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’اردوغان حملے کی ویڈیو کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ انہوں نے ترکی کے حکام سے اس ویڈیو کے دکھائے جانے پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ ترکی ’اسلاموفوبیا‘ کے خلاف مارک لوین کا کہنا ہے کہ ترک میڈیا نے، جو عموماً حکومت کا حامی ہے، اس واقعے کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے ترکی کا لیڈر مسلمانوں کو ’اسلاموفوبیا‘ سے بچا رہا ہے۔ ایک اخبار کی سرخی تھی ’ہم نیوزی لینڈ حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں جبکہ مغرب خاموش ہے۔‘ صدر اردوغان 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے ہپیں ایک اور اخبار کے مطابق ’مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں اس حملے کی سازش میں شامل ہیں‘۔ بی بی سی کے مارک لوین کے مطابق ’ملک میں دائیں بازو کے رجحانات والے طبقات میں اس طرح کی باتوں کی بہت کشش حاصل ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی صدر اردوغان کو انتخابات میں ضرورت ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح ملک میں سیکولر اور مغرب پسند لوگوں کے لیے مایوسی بڑھ رہی ہے۔‘
science-44357583
https://www.bbc.com/urdu/science-44357583
بچے کو کب تک ماں کا دودھ پلایا جائے؟
بچوں کو کب تک ماں کا دودھ پلایا جائے؟ کیا اس کے فوائد سکول جانے کی عمر تک رہتے ہیں؟
ایک برطانوی ماں اپنی پانچ سالہ بچی اور دو سالہ بچے کو دودھ پلاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے بچوں کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ وہ بہت کم بیمار پڑتے ہیں۔ برطانیہ میں ماؤں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ جب تک بچے چاہیں انھیں دودھ پلایا جائے۔ اسی بارے میں ماں کا دودھ اب سوشل میڈیا پر بھی دستیاب 'شیرخوار نے کینسر کی تشخیص میں مدد کی' برطانوی محکمۂ صحت (این ایچ ایس) نے اس سلسلے میں کوئی حتمی مدت مقرر نہیں کی کہ بچوں کو کب تک دودھ پلایا جائے۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ بچے کی زندگی کے پہلے چھ ماہ اسے صرف ماں کا دودھ پلایا جائے اور اس عرصے میں اسے کوئی اور خوراک یا مشروب، بشمول پانی، نہ دیا جائے۔ ماں کا دودھ ہی بہترین ماہرین کا اتفاق ہے کہ ماں کا دودھ پلانے سے ماں اور بچے دونوں کو طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے بچے کو متعدی بیماریوں، دست، اور قے سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے جب کہ ماں موٹاپے اور دوسری بیماریوں سے بچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ماں کو چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ لیکن کب تک؟ فی الحال برطانوی ماہرین نے بچوں کی عمر کی کوئی حتمی حد مقرر نہیں کی اور اسے ماں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ این ایچ ایس کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: 'بچے کے دوسرے سال اسے دوسری خوراک کے ساتھ ماں کا دودھ پلانا بہترین ہے۔ آپ اور آپ کا بچہ جب تک چاہیں، ماں کے دودھ پلانے سے ملنے والے فوائد سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔' تاہم رائل کالج برائے اطفال کے ڈاکٹر میکس ڈیوی کہتے ہیں کہ دو سال کے بعد بھی دودھ پلاتے رہنے کے فوائد کے کم ہی شواہد ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'دو سال کی عمر تک بچے کو اس کی تمام غذائیت خوراک سے حاصل ہونی چاہیے، اس لیے اس کے بعد سے ماں کا دودھ پلاتے رہنے کا کوئی اضافی فائدہ نہیں ہے۔' تاہم کسی ماں کے لیے بچے کو دودھ پلانے کے مختلف عوامل اور مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ان میں ملازمت، خاندان کی طرف سے تعاون اور اپنا ذاتی آرام اور سہولت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ پلانے سے بچے اور ماں کے درمیان ایک ذاتی رشتہ بھی قائم ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دو سال کی عمر تک بچے کو اس کی تمام غذائیت خوراک سے حاصل ہونی چاہیے ڈاکٹر ڈیوی کے مطابق: 'اس سے ماں اور بچے کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور کوئی خاص نقصان نہیں ہے اس لیے خاندانوں کو چاہیے کہ جو انھیں بہتر لگے، وہی کریں۔' حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں 80 فیصد مائیں بچوں کو دودھ پلانا شروع کرتی ہیں لیکن بہت سی ابتدائی چند ہفتوں کے بعد اسے ترک کر دیتی ہیں۔ چھ ماہ کی عمر تک صرف ایک تہائی بچوں کو ماں کا دودھ ملتا ہے، اور ایک سال تک پہنچتے پہنچتے یہ شرح نصف فیصد رہ جاتی ہے۔ 2016 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے کم مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ بچوں کی صحت کے ماہرین کے کہتے ہیں کہ ماؤں کو مناسب تربیت اور تعاون نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ مائیں گھر سے باہر بچے کو دودھ پلاتے ہوئے خجالت محسوس کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماؤں کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔
080501_afghan_uranium_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/05/080501_afghan_uranium_fz
افغانستان پر حملے کے اثرات
افغانستان میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں بچوں میں امراض کی شرح دگنی ہوگئی ہے۔
چند سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بچوں میں بڑھتے ہوئے امراض کی وجہ سن دو ہزارایک میں ملک میں طالبان حکومت کے خلاف امریکی حملے کے دوران استعمال شدہ یا کم تابکار یورینیم سے تیار شدہ بموں کا استعمال ہے۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقی گروپ نے امریکی حملے کے بعد افغان شہریوں کے ٹیسٹ کرنے پر تابکاری کے بہت واضح اثرات پائے تھے۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ حملے کے دوران استعمال کیئے جانے بموں سے افغان شہریوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں یا ان سے ملک کی آب و ہوا پر کوئی اثرا پڑا ہے۔ لیکن بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام ’ون پلینٹ‘ کے مطابق امریکی حملے سے ملک کے قدرتی ماحول اور شہریوں کی صحت پر مضر اثرات پڑے ہیں۔ قندہار اور کابل میں ڈاکٹروں نے اس سلسلے میں اعدادو شمار دکھائے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ شہریوں میں امراض بشمول نومولد بچوں میں پیدائشی پیچیدگیوں اور معذوری کے کیسوں میں گزشتہ دو سالوں میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے ایک مرکزی ہسپتال میں زچہ و بچہ کے شعبے سے منسلک ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان میں قابل از وقت پیدائش اور پیدائشی مغدوری کے کیس شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یا تو نومولد بچوں کے سر بہت چھوٹے ہوتے ہیں یا ان کے سر بڑے ہوتے ہیں، کچھ بچوں کی کمر پر کوئی ابھار ہوتا ہے یا ان کے ہاتھ پیر ٹھرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ بچوں میں ان پیچیدگیوں کی کیا وجہ ہے۔ کینیڈا کے یورینیم میڈیکل ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ یہ شہریوں میں امراض کی وجہ کم تابکاری یورینیم کا استعمال ہے۔ اس ادارے نے سن دو ہزار دو اور دو ہزار تین میں افغان شہریوں کے قارورے حاصل کر کے کیا تھے۔ کینیڈا کے تحقیقاتی ادارے کے سربراہ اور امریکی فوج کے سابق مشیر آصف دوراکووک نے کہا کہ کم تابکاری والے یورینیم کی زد میں آنے کی وجہ سے یہ امراض پیدا ہو رہے ہیں جن میں جسم کے مختلف حصوں میں درد، انسان کے مدافعاتی نظام میں گڑبڑ اور پیھپڑوں کا متاثر ہونا شامل ہیں جو کہ بگڑ کا کینسر بھی بن جاتے ہیں۔ قدرتی یورینیم اور استعمال شدہ یا کم تابکاری والے یورینیم میں فرق کے باعث سائنسدان آسانی سے یہ معلوم کر سکتے ہیں مریض کس قسم کے یورینیم کی زد میں آی ہے یا مثاثر ہوا ہے۔ کم تابکاری والا یورینیم بنکر شکن بموںمیں استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر دوراکوک کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کی اتحادی افواج نے افغانستان میں کم تابکار یورینیم سے بنائے گئے بنکر شکن بم استعمال کیئے ہیں کیوں کے یہ زمین میں کئی دسیوں میٹر تک گھس جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایسے ہتھیار کی ضرورت تھی جو بنکر اور غاروں کو تباہ کر دے اور زمین میں زیادہ گہرائی تک گھس جائے۔ تورا بوار کی پہاڑیوں کے قریب دیہات کے لوگوں کو شک ہے کہ ان امراض کی وجہ ان بموں کے استعمال کی وجہ سے پھیل رہے ہیں جو اسامہ بن لادن کو غاروں کے سلسلے سے نکالنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پھینکے گئے تھے۔ ایک دیہاتی یوسف خان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ایک عجیب سی بو پھیل گئی تھی اور درختوں پر پھل آنا بھی بند ہو گئے تھے۔ ایک اور دیہاتی بختارو نے بتایا کہ ان کے گاؤں کم از کم تین چار بچے ایسے پیدا ہوئے جن کے ہاتھوں، پاؤں یا چہرے عجیب سے تھے۔ افغانستان کے صحت کے نائب وزیر فیص اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس طرح کی بیماریاں معمول کی بات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ بیماریاں خوارک کی کمی یا کسی تابکاری کی وجہ سے پھیل رہی ہیں۔ امریکی فوج اس بات کی تردید کے وہ کم تابکاری والےیورینیم سے تیار کردہ بم استعمال کر رہی ہے۔ اتحادی فوج کے ترجمان میجر کرس بیلچر نے وہ اس طرح کے بم استعمال نہیں کرتے نہ ہی ان کو اس کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے ماضی میں اس طرح کے بم استعمال کیئے گئے ہوں۔ انہوں نے کہا انہیں نہیں معلوم کہ دو ہزار ایک اور دو ہزار دو میں کس طرح کے بم استعمال کیئے گئے ہیں لیکن اگر اس کی ضرورت ہوئی ہو گئی تو شاید یہ بم استعمال کیئے گئے ہوں۔ امریکہ کی رینّ کارپوریشن کے ڈاکٹر راس اینتھونی نے کہا کہ افغانستان میں کم تابکار یورینیم سے بنائے گئے بم بہت ہی قلیل مقدار میں استعمال کیئے گئے ہوں گے۔ انہوں نے ہا کہ ان کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اتنی کم مقدار میں کم تابکاری والے یورینیم والے بم استعمال کرنے سے اس طرح کی ماحولیاتی مسائل استعمال ہو سکتے ہیں۔
051111_shujaat_revolt_rza
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/11/051111_shujaat_revolt_rza
چوہدری شجاعت کے خلاف ’بغاوت‘
پاکستان کی حکمران جماعت کے پینتیس سے زائد ارکان قومی اسمبلی نے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ایک تحریری درخواست بھجوائی ہے جس میں ان سے پارٹی کی صدارت سنبھالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تاہم چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ وہ ان باغی ارکان کی شکایات دور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان باغی ارکان کے نمائندہ ریاض حسین پیر زادہ نے قومی اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پینتیس سے زائد ارکان کے گروپ کا موقف ہے کہ پارٹی کے اندر متبادل لیڈرشپ آنی چاہئے جس سے مسلم لیگ فعال ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ سن دو ہزار سات میں ہونے والے الیکشن کے لئے نئ پارٹی قیادت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی موجودہ قیادت صدر جنرل پرویز مشرف کے پروگریسو ایجنڈے کو آگے بڑھانےمیں ناکام رہی ہے۔پیر زادہ کے مطابق اگر پنجاب میں چوہدری پرویز الہی صوبے کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی مسلم لیگ کے صدر ہو سکتے ہیں تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی یہ دونوں عہدے اپنے پاس رکھنے چاہئیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب چوہدری شجاعت نے باغی ارکان سے ملنے کے لئے پارلینٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر دو میں دن بارہ بجے کا وقت مقرر کیا۔ چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ وہ آدھے گھنٹے تک وہاں ان ارکان کا انتظار کرتے رہے مگر وہ وہاں نہیں پہنچے۔ مگر ریاض پیر زادہ کا کہنا ہے کہ وہ بارہ بجے وہاں پہنچ گئے تھے اور پانچ منٹ تک چوہدری شجاعت کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہیں آئے۔ ریاض پیر زادہ نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم شوکت عزیز اگر اس معاملے میں مداخلت کرتے ہیں تو وہ چوہدری شجاعت کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ چوہدری شجاعت نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان ارکان اسمبلی کی شکایات کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے اور وہ پارلیمنٹ ہاؤس میں اسی لئے آئے تھے کہ وہ ان ارکان سے ملیں اور ان کی شکایات جانیں۔انہوں نے کہا کہ وہ کافی دنوں سے ان ارکان سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کی کیا شکایات ہیں مگر وہ ان سے اگر نہیں ملیں گے تو اس بات کا کیا حل نکل سکتا ہے۔ اس سارے سیاسی تنازعے کی کڑیاں بظاہر اس برس ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے ملتی ہیں جب بہت سے ارکان اسمبلی نے پارٹی قیادت کی ہدایات کے برخلاف الیکشن میں مسلم لیگ کے امیدواروں کے مقابلے میں انتخابات لڑا۔ الیکشن سے قبل حکمران مسلم لیگ کے ایک سو چالیں ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم شوکت عزیز اور صدر جنرل پرویز مشرف کو تحریری درخواست میں بلدیاتی الیکشن سے پہلے کچھ ناظمین کے احتساب کرنے کا مطالبہ کیا تھامگراس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
050312_imtiaz_century_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/03/050312_imtiaz_century_zs
’ کامران اکمل کی سنچری بہتر ہے‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ کامران اکمل کی شاندار سنچری ان کی چوالیس سال قبل بھارت کے خلاف بنائی گئی سنچری سے بہت بہتر اننگز ہے۔
کامران اکمل امتیاز احمد کے بعد بھارت کے خلاف ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی وکٹ کیپرہیں۔ امتیاز احمد نے61-1960ء میں مدراس ٹیسٹ میں سنچری بنائی تھی۔ امتیاز احمد بھارتی کرکٹ بورڈ کے مہمان کی حیثیت سے موہالی ٹیسٹ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اوپنر کی حیثیت سے ان کی 135 رنز کی اننگز ایک عام سی اننگز تھی لیکن کامران اکمل نے مشکل حالات میں غیرمعمولی بیٹنگ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کامران ایک باصلاحیت کرکٹر ہے جس نے آسٹریلیا میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اب اس میچ میں بھی لاجواب اننگز کھیلی ہے۔ امتیاز احمد کے خیال میں پاکستان نے میچ ڈرا نہیں کیا بلکہ جیتا ہے۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس مشکل صورتحال سے پاکستانی ٹیم بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ امتیاز احمد اس پاکستانی ٹیم میں شامل تھے جس نے ٹیسٹ رکنیت حاصل کرنے کے بعد 53-1952 میں بھارت کا دورہ کیا تھا اور پھر وہ اس ٹیم میں بھی شامل تھے جو61-1960 میں فضل محمود کی قیادت میں بھارت آئی تھی۔ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھارت آکر انہیں بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوئی ہیں کئی پرانے دوست انہیں ملے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت کرکٹ سیریز تواتر سے ہوتی رہنی چاہئے اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر رکھنے میں بڑی مدد ملے گی۔
140426_obama_malaysia_hz
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/04/140426_obama_malaysia_hz
اوباما ملائیشیا کے تاریخ ساز دورے پر
امریکی صدر براک اوباما ہفتے کی شام کو ملائیشیا کے سرکاری دورے پر ملائیشیا کی سوبانگ ائیر بیس پہنچے۔ 1966 سے لے کر اب تک کسی بھی امریکی صدر کا ملائیشیا کا یہ پہلا دورا ہے۔
1966 سے لے کر اب تک کسی بھی امریکی صدر کا مسلمان اکثریت ملائیشیا کا یہ پہلا دورا ہے۔ کئی دہائیوں سے کشیدہ تعلقات کے بعد یہ ملاقات باہمی تعلقات میں بہتری کی طرف ایک قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ صدر اوباما ملائیشیا کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کے لیے اپنے ہم منصب سے بات چیت کریں گے تاکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔ امریکہ نے پہلے ہی کوالالمپور کو فوجی مدد مہیا کی ہے خصوصاً ملائیشیا کے گمشدہ طیارے کی تلاش میں۔ صدر اوباما چار ممالک کے دورے کے سلسلے میں پہلے ہی جاپان اور جنوبی کوریا کا دورا کر چکے ہیں۔ کوالالمپور میں بی بی سی کی نمائندہ جینیفر پاک کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کے دورے سے قبل ملائیشیا کی حکومت کے زیر کنٹرول اخباروں میں پہلے صفحے پر امریکہ کے جھنڈے کی تصویر اور ’خوش آمدید صدر اوباما‘ کے الفاظ لکھے تھے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے ملائیشیا کا دورا بہت تاخیر سے کیا اگرچہ ان کا بچپن ملائیشیا میں گزرا تھا۔ ماضی میں امریکی صدر ملاًئیشیا کے رہنما مہاتیر محمد کے مغرب خلاف بیانات کی وجہ سے ملائیشیا کے دورے سے گریرز کرتے رہے ہیں ۔ مگر موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق چاہتے ہیں کہ واشنگٹن ملائیشیا کو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے پہچانے۔ دوسری جانب صدر اوباما چاہتے ہیں کہ کوالالمپور دس ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے یعنی ’ٹرانس پیسفک‘ معاہدے پر دستخط کرے۔ ملکی سیکیورٹی کے امور پر صدر اوباما کے نائب مشیر بین روڈز کا کہنا ہے کہ ملائیشیا اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا صدر اوباما کی حکومت کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا کے کچھ مسلمان حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ساتھ تجارت کے معاہدوں سے ان کا علاقائی اثر و رسوخ متاثر ہو سکتا ہیں۔ صدر اوباما جنوبی کوریا کے دورے کے بعد ملائیشیا پہنچے اور 29 اپریل کو ان کا ایشیا کا یہ دورہ فلپائن میں اختتام پذیر ہو گا۔
140721_iran_uranium_eliminated_tk
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/07/140721_iran_uranium_eliminated_tk
’ایران نے تمام افزودہ یورینیئم تلف کر دیا‘
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی کا کہنا ہے کہ ایران نے جوہری بم بنانے کے لیے درکار حد تک افزودہ تمام یورینیئم بےضرر بنا دیا ہے۔
عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان مذاکرات ستمبر میں دوبارہ شروع ہوں گے یہ اقدام ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں طے شدہ معاہدے کا حصہ تھا جس کے تحت ایران کو اس کے 20 فیصد تک افزدوہ یورینیئم کو ناکارہ بنانا تھا۔ ’ایران اپنے تمام وعدے پورے کر رہا ہے‘ گذشتہ ہفتے امریکہ نے کہا تھا کہ وہ معاہدے کے تکمیل پر ایران کے دو ارب 80 کروڑ ڈالر کے منجمد اثاثے آزاد کر دے گا۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق جاری مذاکرات میں چار ماہ کی توسیع پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیوں کے خاتمے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ چھ عالمی طاقتیں امریکہ، فرانس، روس، چین، جرمنی اور برطانیہ کو شبہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاہم ایران ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ چھ عالمی طاقتیں امریکہ، فرانس، روس، چین، جرمنی اور برطانیہ کو شبہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاہم ایران ان الزامات سے انکار کرتا ہے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افزودہ یورینیئم کے ذخائر کی تلفی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایران کے رہنما سفارتی عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کی ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران اپنے دیگر تمام وعدے بھی پورے کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ 20 فیصد تک افزودہ یورینیئم تیزی سے جوہری بم بنانے میں استعمال ہو سکتا ہے اور ماہرین کے مطابق اس کی 200 کلوگرام مقدار ایک ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان مذاکرات ستمبر میں دوبارہ شروع ہوں گے۔ کی جا رہی ہے کہ ان مذاکرات میں ایران کے تیل کی فروخت پر عائد پابندی اٹھانے کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے پا جائے گا۔
151209_pak_india_talks_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151209_pak_india_talks_sr
پاکستان اور بھارت کا جامع مذاکرات بحال کرنے پر اتفاق
پاکستان اور بھارت نے جامع مذاکرات کو نئے سرے سے بحال کرنے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے بعد کشمیر، انسدادِ دہشت گردی، سکیورٹی سمیت تمام مسائل پر مذاکرت کا دوبارہ سے آغاز ہو گا۔
اعلامیے کے مطابق ’بھارت کو یقین دلایا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے مقدموں کا جلد فیصلہ کیا جائے گا۔‘ بدھ کو اسلام آباد میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ جامع مذاکرات کا عمل بحال کرنے پر دونوں ممالک متفق ہیں۔ مذاکرات کی بحالی کا اعلان، بھارتی وزیر خارجہ کی میڈیا سے گفتگو سنیے تعلقات کو بہتر بنانے اور بڑھانے کا پیغام لے کر آئی ہوں: سشما ’سب سے اہم افغانستان کی بھارتی بازاروں تک سڑک سے رسائی‘ انھوں نے کہا ’جامع مذاکرات میں پہلے والے تمام عوامل شامل ہوں گے اور ان میں کچھ نئی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں۔‘ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا ’دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں جامع مذاکرات کا شیڈول اور طریقہ کار ترتیب دیا جائے گا کہ مختلف اُمور پر مذاکرات کس کس سطح پر ہوں گے۔‘ یاد رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں، جہاں انھوں نے وزیراعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے وزیر خارجہ کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ’بھارت کو یقین دلایا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے مقدموں کا جلد فیصلہ کیا جائے گا۔‘ اعلامیے کے مطابق ’دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ دو طرفہ جامع مذاکرات کا طریقہ کار وضع کریں گے جس میں ماحول کو سازگار بنانا، کشمیر، سیاچن، ولر بیراج، انسداد دہشت گردی، امن اور سکیورٹی شامل ہیں۔‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات سنہ 2012 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بعد معطل ہیں سشما سوراج نے ذرائع ابلاغ سے مختصر گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کے مشیرانِ قومی سلامتی کے درمیان بینکاک میں ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی اور اس سے منسلک مسائل پر بات کی گئی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے جامع مذاکرات ہوئے، پھر دوبارہ نئے جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات سنہ 2012 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بعد معطل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے حکام سے ملاقات میں جو بات چیت ہوئی ہے اس پر وہ جمعرات کو بھارتی پارلیمان میں خطاب کے دوران تفصیل سے ذکر کریں گی۔‘ اس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے پر زور دیا۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز، سیکریٹری خارجہ اعزاز سید اور مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ موجود تھے۔ پاکستان اور بھارت میں طویل وقفے کے بعد بات چیت کے راستے ہموار ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس کے دوران مختصر بات چیت ہوئی تھی جس کے بعد گذشتہ ہفتہ پاکستان اور بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی نے بینکاک میں ملاقات کی تھی۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ اس بات چیت میں کشمیر، دہشت گردی سمیت تمام مسائل زیر غور آئے اور دونوں ممالک نے مستقبل میں بھی تعمیری مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران کسی بھی بھارتی وزیر خارجہ کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب مسائل پر جامع مذاکرات کا سلسلہ سنہ 1998 میں شروع ہوا تھا۔ سنہ 1999 میں کارگل کی جنگ کے بعد یہ معطل ہو گئے۔ جس کے بعد سنہ 2004 اور سنہ 2005 میں جامع مذاکرات کے ادوار ہوئے تھے لیکن سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے اور بات چیت کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔ سنہ 2010 میں ’دوبارہ جامع مذاکرات‘ کے نام سے شروع ہونے والے مذاکرات سنہ 2012 میں ختم ہو گئے تھے۔
080702_pak_india
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/07/080702_pak_india
کراچی:پاکستان نے بھارت کو ہرا دیا
پاکستان نے ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کے ایک اہم میچ میں بھارت کو آٹھ وکٹ سے شکست دے دی ہے۔
کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں بھارت نے پاکستان کو فتح کے لیے تین سو نو رن کا ہدف فراہم کیا تھا جو پاکستان نے یونس خان کی شاندار سنچری کی بدولت چھیالیسویں اوور میں حاصل کر لیا۔ پاکستان کی جانب سے یونس خان ایک سو تئیس اور مصباح الحق ستّر رن پر ناٹ آؤٹ رہے۔ ان دونوں بلے بازوں کے درمیان ایک سو چوالیس رن کی ناقابلِ شکست شراکت ہوئی۔ ۔ یہ یونس خان کی ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں پانچویں اور بھارت کے خلاف تیسری سنچری ہے۔ یونس نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں پانچ ہزار رنز بھی مکمل کر لیے۔ پاکستان کی جانب سے سلمان بٹ اور ناصر جمشید نے اننگز کا آغاز کیا اور جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے سکور کو پینسٹھ رن تک پہنچا دیا۔ اس موقع پر سلمان بٹ چھتیس رن بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔ پاکستان کے دوسرے اوپنر ناصر جمشید چالیس گیندوں پر نو چوکوں کی مدد سے نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد ٹانگ میں کریمپ کی وجہ سے کھیل جاری نہ رکھ سکے اور میدان سے باہر چلے گئے۔ آؤٹ ہونے والے دوسرے پاکستانی کھلاڑی محمد یوسف تھے جو بیس رن بنا کر پیوش چاؤلہ کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں یہ پانچواں موقع ہے کہ پاکستان نے تین سو یا زائد کا ہدف عبور کیا ہے ان پانچ میں سے چار کامیابیاں بھارت کے خلاف ہیں۔ اس سے قبل بھارت نے مقررہ پچاس اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر تین سو آٹھ رن بنائے تھے۔ انڈیا کی طرف سے سب سے زیادہ سکور کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بنایا جو چھہتر رن بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ پاکستان کی طرف سے راؤ افتخار انجم نے دس اووروں میں اکیاون رن دے کر تین کھلاڑی آؤٹ کیے۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور وریندر سہواگ اور گوتم گمبھیر کی جارحانہ بلے بازی کی بدولت ابتدائی دس اوورز میں اٹھاسی رن بنا ڈالے۔ اس موقع پر یکے بعد دیگرے تین بھارتی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے سے بھارتی رن ریٹ کم ہوا ۔ تاہم بعد میں آنے والے بلے بازوں مہندر دھونی اور روہت شرما نے ٹیم کو سہارا دیا اور ان کے درمیان ایک سو بارہ رن کی شراکت ہوئی۔ دو سو اکتالیس رن کے مجموعی سکور پر شرما بھی نصف سنچری بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔یوسف پٹھان بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ پاکستانی بالروں میں سہیل تنویر نے دس اووروں میں ستاسی رن دے کر ایک کھلاڑی آؤٹ کیا۔ عبدالرؤف نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ اپنا پہلا میچ کھیلنے والے سپنر سعید اجمل پاکستان کی جانب سے سب سے کفایتی بالر ثابت ہوئے۔ انہوں نے مقررہ دس اوور میں سینتالیس رن دیے اور ایک وکٹ حاصل کی۔ اس جیت کے بعد پاکستان کے فائنل میں پہنچنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ جمعرات کو بھارتی ٹیم سری لنکا سے ہار جائے اور جمعہ کو آخری لیگ میچ میں پاکستان بنگلہ دیش کو شکست دے دے تو سپر فور مرحلے میں زیادہ فتوحات کی بنیاد پر پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچ جائے گی۔اگر بھارتی ٹیم سری لنکا کو ہرا دیتی ہے تو وہ فائنل میں پہنچ جائے گی۔ سری لنکا کی ٹیم پہلے ہی فائنل کھیلنے کا حق حاصل کر چکی ہے۔ اس میچ میں پاکستان کے کپتان شعیب ملک فٹنس ٹیسٹ پاس نہ کرنے کی وجہ سے حصہ نہیں لے رہے اور پاکستانی ٹیم کی قیادت مصباح الحق کر رہے ہیں۔شعیب ملک کی جگہ اوپنر ناصر جمشید کو حتمی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ناصر جمشید کے علاوہ فاسٹ بولر عبدالرؤف اور آف اسپنر سعید اجمل کو منصورامجد اور وہاب ریاض کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کی ٹیم:سلمان بٹ، نذیر جمشید، یونس خان، محمد یوسف، مصباح الحق، شاہد آفریدی، سرفراز احمد، سہیل تنویر، انجم، رؤف، سعید اجمل۔ انڈیا کی ٹیم: وریندر سہواگ، گوتم گمبھیر، سریش رائنا، یوراج سنگھ، مہندر سنگھ دھونی، عرفان پٹھان، چاولا، کمار، ایشانت شرما۔
160105_pathankot_some_questions_mb
https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/01/160105_pathankot_some_questions_mb
پٹھان کوٹ: سوالات زیادہ اور جوابات کم
بھارتی شہر پٹھان کوٹ کی ایئر بیس پر گولہ باری کی گونج ابھی خاموش نہیں ہوئی ہے لیکن یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ علاقے میں شدت پسندوں کی موجودگی کی معلومات ہونے کے باوجود بھی حملہ آوروں کو ايئر بیس میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا جاسکا؟
پٹھان کوٹ پر حملہ سنیچر کی صبح ہوا تھا انٹیلیجنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے، حملے سے پہلے انھوں نے ٹیلی فون پر سرحد پار اپنے ہینڈلرز اور اہل خانہ سے بات چیت بھی کی تھی، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق انھوں نے یہ بات چیت سنی ہے، اور ان کے خیال میں ممکنہ طور پر ان لوگوں کا تعلق جیش محمد سے ہے لیکن حکومت نے باضابطہ طور پر ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ سنیچر کی شام وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ سبھی پانچ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا ہے، لیکن اس کے دو دن بعد بھی آپریشن جاری تھا اور وزیر داخلہ نے اپنی ٹوئیٹ کو اپنے اکاؤنٹ سے ہٹا دیا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پیشگی اطلاعات مل جانے کے باوجود حملہ آوروں کو ایئر بیس میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا جاسکا؟ حملہ آوروں نے جب جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات ایک پولیس افسر سے ان کی گاڑی چھینی، تو اس کےبعد کیا ہوا؟ سرچ آپریشن پیر تک جاری رہا حملہ آوروں نے پولیس افسر اور ان کے ایک ملازم کو زندہ کیوں چھوڑ دیا؟ انھیں مارا کیوں نہیں؟ رہائی کے بعد پولیس افسر نے کیا کیا؟ کیا یہ خبریں درست ہیں کہ شروع میں خود پولیس نے ان کی کہانی کو درست ماننے سے انکار کیا؟ جب پولیس افسرنے یہ انکشاف کیا کہ گاڑی چھیننے والوں نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں، تو پولیس نے کیا کارروائی کی؟ حملہ آور پولیس افسر کے جس سنار (زرگر) دوست کو اپنے ساتھ لے گئے تھے، وہ کیسے زندہ بچا جبکہ شدت پسندوں نے اسے گلا کاٹ کر مارنے کی کوشش کی؟ جب یہ واضح ہوگیا کہ کم سے کم چار شدت پسند علاقے میں موجود ہیں تو قومی سلامتی کے مشیر کی ہدایت پر نیشنل سکیورٹی گارڈ کے دستوں کو پٹھان کوٹ روانہ کردیا گیا۔ فضائیہ کے اڈے پر حملہ این ایس جی کے پٹھان کوٹ پہنچنے اور ریڈ الرٹ کا اعلان کیے جانے کے بعد ہوا حالانکہ اس علاقے میں مسلح افواج کا سب سے بڑا اثاثہ یہ ایئر بیس ہی ہے اور اس کے قریب ہی برّی فوج کی بڑی نفری تعینات ہے۔ اس لیے سوال یہ اٹھایا جارہا ہےکہ ایئر بیس سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور پولیس افسر کی گاڑی برآمد ہونے اور حملہ شروع ہونے کے درمیان تقریباً پورا دن کیا کارروائی ہوئی۔ ایئر بیس کے قریب گاڑی ملنا کیا اس بات کا واضح اشارہ نہیں تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ کیا ہے؟ حملے میں سات سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے حملے کے تیسرے دن بھی واضح نہیں تھا کہ حملہ آوروں کی کل تعداد کتنی ہے، وہ دو ٹیموں میں تھے یا ایک، کیا آپریشن کو لمبا کھینچنا ہی ان کی حکمت عملی تھی، دو حملہ آور سنیچر کی شام سے اتوار کی دوپہر تک کیوں خاموش چھپے رہے، اگر حملہ آور دو ٹیموں میں تھے تو دوسری ٹیم فضائیہ کے اڈے تک کیسے پہنچی؟ فی الحال سوال زیادہ ہیں اور جواب کم۔ وقت کے ساتھ ہی اصل تصویر سامنے آئے گی کہ کس کو کیا معلوم تھا اور اگر مجموعی معلومات کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے تو کیا اس حملے کو روکا یا اس سے ہونے والے جانی نقصان کو کم کیا جاسکتا تھا؟ ریڈ الرٹ کے باوجود اس حملے میں سات فوجی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں اور ان کی تعداد ہلاک ہونے والے شدت پسندوں سے زیادہ ہے۔ پٹھان کوٹ سے ملحق گرداس پور ضلعے میں گذشتہ برس بھی شدت پسندوں نے ایک پولیس ٹھانے پر حملہ کیا تھا۔ پٹھان کوٹ کی ایئر بیس اس جگہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جس طرح سے یہ آپریشن چل رہا ہے، تاثر یہ ملتا ہے کہ ممبئی پر سنہ 2008 کے حملے سے زیادہ سبق نہیں سیکھے گئے ہیں۔
080323_mush_prade_assur_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080323_mush_prade_assur_ra
’نئی حکومت سے تعاون کروں گا‘
صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر نئی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ اسے ان کی پوری حمایت حاصل ہوگی۔
انہوں نے یہ بات یومِ پاکستان کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ کے موقع پر کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک جمہوریت کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے مخدوم یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کا ذکر یا نام لیے بغیر انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئی حکومت سیاسی امن اور اقتصادی ترقی کو برقرار رکھے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ نئے حکمرانوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ماضی کی قوت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے افواج پاکستان کو مشکل اوقات میں عوام کی مدد کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ صدر نے نگران حکومت اور انتخابی کمیشن کی بھی کامیاب عام انتخابات منعقد کرنے پر تعریف کی۔ سفید شیروانی میں ملبوس صدر جناح سپورٹس کمپلیکس کے پریڈ گراونڈ بگھی میں پہنچے۔ یہ ان کی بطور سویلین صدر پہلی پریڈ تھی۔ ان کا استقبال نگران وزیر اعظم میاں محمد سومرو نے کیا۔ اس سال پریڈ کی خاص بات چین کے تعاون سے تیار کیے گئے جے ایف تھنڈر طیاروں کی پریڈ میں شمولیت تھی۔ پریڈ کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ سپورٹس کمپلیکس کے اردگرد فوج تعینات تھی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں بھی جگہ جگہ بھاری تعداد میں پولیس کی نفری تعینات رہی۔
140427_pope_sainthood_hz
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/04/140427_pope_sainthood_hz
دو پوپ کو سینٹ کا درجہ دے دیا گیا
ویٹیکن شہر میں ایک بہت بڑا مجمع ایک تاریخ ساز تقریب دیکھنے کے لیے اکھٹا ہوا جس میں پوپ جان پال دوم اور تئیسویں پوپ جان کو سینٹس کا درجہ دیا گیا۔
پوپ جان پال دوم اور تئیسویں پوپ جان کو اولیا کا درجہ دیا گیا۔ اس مذہبی تقریب کی سربراہی پوپ فرانسز شانز دہم اور سابق پوپ بینیڈکٹ نے کی اور اس میں تقریباً دس لاکھ زائرین نے شرکت کی۔ بہت سے لوگوں نے یہ تقریب ٹی وی اور ریڈیو پر بھی سنی۔ اس تقریب میں سو بین الاقوامی وفود نے شرکت کی جن میں شاہی خاندانوں کے نمائندے ، ملکوں کے سربراہ اور حکومتی اہلکاروں نے شرکت کی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ہی سال میں دو پوپس کو ایک ہی ساتھ سینٹس کا درجہ دیا گیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے رومن کیتھلک چرچ میں قدامت پسند اور ترقی پسند حلقوں کو اکھٹا کرنا کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ اپنے خطاب میں پوپ فرانسز نے دونوں پوپ کو خراج تحسین پیش کیا اور انہیں ’ بہادر مرد‘ کا خطاب بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ دونوں پادری تھے ، بشپ تھے اور بیسویں صدری کے پوپ تھے۔ انھوں نے اُس صدی کے مشکل ترین دور دیکھے مگر وہ ان سے گھبرائے نہیں۔ ان کے لیے صرف خدا ہی طاقت ور تھا۔‘ اس تقریب کے لیے خصوصی بس ، ٹرین، اور کشتیاں چلائی گئیں تاکہ ہزاروں زائرین کو دو گھنٹے کی اس تقریب کے لیے مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے روم پہنچایا جائے۔ کچھ زائرین نے رات ہی کو سینٹ پیٹر سکوئر کے قریب نشستیں سنبھال لیں تاکہ تقریب شروع ہوتے ہی انھیں سب سے پہلے داخلہ مل سکے۔ قریب سڑکوں پر سکرینیں نصب تھیں تاکہ وہ لوگ بھی تقریب سے مستفید ہو سکیں جو وہاں خود موجود نہیں ہیں۔ پوپ جان کے آبائی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ’ ہم اس دن کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ موقع زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے۔‘ ویٹیکن نے اس بات کی تصدیق کی کہ اٹھہتر سالہ بینیڈکٹ جن کا سرکاری خطاب پوپ ایمرٹیس ہے پہلی بار موجودہ پوپ کے ساتھ عوام کے سامنے آئیں گے۔ پوپ بینیڈکٹ پچھلے چھ سو سال میں وہ واحد پوپ ہیں جنہوں نے صحت کی وجوہات پر اپنے منصب سے استعفیٰ دیا۔ سینٹس بننے کا عمل بہت لمبا اور مہنگا ہوتا ہے۔ مگر پوپ جان پال دوئم جن کا چھبیس سالہ دور اقتدار 2005 میں ختم ہوا کو صرف نو سال میں سینٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ دوسری جانب تئیسویں اتالوی پوپ جنہیں ’گوڈ پوپ‘ کہا جاتا ہے انھیں پوپ فرانسس نے سینٹ کا درجہ حال ہی میں اچانک دے دیا گیا۔ روم سے بی بی سی کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ رائلی نے کہا کے اس فیصلے کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تئیسویں پوپ جان اور پوپ جان پال کو اکھٹے سینٹ کا درجہ دینے سے موجودہ پوپ فرانسس نے کسی بھی ممکنہ تنقید کو ختم کر دیا ہے۔
pakistan-52209087
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52209087
کورونا وائرس سے پاکستان میں ایک کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ
ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات میں فیشن برانڈز کی کمپنی میں ای کامرس سپیشلسٹ کے طور پر کام کرنے والے نوید احمد کو یکم اپریل کو نوکری سے برخاستگی کا لیٹر تھما دیا گیا۔
کمپنی کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے جاری کردہ لیٹر میں نوید کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پندرہ مارچ سے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے بعد کمپنی کے تمام دفاتر میں کام رک چکا ہے اور یہ لاک ڈاؤن اپریل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ ان حالات کی وجہ سے کمپنی کے لیے کچھ ملازمین کا فارغ کرنا ناگزیر ہے۔ لیٹر میں لکھا گیا کہ انتظامیہ کو یہ قدم نہایت ہی مجبوری کی حالت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کراچی کے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹری کی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹس جاری کر کے تمام سٹاف کو مطلع کیا گیا کہ ان کی تنخواہوں میں دس سے پچاس فیصد کٹوتی کی جا رہی ہے۔ دس سے پچاس فیصد تک کٹوتی سٹاف کی تنخواہوں کے لحاظ سے کی جائے گی جو اپریل، مئی اور جون کی تنخواہوں پر لاگو ہو گی۔ یہ بھی پڑھیے کورونا: پاکستان میں کیا صنعتی اداروں کے علاوہ مزدوروں کو بچانے کی بھی ضرورت ہے؟ ’ڈر ہے کہ کورونا سے پہلے بھوک سے نہ مر جائیں‘ چین سے درآمدات میں کمی، پاکستان کی صنعت پر کیا اثرات ہوں گے کراچی میں ایک بڑے ٹیکسٹائل گروپ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے فیکٹری بند ہونے کے باعث تمام ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی دی جا رہی ہے۔ اس نوٹس کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ایکسپورٹ آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے صرف ضروری ملازمین کو بلایا جائے گا اور باقی ملازمین بغیر تنخواہ کے چھٹی پر تصور کیے جائیں گے۔ ’بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب بیروزگاری‘ کراچی میں مقیم معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ کچھ صنعتی اور کاروباری اداروں کی جانب سے بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیروزگار ہو چکے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں تو اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے۔ مکمل طور پر بند کمپنیاں آٹو، ٹیکسٹائل، انجنیئرنگ، سیمنٹ، کیمیکلز وغیرہ کے شعبوں سے متعلق ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔ ان کے تجزیے کے مطابق اگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور حکومت موجودہ حکمت عملی پر کاربند رہتی ہے تو محتاط اندازے کے مطابق تیس سے پچاس لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ سکتا ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی ہے اور اسے تین مہینے تک بڑھایا گیا تو یہ ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطروں سے دوچار کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق کورونا وائرس کا پیدا کردہ معاشی بحران ملک میں تین شعبوں کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے جن میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان میں بڑی اور درمیانی صنعتیں، ہول سیل و ریٹیل کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے شعبے شامل ہیں۔ ’سرکاری کفالت پیکج ناکافی ہے‘ معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کی کورونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران پر تجزیاتی رپورٹ نشاندھی کرتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے طویل ہونے سے معاشی سرگرمی کے نہ ہونے یا کم ہونے سے ایک کروڑ سے زائد افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ان کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2019 میں ٹوٹل ورک فورس ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے جنھیں ماہانہ آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جاتا ہے۔ خرم شہزاد کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد کے ملازمتوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں وہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے ماہانہ محروم ہو جائیں گے۔ خرم شہزاد کا کہنا ہے یہ تخمینہ تنخواہ کی کم سے کم سطح پر رکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراب معاشی صورتحال اور اس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے افراد کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت ملک میں ایک کروڑ سے زائد غریب خاندانوں کو نقد رقم کی صورت میں امداد دی جائے گی جو چار مہینے کے لیے بارہ ہزار روپے پر مشتمل ہو گی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ یہ رقم وفاقی حکومت کے ’احساس پروگرام‘ کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو ادا کی جائے گی۔ تاہم انھوں نے اس امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چار مہینوں کے لیے ایک خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ رقم بہت کم ہے۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپے کے ذریعے ایک خاندان کی کفالت بہت مشکل ہے۔ ’معاشی ترقی کی رفتار مزید سست ہو گی‘ ملازمت سے فارغ ہونے سے لے کر بغیر تنخواہ پر چھٹی پر بھیجے جانے والے ملازمین ان لاکھوں دیہاڑی دار مزدوروں کے علاوہ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا روزگار کماتے ہیں۔ یہ سب افراد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے رک جانے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی معیشت جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے بھی خراب تھی اس میں مزید ابتری کورونا وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کے اعشاریوں میں تنزلی کی وجہ سے پہلے ہی بیروزگاری کی شرح بلندی کی طرف گامزن تھی اور اس میں مزید اضافہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی پہیے کے رک جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں اس مالی سال دو سے ڈھائی فیصد رہنے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے جی ڈی پی تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ پاکستانی معیشت کے تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے ملکی معیشت کے کورونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیشنگوئی کی ہے۔ ’شرح سود کم کیے بغیر تعمیراتی پیکج بے فائدہ ہو گا‘ وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے ’مراعاتی پیکج‘ اور چودہ اپریل سے اسے کھولنے کا اقدام معیشت کی خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اٹھای ہے تاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے بیروزگاری کی بلند شرح پر قابو پایا جا سکے۔ وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے کر اسے سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنایا ہے تاکہ اس شعبے اور اس سے منسلک اسٹیل، فولاد، لکڑی، سیمنٹ، بھٹوں، بجلی کے آلات اور ہارڈ ویئر سمیت دوسرے شعبوں میں کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ معیشت کے ماہرین نے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کو سراہا تاہم اس سلسلے میں انھوں نے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر پاشا کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے حکومت روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے تاہم ان کے مطابق حکومت کو تعمیراتی شعبے میں طلب کے پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ تعمیراتی شعبہ مکان تو بنا دے گا لیکن ملک میں گیارہ فیصد کے بلند شرح سود پر لوگوں کا بینکوں سے قرض لینا مشکل ہو گا۔ ڈاکٹر پاشا کے خیال میں اگر حکومت تعمیراتی شعبے میں طلب کو بڑھانا چاہتی ہے تو اسے شرح شود کو پانچ سے چھ فیصد تک گرانا ہوگا تاکہ لوگ مکان خریدنے کے لیے بینکوں سے سستے قرضے لے سکیں۔
160123_iran_china_atk
https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/01/160123_iran_china_atk
ایران اور چین کا باہمی تعلقات بڑھانے پر اتفاق
ایران کے دارالحکومت تہران میں چینی اور ایرانی صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین معاشی اور سیاسی تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
چینی صدر ایران کے ایک روزہ دورے پر ہیں تہران میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے 17 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن کے تحت دونوں ممالک کے مابین تجارت کے حجم کو بڑھا کر 600 ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ بین الاقوامی کمپنیاں ایران میں سرمایہ کاری کی متمنی پاکستان کی ایران سے تجارت میں اضافے کا امکان ایرانی پابندیاں ختم ہونے کا عالمی خیر مقدم ایرانی صدر روحانی کے بقول صدر شی جن پنگ نے دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعلقات کے حوالے سے ایک پچیس سال طویل جامع معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی، مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام، سکیورٹی اور دفاع کے علاوہ سیاحت، ٹیکنالوجی اور ثقافت پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ خیال رہے کہ چینی صدر ایران کے ایک روزہ دورے پر ہیں جس کے دوران وہ ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات کریں گے۔ شی جن پنگ گزشتہ دس برسوں میں ایران کا دورہ کرنے والے پہلے چینی صدر ہیں۔ یاد رہے کہ جوہری معاہدے پر مناسب عملدرآمد کی تصدیق کے بعد گزشت ہفتے ایران پر سے بین الاقوامی معاشی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے اور پابندیوں کے اٹھنے کے بعد دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ باہمی تجارت کو مزید فروغ دیا جائے۔
071203_qilla_blast_arrest_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071203_qilla_blast_arrest_zs
مدرسہ دھماکہ،تین افراد حراست میں
بلوچستان کے علاقہ قلعہ سیف اللہ میں واقع ایک مدرسے میں دھماکے سے چھ افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس نے تین افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں ایک اہم ملزم بھی شامل ہے۔
کوئٹہ سے کوئی ایک سو چالیس کلومیٹر دور شمال میں ہونے والے اس دھماکے سے چھ طالب علم ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ ضلعی پولیس کے مطابق یہ دیسی ساختہ بم تھا اور جب اسے ایک بچے نے اٹھایا تو وہ پھٹ گیا اور اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ قلعہ سیف اللہ سے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش مختلف زاویوں سے کی جا رہی ہے اور اب تک تین افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں ایک اہم ملزم شامل ہے جس پر شک ظاہر کیا گیا ہے کہ اس نے مدرسے میں قیام کیا تھا۔ پولیس حکام نے بتایا ہے کہ اس بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جس کے بعد ہی کوئی واضح صورتحال سامنے آئے گی۔ قلعہ سیف اللہ کے پولیس افسر آصف غلزئی نے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق رات ایک طویل قد کا لڑکا مدرسے میں ٹھہرنے آیا تھا جو خود کو پاگل ظاہر کر رہا تھا اور جاتے جاتے مدرسے میں بم چھوڑ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے نوجوانوں کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ قلعہ سیف اللہ سے مقامی صحافی نظام الدین نے بتایا ہے کہ اس واقعہ کے بعد مقامی لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کا ایک پرامن علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں اس طرح کے واقعات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
080128_lawyers_protest_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/01/080128_lawyers_protest_as
معزول ججوں کے حق میں مظاہرہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلیْ عدلیہ کے دیگر ججوں سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کے لیے جاری کردہ نوٹسز کے خلاف وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
اتوار کو یہ مظاہرہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کےنظر بند صدر بیرسٹر اعتزاز احسن کی رہائش گاہ کے باہر ہوا۔ مظاہرے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں، پنجاب بارکونسل کے ارکان، وکلاء، سول سوسائٹی کے افراد، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنماؤں، طلبا اورسیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہوئے۔ مظاہرین نے جسٹس افتخار محمد چودھری اور اعتزاز احسن کی تصویر کے علاوہ پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’ججوں کورہا کرو اورعدلیہ کو بحال کرو‘ کی عبارت درج تھی۔مظاہرے میں شامل افراد نے جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق اور صدر پرویز مشرف کے خلاف نعرے لگائے۔ وکلاء رہنماؤں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک میں عدلیہ کی بحالی اور آمریت کے خاتمے تک ان کی پر امن جدوجہد جاری رہے گی۔ مظاہرین ’گو مشرف گو مشرف‘ اور ’چیف تیرے جان نثار بے شمار‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس کی شکل میں اعتزاز احسن کی رہائش گاہ سے مارچ کرتے ہوئے مال روڈ پر آئے۔ اعتزاز احسن کی اہلیہ بیگم بشریْ اعتزاز نے بھی احتجاج میں حصہ لیا جبکہ لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس بیگم ناصرہ جاوید اقبال نے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں پمفلٹ تقسیم کیے۔ آخر میں مظاہرین نے مال روڈ پر قومی ترانہ پڑھا اور پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
151201_morgan_eng_squad_wt20_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/12/151201_morgan_eng_squad_wt20_zs
’ورلڈ ٹی 20 کے لیے ٹیم کا انتخاب مشکل ہوگیا‘
پاکستان کو ٹی 20 سیریز میں وائٹ واش کرنے کے باوجود انگلش کرکٹ ٹیم کے کپتان اوئن مورگن کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کے لیے اُن کی بہترین ٹیم کیا ہوگی۔
اِس پورے دورے کے دوران ہم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ دیکھا: اوئن مورگن انگلش ٹیم بھارت میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل پانچ میچوں میں لگاتار ناقابل شکست رہی ہے اور ٹورنامنٹ سے قبل اسے دو میچ مزید کھیلنے ہیں۔ انگلینڈ نے پاکستان کو سپر اوور میں شکست دے دی 29 سالہ مورگن کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے بہترین 11 کھلاڑی کون سے ہوں گے لیکن یہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔‘ ’ہماری تبدیلیوں کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ یہ طویل مدتی منصوبہ ہے۔‘ پاکستان کے خلاف سیریز میں سسیکس سے تعلق رکھنے والے آل راؤنڈر کِرس جورڈن، ہیمپشائر کے بلے باز جیمز وِنس، لنکا شائر کے سپینر سٹیفن پیری، یارک شائر کے فاسٹ بولر لیئم پلنکٹ اور کینٹ کے بلے باز سیم بلنگز نے متاثر کُن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جیمز وِنس تو تین میچوں کی سیریز میں 125 رنز بنانے پر سیریز کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔ جیمز وِنس تین میچوں کی سیریز میں 125 رنز بنانے پر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے مورگن کا کہنا ہے کہ ’سیریز کے دوران متواتر تبدیلیوں کی وجہ سے اب ہمارے پاس 15 سے 17 نام موجود ہیں جن میں سے ہم کھلاڑیوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‘ 11 مارچ کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز سے قبل انگلینڈ کو صرف دو بین الاقوامی میچ کھیلنے ہیں جو دونوں جنوبی افریقہ کے خلاف ہیں۔ مورگن ٹورنامنٹ کے لیے صرف 15 کھلاڑیوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور سلیکٹرز کی جانب سے آل راؤنڈر بین سٹوکس کو بلانے کا امکان ہے جس کا مطلب ہے کہ جن کھلاڑیوں نے پاکستان کو شکست دینے میں مدد کی وہ اب بھی باہر ہو سکتے ہیں۔ مورگن کا کہنا ہے کہ ’اِس پورے دورے کے دوران ہم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ دیکھا ہے۔‘ ’ہم نے اپنے باؤلروں کی کاکردگی کا بھی جائزہ لیا ہے۔ کرس جورڈن، عادل رشید اور سٹیفن پیری اور معین علی نے شاندار بولنگ کا مظاہرہ کیا اور ورلڈ ٹی 20 کے لیے ٹیم کا انتخاب کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران بھارت میں جس صورتحال کا سامنا ہو گا، ہم اُس سے ملتی جلتی صورتحال میں کھیل رہے ہیں، ہم سپن کا بہت زیادہ سامنا کر رہے ہیں اور یہ ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے بہت اچھا ہے۔‘
060620_ghana_israel_apology_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/06/060620_ghana_israel_apology_ra
گھانا کا کھلاڑی، اسرائیل کا جھنڈا
گھانا کی فٹ بال ایسوسی ایشن نے عالمی کپ کا ایک میچ جیتنے کے بعد اپنے ایک دفاعی کھلاڑی کی طرف سے اسرائیل کا جھنڈا لہرانے پر معذرت کی ہے۔
گھانا کے ایک دفاعی کھلاڑی جان پینٹسل نے عالمی کپ میں جمہوریہ چیک کے خلاف میچ جیتنے کے بعد اسرائیل کا جھنڈا لہرایا تھا۔جان پینسٹل اسرائیل میں کلب فٹ بال کھیلتے ہیں۔ گھانا فٹ بال ایسوسی ایشن کے ترجمان رینڈی ایبے نے کہا کہ گھانا فٹ بال اسرائیل اور فلسطین جھگڑے میں کسی کی طرف داری نہیں کر رہا ہے۔ فٹ بال ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا کہ آئندہ گھانا کا کوئی کھلاڑی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور جان پینسٹل کا یہ فعل نہ تو عربوں کے خلاف نفرتکا اظہار ہےاور نہ ہی وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ فٹ بال ایسوسی ایشن کے ترجمان نے جان پنسٹل نے یہ سب کچھ سادگی میں کیا اور اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ فیفا کے ایک ترجمان نےکہا کہ ان کو کھلاڑی کی اس حرکت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ اسرائیل کے وزیر کھیل نے کہا ہے کہ جان پنسٹل نے اسرائیل کاجھنڈا لہرا کر اسرائیلیوں کے دل جیت لیے ہیں اور خود کو ایک اسرائیلی ثابت کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر نے کہا اسرائیلیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب گھانا کی ٹیم کے حمایتی ہے۔
150326_saudi_launch_military_operation_yemen_zz
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/03/150326_saudi_launch_military_operation_yemen_zz
سعودی عرب نے یمن میں فوجی آپریشن شروع کر دیا
سعودی عرب کے امریکہ میں سفیر کے مطابق ان کی فوج نے یمن میں صدر ہادی کی درخواست پر شیعہ حوثی قبائلیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔
سعودی عرب یمن میں فضائی کارروائی کر رہا ہے: سعودی سفیر امریکہ میں سعودی کے سفیر عادل الجبير کے مطابق یمن کے صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی قانونی حکومت کو بچانے کے لیے ان کے ملک نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ یمن: ایران، سعودی کا میدان جنگ؟ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ہمسایہ ملک یمن کے لوگوں کی حفاظت اور اس کی قانونی حکومت کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس میں سعودی سفیر عادل الجبير نے کہا کہ فوجی کارروائی گرینج کے معیاری وقت 23:00 پر شروع کی گئی۔ سعودی عرب یمن کے شہریوں اور قانونی حکومت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا: سعودی سفیر انھوں نے کہا کہ فوجی کارروائی میں فضائی طاقت استعمال کی جا رہی ہے اور اس دیگر خیلجی ریاستوں کی حمایت بھی شامل ہے۔ یمن کے صدر عبدالربوہ منصور ہادی نے عدن چھوڑنے سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ حوثی قبائلیوں کے خلاف کارروائی کی خواہش مند ریاستوں کی حمایت کرے۔ اس کے علاوہ انھوں نے گلف تعاون کونسل جی سی سی اور عرب لیگ سے بھی مداخلت کی اپیل کی تھی۔ اس سے پہلے برطانوی خبررساں ادارے روائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ سعودی حکام نے یمن کے ساتھ اپنی سرحد پر فوج کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ پیر کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا تھا کہ یمن میں عدم استحکام کا پرامن حل نہ نکالا گیا تو خلیجی ممالک یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ’ناگزیر اقدامات‘ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے سعدوی عرب نے یمن کی سرحد پر سکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کر دیا تھا دوسری جانب یمن میں ایران نواز شریعہ حوثی قبائلیوں نے حالیے دنوں بڑی تیزی سے پیش قدمی کی ہے۔ یمن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حوثی قبائلی جنگجو عدن شہر پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں اور اس وقت شہر کے مضافات میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے قبائلیوں کی شہر کی جانب پیش قدمی کے بعد صدر عبدالربوہ منصور ہادی عدن کے صدارتی محل سے فرار ہو کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت عدن شہر کے مضافات میں قبائلیوں کی صدر ہادی کی حامی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہو رہی ہیں جبکہ شہر کے ہوائی اڈے پر باغیوں نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حوثی قبائلیوں کی پیش قدمی جاری عدن شہر سے ساٹھ کلو میٹر دور اس ہوائی اڈے سے گزشتہ ہفتے امریکی اور مغربی فوجی ماہرین کو واپس بلا لیا گیا تھا یمن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حوثی قبائلی جنگجو عدن شہر پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں اور اس وقت شہر کے مضافات میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے قبائلیوں کی شہر کی جانب پیش قدمی کے بعد صدر عبدالربوہ منصور ہادی عدن کے صدارتی محل سے فرار ہو کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے ہیں جبکہ حوثی باغیوں نے ان کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت عدن شہر کے مضافات میں قبائلیوں کی صدر ہادی کی حامی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہو رہی ہیں جبکہ شہر کے ہوائی اڈے پر باغیوں نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ سرکاری اہلکاروں نے صدر ہادی کے بیرون ملک جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت عدن میں ہی نامعلوم مقام پر موجود ہیں۔ دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا کہ ان کا صدر ہادی سے دن کے پہلے حصے میں رابطہ تھا لیکن اب وہ کمپاؤنڈ میں نہیں ہیں لیکن اس وقت ان معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں نے یمن کے سب سے بڑے فضائی اڈے پر بدھ کی صبح قبضہ حاصل کر لیا تھا حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں نے یمن کے سب سے بڑے فضائی اڈے پر بدھ کی صبح قبضہ حاصل کر لیا تھا۔ عدن شہر سے ساٹھ کلو میٹر دور اس ہوائی اڈے سے گزشتہ ہفتے امریکی اور مغربی فوجی ماہرین کو واپس بلا لیا گیا تھا۔ صدر عبدالربوہ منصور ہادی دارالحکومت صنعا پر باغیوں کے قبضے کے بعد عدن منتقل ہو گئے تھے اور یہاں سے اپنا اقتدار بچائے ہوئے تھے۔ یمن میں حوثیوں کے زیرِ قبضہ سرکاری ٹی وی چینل پر منصور ہادی کی گرفتاری پر ایک لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔ حوثی قبائل کی پیش قدمی کے باعث یمن میں جاری خانہ جنگی میں ہمسایہ خلیجی ممالک کی مداخلت کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے وزیر دفاع میجر جنرل محمود الصباحی اور ان کے اعلی فوجی مشیروں کو جنوبی شہر لہج سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حوثی قبائل کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا ہے کہ حوثی ملک کے جنوبی حصے پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی افواج عدن میں عارضی طور پر رہیں گی۔ منگل کو اطلاعات کے مطابق حوثی جنگجو اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی ساحلی شہر مخا اور ضالع میں داخل ہو گئے ہیں۔ سیکورٹی حکام اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حوثی جنگجوؤں اور سابق صدر کے حامی فوجی توپ خانے، جہاز گرانے والی توپوں، خود کار ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور ان کی عبدالربوہ منصور ہادی کے حامی ملیشیا اور قبائلیوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق باغی اس کے علاوہ تعز سے مغرب کی جانب واقع ساحلی شہر مخا میں بھی داخل ہو گئے ہیں۔ یہ شہر دفاعی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ بحیرہ قلزم اور خلیج عدن کو ملانے والی آبنائے باب المندب پر واقع ہے اور یہ تیل کی تجارت کا ایک مصروف سمندری راستہ ہے۔
050429_denmark_library_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/04/050429_denmark_library_zs
تارکین وطن کی منفرد لائبریری
گزشتہ ایک ماہ میں مجھے مختلف مواقع پر کوئی تین مرتبہ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن جانے کا اتفاق ہوا اور ہر مرتبہ میرے دوستوں اور میزبانوں نے میرے مزاج کو جانتے ہوئے مجھ سے کوپن ہیگن کی تارکین وطن کی منفرد لائبریری کو دیکھنے کا مشورہ دیا لیکن ہر مرتبہ وقت کی تنگی آڑے آئی۔
تاہم چند روز قبل آخر کار میں اپنے قلمکار اور محقق دوست نصر ملک کے ہمراہ کوپن ہیگن کی معروف ٹیلیگرافک روڈ پر ڈنمارک کے تارکین وطن کی لائبریری کے صدر دفتر کی عمارت کے باہر کھڑا تھا۔ وسیع و عریض مختلف عمارتوں اور دفاتر پر مشتمل اس ادارے سے ڈنمارک کی ہر ایک لائبریری کو ملک میں موجود تارکین وطن کے لیے انکا مطلوب ادب اور سمعی اور بصری مواد مہیا کیا جاتا ہے۔ اس مواد میں مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابوں کے علاوہ موسیقی اور فلموں کی کیسٹیں اور سی ڈیز شامل ہیں۔ یہاں اقلیتوں کے لیے ان کی اپنی زبان میں وافر مقدار میں ادب و موسیقی موجود ہے۔ اگر چہ اسی قسم کی مخصوص لائبریریاں سکینڈے نیویا کے دیگر ممالک ناروے اور سویڈن میں بھی ہیں لیکن ان دونوں ممالک میں ان کا قیام ڈنمارک کی لائبریری سے متاثر ہو کر عمل میں آیا اور دوسرے ڈنمارک کی یہ لائبریری اپنی کتابوں اور سمعی و بصری مواد کے وسیع ذخیرے کی وجہ سے ان سے منفرد ہے۔ ڈنمارک کی پانچ اعشاریہ چار ملین کی آبادی میں اس وقت غیر ملکیوں کی تعداد نو فیصد ہے اور ان میں تارکین وطن اور انکی اولادوں کی تعداد چار لاکھ تنتالیس ہزار کے قریب ہے۔ قومیت کے اعتبار سے ترکی، جرمنی، عراق، ناروے، سویڈن اور بوسنیا کے بعد پاکستان اور پھر ایران کا نمبر آتا ہے۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈنمارک میں پاکستانیوں کی تعداد کوئی پنتیس ہزار کے قریب ہے جن کی اکثریت گجرات اور سیالکوٹ سے ہے جبکہ بھارت سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد فقط ساڑھے تین ہزار ہے۔ گریٹر کوپن ہیگن میں اس وقت پچیس مختلف غیر ملکی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے جن میں اردو اور گورمکھی بھی شامل ہیں اور ان زبانوں کی کتابیں طلباء میں مفت تقسیم کی جاتی ہیں- تارکین وطن کی یہ منفرد لائبریری انیس سو تہتر میں کوپن ہیگن کے مضافات میں گنٹافٹے نامی شہر میں قائم ہوئی تھی لیکن کم جگہ ہونے کی وجہ سے انیس سو چوہتر میں اسے موجودہ عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ انیس سو پچھتر میں ڈنمارک کے اس تجربے سے متاثر ہو کر سویڈن اور ناروے میں بھی ایسی ہی تارکین وطن کی مخصوص لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا- ناروے میں ایسی پہلی لائبریری کے قیام میں اردو کے دو معروف لکھاریوں آنجہانی ہر چند چاولہ اور مرحوم سعید انجم نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ لائبریری پہنچنے پر میری ملاقات لائبریری کی مرکزی انچارج بینڈکٹے کراو شوارز اور انکی معاون کرسٹین سن سے ہوئی اور ان دونوں خواتین نے مجھے اس لائبریری کے قیام اور تدریجی مراحل سے آگاہ کیا- یہیں پر میری ملاقات اردو کے شعبے کی جواں ہمت سربراہ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر روبینہ کوثر سے ہوئی جن کے ذمے اردو زبان کی کتابوں اور موسیقی وغیرہ کا کام ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے اس لائبریری میں اردو کے علاوہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کی کئی ایسی کتابیں بھی ملی ہیں جو پاکستان کی کسی مرکزی یا علاقائی لائبریری میں بھی موجود نہیں۔ یوں تومیں تارکین وطن کی ساری زبانوں کی کتابیں دیکھ رہا تھا لیکن ظاہر ہے کہ میری زیادہ دلچسپی اردو میں تھی۔ روبینہ کوثر نے بتایا کہ یوں تو اس لائبریری میں پچاس زبانوں میں مواد موجود ہے لیکن اردو سمیت تیس بڑی زبانوں کاادب اور موسیقی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ تارکین وطن کی اس منفرد اور مخصوص لائبریری کو عوامی لائبریریوں کی قومی لائبریری براۓ غیرملکی ادب کا نام بھی دیا گیا ہے۔اگر کسی شہر کی مقامی لائبریری میں طلب کردہ مواد نہیں تومقامی لائبریری کا عملہ کسی دوسری عوامی لائبریری یا عوامی لائبریریوں کی قومی لائبریری براۓ غیرملکی ادب سے مواد منگوانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔تمام عوامی لائبریریوں کے پاس عوامی لائبریریوں کی قومی لائبریری براۓ غیرملکی ادب کے اردو کیٹلگس موجود رہتے ہیں۔ تارکین وطن کی اس لائبریری براۓ غیرملکی ادب میں اردو ادب کا ایک کثیرالتعداد ذخیرہ ہے جس میں کوئی چودہ ہزار کے قریب کتابوں کی جلدیں ہیں اور کتابوں کے علاوہ موسیقی کی کیسٹیں، ویڈیو فلمیں، رسالے اور ساؤنڈبکس شامل ہیں ۔ فی الحال یہ مجموعہ تقریباً 7200 کتابیں براۓ بالغان، تقریباً 4800 بچوں کی کتابیں اور 300 ساؤنڈبکس پر مشتمل ہے ۔ اسکے علاوہ تقریباً 700 سی ڈی اور موسیقی کی کیسٹیں بالغان کیلیۓ، تقریباً 70 سی ڈی اور موسیقی کی کیسٹیں بچوں کیلیۓ اور تقریباً 400 ویڈیو فلمیں براۓ اطفال و بالغان موجود ہیں۔ قومی لائبریری براۓ غیرملکی ادب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ڈنمارک میں بسنے والے اہل اردو کیلیے انکا پسندیدہ ادب اور موسیقی جمع کرے اسلیۓ ہم پاکستان کے ادبی منظر نامے میں ظاہر ہونے والے نۓ ادب پر بھی نظر رکھی جاتی ہےاور اسکی خریداری کی جاتی ہے اہل اردو اپنی زبان، ثقافت، تہذیب وتمدن اور ادب سے اپنا رشتہ قائم رکھ سکے- یہیں مجھے اردو کے نامور شاعر فیض احمد فیض کا ایک نادر مجموعہ کلام بھی ملا جو دراصل انکی نظموں کا پہلا مجموعہ ’سارے سخن ہمارے‘ ہے جو 1982میں 750محدود نسخوں کی تعداد میں لندن سے یاسمین حسین اور خواجہ شاہد حسین نے شائع کیا تھا- اسکا سرورق مقبول فدا حسین نے بنایا تھا اور اس کا انتساب فیض صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا تھا-اس مجموعے کی متعدد خصوصیات میں سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ شاعر اور مجموعے کے نام کے علاوہ کتاب کے صفحات کے بیرونی کونے خالص سونے سے مزین ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایسے چند ہی نسخے اب دنیا میں دستیاب ہیں۔ یہاں قرآن مجید کی کیسٹیں اور سی ڈی موجودہیں جو قرآن مجید سیکھنے اور تلفظ درست کرنے میں مددگار ثابت ہو تی ہیں۔ تارکین وطن کی قومی لائبریری براۓ غیرملکی ادب میں بچوں کی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہےجن کے ذریعے وہ اردو زبان اور پاکستانی ثقافت سے رشتہ قائم رکھ سکتے ہیں۔
141102_beneath_london_tim
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/11/141102_beneath_london_tim
لندن کے نیچے آباد دنیا
لندن شہر کی عظیم تعمیرات کے نیچے زیرِ زمین سرنگوں کی بھول بھلیوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ بی بی سی نیوز نے اس زیرِ زمین دنیا میں جا کر کچھ نایاب نظارے عکس بند کیے ہیں۔
بالہم ہل سٹیشن کے اندر ایک سیاہ دروازے کے عقب سے نیچے جاتی ہوئی 178 گرد آلود سیڑھیاں نیچے جانے کا واحد راستہ ہیں۔ یہاں سے ہوتے ہوئے ہم ناردرن لائن سے ایک سو فٹ گہرائی میں پہنچے۔ روشنی جلائی گئی تو ہم نے خود کو ایک گرد آلود سرنگ میں پایا۔ یہاں ہلکی سی بو کے ساتھ ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ اوپر ٹیوب ٹرینوں کے چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کیلپم ساؤتھ کا یہ راستہ شمالی اور جنوبی لندن کو ملانے کے لیے ایک نئے ریل منصوبے کے تحت بنایا گیا ہے۔ یہ سرنگیں جنگ عظیم دوم میں ہاتھوں سے کھودی گئی تھی اور انھیں فضائی حملوں سے بچنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہاں آٹھ ہزار لوگوں کے رہنے کی گنجائش تھی اور یہاں بیت الخلا کی سہولت، نگہداشت کا مرکز اور کینٹین تھی جس میں جیم اور سینڈوچ دیے جاتے تھے۔ کلیپھم ساؤتھ کے گہرے شیلٹر یا پناہ گاہ کو ایک نئے ریلوے نظام کے لیے بنایا گیا تھا جو لندن کے شمالی حصوں کو جنوبی حصوں سے ملانے والا تھا۔ لندن کے زیرِ زمین ریلوے کے ڈائریکٹر آپریشنز نائجل ہولنس نے بتایا کہ ’یہ اس دور کا کراس ریل منصوبہ تھا۔ مگر ہمارے آبا و اجداد اتنے دوراندیش نہیں تھے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ اسے مکمل کر سکتے۔‘ اس کے بعد ہم ایک اور سرنگ میں داخل ہوتے ہیں جہاں دیوار کے ساتھ چھوٹے سخت بنک بیڈ قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ لندن انڈر گراؤنڈ کے فلپ ایش کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے لیے بڑا خدشہ یہ تھا کہ کہیں اس کے نتیجے میں غار نشینی کا رجحان شروع نہ ہو جائے۔ غاروں میں زیرزمین رہنا برطانوی ثقافت کا حصہ نہیں تھا۔‘ 1948 میں جب جہاز ایمپائر ونڈ رش برطانیہ آیا جس پر 400 جمیکن سوار تھے تو ان سرنگوں کو ایک بار پھر استعمال میں لایا گیا۔ مگر جو برطانیہ انھوں نے دیکھا وہ ان کی توقعات سے بہت مختلف تھا۔ جب وہ ٹلبری پہنچے تو ان نوواردوں کو بسوں میں سوار کروا کر ان پناہ گاہوں میں لایا گیا اور جب تک انھیں نئی رہنے کی جگہ نہیں ملی، انھوں نے اگلے چھ مہینے تک ان گہری زیر زمین پناہ گاہوں میں گزارے۔ اس کی ایک وجہ اس علاقے کے قریب ایک بہت بڑی افریقن کیریبئن کمیونٹی ہے جنھوں نے قریبی برکسٹن کے علاقے میں کام کرنا شروع کیا اور بہت سے لوگ یہاں رہ گئے۔ اب یہ پناہ گاہ برائے فروخت ہے اور لندن انڈرگراؤنڈ لوگوں سے تجاویز کا متلاشی ہے کہ انھیں کیسے استعمال میں لایا جائے۔ لندن کے سات دوسرے شیلٹر ساز و سامان ذخیرہ کرنے کے لیے کرائے پر دیے گئے ہیں جبکہ ایک کو تو مشہور شیف میچل روکس جونیئر کو زیرِ زمین فارم بنانے کے لیے کرائے پر دیا گیا ہے۔ اگلے زیرِ زمین دورے میں ہم ایک تنگ نیم تاریک پتوں میں گھری سیڑھی کے راستے مرکزی لندن میں ایک پلیٹ فارم پر پہنچے۔ یہ زمین کی سطح سے 20 سیڑھیاں نیچے ہے اور پھر اس کے بعد صرف ایک قدم نیچے ریل کی پٹڑی ہے۔ یہ وہ جگہ نہیں جہاں آپ کو امید ہو کہ یہاں یورپ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ زیرِ تکمیل ہو گا جسے کراس ریل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم کنگز وے کی ٹرام سرنگ نے اس منصوبے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سرنگ کے ذریعے مسافر ایک زمانے میں ہولبورن سے واٹرلو کے پُل پر جاتے تھے۔ تاہم یہ گذشتہ 60 سال سے عدم توجہی کا شکار ہے البتہ اسے بعض اوقات فلموں کے سیٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دیواروں سے لٹکے پوسٹر یونین سٹریٹ کے لندن انڈرگراؤنڈ کے سٹیشن کا خیالی منظر پیش کرتے ہیں۔ کراس ریل کے لیے ارد گرد کی عمارتوں کو تقویت دینے کے لیے یہاں کنکریٹ ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ تعمیراتی کام سے متاثر نہ ہوں۔ یہاں بڑی کھدائی کی مشینیں کام میں مصروف ہیں، اور لندن انڈر گراؤنڈ کے اہلکار ہمیں بتاتے ہیں کہ اس زیرِ زمین کام کی کتنی اہمیت ہے اور اس میں ان سرنگوں نے اس سہولت کی فراہمی میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
150727_quetta_police_attack_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/07/150727_quetta_police_attack_sr
بلوچستان میں فائرنگ کے واقعات میں تین پولیس اہلکار ہلاک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور ضلع پشین میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس نے بھی حملہ آوارں پر جوابی فائرنگ کی۔ تاہم اس حملے میں ایس پی سریاب محفوظ رہے ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر آباد کے علاقے سے سریاب پولیس کے ایس پی ظہور آفریدی نے جب ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مشکوک افراد کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے فائر کھول دیا ۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ مسلح افراد کی فائرنگ سے دو راہگیر خواتین بھی زخمی ہوئیں جبکہ جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار زخمی خواتین کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لا رہے تھے کہ انھیں ایک دیگر مقام پر نشانہ بنایا گیا اور اس حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جن میں ایس پی کا ڈرائیور اور گن مین شامل ہیں۔ بعدازاں سول ہسپتال میں زخمی خواتین میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی۔ خیال رہے کہ کوئٹہ شہر میں پولیس اہلکاروں پرگذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران یہ چوتھا حملہ ہے۔ دوسری جانب ایک اور پولیس اہلکار کی ہلاکت کا واقعہ کوئٹہ سے متصل ضلع پشین میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب سرخاب روڈ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور پولیس اہلکار کا اسلحہ لے کر فرار ہو گئے ہیں۔ تاحال کسی بھی گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے کم سے کم دس پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔
050322_delegation_dera_bugti
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050322_delegation_dera_bugti
پارلیمانی وفد سوئی کے دورے پر
حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک پندرہ رکنی مشترکہ وفد بلوچستان پہنچ گیا ہے جو سوئی اور ڈیرہ بگتی جائے گا جہاں امکان ہے کہ وفد کے ارکان نواب اکبر بگتی سے بھی ملاقات کریں گے۔
یہ وفد سوئی اور ڈیرہ بگتی کے حالات کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کرے گا اور 24 مارچ کو بلوچستان کے مسئلے پر قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کرے گا۔ ڈیرہ بگتی میں حالات ابھی تک کشیدہ ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہاں قبائیلیوں نے فرنٹیئر کانٹیبلری کے تین سو سے زائد جوانوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے جو ایک قلعے میں محصور ہیں۔ ڈیرہ بگتی سے بڑی تعداد میں لوگ ایف سی اور قبائلیوں کے مابین کسی ممکنہ جھڑپ کے خوف سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے پیر کی شب اس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کو صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مشترکہ وفد کو تمام تر مدد اور اختیارات فراہم کئے جائیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے اس بات کا یقین دلایا کہ بلوچستان کا مسئلہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ارکان پارلیمنٹ کی ان درخواستوں کو منظور کر لیا ہے جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہو گا اور فوج اپنی پہلی پوزیشن پر واپس چلی جائے گی اور تمام معاملات پارلیمنٹ کے ذریعے حل کئے جائیں گے۔ چوھدری شجاعت نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ بلوچستان میں 1977جیسے حالات دوبارہ نہ پیدا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے مسئلے پر ان کی صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد وزیر اعظم شوکت عزیز بھی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں آئے۔ ان کے مطابق صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ کسی کی انا اور ضد کا مسئلہ نہیں ہے اور پالیمنٹ کے ذریعے تمام مسائل کا حل نکالا جائے۔ سوئی اور ڈیرہ بگتی جانے والی کمیٹی میں حکومتی مسلم لیگ کے محمد علی درانی اور نثار میمن،پاکستان پیپلز پارٹی کے نوید قمر،شیری رحمٰن اور اعجاز جاکھرانی،متحدہ قومی موومنٹ کے محمد علی بروہی اور سعید ہاشمی، دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے حافظ حسین احمد اور لیاقت بلوچ اور دیگر جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ شامل ہیں۔یہ وفد آج شام واپس اسلام آباد پہنچے گا۔
150827_uk_jihadist_died_syria_sh
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150827_uk_jihadist_died_syria_sh
’شام میں ڈرون حملے میں برطانوی شدت پسند ہلاک‘
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایک برطانوی شدت پسند شام میں ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔ ہلاک ہونے والے شدت پسند کو ’اہم سائبر جہادی‘ کہا گیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں رقہ کی قریب کیے جانے والے ڈرون حملے میں جنید حسین کی ہلاکت ہوئی تھی 20 سالہ برطانوی شہری جنید حسین کمپیوٹر ہیکر تھے اور وہ سنہ 2013 میں برمنگھم سے شام چلے گئے تھے۔ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے منسلک ’اہم ہدف‘ تھے امریکہ نے ان کی ہلاکت کو دولت اسلامیہ کے خلاف اہم کامیابی قرار دیا ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین ماییکل میک کول کا کہنا ہے کہ ان کے ہلاکت نے ’ایک واضح پیغام‘ دیا ہے۔ ’ہمیں مستقبل میں سازشی منصوبہ بندی کو روکنے کے لیے ہوشیاری اور انٹیلی جنس قائم رکھنے کی ضرورت ہے، اور بالآخر ہم اس دہشت گرد گروہ کو ختم کر سکیں گے۔‘ اس سے قبل برطانوی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم شام میں اتحادی فضائی حملے میں داعش سے منسلک برطانوی شہری کی ہلاکت کے اطلاعات کے بارے میں آگاہ ہیں۔‘ خیال رہے کہ جنید حیسن ایک ماہر کمپیوٹر ہیکر تھے، اور سنہ 2012 میں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ذاتی روابط افشا کرنے اور انسداد دہشت گردی ہاٹ لائن پر غلط اطلاعات دینے پر چھ ماہ جیل میں گزار چکے تھے۔ جنید حسین کمپیوٹر ہیکنگ گروپ ٹیم پوائزن کے بھی اہم رکن تھے جون میں دی سن اخبار کا کہنا تھا کہ جنید حیسن یوم افواج کے موقع پر لندن میں ہونے والی پریڈ کے دوران دولت اسلامیہ کی جانب پریشر ککر دھماکے کے منصوبے سے بھی منسلک تھے۔ جنید حسین نے سابق پنک موسیقار سلی جونز سے شادی کی تھی اور وہ کمپیوٹر ہیکنگ گروپ ٹیم پوائزن کے بھی اہم رکن تھے۔ اس ہیکنگ گروپ کی جانب سے 1400 مرتبہ برطانیہ اور دنیا بھر میں ذاتی معلومات افشا کرنے کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہے۔ اس گروپ کی جانب سے عالمی سیاست دانوں، اہم بین الاقوامی کاروباروں اور ایک بین الاقوامی امدادی ادارے پر ہیکنگ حملے کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں رقہ کی قریب کیے جانے والے ڈرون حملے میں جنید حسین کی ہلاکت ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ برطانوی سکیورٹی حکام کے مطابق 700 کے قریب برطانوی شہری شام گئے، اور ان میں سے نصف کے قریب واپس لوٹ آئے ہیں۔
pakistan-38001063
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38001063
عراق جانے کے منتظر شیعہ زائرین کا احتجاج
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شیعہ زائرین نے فوری طور پر براستہ ایران عراق جانے کی اجازت نہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
زائرین پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین کے چہلم میں شرکت کے لیے عراق جانا چاہتے ہیں یہ مظاہرہ میجر محمد علی روڈ پر کیا گیا جس میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ ٭ کوئٹہ میں بس پر فائرنگ سے چار شیعہ خواتین ہلاک مظاہرے میں شریک زائرین کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی خاتون فرح ناز نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آٹھ نومبر کو کوئٹہ آئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین کے چہلم میں شرکت کے لیے عراق جانا چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئٹہ سے آگے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے عراقی ویزے کی معیاد 20 نومبر تک ہے اگر انھیں نہیں جانے دیا گیا تو ان اس کی مدت ختم ہو جائے گی۔ فرح ناز کا کہنا تھا کہ ’25 خواتین کے ہمراہ کوئٹہ میں ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں، جتنے پیسے تھے کوئٹہ میں خرچ کیے۔ آگے جا کے کیا خرچ کریں گے۔‘ فرح ناز نے استفسار کیا کہ معلوم نہیں انھیں کیوں نہیں جانے دیا جارہا ہے؟ بلوچستان میں زائرین پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے زائرین کو گذشتہ ڈیڑھ دو سال سے سخت سکیورٹی میں قافلے کی شکل میں کوئٹہ سے ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان تک لے جایا جاتا ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون مریم نے بتایا کہ یہاں سرکاری حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی خدشات ہیں جن کی وجہ سے انہیں نھیں جانے دیا جا رہا ہے۔ مظاہرے کے موقع پر سرکاری حکام نے میڈیا سے بات نہیں کی تاہم بلوچستان میں زائرین پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے زائرین کو گذشتہ ڈیڑھ دو سال سے سخت سکیورٹی میں قافلے کی شکل میں کوئٹہ سے ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان تک لے جایا جاتا ہے۔ اسی طرح عراق اور ایران سے آنے والے زائرین کو واپسی پر تفتان سے سخت سکیورٹی میں کوئٹہ لایا جاتا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق زائرین کی سیکورٹی کے پیش نظر انھیں کوئٹہ یا تفتان میں کچھ دنوں کے لیے روکا جاتا ہے۔
world-55053645
https://www.bbc.com/urdu/world-55053645
امریکی صدارتی انتخاب: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو اقتدار منتقل کرنے کے عمل کا آغاز کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن تک اقتدار کی منتقلی کے باضابطہ عمل کا آغاز کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایک اہم وفاقی ایجنسی کو 'ضروری اقدامات کرنے' کی ہدایات دے چکے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے انتخابی نتائج کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعادہ بھی کیا۔ جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) کا کہنا ہے کہ وہ بائیڈن کی الیکشن میں 'واضح کامیابی' تسلیم کر رہے ہیں۔ جی ایس اے ایک ایسا ادارہ ہے جو دیگر وفاقی ایجنسیوں کی معاونت کرتا ہے اور ساتھ ہی باضابطہ طور پر اقتدار کی منتقلی کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کی ہوتی ہے۔ اس سے قبل جو بائیڈن کو امریکی ریاست مشیگن میں بھی سرکاری طور پر فاتح قرار دیا گیا تھا جو صدر ٹرمپ کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے پوتن نے ابھی تک جو بائیڈن کو مبارکباد کیوں نہیں دی؟ بالآخر چین کی جو بائیڈن کو مبارکباد، روس کی طرف سے خاموشی نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن امریکہ کی خارجہ پالیسی کیسے تبدیل کریں گے؟ جو بائیڈن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کیا کریں گے؟ صدر ٹرمپ نے کیا کہا؟ صدر ٹرمپ کا ٹویٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب جی ایس اے کی جانب سے جو بائیڈن کے کیمپ کو یہ خبر دے دی گئی تھی کہ اب اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ ایڈمنسٹریٹر ایملی مرفی کا کہنا تھا کہ نو منتخب صدر کے استعمال کے لیے 63 لاکھ ڈالر کا ابتدائی فنڈ دستیاب ہو گا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے 'حق کی لڑائی' جاری رکھنے کا اعادہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ 'اپنے ملک کے مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں ایملی اور ان کی ٹیم کو ابتدائی پروٹوکولز مکمل کرنے سے متعلق ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کر رہا ہوں اور میں نے اپنی ٹیم سے بھی یہی کہا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے تعینات کی گئی ایملی مرفی نے کہا کہ 'حالیہ پیش رفت جیسے مقدمات کے فیصلے اور الیکشن کے نتائج کی سرٹیفیکیشن‘ کے باعث انھوں نے یہ خط بھیجا ہے۔ مرفی کا کہنا تھا کہ انھیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس فیصلے کی ٹائمنگ کے حوالے سے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انھوں نے بائیڈن کو اس خط میں کہا کہ 'میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھ پر اس سلسلے میں تاخیر کرنے کے بارے میں کہیں سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔' 'تاہم یہ ضرور ہے کہ مجھے آن لائن، فون اور میل کے ذریعے میرے خاندان، میرے سٹاف اور یہاں تک کے میرے پالتو جانوروں سے متعلق دھمکیاں ضرور ملیں تاکہ مجھے اس فیصلے کو قبل از وقت کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ ’ان ہزاروں دھمکیوں کے سامنا کرتے ہوئے بھی میں نے قانون کی بالادستی قائم رکھی ہے۔' انھیں دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کے عمل میں تاخیر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو عام طور پر الیکشن اور افتتاحی تقریب کے درمیان ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔ ایملی مرفی کو ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی جانب سے پیر کو منتخب نمائندوں کو اس تاخیر سے متعلق بریف کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تاہم وہ وہاں نہیں جا سکیں۔ ادھر بائیڈن کی ٹیم نے ان کے خط کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'آج کا فیصلہ اس لیے ضروری تھا کہ اس سے قوم کو درپیش مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ ان میں عالمی وبا پر قابو پانا اور معیشت کی بحالی شامل ہیں۔' 'وفاقی اداروں کے ساتھ باقاعدہ طور منتقلی کے عمل کو شروع کرنا ایک حتمی فیصلہ ہے جو انتظامی سطح پر کیا گیا۔' بائیڈن 20 جنوری کو اپنے نئے عہدے کا حلف لیں گے۔ اہم ریاستوں میں ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں نے انتخابی عملی کو چیلنج کیا تھا لیکن متعدد بار عدالتوں میں ان کے خلاف فیصلہ سنایا گیا ہے۔ بعض رپبلکن رہنماؤں نے بھی ٹرمپ کو شکست تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
041222_musharraf_peshawar
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/12/041222_musharraf_peshawar
پشاور میں غیر معمولی سیکورٹی
بدھ کی صبح ختم ہونے والے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ پشاور کے دوران شہر میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات دیکھنے کو ملے۔ اس سے قبل شاید ہی صدر کے دورے کے دوران اتنے سخت اقدامات کئے گئے ہوں۔
ایک رات قیام کے بعد جنرل مشرف بدھ کی صبح اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ان کے قافلے کے راستوں پر دو رویہ ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا۔ سائیکل سواروں تک کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ سڑک کے دونوں جانب بڑی تعداد میں پولیس اور فوجی تعینات رہے جو جدید مواصلاتی آلات کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے۔ پشاور کے بین القوامی ہوائی اڈے کو بھی چاروں جانب سے سیکورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ ہوائی اڈے کے رن وے کے ایک جانب شہر کی مصروف جمرود روڈ واقعہ ہے پر بھی بکتر بند گاڑیاں اور پولیس اہلکار موجود تھے جبکہ قریبی عمارتوں کی چھتوں پر فوجی مسلح کھڑے رہے۔ سیکورٹی کا یہ عالم تھا کہ خیبر روڈ تو بند تھا ہی فوجی گاڑیوں میں سیکورٹی اہلکار ذیلی گلی کوچوں میں بھی گھومتے نظر آئے۔ یہ تمام انتظامات فوج نے خود سنبھال رکھے تھے جبکہ پولیس بھی مدد کے لئے موجود تھی البتہ نیم فوجی ملیشیا فرنٹیر کور کو اس میں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ عام شہریوں کو ایسے حالات میں دو دن اپنی منزل تک پہنچنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پشاور میں ٹریفک نظام اس طرح کا ہے کہ اگر ایک مرتبہ تسلسل ٹوٹ جائے تو پھر بڑی مشکل سے اپنی معمول کی جگہ پر آتے ہیں۔ ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والے محمود شاہ کا کہنا تھا کہ اگر عوام کو اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے تو ’پھر صدر صاحب اسلام آباد میں ہی بھلے۔ ان کا یہ دورہ کوئی اتنا ضروری بھی نہیں تھا۔’ صدر پرویز مشرف نے اس دورے کے دوران خیبر میڈیکل کالج کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کی اور گورنر ہاوس میں قبائلی علاقوں سے نو منتخب کونسلروں سے خطاب کیا۔ صدر کے اس دورے کے پروگرام کو بھی انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ ایک اور معمر شہری عبدالکریم نے نسل در نسل چلی آ رہی اس کہاوت کو یاد کروایا کہ اگر سامنے سے کالی بلی گزر جائے تو اچھا شگون نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان کے بقول اگر سامنے سے کسی اعلی اہلکار کی سیاہ گاڑی بھی گزر جائے تو اچھا نہیں ہوتا۔
040215_bangladesh_strike_rizvi
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040215_bangladesh_strike_rizvi
بنگلہ دیش میں پھر ہڑتال کی اپیل
بنگلہ دیش میں حزب اختلاف نے وزیراعظم خالدہ ضیاء کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے پیر کو ایک بار پھر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
یہ گزشتہ پانچ روز میں حزب اختلاف کی جانب سے تیسری ہڑتال ہوگی۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت عوامی لیگ کی اپیل پر ملک بھر مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائیوں پر حتجاج بھی کیا جائے گا۔ اس سے قبل دونوں ہڑتالوں کے دوران تشدد اور تصادم کی صورتحال رہی ہے اور ہڑتال کی وجہ سے کاروبار زندگی اورمواصلات کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وزیراعظم خالدہ ضیاء نے مظاہرین کو تنبیہ کی ہے کہ اس صورتحال میں اب حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں اپنی حکمراں جماعت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے سختی سے نمٹے گی۔ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف عوامی لیگ کی طرف سے گزشتہ تین دنوں میں دو ہڑتالیں کی جاچکی ہیں۔ پولیس نے احتجاج اور پتھراو کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ عوامی لیگ کے کارکن عبدالجلیل نے کہا کہ جمعرات کوہونے والے احتجاج پر پولیس کے لاٹھی چارج سے سینکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ آئین میں مقررہ کردہ حد کے مطابق بنگلہ دیش میں اکتوبر دو ہزار چھ میں الیکشن ہوں گے۔ جمعرات کو پولیس اور عوامی لیگ کے کارکنوں میں ہونے والے تصادم میں پارٹی کے انتظامی سیکریٹری صابر حسین چوہدری بھی زخمی ہوگئے تھے۔ صابر حسین چوہدری کو سرمیں چوٹ لگنے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔ عوامی لیگ کی اپیل پر کی جانے والی ہڑتال میں ٹرانسپورٹر بھی شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اشیاِ ضرورت کی ترسیل میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
140220_mqm_imran_farooq_nisar_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/02/140220_mqm_imran_farooq_nisar_tk
عمران فاروق قتل:’سچ جلد عوام کے سامنے آئے گا‘
لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات سے متعلق پاکستان کے وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’سچ بہت جلد عوام کے سامنے آجائے گا۔‘
یہ بات وزیر داخلہ نے اس سوال کے جواب میں کہی کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مطلوب دو پاکستانی کہاں ہیں۔ جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ’لگ بھگ چھ ماہ پہلے برطانوی حکومت نے پاکستان سے باقاعدہ قانونی معاونت کی درخواست کی تھی مگر اسے بہت جلد ہی واپس لے لیا گیا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’چندہفتے پہلے برطانوی حکومت نے پھر پاکستان سے مدد کی درخواست کی ہے جس کے جواب میں ہم نے انہیں بتایا ہے کہ حکومت اس درخواست کا قانونی اور سیاسی جائزہ لینے کے بعد بہت جلد انہیں اور عوام کو جواب دے گی۔‘ خیال رہے تقریبا دو ہفتے پہلے بی بی سی کے پروگرام ’نیوز نائیٹ‘ کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا جو مبینہ طور قتل کی ورادات کے بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔ چند ہفتے پہلے ہی لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے کئی بینک اکاونٹ بند کرتے ہوئے ٹیکس نہ دینے کے الزمات کے تحت تحقیقات کاآغاز کیاہے۔ متحدہ کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزامات پہلے ہی زیرِ تفتیش ہیں۔ دریں اثنا برطانوی کراؤن پراسیکیوشن سروس نے باضابطہ طور پر پاکستانی حکام سے ان دو افراد کی تلاش کا کہا ہے جو مبینہ طور پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں برطانیہ کو مطلوب ہیں۔ ایم کیو ایم ان تمام الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن الطاف حسین اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ لندن پولیس نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو کارکن یاد رکھیں کہ ان کا قائد بےگناہ تھا اور بےگناہ ہے۔ نیوزنائیٹ میں دکھائی جانے والی دستاویزی فلم سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو اختجاجی خط بھی بھیج رکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بی بی سی نے الطاف حسین اور ایم کیوایم کے خلاف بددیانتی پر مبنی دستاویزی فلم نشر کی ہے جس سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
060928_mumbai_blast_verdict_as
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/09/060928_mumbai_blast_verdict_as
’ پانچ بری، ایک قصوروار‘
انیس سو ترانوے بم دھماکوں کی تفتیش کر رہی خصوصی ٹاڈا عدالت نے پانچ ملزمان کو ناکافی ثبوت کی وجہ سے بری کر دیا ہے اور ایک ملزم سرفراز داؤد فنسے کو مجرم قرار دیا۔
جمعرات کے روز جج پی ڈی کوڈے نے بم دھماکہ سازش کے پانچ ملزمین منظور احمد، شیخ قاسم عرف بابو لال ، سلطان روم علی گل ، عبدالعزیز اور محمد اقبال شیخ کو بری کر دیا۔ ان پر الزام تھا کہ یہ لوگ دبئی کے راستے اسلحہ کی تربیت کے لیئے پاکستان جانے والے تھے لیکن کسی وجہ سے پاکستان نہیں جا سکے۔ ملزم منظور احمد کو پولیس نے سترہ اپریل کو گرفتار کیا تھا لیکن دو نومبر انیس سو پچانوے کو پچیس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ملزم شیخ قاسم عرف بابو لال کو پولیس نے دس مئی انیس سو ترانوے کو گرفتار کیا تھا اور تب سے قاسم قید میں ہے۔ سلطان روم کو پولیس نے آٹھ اپریل کو گرفتار کیا تھا لیکن اسی سال تین دسمبر کو انہیں ضمانت مل گئی تھی۔ البتہ محمد ابراہیم یکم جون سے گرفتاری کے بعد سے اب تک جیل میں تھے۔ ملزم عبدالعزیز کو بائیس جنوری انیس سو چورانوے میں گرفتار کیا گیا تھا اور آٹھ فروری انیس سو پچانوے میں انہیں پچیس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ان ملزمان کے بری ہونے سے سی بی آئی اور سرکاری وکیل کو بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ جج نے ایک دوسرے ملزم سرفراز داؤد فنسے کو البتہ کوکن کے ساحل شیکھاڑی میں اسلحہ اور آر ڈی ایکس اتارنے کا مجرم قرار دیا۔ فنسے پر بم دھماکہ سازش کا بھی الزام تھا جو ثابت نہیں ہو سکا۔ سرفراز داؤد فنسے کے بیٹے ہیں جن پر مافیا سرغنہ داؤد ابراہیم کے ہمراہ بم دھماکہ سازش تیار کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا اور اسی وجہ سے پہلی مرتبہ اس کیس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس دھمکہ کی سازش داؤد ابرہیم نے تیار کی تھی۔ داؤد فنسے جو اس کیس کے سب سے عمر رسیدہ مجرم ہیں ، ستائس مارچ میں گرفتار ہوئے تھے اور اب تک جیل میں ہیں لیکن عدالت نے ان کے بیٹے سرفراز کو یکم اپریل انیس سو ترانوے کو گرفتار کیا تھا لیکن انیس سو پچانوے میں عبوری ضمانت پر رہا کر دیا۔ عدالت میں آج جوہو سینتور ہوٹل میں بم رکھنے کے مجرم مشتاق ترانی کو بیان دینے کے لیئے کہا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنی صفائی میں کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔
060211_ambassador_syria_ak
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/02/060211_ambassador_syria_ak
ڈنمارک کے سفیر کی شام سے واپسی
ڈنمارک کی وزارت خارجہ کے مطابق شام سے ڈنمارک کے سفیر اور ان کا عملہ عارضی طور پر واپس چلا گیا ہے کیونکہ شام کی حکومت ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ڈنمارک کے سفیر اور ان کے عملے کی عدم موجودگی کے دوران سفارتی امور جرمنی کے سفارتخانے اور ڈنمارک کے عمان میں موجود سفارتخانے کے ذریعے انجام دیے جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے شام میں ڈنمارک کے سفارتخانے پر حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ اس حملے میں ہجوم نے پیغمبر اسلام کے کارٹون شائع کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ ہجوم میں شامل مظاہرین نے ڈنمارک کے سفارتخانے پر پتھراؤ کیا اور نعرے بازی کی۔ اس کے بعد مظاہرین ناروے کے سفارتخانے پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ گئے۔ ڈنمارک کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ڈنمارک کے سفارت کاروں نے عارضی طور پر یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ شام کے حکام نے ان کے لیے حفاظتی اقدامات کو نا قابل قبول حد تک کم کر دیا تھا‘۔ ڈنمارک اور ناروے نے شام کی حکومت پر ان حملوں کو روکنے میں ناکامی کے باعث تنقید کی ہے اور ڈنمارک نے اپنے شہریوں کو شام سے واپسی کا مشورہ دیا ہے۔ امریکہ نے بھی شام پر تنقید کی ہے اور سفارت خانوں پر حملوں کو نا قابل برداشت قرار دیا ہے۔ ان حملوں کے اگلے روز شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں ان حملوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ شام نے ڈنمارک کے سفارت کاروں کی واپسی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسی دوران ڈنمارک میں کارٹون شائع کرنے والے اخبار کے ایڈیٹر کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ ان کارٹونوں کو بہت سے مسلمان اپنے مذہب کی توہین سمجھ رہے ہیں اور ان سے دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ اس ہفتے کے آغاز میں ایک ایرانی اخبار نے ’ہولوکاسٹ‘ کی تصاویر کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا ہے۔ ایرانی رہنما رفسنجانی کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار کی حدود دیکھنا چاہتے ہے جسے ڈنمارک اور بعض یورپی ممالک کے اخبارات کارٹون شائع کرنے کی دلیل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
pakistan-53765781
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53765781
کراچی: گھر میں رکھے گئے شیر اور چیتے حکومت نے تحویل میں لے لیے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں محکمہ جنگلی حیات نے ایک گھر میں رکھے گئے چار شیر اور دو چیتے سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے اِن کے مالک کو ان درندوں کو فروخت کرنے کے لیے ڈیڑھ ماہ کی مہلت دی ہے۔
شیروں کے مالک زوہیب کو مشروط اجازت دی گئی ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ کے اندر ان شیروں اور چیتوں کو فروخت کر سکتے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی سرکاری یا نجی چڑیا گھر، ٹرسٹ، یا غیر سرکاری تنظیم انھیں خرید سکتے ہیں (فائل فوٹو) گذشتہ دنوں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب کراچی کے گلشنِ حدید کے علاقے میں قومی شاہراہ کے قریب واقع ایک گھر کی چاردیواری کے اندر شیر کو مٹر گشت کرتے دیکھ کر پڑوسیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے شکایت کی۔ اس کے بعد سندھ کے محکمہ جنگلی حیات متعلقہ مقام پر پہنچے جہاں سے انھوں نے دو شیروں اور ایک چیتے کا جوڑا برآمد کیا۔ حکام کے مطابق ان جانوروں کے مالک طلب کرنے پر ان جانوروں کو رکھنے کا اجازت نامہ فراہم نہیں کر سکے۔ ابتدائی طور پر مالک کو حراست میں لیا گیا تھا بعد ازاں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے کیا شیر واقعی جنگل کا بادشاہ ہے؟ ’گینڈے کے شکاری‘،خود شیر کا شکار بن گئے جرمنی کے چڑیا گھر سے چار شیر اور تیندوا فرار محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر نے قانون میں حاصل سول جج کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت کی اور جمعرات کو اس کیس میں ملزم ذوہیب کی موجودگی میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جاوید مہر کا کہنا تھا کہ زوہیب کے پاس شیر رکھنے کا اجازت نامہ موجود نہیں تھا، اور انھوں نے ’منِی زو‘ کا جو لائسنس پیش کیا اس کی معیاد بھی پوری ہو چکی تھی۔ ان کے مطابق قانون کے تحت شیر اور چیتے انسانی آبادی میں نہیں رکھے جا سکتے اور اس حوالے سے نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کی واضح ہدایات موجود ہیں، لہٰذا یہ شیر اور چیتے حکومتی تحویل میں لے کر کراچی زولوجیکل گارڈن میں بطور امانت منتقل کیے جائیں گے۔ زوہیب کو مشروط اجازت دی گئی ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ کے اندر ان شیروں اور چیتوں کو فروخت کر سکتے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی سرکاری یا نجی چڑیا گھر، ٹرسٹ یا غیر سرکاری تنظیم انھیں خرید سکتے ہیں، تاہم سرکاری چڑیا گھر کے علاوہ کسی کو بھی ان کی افزائش نسل کی اجازت نہیں ہو گی۔ فیصلے کے مطابق اگر مقررہ وقت کے اندر زوہیب ان شیروں کو شرائط کے مطابق فروخت نہ کر سکے تو پھر انھیں بحق سرکار ضبط سمجھا جائے گا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم ایک حلف نامہ بھی جمع کروائیں گے جس میں وہ مستقبل میں اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث نہ ہونے کی یقین دہائی کروائیں گے اور اس حوالے سے علاقے کے کسی معزز شخصیت کی ضمانت حاصل کی جائے گی۔ حکم کے تحت ذوہیب علاقے میں خوف پھیلانے پر مقامی لوگوں سے معذرت بھی کرنے کے پابند ہوں گے۔ ذوہیب نے فیصلہ سننے کے بعد کہا کہ وہ ان جانوروں کو شہر کے ایک نجی چڑیا گھر میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جہاں مطلوبہ سہولیات دستیاب ہیں تاہم عدالت نے واضح کیا کہ یہ صرف سرکاری چڑیا گھر میں ہی منتقل ہو سکتے ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزیرویٹر جاوید مہر نے زوہیب پر واضح کیا کہ ان شیروں اور ٹائیگرز کے ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے اور اگر فیصلے کے برعکس خریدار نے ان کی افزائش نسل کی تو ملزم کو 20 لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بگ کیٹس (شیر، چیتے، تیندوے) کی تفریح کے مقصد کے لیے درآمد کی اجازت دی گئی تھی تاہم ان کی افزائش نسل پر پابندی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر نے بتایا کہ بعض درآمد کنندگان نے ان کی افزائش نسل کی اور ان کی مقامی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے ان شیروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ انھوں نے بتایا کہ نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کی بگ کیٹس سے متعلق گائیڈ لائنز میں بگ کیٹس کی افزائش نسل پر پابندی ہے اور ان کی ایک دوسرے سے افزائشِ نسل بھی نہیں کروائی جاسکتی، لیکن اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اس وقت پاکستان میں فارمی شیروں کی افزائش نسل ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اس سے ان کی جنگلی اور خونخوار جانور والی جبلت ختم ہو جاتی ہے اور وہ بلی کی طرح کے پالتو جانور بن جاتے ہیں جن کے پنجے اور جبڑے بھی آپریشن کر کے نکال دیے جاتے ہیں۔
150105_nazi_soldiers_pictures_rh
https://www.bbc.com/urdu/multimedia/2015/01/150105_nazi_soldiers_pictures_rh
جرمن فوجیوں کی نایاب تصاویر
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے فوجی کی جانب سے لی گئی تصاویر کی نمائش نیدرلینڈز میں کی جا رہی ہے۔ جرمن فوجی کا یہ کیمرہ برطانوی فوجی کو ملا تھا۔
جرمن فوجی بنکر کے سامنے کھڑے ہیں رائل میرین کے آرتھر تھامسن کو یہ کیمرہ یکم نومبر 1944 کو نیدرلینڈز سے جرمن فوج کو نکالنے کے آپریشن کے دوران ملا تھا۔ یہ کیمرہ ایک بڑی بنکر میں جرمن فوج کے سامان کے ساتھ پڑا ملا تھا۔ جرمن فوجی 1944 میں نیدرلینڈز پر قبضے کے بعد اس کیمرے میں سے صرف جرمن فوجیوں کی آرام کرتے ہوئے کی تصاویر ہی نہیں ملیں بلکہ برطانوی کمانڈوز کی تصاویر بھی ملیں ہیں جو تھامسن نےکھینچی تھیں۔ جرمن فوجی ایک تقریب کے دوران آرتھر تھامسن کا انتقال89 سال کی عمر میں 2013 میں ہوا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ کیمرہ اور تصاویر نیدرلینڈز کو دے دی جائیں جہاں سے ان کو یہ کیمرہ ملا تھا۔ جس بنکر سے تھامسن کو یہ کیمرہ ملا تھا وہ بنکر ہٹلر کے دفاعی نظام ’ایٹلانٹک وال‘ کا حصہ تھا۔ یہ دفاعی نظام اتحادیوں کے حملے کو روکنے کے لیے سپین سے سکینڈینیویا تک پھیلا ہوا تھا۔ رائل میرین کے آرتھر تھامسن کو یہ کیمرہ یکم نومبر 1944 کو نیدرلینڈز سے جرمن فوج کو نکالنے کے آپریشن کے دوران ملا تھا تھامسن دوسری جنگ عظیم کے وقت 21 سال کے تھے اور وہ 47 رائل میرین کا حصہ تھے۔ انتقال سے قبل ان کا کہنا تھا ’ہم بنکر میں تلاشی لے رہے تھے اور میں نے یہ کیمرہ اٹھا لیا۔ اس میں فلم تھی۔ جرمن فوجیوں نے اتنی زیادہ تصاویر لی ہوئی تھیں اور چند ہی تصاویر بچی تھیں۔ تو میں نے بھی چند تصاویر کھینچیں۔‘ جرمن فوجی نیدرلینڈز کے ساحل پر اپنے کتے سے کھیلتے ہوئے ’میں جب جنگ سے واپس آیا تو تصاویر نکلوائیں اور ان میں جرمن فوجیوں کی تصاویر اور چند تصاویر ہو جو میں نے کھینچی تھیں۔‘ 47 رائل کیرین کا ایک فوجی جرمن گن کے ساتھ یاد رہے کہ 47 رائل میرین اگست 1943 میں قائم کی گئی تھی اور اس نے نارمنڈی لینڈنگ میں بھی حصہ لیا۔ تھامسن کی بیٹی کلیئر ہنٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ کیمرہ ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد اسی کیمرے سے تصاویر کھینچا کرتے تھے۔ تھامسن کی بیٹی کلیئر ہنٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ کیمرہ ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے اس کیمرے کے ملنے کے 70 سال بعد تھامسن کی بیٹی نے یہ کیمرہ نیدرلینڈز کے عجائب گھر کو پیش کیا ہے۔
160107_us_north_korea_joint_actions_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2016/01/160107_us_north_korea_joint_actions_zs
شمالی کوریا کو مشترکہ اور عالمی سطح کا جواب دینے پر اتفاق
امریکی صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری تجربے کے جواب میں امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان نے مشترکہ طور پر سخت اور عالمی سطح کا جواب دینے پر اتفاق کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر اوباما نے جاپان اور جنوبی کوریا کے تحفظ کے لیے امریکہ کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے اس سلسلے میں اپنے جنوبی کوریائی ہم منصب پارک گیون ہائے اور جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے سے ٹیلیفون پر بات کی ہے۔ سلامتی کونسل کا شمالی کوریا کے خلاف فوری اقدامات کا فیصلہ شمالی کوریا کے’ہائیڈروجن بم‘ کےتجربے پر شکوک و شبہات شمالی کوریا پر امریکہ کی مزید پابندیاں امریکی حکام کے مطابق صدر اوباما نے اس بات چیت کے دوران ان ممالک کی سکیورٹی کے لیے امریکہ کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ شمالی کوریا کا لاپرواہی پر مبنی رویہ قابلِ مذمت ہے۔ جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے نے بدھ کو شمالی کوریا کی جانب سے جوہری تجربے کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ یہ اقدام جاپان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس حرکت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہائے نے بھی اسے اشتعال دلانے والی سنگین حرکت قرار دیا تھا۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک شمالی کوریا کے حالیہ جوہری تجربے کی مذمت کرتے ہیں۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کا جوہری تجربہ انتہائی اشتعال انگیز قدم ہے۔ بیان کے مطابق اس تجربے سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ ہے اور یہ اقوام متحدہ کی ایک سے زائد قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جان کیری کا کہنا تھا: ’ہم شمالی کوریا کو جوہری ریاست تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی ایسا کریں گے۔‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کے تجربے کے بعد فوری طور پر اس کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بدھ کو منعقدہ ہنگامی اجلاس میں سلامتی کونسل نے اس تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کے لیے خطرہ اور خدشہ‘ قرار دیا ہے۔ یہ اجلاس بھی امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کی جانب سے ہی طلب کیا گیا تھا۔ شمالی کوریا کی جانب سے سنہ 2006 سے یہ چوتھا جوہری تجربہ ہے اور اگر حالیہ تجربے کی تصدیق ہوگئی تو یہ ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ ہوگا۔ خیال رہے کہ شمالی کوریا نے سنہ 2006، 2009 اور 2013 میں جوہری تجربات کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جبکہ 20 ادارے اور 12 افراد اقوام متحدہ کی جانب سے بلیک لسٹ کیے گئے تھے۔
131203_missing_persons_court_def_minister_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/12/131203_missing_persons_court_def_minister_rh
لاپتہ افراد کیس: ’تین مزید افراد کا سراغ مل گیا ہے‘
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت حکومت کی جانب سے مہلت مانگنے پر جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ وہ خود زندہ بچ جانے والے 33 افراد کو عدالت میں پیش کریں اس سے قبل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ لاپتہ افراد مقدمے میں آج فیصلہ سنا دیا جائے گا اور اگر لاپتہ افراد عدالت میں پیش نہ کیے گئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں۔ ’آپ کیا سمجھتے ہیں کہ چیف گیا تو معاملہ ختم ہوجائے گا؟‘ ’جو بھی بازیاب ہوتا ہے وہ ایف سی کی گود سے نکلتا ہے‘ عدالت کے سامنے آج وزیر دفاع خواجہ آصف پیش ہوئے جنہوں نے عدالت سے مہلت مانگی جس کے جواب میں عدالت نے کہا کہ مہلت نہیں ملے گی۔ چیف جسٹس نے کہا وزیر دفاع سے کہا کہ بینچ آج رات گئے تک بیٹھے گا: ’حکومت یا تو لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے نہیں تو فیصلہ سنا دیا جائے گا جس سے وزیر اعظم یا بّری فوج کے سربراہ متاثر ہو سکتے ہیں۔‘ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے سلسلے میں ان کی گذشتہ روز بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ہوئی اور آج وزیر اعظم میاں نواز شریف سے بھی ہوئی ہے۔ قائم مقام سیکریٹری داخلہ ایڈیشنل سیکریٹری میجر جنرل ریٹائرڈ عارف نذیر نے بھی عدالت سے مہلت مانگی جس پر عدالت نے ان کو مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ آج ڈھائی بجے تک لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کریں۔ قائم مقام سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ 35 افراد میں سے پانچ کا سراغ مل گیا ہے۔ ’ان پانچ افراد میں سے دو کی ہلاکت ہو چکی ہے، ایک سعودی عرب میں ہیں اور دو پاکستان ہی میں کام کر رہے ہیں۔‘ عدالت نے قائم مقام سیکریٹری دفاع سے کہا کہ یا تو لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کریں یا ان افراد کے نام دیں جن سے ان کی بازیابی کے لیے رابطے کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے پیر کو حکم دیا تھا کہ اگر لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش نہ کیا گیا تو وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے والے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف اغوا کی دفعات کے تحت مقدمات درج کریں۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اُنھیں وزارتِ دفاع کے حکام نے بتایا تھا کہ 35 لاپتہ افراد میں سے دو ہلاک ہوچکے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد میں سے ایک اس سال جولائی میں جب کہ دوسرا گذشتہ برس دسمبر میں ہلاک ہوا تھا۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دورانِ حراست کسی شخص کی ہلاکت قتل کے زمرے میں آتی ہے اور ذمے داران افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مالاکنڈ میں حراستی مرکز کے سپرنٹینڈنٹ عطا اللہ کے مطابق اس حراستی مرکز میں 35 افراد موجود تھے جنھیں فوج کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ بادی النظر میں یہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ وہ خود زندہ بچ جانے والے 33 افراد کو عدالت میں پیش کریں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں اس وقت 43 حراستی مراکز ہیں۔ عدالت کے حکم پر وزیر دفاع خواجہ آصف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اُنھوں نے بینچ سے استدعا کی کہ اس معاملے میں کچھ دنوں کی مہلت دی جائے تاہم عدالت نے اُن کی استدعا مسترد کردی۔
160406_karachi_isis_militants_rwa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160406_karachi_isis_militants_rwa
کراچی میں دو شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
کراچی میں انسداد دہشت گردی کے محکمے نے ایک مبینہ مقابلے میں دو مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان کا تعلق خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم سے تھا۔ ایس ایس پی جنید شیخ نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے محکمے نے گذشتہ رات گلشن معمار کے قریب سپر ہائی وے سے متصل سٹی گارڈن میں حساس اداروں کی اطلاع پر یہ مشترکہ آپریشن کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران دو شدت پسند مارے گئے جبکہ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے دیگر ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزمان کی شناخت مجاہد عرف طلعہ اور عبداللہ کے نام سے ہوئی ہے، جن کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے تھا۔ جنید شیخ نے بتایا کہ شدت پسندوں کے قبضے سے دو تیار خودکش جیکٹیں، کلاشنکوف، ہینڈگرینیڈ اور دیگر اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دونوں شدت پسندوں کے سر پر دس دس لاکھ روپے انعام بھی تھا۔ ایس ایس پی کے مطابق ملزمان فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں، غیر ملکی سفارت خانوں، شاپنگ سینٹر، پولیس اور فوج کی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی ملک میں دولتِ اسلامیہ کی موجودگی سے انکار کرتے آئے ہیں جبکہ اسماعیلی برادری کی بس پر حملے کے علاوہ دہشت گردی کی کئی دیگر وارداتوں کے بعد ملزمان دولتِ اسلامیہ کے پمفلٹ پھینک چکے ہیں۔
080815_georgia_russia_gates
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/08/080815_georgia_russia_gates
روسی حملے کے دور رس نتائج: امریکہ
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس جورجیا میں ’جارحانہ‘ کارروائیوں سے باز نہیں آیا تو روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات برسوں کے لیے خراب ہوجائیں گے۔
تاہم امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ انہیں جورجیا میں امریکی افواج کی موجودگی کی ضرورت دکھائی نہیں دے رہی۔ گیٹس نے اپنا بیان ایسے وقت دیا ہے جب روس نے کہا ہے کہ جورجیا کی علاقائی سالمیت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے کہا کہ جورجیا سے الگ ہونے والے علاقے اب کبھی بھی جورجیا کا حصہ بننے کے لیے راضی نہیں ہوں گے۔ اس سے قبل روس نے کہا تھا کہ وہ گوری شہر کو جورجیا کی پولیس کے حوالے کرنے کا کام شروع کردیا ہے تاہم اس کا اصرار ہے کہ روسی فوجی علاقے میں موجود رہیں گے۔ روس کے ایک فوجی جنرل نے کہا کہ ان کے فوجی گوری میں امن قائم کرنے اور علاقے سے ہتھیار ہٹانے کے لیے موجود ہیں۔ جورجیا کا گوری شہر جنوبی اوسیٹیا سے پندرہ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور جورجیا کے دارالحکومت تبلیسی جانے کا اہم راستہ ہے۔ تبلیسی میں بی بی سی کی نامہ نگار نتالیہ انتالیوا کا کہنا ہے کہ روسی فوج اور جورجیا کی پولیس کی اس علاقے کی مشترکہ گشت کی ایک تجویز کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ہماری نامہ نگار کے مطابق اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ روسی فوج کی گاڑیاں سیناکی شہر اور مغربی جورجیا میں بحیرہ اسود کے کنارے واقع پوٹی بندرگاہ پر گشت کرتی دیکھی گئی ہیں۔ ماسکو نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی لیکن روس کے ڈِپٹی چیف آف اسٹاف جنرل اناٹولی نوگووِٹسن نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ پوٹی بندرگاہ پر روسی کی موجودگی جائز ہے تاکہ انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کی جاسکیں۔ جورجیا کے وزیر اعظم لاڈو گورگینِزڈا نے کہا کہ 100سے زائد روسی ٹینکوں کا قافلہ مغربی شہر زوگیڈڈی سے جورجیا کے کافی اندر داخل ہورہا ہے۔ لیکن بعد میں کئی اہلکاروں نے کہا تھا کہ روسی ٹینکوں کا یہ قافلہ واپس ہوگیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا کہ تمام خدشات کے باوجود کہ روس جورجیا سے جلد نہیں جانا چاہے گا، ایسا لگتا ہے کہ روسی واپس ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’لگتا ہے کہ وہ اپنی فوج واپس ابخازیہ کی جانب لے جارہے ہیں۔۔۔ لڑائی والے خطے جنوبی اوسیٹیا کی طرف۔‘ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے وائس چیئرمین جنرل جیمز کارٹ رائٹ نے کہا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ روسی فائربندی کے معاہدے کی شرائط پر عمل کررہا ہے۔ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا کہ اگر روس جورجیا میں اپنی جارحانہ کارروائیاں نہیں ترک کرتا تو امریکہ اور روس کےتعلقات برسوں کے لیے منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے ماسکو پر اس بات کے لیے زوردیا تھا کہ وہ جورجیا سے اپنی فوجیں پوری طرح واپس بلانے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ وزیر خارجہ رائس فرانس میں ہیں جہاں وہ صدر نکولا سرکوزی سے جورجیا کے تنازعے پر سفارتی کوششوں کے بارے میں بات چیت کر رہی ہیں۔ جورجیا نے جنوبی اوسیٹیا کے شورش زدہ علاقے پرگوری سے ہی حملے شروع کیے تھے اور لڑائی کی حیثیت سے یہ شہر اب بھی مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی اوسیٹیا میں حملے کے بعدروس نے پیر کو شہر پر فوجی کارروائی شروع کی، جس کے دوران شہر پر بھی بمباری کی گئی اور منگل کو فوجی کارروائی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ گوری میں بی بی سی کے نامہ نگار جبرائیل گیٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ماسکو اس بات پر مصر ہے کہ اس کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ مناسب طریقے سے کنٹرول جورجیا کے حوالے کیا جا سکے اور استمعال نہ کیے گئے گولہ بارود کو بھی وہاں سے ہٹایا جا سکے۔ اس دوران بدھ کی رات بھی بہت سے لوگوں کو دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہوتے دیکھا گيا ہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی موجودگی کے سبب لوٹ مار کرنے والے بھی شہر میں نظر نہیں آئے۔ جورجیا کی پولیس کو کنٹرول سونپنے میں مدد دینے والے روسی فوج کے جنرل نے مقامی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں اور اپنی دکانیں اور کاروبار دوبارہ کھول لیں۔
120303_book_cinema_mb
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2012/03/120303_book_cinema_mb
ہندوستانی فلم کے سو سال
دادا صاحب پھالکے نے جب 1913 میں خامو‎ش فلم راجہ ہریش چندر ریلیز کی تھی تو انہیں یہ گمان بھی نہ ہوگا کہ وہ آنے والے سو سالوں کے لیے کروڑوں لوگوں کی دلچسپی کا سامان کر رہے ہیں۔
اس سال ہندوستانی سینما کے سو سال پورے ہو رہے ہیں۔ دہلی میں جاری بیسویں عالمی کتاب میلے کی تھیم ’انڈین سینما کے سو سال‘ ہیں اور اس موقع پر وہاں ہندوستانی سینما کے بارے میں ہزاروں کتابیں نظر آ رہی ہیں۔ اس تھیم پویلین کے انچارج اور نیشنل بک ٹرسٹ کے انگریزی کے ایڈیٹر کمار وکرم کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تھیم کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ کتابوں اور سینما کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ انھوں نے ایک خاص نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ یہ بتایا کہ اس پویلین میں جتنی بھی تصویریں لگی ہیں ان میں کتاب بھی ہے، خواہ وہ مقبول فداحسین کے ذریعہ بنائی گئی مشہور زمانہ اداکار دلیپ کمار کی پینٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔ جاوید اختر اور امول پالیکر نے اس موقعے سے دو کتابوں کا اجراء کیا۔ کمار وکرم نے یہ بھی نکتہ پیش کیا کہ جسے ہم اصلی سینما دیکھنے والا کہتے ہیں ان میں سے ہی بیشتر لوگ ہماری کتابوں کے پڑھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہندوستانی سینما کی سو سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو اس میں بے شمار رنگ نظر آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے تو پردۂ سیمیں پر زبردست انقلاب آیا اور1931 میں پہلی گویا فلم ’عالم آراء‘ کی آمد نے انقلاب برپا کر دیا۔ عالمی کتاب میلے میں اردو زبان میں شائع ہونے والی دو کتابوں ’جوہرِ اداکاری‘ اور ’اردو اور بالی وڈ‘ کی رونمائی کرتے ہوئے مشہور نغمہ نگار جاوید اختر نے کہا کہ ’ پہلی بولتی فلم عالم آراء سے لے کر آج تک ہندوستانی فلموں میں اردو زبان نے رنگ بھرا ہے‘۔ انھوں نے کہا ’اردو کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ جب تک وہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے آپ اسے ہندی کہتے ہیں اور جب آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپ اسے اردو کہہ دیتے ہیں‘۔ شروع شروع میں سینما کا موضوع اساطیر اور لیجنڈ سے آتا رہا۔ گاندھی جی کی تحریک کے ساتھ سماجی موضوعات پر فلمیں بنیں۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں عالمی جنگ اور ‏سیاسی اتھل پتھل کا فلموں پر اثر رہا۔ دلیپ کمار اور نرگس کی فلم جوگن میں نرگس کے ہاتھ میں کتاب دیکھی جا سکتی ہے اردو کے شاعر اور ادیب زبیر رضوی نے فلموں کے ادب پر ا‎‎ثرات کا جائزہ لیا اور کہا کہ فلم اور ادب میں دو طرفہ لین دین ہے اگرشاہکار ادب پر فلمیں مبنی ہوتی ہیں تو ادب کی تخلیق بھی فلموں سے متاثر ہوتی ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کو ہندوستانی سینما کے عہد زریں کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیوں کہ اس دور نے جتنے بڑے اداکار اور اسی قدر بہترین فلمیں، نغمے اور موسیقی بھی سامنے آئی۔ اگر ایک جانب دلیپ کمار، راج کپور، دیوآنند، راجکمار، گرودت اور پران جیسے اداکار تھہے وہیں میناکماری، مدھو بالہ، نرگس، وحیدہ رحمن جیسی اداکارہ تھیں۔ موسیقاروں کی تو ایک لمبی قطار تھی جن میں نوشاد، خیام، او پی نیر، شنکر جے کشن، سلیل چودھری، ایس ڈی برمن شامل تھے۔ آواز کی دنیا لتا منگیشکر، ثریا، آشا بھونسلے، محمد رفیع، تلعت محمود، کشور کمار اور مکیش کے سروں سے گونج رہی تھی۔ انھی دنوں میں مغل اعظم، آن، صاحب بی بی اور ‏غلام، مدر انڈیا، آوارہ، برسات، شری چارسو بیس، پاکیزہ جیسی صدابہار فلمیں بنیں۔ مینا کماری کو فلم پاکیزہ میں خط پڑھتے ہوۓ دیکھا جا سکتاہے۔ ستر کی دہائی میں ہلکی پھلکی فلموں’گول مال‘ اور ’باتوں باتوں میں‘ کے اداکار امول پالیکرنے کہا کہ میں ہندوستان کے اس علاقے (مہاراشٹر) سے تعلق رکھتا ہوں جہاں لوگوں کو جتنا سینما کا شوق ہے اتنا ہی پڑھنے میں بھی۔ اس پروگرام میں شامل ایک فلم بین خالد لطیف نے کہا کہ ہندوستانی فلموں نے جہاں ہمیں انٹرٹینمنٹ فراہم کیا وہیں ہندوستانی ریل یا ڈاک کی طرح اس نے سارے ہندوستانیوں کو جوڑنے کا کام نہ صرف ہندوستان میں کیا ہے بلکہ بیرون ملک میں بھی ہندوستانیوں کو اپنی تہذیب سے جو‌‌ڑے رکھاہے جو کہ اپنے آپ میں بڑا کار نامہ ہے۔ امول پالیکر نے کہا کہ ہندوستانی فلم صرف ممبئی میں ہی نہیں بنتی بلکہ اس کے کئی اور بھی بڑے مراکز جیسے مدراس اور کولکتہ رہے ہیں جہاں علاقائی زبانوں کی بڑی فلمیں بنی ہیں اور بن رہی ہیں۔ اس موقعہ سے این بی ٹی نے فلموں پر مبنی کتابوں کی ایک فہرست بھی شائع کی ہے جس میں مختلف زبانوں میں فلم کے تعلق سے شائع ہونے والی کتابیں شامل ہیں۔
world-50000477
https://www.bbc.com/urdu/world-50000477
شام میں ترکی کی اتحادی ’نیشنل آرمی‘ کون ہے؟
شام کے شمال مشرقی علاقوں میں کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن میں نیشنل آرمی کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد ترک فوجوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جنگجوؤں کی اس فوج کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
نیشنل آرمی کون ہے؟ شام میں حزب مخالف کے کئی جنگجو جو 2011 سے صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار ہیں، ان میں سے کئی گروہوں کو ترکی سے مالی اور فوجی مدد ملتی تھی۔ ان گروہوں کو ایک ریگولر آرمی کی طرح ایک کمانڈر کے نیچے فری سیریئن آرمی کی چھتری تلے اکٹھا کیا گیا۔ ایسا دو ہزار سولہ میں ترک فوج کی جانب سے شام کے سرحدی علاقوں میں کردوں کے خلاف فرات شیلڈ نامی فوجی آپریشن سے پہلے کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے ترک آپریشن: کیا دولتِ اسلامیہ پھر سر اٹھا سکتی ہے؟ ترکی بمقابلہ شامی کرد: ماضی، حال اور مستقبل ترکی کی شام میں زمینی کارروائی کا آغاز تمام گروہوں کو ایک چھتری کے نیچے اکٹھے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے ساتھ رابطوں میں آسانی ہو اور وہ آپس میں لڑائیوں سے باز رہیں۔ لیکن 2018 میں ترکی کی جانب سے شام میں عفرین میں آپریشن شروع کرنے سے پہلے حامی جنگجوؤں کے پہلے سے بھی بڑی گروہ کو سیرئین نیشنل آرمی کے بینر تلے اکٹھا کیا گیا۔ اسی طرح ادلیب میں ترک کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کا ایک بڑا گروہ نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام سے قائم تھا۔ 4 اکتوبر کو، شام میں کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن سے پانچ دن پہلے سیرئین نیشنل آرمی اور ادلب میں برسرپیکار نیشنل لبریشن فرنٹ کو ملا کر ایک نئے نام نشینل آرمی کے بینر تلے اکٹھا کر دیا گیا۔ اس نیشنل آرمی کی سربراہی جنرل سلیم ادریس کے سپرد ہے جو فری سیرئین آرمی کے پہلے کمانڈر تھے اور ان کے ترکی کی حکومت کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ نیشنل آرمی میں کتنے جنگجو ہیں؟ سیریئن نینشل آرمی کے عفرین اور فرات میں چالیس ہزار جنگجو ہیں۔ یہ جنگجو اس وقت سے ان علاقوں میں موجود ہیں جب ترک فوج نے وہاں آپریشن کیے تھے۔ ادلب میں نیشنل لبریشن فرنٹ کے پاس 70 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ نئی آرمی میں چالیس ہزار جنگجو سیرئین نیشنل آرمی سے شامل ہوئے ہیں جبکہ کچھ کا تعلق ادلب میں موجود نیشنل لبریش فرنٹ سے ہے۔ نیشنل آرمی کے جنگجوؤں کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے۔ البتہ ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کے مطابق نیشنل آرمی 60 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ نیشنل آرمی کے ایک کمانڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ آپریشن کے پہلے مرحلے میں چالیس میں سے صرف چودہ ہزار جنگجوؤں کو شمال مشرقی شام کی سرحد پر تعینات کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جوں جوں فوجی آپریشن آگے بڑھے گا مزید جنگجوؤں کو شامی سرحد پر تعینات کر دیا جائے گا۔ ابھی تک ادلب سے کسی جنگجو کو سرحد پر تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ ادلب کا ایک جیش الاسلام نامی شدت پسند گروہ ترک فوج کے ہمراہ کردوں سے لڑنے پر تیار ہے۔ البتہ یہ گروہ نیشنل آرمی کا حصہ نہیں ہے۔ نیشنل آرمی میں کون سے گروہ شامل ہیں؟ نیشنل آرمی میں تیس مسلح گروہ شامل ہیں جن کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چار بڑھے گروہو ں میں سے سلطان مراد اور فتح سلطان محمود بریگیڈ ترکی کے وفادار ہیں۔ نیشنل آرمی کے 14 ہزار جنگجوؤں کو شام کی شمال مشرقی سرحد پر تعینات کیا گیا ہے اس کے علاوہ دو بڑے عرب گروپ، حمزہ اور مصتنصر باللہ بریگیڈ بھی نیشنل آرمی کا حصہ ہیں۔ ان دونوں گروہوں کو امریکہ اور ترک فوجیوں نے مل کر 2015 میں تربیت اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ جب ماضی میں ترکی نے شام میں فوجی آپریشن کیے تو اس وقت ان دونوں مسلح گروہوں نے ترک فوج کی مدد کی تھی۔ نیشنل آرمی میں کرد جنجگوؤں کا ایک چھوٹا دستہ بھی شامل ہے جس میں 350 کرد ہیں۔ اس میں شامل بعض افراد شام کے شمال مشرق سے اس وقت بھاگ کر آئے تھے جب وہاں سیرئین ڈیموکریٹک فورسز نے قبضہ کر لیا تھا۔ ترکی نے بدھ کو اسی ایس ڈی ایف کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ نیشنل آرمی کے جنگجوؤں کا ترکی کے آپریشن میں کیا کردار ہے؟ نیشنل آرمی کے چودہ ہزار جنگجوؤں کو شمال مشرقی سرحد پر تعینات کیا گیا ہے۔ جنگجوؤں کی تین کور ترکی کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود ہیں اور انھیں سرحدی قصبے تل عبید میں بھیجے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان میں کچھ جنگجو سرحد کے دوسرے حصوں پر موجود ہیں اور وہ ترک فوج کے حکم کے منتظر ہیں۔ جب ترکی کے فوجی بدھ کو شام کے علاقے میں داخل ہوئے تو نیشنل آرمی کے کئی کمانڈرز ان کے ہمراہ تھے کیونکہ وہ علاقے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ترکی کے دو سابقہ فوجی آپریشنز کے بعد ان جنگجوؤں کو ان علاقوں میں رکھا گیا جنہیں دولت اسلامیہ سے خالی کروایا گیا تھا۔ عفرین اور جرابلس میں موجود جنگجوؤں کے کمانڈر کے خیال میں ان کا کردار علاقے میں فوجی آپریشن کے بعد وہاں استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ ان گروہوں کے ذمہ دولت اسلامیہ کے وہ سینکڑوں جنگجو بھی ہیں جنھیں پکڑ کر جیل میں ڈالا گیا تھا۔ عفرین کے آپریشن کے بعد ترکی کے حمایت یافتہ ان جنگجوؤں پر لوگوں کو لوٹنے اور عام شہریوں کو قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات کے بعد ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کلین نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔
060330_inzi_shoaib_lanka_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/03/060330_inzi_shoaib_lanka_as
میچ ڈرا کرنا آسان نہ تھا، انضمام
پاکستانی کپتان انضمام الحق کے خیال میں پہلی اننگز میں صرف176 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد ان کے لیئے میچ ڈرا کرنا آسان نہ تھا لیکن شعیب ملک اور فیصل اقبال کی باہمت بیٹنگ کے نتیجے میں یہ ممکن ہوسکا۔
انضمام الحق کے مطابق چوتھی اننگز کا اپنا دباؤ ہوتا ہے اور پھر رنز کا ہدف بھی بڑا تھا اس صورتحال میں دوسری اننگز کی کارکردگی غیرمعمولی رہی۔ پاکستانی کپتان کا کہنا ہے کہ وکٹ پر گیند نیچے رہ رہی تھی۔ انہوں نے شعیب ملک اور فیصل اقبال کو صرف یہ ہدایت کی تھی کہ وکٹ پر ٹھہرنا ہے۔ انہیں خوشی ہے کہ ان دونوں نے اس پر عمل کیا۔ کھانے کے وقفے پر جب وکٹ نہیں گری تو انہیں یقین ہو چلا تھا کہ ان کی ٹیم اس میچ کو ڈرا کرجائے گی۔ انضمام الحق نوجوان شعیب ملک کی صلاحیتوں کے ہمیشہ سے معترف رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نوجوان نے شدید گرم موسم میں جس اعتماد سے آٹھ گھنٹے بیٹنگ کی وہ قابل تعریف ہے۔ انضمام الحق کے مطابق شعیب ملک بنیادی طور پر اوپنر نہیں تھا لیکن ٹیم کے مفاد میں اس نے اوپننگ کی اور اب اس کی بیٹنگ میں پختگی آتی جارہی ہے جو ٹیم کے لیئے خوش آئند بات ہے۔ انضمام الحق کا کہنا ہے کولمبو ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی سے وہ مطمئن ہیں۔ شعیب ملک کا اپنی148 رنز کی شاندار اننگز پر کہنا ہے کہ یہ ان کے انہماک کے ساتھ ساتھ کپتان کی ہدایت کا نتیجہ بھی ہے جن کا کہنا تھا کہ وہ پورے دن کھیلنے کے بارے میں سوچنے کے بجائے ہر سیشن کو ذہن میں رکھ کر بیٹنگ کریں۔ انہیں خوشی ہے کہ ان کی بیٹنگ ٹیم کے کام آئی۔ شعیب ملک کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹنگ پر ضرور توجہ رکھی ہے لیکن اپنی بولنگ سے غافل نہیں ہوئے ہیں۔ شعیب ملک کہتے ہیں کہ خود پر دباؤ طاری کرنے سے پرفارمنس مزید خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ ایک بڑی اننگز سے اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
051223_google_search_zs
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2005/12/051223_google_search_zs
گوگل پر جینٹ جیکسن کی تلاش
مشہور ’سرچ انجن‘ گوگل نے سنہ 2005 کے دوران انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والے افراد اور اشیاء کی فہرست جاری کی ہے۔
امریکی گلوکارہ جینٹ جیکسن کا نام اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ گو کہ ایک ایوارڈ کی تقریب کے دوران جنیٹ جیکسن کی بے لباسی کامعاملہ گزشتہ برس پیش آیا تھا تاہم اس برس بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افراد کو جنیٹ سے متعلق معلومات کی تلاش رہی۔ جنیٹ نے اس دوڑ میں اپنے بھائی مائیکل جیکسن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جو کہ خود بھی اپنے اوپر چلنے والے مقدمے کی وجہ سے خبروں میں رہے۔ تلاش کردہ لوگوں میں ایک اور اہم نام برٹنی سپیئرز کا بھی ہے جن کے حاملہ ہونے کی خبر نے انہیں سرخیوں میں رکھا۔ گوگل کے مطابق برٹنی سپیئرز کے حاملہ ہونے اور ستمبر میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کے موقع پر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ برٹنی اس برس یاہو ’سرچ انجن‘ پر بھی سب سے زیادہ تلاش کردہ شحضیت رہی ہیں۔ ان مشہور شخصیات کے علاوہ تلاش کردہ چیزوں میں سب سے زیادہ دلچسپی ڈیجیٹل موسیقی اور اس سے متعلقہ اشیاء میں دیکھنے میں آئی۔ گوگل کی شاپنگ ویب سائٹ پر تلاش کے لیےمخصوص جگہ پر درج کیے جانے والے پہلے دس الفاظ میں سے چار کا تعلق امریکی ادارے ’ایپل‘ کے مشہور ِزمانہ ’ آئی پوڈ ‘ سے تھا جس یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اس آلۂ موسیقی میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کردہ الفاظ کی فہرست میں صرف مشہور شخصیات کے نام اور آلہ جات ہی شامل نہیں بلکہ اس برس آنے والی قدرتی آفات بھی ان میں شامل ہیں۔ اس برس دنیا بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے گوگل کی ویب سائٹ کے ذریعے سونامی، سمندری طوفان کٹرینا اور پاکستان اور کشمیر میں آنے والے زلزلے سے متعلق بھی معلومات تلاش کیں۔ ان قدرتی آفات کے علاوہ سات جولائی کو لندن میں ہونے والے بم دھماکوں سے متعلق خبریں اور معلومات بھی لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہیں۔
140417_women_justice_swat_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140417_women_justice_swat_sa
تصفیے کا فوری اور مفت نظام
سوات کے علاقے بحرین سے تعلق رکھنے والی خاتون تاج محل عرف پاس بی بی صوبائی حکومت کی طرف سے بننے والی مصالحتی کمیٹی کی ممبر ہیں۔
علاقے کی خواتین اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ اب مصالحتی جرگوں میں خواتین کو بھی نمائندگی حاصل ہے وہ مصالحتی کمیٹی کے ذریعے ہونے والے جرگوں میں شریک ہو کر مختلف مقدمات کی سماعت کرتی ہیں اور مصالحت کے ذریعے تنازعات کو حل کرتی ہیں۔ وہ یہ سب مفت کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی اس کوشش کو سراہتے ہیں۔ علاقے کی خواتین اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ اب مصالحتی جرگوں میں خواتین کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختو نخواہ میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری جنگ میں مقدمات کے حوالے سے پولیس اور عدالتوں پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے اور حکومت پر عوامی اعتماد بحال رکھنے کی خاطر مصالحتی کمیٹیوں کا نظام عمل میں لایاگیا ہے۔ اور اب اس نظام کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع پشاور، مردان ،نوشہرہ ، سوات اور صوابی سمیت دیگر اضلاع سے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ضلع سوات میں تھانوں کی سطح پر بننے والی مصالحتی کمیٹیاں تنازعات کے حل میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس نظام میں دو فریقوں کی جانب سے پولیس یا کسی اور قانونی نظام کی شمولیت کے بغیر مصالحت پر اتفاق کرنے کے بعد ایک غیر جانبدار مصالحتی کمیٹی مقدمے کی سماعت کرتی ہے۔ یہ کمیٹیاں دہشت گردی، ملکی دفاع اور سلامتی کے مسائل کے علاوہ دیگر ہر قسم کے تنازعات پر مصالحت کی کوششیں کرتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات میں قائم ان کمیٹیوں نے اب تک سات سو سے زائد تنازعات کے کیسز حل کیے ہیں۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں مینگورہ پولیس سٹیشن کی سطح پر بننے والی مصالحتی کمیٹی کے سربراہ محمد زبیر نے بی بی سی کو بتایا کہ سال دو ہزار تیرہ کے دوران اب تک اس مصالحتی کمیٹی نے دوسو دو تنازعات کو مصالحت کے ذریعے حل کیا ہے۔ ان کے مطابق کمیٹی قتل، اقدام قتل، لین دین اور خاندانی تنازعات کی سماعت کرتی ہے اور دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں تنازعہ حل کردیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق کچھ کیسز پولیس کی طرف سے انھیں دیے جاتے ہے جبکہ اکثریت معاملات میں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے خود کمیٹی کے پاس آتے ہیں کیونکہ تصفیے کا یہ نظام فوری اور مفت ہے۔ اس میں وکیل اور دیگر اخراجات سے فریقین بچ جاتے ہیں۔ سوات کے ایک ممتاز وکیل اختر منیر نے بتایا کہ اصل میں مصالحتی کمیٹیاں پی ٹی ٹائپ کیسز اور معمولی جھگڑوں کے کیسز کے حل کے لیے بیٹھائے گئے ہیں تاکہ وہ فریقین کے درمیان راضی نامہ کر لیں اور کیس عدالتوں میں نہ جائے۔ ان کے مطابق تاہم یہ کیمٹیاں اب اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کیسز میں مداخلت کرتی ہیں جو بڑے کیسز ہوتے ہیں اور عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اگر کسی نے ان کی اس حیثیت کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا تو ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہےگی۔ سوات کے مقامی لوگوں کی اکثریت ان مصالحتی کمیٹیوں کے حق میں ہیں۔ سوات کے علاقے مدین کے رہائشی سلطان زیب نے بتایا کہ عدالتوں میں انصاف کا عمل سست اور مہنگا ہے، اس وجہ سے تنازعات کے حل میں کئی برس لگ جاتے ہیں اور اخراجات لاکھوں تک پہنچ جاتے ہے۔ ان کے مطابق سوات میں عسکریت پسندی کے فروغ کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ اکثر انصاف خریدنا پڑتا تھا اور لوگ عدالتوں کے اس نظام سے تنگ آچکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان نے اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری اور سستے انصاف کے فراہمی کا نظام پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق مصالحتی کمیٹیوں پر عوام کی بڑھتے ہوئے اعتماد سے پولیس پر دباؤ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وادی سوات میں زمینوں کے حل طلب تنازعات نے عسکریت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور چھوٹے طبقے نے بڑے بڑے زمینداروں سے انتقام لینے کی کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق اگر ریاست فوری اور سستا انصاف مہیا کرے تو عسکریت پسندوں کے لیے عوامی حمایت ختم ہوجائے گی۔
150902_paris_building_fire_ak
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/09/150902_paris_building_fire_ak
پیرس میں آتشزدگی سے آٹھ افراد ہلاک
فرانس میں حکام کے مطابق دارالحکومت پیرس میں واقع ایک فلیٹ میں آگ لگنے کے نتیجے میں دو بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق چار افراد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے بدھ کی صبح کو آگ پیرس کے 18ویں ڈسٹرکٹ میں واقع مشہور پہاڑی ’ماؤنٹ مارٹ‘ کے پاس ایک فلیٹ میں بھڑک اٹھی اور اسے بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کے 100 ارکان کی ضرورت پڑی۔ متاثرہ عمارت سے چار افراد کو بچایا گیا ہے لیکن ان کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ حکام نے آتشزدگی کے اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے ورزیر داخلہ برنارڈ کازنا کے حوالے سے بتایا ہے کہ’سانحے کی وجوہات معلوم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔‘ لیکن ابتدائی تحقیقات سے یہ اشارے ملے ہیں کہ شاید آگ کو جان بوجھ کر لگایا گیا تھا۔ آگ بجھانے والے عملے کے 100 کارکنوں نے اس آگ کو بچھایا اے ایف پی کے مطابق صبح دو بج کر 20 منٹ پر آگ بجھانے والے عملے کو جائے وقوع پر بلایا گیا جہاں انھوں نے آگ کو بجھایا لیکن دو گھنٹوں بعد انھیں دوبارہ آگ بجھانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کے ترجمان پیئر ہنری برانڈے نے کہا کہ ’جب ایک ہی رات میں آپ کو ایک ہی جگہ پر دو مرتبہ آگ بجھانے کے لیے بلایا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کسی کی بدنیتی ہو سکتی ہے۔‘ خیال ہے کہ آگ فلیٹ کی زمینی منزل پر شروع ہوئی اور وہاں سے سیڑھیوں سے اوپر والی منزلوں پر پہنچ گئی۔ اطلاعات کے مطابق کچھ رہائشیوں نے کھڑکیوں کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ پیرس کی میئر این ہڈالگو نے کہا کہ آگ ایک نجی عمارت میں بھڑک اٹھی جس میں کم آمدنی والے خاندان نہیں رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس آگ سے 15 دیگر عمارتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ خیال ہے کہ یہ آگ گزشتہ دہائی میں پیرس میں آگ لگنے کے سب سے مہلک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
050531_ptcl_senate_rza
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/05/050531_ptcl_senate_rza
پی ٹی سی ایل نجکاری پرواک آؤٹ
قومی اسمبلی میں منگل کی شام حزب اختلاف نے حکومت پر ’پی ٹی سی ایل، کی مبینہ غلط نجکاری اور ملازمین کے مفادات کا تحفظ نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے علامتی واک آؤٹ کیا۔
حکومت نے حزب مخالف کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ملک کے واحد سرکاری زمینی ٹیلی فون فراہم کرنے والے ادارے ’پی ٹی سی ایل، کی نجکاری کو ملکی مفاد میں قرار دیا۔ حزب اختلاف کے قائد رضا ربانی نے کہا کہ ’پی ٹی سی ایل، حساس ادارہ ہے اور اسے کسی غیر ملکی کمپنی کو دینے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ ان کی پالیسیاں غیرملکی سامراجیوں کے مفادات کی تکمیل کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے قبل دو موبائل فون کمپنیوں کو لائسنس جاری کیا ہے۔ متعلقہ وزارت کے وفاقی وزیر اویس احمد خان لغاری نے حزب اختلاف کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے ان پر جوابی تنقید کی اور کہا کہ اس معاملے سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری قومی مفاد میں ہے اور کسی بھی شر پسند گروپ کے احتجاج سے وہ روکی نہیں جاسکتی۔ حکومت نے ’پی ٹی سی ایل، کے چھبیس فیصد حصص مع انتظامیہ نجی شعبے کے حوالے کرنے کی خاطر دس جون کو کھلی بولی منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف ملازمین کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں نجکاری پر تحفظات ہیں اور وہ نجکاری سے پہلے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، ملازمین کی ترقی اور عارضی ملازمین کی مستقلی جیسے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ’پی ٹی سی ایل، کے ملازمین کی تنظیموں کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ساٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین کے اس ادارے کے بیس ہزار ملازمین گزشتہ چھ روز سے مسلسل ہڑتال پر ہیں اور ساتھ میں ان کے انتظامیہ سے مذاکرات بھی جاری ہیں لیکن تاحال کوئی سمجھوتہ نہیں پایا۔ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کی ہڑتال کے باعث اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں ٹیلی فون ایکسچینجز کے باہر فرنٹیئر کنسٹیبلری اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہیں۔ یونین نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ پانچ جون کے بعد ملک بھر کے ٹیلی فون بند کردیں گے۔ پی ٹی سی ایل انتطامیہ کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوگئے تو پاکستان فوج کی ’سگنل کور، پی ٹی سی ایل کی ملک بھر میں تمام تنصیبات اور ایکسچینجز کا انتظام سنبھال سکتی ہے۔
130606_ipl_kundra_accused_mb
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/06/130606_ipl_kundra_accused_mb
’راج کندرا نے سٹے بازی کا اعتراف کر لیا‘
دہلی کے پولیس کمشنر نیرج کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ راجستھان رائلز کے مالک راج کندرا نے آئی پی ایل میں فکسنگ کے الزامات کے سلسلے میں تفتیش کے دوران اپنی ٹیم پر سٹہ لگانے کا اعتراف کیا ہے۔
راج کندرا نے کئی سال قبل اداکارہ شلپا شیٹی سے شادی کی تھی پولیس کے مطابق راج کندرا اپنے ایک دوست کے ذریعے اپنی ٹیم پر سٹہ لگاتے تھے۔ دہلی کے پولیس کمشنر نیرج کمار نے کہا ’راج کندرا اپنے دوست امیش گوئنکا کے ذریعے اپنی ٹیم پر سٹہ لگاتے تھے۔‘ اس دعوے کی تصدیق راج کندرا سے نہیں ہو سکی ہے۔ بہرحال دہلی پولیس نے بدھ کو ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی تھی۔ دہلی پولیس کے سپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر ایس این شریواستو نے بی بی سی کو بتایا کہ راج کندرا کے دوست امیش گوئنکا نے تفتیش کے دوران پولیس کو جو معلومات دی تھی اس کی بنیاد پر راج کندرا سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ایس این شریواستو نے بتایا کہ راج کندرا کو تفتیش کے لیے مستقبل میں بھی طلب کیا جائے گا اور ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا ہے اور انھیں بغیر اجازت ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ واضح رہے کہ آئی پی ایل ٹیم راجستھان رائلز کے تین کھلاڑی ایس شری سنت، انکت چوہان، اجیت چنڈیلا کو آئی پی ایل میں سپاٹ فکسنگ کے الزام میں گزشتہ دنوں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ چنئی سپر کنگز کے اعلیٰ افسر گروناتھ میپّن اور فلموں میں کام کر چکے وندو دارا سنگھ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر سنگین موڑ لے چکا ہے کہ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ بی سی سی آئی کے صدر این شری نیواسن نے تفتیش مکمل ہونے تک اپنے کام کاج سے علیٰحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ آئی پی ایل کا چیئر مین راجیو شکلا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ راج کندرا سے پوچھ گچھ کے ساتھ ہی یہ معاملہ اب بظاہر ایک نیا موڑ لیتا نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب راج کندرا اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کل رات کے بعد سے ہی مسلسل ٹویٹ کر رہے ہیں۔ اپنے ٹویٹس میں انہوں نے میڈیا ریپورٹس کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے: ’کیا گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے گئے؟ میں ممبئی میں اپنے گھر واپس آ چکا ہوں۔ براہِ مہربانی دہلی کرائم برانچ کو اپنا کام کرنے دیں اور میڈیا کو اشتعال انگیز زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے۔‘
080119_jui_differences_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/01/080119_jui_differences_fz
جے یو آئی میں اختلافات شدید
بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے اندر نظریاتی گروپ کے ارکان نے مرکزی قیادت کی جانب سے بھیجی گئی کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور قائدین نے کہا ہے کہ ان کے امیدوار انتخابات میں ضرور حصہ لیں گے۔ جمعیت کے اندر اختلافات کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کے نظریاتی گروپ کے قائدین نے کہا ہے کہ ان کا فیصلہ اصولی ہے اور انہیں بڑی تعداد میں کارکنوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس گروپ کے رہنما مولوی عصمت اللہ کے مطابق ژوب میں مرکزی کمیٹی سودے بازی کے لیے آئی تھی اور انہوں نے اپنا اصولی وقف کمیٹی کے سامنے رکھ دیا تھا۔ مولوی عصمت اللہ کے بقول کمیٹی کے ارکان نے اُن سے اتفاق کیا اور کہا کہ اگر آپ لوگ جیت گئے تو آپ ہمارے ساتھی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے ارکان نے اُن کی انتخابات میں کامیابی کے لے دعا بھی کی لیکن بعد میں اخباری کانفرنس میں امیدواروں کی معطلی کا اعلان کیا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی گروپ کے اہم رکن اور سابق صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع کے مطابق جماعت میں اس سے پہلے بھی گروپ بنے تھے لیکن آج ان کا کوئی وجود بھی نہیں ہے اور جماعت صراط مستقیم پر چل رہی ہے۔ بلوچستان کی سطح پر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے ان میں پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عبدالرحیم زیارتوال اور نیشنل پارٹی کے لیڈر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ جماعت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہی جمعیت علماء اسلام میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں ۔ اس ساری صورتحال پر سیاسی امور کے ماہر اور پولیٹکل سائنس کے اُن کا کہنا تھا کہ صوبہ سرحد میں جمعیت پہلے سے کافی کمزور ہوچکی ہے۔ یہاں بلوچستان میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اختلافات خود ساختہ ہیں اور مرکزی قیادت کی جانب سے آنے والی کمیٹی کے ارکان کا رویہ بھی یہی کچھ ظاہر کر رہا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جمعیت کو میدان سیاست میں بھی رکھا جا رہا ہے اور اسے زیادہ نشستیں بھی نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ اس طرح کے اختلافات سے شاید مسلم لیگ قائد اعظم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جماعت کے اندر اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں اور بلوچستان میں کارکن اپنے وزراء کی پانچ سالہ کار کردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ مولوی عصمت اللہ گروپ جمعیت کی وہی پالیسی چاہتے ہیں جو انیس سو نناوے سے پہلے تھی یعنی طالبان کی حمایت ضروری ہے اور جمعیت اپنی نظریاتی پالیسوں پر عملدرآمد کرے۔ اس کے برعکس مولانا محمد خان شیرانی گروپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پالیسی حالات کے مطابق پارلیمانی سیاست پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی سیاست فوجی حکمرانوں کی پالیسوں سے قریب تر ہوتی ہے کیونکہ گزشتہ سال جنوری میں صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان آپریشن کے بارے میں یہ بیان جاری کر دیا تھا کہ ستر کا آپریشن مختلف تھا اور اب صورتحال مختلف ہے۔
081203_mumbai_mark_tully_np
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/12/081203_mumbai_mark_tully_np
انڈيا کی اب بھی آنکھیں کھليں گی؟
کچھ لوگوں کی جانب ممبئی پر حملے کو ’ہندوستان کا نائن الیون کہا جا رہا ہے۔ چھبیس نومبر کے اگلے روز کی صبح سرکردہ اخبار انڈین ایکسپریس نے سرخی لگا‏ئی :’ آور نائٹ میئر، آورویک اپ کال‘ یعنی برے خواب کے بعد ہماری آنکھیں کھولنے کا وقت۔
ہندوستان کی مثال ایک ایسے مسافر بردار بحری جہاز کی جو خطرناک طوفانوں میں گھرا رہتا ہے لیکن کبھی ڈوبتا نہیں ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کیا واقعی اب ہندوستان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ لیکن اگر اس سوال کے جواب میں ماضی کا جائزہ لیں تو اس کا جواب ’نہ‘ ہی ہوگا۔ ماضی میں ہندوستان کو جن طوفانون کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں مختلف جنگیں، نسلی فسادات، قتل، اور دہشت گرد حملے شامل ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہندو شدت پسندوں کی جانب سے ایودھیا میں واقع بابری مسجد منہدم کر دی گئی تھی تو مجھ سے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ کیا اس واقعہ کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان زبردست تلخی پیدا ہو جائے گی اور ہندوستان لبنان یا پھر شمالی آئرلینڈ کی طرح ہو جائے گا۔ میرا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان میں جس رفتار سے کشیدگی بڑھتی ہے اسی رفتار سے کم بھی پڑ جاتی ہے۔ اس کا ایک منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی اس قسم کے کسی بھی واقعہ کے بعد واپس اپنی پرانی زندگی میں لوٹ آتے ہیں اور آنے والے خطرے کے بارے میں بے خبر ہو جاتے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر کس نے ایسے حالات پیدا کیے؟ ممبئی پر ہوئے حملوں نے ایک بار پھر پولیس اور خفیہ اداروں کی ناکامی واضح کر دی ہے۔ انسداد دہشتگردی دستے کے چیف جنہیں کنٹرول روم میں ہونا چاہیے تھا وہ مقابلہ کرنے چلے گئے اور مارے دیئےگئے۔ ٹی وی چینلز کو پولیس آپریشن کی تصاویر نشر کرنے کی پوری آزادی دی گئی جس نے ہو سکتا ہے کہ دہشتگردوں کو اہم معلومات فراہم کی ہوں۔ اب تو یہ بھی صاف ہو گیا ہے کہ کوسٹ گارڈ ، پولیس ، خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تعاون کی بے حد کمی تھی۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے کہ اب دہشتگردی سے لڑنے کے لیے مرکزی ایجنسی تشکیل دی جائے گی۔ موجودہ ایجنسی (سی بی آئی) کے سامنے کام کاج میں سب سے زيادہ دقت سیاسی حلقوں کی جانب سے مداخلت کے سبب آتی ہے۔ میں نے ایک بار مرکزي تفتیشی ادارے کے ریٹائرڈ چیف کو یہ کہتے سنا کہ سیاسی مداخلت کے سبب یہ ادارہ حکومت کے ہاتھ کی کٹھپتلی بن چکا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نئی ایجنسی سیاسی مداخلت سے آزاد ہوگی۔ اگر مجھے غلط قرار دینا ہے تو سیاستدانوں کی ذہنیت میں زبردست تبدیلی کی ضروت ہوگی۔ بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹلی نے ہندوستان میں کئی برسوں تک صحافت کی ہے۔ حالیہ ممبئی حملوں کے لیے خفیہ ادارے کو ہی بظاہر ذمہ دار ٹہرایا جا رہا ہے ۔اس پس منظر ميں حفیہ ادارے کی ناکامیوں اور ملک کے مستقبل کیا نظر آ رہا ہے، ان پہلؤوں پر مارک ٹلی نے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
140911_army_political_situation
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/09/140911_army_political_situation
فوج کا سیاسی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں: فوجی ترجمان
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔
فوج کے سہولت کاری کے کردار کو آرمی چیف نے ملک کے وسیع مفاد میں تسلیم کیا،آئی ایس پی آر راولپنڈی میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ’سیاسی طور پر جو بھی ہو رہا ہے اس کے پیچھے سکرپٹ رائٹر یا فوج کی بات کرنے پر افسوس ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ: ’یوم شہدا کی تقریر میں آرمی چیف نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے تسلسل میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں اس پر عملدرآمد کی بات بھی ہے۔‘ میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد بھی فوج کی طرف سے جمہوریت کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ انھوں نے پانچ کور کمانڈروں کی جانب سے الگ رائے کی خبر کی تردید کی اور اسے ایک مفروضہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ فوج میں سب لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ’جب وہ (آرمی چیف) ایک فیصلہ کرتے ہیں تو پوری فوج اسی فیصلے کے مطابق چلتی ہے۔‘ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا کہ پاک فوج کو جب کوئی بات کہنی ہوتی ہے تو اپنے ترجمان کے ذریعے کہہ دیتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہر بات کی وضاحت کرنا فوج کے لیے ضروری نہیں۔ ’جب کوئی اپنی ذاتی رائے دے تو آپ اس سے جا کر پوچھیں۔‘ ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا گیا کہ فوج نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ اسلام آباد کے دھرنوں میں طاقت کے استعمال سے گریز کرے تو کیا اس کی وجہ دھرنوں کو سپورٹ دینا تھی، اس کے جواب میں میجر جنرل عاصم باجوہ نے اس تاثر کو رد کیا اور کہا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ تشدد سے گریز کیا جائے کیونکہ اگر تشدد ہوگا تو اس کا سکیورٹی کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’فوج کو پانچ حساس عمارتوں کی سکیورٹی سونپی گئی تھی۔ فوج نے جن عمارتوں میں فرائض سرانجام دیے اس میں پی ٹی وی کی عمارت شامل نہیں تھی۔‘ ’جب فوج کو طلب کیا گیا تو فوج نے پی ٹی وی کی عمارت کو خالی کروایا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی صورتحال میں فوج کے سہولت کاری کے کردار کو آرمی چیف نے ملک کے وسیع مفاد میں تسلیم کیا۔ تاہم فوج کا شروع سے یہی موقف تھا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے اور فوج کو اس سے باہر رکھا جائے۔
150801_taliban_split_after_mulla_omer_death_sr
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/08/150801_taliban_split_after_mulla_omer_death_sr
’امن مذاکرات کا عمل دشمن کی پروپیگنڈا مہم ہے‘
افغان طالبان تحریک کے نئے امیر ملا اختر منصور نے ایک آڈیو پیغام میں متحد رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
بعض طالبان جنگجوؤں نے پاکستان کے قریبی حلقوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملا منصور کی سربراہی زبردستی اُن پر تھوپ رہے ہیں اس سے پہلے بی بی سی کی اطلاعات کے مطابق طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کے بعد تحریک کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کی تقرری طالبان سپریم کونسل کی مشاورت کے بغیر کی گئی ہے۔ 30 منٹ کے آڈیو پیغام میں ملا اختر منصور نے کہا ہے کہ جنگجوؤں کو متحد رہنا چاہیے کیونکہ’ہمارے درمیان تفریق صرف دشمنوں کو ہی خوش کر سکتی ہے۔‘ ’ملا اختر منصور باضابطہ امیر مقرر‘ شوریٰ میں اختلاف برقرار حقانی نیٹ ورک: سب سے زیادہ خطرناک سنیچر کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملا اختر منصور کا بیان صحافیوں کو پہنچایا ہے ۔ اس پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ’ طالبان اس وقت تک اپنا جہاد جاری رکھیں گے جب تک ملک میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی ہے۔ بعض طالبان جنگجوؤں نے پاکستان کے قریبی حلقوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملا منصور کی سربراہی زبردستی اُن پر تھوپ رہے ہیں کیونکہ ملا منصور امن مذاکرات کے حامی ہیں۔ تاہم ملا اختر منصور نے اپنے پیغام میں امن مذاکرات کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ’یہ دشمن کی پروپیگنڈا مہم ہے۔‘ ملا اختر منصور کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے حامی ہیں لیکن اب بظاہر امن مذاکرات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سے پہلے طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ملا اختر منصور کو باضابطہ طور پر تحریکِ طالبان کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے اس بارے میں جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ نئے امیر کی نیابت کے لیے دو طالبان رہنماؤں کا انتخاب بھی کیا گیا ہے جن میں سے ایک حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی اور دوسرے طالبان کے قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ہیں۔ تاہم افغانستان میں شدت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے قریبی ذرائع کے مطابق گروپ کے سربراہ جلال الدین حقانی ایک برس قبل انتقال کر گئے تھے۔ بی بی سی پشتو کے نامہ نگار عنایت اللہ یاسینی کے مطابق طالبان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انھیں (ملا اختر منصور کو) تمام طالبان کی جانب سے سربراہ مقرر نہیں کیا گیا ہے جو کہ شریعت کے قوانین کے خلاف ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان اپنے شوریٰ اجلاس میں نئے سربراہ کا انتخاب کرے گی۔ خیال رہے کہ طالبان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کسی نامعلوم مقام پر ہونے والے اجلاس میں طالبان کی رہبری شوریٰ کے اراکین اور جید علماء نے مشاورت کے بعد ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی ملا اختر منصور کو نیا امیر مقرر کیا ہے۔ بعض طالبان جنگجوؤں نے پاکستان کے قریبی حلقوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملا منصور کی سربراہی زبردستی اُن پر تھوپ رہے ہیں کیونکہ ملا منصور امن مذاکرات کے حامی ہیں۔ طالبان کا ایک گروہ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کو تحریک کا سربراہ مقرر کرنا چاہتا ہے۔ طالبان کے ترجمان ملا عبدالمنان نیازی نے کہا ہے کہ ’ملا منصور کو منتخب کرنے والوں نے قواعد کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔اسلامی قوانین کے تحت جب امیر فوت ہو جاتا ہے تو شوریٰ کا اجلاس بلوایا جاتا ہے اور پھر نیا امیر مقرر کیا جاتا ہے۔‘ ملا عمر نے 20 سال تک تحریک طالبان کی قیادت کی۔ جمعرات کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور ملا عمر کے خاندان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان کی موت کا اعلان کرتے ہوئے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ملا عمر کا انتقال کب اور کہاں ہوا تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ’ان کی صحت آخری دو ہفتے میں بہت بگڑ گئی تھی۔‘ بیان میں ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ ملا عمر کا انتقال پاکستان کے شہر کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب تحریک طالبان کی قیادت میں اختلافات منظر عام پر آئے ہیں اور ملا عمر کے بعد تنظیم کے لیے نئے امیر کا انتخاب مشکل ہو گیا ہے۔ تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے امیر کا انتخاب متفقہ طور پر ہوا ہے۔ تاہم اس موقعے پر شوریٰ کے تمام اراکین موجود نہیں تھے۔انھوں نے کہا کہ افغان طالبان نے اس سوال پر بھی واضح جواب نہیں دیا کہ ان کے مخالف دھڑوں کے ساتھ امیر کے چناؤ پر بات ہوئی یا نہیں۔ ملا منصور کے حامیوں نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ عسکری کمانڈر قیوم ذاکر ان کی تقرری کے خلاف ہیں۔ قیوم ذاکر گونتاناموبے جیل میں قید تھے اور افغان صوبے ہلمند میں اُن کا کنٹرول ہے۔ مستقبل میں وہ طالبان کی قیادت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
050509_democracy_middleeast_sq
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2005/05/050509_democracy_middleeast_sq
مشرق وسطٰی میں جمہوریت کا فروغ
بغداد سے بیروت اور قاہرہ سے یروشلم تک جمہوریت کی لہریں خطے کے مطلق العنان حکمرانوں کو پریشان کر رہی ہیں۔مشرق وسطٰی میں معاشرتی تحریکوں نےحکمرانوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔
مثلاً عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک مصرمیں صدر حسنی مبارک، جن کی مطلق العنانی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، ملک میں منصفانہ انتخابات کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں ان تبدیلیوں کی صحیح نوعیت کے بارے میں کسی قسم کے حتمی نتائج نکالنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ عرب دنیا میں سِول سوسائٹی یا معاشرتی گروپ مضبوط ہو رہے ہیں اور سیاسی بیداری کی ایک تڑپ پیدا ہو چکی ہے۔ مشرق وسطٰی میں سیاسی بیداری کے اس موڑ پر مغرب کی طرف سے جمہوریت پسندگروپوں کی نشوونما میں محتاط مدد ان کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔ مشرق وسطٰی میں بسنے والے عرب اور مسلمان مطلق العنان حکمرانوں سے زچ آ چکے ہیں۔ ان حکمرانوں نے وعدہ تو ہمیشہ جنت کا کِیا لیکن جب دینے کی باری آئی تو اپنے لوگوں کو سوائے خاک اور ظلم کے کچھ نہیں دیا۔ عرب دنیا میں جمہوری خیالات میں اضافہ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ اسلامی کلچر میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کا جمہوریت کے ساتھ ٹکراؤ ہے۔ باقی دنیا کے مسلمانوں کی طرح، عرب دنیا نے بھی سیاسی گھٹن اور دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیں مگر ان کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔مغربی دنیااور خاص طور پر امریکہ کا ’شکریہ‘ جنہوں ان ملکوں میں ہمیشہ طاقتور ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیا۔ مشرق وسطٰی میں مغرب کی جانب سے غیر جمہوری حکومتوں کی حمایت کے تاریخی اسباب بھی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ پر ان ممالک میں جن لوگوں نے حکومتیں سنبھالیں ان میں سے اکثر کا تعلق فوج یا سیکورٹی اداروں سے تھااور ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے اداروں کی فطرت میں ہی درجہ بندی، سختی اور نہ سننے کی عادت ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی ریاستوں نے ہمیشہ معاشرتی اداروں کی بجائے فوج اور سیکورٹی کے اداروں کو مضنوط کرنے پر توجہ دی کیونکہ ان کا اولین مقصد مقامی لوگوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ پچھلی صدی کے دوران پچاس اور ساٹھ کی دھائیوں میں مصر، شام، عراق، سوڈان اور لیبیا سمیت کئی عرب ملکوں میں جوان فوجی افسروں نے بغاوتیں کیں اور برطانیہ اور فرانسیسی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے والی حکومتیں کو اقتدار سے باھر کر دیا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سامراجی حکومتوں نے ان ممالک میں لوگوں کو آئینی اور جمہوری انداز حکومت سے کتنا دور رکھا ہوا تھا۔ گزشتہ عشرے کے دوران مشرق وسطٰی میں حکومتوں کے بگڑتے ہوئےمعاشی حالات کی وجہ سے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان ممالک میں غیر ملکی آقاؤوں کی پسندیدہ حکومتوں کے خاتمے سے سب سے زیادہ فائدہ اسلام پسند طاقتوں کو ہوا ہے۔ اسلام پسند ان ممالک میں سب سے زیادہ مقبول گروپ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی اس کامیابی کا راز اس بات میں ہے کہ انہوں نے عوام کی بروقت معاشی اور معاشرتی مدد کی۔ بجائے اس کے کہ حکمران لوگوں کے اصل مسائل حل کرتے اور ان کی ہمدردی لیتے، انہوں نے اسلامی شدت پسندی میں اضافہ کا بہانا بنا کر اپنے اپنے اقتدار کو مضبوط کیا۔ آخری عشرے کے برعکس اب ہم عرب دنیا میں سوشل یا معاشرتی تحریکوں کے ابتدائی خد وخال دیکھ سکتے ہیں۔یہ تحریکیں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔ چاہے ان تحریکوں کی نوعیت ملازمین کی یونین کی ہو یا طلبہ اور خواتین کے گروپ کی، نئی سوشل تحریکیں بہت مستعد ہیں اور اپنی مطلق العنان حکومتوں کو پر زور طریقے سے چیلنج کر رہی ہیں۔ اس کا کریڈٹ نئے ذرائع ابلاغ کو بھی جاتا ہے کیونکہ انہی ذرائع کی وجہ سے اب مشرق وسطٰی کی حکومتوں کے لیے خبروں کو چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نتیجتاً اب مسلمان دنیا میں انسانی حقوق کے احترام، شفاف حکومت اور پر امن طور پر تبدیلئ اقتدار جیسے امور پر اتفاق رائے ہوتا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ اخوان المسلمون جیسی طاقتور اور بین الاقوامی جماعت بھی ان باتوں کی قائل ہو چکی ہے۔ اب اخوان کا کہنا ہے کہ سیاسی مطلق العنانی کو روکنے اور امتِ مسلمہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کا بہترین ذریعہ جمہوریت ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ عرب اور مسلمان لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نظر میں جمہوریت اور مغرب کی سیاسی اجارہ داری، ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ان کی نظرمیں جمہوریت کے نام پرمغربی دنیا عرب ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر کے لوگوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے تا کہ وہ خود ان پر قبضہ کر سکے۔ گزشتہ عشرے کے دوران مسلمان دانشوروں نے لبرل ڈیموکریسی یا جمہوریت کے نظریہ کو عام فہم اسلامی نظریات کی روشنی میں سمجھانے کے لیے قابل قدر کوششیں کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان جمہوریت پسندوں نے جمہوریت اور جدیدیت کے نظریہ کو اس کے مغربی لبادے سے آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اس سمت میں خاصہ کام کر لیا ہے تاہم ابھی منزل بہت دور ہے۔ آج کے دور میں دو طرح کے رویے باہم متوازی چل رہے ہیں۔ایک ہے عیسائی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جذبات میں اضافہ اور دوسرا اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف جذبات میں اضافہ۔ صدر بُش کی پالیسیوں اور ارادوں کے بارے میں عرب اور دیگر اسلامی دنیامیں بہت شکوک پائے جاتے ہیں۔ ان کو صدر بُش کے ناقص جمہوری خیالات ماننےمیں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ جمہوریت جو راگ صدر بُش الاپ رہے ہیں اس کا مقصد امریکی عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ امریکہ عراق پر حملہ کرنے میں حق بجانب تھا۔ جمہوریت کو عام کرنے کے لیے بڑی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کی طرف سے اسلامی ممالک پر حملوں کو شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ مسلمان ملکوں میں جمہوریت پسند لوگوں کودونوں طرف سے پریشانی کا سامنا ہے۔ نہ تو وہ مغرب میں بڑھتے ہوئے خلاف اسلام جذبات کو پسند کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ عرب اور اسلامی دنیا کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کے خلاف جذبات آپے سے باہر نہ ہوجائیں۔ان لوگوں کے خیال میں اسلامی ملکوں میں حکومتوں پر جمہوریت کے لیے دباؤ امریکہ کی بجائے اقوام متحدہ کی طرف سے آنا چاہیے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت عام کرنے کے ساتھ ساتھ، مغرب میں اسلام کے بارے میں بڑھتے ہوئے خوف اور اسلامی دنیا میں امریکہ کے خلاف جذبات، دونوں کےاصل اسباب کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور اگلے مرحلے میں ان اسباب کو ختم کرنے کے لیے ایک باقاعدہ جدوجہد کی جانی چاہیے۔ اس وقت واشنگٹن سے جو پیغام آ رہا ہے اس میں کسی حد تک حالات کی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس پیغام میں امریکہ کی خارجہ پالیسی بہتر ہونے کے امکانات بھی دکھائی دے رہے ہیں اورمشرق وسطٰی میں معاشرتی بہتری کے آثار بھی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب واشنگٹن میں ایک نئی سوچ سامنے آرہی ہے جس میں اس بات کا اعتراف موجود ہے کہ مشرق وسطٰی میں جمہوری طاقتوں کی حمایت اور ڈکٹیٹر حکومتوں کی مخالفت ہی مسئلہ کا بہترین حل ہے۔ اب وقت ہی بتائےگا کہ یہ نئی سوچ خارجہ پالیسی بناتے وقت بھی سامنے رکھی جائےگی یاامریکی پالیسی ساز اپنے پرانے طور طریقوں پر ڈٹے رہیں گے اور عرب ڈکٹیٹروں کے ساتھ لین دین جاری رکھیں گے۔ امریکہ کے لیے یہ بہت بہتر ہوگا کہ وہ مشرق وسطٰی میں ترقی پسندانہ تحریکوں کی مدد کے لیے عالمی برادری کی مدد لے۔ عالمی برادری مل کر مشرق وسطٰی کے حکمرانوں پر سیاسی، معاشی اور سفارتی دباؤ ڈال کر انہیں اپنےعوام کی آواز سننے پر مجبور کر سکتی ہے۔اس قسم کی کسی بھی کوشش کے نتائج عراق پر امریکی حملہ سے، بہرحال بہتر ہوں گے۔ امریکہ کے لیے یہ بات جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ عمل کرنا، باتیں کرنے سے زیادہ موثر ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جمہوریت کے پنپنے کے لیے ضروری ہے کہ عرب اسرائیل تنازعہ کو حل کیا جائے۔ اس کے علاوہ علاقے میں غریب امیر کے فرق کو ختم کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ فرق شدت پسندی اور مسلح جدوجہد کا اصل سبب ہے۔ یہ اقدامات کرنے کے بعد ہی مشرق وسطٰی میں جمہوری تبدیلی لانے کے اس تاریخی موقع سےفائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
regional-44341151
https://www.bbc.com/urdu/regional-44341151
ایک ماہ میں دوسرا واقعہ: جیپ نے کشمیریوں کو روند ڈالا
انڈیا کے زیرانتطام کشمیر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر نیم فوجی ادارہ سی آر پی ایف کی ایک جیپ جب مظاہرین کے بیچ محصور ہوگئی تو جیپ تیز رفتاری کے ساتھ کئی نوجوانوں کو روندھتے ہوئے نکلی جس میں کئی زخمی ہوگئے۔
زخمی ہونے والوں میں 21 سالہ قیصر بٹ بھی تھے جو ہسپتال میں دم توڑ بیٹھے۔ اس واقعہ کے خلاف وادی بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بظاہر عوامی ردعمل کے خدشہ سے حکام نے سرینگر اور بڈگام اضلاع میں ناکہ بندی کردی ہے اور انٹرنیٹ کو معطل کیا گیا ہے۔ سرینگر کے فتح کدل علاقے کے رہنے والے قیصر بٹ کے والدین فوت ہوچکے ہیں اور اُن کی دو کم سن بہنیں ہیں۔ کئی سال سے یہ تینوں ڈل گیٹ علاقے میں اپنی ماسی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ واقع جمعہ کے روز نماز کے بعد اُس وقت رونما ہوا جب نوجوان جامع مسجد کے باہر 25 مئی کو مسجد کے اندر فورسز کی کارروائی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ جیپ کی زد میں آ کر زخمی ہونے والوں میں 21 سالہ قیصر بٹ بھی تھے جو ہسپتال میں دم توڑ بیٹھے گذشتہ ایک ماہ کے دوران یہ اپنی نوعیت کا دوسرا واقع ہے۔ اس سے قبل جامع مسجد کے قریبی علاقہ نورباغ میں بھی پولیس کی گاڑی نے ایک نوجوان کو روند ڈالا تھا۔ جامع مسجد کے باہر یہ واقع ایسے وقت ہوا جب جامع مسجد کی انتظامیہ اور پولیس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے مسجد کے اردگرد پولیس یا سیکورٹی فورسز کو تعینات نہیں کیا جانا تھا اور مسجد انتظامیہ کے رضاکار مظاہرین کو مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ پولیس کے اعلیٰ افسر امتیاز اسمعیل نے بتایا کہ 'مسجد کے باہر یا اندر کوئی اہلکار تعینات نہیں تھا۔ احتجاج پھر بھی ہوا لیکن ہم نے نہایت ضبط سے کام لیا۔' پولیس کا کہنا ہے کہ جس جیپ کی زد میں آکر نوجوان ہلاک ہوا ہے وہ راستہ بھٹک گئی تھی۔ تاہم سی آر پی ایف کے ترجمان سنجے شرما نے بتایا: 'ہماری گاڑی میں ایک سینیئر افسر حالات کا جائزہ لینے جارہے تھے۔ جونہی وہ جامع مسجد کے قریب پہنچے تو سینکڑوں مظاہرین نے گاڑی کو دبوچ لیا، انھوں نے افسر کو باہر نکال کر اسے مارنے کی کوشش کی۔' سابق وزیراعلی اور حزب مخالف کے رہنما عمرعبداللہ نے ٹوئٹر کے ذریعہ اس واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'سیز فائر میں بندوق نہیں تو جیپ استعمال کرو۔' انھوں نے وزیراعلی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'پہلے نوجوانوں کو جیپ سے باندھا جاتا تھا اور اب ان کو جیپ تلے روندا جاتا ہے۔ محبوبہ مفتی صاحبہ کیا آپ کا یہی نیا سکیورٹی ضابطہ ہے؟' قابل ذکر ہے کہ حکومت ہند نے یکم رمضان سے مسلح شدت پسندوں کے خلاف گذشتہ برس شروع کیے جانے والے 'آپریشن آل آوٹ' کو معطل کیا ہے، تاہم رمضان کے پہلے ہی دو ہفتوں میں قیصر بٹ سمیت دو عام شہری فورسز کی کاروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی کشمیرمیں مختلف جھڑپوں میں کم از کم دس شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا ہے۔ جمعہ کے روز بھی اننت ناگ اور سرینگر میں چار مقامات پر گرینیڈ حملے ہوئے جن میں سے دو کی ذمہ داری مسلح گروپ جیش محمد نے قبول کی۔ حکومت ہند کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے عید سے قبل کشمیر کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دورے کے دوران وہ سیزفائر میں توسیع کرنے کے امکان کا جائزہ لیں گے۔
050715_uk_investigation_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/07/050715_uk_investigation_as
بمبار کے ساتھیوں کی تلاش شروع
برطانیہ میں پولیس نے خبردار کیا ہے کہ لندن بم دھماکوں کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے سرمایہ کاری کرنے والوں کو ڈھونڈنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
سات جولائی کو لندن میں ہونے والے دھماکوں میں کم از کم چون افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ وارننگ اس وقت آئی ہے جب انسدادِ دہشت گردی کی تحقیقات کرنے والے حکام نے چوتھے مشتبہ خود کش بمبار کے متعلق مزید معلومات حاصل کی ہیں۔ ان کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ جمیئکا میں پیدا ہونے والے برطانوی شہری لِنڈسے جرمین لِنڈسے تھے اور وہ بکنگھم شائر کے رہنے والے تھے۔ لندن کے شمال میں الیسبری کے ایک علاقے میں پولیس ایک گھر کی تلاشی لے رہی ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ جرمین وہاں رہے تھے۔ پولیس ابھی بھی لیڈز میں رہنے والے ایک مشتبہ خود کش بمبار کے گھر کی تلاشی لے رہی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ ان کے گھر سے ملنے والے دھماکہ خیز مواد گھریلو ساخت کا تھا اور اس طرح کا مواد اس سے پہلے کیے گئے کئی القاعدہ حملوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس سلسلے پولیس ایک مصری کیمسٹری کے طالب علم کو تلاش کر رہی ہے جن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ لیڈز سے فرار ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ لندن دھماکوں میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد فوجی ساخت کا تھا۔ اس سے قبل لندن بم دھماکوں کی تحقیقات کرنے والے اداروں نے پہلی مرتبہ مبینہ خودکش حملہ آوروں میں سے ایک شخص کی تصویر جاری کی تھی۔ پولیس کے ترجمان نے اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو یقین ہے کہ اٹھائیس سالہ حسیب امیر حسین ٹیوسٹاک سکوائر میں بس میں ہونے والے دھماکے میں مارا گیا۔ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی نے دھماکے سے کچھ دیر قبل حسیب کو دیکھا ہو یا اسے اس سلسلے میں کوئی معلومات رکھتا ہو تو وہ پولیس سے رابطہ کرے۔ پولیس نے اٹھارہ سالہ حسیب حسین اور بائیس سالہ تنویر شہزاد کے ناموں کی تصدیق کی ہے۔ تتنویر کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے آلڈگیٹ ایسٹ پر ٹیوب میں حملہ کیا تھا۔ تیسرے بمبار تیس سالہ محمد صدیق خان کا تعلق مغربی یارکشائر کے شہر ڈیوسبری سے بتایا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ انہوں نے ایجویئر روڈ ٹرین پر اپنے آپ کو اڑایا تھا۔ تاہم ابھی تک پولیس کو موقع واردات سے اس کی فورینسک شہادت نہیں ملی ہے۔
160526_pak_fo_briefing_on_afghan_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/05/160526_pak_fo_briefing_on_afghan_sr
’امن مذاکرات کی بحالی کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے‘
خارجہ اُمور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل شدید متاثر ہوا ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران مشیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ یقین دہانی نہیں کروائی جاسکتی کہ افغان امن عمل کے لیے مذاکرات دوبارہ کب شروع ہوں گے۔ ٭ ’افغان طالبان کا پاکستان سے مجبوری کا رشتہ مزید مجروح‘ ٭ امریکہ کی طالبان کے نئے رہنما کو مذاکرات کی پیشکش اُنھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق ملا اختر منصور افغان عمل کے حامی تھے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ افغانستان میں مصالحت کے لیے چار ممالک کے گروپ کے اجلاس میں اُن کے حمایتی شریک ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ 18 مئی کو چارملکی مذاکرات میں طے پایا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سٹیک ہولڈروں کے ساتھ سیاسی بات چیت کو اہمیت دی جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن لانے کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں کیونکہ گذشتہ 15 سال سے اس علاقے میں جنگ جاری ہے لیکن امن ابھی تک قائم نہیں ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے افغانستان مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا اور خصوصاً ایسے حالات میں جب افغانستان میں ایک بڑی تعداد میں شدت پسند گروپ موجود ہیں۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ تمام اشارے ظاہر کر رہے ہیں کہ ملا اختر منصور ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم پاکستانی حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد کی جائے گی۔ 18مئی کو چارملکی مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سٹیک ہولڈروں کے ساتھ سیاسی بات چیت کو اہمیت دی جائے گی اُنھوں نے کہا کہ جب تک ڈی این اے کی رپورٹ نہیں آ جاتی، اس وقت تک ملا اختر منصور کی لاش کسی کے حوالے نہیں کی جائے گی۔ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ڈرون حملے پر امریکہ سے احتجاج کیا ہے اور اس معاملے کو اقوام متحدہ میں بھی اُٹھایا جائے گا۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی پاکستانی سلامتی کے لیے خطرہ ہے کیونکہ شدت پسند مہاجرین کے کیمپوں کو اپنی پناہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی اشد ضروری ہے۔ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد کی نگرانی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور افغانستان کی حکومت کو بھی اس عمل میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
world-53082120
https://www.bbc.com/urdu/world-53082120
پابلو ایسکوبار کے ساتھ مل کر منشیات فروشی کا گروہ قائم کرنے والے کارلوس لیہڈر امریکی جیل سے رہا
پابلو ایسکوبار کے ساتھ مل کر منشیات فروشی کا بدنامِ زمانہ گروہ قائم کرنے والا شخص امریکی جیل سے رہا ہونے کے بعد جرمنی پہنچ گیا ہے۔ یہ گروہ میداجین ڈرگ کارٹل کے نام سے جانا جاتا تھا۔
70 سالہ کارلوس لیہڈر کو، جو کولمبین نژاد جرمن شہری ہیں، بہاماس کے ایک نجی جزیرے میں منشیات کی سمگلنگ کا اڈا قائم کرنے کی وجہ سے شہرت ملی۔ کارلوس لیہڈر کو سنہ 1987 میں کولمبیا سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا جہاں عدالت نے انھیں عمر قید کے علاوہ 135 برس قید کی سزا سنائی۔ یہ بھی پڑھیے منشیات کی دنیا کے 'گاڈ فادر' ایل چاپو گوزمین مجرم قرار میکسیکو:منشیات فروشوں کے ساتھ گزرے آٹھ ماہ کی کہانی فضائی میزبانوں کے ذریعے منشیات کی سمگلنگ تاہم بعد میں جب وہ حکام سے تعاون پر راضی ہو گئے تو سزا میں کمی کر دی گئی۔ لیہڈر کی بیٹی مونیکا نے کولمبیا کے ایک جریدے سیمانا کو بتایا کہ لیہڈر کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور کیونکہ جرمنی میں ان کا کوئی رشتے دار نہیں ہے اس لیے وہاں ایک خیراتی ادارہ ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ لیہڈر نے بدعنوان مقامی اہکاروں کی مدد سے جزیرے ’نارمنز کے‘ میں منشیات کا اڈا قائم کیا تھا جہاں سے ایک طیارہ کے ذریعے منشیات امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے ساحلی علاقے میں پہنچائی جاتی تھیں۔ جزیرے سے فلوریڈا تک کا سفر 210 میل تھا۔ لیہڈر نے بدعنوان مقامی اہکاروں کی مدد سے جزیرے 'نارمنز کے' میں منشیات کا اڈا قائم کیا تھا جہاں سے ایک طیارہ کے ذریعے منشیات امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے ساحلی علاقے میں پہنچائی جاتی تھیں۔ انھیں کولمبیا میں ایک فارم سے گرفتار کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر گروہ کے سربراہ پابلو ایسکوبار نے حکام کو ان کے بارے میں اطلاع ی تھی۔ لیہڈر کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان دنوں کولمبیا میں قائم منشیات فروش گروہوں کے خلاف مہم کی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔ پانامہ کے رہنما مینول نوریگا کے خلاف گواہی دینے پر کارلوس لیہڈر کی سزا میں کمی کر دی گئی تھی۔ پانامہ کے رہنما مینول نوریگا کے میداجین کارٹل کے ساتھ قریبی روابط تھے اور وہ اس گروہ کو پانامہ کے راستے کوکین لے جانے کی اجازت دیتے تھے۔ گواہی دینے کے بعد لیہڈر کو فلوریڈا میں حکام کی جانب سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ انھیں اپنے والد کی وجہ سے جرمن شہریت دی گئی جو جرمنی سے کولمبیا ہجرت کر گئے تھے۔ جرمنی کے خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق لیہڈر اس سے پہلے کبھی جرمنی نہیں گئے تھے اور وہاں ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو گی کیونکہ وہ امریکہ میں اپنی سزا کاٹ چکے ہیں۔ ان کے وکیل آسکر ایروجاوی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ لیہڈر کولمبیا واپس نہیں جانا چاہتے اور جرمن حکام نے برلن میں رہائش کے سلسلے میں ان کی مدد کی ہے۔ پابلو ایسکوبار اور کارلوس لیہڈر کی شراکت میں ابھرنے والے منشیات کے گروہ میداجین کارٹل سے متعلق ٹی وی سیریز 'نارکوس' کو بھی بہت شہرت ملی لیہڈر کی بیٹی نے بتایا کہ وہ ایک عام مسافر طیارے کے ذریعے نیویارک سے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ پہنچے ہیں۔ ’میں نے انھیں 17 سال کے بعد دیکھا ہے۔ ان کی بیماری کے باوجود میں مطمئن ہوں کہ وہ خیریت سے ہیں۔‘ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق لیہڈر کے ہمراہ دو امریکی اہلکار تھے جنھوں نے انھیں جرمن حکام کے حوالے کیا۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 1970 اور 1980 کی دہائی میں امریکہ آنے والی کوکین کا 80 فیصد میداجین کارٹل نے سمگل کیا۔ پابلو ایسکوبار اور کارلوس لیہڈر کی شراکت میں ابھرنے والے منشیات کے گروہ میداجین کارٹل سے متعلق ٹی وی سیریز ’نارکوس‘ کو بھی بہت شہرت ملی۔ پابلو ایسکوبار سنہ 1993 میں کولمبیا میں ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے گئے تھے۔ حکام کی کوشش تھی کہ انھیں بھی گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا جائے لیکن انھوں نے آخری وقت تک مزاحمت کی۔ منشیات فروشی کی دنیا کا سب سے بڑا نام سمجھے جانے والی شخصیت پابلو اسکوبار کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کے شہر میداجین سے تھا۔ اسی مناسبت سے ان کے گروہ کو میداجین کارٹل کہا جاتا تھا۔ 27 سال قبل امریکہ کے ٹائم میگزین نے میداجین کو دنیا کا خطرناک ترین شہر قرار دیا تھا جہاں ڈرگ لارڈ شہذادوں کی طرح رہتے تھے اور ججوں اور پولیس اہلکاروں کا قتل عام سی بات تھی۔ اس شہر میں آئے دن سکیورٹی فورسز کے چھاپے پڑتے تھے اور اکثر عام شہری لاپتہ ہو جاتے تھے جن کا بعد میں کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔
150807_us_death_penalty_avoided_sa
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150807_us_death_penalty_avoided_sa
امریکہ: 12 افراد کے قاتل کو عمر قید کی سزا
امریکی ریاست کولاراڈو میں ایک عدالت نے 2012 میں ایک سینما میں بارہ افراد کو قتل کرنے کے مجرم جیمز ہومز کو سزائے موت سنانے کے بجائے عمر قید کی دے دی ہے۔
جیوری میں اتفاقِ رائے نہ پیدا ہونے کی وجہ سے جیمز ہومز کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوگئی جیمز ہومز عمر قید کی سزا کاٹیں گے اور ان کے پرول پر رہا ہونے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ 27 سالہ جیمز ہومز نیورو سائنس کے گریجوئیٹ طالب علم تھے۔ ملزم کے وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ واقعے کے دوران ان کے موکل کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ عدالت نے وکیلِ استغاثہ کے موقف کے ساتھ اتفاق کیا کہ چاہے ملزم ہومز کا ذہنی توازن اس وقت درست نہیں تھا تاہم وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم جیوری سزائے موت کے حوالے سے متفق نہیں تھی۔ جیوری میں اتفاقِ رائے نہ پیدا ہونے کی وجہ سے جیمز ہومز کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوگئی۔ توقع ہے یہ سزا باضابطہ طور پر ان کی آئندہ سنائی پر دی جائے گی۔ جیوری میں نو خواتین اور تین مرد شامل تھے۔ سزا سنائے جانے کے موقعے پر عدالت میں مجرم ہومز کے والدین موجود تھے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان کی والدہ اپنے شوہر کے کندھے پر سر رکھے سسکیاں لیتی رہیں۔ اس موقعے پر ایشلی موسر بھی موجود تھیں جن کی چھ سالہ بیٹی اس حملے میں ہلاک ہوگئیں اور وہ خود معذور ہوگئیں۔ سزا سنائے جانے پر ان کے چہرے پر بھی شدید دکھ واضح تھا۔ جیمز ہومز نے اپنے مقدمے کے دوران عدالت کے سامنے خود بیان دینے یا کسی قسم کی بھی ملامت ظاہر کرنے سے اجتناب کیا۔ کولوراڈو کے شہر ارورا میں ہوئے اس واقعے کے حوالے سے جولائی میں ہومز پر قتل، اقدامِ قتل اور دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے حوالے سے 165 فردِ جرم عائد کی گئی تھیں۔ اس حملے کے متاثرین کے ورثا کی رائے بظاہر اس بات پر منقسم ہے کہ ہومز کو سزائے موت دی جانی چاہیے یا نہیں۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے ساتھ منسلک اپیلوں کے طویل عمل سے وہ گزرنا نہیں چاہتے اور اس معاملہ کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔
060924_tihar_jail_rza
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/09/060924_tihar_jail_rza
’خواتین قیدی اپنے حقوق سے باخبر ہوں‘
انڈیا کی جیلوں میں قید عورتوں اور ان کے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیئے سپریم کورٹ نے کچھ ماہ قبل کچھ رہنما اصول جاری کیئے تھے لیکن اب بھی بعض جیلوں میں قید خواتین کو ان اصولوں سے واقفیت نہیں ہے۔
اس صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے اور خواتین قیدیوں میں بیداری پیدا کرنے کے لئے دلی کی تہاڑ جیل میں ایک خصوصی پرگرام منعقد کیا گیا تاکہ خواتین قیدیوں کو سپریم کورٹ کے اصولوں کی روشنی میں اپنے حقوق کا علم ہو سکے۔ اس پروگرام میں خواتین قیدیوں کے لیۓ سب سے خاص بات یہ تھی کہ پروگرام میں حصہ لینے کے لۓ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بڑے ججز بھی شرکت کر رہے تھے۔شاید بعض خواتین کو سپریم کورٹ کے مقرر کردہ اصولوں کی نسب زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ انہیں وہ جج نظر آجائيں جنہوں نے انکی زندگی کا فیصلہ سنایا ہے۔ ہرکیشکی نامی ایک خاتون قیدی سے جب اس خصوصی پروگرام کے بارے میں پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا: ’مجھے نہیں پتہ یہ سب کس لئے ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں تو سپریٹنڈنٹ میڈم کو ہی پتہ ہوگا۔ ہم تو صرف دیکھنے آ گئے ہیں۔‘ جبکہ چندروتی نامی ایک دوسری قیدی کا کہنا تھا: ’میں گزشتہ 18 برس سے یہاں رہ رہی ہوں لیکن اس طرح کا کوئی پروگرام منعقد نہیں کیا گیا۔ آج یہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بڑے بڑے ججز آ رہے ہیں شاید اسی لئے اتنی سجاوٹ کی گئی ہے۔‘ خواتین قیدیوں کو اصولوں سے آگاہی دینے کے لیئے فیصلہ کیا گیا کہ تہاڑ جیل میں قید چن خواتین کو متخب کر کے ایک چھوٹا سا ڈرارمہ پیش کیا جائے۔ ڈرامے میں دکھایا گیا کہ جب ایک خاتون کو پولس گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیتی ہے تو اس کے گھروالے، خاص طور سے اس کے بچے، کن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے وہاں موجود ديگر قیدی سپریم کورٹ کے ان اصولوں کے بارے میں اس خاتون کو بتاتے ہیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے جج اریجت پساریتھ نے سپریم کورٹ کے ان نئے اصولوں کے مقاصد کے بارے میں بتایا: ’عدالت ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے جنہوں نے جیل میں جنم لیا ہے۔اور عدالت یہ نہیں چاہتی تھی کہ والدہ کی وجہ سے بچوں کا مستقبل متاثر ہو جائے۔‘ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے تہاڑ جیل میں قید چندراوتی اور ہرکیشوری کے لۓ ایسا پروگرام پہلی بار ہو رہا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ اس سے قبل یہاں کبھی اس قسم کی سجاوٹ نہیں ہوئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اس قسم کے پروگرام سےکہیں نہ کہیں ان قیدیوں میں وہ انسان ابھر کر سامنے آتا ہے جو جیل کی دیواروں ميں قید رہتا ہے۔ قیدیوں کے لئے اس قسم کے پروگرام عام نہیں ہیں اور اپنے آپ کو انسان کی طرح پیش کرنےکے مواقع انہيں کم ہی ملتے ہیں۔
070323_wazirstan_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/03/070323_wazirstan_sen
وزیرستان میں 130 غیر ملکی ہلاک
پاکستان کے صوبہ سرحد کے گورنر علی محمد جان اورکزئی نے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں جاری جھڑپوں میں ایک سو تیس 130 غیر ملکیوں کی ہلاکت اور تقریباً 62 کے گرفتار ہونے کی تصدیق کی ہے۔
جمعہ کوگورنر ہاؤس پشاور میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ قبائل جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں اس لیے انہوں نے اب خود غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں گزشتہ پانچ دنوں سے قبائل کے ساتھ جاری لڑائی میں ایک سو تیس ازبک جنگجو مارے جاچکے ہیں جب کہ پچیس سے تیس مقامی لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائل نے باسٹھ کے قریب غیر ملکیوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ گورنر نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی کہ غیر ملکیوں کو نکالنے کےلیے قبائلیوں کو حکومت نے اُکسایا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قبائل اب روز روز کی لڑائی سے تنگ آچکے ہیں جب کہ ان جھڑپوں سے نہ صرف امن وامان کے مسائل پیدا ہوئے بلکہ علاقے میں تمام ترقیاتی کام بھی رک گئے ہیں جس کی وجہ سے اب قبائلیوں کو خود یہ احساس ہوگیا ہے کہ غیر ملکیوں کو ان کے علاقوں سے واپس چلے جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تقریناً چار سو سے پانچ سو کے قریب غیر ملکی اب بھی وزیرستان میں موجود ہیں جن میں ازبکستان، چیچنیا اور عرب ممالک کے باشندے شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ازبک جنگجوؤں کے کمانڈر طاہر یلدیشف پہلے علاقے میں موجود تھے لیکن اب نہیں ہیں۔
151117_sikh_man_doctored_pic_viral_mb
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/11/151117_sikh_man_doctored_pic_viral_mb
مشتبہ حملہ آور کے طور پر سکھ پیروکار کی تصویر وائرل
سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ایک غلطی کو درست کرنے کی کوشش میں ہے جو پیرس حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔
ویریندر اپنی تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیے جانے کی غلطی کو سدھارنے میں لگے ہیں ان کی ایک سیلفی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اسے پیرس کے ایک مشتبہ حملہ آور کے طور پر پیش کیا گيا تھا۔ بہت سے لوگ جو ویریندر جبّل کی اس تصویر کا استعمال کر رہے تھے انھیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اس کے ساتھ ڈیجٹل طور چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ تصویر کا استعمال کرنے والوں میں صحافی بھی شامل تھے۔ ویریندر کی اصل سیلفی باتھ روم کی ہے جس میں انھوں نے پگڑی پہن رکھی ہے جو سکھ مذہب کا اہم حصہ ہے۔ اب ویریندر اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی ڈیجیٹل طور پر چھیڑ چھاڑ کی جانے والی تصویر میں انھوں نے ایک جیکٹ پہن رکھی ہے جو کہ کسی دھماکہ خیز مادے کی پیٹی لگتی ہے اور ہاتھ میں جو آئی پیڈ ہے اسے کسی مذہبی کتاب سے مشابہ بنا دیا گيا ہے۔ اس میں ایک سیکسی کھلونے جیسے چیز بھی شامل کر دی گئی ہے۔ ویریندر کا کہنا ہے کہ یہ گیمرگیٹ سے منسلک کسی شخص کی شرارت ہے ویریندر نے لوگوں سے دریافت کیا ہے کہ کیا ان کی اس تصویر کا ابھی بھی استعمال ہو رہا ہے جس میں ان کی شباہت کسی ’دہشت گرد کی سی بنائی گئی ہے۔ خیال رہے کہ دنیا بھر میں فرانس میں جمعے کو ہونے والے حملے کے پس پشت حملہ آوروں کی تلاش زور و شور سے جاری ہے۔ ان حملوں میں 129 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بیلجیئم کے شہر برسلز سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صالح عبدالسلام اہم مشتبہ حملہ آور ہیں۔ ویریندر کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد نے ان کی تصویر دیکھی ہے جو انھیں غلط طور پر اسلامی تنظیموں سے منسلک کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’خراب صورت حال‘ سے دوچار ہیں اور انھیں خدشہ کہ اس تصویر کی وجہ سے کہیں انھیں ’نقصان نہ پہنچے۔‘
140411_colbert_takes_over_from_letterman_sa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/04/140411_colbert_takes_over_from_letterman_sa
’ڈیوڈ لیٹرمین کی جگہ سٹیون کولبیئر لیں گے‘
امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کا کہنا ہے کہ آئندہ سال معروف ٹی وی شو میزبان ڈیوڈ لیٹرمین کی ریٹائرمنٹ پر ان کی جگہ سٹیون کولبیئر لیں گے۔
کولبیئر اپنے شو پر ایک تنزیہ کردار ادا کرتے ہیں جس میں وہ دائیں بازو کے تجزیہ کاروں کا مذاق اڑاتے ہیں 49 سالہ کولبیئر کامیڈی سنٹرل چینل کے مقبول پروگرام ’دی کولبیئر رپورٹ‘ کی میزبانی کرتے ہیں۔ 66 سال لیٹرمین نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ 21 سال سی بی ایس اور 11 سال این بی سی کے ساتھ لیٹ نائٹ شوز کرنے کے بعد اب وہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ کولبیئر اپنے شو پر ایک تنزیہ کردار ادا کرتے ہیں جس میں وہ دائیں بازو کے تجزیہ کاروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سی بی ایس کی صدر لیزلی مونیز نے اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ سٹیون کولبیئر ٹی وی کی دنیا میں انتہائی معروف اور متحرم جگہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈیوڈ لیٹرمین کی کامیابیاں اور وراثت ہمارے لیے باعثِ فخر ہیں اور آج کے اعلان سے ہم نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ سی بی ایس میں ہم اس سلسلے کو جاری رکھ پائیں گے۔ سٹیون کولبیئر کا کامیڈی سنٹرل پر پروگرام انتہائی مقبول اور ایمی ایوارڈ یافتہ ہے۔ ان کی تنقید کے انداز پر اکثر قدامت پسندوں اور ریپبلکن پارٹی کے اراکین تحفظات رہتے ہیں۔ حال ہی میں سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر انھیں ایک ایسا مذاق کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جسے بہت سے لوگوں نے ایشیائی امریکی شہریوں کی تضحیک کے طور پر دیکھا۔ تاہم اس میں انھوں نے امریکی فٹبال کی ٹیم واشنگٹن ریڈ سکنز کے مالک پر تنز کیا تھا۔ سی بی ایس کے اعلان کے بارے میں کولبیئر نے کہا کہ ’ڈیوڈ لیٹرمین کے شو پر مہمان بن کر آنا ہی میرے کیریئر کا بہترین موقعہ تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ میں نے کھبی خواب میں بھی سوچا نہ تھا کہ میں ڈیوڈ لیٹرمین کے نقشِ قدم پر چلوں گا مگر لیٹ نائٹ شوز میں ہر کوئی ڈیوڈ لیٹرمین کی ہی رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
pakistan-54430704
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54430704
عاصمہ شیرازی کا کالم: غداری کے تمغوں کی لوٹ سیل
ہاتھ سے پھسلتی ریت اور انگلیوں سے کھسکتی ریشم کی ڈور محض خواہشوں سے نہیں رکتیں۔ وقت اور حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اُسی تیزی سے روک لینے کی خواہش بھی جنم لے رہی ہے۔
ڈور جس ہاتھ میں ہے وہ بھی بے یقینی کا شکار اور جس ہاتھ جا رہی ہے وہ بھی پر اعتماد نہیں۔ حاصل حصول کی اس جنگ میں ڈور حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا اب کی بار سرکتی ڈور کا سرا بچ پائے گا؟ سرگوشیوں میں ہونے والی سب باتیں کھلے عام ہو رہی ہیں۔ صرف دو تقریروں نے کئی بند ہونٹوں پر لگی مہر کو کھول دیا ہے۔ بند کمروں میں ہونے والی گفتگو چوک چوراہوں کی زینت بن چکی ہے۔ ’قومی سلامتی‘ سے منسوب تمام امور پر دل و جان سے بحث سمیٹی جا رہی ہے۔ کبھی فاطمہ جناح کے حوالے اور کبھی شیخ مجیب کی باتیں۔ ابھی ایک تقریر ہے کل کو جگہ جگہ جلسے ہوں گے۔ چھوٹی بڑی مگر کروڑوں ووٹوں کی حامل جماعتیں کیا کیا نہ کہیں گی۔ کس کس کو گرفتار کیا جائے گا، غداری کے اور کتنے تمغے بانٹے جائیں گے؟ عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے ایسا پہلی بار ہوا ہے: عاصمہ شیرازی کا کالم آقا گوئبلز کے پیروکار: عاصمہ شیرازی کا کالم عاصمہ شیرازی کا کالم: گونگا معاشرہ بہری ریاست ہائبرڈ جمہوریت اور صدارتی نظام: عاصمہ شیرازی کا کالم ماضی میں گھومنے والی ٹائم مشین کو کس جگہ لا کر روک دیا جائے گا؟ ساٹھ کی دہائی میں جب قائداعظم کی بہن آئین شکن ایوب خان کے دور میں غداری کا تمغہ وصول کر رہی تھیں یا ستر کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمن پر جن کے انتقال اقتدار کے مسئلے کو غداری کا نام دے دیا گیا تھا۔ کبھی اسی کی دہائی میں منتخب خاتون وزیراعظم سلامتی کے لیے خطرہ اور کبھی نواز شریف انڈیا کا ایجنٹ۔۔ اب ایک بار پھر غداری کے سرٹیفیکٹ، اخباروں کے کالے ہوتے صفحوں اور ٹی وی کی جگمگ جگمگ سکرینوں کو روشن نہیں بلکہ سیاہ کرنے کو تیار ہیں۔ تاریخ کے ساتھ مکالمے میں فتح آئینے کی ہے۔ جو کل ایک تقریر ہوئی اب جگہ جگہ بات ہو گی۔ یہ کیوں ہوا؟ نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہو گیا؟ اب کیا ہو گا؟ ان سوالوں کی بازگشت ہے۔ نواز شریف اور اُن کے چالیس ساتھیوں پر غداری کے مقدمے دائر ہو گئے۔ پنجاب سے طویل عرصے کے بعد جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو آرڈیننس کے ذریعے وفاق اپنے کنٹرول میں لا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات سے متعلق بے چینی ہے، یوں لگتا ہے کہ کس نے سالوں ڈھکے جھگڑے ٹوکرے کے نیچے سے ایک ایک کر کے کھول دیے ہیں۔ مسائل کو ہوا دینے اور حل سے درگزر کی پالیسی ناقابل فہم بھی ہے اور ناقابل قبول بھی۔ نتائج سے بے پرواہ اقدامات ایک ہاتھ اور خوف سے بے خبر فیصلے دوسرے ہاتھ میں ہیں۔ تصادم کی پالیسی سے حاصل حصول کیا؟ سب کو سب معلوم مگر ڈائیلاگ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آخر کسی نے تو غداری کے مقدمے کا آئیڈیا دیا ہو گا جس سے ملک کے وزیراعظم نے بھی خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔ جس ملک کا چیف ایگزیکٹو معاملات سے لاتعلق ہو جائے وہاں مسائل کون حل کرے گا؟ اُدھر نواز شریف نے دو جمع دو پالیسی اختیار کی ہے، اب نہیں تو کبھی نہیں فارمولا۔۔۔ جیتے تو جیتے ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ حزب اختلاف حکومت کو نہ ہی حریف سمجھتی ہیں اور نہ ہی مد مقابل۔۔۔ پھر کس سے بات ہو گی اور کیسے بات ہو گی؟ اپوزیشن اور حکومت کے سٹیک پہ کچھ ہو یا نہ ہو طاقت کے اصل مراکز کے سٹیک پر بہت کچھ ہے۔ سرکتی ڈور کے ایک حصے کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے جگہ تو دینا ہو گی۔
140806_peshawar_sikh_firing_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/08/140806_peshawar_sikh_firing_sa
پشاور: بازار میں فائرنگ، ایک سکھ دکاندار ہلاک
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نامعلوم افراد نے ایک مقامی بازار میں سکھ افراد پر فائرنگ کی جس میں پولیس کے مطابق ایک سکھ ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے یکے بعد دیگرے تین دکانوں پر فائرنگ کی یہ واقعہ ہشت نگری کے علاقے میں شباب مارکیٹ میں پیش آیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ اس مارکیٹ میں زیادہ تر دکانیں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہیں۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے یکے بعد دیگرے تین دکانوں پر فائرنگ کی اور پھر جائے وقوع سے فرار ہوگئے۔ پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ جگموہن سنگھ اس حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ دو بھائی فرم سنگھ اور منمیت سنگھ اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ جگموہن سنگھ پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ اپنی دکان کے باہر کھڑے تھے۔ فائرنگ کی آوآم سن کر دوسری دکان میں موجود ان کے ساتھی باہر آئے اور ان پر بھی فائرنگ کی گئی۔ اس واقعے کے بعد سکھ برادری کے افراد نے جی ٹی روڈ پر احتجاج کیا۔ سکھ برادری نے مختلف موقعوں پر تشدد کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انھوں نے حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا سکھ برادری پر خیبر پختونخوا میں یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ اس سال جنوری میں شبقدر کے مقام پر اور مارچ کے مہینے میں چارسدہ میں تنگی کے مقام پر تین سکھ شہریوں کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے دو سکھ افراد کو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب درابن روڈ سے اغوا کر لیا گیا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ بازیاب ہو کر واپس گھروں کو پہنچے۔ پشاور میں مختلف مقامات پر سکھ برادری کی دکانیں ہیں اور اکثر ان کی دکانیں مارکیٹوں میں ہیں جہاں یہ مشترکہ طور پر کاروبار کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی نتیجے میں بڑی تعداد میں سکھ برداری کے افراد نقل مکانی کر کے پشاور پہنچے تھے ان میں اورکزئی اور خیبر ایجنسی کے سکھوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ یاد رہے چند ماہ پہلے سکھ برادری کے چند افراد نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا اور پارلیمنٹ کی عمارت میں گھس گئے تھے۔ یہ احتجاج سکھوں کی کتاب کی بے حرمتی کے خلاف کیا گیا تھا۔ سکھ برادی نے مختلف موقوں پر تشدد کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انھوں نے حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔
150929_nums_objections_senate_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/09/150929_nums_objections_senate_tk
نمز کے فوج کے زیر انتظام ہونے پر اعتراضات
پیر کو سینیٹ کی دفاع سے متعلق قائمہ کمیٹی نے حزبِ اختلاف کے اعتراضات کے باوجود فوج کے زیرِ انتظام چلنے والی نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے بل کے مسودے کی منظوری دی۔
پیپلز پارٹی کے سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ ہمارے لیے بدقسمتی کی بات ہو گی کہ اگر ہم سول اداروں کے اختیارات فوجی حکام کے حوالے کرتے چلے جائیں۔ نمز پر حاجی عدیل سے بات چیت ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے زیرِ نگراں نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے سینٹر اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ سویلین اداروں کا کردار تشویش ناک حد تک کم کر دیا گیا ہے۔ اس سال جولائی میں قومی اسمبلی نے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کا بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ نیشنل یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز یعنی نمز فوج کے زیرِ انتظام ہوگی۔ قومی اسمبلی میں بل پیش کرتے وقت وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ کے فوج کے تمام میڈیکل کالج اس یونی ورسٹی کی نگرانی میں رہیں گے اور یہ پاکستان کے دیگر فوجی کالجوں کے معیارِ تعلیم کو بھی یکساں کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی میڈیکل کور ملک بھر میں معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے اور بل کے ذریعے اس تعلیم کو قومی سطح پر مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تاہم، جب یہ بل سینٹ کی دفاع سے متعلق قائمہ کمیٹی میں آ پہنچا، تو کمیٹی کے رکن اور پیپلز پارٹی کے سینٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ ’یہ ہمارے لیے بدقسمتی کی بات ہوگی کہ اگر ہم سول اداروں کو تباہ ہونے سے نہ روک سکیں اور ان اداروں کے اختیارات فوجی حکام کے حوالے کرتے چلے جائیں۔‘ بل کے مطابق، نمز ایک خود مختار یونیورسٹی ہوگی جس کے چانسلر صدرِ پاکستان ہوں گے اور پرو چانسلر فوج کے سربراہ۔ جمعیتِ علماء اسلامی فضل الرحمان کے سینیٹر مولانا عطاالرحمان نے بھی بل کے خلاف اختلافی نوٹ دیا۔ انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بل پر کئی بار کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہوئی اور منظور ہونے سے قبل، حزبِ اختلاف کے سوالات کے ٹھیک جوابات نہیں ملے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل یعنی پی ایم ڈی سی اس یونی ورسٹی کی نگرانی کیوں نہیں کرے گی۔ ’جب ہم نے پوچھا کہ کیا پی ایم ڈی سی اس کی نگرانی کرے گا تو صحیح طرح سے دفاع نہیں کر سکے اور اسی پر ہم نے اختلافی نوٹ لکھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ فرحت اللہ بابر نے بل کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا اور کمیٹی میں ان کی رائے کو بہت اہمیت دی گئی، اس حد تک کہا گیا کہ بل میں بعد میں ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ ’ہمیں کہا گیا کہ اسے ابھی منظور کر لیتے ہیں، بعد میں اعتراضات کو ترمیم کے ذریعے بل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو بل میں کیوں نہیں۔‘ تاہم، اسلام آباد کی شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ساتھ رجسٹر ہونے کے لیے میڈیکل کالجوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کو پھر پوائنٹ دیے جاتے ہیں جس کی بنیاد پر ڈاکٹروں کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ’اس عمل کی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ڈی سی کے ساتھ ڈاکٹروں کے اندراج سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس کالج سے ڈگری ملی ہے، کیا وہ اس معیار پر اتر رہے ہیں جس پر پی ایم ڈی سی نے نظر رکھی ہوئی ہے؟ کیا وہی کتابیں، سہولیات اور وہی اساتذہ ہیں جن کو پی ایم ڈی سی نے منظور کیا؟‘ انھوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کے بغیر ڈاکٹر نہ پاکستان میں اور نہ ہی باہر جا کر کام کر سکتے ہیں۔’ہم ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکٹر جو پی ایم ڈی سی کے ساتھ رجسٹر ہوئے ہیں، اگر نہ ہوتے تو ہمیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اور اگر ہم ملک سے باہر کام کرنا چاہیں، تو سب سے پہلے یہی دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہم کونسل کے ساتھ رجسٹر ہوئے ہیں یا نہیں۔‘ ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی سی کو نظر انداز کرنا، موجودہ اداروں کو کمزور کرنا ہوگا۔’پاکستان میں انفرادی یونیورسٹی اور لوگوں کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ہمیں موجودہ اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘ فوج کے زیرِ انتظام یونی ورسٹی کو قائم کرنے سے پہلے اس بل کی سینٹ میں منظوری ہوگی جس کے بعد یہ کابینہ منظور ہونے کے لیے جائےگا۔
040301_india_shia_iftikhar
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/03/040301_india_shia_iftikhar
’ہمیں صرف کربلا میں دفن کریں‘
بھارت میں بہت سے شیعہ مسلمان اپنے عزیزوں کی میتیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں تاکہ انہیں عراق میں کربلا میں آخری تدفین کے لئے لے جایا جا سکے۔
عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور مذہبی آزادیوں کی بحالی کے بعد اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کے یہ خاندان اپنے عزیزوں کی آخری خواہش پوری کر سکیں گے۔ لکھنؤ صدیوں سے شیعہ مسلمانوں کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ لکھنو کے ایران، عراق اور وسطی ایشیا کے دوسرے علاقوں سے گہرے مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔ لکھنؤ کے قبرستان کے بارے میں، جو عیش باغ کے پل کے قریب واقع ہے، ایک واقعہ مشہور ہے جس سے لکھنؤ کے عراق کی بستیوں نجف شریف اور کربلا سے گہرے تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔ اس قبرستان کے ایک رکھوالے محمد خلیل کے مطابق ایک میت پچھلے بارہ سال سے قبرستان میں حفاظتی تحویل میں ہے تاکہ آخری تدفین کے لئے اسے کربلا لے جایا جا سکے۔ محمد خلیل کے مطابق اصل میں اس کے پاس کربلا لے جانے کے لئے دو میتیں حفاظتی تحویل میں تھیں لیکن ان میں سے ایک کو اسکے ورثا نے عراق لے جانے میں ناکامی کے بعد لکھنؤ ہی میں دفن کر دیا۔ پچھلے بارہ سال سے قبرستان میں امانتاً دفن دوسری میت ممتاز شیعہ عالم مولانا حمیدالحسن کی والدہ افتخار فاطمہ کی ہے۔ مولانا حمیدالحسن کے مطابق ان کی والدہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں وفات کے بعد نجف اشرف، کربلا میں دفن کیا جائے۔ مولانا کے نانا اور نانی کو بھی ایسی ہی وصیت کے مطابق عراق لے جا کر دفنایا گیا تھا۔ مولانا کے مطابق ان کی والدہ کی تدفین میں تاخیر کی وجہ عراق کے نا موافق حالات ہیں۔ مولانا نےمزید بتایا کہ وہ اپنےایک عزیز کی میت کو تدفین کے لئے انیس سو چون میں عراق لے کر گئے تھے۔ عراق کے مقامی حکام تدفین کی اجازت کچھ خاص ضوابط کے پورا کرنے پر دیتے ہیں۔ کربلا میں تدفین کے لئے جگہ کی کمی کے مسئلے کے حل کے لئے زیرِ زمین تہہ در تہہ قبرستان بنا دیۓ گئے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ایسی کتنی میتیں کربلا میں تدفین کی منتظر ہیں۔ محمد خلیل اور قبرستان کی منتظمہ کمیٹی کے دوسرے ارکان کے مطابق لکھنؤ کے چند دوسرے قبرستانوں میں بھی عراق لے جانے کے لئےکچھ میتیں حفاظتی تحویل میں ہیں۔ لکنھؤ کے علاوہ رامپور اور بارہ بنکی کے کے علاقوں میں بھی ایسی ہی روایت پائی جاتی ہے۔ ایسی میتوں کو محفوظ کرنے کے لئے انہیں کچھ کیمیائی اجزاء لگائے جاتے ہیں جس کے بعد انہیں لوہے کے بکسوں میں قبرستان میں علیحدہ مقام پر امانت کے طور پردفن کر دیا جاتا ہے۔ پہلے ان میتوں کو سمندری جہازوں کے ذریعے عراق لے جایا جاتا تھا۔ اب ہوائی جہازوں نے ان کی ترسیل آسان بنا دی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے عراق میں غیر معمولی حالات کی وجہ سے ان میتوں کو عراق لے جانا تقریباً نا ممکن ہو گیا تھا۔ ایک بزرگ مصطفیٰ علی نے کہا ’ ہم سب کو کربلا میں دفن ہونے کی تمنا ہے لیکن چونکہ یہ بہت مشکل ہے اسلئے ہم اپنے عزیزوں کو یہیں پر دفن کر دیتے ہیں‘۔ شیعہ مسلمانوں کی مذہبی عقیدت کی تسکین کے لئے مقامی قبرستانوں میں حضرت امام حسین اور دیگر ہستیوں کے روضئہ ہائے مبارک کے چھوٹے ماڈل تعمیر کر دیئے جاتے ہیں- ایک مسلمان مذہبی لیڈر کے مطابق ایک مسلمان کی اصل تمنا نجف شریف اور کربلا میں شہادت ہے۔ مالی استطاعت رکھنے والے کربلا میں اپنی تدفین کی وصیت کرتے ہیں۔ مولانا حمیدالحسن کے مطابق اسلامی قانون اور شریعت کے تحت ایسی روایت کی اجازت ہے۔ شیعہ مسلمانوں کااعتقاد ہے کہ کربلا میں دفن ہونے سے وہ روز ِجزاء کے سوال و جواب سے بچ جائیں گے اور سیدھے جنت میں داخل ہوں گے۔ ہر مذہب میں ایسی رسومات ملتی ہیں کہ لوگ اپنی تدفین یا آخری رسومات اہم مذہبی مقامات پر کروانا چاہتے ہیں۔ بھارت میں ہندو یا تو گنگا کے کنارے بنارس میں مرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا پھر اپنی آخری رسومات وہاں کروانا چاہتے ہیں۔
140710_india_budget_defense_zz
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/07/140710_india_budget_defense_zz
بی جے پی کا پہلا بجٹ، دفاع کے لیے زیادہ فنڈز
بھارت میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی نئی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے دفاعی شعبے میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے اور فوج کے لیے دو لاکھ 29 ہزار کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گذشتہ مالی سال میں دفاع کے لیے رقم تقریباً دو لاکھ تین ہزار کروڑ روپے تھی اس سے پہلے کانگریس کی قیادت والی حکومت نے مارچ میں اپنا عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے مسلح افواج کے لیے دو لاکھ 24 ہزار کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ اس رقم میں پانچ ہزار کروڑ روپے یا دو فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ گذشتہ مالی سال میں یہ رقم تقریباً دو لاکھ تین ہزار کروڑ روپے تھی۔ وزیر خزانہ کے پاس وزارت دفاع کا قلمدان بھی ہے اور انھوں نے بجٹ میں ملک کے اندر ہی دفاعی ساز و سامان کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے دفاعی شعبے میں انتالیس فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا اعلان کیا۔ بھارت اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہے اور اپنی مسلح افواج کو جدید ترین ہتھیار اور فوجی ساز و سامان مہیا کرنے کے لیے مستقبل قریب میں اربوں ڈالر کے سودوں کو حتمی شکل دینے کی تیاری میں ہے۔ ارون جیٹلی نے اپنی تقریباً سوا دو گھنٹے کی تقریر میں کہا کہ ان کی حکومت کا مقصد اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے جو گذشتہ دو برسوں میں پانچ فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کے لیے یہ کام آسان نہیں ہوگا کیونکہ بجٹ میں انھوں نے جو تجاویز پیش کی ہیں ان سے مالی وسائل کی قلت صاف نظر آ رہی ہے۔ ارون جیٹلی نے بھی کہا کہ’ہم اپنی گنجائش سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتے‘ اور یہ کہ وہ مالی خسارے کو سابقہ حکومت کی تعین کردہ حد کے اندر ہی رکھیں گے۔ لیکن انھوں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کئی اصلاحات کا اعلان کیا۔دفاع کے علاوہ انشورنس کے شعبے میں بھی انتالیس فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی ہے اور غیر ملکی کمپنیوں کو یقین دلایا گیا ہےکہ ٹیکس کے نظام میں ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ ارون جیٹلی نے انفرادی ٹیکس کے زمرنے میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان نہیں کیا لیکن اب ان لوگوں کو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا جن کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ روپے تک ہے۔اس سے پہلے یہ حد دو لاکھ روپے تھی۔ اسی طرح بچت کو فروغ دینے کے لیے کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ جو لوگ ٹیکس بچانا چاہتے ہیں وہ اب سرکاری بانڈز اور انشورنس وغیرہ میں ایک لاکھ کے بجائے ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کرا سکیں گے اور اس رقم پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا ہوگا۔ بھارت اس وقت اربوں ڈالر کے سودوں کو حتمی شکل دینے کی تیاری میں ہے بجٹ میں جو چیزیں مہنگی ہوئی ہیں ان میں سگریٹ سرفہرست ہے جس پر ٹیکس میں بھاری اضافہ کیا گیا ہے لیکن صابن، تیل، ٹی وی موبائل، کمپیوٹر بنانے میں استمعال ہونے والے پرزے اور کپڑے وغیر پر ڈیوٹی کم کی گئی ہے جس کی وجہ سے چیزیں سستی ہو جائیں گی۔ سڑکوں کی تعمیر کے لیے37 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کفایتی مکانوں اور گنگا کی صفائی کے لیے بھی دو بڑی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دیو قامت مجسمے کی تعمیر کے لیے دو سو کروڑ روپے دیے گیے ہیں۔ یہ وزیراعظم نریندر مودی کا پسندیدہ منصوبہ ہے۔ مسٹر جیٹلی نے کہا کہ ملک تین چار سال میں دوبارہ سات سے آٹھ فیصد کی رفتار سے ترقی کرے گا اور اس حدف کو حاصل کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال بجٹ خسارہ چار اعشایہ ایک فیصد ہے جسے آئندہ دو برسوں میں تین اعشاریہ چھ فیصد تک لایا جائے گا۔ اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کی صدر سونیاگاندھی نے کہا کہ اس میں سوشل سیکٹر کے لیے کچھ نہیں ہے اور ارون جیٹلی نے زیادہ تر کانگریس کی سابقہ حکومت کی سکیموں کی نقل کی ہے۔
140110_south_sudan_bentiu_army_tk
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/01/140110_south_sudan_bentiu_army_tk
جنوبی سوڈان: فوج کی بنتیو کی جانب پیش قدمی
جنوبی سوڈان میں فوج باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں بینتیو اور بور میں پیش قدمی کر رہی ہے جبکہ بینتیو میں باغیوں نے اپنے دفاع کو مضبوط کیا ہے۔
اس کشیدگی کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے جنوبی سوڈان کی فوج کے ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومتی فورسز بنیتو کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ جنوبی سوڈان: باغیوں کا اہم شہر پر حملہ جنوبی سوڈان: ہزاروں باغیوں کا ’بور شہر کی جانب مارچ‘ فوج بور سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور تشدد کے باعث سینکڑوں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 15 دسمبر سے جاری تشدد اور لڑائی میں کم سےکم ایک ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ فائر بندی کے لیے علاقائی سطح پر کی جانے والی کوشش معطل ہو چکی ہیں۔ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے افراد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کے مسلح افراد نقل مکانی کرنے والے افراد پر گولی چلا رہے ہیں، انہوں نے پورے کے پورے دیہات نذر آتش کر دیے ہیں اور فصلیں لوٹ لی ہیں۔ دریا میں تیر کر جان بچانے والے ایک گلہ بان گیبریئل بول نے بتایا کے وہ خوش قسمتی سے بچ گیا ہے۔ ’ہم تیر رہے تھے اور حملہ آوروں نے کنارے سے مشین گن سے گولیاں چلائیں، وہ مسلسل گولیاں چلاتے رہے۔‘ ’گولیاں پانی سے ٹکرا رہی تھیں لیکن ہم رک نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ہمیں مار دیتے۔‘ جنوبی سوڈان کی حکومت کا یہ آپریشن باغی فوجیوں سے علاقے کا کنٹرول واپس لینے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اس خطے میں تیل کے اہم ذخائر موجود ہیں۔ بی بی سی نامہ نگار ایلسٹر لیتہیڈ کا کہنا ہے کہ بہت سے افراد بنتیو میں اقوام متحدہ کے اڈّے میں پناہ لے رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کے 11 مشتبہ باغیوں کے گرفتار کرنے کے بعد حکومت اور باغی فورسز کے درمیان مذاکرات بظاہر ناکام ہوگئے ہیں۔ اس کشیدگی کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے اور اس میں دنکا اور نوئر برادری کے درمیان نسل پرستانہ فسادات بھی ہوئے ہیں۔ کئی ممالک کی حکومتوں نے جنوبی سوڈان سے اپنے شہریوں کو نکال لیا ہے اور بہت سے جنوبی سوڈان کے شہری ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ان کے نامہ نگار جب بور سے 25 کلومیٹر دور منکامن قصبے میں پہنچے تو وہاں کے رہائشییوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر رہی تھی یہ معاملہ دسمبر 2013 کے وسط میں شروع ہوا جب صدر سلوا کیئر نے اپنے نائب ریئک مچار پر بغاوت کرنے کا الزام لگایا۔ ریئک مچار الزامات کی تردید کرتے ہیں اور انہوں نے گیارہ مشتبہ باغیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جوبا کے مقامی صحافی مادنگ نگور نے بی بی سی کو بتایا کہ مذاکراتکاروں کی ناکامی میں ایک اہم مسئلہ 11 مشتبہ باغیوں کی رہائی کا مسئلہ ہے۔ یونیٹی ریاست میں تیل کے اہم ذخائر موجود ہیں اور جنوبی سوڈان کے لیے یہ ریاست زرِ مبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کشیدگی کے آغاز سے تیل کی پیداوار میں تقریباً 20 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ بنتیو اور جونگلی ریاست کا دارالحکومت بور، دونوں ہی باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ فوج کے ترجمان فلیپ اوگوئر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بور کے گرد لڑائی جاری ہے اور حکومتی فوج اسے واپس لینے کے لیے آپریشن کر رہی ہے۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ان کے نامہ نگار جب بور سے 25 کلومیٹر دور منکامن قصبے میں پہنچے تو وہاں کے رہائشییوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر رہی تھی۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ وہاں پر شدید گولہ باری کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ آئی سی آر سی کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان میں انسانی فلاح کی صورتحال انتہائی ناخوشگوار ہے۔